اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم  علیہ السلام  کو مٹی سے پیدا کیا اور مٹی کو مختلف مراحل سے گزار کر انسانِ اوّل کا ڈھانچہ تیار کیا اس لیے جب سیدنا آدم ان کی تخلیق کاذکر ہوتا ہے تو کبھی ایک مرحلہ سے اس کا آغاز کیا جاتا ہے اورکبھی دوسرے مرحلہ سے ابتداء کی جاتی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا، دوسری جگہ کھڑکھڑاتی ہوئی مٹی کا ذکر کیا ہے، پھر فرمایا۔ ہم نے انسان کو بدبودار مٹی سے پیدا کیا۔ کبھی فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ گویا کہ تخلیقی ترتیب کی مناسبت اور اس کی دلچسپی کے باعث اس کے مختلف تخلیقی مراحل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ انسان اپنی تخلیق کو یاد کرکے اپنے آپ، اپنے مالک اور خالق کو پہچاننے کی کوشش کرے اور اس کی بندگی کا حق ادا کرتا رہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ قَالَ اِنِّيْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ: 30)

’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے عرض کی۔کیا آپ زمین میں اُسے بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گااور خون بہائے گا۔ ہم حمد و ثناء کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس بیا ن کرتے ہیں، فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ ‘‘

ربِ کائنات نے زمین و آسمان کو بنانے اور سجانے کے بعد کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ملائکہ کے باوقار اور پر شکوہ اجتماع میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ سیدنا آدم علیہ السلام  کی تخلیق اور خلافت کا اعلان فرمایا۔اللہ، اللہ۔ کیا احترام و مقام ہے جناب آدم علیہ السلام  کا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اس کو بہترین سانچے میں استوار فرمایا۔اپنی طرف سے روح کو اس میں القاء کیا اور پھر خلافت کے منصب پر فائزفرماکراعلیٰ ترین مخلوق سے سجدہ کروایا۔سیدنا آدم علیہ السلام  کی خلافت کا اعلان سنتے ہی ملائکہ نے اللہ کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گی جب کہ ہم آپ کے لائق تیری حمد وستائش کرتے ہیں۔ خلافت سے مراد اللہ تعالیٰ کی خلافت نہیں بلکہ سیدنا آدم علیہ السلام  کی حکمرانی ہے یا پھر آدم علیہ السلام  جنات کے خلیفہ ہیں کیونکہ آدم علیہ السلام  سے پہلے زمین کا نظام جنات کے سپرد تھا ۔

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ

’’جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں، تواس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ ‘‘(صٓ: 71۔72)

1 تراب (Inorganic matter):

خالقِ کائنات نے انسان اوّل کے وجود کو غیر متحرک اور بے جان مادے سے تخلیق کیا۔ جو بذاتِ خود اس کی قدرت کا عظیم معجزہ ہے۔

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ  (المومن: 67)

’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔‘‘

2  ماء (Water):

خالقِ کل کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر جاندار چیز کی ابتدا پانی سے کی ہے:

وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ (الانبیاء: 30)

’’اور ہم نے ہر زندہ چیز کی نمود پانی سے کی ہے تو کیا وہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟‘‘

انسان کی تخلیق میں بطور خاص پانی کا ذکر کیا ہے:

وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا  (الفرقان: 54)

’’اور وہی ذات ہے جس نے آدمی کو پانی سے پیدا کیا۔‘‘

3  طین (Clay):

انسان کی تخلیق میں ’’مٹی‘‘ اور ’’پانی‘‘ بنیادی اجزاء ہیں۔ ان کے ملاپ سے ’’طین‘‘  یعنی گارا بنا،  انسان کی تخلیق کے حوالے سے ربِ کائنات نے اس کا یوں ذکر فرمایاہے:

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ   (الانعام: 2)

’’اسی ذات نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا۔‘‘

یاد رہے کہ قارئین اور سامع کی سہولت کے لئے طین کا معنٰی گارا کیا جاتا ہے جبکہ تراب خشک مٹی کو کہتے ہیں، امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

’’التراب الارض نفسہا‘‘

تراب سے مراد زمین ہے۔‘‘

طین اس مٹی کو کہتے ہیں جس کے ساتھ پانی ملا ہوا ہو۔ (المفردات)

4 طین لازم (Adsorbable Clay) :

انسانِ اوّل کی تخلیق کا چوتھا مرحلہ یوں ذکر ہواہے:

اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ (الصافات: 11)

’’بے شک ہم نے انہیں چپکتے گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘

جب گارا گاڑھا ہو جائے اور اس میں پانی کی مقدار نہ ہونے کے برابر رہ جائے  تو اسے عربی میں ’’طین لازب‘‘ کہا جاتا ہے۔

5 صلصال من حماء مسنون (Old physically  and chemically altered mud) :

مٹی اور پانی سے مل کر بنا ہوا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس سے  بو پیدا ہو گئی۔ اس بودار مادے کو اللہ رب العزت نے ’’صلصال من حماء مسنون‘‘ کا نام دیاہے۔

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ (الحجر: 26)

’’اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق بجنے والے گارے سے کی ہے۔‘‘

المنجد کے مؤلف لکھتے ہیں:

اَلْصَلْصَالُ: اَلطِّیْنُ الیَابِسُ اَلذِّی یَصِلُ مَنْ یَسْبُہٗ أَیْ یَصُوْتُ

’’صلصال سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی اور سختی کی وجہ سے بجتی ہے یعنی آواز دیتی ہے۔‘‘

صلصال کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد آتی ہے کیونکہ عام مٹی جسے تراب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا صلصال کا مرحلہ ’’طین لازب‘‘ یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ پانچواں مرحلہ جس کی وضاحت﴿مِنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ سے کے الفاظ سے ہو تی ہے۔

’’حمی‘‘ حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ ’’حمی‘‘ میں اس سیاہ گارے کا ذکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرارت کی وجہ سے وجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشان دہی کر تاہے۔

’’مسنون‘‘ سے مراد متغیر اور بدبودار ہے۔ یہ لفظ ’’سن‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے کے بھی ہیں، لیکن یہاں اس سے مراد تبدیل ہونا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی شے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔

جب گارے ’’طین لازب‘‘ پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کر لیے تو ا سکا رنگ بدل  کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اثر سے اُس میں بو بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر ﴿حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ میں کیا جا رہا ہے۔

لفظِ ’’صلصال‘‘ واضح کر رہا ہے کہ اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اس کی کثافت بھی کافی حد تک ختم ہو چکی تھی۔

6 صلصال کالفخار (Dried and Highly purified caly) :

انسان کی تخلیق کا چھٹا اور آخری مرحلہ ’’صلصال کالفخار‘‘ ہے جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ(الرحمن: 14)

’’اس نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔‘‘

جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا، اُس حالت کو ﴿كَالْفَخَّارِ﴾ کہا گیا ہے اس میں دو اشارے ہیں:

1ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔

2کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آجانا۔

لفظ ’’فخار‘‘ کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنٰی بہتر اور فضیلت کے ہیں۔ یہ فاخر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ ’’فخار‘‘ گھڑے کو بھی کہا جاتا ہے اور بعض اہل علم نے اس کا مطلب ٹھیکرا اور گھڑا لیا ہے۔ کیونکہ گھڑا پک کر بجتا اور آواز دیتا ہے، وہ اپنی گونج سے اپنے پکنے اور پختہ ہونے کی ترجمانی کرتا ہے اس لیے اسے فخر کرنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے

یُعَبّر عَنْ کُلِّ نَفِیْسِ بِالْفَاخِرِ، یُقَالُ ثُوْبٌ فَاخِرَۃً وَ نَاقَۃَ فَخُوْرٌ (المفردات: 276)

’’ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں، اس لیے نفیس کپڑے کو ثوبِ فاخر اور عمدہ اونٹنی کو ناقۃ فخور کہا جاتا ہے۔‘‘

’’فَخَّار‘‘ اسی سے مبالغے کا صیغہ ہے ، صاحب المحیط بیان کرتے ہیں:

الفاخِر: اِسم فاعلِ والجید من کل شیء(القاموس المحیط)

’’الفاخر اسم فاعل ہے اور ہر شے کا عمدہ حصہ ہے۔‘‘

گویا کہ انسانی تخلیق کا اصل میٹریل کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اختیار کر چکا تھا۔ تاکہ اُس ےبشریت کا خمیر بنایا جا سکے۔ انسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ ’’جِنّ‘‘ کی خلقت ہی آگ سے ہوئی مگر انسان کی خلقت میں ’’صلصال‘‘ کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لئے تپش کو محض استعمال کیا گیا، اسے تخلیقِ انسانی کا اصل مادہ نہیں بنایا گیا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ  (الرحمان: 14۔15)

’’اُسی نے انسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا:

وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ (الحجر: 27)

’’اور اُس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلانے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دُھواں نہیں تھا۔‘‘ لہٰذا خلقت ِ انسانی کی تخلیق میں آگ کو ایک حد تک دخل ہے، مگر وہ جنات کی طرح انسان کا مادہ تخلیق نہیں۔

عَنْ عَائِشَۃَ  رضی اللہ عنہا  قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ و سلم  خُلِقَتِ الْمَلاَ ئِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ (رواہ مسلم: باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ)

’’سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔‘‘

7 سلالۃ من طین (Extract purified calay) :

انسان کی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:

وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِيْنٍ (المؤمنون: 12)

’’اور بے شک ہم نے انسان کی تخلیق کی ابتدا مٹی کے جوہر سے فرمائی۔‘‘

اس آیت کریمہ میں گارے کے مصفّٰی اور خالص ہونے کی طرف اشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے، یہاں انسانی زندگی کا کیمیائی ارتقا ’’طین لازب‘‘ کے تزکیہ و تصفیہ کا بیان ہے۔ ’’سلالۃ‘‘ کے معنی ہیں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا ۔

گویا کہ ’’سلالۃ‘‘ کا لفظ کسی چیز کی اس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔اس طرح صاف، شفاف اور پاکیزہ جوہر سے سیدنا  آدم علیہ السلام  کا ڈھانچہ تیار کیا گیا۔

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ (صٓ: 72)

’’جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں، تواس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ ‘‘

عَنْ اَنَسٍt اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم  قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَا شَاءَاللّٰہُ اَنْ یَتْرُکَہٗ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ (رواہ مسلم: باب خُلِقَ الإِنْسَانُ خَلْقًا لاَ یَتَمَالَک)

’’سیدنا انس t بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب سیدناآدم  علیہ السلام  کی جنت میں شکل و صورت بنائی تواس کے پیکر کو جب تک چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا ۔ ابلیس نے اس کے گرد گھومنا شروع کیا وہ غور کرتا رہا کہ یہ کیا چیز پیدا کی جا رہی ہے؟ جب اس نے پیکر آدم کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے ‘ تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے، جو مستقل مزاج نہیں ہو گی۔ ‘‘

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ t أَنَّ رَسُولَ اللہِ   صلی اللہ علیہ و سلم  قَالَ  قَدْ أَذْہَبَ اللہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بِالآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ (رواہ الترمذی :باب فی فضل الشام والیمن(حسن))

’’سیدناابوہریرہ t  بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے فخروغرور کو مٹا دیا ہے جو تم اپنے آباء اجداد کے نام پر کیا کرتے تھے۔ مومن پرہیز گار ہوتا ہے اورفاجر بدبخت ہوتا ہے ،تمام لوگ آدم کی اولاد ہیںاور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘

عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ  صلی اللہ علیہ و سلم  إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَمِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ (ابو داود کتاب السنۃ (صحیح)

’’سیدنا ابو موسیٰ اشعری t بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا کیا جو پوری زمین سے لی گئی لہٰذا آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہے ،ان میں سرخ ، سفید ، سیاہ اور درمیانی رنگت کے لوگ ہیں۔ کچھ سخت اورکچھ نرم طبیعت ہیں اسی طرح کچھ نیک اور کچھ بد ہیں۔ ‘‘

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍt فِي قِصَّةِ خَلْقِ آدَمَ  علیہ السلام قَالَ: ” فَبَعَثَ جِبْرِيلَ علیہ السلام إِلَى الْأَرْضِ لِيَأْتِيَهُ بِطِينٍ مِنْهَا، فَقَالَتِ الْأَرْضُ: إِنِّي أَعُوذُ بِاللهِ مِنْكَ أَنْ تَنْقُصَ مِنِّي أَوْ تُشِينَنِي. فَرَجَعَ وَلَمْ يَأْخُذْهُ، وَقَالَ: رَبِّ إِنَّهَا عَاذَتْ بِكَ فَأَعَذْتُهَا، فَبَعَثَ مِيكَائِيلَ علیہ السلام  فَعَاذَتْ مِنْهُ فَأَعَاذَهَا، فَرَجَعَ فَقَالَ كَمَا قَالَ جِبْرِيلُ، فَبَعَثَ مَلَكُ الْمَوْتِ فَعَاذَتْ مِنْهُ فَقَالَ: وَأَنَا أَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَرْجِعَ وَلَمْ أُنْفِذْ أَمَرَهُ. فَأَخَذَ مِنْ وَجْهِ الْأَرْضِ، وَخَلَطَ فَلَمْ يَأْخُذْ مِنْ مَكَانٍ وَاحِدٍ، وَأَخَذَ مِنْ تُرْبَةٍ حَمْرَاءَ وَبَيْضَاءَ وَسَوْدَاءَ. فَلِذَلِكَ خَرَجَ بَنُو آدَمَ مُخْتَلِفَيْنَ، وَلِذَلِكَ سُمِّيَ آدَمَ لِأَنَّهُ أُخِذَ مِنْ أَدِيمِ الْأَرْضِ، فَصَعِدَ بِهِ فَبَلَّ التُّرَابَ حَتَّى عَادَ طِينًا لَازِبًا (الاسماء والصفات للبیہقی: بَابُ مَا جَاءَ فِي تَفْسِيرِ الرُّوحِ وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ)

’’سیدنا ابن مسعودt سیدناآدم  علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام  کو زمین پر بھیجا کہ وہ مٹی لے کر آئے۔ زمین نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھ میں کچھ لیں یا مجھ میں کمی واقع کریں۔ جبرائیل علیہ السلام  مٹی نہ لی اور واپس گئے ۔ عرض کی اے رب! زمین نے آپ کی پناہ چاہی تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میکائیل کو بھیجا، زمین نے اس سے بھی پناہ چاہی اُنہوں نے بھی اُسے رہنے دیا اور واپس چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عرض کی جو جبرائیل علیہ السلام نے کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو بھیجا زمین نے اُن سے بھی پناہ مانگی اس نے کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم نافذ کیے بغیر واپس جائوں۔ اُس نے زمین سے کچھ مٹی اُٹھائی اور اُسے آپس میں ملا یا اس نے ایک جگہ سے مٹی نہیں لی بلکہ سرخ، سفید، سیاہ مٹی لی۔ اسی وجہ سے ابن آدم مختلف رنگوں کے ہیں اور آدم علیہ السلام کا نام اسی لیے رکھا گیا کیونکہ اُن کی مٹی سطح زمین سے لی گئی عزرائیل علیہ السلام مٹی لے کر چلے گئے پھر مٹی کو تر کیا گیا یہاں تک کہ وہ چپکتا ہوا گارا بن گیا۔‘‘

اس کے بعد آدم علیہ السلام  کے جسم میں روح پھونکی جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے:

فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ اِلَّا اِبْلِيْسَ اِسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ قَالَ يٰاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ (ص: 72تا 75)

’’جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تم اس کے سامنے سجدے میں گرجانا۔ سب کے سب فرشتے سجدے میں گر گئے۔ مگر ابلیس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابلیس تجھے کس چیز نے اسے سجدہ کرنے سے روکاہے جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے توتکبر کرتا ہے یا تو اپنے آپ کو بڑوں میں سمجھتا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ’’کن‘‘ کہہ کر پیدا فرمایا ہے لیکن انسانِ اوّل کو اپنے مبارک ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔

اَوَ لَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلٰىۗ وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ اِنَّمَآ اَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ  (یٰس: 81۔82)

’’ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟کیوں نہیں وہ تو سب کچھ جاننے والا اور خلّاق ہے۔جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو  اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

علمی برتری، ملائکہ کو سجدہ کا حکم :

وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ فَقَالَ اَنۢبِـُٔوْنِيْ بِاَسْمَآءِ هٰؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ قَالَ يٰاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ فَلَمَّا اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِيْسَ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ وَقُلْنَا يٰاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ فَتَلَقّٰى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ

’’اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام بتلا ئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ؟ انہوں نے عرض کی اے اللہ تیری ذات پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے ۔یقیناً تو علم و حکمت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایااے آدم! تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب آدم نے انہیں ان چیزوں کے نام بتا دیے تو اللہ تعالیٰ نےفرمایا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں فرمایا تھا کہ زمین اور آسمانوں کے غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ اور ہم نے فرمایا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاںسے چاہو وافر کھاؤ اور اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔لیکن شیطان نے ان کو پھسلا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے فرمایا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور اب ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔سیدنا آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے۔‘‘  (البقرۃ:31 تا 38)

سیدناآدم علیہ السلام  کو پیدا کرنے کے بعد اسے علمی برتری کے ذریعے فرشتوں پر مزید مرتبت عطا فرمائی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَt قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ و سلم  بِيَدِي فَقَالَ: خَلَقَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ، وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ، وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ، وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ، فِي آخِرِ الْخَلْقِ، فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ، فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ (رواہ مسلم: بَابُ ابْتِدَاءِ الْخَلْقِ وَخَلْقِ آدَمَ علیہ السلام  )

’’سیدنا ابو ہریرہ t بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن زمین کو پیدا کیا۔ اتوار کے دن پہاڑ بنائے‘ پیر کے روز درخت اگائے، منگل کے دن ناپسندیدہ چیزیں پیدا کیں‘بدھ کے روز روشنی بنائی‘ جمعرات کے روز زمین پر چارپایوں کو پھیلایا اور جمعہ کے دن عصر کے بعد سب سے آخر میں سیدنا آدم علیہ السلام  کو پیدا کیا یہ آخری تخلیق دن کے آخری حصے میں عصر اور مغرب کے درمیان عمل میں لائی گئی۔ ‘‘

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ tعَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ خَلَقَ اللہُ آدَمَ عَلَی صُورَتِہِ ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ، فَلَمَّا خَلَقَہُ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَئِکَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِکَۃِ جُلُوسٌ ، فَاسْتَمِعْ مَا یُحَیُّونَکَ ، فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللہِ فَزَادُوہُ وَرَحْمَۃُ اللہِ ، فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ آدَمَ ، فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الآنَ ( رواہ البخاری:باب بَدْءِ السَّلاَمِ)

’’سیدنا ابو ہریرہ t نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آ دم  علیہ السلام  کواپنی صورت کے مطابق بنایااور اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ آدم کی تخلیق ہوچکی تو اللہ تعالیٰ نے آ دم  علیہ السلام  کو حکم دیاکہ فرشتوںکی جماعت کے پاس جائو اور انہیں سلام کہواور وہ جو جواب دیں اسے سنووہی تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہوگا۔آدم  علیہ السلام  نے فرشتوںکو سلام کہا ۔ فرشتوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے رحمۃاللہ کااضافہ کیا۔ نبی معظم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: ہر انسان کی جنت میں آدم کی شکل و صورت ہو گی۔اس وقت سے لے کر اب تک آدم کی اولاد کے قد، قامت میں کمی واقع ہوتی رہی  یہاں تک کہ اب اس کا قد ٹھہر گیا ہے۔

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِيْ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰی شَهِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ (الاعراف: 172)

’’اورجب آپ کے رب نے آدم کی اولاد سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارار ب نہیںہوں؟ انہوں نے کہاکیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔‘‘

خالق کائنات نے سیدناآدم  علیہ السلام کو پیدا فرماکر اس کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا جس سے قیامت تک نسل در نسل پیدا ہونے والے بنی نوع انسان حاضر ہو گئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سب سے استفسار فرمایا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں ؟ سیدنا آدم  علیہ السلام اور اس کی ساری اولاد نے اپنے رب کے حضور شہادت دی کیوں نہیں ! آپ ہی ہمارے خالق ، مالک ، اور معبود ہیں ارشاد ہوا کہ اس پر قائم رہنا کہیں قیامت کے دن یہ بہانہ نہ بنانا کہ ہمیں تو اس عہد اور شہادت کا علم ہی نہیں تھا یا تم یہ کہو کہ ہم اس لیے شرک کے مرتکب ہوئے کہ ہمارے آباء و اجداد شرک کرتے تھے اور ہم تو ان کے بعد آنے والے، ان کی اولاد تھے لہٰذا ہمارا کوئی گناہ نہیں جو کچھ کیا ہم سے پہلے لوگوں نے کیا اس لیے ہمیں کسی قسم کی سزا نہیں ہونی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت بنی نوع انسان کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اس عہد کو بھول جانا یا اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے کا بہانہ بنانا قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍw عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم  قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قُبُلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ (رواہ احمد:باب مسند ابن عباسw(صحیح))

’’سیدنا عبداللہ بن عباس wنبی اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت سے تمام اولاد نکالی پھر ان سے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر عہد لیا اور ان کو اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم اس عہدسے غافل تھے یا تم کہو کہ شرک تو ہمارے آبائو اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے کیا تو ہمیں باطل پرستوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔‘‘

۔۔۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے