کسی بھی دین کو الہامی دین کے طور پر مان لینے کے دو ہی دلائل تسلیم کیے گئے ہیں۔ایک یہ کہ اسے حسی اور عقلی پیمانے پر ناپا جائے اور دوسرے نقلی روایات اپنے تاریخی تسلسل کے ساتھ اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کر تی ہوں کہ یہ مذکورہ دین اللہ تعالیٰ ہی کے احکام و فرامین اور حق و صداقت پر مبنی ہے۔اگر یہ دونوں اہم امور انسان کی فکر و عمل سے خارج ہیں تو وہ کوئی اور دین تو ہو سکتا ہے دین الٰہی نہیں کہلاسکتا۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ عز و جل نے قلب سلیم اور فطرت صحیحہ سے نوازا تھا۔ اگرچہ آپ کی پوری زندگی ابتلاء و آزمائش سے عبارت ہے۔آپ کی حیات طیبہ میں آزما ئیشوں و امتحانات کا سورج نصف النہار پر رہا۔قرآن حکیم میں اپنے اس بندے پر ڈالی ہوئی آزمائشوں کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے: وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ (البقرہ (124) (اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو وہ ان پر پورے اترے)ازروئے قرآن حکیم اس حیات دنیوی کی غرض و غایت ہی امتحان ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ

(الملک، آیت:02)

(ا للہ) وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمھیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کر نے والا ہے )اس امر کی اہمیت کے پیش نظر ایک اور مقام پر یوں ارشاد ربانی ہوا:

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعاً بَصِیْراً

(سورہ الدہر، آیت:2)

( ہم نے انسان کو (مرد اور عورت) کے ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اسے آزمائیں، پھر اس کو سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا)

اس کائنات میں تمام بنی نوع آدم کی فوزو فلاح اور نجات اخروی، رب ذوالجلال کی حقیقی معرفت اور اس کی رضا و خوشنودی میں مضمر ہے۔ چنانچہ اللہ نے انسان کو سماعت و بصارت، عقل و فہم اور فراست و دانش مندی کی استعداد و صلاحیتوں سے بہرہ ور فرما کر ابتلاء و آزمائش کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔تاکہ کھرا اور کھوٹا سامنے آجائے۔ایک طرف معبود حقیقی اور انسان کے پالن ہار کی محبت و پرستش، اطاعت و فرماں برداری کے پر زور تقاضے ہیں تو دوسری جانب اس دنیا کی زیب و زینت، مرغوبات نفس، عیش و طرب کے دلآویز لمحات اور طائوس رباب کی سحر انگیزیاں ہیں، اب اس رسہ کشی کا زور کس طرف زیادہ ہوتا ہے، بس یہی انسان کا اصل امتحان ہے،

بقول داغ دہلوی :

روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

ادھر آتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ جاتا ہے

انسان کی تخلیقی کیفیت کے بارے میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، مجوسی اور نصرانی بنادیتے ہیں‘‘ (بخاری ، حدیث 1385، ابو داؤد حدیث 4714)چنانچہ یہ فطرت سلیمہ ہی ہے جس کی صحت کا امتحان مطلوب ہے۔اور انسان کی عقل و خرد اس امتحان کے لیے اس کی رہنمائی کر تی ہے۔ اور انہیں دو زاویوں سے انسان کے حوصلہ و ہمت، اس کی عزیمت اور سیرت و کردار کی پختگی کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ؑ کوسب سے پہلے انہیں دو پہلوؤں کی کٹھن آزمائشوں سے گزارا گیا۔

سیدنا ابراہیم ؑنے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ پوری طرح شرک و کفر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔بت پرستی ،ستارہ پرستی اور مظاہر پرستی کا ایک ایسا فسوں طاری تھا کہ جس کے زیر اثر ان کی قوم حق و باطل کی تمیز ہی کھو بیٹھی تھی۔ ملک میں ایک مطلق العنان اور مشرک بادشاہ مسلط تھا، جو خدائی کا دعویدار تھا۔گویا عقائد کا شرک اور اس کا عملی ظہور دونوںعروج پر تھے۔فسق و فجور کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں نور توحید کا کوئی ٹمٹماتا ہوا دیا بھی تا حد نگاہ نظر نہ آتا تھا۔

کفر و الحاد اور تقلید آباء کے اس ماحول میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی طرف سے ودیعت کی ہوئی حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت کی روشنی میں ایک نعرۂ رندانہ لگایا کہ:

إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (الانعام 79)

(بلا شبہ میں نے اپنا چہرہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں نہیں ہوں)اس نعرہ کی گونج اس معبود باطل کے ایوانوں سے ٹکرائی تو ایک ہلچل سی مچ گئی، کفرو الحاد کے اس بحر مردار میں جوار بھاٹا آگیا۔جبکہ دوسری طرف اللہ نے اس جرأت اظہار پر اپنے بندے کی یوں پذیر ائی فرمائی:

إِذْ جَاء رَبَّہُ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الصافات 84)

( جب آیا وہ(ابراہیم ؑعلیہ السلام) اپنے رب کے پاس ایک قلب سلیم کے ساتھ)گویا فراست و دانش مندی کے اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہوگئی۔لیکن ’ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘ کے مصداق ابراہیم ؑ کے لیے صبر و ثبات، استقامت و عزیمت، صعوبتیں، کٹھنائیاںاور غیر متزلزل ایمان و یقین کا کڑا امتحان سامنے تھا۔ذرا دل کی آنکھیں کھول کر دیکھئے، ایک طرف یک و تنہا انسان ہے،دنیاوی اعتبار سے قطعی درماندہ اور تہی دست،کوئی دست و بازو نہیں، نہ کوئی تسلی دینے والا،نہ ہمدردی کے دو بول بولنے والا ، نہ چارہ گر نہ کوئی ہمسفر۔اس نقش فریادی کا دوسرا رخ دیکھئے ، اُدھر گمراہیوں اور شرک کی کثافتوں میں لتھڑا ہوا پورا معاشرہ اور ایک مضبوط نظام قائم ہے، جس کی جڑیں اس بھٹکی ہوئی قوم کی فکر و نظر میں پیوستہ ہیں۔اس باطل نظام کو اکھاڑ پھینکنا ایک فرد واحد کے لیے ایک مفروضے سوا اور کچھ نہ تھا۔

لیکن قوت ایمانی، مصمم ارادہ ، جذبہ جنوں اور ذوق یقیں دل میں اجاگر ہو توفولادی زنجیریں بھی کٹ جاتی ہیں، راہ میں آئے ہوئے پہاڑ بھی خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتے ہیں۔ابراہیم ؑ عزم و ہمت کے ہتھیاروں سے ہر رکاوٹ کو تہہ تیخ کر تے، صبر و ثبات کی گھاٹیاں عبور کرتے   ، حوصلہ، تحمل، ایثار و قربانیوں سے کوہِ گراں کو پاش پاش کرتے خراماں خراماں اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔محبت الٰہی سے سرشار اس سودائی نے اپنی مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کر کے پوری قوم کو غیض و غضب کی آگ میں جھلسا دیا۔چنانچہ اس ذلت آمیز شکست پر پورے نظام باطل کے ٹھکیداروں اور بگڑے ہوئے معاشرے کی مجلس شوریٰ نے’ کھسیانی بلی کھمبا نوچے ‘کے مصداق اللہ کے خلیل ابراہیم ؑعلیہ السلام کو آگ کے ایک بڑے الاؤ میں پھینک کر اور انہیں جلا کر بھسم کر نے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ زندگی سے محروم کر دینے والی اس لرزہ خیز خبر سے بھی اس بطل جلیل کے پائے استقامت میں کوئی لرزش واقع نہیں ہوئی ۔محبت الٰہی کی اس بلند پر وازی اور جذب کی اس کیفیت پر عقل بھی حیران و ششدر رہ گئی۔

بے   خطر   کود   پڑا آتش نمرود   میں   عشق

عقل   ہے   محو ِ تماشائے   لب   بام   ابھی

آگ سے دہکتے ہوئے اس الاؤ میں ابرہیم علیہ السلام ؑ کو پھینک دیا گیا۔ صداقت آمیز محبت اور عرفان الٰہی کی انوار و برکات کی بارش نے آگ سے دہکتے الاؤ کو ٹھنڈک اور سلامتی والاسبزہ زار بنادیا۔بدن کو راحت و انبساط کی نرمی نے حیات نو عطا کی توابراہیم علیہ السلام ؑ نے اپنے منعم حقیقی سے اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھنے کا اظہار کیا۔

وَقَالَ إِنِّیْ ذَاہِبٌ إِلَی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ (الصافات 99)

(میں اپنے ر ب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں، یقیناً وہ میری رہنمائی کرے گا)اور اس طرح سیدنا ابراہیم ؑ نے گھر، خاندان، دوست، اور اپنے آباؤ اجداد کی سر زمین کوخیر باد کہا اور اپنی مادر وطن کو اشک بار آنکھوں سے دیکھتے اور شیشۂ دل کو ریزہ ریزہ کرتے ہوئے، ایک ان دیکھی منزل اور انجانی راہوں پر چل پڑے۔اس راہ بے نشاں میں اگر کوئی سہارا تھا اسی منعم حقیقی ، معبود برحق اور خالق ارض و سماں تھا جس کے لیے ساری دنیا سے منہ موڑ لیا تھاکہ ’’ حکمراں ہے ایک وہی، باقی بتانِ آزری‘‘۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام ؑ کی ہجرت کی یہ درد آگیں داستان طویل مسافرت اور مہا جرت سے رقم ہوئی ہے۔شام،مصر، شرق اردن اور حجاز آپ کی دعوت توحید کا مرکز و محور تھے، بس ایک ہی سودا قلب و ذہن میں سمایا ہوا تھا کہ توحید کا یہ کلمہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جائے۔ اس راہ میں صحرا بہ صحرا خاک چھانتے چھانتے یہ بھی احساس نہ ہوا کہ پیرانہ سالی آکاس بیل کی طرح ان کے وجود پر ظاہر ہونے لگی ہے۔اس حقیقت کا ادراک ہوا تو صرف ایک ہی فکر نے ذہن میں انگڑائی لی کہ میری زندگی کا سورج غروب ہونے کے بعد اس مشن کو، توحید فکری اور عملی کو کون آگے بڑھائے گا۔’’نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‘‘۔اپنی زندگی کی محدودیت اور اپنے مشن کی لامحدودیت کا شعوری احساس ذہن کے افق پر مزید گہرا ہوا تو بے اختیار یہ دعا نوک زباں پر آگئی۔

’’رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصَّالِحِیْن‘‘

َ (اے میرے رب!مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما) (الصافات 100)

شاید وہ ساعت شرف قبولیت کی تھی، ستاسی برس کی عمر میں اللہ نے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا کیا، جسے خود اللہ نے غلامٌ حلیمٌ قرار دیا۔لیکن جن کے رتبے بلند ہوں ان پر آزمائیشیںبھی بہت بھاری ڈالی جاتی ہیں۔بیٹا بچپن گزار کر جوانی کی سرحد میں داخل ہوا اور اس قابل ہوا کہ باپ کے مشن میں ان کی جہد مسلسل میں ان کا دست و بازو بنے کہ ایک اور قول ثقیل نازل ہوا ’’اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر دو‘‘۔مگر جس کی پوری زندگی آزمائشوں کی چکیوں میں پستے ہوئے گزری ہو، اس حکم پر بھلا اس کے پائے ثبات میں کوئی لغزش کیسے آ سکتی تھی،جو صبر و ہمت کا کوہِ گراں ہو اسے بھلا کون ہلا سکتا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب بیٹا بھی انتہائی سعادت مند اور باپ کی طرح ہی صبر و استقامت کا پیکر تھا۔سعادت اور اطاعت شعار بیٹے نے حکم الٰہی کو سن کر باپ سے : ’’ابا جان ! کر گزریئے! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔ اور پھر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ بوڑھے باپ نے جواں سال اکلوتے بیٹے کو زمین پر لٹایا اور بے دریغ گلے پر چھری پھیر دی۔ اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور بیٹے کی جگہ مینڈھا ذبح ہوگیا۔اللہ کی منشا بیٹے کی جان لینا نہیں بلکہ بوڑھے باپ کا امتحان لینا مقصود تھا اور یہ شاید آخری اور کڑا امتحان تھا، یہ کیسا انوکھا امتحان تھا؟ جس میں ممتحن کو ہی بس کر ناپڑی، بیٹے کی جگہ مینڈھے کی قربانی بطور فدیہ قبول ہوئی اور اس کی یادگار کے طور پر وقوع قیامت تک جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ دراز کر دیا گیا۔یہ ہے حب الٰہی اور اطاعت و فرمانبرداری کی ایک چشم کشا تصویر اور ایمان و یقین کی گہرائی کے ساتھ تصدیق با لقلب کی صحیح تعبیر۔

یہ شہادت   گہہ   الفت   میں   قدم   رکھنا   ہے

لوگ   آساں   سمجھتے   ہیں  مسلماں     ہونا

سورۃ الحج میں دو بنیادی ارکا ن کا ذکر ہے۔ ایک اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی کر نا اور دوسرے بیت اللہ کا طواف، جبکہ ان دو ارکان میں بھی زیادہ زور قربانی پر ہے۔ زید بن ارقم ایک حدیث روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔(مسند احمد، ابن ماجہ)

گویا جانوروں کی یہ قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت مسلمہ کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم رضا کی، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس کی اصل غرض وغائت یہ بیان کی گئی ہے :

لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ کَذَلِکَ سَخَّرَہَا لَلُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ

’’اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ (الحج 37)

سنت ابراہیمی کی پیروی میں حصول تقویٰ کے لیے قربانی کا اہم فریضہ بھی شامل ہے۔جسے مسلمان ہر سال ماہ ذو الحجہ میں مناتے ہیں۔

ہر سال لاکھوں مَرد و خواتین حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور کروڑوں جانورسنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں ۔جس سے ابراہیم علیہ السلام ؑ کے سعادت مند اور مطیع و فرمانبردار بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ شَعائر اسلام پر عمل کروانے سے مقصود امت کے فکر و عمل میں وہ جذبہ بیدار کر نا ہوتا ہے جس سے ان کے اندر اللہ کی بے ریا اطاعت، پر خلوص عبادت اور اللہ کے احکام و فرامین کو بے چوں چرا بجا لانے کی تحریک پیدا ہو۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دور میں ہر عبادت اور ہر سنت ایک رسم بن کر رہ گئی ہے۔قربانی جیسے مقدس فریضے کو بھی امت کے سواد اعظم نے محض ایک رسم بنا کر رکھ دیا ہے۔اس میں بھی اسوۂ ابراہیمی کی پیروی کرنے کے بجائے ہم اپنی ناک اونچی رکھنے کی زیادہ فکر کر تے ہیں کہ ایسا نہ ہو ہمارا ہمسایہ ہم سے زیادہ مہنگا اور جاذ ب نظر جانورلیا آئے۔ اب تو موبائل فون اور ویڈیو کیمرے میں اپنے جانور کی عکس بندی کی جاتی ہے۔تاکہ جس نے قربانی سے پہلے ہمارا جانور نہ دیکھا ہو وہ بھی تصویر میں تو دیکھ ہی لے۔اپنے اس طرز عمل سے ہم خود اپنی عبادات کو ریا کاری اور تصنع کا لبادہ اڑھادیتے ہیں۔ عبادات اور ادائیگی سنت میں اخلاص ،خدا ترسی،اور حصول تقویٰ کے بر خلاف دنیاوی برتری اور نام و نمود ہمارا مطمح نظر بن گیا ہے۔

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے

وہ دل ، وہ آرزو باقی نہیں ہے

نماز   و   روزہ   و قربانی   و   حج

یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے

آج ہمارا معاشرہ اسلام اور جاہلیت کے مخلوط تصور سے آلودہ ہو چکا ہے، اگر ایک طرف اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیبی روایات کی کچھ روشن اور تابناک جھلکیاں ہیں تو دوسری جانب بر صغیر کے تاریخی اثرات اور مغربی ثقافت کی کثافتیں بھی بکثرت موجود ہیں۔بہت سے

شعائر دین اور خیر کے علی الرغم بڑے پیمانے پر ہمارا معاشرہ غٖفلت اور بے راہ روی کا شکار ہے۔توحید خالص کو انسانی زندگیوں میں لانے کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلا م نے جس ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا وہ امت مسلمہ کے ہر فرد کے لیے بہترین زاد راہ ہے۔آج اسلامی معاشروں میں فکری اور عملی انتشار، بے راہ روی،دین و دنیا کی تفریق،سنت سے اعراض اور بدعت و خرافات کا روز افزوں پھیلاؤ،ایک معبود برحق کو چھوڑ کر سینکڑوں دیگر معبودان باطل کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی امت مسلمہ کے زوال کا اصل سبب ہے۔اللہ نے نوع انساں کے لیے کتابوں کا نزول اور ان کی تشریح و توضیح کے لیے انبیاء و رسل کا سلسلہ قائم ہی اسی لیے کیا ہے کہ اس کا ہر بندہ زندگی گزارنے کے لیے روشنی کے ان میناروں سے ہدایت کی راہیں آسانی سے تلاش کر سکے۔یہ روشنی کی شمع فروزاں ہی ہمارے لیے رشد و ہدایت کا اصل ذریعہ ہیں ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے امام الانبیاء کے خطاب سے نوازا ہے اس لیے کہ ان کی حیات طیبہ میں ایثار و قربانی ،رب کی اطاعت و خود سپردگی اور عزم و حوصلے کی ایک بے مثال داستان موجود ہے۔جونہ صرف امت مسلمہ کے ہر فرد بلکہ پورے عالم انسانیت کے لیے بہترین اسوہ ہے۔اگر ہم نے ان نفوس قدسیہ کے نقوش پا کو چھوڑ کر کسی اور ہی راستے کا انتخاب کر لیا تواس میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے۔ کوئی مصنوعی اور خود ساختہ مشکل کشا اور حاجت روا ہماری دنیا ہی سنوار سکے گا اور نہ آخرت میں ہمیں اللہ کی پکڑ سے چھڑا سکے گا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے