اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے،

شرم و حیا ایک ایسی خوبی ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق ہوتا ہے، حیوان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے حیا کی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے وہ ضرورت اس کا جسمانی تقاضا ہو یا نفسانی، ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے شرم و حیا میں سے کسی بھی چیز کا لحاظ نہیں ہوتا،لیکن انسان جانوروں سے مختلف ہے انسان کو اللہ نے عقل اور شعور عطا کیا ہے، اور اس عقل و شعور کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حیا سے کام لے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

اَلْاِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَةً وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ اَلْاِيْمَانِ. (صحیح البخاری، رقم9)

”ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

 اسی طرح ایک حدیث میں ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

مَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ(صحیح) (الأدب المفرد 601)

’’حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتی ہے۔‘‘

 ایک اور روایت میں ہے :

اَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ(صحیح مسلم، رقم37)

”حیا تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘

یعنی حیا انسان کو نیکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، حیا انسان کے لیے نیکی کے دروازے کھولتی ہے، اور بے حیائی انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو ‘‘تو حیا ایک آڑ اوررکاوٹ ہے برائی کی طرف جانے سے رکنے کے لیے، اگر وہ اٹھ جاتی ہے رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے تو انسان ہر طرح کی برائیوں میں کھلے عام ملوث ہوسکتا ہے

حیا کا دائرہ بہت وسیع ہے، شرم و حیا صرف جنسی معاملات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے سارے اعمال چال ڈھال، گفتگو، رہن سہن، لباس، دوسروں کے ساتھ معاملات وغیرہ میں کسی نہ کسی طرح کام کر رہی ہوتی ہے؛

1 مثلاً گفتگو ہی کو دیکھ لیجیے، جو شخص گفتگو میں حیا سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زبان سے برے الفاظ نکالتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتا، لڑائی جھگڑے کی بات ہو یا گالی گلوچ ہو دوسرے کے ساتھ بد تمیزی کرنا ہو بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا یہ سب وہی کر سکتا ہے جس کے اندر حیا نہیں، حیادار انسان کبھی بھی کوئی منکر ،ناپسندیدہ بات زبان سے نہیں نکال سکتا، وہ دوسروں کا دل توڑنے سے بھی حیا کرے گا، دوسروں کے ساتھ بدتمیزی برتنے سے بھی حیا کرے گا،

 اس کے برعکس بے حیا انسان کے جی میں جو چاہے آئے، وہ نہیں دیکھتا کہ وہ کسی چھوٹے سے معاملہ کررہا ہے یا کسی بڑے سے، جب حیا وشرم نہیں ہے تو پھر جو جی چاہے کرو، اسی طرح اگر نگاہ میں حیا نہیں تو انسان پروا نہیں کرے گا حلال دیکھ رہا ہے یا حرام دیکھ رہا ہے، حیا نہیں تو نہیں پروا ہوگی حرام کھا رہا ہے یا حلال، حیا ہوگی تو وہ اس کو حرام کی طرف جانے سے روک دے گی۔

2اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی حیا محسوس کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ (الاحزاب53)

”ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو،یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘

یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔

3 حیا کا تعلق انسان کے لباس سے بھی ہے، عریانی حیا کی ضد ہے، اپنا ستر بلاوجہ کھولنا اور ایسا لباس پہننا جس سے حیا کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں، یہ ناپسندیدہ چیزوں میں سے ہے، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف : 26)

’’اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور تقوٰی کا لباس زیادہ بہتر ہے یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔‘‘

‏یعنی لباس کا مقصد جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانا ہے اور اگر انسان لباس پہن کر بھی ننگا رہتا ہے، تو پھر حیا کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں۔

وریشا…. اور لباس پہننے میں زینت ہے۔

یعنی عریانی میں زینت نہیں ہے لباس “پہننے” میں زینت ہے، اور تقویٰ کا لباس یعنی ایسا لباس جس کو پہن کر انسان کے اندر خدا خوفی نظر آئے زیادہ بہتر ہے بنسبت اسکے کہ انسان ایسا لباس پہنے کہ جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ اس شخص کو نہ اللہ کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی بندوں سے شرماتا ہے۔

نوٹ : ایک بات یہاں پر سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ دین سیکھنے کے معاملے میں بلاوجہ حیا سے کام نہیں لینا چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا : ’’انصارِ مدینہ کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کیونکہ ان کیحیادین کی گہری سمجھ حاصل کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔‘‘(صحیح مسلم: 776، باب استحباب استعمال المغتسلة)

 نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کی خواتین کی تعریف فرمائی کے انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں ہیں کہ دین حاصل کرنے سے ان کو حیا مانع نہیں ہوتی یعنی دین کا جب کوئی مسئلہ یابات آتی ہے تو وہ ہر طرح کا سوال کرلیتی ہیں کیونکہ دین ہماری صرف ظاہری زندگی سے متعلق نہیں، ہماری چھپی ہوئی زندگی کے متعلق بھی ہے، ان معاملات میں بھی ہمیں صحیح معلومات ہونی چاہئیں ورنہ ہم دین کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔

مثلا:اپنی نجی زندگی کے بارے میں بلاوجہ گفتگو کرنا درست نہیں بلا وجہ ایسی گفتگو مجلسوں میں کرنا معیوب اور حیا کے خلاف ہے، لیکن جس طرح انسان جسمانی بیماری کی صورت میں اپنے جسم کے بعض حصوں کو ایک مہربان معالج کے سامنے علاج کی غرض سے کھول سکتا ہے اسی طرح بعض اوقات انسان اپنی روحانی زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہو تو کسی جاننے والے یا کسی اہل علم کے پاس جاکر کوئی ایسا سوال کیا جا سکتا ہے جو عام زندگی میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، دین کو جاننے کے معاملے میں، دین پر عمل کرنے کے معاملے میں شرم و حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، جہاں پوچھنے کی ضرورت ہو وہاں انسان بہت مہذب طریقے سے مناسب الفاظ میں ہر طرح کا سوال پوچھ لے اس میں غیر ضروری حیا سے کام نہ لے یا یہ سوچ کر کہ اگر میں نے پوچھا تو لوگ مجھے چھوٹا سمجھیں گے کہ اس کو یہ بھی نہیں پتہ، یہ رویہ مناسب نہیں، لہٰذا جہاں بھی کوئی الجھن ہو وہاں پر سوال کر کے اس الجھن کو سلجھا لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں ملی مہلت کو جو صرف ایک بار ملی ہے سوچ بچار میں ضائع کردیں، اور جب اللہ کے ہاں پہنچیں تو عمل کی مہلت ختم ہو جائے اور پھر پلٹنے کا کوئی وقت بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس دنیامیں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے جس بنیادی علم کی ضرورت ہے اس کو بغیر کسی جھجھک اور شرم و حیا کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے