TEST1

العربية بن الأصالة والمعاصرة

العربية بن الأصالة والمعاصرة

معیشت صحیح راستے پر لانا چاہتے ہیں۔ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنا مجبوری تھی۔ پاک افغان صورتحال پر اجلاس بلارہا ہوں ۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔شہباز شریف

رئيس الوزراء شهباز شريف يصرح: نريد أن يمضي الوضع الاقتصادي على المسار الصحيح. كنا مضطرين لحمل عبء الغلاء على الشعب.

يجب علينا القضاء على أنانيتنا لأجل تنمية وتطوير باكستان. أدعو الاجتماع بشأن الوضع المتوتر بين باكستان و أفغانستان.

معاشی صورتحال/معیشت: الوضع الاقتصادي

صحیح راہ :المسار الصحيح

بوجھ ڈالنا: حمل العبء

ترقی اور خوشحالی:التنمية والتطوير

کشیدہ صورتحال:الوضع المتوتر

پاکستان کبھی دیوالیہ نہ ہوگا۔ عمران خان دشمنوں کو خوش کرنے والی باتیں کرتے ہیں. ہم نے سیاست کی بجائے ریاست کو ترجیح دی۔اسحاق ڈار

وزير المالية إسحق دار: لن تفلس باكستان، يقدم عمران خان من الكلام ما يبهج الأعداء.أعطينا الأولوية للبلد بدلا عن السياسة.

دیوالیہ ہونا:أفلس يفلس إفلاس

ترجیح :الأولوية

خوش کرتا ہے :يبهج

پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے اربوں ڈالر کی امداد ملنے کی توقع ہے۔

عمران خان خان کے ساتھ ہیں،غلط فہمیاں پیدا کرنے والے ناکام رہیں گے ۔

ملک بچانے کا نعرہ لگانے والوں نے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔

إمكانية تقديم دعم سعودي لباكستان بقيمة مليارات الدولارات. نحن مع عمران خان ، سيبقى فاشلا من ينشيء سوء التفاهم. المرددون لشعار إنقاذ البلد دفعوا البلد إلى شفا التدمير.

سعودی امداد: دعم سعودي

اربوں ڈالر:مليارات الدولارات

غلط فہمی:سوء التفاهم

ناکام رہیں گے:يبقى فاشلا

ملک بچانا:إنقاذ البلد

تباہی کا دہانہ:شفا التدمير

محکمہ سندھ نے صوبہ کے تمام نجی و سرکاری سکولز و کالجز میں موسم سرما کی چھٹیوں کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق 22 دسمبر سے 30 دسمبر تک تعلیمی بند رہینگے۔ دوبارہ تعلیمی ادارے 2 جنوری 2023 بروز پیر کھلیں گے ۔

أصدر قسم التعليم إشعارا بشأن إجازات شتوية في كافة المدارس والكليات الحكومية والأهلية. وفقا للإشعار الصادر تبقى المعاهد التعليمية مغلقة من ٢٢ كانون الأول إلى ٣٠ كانون الأول. و تستأنف الدراسة فيها يوم الاثنين ٣ من كانون الثاني ٢٠٢٣.

جاری کردیا :أصدر

نوٹیفیکیشن:إشعار

موسم سرما کی چھٹیاں:إجازات شتوية

سرکاری و نجی:الحكومية والأهلية

دسمبر:كانون الأول

تعلیمی ادارے:المعاهد التعليمية

جنوری:كانون الثاني

سرکاری ملازمت کے خواہش مند افراد کے لئے بڑی خوشخبری۔ تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت نے محکمہ تعلیم میں 500 افسران بھرتی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

بشرى سارة للراغبين في توظيفي حكومي. وفقا للتفاصيل الصادرة قررت حكومة سند توظيف ٥٠٠ ضباط في قسم التعليم .

بڑی خوشخبری:بشرى سارة

سرکاری ملازمت:توظيفي حكومي

خواہش مند افراد:الراغبون./المتمنون

تفصیلات کے مطابق:وفقا للتفاصيل

فیصلہ کیا: قرر

بھرتی کرنا:توظيف

افسران:ضباط

روس سے سستا تیل خریدنے کی کوشش ہورہی ہے۔ پٹرول کی قیمتیں کم کرکے خوشی ہوئی۔

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی۔

سونے کی قیمت میں اضافے کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ،خریدار پریشان۔

سقوط ڈھاکہ کو 51 برس بیت گئے۔

تجري المحاولات لشراء النفط الرخيص من روسيا . صرنا سعداء إثر تخفيضنا لأسعار النفط.
هبوط كبير في أسعار النفط في السوق الدولي.
تحطمت الأرقام القياسية كلها لارتفاع سعر الذهب.المتسوقون يشعرون بالقلق.
مرت ٥١ عاما على سقوط (مدينة)دكا.

کوششیں چل رہی ہیں:تجري المحاولات

سستا پٹرول:النفط الرخيص

بڑی کمی:هبوط كبير

ریکارڈ ٹوٹنا: تحطيم الأرقام القياسية

ڈھاکہ:دکا

بیت گئے:مضت

شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ مزید پابندیاں ان کے میزائل پروگرام کو نہیں روک سکتیَ.

امریکہ نے رواں ماہ کے شروع میں تین کورین عہدیداروں پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور میزائلوں کی تیاری کی حمایت کرنے کی وجہ سے پابندی لگا دی تھی۔

پیر اور منگل کی درمیانی شب اسرائیلی جنگی طیاروں نے فضائی حملے کیے جس میں دمشق انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے گردونواح اور جنوبی مغربی دیہی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔

فلسطینی قیدی ناصر ابو حمید کو کومے کی حالت میں ہسپتا ل منتقل کردیا گیا۔

قالت کوريا الشمالية:إن العقوبات الإضافيه لن توقف برنامج الصاروخي وكانت الولايات المتحدة قد اعلنت مطلع الشهر الجاري فرض العقوبات اقتصادية على ثلاثة مسؤولين كوريين شماليين لدعم تطوير اسلحة دمار شامل وصواريخ باليستية.
شنت الطائرات الحربية الاسرائيلة غارات جوية ,استهدفت محيط مطار دمشق الدولي وريف دمشق الجنوبي الغربي منتصف ليلة الاثنين الثلاثاء.
نقل الأسير الفلسطيني ناصر أبو حميد للمستشفى بحالة غيبوبة.

العقوبات الإضافية: مزید پابندیاں

البرنامج الصاروخي: میزائل پروگرام

مطلع الشهر الجاري: رواں ماہ کے شروع میں

دعم: سپورٹ/ حمایت

دمار شامل: بڑے پیمانے پر تباہی

صواريخ باليستية: بلیسٹک میزائل

حالة غيبوبة: کومے کی حالت

قتل ٦مدنيين وجرح ٨ آخرون مساء اليوم الاثنين في هجوم مسلح شرق ديال شرق العاصمة العراقية بغداد.
استعرض ولي العهد السعودي الأمير محمد بن سلمان في اتصال هاتفي مع الملك الاردني عبد الله الثاني على العلاقات الثنائية بين البلدين.
بلغ لمغرب قبل النهائي و خسر 0-2امام فرنسا.

عراقی دارالحکومت بغداد کے مشرق میں واقع ضلع دیال کے شمال مشرق میں مسلح حملے میں 6شہری ہلاک و دیگر8 زخمی ہوئے.

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹیلیفونک رابطے میں اردنی فرمانروا امیر عبداللہ الثانی کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا۔

سیمی فائنل میں پہنچنے کے بعد مراکش کو فرانس سے 0-2شکست ہوئی۔

مدنيون:شہری

استعرض: جائزہ لیا

اتصال هاتفي: ٹیلیفونک رابطہ

العلاقات الثنائية: دو طرفہ تعلقات

الدور قبل النهائي:سیمی فائنل

خسر:شکست ہوئی

حدیث نبوی میں احد پہاڑ کا تذکرہ

حدیث نبوی میں احد پہاڑ کا تذکرہ 

مدینہ منورہ کے پہاڑوں میں سے احد پہاڑ کو بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس پہاڑ کو پیارے پیغمبر ﷺ سے اور آپ علیہ السلام کو اس پہاڑ سے محبت ہوا کرتی تھی، اور اس پہاڑ سے کئی تاریخی یادیں بھی جڑی ہوئی ہیں، آپ علیہ السلام نے کئی مقام پر اس پہاڑ کا ذکر فرمایا اور بعض اعمال اور ان کے اجر و ثواب کو بھی اس سے تشبیہ دیا، ہم ایسی چند روایات یہاں ذکر کرتے ہیں جن میں احد پہاڑ کا ذکر ہے۔

احد حدودِ حرم میں ہے

سیدنا عبداللہ بن سلام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

مَا بَيْنَ كَدَائ، وَأُحُدٍ حَرَامٌ، حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كُنْتُ لِأَقْطَعَ بِهِ شَجَرَةً وَلَا أَقْتُلَ بِهِ طَائِرًا

مدینہ منورہ کداء سے احد پہاڑ تک حرم ہے، اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حرم قرار دیا ہے، میں حدودِ حرم میں سے نہ کوئی درخت کاٹتا ہوں اور نہ کسی پر ندے کو قتل کرتا ہوں۔(مسند احمد : 12620)

صحابہ جیسی نیکیاں کسی کی نہیں

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

’’ میرے صحابہ کو برا مت کہو ، میرے صحابہ کو برا مت کہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ان ( صحابہ ) میں سے کسی ایک کے دیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی ( اجر ) نہیں پا سکتا ۔‘‘( صحیح مسلم : 6487 )

خلفاء راشدین کی فضیلت

سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ :

 أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: «اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ، وَصِدِّيقٌ، وَشَهِيدَانِ»

جب نبی کریم ﷺ ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” احد ! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں ۔“( صحیح بخاری : 3675 )

نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کا اجر

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :

مَنِ اتَّبَعَ جَنَازَةَ مُسْلِمٍ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا وَكَانَ مَعَهُ حَتَّى يُصَلَّى عَلَيْهَا وَيَفْرُغَ مِنْ دَفْنِهَا ، فَإِنَّه يَرْجِعُ مِنَ الْأَجْرِ بِقِيرَاطَيْنِ كُلُّ قِيرَاطٍ مِثْلُ أُحُدٍ ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ رَجَعَ قَبْلَ أَنْ تُدْفَنَ ، فَإِنَّهُ يَرْجِعُ بِقِيرَاطٍ

جو کوئی ایمان رکھ کر اور ثواب کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے اور نماز اور دفن سے فراغت ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط اتنا بڑا ہو گا جیسے احد کا پہاڑ ، اور جو شخص جنازے پر نماز پڑھ کر دفن سے پہلے لوٹ جائے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ۔( صحیح بخاری : 47 )

احد پہاڑ کی نبی ﷺ سے محبت

سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ :

خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ أَخْدُمُهُ ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاجِعًا وَبَدَا لَهُ أُحُدٌ ، قَالَ : هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ، ثُمَّ أَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ ، قَالَ : اللهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا كَتَحْرِيمِ إِبْرَاهِيمَ مَكَّةَ ، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا .

میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر ( غزوہ کے موقع پر ) گیا ، میں آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ، پھر جب آپ ﷺ واپس ہوئے اور احد پہاڑ دکھائی دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ پہاڑ ہے جس سے ہم محبت کرتے ہیں اور وہ ہم سے محبت کرتا ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ۔ اے اللہ!  میں اس کے دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کے خطے کو حرمت والا قرار دیتا ہوں ، جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا ، اے اللہ ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما ۔( صحیح بخاری : 2889 )

رسول اللّٰہ ﷺ کی دنیا سے بے رغبتی

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :

لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا يَسُرُّنِي أَنْ لَا يَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثٌ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ ، إِلَّا شَيْءٌ أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی بھی حصہ میرے پاس رہ جائے ۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ (صحیح بخاری : 2389)

دجال کہاں اترے گا ؟

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ، حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ ( صحیح مسلم : 3351 )

’’ مشرق کی جانب سے مسیح دجال آئے گا ، اس کا ارادہ مدینہ ( میں داخلے کا ) ہو گا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے اترے گا ، پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے ، اور وہیں وہ ہلاک ہو جائے گا ۔‘‘

جہنم میں کافر کی کیفیت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

ضِرْسُ الْكَافِرِ أَوْ نَابُ الْكَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِهِ مَسِيرَةُ ثَلَاثٍ ( صحیح مسلم : 2851 )

’’ کافر کی داڑھ یا ( فرمایا : ) کافر کا کچلی دانت احد پہاڑ جتنا ہو جائے گا اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن چلنے کی مسافت کے برابر ہو گی ۔

ایک روایت میں ہے کہ :

إِنَّ غِلَظَ جِلْدِ الْكَافِرِ اثْنَانِ وَأَرْبَعُونَ ذِرَاعًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ ضِرْسَهُ مِثْلُ أُحُدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ مَجْلِسَهُ مِنْ جَهَنَّمَ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ،‏‏‏‏ وَالْمَدِينَةِ

پہاڑ جیسی ہو گی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ اتنی ہو گی جتنا مکہ اور مدینہ کے درمیان کا فاصلہ“۔( سنن ترمذی : 2577 )

رسول اللّٰہ ﷺ کی دامن احد میں دفن ہونے کی تمنا

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے سنا کہ جب شہدائے احد کا تذکرہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺفرماتے :

أَمَا وَاللّٰہِ! لَوَدِدْتُ أَنِّی غُودِرْتُ مَعَ أَصْحَابِ نُحْصَ الْجَبَلِ یَعْنِی سَفْحَ الْجَبَلِ.

اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مجھے بھی ان کے ہمراہ پہاڑ کے دامن میں دفن کر دیا جاتا۔( مسند احمد : 10738)

صدقہ کی فضیلت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ نے فرمایا :

«إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقْبَلُ الصَّدَقَاتِ، وَيَأْخُذُهَا بِيَمِينِهِ، فَيُرَبِّيهَا لِأَحَدِكُمْ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ مُهْرَهُ، أَوْ فَلُوَّهُ حَتَّى إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ» ، وَقَالَ وَكِيعٌ فِي حَدِيثِهِ: وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللهِ: {هُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ} {وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} وَ{يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}

اللہ تعالیٰ صدقات کو قبول کرتا ہے اور ان کو دائیں ہاتھ میں وصول کرتا ہے، پھر وہ ان کو یوں بڑھاتا رہتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی گھوڑی، اونٹنی یا گائے کے بچے کی پرورش کرتا ہے،یہاں تک کہ ایک لقمہ احد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ وکیع نے اپنی روایت میں کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس فرمان کی تصدیق قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتی ہے: اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے صدقات کو پکڑ لیتا ہے۔ (سورۂ توبہ: 104) اور اللہ سود کو ختم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ (سورۂ بقرۃ: 284 ، بحوالہ مسند احمد: 10090)

اگر جبل احد جتنا قرضہ ہو

رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تجھے ایک دعا نہ سکھلاؤں کہ اگر تجھ پر احد پہاڑ جتنا بھی قرض ہو تو اللہ اسے ادا کردے۔ اے معاذ تو پڑھ لیا کر:

اللهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ، وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ، وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكِ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا، تُعْطِيهُمَا مَنْ تَشَاءُ، وتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِيني بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ

اے اللہ، دنیا کے مالک، تو جسے چاہتا ہے بادشاہی دیتا ہے، جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے، ۔ تیرے ہاتھ میں بھلائی ہے. تو ہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ دنیا کے رحمان اور آخرت کے رحیم تو جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے جسے چاہتا ہے منع کرتا ہے۔ مجھ پر ایسی رحمت کر کہ میں تیرے سوا سب سے غنی ہو جاؤں۔(صحيح الترغيب : 1821)

موسم سرما اور اسلامی تعلیمات

موسم سرما اور اسلامی تعلیمات

الحمد للہ وحدہ، والصلاة والسلام علی من لا نبی بعدہ ، وبعد:

اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ملک پاکستان میں مختلف اقسام کے مواسم میسر فرمائے اور ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یقیناً یہ موسم کا تغیر وتبدل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت کی اہم نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ (آل عمران: 190)

’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیرپھیر میں یقیناً عقلمندروں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

مزید فرمایا:

يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ (النور: 44)

’’ اللہ تعالیٰ ہی دن اور رات کو ردوبدل کرتارہتاہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔‘‘

محترم قارئین کرام! جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان میں چار نمایاں موسم پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک موسم سرما بھی ہے جس کا آغاز دسمبر سے ہوتاہے اور جس کے آتے ہی کچھ چہروں پر فرحت اور کچھ پر غمی وحزن کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔

بلاشبہ سردی کے آنے سے مختلف پریشانیاں درپیش آتی ہیں مثلاً: بیماری، برف کا گرنا،موسم کا انتہائی سرد ہونا وغیرہ لیکن ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ یہ تمام امور مشیئتِ الٰہی سے ہوتے ہیں اور ان میں اللہ رب العالمین کی حکمت شامل ہوتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا (آل عمران:191)

’’اے ہمارے رب! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔‘‘

اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ نے بے فائدہ اور بے مقصد نہیں بنائی اس میں اللہ رب العالمین کی حکمت مضمر ہوتی ہے اور انسانیت کی بھلائی مقصود ہوتی ہے کیونکہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

سبب

اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر شے کے وجود کا ایک سبب رکھا ہے اور اس میں حکمتِ الٰہی ہے۔ بسا اوقات ہمیں یہ اسباب معلوم ہوتے ہیں اور کبھی ہم ان سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی طرح سردی کا باطنی سبب حدیث رسول میں کچھ اس طرح بیان ہواہے۔سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح بخاری، حدیث: 3260)

’’جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں، تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو اس کا یہی سبب ہے۔‘‘

سردی کو بُرا بھلا کہنا

احادیث سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ سردی ہو یا گرمی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بعض لوگ اس امر سے غافل ہوتے ہیں اور نادانی میں سردی کو بُرا بھلا کہہ دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں چنانچہ حدیث قدسی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ، يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، أُقَلِّبُ الليْلَ وَالنَّهَارَ (صحيح مسلم:2246)

’’ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتاہے زمانہ کو بُرا بھلا کہتاہے حالانکہ میں ہی زمانہ پیدا کرنے والا ہوں میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں میں جس طرح چاہتاہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتاہوں۔‘‘

سردی اور گرمی کا ہیرپھیر اور زمانے کی تبدیلی کا نظام اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے اور جو شخص اس نظام کو بُرا بھلا کہتاہے گویا وہ اس کے چلانے والے کو بُرا کہتاہے جو کہ اللہ کو گالی دینے کے مترادف ہے۔

اگر کسی شخص کو سردی کی وجہ سے زیادہ مشکلات درپیش ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ کی دعا کرے اور حفاظتی اسباب اختیار کرے۔نیز اس موسم کے کچھ شرعی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ کچھ ایسے افعال ہیں جن سے بچنا چاہیے اور بعض میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذیل میں ایسے امور ذکر کرتاہوں جن سے اجتناب ضروری ہے۔

۱۔ منہ ڈھانپ کر نماز پڑھنا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ

’’ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ انسان منہ ڈھانپ کرنماز پڑھے۔‘‘(سنن أبي داود:643)

سردی کے موسم میں اکثر لوگ نماز کی حالت میں اپنا منہ چادر یا مفلر وغیرہ سے ڈھانپ کر نماز پڑھتے ہیں یہ عمل مکروہ ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو مثلاً: کسی بیماری کی وجہ سے تو اس بناء پر کوئی حر ج نہیں۔

۲۔ السدل :

سدل کی تعریف صاحب ھدایہ نے کچھ اس طرح کی ہے :

هو أن يجعل ثوبه على رأسه أو كتفيه ثم يرسل أطرافه من جوانبه ( الهداية 1/143)

’’(سدل یہ ہےکہ) کوئی شخص اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے) چھوڑ دے۔‘‘

سردیوں میں اکثر حضرات یہ عمل بھی کرتے ہیں۔ حالتِ نماز میں چادر وغیرہ کو گلے میں اس طرح ڈالتے ہیں اور رکوع کرتے وقت دونوں کنارے لٹکتے ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ عمل جائز نہیں۔

۳۔ رات سوتے وقت ہیٹر جلتے ہوئے چھوڑ دینا:

آپ کے علم میں یہ بات بھی ہے کہ کتنے ہی حادثے اس وجہ سے رونما ہوئے ہیں کہ رات ہیٹر، انگیٹھی بند کیے بغیر سوجانےاور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کتنی ہی قیمتی جانیں چا چکی ہیں۔

اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 

لاَ تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ (صحيح البخاری:6293)

’’جب (تم)سونے لگو تو گھر میں (جلتی ہوئی ) آگ نہ چھوڑو۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ :

عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: احْتَرَقَ بَيْتٌ بِالْمَدِينَةِ عَلَى أَهْلِهِ، فَحُدِّثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَأْنِهِمْ، فَقَالَ: «إِنَّمَا هَذِهِ النَّارُ عَدُوٌّ لَكُمْ، فَإِذَا نِمْتُمْ فَأَطْفِئُوهَا عَنْكُمْ» (سنن ابن ماجه:3770)

’’سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ میں ایک گھر کو آگ لگ گئی جب کہ گھر والے گھر میں تھے۔ نبی کریم ﷺ کو ان کے حادثے کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ آگ تمہاری دشمن ہے جب تم سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو۔‘‘

لہذا رات سوتے وقت ہیٹر یا کوئی بھی اس جیسی چیز (لکڑی یا کوئلوں پر جلنے والی انگیٹھیاں وغیرہ) بند کرکے سونا چاہیے اور اس حساس عمل سے احتیاط برتنی چاہیے۔

۴۔ ٹھنڈے پانی کے ڈر سے وضو یا غسل میں سستی کرنا اور عبادات ترک کرنا:

سردی کے آتے ہی اکثر لوگ پانی کے ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے وضو یا غسل میں سستی کرتے ہیں اور عبادات کو ترک کر دیتے ہیں جو کہ جائز نہیں کیونکہ اگر غور کیا جائے تو اس مشقت پر اور زیادہ انسان اجر کا مستحق ہوتاہے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ

’’کیا میں تمہیں ان چیزوں کی خبرنہ دوں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ غلطیاں مٹاتااور درجات بلند فرماتاہے؟ (صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسولﷺ! کیوں نہیں)، آپ ﷺ نے فرمایا: مشقت اور نا چاہتے ہوئے وضو مکمل اور اچھی طرح کرنا، مسجدوں کی طرف دور سے چل کر جانا اور نماز کے بعد اگلی نماز (مسجد میں بیٹھ کر) انتظار کرنا۔ یہ ہے رباط(تین مرتبہ یہ الفاظ ارشاد فرمائے)۔ (النسائی : 143)

یقیناً سخت سردی میں جب انسان اپنے اعضاء کو اچھی طرح دھوتا ہے اوروضو کرتاہے تو وہ اس اجر کا مستحق ہوتاہے البتہ کسی شرعی عذر کی بناء پر مثلاً: بیماری کے خدشہ کی وجہ سے وضو یا غسل ترک کر دینا اور اس کی جگہ تیمم اختیار کرنا اس میں کوئی حرج نہیں۔

یقیناً یہ موسم مؤمن کے لیے بہار ہے:

بعض ایسے امور بھی ہیں جو اس موسم میں کثرت سے کرنے کا موقع میسر آتاہے اور اسلام ان کی طرف رغبت دلاتاہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ موسم سرمامیں راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوتے ہیں اور اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم بہت سی عبادات سرانجام دے سکتے ہیں۔

۱۔ قیام اللیل:

یقیناً قیام اللیل اور شب بیداری مؤمنین کا شیوہ ہے۔ اور یہ موسم ان کے لیے ایک بہار کی مانند ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ (الذاریات: 17۔18)

’’وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے اور سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے۔‘‘

فرمان نبوی ہے:

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنَ العَبْدِ فِي جَوْفِ الليْلِ الآخِرِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ (سنن الترمذی:3579)

’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتاہے تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہوکر ان لوگوں میں سے ہوجاؤ(یعنی تہجد پڑھو)۔‘‘

۲۔روزہ:

اس موسم میں جہاں دیگر عبادات کرنے کے مواقع ملتے ہیں وہاں روزہ بھی ہے کیونکہ اس موسم میں دن چھوٹے ہوتے ہیں جس میں انسان آسانی سے صیام(روزہ) کا اہتمام کر سکتاہے چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے : 

الغَنِيمَةُ البَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ (سنن الترمذی: 797 مرسل صحیح)

’’ٹھنڈا ٹھنڈا بغیر محنت کے مال غنیمت یہ ہے کہ روزہ سردی میں ہو۔‘‘

اور روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ المِسْكِ يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا (صحیح البخاری: 1896)

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اورپاکیزہ ہے (اللہ تعالیٰ فرماتاہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوات میرے لیے چھوڑتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتاہے۔‘‘

لہٰذا ہمیں موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ ان ایام میں روزے دار زیادہ گرمی، بھوک اور پیاس محسوس نہیں کرتا اور بآسانی روزہ رکھ لیتاہے۔

۳۔ صدقہ وخیرات:

اس موسم میں جہاں دیگر عبادات کے مواقع میسر ہوتے ہیں وہاں ایک پہلو صدقہ وخیرات کا بھی ہے کیونکہ اس موسم میں اکثر غرباء ومساکین کو شدت سے لحاف،کمبل ودیگر گرم ملبوسات وحفاظتی سامان کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے منتظر ہوتے ہیں۔ احادیث میں صدقہ واخیرات کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اگر یہ صدقہ صحیح وقت پر مستحق تک پہنچ جائے تو اس کی اور بھی قدر بڑھ جاتی ہے۔

جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (صحيح مسلم:2699)

’’جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ ‘‘

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر حال میں نافرمانیوں سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بیماری و آزمائش

بیماری و آزمائش

1:بیماری درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش :

وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ

اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الأنبياء :35)

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍمِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌقَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرة: 155,156)

اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرۃ :214)

یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«هي الأمراض والأسقام والآلام والمصائب والنوائب» (تفسير ابن كثير : 571/1)

’’ان سے مراد امراض ، عوارض ، تکالیف ،مصائب اور آفتیں ہیں ۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ، حَتَّى يَلْقَى اللهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (سنن الترمذي : 2399)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ خَامَةِ الزَّرْعِ، يَفِيءُ وَرَقُهُ، مِنْ حَيْثُ أَتَتْهَا الرِّيحُ تُكَفِّئُهَا، فَإِذَا سَكَنَتِ اعْتَدَلَتْ، وَكَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ يُكَفَّأُ بِالْبَلَاءِ، وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ صَمَّاءَ مُعْتَدِلَةً، حَتَّى يَقْصِمَهَا اللهُ إِذَا شَاءَ (صحيح البخاري :7466)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی سی ہے کہ جدھر ہوا چلتی ہے تو اس کے پتے ادھر جھک جاتے ہیں اور جب ہوا رک جاتی ہے تو پتے بھی برابر ہو جاتے ہیں۔اسی طرح مومن آزمائشوں میں بچایا جاتا ہے لیکن کافر کی مثال صنوبر کے سخت درخت جیسی ہے کہ ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ دیتا ہے۔

2 : بیماری کوئی عیب نہیں ہے ۔

بیماری و آزمائش سے انبیاء کرام جیسی عظیم جماعت بھی دوچار ہوئی تھی لہذا بیماریوں کا آنا یہ عیب نہیں ہے ۔

وَ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِيْنَ

’’اور ایوب، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پس اسے جو بھی تکلیف تھی دور کردی اور اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ ان کی مثل (اور) عطا کردیے، اپنے پاس سے رحمت کے لیے اور ان لوگوں کی یاددہانی کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘(الأنبياء: 83,84)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ایوب (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ کی طرف سے ان پر ایسی آزمائش آئی کہ وہ شدید اور لمبی بیماری میں مبتلا ہوگئے، ان کے اہل و عیال بھی جدائی یا فوت ہونے کی وجہ سے ان سے جدا ہوگئے۔ جب کمانے والے ہی نہ رہے تو مال مویشی بھی ہلاک ہوگئے، مگر سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے ہر مصیبت پر صبر کیا، نہ کوئی واویلا کیا اور نہ کوئی حرف شکایت لب پر لائے۔ جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ایک یہ کہ اے میرے رب ! مجھے شیطان نے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ دوسری یہ کہ اے میرے رب ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔ اس دعا میں انھوں نے اپنی حالت زار بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ارحم الراحمین ہونے کے بیان ہی کو کافی سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔ انھوں نے پاؤں مارا تو ٹھنڈے پانی کا چشمہ نمودار ہوگیا۔ حکم ہوا کہ اسے پیو اور اس سے غسل کرو۔ وہ مبارک پانی پینے اور اس کے ساتھ غسل کرنے سے ان کی ساری بیماری دور ہوگئی اور وہ پوری طرح صحت مند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے گھر والے بھی عطا فرما دیے اور اتنے ہی اور عطا فرما دیے۔ بیماری کے دوران انھوں نے کسی پر ناراض ہو کر اسے کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، اب وہ سزا زیادہ سمجھ کر پریشان تھے کہ اسے اتنے کوڑے ماروں تو زیادتی ہوتی ہے، نہ ماروں تو قسم ٹوٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مشکل بھی حل فرما دی کہ اتنے تنکوں کا مٹھا لے کر ایک دفعہ مار دو ، جتنے کوڑے مارنے کی تم نے قسم کھائی تھی، اس سے تمہاری قسم پوری ہوجائے گی، قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ (تفسیر القرآن ازعبد السلام بھٹوی سورۃ الأنبياءآیت نمبر 83)

3:جتنا ایمان پختہ ہوگا اتنی آزمائش سخت :

عن سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ : « الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ «. (سنن الترمذی : 2398)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔

 4:اللہ تعالیٰ کا ارادئے خیر :

مریض کو اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی و خیر چاہتا ہے ۔تاکہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کے ذریعے اس کے گناہ مٹادے گا اور اس کے درجات بلند فرمائے گا ۔

عن أَبَي هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ (صحيح البخاري :5645)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر وبھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے۔ (سنن الترمذی: 2396)

 نبی کریم ﷺنے فرمایا :

إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللهُ فِي جَسَدِهِ، أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ (سنن أبي داود: 3090)

’’جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا ۔‘‘

 5:بیماری پر صبر :

عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ؛ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (صحيح مسلم :2999)

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کا معاملہ عجیب ہے ۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے ۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو ( اللہ کی رضا کے لیے ) صبر کرتا ہے ، یہ ( بھی ) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔‘‘

حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ : قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : أَلَا أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ قُلْتُ : بَلَى. قَالَ : هَذِهِ الْمَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ : إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ لِي. قَالَ : « إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَكِ «. فَقَالَتْ : أَصْبِرُ. فَقَالَتْ : إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ أَنْ لَا أَتَكَشَّفَ. فَدَعَا لَهَا (صحيح البخاري : 5652)

عطاء بن ربیع فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔

6: بیماری کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے :

حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ-أَوْ أُمِّ الْمُسَيَّبِ- فَقَالَ: مَا لَكِ يَا أُمَّ السَّائِبِ-أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَّبِ – تُزَفْزِفِينَ؟  قَالَتِ: الْحُمَّى، لَا بَارَكَ اللهُ فِيهَا. فَقَالَ:  لَا تَسُبِّي الْحُمَّى ؛ فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ، كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ(صحيح مسلم : 2575)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری خاتون ام سائب یا ام مسیب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے ، آپ نے فرمایا :’’ ام سائب یا ام مسیب ! تمہیں کیا ہوا ؟ کیا تم شدت سے کانپ رہی ہو ؟‘‘ انہوں نے کہا : بخار ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے ! آپ نے فرمایا :’’ بخار کو برا نہ کہو ، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے ۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : ذُكِرَتِ الْحُمَّى عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَّهَا رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبَّهَا ؛ فَإِنَّهَا تَنْفِي الذُّنُوبَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ (سنن ابن ماجه : 3469)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بخار کا ذکر ہوا تو ایک آدمی نے اسے برا بھلا کہا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اس (بخار) کوبرا نہ کہو۔اس سے گناہ اس طرح دور ہو جاتے ہیں جس طرح آگ سے لوہے کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے۔‘‘

7:بیماری گناہوں کا کفارہ :

سیدنا سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ «.(سنن الترمذي : 2398)

مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے،یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ، وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحيح البخاري :5641)

سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا مسلمان جب بھی کسی پریشانی،بیماری،رنج وملال،تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي، فَقُلْتُ : إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا. قَالَ: أَجَلْ، كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ «. قَالَ : لَكَ أَجْرَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى ؛ مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حَطَّ اللهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا(صحيح البخاري : 5667)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہو ا تھا میں نے آپ کا جسم چھو کر عرض کیا کہ آپ ﷺکو بڑا تیز بخار ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ہاں تم میں سے دو آدمیوں کے برابر ہے۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺکا اجر بھی دو گنا ہے۔کہا ہاں پھر آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو بھی جب کسی مرض کی تکلیف یا اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے گناہ کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت اپنے پتوں کو جھاڑ تا ہے۔

عَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا (صحيح البخاري: 5640)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ بنادیتا ہے (کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔

8:حالت صحت میں کیے ہوئے اعمال حالت مرض میں لکھے جائیں گے :

عن أَبَى مُوسَى قال قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا (صحيح البخاري : 2996)

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ : إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ.(صحيح البخاري :6416)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے شام ہوجائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اورصبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو۔اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے۔

9:بیمار کی عیادت :

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ عَادَ مَرِيضًا لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ «.(صحيح مسلم : 2568)

 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے وہ واپس آنے تک مسلسل جنت کے باغیچوں میں رہتا ہے ۔‘‘

10:بیمار کے لیے دعا:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَى مَرِيضًا أَوْ أُتِيَ بِهِ قَالَ : « أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا «

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یاکوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ یہ دعا فرماتے،اے پروردگار لوگوں کے! بیماری دور کردے،اے انسانوں کے پالنے والے! شفا عطا فرما،توہی شفا دینے والا ہے۔تیری شفا کے سوا اور کوئی شفا نہیں،ایسی شفا دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔ (صحيح البخاري : 5675)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اشْتَكَيْتَ ؟ فَقَالَ : « نَعَمْ «. قَالَ : بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ، أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللهُ يَشْفِيكَ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ. (صحيح مسلم : 2186)

سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اے محمد ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات فرمائے ’’ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ، ہر اس چیز سے ( حفاظت کے لئے ) جو آپ کو تکلیف دے ، ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے ، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ۔‘‘

حدیث نبوی میں حیوانات اور حشرات کا تذکرہ

 قارئین کرام ! رسول اللہ ﷺ کے فرامین میں ہمارے لیے بہت سی نصیحتیں اسباق و احکام موجود ہیں۔ حدیث نبوی کے بہت سے جہات ایسے ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں جاتی اس لیے وہ گوشے ہم سے مخفی رہتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم رسول اللہ کے تمام فرامین کا مطالعہ رکھیں۔ لہذا اس ضمن میں ہم آپ کی خدمت میں بعض ایسی احادیث کا ذکر کر رہے ہیں جن کا تعلق حیوانات اور حشرات سے ہے جن میں بہت سے فضائل احکام اور اسباق موجود ہیں۔ آئیں حدیث نبوی کا یہ گوشہ ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ بکری جنتی جانوروں میں سے ہے

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الشَّاةُ مِنْ دَوَابِّ الْجَنَّةِ.

بکری جنت کے جانوروں میں سے ہے ۔(سنن ابن ماجة: 2306)

2۔ بکریوں میں برکت ہے

سيدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اتَّخِذُوا الْغَنَمَ، فَإِنَّ فِيهَا بَرَكَةً.

بکریاں پالو، اس لیے کہ ان میں برکت ہے ۔(سنن ابن ماجة: 2304 مسند أحمد: 27381)

3۔ گھوڑوں کی پیشانی میں خير ہے

سیدنا عروہ بارقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ يَرْفَعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْإِبِلُ عِزٌّ لِأَهْلِهَا وَالْغَنَمُ بَرَكَةٌ وَالْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ .

اونٹ ان کے مالکوں کے لیے قوت کی چیز ہے، اور بکریاں باعث برکت ہیں، اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لیے بھلائی بندھی ہے ۔(سنن ابن ماجة: 2305)

4۔ مینڈک قتل کرنا منع ہے

سیدنا عبدالرحمن بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

أَنَّ طَبِيبًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضِفْدَعٍ يَجْعَلُهَا فِي دَوَاءٍ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِهَا.

ایک طبیب نے نبی اکرم ﷺ سے دوا میں مینڈک کے استعمال کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا۔(سنن ابي داود: 3871)

5۔ چار جانداروں کو قتل کرنا منع ہے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَهَى عَنْ قَتْلِ أَرْبَعٍ مِنَ الدَّوَابِّ:‏‏‏‏ النَّمْلَةُ،‏‏‏‏ وَالنَّحْلَةُ،‏‏‏‏ وَالْهُدْهُدُ،‏‏‏‏ وَالصُّرَدُ.

نبی مکرم ﷺ نے چار جانوروں کے قتل سے روکا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہد ہد، لٹورا چڑیا۔(سنن ابى داود: 5267)

6۔ چھپکلی موذی جانور ہے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْوَزَغُ الْفُوَيْسِقُ.

چھپکلی فاسق جانور ہے۔(صحیح بخاری: 1831 سنن نسائی: 2886)

7۔ چھپکلی کو مارنے کا اجر

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ قَتَلَ وَزَغَةً فِي أَوَّلِ ضَرْبَةٍ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، وَمَنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّانِيَةِ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، لِدُونِ الْأُولَى، وَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ فَلَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، لِدُونِ الثَّانِيَةِ.

جس شخص نے پہلی ضرب میں چھپکلی کو قتل کر دیا اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں اور جس نے دوسری ضرب میں مارا اس کے لیے اتنی اتنی ، پہلی سے کم نیکیاں ہیں اور اگر تیسری ضرب سے مارا تو اتنی اتنی نیکیاں ہیں ، دوسری سے کم ( بتائیں ۔ )(صحيح البخاري: 2240)

8۔ سانپ کو قتل کرو

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ، وَاقْتُلُوا ذَا الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرَ، فَإِنَّهُمَا يَطْمِسَانِ الْبَصَرَ، وَيَسْتَسْقِطَانِ الْحَبَلَ.

سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاری اور دم کٹے سانپ کو ضرور مارو، اس لیے کہ یہ دونوں آنکھ کی بینائی زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری: 3297)

9۔ جو سانپوں سے ڈر کر انہیں قتل نہ کرے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَرَكَ الْحَيَّاتِ مَخَافَةَ طَلَبِهِنَّ فَلَيْسَ مِنَّا.

جو شخص سانپوں کو اس ڈر سے چھوڑ دے کہ وہ پلٹ کر ہمارا پیچھا کریں گے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(سنن ابي داود: 5250)

10۔ نماز میں بچھو اور سانپ قتل کیا جا سکتا ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اقْتُلُوا الْأَسْوَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ:‏‏‏‏ الْحَيَّةَ وَالْعَقْرَبَ.

نماز میں دونوں کالوں سانپ اور بچھو کو ( اگر دیکھو تو ) قتل کر ڈالو ۔ (سنن ابی داود: 921)

11۔ پانج جانوروں کو حرم میں بھی قتل کرنے کا حکم ہے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ ، يَقْتُلُهُنَّ فِي الْحَرَمِ : الْغُرَابُ ، وَالْحِدَأَةُ ، وَالْعَقْرَبُ ، وَالْفَأْرَةُ ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ.

پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔(صحيح بخاري: 1829)

12۔ گائے کے دودھ میں شفا ہے۔

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ لَمْ يُنْزِلِ دَاءً إِلا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً إِلا الْهَرَمَ، فَعَلَيْكُمْ بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا تَرُمُّ مِنْ كُلِّ شَجَر.

یقینا اللہ عزوجل نے جو بھی بیماری نازل كی اس كے ساتھ شفا بھی نازل كی ہے سوائے بڑھاپے کے ۔ گائے كا دودھ لازم كرو كیوں كہ یہ ہر درخت سے چرتی ہے۔(الصحيحة: 518)

ایک روایت کے لفظ ہیں:

أَلْبَانُهَا شِفَاءٌ وَسَمَنُهَا دَوَاءٌ وَ لُحُومُهَا دَاءٌ.

اس كا دودھ شفا ہے اس كا گھی دوا ہے اور اس كا گوشت بیماری ہے۔ (الصحیحة: 1533)

13۔ اگر مشروب میں مکھی گر جائے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ، ثُمَّ لِيَطْرَحْهُ ؛ فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً، وَفِي الْآخَرِ دَاءً.

جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفاء اور دوسرے میں بیماری ہے۔(صحیح بخاری: 5782)

14۔ اگر کتا برتن میں منہ ڈال لے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا.

جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے کچھ پی لے تو وہ اسے سات مرتبہ دھوئے۔(صحيح بخارى: 172)

15۔ شوقیہ کتا پالنے کی قباحت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا فَإِنَّهُ يَنْقُصُ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ.

جس شخص نے کوئی کتا رکھا، اس نے روزانہ اپنے اعمال میں سے ایک قیراط کی کمی کر لی۔ البتہ کھیتی یا مویشی کی حفاظت کے لیے کتے اس سے الگ ہیں۔(صحيح البخاري: 2322)

ایک روایت کے لفظ ہیں:

نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ.

اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوں گے۔(صحیح مسلم: 1574)

16۔ جس گھر میں کتا ہو فرشتے داخل نہیں ہوتے

سيدنا ابن عمر رضى الله عنہما سے روایت ہے کہ:

وَعَدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ فَقَالَ: إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ.

ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نے نبی اکرمﷺ کے پاس آنے کا وعدہ کیا تھا ( لیکن نہیں آئے ) اور کہا: ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویر یا کتا ہو۔(صحیح بخاری: 3227)

17۔ کالا کتا شیطان ہے

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ عَنِ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ الْبَهِيمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ شَيْطَانٌ .

میں نے رسول اللہ ﷺ سے خالص سیاہ کتے کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان ہے ۔(سنن ابن ماجة: 3210)

18۔ مرغ کو برا بھلا نہ کہو

سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تَسُبُّوا الدِّيكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُوقِظُ لِلصَّلَاةِ.

مرغ کو برا بھلا نہ کہو، کیونکہ وہ نماز (فجر) کے لیے جگاتا ہے ۔(سنن ابی داود: 5101)

19۔ مرغ کی بانگ سننے پر فضل کا سوال کرو

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا

جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، بیشک اس نے فرشتہ دیکھا ہے۔(صحیح البخاري: 3302)

20۔ جب گدھے کی آواز سنائی دے

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا.

جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔(صحیح البخاري: 3302)

21۔ اگر گھی میں چوہا گر جائے

سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

رسول اللہ ﷺ سے چوہے کے بارہ میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أَلْقُوهَا وَمَا حَوْلَهَا ، فَاطْرَحُوهُ وَكُلُوا سَمْنَكُمْ.

اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس ( کے گھی ) کو نکال پھینکو اور اپنا باقی گھی استعمال کرو۔(صحيح البخاري: 235)

22۔ خرگوش کا گوشت حلال ہے

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

أَنْفَجْنَا أَرْنَبًا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ فَسَعَوْا عَلَيْهَا حَتَّى لَغِبُوا فَسَعَيْتُ عَلَيْهَا حَتَّى أَخَذْتُهَا فَجِئْتُ بِهَا إِلَى أَبِي طَلْحَةَ فَبَعَثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَرِكَيْهَا أَوْ فَخِذَيْهَا فَقَبِلَهُ.

ہم نے مر الظہران کے مقام پر ایک خرگوش کو ابھارا لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر نہ پایا پھر میں اس کے پیچھے لگا اور اسے پکڑ لیا اور اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، انہوں نے نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں اس کا کولھا اور دونوں رانیں بھیجیں تو آپ ﷺ نے انہیں قبول فرما لیا۔(صحیح بخاری: 5489)

سنن ابی داود میں ہےمحمد بن صفوان بیان کرتے ہیں کہ:

اصَّدْتُ أَرْنَبَيْنِ فَذَبَحْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ عَنْهُمَا فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهِمَا.

میں نے دو خرگوش شکار کئے اور انہیں ایک سفید (دھار دار) پتھر سے ذبح کیا، پھر ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے مجھے ان کے کھانے کا حکم دیا۔ (سنن ابی داود: 2822)

23۔ چیونٹیوں کو جلانا منع ہے

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قَرَصَتْ نَمْلَةٌ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ فَأَمَرَ بِقَرْيَةِ النَّمْلِ فَأُحْرِقَتْ ، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْهِ أَنْ قَرَصَتْكَ نَمْلَةٌ أَحْرَقْتَ أُمَّةً مِنَ الْأُمَمِ تُسَبِّحُ.

ایک چیونٹی نے ایک نبی کو کاٹ لیا۔ تو ان کے حکم پر چیونٹیوں کے سارے گھر جلا دئیے گئے ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تمہیں تو فقط ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے ایک ایسی مخلوق کو جلا دیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی ۔(صحیح البخاري: 3019)

24۔ تفریح کے لیے چڑیا کے بچے پکڑنا

سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا فَجَاءَتِ الْحُمَرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا.

ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ اپنی ضرورت کے لیے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی کریمﷺ آ گئے، اور یہ دیکھ کر فرمایا: اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے؟ اس کا بچہ اسے واپس کردو۔(سنن أبي داود: 2675)

25۔ بلی نجس نہیں ہے

سيدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ إِنَّمَا هِيَ مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ أَوِ الطَّوَّافَاتِ.

یہ (بلی) نجس نہیں ہے، یہ تو تمہارے پاس برابر آنے جانے والوں یا آنے جانے والیوں میں سے ہے۔(سنن الترمذي: 92)

26۔ بلی کی وجہ سے عذاب

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا ، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ.

ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوا جسے اس نے اتنی دیر تک باندھے رکھا تھا کہ وہ بھوک کی وجہ سے مر گئی۔ اور وہ عورت اسی وجہ سے دوزخ میں داخل ہوئی۔ (صحيح البخاري: 2365)

27۔ بلی اور کتے کی قیمت منع ہے

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّنَّوْرِ.

نبی معظمﷺ نے کتے اور بلی کی قیمت ( لینے ) سے منع فرمایا ہے۔(سنن أبي داود: 3479)

28۔ پالتو گدھے کا گوشت حرام ہے

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے:

أَكَلْنَا زَمَنَ خَيْبَرَ الْخَيْلَ، وَحُمُرَ الْوَحْشِ، وَنَهَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِمَارِ الْأَهْلِيّ.

خیبر کے زمانے میں ہم نے جنگلی گدھوں ( گورخر ، زیبرا ) اور گھوڑوں کا گوشت کھایا اور نبی معظمﷺ نے ہم کو پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا ۔(صحیح مسلم: 1941)

29۔ کچلی والا درندہ حرام ہے

سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

أَتَيْت النَّبِي ﷺ‌ فَقُلْت: يَا رَسُول الله حَدِّثْنِي ما يَحُل لِي مِمَّا يُحَرَّم علي، فَقَال: لَا تَأَكُلْ الْحِمَار الْأَهْلِي ولَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاع.

میں نبی کریم ‌ﷺ ‌كے پاس آیا اور كہا: اے اللہ كے رسول ! جوچیزیں مجھ پرحرام ہیں ان میں سے میرے لئے حلال بیان کیجیے؟ تو آپ نے فرمایا: گھریلو گدھا نہ كھاؤ اور نہ كچلی والا درندہ كھاؤ۔(الصحيحة: 475)

30۔ گھوڑے کا گوشت حلال ہے

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ :

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ.

جنگ خیبر میں رسول اللہ ﷺ نے گدھے کا گوشت کھانے کی ممانعت فرما دی تھی اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی رخصت دی تھی۔(صحیح بخاری: 5520)

عَنْ جَابِرٍ قَالَ : كُنَّا نَأْكُلُ لُحُومَ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑے کا گوشت کھاتے تھے۔ (سنن نسائی: 4335)

بھوک اور افلاس کے خاتمے کے لیے اسلام کے رہنما اصول

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف عطا کر کے پیدا کیا ہے اور یہ شرف انسان کی عملی زندگی میں تبھی نظر آئے گا جب انسان معاشی طور پر نہ صرف خودکفیل ہو بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہو۔ معاشی خوشحالی نہ صرف انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار اور خود دار بناتی ہے بلکہ اس میں اتنی فارغ البالی پیدا کرتی ہے کہ وہ انسانیت کی اجتماعی فلاح وبہبود کے لیے غور وفکر کرتا ہے اور بہترین افکار ونظریات پیش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص بھوک وافلاس میں مبتلاہو ،قریب ہے کہ اس کا افلاس اسے کفر کے قریب پہنچادے۔ اگر کفر کے قریب نہ بھی پہنچائے تب بھی وہ مہذب و شائستہ زندگی نہیں گزار سکتا اور نہ ہی قوم وملک اور انسانیت کے لیے کوئی اعلیٰ فکر دے سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں معاشی خوشحالی کو خیر ،بھلائی اور اپنی نعمت قرار دیا ہے اور اس کے حصول کے لیے طریقے بتائے ہیں اور آپ ﷺ نے معاشی بدحالی،بھوک وافلاس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی ہے اور معاشی خوشحالی کے حصول کے لیے راستے بتائے ہیں

اس مضمون میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ اسلام نے بھوک وافلاس کے خاتمے کے لیے کیا رہنما اصول دیے ہیں۔

اسلام نے بھوک وافلاس کے خاتمے کے لیے کچھ رہنما اصول دیے ہیںجو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

(۱): اسلام کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہر شخص محنت اور جدوجہد کر کے اپنی روزی خود حاصل کرے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جاں فشانی،محنت و مشقت کے بغیر کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے محنت وسعی لازم ہے۔ اگر ہم اپنے ماضی کا مطالعہ کریں ،تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں بادیہ نشینوں نے محنت و جدوجہد کو اپنایا تو وہ صحرائے عرب سے اُٹھ کر ایک عالم پر چھا گئے اور دنیا کے ہر شعبے میں چاہے وہ عبادت ہوں معاملات ہوں ،معیشت ہو یا معاشرت، سائنس ہو یا شعروادب، غرض اپنی محنت و جاں فشانی سے بحروبر مسخر کر لیے اور پوری دنیا میں ہدایت وعلم کی روشنی میں پھیلانے کا ذریعہ بنے۔

آپ ﷺ کے فرامین اور عملی زندگی سےہمیں پیہم، محنت و مشقت اور جان فشانی کی تلقین ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے بچپن میں بکریاں چرائیں، بعثت سے پہلے باقاعدہ تجارت کی اور تجارت کی غرض سے طویل سفر  کیے۔بیت اللہ کی تعمیر میں حصہ لیا ، رسول اللہ ﷺاپنے جوتوں کی مرمت خود فرمالیتے اور سیتے تھے۔ انبیائے کرام رضوان اللہ اجمعین جہاں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داریاں مکمل طور سے ادا فرماتے اور رسالت کی تبلیغ فرماتے وہاں دینوی اعتبار سے بھی ان کی محنت ،سعی اور کوشش کی واضح مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ چنانچہ سیدنا آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ سیدنا نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کشتی بنائی۔ سیدنا داؤد علیہ السلام لوہے کا کام کرتے تھے ۔آپ علیہ السلام لوہے سے زرہیں اور دیگر سامان ِ جنگ بناتے تھے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اجرت پر دس سال سیدنا شعیب علیہ السلام کے ہاں خدمت گزاری کی۔ سیدنا ادریس علیہ السلام کپڑے بنتے تھے ۔ سیدنا زکریا علیہ السلام کپڑے سیتے تھے ۔ جد الانبیاء سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام راج گیری کا کام کرتے تھے۔ باپ بیٹے نے مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی ۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نےدس سال تک بکریاں چرائیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے بھی کبھی محنت سے جی نہیں چرایا اور کوئی بھی حلال پیشہ اپنانے میں عار نہ سمجھا، بلکہ اپنے عمل سے اُمت پر یہ ثابت کردیا کہ عزت اور عظمت معاشی جدوجہد میں مضمر ہے۔سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زمام اقتدارسنبھالنے کے بعد گردونواح میں کپڑا بیچا اور ضرورت مندوں کا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تجارت کرتے تھے ،بہترین کمائی مزدور کی کمائی ہے، کیونکہ وہ جسم کی تمام توانائیاں صرف کرتا ہے۔ اگر مزدور کی حق اور بھلائی بھی پیش رکھے تو اس کا درجہ بہت ُبلند ہے (۱)

قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ نے محنت اور جدوجہد کر کے اپنی روزی خود حاصل کر کے کھانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔

اسلام میں کسب معاش کی اہمیت:

اسی لیے اسلام میں کسبِ معاش کی اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ دن کی یہ روشنی اسی لیے ہے کہ تلاشِ معاش میں سہولت ہو:

وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (۲)

زمین کے بارے میں فرمایا کہ وہ بھی تمہارے لیے حصولِ معاش کا زریعہ ہے:

وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ (۳)

طلب معاش کو جائز اور درست قرار دیا گیا:

اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ(۴)

کسب معاش کے لیے سفر کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی :

وَ اٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ (۵)

بلکہ کسب معاش اور اس کے لیے تگ ودو کا حکم فرمایا گیا:

فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَ ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ(۶)

محنت کا ذکر حدیث نبوی ﷺ میں:

احادیث میں بھی کسب معاش کی فضیلت کے سلِسلہ میں کثرت پائی جاتی ہے یہاں تک آپ ﷺ نے سچے اور امانت دار تاجر کو فرمایا کہ اس کا حشر انبیاء ، صدیقین شہدا کے ساتھ ہو گا۔ (٧)

آپ نے فرمایا کہ بہتر آدمی کے لیے مالِ حلال بہتر شےہے۔ (۸)

حدیث شریف میں محنت یعنی مزدوری اور عملِ ید یعنی انسان کے خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی بڑی عظمت اور فضیلت وارد ہوئی ہے۔ مثلاً «بخاری» میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں :

«مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الغَنَمَ» ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: وَأَنْتَ؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ» (۹)

یعنی اللہ نے کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا جس نے اجرت پر بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے (متحیر ہو کر) سوال کیا:» اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ نے بھی یہ کام کیا ہے َ» اس کا جواب نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایہ ہم سب کے لیے بہت اہم ہے، اس لیے کہ اس میں حضور ﷺ کا تواضع و انکسار ی بھی نمایا ں طور پر جھلک رہی ہے:« میں تو چند قراریط کے عوض(چند ٹکوں کے عوض) مکہ کے لوگوں کے جانور چرایا کرتا تھا» معلوم ہوا کہ اجرت یا مزدوری یا دوسروں کے لیے کام کرنا ہر گز باعثِ ندامت یا موجبِ شرم نہیں ہے۔ اس لیےکہ اگرچہ یہ تو مسلّمات میں سے ہے کہ جو شخص خود اپنے سرمائے سے کام کر رہا ہو خواہ وہ چھابڑی ہی لگاتا ہو اس کے لیے کسی احساسِ کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جبکہ انسان کسی اور کے لیے اُجرت پر کام کرنے میں یقیناً عار محسوس کرتا ہے لیکن نبی اکرم ﷺ نے اس کے لیے فرمایا کے میں خود اجرت پر دوسروں کے لیے کام کرتا رہاہوں ۔ لہذا یہ قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ ہرگز ایسی بات نہیں ہے جس پر انسان کسی بھی درجے میں ندامت یا شرم محسوس کرے۔(۱۰)

فریضہ طلبِ حلال:

«طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِيضَةٌ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ»

’’رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔‘‘(۱۱)

سیدنا داؤد علیہ السلام اور عملِ ید:

اسی طرح بخاری ہی کی حدیث کا حوالہ بھی یہاں بے محل نہ ہو گا جو کہ سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں:

«مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ» (۱۲)

’’کسی شخص نے ان سے بہتر روزی نہیں کھائی جس نے اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کمائی اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کماتے تھے۔‘‘

محنت اور جائز تجارت:

عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ»

’’سیدنا رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کون سی کمائی سب سے پاکیزہ ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر جائز تجارت۔‘‘ (۱۳)

سوال کی مذمّت اور محنت مزدوری کی ترغیب:

یہاں بنی اکرم ﷺ نے جس طرح سوال کرنے کی بجائے محنت مزدوری کرکے پیٹ پالنے کی ترغیب دلائی ہےوہ بھی پیشِ نظر رہے:

«لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ، فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ، فَيَبِيعَهَا، فَيَكُفَّ اللهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ»(۱۴)

’’ تم میں سے کسی شخص کا رسی لے کر پہاڑ پر چلا جانا اور پھر لکڑیوں کا گھٹہ پیٹھ پر لاد کر بیچنا اور اس طرح اپنے چہرے کو (یعنی عزتِ نفس کو) بچانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کے اور وہ چاہے تو اس کو کچھ دے دیں اور چاہے تو خالی ہاتھ لوٹا دیں ۔‘‘

محدثین کے نزدیک بہترین ذریعہ معاش:

مشہور عالم علامہ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر کسبِ حلال کے تین ذرائع ہیں ۔

(۱) زراعت

(۲) تجارت

(۳)صنعت

اس میں سے کون سا زریعہ معاش زیادہ بہتر ہے، علماءکرام نے اپنی راے کے مطابق اس کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ تجارت سب سے افضل ہے۔ خود ماوردی کی رائے ہے کہ زراعت کی فضیلت زیادہ ہے۔ (۱۵)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ہی جگہ ایسی حدیثیں جمع کردی ہیں جو تجارت و زراعت اور صنعت کی اسلام میں اہمیت اور پیغمبرِ اسلام کی نگاہ میں شرف و فضیلت بتاتی ہیں۔ (۱۶)

قَال مُحَمَّدٌ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ: ثُمَّ الْمَذْهَبُ عِنْدَ جُمْهُورِ الْفُقَهَاءِ أَنَّ الْكَسْبَ بِقَدْرِ مَا لاَ بُدَّ مِنْهُ فَرِيضَةٌ

’’ محمد بن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بقدر کفایت روزی کمانا ہر شخص پر فرضِ عین ہے ۔‘‘(۱٧)

(۲): دوسرا اصول یہ ہے کہ مالدار لوگ غرباء و مساکین کی مالی مدد کریں ۔

اسلام نے نفع مند مال کی تعریف کی ہے اور اس مال کے کمانے کی خواہش اور حرص کو اسے احسن طریقے سے خرچ کرنے اور اس مال کو مزید ثمر آور بنانے کو ضروری قرار دیا ہے ۔ ایسے مال دار آدمی کو سراہا ہے جو مال ملنے پر شاکر ہو اور اس مال کو لوگوں کی منفعت اور خیر خواہی کے لیے خرچ کرے جب کہ اس ضمن میں سوائے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے اور کوئی چیز اس کے پیشِ نظر نہ ہو۔محتاجوں،غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد،معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دینِ اسلام کا بنیادی درس ہے، دوسروں کی مدد کرنے ان کے ساتھ تعاون کرنے ان کےلیے روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دینِ اسلام نے اپنے رب کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مال دار لوگوں کو اپنے مال میں سےغریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحبِ استطاعت پر واجب ہے کہ مال دار لوگ غریب ،مسکین ،یتیم کی مقدور بھر مدد کریں ۔

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ١ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ١ۙ وَالسَّآىِٕلِيْنَ۠ وَفِي الرِّقَابِ١ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پراور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں،یتیموں،محتاجوں ،مسافروں،سوال کرنے والوں،غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جونماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کرے تو اسے پورا کرتے ہیں ۔ سختی،مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں ۔‘‘(۱۸)

قرآن حکیم ہی کی ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

يَسْـَٔلُوْنَكَ مَاذَايُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ١ؕ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ

’’(لوگ) آپ ﷺ سے سوال پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ۔ فرما دیجیے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست) ہےمگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بےشک اللہ اسے خوب جاننے والاہے۔ ‘‘(۱۹)

اسلام میں سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں ، بےکسوں،معذوروں، بیماروں ، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود ہے۔اور یہ مقصد اُسی وقت حاصل ہو سکتا ہےجب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوی کا خاتمہ کر کے معاشرے میں دولت اورضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکے۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و محتاجی کو دور کرنے کے لیے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمہ قرضِ حسنہ قرار دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ

’’ تم جوکچھ مال خرچ کر رہے ہو یہ سب (اس کا ثواب) تم کو پورا پورا مل جائے گا اور تمہاے لیے اس میں ذرا کمی نہیں کی جائے گی۔ ‘‘(۲۰)

دوسرو کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسنددیدہ عمل ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِيَ١ۚ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ١ؕ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ١ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ

’’ اگر تم ظاہر کرکے دو صدقوں کو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر ان سے چھوپا کر دو ان فقیروں کو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ (اس کی برکت سے) تمہارے کچھ گناہ بھی دور کر دیں گے اور اللہ تمہارے کیے ہوئے کاموں کو خوب خبر رکھتے ہیں ۔ (۲۱)

دینِ اسلام سراسر خیر خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے۔ دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہےجو کہ اطمنانِ قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے ۔

صدقہ کرنے والوں کی حدیث مبارکہ میں حوصلہ افزائی

«إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ»

’’صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب و ناراضگی کو ختم کر دیتا ہے اور بُری موت سے بچاتا ہے۔‘‘ (۲۲)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الصَّدَقَةُ عَلَى المِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ

’’مسکین پر صدقہ صرف صدقہ ہے اور رشتہ دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں کیونکہ یہ اس کے لیے صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔‘‘(۲۳)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ، حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الجَبَلِ»

جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز کو قبول کرتا ہے تو رحمٰن ایسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے، اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو۔ یہ مال صدقہ رحمٰن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کے وہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (۲۴)

محسنِ انسانیت رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا کرتے بلکہ عملی طور پر آپ ﷺ خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ مسجدِ نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لیے آپ ﷺ کے پاس آئی ، آپ ﷺ صحابہ کرام کے درمیان سے اُٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں چلے گئے اور اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر مطمئن کر کے اسے بھیج دیا۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے کے حاجت مندوں کی مدد کے لیے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جانے کے لیے تیار ہوں۔ (۲۵)

حدیثِ نبوی ﷺ ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتاہے۔ جوشخص اپنے کیسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہےاللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن ستر پوشی فرمائے گا۔(۲۶)

ارشاد نبویﷺ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ (۲٧)

لہذا ہمیں ان احادیث مبارکہ کے مطابق اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کرنی چاہئیے تاکہ دین و دنیا کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو اور یہی حقیقی زندگی ہے۔

(۳): تیسرا اُصول یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو وسائل معاش فراہم کرکے دے ، یا ایسے کارخانے لگائے یا ایسے وسائل تلاش کرے جہاں سے لوگ روزی روٹی حاصل کریں ۔ اسی طرح مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرکے فقراء و مساکین بیواؤں، یتیموں ، بوڑھوں اور کمزوروں تک پہنچائے یا مالداروں پر ٹیکس لگا کر غرباء کی کفالت کرے۔

اسلامی نظامِ معیشت میں تمام مسلمانوں کو حقُ المعاش کے مساوی حقوق دئیے گئیے ہیں اور بنیادی حقُ المعاش کی فراہمی یاست کی زمہ داری ہے۔ (۲۸)

کتاب الخراج میں ایک روایت نقل کی ہے جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔

« سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں میں سے کسی شخص کے دروازے کے پاس سے گزرے وہاں ایک سائل سوال کر رہا تھا جو نہیات ضعیف اور اندھا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے بازو پر پیچھے سے مارا اور کہا کہ تم کون سے اہلِ کتاب میں سے ہو اس نے کہا کے یہودی ہوں ۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے اس امر پر کس نے مجبور کیا جو میں دیکھ رہا ہوں ؟ اس نے کہا کہ میں جزیہ کی ادائیگی،حاجات کی تکمیل اور عمر رسیدگی کی وجہ سے سوال کرتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اِسے اپنے گھر لے گئے او اسے اپنے گھر سے کچھ مال دیا پھر ایسے بیت المال کے خازن کی طرف بھیجا اور کہا کے اسے اور اس کے قبیل کے دوسرے لوگوں کو دیکھو۔ اللہ کی قسم ہم نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہم نے اس کی جوانی سے تو خوب فائیدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں ایسے رسوا کر دیا (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی) (بے شک صدقات فقراء اور مساکین کے لیے ہے ) اور فرمایا فقراء سے مراد مسلمان ہیں اور یہ اہلِ کتاب مسکین میں سے ہیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے اور اس جیسے دیگر کمزور لوگوں سے جزیہ ساقط کردیا۔ (۲۹)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رعایا کو حق المعاش کی فراہمی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے صاحبانِ اقتدا پر لازم ہے کہ اس امر کا انتظام کریں کے کوئی بھی شخص حقِ معیشت سے محروم نہ ہو بلکہ ہر فرد کو حصولِ معیشت کا مساوی حق دیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں اور کاوشوں کو بروئے کار لا کر باعزت اور حلال طریقے سے اپنی روزی کما سکیں ۔نیز اہل ثروت پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال میں سے ضرورت مندوں ،غرباء اور محتاجوں کی معاشی ضرویات سے محروم نہ رہے۔ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر معاشرے میں غریب اور نادر لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوں اور دوسری طرف امراء عیش و عشرت کی زندگی گزاررہے ہوں تو اسلامی حکومت ان امیر لوگوں سے سختی کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرکے غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرے۔

اللہ تعالیٰ نے جن مقامات پر اپنے بندوں کو رزق فراہم کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ان میں اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا ہے ۔ یہ قرآنی احکام اس منشاء ایزدی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ لہذا اسلامی ریاست پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی اس بنیادی ذمہ داری کو پورا کرے کہ ایسا کرنے سے ہی اس کے قیام اور بقا کا جواز ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ : 

وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھر والا(جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ کےذمہ ہے۔ ‘‘(۳۰)

اس وعدۂ رب کے بعد اگر کوئی شخص بنیادی حق المعاش سے محروم ہے تو اس کی ذمہ داری براہ راست ریاست اور حکومت اسلامی پر عائد ہوتی کیونکہ حقوق اللہ کی تنفیذ اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینا من جانب اللہ اسلامی ریاست ہی کا حق ہے ۔ جیسے حدود کا اجراء حق اللہ میں سے ہے مگر اس کو تعزیری شکل میں ریاست نافذ کرتی ہے ۔ حدود و قصاص عشر زکوٰۃ وغیرہ لینا اسلامی ریاست کا فرضِ منصبی ہے۔ (۳۱)

تو یہ ہیں وہ اُصول جو رسول اکرم ﷺ نے ماتحتوں کے بارے میں وضع فرمائے ہیں اور یہی ہیں وہ اخلاقی تعلیمات ہیں ،کہ جب تک وہ کسی معاشرے میں بالفعل موجود نہ ہوں تو محض کوئی خالی قانونی ڈھانچہ ،خواہ اس کی کتنی ہی پیروی کیوں نہ کر لی جائے، معاشرے میں وہ برکات پیدا نہیں کر سکتا جو اسلام کی منشاء ہیں۔ (۳۲)

حوالہ جات

(۱)ترمذی،حدیث نمبر ۱۲۲۲،ج۳/ص۵۳۴۔

(۲)سورۃ نباء، آیت، ۱۱

(۳)سورۃاعراف،آیت ۱۰

(۴)سورۃ بقرہ آیت، ۱۹۸                

(۵)سورۃ مزمل آیت، ۲۰

(۶)سورۃ جمعہ ،آیت ،۱۰

(٧) ترمذی، عن ابی سعید الخدری، کتاب البیوع،باب ماجاء فی التجار

(۸)مجمع الزوائدج ۴/۶۴ص ،باب اتحاذ المال

(۹) بخاری ، حدیث ،نمبر۲۲۶۲ کتابُ الاجارہ

(۱۰)اسلام کا معاشی نظام ڈاکٹر اسرار احمد مرکزی انجمن خدّام القرآن، لاہور ،ص نمبر ۳٧

(۱۱) طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۰:۱۰۸،رقم:۱۰۱۱۸

(۱۲)بخاری کتاب: خرید وفروخت کے مسائل کا بیان حدیث،۲۰٧۲۔

(۱۳)شعرانی، کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ، ۲:۳

(۱۴) بخاری عن زبیر بن عوام، کتاب الزکوٰۃ ،باب سوال سے بچنے کا بیان، حدیث: ۱۴٧۱

(۱۵) عینی علی البخاری ج۶/۱۸۶

(۱۶)بخاری ،کتاب البیوع، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ

(۱٧)حوالہ الموسوعہ الفقھیہ الکویتیہ جلد ۴۰ /ص ۳۹

(۱۸) سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۱٧٧

(۱۹) حوالہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۱۵

(۲۰)حوالہ سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۲٧۲

(۲۱) سورۃ بقرۃ آیت نمبر ۲٧۱

(۲۲) جامع ترمذی ، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ، کتاب زکوٰۃ و صدقات کے احکام، حدیث ۶۶۴

(۲۳) ترمذی حدیث نمبر ۶۵۸           

(۲۴) ترمذی : حدیث ۶۶۱

(۲۵) بخاری ، محمد بن اسماعیل ،کتاب مظالم والغصب،حدیث ۴۴۲

(۲۶)ترمذی، باب ماجاء فی الستر علی ا؛مسلمِ، ابواب الحدود حدیث ،نمبر۱۴۲۵۔

(۲٧)سننِ ابوداؤد،حدیث نمبر ۴۶۴۹۔

(۲۸) امام ابو یوسف کتابُ الخراج،ص۱۸۳۔۱۱۳۔

(۲۹)ابو یوسف کتاب الخراج ص، ۱۳۶۔

(۳۰)سورۃہود، آیت، ۶۔

(۳۱)اقتصادی اسلامی ص ،منہاج القرآن ،طبع لاہور، ص ۱۹۸۔۱۹۹

(۳۲)اسلام کا معاشی نظام ڈاکٹر اسرار احمد مرکزی انجمن خدّام القرآن، طبع، لاہور،ص نمبر۴۰

حیات انسانی کی الجھنیں

انسان کی زندگی ایک ایسی الجھی ہوئی ڈور ہےجس کا سرا ڈھونڈتے بعض اوقات ساری عمر ہی بیت جاتی ہےمگر ڈور سلجھ ہی نہیں پاتی۔زندگی کی اس الجھی ڈور کو سلجھانے کے لیے جس فہم و فراست اور دور اندیشی اور دروں بینی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بھی ہر انسان میں نہیں ہوتی۔خال خال لوگ ہی ہوتے ہیں جنہیں اللہ کی یہ نعمت حاصل ہوتی ہے۔کم فہمی، عجلت پسندی اور حقائق سے لا علمی اور جھوٹی انا انسانی معاملات کو مزید پیچیدہ کردیتے ہیں۔اس دنیا میں کچھ لوگ غیر معمولی ذہانت، فطانت، عقابی نگاہیں اور عبقری شخصیت کے حامل ہوتے ہیں اور وہ ہر گزرتے ہوئے لمحے کو اپنی مٹھی میں قید کرلینے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ لوگ دنیا میں شہرت، دولت اور زندگی کی بے شمار آسائشوں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ان کی زندگی کا محور و مرکز یہی مادی دنیا ہوتی ہے، اس لیے ان کی تمام بھاگ دوڑ ، تمام سعی و جہد اسی فانی دنیا کے لیے ہوتی ہے۔وہ اپنی کاوشوں سے شہرت و کامرانی کی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ان کی شخصیت لوگوں کی مرکزِ نگاہ ہوتی ہے، جو چاہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں، مادہ پرستانہ سوچ ان کے ہر عمل سےنمایاں ہوتی ہے، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا ہوتا ہے وہ دنیا کے نفع و نقصان کو سامنے رکھ کر ہی تو کیا ہوتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:

وَ اَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى

’’اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘(النجم:39)

اس کے بر عکس کچھ لوگ اس دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی ساری بھاگ دوڑ ، سعی و جہد، ہمہ وقت، ہمہ جہت صرف ایک ہی زاویے میں ہوتی ہے کہ اس دنیا کی نعمتیں ملیں نہ ملیں ، لیکن ان کی آخرت کی دنیا بہتر اور نتیجہ خیز ہوجائے، ان کا ربّ ان سے راضی ہوجائے۔وہ ہر اس عمل سے خود کو بچاتے ہیں جس میں اللہ کے غضب کا امکان پیدا ہوتا ہو، ان کے نزدیک یہ دنیا برتنے کی چیز ہے اسی میں کھو کر رہ جانا ، دنیا ہی کو دل میں بسا لینا ان کا مطمح نظر نہیں ہوتا۔

بقولِ اکبر الہ آبادی :

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

چنانچہ جس طرح دنیا کی طلب ، اس کی تگ و دو آخر کار انسان کو کم و بیش دنیا دے ہی دیتی ہے، اسی طرح انسان آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے جسم وجان کی تمام توانائیاں کھپادیتا ہے تو اسے آخرت کی فلاح اور ربّ تعالیٰ کی نظر کرم حاصل ہونے کی امید پیدا ہوجاتی ہے۔حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے:

’’ایمان والا امید اور خوف کے درمیان رہتا ہے۔‘‘

انسان اپنی کوشش، ارادہ، عزم صمیم ،اپنی خواہش اور طلب کی شدت سے کامیاب اور فتح مند توہوجاتا ہے ۔اس لیے کہ حرکت میں برکت ہے اور اللہ کسی کے عمل کو ضا ئع نہیں کرتا۔بہر حال انسان کو صلہ تو مل ہی جاتا ہے ، کیونکہ اللہ نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجاہے اس کے ہاتھ پیر باندھ کر نہیں ،اور یہ دنیا اور اس کی مصلحتوں تقاضا بھی ہے۔تاہم کامیابی، فتح مندی، شہرت وناموری حاصل کرنا اور پھر اس کو اپنی زندگی میں قائم رکھنا ، دو الگ پہلو ہیں۔ایسے ہی جیسے اس دنیا ا ورآخرت کے قانون بالکل الگ الگ ہیں۔پانی اپنی سطح سے باہر نکل جائے تو ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔دودھ برتن کے اندر رہے تو بہتر ہے ، مگر وہ آگ کی حرارت سے ابل کر باہر آجائے تو وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوجاتے ہیں۔ان حقائق سے لاعلم ہوکر انسان بعض اوقات اپنی کامیابی ،اپنی شہرت و بلندی اور اپنے مقام و مرتبے کے احساس ِ برتری میں مبتلا ہوکر دوسرے انسانوں کو کمتر، حقیر اور بے وقعت سمجھنے لگتا ہے۔مختلف پیرائے میں ان کی تضحیک و توہین کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے، کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بھرا ہوتا ہے کہ یہ سب جو اسے حاصل ہے اس کی اپنی محنت، حکمتِ عملی اور بہترین منصوبہ بندی کے سبب ہے۔یہ سب میری ذہانت اور عبقریت کا نتیجہ ہے۔یہ وہ باغیانہ افکار و نظر یات ہیں جو انسان کے لیے اللہ سے دوری کا سبب بنتے ہیں۔اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی شکر گزاری کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ان کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے۔جس عمل میں اللہ کی ہدایت و فرماں برداری شامل نہ ہو وہ کسی اعتبار سے بھی اس کے لیے نعمت اور فلاح کا باعث نہیں بن سکتا۔جو چیز اپنے محل سے ہٹ جائے وہ اپنا مقام اور اپنا اثر کھودیتی ہے۔جس طرح عبارت طویل ہو جائے تو غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔اسلام کی تعلیم میں جو سب سے اعلیٰ وصف ہے وہ انسان کا اخلاق ہے اور اس دائرے میں انسانوں کے تمام رویے شامل ہیں۔

انسان عظیم و اشرف مخلوق ہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ علم و دانش کی صلاحیت رکھتا ہے۔انسان کو طاقت،وزن یا رنگ کی بنیاد پر دوسری مخلوقات پر فوقیت نہیں بخشی گئی کیوں کہ چیتا اس سے زیادہ طاقت اور ہاتھی اس سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔زیبرا ہر رنگ میں انسان سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے ۔غرض انسان طاقت،وزن یا صورت کا نام نہیں بلکہ انسانی جوہر کا ہے اور انسانیت کا جوہر وحی سے ہے۔اگر انسان کو علمِ وحی حاصل نہ ہو تو وہ انسان، انسان نہیں رہے گا، گو اس کی صورت انسان جیسی ہو۔لیکن انسان نام انسانی صورت کا نہیں بلکہ انسانی جوہر کا ہے اور انسانیت کا جوہر علمِ وحی ہے۔

جب انسان فطری قوانین (natural laws)کے بر خلاف کام کرتا ہے تو اس کے منفی اثرات اس کی زندگی پر ضرور پڑتے ہیں ۔ کیوں کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ ربّ کائنات کی عطا ہے۔ایک محدود مدت تک یہ سب اس کے پاس رہتا ہے پھر اللہ اپنی امانت واپس لے لیتا ہے۔سچی بات یہ ہے کہ ہماری تو اپنی زندگی اپنی نہیں ہے۔ جس کو بنانے سنوارنے میں انسان جائز ناجائز، حق ناحق اورظلم و زیادتی کے رویوں سے گریز نہیں کرتے ، لیکن پھر بھی ہم سے چھین لی جاتی ہے ہم اور ہمارے چاہنے والے روکنا چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔بالکل اسی طرح جیسے کچھ پھول شام ڈھلے اپنی پنکھڑیاں سمیٹ کر اپنی رعنایوں کے ساتھ اپنےہی وجود میں سما جاتے ہیں۔ہم چاہیں بھی تو ان سمٹی ہوئی پنکھڑیوں کو پھول نہیں بنا سکتے، کیونکہ قانونِ فطرت یہی ہے۔

اس دنیا میں کتنے ہی انسان ایک لمحے کی خوشی ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ دنیا ہی چھوڑ جاتے ہیں ، اسی کا نام زندگی ہے جسے انسان کو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔یہاں حقیقت کو فسانہ بنتے دیر نہیں لگتی ۔کوئی اپنے گھر سے تفریح منانے ،مسائل اور نا خوشگواریوں کی دھول کو اپنے ذہن سے جھٹکنے، مایوسیوں اور کلفتوں کی دبیز چادر کو اپنے اوپر سے اتار پھینکنے ، رزق کی تلاش، حصول علم میں یا محض اپنے شوقِ آوارگی کی تسکین کے لیے کھلی فضاؤں اور یخ بستہ ہواؤں کا لطف لینے سفر پر نکل جاتا ہے، اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ اس کی زندگی کا آخری سفر ہوگا۔روح وبدن کے ساتھ گھر سے چلا تھا اور بے روح ہوکر خاکی جسم کے ساتھ واپس لوٹے گا۔روح وبدن کی اس جدائی کا تسلسل ازل سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا کہ یہی منشاء الٰہی ہے جسے کوئی بدلا نہیں سکتا۔ہر انسان حالتِ سفر میں ہے ،کسی کا سفر دو گام چلتے ہی ختم ہوجاتا ہے اور کوئی ایک طویل شاہراہ پر چلتا جاتا ہے۔اس کے قویٰ شل ہونے لگتے ہیں ۔آرزوئیں دم توڑنے لگتی ہیں ۔ جذبات کی سرد لہریں جسم میں خون منجمد کرنے لگتی ہیں مگر سفر پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔راستے کی کٹھنائیاں سانسوں کو اتھل پتھل کردیتی ہیں۔چلتے چلتے پاؤں آبلہ پا ہوجاتے ہیں مگر سفر پھر بھی رواں دواں رہتا ہے۔دن ہفتوں میں اور مہینے سالوں کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں ۔چلتے چلتے کوئی مڑ کر دیکھتا ہے تو دور تک ناکام تمناؤں کی گرد اڑتی دکھائی دیتی ہے۔اکیلے پن کا احساس روح کو چھلنی کرتا محسوس ہوتا ہے۔کچھ لوگ دنیا کی کثیر دولت سمیٹ کر بھی خود کو تہی دامن پاتے ہیں ، دولت کے انبار گھر میں ہوتے ہیں جسے دوسرے استعمال کرتے ہیں (یعنی  دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں)کے مصداق صاحبِ ثروت کو کھانا بھی ناپ تول کر چمچوں سے کھلا یا جاتا ہے۔کچھ لوگ تنہا اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ انجمن میں تنہا اور اکیلے اکیلے، یہی اس زندگی کا تضاد ہے، لیکن یہ زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ایک سرا دنیا ہے تو دوسرا سرا آخرت!

ہر گزرنے ولا دن ہمیں اپنی موت سے قریب تر کررہا ہے۔لیکن سوچنے کا موقع کسی کے پاس نہیں، ہمیں تو ہر آنے والے نئے سال کا جشن منانا یاد رہتاہے۔آگ اور بارود کا کھیل ، بے ہنگم موسیقی پر تھرکتے مدہوش بدن، دنیا و مافیہا سے بے نیاز، بے حیائی ناچتی ہے بال کھولے۔رنگ و نور کی یہ محفلیں پوری رات اپنا جوبن دکھاتی ہیں۔یہ ہے ابنِ آدم کا طرز زندگی اور اس کے شبِ روز کے میلے ٹھیلے ! ہم اس دنیامیں کیوں آئے ہیں؟ ہماری راہ گزر کون سی ہے؟منزل کہاں ہے؟ ہمیں کیا کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب نہ کوئی جانتا ہے اور نہ جاننے کی جستجو اس کے اندر مچلتی ہے۔کیونکہ علم تو خوف پیدا کرتا ہے، اسی لیے نہ جاننا ہی بہتر ہے۔بقولِ عبد الحمید عدم،

میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا

ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

یہ زندگی جشن منانے کے لیے، لطف و سرور کی محفلیں سجانے کے لیے اور مادیت کے جال میں خود کو محصور کرنے کے لیے نہیں دی گئی ہے۔زندگی کا مقصد اُس ذاتِ اقدس کی عبادت میں پنہاں ہے جس نے ہمیں عدم سے وجود بخشا ہے۔ہمارے خاکی وجود میں روحِ ربانی کا لطیف جوہر پھونکا اور ہم جیتے جاگتے انسان بن گئے۔عدم سے وجود بخشنے کے ساتھ ہی بے شمار نعمتوں سے مالا مال بھی کیا گیا۔خالی دامن اس دنیائے فانی میں نہیں بھیجا گیا۔لیکن جیسے ہی ہم عدم سے وجود میں آئے، اپنا وہ عہد ہی بھول گئےجو اپنے خالق سے ہم نے کیا تھا۔ہم سب نے اُس کو اپنا ربّ ہونے کا یک زبان ہوکر گواہی دی تھی، لیکن ہم یہ بھول گئے۔پھر بھی وہ ربّ ذوالجلال ہمیں نہیں بھولا، وہ ہمیں رزق دینے کے ساتھ ساتھ ہماری ہر ضرورت اور احتیاج کو پورا کر رہا ہے۔ہم اسے بھولے ہوئے ہیں مگر وہ ہمیں کبھی نہیں بھولتاہے۔

جدیدت کا تصور یہ ہے کہ انسان کسی خدا اور مذہب کا پابند نہیں ہے۔وہ اپنی آزادی کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زندگی جس طرح چاہے بسر کرے ۔ماضی ،حال اور مستقبل کے آمیزے سے ایک وحدت ابھر کرسامنے آتی ہے ۔ماضی کے بغیر حال اور حال کے بنا مستقبل کا کوئی وجود نہیں۔مسلمانوں کا شاندار ماضی ایک تحرک ہے، راستے کی رکاوٹ نہیں ۔اقبال نے امت مسلمہ کے ماضی سے متاثر ہوکر اپنی شاعری کی شمعیں فروزاں کیں۔اسلام کے ماضی پر فکر و تدبر کے نتیجہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کرنے کا داعیہ دل میں پیدا ہوا۔اور آج پورے کرہ ارض پر احیائی تحریکوں کی اٹھان اسی فکر و نظر کا اعلان ہے کہ ماضی کی پختہ اینٹوں سے ہی حال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔

فہم و فراست کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے ماضی کا احتساب کرنا چاہیے کہ ماضی میں کیا کھویا اور کیا پایا، حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئیں، کس پر ظلم و زیادتی کی، اپنے طرزِ عمل سے لوگوں کو دین سے قریب کیا یا انہیں دین سے دور ہونے کی راہ سجھائی۔آج ہم اس دنیا کے رنگ و بو میں ایسے مست رہتے ہیں کہ آگےپیچھے ، دائیں بائیں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ہم شیطان کے ہاتھوں میں کٹھ پتیوں کی مانند ناچ رہے ہوتے ہیں۔جس کے نتیجے میں مصائب، ناگہانی آفتیں، عجیب عجیب طرح کی بیماریاں، فرسٹریشن ،شکوک و اوہام اور بے سکونی ہمارے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

دنیا کا اصل لطف اپنے خالق کی بندگی ، عاجزی، فروتنی، پاکیزگی اور شرم و حیا کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہے۔دوسروں کے لیے زندہ رہنے والا انسان کبھی نہیں مرتا، وہ زندہ رہتا ہےلوگوں کے دلوں میں ، ان کی یادوںمیں ، ان کی خلوت و جلوت میں اور تاریخ کے اوراق میں! کاش اس دنیا میں ہی ہمیں یہ بات سمجھ میں آجائےاور ہمیں اپنی ذات کی صحیح معرفت حاصل ہوجائے جو اللہ کی معرفت تک لے جانے والا راستہ ہے اور یہی ہمارے آنے والے کل کے لیے ہماری نجات کا باعث بن سکتا ہے۔اس کی کامیابی کے لیےہمارا حسن عمل ، خشیت الٰہی، ظاہر و باطن کی نفاست اور اپنے اللہ سے گڑگڑا کر مانگی ہوئی دعا بہترین وسیلہ ہے، : جو ہزار سجدوں سے آدمی کا دیتا ہے نجات۔»

یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ ہر عمل کا ردّعمل ہوتا ہے۔مصیبت کے مارے انسانوں کی بے بسی اور ناگفتہ بہ حالت سے چشم پوشی اختیار کرنا، اپنے ہی عیش و عشرت اور طاؤس و رباب میں مدہوش رہنا ،معاشرے کے محروم طبقے میں تعصب، انتقام اور ظلم کی روش کو جنم دیتا ہے۔اور یہ طرزِ عمل دنیا میں تباہی و بربادی ، خوں ریزی، دہشت گردی، لوٹ مار، چھینا جھپٹی اور حیوانیت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہر باشعور انسان خوب جانتا ہے کیونکہ وہ خود بھی اسی ماحول میں زندگی گزار رہا ہے— جو اس وقت دنیا کی باگ ڈور تھامے ہوئے ہیں وہ کٹھور دل، سفاک اور مال و دولت کے پجاری ہیں ، انہیں عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کو یاد ہی نہیں ہوتا کہ ہم کن لوگوں کے کندھوں پر سوار ہوکر مسند اقتدار تک پہنچے ہیں۔

یہ بے حسی ہمارے حکمرانوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ان کے دورِ اقتدار میں کوئی خود کشی کر کے خود مر جائےیا غربت اور مفلسی سے تنگ آکر اپنے معصوم بچوںکو موت کے گھاٹ اتار دے، ان کو اس سے نہ کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ کوئی افسوس! ہم بحیثیت امت مسلمہ وہ خوش نصیب اور بختاور لوگ ہیں جن کے پاس ربّ کائنات کی طرف سے انسان کی فوز و فلاح اور اطمینان قلب کے لیے پورا ایک ضابطۂ حیات موجود ہے۔پھر ہمیں کسی خوف اور غم کے سمندر میں ڈوبنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہ حقیقت ہےکہ ہر انسان کی اپنی ایک مخصوص فطرت(nature) ہے، جس پر انسان کے ذہن میں پرورش پانے والے ہر تصور کی بنیاد ہے۔یہ وصف ہر انسان میں با لقوہ(potentially)موجود ہے۔مطلب یہ کہ ہر فرد انسان کے کلی تصور یعنی تصور ِ انسان کی ایک مخصوص مثال ہے۔انسان پہلے وجود میں آتا ہے، اپنی ذات کا سامنا کرتا ہے ، کاغذات میں ابھرتا ہے اور پھر کہیں اپنے تصور کی تشکیل کر پاتا ہے۔

انسان صرف اس وقت وجود سے مشرف ہوتا ہے جب وہ کچھ ہو، کچھ کر کے وہ خود کو بنانا چاہتا ہے۔کچھ ہونے کی آرزو محض وجود نہیں ، آرزو یا ارادے سے بالعموم ہماری مراد شعوری طور پر کچھ فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ایسا فیصلہ جو اکثر وبیشتر ہم اپنے آپ کو بنالینے کے بعد کرتے ہیں۔کوئی شے ہمارے لیے اس وقت تک بہتر نہیں ہوسکتی جب تک تمام نوعِ انسان کی اس میں بہتری نہ ہو۔اس حقیقت کا ادراک ہی ہمارے نفس کا اصل جوہر ہے ، یہ نہ ہو تو انسان اینٹ اور پتھر سے زیادہ وقعت دیے جانے کے قابل نہیں۔

انسان کا طرزِ عمل دراصل عکس ہوتا ہے اس کی فکر اور سوچ کا۔انسان کے کردار پر اس کی سوچ کا گہرا اثر پڑتا ہے۔جس طرح کے عقائد و نظریات ہوں گے ، اعمال بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔گویا انسان کا نظریہ زندگی ہی اس کے تمام اعمال و افعال پر حکمرانی کرتا ہے۔بعض لوگ اپنے غیر مناسب طرزِ عمل اور غیر اخلاقی رویوں سے زندگی کی ڈور کو سلجھانے کے بجائے کچھ اور الجھا دیتے ہیں۔کیونکہ سرا گم ہوجائے تو ڈور میں الجھاوا بڑھتا ہی جاتا ہے۔شعور و ادراک ہی انسان کی وہ قیمتی متاع ہے جو زندگی کی ہر راہ کو ہموار کر دیتے ہیں۔الجھنیں تو آتی رہتی ہیں ، حالات و معاملات میں گرہیں پڑتی رہتی ہیں مگرفہم و فراست کے حامل انسان کی ایک چٹکی ان تمام گروہوں کو اس طرح کھول دیتی ہے جیسے طلوع سحر کے وقت شاخوں میں لگی کلیاں انگڑائیاں لے کر خوشنما اور دیدہ زیب پھول بن جاتی ہیں۔ ایک کامیاب ، بھر پور اور جوہر ِ انسانیت سے معمور زندگی کوئی سات پردوں میں چھپی ہوئی شے نہیں ہے ، بلکہ ہر فرد کو اپنے فکرو عمل،اپنی غیر فطری (unnatural) نفسیات اور زیغ و ضلال (deception)سے دھند لائے ہوئے آئینہ کی گرد صاف کرنے کی ضرورت ہے۔انسانیت کا بے داغ اور منور چہرہ نکھر کر سامنے آجائے گا۔اور پھر زندگی کی ہر الجھی ہوئی ڈور سلجھتی چلی جائے گی، آگہی کا نور دل کے بند دریچوں کوکھول دے گا۔اور حیرت و استعجاب کے دبیز پردے یوں اٹھتے چلے جائیں گے جیسے چاند کے اوپر آئےگہرےبا دل دھیرے دھیرے سرکتے جاتے ہیں۔اورچاند کی نرم و گداز کرنیں آسمان کی وسعتوں میں چہار سو اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ بکھر جاتی ہیں۔

حج وعمرہ اور آج کل کے مسلمان

حج وعمرہ اور آج کل کے مسلمان

ان دنوں حج و عمرہ کے تعلق سے ہم عجیب وغریب منظر دیکھتے ہیں ، لگتا ہی نہیں یہ کوئی عبادت ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی دنیاوی فنکشن ہے۔ حج وعمرہ پہ جانے سے پہلے رشتہ داروں سے دعوتی ملاقات، محلے میں حاجی اور معتمر کی دعوتوں کی لمبی قطار ، گھر پہ اجتماع پہ اجتماع ، مکہ جاتے وقت گلے میں ہارومالا پہناپہناکر راجاؤں مہاراجاؤں کی طرح رخصتی مانو کسی ملک کو فتح کرنے جارہے ہیں۔ پھردوران عبادت مکہ میں مختلف قسم کے اعمال جو عبادت کےلئے نقصان دہ ہوتے ہیں وہ کئے جاتے ہیں ۔ ان میں ایک کام لمحہ بہ لمحہ کی تصویر کشی یا عبادت کرتے ہوئے ویڈیو کالنگ تاکہ اپنی عبادت کو دکھاسکیں۔

بیت اللہ سے واپسی اور اپنے گھر پہنچنے پراستقبال کا منظر بھی بیحد افسوسناک ہوتا ہے۔ پھول مالا لئے ملنے والوں کی ایک لمبی قطار جو مالا پہناپہناکر ملک و قلع فتح کرلینے جیسی مبارکبادی دیتی ہے، بعدہ اسے سرٹیفائڈحاجی اور معتمرکالقب مل جاتاہے پھرمرتے دم تک بلکہ مرنے کے بعد بھی حاجی صاحب ، حاجی صاحب کے لقب سے پکارے جانے لگتے ہیں۔ العیاذ باللہ

ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ حج اور عمرہ عظیم عبادت ہے اور عبادت کی قبولیت کے لئے اخلاص نیت اوراتباع سنت ضروری ہے۔ بغیر اخلاص اور بغیراتباع رسول کے حج وعمرہ قبول نہیں ہوگا بلکہ دین کا کوئی عمل اس کے بغیر قبول نہیں ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کے حج و عمرہ میں نہ اخلاص ہے اور نہ ہی اتباع رسول ہے۔

اخلاص اس لئے نہیں ہے کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے حج وعمرہ کیا جارہا ہے ، جو اخلاص کے ساتھ حج وعمرہ کرے گا وہ کبھی اپنی عبادت کا پرچار نہیں کرے گا۔لوگوں کو اپنے گھربلابلاکراجتماع کرنا، گھر گھر جاکردعوت کھانا، گاؤں گاؤں گھوم کراپنے پرائے سب سےملاقات کرنایہ سب اخلاص کے منافی ہیں۔

اور اتباع سنت اس لئے نہیں کہ ہمیں نبی ﷺ اور آپ کے پیارے اصحاب کی زندگی میں حج یا عمرہ کی انجام دہی میں اس قسم کا کوئی نمونہ نہیں ملتا ، اور کیسے ملے گا ، یہ تو شہرت کی باتیں ہیں جو اخلاص کے منافی اور عمل کو غارت کرنے والی ہیں۔

گویا عبادت کی قبولیت کی دونوں شرطیں آج کل کے اکثر حج وعمرہ انجام دینے والوں میں نہیں پائی جاتیں۔پھر ایسی عبادت کا انجام کیا ہوگا۔ آئیے نبی ﷺ کی حدیث دیکھتے ہیں ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

قیامت کے روز سب سے پہلا شخص جس کے خلاف فیصلہ آئے گا، وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا۔ اسے پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی (عطا کردہ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ (اللہ تعالیٰ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے: یہ (شخص) جری ہے۔ اور یہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قراءت کی،اسے پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان کر لے گا، وہ فرمائے گا: تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قراءت کی، (اللہ) فرمائے گا: تو نے جھوٹ بولا، تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے (یہ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے: یہ قاری ہے، وہ کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اسے لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا: میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا۔ اللہ فرمائے گا: تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے (یہ سب) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے، وہ سخی ہے، ایسا ہی کہا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا، تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا، پھر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم: 1905)

اس حدیث سے آپ نے جان لیا کہ شہرت کے لئے جہاد کرنا، شہرت کے لئے علم حاصل کرنااور شہرت کے لیے مال خرچ کرنا جہنم میں لے جانے کا سبب ہے تو جو شہرت کے لیے حج یا عمرہ کرےوہ اپنا مال بھی ضائع کرتا ہے، وقت بھی ضائع کرتاہے اور ایسے آدمی کا بھیانک انجام یہ ہوگا کہ اسے گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ ہمیں شہرت سے بچائے۔

اسلامی بھائیواور بہنو!ہمیں اپنے رب سے ڈرنا چاہئے اور عبادت کی انجام دہی میں اخلاص وللہیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسوہ رسول کو اپنانا چاہئے۔

عمرہ کے تعلق سے ایک بات مزید واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آج کل حرم شریف میں زمین پر اصل مطاف میں بغیر احرام کے طواف کرنے پر پابندی لگی ہوئی ہے تو وہ لوگ جو صرف طواف کرنا چاہتے ہیں نیچے طواف کرنے کے لئے احرام کا لباس پہن لیتے ہیں ۔ یہ عمل شرعا بھی غلط ہے اور قانونا بھی ۔ شرعا اس لئے کہ نبی ﷺ جب فتح مکہ کے موقع پر طواف کرتے ہیں تو بغیر احرام کے طواف کرتے ہیں اس لئے صرف طواف کرنے کے لئے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے اور قانونی طور پر غلط تو ہےہی۔

آخر میں اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے حج وعمرہ میں اخلاص پیداکریں،حج یا عمرہ کرنے سے پہلے یا دوران حج وعمرہ یا حج وعمرہ کے بعد ایسے کام کرنے سے بچیں جو آپ کی عبادت کو برباد کردے، آپ یہ نہ کہیں کہ لوگ ایسا کرتے، ہم ان لوگوں کو ایسا کرنے کا حکم نہیں دیتے ۔ نہیں یہ آپ کرتے ہیں کیونکہ آپ کے ساتھ یہ ہوتا ہےاور آپ صاحب معاملہ ہیں۔آپ چاہیں تو یہ سب کام ہوتے رہیں گے اور آپ نہ چاہیں تو یہ سب کام بند ہوجائیں گے۔

آپ کو کوئی آگ پر چلنے کو کہےیا گولی مارنے کوکہے آپ انکار کردیں گے، پھر جو لوگ آپ کے حج کو برباد کرنے میں لگے ہیں ، ان کے حساب سے کیوں چلتے ہیں؟۔ آپ حج کررہے ہیں اور آپ صاحب معاملہ ہیں تو آپ کے ساتھ ہونے والے معاملات کامکمل آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اس لئے خدارا ! عبادت کو عبادت ہی رہنے دیں، اس کو کھیل تماشہ، رسم ورواج اور فنکشن نہ بنائیں۔ یہ بڑی عظیم عبادت ہے ، زندگی میں ایک بار ہی حج فرض ہے ، زندگی بھر کی ایک عظیم عبادت کو اللہ کی رضا کے لئے انجام دیں۔ خود بھی غلط کاموں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ وماعلینا إلاالبلاغ المبین

حلال وحرام کا بیان

اسلام  کے نظریہ حلال و حرام کے حوالے سے سابقہ شمار ہ میں قرآن مجید سے ماخوذ تین  اصول بیان  کیے گئے تھے یہ اصول اس حوالے سے بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں  اس لئے قرآن پاک میں ان کی  جا بجا  تاکید ملتی ہے  یہ اصول  درج  ذیل  ہیں:

حلت و حرمت کا تعلق  شارع سے ہے اور  اس میں انسانی عقل کا کوئی  عمل و دخل نہیں ہے۔

کائنات میں موجود تمام اشیاء کی تخلیق انسانوں کیلئے ہوئی ہے، اس لئے ہر چیز کا  اصل حکم اباحت (جائز)کا ہے۔

طیبات  حلال اور خبیث و ناپسندیدہ اشیاء حرام ہیں۔

ان تینوں کی مکمل وضاحت کے لیے مجلہ اسوۃ حسنہ کا سابقہ شمار ہ ملاحظہ کیجیے ۔ اس حوالے سے ذخیرہ احادیث سے منتخب احادیث اور ان کے تحقیقی فوائد درج کیے جا رہے ہیں تاکہ سابقہ تینوں اصولوں کی  فہم و تفہیم مزید آسان ہو جائے۔ 

حلال و حرام کا بیان  (1)

عن أبي ثعلبة إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَنَهَى عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَغَفَلَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا (الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني المتوفى: 360ه، المعجم الکبیر للطبرانی، ح: 18035، ج: 16، ص: 93)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: « اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض کی ہیں، سو اُن کو ضائع مت کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہیں سو اُن سے تجاوز مت کرو۔ اور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے سو اُن کا ارتکاب نہ کرو اور کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار فرمائی ہے تم پر رحمت کی وجہ سے نہ کہ بھول کر۔ سو تم اُن چیزوں کا تجسس نہ کرو‘‘۔

مذکورہ  بالا حدیث حلال و حرام کے احکام سے متعلق انتہائی جامع اور اہم حدیث ہے۔ چنانچہ بعض محدثین کے بقول رسولﷺ کی احادیث میں کوئی حدیث بھی تنہا علمِ شریعت کے اصول و فروع کو اتنی جامع نہیں جتنی سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ہے۔

عَنْ أَبِي وَاثِلَةَ الْمُزَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينَ فِي أَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، ثُمَّ ذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي ثَعْلَبَةَ (ابن رجب، الإمام الحافظ الفقيه زين الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن شهاب الدين البغدادي ثم الدمشقي‍، جامع العلوم والحكم، دار المعرفة بيروت، الطبعة الأولى 1408ھ، ج:1، ص:277)

’’سید نا واثلہ مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پورے دین کو چار کلمات میں جمع کردیا ہے۔ پھر انہوں نے سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث ذکر فرمائی‘‘۔

قَالَ أَبُو بَكْرٍ السَّمْعَانِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ أَصْلٌ كَبِيرٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ (ابن رجب، الإمام الحافظ الفقيه زين الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن شهاب الدين البغدادي ثم الدمشقي‍، جامع العلوم والحكم، دار المعرفة بيروت، الطبعة الأولى 1408ھ، ج:1، ص:277)

’’اورامام ابوبکر سمعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دین کے اصولوں میں سے ایک بڑا اصول ہے‘‘۔

اس حدیث کی مختصر تشریح یہ ہے کہ  رسول اللہﷺ نے پورے دین پر عمل کا یہ نسخہ ارشاد فرمایا ہے کہ فرائض یعنی جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے اُن پر عمل ہو، محرمات یعنی اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب ہو اور مسکوتات یعنی جن چیزوں کے بارہ میں قرآن و حدیث میں خاموشی ہو اُن کے بارے میں تجسس  نہ کیا جائے۔

اس حدیث سے یہ اہم اصول معلوم ہوتا ہے کہ:

 جس چیز کے حلال یا حرام ہونے کا قرآن و سُنت میں کہیں ذکر نہ ہو وہ مباحات میں داخل ہے۔

تاہم اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ: کسی چیز کے حرام ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر صریح آئے۔

 بلکہ کسی عام اصول کے ضمن میں اس کا ذکر ہوجانا بھی کافی ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جس چیز کا صراحتاً یا تبعاً کسی بھی طرح قرآن و حدیث میں ذکر نہ ہو وہ مباح اور معاف ہے۔

حلال و حرام کا بیان(2)

مَا أَحَلَّ اللهُ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ حَلَالٌ وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَافِيَةٌ فَاقْبَلُوا مِنَ اللهِ عَافَيْتَهُ فَإِنَّ اللهَ لَمْ يَكُنْ نَسِيًّا ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ {وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا} [مريم: 64]  (الحاكم، أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى،1411– 1990، باب تَفْسِيرُ سُورَةِ مَرْيَمَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ج: 2، ص: 406، ح: 3419)

’’رسول اللہﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا  حلال ہے اور جو کچھ حرام فرما دیا حرام ہے، اور جس چیز سے خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ معاف ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس کی عافیت کو قبول کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولا نہیں کرتے۔ پھر آپﷺ نے سورۃ مریم کی آیت تلاوت فرمائی‘‘۔

اس حدیث میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ:

حلال و حرام صرف وہی چیز کہلا سکتی ہے جس کی حرمت یا حلت اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔

تاہم اس سے متعلق بھی ایک تو وہی وضاحت ہے جو اوپر ذکر ہوئی کہ کتاب اللہ میں حلت یا حرمت ذکر ہونے کی دونوں صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحتاً ذکر ہو، دوسرے یہ کہ کسی عام اصول کے ضمن میں ذکر ہو۔

دوسری وضاحت یہ ہے کہ کتاب اللہ سے مراد بھی کتاب و سُنت دونوں ہیں چنانچہ اسی طرح کی ایک روایت امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے  سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے بھی روایت کی ہے جس میں یہ اضافہ ہے کہ: 

كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا فَبَعَثَ اللهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ وَأَحَلَّ حَلاَلَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلاَلٌ وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ وَتَلاَ (قُلْ لاَ أَجِدُ فِيمَا أُوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا) إِلَى آخِرِ الآيَةِ. (أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني، سنن أبي داود، دار الكتاب العربي  بيروت، باب مَا لَمْ يُذْكَرْ تَحْرِيمُهُ، ج: 3، ص: 417، ح: 3802)

’’زمانہ جاہلیت کے لوگ کچھ چیزیں کھا لیا کرتے تھے اور کچھ چیزوں کو گندا سمجھ کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی بھیج کر اور اپنی کتاب نازل فرما کر حلال چیزوں کو حلال اور حرام چیزوں کو حرام قرار دیا۔ لہذا جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرما دیا ہے وہ حلال ہے اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرما دیا ہے وہ حرام ہے، اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ معاف ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ انعام کی آیت تلاوت فرمائی‘‘۔

سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے اسی روایت کی ایک اور سند سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں اس طرح  ہے کہ:آپﷺ سے گھی، پنیر اور پوستین کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں آپﷺ نے مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے۔

حلال و حرام کا بیان (3)

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِﷺ يَقُولُ: الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِيِنِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلاَ إِنَّ حِمَى اللهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ (البخاري، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله، الجامع الصحيح، دار الشعب القاهرة، الطبعة: الأولى، 1407-1987 کتاب بدء الوحي، باب فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، ج:1، ص:20، ح:52)

’’سیدنا  نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا کہ بے شک حلال واضح ہے اور بے شک حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص شبہات سے بچا، اس نے اپنے دین و آبرو کو بچالیا اور جو شبہات میں پڑا وہ حرام میں پڑگیا۔ جیسے چرواہا جو چراگاہ کے اردگرد بکریاں چراتا ہے ، قریب ہے کہ چراگاہ میں چرا لے، اور بے شک ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، اور سُنو! اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سُنو! انسانی جسم میں ایک ٹکڑا ہے، جب وہ تندرست ہوتا ہے تو سارا جسم تندرست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے‘‘۔

یہ حدیث احکام حلال و حرام اور مشتبہات کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ ہم اس حدیث کو بنیاد بنا کر احکام کے تینوں جوانب یعنی حلال و حرام اور مشتبہات کے بارے میں بات کریں گے ۔

امام ابو داؤد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

أصول السنن في كل فن أربعة أحاديث: إنما الأعمال بالنيات وحديث الحلال بين والحرام بين. وحديث من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه. وحديث ازهد في الدنيا يحبك الله، وازهد فيما في أيد الناس يحبك الناس (ابن رجب؛ عبد الرحمن بن أحمد بن رجب الدمشقي، أبو الفرج، زين الدين، جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم، دار ابن كثير، بيروت، 2008،  ج:1، ص: 30)

’’دین کے احکامات میں درج ذیل چار احادیث بنیادی اہمیت کی حامل ہیں :

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ     
الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللهُ۔۔۔۔

اس حدیث میں استعمال ہونے والی اشیاء کی تین اقسام بتائی گئی ہیں:

1. حلال

2.  حرام

3.مشتبہات

یعنی  بنی نوع انسان کے استعمال میں کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں وہ شرعی حکم کے اعتبار سے تین انواع میں سے کسی ایک نوع میں شمار کی جا سکتی ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے۔

حلال و حرام کے بعد مشتبہ چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر «حمی» کی مثال سے اس کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔››حمی›› اس چراگاہ کو کہاجاتا تھا جسے زمانہ جاہلیت میں کوئی بادشاہ یا سردار اپنے لئے مخصوص کر کے یہ اعلان کردیتا تھا کہ اس چراگاہ میں کسی اور کو اپنا جانور چرانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حدیث میں حمی کی مثال سے مشتبہ امور سے بچنے کی اہمیت واضح فرمائی کہ جس طرح وہاں پر عام لوگ اس خوف سے حمی کے اردگرد اپنا جانور نہیں چراتے تھے کہ اگر جانور بھٹک کر اس حمی کے اندر چلا جائے گا تو یہ بادشاہ کی سزا کا باعث بن جائے گا، اسی طرح مشتبہ امور کا ارتکاب بھی ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی حمی کے اردگرد رہنا، جس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں بندہ محرمات کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق نہ ہوجائے۔

اس حدیث کا جملہ  ’’جو آدمی مشتبہات میں پڑ جائے وہ حرام میں پڑ جاتا ہے‘‘  کا مطلب یہ ہے کہ: جو چیز مشتبہ ہو اور آدمی کو اس کے حلال یا حرام ہونے کا علم نہ ہو، اگر آدمی اس میں احتیاط نہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ چیز حقیقت میں حرام ہو اور اس میں پڑنے سے آدمی اس طرح حرام میں واقع ہوجائے کہ ا س کو پتہ نہ چلے۔

جیساکہ معجم طبرانی میں روایت  ہے:

كَالْمُرْتِعِ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحِمَى وَهُوَ لَا يَشْعُرُ (الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب، المعجم الکبیر،ح: 384، ج: 11، ص: 211)

’’یعنی جو جانور چراگاہ کے گرد چرتا ہے وہ چراگاہ میں داخل ہوجاتا ہے، جبکہ اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا‘‘۔

بسااوقات مشتبہات میں مبتلا ہونا آدمی کو صریح حرام تک پہنچا سکتا ہے۔  جیسا کہ اس روایت میں ہے:

مَنْ تَهَاوَنَ بِالْمُحَقَّرَاتِ، يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْكَبَائِرَ (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد، جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الكلم، دار السلام، الثانية، 1424 هـ – 2004 م، ج: 1، ص: 215، (ضعيف)

’’جو شخص چھوٹی اور حقیر سمجھی جانے والی چیزوں میں غفلت سے کام لیتا ہے اور انہیں معمولی تصور کرتا ہے وہ بڑے گناہوں میں پڑ جانے کے بہت قریب ہوتا ہے۔‘‘

اور اسی مفہوم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی ہے کہ:

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ فَإِنَّهُنَّ يَجْتَمِعْنَ عَلَى الرَّجُلِ حَتَّى يُهْلِكْنَهُ))، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ لَهُنَّ مَثَلًا: كَمَثَلِ قَوْمٍ نَزَلُوا أَرْضَ فَلاةٍ، فَحَضَرَ صَنِيعُ الْقَوْمِ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْطَلِقُ، فَيَجِيءُ بِالْعُودِ، وَالرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْعُودِ، حَتَّى جَمَعُوا سَوَادًا، فَأَجَّجُوا نَارًا، وَأَنْضَجُوا مَا قَذَفُوا فِيهَا (ابن حنبل؛ أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبد الله، الشيباني، المسند، مؤسسة الرسالة، دمشق، 2009، رقم الحديث3818)

’’چھوٹے گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ بعض اوقات بہت سے چھوٹے گناہ بھی اکٹھے ہو کر انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں اور نبی (ﷺ) نے اس کی مثال اس قوم سے دی جنہوں نے کسی جنگل میں پڑاؤ ڈالا، کھانے کا وقت آیا تو ایک آدمی جا کر ایک لکڑی لے آیا، دوسرا جا کر دوسری لکڑی لے آیا یہاں تک کہ بہت سی لکڑیاں جمع ہوگئیں اور انہوں نے آگ جلا کر جو اس میں ڈالا تھا وہ پکا لیا۔‘‘

لہذا یہ حدیث اصولی طور پر ‘›سدِ ذریعہ›› کے معروف اصول کی اساس بنتی ہے یعنی اسلام اپنےماننے والوں کو نہ صرف حرام سے روکتا ہے بلکہ ایسی مشتبہ چیزوں سے بھی روکتا ہے جن میں مبتلا ہونےسے اس امر کا اندیشہ ہو کہ لوگ  حرام میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس اصول کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی بندوں کو حکم دیتے ہیں کہ : ’’ولا تقربوا الزنا‘‘ کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ ، اس سے مراد زناتو حرام ہے ہی زنا کی طرف لے جانے والے راستے بھی حرام ہیں ان کے بھی قریب نہ جاؤ مبادا تمہیں یہ راستے زنا میں مبتلا نہ کردیں۔

اللہ ہی حاکم ہے اس کے سوا کسی کا حکم نہیں چلنا چاہیے


﴿اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ﴾

’’سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا ’’اللہ‘‘ ہی کا کام ہے ، ’’اللہ‘‘ بہت برکت والا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘(الاعراف:۵۴)

حضرات! اللہ تعالیٰ کے احکم الحاکمین ہونے کے ثبوت اور اس کی حاکمیت کے دلائل جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ’’اللہ‘‘ کی ذات کا ایک جامع تصور اپنے ذہن میں تازہ کریں ، تاکہ ہمارے ایمان میں تازگی اور ایقان میں پختگی اور ’’اللہ تعالیٰ‘‘ سے تعلق میں وارفتگی پیدا ہو جائے کہ ہم نے اسے کیوں اپنا حاکم ماننا اور ہر حال میں کس لئے اس کا حکم تسلیم کرنا ہے۔ ہم نے اس لیے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کا حکم ماننا ہے کیونکہ وہ صرف ہمارا خالق ، مالک، رازق معبودہی نہیں بلکہ وہ ہمارا بادشاہ اور حاکم بھی ہے ، اس کا فرمان ہے:

﴿ا۟لَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرً﴾ (الفرقان: ۲)

’’اللہ ‘‘ ہی کے لیے زمین وآسمانوں کی بادشاہی ہے، اس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور اس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے، اس نے ہرچیز کوپیدا کیا اور پھراس کی تقدیر مقرر فرمائی۔ ‘‘

﴿فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ( یٰس: ۸۳)

’’پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘

﴿هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ ( الحشر: ۲۳)

’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے نہایت پاک، سراسر سلامتی والا ، امن دینے والا، نگرانی کرنے والا، اپنا حکم نافذ کرنے پر پوری طرح بااختیار اوربلند و بالاہے ۔‘‘

﴿اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَؒ۰۰۸﴾ ( التین: ۸)

’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟ ‘‘

اس کے ہر حکم میں حکمت اور خیر خواہی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کسی کو اختیار حاصل نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے اور ان پر اپنا حکم چلائے۔ لہٰذا انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسی کا حکم چلنا چاہئے کیونکہ وہ سب سے بڑا حاکم ہے۔

﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ ( الأعراف:۵۴)

’’بے شک تمہارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیداکیا، پھرعرش پر مستوی ہوا ،وہ رات کو دن پراوڑھاتا ہے جو تیز چلتاہوا، رات کے پیچھے چلاآتا ہے، سورج، چاند اور ستارے ہیں جو اس کے حکم کے تابع ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ، اللہ تعالیٰ بڑی برکت والا اور سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو حاکم تسلیم کروانے اور اپنا حکم منوانے کے لئے اپنی قدرت اور خالق ہونے کی بڑی بڑی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس ’’اللہ ‘‘ کا تم نے حکم ماننا ہے وہی تمہارا رب ہے اور اسی نے سات آسمانوں اور زمینوں کو چھ دن میں پیدا کیا پھر اپنی شان کے مطابق عرش پر جلوہ افروز ہوا وہی رات اور دن کے نظام کو چلانے والا اور اسی نے سورج، چاند اور ستاروں کو مسخر کر رکھا ہے۔ لوگو! کان کھول کر سُن لو وہی سب کو پیدا کرنے والا ہے اس لیے حکم بھی اسی کا چلنا چاہئے ۔کیونکہ وہ بڑا برکت والا اور رب العالمین ہے۔

اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات اور اس کے اہم ترین ارکان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ یہ میرے تابع اور میرے حکم پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ اے انسان تو اپنے آپ پر غور کر کہ ان کے مقابلے میں تیری حیثیت تو نہایت معمولی ہے جب کائنات کے بڑے، بڑے ارکان میرے حکم پر چل رہے ہیں تو تجھے بھی میرا حکم ماننا چاہئے ۔

 ﴿ فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ﴾ (المؤمن: ۱۲)

’’حکم دینے کا اختیار ’’اللہ‘‘ بزرگ وبرتر کے پاس ہے۔‘‘

یہی بات سیدنا یعقوبu نے اپنے بیٹوں کو اور سیدنا یوسفu نے اپنے قید کے ساتھیوں کو سمجھائی تھی۔

﴿ وَ قَالَ يٰبَنِيَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ١ؕ وَ مَاۤ اُغْنِيْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ١ۚ وَ عَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ﴾

’’یعقوبuنے فرمایا: اے میرے بیٹو !ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ الگ الگ دروازوں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی تم سے کسی چیز کو ٹال نہیں سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اورلازم ہے کہ بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کیا کریں۔‘‘ ( یوسف:۶۷)

سیدنا یعقوبu کی نصیحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکِ مصر میں قحط سالی کی وجہ سے امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہو چکا تھا۔ جیساکہ عام طور پر ایسے حالات میں ہو جایا کرتا ہے۔ اس صورتحال میں گیارہ آدمیوں کا جتھا جو کہ ایک سے ایک بڑھ کر کڑیل جوان اور حسن و جمال کے پیکر تھے۔ ایسے اجنبیوں کو انتظامیہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی اور یہ بھی ممکن ہےکہ انتظامیہ نے مصر میں امن و امان برقرا ر رکھنے کے لیے دفعہ 144جیسا کوئی قانون لگا کر رکھا ہو۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر سیدنا یعقوب uنے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی کہ بیٹا تم وہاں اجنبی اور پردیسی ہو گے۔ اس لیے تمھیں ایک جتھے کی شکل میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا چاہیے ۔ یہ میری احتیاطی تجویز ہے ورنہ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے تمہارا بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کے معاملات آسان کو فرما دیتا ہے ۔

سیدنا یوسفu بے گناہ ہونے کے باوجود پابند سلاسل کر دیے گئے۔ اس حالت میں بھی انہوں نے اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے ہیں کہ حقیقی حاکم تو اللہ تعالیٰ ہے۔

﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ﴾ ( یوسف:۴۰)

’’جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سِوا عبادت کرتے ہو یہ تم نے اور تمہارے باپ دادا نے محض نام رکھ لیے ہیں، سوائے ناموں کے تم کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اُتاری۔ حکم دینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نے حکم دیاہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو، یہی اصل دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ‘‘

سیدنا یوسف u نے اپنے قید کے ساتھیوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ بالآخر اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہو کر رہتا ہے کیونکہ حکم دینا ’’اللہ‘‘ کا اختیار اور کام ہے۔ یوسف نے دین قیم کے الفاظ استعمال فرما کر قیدی ساتھیوں کو یہ بھی سمجھایا کہ جس کے پاس عقیدۂ توحید نہیں ، اس کے پاس کچھ بھی نہیں بے شک وہ کتناپاکبازاور دیندار ہونے کے دعوے کرتا پھرے۔ حقیقی معبود تو ’’اللہ تعالیٰ ہے۔مگر اکثر اس بات کو جاننے اور ماننے کی کوشش نہیں کرتے۔

﴿وَ اتَّبِعْ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ وَ اصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ وَ هُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ﴾ ( یونس: ۱۰۹)

’’اس کی پیروی کریں جوآپe کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کریں یہاں تک کہ ’’اللہ‘‘ فیصلہ کردے، وہ فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔‘‘

﴿وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ١ٞ وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ ( القصص: ۷۰)

’’اس ’’اللہ‘‘کے سواکوئی عبادت کے لائق نہیں اوّل ، آخر اس کی تعریف ہے، اور حکم دینے کا اختیار اسی کو ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘

﴿ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ١ؕ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ١۫ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ﴾ ( الأنعام: ۶۲)

’’پھر وہ ’’اللہ‘‘ کی طرف لوٹائے جائیں گے جو ان کا سچامالک ہے ۔سن لو! حکم اُسی کا چلتا ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والاہے۔ ‘‘

﴿ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا وَّ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا١ؕ …… فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ﴾ ( الانعام:۱۱۴)

’’کیا میں ’’اللہ‘‘ کے سواکوئی اورحاکم تلاش کروں، جب کہ اس نے تمہاری طرف مفصّل کتاب نازل فرمائی ہے …آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔‘‘

﴿وَّ لَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا﴾ (الکھف:۲۶)

’’وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

اہل لوگوں کو ذمہ داری دینے کا حکم:

﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا﴾ ( النساء: ۵۸)

 ’’یقیناً ’’اللہ ‘‘ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ’’اللہ‘‘ جس کی تمہیں نصیحت کررہا ہے، یقیناً یہ تمہارے لیے بہتر ہے،بے شک ’’اللہ ‘‘ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ ‘‘

اس فرمان میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دینی، سیاسی اور انتظامی ذمہ داری بھی اہل لوگوں کو دینی چاہئے کیونکہ جب تک اہل لوگ آگے نہیں ہوں گے اور وہ اپنی ذمہ داری ٹھیک طور پر پوری نہیں کریں گے، قانون کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس کے بہتر نتائج نہیں نکل سکتے۔

اہل منصب کو فیصلہ کرتے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے:

﴿يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِؒ﴾ ( ص :۲۶)

’’اے داؤدu ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنے نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وہ تجھے ’’اللہ‘‘ کی راہ سے بھٹکا دے گی جو لوگ ’’اللہ ‘‘کی راہ سے بھٹک گئے ان کو سخت عذاب ہو گا کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کر دیا ہے۔‘‘

﴿وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ١ؕ بَلْ اَتَيْنٰهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُّعْرِضُوْنَ﴾ (المؤمنون: ۷۱)

’’اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین ،آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا سب تباہ ہو جاتا ،بلکہ ہم ان کو نصیحت کرتے ہیں اور وہ اپنی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔‘‘

عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ، حِبُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ؟» ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمِ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا» (صحيح مسلم، باب قطع السارق الشريف وغيره، والنهي عن الشفاعة في الحدود)

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ ایک مخزومی عورت نے چوری کی اس صورت حال پر قریش کے لوگ پریشان ہوئے ۔ انہوںنے آپس میں مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں اللہ کے رسولe کی خدمت میں کس سے سفارش کروائی جائے انہوں نے سوچا کہ اسامہ بن زید t نبیe کےپیارے ہیں‘ اس کے سوا یہ جرأت کوئی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہt نے آپ سے عرض کی۔ اللہ کے رسولe نے اسامہ t سے فرمایا: کیا تو اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر تاہے؟ آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہو ئےکہ ان میں کوئی بڑے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ۔جب کوئی چھوٹا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمدe کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

ذمہ دار لوگوں کے ساتھ اختلاف ہو جائے تو

﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ١ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: ۵۹)

’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں صاحبِ امر ہوں ۔ اگر ان سے کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائو اگر ’’اللہ ‘‘اور قیامت کے دن پر تمہارا ایمان ہے یہ نتائج کے اعتبار سے بہتر اور بہت اچھا طریقہ ہے۔ ‘‘

﴿وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا﴾ ( الأحزاب: ۳۶)

’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دیں تو پھر اُسے اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑ جائے گا۔‘‘

﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا﴾ ( النساء: ۱۰۵)

’’یقیناً ہم نے آپ کی طرف برحق کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ جو آپ کو ’’اللہ‘‘ نے سیدھا راستہ دکھایا ہے اس کے مطابق فیصلے کریں اور خیانت کرنے والوں کی حمایت کر نے والے نہ ہوجانا۔ ‘‘

﴿اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْۤا۠ اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِهٖ١ؕ وَ يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًا﴾ (النساء: ۶۰، ۶۱)

 ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا دعویٰ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے اُتارا گیا اس کو مانتے ہیں، لیکن وہ اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں مبتلا کر دے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ’’اللہ‘‘ کے نازل کر دہ حکم اور رسول کی طرف آئو تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ سے کنی کتراتے ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے حکم کو نافذ نہ کرنے والے درجہ بدرجہ مجرم ہوں گے:

﴿وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ (المائدة:۴۴)

’’جو ’’اللہ‘‘ کے نازل شدہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔ ‘‘

﴿وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ (المائدة:۴۷)

’’جو ’’اللہ‘‘ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ نافرمان ہیں۔‘‘

﴿وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَاۤ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ١ۙ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ١ۙ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ١ؕ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهٗ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾

’’ہم نے تورات میں ان کے لیے لازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ ، ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان ،دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے،جسے قصاص معاف کر دیا جائے وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔ جو ’’اللہ ‘‘ نے نازل کیا ہے اس کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے ظالم ہیں۔ ‘‘(المائدة:۴۵)

قانونِ الٰہی کی برکات:

﴿وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَ﴾ (المائدة: ۶۶)

’’اگر وہ واقعی تورات اور انجیل نافذ کرتے اور جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا ہے تو ضرور اپنے اوپر سے اوراپنے پائوں کے نیچے سے کھاتے، ان میں سے ایک جماعت سیدھے راستے پر ہے اور بہت سے ان میں بُرے کام کر نے والے ہیں ۔‘‘

﴿وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ﴾ ( الأعراف: ۹۶)

’’اوراگر بستیوں والے صحیح طور پر ایمان لے آتے اور’’اللہ‘‘ سے ڈرتے تو ان پر ہم ضرور آسمان اور زمین سے برکات نازل کرتے، لیکن انہوں نے جھٹلا دیا، ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا کیونکہ وہ بُرے کام کرتے تھے۔ ‘‘

برکت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کی عمر میں برکت پیدا کر دی جائے تو وہ تھوڑی مدت میں ایسے کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ جس سے لوگ مدت تک استفادہ کرنے کے ساتھ اسے یاد رکھتے ہیں۔ خورد و نوش میں برکت پیدا ہو جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہو جاتے ہیں۔ اگر برکت اٹھالی جائے تو سب کچھ ہونے کے باوجود آنکھیں سیر نہیں ہوتیں اور پیٹ بھر کر کھانے کے باوجود طبیعت مطمئن نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ الغِنَى عَنْ كَثْرَةِ العَرَضِ، وَلَكِنَّ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ (صحيح البخاري، باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ)

’’سیدنا ابوہریرہtنبیeسے بیان کرتے ہیں کہ آپe نے فرمایا کہ دولت مندی مال کی کثرت سے نہیں بلکہ غنا دل کے استغنا سے حاصل ہو تی ہے۔‘‘

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ» (رواہ ابن ماجه: باب إقامة الحدود[صحیح])

’’سیدنا عبداللہ بن عمرw بیان کرتے ہیںکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ‘‘ کی حدود میں سے کسی ایک حد کونافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔‘‘

یاد رہے کہ فصلوں میں سب سے زیادہ چاول کی فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے یہ فصل بھی دس، گیارہ مرتبہ پانی ملنے سے تیار ہو جاتی ہے، چالیس مرتبہ بارش کو اس پر تقسیم کریں اگر ہر موسم میں اتنی بارشیں ہوں تو ملک کی زراعت کس قدر مضبوط اور بجلی کی کتنی بچت ہو گی کہ جس کا اندازہ کرنامشکل ہوجائے۔

سر پر تین بار پانی بہانا

غسل کے بارے بیان

بَاب مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا .

اس شخص کا بیان جس نے اپنے سر پر تین بار پانی بہایا

34-256- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَامٍ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ لِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ كَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فَقُلْتُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلَاثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ فَقَالَ لِيَ الْحَسَنُ إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ فَقُلْتُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا .

ابونعیم، معمربن یحیی بن سلم، ابوجعفر یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (حسن بن محمد بن حنفیہ) آئے اور مجھ سے کہا کہ جنابت سے غسل کس طرح (کیا جاتا)؟ میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ تین چلو لیتے تھے اور اس کو اپنے سر پر ڈالتے تھے پھر اپنے باقی بدن پر بہاتے تھے، تو مجھ سے حسن نے کہا کہ میں بہت بالوں والا آدمی ہوں (مجھے اس قدر قلیل پانی کافی نہ ہوگا) میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔

Narrated Abu Ja›far: Jabir bin Abdullah said to me, Your cousin (Hasan bin Muhammad bin Al-Hanafiya) came to me and asked about the bath of Janaba. I replied, ‘The Prophet uses to take three handfuls of water, pour them on his head and then pour more water over his body. Al-Hasan said to me, ‘I am a hairy man.› I replied, ‘The Prophet had more hair than you

معانی الکلمات

الْجَنَابَةِناپاکی کی حالت میں پیدا ہونے والی ضرورت کو جنابت کہتے ہیں۔
أَكُفٍّکَفٌّ کی جمع معنی ہتھیلی، چلو
يُفِيضُوہ ایک آدمی (پانی) بہاتاہے یا بہائے گا
سَائِرِ جَسَدِهِمکمل جسم، پورا بدن
الشَّعَرِبال

تراجم الرواۃ

1۔نام ونسب:  أبو نعيم، الفضل بن دُكين یہ ان کا لقب ہے جبکہ ان کا نام: عمرو بن حماد بن زهير بن درهم القرشي التيمي الطلحي

کنیت: أبو نعيم الملائي الكوفي

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجررحمہ اللہ کے ہاں ثقہ،ثبت اور امام ذہبی کے ہاں الحافظ تھے۔

پیدائش ووفات:130 ہجری میں پیدائش ہوئی اور 218 یا 219ہجری میں کوفہ فوت ہوئے۔

2۔نام ونسب: معمر بن یحی بن سام بن موسی الضبی الکوفی

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں مقبول، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی توثیق کی ہے اور امام ابو زرعہ رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔

3۔نام ونسب: ابو جعفر محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن أبی طالب القرشی الھاشمی المدنی

کنیت: ابو جعفر الباقر

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔

پیدائش ووفات:57 ہجری میںپیدائش ہوئی اور 114 ہجری میں فوت ہوئے۔

4۔نام ونسب:  جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا ترجمہ حدیث نمبر 28 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح

اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ طہارت کم از کم پانی سے حاصل کی جاسکتی ہےجیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور پھر پورے بدن پر پانی بہانا اور اسی مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پانی پرصفائی کا دارومدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:478/1)

 اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري:24/3)

 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں گویا سیدنا حسین اور محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا سیدنا حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري:478/1)

 حنفیہ نامی عورت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔

بچوں کا صفحہ

بچوں کا صفحہ

 پیارے بچو!

کیسے ہو امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گےجیسا کہ پچھلی مرتبہ ہم نے پڑھا تھا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے ملک شام اور پھر فلسطین چلے گئے اور وہیں سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے لگے ۔

پیارے بچو !اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کا امتحان لیتے ہیں انہیں آزمائش میں ڈالتے ہیں اور جو صبر وشکر سے اس امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں،وہ اللہ کے مزید قریب ہوجاتے ہیں تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی بیوی سیدہ ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے اکلوتے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو مکہ چھوڑ کر آئیں ۔

پیارے بچو اس وقت مکہ بالکل بیابان اور ویران ہوا کرتا تھا جہاں نہ پینے کیلئے پانی دستیاب تھا اور نہ ہی کھانے کیلئے کچھ ہوتا تھا ۔جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بچےکو وادی مکہ میں چھوڑ کر جانے لگے تو ان کی زوجہ محترمہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے سوال کیا کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے؟تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:جی ہاں ،تو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے کہا پھر ہمیں یقین ہے اللہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔باوجود یہ کہ اس وقت وادی مکہ میں نہ کھانا پینا تھا اور اسماعیل علیہ السلام بالکل شیر خوار بچے تھے سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کا اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان تھا کہ وہ ہماری حفاظت فرمائیں گے۔

جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ اسماعیل علیہ السلام بالکل چھوٹے بچے تھے تو انہوں نے پیاس کی شدت سے رونا شروع کردیا ۔ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام سے اپنے بیٹے کا رونا نہ دیکھا گیا اور انہوں نے پانی کی تلاش میں دو پہاڑیوں صفا و مروہ کے چکر لگانے شروع کردیے کہ شاید دور کہیں پانی یا کوئی لوگ نظر آئیں جن سے پانی اور کھانے پینے کیلئے کچھ مل سکے ۔اللہ تعالیٰ کو سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ سعی صفا و مروہ کو عمرے کا رکن بنا دیا۔

پیارے بچو !اللہ کا خاص کرم ہوا اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ایڑی کی چوٹ سے زمین سے چشمہ بہہ نکلا جب سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے یہ دیکھا تو وہ بھاگتی ہوئیں آئیں اور پانی کے گرد حلقہ بنا کر کہنے لگیں زمزم زمزم یعنی رک جا رک جا ۔اور تب سے آج تک اس چشمے کو زمزم کہا جاتا ہےپھر پانی دیکھ کر کچھ اور قبائل بھی وادی مکہ میں آگئے اور سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی اجازت سے وہاں رہنے لگے ۔

پھر کچھ عرصہ بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام واپس تشریف لائے اور اللہ کے حکم سے انہوں نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر کعبۃ اللہ کی تعمیر کی۔

پیارے بچو !انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے ہوتے ہیں۔ہوا یوں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں انہوں نے جب سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو یہ خواب بتایا تو انہوں نے کہا کہ اے پیارے ابا جان جس چیز کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے آپ وہ کریں آپ مجھے ان شاءاللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو مجھے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو آپ مجھے ذبح کردیں ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام انہیں گھر سے لے کر چلے اور راستے میں کئی بار شیطان نے بہکانے کی کوشش کی کہ اے ابراہیم تم اپنی اولاد کو یوں ذبح کردوگے جو تمہیں اتنی عزیز ہے مگر شیطان کو ہمیشہ ناکامی ہوئی ۔اور جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کیلئے لٹایا اور چھری چلانے لگے تو اللہ کے حکم سے اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا آگیا  اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۱۰۵

بلاشبہ تونے خواب کو سچ کر دکھایا ہے….الخ (الصافات:105)

اور ہم اسی واقعے کی یاد میں عید الاضحیٰ کے موقع پر اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں۔

پیارے بچو !سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا جتنا مطالعہ کیا جائے ہمیں توحید اللہ پر مکمل ایمان اور شرک سے بیزاری کی تعلیمات ملتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں شرک سے بچے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور توحید کی محبت عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اللہ کے دوستوں میں شامل ہوجائیں۔

سوالات

کیا انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں ؟

سیدنا ابراہیم علیہ السلام شیطان کے جھانسے میں کیوں نہ آئے؟

صفا و مروہ کہاں واقع ہیں؟

ہمیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے کیا سمجھنے کو ملا؟

پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی کے تاثرات

پاکستان اسٹڈیز سینٹر جامعہ کراچی کے تأثرات

جامعہ کراچی کے اسٹوڈنٹس کا پروجیکٹ سپروائزر سینئر استاذ پروفیسر جناب محمد عمار صاحب کے ہمراہ 7 نومبر 2022ء بروز پیر کو کراچی شہر کے معروف دینی علمی، دعوتی اور اصلاحی ادارے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا وزٹ ہوا۔ جامعہ کراچی کے اسٹوڈنٹس (محمد عالمگیر، امامہ، ام لیلیٰ ، صائمہ، حنا بتول) نے یونیورسٹی کی طرف سے دیئے گئے پروجیکٹ بعنوان’’ کراچی کی تعلیمی،معاشرتی وسماجی، معاشی اور سیاسی ڈیویلپمنٹ میں مدارس کا کردار‘‘ پر ریسرچ اور تحقیق کے سلسلے میں کراچی شہر کے معروف دینی ادارے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا وزٹ کیا جو کہ بین المسالک ہم آہنگی کے سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے مدارس کا وزٹ کرنے کی ایک کڑی ہے۔اس سلسلے میں کراچی یونیورسٹی کی طرف سے چند منتخب مدارس کی خدمات کا تحقیقی وعلمی جائزہ لینے کے لیے طلبہ کو یہ پروجیکٹ دیاگیا جس میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی بھی شامل ہے۔ منتخب اداروں پر ریسرچ ورک مکمل کرکے HECمیں مقالے کی صورت میں پیش کیا جائے گا۔ نیز اس پروجیکٹ میں مدارس کی خدمات وکردار کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مدارس پر اٹھنے والے اعتراضات کے ممکنہ جوابات کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگی۔ ان شاء اللہ

اس وزٹ کے فیڈ بیک میں شرکاء کے تأثرات:

ہماری توقعات سے بڑھ کر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے حضرات کی جانب سے تعاون شامل حال رہا ہے، مطالعاتی دورے کی اجازت مرحمت فرمانے اور پینل ڈسکشن میں مدعو ادارے کی نامور علمی شخصیات کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع عنایت فرمانے پر ہم مدیر الجامعہ فضیلۃ الشیخ جنا ب ضیاء الرحمن المدنی صاحب اور دیگر معزز اراکین ( ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب، ڈاکٹر محمد طاہر آصف صاحب، ڈاکٹر محمد افتخار شاہد صاحب ، ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب ،الشیخ خالد حسین صاحب) اور اساتذہ کرام بالخصوص محترم ومکرم شیخ الحدیث ابو عمر محمد یوسف صاحب اور مؤسس الجامعہ فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کے دیرینہ رفیق کار محترم قاری عبد الرشید صاحب مدظلہ کے تہہ دل سے شاکر وممنون ہیں جنہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر ہمارے بہت سے تنقیدی اور چبھتے ہوئے سوالات کے انتہائی احسن پیرائے میں تسلی بخش جوابات دیئے اور اپنی صحبت میں بیٹھنے کا موقع عنایت فرمایا۔ باہم مل بیٹھ کر بات چیت کرنے سے بہت سارے اشکالات الحمد للہ رفع ہوگئے، ان حضرات کی شفقت اور محبت کی وجہ سے ہماری خوشیوں کی انتہا نہ رہی، ہمارے لیے خاطر تواضع اور ریفریشمنٹ کا بہترین انتظام تھا۔

وزٹ کے حوالے سے جتنے بھی انتظامات اور کمیونیکیشن کا سلسلہ تھا اس میں مولانا ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب کا شروع سے آخر تک بھرپور تعاون رہا۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی انتہائی معزز اور علمی شخصیت ڈاکٹر محمد طاہر آصف صاحب نے بھی ابتداء ہی میں پریزنٹیشن دی جس میں ادارے کے اغراض ومقاصد اور خدمات پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی گئی۔

ڈاکٹر صاحب کا انداز بیان اس قدر جامع تھا کہ ہم طلبہ کے 90 فیصد سوالات پریزنٹیشن کے ذریعے سے ہی حل ہوگئے تھے۔

پریزنٹیشن کے اختتام پر طلبہ کے سوالات کے جوابات بھی بہت عمدہ انداز سے دیئے۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی علمی صلاحیتوں اورخدمات سے بہت مستفید ہوئے۔

ادارے کی معزز شخصیات نے ہماری ٹیم کو پورے ادارے کا وزٹ کروایا اور ساتھ ساتھ تعلیمی وانتظامی شعبوں کا تعارف بھی پیش کیا۔ ہمیں صفائی ستھرائی اور نظم ونسق کے حوالے سے ادارے کا ماحول بہت پسند آیا، یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے اساتذہ کرام میں 9 عدد اعلیٰ تعلیم یافتہ Ph.D پانچ(5) عدد اساتذہ کرام ایم فل کرکے Ph.D میں انرولڈ ہوچکے ہیں جو کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔اسی طرح سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے ایک اسکول میں دو Ph.D اساتذہ کرام خدمات سرانجام دے رہے ہیں حالانکہ اسکولوں میں عموماً Ph.D اساتذہ نہیں ہوتے۔

دوسری اہم بات یہ کہ اس ادارے کی تأسیس عرب ممالک کے جامعات کے طرز پر ہے جس کی وجہ سے جامعہ ہذا میں پڑھنے والے طلبہ کو مکمل عربی زبان کا ماحول فراہم کیاجاتاہے مکمل نصاب عربی زبان میں پڑھایا جاتاہے۔جس نہج پر مدرسہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بانی مبانی فضیلۃ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے قائم کیا تھا انہی بنیادوں پر یہ تحریک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان میں عربی زبان کو ترقی دینے میں اس ادارے کا اہم کردار ہے جس کی وجہ سے یہاں کے فارغ التحصیل فضلاء کے لیے عرب ممالک میں خدمات کے مواقع کہیں زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس ادارے کے بانی کو غریق رحمت کرے، درجات بلند فرمائےاور ان کے ادارے کی خدمات کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین)

تیسری اہم بات یہ ہے کہ مدرسہ ہذا میں رنگ ونسل،قوم قبیلہ، مختلف مسالک کے طلبہ اور عام وخاص کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ مدرسہ میں دینی ودنیوی تعلیم مفت دی جاتی ہے اور مزید برآں کہ اپنے فضلاء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مدینہ یونیورسٹی ودیگر جامعات میں اسکالر شپ پر بیرون ملک بھی بھیجا جاتاہے۔

دور دراز کے بچوں کے لیے بہترین ہاسٹل کا انتظام ہے جہاں رہ کر وہ بآسانی اپنی تعلیم مکمل کر سکتے ہیں۔ عظیم الشان لائبریری بھی قائم ہے، جس میں جدید وقدیم علوم وفنون جن میں تفسیر،اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، اسماء الرجال، فقہ، اصول فقہ، تاریخ وسیر وغیرہ دیگر موضوعات پر مشتمل الحمد للہ ساٹھ (60) ہزار سے زیادہ کتب کا علمی خزانہ موجود ہے۔ یہ عظیم الشان مکتبہ علوم وفنون کا ایک بحر ذخّار ہے۔ لائبریری تک طلبہ اور عام خواتین کی رسائی کا بھی بہترین اور باپردہ انتظام ہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بہت سارے رفاہی کام بھی ہیں، مثلاً: سیلاب زدگان کی خدمات کے حوالے سے،مساکین وبیوہ گان ودیگر مستحقین افراد کی مدد کرنے میں بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ پیش پیش ہے۔

ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب کا دل جیت لینے والا بیان

یہاں دیگر مسالک کے ساتھ کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے، کوئی زبردستی نہیں بلکہ ایک قومی وملی جذبہ کے تحت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنا ہی ایک مسلمان کے شایان شان ہے۔ ایک قومی وملی جذبہ کے تحت ملک اور خاص کر شہر کراچی کی تعمیر وترقی چاہتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی ہو،معاشی ہو، معاشرتی ہو یا سیاسی۔ حکومت وقت کی تائید اور ان کے اچھے کاموں کی تعریف وحوصلہ افزائی اور خامیوں پر ان کی احسن طریقے سے اصلاح اور حکمرانوں کے لیے خیرخواہی، نیک تمنائیں اور ریاست کے قوانین کی پاسداری، ملکی وقومی امن وامان اس ادارے کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔

اللہ تعالیٰ انتظامیہ اور اساتذہ کرام جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی دینی علوم، رفاہی اورملی وقومی خدمات کو قبول فرمائے، مقاصد حسنہ میں کامیاب فرمائے اور روزافزوں ترقی عطا فرمائے اور دین اسلام کی سربلندی،نشرواشاعت اور اعزاز کا ذریعہ بنائے ۔ جامعہ ہذا کے مؤسس اور اساتذۂ عظام کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

15 قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط

ستائیسواں اصول:

وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ (فاطر:۱۸)

’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا ۔‘‘
قرآن حکیم کے اس اصول کا بہت اونچا مقام ہے‘ کیونکہ اس کا بندے کی زندگی پر گہرا اثر ہے‘ اور اِس کاجسم کے اُس ٹکڑے (دل ) کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے‘ جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایاہے کہ اس ٹکڑے کا ٹھیک ہونا سارے جسم کا ٹھیک ہونا ہے اور اس کی خرابی سارے جسم کی خرابی ہے ۔
جب لفظ ’’تزکیہ‘‘ عمومی طور پر بولا جائے تو اس سے دو معنیٰ مراد لیے جاتے ہیں :
پہلا معنیٰ: دونوں قسم کی طہارت ہے‘ ظاہری اور معنوی۔ ظاہری طہارت سے مراد ہے مثلاًکپڑے کی میل کچیل سے پاکیزگی ‘اور معنوی طہارت سے مراد ہے مثلاًقلبِ ایمان اور نیک اعمال کے ذریعے پاکیزگی۔
دوسرا معنیٰ: مراد ہوتاہے اضافہ‘ یعنی جب مال میں اضافہ ہو تو اسے مال میں ’’زکاۃ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہ دونوں لغوی معنیٰ شریعت کا منشا ہیں۔ اس لیے کہ’’ تزکیہ نفس‘‘سے یہ دونوں معنیٰ مراد ہیں‘ یعنی بندے کو ظاہری اور معنوی ہر طرح کی میل کچیل اورنجاست سے پاک کرنا اور اسے قابلِ تعریف اور فاضل اخلاق کے ذریعے ترقی دینا اور مزین کرنا۔ چنانچہ مؤمن کو حکم ہے کہ اپنے آپ کو برے اخلاق مثلاًریاکاری‘ تکبر ‘ جھوٹ ‘ ملاوٹ‘ دھوکہ بازی‘ چکربازی‘ نفاق اور اس طرح کے دوسرے گھٹیا اخلاق سے محفوظ رکھے۔اور یہ بھی حکم ہے کہ اچھے اخلاق مثلاًسچ‘ اخلاص ‘تواضع‘ نرم خوئی اوربندوں کے حق میں خیر خواہی جیسے اخلاق کو اپنائے ‘ نیز دل کو کینہ‘ بغض اورحسد جیسے رذائل اخلاق سے پاک رکھے‘ کیونکہ دل کی پاکیزگی کا فائدہ اسی کو ہو گا ۔ انجام کار کابھی اسی کو فائدہ پہنچے گا اور اس کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوگا۔
اسی معنی کو بیان کرنے کی خاطرقرآنِ کریم کی وہ آیات نازل ہوئی ہیں جن میں نفس کی پاکیزگی اور اسے سنوارنے کاحکم دیا گیا ہے‘ فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی (الاعلیٰ14۔15)

’’بے شک اُس نے فلاح پا لی جو پاک ہو گیا‘ اور جس نے اپنے رب کانام یادرکھا اور نماز پڑھتا رہا‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا(الشمس9۔10)

’’اور جس نے اسے (اپنے نفس کو)پاک کر لیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا‘‘۔ اور جس اصول پر ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔فرمایا:

وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ  (فاطر:۱۸)

’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا‘‘۔ جو شخص بھی قرآنِ کریم کی آیات پر غور کرے گااُسے معلوم ہو گا کہ قرآنِ کریم میں تزکیہ نفس کے موضوع کو بڑا خاص مقام دیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن ِ کریم میں ایک جگہ پر سب سے زیادہ قسموں کی تعداد گیارہ ہے اور اُن سب کا موضوع تزکیہ نفس ہے۔ اور یہ بات ’’سورۃ الشمس‘‘ کے شروع میں آئی ہے ۔
قرنِ کریم کا یہ اصول: وَمَنْ تَزَکّٰی فَاِنَّمَا یَتَزَکّٰی لِنَفْسِہٖ (فاطر:۱۸) ’’اور جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا ۔‘‘ کھلے لفظوں میں کہہ رہا ہے کہ تزکیہ کا سب سے پہلا فائدہ خود تزکیہ کرنے والے کو ہے اور اس آیت کے مفہوم میں ایک دھمکی بھی شامل ہے کہ اے اللہ کے بندے!اگر تو تزکیہ نہیں کرتا تو تزکیہ نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان بھی تجھی کو ہو گا۔
اگرچہ اس اصول کا مخاطب ہر وہ مسلمان ہے جو اِسے سن رہا ہے ‘ البتہ ایک عالم وواعظ اور طالب علم کا حصہ زیادہ اوربڑا ہے ‘ اس لیے کہ لوگوں کی نظر یں جلد ہی اُس کی طرف اٹھ جاتی ہیں‘ اسے غلطی کرنے کا نقصان زیادہ ہوتا ہے اور اس پر تنقید بھی سخت ہوتی ہے۔ واجب تو یہ ہے کہ عالم کی گفتگو اورخطاب سے پہلے اُس کی سیرت وکردارہی لوگوں کو عمل کی دعوت دے ۔
دین میں تزکیۂ نفس کے عظیم مقام کی وجہ سے جن ائمہ اور علماء نے عقائد کے موضوع پر لکھا ہے‘ انہوں نے مختلف عبارتوں کے ذریعے تزکیہ نفس پر بڑا زور دیا ہے۔ ائمہ دین نے اس بات کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے‘ اس لیے کہ اعتقاد اور کردار کے درمیان بڑا گہرارشتہ ہے ‘ کیونکہ ظاہری کردار باطنی اعتقاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ظاہری کردار میں کسی قسم کا ٹیڑھ باطنی ایمان میں کمی کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ ثابت ہوا کہ کردار اور اعتقاد آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ اسی لیے اخلاق وکردار کی بہت ساری باتیں ایمان کے شعبوں میں داخل ہیں۔
جب لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ تزکیہ نفس کا معاملہ آسان اور ہلکا ہے توبہت ساری متضاد شکلیں سامنے آئیں اور علم وعمل میں دوری پیدا ہو گئی۔
اس قرآنی اصول پرگفتگو کرتے ہوئے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کا تزکیہ کیسے کریں؟اس سوال کا جواب تو بہت طویل ہے‘ لیکن میں اختصار کے ساتھ تزکیہ نفس کے اہم ذرائع کا ذکر کیے دیتا ہوں:
٭اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا اور اس کے ساتھ گہرا لگاؤ پیدا کرنا۔
٭اہتمام کے ساتھ قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنا اوراس پر غور وفکر کرنا۔
٭کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔
٭فرض نمازوں کی پابندی کرنا‘ نیزنمازِ تہجد کا اہتمام کرنا‘ خواہ تھوڑا ہی ہو سکے۔
٭گاہے بگاہے اپنی ذات کا خود محاسبہ کرنا۔
٭بندے کے دل میں آخرت کی یاد کا زندہ رہنا۔
٭موت کو یادرکھنااور قبرستان کی زیارت کو جانا۔
٭نیک لوگوں کی سیرت کا مطالعہ کرنا۔
دوسری طرف یہ بھی دھیان رہے کہ عقل مند وہ ہے جو اُن راستوں کو بند رکھتا ہے جہاں سے مذکورہ بالا وسائل ِ اصلاح کے نتائج کو نقصان ہوتا ہو۔اس لیے کہ دل کے مقام پر جاکر وسائل ِ اصلاح اور وسائل ِ فساد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اُن کوعلیحدہ علیحد ہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ انسان وسائل ِ اصلاح کا اہتمام کرے‘ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وسائل ِ فساد سے بھی بچتا رہے‘ مثلاً:حرام چیزوں کی طرف دیکھنا‘ حرام مواد سننا‘ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ باتیں تو دور کی بات ہے‘ غیر متعلقہ‘ لغوباتوں سے بھی اپنی زبان کو محفوظ رکھنا۔

دین اور مذہب میں تفریق

اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر ﷺ کو دین اسلام دے کر اس دنیا کی طرف بھیجا اسلام وہ دین ہے جو کامل اور مکمل ہے، جس کی ہر آیت اور ہر حکم روز روشن کی طرح واضح ہے اس دین میں کسی قسم کی کوئی کجی نہیں ہے۔
یہ دین دنیاکے تمام ادیان پر غالب ہونے کے لیے بھیجاگیا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ:

لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ (الصف:9)

’’تاکہ اسے اور تمام مذاہب پر غالب کر دے ‘‘
الدین: کے معنی ہے ملت، حالت، عادت اور سیرت۔کسی خاص ملت، حالت، عادت اور سیرت اختیار کرنے کو دین کہا جاتاہے۔امام الجرجانی رحمہ اللہ نے دین، ملت اور مذہب کے یہ معنی بیان کیے ہیں:

أن الدين منسوب إلى الله تعالى، والملة منسوبة إلى الرسول، والمذهب منسوب إلى المجتهد(التعريفات (ص: 106)

’’دین کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی جاتی ہے ، ملت کی نسبت رسول اللہ کی طرف اور مذہب کی نسبت مجتہد کی طرف ہوتی ہے‘‘
اللہ تعالی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے:

اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ(آل عمران:19)

’’بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہے ‘‘
اس دین اسلام کو آپ ﷺ نے سراسر خیر خواہی کانام دیا ہے۔
الدین النصیحۃ(مسلم)دین سراسر خیر خواہی ہے۔
دین اسلام پر عمل کرنا اور اس کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ہم سب مسلمانوں کے لیے لازمی ہے ،کہ اللہ اور اس کے رسول کے دین پر عمل پیر اہوںاور اللہ تعالی اس دین کے علاوہ دوسرے ادیان پر عمل کرنے والوں کا کوئی بھی عمل قبول نہیں فرمائےگا اور جولوگ اس دین اسلام کو چھوڑ کر دوسرے ادیان پر عمل کرتے ہیں اور دوسرے ادیا ن کے مطابق زندگی بسر کرنے والے لوگ آخرت میں ناکام اور نامراد ہوں گے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(آل عمران:85)

’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ

کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا‘‘
آپ ﷺ کا فرمان ہے:

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ(موطأ مالك ت عبد الباقي (2/ 899)

’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم دین اسلام پر ثابت قدمی سے عمل کریں۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے مذہب کو وہ اہمیت اور حیثیت دے دی ہے جو دین کو دینی چاہیے تھی جب کہ مذہب صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی مگر دین اسلام ہر حال میں صحیح اور باعث اجرو ثواب ہی ہوتا ہے۔
حق اور سچ کی راہ ایک ہی ہوتی ہے اکثر اسلامی ممالک میں یہ مذاہب رائج ہیں شافعی مذہب ، مالکی مذہب، حنبلی مذہب، حنفی مذہب اور اہل تشیع۔
ان مذاہب کے علاوہ کچھ دوسرے مذاہب بھی تھے جیسے سفیان الثوری کا مذہب، سفیان بن عیینہ کا مذہب، امام اوزاعی کا مذہب، اور ابو داؤد الظاہری کا مذہب۔ان مذاہب میں سے اول الذکر مذاہب اب تک اس دنیا میں رائج ہیں، ان مذاہب کو عوام اور علماء نے نجات کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے اس لیے ان مذاہب کے پیرو کاروں نے اپنے اپنے مذہب کو مضبوطی سے تھام لیا ہے اور مؤخر الذکر مذاہب اس دنیا میں رائج نہیں ہیں کیونکہ ان کو کسی حاکم کی سرپرستی نصیب نہیںہوئی اس لیے یہ مذاہب قصہ پارینہ ہوگئے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حق چار یا پانچ ہوسکتے ہیں یا حق ایک ہی ہوتاہے؟؟؟
اگر حق ایک ہی ہوتا ہے تو باقی مذاہب کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے؟ اگر حق چارہویا پانچ ہوسکتے ہیں تو پھر ایک مسئلہ ایک مذہب کے نزدیک سنت کیوں اور وہی مسئلہ دوسرے مذہب کے نزدیک خلاف سنت کیوں ہوتاہے؟ اس کی مثال ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک تصور کی جاتی ہیں، کیا دین اتنا متضاد ہوسکتاہے؟ جب کہ دین اسلام کامل اور مکمل ہونے کی گواہی خود اللہ تعالی نے دی ہےکہ

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا(المائدہ:3)

’’ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپناانعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔ ‘‘
مذہب نقص اور عیب سے پاک نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب دین کی طرح کامل اور مکمل ہوتاہے، اس کی مثال یہ ہے کہ مذہب حنفی بینکنگ کے نظام کے متعلق ہماری رہنمائی نہیں کرتا بلکہ احناف نے بینکنگ کا نظام حنبلی مذہب سے لیا ہے اس سے دین اور مذہب کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔دین مکمل اس لیے ہےکہ یہ اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہے اس لیے نقص اور عیب سے پاک ہے اور مذہب وقت کے علماء اور مجتہدین کے اجتہاد کا نام ہے۔مجتہدین کا اجتہاد کبھی صحیح بھی ہوتا ہے اور کبھی غلط بھی،اور ایک مجتہد کی رائےدوسرے مجتہد کی رائے کے برعکس بھی ہوتی ہے۔کیونکہ ہر ایک کی سوچ اور فکر کا زاویہ مختلف ہوتاہے۔
اور علم تک رسائی میں بھی فرق پایا جاتا ہے ان باتوں کا عملی ثبوت یہ مذاہب اور مختلف آراء ہیں جوہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں اور اسی طرح ہمارے لیے مذاہب پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم اسلام پر عمل کریں۔اگر احناف بینکاری کا نظام حنبلی مذہب سے لیتے ہوئے گناہ گار نہیں ہوتے تو اس کے علاوہ دوسرے مسائل لیتے ہوئے کیوں کر گناہ گار ہوسکتے ہیں؟اگر کوئی شخص حنفی مذہب چھوڑ کر شافعی مذہب اختیار کرتاہے تو ایسا کرنا دلیل کی بنیاد پر اس کے لیے نہ صر ف جائز ہے بالکل یہی مطلوب ہے۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الانصاف‘‘ میں لکھتے ہیںکہ:’’یہ جان لیں کہ پہلی اور دوسری صدی میں لوگ کسی معین مذہب کے مقلد نہیں تھے‘‘
مذاہب کو لازمی پکڑنا اس امت کے کسی امام سے ثابت نہیں بلکہ چاروں مذاہب کے ائمہ نے کسی مذہب کو مضبوطی سے پکڑلینے اور اس پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کسی بھی شخص کے لیے ہمارے قول سے استدلال کرنا جائز نہیں جب تک وہ یہ نہ جانتاہوکہ ہم نے اسے کہاں سےلیا ہے؟ ایک اور روایت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ :’’جو شخص میری دلیل نہ جانتا ہواس پر میرے کلام سےفتوی دیناحرام ہےکیونکہ ہم انسان ہیں آج ایک بات کہتے ہیں توکل اس سے رجوع کر لیتے ہیں‘‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ:’’میں انسان ہوں کبھی صحیح کو پہنچتاہوں تو کبھی خطا کرجاتاہوں اس لیے میری بات پر نظر ڈالو اور اس میں سے جو بھی کتاب وسنت کے موافق ہو اسے لے لو اور جوبھی کتاب وسنت کے موافق نہ ہو اسے چھوڑدو‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ: ’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جسے رسول اللہ ﷺ کی کوئی سنت معلوم ہوگئی تو اس کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ کسی قول کی وجہ سے سنت کو چھوڑ دے‘‘ اور فرمایاکہ:’’اگرمحدثین کے یہاں کوئی حدیث صحیح سند سے ثابت ہواور میری بات کےمخالف ہو تو میں اپنی بات سے زندگی میں اور موت کے بعد رجوع کررہا ہوں‘‘
امام احمدبن حنبلhفرماتے ہیںکہ:’’تم لوگ میری تقلیدکرو نہ مالک کی نہ شافعی کی نہ اوزاعی کی اور نہ ثوری کی بلکہ تم بھی اس جگہ سے لو جہاں سے انہوں نےلیا ہے‘‘
ائمہ مذاہب کے اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ کسی خاص مذہب اور کسی خاص امام کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔ان ائمہ کے اقوال کے ہوتے ہوئے بھی احناف ، شافعیہ ، مالکیہ نے کس دلیل کی بنیاد پر ان ائمہ کے اقوال اور فتوی کو مذہب بنالیاہے۔ان کے مذہب بنانے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ مذکورہ اقوال ان ائمہ کے نہیں ہیں بلکہ ان کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں اگر یہ اقوال ان ائمہ کے ہیں تو یہ مذاہب کیسے وجود میں آئے؟
’’مذہب‘‘ دین اسلام کے ماہر علماء اور فقہاء کی فکر اور رائے کا نام ہے۔ان علماء اور فقہاء نے کسی دینی مسئلے میں غور وفکر کے بعد جو رائے پیش کی ہے یہی رائے آگے جاکر ایک مستقل مذہب بن گیا۔اسی لیے مذاہب اربع کی اصطلاح عام ہوگئی۔ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہ کہنے لگا کہ اس مسئلے میں ہمارا مذہب یہ ہے۔اگر نیک نیتی سے غور کیا جائےتو یہ صرف ایک رائے تھی جو کسی امام نے دی ہے۔بعد میں یہ رائے ایک مستقل مذہب بن گیا اور امام کی طرف اس رائے کو منسوب کرکے اس پر سختی سے عمل کرنا ، کیا یہ معقول بات ہے؟اور کیا یہ اس امت کے حق میں فائدہ مند عمل ہے؟دین اللہ تعالی کا دیا ہوازندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے اور مذہب کسی مجتہد کی رائے اور فکر اپنا نے کا نام ہے دین ایک مقد س شے ہے اور مذہب میں بہر حال معصومیت نہیں ہے اس میں کہیں نہ کہیں خطا اور غلطی کا امکان ضرور پایا جاتا ہے۔
دین کی طرف نسبت کرنا قرآن اور سنت کا مطالبہ ہے اور مذہب کی طرف نسبت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ اکابرین کے نظریہ اور رائے میں غلو کرنا یا ان کی آراء پر سختی سے عمل کرنا ’’مذہب‘‘ کہلاتاہے۔دین کی پیروی کرنا فرض ہے اور اس کی پیروی سے انکار یا روگردانی کرنا کفر ہے اور اگر کوئی شخص کسی مذہب کا انکار کرتاہے یا مذہب کی کسی رائے پر عمل نہیں کرتاتو بہر حال مسلمان ہی رہے گا کیونکہ مذہب ایک فرد کی رائے اور سوچ پر سختی سے چمٹ جانے کا نام ہے اور مسلمان سے یہ مطلوب نہیں ہے۔انسان جب پیدا ہوتاہے تو وہ اپنی فطرت کے مطابق آزاد پیدا ہوتاہے یہ کسی مذہب اور مسلک پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ پیدائشی طور پر انسان مؤحد اور توحیدپرست پیدا ہوتا ہےکیونکہ اللہ تعالی نے اس انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس سے اپنے رب ہونے پر عہد لیا تھاکہ :

أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا(الأعراف: 172)

’’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ‘‘
اللہ تعالی نے تمام انسانوں سے یہ عہد لیا تھا اور سب نے مل کر یہ اقرار کیا تھا یہ اقرار توحید کا اقرار اور اپنے بندے ہونے کا اقرار تھا۔انسان اس دنیا میں آخر کسی خاص مذہب اور کسی خاص مسلک کا پیروکار بننے پر مجبور ہوجاتا ہے اس کا معاشرہ اس کو ایساکرنے پر مجبور کرتاہے، کیونکہ اس کے آس پاس رہنے والے کسی نہ کسی مسلک کے پیروکار ہوتے ہیں اس کے گھر والے اس کے والدین اس کے دوست احباب اس کے اساتذہ اس کے محلے کی مسجد کا امام اس لیے اس کو ان تمام لوگوں کامذہب اور مسلک ، اصل دین معلوم ہوتاہے۔مسجد میں اس کو جو پہلا درس دیا جاتاہے وہ بھی کسی نہ کسی مذہب اور مسلک کا درس ہوتاہے اس لیے یہ اس سے زیادہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتااور یہ مذہت کے متعلق سوال وجواب کو گنا ہ تصور کرتاہے کیونکہ اس کو اس معاشرے نے یہی سکھایا اور جو معاشرے نے اس کو سکھایا ہے یہ اسی کو دین سمجھ بیٹھاہے۔
نبی کریم ﷺ فرمایا:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(صحيح البخاري (2/ 100)

’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘
فطرت سے مراد یہ ہے کہ یہ انسان پیدا ہونے سے پہلے جو اللہ تعالی سے وعدہ کرکے آیا تھا ، اس وعدے پر کاربند رہتا مگر اس کا معاشرہ اور اس کے والدین وہ وعدہ وفا کرنے میں حائل ہیں اور یہ اس معاشرے کا جو مذہب اور مسلک ہے وہی اس کا مسلک اور مذہب بن جا تا ہے۔فقہاء کا یہ اصول ہے کہ:’’عام آدمی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس کا مذہب وہی ہوتاہے جو ا س کو فتویٰ دیتا ہے‘‘ اگر فتوی دینے والاحنفی ہے تو یہ بھی حنفی ، شافعی ہے تو یہ بھی شافعی ، مالکی ہے تو یہ بھی مالکی اور اگر حنبلی ہے تو یہ بھی حنبلی بن جاتاہے۔جبکہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک حنفی ہے جوکہ حقیقت کے برخلاف ہے۔کیونکہ کسی شخص نے ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب میں اپنی رجسٹری نہیں کروائی بلکہ ایک عام آدمی کا مذہب وہ ہے جو مسجد کے مولوی صاحب کا مذہب ہے اور یہ بات بھی سراسرانا انصافی پر مبنی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ ملک ہمارے مذہب کا پیروکار ہےجبکہ ہمیں دین اسلام ، قرآن اور رسول اللہ ﷺ اور ائمہ اربعہ نے کسی خاص امام کے مذہب کی تقلید اور پیروی سے منع کیاہے۔اللہ تعالی نے ہمیں واضح الفاظ میں یہ تعلیم اور تلقین کی ہےکہ :

فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا(النساء59)

’’ پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے‘‘
مگرافسوس ان علماء ، فقہاء اور مفتیان کرام پر ہے جو مسائل کو حل کرنے کے بجائے الجھا دیتے ہیں مسائل کو اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ سے حل کرانے کے بجائے ان سے حل کروائے جاتے ہیں جہاں سے یہ مسائل اختلافی بنے ہیں اور مذہب کو مذہب تب ہی کہا جاتاہے جب کس خاص امام کی سوچ اور فکر پر مضبوطی سے عمل کیا جاتاہے تب یہ عمل مذہب کا روپ اختیار کر لیتاہےاور مذہب کی بنیاد کسی خاص فقہ پر رکھی جاتی ہے یہ ایک مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کو چھوڑکر کسی دوسرے مذہب پر عمل نہیں کرسکتاہے۔
اس کے لیے یہ اصول نہ اللہ تعالی نے بنایا ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی نے جس کی طرف یہ مذاہب منسوب کیے جاتے ہیں بلکہ یہ اصول دوسرے اور تیسرے درجہ کے علماء اور مفتیان کرام نے اپنی طرف سے گھڑ لیاہے۔مذہب کی بنیاد فقہ پر ہوتی ہے اور موجودہ فقہ عباسی دور میں وجود میں آئی ہے۔
اس موجودہ فقہ میں مسلمان حکمرانوں کے متعلق کئی ابواب ملیں گے۔اگر اس فقہ سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ جب مسلمان حاکم کی حیثیت میں نہ ہوتو پھر ان مسلمانوں کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ اس سوال کا واضح جواب آپ کو اس فقہ میں نہیں ملے گا۔جب یہ فقہ مدون کی گئی تو اس وقت سلطانی خلافت کا زمانہ تھا اور موجودہ دور کی عوامی جمہوریت اس وقت قائم نہیں ہوئی تھی۔اس لیے اس فقہ میں خلیفہ اور بادشاہ کے متعلق احکام ملیں گے۔مگر جب آپ موجودہ فقہ سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ مسلمان کسی ملک میں اکیلے حکمران نہیں ہیں مگر جمہوری نظام کے تحت دوسری اقوام کے ساتھ مل کر حکومت قائم کریں تو ان حالات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟تو اس سوال کا جواب آپ کو اس موجودہ فقہ میں نہیں ملے گااور نہ ہی ایسی جمہوری حکومت کے متعلق اس فقہ میں کوئی رہنمائی ملےگی جو دوسرے شریکوں کے ساتھ مل کر قائم کی جائے۔یہ مسئلہ دارالاسلام ، دارالحرب یا دارالکفر کا ہے؟ کیا موجودہ دور میں یہ اصطلاحیں استعمال ہوسکتی ہیں؟ یہ کمی صرف اور صرف موجودہ مدون فقہ میں ملے گی۔اگر ہم فقہ سے آگے بڑھ کر قرآن وسنت کی طرف آئیں گے تو قرآن وسنت میں ہمیں ہر صورت حال اور ہر قسم کے مسائل کی رہنمائی ملے گی۔یہی اصل فرق ہے دین اورمذہب میں ، دین کامل اور مکمل اللہ تعالی کی طرف سے آیا ہے اور مذہب کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہوبہر حال اس میں نقص اور کمی ضرور پائی جائے گی کیونکہ یہ ایک انسان کی سوچ فکر اور رائے پر مبنی ہوتا ہے اور انسان کی رائے میں غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے ایک امام کی رائے سے دوسرے امام کا اختلاف بھی اس لیے ہوتا ہےکہ دوسرے امام کی نظرمیں پہلے امام کی رائے کمزور ہوتی ہے۔اس لیے دوسرا امام پہلے کی رائے سے اختلاف رکھتے ہوئے اپنی رائے پیش کرتاہے۔مگر قرآن اور سنت کی موجودگی میں کسی بھی امام کو اختلاف رائے رکھنے کا کوئی خیال بھی دل میں نہیں آئے گا۔اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے مسلمانوں کا یہ اجماع ذکر کیا ہے کہ :’’تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کو آپ ﷺ کی کوئی سنت معلوم ہوجائےتو پھر اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی کےقول کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سنت ترک کردے۔مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ اپنے علمی کارنامے کو اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا علمی کارنامہ یہ ہے کہ حنفی مسلک کی دوسرے مسالک پر فوقیت ثابت کریں۔ ا س قول کے بعد مولاناانور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے آخری عمر میں افسوس کا اظہار کیا جس کے راوی مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ہیں، ذکر کرتے ہیںکہ مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے اپنی آخری عمر میں افسوس اور حسرت کے انداز میں کہہ دیا کہ:’’ہم نے اپنی ساری عمر کس بیکار مشغلے میں کھپا دی‘‘ یعنی حنفی مسلک کو دوسرے مسالک پر فوقیت دینا اگر کوئی خاص مذہب و مسلک دین اور حق ہوتا تو پھر مولانا انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ کو اپنی زندگی پر افسوس نہ ہوتا۔اس سے دین اور مذہب میں فرق واضح ہوگیا ہے۔ہمیں بھی دین اسلام کی خدمت کرنی چاہیے نہ کہ مذہب کی۔دین قرآن اور سنت کا نام ہے اور مذاہب امام کی رائے اور فکر کانام ہے۔
————–

مولانا میاں محمود عباس رحمہ اللہ

میاں محمود عباس بن میاں قطب الدین جھجہ کے گھر 1964ء کو جھجہ کلاں تحصیل دیپال پور ضلع اوکاڑہ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم : 

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل اسکول جھجہ کلاں سے حاصل کی ، ناظرہ قرآن مجید اپنے گاؤں کی مسجد میں حافظ محمد یوسف مرحوم اور مولانا عبد المجید مرحوم سے پڑھا۔

اس کے بعد آپ کے والد گرامی درس نظامی کی تعلیم کے حصول کے لیے مولانا مفتی محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث صوبہ سندھ کے ساتھ جامعہ دار الحدیث راجووال میں چھوڑ آئے۔ ایک سال زیر تعلیم رہنے کے بعد جھجہ خاندان کے نامور بزرگ استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث مولانا محمد رفیق سلفی صاحب حفظہ اللہ آپ کو جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ لے گئے وہاں پر چار سال زیر تعلیم رہنے کے بعد فاضل عربی اور درس بخاری کے لیے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں داخلہ لے لیا۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ ہی سے فاضل عربی کا امتحان پاس کیا اور بخاری شریف شیخ الحدیث والتفسیرمولانا محمد عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ سے پڑھی۔ جامعہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد جامعہ دار الحدیث رحمانیہ کراچی میں عربی لینگویج کا کورس کرنے کے لیے فضیلۃ الشیخ عبد اللہ سالم الدوسری پروفیسر جامعہ ملک ریاض سعودی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے استفادہ کیا۔ جامعہ دار الحدیث رحمانیہ کراچی میں ہی محقق عالم دین شیخ الحدیث مولانا کرم الدین السلفی سے دوبارہ بخاری شریف پڑھی۔

خطابت :

مولانا میاں محمود عباس دوران تعلیم ہی جامع مسجد بیت السلام لیاقت آباد کراچی میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد دو سال تک کراچی میں بطور خطیب رہے اس کے بعد بطورمدرس جامعہ تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں درسی کتب چند سال تک پڑھاتے رہے ۔ تدریس کے ساتھ ساتھ جامع مسجد توحید المعروف لال مسجد قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں بطور خطیب خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد جامع مسجد مبارک اہل حدیث پتوکی میں خطبہ جمعہ کا آغاز کیا آپ سے قبل مفکر اسلام مولانا محمد ابراہیم کمیرپوری رحمہ اللہ یہاں پر خطیب تھے۔ آپ نے ان کی زندگی میں ہی یہاں خطبہ جمعہ کا آغاز کیا۔

اساتذہ کرام : 

مولانا میاں محمود عباس صاحب نے وقت کے جن اساطین علم سے استفادہ کیا ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:

محدث زمان حافظ محمد محدث گوندلوی ، مفکر اسلام مولانا معین الدین لکھوی ، شیخ الحدیث مولانا عبد اللہ امجد چھتوی، شیخ الحدیث مولانا عبد المنان نورپوری، شیخ الحدیث مولانا الحلیم برادر مولانا حافظ عبد العلیم یزدانی، مولانا عبد الرشید،شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد لکھوی بن ولی کامل مولانا محی الدین لکھوی رحمہم اللہ علیہم اجمعین اور مولانا عبد الحمید ہزاروی اور مولانا محمد رفیق سلفی حفظہما اللہ

تنظیمی وابستگی وذمہ داری :

میاں محمود عباس صاحب تنظیمی ذہن رکھنے کی وجہ سے

شروع سے ہی اہل حدیث کی کسی نہ کسی تنظیم سے وابستہ

رہے۔ آپ نے اپنی تنظیمی زندگی کا آغاز جمعیت طلبہ اہل حدیث سے کیا اس کے بعد آپ جمعیت شبان اہل حدیث پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہے ہیں ۔ جب مسلک اہل حدیث کی دوبڑی جماعتوں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان وجمعیت اہل حدیث پاکستان کا اتحاد ہوا اور نوجوانوں کی تنظیم اہل حدیث یوتھ فورس پاکستان کو بنایاگیا تو آپ کو اہل حدیث یوتھ فورس پاکستان کا ڈپٹی سیکریٹری جنرل بنایاگیا اور آپ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ 2011ء میں آپ کو مرکزی جمعیت اہل حدیث صوبہ پنجاب کا ناظم اعلی مقرر کیاگیا اور آپ تاحال 2018ء یہ ذمہ داری نبھا رہےتھے۔

جامعہ مدینہ کا قیام :

میاں محمود عباس نے 1996ء کو جی ٹی روڈ پتوکی میں 4 کنال اراضی خرید کر جامعہ مدینہ کی بنیاد رکھی اور اب تک اس جامعہ کے انتظام وانصرام آپ کے ذمہ تھا۔ بحمد اللہ اس جامعہ سے 250 حفاظ کرام اور تقریباً 65 علماء کرام سندفراغت حاصل کرچکے ہیں یہاں سے فراغت حاصل کرنے والوں میں جماعت کے مشہور خطیب قاری حافظ محمد اقبال قصوری جو کہ حال ہی میں اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں وہ بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی دین حنیف کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

تبلیغی سفر :

میاں محمود عباس صاحب نے جماعت کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ اندرون وبیرون ملک تبلیغی سفر بھی کیئے ،آپ دین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے سعودی عرب، بحرین ، کویت ، قطر، متحدہ عرب امارات وغیرہ بھی کئی بار تشریف لے جاتے رہے۔

شادی واولاد :

میاں محمود عباس صاحب نے ایک شادی کی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں عطا کی ۔

وفات :

میاں محمود عباس صاحب 26 اکتوبر 2018ء کو احرام پہنے عمرے کی نیت سے مکہ مکرمہ پہنچے اور سستانے کی غرض سے لیٹ گئے آپ کے ساتھ مولانا محمد ابراہیم طارق صاحب ناظم اعلیٰ صوبہ سندھ ، عبد الحسیب حسن ذوالفقار علی جوئیہ وغیرہ بھی تھے۔ خطبہ جمعہ کے لیے جب اذان ہوئی تو آپ کو اُٹھانے کی کوشش کی تو دیکھا کہ آپ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ہیں۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون

اگلے دن بعد نماز عشاء حرم مکی میں آپ کی نماز جنارہ امام کعبہ جناب فیصل الغزاوی صاحب حفظہ اللہ نے پڑھائی اور آپ کو بلدالامین مکہ مکرمہ میں دفن کر دیاگیا۔

اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ . … 

تبصرۂ کتب

کتاب کا نام : نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا مسنون ہے ۔

مؤلف : ابو زبير محمد ابراهيم رباني

ناشر : دارالاسلاف سندھ                        كل صفحات : 96

تبصره نگار : شیخ عبدالوکیل ناصر

کسی بھی مسلمان کے جنازے میں شرکت اس کے آخری حق کی ادائیگی ہے جو کہ شرعا ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ “الموت قدح کل نفس شاربوھا” کے مصداق مخلوق میں سے ہر ایک نے موت سے ہمکنار ہونا ہے ۔

اور پھر یقینا فوت شدہ مسلمان کا جنازہ بھی ہوناہےلہٰذا دیگر فقہی مسائل کی تفہیم کے ساتھ ساتھ جنازہ ، نماز جنازہ اور اس کے تمام تر متعلقات کا علم اور فہم بھی ضروری ہے ۔

اسی غرض سے تقریبا تمام محدثین نے اپنی اپنی تالیفات اور سنن میں کتاب الجنائز یا ابواب الجنائز کے عنوان سے احادیث و آثار ذکر کیے ہیں ۔كما لا يخفي علی اهل العلم

اور پھر بعض اہل علم نے مکمل تصنیف ہی اس عنوان سے مرتب کی ہے اور اس موضوع کو اس کے متعلقات کے ساتھ سمیٹ کر ایک ہی جگہ رکھ دیا ہے ۔

جیسے امام و محدث عبدالرحمان مبارکپوری اور شیخ ناصر الدین البانی رحمہما اللہ وغیرہ کی تصانیف اس پر شاہد ہیں ۔ اللہ تعالی ان تمام اہل علم کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ہم کوتاہ نظروں کے لیے اس مسئلہ کی تفہیم کو آسان بنایا ۔

دیگر عناوین کی طرح اس عنوان پر بھی تا حال لکھنے کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا ۔ ان شاء اللہ

زیر نظر و زیر تبصرہ تالیف لطیف اس سلسلے کی ایک ذھبی کڑی اور لڑی ہے کہ جس میں فاضل مؤلف مولانا ابوزبیر محمد ابراہیم ربانی حفظہ اللہ نے نماز جنازہ میں اختتام نماز پر سلام سے متعلق سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔

کتاب کے سرورق پر تقدیم و نظر ثانی کے تذکرے میں عالم باعمل شیخنا ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ ، محقق دوراں غیرت اہل حدیث ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں حفظہ اللہ اور میدان تحقیق و تخریج کے شہسوار حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے اسماء کا آ جانا ہی کتاب کے منھجی صلابت كے لیے کافی ہے ۔ جزاھم اللہ خیرالجزاء

کچھ کہنے اور لکھنے کی حاجت ہی نہیں ہے البتہ الامر فوق الادب کے تحت فاضل دوست صاحب علم و فضیلة الشیخ محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ کے حکم پر یہ چند ٹوٹے جملے سپرد قرطاس کر رہا ہوں ۔

أحب الصالحين ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا

اس دعا کے بعد عرض ہے کہ یہ کتاب بحمد اللہ تعالی احادیث مبارکہ ، آثار صحابہ ، اقوال سلف اور اجماع کے دلائل سے مزین و معمور اور مملوء ہے ۔

تحقیق و تخریج اور رجال و رواة کے ایسے مباحث کہ نہ صرف طلبة العلم بلکہ اصحاب علم و فضل بھی سیرابی حاصل کرلیں ۔ انداز افہام و تفہیم کا اختیار کیا گیا ہے نہ کہ تحکم و تسلط کا ۔ نیز الزامی حوالہ جات اور جوابات کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے ۔

نماز جنازہ میں ایک ہی سلام کے مسنون ہونے پر ایک جامع اور مانع تحریر ہے ۔ اہل علم و دانش امید ہے ، بنظر تحسین و تائید دیکھیں گے ۔

کتاب میں محترم فاضل دوست اور میرے ہم مکتب الشیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کی داد شجاعت ہی دیکھنے کو ملی ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ رؤوف و رحیم اس کتاب کو عوام الناس کے لیے باعث منفعت بنا دے اور مؤلف و مقدم اور ناشر اور دیگر رفقاء کے لیے ذخیرہ آخرت بنا دے ۔

وما ذلك علي الله بعزيز

۔۔۔

نام کتاب : توضیح الفرقان

تالیف : فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الوہاب روپڑی حفظہ اللہ

صفحات : 978 بڑا سائز عمدہ رنگین کاغذ مجلد

ناشر : محدث روپڑی اکیڈمی جامع القدس

قیمت : درج نہیں

تبصرہ نگار : محمد انس اقبال

زیر تبصرہ کتاب اردو زبان میں قرآن پاک کی ایک عمدہ تفسیر ہے۔ تفسیر کا مطلب وضاحت کرنا ہے اور اصطلاحی طور پر اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرامین کی توضیح ہے کہ وہ اپنے بندوں سے کیا مطالب فرماتا ہے؟ کس بات کا حکم دیتاہے اور کس سے منع فرماتاہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن پاک نازل فرمایا اور اس کی تفسیر اور توضیح رسول اکرم کا منصب قرار دیا۔

آپ  نے اپنے فرامین اور عمل مبارک سے کتاب اللہ کی تفسیر فرمائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تفسیر سکھائی اور سمجھائی۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تفسیر قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا تو تابعین عظام کے ساتھ ساتھ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ان سے یہ مقدس علم سیکھا۔ امام مجاہد وعکرمہ رحمہما اللہ وغیرہ اس سلسلے میں بہت نامور ہوئے پھر ان سے آگے یہ سلسلہ چلتا گیا۔ قرآن پاک چونکہ علوم ومعارف کا خزانہ اور ناپید کنار سمندر ہے۔ اس لیے بڑے بڑے علماء کرام اورمفکرین عظام نے اس شناوری کو سعادت جانا اور اس کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیں ، امام طبری، امام قرطبی اور حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہ نے تفسیر میں شاندار تصانیف پیش کیں۔

اس علم عظیم کے خدمت گزاروں اور اس سے تعلق رکھنے والے سعادت مندوں میں ایک نام فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الوہاب روپڑی حفظہ اللہ فاضل ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کا بھی ہے جنہوں نے تفسیر بالماثور اور منہج سلف کے عین مطابق توضیح الفرقان کے نام سے قرآن پاک کی تین سورتوں (الفاتحہ، البقرۃ اور آل عمران) کی تفسیر لکھی ہے۔ یہ تفسیر اپنی مثال آپ ہے اس تفسیر کی خوبیاں یہ ہیں کہ شیخ محترم نے تفسیر کرتے وقت چند اہم چیزوں کا خاص خیال رکھا ہے جو قابل تحسین وستائش ہے۔

1 قرآنی آیات کی تفسیر آیات قرآنیہ کے ساتھ کی یعنی (تفسیر القرآن بالقرآن) کا اہتمام خاص کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر میں فرمایا کہ انعام یافتہ وہ لوگ ہیں جو انبیائے کرام ،صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں۔

2 تفسیر کرتے ہوئے مستند احادیث کاالتزام کیا۔جیسا کہ انہوں نے آمین کے حکم میں ذکر فرمایا کہ سورئہ فاتحہ کے اختتام پر بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  جب وَلَا الضَّالِّينَ پڑھتے قال آمین رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُتو بلند آواز سے آمین کہتے۔

3 حسب ضرورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے فرامین کو قلمبند کیاگیاہے۔حضرت بجالہ بن عبید رحمہ اللہ فرماتےہیں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہر جادوگر(مردوعورت) کو قتل کرنے کا فرمان جاری فرمایا تھا چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا تھا۔

4 ضعیف اور من گھڑت روایات سے کلی اجتناب برتا گیاہے۔ جالوت کا قتل سیدنا داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں ہونے کی تین وجوہات ہیں :

۱) سیدنا داؤد علیہ السلام اس وقت نوعمر اور جنگی امور سے بالکل ناآشنا تھے ان کے ہاتھوں جالوت جیسے جابر اور ظالم بادشاہ کو قتل کرواکر لوگوں کے دلوں سے ایسے حکمرانوں کا خوف اور ڈر زائل کرنا مقصود تھا کہ جن کو تم بڑے طاقتور اور جابر سمجھ کر خوف زدہ ہوتے ہو وہ تو بڑے کمزور اور ناتواں ہیں۔

۲) اللہ تعالیٰ سلطنت طالوتی کا وارث سیدنا داؤو علیہ السلام اور ان کے بعد سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بنانا چاہتے تھے اسی لیے جالوت کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت سیدنا داؤد علیہ السلام کو عطا فرمادی۔

۳) بنی اسرائیل کے عقیدے میں پیدا ہونے والی بیداری کے صلہ میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسی سلطنت دینا چاہتے تھے جو بنی اسرائیل کی ساری تاریخ کا عہدزریں ہو۔

5 تفسیر بالرائے کے بجائے تفسیر بالماثور کو ترجیح دی ۔

اس کے علاوہ شیخ محترم نے اس کتاب میں ہر آیت کا ترجمہ پھر توضیح، مشکل الفاظ کے معانی ، ہر توضیح کے بعد اخذ شدہ مسائل اور آیات کا باہمی ربط ومناسبت بھی ذکر کی ہے۔

اس کتاب میں تاریخی مباحث کو (جالوت) بھی عمدگی سے سمویاگیا ہے، تفسیر میں مروج کمزور روایات سے اجتناب کیاگیاہے، مفسر کا انداز خیر الکلام ما قل ودل کا مصداق ہے۔ مختصر مگر جامع بات کرتے ہیں۔

تفسیر قرآن کے لیے قابل احترام مفسر نے زبان نہایت سادہ وآسان استعمال کی ہے تاکہ عام لوگوں کے لیے فہم قرآن میں آسانی ہو ، عبارت رواں اور نہایت سلیس ہے۔

تفسیر قرآن کا یہ سلسلہ انتہائی مبارک سلسلہ ہےباری تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسی نہج پرتکمیل کرنے کی توفیق فرمائے ۔آمین

طلبہ ، اساتذہ،علماء، عوام الناس الغرض زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق افراد کے لیے تفسیر کے حوالے سے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مؤلف وناشرکے میزان حسنات میں شامل کرکے ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنا ئے۔

۔۔۔

نیک اولاد کے والدین کو فائدے

اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی طرح تربیت کریں گے اور اولاد کو نیکوکار بنائیں گے تو اس پر والدین کو دنیا و آخرت کے بہت سارے فائدے حاصل ہوں گے ۔

نیک اولاد جو بھی نیک عمل سرانجام دے گی اس کا اجر اس کے والدین کو ضرور ملے گا اگرچہ اولاد نے اس کی نیت ہی نہ کی ہو جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (صحیح مسلم : 4223 )

 جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے ( وہ منقطع نہیں ہوتے)صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے ۔یعنی جب بندہ فوت ہوجاتا ہے اور پیچھے نیک اولاد چھوڑ جاتا ہے تو اس کے ہر نیک عمل کا ثواب اس کے والدین کو ملے گا اور اس کی دعائوں کی بدولت والدین کا قبر حشر بھی آسان ہوجائے گا۔

سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ اَنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِ سْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ (مسند احمد: 3636 )

جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کا جنت میں درجہ بلند کرے گا، تو وہ پوچھے گا:اے میرے رب! یہ درجہ میرے لیے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے حق میں تمہارے بیٹے کی دعائے مغفرت کی وجہ سے۔

اور اسی طرح سیدنا ابوھریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ :

مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَتَعَلَّمَهُ وَعَمِلَ بِهِ أُلْبِسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَاجًا مِنْ نُورٍ ضَوْءُهُ مِثْلُ ضَوْءِ الشَّمْسِ

 جس نے قرآن مجید پڑھا سیکھا اور اسکے مطابق عمل کیا تو روز قیامت اس کو نور کا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی جیسی ہوگی ۔

آپ نے فرمایا کہ :

وَيُكْسَى وَالِدَيْهِ حُلَّتَانِ لَا يَقُومُ بِهِمَا الدُّنْيَا

اور اس کے والدین کو دو عبائیں پہنائیں جائیں گی کہ تمام دنیا بھی اس کا بدل نہ ہوسکے گا وہ دونوں ماں باپ کہیں گے

بِمَا كُسِينَا؟ فَيُقَالُ: بِأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ

 ہمیں یہ کیوں پہنائی گئیں ؟ کہا جائے گا  : آپ کے بیٹے کے قرآن پڑھنے ( یعنی حفظ کرنے کی وجہ سے ) ۔

( صحیح الترغیب الترھیب : 1434 )

لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تربیت کریں اور انہیں دینی علوم کی طرف مائل کریں اس سے ہی والدین اور اولاد کی کامیابی وکامرانی ہے اور والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو صدقات و خیرات کی ترغیب دیا کریں تاکہ والدین کے فوت ہونے کے بعد وہ( ان کے حق میں ) صدقہ و خیرات کرتے رہیں اور والدین کو اس کا اجر ثواب حاصل ملتا رہے ۔ سیدنا سعد بن عبادہ t سے مروی ہے کہ :

قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّق ُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  سَقْيُ الْمَاءِ (سنن نسائی : 3694 )

 میں نے کہا: اللہ کے رسول! میری ماں مر گئیں ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ میں نے پوچھا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ( پیاسوں کوپانی پلانا۔

یہ بات یاد رہے کہ رواج کے مطابق خیرات رواج ہی رہ جائے گی اس کا والدین کو کوئی اجر نہیں ملے گا سنت کے مطابق کوئی بھی نیکی کی جائے اس کا والدین کو اجر ضرور ملے گا بعض لوگ جمعرات چوبیسواں وغیرہ کرکے سمجھتے

ہیں کہ بابا جی کی نجات ہوگئی ایسے ہرگز نہیں ہے یہ فقط

پیٹ پیچھے بھاگنے والے مولویوں کا کھانا ہی ہے ۔

سیدنا سعد بن عبادہ t نے جب رسول اللہ سے یہ سنا تو اپنی والدہ کےلیے ایک کنواں کھدوا دیا تھا اور اس پر یہ بھی لکھ دیا کہ

هَذِهِ لِأُمِّ سَعْد

یہ سعد کی ماں کےلیے ہے یعنی اب جو بھی جب بھی اس سے پانی پیئے گا سعد کی ماں کو اجر ملتا رہے گا ۔

 ( سنن ابی داود : 1681 )

اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ : ا

أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ (صحیح البخاری:1388)

ایک شخص نے نبی کریم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ صدقات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔

اور ہاں ! والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو صلہ رحمی باہمی محبت اور رشتہ داری جوڑنے کی ترغیب دیا کریں تاکہ وہ والدین کے رشتوں کو قائم رکھیں اس پر بھی والدین کےلیے اجر وثواب ہے جو اسے تب تک ملتا رہے گا جب تک اس کی اولاد رشتے کو قائم رکھے گی ۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے دیکھنے کو ملتا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے یہ کہہ کر تعلق توڑا جاتا ہے کہ وہ بابا کے دوست تھے وہ فوت ہوگئے اب ہمارا اس سے کیا تعلق ہے ؟!! 

ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے ،  انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ :

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ لَقِيَهُ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ، وَحَمَلَهُ عَلَى حِمَارٍ كَانَ يَرْكَبُهُ. وَأَعْطَاهُ عِمَامَةً، كَانَتْ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ ابْنُ دِينَارٍ: فَقُلْنَا لَهُ: أَصْلَحَكَ اللهُ إِنَّهُمُ الْأَعْرَابُ وَإِنَّهُمْ يَرْضَوْنَ بِالْيَسِيرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: إِنَّ أَبَا هَذَا كَانَ وُدًّا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ صِلَةُ الْوَلَدِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ 

ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدو شخص ملا ،سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا ۔  ابن دینار نے کہا :  ہم نے ان سے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں ۔ تو سیدنا عبداللہ ( بن عمر ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس شخص کا والد ( میرے والد ) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ سے سنا،آپ فرما رہے تھے : والدین کے ساتھ بہترین سلوک ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی ۔ (صحیح مسلم : 6513 )

 اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا تو میرے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے : کیا تم جانتے ہو میں تمہارے ہاں کیوں آیا ہوں ؟ میں نےکہا : نہیں تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ :

من احب ان یصل اباہ فی قبرہ فلیصل اخوان ابیہ 

جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ( اس کے مرنے کے بعد ) قبر میں اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو وہ اس کے دوستوں سے حسن سلوک کرے اور میرے باپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور تیرے باپ کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے تو میں نے اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کیا ہے ۔( صحیح ابن حبان : 432 )

والدین کو چاہیے کہ ہر نیکی کی طرح اپنی اولاد کو حج کی نیکی کا بھی ترغیب دیا کریں تاکہ وہ انکے مرنے کے بعد ان کے حق میں حج کرے اور بیت اللہ و ریاض الجنہ جیسی جگہوں پہ جاکے ان کے حق میں دعائیں کرے تاکہ وہ نجات حاصل کر سکیں ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ

 أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِيهَا مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  حُجِّي عَنْ أَبِيكِ (سنن النسائی : 2635 )

ایک عورت نے نبی اکرم سے اپنے والد کے بارے میں جو مر گئے تھے اور حج نہیں کیا تھا پوچھا: آپ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو“۔

ذرا غور کریں کہ صحابہ کرام y نے اپنی اولاد کی کیسی خوب تربیت کی کہ والدین کی وفات کے بعد والدین کی چھوڑی گئی ذمہ داریوں کو سرانجام دیتے رہے !!نبی علیہ السلام کے پیارے صحابی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے بیٹے سیدنا جابر t کی کیا  خوب تربیت کی تھی کہ جب سیدنا عبداللہt شہید ہوئے تو اپنے پیچھے نو بیٹیاں چھوڑیں اور بہت سارا قرضہ بھی چھوڑا ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کا قرضہ بھی ادا کیا اور بہنوں کی پرورش کا ذمہ بھی اپنے کندھوں اٹھایا ۔ ( صحیح بخاری : 1984 )

قرض کی ادائیگی نہ کرنا ایک خطرناک گناہ اور وعید کا حامل ہے سیدنا سہل بن حنیف tسے مرفوعاً مروی ہے کہ:

أَوَّلُ مَا يُهَرَاقُ من دَمِ الشَّهِيدِ يُغْفَرُ لَهُ ذَنْبُهُ كُلُّهُ إِلا الدَّيْنَ. (المعجم الکبیر للطبرانی : 5419 )

شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سوائے قرض کے۔

گویا ایک والد کے نیک بیٹے نے اپنے والد کا قرضہ ادا کرکے اسے خطرناک وعید سے نجات دلادی ۔محترم قارئین ! اگر قبر حشر کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ ایک بہترین ذریعہ ہے کہ اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں تاکہ نیک اولاد کے نیک اعمال کے فائدے آپ کو پہنچتے رہیں اور آپ نجات پاسکیں ۔

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:128)

اے ہمارے رب !ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما تُو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے ۔

۔۔۔

بچپن کی محبت(قاری عبد الوکیل صدیقی، الشیخ عبد الحلیم یزدانی رحمہما اللہ)

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں محبت کے جذبات رکھے ہیں لیکن اس کے اسباب مختلف ہیں جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کوئی مال کی وجہ سے ‘تو کوئی حسن و جمال کے سبب ‘ کوئی کسی کی قوت و طاقت یا عہدے اور منصب کی بنا پر یا پھر رشتے داریوں کی وجہ سے محبت ہوتی ہے بعض اوقات شعوری یا غیر شعوری طور پر خود بخود ہی محبت ہو جاتی ہے اور اگر یہ محبت چھوٹے کی بڑے سے ہو تو یقینا اسے ’’عقیدت‘‘ سے ہی تعبیر کیا جا سکے گا۔ ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے کہ کسی بھی دوسرے سے محبت کا معیار ’’مسلک اہل حدیث‘‘ ہے وہ عقیدہ بھی ہو سکتا ہے یا پھر اس کی مسلکی خدمات ۔ ایسے بہت سے لوگ مرحومین اور موجودین شعوری طور پر زندگی میں آئے جن کی مسلکی خدمات تقریری یا تحریری اور بحث ومباحثے یعنی مناظرے کی وجہ سے دل و جان سے محبت کی اور رکھی ان میں بعض ایسی ہستیاں بھی ہیں جن سے ملاقات تو درکنار زندگی بھر ان کی زیارت بھی نصیب نہ ہو سکی۔ لیکن میں نے  اپنے بچپن میں شعوری طور پر تین شخصیات سے غائبانہ محبت کی ۔ان میں ایک میرے محبوب ‘جرنیل اہل حدیث مولانا قاری عبدالوکیل صدیقی خان پوری رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے خان پور ضلع رحیم یار خان جیسے پسماندہ علاقے میں تبلیغی‘ تعلیمی‘ تدریسی اور تنظیمی خدمات ایسی جانفشانی اور مجاہدانہ طریقے سے سرانجام دیں کہ اس علاقے میں  مقلدین حضرات کی بڑی بڑی کئی ایک گدیاں تھیں مگر قاری صاحب رحمہ اللہ نے اپنی پُرخلوص محنت کے باوصف ان کے مسند نشینوں کی ’’ناک رگڑدی‘‘ اور علاقے بھر میں شرک و بدعات کی بیخ کنی کر کے توحید و سنت کا خالص بیج بویا

۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عن سائر اھل الحدیث ۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آگے بڑھ کر ذاتی تعلق بنانے کے لئے یا اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے اپنا تعارف کروانا اور جائز ‘ناجائز تعریفیں کرنا نہ تو اچھا لگتا ہے اور نا ہی کبھی مجھے اس کا حوصلہ ہوا ہے البتہ کسی کی محبت کی قدر کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔

اپنی اسی عادت کی بنا پر میں کبھی بھی قاری صاحب رحمہ اللہ سے نہ مل سکا البتہ ان کی تقاریر سننے اور زیارت کرنے کا شرف کئی بار حاصل کیا جہاں تک مجھے یاد ہے آپ سے صرف ایک بارمصافحہ کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ بھی کچھ اس طرح ہو ا کہ آل پاکستان اہل حدیث کا نفرنس لاہور منعقدہ 76نومبر 2008ء کے موقعہ پر کانفرنس کے اختتام پر جامعہ سلفیہ کے کیمپ میں مشائخ جامعہ  حافظ عبدالعزیز علوی‘ حافظ مسعود عالم‘ مولانا محمد یونس ‘ چودھری محمد یٰسین ظفر حفظہم اللہ تعالیٰ و دیگر اساتذہ و طلباء کے ساتھ موجود تھا کہ قاری صاحب رحمہ اللہ اچانک تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور انہیں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ لیکن قاری صاحب کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے آج بھی ان کی مغفرت اور بلندی درجات اور ان کے ادارے اور مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو رہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کے لیے صدقہ جاریہ کے ان چشموں کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے تاکہ ان کی حسنات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے…۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ

دوسری ہستی جو میرے بچپن میں شعوری طور پر میری محبوب ٹھہری وہ شہزادہ خطابت‘ مبلغ اسلام ‘ داعی کتاب و سنت مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی جھنگوی رحمہ اللہ ہیں۔ آپ سے محبت کا سبب بھی آپ کی جماعتی و مسلکی ترویج و اشاعت کے لیے تگ و تاز جاودانہ ہے۔ حافظ صاحب کی پہلی دفعہ زیارت کرنے کا شرف 1983ء کے آخر یا

1984ء کے شروع میں دارالعلوم رحمانیہ منڈی فاروق

آباد میں حاصل ہوا۔ استاذی المکرم حکیم حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کا ذوق بھی تھا اور مستقبل کی پیش بندی بھی کہ آپ اپنے اسٹیج اور منبر سے نوجوان خطباء کو متعارف کرواتے تھے آپ کے اس ذوق کی بدولت ہی خطباء کی ایک کھیپ اس وقت تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ سعیدی رحمہ اللہ کا طریقہ تھا کہ جس نوجوان کی خطابت سے مطمئن ہوتے تو اس کو دارالعلوم رحمانیہ میں خطبہ جمعہ کے لیے دعوت دیتے پھر علاقے بھر میں اپنی سرپرستی اور نگرانی میں اس کے پروگرام کرواتے اس طرح اس کا علاقہ میں اچھا خاصا تعارف ہو جاتا اور یوں وہ مرکزی خطباء کی کھیپ میں شامل ہو جاتا اسی طرح حافظ صاحب رحمہ اللہ نے یزدانی صاحب رحمہ اللہ کا جمعہ رکھا جو آپ نے’’ اطاعت رسول ‘‘کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ اس کے کچھ اقتباسات مجھے ابھی یاد ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ۔ لیکن ان کا یہاں محل نہیں ہے۔ آپ کی گفتگو اور انداز خطابت نے متاثر کیا حتی کہ میں اور میرے ایک کلاس فیلو قاری محمد عبداللہ بلوچ حفظہ اللہ تعالیٰ نے پروگرام بنایا کہ کوئی ایک جمعہ جھنگ میں آپ کی اقتداء میں پڑھا جائے اس کے لیے کرائے کا بھی بندوبست کر لیا لیکن کم عمری کی وجہ سے ہم دونوں ہی خوف زدہ تھے کہ اتنا لمبا سفر اور پسماندہ علاقہ ہے کہیں ہم گم ہی نہ ہو جائیں چنانچہ یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

اس کے بعد شہر فاروق آباد جامعہ دارالسلام محمدیہ میں آپ نے1985ء میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔

بعد ازاں 21مارچ 1986ء چنیوٹ میں پہلی سالانہ خاتم النبیین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو اس کا کنوینئر ہمارے ممدوح اور میرے محبوب حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ کو بنایا گیا آپ نے اس کے لیے بھرپور کوشش کی۔ تآنکہ یہ کانفرنس بڑی بھرپور‘ کامیاب اور چنیوٹ کی تاریخی کانفرنس تھی جس میں شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے اور آخری خطاب شہید اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ نے فرمایا تھا بعد ازاں آئندہ سال دوسری سالانہ کانفرنس 20مارچ 1987ء بروز جمعہ کو ہوئی جو پچھلے سال کی نسبت زیادہ کامیاب تھی اور اس میں آخری خطاب علامہ شہید رحمہ اللہ نے موسلا دھار برستی بارش میں فرمایا تھا پھر اس کے تین دن بعد 23مارچ کو لاہور کے سانحہ میں زخمی ہو کر 30مارچ کو ریاض سعودی عرب میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ یوں اہل حدیث کی ایک تاریخ تہہ خاک چلی گئی اور چنیوٹ کی کانفرنس بھی وہ اپنی آب و تاب برقرار نہ رکھ سکی۔ حتی کہ بالکل ہی ’’مرحوم‘ ‘ہو گئی… انا للہ وانا الیہ راجعون

لیکن مجھے یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ اس پہلی کانفرنس کے لیے یزدانی صاحب رحمہ اللہ کی محنت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 12مارچ 1986ء کو جامعہ دارالسلام محمدیہ فاروق آباد کی دو روزہ سالانہ کانفرنس تھی جس میں حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب کا بھی خطاب تھا اور آپ کا نام مرکزی خطباء میں لکھا ہوا تھا۔ اور آپ نے سیکنڈ لاسٹ تقریر کی تھی آپ کے بعد پھر خطیب اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمۃ اللہ نے خطاب فرمایا تھا۔ لیکن جب آپ کانفرنس میں تشریف لائے تو اپنی بغل میں چنیوٹ کانفرنس کے اشتہارات کا بنڈل دبائے ہوئے تھے اور خود ایک ایک اشتہار نکال کر لڑکوں سے مختلف جگہوں پر چسپاں کروا رہے تھے بعد ازاں کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اعلان بھی کیا اور سامعین سے چنیوٹ کانفرنس میں شرکت کا وعدہ بھی لیا جس کا پورا منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے تازہ ہے بعد ازاں جب کانفرنس میں شریک ہو کر آپ کی جدوجہد کا ثمرہ بچشم خود دیکھا تو حافظ صاحب رحمہ اللہ کا گرویدہ ہو گیا کہ آپ ایک ورکر آدمی ہیںجو کسی قسم کے پروٹوکول کی پرواہ کیے بغیر ذمہ داری کے ساتھ خود چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں بس میرے بچپن میں حافظ صاحب کی محبت دل میں گھر کر گئی پھر وہ دن کہ آج کادن اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اضافہ ہی ہوا اور پختگی ہی آئی کمی نہیں آئی۔ بعد ازاں شہدائے اہل حدیث کے قاتلوں کی گرفتاری کے سلسلہ میں احتجاجی تحریک میں آپ کی صلاحیتیں دیکھنے کا موقعہ ملا نیز آپ کی خطابت میں بھی مزید نکھار پیدا ہوتا چلا گیا۔

آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک مدبر منتظم بھی ۔ آپ جہاں ایک بے لوث اور مخلص ورکر تھے وہاں باصلاحیت قائد بھی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا اس کے باوجود آپ بہت سادہ اور ہمدرد انسان تھے۔ تبلیغی میدان میں کوئی تکلفات نہیں تھے نہ کوئی نخرہ اور نہ ہی کوئی بے جامطالبہ۔ ان کی کوشش ہوتی کہ مقامی جماعت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے چنانچہ جہاں کہیں پروگرام ہوتا جھنگ سے پبلک سروس کے ذریعے ہی چلے جاتے اگر روڈ سے کہیں دور کوئی گاؤں وغیرہ ہوتا تو قریبی شہر تک بس پہ سفر کرتے اور وہاں سے ٹیکسی لے لیتے تاکہ واپسی میں آسانی رہے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا حافظ صاحب اس طرح تو بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے آپ جھنگ سے ٹیکسی کیوں نہیں لیتے ۔تو فرمانے لگے فاروق بھائی! ساری جماعتیں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں اس لیے جتنا ممکن ہو سکے کم از کم جماعت پر بوجھ ڈالنا چاہیے… کیونکہ حافظ صاحب کی یہ روٹین تھی کہ تقریر کے بعدواپس جھنگ تشریف لے جاتے پھر دوسرے دن پروگرام کے لیے نکلتے اگرچہ اسی علاقہ میں ہی کیوں نہ جانا ہو ۔ بطور مثال صرف ایک واقعہ عرض کرتا ہوں مورخہ 4اکتوبر 1992ء کو ہم نے اپنے گاؤں جید چک نمبر 16 ضلع شیخوپورہ میں سالانہ اہل حدیث کانفرنس کا انعقاد کیا اس سے ایک دن پہلے تتلے عالی ضلع گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں آپ کا پروگرام تھا اور اس سے ایک دن پہلے مرالی والا ضلع گوجرانوالہ میں آپ نے خطاب فرمایا۔ مرالی والا کے جلسہ میں میں بھی شریک تھا آپ کی طبیعت خراب تھی بخار اور زکام نے برا حال کررکھا تھا لیکن آپ مرالی والا سے تقریر کر کے جھنگ تشریف لے گئے دوسرے دن تتلے عالی کے قریب جلسہ میں شریک ہوئے پھر واپس جھنگ چلے گئے اور تیسرے دن ہمارے ہاں جید چک نمبر 16ضلع شیخوپورہ میں تشریف لائے تین دن مسلسل قریب قریب ہی پروگرام تھے۔ حتی کہ مرالی والا اور تتلے عالی کے پروگرام تو بالکل پڑوس میں۔ لیکن ہر روز جھنگ جاتے اور دوسرے پروگرام کے لیے پھر واپس تشریف لاتے۔بلکہ اسے اتفاق ہی سمجھیے کہ آئندہ سال 1998میں ہم نے 18اکتوبر کو کانفرنس رکھی تو آپ اس سے ایک دن پہلے 17اکتوبر کو ’’پل ایک ‘‘سیالکوٹ کی سالانہ کانفرنس میں آخری خطاب کرنے کے بعد جھنگ واپس گئے۔ ظہر کے وقت آپ گھر پہنچے اور عصر کے بعد ہمارے ہاں آنے کے لیے روانہ ہوئے اور بعد عشاء آخری خطاب فرمایا۔ تو مقصد یہ ہے کہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے جفاکش تھے۔

میں نے عرض کیا کہ حافظ صاحب آپ اسی علاقہ میں کیوں نہیں ٹھہر جاتے تاکہ بار بار سفر کی صعوبت اور خرچے سے بچ جائیں تو فرمانے لگے جھنگ میں کئی لوگ اپنے ذاتی یا جماعتی کاموں کے لیے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر میں وہاں موجود نہ ہوں تو ان کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے ہر روز صبح 9بجے سے ظہر کی نماز تک کا وقت عام لوگوں کی ملاقات اور کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے لہٰذا مجھے ہر روز جھنگ جانا ضروری ہوتا ہے۔

یہ ہے ہمدردی خیر خواہی اور جذبہ خدمت خلق ۔کہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا اور یہی عملی تفسیر ہے۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌکی ورنہ آج کل تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض خطباء حضرات ایک ہی علاقے بلکہ بعض اوقات ایک ہی شہر میں دو تین پروگرام ایک رات میں ہی رکھ لیتے ہیں کہ ایک سفر میں زیادہ پروگرام کر لیے جائیں حالانکہ وہ سارے پروگرام ہی حاضری کے اعتبار سے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ایک محلے کے لوگ دوسرے محلے میں نہیں جاتے مجمع ناقابل ذکر ہوتا ہے جس سے جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے ان کی سبکی ہوتی ہے۔ لیکن ’’مولانا صاحب‘‘ اپنے لالچ میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر میری یہ سطور جماعتی ذمہ داران یا مساجد کے منتظمین پڑھ رہے ہوں توانہیں بھی میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے قریب کسی دوسرے پروگرام کے ساتھ اپنا پروگرام نہ رکھا کریں بلکہ پورے علاقے کے لوگ مل کر ایک پروگرام کو کامیاب کریں اور اسے مثالی بنائیں اس میں جماعت کی عزت ہے اور مقامی طور پر سیاسی و مذہبی فائدہ بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سوچ اور تڑپ نصیب فرمائے (آمین)

آپ نے کبھی بھی کسی تبلیغی پروگرام میںکرائے وغیرہ کے معاملے پرتکرار جھگڑا تو درکنار (جیسا کہ بعض خطباء کے متعلق معلوم ومعروف ہے) کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی وقت کے لیے پروگرام کی انتظامیہ کو مجبور کیا بلکہ انتظامیہ اپنی سہولت کے ساتھ جب بھی وقت دے دیتی تو آپ اپنا بیان فرماتے اور وعظ کرتے۔

کارکنوں کا بڑا خیال رکھتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ایک مرتبہ آپ ایک معروف جماعت سے کسی وجہ سے ناراض ہو گئے۔ اور اس کے سبب ان کو پروگرام نہیں دے رہے تھے انہوں نے بعض قائدین کی سفارش بھی کروائی لیکن حافظ صاحب نہ مانے مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اسی جماعت کے اہل حدیث یوتھ فورس کے  ذمہ داران سے کہا کہ اگر آپ پروگرام کرنا چاہتے ہیں تو میں حافظ صاحب سے آپ کو وعدہ لے دیتا ہوں وہ کہنے لگے یزدانی صاحب تو فلاں فلاں کے کہنے پر بھی آمادہ نہیں آپ کیسے ان کا وقت لیں گے میں نے کہا کہ اگر آپ ان کا پروگرام کروانا چاہتے ہیں تو آپ کے دو آدمی میرے ساتھ جھنگ چلیں میں آپ کی صلح کروا دیتا ہوں چنانچہ ان میں ایک میرا قریبی عزیز بھی تھا (نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں اس جماعت کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتا) ہم تین آدمی جمعہ کے دن فجر کی نماز کے وقت جھنگ پہنچے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ سے گھر میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے مدعا بیان کیا تو فرمانے لگے اس کے لیے اتنا لمبا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی فون کر لیتے تو میں نے عرض کیا کہ آپ جوان سے نارض تھے اس لیے خود حاضر ہونا ہی مناسب تھا کیونکہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ نے بعض بزرگوں کی سفارش بھی قبول نہیں کی تو آپ نے فرمایا کہ پروگرام کے بارے بات بعد میں کریں گے پہلے بتائیں آپ نے ناشتہ کیا کرنا ہے میں نے عرض کیا جی آپ ڈائری مجھے دے دیں میں مناسب تاریخ تلاش کرتا ہوں اور آپ لسی بنوا کر لائیں چنانچہ آپ نے ڈائری مجھے پکڑا دی اور خود لسی لینے چلے گئے آپ کے بعد ہم نے اپنے طور پر وقت طے کر لیا تھوڑی دیر بعد آپ تشریف لائے اور ہمیں ٹھنڈی میٹھی لسی پلائی تو میں نے ڈائری سامنے رکھ دی کہ اس تاریخ میں آپ یہ پروگرام نوٹ فرما لیں چونکہ پروگرام کا مقام پہلے ہی بتایا جا چکا تھا حافظ صاحب فرمانے لگے کہ آپ خود ہی لکھ دیں لیکن میرا اصرار تھا کہ آپ نوٹ فرمائیں ۔ چنا نچہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے جگہ اور وقت تحریر فرما لیا تو میں نے ڈائری بند کرتے ہوئے عرض کیا حافظ صاحب یہ میرے ساتھ دونوں ساتھی اس جماعت کے نمائندے اور ذمہ دار ہیں اگر آپ نے کوئی بات کرنی ہے کوئی گلہ شکوہ ہے تو ابھی کر لیں لیکن پروگرام میں ضرور آنا ہے۔

تو حافظ صاحب رحمہ اللہ نے جو جواب دیا اس نے مجھے انکا مزید گرویدہ کر دیا اور میں سمجھا کہ آج میری محبت کا صلہ مجھے مل گیا ہے کیونکہ آج تک تو میں یہ محبت یکطرفہ ہی کرتا رہا ہوں آپ نے فرمایا۔ ’’درویشا‘‘ (یہ ان کا اس وقت تکیہ کلام تھا) توں آ گیا ایں تے ہن کیہہ گل کرنی اے‘‘ یعنی آپ آ گئے ہیں تو کوئی گلہ شکوہ نہیں یہ بہت بڑی حوصلہ افزائی تھی جو حافظ یزدانی صاحب مرحوم نے فرمائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے (آمین)

جب ہم جید چک نمبر16 ضلع شیخوپورہ میں اہل حدیث مسجد کا قیام عمل میں لائے تو اس کی افتتاحی تقریب اور سالانہ کانفرنس میں حافظ صاحب بھی تشریف لائے بلکہ اس سے بھی پہلے جب ہم دیو بندیوں کی مسجد میں سالانہ کانفرنس منعقد کیا کرتے تھے تو آپ سالانہ کانفرنس کے موقعہ پر ہر سال تشریف لایا کرتے تھے۔  اس لیے آپ کو ہمارے گاؤں کے حالات سے مکمل آگاہی تھی بعض لوگوں نے جب مسجد بنانے کی مخالفت کی اور عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تو اس دوران آپ لدھیوالہ ورکاں سالانہ کانفرنس میں تشریف لائے وہاں آپ سے میرے بھائیوں عبدالغفور تبسم‘ کامران حمید اور حسان حمید کی ملاقات ہوئی تو یزدانی صاحب نے میرے متعلق استفسار کیا تو بھائیوں نے تمام صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صبح سیشن عدالت میں مقدمے کی تاریخ تھی اس لیے نہیں آ سکا تو آپ نے پیغام دیا کہ وہ (فاروق الرحمن یزدانی) مجھے ملے چنانچہ میں پیغام ملتے ہی دوسرے دن جھنگ روانہ ہو گیا ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے جناب عمر فاروق بھٹی مرحوم جو اس وقت شیخوپورہ میں سی ۔ اے سٹاف میں D.S.Pتھے کے نام پیغام دیا جب میں بھٹی صاحب سے ملا تو معلو م ہوا کہ آپ بڑے دبنگ قسم کے افسر اور اہل حدیث ہیں جس کا اظہار انہوں نے وہاں دفتر میں موجود تمام لوگوں کے سامنے کیا اور مجھے پیغام دیا کہ ’’یزدانی صاحب ‘‘کو میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ اگر ہم نے جماعت کا کام نہیں کرنا تو پھر ہمیں اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں اور ساتھ ہی یزدانی صاحب سے اپنے تعلق کے بارے میں بتایا۔ آپ نے جو ممکن تعاون تھا وہ کیا اور مزید رابطہ رکھنے کی تاکید کی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا کہ ہمارا وہ مسئلہ حل ہو گیا پھر جب شیخوپورہ ضلع کی کوکھ سے ضلع ننکانہ نے جنم لیا تو یہی عمر فاروق بھٹی پہلے D.P.Oکی حیثیت سے ننکانہ میں تعینات ہوئے میرا رابطہ ہوا میں نے عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور کسی وقت حاضر ہونے کا وعدہ کیا لیکن افسوس کہ آپ چند دنوں بعد ہی اچانک وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی بشری لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔ آمین

اس قسم کے کئی ایک واقعات کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے ہونگے کہ جب انہوں نے اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی ہو گی کیونکہ جھنگ جیسے فساد زدہ شہر میںجس عزت و آبرو اور شان و شوکت سے انہوں نے زندگی بسر کی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مخلص کارکنوں کی ٹیم کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ کی وفات کے بعد جب میں تعزیت کے لیے جھنگ گیا تو مولانا عبدالمنان صاحب بتارہے تھے کہ ایک دفعہ کچھ نوجوانوں نے عید میلاد النبی کے جشن و جلوس کی شرعی حیثیت بارے کچھ اشتہار ات جھنگ میں لگائے تو ان نوجوانوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی جب حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب کو معلوم ہوا تو فوری طور پر ضلعی افسران کے پاس گئے اور فرمانے لگے نہیں گزرنے دونگا چنانچہ تمام کارکنوں کو اسی دن فوری رہا کر دیا گیا اس سے شہر میں ان کی قوت اور انتظامیہ میں ان کے اثر و رسوخ کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور کارکنوں سے محبت اور تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یزدانی صاحب کی اپنے کارکنوں سے محبت اور جماعتی احباب کے احترام اورایثار و قربانی کے متعلق شیخ محمد عارف صدر اہل حدیث یوتھ فورس تحصیل جھنگ نے بتایا کہ جب 18اپریل 1986ء کولاہور کے موچی دروازہ میں جلسہ ہوا تو جھنگ سے یزدانی  صاحب نے ایک بس کا انتظام کیا میری عمر اس وقت چھوٹی تھی لیکن میں نے یہ منظر دیکھا کہ جب روانگی کا وقت آیا تو بس بھر گئی اب یزدانی مرحوم کے لیے کوئی سیٹ خالی نہ رہی تو آپ نے گیٹ کے ساتھ کنڈیکٹر کے لیے پائپ پر جو چھوٹی سی سیٹ بنی ہوئی ہوتی ہے اسی پر جھنگ سے لاہور تک کا سفر کیا جماعتی احباب بھی آپ کو سیٹ کی آفر کرتے رہے ہم چھوٹے بچے بھی اصرار کرتے رہے کہ ہم کھڑے ہو جاتے ہیں آپ بیٹھ جائیں لیکن حافظ صاحب فرماتے ۔نہیں آپ بیٹھ گئے ہیں اب آپ کو اٹھانا مناسب نہیں میں تو ایک کارکن ہوں لہٰذا میری ذمہ داری ہے کہ آپ کے آرام و سکون کی خاطر قربانی دوں ۔یہ ہوتی ہیں قیادتیں اور یہ ہوتے ہیں لیڈر۔

اور اب … ؟؟ الاماشاء اللہ بعض قائدین تو سیدھے منہ اور پورے ہاتھ کے ساتھ اپنے کارکن سے سلام لینا گوارہ نہیں کرتے اور اگر کسی کو حالات کے پیش نظر قیادت کا موقعہ مل ہی جائے تو وہ بس اپنا مفاد ہی سامنے رکھتے ہیں۔

آج تو لوگ اپنی سیٹ بزنس کلاس کی لیتے ہیں اور کارکنوں کو اکانومی میں چھوڑ دیتے ہیں وہ بھی دھوکے سے ۔ پھر توقع رکھتے ہیں سمع واطاعت کی؟

انا للہ وانا الیہ راجعون

قیادت کرنے کا شوق ہو تو پھر جذبہ ایثار بدرجہ اتم موجود ہونا چاہیے ۔

حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ میں مسلکی عزت و وقار اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کا جذبہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ یہ آج سے اکتیس سال پہلے 23محرم الحرام 1409ھ بمطابق 1987ء کی بات ہے کہ چوک  بیگم کوٹ لاہور میں سالانہ فضائل صحابہ کانفرنس کے موقعہ پر ایک کارکن ’’محمد رفیق‘‘ ایک پولیس انسپکٹر کے ہاتھوں قتل ہو گیا اس وقت مولانا منیر قاسم صاحب آف برطانیہ خطاب فرما رہے تھے۔ چنانچہ جب یہ خبر اسٹیج پر پہنچی تو تقریر ختم کر دی گئی اور اس سانحہ کی اطلاع دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ چوک میں جمع ہو کر روڈ بلاک کر دیں جب تک ہمارے کارکن کا قاتل پولیس والا گرفتار نہیں ہوتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔ ابھی سانحہ لاہور تازہ تھا اہل حدیث کے جذبات تو پہلے ہی بپھرے ہوئے تھے اس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو لوگ گھروں میں جا چکے تھے وہ بھی اعلان سن کر واپس آ گئے اس موقعہ پر پولیس نے اپنے روایتی انداز کو اپناتے ہوئے دھمکیاں وغیرہ دیں کہ روڈ ابھی ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے ورنہ …… بس پھر کیا تھا اس کے بعد حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ نے ایک دھواں دھار تقریر کر دی اور کارکنوں کے جذبات کو گرما دیا ۔ اب صورت حال دیکھ کر پولیس افسران نے مذاکرات کی میز سجائی لیکن یزدانی صاحب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پہلے قاتل کو گرفتار کیا جائے اس کے خلاف F.I.Rدرج کی جائے اور اس کی وردی اتروائی جائے تب یہ احتجاج ختم ہو گا۔ اب یہ صورتحال کئی قسم کے نشیب و فراز سے دو چار ہوتی رہی لیکن یزدانی صاحب پوری جماعت کی قیادت کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے یہاں یہ یاد رہے کہ وہ جمعرات کا دن تھا اور صبح جمعۃ المبارک ۔ مجھے آج بھی وہ لمحات اس طرح یاد ہیں کہ جیسے ابھی یہ واقعہ ہو رہا ہو۔ یزدانی صاحب عام لوگوں کے ساتھ سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کرسی لا کر دی گئی تو آپ شاہدرہ کی طرف منہ کر کے کرسی پربیٹھے ابھی بھی نظر آ رہے ہیں بعد ازاں ایک آدمی نے آ کر کہا کہ آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں لیکن آپ نے انکار کر دیا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ صبح جمعہ ہے اور آپ نے سفر بھی کرنا ہے اور جمعہ بھی پڑھانا ہے تو حافظ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ شاید ہمیں جمعہ اسی چوک میں ہی پڑھنا پڑے اس لیے میری فکر چھوڑیں اب اس بات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ چنانچہ اس دور ان پولیس افسران نے پھر آ کر اطلاع دی کہ ہم نے وہ پولیس والا ملزم گرفتار کر لیا ہے لہٰذا آپ احتجاج ختم کر دیں لیکن حافظ صاحب فرمانے لگے کہ نہیں ہمیں آپ پر اعتبار نہیں ہمارے بندے جائیں گے اور دیکھ کر آئیں گے پھر ہم کوئی اعلان کریں گے چنانچہ جماعتی احباب گئے جب واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ ملزم تو وہی ہے لیکن حوالات میں بند نہیں بلکہ کمرے میں بیٹھا ہوا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے گرفتار کر لیا ہے تو حافظ صاحب فرمانے لگے کہ پہلے اسے حوالات میں بند کیا جائے پھر ہم احتجاج ختم کریں گے۔ لہٰذا وہ پولیس والے ان جماعتی ساتھیوں کو ساتھ لے کر دوبارہ گئے اور مذکورہ پولیس والے کو حوالات میں بند کیا۔ اور واپس آ کر اطلاع دی تو حافظ صاحب نے ان سے سوال کیا کہ کیا اس نے وردی اتار کر سادہ لباس پہنا ہے یا ابھی وردی میں ہے تو جماعتی ساتھیوں نے بتایا کہ وردی میں ہے تو حافظ صاحب فرمانے لگے کہ ابھی بھی ہم نے یہ ’’دھرنا‘‘ ختم نہیں کرنا پہلے اس کی وردی اتروائی جائے۔ چنانچہ اس کی وردی اتروائی گئی اسے حوالات میں بند کیا گیا تو جماعتی ساتھیوں نے آ کر اطلاع دی میرے کانوں میں اب بھی حافظ صاحب کی آواز سنائی دے رہی ہے اور آپ کا وہ انداز نظر آ رہا ہے آپ پوچھ رہے ہیں تم ملزم کو پہنچانتے ہو‘ وہی ہے یا کوئی اور بندہ؟ کیا وہ حوالات میں بند ہے۔ کیا وہ وردی اتار کر سادہ لباس پہن چکا ہے۔ ؟ اور آخری سوال تھا کہ کیا آپ مطمئن ہیں اگر احتجاج ختم کر دیا جائے تو ……؟ جب مقامی جماعت کے احباب نے ہر سوال کا جواب ہاں میں دیا تو پھر آپ نے مجمع میں ساری صورتحال واضح کر کے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں دعاؤں سے نوازا۔

یہ زندگی میں پہلا ’’دھرنا‘‘ تھا جو یزدانی رحمہ اللہ کی قیادت میں چوک بیگم کوٹ میں دیا گیا اور وہ سو فیصد کامیاب رہا۔ اس وقت تک ابھی لوگوں نے ’’دھرنے ‘‘ کا نام ہی نہیں سنا تھا۔یہ تھی حافظ صاحب رحمہ اللہ میں جرأت و بہادری اور قائدانہ صلاحیتیں کہ جن کی بدولت ہر چھوٹا بڑا ان سے بہت محبت کرتا تھا اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنے بندے سے محبت والا معاملہ فرمائیں (آمین)

حافظ صاحب رحمہ اللہ بڑے بے باک‘ جرأتمند اور نڈر خطیب تھے۔ اپنا مسلک و موقف بڑی وضاحت سے بیان فرماتے۔ عقیدے اور نظریے میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ مسلک اہل حدیث کی عزت و آبرو اور مقام ومرتبہ ان کے پیش نظر رہتا۔ گوجرانوالہ میں اہل حدیث‘ دیو بندی اور بریلوی مکتبہ فکر کی مشترکہ کانفرنس ’’عظمت صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘‘ کے نام سے محرم الحرام کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے۔ پہلی کانفرنس 1986ء میں ہوئی جس میں اہل حدیث کی نمائندگی شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ اور خطیب ایشیاء قاری عبدالحفیظ فیصل آباد ی حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی قاری صاحب نے وہاں پہلی دفعہ ’’تیرا علی ‘ میرا علی‘‘کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ جو اپنی مثال آپ ہی تھا لیکن علامہ صاحب رحمہ اللہ کی تقریر پوری کانفرنس کی روح رواں تھی یوں اس سال یہ کانفرنس اہل حدیث کے نام رہی۔ آئندہ سال 1987ء میں پھر اس کانفرنس میں اہل حدیث کی نمائندگی کے لیے قرعہ فال مذکورہ شخصیات کے نام ہی نکلا۔ اشتہار چھپ چکے بلکہ دیواروں پر لگا دیئے گئے کہ 23مارچ 1987کو سانحہ لاہور رونما ہو گیا اور اس کانفرنس سے پہلے ہی شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ خلعت شہادت سے نواز دیئے گئے۔ چنانچہ جماعت نے موقعہ پر فیصلہ کیا اور علامہ شہید رحمہ اللہ کے متبادل حضرت حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ کا انتخاب کیا گیا آپ کی بھرپور جوانی کا دور تھا نوجوانوں کے جذبات تھے کہ آپ کا شاندار اور فقید المثال استقبال کیا گیا گوجرانوالہ کی جس مسجد ’’کھیالی گیٹ‘‘ میں یہ پروگرام ہوتا ہے وہ بہت چھوٹی ہے اس میں صرف چند ایک لوگ ہی سما سکتے ہیں البتہ چوک بہت وسیع اور تین اطراف میں روڈ بہت کھلے ہیں نیز مسجد سے باہر اس وقت ٹیلی ویژن لگا کر سامعین کو خطباء کے ساتھ شریک کر لیا جاتا تھا اب تو ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے اس لیے ہو سکتا ہے مزید بہتر انتظام کرلیا گیا ہو۔ علامہ شہید رحمہ اللہ کی گذشتہ سال کی تقریر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے ٹی وی پر دوبارہ لگا کر لاؤڈ سپیکر میں سنایا جا رہا تھا لوگ اسی طرح ٹیلی ویژنوں کے سامنے ہمہ تن گوش ہو کر تقریر سن رہے تھے جیسے علامہ صاحب کے سامنے بیٹھ کر سنتے تھے آپ کو داد بھی دیتے ‘ نعرے بازی بھی کرتے اور زاروقطار روتے بھی تھے عجیب سا ماحول تھا کہ حافظ صاحب مرحوم کو ایک جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ لایا گیا مجھے پتہ نہیں کیوں اور کیسے خیال آ گیا کہ حافظ صاحب کو کوئی مشورہ دینا چاہیے لیکن میری آپ تک رسائی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے کوئی کاغذ میسر تھا چنانچہ میری جیب میں ایک چھوٹی ڈائری تھی میں نے اس کی ایک سائڈ کا گتہ پھاڑ کر کچھ اس قسم کے الفاظ لکھے’’السلام علیکم حافظ صاحب آپ جانتے ہیں یہ مشترکہ پروگرام ہے اور گذشتہ سال علامہ صاحب کی تقریر کی ابھی تک دھوم مچی ہوئی ہے لہٰذا اس قسم کی تقریر ہونی چاہیے کہ جماعت کا مقام بلند ہو اور لو گ دیر تک آپ کو یاد رکھیں۔ ’’یعنی اس عبارت کا مضمون یہی تھا پھر اس جلوس کے رش میں بڑی مشکل سے حافظ صاحب سے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہو سکا اسی دوران میں نے آپ کو وہ رقعہ بھی تھما دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ حافظ صاحب نے وہ پڑھا یا نہیں لیکن واقعی حافظ صاحب نے ایسی لا جواب اور پُرجوش تقریر کی کہ سالوں لوگ اس کا تذکرہ کرتے رہے۔

آپ نے سورہ حجرات کی آیت

أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى

  تلاوت کی اس تقریر کے بعض اقتباسات مجھے اب بھی یاد ہیں بحمد اللہ تعالیٰ ۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ بہترین خطیب تھے اور اپنے مسلک کو ہر اسٹیج پر بڑی جرات سے بیان فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی تبلیغی مساعی کو ان کی حسنات میں شمار فرمائے (آمین ثم آمین) حافظ بدر نصیر صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ جھنگ میں دیو بندیوں کی مسجد کو شیعوں نے آگ لگا دی تو شہر کے حالات کشید ہ ہو گئے اور جائے وقوعہ پر زبردست فائرنگ ہونے لگی جب حافظ صاحب کو معلوم ہوا تو آپ وہاں جانے کے لیے نکلے احباب جماعت نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے آپ سے نہ جانے کی اپیل کی لیکن آپ نے کمال جرات و بہادری سے برستی گولیوں میں وہاں پہنچ کر نہ صرف جماعت کی نمائندگی کی بلکہ حق ادا کر دیا حتی کہ جھنگ میں عظمت صحابہ کرام اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے آپ کی جرات ‘ بہادری اور ایثار و قربانی اور حکمت عملی کے اپنے ‘بیگانے معترف ہیں کہ آپ ہمیشہ ہراول دستہ میں قیادت کرتے ہوئے نظر آئے۔

حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ بڑے مستقل مزاج آدمی تھے آپ تقریباً 1976ء میں رمضان المبارک میں تراویح کی امامت کے لیے جھنگ تشریف لائے آپ کی خوبصورت آواز‘ نماز تراویح کے بعد درس قرآن مجید اور آپ کی خوش اخلاقی اور ملنساری کی وجہ سے آئندہ سال نماز تراویح پڑھانے کے لیے دوبارہ تشریف لائے حتی کہ جمعۃ المبارک کا خطبہ شروع کر دیا پھر جامعہ سلفیہ سے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد مستقل طور پر جھنگ کو اپنا مسکن بنا لیا شادی بھی وہی کی اور مدفون بھی وہی ہوئے آپ نے شہرت و عروج کی بلندیوں کو چھو ا کئی ایک شہروں سے بڑی بڑی پیش کشیں ہوئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ہر آفر کو ٹھکرا دیا کہ میں نے جھنگ میں محنت کی ہوئی ہے اب اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ حالانکہ جھنگ میں آپ نے عسر یُسر ہر قسم کے حالات دیکھے مگر آپ کے پایہ استقلال میں لرزش نہیں آئی۔

آپ نے 1956ء کو پتوکی میں مولانا عبدالرحیم رحمہ اللہ کے ہاں ولادت پائی آپ کے والد محترم بڑے ثقہ عالم دین ‘بہترین خطیب اور کامیاب مناظر تھے آپ نے مولوی عمر اچھروی سے مباہلہ بھی کیا تھا جس میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے سرفراز فرمایا۔

حافظ عبدالعلیم مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آبادمیں داخلہ لیا۔ جہاں مولانا محمد صدیق کرپالوی ‘ حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہماجیسے اساطین علم سے کسب فیض کیا مولانا محمد یونس بٹ حفظہ اللہ تعالیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان اور چوہدری محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ تعالیٰ پرنسپل جامعہ سلفیہ کے کلاس فیلو تھے تقریر کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا جامعہ میں بھی تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہر جمعرات کو کسی قریبی مسجد اہل حدیث یا گاؤں میں تشریف لے جاتے اور وہاں درس و خطاب سے سامعین کو مستفید فرماتے۔ آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی راہنما تھے آپ نے امیر کی سمع واطاعت کی ایک مثال قائم کی۔ جماعتی پلیٹ فارم پر اپنے موقف اور نقطہ نظر کا برملا اظہار فرماتے لیکن جماعت کی طرف سے جوپالیسی بن جاتی پھر حتی المقدور اس کی پابندی فرماتے۔ آپ نے ضلع جھنگ میں جماعت اہل حدیث کو نہ صرف کہ ایک مقام دلایا بلکہ ان کی طاقت و قوت کو بھی منوایا ۔ تقریباً آپ نے بیالیس سال کا عرصہ جھنگ کی سرزمین پر گزارا۔ محترم حافظ بدر نصیر صاحب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل جھنگ بتا رہے تھے کہ 24اگست 2018ء کا جمعہ آپ نے ان کی مسجد جھنگ سٹی میں پڑھایا جمعہ کے بعد بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے کہا حافظ صاحب آپ کا جمعہ بڑا کامیاب ہوا ہے لہٰذا ہر سال ایک جمعہ ارشاد فرمایا کریں تو میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمانے لگے ’’نہیں او بچیا ‘اے پہلا وی اے تے آخری وی‘‘ یعنی آئندہ میں نے آپ کے پاس جمعہ نہیں پڑھانا یہ میں نے آخری جمعہ پڑھا دیا ہے اس کے بعد 26اگست 2018ء بروز اتوار کو لاہور مرکزی مجلس عامہ کے اجلاس میں انہیں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور پھر 6ستمبر 2018ء کو ان کی میت ہی جھنگ میں آئی اور ان کے یہ الفاظ الہامی ثابت ہوئے کہ ’’یہ میرا آخری جمعہ ہے‘‘۔

آپ نے خطابت کا آغاز بھی جھنگ سٹی سے کیا اور زندگی کا آخری جمعہ بھی جھنگ سٹی میں پڑھایا اور جھنگ سٹی کے قبرستان میں ہی دفن کیے گئے۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ

یہ میری بچپن کی دو محبتیں تھیں (قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ اور حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ) تیسری محبت کے لیے میں پہلے سے زیادہ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ ایمان و اعمال صالحہ سے مزین لمبی زندگی عطا فرمائے۔ اگرچہ اب ان سے تعارف اور تعلق خاطر بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں ان سے کوئی تعارف نہ تھا فقط ان کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے لوجہ اللہ ان سے غائبانہ محبت تھی اور ہے بھی ۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ قائم رکھے۔ (آمین)

نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ’’نظر‘‘ نہ لگے۔ آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے محبوب کو دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب فرمائے ۔( آمین ثم آمین)

وما اغنی عنکم من اللہ من شئی ان الحکم الا للہ علیہ توکلت وعلیہ فلیتوکل المتوکلون

مصافحہ کے آداب

دین اسلام تہذیب اور معاشرتی آداب کا کامل نمونہ ہے وہ اپنے ماننے والوں کی نہ صرف اصلاح کرتاہے بلکہ ان کی جہالت بھی دور کرتاہے انہیں صلح وایمان، سلامتی واطاعت ،فرمانبرداری،اخوت وبھائی چارے کی تعلیم دیتاہے۔پیدائش سے لے کر موت تک الغرض ہرموقعے کے لیے آداب زندگی مقرر کر دیئے گئے ہیں۔

مسلمانوں کی ملاقات کے وقت محبت اور احترام کا اظہار کے لیے سلام کے علاوہ مصافحہ بھی مسنون ہےجو عموماً سلام کے ساتھ یا اس کے بعد ہوتاہے۔ اہل لغت نے مصافحہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ۔ مصافحہ’’باب مفاعلہ‘‘ سے ہے اس سے مرادایک شخص کی ہتھیلی کا اندرونی حصہ دوسرے کی ہتھیلی کے اندرونی حصہ سے ملانا۔(النہایۃ 3/43)

مصافحہ کرنے کا طریقہ یمن میں رائج تھا انہوں نے اس کا اظہار کیا جسے نبی کریم نے بھی پسند فرمایا۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یمن والے آئے تو نبی کریم نے فرمایا ’’یمن والے آئے ہیں اور تم لوگوں سے زیادہ نرم دل ہیں۔‘‘ (مسند احمد :12610)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہی لوگ وہ ہیں جو پہلے مصافحہ لائے ہیں۔

دین اسلام نے قبل از اسلام جو اچھے طریقے مروج تھے وہ اسی طرح رہنے دیئے جیسا کہ مصافحہ اور جوبرے طریقے تھے وہ بدل دیئے جیسا کہ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں عرب معاشرے کی یہ عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو سلام ودعا اس طرح دیتے ’’صبح بخیر‘‘ سامنے والا اس طرح جواب دیتا’’تمہاری صبح خوشگوار ہو، اللہ تمہیں زندہ رکھے اور اللہ تعالیٰ تمہیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کرے‘‘ دین اسلام نے اس طرز کو بدل کر اس کی جگہ ’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ‘‘ کہنے کی تعلیم دی۔

مہمان کے آنے پر خوشی اورمحبت کا اظہار کریں ، آگے بڑھ کر استقبال کریں، سلام دعا کریں اورمصافحہ کریں ، مصافحہ کی برکت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کا ذریعہ ہے۔ مصافحہ ایک مسنون اور مستحب عمل ہے۔سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :’’ جو کوئی دو مسلمان ملاقات کریں اور پھر مصافحہ کرتے ہیں تو جدا ہونے سے پہلے ہی ان دونوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (ابوداؤد : 5212)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا :’’ جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کے ہاتھ کو پکڑتاہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ ان کی دعاؤں کے وقت موجود رہے اور ان دونوں کے ہاتھوں کے جدا ہونے سے قبل ان کی مغفرت کر دے۔ (مسند احمد : 12478)

جناب قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں مصافحہ کرنے کا دستور تھا؟ انہوں نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ (صحیح بخاری : 6263)

مصافحہ چونکہ سلام کی تکمیل ہے اس لیے پہلے سلام پھر مصافحہ کرنا چاہیے ۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مصافحہ کا تو خوب اہتمام ہوتاہے لیکن سلام کا نہیں ہوتا یا مصافحہ کے بعد سلام ہوتاہے، یہ دونوں طریقے خلاف سنت ہیں، سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام پھر مصافحہ کیا جائے آپ  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مصافحہ کے بغیر سلام ثابت نہیں۔

مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے

نہایت واضح طور پر ثابت ہے اس کے ثبوت میں ذرا بھی

شک نہیں ۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی اس ایک ہتھیلی سے مصافحہ کیا ،میں نے رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ کسی چیز کو اور نہ کسی ریشمی کپڑے کو پایا۔ (مسلم:6053)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نصاریٰ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں پس ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور نصاریٰ اور یہود کی مخالفت کرنے کا حکم ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کا مسنون ہونا ثابت اور کسی حدیث سے ایک ہاتھ سے مصافحہ کے بارے میں نصاری کی مخالفت کرنے کا حکم ہرگز ثابت نہیں ہے تو ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا نہ کسی قوم سے مشابہت سے ناجائز ہوسکتاہے اور نہ کسی قول وفعل سے مکروہ ٹھہر سکتاہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مسنون ہی رہے گا۔

اگر کوئی کہے کہ صحیح بخاری سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ثابت ہے تو یہ محض جھوٹ ہے اور اہل اسلام کو صاف دھوکا دینا اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنا ہے۔

ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا جس طرح اہل دین اور اہل عرب مصافحہ کرتے ہیں احادیث صحیحہ صریحہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہایت واضح طور پر ثابت ہے۔ اس کے ثبوت میں ذرا بھی شک نہیں اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا جس طرح اس زمانے کے بعض لوگوں میں رائج ہے کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی کے اثر سے اور نہ کسی تابعی کے قول وفعل سے اور ائمہ اربعہ سے بھی کسی امام محترم کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا یا اس کا فتویٰ دینا سنداً منقول نہیں۔

درِ مختار فقہ کی ایک مشہور ومعروف کتاب ہے اور اس میں لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے۔ کسی کتاب کا مشہور ومعروف ہونا اور بات ہے اور اس کا مستند اور معتبر ہونا اور بات ہے ۔ (ماخوذ از المقالۃ الحسنی فی سنۃ المصافحۃبالید الیمنی)

مصافحہ ایک ہاتھ سے مسنون ہے یا دونوں ہاتھوں سے ۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کا مذکورہ رسالہ مطالعہ کیاجائے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا قول غنیۃ الطالبین فصل ان امور کے بیان میں ہے کہ جن کا داہنے ہاتھ سے کرنا مستحب ہے ’’مسلمانوں کے لیے چیزوں کو لینا اوردینا، کھانا اور پینا اور مصافحہ کرنا داہنے ہاتھ سے مستحب ہے اور وضو کرنے میں اور جوتے اورکپڑے پہننے میں داہنی طرف سے شروع کرنا مستحب ہے۔

مصافحہ مندرجہ ذیل چند مواقع پر نہ کیا جائے:

1کفار ومشرک اور بدعت کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والا سے ملاقات کے موقع پر ان کی خاص عزت وتکریم کے لیے مصافحہ ہرگز نہ کیاجائے۔

2 اگر کوئی شخص گفتگو میں یا کسی کام میں یا کھانا کھانے میں مشغول ہو تو اسے سلام کا جواب دینے کے ساتھ مصافحہ کیلئے مجبور نہ کیاجائے۔

3 اگر کوئی شخص جلدی میں ہو یا تیزی سے جارہا ہو تو اسے سلام کے ساتھ مصافحہ کے لیے نہ روکا جائے۔

4 بعض لوگ مصافحہ کرنے کے بعد سینے پر ہاتھ رکھتے ہیں یا مصافحہ تو ایک ہاتھ سے کرتے ہیں لیکن دوسرے ہاتھ سے سامنے والےکی کہنی یا بازو تھام لیتے ہیں ، اس عمل کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں لہذا اس عمل سے اجتناب کیا جائے۔

5 باہم ملاقات کے وقت سلام کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے جھکنا شرعاً منع ہے۔

6 بعض مسلمان قوموں میں یہ رواج عام ہے کہ مصافحہ کے بعد ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ عمل شریعت کی تعلیم نہیں لہذا اس سے بھی گریز کیاجائے۔

7 لوگوں سے مصافحہ کرنا ہو تو دائیں طرف کو مقدم رکھتے ہوئے بائیں طرف کے لوگوں سے مصافحہ میں پہل کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

جب سے ہمارے معاشرے میں روشن خیالی اور جدت پسندی آئی ہے ، مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ہمارے معاشرے کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ آج ہماری تہذیب وتمدن، ثقافت، عادات وبودوباش کے تمام طریقوں میں مغرب کی نقالی ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام میں نوجوان طلباء وطالبات آپس میں ایک دوسرے سے اور نامحرم اساتذہ سے مصافحہ کرتے نظر آتے ہیں اسی طرح نامحرم رشتہ داروں سے بھی مصافحہ کرنا جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔

سیدہ امیمہ بنت رقیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں کچھ انصاری عورتوں کی معیت میں نبی کریم  کی خدمت میں حاضر ہوئی ہم آپ  سے بیعت ہونا چاہتی تھیں ہم نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول ہم آپ سے بیعت کرتی ہیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی طرف سے جھوٹ گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کریں گی اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔ آپ  نے فرمایا اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق( تم پابندہوگی) ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم پر ہم سے بھی زیادہ مہربان اور رحم فرمانے والے ہیں۔ اے اللہ کے رسول اجازت دیجیے کہ ہم آپ کے دست مبارک پر بیعت کریں۔ رسول اللہ  نے فرمایا میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ، میرا زبانی طور پر سوعورتوں سے بات چیت کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہر عورت سے الگ طور پر بات چیت کروں۔ (سنن نسائی : 4186)

رسول اللہ  غیر محرم عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے اگرچہ ضرورت کا تقاضا بھی ہوتا جیسے کہ نبی کریم نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت صرف زبان سے بیعت لینے پر اکتفاء فرمایا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جو مسلمان عورت ان شرائط کا اقرار کر لیتی تو رسول اللہ زبانی طور پر اس سے فرماتے ’’میں نے تمہاری بیعت قبول کر لی ہے‘‘۔ اللہ کی قسم! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کریم   کے ہاتھ سے بیعت لیتے وقت کسی عورت کا ہاتھ چھوا ہو ، نبی مکرم ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے تم ان مذکورہ باتوں پر قائم رہنا۔ (صحیح بخاری : 4891)

نبی معظم نے فرمایا ’’ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل گاڑ دی جائے یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی غیر محرم عورت کو چھوئے ۔(صحیح الترغیب والترھیب : 1915)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ عورت سے مصافحہ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟

غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا مطلقاً ناجائز ہے خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھی اور خواہ مصافحہ کرنے والا مرد جوان ہو یا بوڑھا۔ کیونکہ اس میں ہر ایک کے لیے فتنے کا خطرہ ہے۔ اس اعتبار سے بھی کوئی فرق نہیں کہ عورت نے دستانے وغیرہ پہننے ہیں یا نہیں کیونکہ دلائل کے عموم اور فتنے کے سدباب کا یہی تقاضا ہے۔(فتاوی اسلامیہ 3/89)

آپس میں ملاقات کے وقت دین جو ہمیں شعور وتہذیب سکھاتا ہے وہ یہی ہے کہ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان بھائی سے ملے پہلے سلام کہے پھر ایک ہاتھ سے مصافحہ کر ے۔مصافحہ مسلمان کا ملاقاتی شعار ہے جو آج بری طرح سر کے اشاروں اور چہروں کے انداز اور اشاروں کی نذر ہوچکا ہے۔ ایک ہاتھ سے مصافحہ سنت ہے۔ رسول اللہ  بنی نوع انسان کے لیے ہر طرح سے نمونہ تھے۔ بشری تقاضوں کے تحت نبی کریم کی حیات مبارکہ میں بشری زندگی کے تمام پہلو موجود تھے کہ جن کو دیکھ کر ہر انسان اپنی زندگی کا ہر گوشہ نبی مکرم کے عمل کے مطابق گزار سکتاہے۔

سنت کی عظمت كو جان كر اور اس پر عمل کرکے دنیا وآخرت میں لا تعداد فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں ایک ہاتھ سے مصافحہ سبب انس ومحبت ہے۔ ایک دوسرے سے کینہ،بغض وحسد کی صفائی میں مؤثر ہے۔ اتفاق واتحاد کا نسخۂ اکسیر ہے ، گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ میری آپ تمام قارئین سے التماس ہے کہ آپ اپنے عام وخاص،دنیاوی وشرعی مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں خود بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی احادیث صحیحہ کی طرف متوجہ کرائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم   کے ہر طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

شائستہ، پُروقار اندازِ گُفتگو

ہمیں آپس میں دھیمی ،پرُوقار اور شائستہ لہجہ میں بات کرنی چاہیے،چونکہ نرم لہجہ اور نرمی سے گفتگو کرنے سے ہمارے دل میںاچھا اثر پیدا ہوتا ہے،اگر دل میں غصّہ اور نفرت ہو تو قریب بیٹھا ہو ا شخص بھی دور جاکر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔غُصّہ،غضب، تعصب، حسد،بغض ، عناد و نفرت کی وجہ سے دلوں میں مزید فاصلے بڑہ جاتے ہیں جبکہ محبت بھرا رویّہ نرم گفتار دل و دماغ پر انتہائی خوشگوار اثر چھوڑتے ہیں، اس لیٔے اگر آپ کسی کے دل میں جگہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پُر تشددشور و غل بھیانک اور غصّے بھری آواز سے نہیں بلکہ نرم گفُتاری شائستہ باوقار دھیمی گفتگو سے بات کرنی چاہیے ،چونکہ بادلوں کی ہولناک گرج و چمک سے دل تو دھل جاتے ہیں جبکہ نرم بارش کی باوقار بوندوں سے جسم پر پڑنے والے ٹھنڈے قطرے سکون قلب عطا کرتے ہیں غصّے کو ’لمحاتی پاگل پن ‘بھی کہا جاتا ہے، چونکہ تجربہ شاھد ہے کہ غصّہ و غضب سے مغلوب الغضب ہوجانا اور قابو سے باہر ہوئے جذبات ایک ایسی خوفناک آندھی اور طاقت کی مانند ہوتے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو پھر آس پاس والوں کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، کبھی تو غصّہ میں کیے ہوئے چند لمحات کے فیصلے برسوں تک بھگتنا پڑتے ہیں، کبھی چند لمحات کے جذباتی فیصلوں کے باعث مردوزن میں قتل وغارت جیسے سنگین جرائم وقوع پذیر ہوجاتے ہیں۔تجربہ شاھد ہے کہ فورا ً غصّہ میں بے قابو ہوکر طلاق دے دینا پھر پچھتاوے کے بعد مُفتی صاحبان کی حاضریاں دیتے رہنا کوئی اچھا کام نہیں ، کبھی غضبناک ہونے سے، بلڈپریشر،دماغی فالج اور ہارٹ اٹیک جیسے موذی امراض جسم و جان سے چمٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ’کہ بے قابو غصّہ ہاتھ میں پکڑے ایسے جلتے کوئلے کے ماند ہے جس سے بیک وقت پورا گھرانہ خاکستر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، سچ تو یہ ہے کہ بلاشبہ غُصّہ و غضب دوسرے کی خطا کی سزا اپنے آپ کو دینے کے برابر ہے، مثلاً خود اپنے گھر میں ہر وقت خوف و دہشت کی علامت بنے رہنا ، گھر میں داخل ہوتے ہی گھر والوں کے پسینے چھوٹ جانا ،کلیجہ منہ کو آجانا ، ہرگز معیاری و متوازی زندگی نہیں، ایک جہاندیدہ دانا ہستی کا قول کتنا سچ ہے کہ ’ اپنے جذبات پر خود حکومت کرو نہ کہ تمہارے جذبات تم پر حکومت کرنے لگیں، اور تم بے بس ہو جاؤ‘ مشتعل دماغ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ غُصّہ ایک ایسی خوفناک چنگاری ہوتی ہے جو ابتدائی مراحل میں اگر بجھائی نہ جائے تو آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے، غُصّہ ہماری سوچ سمجھ عقل و شعُور کے دروازے تک بند کردیتا ہے ،غُصّہ جہالت سے شروع ہوکر پشیمانی اور ندامت پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے، غُصّہ ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی علامات تکبر ، غُروراور احساس برتری ہوا کرتے ہیں جو مذہبی و اخلاقی لحاظ سے انتہائی مذموم عمل ہے۔ دیکھا جائے تو غُصّہ کی حالت میں انسان کی آنکھیں،کان اور چہرے سُرخ ہوجایا کرتے ہیں، گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، زبان قینچی کی صورت اختیار کر لیتی ہے دماغ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہوجاتا ہے پھر بدحواسی کے عالم میں گالم گلوچ،الزام تراشی،ہاتھاپائی،مارپیٹ،طلاق، قتل و غارت حتیٰ کہ کبھی تو ’خودکشی‘ کی نوبت بھی آجاتی ہے، غصیلے لوگ پورے معاشرے سے کٹ کر اپنی ضد، انا،لایعنی مباحث اور شکوک و شبہات کے مکمل مریض بن جاتے ہیں، پھر تنہائی، مایوسی، ناامیدی اور قنوطیت ان کا مقدر بن جاتی ہے، آئے دن ہمارے ہاں جرایٔم و تشدد

پر مبنی ڈرا مے اور فلمیں دیکھتے ہوئے ہماری تحریروں،

تقریروں،محاضرات علمیّہ، مجالس اور عدلیہ کے فیصلوں میں بھی غُصّہ جھلکتا ہوا نظر آتا ہے، سیاسی لیڈر جس بے رحمی شقاوت قلبی سے حریف مخالف کو نیچا دِکھانے کے درپے ہوتے ہوئے جس بدتمیزی اور سفاکی سے ایک دوسرے کی کردار کُشی کرتے ہیں، تقاریر میں گلہ پھاڑتے ہوئے بدترین اخلاقی گراوٹ کے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیںوہ کسی سے مخفی نہیں اور نہ ہی کسی مہذب قوم کا یہ شیوہ ہے ،جبکہ دیگر باوقار زیورِ تعلیم سے آراستہ زیرک و ذہین قومیں آپس کے اختلافات،تنازعات کا ہر وقت جایٔزہ لیتے ہوئے گھمبیر مسائل کا حل نکال کر اعتدال کی راہ اختیار کر تے ہیں تاکہ کسی صورت میںشدید تنازعات لڑائی جھگڑے اور قتل وغارت کی کبھی نوبت تک نہ آئے بلاشبہ زندہ معاشروں میں بعض اوقات اختلافات اور تنازعات بھی جنم لیتے ہیں مگر وہ پیہم رواں دواں زندگیوں پر اثرات نہیں ہوتے، قوم کے باشعور ذھین و ذیرک افراد ان کا ڈٹ کر خوبصورت حل بھی تلاش کر لیتے ہیں جس کے باعث سفاکی انارکی انتشار و افتراق اور خونریزی کی نوبت نہیں آتی بلکہ باشعور اَقوام و ملّل اختلافات تنازعات بڑے شان ،شعّور اور شائستگی سے برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں،بلکہ وہ تنقید کے باعث بھی آپے سے باہر ہونے کے بجائے اسے مناسب اہمیت دیتے ہوئے اختلاف کرنے والوں سے خوشگوار ماحول میں مذاکرات افہام وتفہیم سے محبت کی راہ پالیتے ہیں، اس طرح یہ معاشرہ زعفران بن کر فکر و فہم شعور و آگھی کی معطر لہریں اٹھتی نظر آتی ہیں، پھر یہ سماج افکار نُو کے تازہ پھولوں سے معطر ہوجاتا ہے اور محبت و خُلوص اور وُسّعت قلبی کی دلرُبا خوشبو سے پورا معاشرہ مہک اٹھتا ہے لیکن افسوس ہمارے مزاجوں میں اعتدال ،بردباری، سنجیدگی کے بجائے اشتعال ،انتقام اور تصادم کے اجزاء طاقت ور ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مثلاًبعض حضرات غُصّے میں اتنے لال پیلے ہوجاتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کو انکی وہ ’وڈیوز‘ نارمل حال میں دکھائی جائیں تو یہ حضرات یقینا شرم کے مارے پانی پانی ہوکر آپکے سامنے آنے کی بھی ہمت نہیں کریں گے ویسے دیکھا جائے تو غُصّے غضب اور چڑچڑاپن کی کئی وجوہات جن میں تعلیم و تربیت کی کمی،خوفِ الٰہی کا فقدان، بے روزگاری،ناانصافی،خاندانی رقابتیں،رنجشیں،تلخ مزاجی، تکبر و غرور، جھوٹی اناپرستی، عدم برداشت اورکسی ذات کے خلاف منفی جذبات کی فراوانی نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بندے اور حقیقی متقین ہمیشہ عاجزی،انکساری،تواضع اور خاکساری اپنائے ہوئے تکبر اور غُرور کے مرض سے ہمیشہ کلیۃً محفوظ رہتے ہیںچونکہ خود غُصّہ بیج ہے تکبر اور اناپرستی کا۔

اپنی ذات،نفس ،مقام و مرتبہ، خاندان و جاہت، رنگ و نسل اور قوّت و اقتدار پر فخر کرنے والااپنے آپ کو دوسری مخلوق سے ہمیشہ بالاتر سمجھتے ہوئے حق کو پامال کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسروں سے ہر لحاظ بلند و بالا تصور کرتا ہے، جبکہ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کتنا رؤف و رحیم، حلیم و کریم ہے کہ ہم جیسے لاتعدادانسانوں کی نافرمانیاںاور قصور ہمیشہ سے معاف کرتا رہتا ہے۔ لِھٰذا فقط رضائے الٰہی کے خاطر دوسروں کی خطاؤںسے درگذر کرنا نظر عفّو سے نوازنا رحمان الرحیم کا بیحد پسند یدہ فعل ہے، ایسے حالات و واقعات میں دینی، سیاسی اور سماجی باوقار قائدین کرام کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ ہمیشہ شیرین اور ملائم لہجہ اپنائیں نرم گُفتاری کو سماج میں فروغ دیں۔

ہمیشہ الزام تراشی،دشنام بازی،گالم گلوچ، بغض و عناد اور تَعصّب و تکبر سے بچتے ہوئے آپس میں مل جل کر گفت و شنید سے مسائل کا حل ڈھونڈیں شائستہ اور باوقار لہجہ اپنائیں، اور اپنے سماج میں قوت برداشت پیدا کریں اس طرح افتراق و انتشار غُصّہ و غضب کے ساتھ و ہیجاں میں بھی کمی واقع ہوگی، باہمی اعتماد اور اسلامی رشتے اور اخوۃ کے بندھن میں سب لوگ یکجاں ہوجائیں گے۔

ایسے میں ہمیں براہ راست قرآن و سنت اور آپ کی سیرت و سوانح سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ’نفسیات‘ ایک وسیع قابل ذکر اور اہم علم ہے جس کی بنیاد آج سے ۱۴۰۰ سال قبل رسول مکرم نے رکھی۔آیاتِ ربانی اور احادیث رسول نفسیاتِ انسانی کے مبادی اُصول وضع کرنے میںکلیدی کردار ادا کرتے ہیں جس سے تعمیر انسانیت ہوئی ، چونکہ مہذب گُفتگو کرنا اسلام کا ایک زرین اُصول ہے ، اگر تاریخ کا بغائیر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہذب گُفتگو ہی نے اقوام و افراد کو اسلام کا گرویدہ بنایا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں سے اچھے انداز میں گُفتگو کرو۔

تم فرعون کے پاس جاؤ تو اس سرکش سے بھی ’نرمی‘ سے بات کرو شاید وہ سمجھ لے یاڈر جائے ۔( طٰہٰ۴۳،۴۴)

اور یہ کہ مسلمان جب غضبناک ہوتے ہیں تو وہ معاف کرتے ہیں۔(الشوریٰ)

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ کہ کیا انسان دیکھتا نہیں کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ صریح جھگڑالو بن گیا۔(یس۷۷)

ایسے ہی احادیث نبویہ سے بھی مہذب متمدن شائستہ گفتگو کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، سیدناعبداللہ  رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول مکرم نے فرمایا: مسلمانوں کو گالی دینا فسق اور جنگ کرنا کفر ہے ۔ (بخاری۴۸)

 ایک اور جگہ جہنم میں جانے والے گناہوں میں ایک گناہ زبان کی بدکلامی شرم گاہ کی خباثتوں کو قرار دیا گیا ہے ۔

(ابن ماجہ۴۲۴۶)

مزید یہ کہ سیدنا جریررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی نرمی اور مہذب انداز سے محروم کردیا گیا وہ خیرکثیر سے محروم کر دیا گیا ۔

(مسلم۱۶۵۹۸)

سب سے افضل اس کا اسلام ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔(بخاری)

قرآن و سنت سے جو بات واضح ہو کے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ امت مسلّمہ کی شناخت نرم شائستہ اور مہذب گفتگو سے ہے، چونکہ عظیم قومیں تہذیب ،شائستگی اور وقاراپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتی لِھٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر لمحہ مہذب او رشاندارشائستہ گفتگو کی عادت اختیار کریں، سورۃ احزاب میں ارشاد ربانی ہے کہ ’اے ایمان والو اللہ سے ڈرو سیدھی بات یعنی مہذب اور شائستہ گفتگو کیا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے تمام امور کو سنوار دے گا اور تمہارے تمام گناہ معاف کرے گا‘۔ مزید یہ کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد الٰہی ہے کہ ’قول معروف ‘یعنی مہذب گفتگو اور درگذر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔ صحیح مسلم میں ایک جگہ ارشاد نبوی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ مہذب گفتگو کرے یا خاموش رہے۔ اسلام میں جہاں مہذب گفتگو کا حکم آیا ہے وہیں فضول لغو لایعنی باتون سے باز رہنے کی بھی تاکید آئی ہے، قرآن عظیم کی روشنی میں کسی نادان کا بھی جواب تلخی سے نہ دیا جائے بلکہ ہر حال میں سلامت روی کو ملحوظ خاطر رکھا جائے، دراصل یہ نرم باوقار شائستہ کلام مخاطب کے قلب پر اثر انداز ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیاں لڑائی جھگڑا اور فساد پیدا نہیں ہوتا، مقصد کہ ایسے فقرے جن میں لَعن، طَعن ، تَحقیر و تذلیل تُرش روئی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہو اُن سے محفوظ رہنا چاہیے بے تکی لَغو باتوں سے حتیٰ المقدور بچنا چاہیے، انسان کی زبان اس کا ذریعہ ’اظہارمافی الضمیر‘ ہے پھر اس کا اظہار بھی خوشگوار و خوبصورت ہی ہونا چاہیے تویقیناً یہ سلگتی ہوئی دنیا بھی جنت نظیر بن جائے گی۔انسان کی زبان ایسی باوقار اور قیمتی متاع ہے کہ شیرین شائیستہ اور مہذب ہو تو کائنات میں دوستی اور محبت کی خوشگوار فضا قائم ہو گی ، اگر یہ تیز تلخ ،تُرش، طعن وتشنیع کی حامل ہو تودشمنیاں اور عداوتیں ہی جنم لیتی ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول کیا خوبصورت ہے کہ ’تلوار کا زخم تو وقت کے ساتھ بھر سکتا ہے، مگر زبان کا دیا ہوا زخم ہمیشہ تر و تازہ ہی رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن عظیم، احادیث رسول اور سیرت النبی سے کما حقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ زندگی کے ہر شعبہ حیات میں انفرادی، اجتماعی،معاشی و معاشرتی،مادی و روحانی، سیاسی و سماجی، قومی و بین الاقوامی مواقع پر باوقار، مہذب، شائستہ اور شیرین گفتگو کو اپنا شعار بنا سکیں۔آمین یا ربَ العالمين

بنی اسرائیل کے تین بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺ کی زبانی – قسط 2

پیارے بچو ! رسول اللہ‌ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے۔ کوڑھی، گنجا اور نابینا، اللہ تعالیٰ نے انہیں آزمانے کا ارادہ کیا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا ، فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا : تمہیں کون سی چیز سب سے پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھا رنگ اور اچھی کھال اور مجھ سے یہ بیماری ختم ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھوا تو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے اچھی جلد مل گئی۔فرشتہ کہنے لگا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟ وہ کہنے لگا : اونٹ یا گائے (اسحاق کو شک ہے) لیکن کوڑھی یا گنجے میں سے کسی ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کہا تھا۔ اس فرشتے نے اسے حاملہ اونٹنی دے دی اور دعا کی کہ: اللہ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز پیاری ہے؟ وہ کہنے لگا: اچھے بال اور مجھ سے یہ تکلیف دور ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھے حقیر سمجھتے ہیں۔ فرشتے نے اسے چھوا تو اس کی تکلیف دور ہو گئی اور اسے خوب صورت بال مل گئے، پھر فرشتے نے کہا: تمہیں کونسا مال پسند ہے ؟اس نے کہا: گائے ، اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی اور اس کے لئے دعا کی: اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اس میں برکت دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمہیں کونسی چیز سب سے پیاری ہے؟وہ کہنے لگا: اللہ مجھے میری بصارت واپس لوٹا دے تاکہ میں لوگوں کو دیکھ سکوں، فرشتے نے اسے چھوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی، پھر فرشتے نے کہا: کونسا مال تمہیں زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: بکری، اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی، اونٹنی اور گائے نے بھی بچے دئیے اور اس بکری نے بھی ۔ ایک کی اونٹوں کی وادی ہوگئی، دوسرے کی گائے بیل کی وادی ہوگئی اور تیسرے کی بکریوں کی وادی ہوگئی۔ پھر وہ کوڑھی کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا اور کہنے لگا: میں ایک مسکین آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے،آج میں اپنی منزل پر سوائے اللہ، پھر تمہاری مدد کے نہیں پہنچ سکتا۔ میں تمہیں اس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تمہیں اچھا رنگ اچھی جلد اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر بیٹھ کر میں اپنا سفر مکمل کر سکوں۔ وہ کہنے لگا: حقوق بہت زیادہ ہیں۔ فرشتہ اس سے کہنے لگا: شاید میں تمہیں جانتا ہوں، کیا تم کوڑھی نہیں تھے جس سے لوگ گھن کیا کرتے تھے؟پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا؟ وہ کہنے لگا: نہیں مجھے تو یہ مال باپ دادا سے ورثے میں ملا ہے ۔فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسی صورت میں لوٹا دے جس میں تم تھے ۔پھر وہ گنجے کے پاس اسی کی صورت میں آیا اور اسے بھی وہی بات کہی۔ گنجے نے بھی وہی بات کہی جو کوڑھی نے کہی تھی۔ فرشتہ کہنے لگا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت کی طرف لوٹا دے۔ پھر وہ نابینا کے پاس اس کی صورت اور حالت میں آیا،کہنے لگا: ایک مسکین اور مسافر آدمی ہوں ،سفر میں میرا سامان ختم ہوگیا ہے، اللہ، پھر تمہاری مدد کے بغیر میں

اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ میں اس ذات کا واسطہ دے

کر جس نے تمہیں بینائی لوٹائی ، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں جس کے ذریعے میں اپنا سفر مکمل کر سکوں ،وہ کہنے لگا: میں نابینا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھے میری بینائی لوٹائی ،جو چاہو لے لو، جسے چاہو چھوڑ دو، واللہ! آج تم جو بھی اللہ کے لئے لو گے میں تمہیں منع نہیں کروں گا۔ فرشتہ کہنے لگا: اپنا مال سنبھال کر رکھو، کیونکہ تمہاری آزمائش کی گئی تھی (اللہ تعالی) تم سے خوش ہوگیا جب کہ تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا۔

پیارے بچو ! مذکورہ قصے سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔

1بیماری بھی اللہ عزوجل کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے ۔

2  اللہ عزوجل اپنے ہر بندے کو آزماتا ہے ۔

3 آزمائش الہی پر صبر کرنے والے کے لیے بہت سارے انعامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔

4 آزمائش الہی پر صبر نہ کرنے والے کےلیے خسارہ ہے۔

5  فقیر کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے ۔

6  ہر نعمت اللہ تعالی کی جانب سے ہے بندے کا اپنا کچھ بھی نہیں ۔

7  اللہ تعالی کے راہ میں خرچ کرنا مال میں اضافہ کا سبب ہے ۔

8  بخل اور کنجوسی مال میں کمی کا سبب ہے ۔

9  اللہ تعالی کے راہ میں خرچ نہ کرنے سے اللہ عزوجل ناراض ہوتا ہے ۔

0  مسافر کا خیال کیا جائے اس پہ اللہ راضی ہوتا ہے ۔

۔۔۔

 

وہ اشیاء جن میں شفا ہے

قارئین کرام ! رسول اللہ کا فرمان ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔

اللہ تعالی کن چیزوں میں شفا رکھی ہے ؟

آئیں ملاحظہ فرمائیں اور ان چیزوں سے اپنی بیماریوں کا علاج کریں ۔

1 قرآن کریم میں شفا ہے

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

وَنُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحمَةٌ لِلمُؤمِنينَ وَلا يَزيدُ الظّالِمينَ إِلّا خَسارًا .

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔ (سورة الاسراء : 82)

2 شہد میں شفا ہے

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

يَخرُجُ مِن بُطونِها شَرابٌ مُختَلِفٌ أَلوانُهُ فيهِ شِفاءٌ لِلنّاسِ إِنَّ في ذلِكَ لَآيَةً لِقَومٍ يَتَفَكَّرونَ .

ان ( شہد ) کے پیٹ سے رنگ برنگ کا مشروب نکلتا ہے ، جس کے رنگ مختلف ہیں اور جس میں لوگوں کے لئے شفا ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے ۔ (سورة النحل : 69)

صحیح بخاری میں ہے کہ : ایک صاحب نبی اكرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : میرا بھائی پیٹ کی تکلیف میں مبتلا ہے۔ نبی معظم نے فرمایا : انہیں شہد پلا پھر دوسری مرتبہ وہی صحابی حاضر ہوئے۔ آپ نے اسے اس مرتبہ بھی شہد پلانے کے لیے کہا وہ پھر تیسری مرتبہ آیا اور عرض کیا کہ ( حکم کے مطابق ) میں نے عمل کیا ( لیکن شفا نہیں ہوئی ) ۔ نبی کریم نے فرمایا:

صَدَقَ الله وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ، ‏‏‏‏‏‏اسْقِهِ عَسَلًا، ‏‏‏‏‏‏فَسَقَاهُ فَبَرَأَ .

 نبی اكرم نے فرمایا : اللہ تعالی سچا ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ، انہیں پھر شہد پلا۔ چنانچہ انہوں نے پھر شہد پلایا اور اسی سے وہ تندرست ہو گیا۔ (صحیح بخاری : 5684)

3 زمزم میں شفا ہے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے  :

خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ .

روئے زمین پر بہترین پانی آبِ زم زم ہے، اس میں كھانے كی قوت اور بیماری سے شفا ہے۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1056)

4 کھنبی میں شفا ہے

سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم نے فرمایا :

الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ .

کھنبی ( من ) میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے ۔ (صحیح بخاری : 4639)

5 کلونجی میں شفا ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا :

فِي الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا السَّامَ .

سیاہ دانوں ( کلونجی ) میں ہر بیماری سے شفاء ہے سوائے سام ( موت ) کے۔(صحیح بخاری : 5688)

6 عجوہ میں شفا ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ نے فرمایا :

الْعَجْوَةُ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا شِفَاءٌ مِنَ السُّمِّ .

عجوہ ( کھجور ) جنت کا پھل ہے، اس میں زہر سے شفاء موجود ہے ۔(سنن ترمذی : 2066)

ايک روایت کے لفظ ہیں :

فِي عَجْوَةِ الْعَالِيَةِ أَوَّلَ الْبُكْرَةِ عَلَى رِيقِ النَّفْسِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ سِحْرٍ أَوْ سُمٍّ .

صبح کے اول وقت نہار منہ عجوہ كھانا ہر جادو یا زہر سے شفاء ہے ۔(مسند احمد : 24484)

7 مکھی کے ایک پر میں شفا ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم نے فرمایا :

إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لِيَنْزِعْهُ فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَالْأُخْرَى شِفَاءً .

جب مکھی کسی کے پینے ( یا کھانے کی چیز ) میں پڑ جائے تو اسے ڈبو دے اور پھر نکال کر پھینک دے۔ کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہے جبکہدوسرے پر میں شفاء ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری : 3320)

8 گائے کے دودھ میں شفا ہے

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے

عَلَيْكُم بِأَلْبَانِ الْبَقَرِ فَإِنَّهَا تَرُمُّ مِنْ كُلِّ شَجَرٍ ، وَهُوَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ .

گائے كا دودھ لازم كر لو كیونكہ یہ ہر درخت سے چرتی ہے اور یہ دودھ ہر بیماری سے شفا ہے ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1943)

9 پچھنا لگوانے میں شفا ہے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی معظم نے فرمایا :

الشِّفَاءُ فِي ثَلَاثَةٍ :‏‏‏‏ فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ شَرْبَةِ عَسَلٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَيَّةٍ بِنَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ .

تین چیزوں میں شفاء ہے ۔ پچھنا لگوانے میں، شہد پینے میں اور آگ سے داغنے میں مگر میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے منع کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری : 5681)

ایک روایت کے لفظ ہیں :

مَنِ احْتَجَمَ لِسَبْعَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتِسْعَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ  .

جو سترہویں، انیسویں اور اکیسویں تاریخ کو پچھنا لگوائے تو اسے ہر بیماری سے شفاء ہو گی ۔ (سنن ابی داؤد : 3861)

0 عود ہندی میں شفا ہے

سیدہ ام قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

دَخَلْتُ بِابْنٍ لِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَعْلَقْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْعُذْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عَلَى مَا تَدْغَرْنَ أَوْلَادَكُنَّ بِهَذَا الْعِلَاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَلَيْكُنَّ بِهَذَا الْعُودِ الْهِنْدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ فِيهِ سَبْعَةَ أَشْفِيَةٍ:‏‏‏‏ مِنْهَا ذَاتُ الْجَنْبِ، ‏‏‏‏‏‏يُسْعَطُ مِنَ الْعُذْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُلَدُّ مِنْ ذَاتِ الْجَنْبِ .

میں اپنے ایک لڑکے کو لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے اس کی ناک میں بتی ڈالی تھی، اس کا حلق دبایا تھا چونکہ اس کو گلے کی بیماری ہو گئی تھی آپ نے فرمایا : تم اپنے بچوں کو انگلی سے حلق دبا کر کیوں تکلیف دیتی ہو یہ عود ہندی لو اس میں سات بیماریوں کی شفاء ہے ان میں ایک ذات الجنب ( پسلی کا ورم بھی ہے ) اگر حلق کی بیماری ہو تو اس کو ناک میں ڈالو اگر ذات الجنب ہو تو حلق میں ڈالو ۔(صحیح بخاری : 5713)

! صدقہ میں شفا ہے

رسول اللہ کا فرمان ہے :

دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ (صحیح الجامع : 3358)

اپنے مریضوں کا صدقہ سے علاج کرو ۔

قارئین کرام ! مندرجہ بالا حدیث اور صدقے سے شفا حاصل ہونے کے متعلق ممتاز اہل حدیث عالم شیخ عبدالمالک مجاہد اپنی کتاب ’’سنہرے اوراق‘‘ میں ایک حیرت انگیز واقعہ نقل کرتے ہیں جو ہم آپ کی دلچسپی کے لیے یہاں پیش کرتے ہیں شیخ حفظہ اللہ نقل کرتے ہیں : اس کا نام ڈاکٹر عیسی مرزوقی تھا ۔ شام کا رہنے والا عیسی پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا اور دمشق کے ایک ہسپتال میں کام کرتا تھا ۔ اچانک اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور اس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ چیک اپ کے دوران معلوم ہوا کہ اسے کینسر کا موذی مرض لگ گیا ہے ۔ اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا ۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کیس پر پوری توجہ دی ۔

اس کی طبی رپوٹیں ان کے سامنے تھیں ، مرض مسلسل بڑھ رہا تھا ۔ بورڈ کی رائے کے مطابق وہ محض چند ہفتوں کا مہمان تھا ۔ ڈاکٹر عیسی خود نوجوان تھا ۔ اس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی ، تاہم منگنی ہو چکی تھی ۔ اس کی منگیتر سے لوگوں نے کہا : تمہیں منگنی توڑ دینی چاہیے ، کیونکہ تمہارا ہونے والا خاوند کینسر کا مریض ہے ۔ مگر اس نے سختی سے انکار کر دیا ۔ ڈاکٹر عیسی نے نبی کریم کی حدیث پڑھ رکھی تھی :

دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ .

اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو ۔

ایک دن وہ مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اسے اچانک مذکورہ حدیث یاد آ گئی ۔ وہ اس کے الفاظ پر غور کرتا رہا ، سوچتا رہا ، پھر اچانک اس نے سر ہلایا اور بول اٹھا : کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟ اگر صحیح ہے تو پھر مجھے اپنے مرض کا علاج صدقے کے ذریعے ہی کرنا چاہیے ، کیونکہ دنیاوی علاج بہت کر چکا ہوں اور بہت ہو چکا ہے ۔

اس کو ایک ایسے گھرانے کا علم تھا جس کا سربراہ وفات پا چکا تھا اور نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ بیماری کے دوران اس کی جمع شدہ پونجی بھی خرچ ہو چکی تھی  تاہم جو معمولی رقم موجود تھی اس نے اپنے ایک قریبی دوست کی وساطت سے اس گھرانے کو ارسال کر دی ۔ ان پر سارے قصے کو واضح کر دیا کہ وہ اس صدقے کے ذریعے اپنے مرض کا علاج کرنا چاہتا ہے لہذا مریض کے لیے شفا کی دعا کریں ۔ چنانچہ اللہ کے رسول کی حدیث سچ ثابت ہوئی اور وہ بتدریج تندرست ہو گیا ۔

ایک دن وہ ڈاکٹروں کے بورڈ کے سامنے دوبارہ پیش ہوا۔ اس کے علاج پر مامور ڈاکٹر حیران و ششدر رہ گئے کہ اس کی رپوٹیں اس کی مکمل صحت یابی کا اعلان کر رہی تھیں۔ اس نے بورڈ کو بتایا کہ میں نے رسول اللہ کی ہدایت کے مطابق علاج کیا ہے ۔ وہ اب مکمل طور پر تندرست تھا ۔ اس نے ڈاکٹروں کو بتایا کہ بلاشبہ تقدیر پر یقین رکھتا ہوں اور اس کا یہ بھی مفہوم نہیں کہ ظاہری اسباب اختیار نہ کیے جائیں اور ڈاکٹروں سے بیماری کی صورت میں رجوع نہ کیا جائے ۔ مگر حدیث رسول درست ہے ۔ بلاشبہ ایک ایسی ذات موجود ہے جو بغیر کسی دوا کے بھی بیماروں کو صحت عطا کر سکتی ہے ۔

(ہفت روزہ المسلمون لنڈن شمارہ نمبر : 181)

۔۔۔

کیا”التحیات للہ والصلوات والطیبات..“ کے کلمات معراج کے موقع پر دیئے گئے؟

کیا”التحیات للہ والصلوات والطیبات..الخ“ کے کلمات معراج کے موقع پر دیئے گئے؟

مدثر احمد عفی عنہ

زمانہ ماضی کی نسبت دور حاضر میں ذرائع ابلاغ بہت ہی تیز ہیں ،ہر خبر ،ہر بات، ہر میسج،آناً فاناً دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتاہے اور پھیل جاتا ہےاور صرف تیز ہی نہیںبلکہ ہر فرد کے تصرف میں بھی ہیں۔

 اس صورت حال کے جہاں کچھ فوائد ہیں تو بہت سے نقصانات بھی ہیں،انہی میں سے ایک نقصان بلکہ سب سے بڑا نقصان ،جسکے مضر اثرات چند افراد تک محدود نہیں بلکہ لامتناہی ہیں،اور صرف دنیا کا نقصان نہیں بلکہ دنیا و آخرت دونوں کا نقصان ہے،وہ نقصان ،”جھوٹی احادیث کی بھرپور نشر و اشاعت“ہے۔

اگرچہ یہ مسلم حُکّام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسکے روک تھام کے لئے قانون سازی کا راستہ اختیار کریں،اور قانون شکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔

تاکہ دین اسلام کے نام پر پھیلایا جانے والا جھوٹ نہ صرف پکڑا جائے،بلکہ اس مذموم عمل کی حوصلہ شکنی ہو،اور اس کے پیچھے پوشیدہ دشمنان اسلام کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا جائے۔

لیکن چونکہ حکومتی سطح پر ایسا کوئی ایکشن دیکھنے کو نہیں ملتاتو اب تاریخ کےہر دور کی طرح اس دور میں بھی ”علماء حق“ کو یہ ذمہ داری نبھانی پڑیگی،حدیث رسول کے دفاع کا اس سے اچھا طریقہ دور حاضر میں شاید کوئی اور نہیں۔

وباللہ التوفیق وھو المستعان و علیہ وحدہ التکلان

سوشل میڈیا پر ایک میسج گردش کرتار ہتا ہے ،جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”التحیات للہ والصلوات والطیبات… الخ“کے الفاظ معراج کے موقع پر آپ کو عطاء کئے گئے۔

اور عام طور پر علم حدیث سے شغف رکھنے والےبہت سے علماء کرام اور عوام الناس کی زبانی بھی یہی سننے کو ملا کہ یہ کلمات معراج کے موقع پر دیئے گئے۔

لہذاہم نے اس سلسلے میں حدیث رسول کی مشہور ومعروف کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیا،بہت تلاش کے باوجودذخیرہ احادیث میں (صحت و ضعف سے قطع نظر)ایسی کوئی روایت نہ مل سکی،جسکے مطابق ”التحیات ..الخ“کے کلمات معراج کے موقع پر دیئےگئے ہوں۔

پھر کتب احادیث سے ہٹ کر جب ہر فن کی کتب میں تلاش شروع کی تو ایک روایت اور چند حوالے ملے،جن کے مطابق ”التحیات . . الخ“کے کلمات معراج کے موقع پر اس وقت عطاء کئے جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی۔

لیکن جب اس روایت کی اسانید کو ملاحظہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو اندھیروں سے پُر ہیں،لہذا ذیل میں اس عنوان پر ہماری تحقیق ملاحظہ فرمائیں:

پہلی سند:

 احمد بن محمد بن ابراہيم الثعلبی، ابو اسحاق (المتوفیٰ: 427ھ)نے کہا:

روى الزهري عن ابی سلمة بن عبد الرحمن قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم.

امام محمد بن مسلم بن عبداللہ بن شہاب زہری (متوفی:124ھ)نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن (متوفی: 94 یا104ھ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا:میں نے

سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما (متوفی:70ھ)سے

سنا وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

دوسری سند:

وحدّثنا أبو القاسم الحسن بن محمد بن جعفر (النیسابوری) قال: أخبرنا أبو علي الحسين بن محمد بن هارون الفرمی قال:أخبرنا أحمد بن محمد بن نصر اللبّاد النیسابوری قال: حدّثنا يوسف بن بلال السعدي قال: حدّثنا محمد بن مروان السدّي عن محمد بن السائب الكلبي  عن أبي صالح عن ابن عباس (رضي الله عنه)

ہمیں بیان کیا ابو القاسم الحسن بن محمد بن جعفر نے انہوں نے کہا:ہمیں خبر دی ابو علی الحسین بن محمد بن ہارون نے انہوں نے کہا:ہمیں خبر دی احمد بن محمد بن نصر اللباد نے انہوں نے کہا:ہمیں بیان کیا یوسف بن بلال السعدی نے انہوں نے کہا کہ:ہمیں بیان کیا محمد بن مروان السدی نےاور السدی(محمد بن مروان السدی، المتوفیٰ: 181 یا 190 ھ) نے روایت کی، محمد بن السائب الکلبی (المتوفیٰ:146ھ)سے، انہوں نے روایت کی باذان ابو صالح ، مولیٰ ام ہانی (المتوفیٰ:150ھ)سے،انہوں نے روایت کی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (المتوفیٰ: 68ھ)سے،انہوں نے روایت کی نبی سے :

تنبیہ:

مذکورہ دونوں سندیں بیان کرنے کے بعد اور متن بیان کرنے سے پہلے ثعلبی نے ان سندوں سے مروی متن کے متعلق کہا:

ثعلبی کا تبصرہ:

دخل كلام بعضهم في بعض قالوا:

’’ان (رواۃ)میں سے کچھ کا کلام بعض دیگر(رواۃ)کے کلام میں شامل ہوگیا ہے۔‘‘

متن:

لما رأيت العرش، اتضع عندي كل شيء، فقربني الله وأدناني إلى سند العرش، ووقعت على لساني قطرة من العرش فما ذاق الذائقون أحلى منها، فأنبأني الله نبأ الأولين والآخرين، وأطلق الله لساني بعد ما كَلَّ من هيبة الرحمن، فقلت: التحيات لله والصلوات الطيبات، فقال الله: سلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته فقلت: السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين…….الخ

جب میں نے عرش باری تعالیٰ دیکھا تو ہر شے میرے لئے حقیر ہوگئی ، پس اللہ نے مجھے عرش کے پائے تک قریب کیا اور میری زبان پر عرش سے ایک قطرہ ٹپکا ، کسی بھی چکھنے والے نے اس سے شیریں کبھی نہیں چکھا،پس اللہ نے مجھے پہلوں اور پچھلوں کی خبریں دیں، اور اللہ نے میری زبان رواں کردی جبکہ وہ رحمٰن کی ہیبت سے بوجھل ہوچکی تھی،پس میں نے کہا:(التحیات للہ والصلوات والطیبات )تمام زبانی تعریفات اور جسمانی عبادات اور مالی صدقات اللہ کے لئے ہی ہیں،تواللہ نے کہا:(سلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ) سلامتی ہو تجھ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اسکی برکتیں،تو میں نےکہا: السلام علینا و علیٰ عباد اللہ الصالحین. ..الخ)سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر….۔

حوالہ و تخریج و تاریخ:

1-اسے سب سے پہلے مفسر قرآن علامہ احمد بن محمد بن ابراہيم الثعلبی، ابو اسحاق (المتوفیٰ: 427ھ)نے اپنی تفسیر ”الکشف والبيان عن تفسير القرآن“ (6/55 56)میں ذکر کیا،اور اسے امام زہری (المتوفیٰ: 242ھ) اور السدی(المتوفیٰ:181یا 190ھ) کی جانب منسوب کیا،لیکن ان میں سے زہری تک اپنی سند بیان نہیں کی ، نہ ہی کسی محدث کی کتاب کا حوالہ دیا،لہذا وہ منقطع ہے جبکہ السدی تک اپنی سند بیان کی ہے،لیکن وہ ضعفاء سے پر ہے۔

2-نیز علامہ ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن احمد السہيلی (المتوفیٰ: 581هھـ)نے اپنی کتاب ”الروض الانف في شرح السيرۃ النبويۃ لابن هشام“ (4/186) میں کہا کہ:

رُوِيَ أَيْضًا أَنّهُ مَرّ وَهُوَ عَلَى الْبُرَاقِ بِمَلَائِكَةِ قِيَامٍ وَمَلَائِكَةٍ رُكُوعٍ وَمَلَائِكَةٍ سُجُودٍ وَمَلَائِكَةٍ جُلُوسٍ وَالْكُلّ يُصَلّونَ لِلّهِ فَجُمِعَتْ لَهُ هَذِهِ الْأَحْوَالُ فِي صَلَاتِهِ وَحِينَ مَثَلَ بِالْمَقَامِ الْأَعْلَى، وَدَنَا فَتَدَلّى أُلْهِمَ أَنْ يَقُولَ التّحِيّاتُ لِلّهِ إلَى قَوْلِهِ الصّلَوَاتُ لِلّهِ فَقَالَتْ الْمَلَائِكَةُ السّلَامُ عَلَيْك أَيّهَا النّبِيّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ فَقَالَ السّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصّالِحِينَ فَقَالَتْ الْمَلَائِكَةُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إلَهَ إلّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنّ مُحَمّدًا رَسُولُ اللهِ .

روایت کی گئی ہے کہ نبی  اکرم براق پر سوار ہوکر فرشتوں کے پاس سے گذرے،جن میں سے کچھ قیام میں تھے کچھ رکوع میں کچھ سجود میں کچھ بیٹھے تھے اور سب ہی نماز میں مشغول تھے ، پس یہ تمام حالتیں آپ کی نماز میں شامل کردی گئیںاور جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچے اور قریب ہوئے تو آپ پر وحی کی گئی کہ آپ اس طرح کہیں:”التحیات للہ ..الخ“تو فرشتوں نے کہا:السلام علیک ایھا النبی ..الخ“تو آپ نے کہا:”السلام علینا و علیٰ …الخ“تو فرشتوں نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ..الخ“۔

3-اسکے بعد اسے امام ابو الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکريم بن عبد الواحد الشيبانی الجزری، عز الدين ابن الاثير (المتوفیٰ: 630هھ)نے اپنی کتاب” الکامل فی التاریخ“(1/652653)میں ذکر کیا،اور اسےکسی کی جانب منسوب نہیںکیا،بلکہ صرف اتنا کہا کہ:

وَقَدْ رَوَى حَدِيثَ الْمِعْرَاجِ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ صَحِيحَةٍ.

بہت سے صحابہ نے معراج کی حدیث روایت کی ہےصحیح سندوں کے ساتھ۔

لیکن نہ تو وہ اسانید ذکر کیں جنہیں وہ صحیح قرار دے رہے ہیں نہ ہی صحابہ کرام کے نام لئے کے جن سے واقعہ معراج منقول ہے ، نہ ہی کسی محدث کا حوالہ دیا کہ فلاں محدث نے یہ روایت نقل کی ہے۔

اس کے بعد واقعہ معراج بیان کرتے ہوئےانہوں نےیہ الفاظ ذکر کئے:

فَلَمْ أَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى وَصَلْتُ إِلَى الْعَرْشِ، فَاتَّضَحَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدَ الْعَرْشِ، وَكَلَّ لِسَانِي مِنْ هَيْبَةِ الرَّحْمَنِ، ثُمَّ أَنْطَقَ اللَّهُ لِسَانِي فَقُلْتُ: التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ وَالصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، وَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ وَعَلَى أُمَّتِي فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ خَمْسِينَ صَلَاةً. وَرَجَعْتُ إِلَى جِبْرَائِيلَ..

میں عرش تک پہنچا تو عرش کے پاس ہر شے واضح ہوگئی اور میری زبان رحمٰن کی ہیبت سے بوجھل ہوچکی تھی پھر اللہ نے میری زبان جاری کی تو میں نے کہا:”التحیات المبارکات والصلوات الطیبات للہ“اور اللہ نے مجھ پر اور میری امت پر ہر دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کیں،اور میں جبریل کے پاس لوٹ آیا۔

4-اسکے بعد اسے امام شمس الدين ابو المظفر يوسف بن قِزْأُوغلی بن عبد الله المعروف بـسبط ابن الجوزی (المتوفیٰ: 654 ھـ)نے اپنی کتاب ”مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان“(3/140)میں ذکر کیا اور اسےثعلبی کی جانب منسوب کیا۔

5-اسکے بعد اسے امام  جمال الدين السرمری (المتوفیٰ:776ھ)نے اپنی کتاب ”خصائص سيد العالمين وما لہ من المناقب العجائب علی جميع الانبياء عليہم السلام“(ص:525)میں ذکر کیا اور اسے ثعلبی کی جانب منسوب کرتے ہوئے کہا:

وقد رواه الإمام أبو إسحاق الثّعلبي في تفسيره وساق طرقه ولخّص المتن تلخيصاً حسناً أدخل حديث بعض الرواة في بعض.

اسے امام ابو اسحاق الثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور انہوں نے اسکے مختلف طرق بھی بیان کئے ہیں،اور متن کی خوبصورت تلخیص کی ہے،اور بعض رواۃ کی حدیث کو دیگر بعض رواۃ کی حدیث میں داخل کردیا ہے۔

6-امام محمد بن عبد اللطيف بن عبد العزيز، ابن فرشتا، المعروف بابن الملک الکرمانی (المتوفیٰ: 854 ھـ)نے اپنی کتاب ”شرح مصابيح السنۃ للامام البغوی“ (2/24،رقم:644)میںکہا:

رُوي: أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم لمَّا عرج إلى السماء أَثْنَى على الله بهذه الكلمات، فقال الله تعالى: السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، فقال عليه الصلاة والسلام: “السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين”، فقال جبرائيل: أشهد أن لا إله إلا الله. . . إلخ.

روایت کی گئی ہے کہ نبی کو جب معراج کروائی گئی تو آپ نے ان کلمات کے ساتھ اللہ کی ثناء بیان کی،”التحیات للہ …الخ“تو اسکے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:،”السلام علیک ایھا النبی ….الخ“پھر جبریل نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ…الخ“۔

7-عبد الرحمن بن عبد السلام بن عبد الرحمن بن عثمان الصفوري الشافعي(المتوفیٰ:894 ھ)نے اپنی کتاب ”نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس“ (2/117)میں کہا:

قال العلائي…..وقلت التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله فقال السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته فقلت السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فقال جبريل أشهد أن إله إلا الله وأشهد أن محمد رسول الله.

صلاح الدین العلائی(المتوفیٰ:761ھ)نے کہاکہ:نبی نے فرمایا:میں نے کہا:التحیات المبارکات الوصلوات الطیبات للہ“تو اللہ تعالیٰ نے کہا:”السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ“ تو میں نے کہا:”السلام علینا و علی عباد الللہ الصالحین“ تو جبریل نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ“۔

8-ملا علی القاری الہروی (المتوفیٰ:1014ھ)نے اپنی کتاب ”شرح الشفا“(1/347)میں کہا:

كما روي أنه صلى الله تعالى عليه وسلم ليلة الإسراء لما وصل إلى مقام الانتهاء وقال التحيات لله والصلوات والطيبات وبالغ في الثناء قال الله تعالى السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ فأجابه صلى الله تعالى عليه وسلم بقوله اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يرجع السلام السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فقالت الملائكة أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.

جیسا کہ روایت کی گئی ہے کہ نبی شب معراج جب مقام انتہاء کو پہنچے تو کہا:التحیات للہ ..الخ“اور خوب ثناء بیان کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”السلام علیک..الخ“تو نبی نے اسکے جواب میں کہا: السلام علینا …الخ“تو فرشتوں نے کہا:”اشھد ان لا الہ الا اللہ …الخ“۔

تحقیق:

سند و متن دونوں اعتبار سے یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے۔

سند کے اعتبار سےپہلی سند کی تحقیق:

ثعلبی سے پہلے اسے کسی نے ذکر نہیں کیا ، اور ثعلبی کے بعد اسے جس نے بھی ذکر کیا اس نے اسے ثعلبی کی جانب ہی منسوب کیا،یا کسی کی بھی جانب منسوب نہیں کیا۔

نیزہم نے اس روایت کے جسقدر مخرجین کے نام ذکر کئے ہیں ان میں سے ثعلبی کے علاوہ کسی نے بھی اسکی سند ذکر نہیں کی۔

اسکی پہلی علت:

ثعلبی نے اسکی دو سندیں ذکر کی ہیں،پہلی سند امام زہری سے شروع ہوتی ہے جنکی وفات 242 ہجری ہےجبکہ خود ثعلبی کی وفات427 ہجری ہے،جبکہ اسکا سن پیدائش معلوم نہ ہوسکا،اگر ہم ثعلبی کی عمر120 سال فرض کرلیں تو سن پیدائش 307 ہجری بنتا ہے،اس حساب سے ثعلبی اور امام زہری کے درمیان تقریباً 70 سال کا فرق آجاتا ہے،جبکہ درمیان کی سند غائب ہے۔

ثعلبی نے اپنی تفسیر میں روایت حدیث کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر کے آغاز میں ہی اپنی تمام اسانید ذکر کردی ہیں ، پھر پوری تفسیر میں ان اسانید کی جانب اشارے دیئے ہیں  اور جن روایات کی اسانید شروع میں ذکر نہیں کیں،انکے مخرجین کا نام لےدیا ہے،یا اسی مقام پر مکمل سند ذکر کردی ہے۔

لیکن ہماری زیر بحث روایت کی جانب فقط اشارہ کیا کہ اسے امام زہری نے روایت کیا ہے،اور آگے کی سند ذکرکردی لیکن امام زہری تک اپنی سند ذکر نہیں کی،جبکہ دیگر بہت سے مقامات پر زہری تک اپنی اسانید ذکر کی ہیں۔

اسکی دوسری علت:

ثعلبی نے مختلف رواۃ کی احادیث کو خلط ملط کردیا ہے ، جیسا کہ خودثعلبی نے روایت سے پہلے کہا،اور علامہ جمال الدین السرمری نے ثعلبی کے اس بیان کی وضاحت میں کہا،لہذا یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ”التحیات للہ … الخ“والے الفاظ کس روایت کے ہیں،اسکی سند کونسی ہے،جو دو اسانید انہوں نے ذکر کی ہیں انہی میں سے کوئی ایک سند ہے یا ان میں سے کوئی بھی ان الفاظ کی سندنہیں بلکہ ان دو کے علاوہ کوئی اور ہی سند ہے جو ثعلبی نے سرے سے ذکر ہی نہیں کی۔

دوسری سند کی تحقیق:

ثعلبی نے جس جگہ متن نقل کیا ہے وہاں سند کی جانب محض اشارہ کیا ہے کہ ”روی السدی عن محمّد بن السائب عن باذان عن ابن عبّاس عن النبي صلّی الله عليہ وسلّم“لیکن  اپنی تفسیر کے شروع میں اسکی مکمل سند ذکر کی ہے جو ہم نقل کرآئے ہیں،ثعلبی کی بیان کردہ یہ سند بھی مجاہیل اور ضعفاء سے پر ہے،لہذا ،یہ سند ہی اس روایت کے من گھڑت ہونے کی کافی دلیل ہے،اختصار کے پیش نظر ہم صرف اسکی تین علتیں بیان کریں گے۔

اسکی پہلی علت:

محمد بن مروان السدی  (المتوفیٰ:186ھ)ہے، اسکے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ ہوں:

 جریر بن عبدالحمید نے کہا:کذاب

یحیی بن معین نے کہا:لیس بشیء یعنی کچھ بھی نہیں ہے۔

محمد بن عبداللہ بن نمیر نے کہا :کچھ بھی نہیں ہے۔

یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا:ضعیف ہے ، غیر ثقہ ہے۔

صالح بن محمد الحافظ البغدادی نے کہا:ضعیف ہے ، حدیث گڑھتا تھا۔

ابو حاتم الرازی نے کہا:ذاہب الحدیث ہے،متروک الحدیث ہے،اسکی حدیث بالکل نہ لکھی جائے۔

بخاری نے کہا:اسکی حدیث بالکل نہیںلکھی جائے۔

نسائی نے کہا:متروک الحدیث،ثقہ نہیں ہے،نہ ہی اسکی حدیث لکھی جائے۔(تہذیب الکمال :26/393)

یہ جرح صرف ایک جھلک ہے،اگر مزید نقل کیا جائے تو اسکے لئے کئی صفحات درکار ہیں۔

دوسری علت:

 محمد بن السائب الکلبی(المتوفیٰ:246ھ) سلیمان بن طرخان نے کہا:کوفہ میں دو جھوٹے تھے،ان میں سے ایک الکلبی ہے۔

لیث بن ابی سلیم نے کہا:کوفہ میں دو کذاب تھے ،کلبی اور سدی یعنی محمد بن مروان۔

یحیی بن معین نے کہا:کچھ بھی نہیں ہے،ضعیف ہے۔

بقول سفیان الثوری خود کلبی نے کہا:میں نے جو بھی ابو صالح عن ابن عباس روایت کیا وہ جھوٹ ہے تم اسے روایت نہ کرو۔

قرۃ بن خالد نے کہا:وہ(یعنی ائمہ جرح و تعدیل)کہتے تھے کہ کلبی جھوٹ کہتا ہے۔

ابو حاتم نے کہا:سب لوگ اسکی حدیث کو  ترک کردینے پر متفق ہیں ، اس کے ساتھ مشغول نہ ہوا جائے ،ذاہب الحدیث ہے۔(تہذیب الکمال :25/248)

یہ بھی اس پر جرح کی صرف جھلک ہے مکمل جرح کے لئے کئی صفحات درکار ہیں۔

اسکی تیسری علت:

ابو صالح مولیٰ ام ہانی ہے ، جسے باذان لکھا جاتا ہے ، کبھی باذام اور کبھی ذکوان۔(تہذیب الکمال :4/6”نیز“33/423)

امام حمد نے کہا:ابن مہدی نے ابو صالح کی حدیث کو ترک کردیا تھا۔

یحیی بن معین نے کہا:اس میں کوئی حرج نہیں، اور جب اس سے کلبی روایت کرے تو وہ کچھ بھی نہیں۔

ابو حاتم نے کہا: اسکی حدیث لکھی جائے لیکن اس سے دلیل نہ لی جائے۔

نسائی نے کہا:ثقہ نہیں ہے۔

ابن عدی نے کہا:عام طور پر تفسیر روایت کرتا ہے،اور اسکی مرفوع روایات بہت کم ہیں،ابن ابی خالد نے اس سے ایک جزء کے بقدر تفسیر روایت کی ہے،جس پر دیگر مفسرین نے اسکی متابعت نہیں کی، نہ ہی میں متقدمین میں سے کسی کو جانتا ہوں جو اس سے راضی ہو۔(تہذیب الکمال:4/7)

علی بن مسہر نے ابوجناب سے نقل کرتے ہوئے کہا:ابو صالح نے قسم اٹھا کر کہا کہ میں نے کلبی پر ذرہ بھی تفسیر نہیں پڑھی۔(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:7/271)

اس روایت کے متعلق علماء کرام کے تبصرے:

بقول علامہ سیوطی حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ”اسباب النزول“(1/209210)میں (السدی عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس)اس سند پر تبصرہ کرتے ہوئےکہا:

أبو صالح ضعيف والكلبي متّهم، ومحمد بن مروان السدّي الصغير كذّاب ..قال: وهذا الإسناد سلسلة الكذب لا سلسلة الذهب.

ابو صالح ضعیف ہے،اور کلبی متہم ہے اور محمد بن مروان السدی الصغیر کذاب ہے ..اور یہ سلسلہ کذب ہے نہ کہ سلسلہ ذہب۔(الزیادات علی الموضوعات للسیوطی:2/767 تدریب الراوی:1/198)

نیز خود علامہ سیوطی نے اس سند کو” اوھیٰ الاسانید “یعنی سب سے کمزور سند قرقر دیا ہے۔(ایضاً)

نیز علامہ زین الدین المناوی نے بھی اسے سب سے کمزور سند قرار دیا ہے۔(اليواقيت والدرر فی شرح نخبۃ ابن حجر:2/62)

علامہ انور شاہ کشمیری نے کہا:

وذكر بعض الأحناف قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – في ليلة الإسراء: التحيات لله إلخ، قال الله تعالى: السلام عليك أيها النبي إلخ، قال رسول الله – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: السلام علينا وعلى عباد: الله، إلخ، ولكني لم أجد سند هذه الرواية.

بعض احناف نے ذکر کیا کہ رسول اللہ نے شب معراج میں کہا:”التحیات للہ ..الخ“تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”السلام علیک ..الخ“تو رسول اللہ نے کہا:السلام علینا وعلی عبا اللہ ..الخ“لیکن مجھے اس روایت کی سند نہیں مل سکی ۔(العَرف الشذي شرح سنن الترمذي:1/283)

التحیات ….کے کلمات کا صحیح پس منظر

صحیح ترین روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ التحیات کے کلمات رسول اللہ نے صحابہ کرام کو اسوقت سکھائے جب آپ نے دیکھا کہ وہ نماز کے دوران فرشتوں کا نام لے کر ان پر سلام پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی ”السلام علی اللہ“یعنی ”اللہ تعالیٰ پر سلامتی ہو“بھی کہتے ہیں تو آپ نے ان کی اصلاح کی اور انہیں التحیات سکھائی،چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى جِبْرِيلَ، السَّلاَمُ عَلَى مِيكَائِيلَ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ”إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلاَةِ فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّهُ إِذَا قَالَ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرْ بَعْدُ مِنَ الكَلاَمِ مَا شَاءَ “

جب ہم نبی کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم اس طرح کہتے تھے:اللہ پر سلام ہواسکے بندوں سے پہلے،جبریل پر سلام ہو،میکائیل پر سلام ہو ، فلاں ،فلاں پر سلام ہو،پھر جب نبی نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ہماری جانب متوجہ ہوکر فرمانے لگے:اللہ خود سلام ہے،جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھا ہو تو اس طرح کہے:”التحیات للہالصالحین“جب وہ اس طرح کہے گا تو اس نے آسمان و زمین میں موجود ہر نیک بندے پر سلام بھیج دیا،”اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ“پھر وہ جو چاہے دعا کرے۔(صحیح بخاری:6230)

ایک روایت میں مزید صراحت ہے کہ التحیات کے الفاظ کس موقع پر پڑھنے ہیں ،چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ غَيْرَ أَنْ نُسَبِّحَ وَنُكَبِّرَ وَنَحْمَدَ رَبَّنَا، وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ وَخَوَاتِمَهُ، فَقَالَ: ” إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَلْيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَلْيَدْعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ .

ہم نہیں جانتے تھے کہ ہر دورکعات میں ہم کیا کہیں سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کی تسبیح و تکبیر اور حمد بیان کرتے تھے،اور محمد کو خیر کی کنجیاں اور خیر کے بند عطفا کئے گئے ،تو آپ نے فرمایا:جب تم دو رکعت پڑھ کر بیٹھو تو اس طرح کہو:”التحیات للہ …….ورسولہ“اور جو دعا اسے پسند ہو اللہ عز و جل سے وہی دعا کرے۔(سنن نسائی:1163،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا)

نیز ایک حدیث میں اس بات کی بھی صراحت ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے التحیات …الخ کے کلمات پڑھنے ہیں ، چنانچہ سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَبَيَّنَ لَنَا سُنَّتَنَا وَعَلَّمَنَا صَلَاتَنَا. فَقَالَ: ” إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذْ قَالَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمُ اللهُ فَإِذَا كَبَّرَ وَرَكَعَ فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ “، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَتِلْكَ بِتِلْكَ وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ. فَقُولُوا: اللهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَإِذَا كَبَّرَ وَسَجَدَ فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ ” فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” فَتِلْكَ بِتِلْكَ، وَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.

رسول اللہ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا،پس آپ نے ہمیں ہماری نماز کی ترکیب کی تعلیم دی،ارشاد فرمایا:جب تم نماز پڑھنا چاہو تو اپنی صفیں باندھ لو پھر ایک شخص تمہاری امامت کروائے،جب وہ تکبیر کہہ دے پھر تم تکبیر کہو،اور جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو،اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا،پھر جب وہ تکبیر کہے اور رکوع میں جائے تو پھر تم تکبیر کہو اور رکوع میں جاؤ،کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع میں جائے گا،اور تم سے پہلے اٹھے گا،پس رسول اللہ نے فرمایا:یہ اس کے بدلے ہے،اور جب وہ کہے :سمع اللہ لمن حمدہ، تو تم کہو:ربنا ولک الحمد،اور جب وہ تکبیر کہے اور سجدے میں چلا جائے پھر تم تکبیر کہو اور سجدے میں جاؤ،کیونکہ امام تم سے پہلے سجدے میں جائے گا اور تم سے پہلے اٹھے گا،پس رسول اللہ نے فرمایا:اور جب وہ قعدہ میں بیٹھا ہو تو سب سے پہلے تم یہ کہو :التحیات للہ….رسولہ۔(صحیح مسلم،باب التشہد فی الصلاۃ)

نیز رسول اللہ وقتاً فوقتاً ان کلمات کی باقاعدہ تعلیم دیا کرتے تھےجیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ فَكَانَ يَقُولُ: التَّحِيَّاتُ الْمُبَارَكَاتُ، الصَّلَوَاتُ الطَّيِّبَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ.

رسول اللہ ہمیں تشہد سکھاتے تھے جس طرح آپ ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے ،آپ فرماتے:

التحیات للہ … رسول اللہ۔(صحیح مسلم،باب التشہد فی الصلاۃ)

معراج کے موقع پر کیا کچھ عطاء کیا گیا؟

نبی کریم کو جب معراج پر لے جایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی کرامتوں سے نوازا جن کا شمار  ناممکن ہے،لیکن اللہ تعالیٰ نے آپکو آپ کی امت کے لئے جو تحفے دیئے انکی فہرست درج ذیل ہے:

1-ہر دن و رات میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔

2-ہر ایک نماز کا ثواب کم ازکم دس گنا رکھا گیا۔

3-سورۃ البقرۃ کی آخری آیات میں جو مناجات ہیں انہیں قبول کرلیا گیا۔

4-جس شخص کا خاتمہ شرک سے برائت پر اور عقیدہ توحید پر ہوا اسکی بخشش کا وعدہ کیا گیا۔

5-نیکی کا ہر ارادہ بھی ایک نیکی لکھا جائے گا۔

6-ہر نیکی کا اجر کم از کم دس گنا دینے کا وعدہ کیا۔

7-گناہ کا ہر ارادہ گناہ نہیں لکھا جائے گا۔

8-ہر گناہ صرف ایک گناہ ہی لکھا جائے گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:

فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا، الْمُقْحِمَاتُ.

پس رسول اللہ کو تین چیزیں دی گئیں:پانچ نمازیں دی گئیں،اور سورۃ البقرۃ کی آخری آیات دی گئیں، اور آپ کی امت کے ہر اس شخص کے کبیرہ گناہوں کی بخشش کردی گئی جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا۔(صحیح مسلم)

نیز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ،کہ رسول اللہ نمازوں میں تخفیف کے لئے اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کے پا س آتے جاتے رہے ،چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا:

فَلَمْ أَزَلْ أَرْجِعُ بَيْنَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَبَيْنَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّهُنَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، لِكُلِّ صَلَاةٍ عَشْرٌ، فَذَلِكَ خَمْسُونَ صَلَاةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ شَيْئًا، فَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ سَيِّئَةً وَاحِدَةً.

میں مسلسل اپنے رب تبارک و تعالیٰ اور موسی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ نے فرمایا:اے محمد ، ہر دن و رات میں یہ نمازیں پانچ ہیں ، اور ہر نماز کے بدلے دس نمازیں ہیں ، پس یہ پچاس نمازیں ہوئیں ،اور جو کسی نیکی کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر عمل نہیں کرے گا تواسکی ایک نیکی لکھی جائیگی ، پھر اگر وہ اس پر عمل کرلیتا ہے تو اسکی دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور جو کسی گناہ کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر عمل نہیں کرے گا اسکا کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا ،پھر اگر وہ اس پر عمل کرلیتا ہے تو اسکا صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔(صحیح مسلم،باب الاسراء برسول اللہ و فرض الصلوات)

۔۔۔

پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان

21155– حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْمَكِّيُّ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ اتَّبَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ لِحَاجَتِهِ فَكَانَ لَا يَلْتَفِتُ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقَالَ ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا أَوْ نَحْوَهُ وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا رَوْثٍ فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ بِطَرَفِ ثِيَابِي فَوَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَعْرَضْتُ عَنْهُ فَلَمَّا قَضَى أَتْبَعَهُ بِهِنَّ .

احمد بن محمد مکی، عمرو بن یحیی بن سعید بن عمرو مکی، سعید بن عمرو، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن نبی کریم قضائے حاجت کے لیے باہر گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (کی عادت مبارکہ تھی کہ چلتے وقت) دائیں بائیں نہ دیکھتے تھے۔ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا: “مجھے ڈھیلے تلاش کر دو، میں ان سے استنجا کروں گا ۔۔ یا اس کی مثل کوئی اور لفظ استعمال فرمایا  ۔۔ لیکن ہڈی اور گوبر نہ لانا۔” چنانچہ میں اپنے کپڑے کے کنارے میں کئی ڈھیلے لے کر آیا اور انہیں آپ کے پاس رکھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو ڈھیلوں سے استنجا فرمایا۔

Narrated Abu Hurairah: I followed the Prophet while he was going out to answer the call of nature. He used not to look this way or that. So, when I approached near him he said to me, “Fetch for me some stones for ‘ cleaning the privates parts (or said something similar), and do not bring a bone or a piece of dung.” So I brought the stones in the corner of my garment and placed them by his side and I then went away from him. When he finished (from answering the call of nature) he used, them.

وروي بسند آخرحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً لِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقَالَ أَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَ ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُهَا فِي طَرَفِ ثَوْبِي حَتَّى وَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مَشَيْتُ فَقُلْتُ مَا بَالُ الْعَظْمِ وَالرَّوْثَةِ قَالَ هُمَا مِنْ طَعَامِ الْجِنِّ وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ فَسَأَلُونِي الزَّادَ فَدَعَوْتُ اللَّهَ لَهُمْ أَنْ لَا يَمُرُّوا بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ إِلَّا وَجَدُوا عَلَيْهَا طَعَامًا   (رقمه  : 3860 )

شرح الکلمات : 

اتَّبَعْتُ

میں پیچھے چلا

لَا يَلْتَفِتُ

وه ادھر اُدھر توجہ نہیں کرتے تھے

فَدَنَوْتُ

میں قریب ہوا

ابْغِنِي

میرے لیے تلاش کرو

أَسْتَنْفِضْ

میں پاکی حاصل کروں

عَظْم

ہڈی 

رَوْثٍ

گوبر

بِطَرَفِ ثِيَابِي

میرے کپڑے کا کنارہ

فَوَضَعْتُ

میں نے رکھ دیا

جَنْبِهِ

اس کا پہلو

أَعْرَضْتُ

میں ہٹ گیا

قَضَى

اس نے حاجت پوری کی

أَتْبَعَهُ

 اس کے بعد (پتھروں سے) انہوں نے استنجاء کیا

تراجم الرواۃ : 

نام ونسب : احمد بن محمد بن الولید بن عقبۃ بن الأزرق بن عمرو بن الحارث بن أبی شمر الفسانی الأزرقی المکی

کنیت : ابو الولید

محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابو حاتم رازی اور ابو عوانہ وابن حجر والذہبی کے ہاں ثقہ تھے۔

وفات : 222 ہجری کو فوت ہوئے ۔

نام ونسب : عمرو بن یحیی بن سعید بن عمرو بن سعید بن العاص القرشی الاموی

کنیت : ابو امیۃ السعیدی المکی

محدثین کے ہاں رتبہ : امام دارقطنی وابن حجر کے ہاں ثقہ جبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ابن معین کے ہاں صالح تھے۔

نام ونسب : جدہ یعنی سعید بن عمرو بن سعید بن العاص بن امیۃ القرشی الأموی الدمشقی الکوفی

کنیت : ابو عثمان جبکہ بعض کے ہاں ابو عنبسہ تھی۔

محدثین کے ہاں رتبہ :امام ابن حجر کے ہاں ثقہ تھے۔

وفات : 120 ہجری میں وفات پائی۔

نام ونسب : ابو ھریرہ عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عامر بن عبد ذی الشّریٰ بن طریف بن غیاث بن ھنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام راجح قول کے مطابق عبد الرحمن بن صخر ہے ۔

کنیت: ”ابوہریرہ“ آپ کی کنیت ہے اور ”ابوہریرہ“ کنیت رکھنے کی و جہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایک بلی تھی جس کو وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اسی لیے آپ کی کنیت ابوہریرہ پڑگئی، واضح رہے کہ جس طرح ”اب“ کے معنی باپ کے آتے ہیں اسی طرح ”والے“ ”والا“ کے بھی آتے ہیں اس اعتبار سے ابوہریرہ کا مطلب ہوا ”بلی والے“۔

زمانۂ جاہلیت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام کیا تھا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض روایات میں ان کا نام عبدِ شمس (عبد الشمس) آیا ہے، بعض میں عبد ِنہم، عبدِ غنم ، بعض عبد اللہ اور کسی میں عمیر آیا ہے۔ بعض نے کچھ اور نا م بھی لیے ہیں۔ لیکن قول راجح کے مطابق ان کا خاندانی نام عبد ِ شمس (عبد الشمس) تھا۔ قبول اسلام کے چند سال بعد جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ نے ان کا جاہلی نام بدل کر اسلامی نام عبد الرحمٰن رکھا۔ بعض روایتوں میں ان کا اسلامی نام عمیر اور عبد اللہ بھی بتایا گیا ہے ، لیکن انہوں نے اپنی کنیت “ابوہریرہ” سے شہرت پائی اور ان کا اصل نام نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کنیت ” ابوہریرہ ” پر سب کا اتفاق ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ: ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (صحیح البخاری:119)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: “اپنی چادر پھیلاؤ۔” میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو سا بنایا (اور چادر میں ڈال دیا)، پھر فرمایا: “اسے اپنے اوپر لپیٹ لو۔” میں نے اسے لپیٹ لیا، اس کے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا۔

اسی دعا کی برکت سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے والے بن گئے اور ان کی مرویات کی تعداد  5374  ہے۔

وفات : 57 ہجری

تشریح: 

اس حدیث مبارکہ میں رسول اکرم کا قضائے حاجت کے بعد مٹی کے استعمال کی وضاحت کی جارہی ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو(مٹی) ڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں ،یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کوصحیح نہیں سمجھتے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ کا عمل پیش فرمایا ہے۔آپ نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبرمت لانا۔اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہرجذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو،استنجا میں استعمال کی جاسکتی ہے۔مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔( فتح الباری 335/1) آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔

ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجوہات بیان ہوئی ہیں:

(الف)ان دونوں سے پاکی حاصل نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہروہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو،استنجا کے لیے بے کار ہے۔لید کی نجاست تو ظاہر ہے ۔اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔

(ب)بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:”میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کردیا جاتا ہے،یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔( فتح الباری 336/1)

بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرمادیں کہ وہ ہڈی،گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں کھانے والی اشیاء کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو،استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔الغرض ہروہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو،استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو،اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا،جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔( فتح الباری 336/1)

رسول اللہ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ قضائے حاجت کے لیے کچی اور نرم زمین کا انتخاب فرماتے تھے ۔ اس میں بھی بہت زیادہ حکمتیں پنہاں ہیں کہ

” انسانیت کی ابتداء مٹی سے ہے اور فنا بھی مٹی ہے ۔جب سے مٹی پر قضائے حاجت چھوڑ کر ہم نے سخت زمین (فلش،کموڈ اور ڈبلیو سی وغیرہ)استعمال کرنا شروع کی ہے ، اس وقت سے اب تک مردوں میں اعصابی کمزوری اور پتھری کا رجحان بڑھ گیا ہے اور اس کے اثرات پیشاب کے غدود پرپڑتے ہیں “۔

دراصل جب آدمی کے جسم سے فضلات نکلتے ہیں تو مٹی ان کے جراثیم اور تیزابی اثرات جذب کرلیتی ہے ۔ جبکہ کموڈ وغیرہ اس کیفیت سے عاری ہیں ۔ اس لیے وہ تیزابی اور جراثیمی اثرات دوبارہ ہمارے جسم پر براہ راست پڑتے ہیں اور جسم تندرسی سے بیماری کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ۔ ایک ماہر طب لکھتےہیں:

“نرم اور بھربھری زمین ہر چیز کو جذب کرلیتی ہے چونکہ پیشاب اور پاخانہ جراثیمی فضلہ ہے اس لیےایسی زمین چاہیے جو کہ اس کو جذب کرنےا ور اس کے چھینٹے اُڑ کر بدن اور کپڑوں پر پڑنے کوروکے”۔

جبکہ یہ کیفیت ٹائلٹ میں نہیں ہوتی ۔ وہاں بھی چھینٹوں کا احتمال رہتا ہے اور مزیدیہ کہ فضلے کو جذب کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں ۔فلش میں پیشاب کرنے کی وجہ سے فضلے کے بخارات جذب نہیں ہوپاتے اور فضلے سے اُٹھنے والے یہ بخارات صحت کے لیے مضر ثابت ہوتے ہیں۔

دور حاضر کی میڈیکل سائنس رسول اکرم کے قضائے حاجت کے طریقے پرمسلسل ریسرچ کر رہی ہے اور اب تو غیر مسلم سائنسدان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ:

” صحت وزندگی کی بقا اور خوشحالی کے لیے پیغمبر اسلام کے قضائے حاجت والے طریقے سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ۔ رسول مکرم کے اس طریقے پر عمل کرنے سے گیس ،تبخیر،بدہضمی ،قبض او ر گردوں کے امراض واقعی کم ہوجاتے ہیں اور مستقل آپ والا طریقہ اپنا کر اِن امراض کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے

رسول اللہ استنجاء کے لیے پہلے ڈھیلے استعمال فرماتے اور ڈھیلے طاق عدد میں استعمال فرماتے تھے۔ اس سنت مبارکہ میں بھی کئی سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

جدید سائنس کی ریسرچ کے مطابق مٹی میں نوشادر اور اعلی درجےکے دافعِ تعفن اجزاء موجود ہیں ۔چونکہ پاخانہ اور پیشاب سارے کا سارا فضلہ ہوتا ہے اور جراثیموں سے بھرا ہوتا ہے اس لیے اس کا جلد ِ انسانی کولگنا انتہائی نقصان دہ ہے ۔ اگر اس کے کچھ اجزاء جلد پر چپک جائیں یا ہاتھ پر ر ہ جائیں تو بے شمار امراض کے پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں:

“ڈھیلےکے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا تھا لیکن اب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ مٹی کے تمام اجزاء جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہوگا تو پوشیدہ اجزاء پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر چمٹے ہوئے تمام جراثیم مرجائیں گے۔بلکہ تحقیقات نے تو یہ بھی ثابت کردکھایا ہے کہ مٹی کا استعمال شرمگاہ کو کینسر سے بچاتا ہے ۔میں نے ایسے مریضوں کو جن کی شرمگاہ پر زخم تھے اور خراش بھی پڑگئی تھی ،مستقل مٹی استعمال کرائی اور انہیں مٹی سے استنجاء کرنے کو کہا تو مریض حیرت انگیز طریقے سے صحت مند ہو گئے”

الغرض میرا ، تمام محقق سائنسدانوں اور اطباء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا انسان پھر مٹی سے عافیت پائے گا۔چاہے دنیا کے تمام فارمولے استعما ل کرلے اس کو فقط پیغمبر اسلام کے طریقوں ہی سے بیماریوں سے تحفظ ملے گا۔

نبی کریم نے لید اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ لید میں بے شمار مہلک جراثیم ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایک جانور کا فضلہ (پاخانہ ) ہے اور ہر پاخانہ جراثیموں سے پُر ہوتا ہے ۔لید میں تشنج اور تپِ محرقہ کے جراثیم بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔اگرلید سے استنجاء کیا جائے تو وہ جراثیم جسم میں منتقل ہو کر بیمار کرسکتےہیں ۔ اس کے علاوہ اس سے شرمگاہ کو بھی بہت سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔جیسے خارش ،جلن،پیپ کا پڑھنا اور شرمگاہ کا کینسر وغیرہ۔

ہڈی سے جب گوشت کھا کر پھینک دیا جاتاہے تو اس کوجانور کھاتے ہیں ۔بعض جانوروں کے لعاب میں خطرناک جراثیم ہوتے ہیں مثلاً کتے کے لعاب میں ایک خاص جرثومہ ہوتا ہے جو اس کی کھائی ہوئی ہڈی پر لعاب کے ساتھ منتقل ہوجاتا ہے ۔مزید یہ کہ ہڈی پر مٹی ، گردوغبار او ر گندگی وغیرہ جم جاتی ہے اس گردوغبار میں گوناگوں جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ اب اگر یہ ہڈی استنجاء کےلیے استعمال کی جائے گی تو دیگر جراثیموں کے ساتھ ساتھ کتے کا خاص جرثومہ بھی جسم میں منتقل ہو جائے گا جس سے فسادِ خون ،دل ،جگر،پتا،انتڑیوں اور معدے کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔اس لیے رسول اکرم  استنجاء فرماتے ہوئے ہڈی ،گوبر اور ناپاک اشیاء سے خود بھی بچتے اور مسلمانوں کو بھی بچنے کا حکم صادر فرماتے تھے۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاص طور پر ہمہ وقت رسول مکرم کی خدمت کیلئے تیار رہتے تھے بلکہ اپنے لیے آپ  کی خدمت بہت بڑی سعادت مندی سمجھتے تھے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ علماء کرام ،اساتذہ عظام اور خاندان کے بزرگوں کی خدمت کرنا باعث اجر وثواب ہے۔

۔۔۔

توقیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں مضمر ہے ہماری بقاء

وقت بڑی تیزی سے گزررہا ہے میلادی سن 2018ء چند دنوں میں اختتام پذیر ہونے والا ہے اور پھر نیاسال 2019ء شروع ہوجائے گا۔ ماہ وسال کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے کتنے ہی لوگ آئے اورگزرگئے ۔ انسانوں کی آمدورفت اسی ماہ وسال کے سلسلہ میں گم ہوتی رہی اورمالک ارض وسماء کا یہ فرمان : يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ   (الانشقاق:6) ’’اے انسان! تو نے اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘

انسان کو متنبہ کر رہا ہے کہ ایک دن اسے اپنی ساری کوششیں لے کر اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے سو اِس زندگی اور وقت کو غنیمت جان لو ویسے اَب قیامت کی نشانیاں پے درپہ ظاہر ہورہی ہیں ۔ اَب دین کا درس وہ دے رہے ہیں جو خود دین سے کوسوں دور ہیں اور ہماری سادگی یہ ہے کہ

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید                        جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ایک خاتون عاصمہ حدید نے بڑے درد مندانہ انداز میں تقریر کی اور اہل نظر کو دعوت فکردی ، کچھ قرآن کا حوالہ دیا، کچھ تاریخ دھرائی ، کچھ سیرت پہ طبع آزمائی کی خلاصہ تقریر کچھ یوں بنا ،قرار داد کچھ یوں آئی کہ آپ  کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ،یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے تھا اور بعد میں جب تحویل قبلہ ہوا تو گویا خود اللہ نے فیصلہ کر دیا کہ بیت المقدس یہودیوں کو دے دیا اور بیت اللہ مسلمانوں کو لہذا اب جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں رہی کس قدر جہالت کی بات ہے۔ نبی کریم بیت اللہ کو اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ ہونے کی وجہ سے قبلہ دیکھنا چاہتے تھے پھر یہود سے مخالفت بھی مطلوب تھی ورنہ بیت المقدس پہ بھی یہودیوں کا نہیں مسلمانوں کا حق تھا جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہودیوں سے چھین کر ثابت کیا جس کےلیے سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اورخالدبن ولید رضی اللہ عنہما نے خونریز معرکے سرکیے اور یہودی مجبور ہوئے کے بیت المقدس کی چابیاں امیر المؤمنین کے حوالے کریں تو گویا یہ سب فیصلہ خداوندی کے خلاف اقدام تھے۔(نعوذ باللہ)لگتا یہ ہے کہ بادی النظر میں یہ باور کروانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بیت المقدس ان کو دے دیا تو پھر یہود کا قبضہ وہاں جائز ٹھہرا جس کے تناظر میں اسرائیلی ریاست بھی صحیح ہوئی ۔ ان کا غاصبانہ قبضہ درست ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے اب تک وہاں آباد مسلمان گنہگار ٹھہرے لہٰذا یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ، بچوں ،بوڑھوں اور نوجوانوں کے گرتے ہوئے لاشے ظلم وبربریت یہ سب ٹھیک ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ ان سے دوستی کا راستہ ہے۔غزہ پٹی کےدڑبے میں بند مظلوم فلسطینیوں کو اپنے حق حریت کے لیے مزاحمت چھوڑ کر بانی پاکستان محمد علی جناح نے جسے یورپ کا ناجائز بچہ کہا تھا اسے ہولی مان لینا چاہیے اور تحت اللفظ ہمیں بھی اسے یعنی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔پھر رسول اللہ پر اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پہ افتراءپردازی کرتے ہوئے گویا ہوئیں کہ آپ کا فرمان ہے : دشمن کو دوست بنالو یہ سب جھوٹ ہے اور آپ علیہ السلام پہ جھوٹ باندھنے کی سزا سے آپ علیہ السلام خود ڈراتے ہوئے فرمایا

: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (صحیح البخاری ، حدیث: 1291 )

’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘ قرآن پاک میں واضح طور پر رب تعالیٰ کا فرمان ہے : 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ (المائدة: 51)

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے۔‘‘ اور فرمایا :

  لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا (المائدۃ:82)

’’یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔‘‘ پیغمبر علیہ السلام کے ارشادات گرامی ہیں کہ :  خَالِفُوا الْيَهُودَ (سنن ابی داود،حدیث:652 ) ’’یہود کی مخالفت کرو۔‘‘

آپ نے عبادات میں بھی ان کی مخالفت فرمائی ۔ آپ نے دیکھا یہودی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات پانے کے دن خوشی مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں تو آپ  نے فرمایا : خوشی ہمیں بھی ہے لیکن ہم دوروزے رکھیں گے ، یہ روزہ رکھتے ہوئے سحری تنازل نہیں کرتے تم سحری تنازل کرو ، یہ سفید بال  رنگتے نہیں ہیں تم ان کی مخالفت کرکے بالوں کو رنگ دو نیز بال بالکل کالے کرنے سے منع فرمایا ، پھر مزید فرماتےہوئےمحترمہ نے بتایا کہ آپ علیہ السلام نے یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ، نہیں‘‘ ۔ بلکہ آپ نے مدینہ پہنچ کر یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا انہیں مکمل آزادی اور حقوق دیئے جس کے بدلے میں یہودیوں نے ایفائے عہد کی بجائے غدر وایذاء کی روش اپنائی جس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام بنوقینقاع اور بنو نضیر کو مدینہ سے نکال دیا اور بنو قریظہ کے چھ سے سات سو یہودیوں کو غزوہ خندق کے بعد قتل کروا کر غدر وخیانت کے ان سانپوں کوعبرت کا نشان بنایا ، پھر درود پڑھنے سے یہ دلیل بنالی کہ ہم یہودیوں کے لیے دعا کرتے ہیں جبکہ یہ بات بھی درست نہیں یہودی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ یہودی تھے جس کی اللہ تعالیٰ نے سختی سے تردید فرمائی ۔

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا (آل عمران: 67)

ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے ۔‘‘ خود قرآن پاک میں یہود پہ لعنت فرمائی گئی :

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (المائدة: 78)

بنی اسرائیل کے کافروں پر سیدنا داؤد و عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ نیز رسول مقبول نے فرمایا

لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا (صحیح البخاری ، حدیث:1330)

’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ مزاروں پہ جاکر سجدے کرنے والوں کو بھی جو محبت رسول کا دم بھرتے ہیں سوچنا چاہیے۔ نماز میں درود شریف ایک دفعہ پڑھا جاتاہے جبکہ سورئہ فاتحہ ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے جس میں مغضوب علیہم (یعنی جن پہ رب کا غضب ہوا اور وہ یہودی ہیں ان کی راہ سے پناہ مانگی جاتی ہے) پھر سیرت پہ محترمہ نے لب کشائی فرمائی اور امام الانبیاء کا سلسلہ نسب بنواسرائیل سے جوڑ دیا حالانکہ یہ بات یہودی بھی نہیں کہتے اسی نسلی تعصب کی وجہ سے تو وہ آپ پر ایمان نہیں لائے کہ آپ بنواسماعیل سے آئے ، بنواسرائیل سے نہیں یہ سب کس لیے کیاجارہاہے ایک طرف عرب میں ہلچل مچی ہوئی ہے ، عمان میں اسرائیل آکر بیٹھ گیا ہے ، گوادر بندرگاہ کی نگرانی کے لیے یہاں مہم چلائی جارہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ افغانستان ،ایران ، انڈیا اور لندن میں بیٹھے ہوئے را کے ایجنٹ اور کالعدم تحریکوں کے نمائندے پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں حالیہ چینی قونصلیٹ کراچی پہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے ، کلب،ھوشن کی دی ہوئی معلومات کے تناظر میں انڈیا ان سازشوں کا مرکز ہے ان حالات میں جبکہ افواج پاکستان اور تمام دفاعی ادارے ملک کی حفاظت میں چومکھی لڑائی لڑرہے ہیں حکومت کو دانشمندی کامظاہرہ کرنا چاہیے ایسے افعال واقوال سے باز رہنا چاہیے جو قوم میں انتشار کا سبب بنیں آسیہ کا معاملہ معلق ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسے جلد از جلد باہر بھیج کر اغیار کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتی ہے ۔ ختم المرتبت سید المرسلین نبی رحمت فداہ أبی وأمی کی توقیر ومحبت ہی ہماری بقا کی ضامن ہے اغیار کو خوش کرنے کے لیے اگر اس معاملہ میں مداہنت اختیار کی گئی تو یہ چیز ہمارے لیے عذاب وانتشار کے ساتھ نحوست وبےبرکتی لے کر آئے گی اور یہ حکومت بھی پھر جائے گی محبت کا تقاضا نبی علیہ السلام کی مکمل اتباع ہے۔ علماء کرام علماء حق ہی اس دین کے وارث ہیں یہ میرے نبی کا فرمان ہے آپ انہیں ٹھیکیدار کہیں یا جونام بھی دے دیں بہرحال خود ٹھیکیدار بننے کی بجائے اہل علم سے رجوع آپ کے لیے بہتر ہوگا ۔

بنتے ہو وفادار تو وفا کرکے دکھاؤ                   کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور

علماء کے نام پر هاں ایسے لوگ دھبہ ہیں جن کا جبہ ودستار لوگوں کو غلام بنانے کا کام کرتاہے دین کی غلط تعبیر یں کرتے ہیں فساد فی الارض کہ ذمہ دار بن کر اقتصادی طور پر مشکلات سے دوچار اپنے ملک کو مزید مسائل سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور وہ جو ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کر بے پرکی اڑاتے ہیں علم کے نام پر جہالت کا پرچار کرتے ہیں ۔ رب العالمین سے متعلق مثالیں لاتے ہیں فرمان باری تعالیٰ ہے : فَلَا تَضْرِبُوا لِلهِ الْأَمْثَالَ (النحل: 74) ’’پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بناؤ ‘‘۔وہ ارشاد فرماتاہے :  

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى  (طه: 5)

’ وہ نہایت مہربان عرش پر مستوی ہے۔‘‘ یہ آیت کا انکار کرتے ہوئے (نقل کفر کفر نہ باشد) موبائل کے ڈبے پہ موبائل رکھ کر پوچھتے ہیں بتاؤ عرش بڑا ہے یا اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) یہ تو واقعی ٹھیکیدار ہیں اور ان کو بند ہونا چاہیے پھر وہ قوم جو دیوالی کی نقل میں دیئے جلا کر جشن میلاد منائے ہولی کی نقل میں کلرڈے منائے جشن میلاد کی دلیل میں عیسائیوں کے ہاں میلاد مسیح منانے کا حوالہ لائے اسے آپ بھی یہ درس دیں کہ یہودیوں سے قریب ہو جاؤ جنہیں اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تَمَدُّن میں ہُنُود     یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

تذکرۂ اقبال سے یاد آیا توقع تھی کہ اس سال 9 نومبر پہ شاید یوم اقبال کی چھٹی بحال کرکے حکومت کوئی مفت کی نیک نامی حاصل کرے گی مگر لگتاہے ایسی تمام چیزوں میں وہ سابقہ حکومت کی پیرو ہے بلکہ اس سے بھی کچھ آگے بڑھنا چاہتی ہے لوگ آئندہ سال کے لیے بہت بری بری پیش گوئیاں کررہے ہیں مگر ہم رب تعالیٰ سے اس ملک وقوم کے لیے خیرہی کی امید رکھتے ہیں

وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف: 87)    ’’

اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔‘‘

تبصرۂ کتب

تبصرۂ کتب

الشيخ عبد الوكيل ناصر / محمد انس اقبال

کتاب کا نام : نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا مسنون ہے ۔

مؤلف : ابو زبير محمد ابراهيم رباني

ناشر : دارالاسلاف سندھ          كل صفحات : 96

تبصره نگار : شیخ عبدالوکیل ناصر

کسی بھی مسلمان کے جنازے میں شرکت اس کے آخری حق کی ادائیگی ہے جو کہ شرعا ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ “الموت قدح کل نفس شاربوھا” کے مصداق مخلوق میں سے ہر ایک نے موت سے ہمکنار ہونا ہے ۔

اور پھر یقینا فوت شدہ مسلمان کا جنازہ بھی ہوناہےلہٰذا دیگر فقہی مسائل کی تفہیم کے ساتھ ساتھ جنازہ ، نماز جنازہ اور اس کے تمام تر متعلقات کا علم اور فہم بھی ضروری ہے ۔

اسی غرض سے تقریبا تمام محدثین نے اپنی اپنی تالیفات اور سنن میں کتاب الجنائز یا ابواب الجنائز کے عنوان سے احادیث و آثار ذکر کیے ہیں ۔كما لا يخفي علی اهل العلم

اور پھر بعض اہل علم نے مکمل تصنیف ہی اس عنوان سے مرتب کی ہے اور اس موضوع کو اس کے متعلقات کے ساتھ سمیٹ کر ایک ہی جگہ رکھ دیا ہے ۔

جیسے امام و محدث عبدالرحمان مبارکپوری اور شیخ ناصر الدین البانی رحمہما اللہ وغیرہ کی تصانیف اس پر شاہد ہیں ۔ اللہ تعالی ان تمام اہل علم کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ہم کوتاہ نظروں کے لیے اس مسئلہ کی تفہیم کو آسان بنایا ۔

دیگر عناوین کی طرح اس عنوان پر بھی تا حال لکھنے کا سلسلہ جاری ہے اور رہے گا ۔ ان شاء اللہ

زیر نظر و زیر تبصرہ تالیف لطیف اس سلسلے کی ایک ذھبی کڑی اور لڑی ہے کہ جس میں فاضل مؤلف مولانا ابوزبیر محمد ابراہیم ربانی حفظہ اللہ نے نماز جنازہ میں اختتام نماز پر سلام سے متعلق سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔

کتاب کے سرورق پر تقدیم و نظر ثانی کے تذکرے میں عالم باعمل شیخنا ذوالفقار علی طاہر رحمہ اللہ ، محقق دوراں غیرت اہل حدیث ڈاکٹر عبدالحفیظ سموں حفظہ اللہ اور میدان تحقیق و تخریج کے شہسوار حافظ ندیم ظہیر حفظہ اللہ کے اسماء کا آ جانا ہی کتاب کے منھجی صلابت كے لیے کافی ہے ۔ جزاھم اللہ خیرالجزاء

کچھ کہنے اور لکھنے کی حاجت ہی نہیں ہے البتہ الامر فوق الادب کے تحت فاضل دوست صاحب علم و فضیلة الشیخ محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ کے حکم پر یہ چند ٹوٹے جملے سپرد قرطاس کر رہا ہوں ۔

أحب الصالحين ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا

اس دعا کے بعد عرض ہے کہ یہ کتاب بحمد اللہ تعالی احادیث مبارکہ ، آثار صحابہ ، اقوال سلف اور اجماع کے دلائل سے مزین و معمور اور مملوء ہے ۔

تحقیق و تخریج اور رجال و رواة کے ایسے مباحث کہ نہ صرف طلبة العلم بلکہ اصحاب علم و فضل بھی سیرابی حاصل کرلیں ۔ انداز افہام و تفہیم کا اختیار کیا گیا ہے نہ کہ تحکم و تسلط کا ۔ نیز الزامی حوالہ جات اور جوابات کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے ۔

نماز جنازہ میں ایک ہی سلام کے مسنون ہونے پر ایک جامع اور مانع تحریر ہے ۔ اہل علم و دانش امید ہے ، بنظر تحسین و تائید دیکھیں گے ۔

کتاب میں محترم فاضل دوست اور میرے ہم مکتب الشیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کی داد شجاعت ہی دیکھنے کو ملی ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ رؤوف و رحیم اس کتاب کو عوام الناس کے لیے باعث منفعت بنا دے اور مؤلف و مقدم اور ناشر اور دیگر رفقاء کے لیے ذخیرہ آخرت بنا دے ۔

وما ذلك علي الله بعزيز

۔۔۔

نام کتاب : توضیح الفرقان

تالیف : فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الوہاب روپڑی حفظہ اللہ

صفحات : 978 بڑا سائز عمدہ رنگین کاغذ مجلد

ناشر : محدث روپڑی اکیڈمی جامع القدس

قیمت : درج نہیں

تبصرہ نگار : محمد انس اقبال

زیر تبصرہ کتاب اردو زبان میں قرآن پاک کی ایک عمدہ تفسیر ہے۔ تفسیر کا مطلب وضاحت کرنا ہے اور اصطلاحی طور پر اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرامین کی توضیح ہے کہ وہ اپنے بندوں سے کیا مطالب فرماتا ہے؟ کس بات کا حکم دیتاہے اور کس سے منع فرماتاہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن پاک نازل فرمایا اور اس کی تفسیر اور توضیح رسول اکرم ﷺ کا منصب قرار دیا۔

آپ ﷺ نے اپنے فرامین اور عمل مبارک سے کتاب اللہ کی تفسیر فرمائی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تفسیر سکھائی اور سمجھائی۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تفسیر قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا تو تابعین عظام کے ساتھ ساتھ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی ان سے یہ مقدس علم سیکھا۔ امام مجاہد وعکرمہ رحمہما اللہ وغیرہ اس سلسلے میں بہت نامور ہوئے پھر ان سے آگے یہ سلسلہ چلتا گیا۔ قرآن پاک چونکہ علوم ومعارف کا خزانہ اور ناپید کنار سمندر ہے۔ اس لیے بڑے بڑے علماء کرام اورمفکرین عظام نے اس شناوری کو سعادت جانا اور اس کے لیے اپنی زندگیاں کھپا دیں ، امام طبری، امام قرطبی اور حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہ نے تفسیر میں شاندار تصانیف پیش کیں۔

اس علم عظیم کے خدمت گزاروں اور اس سے تعلق رکھنے والے سعادت مندوں میں ایک نام فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الوہاب روپڑی حفظہ اللہ فاضل ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ کا بھی ہے جنہوں نے تفسیر بالماثور اور منہج سلف کے عین مطابق توضیح الفرقان کے نام سے قرآن پاک کی تین سورتوں (الفاتحہ، البقرۃ اور آل عمران) کی تفسیر لکھی ہے۔ یہ تفسیر اپنی مثال آپ ہے اس تفسیر کی خوبیاں یہ ہیں کہ شیخ محترم نے تفسیر کرتے وقت چند اہم چیزوں کا خاص خیال رکھا ہے جو قابل تحسین وستائش ہے۔

1 قرآنی آیات کی تفسیر آیات قرآنیہ کے ساتھ کی یعنی (تفسیر القرآن بالقرآن) کا اہتمام خاص کیا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی تفسیر میں فرمایا کہ انعام یافتہ وہ لوگ ہیں جو انبیائے کرام ،صدیقین،شہداء اور صالحین ہیں۔

2 تفسیر کرتے ہوئے مستند احادیث کاالتزام کیا۔جیسا کہ انہوں نے آمین کے حکم میں ذکر فرمایا کہ سورئہ فاتحہ کے اختتام پر بلند آواز سے آمین کہنا مسنون ہے جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب وَلَا الضَّالِّينَ پڑھتے قال آمین رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُتو بلند آواز سے آمین کہتے۔

3 حسب ضرورت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے فرامین کو قلمبند کیاگیاہے۔حضرت بجالہ بن عبید رحمہ اللہ فرماتےہیں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ہر جادوگر(مردوعورت) کو قتل کرنے کا فرمان جاری فرمایا تھا چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا تھا۔

4 ضعیف اور من گھڑت روایات سے کلی اجتناب برتا گیاہے۔ جالوت کا قتل سیدنا داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں ہونے کی تین وجوہات ہیں :

۱) سیدنا داؤد علیہ السلام اس وقت نوعمر اور جنگی امور سے بالکل ناآشنا تھے ان کے ہاتھوں جالوت جیسے جابر اور ظالم بادشاہ کو قتل کرواکر لوگوں کے دلوں سے ایسے حکمرانوں کا خوف اور ڈر زائل کرنا مقصود تھا کہ جن کو تم بڑے طاقتور اور جابر سمجھ کر خوف زدہ ہوتے ہو وہ تو بڑے کمزور اور ناتواں ہیں۔

۲) اللہ تعالیٰ سلطنت طالوتی کا وارث سیدنا داؤو علیہ السلام اور ان کے بعد سیدنا سلیمان علیہ السلام کو بنانا چاہتے تھے اسی لیے جالوت کے قتل کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت سیدنا داؤد علیہ السلام کو عطا فرمادی۔

۳) بنی اسرائیل کے عقیدے میں پیدا ہونے والی بیداری کے صلہ میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسی سلطنت دینا چاہتے تھے جو بنی اسرائیل کی ساری تاریخ کا عہدزریں ہو۔

5 تفسیر بالرائے کے بجائے تفسیر بالماثور کو ترجیح دی ۔

اس کے علاوہ شیخ محترم نے اس کتاب میں ہر آیت کا ترجمہ پھر توضیح، مشکل الفاظ کے معانی ، ہر توضیح کے بعد اخذ شدہ مسائل اور آیات کا باہمی ربط ومناسبت بھی ذکر کی ہے۔

اس کتاب میں تاریخی مباحث کو (جالوت) بھی عمدگی سے سمویاگیا ہے، تفسیر میں مروج کمزور روایات سے اجتناب کیاگیاہے، مفسر کا انداز خیر الکلام ما قل ودل کا مصداق ہے۔ مختصر مگر جامع بات کرتے ہیں۔

تفسیر قرآن کے لیے قابل احترام مفسر نے زبان نہایت سادہ وآسان استعمال کی ہے تاکہ عام لوگوں کے لیے فہم قرآن میں آسانی ہو ، عبارت رواں اور نہایت سلیس ہے۔

تفسیر قرآن کا یہ سلسلہ انتہائی مبارک سلسلہ ہےباری تعالیٰ سے دعا ہے کہ اسی نہج پرتکمیل کرنے کی توفیق فرمائے ۔آمین

طلبہ ، اساتذہ،علماء، عوام الناس الغرض زندگی کے ہرشعبہ سے متعلق افراد کے لیے تفسیر کے حوالے سے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مؤلف وناشرکے میزان حسنات میں شامل کرکے ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنا ئے۔

۔۔۔

 

بنی اسرائیل کے تین بندوں کی کہانی رسول اللہ ﷺکی زبانی

پیارے بچو ! رسول کریم اللہ نے فرمایا : پچھلے زمانے میں ( بنی اسرائیل میں سے ) تین آدمی کہیں سفر پر جا رہے تھے کہ اچانک انھیں بارش نے آلیا تو وہ ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس دوران میں ان پر غار کا منہ بند ہو گیا، تووہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم!ہمیں اس مصیبت سے صرف سچائی نجات دلائے گی۔ اب ہر شخص اپنے کسی ایسے عمل کو بیان کر کے دعا کرے جسے وہ جانتا ہو کہ اس میں وہ سچا ہے، چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور رکھا تھا، جس نے ایک فَرَق(تین صاع) چاول کے عوض میرا کام کیا، وہ(غصے کی وجہ سے) چلا گیا اور اپنے چاول چھوڑگیا میں نے ان چاولوں کو کاشت کیا اور اس کی پیداوار سے گائے بیل خرید لیے۔ ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور اپنی مزدوری طلب کی تو میں نے کہا: یہ گائے بیل تیرے ہیں، انھیں ہانک کر لے جاؤ۔ اس نے کہا کہ تمھارے پاس میری اجرت صرف ایک فرق (تین صاع)چاول ہیں۔ میں نے اسے کہا: یہ سب گائے بیل لے جاؤ کیونکہ یہ اسی ایک فَرَق(چاولوں)کی آمدنی ہے۔ آخر وہ گائے بیل لے کر چلا گیا۔ (اے اللہ!)اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیرے ڈر سے کیا تھا تو ہم سے یہ پتھر ہٹا دے، چنانچہ اسی وقت وہ پتھر اپنی جگہ سے تھوڑا سا ہٹ گیا۔ پھر دوسرےشخص نے کہا: اے اللہ !تو جانتا ہے کہ میرے ماں باپ بوڑھے تھے۔ میں ہر رات ان کے لیے بکریاں کا دودھ لے کر جاتا تھا۔ ایک رات اتفاق سے مجھے دیر ہو گئی۔ جب میں آیا تو وہ سوچکے تھے۔ ادھرمیرے بیوی بچے بھوک کی وجہ سے بلبلا رہے تھے۔ اور میری عادت تھی کہ میں جب تک والدین کو دودھ نہ پلا لیتا، بیوی بچوں کو نہیں دیتا تھا۔ اب انھیں بیدار کرنا بھی مجھے گوارانہ تھا اور انھیں اسی طرح چھوڑدینا بھی مجھے پسند نہ تھا کہ وہ دونوں دودھ نہ پینے کی وجہ سے کم زور ہو جاتے، اس لیے میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہایہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ!اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل دور کردے، چنانچہ اسی وقت پتھر کچھ مزید ہٹ گیا، جس سے انھیں آسمان نظر آنے لگا۔ پھر تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ!تو جانتا ہے کہ میری ایک چچا زاد تھی جو مجھےسب سے زیادہ محبوب تھی۔ میں نے ایک دفعہ اس سے اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہا مگر اس نے انکار کردیا لیکن اس شرط پر کہ میں اسے سو دیناردوں۔ میں نے مطلوبہ رقم حاصل کرنے کے لیے کو شش کی تو وہ مجھے مل گئی، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور وہ رقم اس کے حوالے کردی۔ اس نے خود کو میرے حوالے کردیا۔ جب میں اس کی دونوں رانوں کے درمیان بیٹھ گیا تو کہنے لگی:

اللہ سے ڈراور اس مہر کو ناحق نہ توڑ۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ

کھڑا ہوا اور سودینار بھی واپس نہ لیے۔ اے اللہ!اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیرے خوف کی وجہ سے کیا تھا تو ہماری مشکل آسان کردے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پتھر ہٹا دیا، اس طرح وہ تینوں باہر نکل آئے۔

( صحیح بخاری ؛ 3465 )

پیارے بچو ! مذکورہ واقعے سے ہمیں چند اہم نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں :

1  مصیبت میں اللہ تعالی کو ہی پکارنا چاہیے ۔

2 ہر نیک عمل خاص اللہ کی رضامندی کےلیے کرنی چاہیے ۔

3 ہر مصیبت میں دعا کا سہارا لینا چاہیے ۔

4 مزدور کو اپنا حق ادا کردینے سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔

5 امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔

6  والدین کی فرمانبرداری پر اللہ راضی ہوتا ہے ۔

7 اللہ کےلیے گناہ کو ترک کرنا بھی نیکی ہے ۔

8 نیکیاں مصیبت ٹال دیتی ہیں ۔

9 دیانتدار بندہ کو باری تعالیٰ کی طرف سے اچھا صلہ دیا جاتاہے۔

0اللہ تعالی کو اپنی نیکیوں کا وسیلہ دینا جائز ہے ۔

محترمہ! آپ صرف کھانا گرم کرنیوالی نہیں ، زندگی کا حصہ ہو

اسلام آباد میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے نکالی جانیوالی ایک ریلی میں لہرائے گئے مختلف پلے کارڈز نے سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچائی ہے ۔ ” کھانا خود گرم کر لو”اور ایسے ہی دیگر جملوں پر ہر طبقے کے افراد طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں ۔ کچھ حلقوں کو یہ جملہ معاشرتی نظام سے بغاوت لگا تو کسی نے اسے حقوق نسواں کی آواز قرار دیا ۔  مجھے یہ بحث کچھ انجان سی لگی ۔ایسے جملے لہرانے والی خواتین کو شائد ہمارے معاشرے کے بارے کچھ بھول ہوئی ہے ۔ انہیں شائد اندازہ ہی نہیں کہ دین اور روایات کے بندھن سے جڑے رشتے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ۔ عورت سے تقابل ، مرد کی برتری کی باتیں یہ سب انجان سی لگتی ہیں ۔ بھلا جو زندگی کا حصہ ہو اس سے مقابلہ کیسا؟؟ جی ہاں اسلامی طرز معاشرت میں تو عورت کو کو کہیں مقابل سمجھا ہی نہیں جاتا تو برتری ، کمتری کا سوال کیسا؟؟ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو سرتاج کہا جائے وہاں کی عورت بھی تو گھر کی ملکہ ہی کہلاتی ہے۔دراصل دونوں کے درمیان مقابلےکی غلط فہمی پھیلانے والے خود کسی فریب کا شکار ہیں ۔ کتنا خوبصورت رشتہ ہے جو نکاح سے جڑ تا ہے۔ جو مرد اپنے نصف ایمان کے لئے عورت کا محتاج ہو وہ برتری کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ایک خاوند کے طور پر کیا کوئی اللہ تعالی کی طرف سے عنائیت کردہ اپنی بیوی کے قدموں تلے اولاد کی جنت کا اعزاز چھین سکتا ہے ۔ کیسا مقابلہ؟؟ نبی اکرم ﷺنے تین بار ماں کا حق کہا اور چوتھی بار باپ کا ۔ کیا کوئی خاوند اس ترتیب کو بدل سکتا ہے؟ ؟ اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوگا۔ کیا ایک خاوند کو شکر گزار نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی بیوی اسے خاندان جیسی نعمت سے نوازتی ہے ۔ جی ہاں اولاد کی وہ نعمت کہ جو زندگی کا سہارا بنتی ہے ۔ جو خونی رشتوں کو بھلا کر کسی انجان کے گھر میں زندگی بنانے آجاتی ہے ۔ اس گھر کو پھر اپنے ہاتھوں سےجنت بناتی ہے ۔ جس میں آپ کے لئے خوشیاں ہوتی ہیں ۔جو بڑھاپے میں ڈھلتے آپ کے ماں باپ کی خدمت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔یہ سب اس پر فرض تو نہیں لیکن وہ رشتوں کی مٹھاس کی خاطر کرتی ہے۔ کیا خاوند کو شکریہ ادا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جیسے اور جس حال میں رکھا جائے خوشی سے رہتی ہے ، کم سہولیات اور محدودآمدن میں بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گزارہ کرتی ہے ۔ آپ کی گھر سے دوری ، اولاد اور گھریلو کام کاج کو وقت نہ دینے کے باوجود اپنی سلطنت کو خوشحال رکھتی ہے ۔ یہ اچھی اور سمجھدار بیوی ہی ہوتی ہے کہ جو خاوند کے بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں سے تعلقات کو قائم اور مضبوط بناتی ہے ۔ ہر تہوار ، خوشی غمی کو نبھانے کا ہنر جانتی ہے ، مردوں پر ہوتو وہ اپنے کام کاج میں قریبی رشتہ داروں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں، ایک بیوی کے لئے کتنا اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے خاوند کی ہر جگہ عزت کی جائے ۔وہ ماں کے گھر جانے سے پہلے کتنی ہی ہدایات دیتی ہے کہ “وہ” بھی آ رہے ہیں ۔ جو اتنی عزت دے کیا اس سے مقابلہ کیا جاتا ہے ؟؟ کتنا عجیب لگتا ہے جب کچھ لوگ دین پر عمل پیرا ہونےسےخواتین کے حقوق صلب کرنے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ کیا آپ کو پتہ ہے سیرت النبی کی روشنی میں خاوند کیسا ہوتا ہے۔ جی اسے بیوی کے کھیل کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ بیوی کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر اس کے ساتھ دوڑ نہیں لگاسکا تو اسے معذرت کرنی چاہیے اور پہلی فرصت میں اس سنت نبوی پر عمل کرے ۔ جی کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے نوالے منہ میں بھی ڈالا کرے کیونکہ نبی اکرمﷺ تو بخوشی ایسا کرتے اور صحابہ کرام کو تلقین بھی کرتے۔ اگر آپ بیوی کے لئے مناسب سہولیات فراہم نہیں کر پائے یا کمائی کا بڑا حصہ گھر پر خرچ نہیں کرتے تو اپنی اصلاح کر لیں کیونکہ بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم کی حیات طیبہ کی روشنی میں بہترین مومن وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لئے بہترین ہے ۔خاوند کو بیوی کے لئے سجاوٹ کا حکم ہے ۔کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں غفلت پرسخت وعید سنائی گئی ۔ یہ تعلیمات نبوی گواہ ہیں کہ محسن انسانیت کسی خاوند کی جانب سے اپنی بیوی کے لئے ذرا سی بھی سختی گوارا نہیں کر سکتے ۔حقوق نسواں کے نعرے لگاتی چند خواتین پتہ نہیں کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ہمارے پاس تو عائلی زندگی کی شاندار روایات ہیں اور رشتوں کی مضبوطی اور توازن قائم رکھنے کے لئے سنہری تعلیمات۔ یہ بیوی کا اپنائیت کا احساس ہی ہوتا ہے کہ جو دن بھر کے تھکے ہارے خاوند کے چہرے پر خوشی و مسرت کا احساس بکھیر دیتا ہے۔ جو پریشانیوں میں غمخوار بنتی ہے ، حوصلہ ٹوٹے تو صبر و ہمت کی چٹان بن جاتی ہے ، مشکل وقت آئے تو قدم ساتھ ملا کر چلتی ہے ، کچھ چھن جائے ، محرومی کا سامنا ہو تو دکھ بانٹ لیتی ہے ۔ جی ہاں یہ سب ایک عورت ہی کرتی ہے کیونکہ وہ گھر میں کمتر یا برتر نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہے ۔ یہ رشتہ دونوں کو شامل کرکے ہی تکمیل پاتہ ہے ۔ جب کسی کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں تو اس سے مقابلہ کیسا ؟؟ کونسی برتری اور کمتری کا سوال ؟؟ہم کیوں اپنے ہاں “کھانا خود گرم کر لو والی” اور” میرا جسم میری مرضی “والی غلط فہمیوں کا شکار خواتین کی باتوں کو ڈسکس کرکے وقت ضائع کریں۔ جہاں خاوند اپنی خواہشات ، آرام ، سکون حتی کہ صحت تک کی قربانی دیکر بیوی کی خوشیوں کا سامان کرتا ہو ، اس کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر ہر مشکل و مصیبت کو جھیل جائے تو اس گھرانے کی ملکہ اپنے سرتاج کے لئے کھانا شوق سے پکاتی بھی ہے اور گرم بھی کر دیتی ہے ۔ اور اگر کبھی تھکن ، بیماری یا کسی بھی اور وجہ سے نہ بھی کر سکے توخاوند کے خود کھانا گرم کرنے میں حرج ہی کیا ہے جب بیوی بھی ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہو تو اتنا سا کام تو کر ہی لینا چاہیے ۔ دراصل یہ بحث تو ہماری ہے ہی نہیں کسی نے ایویں ہی کسی بھولی خاتون کو مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ جو زندگی کا حصہ ہو ، خوشی کا باعث ہو ، دکھ سکھ کی ساتھی ہو اسکے ساتھ ایسے مقابلے نہیں کئے جاتے ۔ وہ کھانا گرم کر کے دے یا کبھی خود کرنا پڑ جائے ۔ یہ بھی زندگی کاایک دلکش پہلو ہی ہوتا ہے جو انمول یادیں جنم دیتا ہے۔

 

بیکن ہاؤس سکول سسٹم دی ایجوکیٹرز اور نظریاتی زوال!!!

کہتے ہیں اگر کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو تو اس کی نئی نسل کے ہاتھ سے کتابیں اور قلم چھین لو اور ان کو خواب اور موسیقی کے آلات تھمادو ساری عمر پھر وہ نئی نسل ان خوابوں اور سرابوں کے دھوکے میں غرق خود اپنے آباؤ اجداد کے مذہب اور نظریات کا قلع قمع کرتے رہیں گے جبکہ دشمنوں کو اپنے تیر و تلوار استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔

اوائل اسلام سے اگلے ایک ہزار سال تک مسلمان گرتے پڑتے سنبھلتے بنتے اس دنیا کے آدھے حصے پر محکم رہے لیکن گزشتہ چار سو سال سے مسلمان محکوم بنتے بنتے اب مظلوم بن گئے ہیں کیونکہ ان کی نئی نسل کو ایسے خوابوں اور سرابوں میں دشمنوں کے خفیہ آلہ کاروں نے جکڑا ہے جن سے جان چھڑانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

تعلیم نصاب تعلیم معلمین اور طلباء وطالبات وہ رخنے ثابت ہوئے ہماری لاپرواہی اور لاغرضی کی بدولت کہ اب یہ ایک طاقتور مافیا بن کر ابھرے ہیں اور ان کی بدولت دشمن و طاغوت اسلام اور پاکستان پر بیک وقت حملہ آور ہوکر بہت بھیانک نقصان پہنچا رہے ہیں۔

زمین دوز منفی تعلیمی سرگرمیاں یا یوں کہہ لیں کہ اسلام کو دیمک لگانے والی تعلیم اور باطل نظریات کی تدریس اور ترویج کا محفوظ اور محدود سلسلہ مدرسہ نظام المک طوسی کے مقابلے حسن بن سباح نے متعارف کروایا باقاعدہ منظم انداز میں تاکہ نئی مسلمان نسل میں اسلام اپنی اصلیت کھودے توحید اور ختم نبوت ﷺرگیدی جائے اور مسلم غیرت و حمیت کا ایسا جنازہ نکلے کہ جس کو قبر میسر نہ آئے اور طاغوت کو کھل کر اس زندہ لاش کا مثلہ کرنے کا موقع ملے۔

وہی حسن بن سباح کے روحانی چیلے چپاٹے آج بھی کسی نہ کسی شکل اور کردار میں زندہ ہیں اور وہی انداز سباحی اپنا کر اسلام اور پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہیں۔

ستر سال قبل اسلام کے نام پر بننے والی ایک نظریاتی ریاست پاکستان کو بننے سے روکنا جب ناممکن ہوگیا تو طاغوت نے نظاموں اور رویوں کی چال چلی۔

خود عمر لاء اور اسلامی قوانین شہریت اپنانے والے غیر مسلم آقاؤں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمان بلخصوص یہ نئی نظریاتی ریاست پاکستان کسی صورت ان اسلامی قوانین شہریت اور عمر لاء سے واقف نہ ہو جن کی بدولت یہ غیر مسلم آقا ترقی تعلیم اور انصاف کی راہوں پر گامزن ہیں اور اگر پاکستانی مسلمان واقف ہو بھی جائیں تو چاہتے ہوئے بھی یہ ہمارے مجوزہ نظاموں کی گرفت سے نہ نکل پائیں۔

سرکاری سکولز اور درسگاہوں کی بات کریں تو وہاں لارڈ میکالے کا نظام تعلیم اور ملغوبہ نصاب تعلیم کی بدولت بس لکیر کے فقیر اور کلرک بادشاہ ہی پیدا ہوئے اور جب اگلی انتہا جدت و ترقی کی جانب یہ نئی ریاست کے باسی متوجہ ہوئے تو ان کے سابقہ اور موجودہ آقاؤں کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر یہ تعلیم اور نصاب تعلیم میں آزادی اور انقلاب اپنے اسلامی اصولوں کے مطابق لے آئے تو پھر ہمارے آگے کون جھکے گا اور کس طرح ہم اسلام اور صلیب کی جنگ میں اسلام کو نظریاتی و انقلابی شکست دیکر فتحیاب ہوسکیں گے صرف اپنی فوج اور ہتھیاروں اور باطل نظریات کی بدولت؟

لہذا پھر مشرف دور حکومت میں نصاب تعلیم پر مشق ستم شروع کی گئی جو پوری طرح کامیاب نہ ہوسکی تو نجی درسگاہوں کی زنجیر کی داغ بیل ڈالی گئی جس سے سرکاری نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو نکال باہر کرنا آسان ہدف ثابت ہوا اور یہ آگے چل کر طاغوت کو ایک انقلابی و مہلک ہتھیار کی صورت کام آیا۔

بیکن ہاؤس سکولز سسٹم اور بعد از کامیابی دی ایجوکیٹرز کی بنیاد ڈالی گئی جس نے آہستہ آہستہ نظریہ پاکستان عقیدہ توحید اور ختم نبوت ﷺکی بنیادیں ہلا ڈالیں ہماری نئی نسل کے اذہان میں۔

آج ان دو اور ان جیسے دیگر ملتے جلتے ناموں والی درسگاہوں کی زنجیر میں ہماری نئی نسل کا 75% فیصد معاشرتی حصہ جکڑا ہوا ہے والدین کی رضا و رغبت سے۔

یہاں سے فارغ التحصیل طلباء کو بغیر تعارف پہچاننے کی چند نشانیاں ہیں۔

— اسلام و پاکستان بیزار ہونگے۔

— قرآن و حدیث کے منکر ہونگے۔

— نظریہ الحاد و لبرل ازم کے دلدادہ ہونگے۔

— سوال کا ہتھیار ہاتھ میں لیکر ہر اسلامی شعار اور پاکستانی روایت کا قلع قمع کرتے ہوئے پائے جائینگے۔

— بظاہر فریڈم آف سپیچ اینڈ ایکسپریشن کے علمبردار جبکہ دراصل ہیٹ سپیچ کے علمبردار ہونگے۔

— تمیز اور تہذیب سے کوسوں دور اور اڑیل ٹٹو ہونگے۔

— جہاد نظریہ پاکستان اور افواج پاکستان کے شدید ناقد ہونگے بناء دلیل۔

— موسیقی رومانس مخلوط میل جول کھیل کود سیکیولرزم اور پیس فار ورلڈ کے رسیا ہونگے۔

غرض ایسی اور بہت سی منفی اور تابناک نشانیاں اپنے مشاہدے اور تجربے میں آپ کو دیکھنے اور سننے کو ملیں گی جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ موجودہ دور کے حسن بن سباح اور لارڈ میکالے کس قدر کامیاب ہیں۔

میری نظر میں یہ بیکن ہاؤس سکول سسٹم تب کَھلا جب 2005ء میں میرے ایک کزن نے یہاں داخلہ لیا اور اسکی زبانی مجھے جو باتیں پتہ چلیں انہوں نے مجھے بے چین کیا۔

ایک تو اردو کو حقیر اور کمتر زبان کے طور پر وہاں بات بات پر ذلیل کیا جاتا ہے طلباء کو اس کے استعمال سے بزور سختی روکا جاتا ہے۔

دوم اسلام اور تاریخ اسلام کا مثبت ذکر وہاں کے پالیسی سازوں اور احساس کمتری کے شکار معلمین کو ناگوار گزرتا ہے۔

سوم نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان کو وہاں مسخ کرنا اولین مقاصد میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کا فارغ التحصیل طالبعلم محمد علی جناح و دیگر بانیان پاکستان کے متعلق بری طرح کنفیوز ہے کہ وہ مسلمان ریاست کے خواہاں تھے یا سیکیولر؟

اس سکول سسٹم میں موسیقی ڈانس مصوری اور مخلوط طرز تعلیم نچلے درجے سے اوپری درجے تک اس طرح لازم ہے جیسے اسلام میں کلمہ ،نماز ،روزہ ،زکاۃ،حج اور جہاد۔

پھر جیو نیوز کی طرح اس سکول کا بھی “امن کی آشا” اور “سیفما” نامی کیمپینز سے چولی دامن کا تعلق ہے۔

جو کام جیو نیوز “ذرا سوچئے” کہہ کر عوام کی رائے عامہ خراب اور مرضی کی سمت میں استوار کرتا ہے وہی کام یہ سکول سسٹم بڑے دھڑلے اور ہٹ دھرمی سے اپنے معلمین اور نصاب تعلیم کے ذریعے اپنے طلباء و طالبات بلخصوص نئے طلباء و طالبات میں کرتا ہے۔

آپ کو ذرا سی تحقیق اور تگ و دو اس سکول سسٹم کی ان اندھیری وادیوں میں لا کر چھوڑے گی جہاں آپ کو فقط بغاوت اور نفرت ہی ملے گی۔

— اسلام خالق و پیغمبر سے بغاوت اور نفرت۔

— پاکستان نظریہ پاکستان اور تاریخ پاکستان سے بغاوت اور نفرت۔

— معاشرتی روایات اور تہذیب و اخلاقیات سے بغاوت اور نفرت۔

جدت و ترقی آزادی رائے اظہار اور سائنس و فن کے نام پر آپ کو یہاں ایک ایسی شتر بے مہار نسل نظر آئے گی جن کا اوڑھنا بچھونا تین وہ چیزیں وہ طریقہ کار وہ نظریات اور وہ معمولات بن چکی ہیں جو ایک منظم پروگرام کے تحت باقاعدہ داخل کی گئیں ٹرپل ایس پروگرام کے نام سے اور جس کی خبر راقم 2006 سے ببانگ دہل دے رہا ہے پر نقار خانے میں طوطی کی صدا والی بات ہورہی ہے۔

جی ہاں بیکن ہاؤس سکول سسٹم اور دی ایجوکیٹر دراصل عالمی صہیونی خفیہ معاشرے فری میسن کے اس ایجنڈے اس پروگرام کے تحت چلائے جارہے ہیں جس کی بدولت ہماری نئی نسل اس دلدل میں ناک ناک دھنس چکی ہے اور جس کو نکال لانا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔

نئے قارئین کی دلچسپی اور معلومات برقرار رکھنے کو بتادوں کہ ٹرپل ایس پروگرام دراصل ہے کیا؟

ٹرپل ایس پروگرام SSS Program دراصل یہودی پروٹوکولز اور فری میسنری ایجنڈے کا نچوڑ ہے۔

ان تین ایس کی کہانی یہ ہے کہ

اول S ایس مخفف ہے سپورٹس مطلب کھیل کود ناچ گانے اور ہلے گلے کا۔

دوسرا S ایس مخفف ہے سیکس مطلب مخلوط تعلیم میل جول اور آزاد جنسی آسودگی کا۔

اور تیسرا S ایس مخفف ہے سیکیولرزم مطلب لادینیت ترک نظریات اور آزادی رائے اظہار کا۔

اب آپ خود ہی اندازہ کرلیں کہ کیا بیکن ہاؤس سکول سسٹم اور اس کا ذیلی ادارہ دی ایجوکیٹرز اور ان کی اعلی تعلیمی درسگاہیں کیا اسی ایجنڈے اسی پروگرام کی پروردہ اور فیکٹریاں نہیں؟

جو لوگ آج اس سب کو دیکھ کر فکر مند ہورہے ہیں جو کہ اچھی بات ہے لیکن اگر تب ہی میرے جیسوں کی کوہار پر لبیک کہتے تو آج ہم ایک نسل کی خراب فصل نہ کاٹ رہے ہوتے جو اب ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہے اور ہم ان کو واپس شاید اب نہیں لاسکتے لیکن ہم اگلی اور نئی نسل کو اس خطرناک پروگرام اور زمین دوز تعلیمی دہشتگردی سے بچا سکتے ہیں۔

المختصر یہ کہ بیکن ہاؤس سکول سسٹم اور دی ایجوکیٹرز جیسی تعلیمی دہشتگرد درسگاہیں فقط غدار وطن ملحد اور گستاخ رسول ہی پیدا کررہی ہیں جن سے ہمارا روز ادھر سوشل میڈیا اور عام معاشرے میں واسطہ پڑتا ہے۔

اب ہم کتنے غدار وطن مرتد اور گستاخ رسول ﷺسولی لٹکا لیں گے چاہ کر بھی لہذا اس فتنے کی جڑ ہی کاٹ دو جو ان کو پیدا کررہی ہے۔

میں اور میرے رفقاء ملکر اب اسی لیئے باجماعت اس فتنے کی سرکوبی میں جت گئے ہیں کہ ہماری ایک نئی نسل اب پروان چڑھ رہی ہے وہ تو کم از کم اس فتنے سے دور رہ کر بچ سکے لہذا آپ سب قارئین سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ آئیے اور ہر فورم پر اپنی اولادوں کی خاطرہمارا بھرپور ساتھ دیں۔شکریہ

رسول اللہ ﷺ کی جدائی اور صحابہ کرام کا غمناک عالم

محترم قارئین ! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم ﷺ سے بے تحاشا محبت کیا کرتے تھے نبی معظم علیہ السلام پر اپنی جان مال و دولت قربان کر دینا اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے دن جیسے قریب آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت زياده اشكبارہوئے جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ :

خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ ‏‏‏‏‏‏فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ فِي نَفْسِي:‏‏‏‏ مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْعَبْدَ ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا تَبْكِ ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ

ایک دفعہ رسول اللہ نے خطبہ میں فرمایا : بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا میں رہے یا جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کرے۔ تو اس نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔یہ سن کر سيدنا ابوبکر صدیق  رونے لگے۔میں نے اپنے دل میں کہا: یہ بوڑھا کس لیے روتا ہے؟بات تو صرف یہ ہے کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو دنیا یا آخرت دونوں میں سے جسے چاہے پسند کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس نے آخرت کو پسند کیا ہے۔ (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے)؟ مگر بعد میں یہ راز کھلا کہ بندے سے مراد خود رسول اللہ تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق ہم سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا: ابوبکر تم مت روؤ، میں لوگوں میں سے کسی کے مال اور صحبت کا اتنا زیر بار نہیں جتنا ابوبکر کا ہوں۔ اگر میں اپنی امت سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و محبت ضرور ہے۔ دیکھو! مسجد میں ابوبکر کے دروازے کے سوا سب کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ (صحیح بخاری : 466 )

اور اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے متعلق فرماتی ہیں :

دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ يَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ .

مرض الموت میں رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں ، پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا : نبی کریم نے مجھ سے فرمایا تھا : آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی میں یہ سن کر رونے لگی دوسری مرتبہ آپ نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا : آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔

 ( صحیح بخاری : 4433 )

جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نبی کریم ﷺکی جدائی کی خبر ملی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہر طرف تاریکی پھیل گئی جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْلِسْ يَا عُمَرُ ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ الشَّاكِرِينَ ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ ‏‏‏‏فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ أَنَّ عُمَرَ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلَاهَا فَعَقِرْتُ حَتَّى مَا تُقِلُّنِي رِجْلَايَ وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلَاهَا ‏‏‏‏‏‏عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ.

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ ! لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا اتنے میں لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا : امابعد ! تم میں جو بھی محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اس دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو (اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کہ محمد صرف رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ارشاد “الشَّاكِرِينَ ‏” تک ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا : اللہ کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا (زہری نے بیان کیا کہ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم ﷺاس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو میں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔ (صحیح بخاری : 44)

اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْكُونَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكُمْ ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَّا فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَصَبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوْا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ‏‏‏‏ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ .

سیدنا ابوبکر اور عباس رضی اللہ عنہما انصار کی ایک مجلس سے گزرے دیکھا کہ تمام اہل مجلس رو رہے ہیں پوچھا آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟ مجلس والوں نے کہا : ابھی ہم رسول اللہ کی مجلس کو یاد کر رہے تھے جس میں ہم بیٹھا کرتے تھے (یہ آپ کے مرض الوفات کا واقعہ ہے) اس کے بعد یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی بیان کیا کہ اس پر آپ باہر تشریف لائے سر مبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور اس کے بعد پھر کبھی منبر پر آپ تشریف نہ لا سکے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم و جان ہیں انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیے تھا وہ ملنا ابھی باقی ہے اس لیے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرتے رہنا۔ (صحیح بخاری : 3799 )

 اور اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَنْ لَا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ. فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا   ( صحیح مسلم : 6318 )

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کے انتقال کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں دونوں ساتھیوں نے کہا : تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ کے لئے بہتر ہے ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۔

نبی كريم ﷺکی جدائی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انتہائی غمگین کردیا تھا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہیں گئے ہوئے تھے لیکن رحمة العالمین کے انتقال کی خبر ملنے کے فورا واپس مدینہ آئے آتے ہوئے ہی سیدنا رسول اللہ کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے سیدہ عائشہ ‌رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

أَنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ وَفَاتِہِ فَوَضَعَ فَمَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی صُدْغَیْہِ وَقَالَ وَا نَبِیَّاہْ وَا خَلِیلَاہْ وَا صَفِیَّاہْ

نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپﷺ کے پاس آئے اور اپنا منہ آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اپنے ہاتھ آپ ‌ﷺکی کنپٹیوں پر رکھے اور کہا: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! ہائے اللہ کے منتخب نبی۔ ( مسند احمد : 11041 )

اوسط بن عمرو رحمہ اللہ سے مروی ہے :

قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَنَۃٍ، فَأَلْفَیْتُ أَبَا بَکْرٍ یَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ فَخَنَقَتْہُ الْعَبْرَۃُ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاۃَ فَإِنَّہُ لَمْ یُؤْتَ أَحَدٌ مِثْلَ یَقِینٍ بَعْدَ مُعَافَاۃٍ وَلَا أَشَدَّ مِنْ رِیبَۃٍ بَعْدَ کُفْرٍ وَعَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ وَہُمَا فِی الْجَنَّۃِ وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ وَھمَا فِی النَّارِ

وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺکی وفات سے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ آیا میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺگزشتہ سال ہمارے درمیان کھڑے ہوئے یہ کہہ کر ان کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بند ہو گئی تین بار ایسے ہی ہوا بالآخر کہا لوگو ! اللہ سے عافیت کا سوال کرو عافیت کے بعد ایمان و ایقان جیسی کوئی نعمت نہیں جو بندے کو دی گئی ہو اور نہ کفر کے بعد شک و شبہ سے بڑھ کر کوئی سخت گناہ ہے تم صدق اور سچائی کو لازم پکڑو یہ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور صدق اور نیکی کا انجام جنت ہے اور تم جھوٹ سے بچ کر رہو یہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ کا انجام جہنم ہے۔ ( مسند احمد : 12180 )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ :‏‏‏‏ يَا أَنَسُ كَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ (حديث موقوف) (حديث موقوف) وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا ثَابِتٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ‏‏‏‏‏‏أَنَّ فَاطِمَةَ ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ ‏‏‏‏‏‏قَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَكَى حَتَّى رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ.

مجھ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اے انس ! تمہارے دل کو کیسے گوارا ہوا کہ تم رسول اللہ پر مٹی ڈالو؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا : جب نبی اکرم کی وفات ہوئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے والد، میں جبرائیل کو ان کے رخصت ہونے کی خبر دیتی ہوں ہائے میرے والد اپنے رب کے کتنے نزدیک ہو گئے ہائے میرے والد جنت الفردوس میں ان کا ٹھکانہ ہے ہائے میرے والد اپنے رب کا بلانا قبول کیا۔ حماد نے کہا: میں نے ثابت کو دیکھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد روئے یہاں تک کہ ان کی پسلیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ ( سنن ابن ماجہ : 1630 )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺکی وفات کا کس قدر غم اور دکھ تھا امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكَ؟ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ ‏‏‏‏‏‏وَهَذِهِ الصَّلَاةُ قَدْ ضُيِّعَتْ

میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا آپ اس وقت رو رہے تھے میں نے عرض کیا : آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : نبی کریم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے ۔(صحیح بخاری : 530)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو نبی علیہ السلام کے یاران یار تھے کو نبی کریم کی جدائی کا اتنا دکھ وغم ہوا کرتا کہ آپ کسی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا کرتے تھے حتی کہ لوگوں کہ سلام کا جواب دینا بھی آپ کےلیے مشکل ہوگیا تھا جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَكُنْتُ مِنْهُمْ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَلَّمَ عَلَيَّ، فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّهُ مَرَّ وَلا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا يُعْجِبُكَ أَنِّي مَرَرْتُ عَلَى عُثْمَانَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلامَ؟ وَأَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي وِلايَةِ أَبِي بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَتَّى سَلَّمَا عَلَيَّ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: جَاءَنِي أَخُوكَ عُمَرُ، فَذَكَرَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَيْكَ، فَسَلَّمَ فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ، فَمَا الَّذِي حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلَى وَاللَّهِ لَقَدْ فَعَلْتَ، وَلَكِنَّهَا عُبِّيَّتُكُمْ يَا بَنِي أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّكَ مَرَرْتَ بِي، وَلا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ، وَقَدْ شَغَلَكَ عَنْ ذَلِكَ أَمْرٌ؟ فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا هُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: تَوَفَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ نَجَاةِ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَنْتَ أَحَقُّ بِهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَجَاةُ هَذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُ عَلَى عَمِّي، فَرَدَّهَا عَلَيَّ، فَهِيَ لَهُ نَجَاةٌ

جب نبی کریم ﷺکا انتقال ہوا تو بعض صحابہ پر اس کا شدید اثر ہوا اور قریب تھا کہ ان میں سے بعض کی حالت غیر ہو جاتی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا میں ایک مکان کے سائے میں بیٹھا تھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے انہوں نے مجھے سلام کہا لیکن مجھے ان سے گزرنے اور سلام کہنے کا علم ہی نہیں ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اور کہا: کیایہ بات آپ کے لیے تعجب انگیز نہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا میں نے انہیں سلام کہا لیکن انہوں نے سلام کا جواب تک نہیں دیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے وہ دونوں میرے پاس آئے دونوں نے مجھے سلام کہا اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہارے بھائی عمر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے اور سلام کہا مگر آپ نے انہیں سلام کا جواب نہیں دیا اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے عرض کیا : میں نے تو ایسا کیا ہی نہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم! میں نے سلام کہا ہے اور آپ نے جواب نہیں دیا اے بنو امیہ! یہ تمہاری متکبرانہ عادت ہے میں نے عرض کیا اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ آپ میرے پاس سے گزرے ہوں یا سلام کہا ہو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ درست کہتے ہیں آپ کو رسول اللہ ﷺکی جدائی کا غم تھا اس لیے آپ ادھر توجہ نہیں دے سکے میں نے بھی کہا جی ہاں ایسے ہی ہے انہوں نے کہا کیا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو موت دے دی اور ہم آپ سے یہ تو دریافت ہی نہیں کر سکے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیسے ہو گی؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں آپ ﷺسے اس بارے میں دریافت کر چکا ہوں پس میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! واقعی آپ ہی اس بات کو دریافت کرنے کے زیادہ حق دار تھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیونکر ہوگی؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا: میں نے جو کلمۂ اسلام اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تھا جو آدمی بھی میری طرف سے اس کلمہ کو قبول کر لے یعنی اس کا دلی طور پر اقرار کر لے تو یہی کلمہ(توحید) اس کی نجات کا ذریعہ ہو گا۔ ( مسند احمد : 11037 )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانبی کریم کی جدائی کے دن یاد کرتے ہوئے بار بار رو پڑتے اور آنسو بہاتے رہتے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا :

يَقُولُ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى:‏‏‏‏ يَوْمُ الْخَمِيسِ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ.

 جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا(ہیبت ناک )تھا پھرروپڑےیہاںتک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں  ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس رضی اللہ عنہما ! جمعرات کا دن کیساتھا؟فرمایا: رسول اللہ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤمیں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں عطا یاد کیا کرتا تھا۔ تیسری بات سے آپ نے سکوت فرمایا یاآپ نے بیان کی لیکن میں بھول گیا۔ سفیان فرماتے ہیں کہ یہ آخری مقولہ سلیمان راوی کاہے۔(صحیح بخاری : 3168)

رسول اللہ کی جدائی میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا جو عالم تھا وہ آپ قارئین پڑھ چکے ہیں اب ایک نظر ہمارے معاشرے پر بھی رکھیں کہ ان ایام میں ہم کیا سے کیا کیے جا رہے ہیں !!

۔۔۔

محبت رسول ْﷺ کے حقیقی تقاضے ، عملی زندگی میں سیرت کو اپنانے کی اہمیت

یہ بات تو بالکل اظهر من الشمس ہے کہ نبی معظم ہماری محبت کے محتاج نہیں ہم ان سے محبت کریں یا نہ کریں ان کی عزت،عظمت،مقام اور مرتبہ میں کوئی فرق نہیں آئے گالیکن اس کے برعکس رسول اللہ سے محبت کیے بغیر ہمارا گزارا نہیں ۔

نبی معظم سے محبت کے بغیر ہمارا اس دنیا میں آنے کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ ایک مسلمان اور دشمن اسلام کی نشاندہی بھی اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے ان اعمال میں بھی سب سے بڑ ارتبہ اور مقام نبی کو ہی حاصل ہے ۔

قارئین کرام! آپ یہ بات جانتے ہیں کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کےلئے کیا کچھ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے محب اپنے محبوب کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے اور حالت مسرت میں دیکھنا پسند کرتا ہے اور وقت آنے پر وہ اپنے محبوب کے اشارے پر جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو جا تا ہے وہ اپنے محب کی کسی بات کو ٹھکرانا گوارہ نہیں کرتا بلکہ فورا ماننے کے لئے تیارہو جانا اس کی محبت کا دستور قرار پاتا ہےحالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے محبوب کے دل میں اس کے لئے کیا راز مخفی ہے وہ محبوب کا حال دل جانے بغیر بھی اس کو اتنا پسند کرتا ہے کہ دنیا میں اس کو اپنے محبوب کے بغیر ہر چیز دھندلی محسوس ہوتی ہے وہ محبت میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی ہر چھوٹی بڑی عاد ت کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ وہ اپنی زندگی کو ہر حال میں اسی طرح ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔

قارئین کرام!یہ تو ایک اس شخص کا معاملہ ہے جو دنیا کے محبوب کے لئے یہ سب اعمال کرتا ہے اور دوسری طرف ہم مسلمان ہیں جو ہر وقت نبی کریم سے محبت کے جھوٹے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ گرم جوش نعروں کی آڑ میں حدوداللہ کو پامال کر بیٹھتے ہیں اور جب وہ یہ پامال کر بیٹھتا ہے تب وہ دین اسلام میں نئی ایجادات کا ادخال وادراج کرتا ہے جس کا دین اسلام سے اور نبی کریم کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

محترم قارئین کرام!پیغمبر آخر الزمان کے ساتھ محبت ایمان کا ایک جزءہے نبی کریم سے محبت اور نفرت میںہی ایک انسان کے ایمان اور نفاق کا راز مضمر ہے اسی طرح کئی احادیث میں بھی رسول اللہ نے ہمیں اپنے ساتھ محبت کی ترغیب دے کر محبت رسول کے انداز اور طریقہ کو واضح کیا ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللہُ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لاَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الآنَ، وَاللہِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الآنَ يَا عُمَرُ(صحیح البخاری:6632 )

سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی کریم کے ہمراہ تھے جبکہ آپ نے سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ میری جان کے علاوہ مجھے ہر چیز سے زیادہ ہیں۔ نبی کریمﷺ نے انہیں فرمایا: نہیں نہیں،مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا) جب تک میری ذات تمہیں اپنی جان سے بھی ذیادہ عزیز نہ ہو۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کی قسم! اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی نے فرمایا: ”اے عمر! اب (تیرا ایمان مکمل ہوا ہے)۔“

قارئین کرام ! یہ حدیث محبت رسو ل پر ایک واضح اور روشن دلیل ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ سے اپنی جان سے زیادہ محبت کرکے ہی انسان ایک کامل مسلمان بن سکتا ہے اور نبی اکرمﷺ سے محبت میں کچھ کمی ہے تو وہ اس کے ایمان کے نقص کی دلیل ہے۔

یہ بات بھی آپ سب کے علم میں ہے کہ محبوب کے اپنے محب سے کچھ محبت کے تقاضے ہوتے ہیں جس کو پورا کرنا محب پر اجباری (ضروری ) ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک مسلمان جو اپنے محبوب رسول اکرم سے محبت کرتا ہے اس پر بھی کچھ تقاضے وارد آتے ہیں ۔

.4نبی اکرم سے محبت کے تقاضے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

1 اطاعت رسول اللہ :

سب سے پہلا اور بنیادی تقاضہ جو ہم پر وارد ہوتا ہے وہ اطاعت رسول ہی ہے،نبی کریمﷺ کی اطاعت کے بغیر نہ تو محبت رسولﷺ ممکن ہے اور نہ ہی اطاعت کے بغیر نجات ممکن ہے اطاعت رسول کی ترغیب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے ۔

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ (النساء:80)

’’ اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی ۔‘‘

اس آیت قرآنی سےاطاعت رسول کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ۔دوسری جگہ ارشا د فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ (محمد:33)

’’ اے ایما ن والو!اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو ۔‘‘

اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ معصیت رسول سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں،جس شخص نے رسول اکرمﷺ کی اطاعت نہ کی اس کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں اگرچہ وہ لاکھ محبت رسول کے دعوے کرتا پھرے۔

2 امر بالمعروف والنہی عن المنکر :

محبت رسول اکرم کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جن کاموں کا اللہ کے نبی نے حکم دیا ہے اس کو بغیر تأویلات کے عمل میں لایا جائے اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے بغیر کوئی راستہ ڈھونڈے رک جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

کُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:110)

’’ تم بہترین امت ہو ، نکالے گئے ہو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانے اور برائی سے روکنے کے لئے ۔‘‘

اس آ یت کریمہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امت محمدیہ کو بہترین امت کہنے کی وجہ امر باالمعروف و النہی عن المنکر ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے :

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ( الحشر:7)

’’جو رسول اکرم تم کو عطا کریں اسے لے لواور جس سے منع کریں اس سے منع رک جائو ۔‘‘

یعنی محمد رسول اللہ کے دئیے ہوئے طریقہ پر عمل کرنا ہی ان سے محبت کا حقیقی تقاضا ہےکیونکہ محب اپنے محبوب کے اقوال واعمال بلا چوں چراں قبول کرکے اس کی پاسداری کرتاہے۔

3سنت مصطفیٰ کی نصرت ، تائید اور شریعت اسلامیہ کا دفاع کرنا سب مسلمان جا نتے ہیں :

نبی کریم نے جس مشن کی خاطر اپنا جان و مال قربان کیا ان کے بعد ان کے پروانے ان کے مشن کو جاری رکھنے کے لئے ہمہ وقت جانیں لٹا نے کے لئے تیار رہتے تھے اس مشن کے لئے کسی قسم کی بھی قربانی ان کے لئے باعث سعادت اورسرمایہ افتخار ہوتا ہے ۔

ہمارے نبی اکرم کا مشن لوگوں کو کفرو شرک کی وادیوں سے نکال کر نور توحید کی راہ پر گامزن کرنا تھا ، لاکھوں خدائوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی میں لاناتھا ۔

اس مقصد کے لئے نبی اکرم نے اپنا وطن ، مال اور صلاحیتیں قربان کیں ۔

ہمیں چاہیے کہ اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے دعوت و تبلیغ اور دین حق کی بالا دستی کے لئے اپنی ساری زندگی لگادیں ۔

رسول اللہ کی زندگی پر عمل کریں اور کسی بھی چیز کے بدلے اپنے ایمان کا سودا نہ کریں اور ہمیشہ سنت نبویﷺ کی تائید کرتے رہیں ،اسلام دشمن عناصر کا بہادری اور جرأت مندی کے ساتھ دفاع کریں اس پر فتن دور میں بغیر کسی فتن کا شکار ہوئے کتاب و سنت سے اپنا رشتہ مضبوط بنا لیں ۔

قارئین کرام!جب عملی زندگی میں سیرت رسول کو اپنانے کی بات آتی ہے تب ہم اپنے آپ کو بہت ہی پیچھے محسوس کرتے ہیں محبت رسول کے کھوکھلے دعوے تو ہر مسلمان کرتا ہے لیکن عملی میدان میں بہت سست اور کاہلی کا شکار ہے۔

آج ہمیں رسول اللہ کی زندگی کو اپنی زندگیوں میں اپنانا بہت ضروری ہے۔

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’بلا شبہ رسول اللہ کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب:21)

جب ہم سیرت رسول کو اپنائیں گے تو نصرتیں اور فتوحات ہمارے قدم چومیںگی جس طرح ہم سے پہلے صحا بہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چوما کرتی تھی۔

آج ہماری زندگیوں میں سیرت رسول کو اپنانے کی شدید ضرورت در پیش ہے کیونکہ دور حاضر کے مسلمان مغلوب اورذلت و رسوائی کا مقدر بنتے جارہے ہیں ،ہر جگہ مسلمان ظلم و بربریت کا شکا ر ہیں ہر گھڑی ہر لمحہ مسلمانوں کی مصیبتیں بڑھتی جا رہی ہیں ان سب پریشانیوں کی بنیادی وجہ سیرت رسول اللہﷺ کا ہماری زندگیوں سے نکل جانا ہے تو آج ہمیں اپنی زندگیوںمیں سیرت رسول کو اپنانا لازم ہے جس کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ نجات ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میںمحبت رسول کے تقاضے پورےکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

سیرتِ رسول ﷺبزبانِ خادمِ رسول

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب نو سال کی عمر کو پہنچے تو ان کی والدہ محترمہ نے ان کو نبی علیہ الصلاة والسلام کی خدمت میں ان کی خدمت کے لیے پیش کیا جیسا کہ خود سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میری والدہ مجھے رسول ﷲ کے پاس لے گئیں او کہا : اے اﷲ کے رسول !

خُوَيْدِمُكَ أَلَا تَدْعُو لَهُ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ، أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَأَطِلْ حَيَاتَهُ، وَاغْفِرْ لَهُ . فَدَعَا لِي بِثَلَاثٍ، فَدَفَنْتُ مِائَةً وَثَلَاثَةً، وَإِنَّ ثَمَرَتِي لَتُطْعِمُ فِي السَّنَةِ مَرَّتَيْنِ، وَطَالَتْ حَيَاتِي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ مِنَ النَّاسِ، وَأَرْجُو الْمَغْفِرَةَ (أدب المفرد:653)

 آپ کا یہ چھوٹا سا خادم ہے اس کے لیے دعا کیجیے۔ آپ نے دعا فرمائی : اے اﷲ ! اس کے مال واولاد میں برکت فرما ، اسے لمبی عمر عطا کر اور اسے بخشش دے۔ سیدناانس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے لیے تین مرتبہ دعاکی پس میں نے 103 اشخاص کو (اپنے دستِ مبارک سے)دفن کیا، اور میرے پھل دار درخت سال میں دو مرتبہ پھل دیاکرتےاور میری عمر اتنی لمبی ہوئی ہے کہ میں اپنے گھر والوں سے شرم محسوس کرتا ہوں۔ اب صرف چوتھی دعا باقی رہ گئی ہے یعنی مغفرت۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے کہ:

خَدَمْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ

(صحیح مسلم : 6011)

میں نے ( تقریباً ) دس سال تک رسول اللہ کی خدمت کی ۔کے مطابق دس سال کے عرصے میں امام الانبیاء علیہ السلام کی سیرت کو جو خادم رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے دیکھا اور نوٹ کیا وہ آگے بیان کیا جن میں سے مختصر چند پہلو آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں !

خادم رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کائنات علیہ السلام کے حسن جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

كَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ، ‏‏‏‏‏‏أَزْهَرَ اللَّوْنِ لَيْسَ بِأَبْيَضَ أَمْهَقَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا آدَمَ لَيْسَ بِجَعْدٍ قَطَطٍ وَلَا سَبْطٍ رَجِلٍ أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ فَلَبِثَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ وَقُبِضَ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَبِيعَةُ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ شَعَرًا مِنْ شَعَرِهِ فَإِذَا هُوَ أَحْمَرُ فَسَأَلْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ احْمَرَّ مِنَ الطِّيبِ

آپ آدمیوں میں متوسط تھے، نہ درازقد اور نہ پست قامت آپ کا رنگ چمک دار تھا، نہ خالص سفید اور نہ نراگندمی۔ آپ کے بال بھی درمیانے درجے کے تھے، نہ سخت پیچ دار(گھنگریالے)اور نہ بہت سیدھے۔ چالیس سال کی عمر میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ دس سال مکہ میں رہے وحی نازل ہوتی رہی اور دس برس مدینہ میں رہے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے سراور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ (راوی حدیث ) کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے بالوں میں سے ایک بال دیکھا تو وہ سرخ تھا۔ میں نے پوچھا تو کہا گیا کہ یہ بال خوشبو کے استعمال سے سرخ ہو گیا ہے۔(صحیح بخاری:3547) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَخْمَ الْيَدَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ حَسَنَ الْوَجْهِ لَمْ أَرَ بَعْدَهُ وَلَا قَبْلَهُ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ بَسِطَ الْكَفَّيْنِ. ( صحیح بخاری : 5907 )

 نبی کریم کی ہتھلیاں اور قدم مبارک گوشت سے پُر تھے۔ میں نے آپ جیسا (خوبصورت) کوئی نہ پہلے

دیکھا ہے اور نہ بعد میں۔ آپ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔

اور فرمایا:وَلَا مَسِسْتُ خَزَّةً وَلَا حَرِيرَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا شَمِمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَبِيرَةً أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح بخاری : 1973 )

اور میں نے کوئی ریشم اور مخمل رسول اللہ کی

ہتھیلیوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور نہ میں نے کوئی

مشک اور عنبر رسول اللہ کے پسینے کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار سونگھا۔

نبی کریم ﷺکے بالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

كَانَ شَعَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجِلًا لَيْسَ بِالسَّبِطِ وَلَا الْجَعْدِ ‏‏‏‏‏‏بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ

رسول اللہ کے بال درمیانہ تھے نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ گھونگھریالے اور وہ کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک تھے۔ (صحیح بخاری:5905)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہےکہ :

فَخَدَمْتُهُ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا ( صحیح بخاری : 6911 )

میں نے نبی کریم کی خدمت سفر میں بھی کی اور گھر پر بھی۔ واللہ ! نبی کریم نے کبھی مجھ سے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ : یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا اور نہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ : یہ کام تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔

خادم رسول سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت سے نبیء کائنات کا اخلاق حسنہ واضح ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کس قدر شفیق ومہربان تھے کبھی بھی اپنے خادم کو کوئی تکلیف نہیں دی حتی کہ اف تک نہیں کھا اور ہمارے معاشرے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو بالکل اس کے الٹ ہی نظر آتا ہے، ہماری زبان کے شر کی وجہ سے بعض لوگ راستہ بدل لیتے ہوں، ہمارے برے کردار سے بچنے کے لیے ہی لوگوں نے ہم سے ملنا چھوڑدیا ہو خدارہ ! اپنے پیارے پیغمبر علیہ السلام کا اخلاق پڑھیں اور غور کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟! آپ علیہ السلام اگر کسی مسلمان بھائی کو نہیں دیکھتے تو اس کے متعلق پریشان ہوجاتے اور صحابہ سے ان کے متعلق پوچھا کرتے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:‏

أَنَّ غُلَامًا مِنَ الْيَهُودِ كَانَ مَرِضَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏  أَسْلِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَ رَأْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ:‏‏‏‏ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَسْلَمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ بِي مِنَ النَّارِ ( سنن ابی داود : 3095 )

 ایک یہودی لڑکا بیمار هوا تو نبی اکرم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا : تم مسلمان ہو جاؤ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا: ابوالقاسم کی اطاعت کرو ، تو وہ مسلمان ہو گیا، آپ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی ۔

ہمارے پیارے پیغمبر علیہ السلام تو یہودیوں کے بچوں سے بھی خیرخواہی کرتے جیسا کہ خادم رسول کا کہنا ہے۔

اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، فَأَتَى قَوْمَهُ فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَوَاللهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَاءً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ فَقَالَ أَنَسٌ: إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيُسْلِمُ مَا يُرِيدُ إِلَّا الدُّنْيَا، فَمَا يُسْلِمُ حَتَّى يَكُونَ الْإِسْلَامُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا عَلَيْهَا ( صحیح مسلم : 6020 )

ایک شخص نے نبی کریم سے دوپہاڑوں کے درمیان ( چرنے والی ) بکریاں مانگیں ، آپ نے وہ بکریاں اس کو عطا کر دیں پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میری قوم اسلام لے آؤ ، کیونکہ اللہ کی قسم!بیشک محمد اتنا مال عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ بھی نہیں رکھتے ۔ سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : بے شک کو ئی آدمی صرف دنیا کی طلب میں بھی مسلمان ہو جا تا تھا ، پھر جو نہی وہ اسلام لا تا تھا تو اسلام اسے دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا تھا ۔ مذکورہ سیرت رسول پڑھیں باربارپڑھیں اور اپنا کردار بھی ایک دفعہ ضرور دیکھیں کافر مشرک یہودی دور کی بات ہے ہم مسلمان اور مسلمانوں کے بچوں سے کیا سلوک کیا کرتے ہیں ؟!

سیدنا انس بن مالك‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ مِنْ رَسُولِ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌(صحیح مسلم : 4280)

رسول اللہ‌ سے زیادہ میں نے بچوں پر رحم كرنے والا كوئی نہیں دیكھا۔

ایک روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

مَرَّ عليْنَا رسول الله ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم  ونحنُ صِبْيانٌ فقال: السَّلامُ عليْكُم يا صِبْيانُ(صحیح ابن حبان : 6323)

رسول اللہ ہمارے پاس سے گزرے ،ہم بچے ہی تھے۔آپ نے فرمایا:اے بچو! السلام علیکم ۔

گویا آپ علیہ السلام بچوں سے بے تحاشا پیار کرتے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتے ۔آپ علیہ السلام اگر کسی مسلمان کو نہ دیکھتے تو پریشان ہوجاتے اور ان کے گھر عیادت کےلیے جاتے ہم مسلمان بھائی کو دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں یعنی اپنے مسلمان بھائی کی آمد پر خوش نہیں ہوتے اس کی تکریم نہیں کرتے بلکہ اسے ایذاء و تکالیف دیتے ہیں !سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ أَبُو عُمَيْرٍ قَالَ:‏‏‏‏ أَحْسِبُهُ فَطِيمًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟ نُغَرٌ كَانَ يَلْعَبُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّمَا حَضَرَ الصَّلَاةَ وَهُوَ فِي بَيْتِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْمُرُ بِالْبِسَاطِ الَّذِي تَحْتَهُ فَيُكْنَسُ وَيُنْضَحُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُومُ وَنَقُومُ خَلْفَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُصَلِّي بِنَا (صحیح بخاری : 6203 )

نبی کریم حسن اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے، میرا ایک بھائی ابوعمیر نامی تھا۔ بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ بچپن کا دودھ چھوٹ چکا تھا۔ نبی کریم جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے ’’يا أبا عمير ما فعل النغير‘‘ اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہو جاتا اور نبی کریم ہمارے گھر میں ہوتے۔ آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم دیتے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہوتے، چنانچہ اسے جھاڑ کر اس پر پانی چھڑک دیا جاتا۔ پھر آپ کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے۔ یعنی نبی کریمﷺانتہائی اچھے اخلاق کے مالک تھے اپنے صحابہ سے بے تحاشا پیار کرتے اور ان کے ہاں جاتے ان سے مزاح کیا کرتے ان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ان کی تربیت کرتے انہیں دینی امور میں ترغیب دلاتے ۔آپ علیہ السلام عدل انصاف کے پیکر تھے کبھی بھی کسی سے نا انصافی نہیں کی ہر چھوٹے اور بڑے کو اپنا حق ادا فرمایا جیسا کہ امام زھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : مجھے خادم رسول سیدنا انس بن مالک نے بتایا :

‏‏‏‏أَنَّهَا حُلِبَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ دَاجِنٌ وَهِيَ فِي دَارِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَشِيبَ لَبَنُهَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي فِي دَارِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ، ‏‏‏‏‏‏فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ وَخَافَ أَنْ يُعْطِيَهُ الْأَعْرَابِيَّ، ‏‏‏‏‏‏أَعْطِ أَبَا بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ الْأَعْرَابِيَّ الَّذِي عَلَى يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ

 رسول اللہ کے لیے گھر میں پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کے گھر میں پلی تھی۔ پھر اس کے دودھ میں اس کنویں کا پانی ملا کر جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا، نبی کریم کی خدمت میں اس کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ نے اسے پیا۔ جب اپنے منہ سے پیالہ آپ نے جدا کیا تو بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ڈرے کہ آپ یہ پیالہ دیہاتی کو نہ دے دیں۔ اس لیے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کو دے دیجیے۔ آپ نے پیالہ اسی دیہاتی کو دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا۔ اور فرمایا کہ دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہو۔(صحیح بخاری : 2352 )

 آپ علیہ السلام حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے پورے پابند تھے بلکہ آپ ﷺہمارے لیے اسوہ تھے اور ہیں حقوق اللہ یعنی صوم صلاة صدقات خیرات میں سب سے آگے اور خوب اہتمام کرنے والے تھے جیسا کہ خادم رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

مَا كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَرَاهُ مِنَ الشَّهْرِ صَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مُفْطِرًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مِنَ اللَّيْلِ قَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتُهُ “( صحیح بخاری : 1973 )

 جب بھی میرا دل چاہتا کہ آپ کو روزے سے دیکھوں تو میں آپ کو روزے سے ہی دیکھتا۔ اور بغیر روزے کے چاہتا تو بغیر روزے سے ہی دیکھتا۔ رات میں کھڑے (نماز پڑھتے) دیکھنا چاہتا تو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھتا۔ اور سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تو اسی طرح دیکھتا۔

۔۔۔

فلسفہ خیر و شراور حیاتِ انسانی

اس دنیا میں خوشی اور غم کے پیمانے ہر شخص کے لیے الگ ہیں، اکثر ایک کی خوشی دوسرے کے لیے غم یا دکھ کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے نزدیک خیر اور شر کے پیمانے اور اس کے احساسات جدا جدا ہیں۔بظاہر تو خیر وہ ہے جو انسانوں کی اجتماعیت کے لیے پسندیدہ اور قابل قبول ہوجب کہ اس کی معکوس شکل سواد اعظم کے لیے ناقابل قبول اور کراہیت آمیز ہو۔در اصل انسان خیر و شر دونوں کی بیک وقت صلاحیتوں کا حامل ہے ،جو بلا واسطہ ربّ کا ئنات سے انسان کی طرف منتقل ہوئی ہے۔پس فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اس کی دلیل ہے۔

اس دنیوی زندگی میں انسان کے افعال کی دو ہی صورتیں ہیں فطری اور اخلاقی یا دیگر الفاظ میں اعضاء کے افعال اور دل کے افعال، چنانچہ ہمارا عمل اسی صورت میں اخلاقی ہو سکتا ہے جب کہ ہم اسے حالت اختیار میں کریں نہ کہ کسی دباؤ کے زیر اثر ۔اخلاقی فعل انسان کی اکتسابی ملک ہے ، اس کے بر خلاف علم وہبی ہے، کچھ تو وحی کے ذریعے سے اور کچھ روشنی طبع سے عطا ہوا ہے اگرچہ نزول وحی سے پہلے بھی انسان پر یہ فرض تھا کہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچانے، خیر و شر میں تمیز کرے، نیک، سچائی اور عدل کی زندگی بسر کرے۔سمیع و بصیر ہونے کی صلاحیت نے انسان کوعبدیت و اطاعت کا مکلف بنا یا ہے۔

قدرت نے انسان کے وجود میں فجور و تقویٰ کا مادہ رکھ کر اور اسے ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ اچھائی اور برائی میں سے کس راستے کا انتخاب کر تا ہے اور اپنی زندگی کس ڈھب اور اور کن طریقوں پر گزارتا ہے۔انسان کا طرز زندگی دراصل عکس ہوتا ہے اس کی فکر اور سوچ کا ۔ انسان کے کردار پراس کی سوچ کا گہرا اثر پڑتا ہے۔جس طرح کے عقائد و نظریات ہوں گے ، اعمال بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔گویا انسان کا نظریۂ زندگی ہی اس کے تمام اعمال و افعا ل پر حکمرانی کرتا ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی سوچ ایک اندرونی و ذہنی عمل ہے جس میں چیزوں اور واقعات کو مختلف انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے۔یعنی سوچ ایک داخلی عمل ہے جو فرد کے ماضی کے تجربات ، مو جودہ حالات اورانسان کی اندرونی کیفیات سے متعین ہوتا ہے۔انسان حیوانات سے اسی بنا پر فائق ہے کہ حیوانات میں شعور ہے ، عقل نہیں ہے۔ جبکہ انسان میں عقل بھی ہے اور شعور بھی، چنانچہ اسی عقل و شعور کے امتزاج سے انسان غور و فکر کے مراحل طے کر کے اپنے لیے ہدایت کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ تاریخ انسانی میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس حقیقت کا  بہترین نمونہ ہیں ۔ آپ نے غور و فکر کے مدارج طے کر کے ہی ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کی اور وہ بالآخر راہِ ہدایت سے فیضیاب ہوئے تھے۔

مذکورہ بالا تمام حقائق کے علاوہ ایک اور بھی حقیقت نفس الامری ہے کہ انسان کے افکار و اعمال میں خیر و شر پھیلانے میںمعاشرے کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ایک طرف جہاں معاشرہ کی کچھ سعید ہستیاں انسانوں میں اعلیٰ اخلاق اور مہذب طرز زندگی کی راہ دکھاتی ہیں ان کی دنیا و دین کی بھلائیوں سے ان کے دامن بھرتی رہتی ہیں ، وہاں دوسری طرف معاشرہ کے ناسور اپنی

خباثتوں اور مجرمانہ ذہنیت کے تحت ایک تناؤ، خلفشار اور

اخلاقی قدرو ں کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے راہ و رسم اور طرز عمل میں حق تلفیاں، نا انصافیاں، جبرو استبداد اور عصبیت پسندی کی روش نمایاں ہوتی ہے جس سے سماج میں ایک ہیجان ، احساس محرومی کی تلخیوں کا زہر انسانیت کی رگوں میں سرایت کر رہا ہوتا ہے جو معاشرہ کی رگوں میں مایوسیوں اور منفی سوچوں کا اندھیرا پھیلا رہا ہوتا ہے۔ اور یہ سب انفردادی اور اجتماعی سطح دونوں پر ہوتا ہے۔

در اصل قوموں کی بقا اور ترقی ان کی تہذیب و تمدن کی نشوونما اور ان کے اعلیٰ اخلاق اور احترامِ آدمیت پر منحصر ہوتی ہے۔

پروفیسر خورشید احمد اپنی تالیف ’’ اسلامی نظریۂ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ اخلاق کا تعلق خدا اور بندے کے باہمی رشتے سے نہیںبلکہ ان تعلقات سے ہے جو انسانوں اور انسانوں کے درمیان قائم ہوتے ہیں۔معاشی لین دین ہویا سیاسی معاملات ، سماجی برتاؤ ہو یا افراد خاندان سے سلوک، اسلام سب کو اخلاقی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے۔قرآن و سنت میں معاملات و معاشرت سے متعلق با لتفصیل ان کی صفات کا ذکر ہے جو خدا کو پسند یا نا پسند ہیں۔‘‘

خیر و شر کی دو ممکنہ صورتیں ظہور پذیر ہوسکتی ہیں۔ ایک فاعلی صورت اور دوسری مفعولی۔ فاعلی صورت میں ہم کسی کو خیر مہیا کر رہے ہوتے ہیں اور مفعولی حالت میں ہم خود کسی ذریعے یا وسیلے سے خیر حاصل کرتے ہیں۔بعینہٖ شر اور فساد کو پھیلانے میں بھی ہم کبھی فاعل اور کبھی مفعول کا کردار ادا کرتے ہیں، دانستہ یا نا دانستہ دونوںکیفیات میں ہم سے یہ اعمال صادر ہوتے ہیں۔ اس بات کو ایک اور انداز میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنے طرز عمل سے ارد گرد کے لوگوں کو تہذیب ، انسانیت اور اعلیٰ قدروں سے قریب کر رہے ہوتے ہیں یا انھیں ان سب سے دور، دراصل ایک تبلیغ خاموشی کی زبان سے بھی ہوتی ہے، جسے بدن بولی کہتے ہیں، جبکہ بسا اوقات بڑے بڑے علمی، ادبی ، مذہبی مباحث ، فکری مقالات اور مکالماتِ فلاطون بھی بے تاثیر ہوجاتے ہیں ۔اس لیے کہ تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کے ذریعہ کی جاتی ہے نہ کہ مجرد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔ بقول شاعر     ؎

واعِظ کے پند سے دل پہ اثر کیا خاک ہو

خواہش دل اور ہے طرز بیاں کچھ اور

فرانسیسی سرجن اور بائیلوجسٹ ڈاکٹر الیکسس کیلر(alexis Carrel)اپنی کتاب (The Unknown Man) میں لکھتے ہیں: ’’موجودہ زندگی انسان کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ دولت کو ہر ممکن ذریعہ سے حاصل کرے۔ لیکن یہ ذرائع دولت کے مقصد تک نہیں پہنچاتے ، یہ انسان میں ایک دائمی ہیجان اور جنسی خواہشات کی تسکین کا ایک سطحی جذبہ پیدا کر تے ہیں۔ ان کے اثر سے انسان صبر و ضبط سے خالی ہوجاتا ہے۔اور ہر ایسے کام سے گریز کرتا ہے جو ذرا دشوار ہوتا ہے۔‘‘ عالم انسانیت کی دورِ حاضر کی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا نظرآتا ہے کہ تہذیب ِ جدید ایسے انسان پیدا کرہی نہیں سکتی جن میں فنی تخلیق،ذکاوت و جرأت اور فراست و دانش ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہرملک کے صاحب اقتدار طبقے میں جس کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے، ذہنی اور اخلاقی قابلیت میں نمایاں انحطاط واضح نظر آتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کہ تہذیب جدید نے ان بڑی بڑی اور ناگزیر ضرورتوں اور احتیا جات کو کما حقہ پورا نہیں کیا جو انسانیت نے اس سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اوریہ تہذیب ایسے لوگ پیدا کرنے میں ناکام رہی جو ذہانت و فطانت اور ہمت و جرأت کے مالک ہوں اور تہذیب کو ان دشوار گزار راستے پر سلامتی و آسودگی کے ساتھ لے جاسکیں ، جس پر آج انسانیت ٹھوکریں کھا رہی ہے اور احترام آدمیت دنیاسے بتدریج مٹتا جا رہا ہے۔

جب تک سماجی روایات نہ بدلیں، محض قانون بنا نے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔اس قسم کی چیزیں کبھی قانون کے ذریعہ نافذ نہیں ہوسکتیں ،دنیا کا قانون طبیعی طور پر تو نتیجہ خیز ہوسکتا ہے مگر اخلاقی طور پر فکر اور نظریے کو بدلے بغیر ثمر ور نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں حرمت شرا ب کو تین مراحل میں طے کیا گیا۔کسی چیز پر عامل ہونے کے لیے اولین شے ذہن سازی ہوتی ہے۔مکہ کی ۱۳ برس کی ذہن سازی نے وہ غیو ر، شجاع اور دین کی حمیت میں ڈوبے وہ سپاہی اور مجاہدین تیار کیے جو دین کی آبرو اور اس کی آبیاری کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتے تھے۔وسائل کی کمی کسی میدان میں بھی ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بنی۔بقول علامہ اقبال    ؎

کافر ہے تو شمشیر پہ کر تا ہے بھروسہ

مؤمن  ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اس حیاتِ دنیوی میں اکثر و بیشتر خلافِ مزاج باتیں پیش آتی رہتی ہیں،زندگی تو نام ہے ناموافق باتوں کاسامنا کرتے ہوئے سفرحیات طے کرنا ۔ جو انسان جتنا زیادہ بامقصداور با اصول ذہن کا حامل ہو اتنا ہی زیادہ اس کو اپنی پسند اور مرضی کے خلاف معاملات کو برداشت کر نا پڑے گا۔اس صفت کی ضرورت دنیوی معاملات میں بھی پیش آتی ہے اور دینی معاملات میں بھی۔

ہم جس دنیا میں بستے ہیں وہ اسباب و علل کی دنیا ہے۔دنیا میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کسی نہ کسی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔اس میں کچھ ہم انسانوں کا اور کچھ تکوینی مصلحتوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔لیکن ہر انسان اپنے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار حالات کا ذمہ دار دوسروں کو ہی گردانتا ہے ۔اپنا محاسبہ کرنا اس کے حاشیہ خیال میں ہی نہیں ہوتا۔اور اگر کبھی خیال آبھی جائے تو اس کا برملا اظہار کرنے کی جرأت ہی اس میں نہیں ہوتی۔اور وہ حاالات کی گتھی کو کبھی سلجھا نہیں پاتا۔ بقول شاعر    ؎

الٰہی   خیر  ہو  الجھن  پہ  الجھن  پڑتی  جا  تی  ہے

نہ  میر ا  دم  نہ  ان  کے  گیسو  کا  خم  نکلتا  ہے

لیفٹینیٹ کرنل (ر) عادل اختر اپنی تصنیف ’’ چہ باید کرد‘‘ میں رقم طراز ہیں :’’ اخلاقی اقدار کا امین درمیانہ طبقہ ہوتا ہے۔ہمت، حکمت ، علم اور عقل اس طبقے کی میراث ہوتی ہے۔اس طبقے کے اندر لڑنے مرنے اور آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ ہوتا ہے۔مگر اس طبقے کی تعداد اور طاقت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔‘‘

فطری حالت میں نفس انسانی علم سے خالی ہوتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: 

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

’’ اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔اوراس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور ان کے علاوہ اور اعضاء ) بخشے تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘ ( النحل ۷۸)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ پیدائش کے وقت بچے کا ذہن یکسر صاف ہوتا ہے، ما سوا اس کی جبلی ضرورتوں، بھوک ، نیند ،موت وغیرہ۔جبکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے اندر استعداداتِ علم (Faculties of Knowkedge ) ، سماعت و بصارت اور سوچنے والا دل بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ چنانچہ یہ جبلی صلاحیتیں اس کا جوہر ہوتی ہیں جبکہ استعدادات علم کو تصرف میں لاکر اس کی شخصیت پر وان چڑھتی ہے۔اور اس کے نظریات، عقائد اور اخلاقی تصورات تشکیل پاتے ہیں۔ آدمی کے ذہنی ارتقا کے لیے لازمی ہے کہ اس کا پیدائشی جوہر اور اس کی شخصیت بیک وقت ترقی کرتے رہیں اور ایک دوسرے کی ہم آہنگی میں ایک دوسرے کے اوپر اثر انداز ہوں۔لیکن اکثر ان دونوں کا متوازی سفر کرنا محال ہوتا ہے۔جوہر غالب آجائے تو شخصیت مضمحل ہونے لگتی ہے اور شخصیت فوقیت حاصل کرلے تو جوہر سسکنے لگتا ہے۔

ہر انسان کے اندر ایک آدمی بھی ہوتا ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگوں میںآدمیت کا غلبہ ہوتا ہے اور کچھ میں انسانیت کا ترفع۔شعور ذات(Self Consiouness) کا صحیح ادراک آدمی کو انسان کے درجہ پر فائز کرتا ہےاور پھر وہ اپنی بالقوہ (Potential ) استعدادات و صلاحیتو ںکی کشادہ پگڈنڈیوں پر اپنے لیے وہ راہ اختیار کر تا ہے جو اسے اپنے خالق اور پالن ہار تک پہنچنے کے لیے روشنی دکھا تی ہے۔جب کہ محض آدمیت کا رنگ انسانی شخصیت کو مادی لذتوں کا ہی اسیر بنادیتا ہے۔اس لیے ہر آدمی کو اپنے باطن میں جھانک کر اپنا مقصد زندگی کو سمجھنا نا گزیر ہوتاہے۔خیر و شر کا اصل پیمانہ عقل و خرد کی روشنی میں ہی واضح نظر آسکتا ہے۔ورنہ نفس کی خواہشات کے ابھرتے تقاضے آدمی کو انسان بننے ہی نہیں دیتے۔

مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ ’’ اخلاق اور فلسفہ اخلاق‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ انسان اپنے نفس کی گہرائی میں ایک قوت محسوس کرتا ہے جو اس کو برے کام سے اس وقت روکتی ہے جب وہ اس کو کرنے پر ترغیب دیا جاتا ہے، اور وہ برابر اس کے درپے رہتی ہے کہ کسی طرح وہ اُس کو وہ عمل نہ کرنے دے ،اور وہ جب اس عمل کے کرنے پر ہٹ کرنے لگتا ہے،اور اس کو شروع کر دیتا ہے تو وہ اثناء عمل میں محسوس کرتا ہے اس قوت کے اثر کو نہ ماننے کی وجہ سے اُس کو راحت و سکون ِ قلب حاصل نہیں ہے۔ٍٍ

اسی طرح یہ قوت اُس کو واجب اور ضروری اعمال کے کرنے کا حکم دیتی ہے ،اور اگر وہ حکم کے زیر اثر اس کام کو کرنے لگتا ہے تو اس عمل کے دوام و استمرار پر اُس کو بہادر بناتی ہے، اور جب وہ اس کو مکمل کر لیتا ہے تو اطمینان اور راحت پاتا ہے اور نفس کی رفعت و بلندی کو محسوس کرتا ہے۔ایسی آمر وناہی (حکم کرنے والی اور منع کرنے والی) قوت کا نام ’’وجدان یا ضمیر ہے۔‘‘

انسانی نفس کا صدور روحِ مطلق سے ہوا ہے اور تمام افراد کی روحیں مل کر ایک جوہر بناتی ہیں جسے انسان مطلق یا روحِ انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ہرایک روح مادے کے اندر شامل ہے اور بتدریج غیر مادی بنتی ہے۔اس کام کے لیے اس میں بہت سی صلاحیتیں اور قوتیں موجود ہیں ۔ ان میں نظری قوتیں سب سے برتر ہیں کیونکہ علم ہی روح کی جان ہے۔

انسان کے افعال نیک اس وقت کہلاتے ہیں جب وہ اپنی فطرت اصلی کی پیروی کر تاہے،جو قابل تحسین نفس کا آزاد عمل ہے۔ پسندیدہ وہ کام ہے جو عقلی غورو فکر کے بعد کیا جائے اور مستحق جزاء یعنی عالم افلاک میں پہنچا دینے والی کائنات کے ناموس الٰہی کی پابند ی ہے۔اس کے لیے ناگزیرہے کہ قلب انسانی میں روحانی ترقی کی طلب ہو اس لیے سب سے افضل نیکی محبت ہے جو محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے وصل کی طالب ہے اور اس آرزو کے اثر کے تحت انسان اس دنیوی زندگی میں بھی مذہبی روا داری سے کام لیتا ہے،مخلوق کا درد اسے اپنا درد محسوس ہوتا ہے۔اور وہ ہر برائی کو احسن طریق پر دور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔قرآن حکیم کے اس حکم کے بموجب:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ  ( حٰم السّجدہ 34۔35)

’’ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ۔تو(سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دوجو بہت اچھا ہو،(ایسا کرنے سے تم دیکھوگے)کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔اور یہ بات انھیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جوبڑے نصیب والے ہیں۔‘‘

 پروفیسر محمد منور نے اپنی تصنیف ’ برہانِ اقبال‘‘ میں لکھا ہے:

’’ایک اور بات جو قرآنِ حکیم کے مطالعہ سے واضح ہوتی ہے ، و ہ یہ ہے کہ تاریخ ِآدم حیوانی جبلتوں اور روح کے مابین ایک مستقل کشمکش کا نام ہے۔بقول ِ برگساں، ارتقا زندگی کی اس جدوجہد کا نام ہے جو وہ مادے کے تسلط سے نجات پانے کی خاطر عمل میں لاتی ہے۔مادہ مادے کی طرف کھنچتا ہے اور ظاہر ہےانسانی وجود میں ٹھوس وزنی حصہ مادے ہی کا ہے اور وہی بالعموم حاوی رہتا ہے۔روح کی لطافت کو محنت سے تقویت دینا پڑتی ہے،جب کہیں وہ وجود کے مادی حصے کو مادے کی نذر ہونے سے بچا پاتی ہے۔ انسان ذرا غا فل ہو تو پستی میںچلا جاتا ہے۔‘‘

خیر و شرکے مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے کے لیے مجرد ہمار ا فہم علم اور سطحی مشاہدہ کافی نہیں ہے۔انسان کو ودیعت کیے ہوئے حواس خمسہ نے بلاشبہ کائنات کی بہت ساری گتھیوں کو سلجھا کر اس کو زندگی کی سہولتیں اور محیر العقول ایجادات و اختراعات سے نوازا ہے اس لیے عقل کی اہمیت سے کلّی طور پر انکار ممکن نہیں۔تاہم اللہ کی تائید و نصرت ساتھ نہ ہو تو بہت سے عقدے نہیں کھل پاتے اور انسان لاعلمی کے اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے۔اس لیے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے اس کی قلت اور محدودیت کا اعتراف تو انسان ہی نہیں فرشتوں نے بھی کیا ہے، قرآن حکیم میں ملائکہ کا یہ قول نقل ہوا ہے:

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

’’انھوں نے کہا تو پاک ہے جتنا علم تونے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔بیشک تو دانا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرہ ۳۲)

چنانچہ اسلام کی تعلیمات کے بغور مطالعہ کے بنا ہم نیکی و بدی اور خیر و شر کا صحیح فہم حاصل نہیں کرسکتے۔مجرد علم ہر گتھی کو سلجھانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا جب تک اللہ کی ہدایت رہنمائی نہ فرمائے۔قرآن حکیم نے جو خیر و شر کا نظریہ پیش کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ معروف اور جانی پہچانی چیز کو خیر کہتے ہیں۔فطرت جسے قبول کرنے میں سوچ بچار نہیں کرتی، مانوسیت کا ایک لطیف احساس انسان کو اپنے قلب و ذہن میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔اور شر وہ ہے جسے منکر کا نام دیا گیا ہے۔ اور ہر قسم کے منکرات سے اجتناب کر نے پر مذہب زور دیتا ہے۔اور نہ صرف یہ کہ انسان بذاتِ خود بھی معروف پر عمل پیرا ہو اور منکرات سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حکم  دے اور اس کو کرنے سے روکے۔ازروئے قرآن حکیم:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

’’ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چا ہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دےاور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔‘‘ ( آلِ عمران ۱۰۴)

نیکی جو اپنے حقیقی تقاضوں کے ساتھ کی جائے وہی دراصل خیر اعلیٰ ہے۔اور اس خیر اعلیٰ کے لیے انسان کو اپنی کئی خواہشات اور آرزؤںکو دبانا پڑتا ہے، بیج کو زمین کے سینے میں دبا کر اس کی آبیاری کی جائے تب ہی وہ پہلے پودا اور پھر درخت بنتا ہے۔اسی طرح اگر انسان خود کو خواہشات اور نفس کے حصار میں مقید کر دے تو نیکی اپناپھیلا ہوا دامن سمیٹ لیتی ہے۔اور یوں ایک انسان خیرسمیٹتے سمیٹتے شر و فساد کے اس جال میں جا گرتا ہے جو شیطانی قوتوں نے روز ازل سے ہی ابن آدم کے لیے بچھایا ہوا ہے۔

جرمن فلسفی کانٹ (Immanuel kant) کہتا ہے کہ :

’’انسان اپنی زندگی دو قسم کے محرکات کے تحت گزارتاہے۔ایک حسی(Sensual) اور دوسراخلاقی (Moral) اور دونوں محرکات کے مابین ایک معنوی ربط و تعلق قائم رہتا ہے۔حسی محرکات کا اخلا قی محرکات کے تابع ہونا نا گزیر ہے ، اگرچہ عام طور سے ایسا ہوتا نہیں ہے ، اخلاقی محرکات حسی محرکات کے تابع ہوجا تے ہیں۔اور جونہی حسی محرکات اخلاقی محرکات میں مزاحم ہوتے ہیں ، یہ ’’ شر‘‘   بن جاتے ہیں۔اس لیے انسان میں فطری طور پر’’ شر‘‘ کا رجحان پایا جاتا ہے۔‘‘( بحوالہ:  اسلام اور فلسفہ از خان محمد چاولہ)

  ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں خیرو شر کے فلسفے کو اسلام کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہئے۔ خالق ارض و سماء نے ہر انسان میں اپنی حکمت و مصلحت اور تکوینی اسرار کے تحت خیر وشرکے داعیات رکھے ہیں۔اس کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا

’’ اور (قسم ہے) انسانی جان کی اور اس کی جس نے اسے سنوارا، پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری ہے، فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں)دھنسا دے۔ ‘‘ ( الشّمس ۷،۸،۹،۱۰)

قرآنِ حکیم کی آیات پر غور کرنے سے یہ حقیقت آشکارہوتی ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کو کئی معنوں میں بیان کرتا ہے مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے کہ:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

’’ اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جس کے افراد(لوگوں کو ) بھلائی کی طرف بلائیں ، نیکی کی تلقین کریں ، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (آلِ عمران ۱۰۴)

دراصل ہمیں اس عالم رنگ و بو میں جو شرنظر آتا ہے اس میں بھی کوئی نہ کوئی خیر کا پہلوپوشیدہ ہوتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ وہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے بصارت نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر ایک کو حاصل نہیں۔ اس کی دلیل سورۃ البقرہ آیت ۲۱۶ میںبیان ہوئی ہے۔

’’ یہ عین ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم برا سمجھو حالانکہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو،حالانکہ وہ تمھارے حق میں بری ہو( اصل حقیقت تو اللہ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

الشیخ ابن العربی ؒ نے اپنی تصنیف ’’  فُصُوص الحکم‘‘  میں لکھا ہے:’’ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کی چشم ِ بصیرت ایسی نہیں کھولی کہ اشیاء کی فطرت اور ان کی حالت نفس الامری کو جانتا ہو کیونکہ بعض اقتضائے عین سے عالم ہیں اور بعض جاہل ۔ اسی لیے نہ سب کی ہدایت چاہی ، نہ سب کی ہدایت کی اور نہ سب کی ہدایت چاہے گا۔‘‘

قدرت کے ہر کام میں خیرپنہاں ہوتا ہے۔’الوجود خیر کلہ‘   تمام وجود اپنی ذات میں خیر ہی خیر ہیں۔برسات اگر کوٹھی بنگلوں اور مضبوط مکانوں کے مکینوں کے لیے بارانِ رحمت ، مسرت اور تفریح طبع کا باعث ہوتی ہے تو کچے پکے مکانوں اور جھگیوں میں رہنے والوں کے لیے یہی بارش زحمت، تکلیف اور پریشانیوں کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر بظاہریہی تکلیف دہ چیز زمین میں بوئے گئے بیجوں کی آبیاری کے لیے، سوکھی اور پیاسی زمینوں پر لہلہاتی کھیتیوں ، غلہ ، پھل اور میوہ جات جیسی نعمت خداوندی کے حصول کے لیے قدرت کی بے پایاں نعمت ہے ۔ علاوہ ازیںیہی برسات فضا میں پھیلی کثافتوں کو اپنے شفاف پانی سے دھونے اوربہت سارے جسمانی عوارض سے شفا یابی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ گویا بظاہر نظر آنے والا شر انسانوں کے لیے خیر ، بھلائی اور خوشحالی کی نوید لے کر آتا ہے۔ثابت یہ ہوا کہ خیر ہو یا شر دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر ہی خیر ہیں۔اور اس پر ایمان لانا ایک مؤمن کے لیے لازمی ہے۔سرورِ کائنات نے فرمایا:’’ بندۂ مؤمن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں خیر ہی خیر ہے، اگرا س کو خوشی اور راحت و آرام ملے تو وہ اپنے ربّ کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ(اس کو بھی اپنے حکیم و کریم ربّ کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کر تے ہوئے) اس پر صبر کر تا ہے تو یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیراور موجب برکت ہے۔‘‘( مسلم)

عمل کے میدان میں انسان ایک عجیب تضاد میں مبتلا رہتا ہے۔جب وہ بے لوث اور بے غرض ہو کر سوچتا ہے تو انسانوںکے بنیادی حقوق اور ان کی فلاح کی ایک ایمان دارانہ فہرست اس کی ترجیحات میں ہوتی ہے، جس میں عدل و انصاف اور قوانین کی پیروی بھی شامل ہوتی ہے۔ لیکن جب ان سب پر عمل کی باری آتی ہے تو یہی انسان اپنے مسلمہ اصولوں اور ترجیحات کے خلاف ، مفاد پرستی کو حق و انصاف کے تقاضوں پر ترجیح دیتا ہے۔اور اس طرح اپنے کردار و عمل سے اپنی ہی عقل کے مسلمہ تقاضوں کی تکذیب کا مرتکب ہوتاہے۔ دراصل انسانی عقل یہ بتا نے سے با لکل قاصر ہے کہ کون سی قوت ، مفاد پرستی پر حق و انصاف کے تقا ضوں کو مقدم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہے۔چنانچہ یہ ضمانت بھی مذہب ہی فراہم کرتا ہے۔قادر مطلق اور روز محشر ، محاسبۂ اعمال پر ایمان و یقین ہی اس کا واحد ضامن ہے۔اور اس ایمان پر پختگی اور صلابت کے لیے بہترین نمونہ رسول مکرم کی ذات مبا رکہ میں بدیہی طور پر موجود ہے۔ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ

’’ بلا شبہ تم لوگوں کے لیے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امید وار ہو۔‘‘( الاحزاب  ۲۱)

انسان نہ آزاد مطلق و کامل مختارہے اور نہ مجبور ِ محض! انسان کے نفس میں اس کی آزادی کی تکمیل ہوتی ہے، لیکن وہ خارجی حالا ت کی وجہ سے محدود رہتی ہے۔اس طرح ہمارے افعال کی علت مؤثرہ خود ہم میں موجود ہے۔البتہ علت عرضیہ ہم سے خارج ہے، کیونکہ جو قوت ہم کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ایک علیحدہ مستقل وجود رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے افعال میں آزادی دی ہے،مگر خارجی اسباب سے اسے محدود کردیا ہے۔ (بحوالہ:  الکشف عن مناھج الاوّلۃ فی عقائد الملۃ، مصنف:  ابن رشد)

بندۂ مؤمن کا ایمان و یقین اس بات پر ہونا چاہئے کہ یہ دنیا او ر اس کی اپنی زندگی ابدی اور غیر فانی نہیں ہے۔ اس لیے یہاں کی   خیر و بھلائی ، عیش وآرام، دنیاوی نعمتوں کو ایک دن ختم ہوجانا ہے ۔ اور شر کا وجود اور اس کا پھیلاؤ بھی عارضی ہے، یہاں کی تکلیفیں ، اذیتیں،نا انصافیاں اور ظلم وستم بھی ایک دن فنا ہونے والا ہے۔ اور ان تمام کلفتوں ،محرومیوں اور تلخیوں کا بہترین بدل آخرت میں ملنا یقینی ہے۔  

 جس کو ان حقائق پر تیقن حاصل ہوگیا اس کے لیے اس دنیا میں نہ کوئی غم باقی رہے گا اور نہ کوئی خوف!دراصل آزمائش کی اساس ہی خیر و شر ہے۔آزمائش مقصود نہ ہوتی تو نہ شر ہوتا اورنہ خیر کا کوئی تصور، اور نہ موت و زندگی کا یہ سلسلہ تخلیق کیا جاتا ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

 ’’ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کر تا ہے۔اور وہ زبردست(اور) بخشنے والا ہے۔‘‘ (الملک :۲)

خیر ہو یا شر دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہیں، چنانچہ ایک بندۂ مؤمن کا کام اللہ کی رِضا اور اس کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کردینا ہی بندگی کی شان ہے۔ شر کے پردے میںحکمت الٰہی کو سمجھنے کی جہد مسلسل انجام کار ایک دن ذہن کے پرت کھول کر حقیقت سے پردہ اٹھا ہی دیتی ہے۔ اور انسان حینِ حیات اس گردابِ ریب و تردد اور ورطہ ٔ  حیرت سے باہر نکل آتا ہے۔

تلاش  او  کنی  جز  خود  نہ  بینی

تلاش  خود  کنی  جز  او  نہ  یابی

علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

 1926ء – 1996ء

درمیانہ قد، ہلکا پھلکا معتدل جسم، تیکھے نقوش، کشادہ جبیں پر علم و فضل کا آفتاب جلوہ گر،خوبصورت گنجان مسجّع چہرے پر پھیلی پوری داڑھی،بڑی بڑی جھیل سی جہاندیدہ ملّت مسلمہ کے دکھ میں متفکر آنکھیں،سفید شلوار قمیص اور سر پر ٹوپی،علم و ادب کا بحر ذخار، تقلید سے کوسوں دور ، کتاب و سنت کے شیدائی، علم و حلم کا مجسّمہ، دیکھنے میں تو دبلا پتلامگر ذات و صفات میں کسی کوہ گراں سے کم نہیں ‘ تکلفات و تصنعات سے ناآشنا، حاضر جواب، بذلہ سنج،معاملہ فہم،مہمان نواز، اور وضع دار یہ تھے شیخ العرب و العجم علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ (۱۹۲۶ ۔ ۱۹۹۶ء)

آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے سیّد بدیعُ الدین شاہ بن سیّد احسانُ اللہ شاہ بن سیّد رُشدُ اللہ شاہ راشدی بن سیّد رشید الدین شاہ بن سیّد یاسین شاہ راشدی رحمھُم اللہ تعالیٰ بلاشبہ آپ فولادی اعصاب کے مالک تھے، مصائیب و آلام سے کبھی نہ گھبراتے، ملّت مسلمہ کے پاکیزہ ماضی کے امین تھے، آپ بلند پایہ مفسر قرآن، فن رجال کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بلند پایہ خطیبوں میں بھی شمار ہوتے تھے، ان کا انداز خطاب بڑا دلکش، دلنشین اور دل آویز ہوا کرتا تھا، ان کا ہر ہر جملہ کتاب و سنت کی تعلیمات عالیّہ سے مزیّن اور ادبی شہّ پارہ محسوس ہوتا تھا، میری خوش نصیبی کہیے کہ تقریباً ہر سال وادی ریگستان تھرپارکر کے تبلیغی دوروں میں اس ناچیز کو انکی معیّت حاصل ہوتی تھی، تھرپارکر کی رات بڑی پُر سکون اور ٹھنڈی ہوتی ہے ایسے میں دل چاہتا تھا کہ آپ پوری شب بولتے رہیں اور قرآن سنت پڑھتے جائیں حوالے دیتے جائیں ، توضیح و تشرح کرتے جائیں ، آپ قرآن عظیم پڑھتے وقت پارہ اور رکوع کا بالعموم حوالہ دیا کرتے تھے،جی چاہتا تھا کہ شاہ صاحب بولتے رہیں، اور انکی فصیح زبان سے ایک مخصوص انداز میں پھول جھڑتے رہیں اور ہم جیسے سامعین چُنتے رہیں، شاہ صاحب کے مزاج میں بے انتہا تنوّع تھا، آپ جب ملت مسلمہ کی بے اعمالی و بدحالی کا تذکرہ یا فکر آخرت کا نوحہ چھیڑتے تو لوگوں کی آنکھیں اشکبار، اور جذبات پر قابو پانا بڑا مشکل ہوتا ، کئی بار تقریر کرتے ہوئے رات کے دو بج جاتے تھے، شب کی تنہایوں میںمیں نے شاہ صاحب کو تقریر کرتے سنا پھر انکی اثر انگیزی سے زارو قطار لوگوں کو روتے ہوئے پایا۔ آہ

 از دل خیزد بر دل ریزد

انکی زبان شائستہ شسّتہ اور شگفتہ تھی، بعض اوقات جب وہ پیروں فقیروں ، صوفیوں اور سجادہ نشینوں کے کشف و کرامات کے زدہ عام محیّر العقول قصے چھیڑتے تو سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ سج جاتی تھی، شاہ صاحب ساری زندگی صلہ ،ستائش اور شہرت سے بے نیاز ہوکر دور افتادہ گوٹھوں اور قصبوں میں اونٹوں گھوڑوں پرجاکر کتاب و سنت کی دعوت پیش کرتے، سوز و تڑپ کے ساتھ فکر عالم عقبیٰ کی باتیں کر کے لوگوں تک حق اور سچ پہنچایا کرتے تھے، مجھے کئی بار عزیزالقدر ڈاکٹر پروفیسر عبدالعزیز نہڑیو کے ساتھ انکو بار بار قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع ملے پھر کبھی شا ہ صاحب سے خط و کتاب کا سلسلہ بھی باقائدہ نکل آتا ، میں نے انکو بلند ظرّف، وسیع القلب، حسّاس اور محبت کرنے والا شخص پایا،

 بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

خدا رحمت کند این عاشقاں پاک طنیت را

آپ خورد نوازی، ہمت افزائی، نیک نیتی، دینداری اور

تقویٰ و طہارت جیسے کئی اوصاف حمیدہ کے مالک تھے، انہونے پوری زندگی شرک و بدعت کی بیخ کُنی، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں کمی آنے نہ دی اور انہوں نے ہمیشہ فرقہائے باطلہ کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی تعاقب کیا، انکو تفسیر، حدیث، فن رجال اور مذاہب اربعہ کی فقہ میں مہارت تامہ تھی، آپ کا مطالعہ و مشاہدہ بے انتہا وسیع تھا، آپ انسان دوست مردم شناس بھی تھے، آپ بلند پایہ زود نویس مصنف تھے، انہوں نے عربی، اردو اور سندھی مین ایک سو سے زائد معیاری و مثالی تصانیف اپنے پیچھے یادگار چھوڑی ہیں جن میں عربی ’۶۰‘ سندھی ’۲۸‘ اور اردو ’۱۹‘ شامل ہیں، {جن میں کافی علمی کُتب فضیلۃ الشیخ مولانا افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات راشدیہ کی گیارہ جلدوں میں اشاعت پذیر ہو چُکی ہیں} علامہ بدیع الدین شاہ راشدی نادر روزگار شخصیت کے مالک تھے، آپ کی تصانیف لطیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفور معلومات، تبحر علمی، وسعت مطالعہ ومشاہدہ، تحقیق و تدقیق کے بادشاہ تھے، حق گوئی، حق شناسی اور حق پسندی کی علاوہ سنجیدگی وقار توسط واعتدال شاہ صاحب کی تصانیف کی سطر سطر سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے، ویسے بھی جو وقت انکی قربت میں گذارا اُس میں آپ کی شخصیت عُلوّ ھمّت ، وسعت ظرف ذھانت و فراست کے ساتھ انکی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی میں میں نے انکو یکتا پایا، تحمل و برداشت کے ساتھ دلربا شخصیت کے مالک تھے، انکی فقیہانہ بلند نگاہی، اسماء والرجال پر عبور، متکلمانہ بصیرت، مناظرانہ اسلوب ، استدلال بیان جیسی سب چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے انکو سرفراز کیا تھا، باقی کتب چھوڑ کر صرف انکی ایک تالیف ’بدیع التفاسیر‘ گیارہ جلدوں کا بغور مطالعہ کریں تو انکی بلند نگاہی اور جرّــأت گفتار و کردار میں آپ اپنے اور غیروں کی ماتھے کا جھومر نظر آتے ہیں۔

 ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جِسے

علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی وادی سندھ کے سرسبز و شاداب خِطّہ ہالا کے قریب بمقام گوٹھ فضلُ اللہ پیر آف جھنڈو میں ۱۲ مئی ۱۹۲۶ء کو نابغہ روزگار علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(متوفی۱۹۳۸ء) کے گھر میں پیدا ہوئے جنہیں اپنے دور کا فن رجال کا امام کہا جاتاتھا۔(علامہ سیّد سلیمان ندوی، یاد رفتگان)گویا کہ قائدہ کُلیّہ نہیں چونکہ آئے دن اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ اکابرین علم و ادب کی اولاد اپنے والد کے کمالات عالیہ سے محروم بلکہ یکسر مخالف نظر آتی ہے، ایسے میں علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی کا یقینا خو ش نصیب گھرانہ ہے جس میں علامہ سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی اور علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی جیسے علم و ادب کے باکمال بیٹے پیدا ہوئے ہوں یہ اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزندوں ۱۔ محمد شاہ راشدی ، ۲۔نور اللہ شاہ راشدی، ۳۔رشد اللہ شاہ راشدی اور ۴۔ خلیل اللہ شاہ راشدی سے نوازا تھا۔

انکی ابتدائی تعلیم انکے آبائی مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈو میں ہوئی، تین ماہ کی مختصر مدت میں آپ نے قرآن عظیم حفظ کر لیا، پھر تیرہ کے قریب بلند پایہ باوقاراساتذہ کرام سے تحصیل علم کیا، شاہ صاحب کا مزاج خالص علمی و تحقیقی تھا، آپ کی پوری زندگی علمی تلاش و جستجو تحقیق ، بحث و نظرسے عبارت تھی، بلاشبہ راشدی برادران علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمه الله(متوفی ۱۹۹۵ء) اور علامہ بدیع الدین شاہ راشدی صاحباں اس بے آب و گیاہ صحرا میں تن تنہاچل پڑے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سرسبز و شاداب باغ و بہار کا پورا قافلہ عظیم اپنے ساتھ لائے، علامہ سید بدیع الدین شاہ بے مثال قوت حافظہ، پاکیزہ ذھن و فکر کے مالک تھے انہوں نے ساری زندگی کتاب و سنت کی آبیاری میں پوری طرح وقف کردی بڑی بات کہ ان کی طبیعت میں کسی کے لئے کبھی کینہ نہ آیا نسب نامہ کے لحاظ سے آپ چالیسویں پشت میں سیدنا حسین رضي الله عنه سے ملتے ہیں، آپ نے کے مختلف ممالک جن میں امریکا، برطانیہ اور ڈینمارک شامل ہیں ہزاروں مواعظ حسنہ اور محاظراتِ علمیہ پیش کیے۔

 خاک کوئے تو ہر گھ کہ دم زند حافظہ

نسیم گلشن جان در مشام افتد

آپ نے جن عُلماء سے علمی استفادہ کیا ان میں ابو الوفاء ثنائُ اللہ امرتسری رحمہ اللہ (م۱۹۴۸ء) حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ(م۱۹۶۴ء)شیخ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ (م۱۹۷۰ء) علامہ ابو اسحٰق نیک محمدرحمہ اللہ (م۱۹۵۴ء) مولانا شرف الدین محدث دھلوی رحمہ اللہ (م۱۹۶۱ء)سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(۱۹۹۵ء) وغیرھُم شامل تھے۔آپ نے اپنی علمی استعداد بڑھانے کی غرض سے اپنی خاندانی لائبریری میں ہزاروں نادر و نایاب قلمی مخطوطات اور شاہکار کتب کا اضافہ کیا یہ سب چیزیں انکی ذاتی دلچسپیوں، صلاحیتوں اور بلند نگاہی کا مظہر تھیں، انکی مجالس علمیّہ، پند و وعظ، تبلیغ و تلقین سننے کے لئے آج بھی دل اور آنکھیں ترستی ہیں۔

 ھنوز آرزم باشد کہ یکبار دگر بینم

مختصراً آپ رسوخ فی العلم، اخلاص عمل، جہد پیہم کے پیکر تھے، ہر لمحہ تحقیق و جستجو، مشغولیت و مصروفیت، استغناء و توکل کے بحر بے کنار تھے۔

 آں قدح بشکست و آں ساقی نماند

شاہ صاحب کے قریبی احباب شاہد ہیں کہ آپ کبھی حالات سے مرعوب نہ ہوئے، ان پر کبھی گبراہٹ طاری ہوتے نہیں دیکھی گئی، وہ ہر حال میں اپنے رب کے شکر گذار رہتے تھے، بلاشبہ شا ہ صاحب بھی گوشت پوشت کے انسان تھے، وہ فرشتہ نہیں تھے، بشری خطائوں سے کون مبّرأ؟ لیکن جب موجودہ ماحول میںایک اچھا ،سچا، مخلص، جادہ حق پر چلنے والا، مہربان انسان بننا بھی بڑی عظمت کی بات ہے، ایسے میںوہ کبھی حالات کے ہاتھون قدرے دکھی بھی ہو جایا کرتے تھے، لیکن ہم نے انکوروٹھے ہوں کو مناتے بھی دیکھا، انہوں نے غیروں کو اپنا بنانے کی کئی مثالیں بھی قائم کر دکھائیں، انکے انداز بیان میں کبھی ایک محبت بھری تیزی بھی آجاتی تھی جس سے انکا اندازِ بیان مزید مخلصانہ ہوجایا کرتا تھا، وہ بڑی سعادت مندقوم کے بیٹے تھے کہ انہوں نے اپنی حیات مستعار کے کئی سال ’حرمین شریفین‘ میں کتابُ اللہ و سنت رسولُ اللہ ﷺکی تبلیغ و تلقین میں گذارے جہاں خانہ کعبہ میں انکے چاہنے والوں کی کثیر تعدادآکر ان کے محاضرات علمیّہ سے استفادہ کرتی تھی، جس میں بے شمار علماء و مشاہیر بھی شامل تھے، انکو سعودی عرب میں بھی بفضل اللہ تعالیٰ محبت بھری پذیرائی ملی، برصغیر کے علاوہ عرب ممالک میںبھی انکے تلامذہ کی فہرست طویل ہے بہرحال شاہ صاحب نے ۷۲ سالہ زندگی کتاب و سنت کی دعوت دیتے ہوئے گذار دی انکی زندگی کے آخری لمحات بھی قابلِ رشک تھے جب وہ موسیٰ لین کراچی میں کسی تبلیغی کام کی غرض سے گئے ہوئے تھے ، عشا ء کی نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ درد دل کے ہاتھوںرب کائنات کا حکم آیااور چند ہی منٹ میں دارِ فانی سے دارِ الخُلد کی جانب ۸ جنوری ۱۹۹۶ء کو مراجعت ہوئی اور علامہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی امامت میں نمازہ جنازہ ادا کی گئی، پھر اپنے آبائی گائوں درگاہ شریف نزد نیو سعیدآباد میں اپنے والد مکرم اور بڑے بھائی علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پہلو میں ابدی آرام ہوئے، اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرکے اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے ، آپ عمر عزیز کے آخری حصّے میںمال و اسباب، دنیاوی امور سے کلیۃ دستکش و بے نیاز ہو چکے تھے اوربہت ہی تھکے تھکے نظر آتے تھے۔

 دامان نگھ تنگ و گل حسن تو بسیار

 گلچین بھارِ تو زد امان نگھ دارد

۔۔۔

امام البانی رحمہ اللہ اور قائل جشن میلاد النبی کے مابین مکالمے کی روداد

علامہ البانی رحمہ اللہ:جشن میلاد النبی شریف خیر ہے یا شر؟

میلادی ھداہ اللہ:خیر ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:کیا رسول اللہ اور آپکے صحابہ اس ’’خیر‘‘سے ناواقف تھے؟

میلادی ھداہ اللہ :نہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:صرف ”نہیں“ کہنا کافی نہیں، آپ کو اس سوال کا فوراً یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ :یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ اس ’’خیر‘‘سے لاعلم رہیں، حالانکہ اسلام و ایمان کی ساری باتیں ہمیں محمد کے ذریعے سے ہی معلوم ہوئی ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کام کو ہم ’’خیر‘‘جانتے ہوں اور نبی کریم اس سے ناواقف ہوں؟ یہ ناممکن ہے۔

میلادی ھداہ اللہ:دراصل میلاد النبی آپ ﷺکے ذکر کا احیاء ہےاور اس میں آپکی تکریم ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:یہ فلسفہ ہم پہلے بھی سن چکے ہیں ،یہ بتائیں جب رسول نے لوگوں کو دعوت دینا شروع کی تو انہیں اسلام کے سبھی احکامات کی دعوت دی یا توحید کی؟

میلادی ھداہ اللہ:توحید کی۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:سب سے پہلے توحید کی دعوت دی ، نماز ، روزہ ، حج وغیرہ اسکے بعد فرض کئے گئے ، لہذا آپ بھی قدم بقدم اسی طریقے پر چلیں ۔

اب تک ہم دونوں متفق ہیں کہ ایسی کوئی ’’خیر‘‘نہیں جو ہم جانتے ہوں لیکن رسول اللہ اس سے بے خبر ہوں، اس بارے میں کوئی بھی دو فرد اختلاف نہیں رکھتے ،

 اور میرا ماننا ہے کہ جو اس بات میں شک کرے گا وہ مسلمان نہیں ۔

اور رسول اللہ کی حدیث بھی اس بات کی تائید کرتی ہے ، ارشاد فرمایا:

ما تركتُ شيئاً يقربكم إلى الله إلا وأمرتكم به

میں نے کوئی ایسی بات نہیں چھوڑی جو تمہیں اللہ سے قریب کرتی ہو مگر میں نے تمہیں اسکا حکم دے دیا ہے۔

پس اگر میلاد منانا ایسی ’’خیر‘‘ہے جو ہمیں اللہ سے قریب کرتی ہے تو رسول اللہ نے ہمیں اسکے بارے میں ضرور بتایا ہوگا، صحیح یا غلط؟

کیا آپ میری اب تک کی گفتگو سے مکمل متفق ہیں؟

میلادی ھداہ اللہ:متفق ہوں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:جزاك اللہ خیراً

اب ہم میلاد کے قائلین سے پوچھتے ہیں :

تمہارے بقول میلاد منانا ’’خیر‘‘کا کام ہے تو رسول اللہ نے اس بارے میں ہمیں کچھ بتایا ہوگا یا نہیں بتایا ہوگا ، اگرتم کہو بتایا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ :

هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔

ہم اس بارے میں علوی کے کتابچے پڑھ چکے ہیں انکے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔گویا میلاد منانے کو جائز کہنے والے اور اسکا انکار کرنے والے سب متفق ہیں کہ:

 یہ جشن رسول اللہ کے عہد مبارک میں نہیں تھا نہ ہی عہد صحابہ کرام میں نہ ہی عہد ائمہ اعلام میں ۔

 لیکن میلاد کے قائلین کہتے ہیں کہ :میلاد منانے میں کیا حرج ہے ؟ یہ رسول اللہ کا ذکر ہے اور اس میں آپ پر صلاۃ و سلام پڑھا جاتا ہے؟ہم جواب دیتے ہیں کہ اگر یہ کام ’’خیر‘‘کا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسے ہم سے پہلے کرچکے ہوتے۔

آپ کو حدیث کا علم ہے :

خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم

سب سے بہترین زمانہ میرا ہے ، پھر میرے بعد والوں کا پھر انکے بعد والوں کا۔

آپ کا زمانہ وہ ہے جس میں آپﷺ اور آپکے صحابہ رضی اللہ عنہم جیتے رہے ، پھر تابعین کا زمانہ ہے پھر تبع تابعین کا زمانہ ہےرحمہم اللہ۔

اس بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔

تو کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایسی بھی ’’خیر‘‘ہے کہ ان سے پہلے جسکا علم ہمیں ہوگیا اور ہم اس پر عمل پیرا ہیں ۔

میلادی ھداہ اللہ: سائنس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اگر رسول اللہ اپنے زمانے کے لوگوں کو بتاتے کہ زمین گھومتی ہے..۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:معاف کیجیےگا ، مضمون سے مت ہٹیں، میں نے آپ سے دو چیزوں کے متعلق پوچھا ہے،’’علم اور عمل‘‘ علم سے میری مراد علم شرعی ہے ، کوئی اور علم نہیں ، مثلاً اگر کو ئی کہے کہ فلاں ڈاکٹر طب میں ابن سینا سے بڑا عالم ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ زمانہ خیر القرون سے آگے بڑھ گیا ، ہم علم شرعی کی بات کررہے ہیں ، نہ کہ جغرافیہ یا فلکیات یا کیمسٹری یا بائیولوجی کی ، فرض کریں اگر آج کا کو ئی کافر شخص ان علوم کو سب انسانوں سے زیادہ جانتا ہو تو کیا یہ چیز اسے اللہ کا مقرب بنادیگی ؟

میلادی ھداہ اللہ:نہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ: لہذا اب ہم سائنس کی نہیں بلکہ اس علم کی بات کررہے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ سے قریب کرتا ہے ، ہماری گفتگو جشن میلاد کے متعلق چل رہی تھی ،

میں دوبارہ سوال کرتا ہوں اور واضح جواب کی امید کرتا ہوں:

کیا آپ اپنی عقل و فہم کے مطابق مانتے ہیں کہ ہم علم شرعی میں صحابہ ، تابعین ، اور ائمہ مجتہدین سے زیادہ ہیں ، خیر اور اللہ سے قریب کرنے والے اعمال میں ان سلف صالحین پر سبقت لے گئے ہیں؟

میلادی ھداہ اللہ:علم شرعی سے آپکی مراد علم تفسیر ہے ؟

علامہ البانی رحمہ اللہ:وہ ہم سے زیادہ علم والے تھے ، تفسیر قرآن کا علم ہو یا حدیث رسول کی تفسیر کا علم ہو یا شریعت اسلام کا علم ہو۔

میلادی ھداہ اللہ:تفسیر قرآن کا علم تو آج کے دور میں عہد رسول سے زیادہ ہے ، مثلاً، قرآن کی آیت:

وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ (النمل:88)

آپ پہاڑوں کو ٹھہرا ہوا محسوس کریں گے حالانکہ وہ چلتے ہیں جیسے بادل چلتے ہیں ، اللہ کی کاریگری ہے ، جس نے ہر شے کو مستحکم کیا، تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس سے باخبر ہے۔

اگر رسول اللہ اپنے زمانہ میں کسی سے کہتے کہ زمین گھومتی ہے تو کوئی بھی آپکی تصدیق نہیں کرسکتا تھا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:یعنی آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپکو دوبارہ یاد دلائیں کہ آپ موضوع سے ہٹ رہے ہیں ،

میرے بھائی میں آپ سے کُل کے متعلق پوچھ رہا ہوں نہ کہ جزء کے متعلق ، عام سوال ہے کہ اسلام کے متعلق سب سے زیادہ علم کس کے پاس تھا؟

میلادی ھداہ اللہ:لازمی سی بات ہے رسول اللہ اور آپکے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:ہم آپ سے اس جواب کی امید کررہے تھے۔نیز آپ جس تفسیر کی بات کررہے ہیں اسکا عمل سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ فکر و فہم سے ہے ،

 اور اس آیت سے جو لوگ زمین کے گھومنے کا اثبات کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ،کیونکہ اس آیت کا تعلق روز قیامت سے ہے اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ بعد میں آنے والا کوئی شخص علم سائنس یا علم فلکیات میں صحابہ یا تابعین سے زیادہ علم رکھتا ہو ، جس طرح کفار ان علوم میں مسلمانوں سےآگے ہیں لیکن اس سے انہیں کیا حاصل ہوا ؟

کچھ نہیں ، تو ہم اس بے فائدہ شے کے متعلق بات نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس شے کے متعلق بات کررہے ہیں جو ہمیں اللہ سے قریب کردے ، ہم میلاد النبی شریف کے متعلق بات کررہے ہیں ، اور ہم متفق ہیں کہ اگر یہ ”خیر“کا کام ہوتا تو سلف صالحین اور ان کے سرداریعنی رسول اللہ اسے ہم سے زیادہ جانتے اور ہم سے پہلے اس پر عمل پیرا ہوتے،کیا اس میں کوئی شک ہے؟

میلادی ھداہ اللہ:نہیں ، کوئی شک نہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:اب آپ سائنسی علوم کی جانب متوجہ نہ ہونا جن کا عملی طور پراللہ تعالیٰ کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ، نیز سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ میلاد نبی کریم کے زمانے میں نہیں تھا، گویا یہ ”خیر“ نبی کے زمانے میں اور صحابہ و تابعین و ائمہ مجتہدین کے زمانے میں نہیں تھی ۔ان پر یہ ”خیر“ کیسے مخفی رہی ؟

ہم دو میں سے ایک بات ہی کہہ سکتے ہیں:

1وہ ہم سے زیادہ اس ”خیر“سے واقف تھے ،  یا

2 وہ اس ”خیر“سے واقف نہیں تھے۔

اگر ہم کہیں کہ وہ اس سے واقف تھے اور قائلین میلاد کے نزدیک یہی قول معتبر ہے تو انہوں نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟کیا ہم ان سے زیادہ اللہ کے مقرب ہیں ؟

ان میں سے کسی ایک صحابی یا تابعی یا عالم یا عابد نے، غلطی سے ہی صحیح ،اس خیر پر عمل کیوں نہ کیا؟کیا آپکی عقل مانتی ہے کہ اس خیر پر عمل کرنے کا موقع ان میں سے کسی کو نہ مل سکا ؟حالانکہ وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے ،

اور ہم سے زیادہ عالم اور ہم سے زیادہ صالح اور اللہ کے مقرب تھے۔

میرا خیال ہے آپ رسول اللہ کی حدیث جانتے ہوں گے:

لا تسبوا أصحابي؛ فوالذي نفس محمد بيده لو أنفق أحدكم مثل جبل أُحدٍ ذهباً ما بلغ مُدَّ أحدهم ولا نَصيفَهُ

میرے صحابہ کو برا نہ کہنا ،اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تو ان (صحابہ) کے ایک یا آدھے مد کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔

کیا آپ نے ہمارے اور ان کے مابین موجود فرق دیکھا؟یہ فرق اس لئے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ ملکراللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا ، اور آپ سے براہ راست علم حاصل کیا ، ان تمام واسطوں کے بغیر جو ہمارے اور نبی کے درمیان ہیں جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں آپ نے اس جانب اشارہ کیا ، فرمایا:

من أحب أن يقرأ القرآن غضاً طرياً فليقرأهُ على قراءة ابن أم عبد

جو قرآن کو تروتازہ پڑھنا چاہتا ہو تو وہ ابن ام معبدکی طرز پر قرآن پڑھے۔یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرز پر۔

ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ سلف صالحین جن کے سردار صحابہ کرام تھے کسی بھی ایسی ”خیر“ سے لاعلم رہے ہوں جو انہیں اللہ کا مقرب بناتی ہو ، اور جب ہم نے مان لیا کہ وہ اس ”خیر“ کو جانتے تھے جسطرح ہم اسے جانتے ہیں تو ہم یہ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہوں نے اس ”خیر“ کو یونہی عمل کئے بغیر چھوڑدیا ہوگا۔

شاید اب آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ میں کیا نقطہ بیان کرنا چاہ رہا ہوں؟

میلادی ھداہ اللہ:الحمد للہ

علامہ البانی رحمہ اللہ:جزاک اللہ خیراً

ایک بات اوربہت سی آیات و احادیث بتاتی ہیں کہ دین اسلام مکمل ہوچکا ، میرا خیال ہے کہ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے ، عالم ہو یا طالب علم یا عام مسلمان سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام مکمل ہوگیا ، یہ یہود و نصاریٰ کے دین کی مانند نہیں ہے کہ اس میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہی ہوں۔

بطور مثال میں آپکو اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان یاددلاتا ہوں:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْأِسْلامَ دِيناً

آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا

اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین چن لیا۔

اب ایک سوال ہے اور یہ جشن میلاد کے خیر نہ ہونے کو دوسرے طریقے سے واضح کرتا ہے ،

پہلا طریقہ یہ تھا کہ اگر میلاد منانا کار ”خیر“ ہوتا تو سلف صالحین جو ہم سے زیادہ عالم و عبادت گذار تھے اس پر ضرور عمل پیرا ہوتے۔سوال یہ کہ اگر میلاد نبوی خیر کا کام ہے تو اسکا تعلق اسلام سے ہوگا ، کیا ہم سب میلاد کے قائلین اور منکرین سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر میلاد کار خیر ہے تو اسکا تعلق اسلام سے ہوگااور اگر یہ کارِ خیر نہیں تو اسکاتعلق اسلام سے نہیں ہوسکتا؟بالکل اسی طرح جسطرح ہم نے اتفاق کیا تھا کہ نبی کریم کے زمانے میں میلاد نہیں تھا۔

جس دن یہ آیت نازل ہوئی:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ

آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا۔

اسوقت تک جشن میلاد نہیں منایا گیا تھا ، تو کیا آپکے خیال میں یہ دین کا حصہ ہوا ؟

میں چاہتا ہوں کہ :آپ مجھے دوٹوک جواب دیں ، یہ نہ سوچیں کہ میں ان علماء میں سے ہوں جو طلباء کو ڈانٹ کر خاموش کروادیتے ہیں بلکہ عام لوگوں کو بھی کہ خاموش رہو تم کچھ نہیں جانتے ، تمہیں کیا پتہ نہیں ، آپ مطمئن رہیں ، گویا آپ اپنے جیسے کسی ایسے شخص سے ہمکلام ہیں

 جو علم اور عمر میں آپ سے کم ہے ، اگر آپ متفق نہ ہوں تو کہیں کہ میں متفق نہیں ہوں۔

پس اب اگر میلاد منانا خیر کا کام ہے تو اسکا تعلق اسلام سے ہوگا اور اگر یہ کار خیر نہیں تو اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہوگا،اور ہم سب متفق ہیں کہ مذکورہ آیت کے نزول کے وقت جشن میلاد النبی نہیں تھا ، پس صاف واضح ہے کہ اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنی اس بات کی تاکید میں امام دارالھجرۃ امام مالک رحمہ اللہ کے قول سے کرتا ہوں انہوں نے کہا:

من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة فقد زعم أن محمداً صلى الله عليه وسلم خان الرسالة “.

جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی جسے وہ اچھا سمجھتا ہو تو گویا اس نے دعوی کیا کہ محمد نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں خیانت(کمی )کی۔

غور کریں ، صرف ایک بدعت نہ کہ بہت سی بدعات، یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے ، امام صاحب کی دلیل کیا ہے ؟انہوں نے فرمایا:

اقرؤا إن شئتم قول الله تعالى:((الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْأِسْلامَ دِيناً)) فما لم يكن يومئذٍ ديناً لا يكون اليوم ديناً.

اگر چاہو تو اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھ لو:” آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین چن لیا “۔

جو کام اس دن دین نہ تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا۔

امام مالک رحمہ اللہ نے یہ بات کب کہی تھی ؟ دوسری صدی ہجری میں جسکے خیر پر ہونے کی شہادت خود نبی کریم نے دی، توچودھویں صدی کے متعلق آپکا کیا خیال ہے؟یہ قول سونے کے پانی سے لکھنے کےلائق ہے، لیکن ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے اور رسول اللہ کی حدیث سے اور اپنے اماموں کے اقوال سے غافل ہوگئے کہ جنکو ہم اپنا راہنما مانتے ہیں ۔

 امام صاحب فرمارہے ہیں کہ جو اس وقت دین نہ تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا ، لیکن آج جشن میلاد النبی کو دین بنادیا گیا ، اگر اسے دین کا حصہ قرار نہ دیا گیا ہوتا تو سنت کے ساتھ تمسّک کرنے والے علماء اور بدعت کا دفاع کرنے والے علماء کے درمیان یہ اختلاف پیدا ہی نہ ہوتا۔

یہ دین کا حصہ کیسے ہوسکتا ہے ؟جبکہ یہ نہ تو رسول اللہ کے زمانہ میں تھا نہ ہی صحابہ کے دور میں اورنہ ہی تابعین یا تبع تابعین کے عہد میں۔امام مالک تبع تابعین میں سے ہیںاور ان لوگوں میں شامل ہیں جن پر یہ حدیث صادق آتی ہے ۔

خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم

سب سے بہتر زمانہ میرازمانہ ہے پھر ان لوگوں کا جو میرے بعد آئیں گے پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئیں گے۔

امام مالک رحمہ اللہ فرمارہے ہیں کہ جو اس وقت دین نہیں تھاوہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا اور اس امت کا آخر درست نہیں ہوسکتا مگر اسی طریقے سے جس سے اسکا اول درست ہوا۔

اس کا اول کس شے سے درست ہوا؟دین میں نت نئے کام ایجاد کرکے؟ اور ایسے اعمال کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ مان کر جنہیں نبی کریم نے اختیار نہیں کیا ؟

 حالانکہ رسول فرمارہے ہیں کہ:

ما تركتُ شيئاً يُقربكم الى الله إلا وأمرتكم به

میں نے کوئی ایسا عمل نہیں چھوڑا جو تمہیں اللہ سے قریب کرتا ہو مگر میں نے تمہیں اس کا حکم دے دیا۔

لیکن رسول اللہ نے ہمیں اپنا یوم ولادت منانے کا حکم کیوں نہیں دیا ؟ اس سوال کا ایک جواب ہے ۔

میلاد نبوی کا ایک شرعی طریقہ ہے جو مروجہ جشن میلاد کے برعکس ہے ، وہ شرعی طریقہ نبی کریم کے زمانے میں بھی موجود تھا ، جبکہ مروجہ طریقہ اس زمانے میں موجود نہ تھا، ان دونوں طریقوں میں واضح فرق ہے:

میلاد شرعی عبادت ہے اور اس پر سبھی مسلمان متفق ہیں۔

میلاد شرعی ہر ہفتے ہوتا ہے ، جبکہ غیر شرعی میلاد سال میں ایک بار آتا ہے۔

یہ دو بنیادی فرق ہیں میلاد شرعی اور میلاد بدعی کے درمیان،پہلا عبادت ہے اورہر ہفتے آتا ہے ،اسکے برعکس غیر شرعی میلاد نہ تو عبادت ہے نہ ہی ہر ہفتے آتا ہے۔

میں یہ بات ایسے ہی بلادلیل نہیں کررہا ، ایک حدیث نقل کرتا ہوں صحیح مسلم میں سیدنا ابوقتادۃ الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال:يا رسول الله: ما تقول في صوم يوم الإثنين؟قال : ذاك يومٌ وُلِدتُ فيه، وأُنزل القرآن عليَّ فيه

ایک شخص نبی کریم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ اللہ کے رسول پیر کے دن روزے کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟فرمایا:اس دن مجھے پیدا کیا گیا اور اس دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔

اس کلام کا مطلب کیا ہے ؟گویا آپ فرمارہے ہیں کہ تم مجھ سے اس دن کے متعلق پوچھ رہے ہو تو اس دن مجھے اللہ تعالیٰ نے زندگی عطا کی اور مجھ پر وحی نازل کی ،یعنی اس دن تمہیں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھنا چاہیے کہ اس نے اس دن مخلوق پر میری تخلیق اور مجھ پرانزال وحی کا احسان کیا ۔

یہ یہود کے عاشورہ کے روزے کی مانند ہے اور شاید آپ کو معلوم ہو کہ ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل

 عاشورہ کا روزہ مسلمانوں پر فرض تھا۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب نبی کریم نے مدینہ کی جانب ہجرت کی تو یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا،جب ان سے اسکی وجہ دریافت کی تو انہوں نےکہا کہ اس دن اللہ نے سیدنا موسی علیہ السلام اور انکی قوم کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی،لہذا ہم اس دن بطور شکرانے کے روزہ رکھتے ہیں ۔

تو نبی نے فرمایا:

نحن أحق بموسى منكم

تم سے زیادہ ہم موسی کے قریب ہیں ۔

 چنانچہ آپ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیاچنانچہ یہ فرض ہوگیا حتی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ہدایت کے واضح دلائل ہے پس تم میں سے اس ماہ میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے۔

اسکے بعد عاشورہ کا روزہ سنت ہوگیا اور اسکی فرضیت منسوخ ہوگئی۔

یہاں استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ نے یہود کے ساتھ شرکت کی عاشوراء کے روزے میں تاکہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے اس دن موسی کو فرعون سے بچایا۔

پس ہمارے لیے شکرانے کا باب کھل گیا پیر کے دن روزے کے ذریعے کہ اس دن رسول اللہ کو پیدا کیا گیا اور اس دن آپ پر وحی نازل کی گئی۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ لوگ جو غیر شرعی میلاد مناتے ہیں جس میں خیر کی کوئی صورت نہیں ،کیا وہ پیر کا روزہ رکھتے ہیں جسطرح جمعرات کا روزہ رکھتے ہیں ؟نہیں، وہ پیر کا روزہ نہیں رکھتے جبکہ اکثر مسلمان سال میں ایک مرتبہ میلاد النبی مناتے ہیں،تو کیا یہ حقائق کو بدلنا نہیں ہے ؟(یعنی میلاد کے نام پر سال میں ایک دن جشن منالیتے ہیںجو کہ غیر شرعی ہے جبکہ جو میلاد شرعی ہے یعنی ہر پیر کو روزہ رکھنا تو یہ عمل نہیں کرتے)ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہود سے متعلق یہ فرمان صادق آتا ہے:

أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ

کیا تم بہتر کے بدلے میں کمتر شے کا سوال کرتے ہو۔

یہ خیر جس پر مسلمان متفق ہیں پیر کے دن کا روزہ ہے جبکہ اکثر مسلمان پیر کا روزہ نہیں رکھتے۔ہم دیکھتے ہیں کہ پیر کے دن روزہ رکھنے والے جونہایت کم ہیں کیا وہ اس دن روزے کی حکمت جانتے ہیں؟نہیں ،وہ نہیں جانتے۔تو کہاں ہیں وہ علماء جو میلاد غیر شرعی کی حمایت کرتے ہیں، وہ لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے کہ

 پیر کے دن کاروزہ ہی میلاد کا شرعی طریقہ ہے،اسکے بجائے وہ غیر شرعی میلاد کی ترغیب دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:

أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ

کیا تم بہتر کے بدلے میں کمتر شے کا سوال کرتے ہو۔

اور رسول اللہ نے بھی سچ فرمایا:

للتتبعنَّ سَنن من قبلكم شبراً بشبر وذراعاً بذراع حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه

تم پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے ، بالشت برابر،بازو برابر،اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے تو تم بھی گھسو گے۔

ایک اور روایت کے الفاظ نہایت خطرناک ہیں:

حتى لو كان فيهم من يأتي أمه على قارعة الطريق لكان فيكم من يفعل ذلك

اگر ان میں کسی نے برسرراہ اپنی ماں سے بدکاری کی تو تم میں بھی ایسا کرنے والے ہوں گے۔

ہم نے یہود کی روش اختیار کرلی ، وہ دن جو بہتر تھا اس دن سے بدل ڈالا جو کمتر ہے،ہم نے ہر پیر کا روزہ رکھ کر شرعی میلاد منانے کو سال کے ایک دن کے میلاد غیر شرعی سے بدل ڈالا۔

آپ شرعی میلاد منائیں، پیر کا روزہ بطور شکرانے کےرکھ کراور اس حکمت کو خاطر میں رکھ کر کہ اس دن اللہ نے رسول اللہ کو پیدا کیا اور اس دن آپ پر وحی نازل کی۔

میں اپنی گفتگو کا اختتام نبی کریم کے اس فرمان پر کرتا ہوں:

أبى الله أن يقبل توبة مبتدع

اللہ نے بدعتی کی توبہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

اے رسول ، آپکی جانب آپکے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا جائے اسے پہنچادیں اور اگر آپ نے نہ کیا تو آپ نے اسکی رسالت کا حق ادا نہ کیا اور اللہ آپکو لوگوں سے بچاتا رہے گا۔

میلادی ھداہ اللہ:کیا نبی کریم کی سیرت کو بیان کرنا آپکی تکریم نہیں ہے؟

علامہ البانی رحمہ اللہ:ہاں ہے۔

میلادی ھداہ اللہ:میلاد میں بھی اللہ کی جانب سے اس خیر(یعنی سیرت بیان کرنے) کا ثواب ملتا ہے؟

علامہ البانی رحمہ اللہ:ہر خیر کا ثواب ملتا ہے ،

لیکن آپ اس سوال سے کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو ، میں آپ سےپوچھتا ہوں:کیا کوئی آپ کو نبی کریم کی سیرت پڑھنے سے روکتا ہے؟(یعنی ہم میلاد سے روکتے ہیں ، لیکن سیرت بیان کرنے سے نہیں روکتے)

لیکن ایک سوال کا جواب دیں:ثواب کا کوئی بھی کام جو مشروع ہو لیکن رسول اللہ نے اسکے لئے نہ تو کوئی وقت مخصوص کیا نہ ہی اسکی کیفیت مخصوص کی تو کیا ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم خود اس عبادت کا وقت یا کیفیت مخصوص کردیں؟

کیا آپکے پاس کوئی جواب ہے؟

میلادی ھداہ اللہ:نہیں میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں۔

علامہ البانی رحمہ اللہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ

کیا انکے شرکاء نے انکے لئےاس کام کو دینی شریعت قرار دیا جس کام کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔

نیز فرمایا:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهاً وَاحِداً لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا، اور مسیح بن مریم کو حالانکہ انہیں ایک حکم دیا گیا تھا کہ

 وہ ایک معبود کی عبادت کریں،جسکے سوا کوئی معبود برحق نہیں،جو ان سے پاک ہے جنہیں وہ اسکا شریک قرار دیتے ہیں۔

جب سیدناعدی بن حاتم رضی اللہ عنہ (جو مسلمان ہونے سے پہلے عیسائی تھے )نے یہ آیت سنی تو انہیں اسے سمجھنے میں مشکل ہوئی اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تو انکی عبادت نہیں کی،تو نبی نے ان سے فرمایا:

أليس يحرمون ما أحل الله فتحرمونه ويحلّون ما حرم الله، فتحلونه؟ فقال: بلى. قال: فتلك عبادتهم

کیا وہ (علماء و درویش) حرام نہیں کرتے تھے اس شے کو جسے اللہ نے حلال کیا ہو پس تم اسے حرام مان لیتے اور وہ حلا ل کہتے اس شے کو جسے اللہ نے حرام کیا پس تم اسے حلال مان لیتے؟انہوں نے کہا:ہاں بالکل۔تو آپ نے فرمایا:یہی انکی عبادت(علماء و درویشوں کورب بنالینا) ہے۔

اس سے اللہ تعالیٰ کے دین میں بدعت نکالنے کی خطرناکی واضح ہوگئی ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کے” سلسلۃ النور والھدیٰ“

 نامی بیانات پر مشتمل کیسٹ سے ماخوذ ، اختصار اور تفہیم کے ساتھ،کیسٹ نمبر:1/94

نیزعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی ویب سائٹ ملاحظہ ہو۔

وما علینا الا البلاغ المبین

محبوبِ کائنات ﷺکے لعاب کی برکتیں

  قارئین کرام ! اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکو جو بے تحاشا معجزے عطا فرمائے تھے ان میں ایک معجزہ آپ کا لعاب مبارک ہے ۔

آپ کے لعاب مبارک میں اللہ تعالی نے بڑی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں ۔

آپ کا لعاب ہر قسم کی بیماری و تکلیف کے لیے بڑے تریاق کا درجہ رکھتا تھا ۔

یہی سبب تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے لعاب مبارک کو نیچے گرنے سے پہلے پہلے اٹھا لیتے تھے اور بغرض تبرک اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے تھے ۔

عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :اے لوگو : اللہ کی قسم ! میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کا دربار بھی دیکھ کر آیا ہوں ۔ مگر میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں ۔

فَوَالله مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ .

اللہ کی قسم ! اگر محمد تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب ان کے کسی صحابی کے ہاتھ میں گرتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے ۔ اگر آپ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو اس کی بجا آوری میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ وضو کرنے لگتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ۔(صحیح بخاری : 2732)

قارئین کرام ! آپ اب رسول اللہ کے لعاب مبارک کی مزید برکتیں ملاحظہ فرمائیں ۔

1 علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں صحتیاب ہو گئیں

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا تھا : میں اسلامی جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے ؟ جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش ! انہیں کو مل جائے ۔ لیکن آپ نے دریافت فرمایا : علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا : وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں۔

فَأَمَرَ فَدُعِيَ لَهُ فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ مَكَانَهُ حَتَّى كَأَنَّه لَمْ يَكُنْ بِهِ شَيْءٌ

آخر آپ کے حکم سے انہیں بلایا گیا۔ آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا تو وہ فوراً صحتیاب ہو گئیں ۔ جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی (پھر آپ نے انہیں جھنڈا دیکر خیبر کے طرف روانہ کیا) ۔(صحیح بخاری : 2942)

2 سیدناعمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ صحیح ہوگئی

سیدناعبداللہ بن بریدہ اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :

تَفَل فِي رِجْلِ عَمْروِ بن مُعَاذِ حِين قُطِعَتْ رِجْلُه فَبَرَأتْ

جب عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ كاٹی گئی تو رسول اللہ نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگایا ، جس سے وہ صحیح ہو گئی۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2305)

3 لعاب مبارک کی برکت سے زہر کا اثر ختم ہوگیا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : سفر ہجرت کی رات غار کے پاس پہنچ کر سیدنا ابوبکر نے رسول اللہ   سے کہا : اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں ۔ پہلے میں داخل ہوکر جائزہ لیتا ہوں ، اگر اس میں کوئی ایسی چیز ہو تو آپ کی بجائے اس کا مجھ سے سابقہ پڑے ۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو اچھی طرح صاف کیا ، ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں اپنا تہہ بند پھاڑ کر بند کر دیا ، لیکن دو سوراخ ابھی بھی باقی بچ گئے جن پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا پاؤں رکھ دیا ۔ اور رسول اللہ سے عرض کیا کہ اب آپ اندر تشریف لے آئیں ، آپ اندر تشریف لے آئے اور سیدنا ابوبکر کی آغوش میں سر رکھ آرام فرمانے لگے ۔ ادھر ابوبکر کے پاؤں کو کسی چیز نے ڈس لیا لیکن اس ڈر سے ہلے نہیں کہ رسول اللہ کی نیند میں خلل نہ آئے ۔ پس ان کے آنسو آپ کے چہرہ انور پر ٹپک پڑے اور آپ کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے فرمایا : ابوبکر تمہیں کیا ہوا ؟

عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے ۔

فَتَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ فَذَهَبَ مَا يَجِدُهُ .

جس پر رسول نے اپنا لعاب مبارک لگایا تو تکلیف ختم ہو گئی ۔(رحیق المختوم : 231 : بتصرف)

4 آسیب زدہ بچہ نجات پا گیا

سیدہ ام جندب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یوم النحر کو بطن وادی میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے دیکھا ۔ پھر آپ لوٹے تو آپ کے پیچھے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ ایک بچہ تھا جس پر آسیب کا اثر تھا، وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہی میرے گھر والوں میں باقی رہ گیا ہے، اور اس پر ایک بلا ( آسیب ) ہے کہ یہ بول نہیں پاتا، رسول اللہ نے فرمایا :

ائْتُونِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ ،‏‏‏‏ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ وَمَضْمَضَ فَاهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَعْطَاهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْقِيهِ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَصُبِّي عَلَيْهِ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَاسْتَشْفِي الله لَهُ .

تھوڑا سا پانی لاؤ ، پانی لایا گیا، تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اس میں کلی کی، پھر وہ پانی اسے دے دیا، اور فرمایا : اس میں سے تھوڑا سا اسے پلا دو، اور تھوڑا سا اس کے اوپر ڈال دو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے شفاء طلب کرو ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے ملی اور اس سے کہا : اگر تم اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دیتیں، ( تو اچھا ہوتا ) تو اس نے جواب دیا : یہ تو صرف اس بیمار بچے کے لیے ہے ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے سال بھر کے بعد ملی اور اس بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا :

بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلًا لَيْسَ كَعُقُولِ النَّاسِ

وہ ٹھیک ہو گیا ہے ! اور اسے ایسی عقل آ گئی ہے جو عام لوگوں کی عقل سے بڑھ کر ہے۔ (سنن ابن ماجة : 3532)

5 سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی بے ضرر بن گئی

جناب یزید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ : میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھا تو ان سے پوچھا : اے ابومسلم ! یہ زخم کا نشان کس چیز کا ہے؟ انہوں نے بتایا : غزوہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم لگا تھا ، لوگ کہنے لگے : سلمہ زخمی ہو گیا ہے ۔

فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَة .

چنانچہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے تین مرتبہ اس پر اپنا لعاب مبارک ملا ہوا دم کیا ، اس کی برکت سے آج تک مجھے اس زخم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔ (صحیح بخاری : 4206)

6 بچے کا جلا ہوا ہاتھ ٹھیک ہوگیا

سیدنا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کی والدہ ام جمیل کہتی ہیں:ایک مرتبہ میں تمہیں سر زمین حبشہ سے لیکر آرہی تھی ، جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لیے کھانا پکانا شروع کیا ، اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہو گئیں ، میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ الٹ کر تمہارے بازو پر گر گئی ، میں تمہیں لیکر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! یہ محمد بن حاطب ہے ۔

فَتَفَلَ فِي فِيكَ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِكَ، وَدَعَا لَكَ، وَجَعَلَ يَتْفُلُ عَلَى يَدَيْكَ وَيَقُولُ : أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا .

نبی کریم نے تمہارے منہ پر اپنا لعاب مبارک ڈالا ، اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لیے دعا فرمائی،نبی معظم تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب مبار ڈالتے جاتے اور کہتے جاتے : اے لوگوں کے رب ! اس تکلیف کو دور فرما ، اور شفا عطا فرما کہ تو ہی شفا دینے والا ہے ، تیرے علاوہ کسی کو شفا نہیں ہے ، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے ، میں تمہیں نبی کے پاس سے لیکر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہو گیا ۔(مسند احمد : 15453)

7 سیدناجابر رضی اللہ عنہ کی دعوت میں برکت پڑ گئی

سیدنا جابر سے روایت ہے کہ : (جب غزوہ خندق کے دن) خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا : کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی انتہائی بھوک میں ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے نبی معظم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! ہم نے بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ نے بہت بلند آواز سے فرمایا : اے اہل خندق ! جابر نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی رحمت نے فرمایا : جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا اور تب ہی آٹے کی روٹی پکانا شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا : تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے وہی نبی اکرم کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ نے (میری بیوی سے) فرمایا : ايک روٹی پکانے والی اور بلالے جو تیرے ساتھ مل کر روٹی پکائے ۔ اور ہانڈی سے گوشت نکالتی جا لیکن ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے ( شکم سیر ہو کر ) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔ (صحیح مسلم : 5315)

8 کنویں کا پانی بڑھ گیا

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں لوگ تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا ، تو لشکر نے اس کا ( سارا ) پانی کھینچ لیا اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔

پھر فرمایا : ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو :

فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا

آپ نے اس میں کلی کی ( اپنا لعاب مبارک ڈالا) اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا : کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دو۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پانی پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔ (صحیح بخاری : 4151)

 

 

تذکرہ صاحبِ صدق ووفا

فضیلۃ الشیخ ابو فوزان محمد طیب عبد الشکور

(فاضل مدینہ یونیورسٹی ، مترجم: محکمۃ العلیا نجران۔سعودی عرب)

رسول معظم کی ولادت باسعادت کے وقت تاریخ اپنے بدترین دور سے گزر رہی تھی۔جہالت،گمراہی اورظلم کا دور دورہ تھا دوسری قوموں کے ساتھ ساتھ اقوامِ عرب بھی خالقِ ارض وسماء کو بھول چکی تھیں۔ حیوانیت، روحانیت پہ غالب ، شیطانیت نے اس قدر مضبوط پنجے گاڑے ہوئے تھے کہ صنف نازک کو زندہ درگور کر دیتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے ان نازک کلیوں کو مسلنے میں عزت وفخر محسوس کرتے تھے۔ سود خوری،شراب نوشی ان کا روز مرہ کا معمول اور جنگ وجدل ان کا شیوہ تھا۔ فرعونیت اس حد تک تھی کہ دوسری قوموں کو اپنا زرخرید سمجھتے تھے ، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے لیکن زبان دانی پہ فخر غرور کی حد تک تھا، شخصیت پرستی اور مادہ پرستی ان کی رگوں میں رچ بس چکی تھی، ضلالت وگمراہی کے انتہائی گہرے گڑے میں گرے ہوئے تھے۔ بیت اللہ کا ننگا طواف کرنے کو عبادت کا نام دیا ہوا تھا، ان کا ضمیر بادصرصر کی ستم رسیدہ کونپل کی طرح مرجھا چکا تھا، خود غرضی اور بے راہ روی نے سابقہ انبیاء کی تعلیمات کو ان سے اوجھل کر دیا تھا، انصاف کے معاملے میں امتیازی سلوک کیاجاتا گویا کہ طغیان ومعصیت اور ظلم وجبر کا طوفان بپا تھا۔

رب کائنات نے اس سسکتی ہوئی انسانیت پہ رحم کیا اور آپ  دعائے خلیل، نوید مسیحا اور آمنہ کے خواب کی تعبیر بن کر دنیا میں تشریف لائے ۔آپ ﷺ نے معصومانہ طفولیت اور بے داغ جوانی گزاری، نبوت سے پہلے اپنی چالیس سالہ زندگی میں ہمیشہ حق کا ساتھ دیا، معاہدہ حلف الفضول ہو یا حجر اسود کی تنصیب کا مرحلہ ہو نہایت ہی خوش اسلوبی اور دانشمندی کا ثبوت دیا۔

بے کسوں، یتیموں،مسکینوں اور کمزور لوگوں کی مدد کرنے میں راحت سمجھی گویا آپ نے نبوت سے پہلے کی زندگی حقوق العباد کی خاموش تبلیغ میں صرف کی، معاملات دنیا نہایت امانت وصداقت سے ادا کرتے رہے اور اپنی قوم میں رسالت ملنے سے قبل ہی ’’صادق وامین‘‘ کے لقب سے پہچانے جانےلگے۔

اللہ تعالیٰ نے خلوت میں ریاضت کا ثمر نبوت کی صورت میں عطا کیا اور ختم نبوت کا تاج آپ ﷺ کو عطا ہوا ، جبریلِ امین اللہ کی طرف سے (اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ)کی پہلی وحی لے کر آپ  کے پاس آئے اور حکم الٰہی لائے (يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ) کی تعمیل میں آپ  اپنی نبوت کا اعلا ن کرتے ہوئے اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا، تین سو ساٹھ(360) بتوں کے پجاری آپ کے جانی دشمن بن گئے، آپ  کی حق گوئی اہل مکہ کو ناگوار گزری اپنے پرائے بن گئے،دوست دشمنی پہ اُتر آئے، اقارب ’’عقارب‘‘ بن گئے طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں آپ علیہ السلام کو ڈرایا، دھمکایا،مارا پیٹاگیا، شاعر ومجنون کہاگیا، آپ کے گھر میں کوڑاکرکٹ پھینکاگیا اور راستے میں کانٹے بچھائے گئے، پتھر مار کر لہولہان کیا گیا، دعوت الی اللہ کی پاداش میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، تین سال تک آپ ﷺ کے گھر والوں کے ساتھ

سوشل بائیکاٹ کیا گیا جب ان حربوں میں ناکام ہوئے توزر،زن اور سرداری کا لالچ دیاگیالیکن داعی حق ﷺفرماتے ہیں کہ: ’’اگر میرے دائیں ہاتھ پہ سورج اور بائیں ہاتھ پہ چاند رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ کلمہ حق نہ کہوں ، اللہ کی قسم ! میں کبھی بھی اس راستہ کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب آجائے یا میں راہ حق میں شہید کر دیاجاؤں‘‘۔

جب آپ نے دیکھا کہ اہل مکہ کی سنگدلی اور عداوت وشقاوت بڑھتی جارہی ہے تو آپ ﷺ نے طائف کا سفر کیا کہ اگر مکہ والے گُلِ اسلام کو مسلنے پہ بضد ہیں اللہ کرے یہ طائف میں مہک اُٹھے لیکن طائف والے تو اہل مکہ سے بھی دوہاتھ آگے نکلے، حق کو قبول کرنے کی بجائے داعی حق رسول کریم کو پتھر مارنے لگے اور آپ ﷺکو لہولہان کر دیا آپ ﷺ صبر وتحمل اور استقامت کا پیکر بنے رہے اور جب فرشتے نے کہا اگر کہیں تو ان لوگوں کو دو پہاڑوں کے بیچ کچل دیں ،  آپﷺ نے عفوودرگزر کا دامن نہ چھوڑا آپ نے کہا: نہیں ، اگر یہ حق کو قبول نہیں کر رہے تو مجھے اللہ سے امید ہے کہ ان کی اولاد حق کو ماننے والی ہوگی اور واپس مکہ تشریف لے آتے ہیں۔

جب کفار مکہ کی ظلم وبربریت حد سے بڑھ گئی تو آپ  نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت اور بعد ازاں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی اور جب مکہ کے سنگدل آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور آپ  کے گھر کا گھیراؤ کر لیا تو آپ ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیکر اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کہا کہ اہل مکہ کی امانتیں واپس کرکے مدینہ چلے آنا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا ۔ مدینہ منورہ میں پہنچ کر آپ نے دو بنیادی کام کیے ایک تو مہاجرین وانصار میں اخوت کا رشتہ استوار کیا اور دوسرا مسجد نبوی کی تعمیر کی۔

جب مکہ والوں نے دیکھا کہ مسلمان تو مدینہ میں سکون واستقرار حاصل کر رہے ہیں تو وہ بے قرار ہوگئے اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے جال بننے لگے جس کے نتیجہ میں بدرواُحد اور خندق کے میدان سجے ۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہر میدان میں کامیابی عطا کی پھر صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔

مسلمانوں نے سختیوں ،تلخیوں ،مصائب وآلام کو صبر واستقامت ،جوانمردی اور ثابت قدمی سے برداشت کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت وآبرو ، فتح ونصرت ، وقار واستقرار، مال ومتاع بھی ان کے مقدر میں کردیا۔ آخر جب اہل مکہ نے عہد شکنی کی اور صلح حدیبیہ کی شرائط کو پامال کیا تو آپ  اپنے ساتھ چودہ سوجانثار لیکر جہاں سے بےیارومددگارنکلے تھے آج ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ مادہ پرستی ، قبائل پرستی،صنم پرستی، فرعونیت ونمرودیت، جاہلانہ رسم ورواج آپ کے قدموں میں ڈھیر ہیں۔

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ جن کو غلامیٔ محمد قبول کرنے کی پاداش میں کوڑے مارے جاتے تھے ، بے بسی کے عالم میں اَحد، اَحد کا جوابی تیر ان کے دلوںمیں پیوست کرتے تھے، آج وہی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیت اللہ کی چھت پہ کھڑ ہوکر اللہ اکبر،اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہیں اور سرداران قریش ، ظلم وجبر کے داعی، خونِ انسانیت کے پیاسے، جاہلانہ رسم ورواج کے پیروکار حیرت واستعجاب کی تصویر بنے بے بسی وبے چارگی کے عالم میں آنسوں بہاتے ہوئے آغوش اسلام میں آجاتے ہیں اور باقی مکہ چھوڑ جاتے ہیں اس کے بعد طائف فتح ہوا ، حنین میں فتح ونصرت نے قدم چومے اور تبوک تک دشمنان اسلام کا پیچھا کیاگیا۔

کل جنہیں ( نبی کریم ﷺکو) اہل مکہ نے سرزمین مکہ سے بےیارومددگار نکالا تھا آج وہ شاہ عرب وعجم ہیں لیکن ان کا سینہ انتقام کی آگ سے خالی ہے اور آپ ﷺ اہل مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان فرماتے ہیں ، آپ  کا اخلاق ہی تھا کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ فارس سے اور سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ روم سے کھچے چلے آئے ، آپ ﷺ نے اپنے عمده اخلاق، عفوو درگزر، حلم وبردباری، شرافت وصداقت،جود وسخا، امانت ودیانت،عدل وانصاف،شرم وحیا،صبر واستقامت، عادات واطوار ، نشت وبرخاست،طرز تکلم وخطابت ، دعوت وتبلیغ ، عاجزی وسادگی، رحمت وشجاعت اور ایفائے عہدی کی وجہ سے نبوت کے تیئس سال کے مختصر دور میں ایسا انقلاب بپا کیا جس کو لیل ونہار،ماہ وسال غرض کہ گردش ایام کے چودہ سوسال کا سیل رواں بھی نہ مٹا سکا اور ایسا انقلاب لائے کہ جس سے ایوانِ کسری ہی نہیں شان عجم،شوکت روم بھی منہ کے بل زمین بوس ہوئی اور آتش کدہ فارس اور آذر کدہ گمراہی سرد ہوکر رہ گئے۔اور صنم خانے میں خاک اڑنے لگی، صنم دھول چاٹنے لگے، شیرازئہ مجوسیت بکھر گیا ، عرب کے جاہل گنوار،بادیہ نشینوں نے جب آستانہ نبوت پر جبیں جھکائی تو رب ذوالجلال نے رفعتیں ، بلندیاں ان کے مقدر میں کر دیں۔ جو راہزن تھے ، رہبر بن گئے ، فسق وفجور کے داعی عفت وپاکیزگی کی علامت سمجھے جانے لگے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے، لٹیرے عزت وناموس کے محافظ بن گئے جو آپ  کی مجلس میں آگیا وہ آپ ﷺکا ہی ہوگیا۔

عليه افضل الصلاة وازكي التسليم يا رب العالمين

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

بَاب الِاسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

20150– حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ وَاسْمُهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ابومعاذ سے جن کا نام عطاء بن ابی میمونہ تھا نقل کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺرفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ساتھ پانی کا برتن لے آتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پانی سے رسول اللہ ﷺطہارت کیا کرتے تھے۔

Narrated Anas bin Malik: Whenever Allah’s Apostle went to answer the call of nature, I along with another boy used to accompany him with a tumbler full of water. (Hisham commented, “So that he might wash his private parts with it.)”

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ هُوَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ تَبِعْتُهُ أَنَا وَغُلَامٌ مِنَّا مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ ( رقمه : 151 )

سلیمان بن حرب، شعبہ، عطاء بن ابی میمونہ، سيدناانس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب اپنی حاجت کے لئے نکلتے تھے تو میں اور ہم میں سے ایک لڑکا دونوں آپ کے پیچھے جاتے تھے، ہمارے پاس پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔

شر ح الكلمات :

لِحَاجَتِهِ

قضائے حاجت کے لیے

أَجِيءُ

میں آتا تھا

غُلَامٌ

لڑکا وہ چھوٹا بچہ جس کی عمر سات سال ہو

إِدَاوَةٌ

پانی کا برتن

يَسْتَنْجِي بِهِ

جس سے آپ  استنجاء فرماتے تھے

تراجم الرواۃ :

1 ھشام بن عبد الملک ابو الولید الباھلی کا ترجمہ حدیث نمبر 3 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

2شعبہ بن حجاج کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں

3 نام ونسب : عطاء بن ابی میمونہ ۔ ابی میمونہ کا نام منیع تھا ، بصرہ سے تعلق تھا ۔

کنیت : ابو معاذ

محدثین کے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر کے ہاں ثقہ ہیں لیکن قدری ہونے کا الزام تھا۔ اور امام ذہبی کے ہاں صدوق تھے۔

وفات : عطاء بن ابی میمونہ نے 131 ہجری کو بصرہ میں طاعون کے سبب وفات پائی۔

4 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

تشریح : 

شریعت طہارت کے معاملے میں خوب مبالغہ کا حکم دیا ہے کہ خو اچھی طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ بھی اچھی طرح پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (التوبة: 108)

’’اور اللہ تعالیٰ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتاہے۔‘‘

اس حدیث سے یہ راہنمائی بھی ملتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا انتظام کرلیا جائے ممکن ہے کہ بروقت طہارت کیلئے کوئی چیز میسر نہ ہو ۔استنجاء ڈھیلے سے بھی کیا جاسکتاہے مگر پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے ۔ ڈھیلے اور پھر پانی سے استنجاء کرنا افضل ترین ہے۔طہارت حاصل کرنے میں نوعمر بچوں یا کسی بھی شخص سے مدد لی جاسکتی ہے۔ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتے ہیں۔

بہر کیف پانی سے استنجاء کرنے کے بارے میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتاہے۔ سیدناحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ پانی سے استنجا ءنہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے ہاتھ میں بدبو باقی رہ جاتی ہے۔سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے۔سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔بعض حضرات نے پانی سے استنجا اس لیے درست نہیں خیال کہ یہ پانی مشروبات سے ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کرکے اس موقف کی تردید فرمائی ہے۔( فتح الباری 329/1)

بعض لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ عنوان کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا کیونکہ حدیث کے جس حصے سے عنوان کاتعلق ہے،وہ سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان نہیں بلکہ وہ نیچے کے راوی ابوالولید ہشام کی وضاحت ہے۔لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ روایات میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اس بات کی صراحت ہے کہ یہ پانی رسول اللہ سے استنجا ءکرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ (صحیح البخاری الوضو حدیث 152)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ بھی روایت کا حوالہ دیاہے۔( فتح الباری 330/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی بجائے مٹی کے ڈھیلے بھی بطور استنجاء استعمال کیے جاسکتے ہیں۔لیکن پانی کا استعمال بہتر ہے کیونکہ مٹی کے ڈھیلوں سے عین نجاست تودور ہوجاتی ہے لیکن اس کے ا ثرات باقی رہتے ہیں جبکہ پانی کے استعمال سے نجاست اوراس کے اثرات ونشانات بھی زائل ہوجاتے ہیں۔پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا تو بالاتفاق افضل ہے۔واللہ اعلم بالصواب

ریاستِ مدینہ کے خدوخال

فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور جس میں ایک مملکت تمام شہریوں کو تحفظ اور شہریوں کے بہتری اور فلاح وبہبودکے لیے ذمہ داری اُٹھا ئی تھی۔ ایک فلاحی  مملکت اپنے شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی خواہ وہ لسانی،مذہبی،علاقائی امتیاز ہو یا اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہو۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام کی صورت میں بہترین ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء رسول اکرم ﷺکے ذریعے اپنی کامل اور مکمل ترین شکل میں عطا فرمایا۔ حضور رسول کریم ﷺنے جس محنت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض نبوت کی بجا آوری فرمائی اور انسانیت کو ذلت سے نکال کر جس عروج ثریاتک پہنچایا کائنات اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے مثالی طرز حکمرانی نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست ’’مدینہ‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ مدینہ منورہ میں رسول اکرم ﷺ نے ایک عظیم فلاحی ریاست کو قائم کیا۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ اس ریاست نے روحانی اور مادی اعتبار سے پوری دنیا کی رہنمائی کا فریضہ بہترین طریقے سے انجام دیا۔ مدینہ منورہ کی ریاست ہر مسلمان کے لیے ایک آئیڈیل ریاست کی حیثیت رکھتی ہے۔ مدینہ طیبہ کی ریاست کو ہر دور میں ایک ماڈل قرار دیا جاسكتاہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مثالی ریاست مدینہ کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہو، تاکہ پیش آمدہ مشکل مسائل کو اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں حل کر سکیں۔نبی اکرم ﷺکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مسجد جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے جائے عبادت ٹھہری وہاں ریاست کے سیکرٹریٹ کے طور پر بھی اقدامات کا مرکز قرار پائی۔ آپ ﷺتمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی سے دی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی میں ہوتا۔ اس وقت مسجد مسلمانوں کا معاشرتی مرکز تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م اسلامی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبوی میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم ﷺاسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔افسوس! آج ہماری مساجد اور ائمہ مساجد معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے محروم دکھائی دیتے ہیںریاستی سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد آپ ﷺ نے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ریاست مدینہ میں ایک طرح کی ہنگامی حالت کا نفاذ تھا۔ انصار مدینہ کی معاشی حالت ایک جیسی نہ تھی بلکہ ان میں سے کچھ متوسط تھے اور کچھ مالدار تھے۔ اس صورت حال میں محسن انسانیت ﷺنے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ مہاجرین اور انصار مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔مواخات مدینہ کی شکل میں معاشی مسائل کے قابل عمل حل کے بعد آپ ﷺ ریاست مدینہ کے تحفظ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس ضمن میں آپ ﷺ نے اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات فرمائے کہ اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملے اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرات نہ کرسکیں۔ انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اکرم ﷺنے ہجرت کے چند ماہ بعدہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کی شکل میں ایک دستاویز مرتب فرمائی۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔ دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ شہری مملکت قرار دیا گیا اور اس کے انتظام کا باقاعدہ دستور مرتب کیا گیا۔

معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد نبی مکرم ﷺنے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ ﷺ نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے، استحکام بخشنے، امن کو فروغ دینے اور اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کے لیے آپ ﷺ نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔ خارجہ پالیسی کے لیے نبی معظم ﷺنے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کمزور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین ﷺ نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔ اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں اور سانولوں کے لیے مطلقاََ جدا جدا ہیں۔دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت ﷺ سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ ﷺ بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ ﷺ کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل ہی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی ﷺ کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چونکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی سیدنا عبد اللہ بن سعید بن العاص اور سیدنا عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہوگا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر نبی کریم ﷺنے شہریوں کے باہمی اختلافات دور کرنے اور اچھے حکومتی انتظام کی خاطر ایک قسم کا ریاستی آئین تشکیل دیا جو ’’میثاق مدینہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ماضی میں وادی دجلہ و فرات، مصر اور یونان کی شہری ریاستیں بھی آئین بنا چکی تھیں مگر ’’میثاق مدینہ‘‘ جیسی فصیح و بلیغ آئینی دستاویز ہمیں پہلے نظر نہیں آتی۔ اس آئین ہی نے مدینہ منورہ میں فلاحی ریاست کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس میں درج ہے :’’ریاست کا ہر شہری ظلم، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرے گا۔‘‘ مدینہ منورہ کا انتظام سنبھال کر رسول مقبولﷺ کئی انقلابی اقدامات عمل میں لائے تاہم آپﷺ کی زیادہ توجہ کمزور و غریب طبقے کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہی۔ آپﷺ نے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات یا بھائی چارہ کروایا تاکہ غریب مہاجروں کے معاشی مسائل حل ہوسکیں۔ جلد ہی زکوۃ کو ’’فرض‘‘ قرار دے دیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ دولت مندوں سے سرمایہ لے کر غریب غربا کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ کمزور و ناتواں طبقے کی بحالی کے لیے ہی بعد ازاں زکوۃ کو ارکان اسلام میں شامل کردیا گیا۔ سنت نبوی ﷺ پہ عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے اپنی حکومتوں میں غریب و کمزور طبقے کو نہایت سہارا دیئے رکھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے تو ان امیر کبیر سرداروں سے جنگ فرمائی جو زکوۃ دینے سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہ قدم غربا کو تحفظ دینے کی خاطر ہی اٹھایا گیا۔ سیدنا عمر فاروق نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے غریب اور ضرورت مند غیر مسلموں کو بھی ’’صدقہ‘‘ دینے کا حق دار بنا دیا۔ انہوں نے حکم جاری فرمایا کہ بیت المال سے غریب غیر مسلموں کی بھی ساری ضروریات پوری کی جائیں۔

 ”اسلا می مفکرین اور مؤرخین متفق ہیں کہ سیدنا عمر فاروق  اسلام کی پہلی مکمل فلاحی ریاست کے بانی تھے۔ ان کے دور میں اسلامی ریاست پھیل چکی تھی اور نئے مسائل پید ا ہوئے۔ آپ کو وسیع ریاست کا نظم و نسق چلانے کا پورا موقع ملا۔سیدنا عمر نے قرآن پاک کے پیغام اور رسول اللہ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں فلاحی ریاست کی تشکیل کی۔ دنیا کے کئی ممالک نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ریاستی ماڈل کی روشنی میں فلاحی ریاستیں قائم کیں مگر مسلمان فرقہ واریت کا شکار ہو کر مسلکوں کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے اور قرآن و سنت کی اصل منشا اور فلاحی ریاست کی تشکیل کو ہی بھول بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام زوال کا شکار ہے۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مکمل ریاست کا ماڈل ہی نہیں ہے۔ ”معاملات سیدناعمر فاروق“ کی ترتیب اور تشکیل میں فلاحی ریاست کے تصورکو مرکز و محور بنایا گیا ہے تاکہ سیدنا عمر فاروق کی پہلی مکمل اسلامی فلاحی ریاست کے خدو خال کھل کر سامنے آسکیں اور مسلمان ممالک کامیاب فاروقی ماڈل سے سبق سیکھ کر اپنی ریاستوں کی تشکیل کر سکیں“۔”سیدنا  عمر فاروق نے فلاحی ریاست کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ آپ نے اسلامی ریاست کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا مکمل خیال رکھا۔ آپ کے دور میں ریاست کا کوئی فرد لاوارث نہیں تھا۔ سیدنا عمر  کے دور میں پیش آنے والے حیران کن واقعات سے فلاحی ریاست کے خدو خال سامنے آتے ہیں“۔ ”سیدنا عمر کے دورِ خلافت میں سخت قحط پڑا جسے عالم الرمادہ یعنی ہلاکت کاسال کہا جاتا ہے۔ عرب قحط سالی کی وجہ سے مدینہ کے اطراف میں پناہ گزین ہوگئے۔ سیدنا عمر فاروق نے ذاتی دلچسپی لے کر ان کے کھانے کا انتظام کیا۔ ہر روز سینکڑوں دیگیں پکا کر کھانا مستحقین میں تقسیم کیا جاتا۔ دس ہزار ولوگ ہر روز کھانا کھاتے اور سیدنا عمر خود نگرانی کرتے، یہاں تک کہ بارش ہوگئی اور سیدنا عمر نے سب پناہ گزینوں کو سواریاں اور اناج دے کر اپنے علاقوں کی جانب روانہ کیا“۔(طبقات ابن سعد )

 ”سیدنا عمر ایک دفعہ لوگوںکو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھارہا ہے۔ آپ نے سبب پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔ آپ اس کے پاس بیٹھ گئے اور رو کر فرمانے لگے تم کو وضوکون کراتا ہوگا، سر کون دھوتا ہوگا، کپڑے کون پہناتا ہوگا؟ آپ نے اس کےلئے ملازم مقرر کرد یا جو اس کی معاونت کرتا۔“ (اسد الغابہ) ”سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوں کو لے کر سیدنا عمر فاروق کے پاس آئے۔ آپ نے قبیلہ ”بنو طے“ کے ہر فرد کےلئے دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا مگر خود انہیں نظر انداز کر دیا۔ سیدنا عدی نے پوچھا امیر المومنین آپ نے مجھے کیوں نظر انداز کر دیا؟ سیدنا  عمر نے فرمایا، تم اسلام لانے میں ان سب سے آگے ہو اور ہمیشہ وفادار رہے ہو، سب سے پہلی زکوٰة تمہارے قبیلے نے دی تھی مگر میں نے ان لوگوںکا وظیفہ مقرر کیا ہے جن کو فاقوں نے گھیر لیا ہے حالاں کہ وہ اپنی قوم کے سردار رہے ہیں“۔(مسلم) سیدنا عمر فاروق دنیا کے مثالی حکمران ثابت ہوئے۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے اندازِ حکومت کو یاد کیا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق نے حکمرانی کے جو اصول مرتب کئے، بعد میں آنے والے دنیا کے حکمرانوں نے ان اصولوں پر عمل کرکے اپنی ریاستوں کو کامیاب بنایا۔ سیدنا عمر نے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست کا ماڈل پیش کیا۔ ان کے دور میں اسلامی ریاست وسعت پذیر ہوئی اور مختلف سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سامنے آئے۔ سیدنا عمر نے قرآن اور سنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل پیش کیا۔ آپ نے آنے والی دنیا کے نظاموں پر اثرات مرتب کیے۔ آپ کے فلاحی ماڈل کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ سیدنا عمر کے دورِ حکومت میں پیش آنے والے مستند واقعات آپ کی مثالی حکومت پر روشنی ڈالتے ہیں اور آنے والے حکمرانوںکےلئے مشعلِ راہ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو تجربہ گاہ بنائیں گے۔ بدقسمت ملک میں مختلف نوعیت کے تجربات ہوتے رہے مگر پاکستان اسلامی فلاحی جمہوری ریاست نہ بن سکا۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں پہلی اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل و تکمیل کی حالانکہ ان کے دور میں ریاست وسیع و عریض ہوچکی تھی مگر آپ نے اچھی حکمرانی کے ذریعے ہر لحاظ سے ایک مثالی ریاست قائم کی۔ دنیا کے مختلف حکمرانوں نے سیدنا عمر کے ماڈل پر عمل کرکے اپنے ملکوں کو کامیاب ویلفیئر سٹیٹ بنایا۔ ایک کالم میں سیدنا عمر کی اسلامی فلاحی ریاست کا احاطہ ممکن نہیں البتہ اس کا خاکہ ضرور پیش کیا جاسکتا ہے۔’’سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا عمر اونٹ کی ننگی پشت پر بیٹھے جارہے ہیں۔ میں نے پوچھا عمر کدھر کو ارادہ ہے۔ آپ نے فرمایا صدقہ کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے اس کی تلاش میں نکلا ہوں۔ میں نے کہا اس طرح کی مثال قائم کرکے آپ نے اپنے جانشینوں کو فروتر کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا علی مجھے اس پر ملامت مت کرو اللہ کی قسم !جس نے محمدﷺ کو نبوت کا منصب دے کر بھیجا اگر فرات کے کنارے پر بھیڑ کا بچہ بھی ضائع ہو گیا تو قیامت کے روز میری بازپرس ہوگی۔ [کنز العمال]  مگر یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ جب تک سماجی روایات نہ بدلیں، محض قانون بنا نے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔اسلامی فلاحی ریاست صرف کہنے سے معرض وجود نہیں آئے گی اور نہ ہی قانون کے ذریعہ نافذ ہوگئی ،دنیا کا قانون طبیعی طور پر تو نتیجہ خیز ہوسکتا ہے مگر اخلاقی طور پر فکر اور نظریے کو بدلے بغیر ثمرآ ور نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں حرمت شرا ب کو تین مراحل میں طے کیا گیا۔کسی چیز پر عامل ہونے کے لیے اولین شے ذہن سازی ہوتی ہے۔مکہ کی ۱۳ برس کی ذہن سازی نے وہ غیو ر، شجاع اور دین کی حمیت میں ڈوبے وہ سپاہی اور مجاہدین تیار کیے جو دین کی آبرو اور اس کی آبیاری کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتے تھے۔وسائل کی کمی کسی میدان میں بھی ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بنی۔

ریاست مدینہ کے خدوخال کا جائزہ لے کر عصرِ حاضر میں بھی راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اے اللہ ! ہمیں بھی وہ دن جلد دکھا کہ جس دن ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی اسلامی فلاحی مملکت بنے۔ آمین

راہب اور جادوگر کا قصہ ۔۔۔

پیارے بچو ! سابقہ قوموں کی بات ہے کہ ان میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا اور اس کا ایک جادوگر تھا ۔ جب وہ جادوگر بوڑھا ہوا تو بادشاہ سے بولا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میرے پاس کوئی لڑکا بھیج دے کہ میں اس کو جادو کی تربیت دوں ۔ بادشاہ نے اس کے پاس ایک لڑکا بھیجا  وہ اس کو جادو سکھلاتا تھا ۔ اس لڑکے کی آمدورفت کی راہ میں ایک راہب تھا ( عیسائی درویش یعنی پادری تارک الدنیا ) ، وہ لڑکا اس کے پاس بیٹھا اور اس کا کلام سنا تو اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ۔ اب جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کی طرف سے ہو کر نکلتا اور اس کے پاس بیٹھتا ، پھر جب جادوگر کے پاس جاتا تو جادوگر اس کو ( دیر سے آنے کی وجہ سے ) مارتا ۔ آخر لڑکے نے جادوگر کے مارنے کا راہب سے گلہ کیا تو راہب نے کہا : جب تو جادوگر سے ڈرے ، تو یہ کہہ دیا کر کہ میرے گھر والوں نے مجھ کو روک رکھا تھا اور جب تو اپنے گھر والوں سے ڈرے ، تو کہہ دیا کر کہ جادوگر نے مجھے روک رکھا تھا ۔ اسی حالت میں وہ لڑکا رہا کہ اچانک ایک بڑے درندے پر گزرا کہ جس نے لوگوں کو آمدورفت سے روک رکھا تھا ۔ لڑکے نے کہا : آج میں معلوم کرتا ہوں کہ جادوگر سچا ہے یا راہب ؟ اس نے ایک پتھر لیا اور کہا کہ الٰہی اگر راہب کا طریقہ تجھے جادوگر کے طریقے سے زیادہ پسند ہو ، تو اس جانور کو قتل کردے تاکہ لوگ گزر جائیں ۔ پھر اس کو پتھر سے مارا تو وہ جانور مر گیا اور لوگ گزرنے لگے ۔ پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اس سے یہ حال کہا تو وہ بولا کہ بیٹا تو مجھ سے بڑھ گیا ہے ، یقیناً تیرا رتبہ یہاں تک پہنچا جو میں دیکھتا ہوں اور تو عنقریب آزمایا جائے گا ۔ پھر اگر تو آزمایا جائے تو میرا نام نہ بتلانا ۔ اس لڑکے کا یہ حال تھا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتا اور ہر قسم کی بیماری کا علاج کرتا تھا ۔ یہ حال جب بادشاہ کے مصاحب جو کہ اندھا ہو گیا تھا سنا تو اس لڑکے کے پاس بہت سے تحفے لایا اور کہنے لگا : یہ سب مال تیرا ہے اگر تو مجھے اچھا کر دے ۔ لڑکے نے کہا : میں کسی کو اچھا نہیں کرتا ، اچھا کرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ، اگر تو اللہ پر ایمان لائے تو میں اللہ سے دعا کروں گا تو وہ تجھے اچھا کر دے گا ۔ وہ وزیر اللہ پر ایمان لایا تو اللہ نے اس کو اچھا کر دیا ۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اس کے پاس بیٹھا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے کہا : تیری آنکھ کس نے روشن کی؟ وزیر بولا : میرے مالک نے ۔ بادشاہ نے کہا : میرے سوا تیرا مالک کون ہے؟ وزیر نے کہا : میرا اور تیرا مالک اللہ ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور عذاب دینا شروع کیا ، یہاں تک کہ اس نے لڑکے کا نام لے لیا ۔ وہ لڑکا بلایا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا : اے بیٹا تو جادو میں اس درجہ پر پہنچا کہ اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتا ہے اور بڑے بڑے کام کر گذرتا ہے؟ وہ بولا : میں تو کسی کو اچھا نہیں کرتا

بلکہ اللہ اچھا کرنے والا ہے ۔ بادشاہ نے اس کو پکڑا اور

مارتا رہا ، یہاں تک کہ اس نے راہب کا نام بتا دیا ۔ راہب پکڑ لیا گیا ۔ اس سے کہا گیا : اپنے دین سے پھر جا۔ اس کے نہ ماننے پر بادشاہ نے ایک آرہ منگوایا اور راہب کی مانگ پر رکھ کر اس کو چیر ڈالا ، یہاں تک کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ وزیر بلایا گیا ، اس سے کہا گیا : تو اپنے دین سے پھر جا ، اس نے بھی نہ مانا اس کی مانگ پر بھی آرہ رکھا گیا اور چیر ڈالا یہاں تک کہ دو ٹکڑے ہو کر گر پڑا ۔ پھر وہ لڑکا بلایا گیا ، اس سے کہا : اپنے دین سے پلٹ جا ، اس نے بھی نہ انکار کیا ۔ تو بادشاہ نے اسے اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو فلاں پہاڑ پر لے جا کر چوٹی پر چڑھاؤ ، جب تم چوٹی پر پہنچو تو اس لڑکے سے پوچھو ، اگر وہ اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، نہیں تو اس کو گرا دو ۔ وہ اس کو لے گئے اور پہاڑ پر چڑھایا ۔ لڑکے نے دعا کی : الٰہی جس طرح تو چاہے مجھے ان کے شر سے بچا ۔ پہاڑ ہلا اور وہ لوگ گر پڑے ۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس چلا آیا ۔ بادشاہ نے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ اس نے کہا : اللہ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر بادشاہ نے اس کو اپنے چند ساتھیوں کے حوالے کیا اور کہا : اس کو ایک کشتی میں دریا کے اندر لے جاؤ ، اگر اپنے دین سے پھر جائے تو خیر ، ورنہ اس کو دریا میں دھکیل دینا ۔ وہ لوگ اس کو لے گئے ۔

لڑکے نے کہا : الٰہی ! تو مجھے جس طرح چاہے ان کے شر سے بچا لے ۔ وہ کشتی الٹی اور لڑکے کے سوا سب لوگ ڈوب گئے اور لڑکا زندہ بچ کر بادشاہ کے پاس آ گیا ۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا : تیرے ساتھی کہاں گئے؟ وہ بولا : اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے شر سے بچا لیا ۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا : تو مجھے اس وقت تک نہ مار سکے گا ، جب تک کہ جو طریقہ میں بتلاؤں وہ نہ کرے ۔ بادشاہ نے کہا : وہ کیا؟ اس نے کہا : تو سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے مجھے ایک لکڑی پر سولی دے ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر کمان کے اندر رکھ ، پھر کہہ : اس اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ پھر تیر مار ۔ اگر تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کر سکے گا ۔ بادشاہ نے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اس لڑکے کو درخت کے تنے پر لٹکایا ، پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا اور تیر کو کمان کے اندر رکھ کر یہ کہتے ہوئے مارا کہ اللہ کے نام سے مارتا ہوں جو اس لڑکے کا مالک ہے ۔ وہ تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا ۔ اس نے اپنا ہاتھ تیر کے مقام پر رکھا اور مر گیا ۔ لوگوں نے یہ حال دیکھ کر کہا : ہم تو اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ، ہم اس لڑکے کے مالک پر ایمان لائے ۔ کسی نے بادشاہ سے کہا : اللہ کی قسم ! جس سے تو ڈرتا تھا وہی ہوا یعنی لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے راستوں کے نالوں پر خندقیں کھودنے کا حکم دیا ۔ پھر خندقیں کھودی گئیں اور ان میں خوب آگ بھڑکائی گئی اور کہا : جو شخص اس دین سے ( یعنی لڑکے کے دین سے ) نہ پھرے ، اسے ان خندقوں میں دھکیل دو ، یا اس سے کہا جائے کہ ان خندقوں میں گرے ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا ، یہاں تک کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا ، اس عورت نےآگ میں گرنے سے تردد کیا تو بچے نے کہا : اے ماں! صبر کر تو سچے دین پر ہے۔( صحیح مسلم : 7511 )

پیارے بچو! مذکورہ قصہ سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوئی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔

n بنی اسرائیل کے صحیح سند سے ثابت شدہ واقعات بیان کرنا درست ہے ۔

nاللہ کے ولی ہی کامیاب ہوں گے ۔

nسحر و جادوگر ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں ۔

nاچھی مجلس میں شرکت کرنے کے لیے جھوٹا بہانا بنایا جاسکتا ہے ۔

nجادوگر کا وقتی طور پر اثر ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کو سیکھنا اور سکھانا گمراہی اور کفر ہے ۔

nمذکورہ واقعہ سے دینی علم اور اس کے طالب علم کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔

nبرے اور اچھے کو آزمائیں اچھے کو اپنائیں اور برے سے پرہیز کریں ۔

nہر چیز اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے جو کرتا ہے وہ اپنی قدرت سے کرتا ہے ۔

nاہل حق کا توکل و اعتماد صرف اللہ تعالی پر ہی ہوتا ہے وہ کسی باطل قوت سے لرزہ نہیں کرتے ۔

nحق پر آزمائشیں آئیں گی لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑنا۔

nدین پر استقامت اختیار کرنے والے کے نتائج انتہائی خوبصورت اور کامیابی والے ہوتے ہیں ۔

nظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے بارگاہ الہی میں دعائیں کرنی چاہیے ۔

nاللہ والوں کی کشتی نہیں ڈوبتی یعنی وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔

nجب انسان اللہ کے تابع ہوجائے تو ساری مخلوق اس کے تابع ہو جاتی ہے ۔

nراہ الہی میں بال بچوں کی قربانی دینا آخرت میں کامیابی کا پختہ یقین ہے ۔

nانجام کے اعتبار سے ہمیشہ حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل مغلوب ہوتا ہے ۔

کیا آپ قادیانیوں کو پہنچان سکتے ہیں

مسلمانوں کے درمیان دھوکے سے چھپ کر رہنے والے احمدی / لاہوری قادیانیوں کو پہچاننے کا آسان طریقہ ! خیال رہے کہ 1974 کی پاکستانی آئینی ترمیم اور بعد ازاں 1984 کے امتناع قادیانیت قانونی ایکٹ کی شق 298 اے ، 298 بی اور 298 سی کے تحت قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ دھوکہ دے کر خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اگر ’’شعائر اسلام‘‘کا استعمال کریں گےتو 3 سال قید کی سزا پاکستانی قانون میں موجود ہےیہاں کچھ ایسی نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جو مسلمانوں کے بھیس میں چھپ کر رہنے والا قادیانی اکثر و بیشتر اختیار کرتا ہے۔

1 مسلمانوں سےگپ شپ لگانے کے بہانے قادیانی اپنی شناخت کروائے بغیر بات مذہبی امور کی طرف لے جاتا ہےاور یہ باور کروانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے متعلق مندرجہ ذیل عقائد رکھنا کفر،نیزاسلام اور قرآن کےخلاف بھی ہےکہ اللہ نے ان کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا ہےاور کافر ان کو صلیب نہی دے سکےاور وہ قرب قیامت میں واپس آئیں گےاور دجال کو قتل کریں گے.اور قادیانی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کو صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ زخمی حالت میں فلسطین سے کشمیر ہجرت کر گئے وہاں 120 سال کی عمر میں ان کو موت آئی اور صحیح احادیث میں جو مذکور ہے کہ قیامت سے قبل حضرت عیسٰی ابن مریم نے نازل ہوناہے اس سے مراد یہ کے کہ اس امت میں سے ہی کسی مثیل عیسٰی نے پیدا ہو کر مسیح ابن مریم اور امام مہدی ہونے کا دعوٰی کرنا ہے اور قرآن میں جہاں سیدنا عیسٰی ابن مریم کے متعلق’’توٖفی‘‘ کا لفظ موجود ہے اس سے مراد ان کی موت ہےحالانکہ عربی بولنے اور جاننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ توفی کا مطلب کسی چیز کو پورا پورا قبض کرنا یا ’’پورا پورا لے لینا‘‘ ہوتا ہےاور چو نکہ اللہ نے آپ علیہ السلام کی مکمل توفی کرلی یعنی جسم ، شعور اور روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا اس لئے قرآن میں ان کی توفی کا بیان ہے اور احادیث میں ان کے قیامت سے قبل نزول کا بیان اس توفی کی تصدیق کرتا ہے۔

2 علمائے دین سے شدید متنفر کرنے کی کوشش کرنا اور ان کو تمام برائیوں کی جڑ بتاتے ہوئے ملاں یا مولوی کے نام سے پکارتا ہے، فرقہ واریت اور کفر کے فتوؤں پر بات کرنے کے بہانے موضوع کو اقلیتوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں بشمول قادیانی جماعت جس کو یہ جماعت احمدیہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ان کی طرف لے جاتا ہے اور یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ کیو نکہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے

ہیں ویسے ہی انہوں نے جماعت احمدیہ کو اپنے آپس کے

اختلاف کے تحت کافر قرار دے دیا ۔ حالانکہ امت مسلمہ کے تمام مسالک بالاجماع ایک دوسرے کو کافر قرار نہیں دیتے اور فقہہ کے چاروں امام جو گزرے ہیں ، امام احمدبن حنبل ، امام شافعی ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ ان میں سے کسی نے دوسرے فقہ کے ماننے والے کو کافر یا اسلام سے خارج قرار نہیں دیااورعقیدہ ختم نبوت کے معاملے میں تمام امت مسلمہ کا اجماع موجود ہے ہمیشہ سے کہ آپ کے بعد پیدا ہونے والا ہر مدعی نبوت اور اس کے پیروکار کافر اور اسلام سے خارج ہیں حتی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی ہے کہ جس کسی نے آپ کے بعد کسی مدعی نبوت سے اس کی صداقت کا ثبوت طلب یا اس کے کافر ہونے میں ترددکیا تو وہ خود بھی اسلام سے خارج ہوجائے گا۔

3 قادیانی چاندی کی خاص قسم کی انگوٹھی پہنتے ہیں اکثر لاعلم مسلمانوں کے سامنے یا وہاں جہاں ان کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی ان کو پہچان نہیں پائے گا جس پر قرآن کی یہ آیت لکھی ہوتی ہے

” أَلَيْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَهُ

” جس کا ترجمہ ہے:کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ یہ انگوٹھی مرزا قادیانی کی سنت کے طور پر پہنتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی بھی ایسی انگوٹھی پہنا کرتا تھا۔

4 قادیانیوں میں ان کے خلیفہ کی تو مکمل داڑھی ہوتی ہے یہ دھوکہ دینے کے لئے کہ وہ شعائر اسلام کی مکمل پابندی کرتا ہے ورنہ قادیانی کیوں کہ مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس ظاھری وضع قطع کے شعار اور نقل سے بچا جائے جسے ہمارے علمائے دین یا متقی مسلمان اپناتے ہیں جیسے مکمل داڑھی ایک مٹھی بھر ، لیکن قادیانی آپ کو 99٪ فرنچ کٹ داڑھی میں ملے گا یا پھر کلین شیواور ان کے ہاں غیر اعلانیہ حکم کے طور پر کوئی قادیانی جماعتی عہدے دار موجودہ خلیفہ سے لمبی اور گھنی داڑھی نہیں رکھ سکتا اس لئے کبھی سالانہ قادیانی جلسے کے موقع پر بھی ہزاروں قادیانیوں کے بیچ کوئی قادیانی اپنے خلیفہ جیسی،اس کے برابر یا اس سے لمبی داڑھی رکھے نظر نہیں آئے گا.اگرآپ گوگل میں رومن اردو میں “جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ” لکھ کر سرچ کریں گےتواس بات کی تصدیق ہوجائے گی۔

5 قادیانی کبھی مسلمانوں کی طرح مخصوص نماز والی گول ٹوپی نہیں پہنے گا وہ یا تو پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی پہنے نظر آئیں گے یا سندھی ٹوپی یا جناح کیپ اس حوالے سے ایک ایسی بات جو کوئی قادیانی آپ کو نہیں بتائے گا وہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت میں ان کے مرتبے یا رتبے کے لحاظ سے سر ڈھانپنے کا رواج ہے مردوں میں ان کا خلیفہ شملہ والی پگڑی پہنتا ہے اور اس کے علاوہ کسی قادیانی کو اس کی موجودگی میں پگڑی پہننے کی اجازت نہیں ہوتی.خلیفہ کے بعد جو اس سے نچلے درجے کے عہدے دار ہیں وہ جناح کیپ کا استعمال کرتے ہیں پینٹ کوٹ یا شلوار قمیض و شیروانی کے ساتھ اور پھر ان سے نچلے عام قادیانی پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی پہنتے ہیں یا پھر سندھی ٹوپی میں نظر آتے ہیں۔

6 قادیانی عورتوں کو پہچاننا تو اور بھی آسان ہےیہ بھی اپنے قادیانی مردوں کی طرح مسلمان عورتوں کی ضد میں ڈھیلے ڈھالے برقع کے بجائے عمومی طور پر ٹائٹ برقع پہنتی ہیں جس کی کمر پر اکثر بیلٹ بھی لگی ہوتی ہےتاکہ برقع کی فٹنگ اچھی آئے اس کے علاوہ ان کےبرقع میں ایک لمبی چاک بھی ہو تی ہےاور ان کے نقاب کا طریقہ بھی نرالا ہوتا ہے جس میں نقاب ناک کے نیچے رکھا ہوتا ہے ہونٹوں کے اوپر ڈھلکا ہوا جس سے سوائے لب و رخسار کے سب نظر آتا ہے جو کہ ” نہ سامنے آتے ہیں اور نہ چھپاتے ہیں ” کے مصداق مسلمان مردوں کو لبھانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

7 قادیانیوں کا ٹی وی چینل ایم ٹی اے (مسلم ٹی وی احمدیہ ) کے نام سے سیٹیلائٹ سے 24 گھنٹے نشر ہوتا ہے جس پر یہ اپنے مذموم کفریہ عقیدے کی کھلم کھلا تبلیغ کرتے ہیں اور دجل پر مبی تعلیم کو “اسلام احمدیت” یعنی احمدیت ہی اصل اسلام ہے، کے نعرے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔قادیانیوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آج کے اس دور میں جب کیبل ٹی وی عام ہے اور ڈش اینٹینا کا استعمال پاکستان میں عام گھریلو صارفین کے لئے متروک و معدوم ہوچلا ہے لیکن اس کے باوجود قادیانی ایم ٹی اے چینل دیکھنے کی غرض سے اپنے گھروں پر ڈش اینٹینا لگاتے ہیں اور جن مسلمانوں پر یہ اپنے دجل و فریب کی طبع آزمائی کرتے ہیں ان کو اکثر تبلیغ کی نیت سے اپنا یہ ٹی وی چینل اپنے گھر یا علاقے کے قادیانی مرکز میں بلا کر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔قادیانیوں کا مشہور چینل “مینارةالمسیح”هے جو کہ قادیان انڈیا میں ہےجس مینارہ کو یہ اپنے ٹی وی چینل پر مسلمانوں کے مقابلے میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی جگہ دکھا کر اس کو مشتہر کرتے ہیں۔

8 سب سے اہم نشانی یہ کہ قادیانی ناموں کے آغاز میں آپ کو محمد لگا نظر نہیں آئے گا اور ناہی کوئی پیدائشی قادیانی آپ کو اس طرح کا خالص اسلامی نام رکھے نظر آئے گا جیسے کہ عبداللہ ، مصطفٰی ، عبدالرشید ، عبدالقیوم ، جب کہ ان کے ناموں کے اختتام میں احمد لگا ہوا پایا جاتا ہے جو مرزا قادیانی کے نام کا بھی حصہ تھا اور قادیانی قرآن میں بیان ہونے والے آقا کے مخصوص نام احمد سے مراد مرزا قادیانی کی ذات ہی لیتے ہیں ۔ (معاذ اللہ)

9یاد رہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں پائے جانے والے زیادہ تر قادیانی پنجابی زبان بولنے والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ مرزا قادیانی کا تعلق بھی تقسیم ہندوستان سے قبل قادیان ضلع “گورداسپور” پنجاب سے تھا اس لئے ان کی تبلیغ کا زیادہ اور مرکزی دائرہ اثر بھی تقسیم سے قبل اور بعد میں بھی پنجاب ہی رہا جہاں موجود سادہ لوح دیہاتی ملنسار ماحول میں ان کے فتنے کا شکار ہو سکے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے نسل در نسل.یہ کچھ نشانیاں لکھ دی ہیں قادیانیوں کی امید ہے پڑھنے والے اس کو ضرور یاد رکھیں گے اور آگے بھی اس کی تبلیغ ضرور کریں گے تاکہ مسلمان اس قادیانی فتنے سے محفوظ رہیں اور اپنا ایمان سلامت رکھیں ۔

۔۔۔

ہنسنے کے آداب

ہرقسم کی حمدثناءاللہ رب العزت کےلیے ہےکہ جس نے اکیلےہی پوری کا ئنات کو تخلیق کیا اور انسان کواپنی تمام مخلوقات پرفضیلت دیتےہوئےاسےدنیاوآخرت میں کامیابی حاصل کرنے کےاصول بھی بتا دئیے۔

درودوسلام نبی مکرم پر جنہوں نے اللہ کے پیغامات انسانیت تک پہنچائے کہ جس طرح سورج کی روشنی میںہر چیزواضح نظر آتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنی زندگی اس طرح گزارے جیسے گزارنے کا اللہ عزوجل نے حکم دیاہےقرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : 

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملک:2)

’’وہ جس نےموت اور حیات کوپیداکیا تاکہ وہ تم لوگوںکو آزماکردیکھےکہ تم میںسے کون بہترعمل کرتاہے ۔

سوال یہ پیداہوتاہےکہ بہترین اعمال کونسے ہیں؟ انہیں کیسےکرناہے؟ اور آزمانےکاپیمانہ کیا ہو گا؟ ان تمام باتوں کا جواب قرآن و حدیث کے مطالعہ سے بآسانی مل سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کوایک اہم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے کیاچاہتا ہےکہ وہ زندگی بھراسکا مطیع وفرمانبرداربن کررہے یہ بھی جان لے کہ انسان اللہ کی ہدایت و رہنماـــ ئی کا محتاج ہے اس مضمون کا مقصد ہردرجہ کے ایمان رکھنےوالوںکو اس بات پریکجا کرنا ہےکہ اللہ تعالیٰ کےاحکامات کوماننے میںہی ہماری بقاءواخروی نجات ہےا س مضمون میںآپکوہنسنے و قہقہہ کے متعلق احکامات شریعت بتائیںگے۔

ہنسنے کے موقع پر ضرور ہنسیے! ہنسی انسان کا ایک طبعی تقاضا اور فطری عمل ہے۔ دین اسلام فطری ضرورتوں کی اہمیت کو محسوس کرتاہے اور کچھ مفید حدود وشرائط کے ساتھ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتاہے۔دین اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آپ غیر مطلوبہ سنجیدگی ، ہر وقت کی فرسودگی سے اچھے کردار کی کشش کو ختم کر دیں۔ جائز مواقع پر خوشی کا ہنس کر اظہار کرنا اور ہنسنے کو دینی وقار کے خلاف سمجھنا دین کے فہم سے محرومی ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ نجم آیت 43 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى

’’اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور رُلاتاہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس نے انسان میں ہنسنے اور رونے کی قوت ودیعت کی ہے۔

یہاںیہ سوال پیداہوتاہےکہ ہنساکیسے جائے؟سب سےپہلےتوآپ یہ سمجھیےکہ معاشرےمیںہنسنےکیے لیے رائج طور طریقےکون سے ہے

1تبسم:عربی زبان کالفظ ہے جسکااردومیںمعنی مسکراہٹ ایسی مسکراہٹ جس میںلب نہ کھلیں۔

2قهقهہ : عربي ميں اس طرح اور اردو میں ’’قہقہہ‘‘ ٹھٹھا زور سے بلند آواز سے ہنسنا۔

3ضحک:عربی کا لفظ ہےجس کےمعنی ہیںہنسنا۔ کھلکھلا کر جس میںہونٹ ومنہ کھلےپرآوازنہ آئے۔

دین اسلام ہنسنےاورمسکرانےکی مذمت یانفی نہیںکرتابلکہ آداب سکھاتا ہےاورقہقہہ کی مذمت کرتاہے۔ ہنسنے کی صفت تو باری تعالیٰ کی ہے۔ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا بھی ذکر ہے جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتاہے اور اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت میں داخل کرتاہے ان میں سے ایک کافر ہوتا جودوسرے مومن کو شہید کرتاہے پھر وہ مسلمان ہوکر اللہ کے راستے میں جہاد کرتاہے اور شہید کردیاجاتاہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :404)

قرآن مجید میں بھی ہنسنے اور مسکرانے کا ذکر آیا ہے۔

فَلْيَضْحَکُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْکُوْا کَثِيْرًا ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ (التوبۃ:82)

’’پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو وہ کرتے تھے۔ ‘‘

اوردوسرے مقام پر ہے :

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِکَ فِيْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِيْنَ  (النمل:19)

’’اس کی اس بات سے سیدنا سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔ ‘‘

حدیث میں نبی کریم  کے ہنسنے کا کسی نہ کسی طرح سے ذکر ہے مگر نبی کریم  کا ہنسنا صرف تبسم کے طور پر ہوتا تھا ۔ سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک روز نبی کریم  جب غزوئہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو دروازے کے قریب ایک پردہ پڑا تھا۔ ہوا کی وجہ سے اس کا ایک کنارہ اٹھ گیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں(جو اس پردے کے نیچے تھیں) نظر آنے لگیں۔ نبی کریم  نے فرمایا ’’ اے عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا ’’یہ میری گڑیاں ہیں۔‘‘

نبی کریم  نے دیکھا ان کھلونوں میں ایک گھوڑا بھی ہے جس کے دو پر ہیں ۔ تو نبی کریم نے پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ گھوڑا ہے ، تو آپ  نے فرمایا ’’اس کے اوپر کیا ہے؟ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ یہ اس کے پر ہیں۔ تو آپ  نے فرمایا ’’گھوڑے کے پر …. ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’آپ نے نہیں سنا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے ، تو یہ سن کر رسول اللہ  اس قدر ہنسے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (سنن ابی داود : 4932)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کہ نبی کریم  کو اس طرح کھل کر کبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ  کے حلق کا کوّا نظر آنے لگتا ہو ، آپ  صرف مسکراتے تھے۔ (صحیح بخاری : 6092)

نبی کریم  کا ہنسنا اور مسکرانا بھی کمال اور فطرت کا ایک بہترین نمونہ تھا ، نبی کریم کبھی کبھار کھل کر ہنستے تو تب اس انداز سے ہنستے تھے کہ آواز پیدا نہ ہوتی ، فطری حسن کا یہ مہذب انداز ہمارے لیے نمونہ ہے۔ قہقہہ لگا کر بلند آواز نکال کر ہنسنا غیر مہذب اور غیر اخلاقی عمل ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ جلد اول ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں کہ نبی کریم  کا ہنسنا اکثر تبسم کی حد تک رہتا۔ آپ  کے ہنسنے کی آخری حد یہ تھی کہ فقط داڑھیں نظر آئیں۔کسی ہنسنے کی بات پر آپ  مسکرا دیتے ، ہنستے وقت چیخنے چلانے کی آواز قہقہہ ہوتاہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہنستے تھے۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیاگیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنستے تھے ؟ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ، ہاں ۔ اور حالانکہ ان کے دلوں میں بھی پہاڑ سے بہت بڑا ایمان تھا اور بلال بن سعد تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے صحابہ کو پایا کہ وہ تیروں کے نشانوں کے درمیان دوڑتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کرہنستے ، پھر جب رات ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے ہوتے۔ (البغوی، شرح السنۃ :3351 ۔ مشکوٰۃ :4749)

آپ نے پڑھا کہ نبی کریم  کا مسکرانا بھی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اور اخلاقی نمونہ تھا۔ آپ  نہ روتے ہوئے آواز کے ساتھ روتے تھے اور نہ ہی آواز نکال کر قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ قہقہہ لگاکر معیوب انداز میں ہنسنا نبی کریم  کی تعلیمات واخلاقیات کے منافی ہے۔

ہمارے معاشرے میں تو ( اللہ تعالیٰ معاف فرمائے) قہقہہ لگا کر تالیاں بجا کر خوب زور سے ہنسنا محفل کی شان سمجھا جاتاہے۔ نبی کریم نہ کسی کا خود مذاق اڑاتے تھے اور نہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے تھے بلکہ اس کی مذمت اور اس سے منع فرماتے تھے۔ قرآن نے بھی اس عمل کو استہزاء اور تمسخر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی خوب مذمت کی ہے۔

سورۃ الحجرات آیت 11 کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ گناہ صغیرہ یہ ہے کہ کسی مومن کا مذاق اڑایا جائے اور کبیرہ یہ ہے کہ اس پر قہقہہ لگایا جائے۔

بےشک ہنسنا ایک فطری عمل ہے جس کی تائید دین اسلام میں موجود ہے اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر بھی ہے اور نبی کریم  کے عمل سے بھی واضح ہےلیکن اس کے برعکس زیادہ ہنسنے کی اسلامی شریعت میں ممانعت ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  نے فرمایا: 

لَا تُكْثِرُوا الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ

 ’’ زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتاہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ : 4193)

دل مردہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ انسان کو کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا اسی طرح غافل آدمی کو بھی اپنی آخرت کے نفع ونقصان کا احساس نہیں ہوتا ۔ جب دل مردہ ہوجائے تو اس میں نرمی کی جگہ سختی، رحم کی جگہ سنگدلی اور انصاف کی جگہ ظلم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ نیکی سے محبت اور گناہ سے نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ دل اللہ کے ذکر اور نمازکی طرف مائل نہیں ہوتا۔

سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ   فرماتے تھے:

وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَکْذِبُ لِيُضْحِکَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ

 ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ لوگ ہنسیں، ہلاکت ہے اس کیلئے ، ہلاکت ہے اس کیلئے۔‘‘ (ابو داود : 4990)

اپنی طرف سے لطیفے بناکر ہنسنانے کی خاطر جھوٹ بولنے والے شخص کے لیے ہلاکت ہے۔ کس قدر نادان ہے وہ شخص جو دوسروں کو ہنسانے کی غرض سے اپنی عاقبت برباد کر تاہے۔آج کے جدید دور میں لوگوں کو موبائل پر لطیفے بھیجنا اور طنز ومزاح کی ویڈیوز بھیجنا اس میں شامل ہیں؟

آج ٹیلی ویژن ودیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جھوٹ اور مزاح کی بنیاد پر مخلوط محافل سجائی جاتی ہیں اور ایسے پروگرام بطور خاص لوگوں کو خوش اور لطف اندوز کرنے کے لیے نشر کیے جاتے ہیں ۔ ان شوز میں جھوٹی باتیں گھڑنے والا شخص محفلوں کو قہقہوں سے سجا کر اپنی اور دوسروں کی عاقبت برباد کر رہا ہوتاہے۔

ایک مسلمان کیلئے ہر وقت کتاب وسنت پر کاربند رہنا انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر جب فتنے بہت زیادہ ہوں اور گناہوں کی بھرمار ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ گمراہی اور فسق وفجور والے لوگوں سے دور رہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو حق کی پہچان اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل سے حتی الامکان اجتناب کرنے والا بنادے۔ آمین

۔۔۔

 

فرزندِ توحید مولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی

میں نے اپنے مضمون کا عنوان ’’ فرزندِ توحید‘‘ رکھا ہے اور یہ الفاظ میں نے مولانا محمد خالد سیف فیصل آبادی حفظہ اللہ کی کتاب تذکرۂ شہید کے مقدمہ سے مستعار لیے ہیں، مقدمہ مولانا محمد حنیف ندوی(م 1987ء) کا تحریر کردہ ہے۔(عبد الرشید عراقی)

خاندان ولی الٰہی کو برصغیر پاک وہند میں بسلسلہ دین اسلام کی اشاعت اور کتاب وسنت کی ترقی وترویج، مدافعت ،نصرت ، تائید وحمایت اور شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں جو قدرومنزلت اور مرتبہ ومقام عطا کیا وہ اس خطہ ارض کی اسلامی ودینی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

خاندان ولی الہٰی دہلوی کی خدمات آبِ زریں سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس خاندان کے جلیل القدر افراد علوم عالیہ وآلیہ میں تحریر وتقریر کے ذریعہ جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ان کا تذکرہ ان شاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک رہے گا۔

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرنے سے قبل ضرور ی سمجھتا ہوں کہ ان کے آباء واجداد کا مختصر تذکرہ کر دیا جائے۔یعنی

شاہ ولی اللہ دہلوی 1114ھ/1176ھ

شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ / 1239ھ

شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ/1233ھ

شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ/1230ھ

شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ / 1227ھ

شاہ ولی اللہ دہلوی a:

شاہ ولی اللہ دہلوی بن شاہ عبد الرحیم دہلوی علوم اسلامیہ کے بحر زخّار اور جید عالم دین تھے۔ تمام علوم عالیہ وآلیہ پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی ،محقق بھی تھے اور مورخ بھین متعلم بھی تھے اور متکلم بھی ، مدرس بھی تھے اور مصنف بھی، مبلغ بھی تھے اور واعظ بھی،صوفی بھی تھے اور شاعر بھی ۔ غرض یہ کہ ان جیسا علوم اسلامیہ میں مہارت تامہ رکھنے والا عالم دین کی نظیر ہندوستان میں مشکل ہی سے ملے گی۔

محی السنہ مولانا سید نواب صدیق حسن خان(م 1307ھ)  فرماتے ہیں :

’’انصاف ایں است کہ اگر وجود او درصدر اول ودر زمانہ ماضی بود امام الآئمہ وتاج المجتهدین شمرده می شود ‘‘

حقیقت یہ ہے کہ ان کا وجود گرامی اگر دور اول اور زمانہ ماضی میں ہوتا تو انہیں امام الائمہ اور مجتہدین کی جماعت میں کیاجاتا۔(اتحاف النبلاء ، ص:430)

علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) فرماتے ہیں :

’’ شاہ صاحب(ولی اللہ) کا وجود اس عہد میں ہند کے لیے ایک موہبت عظمیٰ اور عطیہ کبریٰ تھا۔ (مقالات سلیمان 2/44)

امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(م 1375ھ) لکھتے ہیں :

آپ بلا نزاع 12 ویں صدی کے مجدد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی میں ان کو خاص ملکہ عطا کیا تھا، آپ کی تصانیف سے ہندوستان کی علمی دنیامیں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوگیا۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص:406)

شاہ عبد العزیز دہلوی a:

شاہ عبد العزیز دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی نے 15 سال کی عمر میں اپنے والد محترم سے علوم عالیہ وآلیہ میں فراغت پائی۔

آپ علم تفسیر،حدیث ، فقہ، سیرت،تاریخ میں شہرہ آفاق تھے،مباحثہ،مناظرہ اور ادیان باطلہ پر ان کو کامل دستگاہ حاصل تھی وہ بلاشبہ میدان علم وفضل کے نامور شہسوار تھے۔

حضرت شاہ عبد العزیز جامع الکمالات والصفات تھے۔ آپ بہت بڑے خطیب ومقرر تھے ان کی تقریر میں بلا کا جادو تھا، آپ کی شیوہ بیانی کا ہر موافق ومخالف پر یکساں اثر ہوتاتھا۔

مولانا سید نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں کہ

’’ بحث ومناظرہ میں اپنے تمام اقران ومعاصرین میں ممتاز تھے اور اس باب میں ان کے موافق ومخالف ان کا لوہا مانتے تھے۔ (اتحاف النبلاء ، ص:296)

حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی بڑے زندہ دل اور حاضر جواب تھے۔ اور بحیثیت مصنف عالمگیر شہرت رکھتے تھے اور ان کے ہم عصر علمائے کرام ان کے علم وفضل اورتبحر علمی کے معترف تھے۔ (تاریخ اہلحدیث ، ص:409۔ رودِ کوثر ، ص:579)

شاہ رفیع الدین دہلویa :

حضرت شاہ رفیع الدین بن حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی عظیم المرتبت عالم دین تھے ان کے بارے میں مولانا سید عبد الحی حسنی ( م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ

شاہ رفیع الدین دہلوی بہت بڑے شیخ،امام،عالم کبیر، علامہ دہر،محدث،متکلم،ماہر اصول اپنے دور کی منفرد اور نادرہ روز گار شخصیت تھے۔(نزھۃ الخواطر 7/182)

تمام علوم عالیہ وآلیہ میں ماہر کامل ہونے کے ساتھ متین وسنجیدہ،رحمدل، انصاف پسند ،راست باز،بردبار اور جودوسخا سے متصف تھے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی خدمات ، ص:144)

شاہ عبد القادر دہلوی a:

شاہ عبد القادر دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی صاحب علم وفضل، جید عالم دین، محدث، مفسر، مجتہد،فقیہ، واعظ، مبلغ، متقی،زاہد،عابد،صاحب تقویٰ وطہارت، منکسر المزاج، متواضع،خلیق اور صاحب کرامات تھے۔

حضرت شاہ عبد القادر متوکل علی اللہ اور متبحر عالم تھے آپ نے اپنی تمام عمر دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں درس وتدریس،وعظ وفتاویٰ نویسی اور ریاضت وعبادت میں گزاردی، دنیوی مال ومتاع سے بالکل دلچسپی نہ تھی۔

شاہ صاحب کا عظیم کارنامہ قرآن مجید کا بامحاورہ اُردو ترجمہ اس حسن خوبی سے کیا ہے کہ اہل علم اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ مولانا محمد رحیم بخش دہلوی نے اپنی کتاب ’’حیات ولی‘‘ کسی فاضل کا یہ قول نقل کیا ہے کہ

اگر اُردو زبان میں قرآن مجید نازل ہوتا تو انہی محاورات سے آراستہ ہوتا جن کی رعایت حضرت شاہ عبد القادر دہلوی نے اس ترجمے میں پیش نظر رکھی ہے۔(حیات ولی ، ص:641)

شاہ عبد الغنی دہلوی a:

حضرت عبد الغنی دہلوی بن شاہ ولی اللہ دہلوی علوم اسلامیہ میں یکتائے روز گار تھے۔ درویشانہ زندگی کو اپنا شعار بنالیا تھا۔ ظاہر ی وباطنی فیوض میں شہرت عام رکھتے تھے اور کتاب وسنت کی تعلیم میں بہت دلچسپی لیتے ۔ علمی کمالات میں امتیازی حیثیت حاصل تھی ، بہت بڑے متوکل اور قانع تھے اور ان اوصاف کی وجہ سے ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ دین سے وابستگی کی بنا پر بڑے بڑے رؤساء وامراء ،علماء وفضلا نہایت ادب سے پیش آتے تھے۔ وضع ولباس،اخلاق وعادات اور شکل وشباہت میں اپنے والد حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی سے مشابہت رکھتے تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:63۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کے علمی کارنامے ، ص:158)

شاہ ولی اللہ کی اولاد امجاد : 

اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کو چار بیٹے عطا فرمائے۔ جن کے اسمائے گرامی یہ تھے ۔

1شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ / 1239ھ

2شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ/1233ھ

3شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ/1230ھ

4شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ / 1227ھ

اللہ تعالیٰ نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کو ایسی نیک اولاد عطا فرمائی جنہوں نے ان کے ادھورے کاموں کی بعد از وفات تکمیل کی اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ کو پیغام نبوی کے آوازہ سے معمور کیا اس وقت پاک وہند میں جو قال اللہ وقال رسول اللہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ سب خاندان ولی الٰہی دہلوی کے فضل وکمال کی خیر وبرکت کی صدائے بازگشت ہے۔

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(م 1999ء) فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ نے آپ کو (شاہ ولی اللہ دہلوی) ایسے فرزند وجانشین عطافرمائے جو ’’نعم الخلف ونعم السلف‘‘ کے صحیح مصداق ہیں اور جنہوں نے حضرت شاہ صاحب کے جلائے ہوئے چراغ کو نہ صرف روشن وتاباں رکھا بلکہ اس سے سینکڑوں چراغ جلائے پھر ان چراغوں سے چراغ جلتے رہے جن سے اس پورے تحتی بر اعظم (ہندوستان) اور ہندوستان سے باہر بھی کتا ب وسنت ، عقائد حقہ ، اشاعت توحید خالص، رد شرک وبدعت، اصلاح رسوم، تزکیہ نفس ، حصول درجہ، احسانی، اعلائے کلمۃ اللہ ، جہاد فی سبیل اللہ، حمیت دینی، تاسیس مدارس دینیہ ، دین کی صحیح تعلیمات کی ترجمانی وتبلیغ کے لیے تصنیف وتالیف اور تراجم قرآن وکتب حدیث وفقہ کا مبارک سلسلہ اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک جاری ہے۔ (تاریخ دعوت وعزیمت 5/343)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادگان عالی مقام کی ولادت اس طرح ہے :

1شاہ عبد العزیز دہلوی 1159 ھ 

2شاہ رفیع الدین دہلوی1163ھ

3شاہ عبد القادر دہلوی 1167ھ

4شاہ عبد الغنی دہلوی 1170ھ

مگر ان چاروں ذی وقار بھائیوں کی وفات کی ترتیب یہ ہے :

1شاہ عبد الغنی دہلوی 1227ھ

2شاہ عبد القادر دہلوی 1230ھ

3شاہ رفیع الدین دہلوی1233ھ

4شاہ عبد العزیز دہلوی 1239ھ

کہ ترتیب منعکسہ در رحلت برادران واقع شد یعنی اول مولوی عبد الغنی کہ خورد ترین ہمہ ہا بودند بعد ازاں مولوی عبد القادر از اوشان بعدہ ، مولوی رفیع الدین کلاں از اوشان حالانکہ کلاں سال از اوشان ہستم باری ماست

ہم چاروں بھائیوں میں وفات کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے مولوی عبد الغنی فوت ہوئے جو سب سے چھوٹے تھے اس کے بعد مولوی عبد القادر ان کے بعد مولوی رفیع الدین جو اُن سے بڑے تھے حالانکہ سب سے بڑا میں ہوں اور میری باری تھی۔ ( تذکرہ شاہ ولی اللہ ، ص:308)

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی a

حضرت مولانا شاہ اسمعیل شہید دہلوی کے علم وفضل اور ان کے مجاہدانہ کارناموں کا ارباب سیر اور علمائے اسلام نے بڑے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے آپ ایک بہت بڑے عالم دین، دینی مفکر اور مدبر، بلند پایہ خطیب، مقرر، مبلغ، عظیم مجتہد اور فقیہ ،دانشور، ادیب،محقق، مورخ، مصنف، معلم ، متکلم، متبع سنت نبوی ، قاطع بدعت، ذہین وفطین، تحریک آزادی کے میر کارواں، حافظ قرآن ، متبحر عالم دین، حق گوئی وبیباکی کے شہسوار، عابد ،زاہد، شب زندہ دار، زہد وورع کے پیکر، تقوی وطہارت میں اعلیٰ وارفع ، شجاعت وبسالت،شرافت ،ذکاوت،عدالت،ثقاہت اور جرأت اور حد درجہ مردم شناس تھے ۔

مولوی رحمان علی بریلوی فرماتے ہیں کہ

ابن مولوی عبد الغنی بن مولانا شاہ ولی اللہ درایا قوت ورسائی فکر یگانہ روزگار مشارٌ الیہ علمائے کبار بود

یعنی مولوی عبد الغنی کے یہ فرزند اور مولانا شاہ ولی اللہ کے پوتے ریاضت اور فہم میں یگانہ روزگار تھے حلقہ ہائے کبار میں مشار الیہ تھے۔ ( تذکرہ علمائے ہند ، ص:179)

مولانا فضل حق خیر آبادی شاہ اسمعیل شہید کے معاصر تھے اور متعدد مسائل میں شاہ صاحب کے سخت مخالف تھے جب انہیں حضرت شاہ صاحب کی شہادت کی خبر ملی تو ایک دم سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش رہے اس کے بعد فرمانے لگے۔

اسمعیل کو ہم مولوی نہیں مانتے تھے بلکہ وہ امت محمدیہ کا حکیم تھا امام رازی نے اگر علم حاصل کیا تو دودچراغ دکھا کر اور اسمعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعداد خداداد سے۔ (الحیاۃ بعد المماۃ ، ص:110)

شاہ صاحب ایک جید عالم دین ، دینی مفکر، قاطع بدعت، بلند پایہ مبلغ خطیب ومقرر اور عظیم مجتہد تھے وہ غیر معمولی وسعت کے مالک اور ذہین وفریس تھے ۔ (شاہ عبد العزیز اور اُن کی علمی خدمات ، ص:180)

اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ

شاہ اسمعیل شہید اپنے کمالات کے باعث رب ذوالجلال کی قدرت کا ایک نمونہ تھے۔ (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ ، ص: 752)

علامہ اقبال کا فرمان تھا کہ

اگر مولانا محمد اسمعیل شہید کے بعد ان کے مرتبہ کا ایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے۔ (تاریخ اہلحدیث مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، ص:414)

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ

جہاں تک مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید کا تعلق ہے وہ ان اولو العزم عالی ہمت،ذکی جری اور غیر معمولی افراد میں تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ مجتہدانہ دماغ کے مالک تھے اور اس میں ذرا مبالغہ نہیں کہ ان میں بہت سے علوم کو ازسر نو مدون کرنے کی قدرت وصلاحیت تھی۔ (تاریخ دعوت وعزیمت ، 5/378)

مولانا علی میاں مرحوم اپنی دوسری کتاب’’کاروان ایمان وعزیمت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

آپ کی زبان میں ایسی تأثیر تھی کہ پتھر موم،دشمن دوست،منکرمعتقد ہوجاتا تھا علمی کمالات کے ساتھ دولت باطن اور کمالات روحانی سے بھی مالامال تھے۔ (کاروان ایمان وعزیمت ، ص:28۔31)

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنے بھتیجے مولانا شاہ اسمعیل شہید اور نواسے شاہ محمد اسحاق کے بارے میں فرمایا کرتے تھے ۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ

یعنی شکر ہے اس ذات کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسمعیل اور اسحاق جیسے بیٹے عطا کیے۔ ( الحیاۃ بعد المماۃ ،  ص:49)

شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ

برائے رہبری قوم فساق

دوبارہ آمد اسمعیل واسحاق (ایضا ، ص:197)

مولانا غلام رسول مہر مرحوم فرماتے ہیں کہ

ایسا باعمل،فاضل بے بدل، صاحب اخلاق،شہرہ آفاق المعی زماں ، لوذعی دوراں، واقف علوم معقول ومنقول کاشف وقائق فروع واصول، رافع اعلام توحید وسنت، قامع بنیان شرک وبدعت، فتوت کردار، شجاعت وثار اس وقت ہم نے کہیں نہ سنا دیکھنا تو کیا۔ ( تذکرئہ شہید ، ص: 321)

ڈاکٹر محمد باقر لکھتے ہیں کہ

خلافت راشدہ کے بعد اسلام نے حقیقی نمونے کے بہت کم مسلمان پیدا کیے اور شاہ اسمعیل شہید جیسے راسخ العقیدہ مسلمان تو اس سے بھی کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ (اسمعیل شہید مرتبہ عبد اللہ بٹ ، ص : 30)

متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی ( م 1987) نے حضرت شاہ اسمعیل شہید کا تعارف دو الفاظ میں کرایا ہے

فرزند توحید ‘‘ تھے۔ (تذکرہ شہید ، ص:10)

ڈاکٹر تصدق حسین خالد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ

برطانوی سامراج نے تحریک ترغیب محمدیہ کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن یہ عظیم الشان تحریک نابود نہ ہوسکی کیونکہ اس تحریک کے باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جن کی زندگیاں ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھیں اور ان کے سینے میں ایک شمع فروزاں تھی جس سے وہ غیر اسلامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے یہ بیداری اس مذہی اصلاح اور ملی احساس کا نتیجہ تھی جسے شمس الہند حضرت شاہ عبد العزیز اور اُن کے بلند مرتبہ مقلدین شاہ اسمعیل شہید اور سید احمد بریلوی رحمہم اللہ نے پیدا کی۔ ( اسمعیل شہید مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص:70)

مولانا سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں کہ

شاہ اسمعیل شہید حقیقی معنوں میں قدرتی خدمت گار تھے وہ خدا کی زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرکے دنیا میں عدل وانصاف، حق وصداقت اور امن کی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے لیکن یہ ان کی یہ اسلامی تحریک بھی مسلمانوں کی غداری کے باعث کامیاب نہ ہوسکی۔ (ایضاً ، ص:144)

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م 1956ء) لکھتے ہیں کہ

مولانا شاہ محمداسمعیل شہید دہلوی ائمہ دین ، فقہائے متین اور بلند پایہ محدثین میں سے تھے آپ قاطع شرک وبدعت وماحی محدثات وکفریات تھے۔

اتباع سنت اور اجتناب از بدعت کا جو بیج آپ کے دادا شاہ ولی اللہ نے بویا تھا وہ آپ کے زمانہ میں خوب پھیلا اور جو کام انہوں نے شروع کیا تھا آپ نے اس کو انجام تک پہنچایا آپ اسلام کے ان اولو العزم ، عالی ہمت، ذکی،جری اور غیر معمولی افراد میں سے تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ( تاریخ اہلحدیث ، ص: 413۔414)

مولانا قاضی محمداسلم سیف فیروزپوری مرحوم لکھتے ہیں کہ

شاہ ولی اللہ دہلوی نے برصغیر میں قرآن وحدیث کی جو تحریک شروع کی اور فقہ الحدیث کے نام سے حدیث فہمی کی جو طرح ڈالی اس کا نقطۂ آغاز شاہ ولی اللہ اور اس کا نقطۂ انجام شاہ اسمعیل شہید سے مکمل ہوا۔ (تحریک اہلحدیث تاریخ کے آئینے میں، ص:231)

نامور دیوبندی عالم دین مولانا محمدیوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

فالشیخ اسمعیل الشہید من ذلک الجیل أو من ذلک الرعیل الذی یشبہ تماماً بأؤلئک الصحابۃ الذین کانواولی نفوس قدسیۃ وأرواح زکیۃ وقلوب تقیۃ

شیخ اسمعیل شہید ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہیں نفوس قدسیہ،ارواح زکیہ اور قلوب تقیہ کے مالک حضرات صحابہ کرام سے مکمل طور پر مشابہت حاصل ہے۔ ( دیباچہ طبقات از مولانا اسمعیل شہیددہلوی ، ص:2)

حضرت شاہ محمد اسمعیل دہلوی کی دینی ، مذہبی ، علمی وجہادی خدمات

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ (البقرۃ :154)

’’اور اللہ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘

جہاں تک مولانا شاہ اسمعیل شہید دہلوی کا تعلق ہے وہ ان اولو العزم عالی ہمت ، ذکی ، جری اور غیر معمولی افراد میں تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے وہ جید عالم دین، مجتہد، فقیہ، واعظ، مقرر،مبلغ، قاطع شرک وبدعت، متبع سنت اور مجاہد تھے۔ بقول شاعر

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا

آپ کی ولادت 12 ربیع الثانی 1193ھ / 12 اپریل 1779ء ہے۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:169)

تعلیم وتربیت :

6 سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید سے تعلیم کا آغاز ہوا اور 2 سال کی مدت میں آپ نے قرآن مجید حفظ کر لیا اس کے بعد آپ نے علوم عالیہ وآلیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی ان کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :

والد محترم شاہ عبد الغنی دہلوی (م 1227ھ)

تایا محترم شاہ عبد القادر دہلوی ( م 1230ھ)

تایا محترم شاہ عبد العزیز دہلوی ( م 1239ھ)

تایا محترم شاہ رفیع الدین دہلوی ( م 1233ھ)

مولانا عبد الحی بڈھانوی ( م 1242ھ)

یہ سب حضرات اپنے عہد کے اساطین علم وفن تھے۔

فراغت تعلیم کے بعد : 

فراغت تعلیم کے بعد حضرت شاہ اسمعیل میدان عمل میں اُترے اور علوم اسلامیہ کی تدریس اور وعظ وتبلیغ سے آغاز کیا ان کا وعظ بڑا پُر تأثیر اور دل پذیر ہوتا تھا ان کا وعظ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہوتا تھا کوئی بات اپنے وعظ وعظ اور تقریر میں بیان نہیں کرتے تھے جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہ ملتا ہو۔

حضرت شاہ اسمعیل نے لوگوں تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لیے جامع مسجد دہلی سے وعظ وتبلیغ کا آغاز کیا آپ نے شرک وبدعت اور جاہلانہ رسومات کی پُر زور تردید کی آپ جب تک حیات رہے ۔ قرآن وحدیث کی خدمت کی ، اللہ تعالیٰ کی توحید کی منادی کی ، شرک وبدعت اور جاہلانہ رسومات کی تردید کی ۔ بقول مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء)

1230ھ میں مولانا شاہ عبد القادر دہلوی نے رحلت فرمائی ۔ تو حضرت شاہ اسمعیل نے درس وتدریس کا بیڑا اٹھایا اور خاندانی روایات کے مطابق مسند تدریس کو زینت بخشی ۔

لیکن آپ زیادہ عرصہ تک تدریس کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ اس سے قبل آپ حضرات امیر المؤمنین سید احمد (رائے بریلوی) کی بیعت ہو چکے تھے اور حضرت سید احمد مع اپنے رفقاء فریضۂ حج بیت اللہ کے طرف حجاز روانہ ہوئے اور حضرت شاہ اسمعیل بھی ان کے ہمراہ شریک سفر ہوگئے ۔ تاہم جتنا عرصہ بھی حضرت شاہ صاحب نے درس وتدریس میں گزرا آپ سے بہت سے ذی وقار علمائے کرام نے علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا چند ایک مشہور تلامذہ یہ ہیں

حضرت سید احمد شہید ( ش 1246ھ) ، مولانا سخاوت علی جون پوری ( م 1264ھ) ، مولانا عبد الحق بنارسی (م 1276ھ) مولانا عبد اللہ علوی ( م 1363ھ) ، مولانا معین الدین سہوانی ( م 1372ھ) ۔(تذکرہ شہید ، ص:74)

فریضۂ حج اور مراجعت : 

1236ھ / 1820ء حضرت شاہ اسمعیل ، مولانا عبد الحی بڈھانوی اور دوسرے بے شمار رفقاء حضرت امیر المؤمنین سید احمد کی قیادت میں سفر حج کے لیے روانہ ہوئے ۔ 28 شعبان 1337ھ / 1821ء آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد محرم 1338ھ کے آخر میں وہ مع رفقاء مکہ مکرمہ سے سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوئے او ردس گیارہ دن کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گئے اور وہاں ایک ماہ قیام کے بعد 9 ربیع الاول 1238ھ کو واپس مکہ معظمہ تشریف لے آئے رمضان المبارک مکہ مکرمہ میں گزارا اور 15 شوال 1238ھ / 25 جون 1823ء کو مکہ مکرمہ سے سوئے وطن (ہندوستان) روانہ ہوئے اور 20ذوالحجہ 1238ھ / 16 اگست 1823ء کو بمبئی اور 6 صفر 1239ھ / 12 اکتوبر 1823ء کو کلکتہ پہنچ گئے اور کلکتہ میں 6 ماہ قیام کے بعد 29 شعبان 1239ھ / 1824ء مع رفقاء دہلی تشریف لائے۔ (اسمعیل شہید مرتبہ : عبد اللہ بٹ ،  ص: 37۔ تذکرہ شہید ، ص: 129)

جہاد کی تبلیغ

ابتدائے آفرینش سے ہی حق وباطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی چلی آرہی ہے، علامہ اقبال کا شعر ہے ۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

1239ھ/1824ء میں حضرت شاہ اسمعیل فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو حضرت سید احمد کے فرمان کے مطابق جہاد کے لیے دعوت وتنظیم میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ مولانا عبد الحی بڈہانوی بھی سفر وحضر میں آپ کے ساتھی تھے چنانچہ حضرت شاہ صاحب نے اپنے رفقاء حضرت سید احمد کے فرمان کے مطابق فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے 17 جمادی الثانی 1241ھ / 17 جنوری 1826ء رائے بریلی سے سرحد پہنچے۔

روانگی کے وقت مجاہدین اسلام کی تعداد پانچ ہزار چھ سو سے زیادہ نہ تھی کیونکہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ فی الحال اسی تعداد پر اکتفا کیا جائے گا اور سرحد میں حالات کا جائزہ لینے کے بعد اگر ضرورت محسوس ہوئی تو باقی مجاہدین کو بھی بلا لیا جائے گا۔ (تذکرہ شہید ، ص:162)

سکھوں کے خلاف اعلان جنگ

18 جمادی الاولی 1242ھ / 18 دسمبر 1826 کو اکوڑہ کے مقام پر سکھوں سے جنگ ہوئی اس جنگ میں سکھوں کا بڑا جانی نقصان ہوا۔شاہ صاحب اس جنگ میں میر اول دستہ کی کمان کر رہے تھے۔ مسلمان فوج کا سامان حرب بھی کم تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو فتح وکامرانی نصیب ہوئی۔ ( اسمعیل شہید ، مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص: 42)

دوسری جنگوں میں حضرت شاہ اسمعیل نے حصہ لیا اور ہر جنگ میں اپنی شجاعت وبسالت کے جوہر دکھائے۔

معرکہ بالاکوٹ :

29 شعبان 1246 کو حضرت شاہ اسمعیل مع اپنے رفقاء بالاکوٹ تشریف لے گئے اور سکھوں سے ایک زبردست جنگ ہوئی اور یہ جنگ حضرت سید احمد کی قیادت میں لڑی گئی۔ سید صاحب نے تمام جماعتوں کے امراء کو حکم دے رکھا تھا کہ مورچوں میں بیٹھ کر دفاع کریں اور اس وقت تک باہر نہ نکلیں جب تک کہ ہمارا نشان آگے بڑھتا ہوا نظر نہ آئے اچانک سکھوں کی طرف سے گولیوں کی موسلادھار بارش ہونے لگی۔ بعض غازی زخمی ہوگئے یہ دیکھ کر سید صاحب مسجد بالا سے مجاہدین کے ایک دستے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب نے دیکھا تو اپنے مورچے سے نکل کر سید صاحب کے ساتھ مل گئے تو آپ نے مجاہدین کو حکم دیا کہ سید صاحب کے اردگرد جمع ہوجائیں اس کے بعد بڑے گھمان کا دن پڑا۔ سکھ فوج اگرچہ مجاہدین کی نسبتاً 12 گنا زیادہ تھی لیکن غازیوں نے بڑی عزیمت واستقامت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کیا۔ غازی بچھڑے ہوئے شیروں کی طرح جس طرف رخ کرتے دشمن کی صفیں الٹ دیتے حتی کہ سکھ پسپا ہوگئے اور آخر کنور شیر سنگھ (کمانڈر) نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور آگے بڑھنا شروع کیا۔ جہاں سنگ اسے روک رہا تھا لیکن اس نے کچھ نہ سنا اور آگے ہی بڑھتا گیا اس نے اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی میدان میں لڑنے کے لیے اُبھارنا شروع کیا۔ سکھ فوج واپس آگئی اور اس نے بڑی شدت سے حملہ کیا الغرض دونوں فوجیں بڑی بہادری سے لڑتی رہیں۔ اور فریقین کی طرف سے بڑی زبردست آتشبازی ہوتی رہی۔ سید احمد صاحب اور شاہ صاحب نے شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھائے حتی کہ سکھ مورخ سردار مہتاب سنگھ نے بھی لکھا ہے کہ

خلیفہ سید احمد شاہ اور مولوی اسمعیل بھی جو فوج کے سب سے بڑے سردار تھے یہ بذات خود حملے میں شریک ہوگئے وہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہویتر کی زمین میں پہنچ گئے ، زور زور سے کہہ رہے تھے ، دیکھو کافر شکست کھا کر جارہے ہیں۔

فریقین میں بڑا زبردست مقابلہ ہوتا رہا بالآخر مشیت الٰہی کے مطابق اس معرکہ میں سید صاحب،شاہ صاحب اور دیگر بہت سے مجاہدین اسلام جام شہادت نوش فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (تذکرہ شہید ، ص:224۔225)

یہ واقعہ 24 ذی قعدہ 1246ھ مطابق 5 مئی 1831ء پیش آیا۔

مولانا محمد خالد سیف فیصل آبادی کا خراج تحسین :

مولانا خالد سیف حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ

بہر آئینہ 24 ذی قعدہ 1246 مطابق 5 مئی 1831ء جمعۃ المبارک کے دن یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت امام صاحب(شاہ اسمعیل) اپنے پیرومرشد اور دیگر جانثار رفقاء سمیت جان پر کھیل کر میدان میں لڑے۔ علماء سوء کی تفریق انگیز حرکات ، افغان سرداروں کی جاہلانہ عصبیت، سرحد کےخوانین کی غداری اور دشمن کے پاس ہر طرح کے سامان حرب کی فراوانی کے باعث اگرچہ موت صاف نظر آرہی تھی لیکن شہادت کی آرزو دلوں میں موجزن تھی اس لیے بےسروسامانی کے عالم میں بھی لڑے اور اس طرح کہ اس فرشتہ سیرت قافلہ حریت کے نعرہ حق سے دشت وجبل گونج اُٹھے۔ اس وقت تک یہ قافلہ اہل حق رواں دواں ہی رہا جب تک کہ اس نے اپنے مقدس خون سے بالاکوٹ کی گل بوش وادی کو لالہ زار بنا ڈالا ، آج بھی بالاکوٹ کے دشت وجبل سے ان کے نعرہ مستانہ کو گونجتی ہوئی آواز صاف سنائی دے رہی ہے ۔

ہرگز نہ میرد آنکہ دش زندہ شدبہ عشق

ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما (تذکرہ شہید ، ص:226)

مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م 1999ء ) لکھتے ہیں کہ

عمومی دعوت واصلاح کے اس عظیم کام کے ساتھ آپ (شاہ اسمعیل شہید) نے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنے آپ کو پورے طور پر تیار کیا۔ سید صاحب (جن سے آپ نے بیعت سلوک وبیعت جہاد کی تھی) نہ صرف ہم رکابی اور رفاقت کا حق ادا کیا بلکہ اس کام میں آپ کی حیثیت تحریک کے ایک قائد اور امیر کے وزیر ونائب کی تھی پھر اسی کام میں اپنی ہستی فنا کر دی اور بالا کوٹ کے معرکہ میں شہادت کا شرف حاصل کیا۔اقبال نے ایسے ہی حضرات کے متعلق کہا ہے۔

تکیہ بر حجت و اعجاز بیاں نیز کنند

کار حق گاہ بہ شمشیر و سناں نیز کنند

گاہ باشد کہ تہ خرقہ زدہ می پوشند

عاشقاں بندۂ حال اندوچناں نیز کنند

(تاریخ دعوت وعزیمت 5 / 279)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ

حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی کی خصوصیات اعلی وارفع کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دعوت واصلاح امت کے جو بھید پرانی دہلی کے کھنڈروں اور کوٹلہ کے حجروں میں دفن کر دیئے گئے تھے اب اس سلطان وقت واسکندر عزم کی بدولت شاہجہان آباد کے بازاروں اور جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ان کا ہنگامہ مچ گیا اور ہندوستان کے کناروں سے بھی گزر کر نہیں معلوم کہاں کہاں تک چرچے اور افسانے پھیل گئے جن باتوں کے کہنے کی بڑوں بڑوں کو بند حجروں کے اندر بھی تاب نہ تھی وہ اب برسر بازار کی جارہی اور ہورہی تھیں اور خونِ شہادت کے چھینٹے حرف وحکایات کو نقوش وسواد بناکر صفحۂ عالم پر ثبت کر رہے تھے۔

آخر تو لائیں گے کوئی آفت فغاں سے ہم

حجت تمام کرتے ہیں آج آسماں سے ہم

(تذکرہ ، مطبوعہ لاہور 1999ء ، ص:270)

مولانا سید محمد میاں رحمہ اللہ :

حضرت شاہ شہید رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

ملک وملت کا وہ سرفروش مجاہد جس کا عمل فلسفہ ولی اللہ کی تفسیر تھا اور جس کا ایثار وقربانی ذبیح اللہ کی زندہ تصویر اور جس کا دل دولت درد سے مالا مال تھا۔ (علمائے ہند کا شاندار ماضی 2/195)

خاندان ولی الٰہی دہلوی کے بارے میں محی السنہ والا جاہی حضرت مولاناسید نواب صدیق حسن خاں رئیس بھوپال کے ارشادات فرماتے ہیںکہ

ہر یکے از ایشاں بے نظیر وقت وفرید ودہر وحید عصر درعلم وعمل وعقل وفہم وقوت تقریر وفصاحتِ تحریر ور ع وتقوی ودیانت وامانت ومراتب ولایت بوددهم چنیں اولاد اولاد ایں سلسلہ طلائے ناب است۔

یعنی اس خاندان کا ہر فرد علم وعمل،عقل وفہم، زورِ تقریر،فصاحتِ تحریر ورع وتقوی، دیانت وامانت اور مراتب ولایت میں یگانہ روزگار، فرید دہر اور وحید عصر تھا ان کی اولاد کی اولاد بھی انہی بلند درجات بلند پر فائز تھی۔ یہ ایک زریں سلسلہ تھا۔(اتحاف النبلاء ص 430)

دوسری کتاب میں فرماتے ہیں کہ

وكلهم كانوا علماء نجباء حكماء فقهاء كأسلافهم وأعمامهم كيف وهم من بيت العلم الشريف والنسب الفاروقي المنيف ( ابجد العلوم ص 914)

اور اس خاندان کاہر فرد اپنے اسلاف اور اعمام کی طرح عالم دین صاحب مرتبت حکیم وفقیہ تھا کیوں نہ ہوتا یہ حضرات علم وعمل میں یکتائے زمانہ ہونے کے ساتھ نسب عالی فاروقی کے بھی تو حامل تھے۔

عبد المجید سالک فرماتے ہیں کہ

بلائیں جن کی قوم لے تمہی وہ شہسوار ہو

تمہی وہ سرفروش ہو تمہی وہ جاں سپار ہو

تمہی دفاع و احترام دیں کے ذمہ دار ہو

جو تم نہ ہو تو امن کی بناء نہ استوار ہے

تمہاری تیغ ضامن نظام کائنات ہے

( اسمعیل شہید ، مرتبہ : عبد اللہ بٹ ، ص:24)

(جاری ہے)

سعودی عرب کو 88واں قومی دن مبارک ہو

سعودی عرب دنیا میں وہ خطہ ہے جہاں پر عالم اسلام کے دو عظیم شہر واقع ہیں. ایک بلد الامین مکہ مکرمہ جو کہ ہمارے نبیمکرم محمد رسول اللہکا مولد و منشاء اور مہبط وحی ہے دوسرا شہر مدینہ منورہ جو کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت گاہ اور آپ کا مدفن ہے. ان دونوں شہروں کے نام ذہن میں آتے ہی مسلمان خوشی سے سرشار ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں اس سرزمین کی طرف جانے کا خیال آنے لگتا ہے اور ان کے تصور میں میں ہی خوشی سے نہاں ہوجاتا ہے. یہ شہر اہل ایمان کی محبتوں کے محور اور مرکز ہیں کوئی بھی صاحب ایمان ان شہروں کی محبت سے خالی نہیں ہے. مکہ میں جنت کا پتھر حجر اسود ہے تو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کاایک حصہ جنت ہے. عالم اسلام کی اس عظیم مملکت کی بنیاد 23 ستمبر 1932 کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود رحمہ اللہ نے رکھی تھی. 87 ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے اس خطے میں جو کہ براعظم ایشیا یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ایک جدید اسلامی اور مثالی مملکت قائم کی گئی. جس کی تعمیر قرآن و سنت سے رہنمائی لے کر ملک کو استحکام، خوشحالی، تحفظ اور امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرے کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کروایا گیا۔

دنیا میں یہ واحد ملک ہے جس کا دستور قرآن و سنت ہے

اور سعودی حکمرانون کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور توحید و

سنت کا غلبہ ہے۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں امت مسلمہ کا دل کھول کر تعاون کیا امت کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کی. سعودی عرب کے حکمرانوں نے ہمیشہ پاکستان کو اپنا برادر اسلامی ملک سمجھا اور ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ نبھایا۔ پاکستان کی سالمیت کو سعودی سالمیت قرار دیا۔ جب پاکستان ایک سانحہ سے دولخت ہوگیا تو اس وقت پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والا عظیم حکمران شاہ فیصل شہید پاکستان کے دولخت (سقوط ڈھاکہ کے وقت) ہونے پر جس طرح سے دھاڑیں مار مار کر رویا تھا شاید کہ اس طرح سے کوئی پاکستان کا ذمہ دار حکمران یا سیاستدان رویا ہو۔

 مرحوم سعودی شاہ کی یہ دل گرفتگی اور گریہ زاری پاکستان سے تعلق خاطر اور جذباتی وابستگی کی اس پرعظمت داستان کی گواہی ہے کہ فضائے بسیط میں وسیع اور تاباں خود خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ دیکھ رہے ہیں جس کی علمی شہادت پاکستان میں سعودی سفیر اپنے تحرک اور پاکستانیوں سے اپنے لگاو کی صورت میں پیش کرتے رہتے ہیں. پاکستان اور پاکستانیوں کا کوئی مسئلہ ہو سعودی عرب کے حکمران اور عوام سب سے آگے ہوتے ہیں وہ ہمارے معاشی حالات یا ملک و قوم کے استحکام اور بقا کا مرحلہ ہو یا دفاعی ضروریات کا مسئلہ ہو یا آفات ارضی و سماوی کا مسئلہ ہو تمام تر نشیب و فراز کے مراحل و مواقع  پر سعودی پاکستان کے ساتھ وفادار بھائی کی طرح سے کھڑا نظر آتا ہے. سیاچن کے کٹھن مراحل سے لے کر ایٹم بم اور ایف 16 طیاروں کی خریداری 2008 کا تباہ کن زلزلہ یا 2010 کا قیامت خیز سیلاب یا افغان مہاجرین کا بوجھ اور ایٹمی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی عالمی پابندیاں وہ کون سا موقع اور لمحہ ہے جب ساری دنیا میں سب سے پہلے اور آگے بڑھ کر سعودی حکمرانوں اور اس کے محب و مخلص عوام نے ہمیں اپنے گلے نہیں لگایا. جریدہ عالم پر پاک سعودیہ دوستی بڑی گہری اور نمایاں ہے. حقیقت میں یہ دوستی دونوں ملکوں کے عوام و خواص کو ” یک جان دوقالب ” کرچکی ہے۔ سعودی حکومت کے اہم کارنامے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کا قیام آل سعود نے دین اسلام کی خدمت کےلیے اپنے ملک کے خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کےلیے 1961 میں ایک شاہی فرمان کے ذریعہ سے مدینۃ الرسول میں ایک عالمی یونیورسٹی بنام “جامعۃ الاسلامیۃ ” بنانے کا اعلان کیا اور اس عظیم جامعہ اسلامیہ میں اکناف عالم میں رہنے والے اہل اسلام کو تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی اور دنیا بھر سے چن چن کر وقت کے بڑے بڑے مشائخ عظام کو تدریس کے لیے متعین کیا جن میں وقت کے محدثین بھی شامل تھے مثلا محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی، حافظ محمد محدث گوندلوی رحمۃ اللہ علیہما و دیگر۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں 85 فی صد غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے ان کی مکمل کفالت کرنے کے ساتھ ساتھ عمدہ رہائش، وظیفہ اور ہر روز شام کے وقت طلبہ کو مسجد نبوی میں لے جانے اور واپس لانے کےلیے ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کیا گیا تا کہ طالبان علوم نبوت مسجد نبوی کے نورانی ماحول میں درس قرآن اور درس حدیث کی منعقد ہونیوالی مجالس سے بھرپور مستفید ہوسکیں. سعودی حکومت جامعہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے حتی کہ ان کے سفر کےلیے ایئر ٹکٹز کا بھی انتظام کیا جاتا ہے. اور پھر اس عالمی دانش گاہ سے بڑے بڑے علماء، مشائخ، خطباء، مدرسین، معلمین اور دعاۃ فراغت حاصل کرکے نکلے جنہوں نے اپنے اپنے علاقوں اور ملکوں میں جا کر نور توحید و سنت کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ مساجد کی تعمیر اور ان کا اہتمام حکومت سعودیہ عربیہ نے اسلام کی دعوت کو عام کرنے کی غرض سے اہم ذریعہ مساجد کو بنایا ہے. سعودی حکومت اور پرائیویٹ اداروں کی طرف سے پوری دنیا میں بے شمار مساجد و دینی مراکز تعمیر کیے گئے . اور ان میں علماء و مدرسین کا تقرر کیا گیا کیونکہ مساجد اسلام کا محور و مرکز ہوتی ہیں. مسجد امت مسلمہ کے لیے وہ مدرسہ اور اسکول ہوتا ہے جہاں سے مسلمان طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور انہی مساجد و مراکز کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی درستگی ہوتی ہے اور مساجد و دینی مراکز ہی اسلامی تعلیمات کو پھیلانے اور عام کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔

 شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس قرآن مجید اللہ تعالی کی مضبوط رسی اور سیدھا راستہ ہے جو کہ ہدایات ربانی ہے وہ دراصل خالق کون و مکان کی طرف سے انسانیت کے لیے واضح عربی میں خطاب ہے جس کے پہنچانے کا حکم اس خالق نے دیا ہے. یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت نے قرآن مجید اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے. خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کی طباعت اور تقسیم کےلیے ” شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس ” قائم کیا. آپ نے مدینہ منورہ میں تبوک روڈ پر 16 محرم 1403 ھجری بمطابق 2 نومبر 1982 کواس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا. اس کمپلیکس کا رقبہ 250000 مربع میٹر ہے اور یہ کمپلیکس فن تعمیر کا ایک دلکش اور خوبصورت نمونہ ہے. اس پرنٹنگ کمپلیکس میں اعلی معیاری اور غلطیوں سے پاک قرآن مجید کے نسخے طبع کیے جاتے ہیں قیام سے لے کر اب تک اس کمپلیکس سے مختلف انواع و سائز کے تقریباً بیس کروڑ نسخے شایع ہوچکے ہیں اور دنیا کے تقریباً 80 ممالک کے لوگ یہاں سے طبع ہونے والے قرآن مجید کے نسخوں سے مستفید ہوچکے ہیں. یہ کمپلیکس اب تک چالیس زبانوں میں و تفاسیر طبع و تقسیم کرچکا ہے. شاہ فہد رحمہ اللہ نے قرآن مجید کو گھر گھر تک پہنچانے اور اس کی تعلیمات کو عام کرنے کےلیے دنیا کی مختلف زندہ زبانوں میں اس کے ترجمہ و تفاسیر اور اس کی توزیع و تقسیم کرکے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ ان شاءاللہ قیامت تک یاد رکھا جائے گا اور ان کی حسنات کے میزان میں بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا۔

 مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل السعود للحدیث النبوی گذشتہ سال ماہ اکتوبر میں سعودی فرمانروا خادم الحرمین الشریفین ملک سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ ورعاہ نے اپنے ایک حکومتی فرمان کے ذریعہ سے ” مجمع خادم الحرمین الشریفین الملک سلمان بن عبدالعزیز آل السعود للحدیث النبوی ” یعنی خدمت حدیث کے لیے ایک مستقل کمپلیکس قائم کرنے کا حکم جاری کیا. جس کی علمی کمیٹی دنیا بھر سے چیدہ چیدہ جید علماء حدیث پر مشتمل ہوگی اور اس کے رئیس سعودی ” ھیئۃ کبار العلماء ” کے رکن اور امام مجدد الدعوہ الشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے خاندان کے چشم و چراغ شیخ محمد بن حسن صاحب حفظہ اللہ ہوں گے. قرآن کمپلیکس کی طرح سے حدیث کپملیکس کےلیے بھی مدینۃ الرسول کو منتخب کیا گیا ہے. خدمت حدیث کے لیے شاہ سلمان بن عبدالعزیز سلمہ اللہ کا یہ عالم اسلام میں سب سے بڑا  اشاعت حدیث کا منصوبہ، اشاعت حدیث کا بہت بڑا ذریعہ اور منکرین حدیث کا منہ توڑ جواب بھی ہوگا. ان شاءاللہ اور امید واثق ہے کہ جس طرح سے قرآن کمپلیکس کے توسط سے اقوام عالم میں قرآن کریم فری تقسیم کیا گیا بعینہ کتب حدیث کو بھی اسی طرح سے بڑے پیمانے پر مفت تقسیم کیا جائے گا. اہل اسلام اور باالخصوص حاملین کتاب و سنت کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ مملکت توحید اور اس کے محب اسلام حکمرانوں بالخصوص شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ ورعاہ کو اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھیں تا کہ یہ خاندان حسب روایت اسلام اور حرمین شریفین کی خدمت کرتا رہے اور اہل ایمان ان کی خدمات سے مستفید ہوتے رہیں۔

خادم حرمین شریفین بڑے عظیم لوگ ہیں جو دن رات ان دونوں مقدس مقامات یعنی حرم مکی اور حرم مدنی کی خدمت و نگہبانی کرتے ہیں اور ان کی توسیع، طہارت و نظافت اور ضیوف الرحمن کی خدمت میں دن رات کوشاں رہتے ہیں. حرمین شریفین کی زیارت کرنے والے حجاج کرام جو دنیا کے کونے کونے سے حاضر ہوتے ہیں وہ جب ان مقدس و متبرک شہروں میں جاتے ہیں اور حرمین کی توسیع اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتے ہیں تو بےاختیار آل سعود یعنی خادمین حرمین شریفین کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہون نے محنت، لگن اور محبت سے کس طرح ان کو خوبصورت بنانے کی سعی و کوشش کی ہے. آج یہ عمارت اپنے وسیع رقبے، خوبصورت ڈیزائن اور مناسب سہولتوں کے سبب زیارت کرنے والوں کو متاثر کرتی ہیں. خادمین حرمین شریفین نے ان دونوں مقامات کی زیارت کرنے والوں کےلیے بنیادی سہولتیں اور ان کے مکمل تحفظ کا خیال رکھا ہے. تاکہ ضیوف الرحمن حجاج کرام اور معتمرین کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو بلکہ حجاج کرام مناسک حج ادا کرنے کے لیے جن مقامات مثلا منی، عرفات مزدلفہ جاتے ہیں وہاں بھی ان کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے اور ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے. سعودی فرماں روا حرمین شریفین کی کھلے دل کے ساتھ خدمت کرکے واقعی خادم الحرمین الشریفین کہلانے کے حق دار ہیں اور اس پر انہیں فخر ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

دعاۃ و معلمین کا تقرر دعوت دین اور اسلامی عقیدہ کی اشاعت ہر مسلمان پر فرض ہے مسلمان کو جس قدر بھی اسلامی تعلیمات ہوں انہیں پھیلانے اور عام کرنے کا شرعی حکم ہے. انسانوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سعودی حکومت نے مستقل بنیادوں پر مختلف ممالک کے مراکز اسلامی اور مساجد میں دعوت دین کا کام کرنے اور تعلیم دینے کےلیے دعاۃ و معلمین کو مبعوث کیا ہے. جن کی تعداد کئی ہزار ہے ان کی سرپرستی سعودی حکومت اور سعودی خیراتی ادارے کرتے ہیں. یہ مبلغین و معلمین خالص توحید اور قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح عقیدہ کی دعوت دیتے ہیں. علوم قرآنی اور علوم حدیث کو ہی بنیاد بناتے ہیں جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے عقائد کی اصلاح کی اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے. یہ مبلغین، دعاۃ اور معلمین اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کو عام کرنے پر بھی توجہ دیتے ہیں۔

خدمت انسانیت سعودی حکومت جہاں بھی اور کسی بھی صورت میں عام انسانوں یا مسلمانوں کو مصائب و آلام میں مبتلا پاتی ہے تو وہ ان کی مدد کےلیے وہاں پہنچ جاتی ہے. یہ امر کسی سے بھی مخفی اور پوشیدہ نہیں کہ سعودی حکومت باہمی ہمدردی، شفقت و محبت اور دوستی کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مظلوم انسانوں کی مدد کرتی ہے. اس مقصد کے لیے غذائی، ادویاتی اور نقد مالی اعانت جاری رکھتی ہے. دنیا میں جہاں بھی اور جب بھی طوفانوں، زلزلوں، بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے نقصان ہوا سعودی حکومت فوری طور پر ان نقصانات کا ازالہ کرتے ہوئے نظر آئی. سعودی عرب کی طرف سے رابطہ عالم اسلامی اور ھیئۃ الاغاثۃ الاسلامیۃ وغیرہ آگے آگے نظر آئی ہیں. آل سعود کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے اسلام بطور دین اپنایا ہوا ہے. اور قرآن و سنت کو اپنا دستور بنا رکھا ہے. اور وہ علم (جھنڈا) جو کلمہ طیبہ سے مزین ہے اس کو کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیا اسلیے حکومت کو کبھی بھی اپنے عوام کے سامنے شرمسار نہیں ہونا پڑا۔

عقیدت و محبت کے مرکز و محور اور پاکستان کے محسن و مخلص ملک سعودی عرب کا 88 واں ” الیوم الوطنی ” ( قومی دن ) ہے تو اہل سعودیہ کی طرح اہل پاکستان بھی نہایت شاداں و فرحاں ہیں اور ان کے دل بھی اپنے سعودی بھائیوں کی طرح معطر و منور ہورہے ہیں اور ہر کسی کے جذبات ہیں کہ ہماری جانیں تک اس مقدس سرزمین پر قربان، ہم اپنے لہو سے وہاں کے چراغوں کو روشن رکھیں گے. ان شاءاللہ اس مبارک موقع پر ہم آل سعود، خادم حرمین شریفین جناب شاہ سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ، جناب شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ و دیگر اعیان مملکت کو ان کے قومی دن ( الیوم الوطنی) پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں اور بارگاہ رب العالمین مین دست دعا ہیں کہ اللہ ان کی زندگیوں میں برکت عطاء فرمائے تا کہ یہ خاندان حرمین شریفین اور سعودی عوام کی مزید خدمت کرتا رہے۔

۔۔۔

کیا ماہ وسال اور دن و رات بھی منحوس ہوتے ہیں ؟

افسوس امت مسلمہ روایات میں کھو گئی

 مسلم تھی جو بات خرافات میں کھو گئی

محترم قارئین ! ہمارے معاشرے میں اکثر ضعیف الاعتقاد لوگ مختلف دن اور مہینوں کو منحوس سمجھ کران میں سفر اور شادی و بیاہ سے ڈرتے ہیں ۔جب کہ ایام میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں ایام کو تو اللہ رب العالمین ہی بدلتا رہتا ہے ۔

رسول اللہ کا فرمان ہے :

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :‏‏‏‏ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں۔ (صحيح بخاري : 4826)

اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا ہے کہ زمانے کو برا بھلا کہنا منع ہے ۔اگر ماہ وغیرہ میں کوئی نحوست ہوتی تو اللہ رب العالمین اور اس کے رسول ضرور وضاحت فرما دیتے جیسا کہ بارہ مہینوں سے چار مہینوں کی حرمت کو واضح فرمایا ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :

ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :‏‏‏‏ إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ(صحیح البخاری:5094)

رسول اللہ کے سامنے نحوست کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ۔

 رسول اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی ۔قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ نحوست بدشگونی کا عقیدہ جہالت پر مبنی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ نبی کائنات نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے کسی ماہ یا دن کو منحوس کہا ہے دور جاہلیت میں اور اب بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس کہتے ہیں اور اس سے بدشگونی لیتے ہیں یہ دور جہالت کي روش ہے کہ وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے نبی کریم نے ان کے اس نظریے کا رد کیا اور آپ نے فرمایا کہ :

لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ (صحیح بخاری : 5757 )

چھوت لگ جانا بدشگونی یا الو یا صفر کی نحوست یہ کوئی چیز نہیں ہے۔

اسی طرح بعض لوگ ماہ شوال کو بھی منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ کرنے سے منع کرتے تھے اور آج بھی روکتے ہیں جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ :

تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي .(سنن نسائی : 3379)

رسول اللہ نے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی

کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی، ( لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں ) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپ کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت کے اندر کوئی بھی مہینہ منحوس نہیں ہے یہ فقط لوگوں کے توہمات وخیالات ہی ہیں جیسا کہ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا :

يَا رَسُولَ اللهِ أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ . قَالَ قُلْتُ : كُنَّا نَتَطَيَّرُ قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ .( صحیح مسلم : 5813 )

اللہ کے رسول اللہ ! کچھ کام ایسے تھے جو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے آپ نے فرمایا : تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو ۔ میں نے عرض کی : ہم بدشگونی لیتے تھے ، آپ نے فر ما یا :

 یہ ( بدشگونی ) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے ، یہ تمھیں ( کسی کام سے ) نہ روکے ۔

امام داود رحمہ اللہ نے محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ سے نقل فرمايا ہے کہ :

وکثیر من الجھال یتشاؤم بصفر ، و ربما ینھی عن السفر فیہ ، والتشاؤم بیوم من الایام کیوم الاربعاء ( لطائف المعارف، ص: 147)

بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس میں سفر کرنے سے رکے رہتے ہیں ۔ صفر کو منحوس سمجھنا یہ بدشگونی کی جنس سے ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ اسی طرح کسی دن کو منحوس سمجھنا جیسے بدھ کا دن ہے ، یہ بھی منع ہے ۔

امام محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے واضح ہوتا ہے کہ مہینوں کی طرح دن ورات بھی نحوست و بدشگونی سے پاک ہیں کسی دن یا رات کو منحوس سمجھنا اور کہنا جاہلی توہمات میں سے ہے ۔ماہ و سال، لیل ونہار اور وقت کے خالق اللہ رب العالمین ہی ہیں اللہ تعالی نے کسی ماہ ، دن یا رات کو منحوس قرار نہیں دیا ۔ ہاں ! جو حادثہ یا واقعہ تقدیر میں لکھا گیا وہ تو ہوکر ہی رہے گا اگر کسی مہینے ، دن یا رات کو کوئی حادثہ یا غمناک واقعہ پیش آجائے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ منحوس ہیں !بلکہ کسی دن یا رات کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے اس زمانے میں جو دن رات پر مشتمل ہے عیب لگانا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں گزرچکا ہے ۔(صحيح بخاري : 4826)

معلوم ہوا کہ مہینے ، دن اور رات اللہ تعالی کے ہی پیدا کردہ ہیں کسی مہینے دن یا رات کو منحوس کہنا یا عیب دار ٹھہرانا اللہ سبحانہ و تعالی کی کاریگری میں عیب نکالنا ہے ۔ یاد رہے کہ کسی چیز کو منحوس سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے تین بار فرمایا :

الطِّيَرَةُ شِرْكٌ(سنن ابی داود:3910 )

بدشگونی لینا شرک ہے ۔

لہٰذا بدشگونی لینا یا کسی لمحہ کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ جو بھی کوئی آفت ،مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ من جانب اللہ ہوتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ صحیح عقائد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

یہودیوں کے نام ایک کھلا خط ۔۔۔

اے دنیا کے یہودیو ! تم آئے دن میرے پیارے رسول کے خاکے بنانے کی ناپاک جسارت کرتے ہو جبکہ تم نے کبھی سوچا ہے کہ جس ہستی کی تم گستاخی کر رہے ہو اس کے تم پر کیا احسان ہیں ؟

یہ نہ کبھی تم نے سوچا ہے ، اور نہ ہی کبھی تم نے ان کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا ہے ۔

ہم تمہارے سامنے اپنے پیارے نبی کریم کے وہ احسانات ذکرکر رہے ہیں جو انہوں نے تم پر اور تمہارے اکابرین پر کیے ہیں ان کا مطالعہ کرو اور پھر خود ہی فیصلہ کرو کہ تم کس قدر احسان فراموش قوم ہو کہ تمہیں اپنے محسن کا بھی حیاء نہیں !

b مشرک والدین سے صلہ رحمی

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :

قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي رَاغِبَةً فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِمَةٌ مُشْرِكَةٌ أَفَأَصِلُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ نَعَمْ فَصِلِي أُمَّكِ

میرے پاس میری ماں آئیں جو قریش کے دین کی طرف مائل اور اسلام سے بیزار اور مشرکہ تھیں، میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ اسلام سے بیزار اور مشرکہ ہیں، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا : ہاں، اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو ۔ (سنن ابی داؤد : 1668)

b یہودی مریض کی عیادت کے لیے جانا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی کریم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا : تم مسلمان ہو جاؤ ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس نے کہا : ابوالقاسم کی اطاعت کرو ! تو وہ مسلمان ہو گیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے :

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ بِي مِنَ النَّارِ

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے جہنم کی آگ سے نجات دی ہے ۔ (سنن ابي داؤد : 3095)

b یہودی پڑوسی سے حسن اخلاق سے پیش آنا

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کی تو ( گھر والوں ) سے کہا : کیا تم لوگوں نے میرے یہودی پڑوسی کو تحفہ بھیجا ؟( نہ بھیجا ہو تو بھیج دو )

فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ .

میں نے رسول اللہ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے: جبرائیل مجھے برابر پڑوسی ، کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ مجھے ایسا لگاکہ وہ اسے وارث بنا دیں گے ۔ (سنن ابی داؤد 5152)

b دشمن کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّبْيَانِ .

رسول اللہ کے زمانہ میں ایک عورت کسی غزوہ میں مقتول پائی گئی تو آپ نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرما دیا۔ (صحیح بخاری : 3015)

bذمی کو قتل کرنے کی ممانعت

سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.

جو شخص کسی ذمی کو بغیر کسی وجہ کے قتل کرے گا تو اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا ۔ (سنن ابی داؤد : 2060)

ایک اور روایت کے لفظ ہیں :

مَنْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَجِدْ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا

جس نے اہل ذمہ میں سے کسی شخص کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت کی دوری سے آتی ہے۔ (سنن نسائی : 4756)

b دشمن کو بد دعا دینے سے اجتناب

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ عَلَى الْمُشْرِكِينَ قَالَ إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً

رسول اللہ سے کہا گیا : اے اللہ کے رسول ! مشرکین کے لیے بد دعا کریں ۔ آپ نے فرمایا : مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیابلکہ مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحیح مسلم : 6613)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

قَدِمَ الطُّفَيْلُ وَأَصْحَابُهُ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ دَوْسًا قَدْ كَفَرَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللهَ عَلَيْهَا فَقِيلَ : هَلَكَتْ دَوْسٌ فَقَالَ: اللهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَائْتِ بِهِمْ .

طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی آئے اور آکر عرض کی : اے اللہ کے رسول ! ( ہمارے قبیلے ) دوس نے کفر کیا اور ( اسلام لانے سے ) انکار کیا، آپ ان کے لیے بد دعا کریں ! بعض لوگوں نے کہا : اب دوس ہلاک ہو جائے لیکن آپ نے ( دعا کرتے ہوئے ) فرمایا : اے اللہ ! دوس کو ہدایت دے اور ان کو یہاں لے آ۔ (صحیح مسلم : 6450)

bگستاخوں سے نرمی

سیدنا عائشہ رضي الله عنها سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے رسول اللہ سے ملنے کے لیے اجازت طلب کی اور انھوں نے کہا : اَلسَامُ عَلَيكُم . آپ پر موت ہو . عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : بلکہ تم پر موت ہو اور لعنت ہو۔ رسول اللہ نے فرمایا :

يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ قَالَتْ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ

عائشہ ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی : کیا آپ نے نہیں سنا کہ انھوں نے کیا کہا تھا ؟ آپ نے فرمایا : میں نے (وَعَلَيكُم . اور تم پر ہو) کہہ دیا تھا۔ (بخاری : 5656)

ایک اور روایت میں ہے :

ایک یہودی نبی کے پاس سے گزرا اور کہنے لگا : السام عليك‏.‏یعنی تم مرو۔ نبی نے جواب میں صرف : وعليك‏کہا ( تو بھی مرے گا ) پھر آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا :

أَتَدْرُونَ مَا يَقُولُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ السَّامُ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا نَقْتُلُهُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏لَا(صحیح البخاری:6926)

تم کو معلوم ہوا اس نے کیا کہا ؟ اس نے السام عليك‏ کہا۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ( حکم ہو تو ) اس کو مار ڈالیں ؟ آپ نے فرمایا : نہیں۔

b رئیس المنافقین کا جنازہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی ابن سلول مر گیا تو اس کا بیٹا عبد اللہ بن عبد اللہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیں جس میں وہ اپنے باپ کو کفن دے ، آپ نے اسے عنایت کر دی ، پھر اس نے یہ درخواست کی کہ آپ اس کا نماز جنازہ پڑھائیں ۔ رسول اللہ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ، رسول اللہ کا کپڑا پکڑا اور عرض کی : اللہ کے رسول اللہ ! کیا آپ اس شخص کی نماز جنازہ پڑھیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے : آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کریں یا نہ کریں ۔آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے ( تو بھی اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا ۔ ) تو میں ستر سے زیادہ بار بخشش مانگ لوں گا۔ انھوں نے کہا : وہ منافق ہے۔ چنانچہ رسول اللہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التوبة: 84)

ان میں سے کسی کی بھی ،جب وہ مرجائے کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (صحیح بخاری : 6207)

b پتھر مارنے والوں کے لیے دعا

سیدنا عبدالله بن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں :

كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ، وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ .

گویا کہ میں رسول اللہ کی طرف دیکھ رہا ہوں ، آپ نبیوںمیں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے (مراد خود اپنی ذات مبارکہ تھی) جسے اسکی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور فرما رہے تھے : اے اللہ ! میری قوم کو معاف کر دے، وہ نہیں جانتے ۔ (صحیح مسلم : 4646)

b اپنے ہجو کرنے والے کو معاف کر دینا

محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ غزوہ طائف سے مدینہ واپس ہوئے تو بجیر بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنے (مفرور) بھائی کعب بن زہیر کو لکھا کہ رسول اللہ نے مکہ میں ایسے لوگوں کو قتل کرا دیا ہے جو آپ کی ہجو کیا کرتے تھے اور آپ کو تکلیف پہنچایا کرتے تھے ۔ قریش کے باقی شاعر مثلا : زبعری ، ہبیرہ بن ابی وہب مختلف مقامات کو فرار ہو گئے ہیں ۔ لہذا تو اگر اپنی جان بچانا چاہتا ہے تو جلدی سے رسول اللہ کی خدمت میں پہنچ جا ۔ کیونکہ جو شخص توبہ کرکے آپ کی خدمت میں پہنچتا ہے تو آپ اس کو قتل نہیں معاف کردیتے ہیں، اگر تو ایسا کرنا نہیں چاہتا تو جہاں فرار ہونا چاہے فرار ہو جا ، لیکن ایسا کرنا مشکل ہے ۔ جب کعب کو یہ خط موصول ہوا تو اس نے اپنے اوپر زمین تنگ محسوس کی ، اور اس کے دوستوں نے یہ کہہ کر اس کا خوف اور بڑھا دیا کہ اب تجھے ضرور قتل کیا جائےگا ۔ جب کعب نے کوئی راستہ نہیں پایا تو آپ کے خوف سے قصیدہ لکھنا شروع کر دیا ، بلآخر وہ گھر سے نکلا اور مدینہ منورہ پہنچا ۔ پھر وہ اپنے جاننے والے جہنی قبیلہ کے ایک شخص کے پاس آکر ٹھہرا ، صبح کو اپنے میزبان کے ساتھ رسول اللہ کے پاس پہنچا اور صبح کی نماز ادا کی ، پھر اس شخص نے اشارہ کرکے کہا : یہ اللہ کے رسول ہیں ، ان کے پاس جا اور امن طلب کر، کعب اٹھا اور اپنا ہاتھ رسول اللہ کے ہاتھ میں دے دیا ۔ آپ کعب کو نہیں پہچانتے تھے ، کعب نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اگر کعب توبہ تائب ہوکر ، اسلام قبول کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ سے امن طلب کرے تو کیا آپ اس کی توبہ اور اسلام کو قبول کرلیں گے ؟ اگر میں اسے اپنے ساتھ لیکر آؤں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں! تو کعب نے کہا :

اے اللہ کے رسول ! میں ہی تو کعب ہوں ۔ یہ سن کر انصار میں سے ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول مجھے اجازت دیں میں اللہ کے دشمن کی گردن اڑادوں ۔

فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : دَعْهُ عَنْكَ، فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَ تَائِبًا

اسےچھوڑ دو ! یہ توبہ تائب ہوکر آیا ہے ۔(المعجم الكبير : 403)

b جانی دشمن سے بدلا نہ لینا

ایک یہودی عورت رسول اللہ کے پاس ایک زہر آلود ( پکی ہوئی ) بکری لے کر آئی، نبی کریم نے اس میں سے کچھ ( گوشت کھایا ) ( آپ کو اس کے زہر آلود ہونے کاپتہ چل گیا ) تو اس عورت کو رسول اللہ کے پاس لایاگیا، آپ نے اس عورت سے اس (زہر ) کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا:( نعوذ باللہ!) میں آپ کو قتل کرنا چاہتی تھی۔آپ نے فرمایا:

مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَاكِ …… قَالُوا أَلَا نَقْتُلُهَا قَالَ : لَا.

اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ تمھیں اس بات پر تسلط (اختیار ) دے دے۔ صحابہ رضي الله عنھم نے عرض کی : کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ آپ نےفرمایا : نہیں۔ (صحیح مسلم : 5705)

bجانی دشمن کو معاف کردینے کا ایک اور واقعہ:

سیدنا جابر رضي الله عنه بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے۔ جب رسول اللہ جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے۔ رسول اللہ نے اس وادی میں پڑاؤ کیا اور صحابہ پوری وادی میں ( درخت کے سائے کے لیے ) پھیل گئے۔ آپ نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی۔ ہم سب سو گئے تھے کہ رسول اللہ کے پکارنے کی آواز سنائی دی، دیکھا گیا تو ایک بدو آپ کے پاس تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا : اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے کہا : مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟

فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ :‏‏‏‏ اللَّهُ ثَلَاثًا ، وَلَمْ يُعَاقِبْهُ (صحيح البخاري : 2910)

میں نے کہا : اللہ ! تین مرتبہ ( میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ) رسول اللہ نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی ۔

b جانی دشمنوں سے خیر خواہی

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت سے ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کی زندگی میںکوئی ایسا دن بھی آیا جو احد کے دن سے زیادہ سخت ہو؟ آپ نے فرمایا : مجھے تمہاری قوم سے بہت تکلیف پہنچی، جب میں خود کو ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے سامنے لے گیا ( یعنی اس کو دعوتِ اسلام دی ) لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے میری بات نہ مانی، میں غمزدہ ہو کر چل پڑا اور قرن ثعالب پر پہنچ کر ہی میری حالت بہتر ہوئی، میں نے سر اٹھایا تو مجھے ایک بادل نظر آیا، جس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا، میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے آواز دے کر کہا: اللہ نے جو کچھ آپ نے اپنی قوم سے کہا وہ اور انہوں نے جو آپ کو جواب دیا وہ سب سن لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ ان کفار کے متعلق اس کو جو چاہیں حکم دیں۔ آپ نے فرمایا : پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا، پھر کہا : اے محمد ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو ( اٹھا کر ) ان کے اوپر رکھ دوں۔ تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا :

بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا (صحیح مسلم : 4653)

بلکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔

b اپنے پیارے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل کومعاف کر دیا

سیدنا وحشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ نے مکہ فتح کیا تو میں طائف کے طرف بھاگ گیا اور وہاں سکونت اختیار کیلیکن جب طائف کا وفد ایمان لانے کے لیے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ، اور میں سوچنے لگا کہ یمن ، شام یا کسی دوسرے ملک بھاگ جاؤں ۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک شخص نے کہا : اللہ تجھ پر رحم کرے ! واللہ ! رسول اللہ ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جو دین میں داخل ہو جائے اور کلمہ پڑھ لے ۔ میں یہ سنتے ہی نکل کھڑا ہوا اور مدینہ منورہ رسول اللہ کے پاس پہنچ گیا ، میں نے آپ کو پتا چلنے نہیں دیا اور آپ کے سامنے جاکر کھڑا ہوا اور (بآواز بلند) کلمہ شہادت پکار اٹھا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا : کیا تو وحشی ہے ؟ میں نے عرض کیا : ہاں ! اے اللہ کے رسول میں وحشی ہوں ۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جا ! اور مجھے بتا کہ تو نے میرے چچا حمزہ کو کیسے قتل کیا تھا ؟ وحشی کہتاہے:

فَلَّمَا فَرَغْتُ مِنْ حَدِيثِي قَالَ وَيْحَكَ غَيِّبْ عَنِّي وَجْهَكَ فَلَا أَرَيَنَّكَ .

جب میں نے سارا واقعہ کہہ سنایا تو آپ نے فرمایا : افسوس تیرے حال پر ! بس تو میرے سامنے نہ آیا کر کہ میں تجھے دیکھ نہ سکوں ۔(البدایة والنهاية : 18/4)

b حنین کے قیدیوں کو آزادی

( غزوہ حنین کے بعد ) قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی نے فرمایا : سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ کے مقام پر) تقریباً دس رات تک انتظار کیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : امابعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہوکر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کر دیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول اللہ کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ نے فرمایا : اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کر سکتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔

فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا .

چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔ (صحيح بخاری : 2307)

b دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان

رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن فرمایا :

يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ مَا تَرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ فِيكُمْ ؟ قَالُوا خَيْرًا أَخٌ كَرِيمٌ وَابْنُ أَخٍ كَرِيمٍ، قَالَ : اذْهَبُوا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ .

اے قریش کی جماعت ! تمہارا کیا خیال ہے میں تم سے کیا کرنے والا ہوں ؟ انہوں نے کہا : ہم آپ سے اچھائی کی امید رکھتے ہیں آپ ہمارے عزت والے بھائی ہیں اور عزت والے بھائی کے بیٹے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : جاؤ تم سب آزاد ہو ۔(البدایة والنهاية : 4/301)

b مقتول کا مثلہ کرنا

سیدنا عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النُّهْبَى وَالْمُثْلَةِ.

نبی نے لوٹ مار کرنے سے اور مثلہ (دوران جنگ مقتول کےاعضاء کو کاٹنے سے ) سے منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری : 2474)

اے یہودیو ! اے کافرو ! یہ ہمارے پیارے نبی کی سیرت کی ایک مختصر جھلک تھی جو تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے پیش کی گئی کہ وہ نبی تو پتھر کھا کر بھی تمہیں دعائیں دیتے رہے ، اس کے گھر آکر تمہارے بڑے نے اس کی گستاخی کی لیکن اس نے درگذر کرلیا ، انہیں زہر ملا کھانا کھلایا گیا اس نے کوئی بدلا نہیں لیا ، اس نے اپنے صحابہ کو اور تمام مسلمانوں کو رہتی دنیا تک تمہارے بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے سے منع کر دیا ، اس نے اپنے ہجو کرنے والے کو معاف کر دیا ، اس نے فتح مکہ کے دن اپنے جانی دشمنوں سے بدلا نہیں لیا ۔ یہ سب تمہارے اکابرین پر اور تم پر اس کے احسان ہیں اور تم نے ان کے احسانوں کا بدلا یہ دیا کے اس کے گستاخانہ خاکے بنائے ، تم خود غور کرو کہ تم کس قدر احسان فراموش قوم ہو اور کتنے گرے ہوئے لوگ ہو خود فیصلہ کرو ۔

ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کیوں کہیں

عبدالوہاب سلیم

ایسا نہیں ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرشتے تھے جو بھول چوک سے مبرا تھے، ایسا بھی نہیں کہ وہ کسی نبی کے درجے پہ جا پہنچے جس سے غلطی محال ہے، ہمارا ایمان یہ ہے کہ سب صحابی رسول بشمول خلفاء راشدین مل کر بھی آجائیں تو کسی نبی کی گرد کے برابر نہیں پہنچ سکتے اور اسی طرح سب تابعین عظام مل کر آ جائیں ایک ادنی سے صحابی کی حیثیت کو نہیں پہنچ سکتے، اسی طرح پھر تبع تابعین کا جو مقام ہے وہ ان سے بعد والوں سے بہت بہتر ہے کہ یہ تینوں گروہ قرون اولیٰ سے ہیں اور بحیثیت مجموعی حدیث رسول کے مصداق بہترین لوگ ہیں۔ اسکے بعد اللہ عز وجل نے جو مقام آئمہ میں سے آئمہ اربعہ کو دیا وہ کسی اور کو نا مل سکا اگرچہ اہل السنّۃ کے سب آئمہ کرام عظیم تھے، جو مقام امیر المؤمنین فی الحدیث امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ کو ملا باقی محدثین اس کو نا پہنچ سکے لیکن ان سب کا اپنا ایک مقام اور مرتبہ ہے اور تدوین سنت اور ترویج سنت میں انکی جہود ایک نور ہے جو بجھائے نا بجھے، لیکن ان سب میں سے کوئی غلطی سے مبرأ نہیںہے اور اصحاب رسول کے علاوہ انفرادی یا بطور گروہ بالنص جنتی نہیں ہے، ہاں ہم اللہ سے یہ نیک گمان اور امید کامل رکھتے ہیں کہ یہ سب جنتی ہیں کیونکہ یہ اہل صدق و صفا کا گروہ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ علامات پہ پورا اترتا ہے جو اہل جنت کا خاصہ ہوں گی لیکن جیسا رسول اللہ نے کہا تم میں سے کوئی بھی اپنی نیکیوں سے نہیں بلکہ رحمت باری کی بدولت جنت جائے گا تو یہ گروہ اپنی پرہیز گاری اور نیکی کی بدولت اللہ کی رحمت کا زیادہ حقدار ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا تعلق ساتویں صدی ہجری کے اواخر اور آٹھویں صدی ہجری کی ابتدائی چوتھائی سے ہے۔ اس دور کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہم آج کے دور میں جی رہے ہیں، خالص توحید اور صحیح سنن قصہ پارینہ بنتی جا رہی تھیں، اکثر لوگ بدعقیدہ ہو چکے تھے اور جو صحیح العقیدۃ موجود تھے ان میں یہ ہمت نہیں پڑتی تھی کہ یہ عقائد کھل کر بیان کریں یا پھر دلائل و براہین اور قوت استدلال ایسی نا تھی کہ مخالف کو قائل کر سکیں۔ رافضیت، صوفیت، حلولیت، جہمیت اور ایسے کئی گمراہ کن عقائد کے مالک فرقے مسلمانوں کے نمائندے کہلاتے تھے۔ اندازہ لگائیے اللہ تعالیٰ کو عرش پہ مستوی کہنا اس دور میں کفر سمجھا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ کی ذات اجسام میں حلول کر جاتی ہے نعوذ باللہ درست سمجھی جاتی تھی، انبیاء و رسل کو خداؤں کا درجہ دیا جا چکا تھا، رسول اللہ کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ لیا گیا تھا، سب سے برا حال صوفیاء کا تھا کہ انھوں نے دین اسلام کے متوازی اپنا دین قائم کر رکھا تھا اور اسے روحانیت اور باطنی امور کا نام دے کر اس میں ہر کفریہ عقیدہ شامل کیا ہوا تھا، صوفیاء کے پاس حیات و موت کے فیصلے بھی تھے اور وحی و الہام کا سلسلہ بھی جاری تھا، فرشتے باری تعالیٰ کی بجائے انکے احکامات کے پابند تھے اور يُخَادِعُونَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ کی عملی تصویر تھے۔ روافض کا گروہ ہر دور کی طرح دجل و فریب میں اس وقت بھی سب سے آگے تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ واہل بیت کے نام کو استعمال کر کے انکو اللہ تعالیٰ، انبیاء کرام اور فرشتوں کے نظام سپرد کر دئیے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو شب و ستم کو اہل بیت پہ بیتے مظالم کے پیچھے چھپا لیا جاتا۔ یونانی علوم فلسفہ اور کلام نے عقل پرستوں کو بھی شریر الطبع بنا دیا کہ الفاربی، ابن سینا جیسے لوگ مسلمانوں کے نمائندے کہلاتے اور انکی کتب اور مجالس صریح کفر سے بھری پڑی تھیں اپنی عقل ناقص کی بنیاد پہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی واہمہ قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی اسماء وصفات کا انکار اور ان میں تصرف اپنے عروج پہ تھا، اشاعرہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کے عقائد ہی سے منحرف ہو چکے تھے، دوسری طرف تقلید جامد نے عقل اور اجتہاد کا دروازہ بند کیا ہوا تھا اور اس دروازے کی جدل و مناظرہ اور اکابر پرستی کے ساتھ قفل بندی کی ہوئی تھی مذاہب کے نام پہ کفر کے فتوے ملتے تھے اور اپنے مذاہب کی تائید میں جھوٹی احادیث گھڑی جاتی تھیں، صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ عیسائی اور یہودی علماء جاہل مسلمانوں کو فتوے دیتے تھے اور مسلمان اسکو قبول کئے ہوئے تھے،  یہ سب تو علمی منظر نامی تھا۔

دوسری طرف سیاسی صورتحال اس سے بھی خراب تھی خلافت تو جیسے قصہ پارینہ لگتی تھی شام اور مصر میں مطلق العنان حکمران تھے، دین سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں تھا اور دوسری طرف تاتار مسلمان ریاستوں کو نیست ونابود کرتے اہل علم وفن کی کتب جلاتے مسلمانوں کا خون بہاتے هوئےشام تک آ پہنچے تھے، تاتار اس وقت تک اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ان کا اسلام سے وہی تعلق تھا جو دین اکبری کا اسلام سے تھا، ایسے حالات میں ایک نوجوان اٹھتا ہے دمشق کے گلی بازاروں میں اسکے حافظے اور علم کے تذکرے ہونے لگتے ہیں، اہل حق جو منہ چھپائے پھرتے تھے انکے لئے یہ خوشی کا تازیانہ تھا، دمشق کی جامع مسجد میں جہاں ہر مذہب کی الگ سے کرسی  قائم تھی، حدیث، تفسیر، فقہ، عقیدہ، اصول ہر فن کا الگ سے حلقہ قائم تھا وہ حلقات غائب ہونے لگے اب صبح دم فجر سے لے کر سارا دن ایک ہی شخص ہے جو ہر فن پہ بولے جا رہا  ہے، ابو حیان النحوی نے ایسی ہی ایک مجلس میں شرکت کی تو  پہلے اس عالم کو مفسر سمجھا، پھر محدث سمجھا، پھر فقیہ جانا پھر اسے اصولی کہا پھر ادب اور لغت پہ بات آئی تو اسے اس کا امام جانا، فلسفہ و کلام پہ گفتگو ہوئی تو اس میں اسے طاق پایا اور آخر میں کہا  ھذا الامام الذی ینظرکہ یہی تو وہ امام برحق ہے جس کی چاپ کا زمانہ منتظر تھا جو اللہ کی حجت ہے اور دین کا مجدد اور محی السنۃ ہے۔ اسی دمشق کی جامع مسجد میں اس امام نے دروس دئیے جس سے ہزاروں نے استفادہ کیا اور ان دروس کا غلغلہ مشرق میں ہند و چین تک تھا اور حجاز مقدس میں اس کا ذکر تھا، اسی شہرت کی وجہ سے دن میں کئی خطوط آتے جن کا اس امام برحق کو جواب دینا ہوتا اور یہی خطوط کے جواب بعد میں عظیم کتب بن گئیں۔ ایسا ہی ایک عقیدے کا سوال تھا جس کا جواب عقیدہ الواسطیہ کی صورت سامنے آیا جو عقیدہ پہ مختصر اور جامع ترین رسالہ ہے اور یہ جواب ظہر اور عصر کی نمازوں کے درمیان دیا گیا اور انھیں سوالوں کے جواب فتاوی کی چالیس کے قریب جلدوں میں سامنے آیا۔ امام صرف دروس کی حد تک محدود نا تھے انھوں نے براہ راست رافضہ، صوفیہ، فلاسفہ سے علمی مناظرے کئے اور انکو انھیں کی کتب سے دلائل دے کر شکست فاش دی۔ رافضہ کے نام انکی کتاب اقتضاء صراط مستقیم ایسی مدلل کتاب ہے کہ آج تک اس کا جواب نا بن پایا، فلاسفہ کے نام در تعارض فی العقل والنقل لکھی کہ پڑھتے دانتوں تلے پسینہ آ جائے۔ علو اللہ علی العرش پہ عقلی و نقلی دلائل شیخ کے فتاوی جات میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ صوفیاء کے نام الفرقان بین الحق و البطلان لکھی اور حق ادا کر دیا۔ تلبیس الجھمیہ میں اللہ عزوجل کی اسماء وصفات کا ایسا بیان اور عقلی و نقلی دلائل کا ایسا حسین منظر کے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔

امام کو بیک وقت عقلی اور نقلی علوم پہ ید طولی حاصل تھا جسکی ایک آسان مثال عقیدۃ تدمریہ ہے، اس کتاب میں امام نے پہلے ہر فرقہ باطلہ کے اللہ تعالیٰ کی اسماء وصفات کے بارے سب سے پہلے اس فرقے کا عقیدہ بیان کیا پھر عقلی دلائل سے انکا رد کیا اور پھر نصوص سے ان کا رد کیا۔

درء تعارض فی العقل والنقل امام کی وہ کتاب ہے جو ان سب کے لئے دلیل ہے کہ عالم دین کو اپنے دور کے سب علوم کا بخوبی علم ہونا چاہیے یہ کتاب اس اصول پہ ہے کہ نصوص یعنی قرآن وسنت کو عقل پہ فوقیت حاصل ہے کیونکہ عقل محدود اور ناقص ہے اور نصوص شارع کا براہ راست یا بلواسطہ کلام ہے۔ اہل کلام اور فلسفہ جو دین کو پس پشت ڈال چکے تھے اور وجود باری تعالیٰ تک کے منکر ہو چکے اس کتاب میں ان کا خوب رد کیا گیا۔

کس کس کتاب کا ذکر کیا جائے اور کس فن کا ذکر ہو مقدمہ فی اصول التفسیر ہو، اصول فقہ کی دقیق بحوث ہوں (جہاں کے بڑے بڑے اصولی عقیدے سے منحرف ہو گئے، علم الکلام کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گم ہوئے یا احادیث کی حجیت پہ بحث کرنے لگے امام نے وہاں ثابت کیا کہ صحیح العقیدۃ ہو کر بھی ان علوم پہ دسترس ہو سکتی ہے) فقہ کے گنجلک مسائل ہوں یا کوئی بھی علم وہ اپنے وقت کے امام تھے اور اس فن پہ انکی کتاب نہیں کتب موجود ہیں۔

امام، حافظ، مؤرخ ذھبی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے اپنے استاذ کی کتب کو گنا تو ایک ہزار سے زیادہ تعداد پائی، کہا برسوں شیخ نے تفسیر کا درس دیا، پھر کہا وہ ہر فن کے امام تھے جو حدیث ابن تیمیہ کو نہیں معلوم وہ حدیث ہی نہیں ہے۔ حدیث کی طویل ترین اور ترتیب کے لحاظ سے مشکل ترین کتاب مسند احمد تھی امام ان کے دو شاگرد ابن قیم اور ابن کثیر تینوں اسکے حافظ تھے اس لئے انکی کتب میں آپ کو جابجا حوالے مسند احمد کے ملیں گے۔

یہی امام ذھبی کہتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے آثار کا عالم میں نے امام سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔

مذاہب اربعہ پہ ایسا عبور کہ دمشق کی جامع مسجد میں لگے چار مذاہب کے حلقے ختم ہو گئے کہ جب ابن تیمیہ موجود ہیں تو کسی اور مذہب کے حلقے کی کیا ضرورت ہے؟سنت کا اتنا تتبع شاید انکے دور سے لے کر اب تک ان سے بڑھ کر کوئی نا ہو اسی لئے آئمہ کی تقلید سے منع کیا اور کہا جو یہ سمجھے کہ کسی ایک امام کی مطلق تقلید ہی حق ہے وہ اپنے ایمان کو کفر کے رستے پہ ڈال رہا لیکن انکی شان گھٹانے سے منع کیا اور ایسے لوگوں کے نام رفع الملام عن الآئمۃ الاعلام جیسا عظیم الشان رسالہ لکھ دیا جو اعتدال اور حق کا حسین نمونہ ہے۔

شان ایسی کہ جن مسائل پہ کلام کیا اس پہ دلائل کے انبار لگا دئیے اور اپنے زمانے اور بعد کے لئے ان پہ اجتھاد کا دروازہ کھول دیا۔ طلاق ثلاثہ کا ہی مسئلہ لے لیجئے ان سے پہلے اہل ظاہر کے علاوہ جو آوازیں بھی اہل ظاہر کے حق میں اٹھیں وہ اتنی توانا نا تھیں اور انکے بعد اس مسئلے پہ کھل کے بحث ہوئی اور انکے بعد آنے والے کبار علماء نے انکے موقف کو قبول کیا۔

تحیۃ المسجد کو امام واجب مانتے تھے، اس سے پہلے اس مسئلے پہ امام شافعی ہی انکے ہمنوا تھے جب امام نے اس مسئلے پہ وجوب کا فتویٰ دیا تو ایسا یہ موقف مشہور ہوا کہ چاروں مذاہب میں اسے قبول عام حاصل ہو گیا۔

مشاجرات صحابہ کرام پہ انھوں نے سلف کا موقف پھر سے زندہ کر دیا اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا ماموں کہہ کر انکی عظمت کو دوبارہ زندہ کیا۔ امام کے دور میں روافض اہل بیت سے غلو والی محبت رکھتے تھے اور انکی ضد میں نواصب کا زور تھا جو اہل بیت کی شان بیان ہی نا کرتے یا اس کا صریح انکار کرتے، امام نے اس معاملے میں شیخین سے محبت، عثمان رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا صحیح مقام، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مقام، کربلا پہ اہل السنّۃ کا مؤقف اور یزید کے بارے صحیح رائے پیش کی جو آج بھی جمہور اہل السنّۃ کی آواز ہے۔

پھر ایسا نہیں تھا کہ امام نے صرف آپ کو اسلام سے منسوب کرنیوالے فرقوں پہ ہی رد کیا، بلکہ آپ نے اپنے دور کے معروف عیسائی اور یہودی علماء سے مناظرے بھی کئے اور ان کو دین کی طرف دعوت بھی دی، عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا درجہ دینے والے اور انکا لایا دین بدلنے والے نام نہاد اہل نصاریٰ کے خلاف انکے قلم سے نکلی کتاب “الجواب الصحیح علی من بدل دین المسیح” آج بھی فرق کے موضوع پر مرجع کا درجہ رکھتی ہے۔

یہ تو امام کا قلمی جہاد تھا، امام نے تلوار سے جہاد کر کے تاتار کا قلع قمع کر دیا اور ایسا کیا کہ وہ دوبارہ مسلمان سلطنت کا رخ نا کر سکے، یہ وہ دور تھا کہ تاتار کا رعب اور دبدبہ مسلمانوں میں بیٹھا تھا کوئی انکے خلاف نہیں اٹھتا تھا، امام کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا، جس نے مسلمانوں پہ گہرے نقوش چھوڑے اور مسلمان تیزی سے ان علاقوں کو چھوڑ رہے تھے جہاں تاتار کا پیش قدمی کا خطرہ تھا حتی کہ شیخ نے خود بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کی تھی لیکن اب امام خود نوجوان تھے، امام ابن کثیر رحمہ اللہ جو امام کے شاگرد بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سب سے پہلے سلطان سے ملے اور اسے جہاد کے لئے قائل کیا جو بزدلی اور خوف کے سبب ملک چھوڑ کر جانا چاہ رہا تھا، پھر عام لوگوں میں جہاد اور قتال کے فضائل بیان کئے اور امام کے بیانات سے لوگوں کا ایمان جاگ گیا، بزدلی کی جگہ بہادری عود آئی اور ملک شام میں جنگی تیاریاں عروج پہ تھیں، امام اس دوران تین بار تاتاریوں کے بادشاہ قبلائی خان سے بھی ملے اور اس قدر زور دار، مؤثر اور بلیغ خطاب کیا کہ امام کے ساتھی ڈر گئے کہ ہم زندہ واپس نہیں جائیں گے۔ آپ دمشق کے قلعے کے اردگرد اپنے گھوڑے پہ بیٹھ کر چکر لگاتے اور جنگ کے موقع پہ صف اول میں شریک رہے۔

تاتار کے ساتھ یہ جنگیں 697 ہجری سے 712 ہجری تک چلیں اس دوران امام کی مقبولیت اس قدر زیادہ ہو گئی کہ سلطان کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ اقتدار پہ قابض نا ہو جائیں اور رہی سہی کسر درباری ملاؤں نے پوری کر دی جو امام کے خلاف سلطان کے کان بھرتے رہے اور امام کو دمشق کے قلعے میں قید کر دیا گیا۔

اس دوران ایک بار پھر خطرہ لاحق ہوا کہ تاتاری افواج حملہ آور ہونے والے ہیں، سلطان کو کوئی ترکیب نا سوجھی تو پھر امام کو قید سے رہا کیا اور امام نے للہ پھر سے جہاد کی ترغیب دی اور پھر سے جنگ میں حصہ لیا اور اس بار تاتاریوں کو شکست فاش ہوئی اور سلطان کا نام اسلامی دنیا میں بلند ہوا۔

یہاں امام کا ایک اور حسین پہلو سامنے آتا ہے کہ باوجود رائے عامہ میں اپنی مقبولیت کے، پرتشدد اور قید کے امام نے سلطان کے خلاف ایک کلمہ بھی نہیں کہا اور نا ہی کوئی شکوہ کیا بلکہ صحابہ کے موقف کے مطابق اولی الامر کی اطاعت کی اور دوسری طرف حق بات کہنے پہ ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نا کی اور توحید و سنت پہ کسی قسم کی مفاہمت نہیں کی اور قید برداشت کر لی۔

امام رحمہ اللہ نے دین کی خاطر بار بار قید کی مشقت برداشت کی اور ایک بار بھی کوئی ذاتی وجہ نہیں تھی بلکہ انکے صاف ستھرے عقائد اور نظریات تھے۔

پہلی بار انھیں الصارم المسلول کتاب لکھنے پہ قید ہوئی، یہ کتاب رسول اللہ کی حرمت اور تقدس پہ ہے اور انکی اہانت اور گستاخی کرنے والے کو کیا سزا ہونی چاہیے۔

دوسری بار انھیں اپنی مشہور کتاب جو کتاب الوسیلۃ کے نام سے معروف ہے اس پہ ہوئی اس کتاب میں استغاثہ یعنی اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا سلف کا طریقہ کیا تھا اس پہ ہوئی۔

ایک بار اللہ تعالیٰ کا علو، نزول الی سماء الدنیا، صفت الکلام اس پہ قید ہوئی۔

دو بار امام کو تاتاریوں نے قید کیا اور ایک بار آپ کو قتل کرنے کا حکم بھی دے دیا اور تب آپ نے کہا اگر مجھے قتل کرو گے تو میں شہید ہوں گا، اگر جلا وطن کرو گے میں کہیں اور جا کے دین کی دعوت دوں گا، اگر قید کرو گے تو وہ میری عبادت گاہ بن جائے گا، میری مثال بھیڑ کی کھال کی ہے جہاں مرضی سے ہاتھ ڈال لو اون ہی ہاتھ آئے گیا۔چھٹی بار آپ کو طلاق بالحلف کے مسئلے پہ قید کیا گیا۔آخری بار آپ دو سال سے زائد مدت قید رہے اور یہ آپ کی طویل ترین مدت اور مشقت آمیز بھی تھی، اب کی بار آپ کا وہ فتویٰ تھا جس میں آپ نے کہا تھا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کی شرعی زیارت کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ہے اور قبر رسول کی زیارت کی نیت نہیں بلکہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے سفر ہو گا اور پھر وہاں قبر رسول پہ سلام بھیجا جائے۔ آپ کو آخری بار قلعے میں قید کیا گیا اور یہیں آخر کار آپ کی وفات ہوئی اور قلعے سے ہی جنازہ اٹھایا گیا۔ آپ نے اس مدت کے دوران بیشمار علمی کتب لکھیں، فتاویٰ دئیے آپ پہ علوم کے دروازے کھول دئیے گئے۔ وہ حاسدین جنھوں نے آپ کو قید کرایا وہ یہ برداشت نا کر سکے اور آپ سے قلم اور کاغذ لے لیا گیا اور آپ کو قید تنہائی میں بھیج دیا گیا جہاں سخت اندھیرا تھا، آپ یہاں کوئلے سے دیوار پہ لکھتے رہے اور آپ کا سارا دن اللہ تعالیٰ کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت میں گزرتا یہاں تک کے آپ فوت ہو گئے۔

آپ کے جنازے میں دمشق کی عوام امڈ آئی اس کے علاوہ حجاز، ہند، چین، خراسان اور مصر میں آپ کا غائبانہ جنازہ پڑھا گیا۔

امام ابن القیم جو آخری بار آپ کے ساتھ قید میں گئے انھوں نے، امام ابن کثیر اور امام ذھبی تینوں نے آپ کی وفات کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا ہے، جیل میں جا کر بھی دین کی تڑپ تھی، جیل میں قیدیوں کی اصلاح کا کوئی نظام نا تھا، اور وہ فضولیات میں مشغول رہتے، امام نے انکو جوا بازی سے دین پہ لگا دیا، خود آخری دنوں میں سارا دن قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور فرماتے میں اللہ کا ذکر نا کروں تو میری روح بے چین رہتی اور ایسا لگتا ہے کہ بھوکا رہ گیا ہوں۔

اب بتائیے ایسے شخص کو جو ہر فتنے کا مقابلہ کرتا ہوا ان سب کو شکست فاش دیتا ہے، اپنے عقائد و نظریات پہ مداہنت کا شکار نہیں ہوتا، سب محاذوں پہ ڈٹا نظر آتا ہے اور بیک وقت قلم اور سیف سے جہاد کرتا ہے، زبان کی گولہ باری کا بھی شکار ہے اور قید کی صعوبت بھی برداشت کرتا ہے تو خود ہی انصاف سے بولیے اسے شیخ الاسلام، حجۃ اللہ علی الارض نا کہا جائے تو کیا کہا جائے!

حوض کوثر کی صفات اور خواص

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، وہی غالب اور عطا کرنے والا ہے، گناہ معاف اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہ سخت عذاب اور شدید پکڑ والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف توبہ کرتے ہوئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت بڑا اور بلند ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ جنت کی خوشخبری دینے والے اور عذاب الہی سے ڈرانے والے ہیں، یا اللہ! اپنے بندے  اور رسول محمد پر ، ان کی آل اور نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تمام صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد! اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل ، اور ممنوعہ کاموں سے بچتے ہوئے تقوی الہی اختیار کرو۔

اللہ کے بندو!اپنی آخرت سنوارنے کے لیے نیک کام کرو، اور اپنی نیکیوں کو ضائع مت کرو ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (التوبۃ : 105)

ان سے کہہ دیں کہ : عمل کرتے جاؤ! اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو ۔

ایسے ہی فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد : 33)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔

ایک مقام پر فرمایا:

قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

آپ کہہ دیں: خسارہ پانے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں

نے اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو روز قیامت خسارے

میں ڈال دیا ، یقیناً یہی واضح خسارہ ہے۔[الزمر : 15]

اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حلال کمائیں اور اسے فرض، مستحب اور مباح امور میں خرچ کریں، اس دنیا کو سفرِ جنت کے لیے کام میں لائیں، دیکھنا تمہیں دنیاوی رونقیں دھوکے میں نہ ڈال دیں، اور تم آخرت سے غافل ہو جاؤ، اس لیے مسلمانو! اپنی دنیا بنانے اور آخرت پانے کے لیے نیکیاں کرو۔

ایک اثر ہے کہ: ’’تم میں سے اپنی دنیا کے لیے آخرت ترک کرنے والا بہتر نہیں ہے، اور نہ ہی وہ شخص بہتر ہے جو اپنی آخرت کے لیے دنیا چھوڑ دے۔‘‘

سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم نبی کریم کے پاس دنیا اور آخرت کا تذکرہ کر رہے تھے اس دوران کچھ لوگوں نے کہا: دنیا [افضل ہے اس لیے کہ یہ]آخرت کی دہلیز ہے، اس میں نیکیاں، نمازیں اور زکاۃ ادا کی ادائیگی ہوتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے کہا: آخرت میں جنت ہے[اس لیے آخرت دنیا سے افضل ہے] انہوں نے کچھ اور باتیں بھی کیں، تو رسول اللہ نے فرمایا: دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈالے تو جو کچھ اس کی انگلی کے ساتھ لگے تو وہ دنیا ہے۔(حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے)

اسی طرح حاکم نے سعد بن طارق سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: دنیا ایسے شخص کے لیے بہترین مقام ہے جو یہاں آخرت کے لیے اتنا کرے کہ رب راضی ہو جائے ، اور اس شخص کے لیے برا مقام ہے جسے دنیا آخرت سے دور اور رضائے الہی سے محروم کر دے۔

حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: دنیا مؤمن کے لیے اچھا مقام ہے، وہ اس طرح کہ یہاں مؤمن تھوڑا عمل کر کے جنت کا راہی بن جاتا ہے، اور یہی دنیا کافر اور منافق کے لیے بری ہے کہ وہ اپنی راتیں کالی کر کے جہنم کا راہی بن جاتا ہے۔( احمد نے اسے “الزہد” میں روایت کیا ہے)

ہر کسی کو یقین ہے کہ اس نے یہاں سے جانا ہے، اور اللہ کی طرف سے نوازا ہوا سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے، اُس کے ساتھ صرف عمل ہی جائے گا، یہ عمل اچھا ہوا تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برا ہوا تو بدلہ بھی برا ملے گا، جب ہر ایک کی یہی صورت حال ہوگی ، اور اس مرحلے سے لازمی گزرنا ہے تو سب کے لیے حسب استطاعت اچھے سے اچھا عمل لے کر جانا ضروری ہے، کیونکہ خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی وسیلہ عمل کے بغیر کار گر نہیں ہو گا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ

تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو ، ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا صلہ ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن و چین سے رہیں گے ۔[سبأ : 37]

اے مسلم! تمہارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ سید ولد آدم نبی مکرم کے حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیاب ہو جاؤ، یہ ہدف کیسے پا سکتے ہو ؟ اہل جنت اولین کش اسی حوض سے لگائیں گے۔

چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالی حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیابی عطا فرما دے تو اس کے بعد اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا، نبی کے ہاتھوں اس حوض سے پانی پینے والے شخص پر اللہ تعالی قیامت کی سختیاں پہلے ہی آسان فرما دے گا۔

حوض کوثر پر ایمان رکھنا یوم آخرت پر ایمان کا حصہ ہے، اور جو شخص حوض کوثر پر ایمان نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے، کیونکہ اجزائے ایمان میں تفریق ممکن نہیں ہے، لہذا جو شخص ایمان کے ایک رکن کا انکار کر دے تو وہ سب ارکان سے کفر کرتا ہے۔

حوض کوثر اللہ تعالی کی طرف سے نبی مکرم کے لیے اعزاز و تکریم ہے، اس حوض سے آپ کی امت ارض محشر میں پانی پیے گی، وہ دن کفار پر پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، لیکن اللہ تعالی مؤمنوں کے لیے اس دن کو مختصر فرما دے گا۔

اس دن لوگوں کے سر چکرا رہے ہوں گے، حساب کے دوران ان پر تکلیف کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوں گے، اگر اللہ تعالی انہیں برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت نہ دے تو سب کے سب مر جائیں ۔

دوران حساب لوگوں کو اتنی سخت پیاس لگے گی جس سے کلیجا پھٹنے کو ہوگا، پیٹ پیاس کی وجہ سے آگ بن چکا ہوگا، انہیں اس سے پہلے اتنی سخت پیاس نے کبھی نہیں ستایا ہوگا۔

پھر اللہ تعالی اپنے نبی کو اعزاز بخشتے ہوئے امت محمدیہ کے لیے حوض کوثر عطا فرمائے گا، آپ اپنے حوض کے کنارے کھڑے اپنی امت کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوں گے، اور سب کو پانی پینے کی دعوت دینگے۔

حوض کوثر کے رقبے اور پانی کی شفافیت متعلق متواتر احادیث ہیں بلکہ حوض کوثر کے تذکرے کے لیے قرآن مجید میں ایک سورت “الکوثر” کے نام سے موجود ہے۔

ہر نبی کو الگ سے ایک حوض دیا جائے گا، چنانچہ سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: (انبیاء اپنے پیروکاروں کی زیادہ تعداد پر ایک دوسرے سے فخر کرینگے ، اور مجھے امید ہے کہ اس دن سب سے زیادہ میرے پاس لوگ پانی پینے آئیں گے، اور ہر نبی اپنے بھرے ہوئے حوض پر کھڑے ہو کر ہاتھ میں عصا لیے اپنی امت کے لوگوں کو پہچان کر بلائے گا، ہر امت کے لیے خاص نشانی ہوگی جس سے ہر نبی اپنی امت کو پہچان لے گا۔(ترمذی، طبرانی)

ہمارے نبی کریم کا حوض آپ کی شریعت کی طرح سب سے بڑا اور سب سے میٹھا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: میرے حوض کا رقبہ ایلہ سے عدن کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے، وہ دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے، اور اس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوں گے۔(صحیح مسلم) جبکہ دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ: اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ اچھی ہوگی۔

اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی مكرم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! حوض کوثر کے آبخورے اندھیری شفاف رات میں آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں ، حوض کوثر کا پانی نوش کرنے والا کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا، اس حوض میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں۔(احمد، مسلم، نسائی)

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:میرا حوض عدن تا عمان کے فاصلے سے بھی بہت بڑا ہے، اس کے سونے اور چاندی کے دو پرنالے ہیں ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، ذائقہ شہد سے میٹھا، خوشبو کستوری سے بھی اچھی ہے، جو اس حوض سے پی لے گا اس کے بعد پیاسا نہیں ہوگا، اور اس کا چہرہ کبھی سیاہ نہیں ہوگا۔( احمد، ابن ماجہ، ابن حبان)

اسی طرح زید بن خالد رضی اللہ عنہ نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکوثرکیا ہے؟ یہ ایک جنت کی نہر ہے جو مجھے میرے رب نے عطا کی ہے، اس میں بہت ہی خیر ہے، میری امت اس سے پانی پیے گی، اس کے آبخورے تاروں کے برابر ہیں، میری امت کے ایک شخص کو وہاں سے دور ہٹا دیا جائے گا! میں کہوں گا: یا الہی! یہ میرا امتی ہے، تو کہا جائے گا: “آپکو نہیں معلوم اس نے آپ کے بعد کیا کیا بدعات ایجاد کیں” ۔( احمد، مسلم، ابو داود)

حوض کی میدان محشر میں بہت وسیع زمین ہے، اللہ تعالی اسے نہر کوثر کے پانی سے بھر دے گا، اور اس حوض میں نہر کوثر سے گرنے والے سونے چاندی کے دو پرنالے ہیں ، اس کا پانی کبھی کم نہیں ہوگا، نیز ہر مؤمن مرد و زن اس سے پانی ضرور پییں گے، اور پھر کبھی بھی پیاسے نہیں ہوں گے۔

حوض کوثر پر نبی کے ہاتھوں سے پانی پینے والے خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو نبی کی سنت پر عمل پیرا اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا

اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے بچو تو ہم تمہارے گناہ مٹا کر عزت کی جگہ میں داخل کر دیںگے۔[النساء : 31]

وہ لوگ سنت نبوی پر کار بند ہوتے ہوئے علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔[يوسف : 108]

وہ لوگ نبی کریم کی شریعت کی طرف لوگوں کو زبانی اور عملی نمونہ بن کر بلاتے ہیں، دین میں بدعات اور خود ساختہ امور سے بچتے ہیں اور شریعت سے متصادم کوئی کام نہیں کرتے، نیز ریا کاری اور شہرت پسندی سے بالکل پاک اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں، ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرتے ہیں۔ اسی طرح نبی پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا حوض کوثر سے پانی پینے کے لیے بہترین نسخہ ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے چنانچہ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں بیشک آپ کا دشمن ہی لا وارث ہے۔[الكوثر : 13]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، نیز ہمیں سید المرسلین کی سیرت اور ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو جلال و اکرام والا ہے، وہ ایسا بادشاہ ہے جس کا کوئی مد مقابل نہیں، اس کے غلبے کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا، میں ڈھیروں نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ بر حق ہے، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ، پاکیزہ اور سلامتی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

اللہ سے کما حقہ ڈرو اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو۔

اللہ کے بندو!اس شخص کی کامیابی کے کیا کہنے جسے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد کے حوض سے پانی پینے کی سعادت نصیب کر دے، وہاں سے پانی پینے کے بعد وہ کبھی بھی پیاسا نہیں رہے گا۔

اس کے برعکس وہ کتنا بد نصیب شخص ہے جسے اس سعادت سے محروم رکھا جائے گا ، بلکہ دھتکار دیا جائے گا، اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

مسلمانو!حوض کوثر سے آب نوشی میں رکاوٹ بننے والے اعمال میں یہ بھی شامل ہیں کہ بدعات اور خود ساختہ امور دین میں داخل کیے جائیں یا پھر زبانی کلامی یا عملی طور پر اسلام سے روکا جائے، یہ باتیں حوض کوثر سے دھتکارے جانے سے متعلق احادیث میں موجود ہیں مثلاً: (آپکو نہیں معلوم آپ کے بعد انہوں نے کیا بدعات ایجاد کیں)تو رسول اللہ فرمائیں گے: میرے بعد دین تبدیل کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔

اسی طرح حوض کوثر سے پانی پینے کے لیے رکاوٹوں میں کبیرہ گناہ بھی شامل ہیں ؛ کیونکہ یہ دلوں کو خبیث بنا دیتے ہیں، اسی طرح ریا کاری، شہرت پسندی اور لوگوں پر ظلم کرنا بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

ان اعمال کے رکاوٹ بننے کی وجوہات اہل خرد کے لیے بالکل واضح ہیں کہ جس نے دنیا میں نبوی شریعت کی اطاعت کی اور مرتے دم تک آپ کی عملی سیرت پر کار بند رہا تو وہ آپ کے حوض سے پانی پیے گا، جبکہ دین میں تبدیل کرنے والے اور بدعتی کو روک دیا جائے گا، کیونکہ اس نے حق بات سے اپنے آپ کو روکے رکھا۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

۔۔۔

پانی اک بے مثال انعام الٰہی

پانی اک بے مثال انعام الٰہی

پانی کی اہمیت و حفاظت اور بھارتی آبی جارحیت سے متعلق رہنما تحریر

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

اللہ تعالی کی ان گنت نعمتیں ہیں، انسان پیدا ہونے سے لے کر موت تک زندگی کا ہر لمحہ نعمتِ الٰہی کے سایہ میں گزا ر تا ہے بلکہ انسان کا پورا وجود انعاماتِ الہی کا مظہراور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بے کراں احسان و انعام کا احساس دلانے والا ہے ۔قرآن کریم میں اسی لئے اللہ تعالی نے انسا ن کو اس بات کا احساس دلایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے ،ارشاد باری تعالی ہے

:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا  ( ابراھیم:34)

اوراگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمارکرنے لگوتو شمار نہیں کرسکتے ۔‘‘ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت پانی بھی ہے ،جس پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے ۔ اللہ تعالی نے نظامِ کائنات کو پانی کے ذریعہ غیر معمولی انداز میں جوڑے رکھا ہے اور انسان کی اکثر ضرورتیں پانی ہی سے پوری ہوتی ہیں۔پانی کے ذریعہ ہی مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے، جھاڑ اور پودے ،پھل اور پھول لہلہانے لگتے ہیں ،پانی کے سبب ہی انسان اپنی ظاہری نجاست اور میل کچیل کو دور کرپاتا ہے ،پانی ہی سے انسان ترو تازگی حاصل کرتا ہے ، پانی سے کھیت و کھلیان ہرے بھرے رہتے ہیں ،انسانی آبادی وہاں مقیم ہونا پسند کرتی ہے جہاں پانی کا نظم ہو ،ورنہ بغیر پانی کے آباد بستیاں بھی ویران جنگل بن جاتی ہیں۔غرض یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کی بہت سی حاجتوں کو پانی سے وابستہ رکھا ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے :  اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ  ( نور:43)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے ۔

دوسری جگہ پر اس کو نعمت سے’’موسوم‘‘ کرتے ہوئے فرمایا

:وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ  ۭ حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ  ۭكَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ( الاعراف :57)

اور وہی ( اللہ ) ہے جو اپنی رحمت ( یعنی بارش ) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی ) خوش خبری دیتی ہیں ،یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف چلاجاتے ہیں ،پھر وہاں پانی برساتے ہیں ،اور ان کے ذریعہ ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں ۔

نباتات ،حیوانات ، معدنیات ظاہرہ ہوں یا پوشیدہ غرض کہ وہ تمام اشیاء جن پر اس کائنات کے تحفظ و بقا کا دارو مدار ہے ، ان میں سب سے اہم چیز’’پانی‘‘ ہے جس کی بقاء میں کائنات کی تمام مخلوق کی بقاء وحفاظت مضمر ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝۰ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۰ (الانبیاء)

’’اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ ‘‘

باری تعالیٰ نے اپنی توحید ربوبیت کے دلائل میں پانی کی نعمت کا تذکرہ بطورِ خاص کیا ہے فرمان باری تعالیٰ ہے

اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ۝۶ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ (الواقعہ)’’

بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو ،کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ ،اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟۔‘‘

مزید ارشاد فرمایا :

  وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۲۴ ( الروم)

’’اور آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (و شاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں ۔‘‘

الغرض قرآن کریم میں اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے ،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیں بلکہ جتنا انسان کو حق اتنا ہی دوسری مخلوق کابھی حق ہے ۔

وطن عزیز کو باری تعالیٰ نے اپنی قدرت کے انمول خزانوں سے نوازا ہے اسی طرح اپنی نعمت عظیم پانی سے بھی اہل پاکستان کو خود کفیل کیا تھا مگر ہمارے ذاتی مفاد پرست حکمران ان نعمتوں کو یا تو ضائع کر رہے ہیں یا ان کو صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے تک ہی استعمال میں لا رہے ہیں، پاکستان میں پانچ بڑے دریا بہتے ہیں مگر شومئی قسمت کہ ان میں سے اکثر دریاؤں کا منبع دشمن ملک میں ہے اور ہر محاذ پر شکست کھانے کے بعد بھارت پاکستان کیخلاف پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ڈیم بنائے۔ پاکستان بھارت کی ایسی مکروہ سکیموں کیخلاف متعلقہ عالمی فورمز پر معاملات اٹھا چکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں عالمی بینک کی ضمانت کے ساتھ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔

اس معاہدے کی ضرور ت 1948 میں اس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا ۔دونوں ملک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہد ہ طے پایا ۔

اس معاہدےکے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طورپر168 ملین ایکڑفٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ ،جہلم اور چناب سے سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی،بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

چونکہ مغربی دریاوں میں کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیرمیں تھا اس لئے بھارت کو 3اعشاریہ6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنےاور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کےلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریاؤں میں یعنی سندھ ، چناب اور جہلم پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کررہا ہے ۔

اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کئے گئے ہیں ۔حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی

لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے ۔ کشن گنگا ، رتل ، میار ،لوئر کلنائی ،پاکال دل

ہائیڈروالیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کررہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول  کرنا بتایا جاتا ہے ۔

بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کےلیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہےاگرچہ یہ معاہدہ برقرار ہے لیکن دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور بعض اوقات اس معاہدے کو جاری رکھنے کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔انڈیا نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ماضی میں پاکستان کے بیوروکریٹس نے وطن سے غداری کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کو ہمیشہ کمزور دلائل سے پیش کیا ہے جس کی بنا پہ سندھ طاس کے معاہدے کی روح پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کا خمیازہ وطن عزیز آج تک بھگت رہا ہے۔

زرعی ملک ہونے کےناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کےلئے کافی اہم ہے۔

درج بالا سطور میں آبی وسائل پہ بھارتی جارحیت کھل کر سامنے لائی جاچکی ہے اب اس سنگین مسئلے کا حل کیا ہے ؟

وطن عزیز کے آبی مسائل کا حل بنیادی طور پہ دو اہم ترین اقدامات کے ذریعہ ممکن ہے۔

الف: موجودہ آبی ذخائر کو استعمال کرنے میں اسلامی احکامات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسراف وتبذیر سے دور رہ کر کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا اس سلسلہ میں دین اسلام ہمیں واضح ہدایات بھی فراہم کرتاہے۔

پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اسراف کے زمرہ میں آتا ہے  اور اسراف کو اسلام نے ناجائز قرار دیاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :

وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱ۙ  ’’

بےجا نہ اڑاؤ کہ اللہ  بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

اس طرح کے اسراف سے کیون کہ دوسروں کے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں ، اور نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے،جس سے زمینی نظام میں فساد کا باعث ہوگا اس طرح کےفساد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

اسلام میں پانی کی حفاظت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے اور اس میں پانی کی مقدار پر بھی اسلام نے نظر رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے، سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! لا تسرف اے سعد اسراف نہ کرو، سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ، فرمایا ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو ، (سنن ابن ماجہ :1/147)

اس بارے میں اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن کو طوالت کے پیش نظرذکر نہیں کیا جارہا ۔

اسلام نے پانی کی حفاظت کے لیے جو غیر معمولی اقدامات کیے ہیں ان کا اندازہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے لگایا جاسکتاہے ۔

سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺنے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الا وسط للطبرانی: 2/208، رقم الحدیث :1749)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ ’’پانی کا برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشکیز ے کا منہ باندھ دیا کرو۔‘‘(صحیح مسلم :6؍ 105، رقم الحدیث : 5364)

رسول اکرم ﷺنے پانی کی حفاظت کے سلسلہ میں عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  ایک ’’مد‘‘کی مقدار پانی سے وضوء فرمالیا کرتے تھے اور ایک’’صاع ‘‘کی مقدار پانی سے غسل فرمالیا کر تے تھے ۔’’ مد ‘‘یعنی دو ہاتھ بھر کر پانی کی مقدار کو کہتے ہیں اور صاع چار ’’ مد ‘‘ کی مقدار کو کہتے ہیں ۔  درج بالا احادیث مبارکہ سےپتہ چلتا ہے کہ اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہےلہٰذا ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں پانی کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ وہ ایسا سرمایہ ہے جو قیمت سے بالاتر ہے۔

ب : آبی وسائل کی حفاظت کا دوسرا اہم ترین ذریعہ وطن عزیز میں فی الفور ہنگامی بنیادوں پہ مختلف حجم کے ڈیمز کی تعمیر ہے ۔

پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر کے مطابق 1990ء میں پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا تھا جہاں آبادی کے مقابلے میں آبی ذخائر کم ہو گئے تھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہر شہری کیلئے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوسک میٹر رہ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں خبردار کر چکا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی بجلی کی قلت سے بھی بڑا مسئلہ ہے، حکومت کو اسی پر توجہ دینا ہو گی۔

1970ء کے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق کوئی بھی ملک دریاؤں کو مکمل طور پر بند نہیں کر سکتا مگر بھارت ہمارے دریاؤں پر یہ ظلم کرتا چلا جا رہا ہے۔ پانی کے انتہائی اہم اور حساس مسئلے کے متعلق ہمارا یہ انداز تغافل ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ زندگی کیلئے جزولاینفک پانی کے بارے میں ہماری یہ تساہل پرستی ہمیں بربادیوں کے دہانے پر لاکھڑا کرے گی۔ اس دنیا میں حیات کے سارے لمحات کا دارومدار پانی اور ہوا کے گرد گھومتا ہے۔ جب دریاؤں کے سینوں پر پانی کے بجائے ریت اڑے گی تو پھر یہ ریت ہماری تمام تر خواہشات اور آسودگیوں کو بھی اڑا لے جائے گی۔ زمینیں بنجر ہو جائیں تو فصلوں کے منظر ہولناک ہو جایا کرتے ہیں اور فصلیں اجڑ جائیں تو پھر قحط بن بلائے آدھمکتا ہے۔

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے ہمارے حکمرانوں نے ملک میں پانی کے ختم ہوتے ہوئے ذخائر کے بارے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی اور یہی وجہ ہے کہ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر سال 90ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر دیتے ہیں جس میں سے صرف ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کی مالیت 50کروڑ امریکی ڈالر ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تربیلا ڈیم کے بعد کم ازکم ہر دس سال بعد نیا ڈیم بنایا جاتا لیکن بد قسمتی کے ساتھ حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے اب تک کوئی ڈیم نہ بنایا جا سکا ۔ ڈیم ہمارے پانی کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کی پیداوار کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔

پاکستان میں لیبر پہلے ہی سستا ہے اگر پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائیگا۔

 ڈیمز کی تعمیر سے پاکستان کا انڈین ڈیموں کے خلاف عالمی محاذ پر کیس مضبوط ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈیم ہے اور پاکستان دریاؤوں کا پانی ضائع نہیں کر رہا ہے۔ ڈیم کے تعمیری منصوبے میں لوگوں کو براہ راست ملازمتیں ملیں گی۔ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والے پانی سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے کا امکان بھی پیدا ہوجاتاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ  پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کے زیادہ پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب کا سدِ باب اور زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ  بھی ڈیم کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ یوں ہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اور عوام کو پہنچنے والی تکلیف بھی ختم ہوجائیگی۔

پانی کا ایک ایک قطرہ زندگی ہے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے ،گھریلو طور پر پانی کے ضیاع کے جو مناظر ہمیں اپنے اطراف نظر آتے ہیں وہ بے حد تکلیف دہ ہیں ،چنانچہ معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو ہمیں مستقبل میں کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے ،اس سلسلے میں اسکول ،کالجز ،جامعات اور مدارس کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرام کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ سوشل ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ پانی کے محتاط استعمال کے حوالے سے عوام الناس کی ذہن سازی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے،صاف شفاف ،صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر ہنگامی اقدامات کئے جائیں ،حکومت پانی کو محفوظ کرنے اور توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے ڈیموں کی تعمیر سیاست کی نذر نہ کیا جائے اور قیمتی پانی کو سمندر کی نذر ہونے کی بجائے اس ڈیم میں محفوظ کیا جائے ،سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں،زمین پر بڑھتی ہوئی آلودگی نہ صرف زمینی اور زیر زمین آبی وسائل کی بربادی کا باعث بن رہی ہے بلکہ یہ آلودگی سمندر کا حصہ بھی بنتی جا رہی ہے ،آبی آلودگی کے تدارک کیلئے مناسب اقدامات کرۂ ارض پر حیات انسانی کی بقا و سلامتی کے متقاضی ہیں۔

آیئے اس گھمبیر صورت حال میں ہم اپنی ذمہ داری کو بطریق احسن ادا کرنے کا وعدہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملک عزیز کو پیش آمدہ مشکلات سے نکالنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

۔۔۔

بائبل کیا ہے؟

الحمد للّٰہ وحدہ والصلوۃ والسلام علیٰ سیّد الانبیاء ولمرسٰلین امابعد :

 بائبل میں موجود کتا بوں کے نام ، ا ن کا مختصر تعارف ا و ر ا ہم حوا لہ جات:

  عیسائی حضرات بائبل کی کتابوں کی دو قسمیں کرتے ہیں:پہلی قسم کی کتابوں کے متعلق ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ان پیغمبروں کے واسطے سے ہمارے پاس پہنچی ہیں جو عیسٰی علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں:دوسری قسم کی کتابوںکی نسبت دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ کتابیں عیسٰی علیہ السلام کے بعد الہام کےذریعے لکھی گئی ہیں:پہلی قسم کی کتابوں کی تعداد [39]ہے : ان کے مجموعہ کو عہد عتیق ،پرانا عہد نامہ یا عہد قد یم اور انگریزی میں  Old Testament کہتے ہیں:دوسری قسم کی کتابوںکی تعداد27  ہے جنکے مجموعے کو عہدنامہ جدید ، نیاعہد نامہ اورانگریزی میں New Testament  کہتے ہیں: ان دونوں عہدوں کے مجموعہ کو بائبل کہتے ہیں:بائبل یونانی لفظ ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں:  اس کے بعد ہر عہد کی کتابوں کو پھر سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلی وہ جن کی صحت پر قدماء کا اتفاق ہے دوسری وہ جن کی صحت کے بارے میں علمائے بائبل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ متفق علیہ کتب تو بائبل میں شامل ہیں جبکہ متنازعہ کتب کی فہرست بعد میں دے جائیگی چونکہ تبلیغی لحاظ سے ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں اسلئے ان کے صرف ناموں کے تذکرہ پر اکتفا کیا جائیگا۔

 یہودیوں نے چونکہ یسوع علیہ السلام کی نبوّت کو تسلیم نہیں کیا اسلئے ان کے پاس صرف عہد عتیق ہے جن میں سے پہلی پانچ کتابیں پیدائش ، گنتی ، خروج ، احبار اور استثناء تورات کہلاتی ہیں۔موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے دی گئی شریعت انہی میں درج ہے اسلئے انہیں آپ کی تصنیف قراردیا جاتا ہے ان کے بعد مسیح علیہ السلام سے پہلے تک تمام انبیاء علیہم السلام کے صحائف بھی تورات کے ساتھ منسلک کئے جاتے رہے : اس مجموعے کو عام طور پر تورات ہی کہا جاتاہے : عیسیٰ علیہ السلام کے بعد لکھی جاتے والی کتابوں کے بارے میں عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ آپ کے بعد الہام کےذریعے سے لکھی گئی ہیں: جن میں پہلی چار انجیلیں اور باقی حواریوں کے مختلف کلیسیا کو لکھے گئے خطوط ہیں جن کی کل تعداد 27ہے : یہاں یہ بات قارئین کرام کی دلچسپی کا باعث ہے کہ عیسائی مذہب میں بہتّر فرقوں کا تذکرہ ملتا ہے : جن میں سے زیاد ہ تر قدیم اور ناپید ہو چکے ہیں: کتابوں کے حوالے سے موجودہ دور میں دو فرقے قابل ذکر ہیں:

1۔ رومن کیتھولک 2۔ پروٹسٹنٹ:  یعنی رومن یا کیتھولک چر چ اور پروٹسٹنٹ چرچ:

رومن کیتھولک کی بائبل میں کتابوں کی تعداد پروٹسٹنٹ کی بائبل سے زیادہ ہیں: ان کی بائبل میں چھ کتابیں طوبیا، یہودیت، حکمت، یشوع بن سیراخ،باروک، مکابین اوّل

و مکابین دوئم:یہ کتابیں پروٹسٹنٹ بائبل میں شامل نہیں ہیں: کیونکہ وہ انہیںغیر الہامی ، جھوٹی اور جعلی سمجھتے ہیں:دونوں فرقے ایک دوسرے کو کاذب اور گمراہ سمجھتے ہیں: جبکہ دونوں ہی اپنے اپنے دعوے میں سچے ہیں:کیونکہ ان کے ہاںکسی کتاب کا الہامی ہونا، پرکھنے کا کوئی اصول یا معیار نہیں تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ فلاں الہامی اور فلاں غیر الہامی ہے ؟ان کے ہاں یہ معیار محض پسند نا پسند پر قائم ہوتا ہے ۔بہر حال ہم جس فرقے سے رشتہ محبت استوار کر رہے ہیں وہ پروٹسنٹ ہے : اسلئے یہاں پر پروٹسٹنٹ فرقے کی بائبل کی کتابوں کا تعارف پیش کیا جارہا ہے۔

بائبل کا  عہد عتیق   Old Testament    :

عہد عتیق یا عہد قدیم یاپرانا عہد نامہOld Testament کی کل کتابیں39 ہیں جن کے نام بمعہ مختصر تعارف نیزان کتابوں میں مرقوم تبلیغ اسلام کیلئے اہم حوالہ جات درج ذیل ہے:

1۔پیدائش:عربی میں سفرالخلیقہ اور انگریزی میں Genesis کہتے ہیں:اس کتاب میں تخلیق کائنات حضرت آدم، نوح ِ، ابراہیم، اسحا ق و یعقوب اور یوسف علیہم السلام تک کی تاریخ و حالات مرقوم ہیں:اس کا اختتام یوسف ؑ کی وفات پر ہوتاہے: یہ کتاب پچاس ابواب پر مشتمل ہے:

کتاب پیدائش کے اہم حوالہ جات:

[1] خدا کے بیٹے اور آدمی کی بیٹیوںکی شادیاں[6/12]

[2]حضرت نوح علیہ السلام شراب پی کے برہنہ ہوگئے [9/21]

 [3]ابراہیم علیہ السلام کے وارث کیلئے دعا (15/3) اسماعیل علیہ السلام کی بشارت [16/7] اسحاق علیہ السلام کی بشارت پر خوشی کا اظہار کرنے کی بجائے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں دعااوراس کی قبولیّت[17/1820]

[4]حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں نے اپنے باپ کوشراب پلاکر ان سے نسل قائم کی [19/30]

[5] یعقوب علیہ السلام نے باپ کی نظر کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دھوکے سے بڑے بھائی عیسوکی برکت ہتھیالی پتہ چلنے پر عیسو کا واویلا اور اسحاق علیہ السلام کی بے بسی کا اظہارباب27

[6]یعقوب علیہ السلام کی بیٹی دینہ کی عصمت دری کی گئی [34/2]

[7] یعقوب علیہ السلام کا خدا سے کشتی لڑنا اور خدا تعالیٰ کو پچھاڑکر انعام میں اسرائیل کا لقب حاصل کرنا   [32/2430]

[8]حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے روبن نے سوتیلی ماں سے مباشرت کی مگر یعقوبؑ کو پتہ چل جانے پر بھی حد لاگو نہ کی [35/22]

[9]یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہوداہ کا اپنی بہو سے کسبی سمجھ کر مباشرت کرنا اور حرامی اولاد سے دسویں نسل میں سے داؤد علیہ السلام کی پیدائش باب39

[10] شیلوہ کے آنے پر یہوداہ کی سلطنت کا خاتمہ [49/10]

 [2]خروج:عربی میں بھی خروج اور انگریزی میں Exodus  کہتے ہیں۔

  اس میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی پیدائش ان کی دعوتِ اسلام ، بنی اسرائیل کا مصر سے اخراج، فرعون کا غرق، کوہِ سینا پر اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کے واقعات وحکامات  مذکور ہیں: بنی اسرائیل کے صحرائے سینامیں خیمہ زن ہونے کے واقعات پر ختم ہوتی ہے:اس میں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے واقعات مذکور ہیں اسلئے اسے خروج کا نام دیا گیا:

اہم حوالہ جات:

[1] دس احکام جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر لکھ کر کوہِ سینا پر موسیٰ علیہ السلام کو عطافرمائے [20/118]

[2]حضرت ہارون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے زیورات سے بچھڑا بناکر اسے نجات دہندہ قرار دے کر اس پر قربانی چڑھانے کا حکم دیا [32/16]

[3] احبار : عربی میں بھی یہی نام ہے انگریزی میں Leviticus  کہتے ہیں:

 اس میںوہ احکامات درج ہیں جو موسی کو صحرائے سینا میں خیمہ زن ہونے کے دوران دئیے گئے:

[4] گنتی :  عربی میں سفرِ عدد کہتے ہیں اور انگریزی میں Numbers کہاجاتا ہے:

   اس میں بنی اسرائیل کی مردم شماری سے لے کر کنعان جانے تک کے احوال درج ہیں۔

[5] استثناء :  عربی میں  تثنیّہ اور انگریزی میں Deuteronomy کہتے ہیں:

 اس میں زیادہ تر آئندہ کے حالات اور پیشگوئیاں پائی جاتی ہیںاور یہ موسیٰ علیہ السلام کی وفات پر ختم ہوتی ہے:

اہم حوالہ جات:

[1]بائبل کی پیغمبرِاسلام کے بارے میں سب سے اہم اور واضح بشار ت جس میں مانندِموسٰی نبی کی آمد اوراس پر ایمان لانے کا حکم اور انکار پر سزا کی وعید درج ہے [18/151822]

[2]شریعت کے مظہرکوہِ شعیر،کوہ سینا اور کوہِ فاران کا ذکر:فاران کے حوالے سے پیغمبرِاسلام کے دس ہزار صحابہؓ کا ذکر:جسے لاتعداداور بعض نسخوں میں لاکھوں میں بدل دیا گیا ہے جبکہ انگریزی نسخہ میں ابھی تک دس ہزار مرقوم ہے[33/13]

نوٹ! مذکورہ بالا پانچ کتابوں کو تورات کہا جاتا ہے: تورات عبرانی لفظ ہے جس کے معنی ’’شریعت‘‘ اور ’’تعلیم‘‘کے ہیں:عام طور پر تمام عہد عتیق کیلئے بھی تورات ہی کا نام بولا جاتا ہے:یہ پانچوں کتابیں موسٰی علیہ السلام کی لکھی ہوئی سمجھی جاتی ہیں:حالانکہ ان میں سیدنا موسٰی کی وفات کا ذکر بھی ہے:

[6]یشوع :عربی میں یشع بن نون اور انگریزی میں Joshua کہا جاتاہے:

 یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خادم خاص تھے :یہ کتاب ان کی طرف منسوب ہے: جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی قیادت پر مامور ہوئے :انہوں بنی عمالقہ سے جہاد کیا اور فتحیاب ہوئے: اس کتاب میں ان کی وفات تک کے احوال مرقوم ہیں:

[7]قضاۃ: عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Judges کہتے ہے:

 اس میں حضرت یشع بن نون علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی حالتِ زار کی تفصیل بیان کی گئی ہے:جس میں ان کا کوئی بادشاہ نہیں تھا: ان کی بد اعمالیوں اور بدکاریوں اور بت پرستی کی بناء پر اللہ تعالیٰ ان پر کوئی اجنبی بادشاہ مسلّط فرما دیتے جو ان پر ظلم کرتا پھر جب وہ توبہ و فریاد کرتے تو ان کیلئے کوئی قائد بھیج دیا جاتا جو ان کو مصیبت سے نجات دلاتا:مگر وہ پھر بدکاریاں کرتے تو کوئی اور بادشاہ ان پر مسلّط کر دیا جاتا: اس زمانے میں ان کا جو بھی قائد ہوتا اسے قاضی کہتے تھے :اسلئے اس زمانے کو قاضیوں کا زمانہ کہا جاتاہے:اس حوالے سے اس کتاب کا نام قضاۃ رکھا گیا

[8]  رَوت: عربی میں راعوت اور انگریزی میں Ruth کہتے ہیں۔

 یہ ایک موابی خاتون تھی جو بنی اسرائیل میں شامل ہوئی جو حضرت داؤدعلیہ السلام کے دادا عوبید کی والدہ تھی:اس کے احوال مرقوم ہیں:

 [9]  سموئیل ا وّل: عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Samuel.1 کہاجاتاہے:

  یہ کتاب حضرت سموئیل علیہ السلام کی طرف منسوب ہے: جو حضرت کالب کے بعد نبی ہوئے تھے:اور یہ بنی اسرائیل کے آخری قاضی تھے: انہی کے عہد میں طالوت بنی اسرائیل کابادشاہ بنا تھا:آپ ؑ کی نبوّت ، طالوت (بائبل میں ساؤل کہا گیاہے)کی بادشاہی ، داؤدعلیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا اور طالوت کی وفات تک کے واقعات درج ہیں:

ٓٓاہم حوالہ جات:

[1]حضر ت داؤدعلیہ السلام اپنی جان بچا نے کیلئے پاگل بن کر اپنی داڑھی پر تھوک بہانے لگے[21/1214

[10]سموئیل ثانی  :    1-Samuel

اس میں طالوت کی وفات کے بعد داؤد علیہ السلام کی حکومت اور طالوت کے بیٹوں سے ان کی لڑائی کے احوال مذکور ہیں:

اہم حوالہ جات:

[1]  داؤدعلیہ السلام کا مجمع عام میں ننگا ناچ[6/20]

[2]حضرت  داؤدعلیہ السلام نے اپنے سپہ سالار اوریا حتّی کی بیوی کو نہاتے دیکھ کر گھر بلایا اور حاملہ ہونے پر اس کے خاوند کو قتل کروا کر اسے اپنے حرم میں شامل کر لیا جس سے سلیمان علیہ السلام پیداہوئے باب11

[3] داؤد علیہ السلام کا بیٹا امنون سوتیلی بہن پر عاشق ہو گیا اور اس کی عزت لوٹ کر دھکے دے کر گھر سے نکال دیا  باب13

[11]سلاطین اوّل: عربی میں سفر الملوک اوّل اور انگریزی میں 1- Kings کہتے  ہیں۔

   اس کتا ب میں داؤدعلیہ السلام کے بڑھاپے ، وفات ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی ، ان کا دورِ حکومت ان کی وفات اور اس کے بعد ان کے بیٹوں کے احوال ، شاہ اخی اب کی وفات کے علاوہ حضرت الیاس علیہ السلام جن کو بائبل میں ایلیا کہاگیا ہے کا ذکر بھی آیاہے: دونوں پیغمبروںکے معجزات جو قرآن نے بیان فرمائے ہیں بائبل ان سے خالی ہے:

اہم حوالہ جات:

[1]سلیمان علیہ السلام نے بڑھاپے میں بیویوں کے کہنے پربت کدے بنوائے اور بت پرستی شروع کردی باب11

[2]ایک نبی نے دوسرے نبی سے جھوٹ بول کر اس سے اللہ کے حکم کے خلاف کروا کر اللہ تعالیٰ کے قہر کا نشانہ بنا دیا [13/1130]

[3] کوؤں نے نبی کی پرورش کی جو اپنے ناپاک پنجوں میں گوشت اور روٹی لاتے رہی[17/16]

 [4]اللہ تعالیٰ نے دنیاوی بادشاہوں کی طرح مجلس مشاورت منعقد کی اور اخی اب کو دھوکے سے مروانے کے لئے نبیوں کے منہ جھوٹ بولنے والی روح ڈال کر اسے قتل کروایا[22/1922]

[12] سلاطین د وئم:2- Kings  

 اس میں اخی اب کی وفات سے صدقیاہ کی سلطنت تک کے احوال کے علاوہ حضرت الیاسؑ اورحضرت الیسع علیہم السلام کا ذکربھی ہے :

[13]تواریخ اوّل: عربی السفر الا وّل من اخبار الایّام اور انگریزی میں 1-Chroniclesکہتے ہیں:

آدم سے سلیمان علیہم السلام تک کا شجرہ نسب حضرت داؤد علیہ السلام تک اجمالی حالات اور ان کی حکومت کے تفصیل سے احوال مذکور ہیں:

[14]تواریخ د وئم یا ثانی۔ 2-Chronicles    

  اس میںحضرت سلیمان علیہ السلام کے دورحکومت اور ان کے بعد مختلف بادشاہوں کے احوال صدقیاہ تک اور بنو کد نضر(بخت نصر) کی یروشلم پر چڑھائی کر نے کا واقعہ بھی مذکورہے :

[15] عزراء : عربی میں بھی العزراء اور انگریزی میں Ezraکہا جاتاہے:

 غالب ہے کہ اس سے مراد حضرت عزیر علیہ السلام ہیں: اس کتاب میںخسرو] [Cyrusشاہ فارس (جسے تورات میں خورس کہا گیا ہے)کا بخت نصر کے حملے کے بعد یروشلم کو دوبارہ تعمیر کرنا ، پھر حضرت عزیر ؑ کا جلاوطن یہودیوں کو وطن واپس لانا ، ان کاگناہوں سے استغفار کرنا مذکور ہے:اسی ضمن میں حضرت زکریا ؑ اور حضرت حجی ؑ کا ذکر بھی ہے:

[16]نحمیاہ:  عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Nehemiah کہا جاتاہے:

  یہ شروع میں شاہ فارس کے خادم تھے۔ جب انہیں بنو کد نضر (بخت نصر) کے ہاتھوں بیت المقدّس کے اجڑ نے کی خبر ملی تو یہ بادشاہ سے اجازت لے کر یروشلم پہنچے اورحضرت عزیر علیہ السلام کے ساتھ مل کر اسے دوبارہ تعمیر کیا ۔ یہ واقعات تقریباً445؁قبل مسیح پیش آئے:نیز جن لوگوں نے یروشلم کی تعمیر میں حصّہ لیا ان کے نام بھی اس میں مذکور ہیں:

[17]آسترEsther ;

  یہ ایک یہودی خاتون تھی شاہ ایران خویرس کے حرم میں سے تھی : شاہ خویرس کے ایک وزیر جو یہودیوں کا دشمن تھا شاہی دربار سے یہودیوں کے قتل عام کاحکم نامہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ جسے آستر نے نہ صرف منسوخ کروایا بلکہ اس وزیر کیلئے عتاب کا باعث بنی یہودی اسے اپنا سب سے بڑا محسن مانتے ہیں:یہ کتابچہ انہی احوال پر مشتمل ہے:

[18]ایوب: عربی میں بھی ایوب ہی نام ہے اور انگریزی میںJob کہا جاتاہے:

  یہ کتاب حضر ت ایوب علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ اس میںایوب علیہ السلام پر آنے والے مصائب اور بیماری کے احوال مذکور ہیں۔یہ کتاب اپنی شاعری اورادبیّت کے اعتبار سے بہت بلند سمجھی جاتی ہے:

[19]زبور:عربی میں سفر مزامیراور انگریزی میں  Psalmsکہا جاتاہے:

  یہ اسی کتاب کی محرف شدہ شکل ہے جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے داؤد کو زبور عطا کی‘یہ زیادہ تر حمدو ثنا اور نصیحت کے نغمات پر مشتمل ہے:اس میں کل 150نغمات ہیںجنہیں بائبل میں مزمور کہا گیا ہے:  عیسائی اتوا رکی عبادت یا اپنی عیدوں کے مواقع پر ان ہی مزمور میں سے ساز کے ساتھ گاتے ہیں:

[20] امثال: عربی میں امثال سلیمان اور انگریزی میں Proverbs کہتے ہیں:

 یہ کتاب امثال اورحکمتوں کا مجموعہ ہے : نصرانی حضرات کا دعویٰ ہے کہ اسے سیدناسلیمان علیہ السلام نے مرتّب کیا تھا:

[21]واعظ: عربی میں کتاب الجامعہ اور انگریزی میں Ecclesiastesکہتے ہیں:

کہاجاتا ہے کہ حضرت داؤدعلیہ السلام کے بیٹے کا نام جامعہ یا واعظ تھا۔ اس میں اس کی نصیحتیں مذکور ہیں:

[22]غزالغزلات: عربی میں نشیدالانشاد اور انگریزی میں Songs of Solomon کہتے ہیں:

 یہ ان گیتوں کا مجموعہ ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہے تھے:

[23]یسعیاہ : عربی میں کتاب اشعیاء  اور انگریزی میں Isaiah کہا جاتا ہے:

 یہ حضرت اشعیاء بن آموص علیہ السلام کی طرف منسوب ہے: جو آٹھویں صدی قبل مسیح یہوداہ کے بادشاہ حزقیاہ کے مشیرِخاص تھے: اس کتاب میں الہامات کا ذکر ہے جو حضرت یسعیاہ علیہ السلام کو آئندہ حالات کے بارے میں ہوئے:

[24]یرمیاہ : عربی میں ارمیاۃ  اور انگریزی میں Jermiah کہتے ہیں۔

 یہ حضرت  ارمیاہ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے جو حضرت اشعیاہ ؑ کے خلیفہ تھے :جو یوسیاہ اورصدقیاہ کے زمانے میں بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے روکنے کے لئے معبوث ہوئے : مگر وہ باز نہ آئے تو آپ کو بذریعہ وحی بخت نصر کے عذاب کی خبر ہوئی جس نے یروشلم پر حملہ کر دیا اور یہ شہر نیست و نابود ہو گیا:اس کتاب میں یہی واقعات مذکور ہیں:

اہم حوالہ جات:

[1]بنی اسرائیل کی دو سلطنتوں ’’اسرائیل ‘‘اور ’’یہوداہ‘‘ عورتوں سے تشبیہ دیکر انتہائی فحش زبان میں ان کی بدکرداری بیان کی گئی ہے: اگر جاننا چاہیں تو اس کتاب کے چند پہلے ابواب کامطالعہ فرما لیں

[2]تحریف بائبل کا اعتراف[36/32] اور[50/6]

[25]  نوحہ :عربی میں مراثی ارمیاہ اور انگریزی میں Lamentations کہا جاتا ہے:

بخت نصر کے حملے کے بعد یروشلم کی تباہی اور بنی اسرائیل پر سخت عذاب آنے پر کسی نے مرثیے اور نوحے لکھے ہیں جسے نصاریٰ نے حضرت ارمیاہ علیہ السلام  کی طرف منسوب کیاہے:

[26]حزقی ایل : عربی میں حزقیال اور انگریزی میں Ezekiel کہا جاتاہے:                                                    

یہ حضرت حزقی ایل علیہ السلام کی طرف منسوب ہے: یہ کتاب زیادہ تر پیشگوئیوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے:

اہم حوالہ جات:

[1]اللہ کے نبی حضرت حزقی ایل علیہ السلام کو انسانی نجاست بطور ترکاری استعمال کرکے روٹی کھانے کا حکم[4/12]

 [2]انتہائی فحش تحریر جسے کوئی پادری اپنی بیٹی یا بہن کی زبانی نہیں سن سکتا باب 16اور  باب23

[27] دانی ایل : عربی میں دانیال اور انگریز ی میں Deniel کہاجاتاہے۔

 یہ کتاب حضرت دانیال علیہ السلام کی طرف منسوب ہے: شروع میں بابل کے بادشاہوں کے خواب جو ان کے مستقبل کے متعلق ہیں مذکور ہیں :پھر خود دانیال ؑ کے خواب بھی ہیں جو بنی اسرائیل کے مستقبل کے متعلق ہیں:اور ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت بھی ہے:

[28]ہوسیع :  عربی میں  ہوشع اور انگریزی میں Hosea کہتے ہیں:

تورات کی روایت کے مطابق یہ ہوسیع بن بیری نبی ہیںجو نویں صدی قبل مسیح ہوئے تھے : اس زمانے میں یہ کلام ان پر نازل ہوا جس میں زیادہ تر بنی اسرائیل کی بداعمالیوں پر تنبیہ و توبہ کی ترغیب اور نیکی کے اجر کا ذکر ہے:جو تمثیلات اور رموز میں بیان کئے گئے ہیں:

[29]یوایل : عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Joelکہا جاتاہے:

  یہ بھی بقول تورات نبی تھے:یہ کلام ان پر نازل ہوا جس میںروزہ رکھنے اور بداعمالیوں سے باز آنے کے اچھے نتائج بتائے گئے:

[30]عاموس : عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Amosکہا جاتاہے:

 یہ بھی نبی تھے :ان کے کلام میں بنی اسرائیل کو بداعمالیوں پر سزا کی وعید ہے اس میں شاہ اسور کے حملہ کی پیشگوئی بھی کی گئی ہے:

[31]عبدیاہ: عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میںObadiah کہتے ہیں:

 یہ 21آیات پر مشتمل مختصر ترین صحیفہ ہے ۔جس میں عبدیاہ کا خواب مذکور ہے:

[32]یوناہ : عربی میں یونان اور انگریزی میں Jonah کہاجاتاہے:

  یہ حضرت یونس علیہ السلام کا صحیفہ ہے:

[33]میکاہ : عربی میں میخاہ  اور انگریزی میں Micah کہتے ہیں:

  اس میں بنی اسرائیل کی بداعمالیوں پر دھمکایا گیا ہے اور اور سزا کی وعید سنائی گئی ہے:

[34]ناحوم :انگریزی میں Nahum کہاجاتاہے:

    یہ بھی نبی تھے ۔اس کتاب میں ان کا خواب درج ہے جس میں نینوا کی تباہی کی پیش گوئی ہے:

[35]حبقوق:  عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میںHabakkukکہتے ہیں:یہ بھی بقول تورات نبی تھے ان کی اس کتاب میں ان کا ایک خواب مذکور ہے جس میں بنی اسرائیل کی کج ادائیوں پر توبیخاور حملہ بنو کد نضر کی پیش گوئی کی گئی ہے:

[36]صفنیاہ: عربی میں صفونیاہ اور انگریزی میں Zephaniahکہتے ہیں:

  یہ بھی نبی تھے اس کتا ب میں بنی اسرائیل کے بنو کد نضر (بخت نصر) کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے:

[37]حجی: عربی میں بھی یہی نام ہے اور انگریزی میں Haggaiکہا جاتاہے:

یہ کتا ب حضرت حجیؑ کی طرف منسوب ہے: اس میں یروشلم کی دوبارہ تعمیر پر قوم کو ابھارا گیاہے:

[38]زکریا: Zechariah

یہ بھی نبی ہیں مگر یہ وہ زکریا نہیں جن کاذکر قرآن میں آیاہے :اس کتاب میں زیادہ تر خواب مذکور ہیں۔جن میں بنی اسرائیل کے مستقبل اور عیسٰی علیہ السلام کی پیش گوئی کی گئی ہے:

[39]ملاکی: عربی میں کتاب ملاخیا،اور انگریزی میں Malachiکہاجاتاہے:

اہم حوالہ:یہ بھی نبی تھے جن کا مختصر صحیفہ ہے جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے پیغمبرِاسلام کو عہد کا رسول قرار دے کر وہ ناگہاںاپنی ہیکل میں آموجود ہوگا کے الفاظ میں فتح مکہ کی بشارت دی ہے[3/12]

بائبل کاعہد جدید یا نیا عہدنامہew Testament  N   

  عہد جدید میں کل [27]کتابیں ہیں :جن میں پہلی چار انجیلیں :انجیل متّیٰ ، مرقس ،لوقااور یوحنّا کے ناموں سے منسوب ہیں: یعنی چار اشخاص نے اپنی اپنی یاداشت اور علم کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات و واقعات قلمبند کئے ہیں جن کو اناجیل کا نام دیا گیاہے: ان کے بعد مختلف اشخاص کے تبلیغی خطوط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

[1]انجیل متّی:The Gospel of Metthew

یہ انجیل حضرت عیسیٰ روح اللہ کے حواری حضرت متّیٰ کی طرف منسوب ہے: مگر اندرونی شہادتوں کی بناءپر انجیل ان کی لکھی ہوئی نہیں ہے: کیونکہ اس میں ان کے لئے غائب کا صیغہ استعمال ہوا ہے : بہرحال اس کی تصنیف کا زمانہ 60سے 65عیسوی بتایا جاتاہے: یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے عروج آسمانی کے تیس سے پنتیس سال بعد لکھی گئی :عیسائی علماء کے نزدیک یہ انجیل سب سے زیادہ معتبر سمجھی جاتی ہے ایک تو یہ حواری کے نام سے منسوب ہے دوسرے اس میںحضرت عیسٰی علیہ السلام کا پہاڑی واعظ درج ہے جو کسی دوسری انجیل میںنہیں  ہے:یہ سیّد نا یسوع علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سے شروع ہو تی ہے اور صلیب دیئے جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے تک  حواریوں کو نظر آکر کچھ ہدایات دینے کے بعد آسمان پر تشریف لے جانے کے واقعہ پر ہوتی ہے :

اہم حوالہ جات:

[1]  [2/19]میں ہیرودیس بادشاہ کے مرجانے کا ذکر ہے مگر [14/1]میں دوبارہ زندہ دکھایا گیاہے۔

[2]یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیاہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوراکرنے آیاہوں[5/17]

[3]جھوٹے نبیوں سے خبردار رہنے اور سچے نبی کی پہچان [7/15:20]

[4]حواریوں کو صرف بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانے کا حکم[10/6]

[5]یہ نہ سمجھو کہ میں صلح کروانے آیا ہوں ۔صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیاہوں[10/34]

[6]میں بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا[15/24]

[7]اسی طرح اوّل آخر ہو جائیں گے اور آخر اوّل ہوجائیں گے کی تمثیل[29/115]

[8]جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا[21/3344]

[9] اے خدا ۔ اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑدیا [27/45]

[2]انجیل مرقس The Gospel of Mark

یہ انجیل مرقس کے نام سے منسوب ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواری نہیں ہیں بلکہ پولس کے ہمسفر بتائے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ پولس کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کی انجیل کی تصنیف کا زمانہ بھی 60سے65عیسوی بتایا جاتاہے ۔ یہ انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام کےآغاز تبلیغ سے آپؑ کے عروج آسمانی پر ختم ہوتی ہے اور [16]ابواب پر مشتمل ہے۔

اہم حوالہ جات:

[1]یوحنّا بپتسمہ دینے والے (حضرت یحیٰ علیہ السلام) کی بشارت ۔ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے زور آور ہے میں اس کی جوتیاں اٹھانے کے لائق نہیں[1/7]

[2]قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے[10/18]

[3] اپنی دہنی یا بائیں طرف کسی کو بٹھانا میراکام نہیں[10/40]

[4] جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا والی تمثیل[12/1:12]

[5]حضرت عیسٰی علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ سے موت کے ٹل جانے کیلئے دعا[14/33:36]

[6]پطر س حواری کا حضرت عیسٰی علیہ السلام پر لعنت کرنا[14/71]

[7]حضرت عیسٰی علیہ السلام کا دوبارہ زندہ ہونے کے بعد اپنے حواریوں کو ایمان لانے والوں کی نشانیاں بتانا:جو سب جھوٹ ثابت ہوئیں[16/17:19]

[3]انجیل لوقا:The Gospel of Luke

لوقا اپنے زمانے میں ایک طبیب تھالیکن مذہب کے معاملے میں پولس کا شاگرد تھا: انجیل کے علاوہ ’’رسولوں کے اعمال ‘‘ کے نام سے اس کی ایک اور کتاب عہد جدید کا حصّہ ہے :اس انجیل کی تصنیف کا زمانہ بھی 60سے65عیسوی بتایا جاتاہے: یہ انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نسب نامے کے بعدآپ ؑکی پیدائش کی بشارت کے علاوہ حضرت یوحنّا اصطباغی یعنی یوحنّا بپتسمہ دینے والے (حضرت یحیٰ علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت سے شروع ہوتی ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے عروجِ آسمانی پر ختم ہوتی ہے : اس کے [24]ابواب ہیں۔

اہم حوالہ جات:

[1]میں زمین میں آگ بھڑکانے آیا ہوں اگر لگ چکی ہوتی تو میں کیا ہی خوش ہوتا[12/49]

[2] حضرت عیسٰی علیہ السلام کا خود کو اللہ کا نبی قراردینا[13/33

[3]اناجیل کے مطابق حواریوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ تھا[17/5:6]

[4]انجیل یوحنّا : The Gospel of John

عہد جدید میں یوحنّا نام کے تین اشخاص قابل ذکر ہیں: جیساکہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت یحیٰ علیہ السلام کو بھی یوحنّا اصطباغی یا یوحنّا بپتسمہ دینے والا کہا گیا ہے: ان کے علاوہ یوحنّا بن زبدی حضرت عیسٰی علیہ السلا م کے حواری تھے :انجیل لکھنے والا یوحنّا ایک تیسری شخصیّت ہے: جسے اس کی اپنی تحریر کے مطابق یوحنّا بزرگ کے نام سے یا د کیا جاتاہے: اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں کہ وہ کون تھا: کس علاقے کا رہنے والا تھا؟کس زمانے میں ایمان لایا؟ وغیرہ : اس کے باوجود عہد جدید میں تین عام خطوط اور عہد جدید کی آخری کتاب ’’مکاشفہ‘‘بھی اسی کی طرف منسوب ہے :

اس انجیل کی تصنیف کا زمانہ [90]سے [95]عیسوی بتایا جاتاہے: یعنی سیّدنا عیسٰی علیہ السلام کے عروج آسمانی کے تقریباً  چالیس سال بعد :یہ انجیل اپنی تعلیمات کے اعتبار سے دوسری اناجیل سے یکسر مختلف ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیّت پر بہت زیادہ زور دیتی ہے : بہرحال اپنے مصنّف کے لا پتہ ہونے اور اپنی تعلیمات کے انفرادیّت کی بنا پر یہ انجیل زیادہ معتبر نہیں سمجھی جاتی :یہ انجیل [21]ابواب پر مشتمل ہے: یہ انجیل یسُو ع علیہ السلام کے تبلیغ کے آغاز سے شروع ہوتی ہے اور آپؑ کے عروجِ آسمانی پر ختم ہوتی ہے:حلول تجّسم کا تصور اسی انجیل میں ملتاہے:

اہم حوالہ جات:

[1] عیسٰی علیہ السلام کی آمد سے قبل اہل کتاب کو تورات کی پیشگوئیوں کے مطابق تین نبیوں کاانتظارتھا [1/1926]

[2] میں اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتا ۔ جیسا سنتاہوں عدالت کرتا ہوں [5/31]

[3] حضرت عیسٰی علیہ السلام کے آدم زاد ہونے کا اقرار[5/27]

[4]جتنے مجھ سے پہلے آئے وہ چور اور ڈاکو ہیں [10/7]

[5] نیا مدد گار بھیجنے کا وعدہ جو ابد تک ساتھ رہے[14/1516]

[6]اپنے نامکمل مشن کی خبر اور آنے والے مددگار کے مشن مکمل کرنے کی بشارت[14/25:26]

[7] اب میں تم سے بہت سی باتیں نہیں کرونگا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں[14/30]

[8]جب وہ مدد گار آئے گا تو میرے بارے میں گواہی دیگا[15/26]

[9]اگر میں نہ جائوں گا تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر میں جائوں گا تو اسے تمہار ے پاس بھیج دونگا اور نئے مدد گار کی آمد کو اپنی موجودگی سے زیادہ فائدہ مند قرار دیا[16/7

(جاری ہے)

کتابُ الحدودمن فقہ السنۃ لسید السابق شراب کیا ہے ؟ (قسط8)

شراب کی خاص اقسام :

بازار میں مختلف ناموں کی شرابیں دستیاب ہیں جنہیں ان میں پائی جانے والی الکحل کی مقدار کے مطابق کچھ خاص اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

جیسے برانڈی، وسکی، روم، لیکیر وغیرہا میں الکحل کی نسبت 40 فیصد سے 60 فیصد تک ہوتی ہے اور جن ، ہولاندی اور جنیفا میں یہ مقدار 33 فیصد سے 40 فیصد تک ہوتی ہے ۔ اس سے نیچے کچھ اور اصناف کی شرابیں ہیں جیسے بورت ، شری اور مادیرا میں الکحل کی مقدار 15فیصد سے 25 فیصد تک ہے ، ذیل میں ہلکے درجے کی شرابیں ہیں جیسے : کلاوت، ہوک، شمبائن، برجاندی جس میں الکحل کی مقدار 10 فیصد سے 16 فیصد تک پائی جاتی ہے اور بیرہ کی کچھ ہلکی شرابیں جن میں الکحل 2 فیصد سے 9 فیصد تک پایا جاتاہے جیسے : أیل، بورتر،استوت میونخ وغیرہ اور اسی طرح کچھ اور جو اسی آخری نسبت پر پائی جاتی ہیں جیسے : بوظہ، قصب المتخمر وغیرہما

شربت اور نبیذ کا نشہ آور ہونے سے پہلے استعمال کرنا :

شربت اور نبیذ کا نشہ آور ہونے سے پہلے استعمال کرنا جائز ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے امام ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتےہیں : مجھے پتہ چلا کہ نبی کریم روزے دار ہیں تو میں نے ان کے افطار کا انتظار کیا اور ان کیلئے نبیذ لیکر آیا جو میں نے کدو کے برتن میں بنائی تھی پھر جب ان کے پاس لیکر آیا تو وہ جوش ماررہی تھی تو آپ  نے فرمایا ’’اسے دیوار پر دے مارو، بے شک یہ اس کے پینے کی شے ہے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ۔‘‘

اور امام احمدسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عصیر(شربت) کی بابت روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’ اسے جوش مارنے سے پہلے پی لو ، ان سے پوچھا گیا یہ کتنے ایام میں جوش کی حالت میں آجاتی ہے تو آپ   نے فرمایا : تین دن میں ۔ اور امام مسلم وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم  کے لیے کشمش کا شربت تیار کرتے اور آپ  اسے آج ، کل اور پرسو کی شام تک پیتے پھر اس کے بعد خادم کو پینے یا پھینکنے کا حکم دیتے۔

امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خادم کے پینے سے مراد یہ ہے کہ وہ اسے خراب ہونے سے پہلے استعمال کر لیتے یہ گمان کرتے ہوئے کہ تین دن سے زیادہ نہ ہوجائیں۔

امام مسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ رسول اللہ کیلئے دن میں نبیذ تیار کرتی اور جب شام ہوتی تو آپ عشائیہ تناول فرماتے اور اسے نوش کرتے اور جب کچھ اس میں باقی رہ جاتی تو میں اسے پھینک دیتی یا پھر میں آپ کیلئے رات میں نبیذ تیار کرتی اور جب صبح ہوتی تو آپ ناشتہ کرتے اور اس میں اسے نوش فرماتے آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں برتنوں کو صبح وشام دھویا جاتا تھا۔ ‘‘

اور یہ حدیث عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی نفی نہیں کررہی کہ جس میں گزرا ہے کہ وہ ایک دن پیتے پھر دوسرے دن اور پھر تیسرے دن کی شام تک نوش کرتے کیونکہ تین دن زیادتی پر مشتمل ہیں نہ کی اس کی نفی ہو رہی ہو ۔اور تمام صحیح میں ہیں اور رسول اللہ کی سیرت مطہرہ میں یہ بات بڑی معروف ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں شراب کبھی نہیں پی بعثت سے قبل اور نہ ہی بعد میںہاں جہاں تک نبیذ کا تعلق ہے جسے آپ نے نوش فرمایا ہے تو وہ بعد میں نشہ میں مبتلا نہیں کرتی تھی جیسا کہ ان( سابقہ) احادیث میں واضح ہے ۔

جب شراب سرکہ میں تبدیل ہوجائے:

بدایۃ المجتہد میں کہاگیا ہے تمام علماء اس بات پرمتفق ہیں کہ شراب اگر بذات خود سرکہ میں تبدیل ہوجائے تو وہ جائز ہے لیکن اگر اسے قصداً جان بوجھ کر سرکہ میں تبدیل کیا جائے تو اس میں تین اقوال ہیں ۔

 ۱۔ تحریم            ۲۔ مکروہ             ۳۔ مباح

اور اس اختلاف کا سبب ایک حدیث پر قیاس کا مختلف فیہ ہونا ہے۔

اور یہ اختلاف اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے میں ہے جسے امام ابو داؤد رحمہ اللہ نےسیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے اس شراب کا حکم دریافت کیا جو ورثہ میں یتیموں کے حصے آئی ہو؟ تو آپ  نے فرمایا ’’ اسے پھینک دو ‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کیا ہم اس کو سرکہ میں تبدیل نہ کر دیں تو آپ نے فرمایا’’ نہیں‘‘۔

تو اب جس نے اس منع سے سد الذریعہ مراد لی تو اس نے اس عمل کو مکروہ گردانا اور جس نے اس(نہی) انکار کو بغیر کسی علت کے تسلیم کیا تو اس نے اسے حرام جانا اور (تیسری جماعت) نے اس کی تحریم کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ کسی شے سے بابت نہی( انکار) اس کی اصل منع کردہ شے کی طرف نہیں لوٹتی اور اس طرح قیاس اس ( شراب ) کو سرکہ بنانے سے متعلق تحریم پرمعارض ہے اور شریعت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ احکام مختلف فیہ ہیں جو کہ اپنی ذات کی بناء پر مختلف فیہ ہیں اور جبکہ شراب کی ذات سرکہ کی ذات سے مختلف ہے۔ اور سرکہ اجماعاً حلال ہے ، پس جبکہ شراب سرکہ میں بدل جائے تو وہ حلال ہے ، چاہے وہ کسی بھی طریقے سے تبدیل ہوئی ہو۔ (جاری ہے)

گناہوں کا کفارہ ممکن مگر کیسے؟؟؟

انسان خطا کا پتلا ہے۔اس سے دانسہ لغزشیں ہوتی رہتی ہیں یقینا یہ فطرتی امر ہے  یہ اتنی عیب کی با ت نہیں جتنی خطا ہوجانے کے بعد اس غلطی کا احساس تک نہ ہونا اور اسکی تلافی نہ کرنا یا معافی نہ مانگنا یہی بڑی معیوب ہے اللہ تعالی کو اپنے وہی بندے پسند ہیں جو غلطی ہوجانے کے بعد معافی کے خواستگار ہوتے ہیں سب سےبڑی غلطی شرعی معاملات میں کوتاہی کرنا ہے جسے گناہ کہا جاتا ہے ۔یہ گناہ انسان کے لیے نا صرف معاشی تنگیوں اور بے شمار مصائب ومشکلات کا باعث بنتے ہیںبلکہ اخروی فوز وفلاح اور جنت کے حصول میں بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔لہٰذا مسلمان کے لیے ہر دو زندگیوں میں فلاح ، راحت و کامیابی اور کامرانی پانے کے لیے گناہوں سے حتی الوسعت (طاقت وقدرت )پاک ہونا ضروری ہے جسکا پہلا ذریعہ تو اللہ تعالی سے اپنے گناہوں سے پکے وسچے دل سے اور خلوص سے معافی مانگتے رہنا ہے،اور دوسرا ذریعہ ان اعمال کو اپنانا ہے جو گناہوں کی باعث بنتے ہیں ۔

آج کے اس موضوع میں ہم احادیث صحیحہ سے اخذ کر کے ان اعمال کا تذکرہ کریں گے جن کے ذریعے گناہوں کا کفارہ ہوتاہے ۔ان اعمال کو ۔کفارات۔اس  لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو چھپالیتے ہیں ،اور ان پر پڑدہ ڈال دیتے ہیں (لسان العرب5/148)

جیسے قسم توڑنےکا کفارہ ،ظہار کا کفارہ اور قتل خطاوغیرہ کا کفارہ ادا کرنے پر اس خطا کی تلافی ہو جاتی ہےاسی طرح ان اعمال کے اہتمام سے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے گویا کفارہ گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (النھایۃ فی غریب ا لحدیث والاثر 4/189۔مفردات الفاظ القرآن 717)

1۔توحیدکے ذریعے گناہوں کا کفارہ

  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ۔

 يا ابن آدم إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان فيك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك، ولا أبالي، يا ابن آدم إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئا لأتيتك بقرابها مغفرة) (سنن الترمذی  ص۔511/2/4۔3540)

کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں :اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گااور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا میں تب تک تجھے بخشتا رہوں گا ۔خواہ تجھ میں جوبھی برائی ہو ،مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے مغفرت مانگےتو میںمعاف کر دوں گا،اور کوئی مجھے پرواہ نہیں ہے ۔اے ابن آدم! اگرزمین بھر کر بھی گناہ لے کر میرے پاس آجائے لیکن مجھ سے ایسی حالت میں ملے کہ تونے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تجھے زمین بھر کر مغفرت سے نوازوں گا۔

2۔نیکیاںگناہوںکومٹادیتی ہیں

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا

اتق الله حيثما كنت، وأتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن

اور تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو،برائی کے بعد نیکی کرو،وہ اسے مٹادیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔(سنن الترمذی:1987)

3۔اچھی طرح وضو کرنے سے گناہوں کا کفارہ

 سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا

من توضأ فأحسن الوضوء خرجت خطاياه من جسده، حتى تخرج من تحت أظفاره

جس شخص نے وضو کیا،اور اچھی طرح وضو کیا، اس کے جسم سے اسکے گناہ خارج ہوجاتے ہیں ،یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔(صحیح مسلم:245)

4۔کامل وضو کے بعدفرض نماز پڑھنے سے گناہوں کا کفارہ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا

لَا يَتَوَضَّأُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ فَيُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي تَلِيهَا

جو بھی مسلمان آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس نماز اور اگلی نماز کے درمیان میں ہونے والے اس گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے(صحیح البخاری 160،صحیح مسلم 227)

5۔نماز کے لیے جانا گناہوں کی معافی،بلندئ درجات اور اجرو ثواب کا ذریعہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا

صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسة وعشرين ضعفا، وذلك أنه إذا توضأ، فأحسن الوضوء، ثم خرج إلى المسجد، لا يخرجه إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة

آدمی کی باجماعت نمازکو اس کے گھر یا بازار میں نماز پڑھنے پر پچیس گنا فضیلت حاصل ہے اور یہ فضیلت تب حاصل ہوتی ہے جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر مسجد کی جانب روانہ ہوجائے اسے صرف نماز (کےارادے)نے ہی (گھر سے)نکالا ہو تو وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اسکے بدلے میں اسکا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ ختم کردیا جاتا ہے ۔

6۔نماز پنجگانہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة كفارة لما بينهن ما لم تغشاه الكبائر

پانچ نمازیں اور ایک جمعے سے دوسرا جمعہ؛ ان کے دورانی عرصے میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں،جب تک کہ ان میں کبیرہ گناہوں کی ملاوٹ نہ ہو ۔

7۔فرض نماز کے بعد اذکار کے اہتمام سے گناہ کا خاتمہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

من سبح الله في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وحمد الله ثلاثا وثلاثين، وكبر الله ثلاثا وثلاثين، فتلك تسعة وتسعون، وقال: تمام المائة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير غفرت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر ” (صحیح مسلم597)

جو شخص ہر نماز کے بعد 33مرتبہ سبحان اللہ33مرتبہ الحمدللہ ،33مرتبہ اللہ اکبر پڑھتا ہے جو کہ کل ننانوے بن جاتے ہیں اور پھر سو کا عدد پور ا کرنے کے لیے ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیءقدیر پڑھ لیتا ہے تو اسکے گناہوں کو بخش دیا جاتاہے خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔

8۔نوافل کی ادائیگی سے گناہ معاف ہوتے ہیں

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ر سول اللہ

نے فرمایا

عليك بكثرة السجود؛ فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطيئة

اللہ کے لیے کثرت سے سجدے کرنا خود پر لازم کر لوکیونکہ تم جو بھی اللہ کوسجدے کرتے ہو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور ایک گناہ ختم کردیتا ہے ۔

9۔صلاۃ التوبہ کی ادائیگی سے گناہوں کو معاف کردیاجاتاہے۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا:

ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين، ثم يستغفر الله إلا غفر الله له

جس بندے سے بھی گناہ سرزد ہوجاتا ہے پھر وہ وضو کرتا ہے اور کھڑےہوکر دو رکعت نماز پڑھتا ہے پھر اللہ تعالی سے مغفرت مانگتا ہے تو اس کو بخش دیا جاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ

اور وہ لوگ کہ جب ان سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے (یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے)وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھے ہیںتو فورا انہیں اللہ کی یاد آجاتی ہے پھر وہ اپنی گناہوں کی مغفرت مانگتے ہیں،کیونکہ اللہ کے سوااورکون ہے جو معاف کر سکتا ہے۔،

10۔ماہ ر مضان کے صیام وقیام سے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح البخاری:38)

جس شخص نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئےجاتے ہیں۔

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح البخاری1901)

اور جس نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے لیلۃالقدر کاقیام کیاتو اس کے بھی گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتاہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (صحیح البخاری37)

جس شخص نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا قیام کیا،اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

11۔قیام اللیل سے درجات بلنداور گناہ معاف ہوجاتےہیں ۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا:

عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَى اللهِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الإِثْمِ، وَتَكْفِيرٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ عَنِ الجَسَدِ (سنن الترمذي 3549)

قیام اللیل (نماز تہجد)کا التزام کیا کرو،کیونکہ یہ تم سے پہلے لوگوںکی پختہ عادت تھی اور بلاشبہ قیام اللیل،اللہ کی قربت پانے کا ذریعہ،گناہوںسے روکنے کاباعث برایئوں کاکفارہ اور جسم سے بیماری کے خاتمہ کا سبب ہے

12۔نماز جمعہ خطاؤں کے کفارے اور گناہوںکی معافی کی موجب۔

نماز جمعہ کے آداب کو ملحوظ رکھنا گناہوںکی مغفرت کا ذریعہ ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا

مَنِ اغْتَسَلَ؟ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ، ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ

جس نے غسل کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیااور جس قدر ہوسکی نمازپڑھی ،پھر خطبہ جمعہ سے فارغ ہونے تک خاموشی اختیار کی ،پھرامام کے ساتھ نماز ادا کی تو اسکے اس جمعہ سے لے کر اگلے جمع تک کے گناہ اور مزید تین دن کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔(صحيح مسلم:857)

13۔مصائب پر صبر کرنے سے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی۔

 سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :

مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحیح البخاری 5641)

مسلمانوں پرجو بھی پریشانی اور مصیبت رنج وغم اور تکلیف وملال آتاہے،یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چھبتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میںبھی گناہوںکا کفارہ فرمادیتا ہے۔

14۔صدقہ ،گناہوں کی بخشش کاباعث۔

سیدنا معاذ t بیان کرتے ہیںرسول اللہ نے فرمایا

الصَّدَقَةَ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ

صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتی ہے ۔(سنن ا لتر مذی )

15۔حج مبرور سے جنت کا حصول اور عمرے سے گناہوںکا کفارہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا

من حج لله فلم يرفث، ولم يفسق، رجع كيوم ولدته أمه (صحیح البخاری 1521)

جوشخص اللہ کی رضا کے لیے حج کرے پھرنہ ہی گناہ اور فسق کا کوئی کام کرےتو اس طرح (گناہ سے پاک ہوکر)واپس آتاہے جیسے وہ اس دن( گناہوں سے پاک )تھاجب اسکی ماں نے اسے جنم دیاتھا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا:

العمرة إلى العمرة، كفارة لما بينهما، والحج المبرور، ليس له جزاء، إلا الجنة(سنن ابن ماجة2888)

ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے دوران ہونے والے گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کی جزاءجنت کے سوا کچھ نہیںہے۔

16۔ذکر الٰہی کی مجالس گناہوں کی بخشش کاباعث بنتی ہیں۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’جو لوگ بھی جمع ہوکراللہ کا ذکر کرتے ہیںاور ان کی اس سے غرض صرف رضاۓ الٰہی کا حصول ہو تو انہیں آسمان سے ایک آوازلگانے والا (فرشتہ)آواز لگاتا ہے کہ تم اس حالت میں اٹھوگے کہ تمہیں بخش دیا گیا ہوگا اور تمہاری برائیوں کونیکیوںمیں تبدیل کردیا گیا ہوگا۔‘‘

17۔کھانے اور لباس کی دعا سے گناہوںکی مغفرت۔

سیدنا معاذبن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ

 رسول اللہ نے فرمایا:جوشخص کھاناکھائےاوریہ دعا پڑھے

الحمد لله الذي أطعمني هذا، ورزقنيه من غير حول مني، ولا قوة، غفر له ما تقدم من ذنبه

تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایاتو اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

من لبس ثوبا فقال: الحمد لله الذي كساني هذا الثوب ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة

’’تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ لباس پہنایااور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایا

تو اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔

18۔آمین بالجہر  سے گناہوں کی مغفرت

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا

وَإِذَا قَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}  فَقُولُوا: آمِينَ فَإِنَّهُ إِذَا وَافَقَ قَوْلُ أَهْلِ السَّمَاءِ قَوْلَ أَهْلِ الْأَرْضِ غُفِرَ لِلْعَبْدِ مَا مَضَى مِنْ ذَنْبِهِ”(صحيح مسلم 410)

جب امام(غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )پڑھتا ہے تو تم آمین کہا کرو، کیونکہ یقیناجسکا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے مواقفت اختیار کر گیا اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

19 ۔ایک کلمے سے گناہ معاف!

سیدنازید tسے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے

أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ثَلَاثًا، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ، وَإِنْ كَانَ فَارًّا مِنَ الزَّحْفِ

 (میںاس اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوںجس کے سواءکوئی معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہنے اور تھامے رکھنے والی ذات ہے ،اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں) تین مرتبہ پڑھااسکو بخش دیا جاتاہے،خواہ وہ میدان جہاد سے بھاگاہو۔(مستدرک حاکم1884)

20۔مسلمان بھائی سے مصافحہ کرناگناہوں کی مغفرت کا ذریعہ۔

سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی نے فرمایا:جب بھی دو مسلمان شخص ملاقات کرتے ہیںاور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے پہلےانہیںبخش دیاجاتاہے۔

21۔ناراضگی ختم کرنے کے ذریعے سے گناہوں کا کفارہ۔

سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُصَارِمَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَإِنَّهُمَا مَا صَارَمَا فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَإِنَّهُمَا نَاكِبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا دَامَا عَلَى صِرَامِهِمَا، وَإِنَّ أَوَّلَهُمَا فَيْئًا يَكُونُ كَفَّارَةً لَهُ سَبْقُهُ بِالْفَيْءِ، وَإِنْ هُمَا مَاتَا عَلَى صِرَامِهِمَا لَمْ يَدْخُلَا الْجَنَّةَ جَمِيعًا(أدب المفرد:407)

’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ تک بول چال کرنا ترک کر دے، اس لیےکہ جب تک وہ ناراض رہتے ہیںتب وہ حق سے برگشتہ رہتے ہیں،ا ن دونوں میںسے جس نے پہلے ناراضگی کو ختم کیا اس کایہ عمل گزشتہ گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے اور اگر ان دونوںکواسی حالت میں موت آجائےتو یہ دونوں جنت میں داخل نہیںہوسکیں گے۔‘‘

22۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت پانا ہرگناہ کے کفارےکا موجب

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:

الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللهِ يُكَفِّرُ كُلَّ شَيْءٍ، إِلَّا الدَّيْنَ

’’اللہ کی راہ شہادت پاناقرض کے سوا ہر چیز کا کفارہ بن جاتا ہے ۔(صحیح مسلم 1886)

23۔توبہ تمام گناہوں پر معافی کاقلم پھیر دیتی ہے۔

سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

التائب من الذنب، كمن لا ذنب له

گناہ سےتوبہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہ کیاہو۔(سنن ابن ماجہ4250)

24۔کفارہ مجلس کی دعا پڑھنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایاجو شخص کسی مجلس میںبیٹھے اور اس میں اس سے بہت سی فضول باتیں ہوجائیںتو وہ اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے تو اس مجلس میںسرزد ہونے والی تمام کوتاہیاں بخش دی جائیںگی

سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك (سنن الترمذی 3433)

اے اللہ تو پاک ہے اپنی تعریف سمیت میںگواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،میںتجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری  طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔

25۔درود پڑھنے سے گناہ معاف ،نیکیوں کا حصول اور بلندی ٔدرجات ۔

سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ایک روز بہت خوش دکھائی دے رہے تھے اور آپ کہ چہرے مبارک سے خوشی کے آثار جھلک رہے تھے، لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آج آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں اور چہرے سے بھی خوشی کے آثار واضح ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایاجی ہاں، آج میرے پاس میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (یعنی فر شتہ )آیا اور اس نے کہاآپ کی امت میں سے جو بھی شخص آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالی اس کے بدلے میںاسکی دس نیکیاں لکھ دے گا،اس کے دس گناہ مٹادے گا اور اس کے دس درجات بلند فرمادے گا۔‘‘(مسند احمد 16350)

ربّ تعالیٰ رحمان کا ادب و احترام کیجئے

فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ أَنْدَادًا يُّحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے) ۔(سورۃ البقرۃ:165

کسی ذات کا ادب و احترام اور اس کی تعظیم اس ذات سے محبت کی دلیل ہوتی ہے جس طرح اس کی یا اس کے نام کی بے ادبی ، تحقیر اور بے وقعتی اس ذات سے نفرت کی دلیل ہوتی ہے ۔ چنانچہ فطرت انسانی پر پرورش پانے والا ہر شخص اپنے محسن کا شکرگزار اور اسکا ادب و احترام کرنے والا ہوتا ہے۔ چاہے اس کا احسان اس پر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اور اگر اس کے احسانات اس پر کئی ایک ہوں تو یہ انسان اپنے اس محسن و مشفق کی تعریف کرتے نہیں تھکتا، دوران گفتگو اگر اس کا نام زباں پر آجائے تو نہایت ادب و احترام اور وقار کے ساتھ اسے ادا کرتا ہے اور اس کے نام کو ان چیزوں کی طرف منسوب نہیں کرتا جو اس کے لائق نہ ہوں۔ جبکہ یہ رویہ مخلوق کے ساتھ ارباب عقل کا ہوتا ہے تو تصور کیجئے اس وقت کیا رویہ ہونا چاہئے جب معاملہ خالق و مخلوق کا ہو، انعام کرنے والے اور انعام وصول کرنے والوں کا ہو، رازق کائنات اور فقیر و محتاج بندوں کا ہو، مالک الملوک بادشاہوں کے بادشاہ اور ذلیل و فقیر مخلوق کا ہو۔ یقیناً معاملہ ادب و احترام ، عزت و تکریم سے کہیں بڑھ کر تعظیم و تجلیل اور غایت درجہ وقعت و توقیر کا ہونا چاہئے۔ مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنے خالق و مالک اور اپنے رازق کی قدر نہیں کی۔ فرمان ذوالجلال ہے:

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ  ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ  ۔

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔(سورۃ الزمر:67

اور رب ذوالجلال کے بلند و باکمال ناموں کو دنیا کے حقیر مال و متاع کی طرف منسوب کردیا مثلاً : 

ط   رحمٰن بریانی

ط   رحمٰن ملک شاپ

ط   رحمٰن آٹوز

ط  ر حمٰن بیکرز وغیرہ وغیرہ

جبکہ یہ سراسر رب رحیم کے ساتھ گستاخی و بے ادبی ہے جس کی بنیاد یا تو لاعلمی ہے یا پھر اللہ رب العزت کے ناموں کے ذریعے دنیا کمانے کی لالچ۔

 وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا (سورۃ البقرۃ174

اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں۔

رحمان:اللہ رب تعالیٰ کے خاص ناموں میں سے ہیں : 

جن کا استعمال غیر اللہ کیلئے نہ تو بلا اضافت ”عبد“ کے جائز ہے جیسے کسی شخص کو صرف رحمان کہنا، جس طرح کسی کو صرف اللہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ عبداللہ کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح کسی کو صرف رحمان بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ عبدالرحمان کہا جائیگا کیونکہ یہ دونوں نام اللہ کے ذاتی ناموں میں سے ہیں اور نہ ہی ان ناموں کے ذریعے دنیاوی مال و متاع اور فوائد اکٹھے کرنا درست ہے۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے فرمایا: 

اَلرَّحْمٰنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى

رحمان عرش پر مستوی ہے۔ (سورۃ طٰہٰ : 5

اور فرمایا: 

قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ  ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى  ۚ

کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں ۔ (سورۃ الاسراء :110

اور اپنی کتاب میں کہیں اللہ رب العزت نے اس (رحمان) نام سے کسی مخلوق کو موصوف نہیں فرمایا جبکہ رحیم کے نام اپنے پیارے نبی کریم کو ایک مقام پر موصوف فرمایا: 

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَحِيْمٌ

تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہارے فائدے کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں ۔ (سورۃ التوبہ 128

اور اسی طرح اس مبارک نام کو بری صفات کے ساتھ لینا یا ان کی طرف منسوب کرنا بھی اس مبارک نام (رحمان) کے ساتھ کفر و الحاد سے کم نہیں۔ جیسا کہ رحمان ڈکیت وغیرہ وغیرہ (نعوذ باللہ)۔

وَلِلهِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا  ۠ وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ  ۭ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ    (سورۃالاعراف:180

اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کئے کی ضرور سزا ملے گی۔

جو اس گستاخی و گناہ میں پڑے ہیں وہ کیا کریں؟

غلطی پر اصرار اس سے بڑی غلطی ہے اور جب یہ غلطی گناہ کبیرہ اور خالق کائنات کے ساتھ گستاخی اور اس کے ناموں میں الحاد ہو تو اس کا فوراً بدل دینا ہر مسلمان بلکہ ہر مخلوق پر یکساں فرض و واجب ہے۔ خصوصاً جب معاملہ اللہ رب العزت کے ماننے والوں کا ہو۔

اور جہاں تک بات شیطانی وسوسوں کی ہے کہ وہ یہ وسوسے ڈالے گا کہ تمہارا نام بہت بڑا ہوچکا ہے اور تم اس نام سے کمارہے ہو اور اگر نام تبدیل کیا تو کاروبار ٹھپ ہوجائیگا وغیرہ وغیرہ تو یہ سوائے شیطانی وسوسے کے کچھ نہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۗءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا  ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ    (سورۃ البقرۃ268

شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والا ہے۔

اور شیطان کے جھوٹے دعووں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بندے کو کہتا ہے کہ اگر نام تبدیل کردیا تو تم فقیر ہوجائوگے، کام ٹھپ ہوجائیگا وغیرہ وغیرہ جبکہ اللہ رب العزت ہر مخلوق کو رزق دینے والا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ مَآ أُرِيْدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَآ أُرِيْدُ أَنْ يُطْعِمُوْنِ إِنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ

میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ مجھے کھلائیں اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں توانائی والا اور زور آور ہے۔  (سورۃ ا الذاریات:56۔58

تو تصور کیجئے کہ اگر وہ غفور و رحیم ذات اپنی نافرمانی پر آپ کو اتنا رزق دیتی ہے تو کیا اپنی فرمانبرداری پر برکت سے بھرا رزق عنایت نہیں فرماسکتی! کتنے افسوس کی بات ہے کہ جو رب رحمان ہمیں دن رات بے پناہ نعمتوں سے نواز رہا ہے ، بجائے اس کے کہ ہم اس کے مبارک ناموں کی عزت و توقیر کریں ان کا غایت درجہ احترام کریں ، ہم اپنی اس غلطی کو سدھارنے کو بھی راضی نہیں! صرف شیطان کے دلائے اس خوف سے کہ اگر نام تبدیل کیا تو کاروبار ٹھپ ہوجائیگا! حالانکہ رزق تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: 

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا

زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہیں ۔ (سورۃ ھود :6

اور ہمیں یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ آپ کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ ”بندے میں جب اللہ کی طرف سے فرشتہ روح پھونکنے آتا ہے تو اسی وقت اسکو چار چیزیں بھی لکھنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ (۱) اس کا رزق (۲) اس کی عمر (۳) اس کے اعمال (۴) نیکوکار ہوگا یا بدکار۔ (رواہ مسلم، کتاب القدر)۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی قدر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں صحیح اسلامی عقائد اپنانے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔

وما علینا الا البلاغ المبین

۔۔۔

فاسق کون ؟

فاسق ایک عام نام ہے جو کہ تمام نافرمانی کے کاموں پر استعمال کیا جاتا ہے  ۔

فسق کا لغوی معنی:

فسق کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے نکلنا یا ارادہ کرنا یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے نکلنا۔

فسق کا اصطلاحی معنی:

اس کے ایک سے زائد معنی بیان کیے جاتے ہیںجن میں سے معروف درج ذیل ہیں

ابن عطیہ کہتے ہیں: اللہ رب العالمین کی اطاعت سے نکلنا اور روگردانی کرنا

بیضاوی نے کہا: فاسق آدمی کبیرہ گناہ کی وجہ سے اللہ کے دین سے نکل جانے والا ہوتا ہے۔

آلوسی نے کہا: فسق کا معنی ہے سمجھدار لوگوں کا (اللہ رب العالمین اور اس کے رسول کی) اطاعت سے نکلنا۔

ان تمام تعریفات سے یہ معلوم ہوا کہ فسق کفر سے زیادہ عام ہے۔ (مفردات الرأغب: ص 572)

فسق کی اقسام

فسق کی ایک سے زاید اقسام ہیں کچھ کا تعلق کفر اکبر سے ہے اور کچھ کا تعلق کفر اصغر سے ہے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کسی خاص نام کے ساتھ اہل اسلام کے علاوہ دوسروں کی طرف کی ہو جیسے خاسر (نقصان اٹھانے والا)، مسرف (فضول خرچی کرنے والا) ظالم (ظلم کرنے والا)۔فاسق (گناہ کرنے والا)  تو اس سے مراد کفر ہوتا ہے۔اور جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی طرف کی ہو تو اس سے مرادہ گناہ ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر 142/1)

اسی طرح  المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: فسق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فسق وہ جو دین اسلام سے منتقل کر دینا ہے اور دوسرا فسق وہ ہے جو دین اسلام سے (کسی دوسرے دین کی طرف) منتقل نہیں کرتا۔ پس کافر کو فاسق بھی کہا جاتا ہے اور فاسق مسلمان میں سے پہلے اپنے فسق کی وجہ سے ہے۔

اس امر کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ایمان کے ستر سے زائد شاخیںہیں اور ان میں سے کچھ کا تعلق ایمانیات سے ہے اور کچھ کا تعلق اخلاقیات سے ہے اب جو ایمان کی شاخیں سے ہیں ان کا تارک اور اخلاقیات کا تارک ایک جیسا نہیں ہو سکتا اسی طرح فاسق کی بھی اقسام ہیں  اور فسق کی کچھ اقسام اعتقادی ہیں اور کچھ عملی ان کی مثالوں سے بات واضح ہو جایے گی ۔

فسق اعتقادی کی مثال:اللہ کا ارشاد ہے :

قُل اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (التوبۃ: 53)

اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ تم جس اپنی خوشی یا نا خوشی سے خرچ کرو بھی تو اللہ تعالیٰ ہرگز تم سے قبول نہیں کرے گا اس لئے کہ تم فاسق قوم ہو۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہ’’ بیشک تم فاسق قوم ہو‘‘ (یہ ان کے صدقات قبول نہ ہونے کی وجہ ہے) (فتح القدیر للشوکانی:369/2)

اور اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ:67)

 بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں ۔

امام شوکانی نے (اس آیت کے بارے میں) ارشاد فرمایا: یہ منافقین ’’مکمل فاسق ہیں‘‘ (فتح القدیر 379/2)

اور فسق عملی کی مثال کہ جس سے انسان دین اسلام سے نکل جاتا ہے ابلیس نے کیا جیسا کہ اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ  ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ  ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا ، ابلیس کے علاوہ جو کہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی بُرا بدلہ ہے۔ (الكهف:50)

ابلیس نے فسق کیا اور یہ فسق سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا اور اپنے رب کے حکم کی پیروی سے روگردانی کرنے کی وجہ سے واقع ہوا۔ اور سجدہ کو ترک کرنا فعلاً و عملاً شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ ایسی باتوں کو اصول کی کتابوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔

قرآن کریم کی بیشمار آیات میں فسق کا  ذکر کیا گیا ہے جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول >کے زمانہ میں فاسق کا اطلاق کافر پر ہوتا تھا۔ فسق کے نام کا اطلاق اس آدمی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکامات کو چھوڑنے اور ایسا کرنے سے باز نہ آئے۔

جیسا کہ منافقین کے لیے اس لفظ کا استعمال ہوا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبۃ:67)

بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ (البقرۃ:99 )

اور بیشک ہم آپ کی طرف واضح نشانیاں اتاریں جن کا انکار سوائے فاسقوں کے کوئی نہیں کرتا۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاَمَّا الَّذِيْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىهُمُ النَّارُ ۭ كُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ يَّخْـرُجُوْا مِنْهَآ اُعِيْدُوْا فِيْهَا وَقِيْلَ لَهُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ  20؀

اور جن لوگوں نے فسق (نافرمانی کی) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جب کبھی بھی اس (جہنم) سے باہر نکلنا چاہیں گے، اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب چکھو۔ (السجدۃ:20)

پس یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پہلے عرف عام میں فاسق کا کافر پر اطلاق کیا گیا ۔

فسق کا کافر کے لیے استعمال پر مزید کچھ آیات درج ذیل ہیں :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ

اور نوح علیہ السلام کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑی فاسق قوم تھی۔(الذّٰرِیٰت:20)

اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فَرْعُوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (النمل:12)

اور (اے موسیٰ علیہ السلام) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالئے وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے، آپ نو نشانیاں فرعون اور اس کی قوم کی طر (لے کر جایئے) یقینا وہ نافرمانوں کا گروہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ذکر کیا:

قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ

موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب مجھے تو اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے، پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان جدائی کر دے۔ ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے۔ یہ (خانہ بدوش) ادھر ادھر سرگردان پھرتے رہیں گے، پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہو۔  (المائدہ:2526)

اور اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

وَرَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْہِمْ اِلّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ ﷲ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ  (الحدید:27)

ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے اسے اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے فرض نہیں کیا تھا۔ سو انہوں نے اس کا پوری طرح خیال نہیں رکھا پھر بھی ہم نے ان کو اجر و ثواب دیا جو ان میں سے ایمان لائے تھے۔ اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان تھے۔

اوراس آیت کی تفسیر کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بھی ہے : فرمایا: مومن وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور میری تصدیق کر تے ہیں اور (نافرمان) فاسق وہ لوگ ہیں جو مجھے جھٹلاتے ہیں اور میرے بارے میں جھگڑا کرتے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا نام (فساق) ہمیشہ نافرمانی کرنے والے رکھا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِہِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ  (التوبۃ:8)

ان (مشرکوں) کے وعدوں کا کیا اعتبار۔ اگر وہ تم پر غالب آجاتے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا۔ وہ تم کو اپنی زبانوں سے تو خوش کرتے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور زیادہ تر تو ان میں نافرمان ہیں۔

اور قرآن میں ایسی دلیل بھی ہے کہ جس میں شرک کی قسموں میں سے بعض کو فسق قرار دیا گیا ہے۔

وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ (الانعام:121)

اور ایسے (جانور یا چیزیں) مت کھاؤ کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اور یہ کام نافرمانی کے ہیں۔

پس اس کو امام شافعی نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کی جائے۔ (تفسیر ابن کثیر 161/2)

اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:

حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَتُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ(المائدۃ:3)

تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو چوٹ کی وجہ سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندے نے مار کھایا ہو۔ مگر جس کو تم ذبح کرو (اللہ کا نام لے کر وہ تمہارے لئے حلال ہے)۔ اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ تم قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو۔ یہ سب بدترین گناہ ہیں۔

امام شوکانی اللہ تعالیٰ کے اس قول {ذٰلِکُمْ فِسْقٌ}

 ’’یہ بدترین گناہ ہیں‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ فسق کا اشارہ قرعہ کے تیروں سے بدفالی کرنے کی طرف ہے یا اس آیت میں مذکورہ تمام حرام کردہ چیزوں کی طرف ہے۔

 یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فسق بدعت کے مقابلہ میں عام ہے لہذا جب فسق کا اطلاق بدعت یا اس کے علاوہ کسی اور پر کیا جائے اسی لیے حافظ ابن صلاح ے فرمایا کہ ہر بدعتی فاسق ہے اور ہر فاسق بدعتی نہیں۔ (فتاویٰ ابن صلاح صفحہ 28)

 اس بات پر سعد بن ابی وقاص tسے منقول روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ جس میں خارجیوں کو فاسق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر 4728)

اور اسی طرح شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ان (خارجیوں) کو فاسقوں کے نام سے تعبیر کرتے تھے ۔(الاعتصام ، امام شافعی 84/1)

اور عملی فسق کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا اطلاق ہر نافرمانی کے عمل پر کیا جا سکتا ہے یعنی برے کاموں پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے مثلاً کسی پر تہمت لگانے والے کو قرآن مجید میں فاسق قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:۴ )

اور وہ لوگ جو کہ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔

 اور اسی طرح جھوٹ بولنے والے پر بھی فاسق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (الحجرات:6)

اے ایمان والو اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو  پھر اپنے کئے پر خود ہی پشیمان ہو۔

فرمان رسول اللہ  (سباب المسلم فسوق)

’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے‘‘ میں بھی اس بات کی دلیل ہےکہ جب کوئی مسلم کسی مسلمان کو گالی دیتا ہے اور اس پر تہمت لگاتا ہے تو گویا اس نے جھوٹ بولا اور جھوٹے لوگ فاسق ہوتے ہیں ان سے ایمان کا نام تک زائل ہو جاتاہے۔اوراسی طرح حالت احرام میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کو بھی فسق کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجْ

حج کے مہینے مقرر ہے اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرے وہ اپنی بیوی میل ملاپ نہ کرے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔(البقرۃ:197)

میں فسوق سے مراد یہاں پر ہر وہ کام ہے کہ جس کے کرنے سے احرام کی حالت میں روکا گیا ہے جیسا کہ یہی تفسیر ابن جریر نے اور ان کے علاوہ دوسروں نے ذکر کی ہے۔

اور اسی طرح برے القاب کے ساتھ دوسروں کو پکارنے کو بھی فسق کے ساتھ قرآن میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ

 اور تم آپس میں ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے پس وہ ظالم لوگ ہیں۔(الحجرات:11)

اورابن تیمیہ رحمہ اللہ حدیث (سباب المسلم فسوق) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جب تم کسی مسلمان کو گالی دو اور اس سے مسخرہ بازی کرو اور اس کو تم (طرح طرح) کے عیب لگاؤ تو تم اس بات کے مستحق ہو کہ تم کو (ان کاموں کے کرنے کی وجہ سے) فاسق کہا جائے۔

اور رسول اللہ نے (اللہ کی) نعمتوں کا انکار کرنے والے کا نام فاسق رکھا ہے جیسا کہ حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے (بیشک فساق جہنم میں ہوں گے) آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول فساق کون ہیں؟ آپ نے فرمایا (عورتیں) ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول کیا وہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں اور ہماری بیویاں نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں لین ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو وہ (اللہ کا) شکر ادا نہیں کرتی اور جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔ (احمد 488444/3)

لہذا نعمتوں کے انکار کرنے والے کو بھی فاسق کہا جا سکتا ہے اور اسی طرح چوری کرنے والے کو بھی شریعت میں فاسق کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ جناب حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو کہ کھوج لگاتے ہیں ہمارے گھروں کی اور ہمارے بہترین قسم کے اموال چرا کر لے جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا یہی لوگ تو فاسق ہیں۔( بخاری ، کتاب التفسیر ح 4658)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا: کہ فسق عملی کی دو قسمیں ہیں: فسق عملی نافرمانی کے ساتھ اور فسق عملی بغیر نافرمانی کے ۔

فسق عملی نافرمانی کے ساتھ: اس چیز کا مرتکب ہونا جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور عصیان معنی یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلٰکِنِ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زِیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ

اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور مزیّن کر دیا ہے اسکو تمہارے دلوں میں اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے یہی لوگ راہنمائی پانے والے ہیں۔(الحجرات :7)

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ

وہ (فرشتے) نہیں نافرمانی کرتے اس کا، جس کا اللہ تعالیٰ انکو حکم کرتا ہے۔(التحریم :6 )

اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بھائی ھارون علیہ السلام سے کہا:

مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ (طٰہٰ :92۔93)

انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا کیا تو بھی میرے حکم کا نافرمان بن بیٹھا۔

بس فسق خاص ہے اللہ تعالیٰ کی صنع کردہ چیزوں کے مرتکب ہونے کیساتھ۔اور اس لئے اطلاق کیاجاتا ہے اس بہت سے معاملات کا ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:

وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ (البقرۃ:282)

اور اگر تم لوگ ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔

اور نافرمانی خاص ہے (اللہ کے ) کسی حکم کی مخالفت کرنے کے ساتھ او رکبھی ا طلاق کیاجاتا ہے ان دونوں کا ایک دوسرے پر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 اِلَّآ اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ

(پس سب نے سجدہ کیا )سوائے ابلیس کے یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی۔(الکہف:50)

اور اسی طرح (اللہ تعالیٰ کے ) حکم کی مخالفت کو بھی فسق کا نام دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :

وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی  (طٰہٰ:121)

آدم (علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بہک گئے۔

اللہ تعالی ہم ہر قسم کی نافرمانی سے اپنی امان اور عافیت میں رکھے ۔آمین اللھم آمین

نماز میں قراءت کے حوالے سے اُسوۂ رسول ﷺ

نماز دین کا اہم ترین ستون ہے شہادتین کے بعد اسلام میں اس کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ لیکن ہماری عوام کی اکثریت موروثی دین پر عامل ہونے کی وجہ سے اسے بھی صحیح طرح سے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عوامی معاشرہ میں تعلیم وتعلّم کا سلسلہ ناپید ہے ۔ دین سے وابستہ لوگوں کی بھی ترجیحات مختلف ہونے کی وجہ سے اس اہم ترین رکن کو کماحقہ ادا کرنے میں کوتاہی برتی جاتی ہے ۔ مساجد میں ائمہ کے انتخاب کیلئے احکام الصلاۃ سےواقفیت سےزیادہ خوش الحانی اور ترنم کو ملحوظ رکھا جاتاہے ۔ ائمہ مساجد کا انتخاب ایسے لوگ کرتے ہیں اور انٹرویو ایسے لوگ لیتے ہیں جو شرعی علم تو کجا تجوید کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔انہی معاملات کی وجہ سے ہماری نمازوں میں روحانیت ، للہیت ، خشیت باری جل وعلا اور لطف وچاشنی ناپیدہے ۔ لہٰذا اس امر کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ پیارے پیغمبر کا نماز میں اسوہ معلوم کیا جائے کہ آپ نماز میں قراءت کیسے کرتے تھے ۔ باجماعت نماز میں آپ کی تلاوت کی مقدار کیا ہوا کرتی تھی ۔ زیرنظر مضمون میں ان شاء اللہ اسی اسوہ کے حوالے سے چند امور بیان کئے جائیں گے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہ وہ سمجھنے اورعمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے انہ ولی التوفیق ۔

نبی کریم کا اکثر معمول ہوا کرتا تھا کہ جب جماعت کراتے تو مختصر کرتے:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ کان النبي صلی الله عليه وسلم يوجز الصلاة ويکملها‘‘۔

’’ نبی کریم نماز مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔‘‘( صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 669)

نبی کریم باجماعت نماز پڑھاتے ہوئے نمازیوں کا خیال رکھتے تھے :

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم سے نقل کرتے ہیں کہ

’’قال إني لأدخل في الصلاة فأريد إطالتھا فأسمع بکاء الصبي فأتجوز مما أعلم من شدة وجد أمه من بکائه ‘‘۔

’’ آپ نے فرمایا میں نماز شروع کرتا ہوں تو اس کو طول دینا چاہتا ہوں مگر بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ اس کی ماں سخت پریشان ہو جائے گی‘‘۔ ( صحیح بخاری)

آپ نےیہی حکم اپنی امت کے ائمہ کو بھی دیا ہے۔

سیدنا ابو ہریرۃ tفرماتے ہیں رسول اللہ   نے ارشاد فرمایا :

’’إذا صلی أحدکم للناس فليخفف فإن منھم الضعيف والسقيم والکبير وإذا صلی أحدکم لنفسه فليطول ما شاء ‘‘۔

’’ جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے ‘‘۔ (صحیح بخاری: جلد اول:حدیث نمبر 666)

سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس امر کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے کہ مقتدیوں کے حال کا لحاظ رکھنا کتنا زیادہ شرع مطہر میں اہمیت کا حامل ہے ۔

واقعہ ملاحظہ کریں :سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص دو اونٹ پانی سے بھرے ہوئے لا رہا تھا رات کا اول وقت تھا اس نے جب معاذ کو نماز پڑھتے پایا تو اپنے دونوں اونٹوں کو بٹھلا دیا اور معاذ کی طرف متوجہ ہوا معاذ نے سورہ بقرہ یا نساء پڑھنا شروع کی، سو وہ شخص (نیت توڑ کر) چلا گیا پھر اس کو یہ خبر پہنچی کہ معاذ اس سے رنجیدہ ہیں لہذا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے معاذ کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اے معاذ تو فتنہ برپا کرنے والا ہے (اگر ایسا نہیں ہے) تو تو نے

 سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الأَعْلَی اور وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا اور  وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی

کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیونکہ تیرے پیچھے بوڑھے اور کمزور اور صاحب حاجت (سب ہی طرح کے لوگ) نماز پڑھتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 668)

مذکورہ بالا روایت میں رسول اللہ نے جہاں طویل قراءت پر ناراضگی کا اظہار فرمایا وہاں اپنے صحابی جلیل کو یہ نصیحت بھی کی کہ ضعیف وکمزور لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز میں کون سی سورتیں مقدم رکھنی چاہئیں ۔

نوٹ : نماز میں تخفیف کے حوالےسے اہل علم نے استحباب کا حکم بیان کیا ہے اور اگر لوگوں کے متنفر ہونے کا خدشہ ہے تو یہ امر ضروری ہوجاتاہے اور شریعت کے عمومی قواعد بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ۔ آپ فرمایا کرتے تھے :’’ (دین میں) آسانی کرو اور سختی نہ کرو، لوگوں کو خوشخبری سناؤ اور انہیں متنفر نہ کرو‘‘۔ (صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 70)

ہاں آپ سے بسا اوقات طویل سورتیں بھی پڑھنے کا ثبوت موجود ہے جیسا کہ آپ ایک دفعہ مغرب میں سورہ طور کی تلاوت کی ایک دفعہ سورہ مرسلات کی اور ایک دفعہ سورہ اعراف پڑھنے کا بھی ثبوت ہے ۔ لیکن یہ اس صورت میں جب نمازیوں کے تھکنے کا خدشہ نہ ہو ورنہ بصورت دیگر تنفر کا خدشہ ہوتاہے ۔

اور یہ امر ہمارے اس دور میں کچھ زیادہ توجہ طلب ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں کی جسمانی اعتبار سے کمزوری  اوراس کے ساتھ ایسی بیماریوں میں مبتلا ہونا جن کی وجہ سے انسان کیلئے زیادہ دیر کھڑا رہنا مشکل ہوتاہے ۔ جیسےجوڑوں، گھٹنوںکےامراض ، شوگر ، بلڈ پریشر ، دل کی بیماریاں وغیرہ وغیرہ ۔ اور ان امراض میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد مبتلا ہے لہٰذا تخفیف الصلاۃ کا عمومی حکم ملوظ رکھا جائے تو بہتر ہے ۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے نماز میں جو تخفیف کا حکم دیا ہے یہ ایک نسبی امر ہےجس کا مرجع آپ کے فعل اور آپ کی مواظبت کو ملحوظ رکھ کر لگایا جاسکتاہے ۔ یہ ایسا معاملہ نہیں کہ اس میں نمازیوں کی خوشنودگی اور چاہت کو ہی محض ملحوظ رکھا جائے ۔ کیونکہ ایسا کیسے ممکن ہوسکتاہے کہ رسول اللہ امت کو کسی چیز کا حکم کریں اور پھر خود اس کی مخالفت کریں ۔ جبکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ ان کے پیچھے بوڑھے ، ضعیف اور ضرورت مند نماز ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ نے جو تخفیف کا حکم دیا ہے اسے آپ کے فعل کے پیرائے میں جانچا جائے گا کہ آپ نے جہاں مناسب سمجھا تطویل کی جہاں مناسب سمجھا تخفیف کی ۔ اور آپ کی تطویل بھی تخفیف ہی تھی کیونکہ آپ تو اس سے زیادہ بھی نماز کو طویل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے امت پر شفقت کرتے ہوئے اسے ایک مقررہ حد تک رکھا ۔لہذا آپ کا فعل اور معمول وہ ضابطہ ہے جس سے ہم تخفیف اور تطویل کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور مسئلہ مذکورہ میں اختلاف کرنے والوں کے مابین یہ فعل اور معمول ہی فیصل ہے جس سے حق وصواب کی نشاندہی ہوسکتی ہے ‘‘۔ 

آپ نماز میں تلاوت ٹہر ٹہر کر کرتے اور ہر آیت پر وقف کیا کرتے تھے :

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قرأت علیحدہ علیحدہ ہوتی تھی الحمدللہ رب العالمین پڑھتے اور پھر ٹھہرتے پھر الرحمن الرحیم پڑھتے اور ٹھہرتے‘‘۔ ( أبو داود (4001) والترمذي (2927)

امام زھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 أَنَّ قِرَاءَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ آيَةً آيَةً

’’ رسول اللہ کی قراءت آیت ، آیت  ہوا کرتی تھی‘‘۔

بہت سے ائمہ مساجداورقراء حضرات کا احکامِ وقف و ابتدا کا لحاظ نہ رکھنا ۔

اہل علم فرماتے ہیں وقف وابتداء کاجاننا نصف علمِ ترتیل ہے ۔ جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور فرمایا:’’ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا‘‘ [المزمل: 4]

ترجمہ :’’اور قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو ‘‘۔

کیونکہ علم ترتیل کی تعریف اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ ’هو: تجويد الحروف، ومعرفة الوقوف‘۔ 

’’ حروف تجوید سے ادا کرنا اور وقف کی معرفت حاصل کرنا ‘‘

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’ ہم نے ایک عرصہ گزارا ہے اور دیکھا ہے کہ ہم میں سے ایک کو ایمان قرآن سے پہلے دیا جاتاتھا ، (ہوتا یوں کہ) محمد پر سورت نازل ہوتی ہم اس میں وارد حلال وحرام کو سیکھتے اور ساتھ یہ بھی سیکھتے کہ کہاں وقف کرناہے (اور کہاں نہیں )یہ چیزیں ہم ایسے سیکھتے جیسے تم لوگ آ ج کل قرآن کی تلاوت سیکھتے ہو ، اور آج ہم نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جنہیں قرآن ایمان سے پہلے مل جاتاہے ۔ لہذا وہ اسے فاتحہ سے آخر تک پورا قرآن پڑھ لیتاہے لیکن اسے یہ پتہ نہیں ہوتاکہ اس میں امر کیا ملاہے اور روکا کس چیز سے گیاہے ؟اور نہ یہ پتہ ہے کہ وقف کہاں کرنا ہے اور کہاں نہیں ‘‘۔(رواه الطحاوي في “شرح مشكل الآثار”(4/84)،والحاكم في “المستدرك” (1/91))

علامہ نحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ وقف کے احکام بھی ایسے ہی سیکھتے تھے جیسا کہ قرآن سیکھا کرتے تھے ‘‘۔

سلف صالحین کی ان تصریحات سے واضح ہوتاہے کہ وقف وابتداء کی معرفت کتنی زیادہ ضروری ہے ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں غالب ائمہ اس کا اہتمام نہیں  کرتے۔ وقف کا خیال نہ کرنے سے قرآن مجید کے معانی ومفاہیم میں کیسی تحریف اور تبدیلی ہوتی ہے اس کا شاید اندازہ لوگوں کو نہیں ہے بلکہ بسا اوقات یہ چیز کفریہ مفہوم  پر منتج ہوتی ہے ۔

جیسے اگر کوئی انسان یہ پڑھتاہے

[ لَقَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ]

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں‘‘(آل عمران/181 )

اس میں اگر( قالوا )پر وقف کرتاہے پھر اس کے بعد (ان اللہ فقیر ) سے ابتدا کرتاہےتو معنیٰ کفریہ بن جاتاہے  جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ’’ بیشک اللہ فقیر ہے اور ہم امیر وغنی ہیں ‘‘ ( والعیاذ باللہ ) اسی طرح درج ذیل آیت میں ملاحظہ کریں کہ وقف کی غلطی سے معنیٰ میں کتنی بڑی تبدیلی ہوجاتی ہے ۔ الحفیظ والامان ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

( لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى ڼ  وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْابِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ ) (الرعد/18)

’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں  یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہےاور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے‘‘۔

اس آیت میں اگر’لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ‘  یہاں آخر میں وقف کیا جاتاہے تو معنیٰ بالکل بدل جائے گا ۔ اور آیت کا مفہوم یہ بن جائے گاکہ ’’جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی ان کیلئے بھی بھلائی ہے ‘‘ ۔

ملاحظہ کریں معنیٰ میں کتنی بڑی اور بھیانک تبدیلی واقع ہوگئی  لہذا اس آیت میں وقف کرنا ہے تو اس جملہ پر کریں’لِلَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنَى‘  کہ ’’ جن لوگوں نے اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کی ان کے لئے بھلائی ہے‘‘ ۔

پھر اس کے بعد یہاں سے ابتدا کی جائے ’’

( وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ أُولَئِكَ لَهُمْ سُوءُ الْحِسَابِ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِهَادُ )

کہ ’’ اور جن لوگوں نے اس کے حکم کی نافرمانی کی اگر ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ ہو اور اسی کے ساتھ ویسا ہی اور بھی ہو تو وہ سب کچھ اپنے بدلے میں دے دیں  یہی ہیں جن کے لئے برا حساب ہےاور جن کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت بری جگہ ہے‘‘۔

وقف وابتدا کے احکام ایک پورا علم ہے ۔ قارئین کتب فن کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں ۔ بخشیت طوالت انہی مثالوں پر اکتفا کیا جاتاہے ۔

نبی کا نماز میں قراءت کرنے کا مسنون طریقہ:

آخر میں ہم نبی اکرم کا نماز میںقراءت کرنے کا کیا طریقہ ہوا کرتا تھا قارئین کے فائدہ کیلئے وہ مختصرا تحریر کرتے  ہیں:

۱ : آپ دعائے استفتاح کے بعد تعوذ پڑھا کرتے تھے جس کے صیغے کتب حدیث میں مذکور ہیں قارئین ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔

یہ الفاظ بھی منقول ہیں :

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه  ونفثه

۲: پھر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا کرتے تھے ۔

۳: اس کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتے تھے ۔ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔

۴ :سورہ فاتحہ پڑھنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اسے ایک ایک آیت الگ الگ ٹھہر ٹھہرکر پڑھا جائے مثلاـ : سب سے پہلے( بسم الله الرحمن الرحيم )پڑھے ۔ پھرٹھہر جائے ۔ پھر ( الحمد لله رب العالمين ) پڑھے اور ٹھہر جائے , پھر ( الرحمن الرحيم )پڑھے اور ٹھہر جائے ۔ اسی طرح سورت کے آخر تک اپنا معمول بنائے ۔رسول اللہ کا نماز کی دیگر قراءت میں بھی معمول یہی ہوا کرتا تھا کہ آپ ہر آیت کے آخرپر وقف کرتے تھے ۔

فاتحہ کے حوالے سے مقتدی پر بھی واجب ہے کہ وہ ہر نماز چاہے سری ہو یا جہری امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھے۔

۵ : سورہ فاتحہ کے بعد کسی اور سورت کی قراءت کی جائے سوائے چار رکعت والی نماز کے جس کی آخر دو رکعت میں محض سورہ فاتحہ کی ہی قراءت ہوتی ہے ۔

۶: سورت کی قراءت طویل بھی ہوسکتی ہے اور مختصر بھی ۔

۷: قراءت کا طویل اور مختصر ہونا نمازوں کے حساب سے بھی مختلف ہے جیسا کہ آپ فجر کی نماز میں طویل قراءت کیا کرتے تھے ۔ اس طرح دیگر نمازوں میںظہر عصر ، عشاءاور مغرب اسی ترتیب سے ۔ ان میں چند نمازوں میں آپ مختصر تلاوت کرتے اور چند میں قدرے طویل ۔

۸ : تہجد کی نماز میں آپ طویل قراءت کیا کرتے تھے ۔ حتی کہ سورہ بقرۃاور آل عمران بھی پڑھا لیا کرتے تھے ۔

۹: مسنون یہ ہے کہ پہلی رکعت دوسری رکعت کے مقابلے میں قدرے طویل ہونی چاہئے ۔ لہذا امام اور منفرد دونوں کو چاہئے کہ پہلی رکعت دوسری رکعت کے مقابلے میں لمبی رکھیں ۔ اس میں جماعت کے لحاظ سے یہ فائدہ اور حکمت بھی ہے کہ اگر کوئی نمازی لیٹ پہنچا ہے یا وضو میں مشغول ہے تو وہ بھی پہلی رکعت کو پاسکے ۔

اور اگر چار رکعت والی نماز ہے تو اس میں پہلی دو رکعت لمبی ہونی چاہئیں اور آخری دو رکعت مختصر ۔ حتیٰ کہ بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ آخری دو رکعتوں کی قراءت پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں آدھی ہونی چاہئے ۔ تفصیل کیلئے دیکھئے ((صفة صلاۃالنبی ﷺ ص 102))

۱۰: امام کو چاہئے کہ نمازیوں کا خیال رکھے اور نماز میں ان کے احوال کو دیکھتے ہوئے تخفیف اور تطویل اپنائے ۔

۱۱:سنت نبویہ ہے کہ قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھا جائے ترتیل کا مقصد یہ ہے کہ قراءت اتنی کھینچ تان کے بھی نہ ہو جس میں مد ، غنہ وغیرہ میں مبالغہ آرائی کی جائے اور نہ اتنی تیز کہ سامع کو سمجھنے میں مشکل ہو بلکہ ہدر اور متوسط انداز سے احکام تجوید ادا کرتے ہوئے قراءت کی جائے۔

یہ بھی مسنون ہے کہ قرآن مجید کو شرعی حدود میں رہتے ہوئےخوبصورت آواز میں پڑھا جائے لیکن اس میں قواعد تجوید کے برخلاف ترنم اور اہل بدعت کی طرح طرز اختیار کرنا یا موسیقی کے قوانین کے طرز پر تلاوت کرنا جائز نہیں ۔

نمازوں کی اصلاح اور عوام الناس کی تربیت کیلئے چند اہم گذارشات :

۱: مسجد میں امام متعین کرتے وقت محض خوش الحانی کو ہی مدنظر نہ رکھا جائے بلکہ یہ بھی جانچا جائے کہ آیا جسے امام متعین کیا جا رہاہے وہ نماز کے احکام ، سجدہ سہو کے احکام کاعالم ہے یا نہیں؟ ۔ اگر نہیں ہے تو ایسے شخص کو امام متعین نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امامت ایک بہت بڑا عظیم منصب ہے جسے ہم نے بہت ہی ہلکا سمجھا ہوا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ رسول اللہ نے پوری زندگی خود امامت کرائی حالانکہ صحابہ میں عظیم الشان قراء بھی تھے اور ان میں بعض کی تعریف تو آپ نےان الفاظ میں فرمائی ’يا أبا موسى ، لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود ‘‘۔

آپ نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا :’’ اے ابو موسیٰ ! تجھے داؤد( علیہ السلام) کی خوش الحانی سے حصہ عطا فرمایا گیا ہے‘‘۔

اور بعض صحابہ کے بارے میں فرمایا:’’ :

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْ قِرَاءَةَ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ ‘۔

’’ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد( یعنی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کی قرأت پر اسے پڑھے‘‘۔

لیکن مصلےپرآپ کی موجودگی میں کسی کو جرأت نہ ہوئی آگے بڑھنے کی اور نہ ہی آپ نےاپنی موجودگی میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اس وقت حکم ملا جب آپ بہت زیادہ علیل تھے ۔ لہذا مساجد ومدارس کے منتظمین کو اس منصب کی اہمیت کا ادراک ہونا چاہئے اور وہ اس کیلئے اہل فرد کا انتخاب کریں

۲ : جو امام مسجد مقرر کیا جائے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاہے بگاہے نمازیوں کی تربیت اور احکام الصلاۃ سکھانےکی غرض سے ان کیلئے انفرادی یا اجتماعی تعلیمی کلاسز کا اہتمام کرے ۔

۳ : امام مسجد کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نمازیوں پر گاہے بگاہے نظر رکھے ان میں جس کی نماز میں کوئی خلل محسوس کرے اسے پیار ومحبت سے تنہائی میں اس سے آگاہ کرے اور اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے ۔

۴ : مساجد ومدارس کے منتظمین کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گاہے بگاہے ائمہ مساجد کیلئے بھی چند تربیتی اور تعلیمی کلاسز اور ورکشاپس کا اہتمام کریں ۔ جیساکہ بعض مقامات پر ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کیلئے خاص کورس ترتیب دیئے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے کورس ہر مسجد ومدرسہ میں ہونے چاہئیں ۔

۵ : ائمہ کا انتخاب اہل علم کی ایک کمیٹی کرے ۔ اور کیا ہی مستحسن ہوکہ صوبائی یا علاقائی سطح پر ایک عمومی کمیٹی تشکیل دی جائے جس کا کام ائمہ مساجد ، خطباء ، اور قراء کا انتخاب کرنا ہو ۔ جس شخص کے پاس اس کمیٹی کی اجازت موجود ہو وہی مسجد میں امامت کا اہل ہو وگرنہ نہیں ۔

ھذا ماعندی واللہ من وراء القصد

تنہائی کے گناہوں سے بچاؤ

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں وہ قبول کرنے والا، نگران اور حساب رکھنے والا ہے، وہ ہر ایک کے ضمیر سے باخبر ، رازوں کو جاننے والا اور سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے، تمام معاملات اسی کی گرفت میں ہیں، اسی نے اپنے بندوں کی تمام حرکات شمار اور ان کی موت کا وقت مقرر کیا ہوا ہے، میں اپنے رب کے بے شمار اور لا تعداد فضل و کرم پر اسی کی حمد بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں ، شرکاء اور ہمسروں سے کہیں بلند ذات ہی پاک ہے، اس کے تسلط کے سامنے تمام سرکردہ اور سربراہ ہیچ ہیں، اس کی عظمت کے سامنے جگر بھی چاک ہو گئے اور اس کے ڈر اور خوف سے ٹھوس اور سنگلاخ پہاڑ بھی پھٹ گئے۔

میں اللہ تعالی کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں  اس کی مخلوقات اور اس کی رضا کے مطابق، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر، اللہ تعالی پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ ، اللہ تعالی پاک ہے وہی عظمت والا ہے، ہمارے پروردگار تو پاک ہے! تو بہت عظیم ہے،  تو بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، تو پاک ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں!

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ معاندین ، ہم پلہ اور اولاد سے پاک ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد   اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا اور امانت ادا کر دی اور امت کی خیرخواہی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں پر قیامت تک درود و سلام نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو!میں خلوت و جلوت میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہٰی کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی پہلے اور بعد میں آنے والوں کو نصیحت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللهَ}

اور البتہ تحقیق ہم نے تم سے پہلے کتاب دیئے جانے والے لوگوں کو اور تمہیں بھی یہی نصیحت کی ہے کہ تقوی الہٰی اختیار کرو۔[النساء: 131]

مسلمانو!ہمیں اس بات کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالی کو یاد کریں اور توبہ کیلئے تجدید عہد کریں، اپنے آپ کو ہوس پرستی سے روکنے اور تقوی اپنانے کیلئے تیار کریں۔

ہم یہ بھی احساس اجاگر کریں کہ اللہ تعالی ہمارا نگران ہے، وہ بہت عظیم ہے، اس کے حساب و عذاب کو ذہنوں میں تازہ کریں۔

ہم جدائیاں اور پنڈلی سے پنڈلی ملنے کے لمحات [یعنی: روزِ قیامت]کیلئے تیاری کریں، ہم اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کیلئے زادِ راہ تیار کریں کہ اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، دوست اور بیٹوں سے دور بھاگے گا، اس دن ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی۔

اللہ کے بندو!سائنسی انقلاب، نت نئی ٹیکنالوجی اور لوگوں کیلئے آفاقی رسائی کی وجہ سے ثقافتی کشمکش پیدا ہو چکی ہے اور سماجی رابطے کے ذرائع سے ہم اپنے گھرانوں میں نبرد آزما ہیں، سوشل میڈیا تک ہر چھوٹے بڑے، مرد اور عورت کو رسائی حاصل ہے، ان حالات میں مسلمان کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تربیت کیلئے ایک عظیم صفت اور جلیل القدر عبادت کی اشد ضرورت ہے جو کہ انتہائی عظیم الشان عبادت اور نیکی ہے، وہ صفت اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں اور گناہوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کی وجہ سے انسان حرام چیزوں سے بچ کر نیکیوں کی جانب راغب ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ہر نیکی اور اچھے کام کی ترغیب دلاتی ہے، نیز اس کی وجہ سے دلوں میں اللہ تعالی کی ہیبت بھی پیدا ہوتی ہے۔

وہ صفت یہ ہے کہ خلوت اور جلوت میں خشیت الہٰی اپنائیں، اللہ کی قسم! یہ جتنی بلند خوبی ہے اس کی ہمیں اتنی ہی ضرورت بھی ہے ،اس سے اصلاح ہوتی ہے اور تقوی  حاصل ہوتا ہے، یہ ایمان کی دلیل نیز عقیدہ توحید اور اخلاص کا ثمر ہے، اس سے اخلاق پروان چڑھتا ہے ، ایک مکمل انسان کی صورت میں زندگی گزارنے کیلئے انسان کو خشیتِ الہٰی کی عملاً ضرورت ہے ۔

تنہائی میں اللہ تعالی سے ڈرنا صفتِ احسان کا تقاضا ہے، اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ : (تم اللہ تعالی کی بندگی ایسے کرو کہ گویا تم اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اللہ تعالی کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے)

دل میں یہ احساس پیدا ہونا خشیتِ الہٰی کا لازم ہے کہ اللہ تعالی ہمارا نگران ہے، اور اس بات کا علم ہو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر گواہ ہے، لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے، اور اس کے بندے جہاں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہے،

{مَا يَكُوْنُ مِنْ نَجْوٰى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوْا} [المجادلہ: 7]

تین آدمی سرگوشی کریں تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور پانچ کریں تو وہ چھٹا ہوتا ہے، اس سے کم لوگ کریں یا زیادہ لوگ وہ ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔

اب جو شخص یہ جان لے کہ اللہ تعالی اسے ہر جگہ دیکھ رہا ہے، اللہ تعالی اس کے ظاہر و باطن ، خفیہ اور اعلانیہ  ہر چیز سے واقف ہے، اور یہی بات خلوت اور تنہائی میں بھی اجاگر رہے تو تنہائی میں بھی انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

اللہ کے بندو!تنہائی میں خشیتِ الہٰی مغفرت کے دروازوں کی چابی ہے، اور اس میں خیر ہی خیر کے ساتھ اجر عظیم بھی ہے،

{إِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيْرٌ} [الملك: 12]

بیشک جو لوگ اپنے رب سے بنا دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔

بنا دیکھے اللہ تعالی سے ڈرنا رضائے الہٰی اور جنت میں داخلے کا سبب ہے

{مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيْبٍ ۔ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ}

 جو رحمن سے بنا دیکھے ڈرتا رہا اور رجوع کرنے والا دل  لے کر حاضر ہوا اس (جنت)میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ یہ دن حیات ابدی کا دن ہے [ق: 33، 34]

اسی طرح فرمایا:

{إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولٰٓئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ۔ جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ}

جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً وہ بہترین مخلوق ہیں ان کے پروردگار کے ہاں ان کا بدلہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار  سے ڈرتا رہا ۔[البینہ: 7، 8]

خشیت الہٰی متقی لوگوں کی صفت ہے

{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِيَآءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ}  

اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو جو کتاب (تورات) دی تھی وہ (حق و باطل میں) فرق کرنے والی تھی اور ایسے پرہیزگاروں کے لئے روشنی اور نصیحت تھی۔ جو اپنے پروردگار سے بنا دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ روز قیامت کا خوف دل میں رکھتے ہیں۔ [االانبیاء: 48، 49]

خشیتِ الہٰی دلوں کو بھلائی کیلئے تیار کرتی ہے اور انہیں پند و نصائح قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے {إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ} بے شک آپ متبعینِ قرآن اور تنہائی میں رحمن سے ڈرنے والوں کو ڈراتے ہیں[يٰس:11] اسی طرح فرمایا:{سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى } خشیت رکھنے والا ہی نصیحت پکڑے گا اور بد بخت اس سے اجتناب کرے گا۔[الأعلى: 1011]

خشیتِ الہٰی کی وجہ سے پند و نصائح اور وعظ و نصیحت کا دلوں اور احساسات پر اثر مزید بڑھ جاتا ہے

{اَللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إِلٰى ذِكْرِ اللهِ}

اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلد اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ [الزمر: 23]

اللہ تعالی نے احرام باندھنے والوں کا خشیت اور خوفِ الہٰی  کیلئے امتحان لیا اور فرمایا:

{يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ}

اے ایمان والو ! اللہ ایسے شکار کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے۔ [المائدة: 94]

اللہ کے بندو!پتھر جو کہ جمادات ہیں سننے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بھی اللہ تعالی کے ڈر سے گر جاتے ہیں  اور پھٹ پڑتے ہیں، ان کا جمود ، بے عقلی اور لا شعوری بھی خشیتِ الہٰی کے اثرات کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکی، پتھروں کی مضبوطی ، ٹھوس پن اور سنگلاخی بھی پتھروں کو متاثر ہونے سے نہیں بچا سکی،

{وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ}

پتھروں میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے (لرز کر) گر پڑتے ہیں۔ [البقرة: 74]

تو-اللہ کے بندو- ہمیں چاہیے کہ ہم بھی نصیحت پکڑیں، اپنے دلوں میں خشوع پیدا کریں اور ان پتھروں سے ہی عبرت حاصل کر لیں

{أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُوْنُوا كَالَّذِيْنَ أُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَكَثِيْرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ}[الحديد: 16]

جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل نرم ہو جائیں ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کیلئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے مستفید فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ  سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلئے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے دلوں کو فطری طور پر خشیت عطا فرمائی، دل بھی اس کی محبت اور خوف سے اس کے مطیع بن گئے اور اپنے فضل و رحمت سے ہماری رہنمائی فرمائی، درود و سلام ہوں خاتم الانبیاء والمرسلین پر، ان کی آل اور اولیاء پر۔

اللہ کے بندو!معاہدوں کی پاسداری کرو، کل کیلئے تیاری کر لو، آخرت قریب آ رہی ہے اور دنیا گزرتی جا رہی ہے، موت کا وقت قریب ہے، اور سفر بہت لمبا ہے، زادِ راہ معمولی ہے جبکہ خطرات بہت زیادہ ہیں۔

یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہارے اعضاء ہی تمہارے ناقابل تردید گواہ ہیں، اس لیے ان کا بھر پور خیال کرو خلوت و جلوت میں تقوی الہٰی اپناؤ؛ کیونکہ کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی اس کے سامنے مخفی نہیں ہے، بلکہ ہر چیز اس کے سامنے عیاں ہے۔

مسلم اقوام!

تنہائی میں بھی خشیت الہٰی اپنانا سعادت مندی اور سکون کا باعث ہے، اس سے راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، یہ فتنوں سے بچاؤ کا باعث بھی ہے، لذتِ خشیت کا اسی کو علم ہے جس نے اس کی لذت چکھی ہے؛ لہٰذا نفس کو خشیت الہٰی کا پابند بنانے کیلئے پورے عزم اور کوشش سے محنت کرو کہ نفس برائیوںسے رک جائے،اور بڑھاپے سے پہلے اسے نکیل ڈل جائے، کیونکہ اگر دل خوف، ڈر اور اللہ تعالی کے جلال سے معمور ہو تو اعضا ء گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتے ہیں۔

نبی کریم سے یہ صحیح ثابت ہے کہ: تین چیزیں باعث نجات ہیں: غضب اور خوشی ہر دو حال میں عدل کرنا، امیری اور فقیری میں میانہ روی اختیار کرنا، خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف قائم رکھنا۔

اللہ کے بندو!تزکیۂ نفس اور خشیتِ الہٰی دلوں کی اصلاح سے مربوط ہے: (متنبہ رہو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جائے گا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم برباد ہو جائے گا اور وہ دل ہے)

حصولِ خشیتِ الٰہی کےلیےدعائیں کرو، اس کام میں تمہارے لیے رسول اللہ بہترین نمونہ ہیں: (اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ )یا اللہ! ہمیں اپنی اتنی خشیت عطا فرما جو ہمارے لیے تیری نافرمانی کے سامنے رکاوٹ بن جائے)

اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ، وَنَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَنَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيْدُ ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ ، وَنَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ ، وَنَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَنَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ ، وَنَسْأَلُكَ الشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ ، فِي غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ ، اَللَّهُمَّ زَيَّنَّا بِزِيْنَةِ الْإِيْمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُّهْتَدِيْنَ، يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ!

یا اللہ! ہم تجھ سے تنہائی اور بھرے مجمع میں خشیت کا سوال کرتے ہیں، غضبناکی اور رضا مندی ہر دو حالت میں عدل  و حق پر مبنی بات کا سوال کرتے ہیں، اور ہم تجھ سے فقیری اور امیری میں میانہ روی  مانگتے ہیں، ہم نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں، آنکھوں کی دائمی ٹھنڈک چاہتے ہیں، تیرے فیصلوں پر رضامندی کے طلب گار ہیں، ہم تجھ سے مرنے کے بعد خوشحال زندگی کی درخواست کرتے ہیں، نیز تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت مانگتے ہیں، تجھ سے ملنے کا شوق چاہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں یہ سب چیزیں بغیر کسی تنگی اور تکلیف کے عطا فرما، کسی بھی گمراہ کن آزمائش کے بغیر عطا فرما، یا اللہ! ہمیں زینتِ ایمان سے مزین فرما، اور ہمیں ہدایت یافتہ رہنما فرما، یا رب العالمین۔

۔۔۔

نبوت و رسالت کی عمومی 75 خصوصیات

مخلوق کے لیے نبوت و رسالت اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم احسان اور نعمت ِعظمیٰ ہے۔ مخلوق کے لیے یہ ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنی کسی نعمت کا احسان نہیں جتایا لیکن نبوت و رسالت کا رب العزت نے خصوصی طو رپر ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ۔ (آل عمران۔164)

’’ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان ہی میں سے ایک ایسا رسول منتخب کیا جو انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے۔ ان کا تذکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت (دانائی) کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْرٌ عَلِیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٍ۔  (التوبۃ 128)

’’یقینا تم میں ایک ایسا رسول آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے۔ اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے۔ وہ تمہاری فلاح کا حریص ہے اور اہلِ ایمان کے لیے شفیق و رحیم ہے۔‘‘

تیسرے مقام پر عمومی طو رپر فرمایا: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔  (الانبیاء۔ 107)

’’اے نبی! ہم نے آپ کو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

وہ بزمِ نبوت و رسالت جس میں سیدنا آدم علیہ السلام سے پہلے کوئی نبی نہیں اور اس بزم رسالت میں محمد کے بعد کوئی رسول نہیں۔اور نہ ہی اب اس بزم رسالت میں کسی کو بحیثیت نبی اور رسول شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اب اس بات کا امکان ہے۔

لیکن اگر کوئی نبوت و رسالت کا امکان پیدا کر کے خود کو اس بزمِ رسالت میں شمار کرنے کی جسارت کرتا ہے تو یاد رکھیے! کائنات میں اس سے بڑھ کر کوئی ملعون اور شیطان نہیں۔

اس سلسلے میں نبوت و رسالت کی چند عمومی خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں جنہیں بنظر غور دیکھئے اور لوحِ قلب پہ نقش کرنے کی کوشش کیجئے:

1-بزم انبیاء علیہم السلام میں سیدنا محمد بن عبداللہ (رسول ہاشمی) علیہ السلام کے علُو مرتبت میں کوئی سہیم و شریک نہیں ہو سکتا اور نہ ہی تا قیامت اس کا کوئی امکان ہے۔

2-آپ کی صدق دل سے گواہی اور اس بات کا حلفاً اقرار کہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔

3-آپ کے بعد اب تا قیامت کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نبوت و رسالت کا اہل ہو سکتا ہے۔

4-عقیدئہ ختم نبوت اور ختم الرسالت کی یہ بنیادی قرآنی دفعہ ہے۔جس کا انکار کفر ہے۔ جس کا ثبوت الم ٓ سے لے کر والناس کی سین تک تمام تر قرآن مجید ختم نبوت پر دلالت کرتا ہے۔

5۔اس بات کا اقرار اور قلبی یقین رکھنا، کہ آپ کے بعد وحی کے نزول کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔         جس طرح آپ کے بعد کوئی نبوت کا اہل نہیں ہو سکتا اسی طرح آپ کے بعد کوئی وحی کا بھی اہل نہیں ہو سکتا۔

6۔رسولِ اکرم کے بعداگر کوئی مدعی نبوت کاذبہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے تو اسے رحمانی وحی نہیں ،بلکہ شیطانی وحی ہی کہا جا سکتا ہے۔ شیطانی وحی والہام اور کشف کی حقیقت جاننے کے لیے دیکھئے۔

 وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیَائِ ہِمْ۔

 ’’ اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کی طرف وحی کرتے ہیں۔‘‘(سورئہ الانعام۔121)

لہٰذا مدعی نبوت کاذبہ مرزا غلام قادیانی اور اس جیسے دوسرے کذابوں کو جو وحی اور الہام ہوا کرتا تھا (جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں) وہ یقینا شیطانی الہام ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ حقیقی وحی کا سلسلہ تو رسولِ اکرم کے بعد قطعی طور پر ختم ہو چکا ہے۔

7۔اگر کوئی شخص محمد کا کلمہ پڑھ کر اقرار نبوت کر کے خود کو کلمہ گو برادری میں شامل کرنے پر بضد ہے تو اس شخص کا پس منظر (Background)دیکھنا پڑے گا کہ یہ کن معنوں میں کلمے کا اقرار کرتا ہے۔ کیونکہ دورِ رسالت مآب میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو کلمے کے اقرار اور بظاہر صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے باوجود، انہیں جھوٹا اور منافق قرار دیا اور رب العزت نے خود ان کے منافق ہونے کی گواہی دی۔ تفصیلات جاننے کے لیے دیکھئے ۔ (سورئہ المنافقون)

8۔ اگر دورِ رسالت میں کلمۂ رسالت کے اقرارکے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے ایمان کو غیر معتبر قرار دیا ہے تو آج کے منکرینِ رسالت قادیانیوں اور دوسرے نام نہاد مسلمانوں کے ظاہری کلمے کو کیسے معتبر تصور کیا جا سکتا ہے۔

9۔نبوت و رسالت کے بارے میں یہ بھی نوٹ کر لیجئے گا۔ کہ سارے انبیاء علیہم السلام انسان تھے، وہ کھاتے پیتے تھے، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور بیوی بچوں والے تھے۔ سوائے چند ایک کے مثلاً یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ ۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے۔(سورئہ یوسف ۔ 109)

سورۃ الفرقان:20

سورۃ الکہف: 110

سورۃ ابراہیم: 11

سورۃ الرعد:                38

سورۃ بنی اسرائیل: 95

10۔یہ بات نوٹ کر لیجئے، کہ نبوت و رسالت عطائی اور وہبی ہوتی ہے آدمی اپنی محنت سے انجینئر و ڈاکٹر بن سکتا ہے، عالم و فاضل بن سکتا ہے شاعر و ادیب بن سکتا ہے صدرو وزیر اور سپہ سالار بن سکتا ہے یا بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن کبھی رسول اور نبی نہیں بن سکتا، اور نہ ہی بنایا جا سکتا ہے کیونکہ رسالت غور و فکر اور محنت سے نہیں ملتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی دَین اور عطا ہے۔

وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآئُ  (العمران 179🙂

اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں اپنے رسولوں میں سے (خصوصی منصب کیلئے) منتخب کر لیتے ہیں کوئی انسان یا کوئی پیغمبر یا فرشتہ اللہ تعالیٰ پہ اعتراض ہر گز نہیں کر سکتا، کہ اسے اس منصب کے لیے منتخب کیوں نہیں کیا گیا۔

اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ  (الانعام: 124)

اللہ زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ رسالت کا کام کس سے لے؟ اور کس طرح لے؟

اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ 

اللہ تعالیٰ انسانوں اور فرشتوں میں سے رسالت (پیغام بری کیلئے) منتخب کرتے ہیں۔ (الحج: 75)

11۔انبیاء ورُسل علیہم السلام کو غیر معمولی روحانی قوتیں اور طاقتیں عطا کی جاتی ہیں، جو کہ کسی عام آدمی کے بس میں نہیں ہوتیں۔

12 ۔اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے تمام انبیاء رُسل علیہم السلام پر ایمان لانا لازمی ہے۔ نبوت کے جھوٹے دعویداروں کا رَد اور قلع قمع بھی لازم ہے۔

مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا۔ (سورۃ الاحزاب 61)

(یہ نبوت کے جھوٹے دعویدار) مَلعون جہاں بھی مل جائیں انہیں پکڑ کر ان کا قیمہ قیمہ بنا ڈالو لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فرض ہے، کہ وہ ایسے گستاخ مُدّعی نبوت لعنتیوں کا نوٹس لیں، ورنہ محبانِ رسول قانون ہاتھ میں لینے کے لیے مجبور ہوںگے۔ جبکہ ممتاز حسین قادری شہید کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

13۔انبیاء ورسل علیہم السلام معصوم اور بے گناہ ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ مخلوق میں یہ شرف اور کسی کو حاصل نہیں ہے اور نہ ہی انبیاء کے علاوہ کسی کو معصوم قرار دیاجاسکتا ہے۔

14۔انبیاء ورسل ہدائت کے اعلیٰ ترین معیار پر قائم ہوتے ہیں۔ اور صراط مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔

15۔انبیاء ورسل علیہم السلام کے بارے میں ایک اصولی اور بنیادی بات یہ ہے، کہ وہ اپنی مرضی اور خواہشِ نفس سے نہیں بولتے تھے، بلکہ ان کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابع تھی۔

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی  اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی

وہ اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کرتے، یہ تو ایک وحی ہے، جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔(النجم43)

اسی لیے تو آپ نے فرمایا تھا۔

 لَایُوْمِنُ اَحَدُکُم حَتّٰی یَکْوْنَ ھَوَاہُ تَبعًا لما جِئْتُ بِہٖ

تم میں اس وقت تک وہ (کوئی شخص) مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کومیری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کر دے۔ (شرح السنہ )

16اَشہَدُ اَنَّ مُحَمداًرَّسَولُ اللّٰہِ

 ’’میں گوہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘

اس گواہی کے تحت، آپ کی بلا تردّد اطاعت اور سنتوں کی پیروی لازم ہے۔

17۔آپ سے ایسی محبت رکھنا، کہ دنیا میں ایسی محبت اور کسی سے نہ ہو حتٰی کہ والدین، اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ آپ سے محبت ہو یہی تقاضائے محبت رسول اورتقاضائےایمان بھی ہے۔

18 ۔آپ کی محبت میں دوسری تمام محبتوںا ور چاہتوں کی نفی کرتے ہوئے آپ کی تعظیم و توقیر اور نصرت و دفاع کا جذبہ بھی رکھتا ہو۔

19۔آپ کے حسن و جمال اور فضائل و کردار کو معاشرے میں اجاگر کر کے لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنا، کہ روئے زمین میں فقط آپ کی بات ہی معتبر ہے۔ اور آپ ہی مُطاعِ حقیقی ہیں جن کی اطاعت ہر لحاظ سے مقدم ہے۔

20۔ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ

کہ نبی مومنین کے لیے ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر زیادہ حق رکھتے ہیں۔ (الاحزاب 6) کے تحت آپ کے اکرام کا خیال رکھا جائے، اور کلمہ گو برادری میں اکرامِ رسالت و نبوت کا احساس بیدار کیا جائے۔

21–  لَا تَجْعَلُوْا دُعَآئَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآئِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا

رسول اللہ کو اس طرح نہ پکارو (اس طرح آپ کا اسم مبارک نہ لو)جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو (النور 63) کے تحت آپ کے آداب کا خیال رکھا جائے۔

22۔آپ کے ذکر کے بعد، آپ کا نام لیتے ہوئے درود پڑھا جائے اذان کے بعد، مسجد میں داخل ہوتے ہوئے، مسجد سے باہر نکلتے ہوئے اور محافل قرأت میں آپ پر صلوٰۃ و سلام (درودشریف) پڑھنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔ یہ بھی آدابِ رسالت میں شامل ہے۔

23۔سیرت النبی سے آگاہی کے سلسلہ میں سیمینارز اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا جائے۔

24۔لوگوں میں آپ کی حدیثوں اور سنتوں پر عمل کی ترجیح دی جائے۔ اور عوام میں حدیثوں اور سنتوں کی اہمیت کو واضح کیا جائے۔

25۔آپ سے متعلقہ صحیح روایات کو رواج دیا جائے۔ اور موضوع و کمزور روایات کی نشاندہی کی جائے تا کہ لوگوں میں ریسرچ اور تحقیق کی جستجو پیدا ہوسکے۔

26۔آپ کی روزنامہ سنتوں کو زندہ کیا جائے، اور ان سنتوں پر عمل یقینی بنایا جائے۔

27۔آپ کی پیاری سنتوں کا احترام کیا جائے، اور سنتوں کے مذاق اور استہزا سے احتیاط کی جائے۔

28۔آپ کی سنتوں کی برکات اور ان کے اثرات کو اُجاگر کیا جائے۔

29۔آپ کی پیاری سنتوں کی نفی کرنے والوں کو ہمدردی و خیر خواہی سے سمجھایا جائے۔

30۔آپ کی پیاری سنتوں سے بغض رکھنے والوں اور تنقید کرنے والوں سے بھی حتی الامکان شفقت و محبت کا برتائو اختیار کیا جائے۔

31۔آپ کی آل، اولاد اور ازواج النبی کا بھی احترام سے تذکرہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ بھی اکرام رسالت کا تقاضا ہے۔

32۔آپ کے اصحاب سے محبت و عقیدت کا اظہار بھی محبت ِرسول کا تقاضا ہے۔ اور صحابہ y کے مقام و مرتبے کا خیال رکھنا بھی اکرامِ رسالت ہے۔

33۔جو صحابہ کرام y  سے بغض و عناد رکھتا ہے۔ اس سے بغض رکھنا بھی تقاضائے اکرامِ رسالت ہے۔

34۔علماء اسلام کی قدرو منزلت اور ان کی خدماتِ جلیلہ کا اعتراف بھی اکرامِ رسالت ہے کیونکہ علماء میراث ِنبوت کے وارث اور محافظ ہیں۔

خاندانی سطح پر کرنے کے کام

35 ۔آپ کی محبت پر مشتمل بچوں اور اہل خانہ کی تربیت کا اہتمام کرنا۔

36۔گھروں اور خاندانوں میں خوشی و غمی کے مواقع پر اتباع رسالت پر دروس کا بندوبست کرنا کہ خوشی کے موقع پر آپ کا طریقِ کار کیا تھا؟ غمی کے موقع پر آپ کا طرزِ عمل کیا تھا؟

ہم عموماً ان مواقع کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ یہی موقع ہوتا ہےکہ آپ کی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت کو اجاگرکیا جائے۔

37۔بچوں کے لیے سیرت النبی کے خوبصورت عنوان پر خوبصورت انداز میں لٹریچر مہیا کیا جائے اور صبح و شام کے اذکار اور معمولاتِ نبوی سے اہلِ خانہ کو آگاہ کیا جائے۔

38 ۔فیملی کی بنیاد پر کم از کم مہینے میں ایک بار سیرت کی مجلس کا اہتمام کیا جائے۔

39 ۔اگر گھر میں میاں و بیوی اسوۂ نبوی کو اپنا لیں، تو وہ گھر یقینا جنت کی نظیر بن جائے گا اور دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی برکات کا نزول ہونے لگے گا۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔

40۔گھروں میں روزمرہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ احادیث اور سنتوں پر عمل کو فروغ دیا جائے۔

41۔گھروں میں اجتماعی دعوت افطار پروگرام تشکیل دیئے جائیں۔ اور سنت نبوی کی روشنی میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو شیئر (Share)کیا جائے۔

تعلیمی اداروں میں کرنے کے کام !

42۔تعلیمی اداروں میں طلباوطالبات کی آگاہی کے لیے حقوقِ رسالت کے چیپٹرز  (Chapters) کا ذکر کیا جائے۔

43۔ایسے لیکچرز کا انتخاب کیا جائے، جن میں سیرتِ طیبہ کا خصوصی انصرام ہو۔

44۔یونیورسٹیوں میں حیاتِ نبوی پر مشتمل مختلف پہلوئوں کو تحقیقی سطح پر اجاگر کیا جائے۔ یعنی ڈاکٹریٹ (Ph.D)کروایا جائے۔

45۔عالمِ اسلام کی نمایاں یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالات پیش کئے جائیں۔

46۔یونیورسٹیوں اور مدارس میں سیرت شو کا اہتمام کیا جائے۔ ان نمائشوں (Shows) میں عہدِ نبوی کے ماڈلز کا بھی انتظام کیا جائے اور ان میں ممکنہ دلچسپی کے پہلو اختیار کئے جائیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ طلباء طالبات اس سے مستفید ہو سکیں۔

47۔اسکول و کالج اور یونیورسٹیز میں سیرت کے موضوع (Topic)کو خصوصی اہمیت دی جائے اور خصوصی لائبریریاں قائم کی جائیں۔

48۔طلباو طالبات میں سیرت کے موضوع پر ہر زبان میں مقالات لکھنے کا ذوق پیدا کیا جائے۔

49۔طلباو طالبات کے مابین تحریری و تقریری مقابلے کروائے جائیں، اور انہیں بیش قیمت انعامات سے نوازا جائے۔

50۔کالجوں،یونیورسٹیوںاورمدارس میں تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کر کے طلباء و اساتذہ کو حقوق رسالت اور سیرت طیبہ سے کما حقہ آگاہ کیا جائے۔

خطباء و آئمہ اور داعیانِ رسالت کے کرنے کے کام!

51۔رسول کریم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں دعوت و تبلیغ کا اسلوب اپنایا جائے اور بلا امتیاز ہر طبقہ میں دعوت پہنچائی جائے۔

52۔آپ کے کردار و اخلاق کو قبل از نبوت اور بعد از نبوت لوگوں کے سامنے رکھا جائے۔

53۔سیرت النبی کے عمومی پہلوئوں پر روشنی ڈالی جائے۔

54۔نماز میں ان آیات کی خصوصاً تلاوت کی جائے۔ جن میں آپ کے کسی پہلو کا ذکر ہے اور نماز کے بعد مختصراً اس کی تفسیر بھی بیان کی جائے۔

55۔مساجد و مدارس میں حفظِ قرآن کے ساتھ ساتھ حفظِ حدیث کا بھی اہتمام کیا جائے۔

56۔عام لوگوں کے دلوں میں جو اشکالات پائے جاتے ہیں۔ ان کی اچھے انداز میں اصلاح کی جائے، اور قرآن و سنت کی روشنی میں انھیں مطمئن کیا جائے۔

57۔شانِ رسالت کے خلاف لب کشائی کرنے والوں کے انجام سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔

58۔قرآن و سنت کی روشنی میں شانِ رسالت بیان کی جائے اور غلوسے اجتناب کیا جائے۔

ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی سطح پر کرنے کے کام

59۔خصائص نبوی اور شمائلِ نبوت  کو موقع کی مناسبت سے مثبت انداز میں میڈیا پر نشر کیا جائے ا ور غلو سے گریز کرتے ہوئے حقیقت پر مبنی بات کی جائے۔

60 ۔ ہر اس بات سے گریز اور احتیاط کی جائے، جس سے آپ یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اہانت کا پہلو عیاں ہو۔

61۔مغربی میڈیا کا بھر پور جواب دینا ،جو کہ توہینِ رسالت کو وہ اپنا صحافتی حق سمجھتے ہیں جبکہ ہم تحفظ حقوق رسالت کو اپنی جان سے بھی عزیز تصور کرتے ہیں۔

62۔مغربی اعتدال پسند اور انصاف پسند طبقے کی آراء کا پرچار، جس کا وہ وقتاً فوقتاً آپ کے بارے میں اظہار کرتے رہے ہیں۔

63۔میڈیا کی سطح پر ٹاک شو پروگرامز کا اہتمام کیا جائے۔

64۔اخبارات و رسائل میں مضامین لکھے جائیں، جس میں آپ کی سیرت کے آفاقی پہلوئوں کو اُجاگر کیا جائے۔ اور سیرت کے موضوع پر مقالات اور کالم لکھے جائیں۔ جن سے مسئلہ ختمِ نبوت کی وضاحت ہو۔

65۔اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز اور لکھاریوں سے رابطہ کیا جائے اور انہیں اسوۂ حسنہ پر لکھنے کی ترغیب دی جائے۔

66فیس بک /ٹویٹر اور یوٹیوب (الیکٹرانک میڈیا) کے تمام تر ذرائع کو متحرک کیا جائے، کہ جہاں بے حیائی کے فروغ میں کسی ضابطے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا وہاں سیرت النبی کے موضوعات کا انتخاب عمل میں لا کر کم از کم اپنی اسلام دوستی اور مسلمانی کا ہی ثبوت دیا جائے۔

67۔سافٹ ویئرز اور سی ڈیز تیار کرنے والی عالمی کمپنیوں سے اس سلسلہ میں کام لیا جا سکتا ہے۔

68۔سیرت النبی کے موضوعات پر مختلف زبانوں میں کتب شائع کی جائیں، اور انہیں بڑے بڑے بک سینٹر ز ،یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں بھیجا جائے۔

69۔سیرت النبی پر میگزین شائع کئے جائیں اور خصوصی نمبرزکی اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔

70۔مختلف اداروں اور تنظیموں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے، کہ وہ ایک خصوصی فنڈ کا اہتمام کر کے سیرت النبی پر کتب کی اشاعت و تقسیم کا بندوبست کریں۔

71۔دوسرے مذاہب اور غیر مسلموں سے مثبت انداز میں مکالمے کیے جائیں اور انہیں سیرت مصطفیٰ سے آگاہی دی جائے۔

72۔عقیدۂ ختم نبوت، حقوقِ رسالت، فضائلِ رسالت اور خصائصِ نبوت کے موضوعات پر مشتمل ایسے چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے تیار کیے جائیں۔ جنہیں میسج کے ذریعہ فیس بک اور ٹویٹریر دیا جاسکے۔

73۔سیٹیلایٹ چینل، انٹر نیٹ، ریڈیو اور ٹی وی پر سیرت النبی پر مبنی پروگرام نشر کیے جائیں۔

74۔میڈیا کو اس طرف راغب کر کے اس مسئلہ کی اہمیت واضح کی جائے آخر وہ بھی تو اسی کلمہ گو برادری کا حصہ ہیں۔

75۔تعلیمی نصاب میں ختم ِ نبوت کے عنوان کو اُجاگر کیا جائے اور مسئلہ ختم نبوت کو زیرِبحث لایا جائے۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی سیمینارز کا انعقاد کرکے طلباوطالبات اور اساتذہ میں دلچسپی کے مواقع پیدا کیے جائیں۔

ۭ٭…٭…٭

فتاوی

سوال:سرپر نقلی بال(وِگ)لگانےکے بارے میں شریعت کا کیاحکم ہے؟

جواب:اسلام دین فطرت ہے انسان جتنا فطرت کے قریب ہوتااتنا ہی زیادہ خوبصورت ہوتاہے نبی کریم نے فرمایا

 کل مولود یولدعلی الفطرۃ (بخاری1385)

کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ایک بچہ جب بغیر کریم اور مصنوعی بال لگوائےبغیر خوبصورت ہوسکتاہےتو کیا جوان ہونے پر اسے فطرت کی خوبصورتی کافی نہیں ہوتی۔ انسان اگرفطرت پراسی طرح چلےجس طرح اسے دین فطرت نے چلنےکا حکم دیا تو وہ فطری طور پر خوبصورت لگتا ہے۔لیکن جب آدمی اللہ کی دی ہوئی نعمت سےقانع نہیں ہوتا تو اسے ہمیشہ اپنی خوبصورتی بچانے کے لیے طرح طرح کی اشیاء استعمال کرنی پڑتی ہیں پھر بھی اس کی اصل خوبصورتی برقرار نہیں رہتی اسی وجہ سے اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جو فطرت کے منافی ہو، خوبصورتی کے لیے ایک غیر فطری عمل جو فطری طور پر اچھا تصور نہیں کیا جاتاوہ ہے مصنوعی بال لگانا ۔

حدیث میں آتاہے :

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَعَنَ اللہُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ وَالوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ (سنن الترمذي أبواب اللباس باب ما جاء في مواصلة الشعر الحدیث:1759)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے بال میں جوڑے لگانے والی، بال میں جوڑے لگوانے والی، گدناگوندنے والی اورگدناگوندوانے والی پرلعنت بھیجی ہے۔

دوسری روایت میں ہے :

عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللہُ عَنْهَا: أَنَّ جَارِيَةً مِنَ الأَنْصَارِ تَزَوَّجَتْ، وَأَنَّهَا مَرِضَتْ فَتَمَعَّطَ شَعَرُهَا، فَأَرَادُوا أَنْ يَصِلُوهَا، فَسَأَلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَعَنَ اللہُ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ (صحیح البخاری کتاب اللباس باب الوصل فی الشعر الحدیث : 5934 )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انصار کی ایک لڑکی نے شادی کی ۔ اس کے بعد وہ بیمار ہوگئی اور اس کے سرکے بال جھڑگئے ، اس کے گھر والوں نے چاہا کہ اس کے بالوں میں مصنوعی بال لگادیں ۔ اس لئے انہوں نے نبی کریم >سے اس کے متعلق پوچھا ۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔

ایک اور روایت میں ہے : 

عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَتْ: لَعَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الوَاصِلَةَ وَالمُسْتَوْصِلَةَ (صحيح البخاري کتاب اللباس باب الوصل في الشعر الحديث 5936)

سیدہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت بھیجی ہے ۔

ہر وہ کام جس پر لعنت کا لفظ وارد ہو وہ کبیرہ گناہ میں شمار کیاجاتاہے انہی ادلہ کی روشنی میں اس فعل پر بھی لعنت کا لفظ مستعمل ہوا ہے جوکہ کبیرہ گناہ اور اسلام میں ناجائز فعل ہے۔اس لیے وِگ وغیرہ لگانا حرام ہے کیونکہ وگ لگانے پر دین میں لعنت کا لفظ وارد ہواہے امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

وهذه الأحاديث صريحة في تحريم الوصل ولعن الواصلة والمستوصلة مطلقا وهذا هو الظاهر المختار

یہ احادیث وگ کی حرمت اور وگ لگانے اور لگوانے والی پر لعنت میں مطلق طور پر واضح ہیں اوریہی مذہب ظاہر و مختار ہے۔(14/87)

فقال مالك والطبري وكثيرون أو الأكثرون الوصل ممنوع بكل شيء سواء وصلته بشعر أو صوف أو خرق واحتجوا بحديث جابر الذى ذكره مسلم بعد هذا أن النبي صلى الله عليه وسلم زجر أن تصل المرأة برأسها شيئا (شرح مسلم للنووی 14/88)

امام مالک ،امام طبری اور دیگر بہت سے ائمہ دین رحمۃاللہ علیہم نے فرمایا۔بالوں کو کسی بھی چیز کے ساتھ جوڑنا منع ہے خواہ انہیں دیگر بالوں ،اون یا کپڑے کے ساتھ جوڑا جائے اور ان ائمہ نے جابر بن عبداللہ w کی اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کے بعد ذکر کیا ہے کہ نبی کریم نے عورت کو اس بات سے ڈانٹا کہ وہ اپنے سر کے بالوں کے ساتھ کسی اور چیز کو جوڑے۔

امام نووی رحمۃاللہ اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:اس حدیث میں یہ بات ہے کہ وگ لگانا حرام ہے خواہ وہ معذور کے لیے ہو یا دلہن کے لیے یا ان دونوں کے علاوہ کے لیے:

نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اس کے بعدفرماتے ہیںـیہی بات برحق ہےحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ فرماتے ہیں:

وفی  ھٰذا الحدیث حجۃ لمن قال یحرم الوصل فی الشعر والوشم۔۔۔۔ (فتح الباری10/377)

اس حدیث میں ایسے آدمی کے لیے دلیل ہے جو کہتا ہے کہ بالوں میں وگ لگانا ،جسم گود کر نیل بھرنا اور چہرے کے بال نوچنا فاعل اور مفعول دونوں پر حرام ہے اور یہ ان لوگوں پر حجت ہے جو اس ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کرتے ہیں ،اس لیے کہ لعن کی دلالت حرمت پر قوی ترین دلالتوں میں سے ہے بلکہ بعض کے نزدیک کبیرہ گناہوں کی علامت میں سےہے ۔

مندرجہ بالا صحیح احادیث اور ائمہ محدثین کی تشریحات سے واضح ہوا کہ مصنوعی بال کا لگانا ممنوع اور حرام ہے اور یہود کی عادات میں سے ہے،مرد و زن اس حکم میں برابر ہیں ۔ گنجے پن کو ختم کرنے کے کیے صحیح علاج کرایا جا سکتا ہے ۔ اللہ تعالی نے ہر بیماری کے لیے دوا و علاج رکھا ہے۔

سوال : سالگرہ منانے کے بارے میں شرعیت کیا کہتی ہے؟

جواب:فرمان رسول ہے :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابي داؤد کتاب اللباس باب في لبس الشھرۃ الحديث 4031)

’’جس شخص نے جس قوم کی بھی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

اس حدیث سے بخوبی معلوم ہوا کہ وضع وقطع میں غیر مسلموں کی مخالف کرنی ہےچونکہ سالگرہ مناناعیسائیوں ، ہندوؤںاوردیگر غیر مسلموں کا طریقہ ہے اسی لیے ان کے اس عمل میں اگر کوئی شریک ہوگا تو گویا اس نے غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کی جوکہ مذکورہ حدیث کی روشنی میں جائز نہیں۔سالگرہ منانے والوں کی تین اقسام ہیں :

1۔ سالگرہ کو اسلام سمجھ کر منانا یہ بدعت ہے فرمان نبوی ہے :

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ (صحيح مسلم كتاب الاقضية باب نقض الاحكام الباطلة الحديث : 1718)

’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا عمل نہیں تو نامقبول ہے۔‘‘

اس حدیث سےواضح ہوا کہ جو شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کو نبی کریم  نے نہیں کیا تو اس کی حیثیت اسلام میں ذرہ برابر بھی نہیںلہٰذا جو شخص اس کو اسلام سمجھ کر کرتاہے گویا وہ بدعت کا مرتکب ٹھہرتاہےلیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

2۔ وہ لوگ جو سالگرہ کو لہو ولعب اور خوشی سمجھ کر مناتے ہیں تو یہ شرعاً ناپسند فعل ہے کیونکہ شریعت مطہرہ نے خوشیاں منانےکیلئے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے ایام کو مخصوص اور مقرر کیاہے۔اور اس لیے بھی منع فرمایا کہ اس میں مال کا ضیاع جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : 

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ

فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘(الاسراء27)

3۔ وہ گروہ جو عیسائی اور غیر مسلموں سے متاثر ہو کر مناتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز اور حرام فعل ہے جیسا کہ فرمان رسول  ہے : 

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن ابي داؤد کتاب اللباس باب في لبس الشھرۃ الحديث 4031)

’’جس شخص نے جس قوم کی بھی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے۔‘‘

غیر مسلموں کے رنگ میں رنگنا بھی حرام فعل ہے فرمان محمدی ہے :

لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ (صحيح البخاري کتاب احادیث الانبیاء باب ما ذكر عن بني إسرائيل الحدیث:3456)

ضرور تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کی پیروی کرو گے ہاتھ در ہاتھ اور بالشت دربالشت (یعنی ذرا سا بھی فرق نہ ہوگا) ۔‘‘

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سالگرہ منانا درست نہیں لہٰذا سالگرہ منانا ناپسندیدہ اور غیر شرعی عمل ہے ۔

 واللہ اعلم بالصواب

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری مسلمان کی مثال کھجور کے درخت کی مانند

بَابُ قَوْلِ المُحَدِّثِ: حَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا، وَأَنْبَأَنَا

محدث کا کہنا۔ہم سے بیان کیا اور ہم کو خبردی اور ہمیں بتلایا۔

1061– حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي قَالَ عَبْدُاللَّهِ وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ ثُمَّ قَالُوا حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هِيَ النَّخْلَةُ .

قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ نے (صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا ہے) کہ اس کے پتے (خزاں کے سبب سے) نہیںجھڑتے اور وہ مسلمان کی مثال ہے فحدثونی ماھی (تو) تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال) میں پڑگئے۔ ( عبداللہ بن عمر) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آگیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (بڑوں کے سامنے پیش قدمی کرنے سے) شرما گیا، بالآخر صحابہ نے عرض کیا کہ حدثنا ماھی یا رسول اللہﷺ  (اے اللہ کے رسول) آپ ہی ہم سے بیان فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

Narrated Ibn ‘Umar: Allah’s Apostle said, “Amongst the trees, there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim. Tell me the name of that tree.” Everybody started thinking about the trees of the desert areas. And I thought of the date-palm tree but felt shy to answer the others then asked, what is that tree, O Allah’s Apostle?”

He replied, “It is the date-palm tree.”

نوٹ : اس حدیث کے دیگرتوابع و شواہد ہیں وہ بھی سارےرباعی الاسناد ہیں۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وبه ( رقمه:62)
وروى بسند آخر حدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وبه وفى لفظ ُ قَالَ عَبْدُاللَّهِ فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي فَقَالَ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا( رقمه:131  )
وروى بسند آخر حدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و به 
وعَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ فَقَالَ لَوْ كُنْتَ قُلْتَهَا لَكَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا(له متابعة و شاهد رقمه 6122)

معانی الکلمات

شَجَرَةً: درخت

لَا يَسْقُطُ :نہیں جھڑتے

وَرَقُهَا:اس کے پتے

النَّخْلَةُ :کھجور کا درخت

فَاسْتَحْيَيْتُ:میں نے شرم محسوس کی

تراجم الرواۃ

1۔نام و نسب:قتیبۃ بن سعید بن جمیل بن طریق الثقفی البلخی البغلانی

کنیت:ابو رجاء

محدثین کے ہاں رتبہ:ابورجاء نے حصول علم کےلیے،مکہ المکرمہ ،مدینہ منورہ ،شام عراق اورمصر کے سفر کیے۔امام مالک بن انس ،اللیث بن سعید اور عبداللہ بن لھیفہ ،حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ وغیرہم سے علم حاصل کیا ۔

ابو بکر الاثرم کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو قتیبہ بن سعید کےبارےمیں تعریفی کلمات کہتے ہوئے سنا۔

امام ابو حاتم الرازی بھی قتیبہ بن سعیدکو ثقہ کہتے ۔امام ابن حجر کے ہاں رتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

وفات:ابو رجاء قتیبہ بن سعید 150 ھجری میں پیدا ہوئے اور 90 سال کی عمر میں240 ھجری میں وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

2۔نام و نسب:اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری الرزقی المدنی القاری ۔

کنیت:ابو اسحاق

محدثین کے ہاں رتبہ:امام علی بن المدینی کہتے تھے کہ اسماعیل ثقہ تھے۔امام ابن الحجر کے ہاں رتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

اسماعیل بن جعفر قاری اہل مدینہ تھے۔

وفات:اسماعیل بن جعفر کی ولادت 130ھجری میں ہوئی اور وفات 180ھجری  میں ہوئی۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

3۔ نام و نسب:عبداللہ بن دینار العدوی العمری المدنی

کنیت:ابو عبدالرحمٰن

محدثین کے ہاں رتبہ:عبداللہ بن دینار کا شمار عبداللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنھما کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔

اما م ا بن الحجر کے ہاںان کارتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

وفات:عبداللہ بن دینار کی وفات 127 ھجری میں ہوئی۔

امام الحافظ احمد بن علی الاصبھانی کہتے ہیں کہ ان کی ایک حدیث 20 حدیثوں کے برابر ہے۔

4۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا تعارف حدیث نمبر1 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح:

اس حدیث میں رسول اللہ نے مسلمان کی مثال کھجور کے درخت سے دی ہے کیونکہ اس درخت کے تمام اجزاء سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کا ہر حصہ فائدہ مند ہوتا ہے اور یہ فائدہ ہر وقت جاری رہتا ہے اس سے حاصل ہونے والا پھل ہر وقت قابل استعمال ہوتا ہے ۔کھجور کو پکنے سے پہلے کھجی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،پھر تیار ہونے کے بعد کھایا جاتا ہے اور سوکھ جانے کے بعد بھی قابل استعمال ہوتی ہے ،یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلی بھی فائدہ مند ہوتی ہے اورصحرامیں سفر کےدوران یہ پیاس بجھانے کا ذریعہ بنتی ہے ،اسی طرح مسلمانوں کی برکت بھی عام ہے ہر حال میں اس میں بھلائی ہے اوراس کا نفع اپنے لیے اور دوسروں کے لیے جاری دیتا ہے اور یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ (فتح الباری)

مسلمان کو کھجور کے درخت کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی کہ اس میں بہت ساری بھلائیا ں پائی جاتی ہیں اور اس کا سایہ ہمیشہ رہتا ہے کیونکہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور اس کا پھل بھیخوش ذائقہ ہوتا ہے اور جب سے اگتا ہے تب سے لیکر اس کے خشک ہونے تک قابل استعمال رہتا ہے اور خشک ہونے کے بعد بھی اس سے کئی فوائد حاصل کیے جاتے ہیںاسی طرح تمام جاندارکھجور کے درخت اسکی لکڑی اس کے تنے اور اس کی ٹہنیو ں اس کے پتوں سے لوگ مستفیدہوتے رہتے ہیں اور اس کی گٹھلی جو اونٹ کے چار ے کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے اسی طرح مسلمان کہلانےوالےکی بھی مثال ایسی ہوتی ہےاور ہونی بھی چاہیے۔

اسکی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ دیکھنے میں یہ اور اسکا پھل بھی خوبصورت لگتا ہے اسی طرح مومن کی مثال ہے کہ اس کا ہر کام بھلائی ہی بھلائی ہے اسکی اطاعت مکارم اخلاق اور عبادات کی وجہ سے اور اس کے یہ اعمال ہمیشہ رہتے ہیں جس طرح کھجور کے پتے ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔جس طرح کھجور کا پودا ہر طرح کے موسم گرمی سردی ، آندھی طوفان اور حالات کا صبر و استقامت سے مقابلہ کرتا ہے۔مسلمان کو بھی ایسا ہوناچاہیے کہ وہ بھی زندگی کے نشیب و فراز میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے۔کھجور کے درخت کی ایک اور خوبی بیان کی جاتی ہےکہ اس کے نیچے ہر طرح کا دوسرا پودا اُگ سکتا ہے مسلمان میں یہ صفت بدرجہ اتم ہونی چاہیے کہ وہ کسی دوسرےکی تعمیرو ترقی اور آگے بڑھنے میں ہر گز حائل نہیں ہوتا۔

اور بعض نے اسکی یہ تشبیہ بھی بیان کی ہے کہ اگر کھجور کے درخت کا سر کاٹ دیا جائےتو یہ باقی نہیں رہتا بخلاف دوسرے درختوں کے ۔اسی طرح مسلمان کی بھی مثال ہےکہ اگر اسکے اعمال ختم ہوجائیںتو اس کے ایمان میں روح باقی نہیں رہتی ۔(شرح البخاری لکرمانی)

اور بعض نے اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ اگر کھجور کے درخت کو پتھر ماراجائےتو اس سے پھل گرتے ہیں پتے نہیں گرتے اسی طرح اگر کوئی مسلمان سے برا ئی کرے تو مسلمان اس کے بدلے میں اچھائی کرتا ہے ۔

۔۔۔۔

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں(قسط14)

چھبیسواں اصول:

 اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔‘‘

اس قرآنی اصول کا لوگوں کی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے اور اس زمانے میں اس اصول کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے‘ اس لیے کہ خبروں کی اشاعت کے وسائل بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔

سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے بہت سارے عظیم آداب سکھائے ہیں‘ اسی ضمن میں قرآن ِ کریم کا یہ اصول بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ    (الحُجرات6)

’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو‘ پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘                              

 اس آیت کی معروف سات قرآنی قراء توں میں سے ایک قراء ت میں یہ لفظ ’’تَثَبَّتُوْا‘‘ ہے ‘یعنی خبر کو ثابت کرلیا کرو۔ اس قراء ت کو سامنے رکھیں تو معاملہ اور بھی زیا دہ واضح ہو جاتا ہے۔ یہ آیت عام مسلمانوں کو حکم دے رہی ہے کہ جب کسی خبر کو سنو تو دو اعتبار سے اس کی تحقیق کر لیا کرو:

(۱)  خبر کی سچائی کی تحقیق۔

(۲)  اس خبر کی حقیقت تک رسائی۔

سوال : کیا ان دونوں باتوں میں فرق ہے؟

جواب: ہاں ‘ اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خبر بذاتِ خود صحیح ہو‘ لیکن اس کی حقیقت کے بارے میں خبر نہ ہو۔ ہم اس بات کی وضاحت ایک واقعے کے ذریعے کر سکتے ہیں اور یہ واقعہ رسول اللہ کی زندگی میں پیش آیا۔ نبی اکرم مسجد سے نکلے کہ اپنی زوجہ محترمہ اُمّ المؤمنین سیدہ صفیہ rکو گھر تک پہنچا سکیں‘ تو آپ کو دو صحابہ کرام t نے دیکھ لیا اور انہوں نے جلدی جلدی قدم بڑھا دیے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی چال چلتے رہو‘ یہ صفیہ ہیں‘‘۔ اگر کوئی روایت بیان کرنے والا کہتا کہ میں نے دیکھا کہ رات کی تاریکی میںنبی اکرم ایک عورت کے ساتھ جا رہے تھے تو اُس کی بات صحیح تھی‘ لیکن اُسے حقیقت حال کا پتا نہیں تھا۔ اسی کو تحقیق کہتے ہیں ۔

ایک اور مثال دیکھ لیں جس سے ہمیں روزانہ واسطہ پڑتا رہتا ہےکہ لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف جارہے ہیںاور ایک آدمی اپنے گھر میں داخل ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اعتراض ہو کہ نماز کھڑی ہو نے کے بعد فلاں شخص اپنے گھر چلا گیا تو بات بظاہر صحیح ہے‘ لیکن کیا اس کے سبب کی تحقیق کی گئی؟ اعتراض کرنے والے کو کیا خبر‘ ممکن ہے بندہ ابھی ابھی سفر سے آیا ہو اور اُس نے راستے میں ہی جمع وتقدیم کر کے نماز ادا کر لی ہو ‘ لہٰذا اِس وقت اُس پر نماز فرض ہی نہ ہو ‘ یا اس کے علاوہ بھی اس کے پاس کوئی عذر ہو !

ایک دوسری مثال پر غورکریں جس سے ہمیں رمضان میں واسطہ پڑتا ہے۔ کسی نے دیکھا کہ ایک آدمی رمضان میں دن کے وقت کچھ کھا پی رہا ہے۔ اگر کوئی اس خبر کو بیان کرے کہ اُس نے فلاں شخص کو دن میں کھاتے پیتے دیکھا ہے ‘ تو بیان کرنے والا سچا ہے لیکن کیا اُس نے معاملے کی تحقیق کر لی ہے؟ ممکن ہے کہ بندہ مسافر ہو اور اُس نے دن کے ابتدائی حصے میں روزہ کھول لیا ہو اور پھر اسی حال پر قائم ہو۔ واضح رہے کہ اہلِ علم کی ایک جماعت کے نزدیک یہ صحیح ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مریض ہو ممکن ہے کہ اس نے بھول کر کھا لیا ہو یااور بھی کوئی عذر ہوسکتا ہے۔

اس قرآنی اصول کے کچھ اور بھی مطالب ہیںـ:

(۱) جن خبروں کو پھیلانے سے خطرات جنم لیتے ہوں اُن خبروں کو پھیلانے میں جلد بازی کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے لوگوں کو برا کہا ہے‘ فرمایا:

وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا      (النساء:83)

’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں‘ حالانکہ اگر یہ اُسے رسول () اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اَصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو اُن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اَخذ کر سکیںاور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔‘‘

جب یہ بات واضح ہو کر سامنے آگئی توسخت افسوس ناک بات ہے کہ خود مسلمانوں کی بڑی اکثریت اس قرآنی اصول کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہوتی ہے ‘جس میں فرمایا گیا:

اِنْ جَآء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔‘‘

جدید وسائل ِ اطلاعات ونشریات‘ جیسے موبائل ‘ انٹر نیٹ اوردوسرے ذرائع کی وجہ سے اس معاملے کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ ان وسائل کے ذریعے سب سے زیادہ جھوٹ نبی اکرم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں بولا جاتا ہے۔ کتنے ہی جھوٹے قصے اور احادیث آپ کی طرف منسوب کیے گئے‘ بلکہ اس قسم کے جھوٹ بھی آپ کے نام سے بولے گئے جو کسی دوسرے انسان کی طرف منسوب کرنا بھی صحیح نہیں‘ کجا یہ کہ انہیں آپ کی ذاتِ مبارکہ کی طرف منسوب کیا جائے۔

اور اس کے قریب ترین خطرناک بات یہ ہے کہ علماء کرام کی بات کو نقل کرنے میں جلد بازی کی جائے‘ جبکہ علماء انبیاء oکے وارث ہیں‘ اور عام مسلمان اُن کی بات کا انتظارکرتے رہتے ہیں‘ اُن کے اقوال کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح کی غیر تسلی بخش خبر پھیلانا حرام ہے اور قطعاً جائز نہیں جبکہ ہمیں حکم ہے کہ عام خبروں کی تحقیق کر لیا کریں تو پھر نبی اکرم اور آپ کے ورثاء (علماء) سے متعلق خبروں کی تحقیق کرنا تو اور زیادہ ضروری ہے۔

اور یہی حکم ہو گا مسلمانوں کے حکمرانوںکی بات نقل کرنے کے بارے میںاور معاشرے کے اُن بڑے لوگوں کی بات نقل کرنے کے بارے میںجن کی بات کا معاشرے میں کوئی وزن ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ معاملے کی اچھی طرح تحقیق و تفتیش کر لی جائے ‘اس سے پہلے کہ خبر پھیلانے والا خود شرمندہ ہواور اُس وقت شرمندہ ہونا کوئی فائدہ نہیںدیتا۔اور میاں بیوی کو بھی اس قرآنی اصول پر عمل کرنا چاہیے:

اِنْ جَآء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا(الحجرات:6)

’’اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو‘‘۔ نیز والدین کواپنے بچوں کے بارے میں اور بچوں کو اپنے والدین کے بارے میں اس اصول پر عمل کرنا چاہیے۔اوریہی صورتِ حال اُس وقت بنتی ہے جب غیر مقصودی یا مذاق سے کوئی میسج خاوند کے موبائل پر آجائے اور اسے بیوی دیکھ لےنتیجتاً وہ اپنے خاوند پر خیانت (ناجائز تعلقات)کا الزام دھر دیتی ہے اور میسج کی تحقیق کرنے سے پہلے ہی طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے ۔

جب آپ صحافت یا دیگر وسائل نشریات کے میدان میں داخل ہو کر دیکھیں تو اس قرآنی حکم کی دھجیاں اڑتی ہوئی دیکھ کرتعجب میں ڈوب جائیں گے۔ کتنی ہی بار تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی گئیں کسی ایسی خبر کی وجہ سے جو یا تو سرے سے ہی غلط تھی یا اس میں اس قدر مبالغہ اور مرچ مسالا تھا کہ اس نے قارئین یاناظرین کو یہ باور کروایا کہ یہ معاملہ بہت بڑا اور خطرناک ہے‘ حالانکہ ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں ۔

لہٰذا ہر مسلمان کا فرض ہےکہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی قدر ہے وہ اپنے رب سے ڈرتا رہے اور اس قرآنی حکم پر عمل پیرا ہو ‘جس کی طرف اس قرآنی اصول نے ہماری راہنمائی کی ہے ۔ فرمایا: ’’فَتَبَیَّنُوْا‘‘ چنانچہ معاملے کی تحقیق کر لیا کرو!

(جاری ہے)

 فضل شهر المحرم وصوم یوم عاشوراء

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ،أما بعد:
إن شهر الله المحرَّم هو شهرٌ مبارك عظيم، يَعظُم فيه العملُ الصالح، فهو أولُ شهور السنة الهجرية، وقد أُمِرنا بتعظيم شعائر الله حیث قال جل سبحانہ : {ومن یعظم شعائر اللہ فإنہا من تقوی القلوب} وشهرُ محرم من الشعائر الزمانية التي خصَّها الإسلام بمزايا عظيمة، ودعا إلى اغتنامها طمعًا في الأجر والمثوبة لِما اشتملت عليه هذه الشعائر من مزايا وفضائلَ جَمَّة.
فضائل شهر الله المحرم:
شهر المحرم هو من الشهور الحرم التي عظمها الله تعالى وذكرها في كتابه فقال سبحانه وتعالى: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ [التوبة: 36].
لقد خصَّ الله تعالى أربعة الأشهر الحُرُم بتحريم الظلم والقتال فيها، رغم أن الظلم حرامٌ في كل الأزمان، لكن الظلم في هذه الأشهر أعظم جُرمًا، وذلك اعتبارًا لمكانة هذه الشهور العظيمة في الإسلام، كما أن العمل الصالح يَعظُم فيها وتُضاعَف الحسنات إلى أضعاف كثيرة
وشرف الله تعالى هذا الشهر من بين سائر الشهور فسمي بشهر الله المحرم فأضافه إلى نفسه تشريفاً تعظیما له وإشارة إلى أنه حرمه بنفسه وليس لأحد من الخلق تحليله كما بين رسول الله صلى الله عليه وسلم تحريم الله تعالى لهذه الأشهر الحرم ومن بينها شهر المحرم لما رواه أَبو بكرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: إنَّ الزمان قد استدار كهيئتِهِ يوم خلق اللهُ السماواتِ والأرضَ، السنةُ اثنا عشر شهرًا؛ منها أربعةٌ حُرُمٌ؛ ثلاثٌ مُتوالياتٌ: ذُو القَعدةِ، وذُو الحِجَّةِ، والمُحرَّمُ، ورجبُ مُضر الذي بين جُمادى وشعبان(متفق علیہ)
وقد رجح طائفة من العلماء أن محرم أفضل الأشهر الحرم، قال ابن رجب: وقد اختلف العلماء في أي الأشهر الحرم أفضل فقال الحسن وغيره: أفضلها شهر الله المحرم ورجحه طائفة من المتأخرين(لطائف المعارف 70)
ويدل على هذا ما أخرجه النسائي وغيره عن أبي ذر رضي الله عنه قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم: أي الليل خير وأي الأشهر أفضل؟ فقال: خير الليل جوفه وأفضل الأشهر شهر الله الذي تدعونه المحرم (رواہ الإمام النسائی فی الکبری والدارمي وأحمد والطبراني والبيهقي والحديث صحيح)
بداية العمل عند المسلمين بالتاريخ الهجري
شهر الله المحرَّم هو مبدأ التاريخ الهجريِّ لأمَّة الإسلام، فإنَّ المسلمين في عهد عمر رضي الله عنه فكَّروا بأيِّ شيءٍ يُؤرِّخون كتبهم، ويعرفون الأحوال، فاستشار عمرُ المسلمين في ذلك، فاتَّفق رأيُهم على أن الشَّهر المحرَّم هو مبدأ العام الهجري (المستدرک علی الصحیحین للحاکم (3/ 15) من طريق سعيد بن المسيب، قال: “جمع عمر الناس…”؛ قال الحاكم: “هذا حديثٌ صحيح الإسناد، ولم يخرجاه”، ووافقه الذهبي)
فضل الإكثار من صيام التطوع في شهر المحرم
ما من فعل خیر إلا وقد حض وحث علیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وما من شر إلا وقد رھب وحذر عنه أمتہ لا شك أن الصوم من أفضل الأعمال وأحبه إلى الله عز وجل لذا رغب أمته على الصيام التطوع مطلقا وقد أسرد بحمد اللہ ومنہ وکرمہ في السطور التالية حدیثین في فضل الإکثار من صيام التطوع في شهر الله المحرم مع شرح بسيط من شروحات الشارحين
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ – رضي الله عنه -، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم -: أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ. وَأَفْضَلُ الصَّلاةِ، بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلاةُ اللَّيْلِ.(صحيح مسلم، 1163)
فمما يسن صيامه شهر المحرم وهو الذي يلي شهر ذي الحجة، وهو الذي جعله الخليفة الراشد أمير المؤمنين عمر بن الخطاب أول شهور السنة، وصومه أفضل الصيام بعد رمضان. (الشرح الممتع على زاد المستقنع: (6/468469)
والظاهر أن المراد جميع شهر المحرم. (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (4/467)
ولكن حيث ورد أنه – صلى الله عليه وسلم – لم يصم شهرا كاملا إلا رمضان، للحديث التالي:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ – رضي الله عنها: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم – يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟ قَالَتْ: مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلا رَمَضَانَ، وَلا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ – صلى الله عليه وسلم ۔ (صحيح مسلم، 1156)
فيُحمل الحديث الأول على الترغيب في الإكثار من الصيام في شهر المحرم. وقوله – صلى الله عليه وسلم -: (أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم) تصريح بأنه أفضل الشهور للصوم. وأضاف الشهر إلى الله تعظيما (تحفة الأحوذي: (3/164)
فإن قلت: قد ثبت إكثار النبي – صلى الله عليه وسلم – من الصوم في شعبان، وهذا الحديث يدل على أن أفضل الصيام بعد صيام رمضان هو صيام المحرم. فكيف أكثر النبي – صلى الله عليه وسلم – منه في شعبان دون المحرم؟ ففيه جوابين:
أحدهما: لعله إنما علم فضله في آخر حياته
والثاني: لعله كان يعرض فيه أعذار، من سفر أو مرض أو غيرهما. (شرح صحيح مسلم للنووی8/55)
وقد ورد في الحض على صيام التطوع مطلقا
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ – رضي الله عنه -، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم -: مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلا بَاعَدَ اللَّهُ، بِذَلِكَ الْيَوْمِ، وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا (صحيح مسلم، 1153)
وعَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ – رضي الله عنه -، عَنْ النَّبِيِّ – صلى الله عليه وسلم -، قَالَ: مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا، كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَاْلأرْضِ (صحيح سنن الترمذي للألباني، 1624)
وعَنْه – رضي الله عنه – أيضا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لاَ عَدْلَ لَهُ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مُرْنِي بِعَمَلٍ. قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لاَ عِدْلَ لَهُ. (صحيح سنن النسائي للألباني، 2222 )
فضل صيام يوم عاشوراء:
حث النبي صلى الله عليه وسلم على صوم عاشوراء وهو العاشر من محرم لما فيه من الأجر العظيم والثواب الجزيل من الله جلَّ في علاه، كان صومُ يوم عاشوراء من شهر الله المحرم واجبًا في الابتداء قبل أنْ يُفْرض رمضان، فلما فُرض رمضان، فمَنْ شاء صام عاشوراء ومَنْ شاء ترك وقد وردت أحادیث فی فضل صیام یوم عاشوراء فعن ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهمَا – قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ – صلى الله عليه وسلم – الْمَدِينَةَ، فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (صحيح البخاري، 2004)
وقد أخرج أحمد من وجه آخر عن ابن عباس زيادة في سبب صيام اليهود له، وحاصلها أن السفينة استوت على الجودي فيه، فصامه نوح وموسى شكرا. (فتح الباري: (4/291)
وذکر ابو التراب العفانی فی کتابہ ’’نداء الریان‘‘ حیث قال : ’’وهذا الحديث أفاد تعيين الوقت الذي وقع فيه الأمر بصيام عاشوراء وقد كان أول قدومه المدينة، ولا شك أن قدومه كان في ربيع الأول فحينئذ كان الأمر بذلك في أول السنة الثانية (نداء الريان في فقه الصوم وفضل رمضان للعفانی (1/499)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهمَا – قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ – صلى الله عليه وسلم – يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلا هَذَا الْيَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ، يَعْنِي: شَهْرَ رَمَضَانَ. (صحيح البخاري، 2006) ومعنى ” يتحرى ” أي يقصد صومه لتحصيل ثوابه والرغبة فيه(فتح الباري: (4/292)
ورتب الشارع الحكيم على صوم عاشوراء بتكفير ذنوب سنة كاملة وهذا من فضل الله علينا فعَنْ أَبِي قَتَادَةَ – رضي الله عنه – قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صلى الله عليه وسلم -: صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ. (صحيح مسلم، 1162)
وعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رضي الله عنهمَا -، قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ-صلى الله عليه وسلم – بِصَوْمِ عَاشُورَاءَ: يَوْمُ الْعَاشِرِ (صحيح سنن الترمذي للألباني، 755 )
وعَنْ أَبِي مُوسَى – رضي الله عنه -، قَالَ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا. قَالَ النَّبِيُّ – صلى الله عليه وسلم -: فَصُومُوهُ أَنْتُمْ (صحيح البخاري، 2005)
وظاهر هذا أن الباعث على الأمر بصومه محبة مخالفة اليهود حتى يصام ما يفطرون فيه، لأن يوم العيد لا يصام (فتح الباري: (4/292) وهذا يدل على النهي عن اتخاذه عيدا (لطائف المعارف: (124)
صفة صيام النبي لعاشوراء:
كان للنبي – صلى الله عليه وسلم – في صيامه لعاشوراء أربع حالات:
الحالة الأولى: أنه كان يصومه بمكة ولا يأمر الناس بالصوم کما فی الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها قالت:  أن قريشا كانت تصوم يوم عاشوراء في الجاهلية، ثم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بصيامه حتى فرض رمضان، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شاء فليصمه ومن شاء أفطر (صحیح البخاری :1893 وصحیح مسلم : 1125)
الحالة الثانية: أن النبي – صلى الله عليه وسلم – لما قدم المدينة، ورأى صيام أهل الكتاب له وتعظيمهم له، وكان يحب موافقتهم فيما لم يؤمر به، صامه وأمر الناس بصيامه. وأكد الأمر بصيامه والحث عليه، حتى كانوا يصّومونه أطفالهم.
الحالة الثالثة: لما فُرض صيام شهر رمضان، ترك النبي – صلى الله عليه وسلم – أمر الصحابة بصيام عاشوراء لما رواه مسلم في صحيحه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إن عاشوراء يوم من أيام الله فمن شاء صامه ومن شاء تركه. وفي رواية لمسلم أيضاً: فمن أحب منكم أن يصومه فليصمه ومن كره فليدعه.
الحالة الرابعة: أن النبي صلى الله عليه وسلم عزم في آخر عمره على أن لا يصومه مفردا بل يضم إليه يوما آخر مخالفة لأهل الكتاب في صيامه لما رواه ابن عباس رضي الله عنهما أنه قال: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم عاشوراء وأمر بصيامه قالوا يا رسول الله: إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا التاسع قال: فلم يأتِ العام المقبل حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم (صحیح مسلم : 1134)
قال ابن حجر: فلما فتحت مكة واشتهر أمر الإسلام، أحب مخالفة أهل الكتاب أيضا كما ثبت في الصحيح. فهذا من ذلك، فوافقهم أولا، وقال: نحن أحق بموسى منكم، ثم أحب مخالفتهم، فأمر بأن يضاف إليه يوم قبله… خلافا لهم(فتح الباري: 4/288)
استحباب صيام اليوم التاسع مع عاشوراء:
إن الحدیث المذکور آنفاً فی الحالۃ الرابعۃ فیہ بیان لاستحباب صوم التاسع مع العاشر وقال الشافعي وأصحابه وأحمد وإسحاق وآخرون: يستحب صوم التاسع والعاشر جميعا لأن النبي – صلى الله عليه وسلم – صام العاشر، ونوى صيام التاسع… قال بعض العلماء: ولعل السبب في صوم التاسع مع العاشر ألا يتشبه باليهود في إفراد العاشر. وفي الحديث إشارة إلى هذا(شرح صحيح مسلم: (4/267268)
وآكد صيام شهر المحرم، اليوم العاشر منه يليه التاسع… فإن قال قائل: ما السبب في كون يوم العاشر آكد أيام شهر المحرم؟ أُجيب: إن السبب في ذلك أنه اليوم الذي نجى الله فيه موسى وقومه، وأهلك فرعون وقومه… وقال بعض العلماء: إنه لا يكره إفراد اليوم العاشر بالصيام، ولكنه لا يحصل على الأجر التام إذا أفرده (الشرح الممتع: (6/469471)
وقال بعض أهل العلم: قوله – صلى الله عليه وسلم – في صحيح مسلم ” لئن عشت إلى قابل لأصومن التاسع ” يحتمل أمرين، أحدهما أنه أراد نقل العاشر إلى التاسع، والثاني أراد أن يضيفه إليه في الصوم، فلما توفي – صلى الله عليه وسلم – قبل بيان ذلك كان الاحتياط صوم اليومين.6(فتح الباري: (.64.6/.6289.6)
وقد ذهب بعض أهل العلم إلى أن المخالفة تقع بصيام يوم قبله ويوم بعده، واستدلوا بما رُوي عن رسول الله: ” صوموا يوم عاشوراء، وخالفوا فيه اليهود، صوموا قبله يوما، وبعده يوما” (وهذا الحديث ضعّفه الألباني فی ضعيف الجامع الصغير وزيادته، 3506 ) والله تعالى أعلى وأعلم.
بدع یوم عاشوراء:
كان مقتل الحسين بن علي بن أبي طالب – رضي الله عنه -ما في يوم عاشوراء من شهر المحرم على المشهور. (البداية والنهاية: (8/137)
قال العلامة الشيخ عبدالله الفوزان حفظه الله قد انقسم الناس فی هذا اليوم إلى فئتین:
فئۃ تتخذ يوم عاشوراء يوم مأتم وحزن ونياحة، وتظهر فيه شعار الجاهلية من لطم الخدود، وشق الجيوب، والتعزي بعزاء الجاهلية… وإنشاد قصائد للحزن، ورواية الأخبار التي فيها كذب كثير، والصدق فيها ليس فيه إلا تجديد الحزن والتعصب، وإثارة الشحناء والحرب، والقصد منها فتح باب الفتنة، والتفريق بين الأمة، وهذا عمل من ضلَّ سعيه في الحياة الدنيا، وهو يحسب أنه يحسن صنعًا۔
وفئۃ أخرى من الجهال تمذهبت بمذهب أهل السنة، قصدوا غيظ الطائفة الأولى، وقابلوا الفاسد بالفاسد، والكذب بالكذب، والبدعة بالبدعة، فوضعوا الأحاديث في فضائل عاشوراء، والأحاديث في شعائر الفرح والسرور يوم عاشوراء.
وقد هدى الله تعالى أهل السنة ففعلوا ما أمرهم به نبيهم صلى الله عليه وسلم من الصوم، واجتنبوا ما أمرهم الشيطان به من البدع، فلله الحمد والمنة (رسالة في أحاديث شهر الله المحرم 13)
ولم يرد فيما يفعله الناس في يوم عاشوراء من الكحل، والاغتسال، والحنّاء، والمصافحة، وطبخ الحبوب، وإظهار السرور، وغير ذلك – لم يرد في شيء من ذلك حديث صحيح عن النبي – صلى الله عليه وسلم -، ولا عن أصحابه، ولا استحب ذلك أحد من أئمة المسلمين، ولا الأئمة الأربعة ولا غيرهم، ولا روى أهل الكتب المعتمدة في ذلك شيئا، لا عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا الصحابة ولا التابعين، لا صحيحا ولا ضعيفا، لا في كتب الصحيح ولا في السنن ولا المسانيد، ولا يعرف شيء من هذه الأحاديث على عهد القرون الفاضلة. (مجموع الفتاوى: (25/160161)
وحديث التوسعة على الأهل: ” من وسع على عياله وأهله يوم عاشوراء، أوسع الله عليه سائر سنته “، قال فيه الألباني: طرقه كلها واهية، وبعضها أشد ضعفا من بعض(ضعيف الترغيب والترهيب: (1/313)
فالحرص الحرص على صوم عاشوراء، والله تعالى أسأل أن يتقبل منا صيامنا وأعمالنا، وأن يكفر عنا ذنوبنا، ويحسن ختامنا، وينور قبورنا إنه ولی ذلك والقادر علیہ.

سیدنا حسنین رضی اللہ عنھما اور تربیت نبوی

پیارے بچو ! نبی کریم  اپنے نواسوں کو گود میں لیے پھرتے،کندھوں پر اٹھالیتے ، ان سے لاڈ وپیار کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ

 هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا (صحیح البخاری:3753)

’’یہ دونوں دنیا میں میرے خوشبودارپھول ہیں۔‘‘

رسول اللہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے انتہا درجے کی محبت رکھتے تھے یہاں تک ایک دن فرمایا :

هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا(سنن الترمذی:3769)

’’یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتاہوں ، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ۔‘‘

اور یہ دونوں جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا : 

الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ(سنن الترمذي:3768)

’’ حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘

پیارے بچو! اس ماہ محرم میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت ہوئی ہے ہمیں چاہیے کہ ان ایام میں بے جا فضول کام کرنے کے بجائے ان کی حیات طیبہ کو اپنے لیے اسوہ بنائیں ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالتَّمْرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَيَجِيءُ هَذَا بِتَمْرِهِ وَهَذَا مِنْ تَمْرِهِ حَتَّى يَصِيرَ عِنْدَهُ كَوْمًا مِنْ تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَلْعَبَانِ بِذَلِكَ التَّمْرِ فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَهَا مِنْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ .  ( صحیح بخاری : 1485 )

رسول اللہ کے پاس توڑنے کے وقت زکوٰۃ کی کھجور لائی جاتی ، ہر شخص اپنی زکوٰۃ لاتا اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کھجور کا ایک ڈھیر لگ جاتا۔ ( ایک مرتبہ ) حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ایسی ہی کھجوروں سے کھیل رہے تھے کہ ایک نے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی۔ رسول اللہ نے جونہی دیکھا تو ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی۔ اور فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد کی اولاد زکوٰۃ کا مال نہیں کھا سکتی۔

پیارے بچو ! پیارے نبی کے پیارے نواسے سیدنا حسنین رضی اللہ عنھما کی بچپن سے ہی نبی کائنات تربیت کرتے اور ان سے بہت پیار کرتے تھے مذکورہ حدیث اس کی واضح دلیل ہے۔ ہمیں سیدنا حسنین رضی اللہ عنہ کے متعلق اس اور ایسی کئی احادیث سے بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں مذکورہ روایت سے حاصل ہونی والی چند نصحتیں یہاں ذکر کرتے ہیں ۔

1گھر کے سرپرست کو چاہیے کہ وہ بچوں کی دینی تربیت کرے ۔

2  حرام چاہے کھجور کا ایک دانہ ہی کیوں نہ ہو پرہیز کرنی ہے ۔

3  بچوں کو حرام اشیاء سے آگاہ کیا جائے اور حلال اشیاء کی ترغیب دی جائے ۔

4  بچوں کو جب ناگوارہ کام کرتے دیکھیں تو انہیں ٹوکا اور روکا کریں ۔

5  حرام چیز کی حرمت کے معلوم ہونے سے اسے چاہے منہ میں داخل کردی گئی ہو نکال دینی چاہیے ۔

6  نبی کریم بچوں سے محبت کیا کرتے تھے ۔

7 نبی کریم حسنین رضی اللہ عنھما سے محبت کرتے تھے ۔

8 امانت میں خیانت سے بچیں ۔

9 مال کے نصاب کو پہنچنے کے بعد اس کی زکوة نکالی جائے ۔

0  بہتر یہ ہوگا کہ زکوة کے مال کو بیت المال میں جمع کیا جائے اور وہ اسے اصول شریعہ کے مطابق تقسیم کریں۔

!بچوں سے محبت اور پیار کرنا نبی کریم کی سنت ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے اہل السنّۃ کاموقف کیا ہے؟

امت محمدیہ کے سب سے افضل اور ارفع شخصیات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم تھے قرآن و سنت میں اہل ایمان کے جتنے خصائص بیان ہوئے ہیں وہ بدرجہ اتم صحابہ کرام میں موجود تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنھیں وحی کے ذریعے بار بار براہ راست مخاطب کیا گیا اور بہت سوں کو نام لے کر مختلف اوقات میں جنت کی بشارت دی گئی اور ان سب سے اللہ عزوجل نے “الحسنیٰ” کا وعدہ کیا اور مفسرین نے یہاں حسنی سے مراد جنت لیا ہے۔ آپ نے اپنے زمانے اور پھر اسکے بعد کے زمانے کو بہترین قرار دیا کیونکہ اس میں وہ لوگ موجود تھے جنھوں نے براہ راست رسول اللہ کو دیکھا اور شریعت کو دیکھا صحابہ کرام پہ ایمان کو علماء کرام نے بالاجماع عقیدے کے مسائل میں شمار کیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب خوارج اور روافض نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سب وشتم کا نشانہ بنایا اور انکی شان میں تنقیص کی کوشش کی اور صحابہ کرام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے کیونکہ قرآن اور رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے شک پیدا کرنا مشکل تھا لہذا اصحاب رسول ایسے  شریر لوگوں کے لئے چور رستہ تھا جس سے انھوں نے کبھی انھیں منافق کہاکبھی مرتد کہا اور کبھی کہا کہ وہ جاہل اور غیر فقیہ تھے جو قرآن وسنت کو صحیح سمجھ نا سکے۔ ان سب کے مقابلے میں اہل السنّۃ اعتدال کے مذہب پہ ہیں اور اس چور راستے کو بند کرنے کے لئے اصحاب رسول کے متعلق امور کو عقیدےمیں شمارکرتے ہیں اور درج ذیل امور کو لازم جانتے ہیں:

1اہل السنہ یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل تھے اور ان میں سے ہر ایک پاکیزہ دل اور حب ایمان سے بھرپور تھا انھوں نے من وعن کتاب وسنت میں جو حکم ان کے لئے آیا اسے قبول کیا وہ نفاق اور ارتداد دونوں سے بری تھے وہ رسول اللہ اور انکے اہل وعیال سے شدید محبت رکھتے تھے۔

2 اہل السنّۃ ان صحابہ کو افضل مانتے ہیں جو صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اور مال دونوں پیش کئے اور اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں یعنی صلح حدیبیہ سے قبل اور بعد اسلام لانے والے دونوں سے اچھائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بہتر کس کا وعدہ ہو سکتا ہے!

3اہل السنّۃ قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں مہاجرین صحابہ کو انصار مدینہ سے افضل مانتے ہیں۔

4اہل السنّۃ اہل بدر اور بیعت رضوان میں حصہ لینے والوں کو سب سے افضل مانتے ہیں؛ کیونکہ اہل بدر کے بارے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وكانوا ثلاثمائة وبضعة عشر -: اعملوا ما شئتم؛ فقد غفرتُ لكم (مسلم حديث 2195)

وہ تین سو دس اور کچھ تھے’’ تم چاہے جو مرضی کرو میں نے تمھیں معاف کر دیا ہے‘‘۔ اور اسی طرح صلح حدیبیہ میں بیعت رضوان میں حصے لینے والوں کے بارے یہ یقین رکھتے  ہیں کہ درخت کے نیچے چودہ سوسے زائد جنھوں نے رسول اللہ کے ہاتھ پہ بیعت کی ان پہ جہنم کی آگ حرام کر دی گئی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت موجود ہے

لا يدخل النارَ إن شاء الله من أصحاب الشجرة أحدُ الذين بايعوا تحتها (مسلم حديث 2496)

5اہل السنّۃ ان سب کی جنت کی گواہی دیتے ہیں جن کا نام لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے جنتی ہونے کی گواہی دی اور ان میں سب سے پہلے وہ دس صحابہ کرام شامل ہیں جنھیں ایک ہی مجلس میں جنت کی بشارت دی گئی اور وہ یہ ہیں: ابوبکر، عمر، عثمان، علی،طلحہ ،زبیر، عبدالرحمن بن عوف، ابو عبیدہ بن الجراح،سعد اور سعید رضی اللہ عنھم ہیں۔ اور اسی طرح وہ صحابہ کرام ہیں جنھیں وقتاً فوقتاً زبان رسالت سے جنت کی  بشارت دی گئی۔

6اہل السنّۃ اس چیز پہ ایمان لاتے ہیں کہ نبی کریم کے بعد بہترین امتی جناب سیدنا ابو بکر صدیق ہیں اسکے بعد سیدنا عمر بن الخطاب پھر سیدناعثمان بن عفان اور پھر سیدناعلی بن ابو طالب رضی اللہ عنھم ہیں۔

7اہل السنّۃ کا ایمان ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان جناب عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد جو تنازعات اور فتنے برپا ہوئے انکے بارے خاموشی اختیار کی جائے اور ان معاملات میں اپنی زبانوں کو  آلودہ نا کیا جائے اور اہل السنّۃ کا ایمان ہے کہ جنگ جمل کا فتنہ جناب علی جناب طلحہ بن عبیداللہ زبیر بن عوام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھم کسی کے اختیار میں نہیں رہا تھا اور یہ سب مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لئے نکلے تھے اور یہ سب وہ بھی ہیں جنھیں زبان رسالت سے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

8اہل السنّۃ تمام اصحاب رسول سے محبت کرتے ہیں اور کسی ایک فضائل بیان کرتے ہوئے کسی دوسرے کی تنقیص نہیں کرتے سب وشتم کا اظہار نہیں کرتے اور کسی صحابی سے برات کا اظہار نہیں کرتے اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغض رکھے ان سے بغض رکھتے ہیں۔

9اہل السنّۃ کا یہ موقف ہے کہ سیدنا علی اور سیدنا معاویہ بن سفیان رضی  اللہ عنھما کے درمیان جو بھی ہوا اس پہ توقف اختیار کیا جائے اور اسکے ساتھ یہ مؤقف رکھا جائے کہ ان دونوں کے درمیان جو کچھ تنزاع ہوا اس میں جناب علی حق پہ تھے اور جناب معاویہ کا اجتہاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑنے میں درست نہیں تھا۔

0اہل السنّۃ یہ مؤقف رکھتے ہیں اہل بیت سے محبت ایمان کا تقاضا ہے اور یہ کہ اہل بیت میں رسول اللہ کی تمام بیویاں شامل ہیں اور اسکے علاؤہ آپ کی تمام بیٹیاں( زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ)سیدنا علی، حسن وحسین اور زینب بنت علی رضی اللہ عنھم یہ سب اہل بیت میں شامل ہیں اور یہ کہ رسول اللہ کی تمام بیویاں صحابیات میں سے سب سے افضل ہیں اور مومنوں کی مائیں ہیں ان کے بارے جو زبان درازی کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے اور جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے زبان درازی کرے وہ کافر ہے جیسا کہ سورہ النور میں اللہ عزوجل نے وضاحت کر دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسنین کریمین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔

!اہل السنّۃ کا یہ مؤقف ہے کہ سبط رسول سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ سے صلح کر کے اور خلافت سے دستبردار ہو کے نبی کریم کی اس پیشگوئی کو پورا کیا کہ میرا یہ بیٹا امت کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت مظلومانہ تھی اور انکے قاتل ظالم اور فاسق تھے۔

@اہل السنّۃ کا یہ مؤقف ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انبیاء علیھم السلام کی طرح معصوم عن الخطاء نہیں ہیں بلکہ ان سے صغیرہ اور کبیرہ گناہ سرزد ہو سکتے تھے لیکن وہ ایمان میں سبقت لے جانے والے تھے اور انکے ایسے فضائل ہیں کہ ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اس پہ انکی مغفرت یقینی ہیں اور یہ فضل انکے علاؤہ کسی امتی کو بالیقین حاصل نہیں ہے بلکہ انکے لئے یہ فضل بھی تھا کہ انکے قبل ایمان کی خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا گیااور انکو یہ اعزاز بخشا گیا کہ انکی اللہ کی راہ میں خرچ ایک مدّ بعد میں آنے والوں کے احد پہاڑ کے برابر نفاق فی سبیل اللہ سے افضل ہے۔ انکی ہجرت حق العین تھی انکا جہاد اور قتال سب سے افضل تھا۔

#اہل السنّۃ یہ مؤقف رکھتے ہیں قرآن اور فرمودات رسول علیہ الصلاۃ والسلام کی جو تشریحات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بیان کی ہیں وہی اصح اور درست ترین ہیں اور جس چیز پہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتفاق کیا وہ درست ترین اجماع ہے جیسے صحابہ کرام کا مانعین زکوٰۃ سے جہاد اور قرآن کو جمع کرنا۔

اللہ عزوجل ہمیں اہل بیت ازواج مطہرات اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دلی محبت عطا فرمائے کہ یہی حب اللہ اور حب رسول کا راستہ اور تقاضا ہے اور ہمیں انکی روشن سیرت پہ عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین

۔۔۔

عقیدۂ توحید، ایمان اور ارکانِ اسلام کی بنیاد ہے

خواتین و حضرات! ایمان اور ارکان اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے۔ کلمے کے دونوں جز ایمان اور اسلام کے رکنِ اعظم ہیں، ان میں دوسرے جز یعنی نبوت کا مقصد پہلے حصے کا ابلاغ اور اس کا انفرادی و اجتماعی زندگی پر نفاذ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے:

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ(آل عمران:79)

’’ کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ جسے اللہ کتاب، حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کے سوا میرے بندے بن جائو بلکہ اسے یہ کہنا ہو گا کہ تم سب رب کے بندے بنو اس لیے کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو۔‘‘

اس فرمان کی روشنی میں کلمہ مبارکہ کا پہلا جز ہی پورے دین اور ہمارے اسلام اور ایمان کا جزو اعظم ہے۔ کلمے کا پہلا حصہ نفی اور اثبات پر مبنی ہے اور یہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک عہد اور حلف ہے، جس کا مقصد شرک سے نفرت اور توحید سے محبت کرنا ہے۔ جس کی جتنی شرک سے نفرت اور اللہ کی توحید سے محبت ہو گی اتنا ہی وہ ایمان اور اسلام میں آگے ہوگا۔ یہی ہمارے ایمان اور باہمی تعلقات کا معیار ٹھہرا ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ کَحُبِّ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ وَ لَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًاوَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ (البقرہ:165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ کچھ اب دیکھ لیں جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّابt قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِe ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُالسَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا أَحَدٌ حَتّٰی جَلَسَ إِلَی النَّبِیّe فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ اَلْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ و تُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ  وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَہٗ یَسأَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْاِیْمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ (رواہ مسلم: باب معرفة الإيمان، والإسلام، والقدر وعلامة الساعة)

’’سیدناعمر بن خطاب tبیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترمe کی خدمت میں حاضر تھے، ایک ایسا شخص ہمارے سامنے آیا جس کا لباس بالکل سفید اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے پہچان نہ سکا۔وہ آتے ہی نبی کریم eکے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو آپ کی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ eسے استفسار کرنے لگا: اے محمدe ! مجھے اسلام کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد e اللہ کے رسول ہیں‘ نمازقائم کرنا ‘زکوٰۃ ادا کرنا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج ادا کرنا۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا:ہم نے اس بات پر تعجب کیا کہ یہ سوال بھی کرتاہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے۔پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔آپ نے فرمایا کہ تو اللہ ‘ اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں ‘اس کے رسولوں‘ قیامت کے دن ‘اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عُمَرَ w قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ t  بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَانَ(رواہ البخاری: باب قول النبي eبني الإسلام على خمس)

سیدنا عبداللہ بن عمر w بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اکرم e نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔۱) اس بات کی گواہی دینا کہ  اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمد e اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ ۲)نماز قائم کرنا۔۳)زکوٰۃ دینا۔۴) حج ادا کرنا۔۵) اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ w أَنَّ النَّبِيَّ e بَعَثَ مُعَاذًا t إِلَى اليَمَنِ فَقَالَ ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ(رواہ البخاری: باب وجوب الزکٰوۃ)

’’سیدناعبداللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں نبی کریم e نے سیدنا معاذ t کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا: یمن والوں کو سمجھاؤ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔‘‘

نماز:

عقیدہ توحید کی سب سے بڑی ترجمان اور اسلام کی پہلی اور افضل ترین عبادت پانچ وقت کی نماز ہے۔ اسی لیے موسیٰ u کو نبوت عطا کرنے کے بعد پہلا حکم یہ دیا گیا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ موسیٰ u سیدنا شعیب u  کے ہاں طے شدہ مدت پوری کرنے کے بعد شدید سردی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مدین سے مصر کی طرف سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے سردی محسوس کی اور راستے کی ایک جانب روشنی دیکھی۔ سیدناموسیٰ u نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: آپ تھوڑی دیر یہاں ٹھہریں وہ آگ جل رہی ہے وہاں سے میں کچھ انگارے لانے کے ساتھ اگلے سفر کا اتا پتہ پوچھتا ہوں۔ جوں ہی وہ آگے بڑھے تو آواز آئی: اے موسیٰ!آپ مقدس وادی میں پہنچ چکے ہیں اس لیے اپنے جوتے اتار دیں۔ میں آپ کا ’’اللہ‘‘ بول رہا ہوں، میں نے آپ کو اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب کر لیا۔لہٰذا میرے سوا تیرا کوئی خیرخواہ، مشکل کشاء اور معبود نہیں ہے۔

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (طٰہٰ:14)

’’میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔پس میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘

توحید پر ایمان لانےکے بعد تیرا پہلا کام یہ ہے کہ میری یاد کیلئے نماز پڑھا کرو۔ عقیدہ توحید کے بعد نماز کا حکم اس لیے دیا گیا کہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب کا محبوب ترین ذریعہ اور عقیدہ توحید کی ترجمان ہے۔

یہی اعلان نبی کریمe کی زبان اطہر سے کروایا گیا کہ اے محبوبِ برحق! آپ اعلان فرمائیں کہ میرا اِدھر اُدھر کے راستوں اور واسطوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ میں اپنے رب کی توفیق سے اس کی بتلائی ہوئی راہ پر گامزن ہوں ۔ یہی دین ہمیشہ سے قائم دائم ہے اور اسی پر حضرت ابراہیم u کا مل یکسوئی کے ساتھ قائم رہے ۔ ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔میری موت و حیات کا مقصد ہی توحید کا پرچار اور اپنے رب کی فرمانبرداری ہے، یہی میری زندگی کا مشن ہے :

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُکِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْکَ لَهٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ کُلِّ شَيْءٍ  وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاوَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ثُمَّ اِلٰى رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (الانعام:162۔164)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیری زندگی اورمیری موت اللہ کے لیے ہے جوجہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ میںسب سے پہلا حکم ماننے والوں میں ہو جاؤں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں اللہ کے سواکوئی اوررب تلاش کروں ،حالانکہ وہ ہرچیز کا رب ہے اور کوئی نفس جو بھی کمائی کرتا ہے اسی پر اسکا بوجھ ہوگااور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب ہی کی طرف تمہارا لوٹ کر جانا ہے وہ تمہیں بتائے گا جس میں تم اختلاف کیاکرتے تھے۔‘‘

پہلے عرض ہو چکا کہ نماز عقیدہ توحید کی سب سے بڑی ترجمان ہے کیونکہ اس میں بڑی تکرار کے ساتھ بندہ زبانی اور عملی طور پر اپنے عقیدے کا اظہار اور اقرار کرتا ہے، تکبیرات، ثناء، فاتحہ، رکوع، سجود، کی تسبیحات اور تشہد میں کیا جانے والا اقرار سب توحید کا تکرار اور اظہار ہے۔

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ (الروم:31)

’’نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ۔‘‘

اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔

1 مشرکین میں نہ ہو جاؤ کا تعلق نماز سے نہیں یہ دونوں حکم الگ، الگ ہیں۔

2نماز قائم کرو یعنی اخلاص کے ساتھ نماز پڑھو اور ریاکاری سے بچو، ریا کاری کرنا شرک ہے۔

لَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ غَیْرَ اللہِ فِی الصَّلَاۃِ وَالْعِبَاْدَۃِ أَیْ لَا تُصَلُّوْا لِغَیْرِ اللہِ وَلَا تَعْبُدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ (تفسیر ماتریدی)

’’نماز اور دیگر تمام عبادات صرف اللہ کی ذات کے لیے خاص ہیں ان میں غیر اللہ کو شامل کرکے مشرکین میں سے نہ ہوجائو۔‘‘

3جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ان مشرکین میں نہ ہو جاؤ۔

زکوٰۃ:

عبادت کی دوسری قسم صدقات اور زکوٰۃ ہے جس کا تشہد میں نمازی یوں اقرار کرتا ہے:

التحیات للہ و الصلوات والطیبات….

’’تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔‘‘

کیونکہ  اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کے وسائل اور اموال عطا کرنے والا ہے اس لیے یہ اسی کے حکم کے مطابق خرچ ہونے چاہییں۔ لیکن مشرکین نے اس میں بھی دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا تھا۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَکَآىِٕنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ وَ مَا کَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰى شُرَکَآىِٕهِمْ سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَ (الانعام:136)

’’انہوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جو اس نے کھیتی اورچوپائوں کی صورت میں پیداکی ہیں، وہ اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے جو ان کے شرکاء کا حصہ ہے وہ اللہ کو نہیں پہنچتا اورجو اللہ کا حصہ ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے وہ بہت غلط فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘

 مفسر قرآن سیدناعبداللہ بن عباسw ذکر کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ خود ساختہ تقسیم کے مطابق اپنے جانوروں میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور دوسرا حصہ معبودانِ باطل کے لیے وقف کرتے تھے۔ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ سب کچھ ان کی حرمت و طفیل اور صدقہ سے ملتا ہے۔ جو حصہ ان کے معبودوں کے نام کا ہوتا اُسے بتوں کے لیے دیتےجسے بت خانہ کے متولی اپنی مرضی سے خرچ کرتے۔ جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے یعنی فی سبیل اللہ مقرر کرتے اسے غرباء اور مساکین پر خرچ کرتے تھے۔ اگر معبودوں کے مقرر کیا ہوا حصہ میں نقصان ہو جاتا تو یہ نقصان فی سبیل اللہ کے کھاتے سے پورا کر دیتے، اگر فی سبیل اللہ کے کھاتے میں کمی واقع ہو جاتی تو اس کو کم ہی رہنے دیتے تھے اورکہتے کہ اللہ تعالیٰ مستغنی، بے نیاز اور بڑے حوصلے والا ہے اس کا حصہ کم ہوجائے تو اُسے کوئی پروا نہیں۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں اس لیے ان کا حصہ پورا نہ کیا گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے جس کی وجہ سے ہمارا نقصان ہو سکتا ہے ۔ تقسیم کا یہ اصول کسی شریعت سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ انھوں نے خود بنایا ہوا تھا جس بنا پر فرمایا ہے کہ بدترین ہے فیصلہ اور ان کی تقسیم جو وہ کرتے ہیں ۔

غور فرمائیں کہ چودہ سو تیس سال پہلے کی رسومات اور شرک قریب قریب اب بھی اسی شکل میں جاری ہے ۔ آج بھی مزارات پر دیے جانے والے نذرانوں کے بارے میں لوگوں کاعقیدہ ہے کہ اگر ہم نے پیر عبدالقادر جیلانی aکے نام گیارہویں پیش نہ کی، فلاں مزار پر اتنا حصہ نہ دیاتو ناراض ہو کر وہ ہمارا نقصان کر دیں گے اور مال سے برکت اُٹھ جائے گی۔ مکہ کے مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں ۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مشکلات کے حل کا ذریعہ اور مشکل کشا سمجھتے تھے یہی عقیدہ آج بے شمار کلمہ گو حضرات کا ہے ۔ اسی لیے مزارات پر حاضری اور مدفون بزرگوں کو مشکلات کے حل کے لیے اللہ کے حضور واسطہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن مجید اورنبی e  نے اس انداز سے صدقہ و خیرات کرنے سے منع کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مالی شرک قرار دیا ہے۔

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنۢ بَحِيْرَةٍ وَّ لَا سَآىِٕبَةٍ وَّ لَا وَصِيْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْکَذِبَ وَ اَکْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (المائدہ:103)

’’اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کی ہے اورنہ کوئی سائبہ اورنہ وصیلہ اور نہ حام اورلیکن جوکافر ہیںوہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کہتے ہیں اور ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔‘‘

ارشاد ہوا کہ مشرکوں نے از خود بعض جانوروں کو حرام کر لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں کیابلکہ وہ حلال ہیں لہٰذاجس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کیا ہو اس کو حرام قرار دے کراپنی طرف سے شریعت سازی نہیں کرنی چاہیے ۔

عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ e أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ eفَقَالَ إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ e ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُولُ اللہِ e أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَا وَفَاءَ  لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ (رواہ ابوداؤد:باب مایومر بہ من الوفاء بالنذر)

’’سیدناضحاک بن ثابت tبیان کرتے ہیں رسول  کریم eکے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ’’بوانہ‘‘ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔آپ e نے اس سے پوچھا: ’’وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھاجس کی پوجا ہوتی تھی؟‘‘اس نے نفی میں جواب دیا۔نبی e نے استفسار فرمایا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتاتھا؟ اس نے عرض کی نہیں ۔ نبیeنے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہیے۔ ہاں اس نذر کوپورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور جو نذرپوری کرنے کی طاقت نہ ہو۔‘‘

اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِکُوْنَ وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ (المومنون:57تا 61)

’’حقیقت میں جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہیں، وہ اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، ان کا حال یہ ہے کہ جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں‘ اس حال میں خرچ کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ‘‘

وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، جب وہ صدقہ وخیرات کرتے ہیں تو ان کے دل فخرو غرور اور نمودونمائش سے بچتے اورڈرتے ہیں ،کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ مال اور نعمتیں صرف اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ ہم نے ہر صورت اپنے رب کے حضور پیش ہو کر ان کا جواب دینا ہے۔

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى کَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُهٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَکَهٗ صَلْدًا لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَيْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْکٰفِرِيْنَ

’’اے ایمان والو !اپنی خیرات کو احسان جتلا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے وہ اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جس پر معمولی سی مٹی ہوپھر اس پر زور دار بارش برسے اور وہ اسے بالکل صاف کر دے ایسے ریا کاروں کو اپنی کمائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘  (البقرۃ:264)

روزہ:

عقیدہ توحید جن ایمانی اجزا پر مشتمل ہے، ان میں یہ جز بڑے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے اور وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرنا چاہیے اس کا نام تقویٰ ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر روزے دار اپنے روزے کا خیال رکھتا اور اسے پورا کرتا ہے۔ ان اجزا میں کوئی ایک جزو مفقود ہو جائے تو روزہ پورا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کا مقصد تقویٰ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کے نگران ہونے کا عقیدہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ مَا يَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَا اَدْنٰى مِنْ ذٰلِکَ وَ لَا اَکْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (المجادلۃ: 7)

’’کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز ’’اللہ‘‘ کے علم میں ہے؟ ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمی سرگوشی کریں اور ان کے درمیان چوتھا ’’اللہ‘‘ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان میں چھٹا ’’اللہ‘‘ نہ ہو، خفیہ بات کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ۔ اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں ’’اللہ‘‘ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر ’’اللہ‘‘ قیامت کے دن انہیں  بتاے گا کہ انہوں نے کیا عمل کیے ، ’’اللہ‘‘ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا يَعْرُجُ فِيْهَا وَهُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (الحدید:4)

’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا، جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتا ہے اس کے علم میں ہوتا ہے۔ تم جہاں بھی ہوتے ہووہ تمہارے ساتھ ہے ، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اُسے دیکھ رہا ہوتا ہے۔‘‘

وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ

’’چپکے سے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا ؟ حالانکہ وہ نہایت باریک بین اور پوری طرح خبردار ہے۔‘‘ (الملك:13۔14)

ان فرامین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حقیقت بتلائی ہے کہ اے انسان! میں اپنے علم،اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت تیرے ساتھ ہوتا ہوں۔ جس شخص کا یہ عقیدہ پختہ ہو جائے اس کے لیے بُرائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ نہ صرف میں اپنے رب کی نگرانی میں ہوں بلکہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کا جواب بھی دینا پڑے گا۔

مذکورہ آیات میں عقیدہ توحید کا یہ حصہ بار بار دہرایا اور سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز اور ہر انسان پر نگران ہے اور وہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس بنیاد پر روزے دار شدید پیاس اور بھوک کے باوجود کھانے پینے کی طرف ہاتھ نہیں اُٹھاتا۔ ہاتھ اُٹھانا تو بڑی بات ، روزے دار اس خیال کو اپنے دل میں زیادہ دیر تک اس لیے نہیں پنپنے دیتا کہ اس میں رب کریم کی نافرمانی پائی جاتی ہے۔ جس سے مجھے ہر حال میں بچنا ہے۔ اسی کا نام خشیّت اور تقویٰ ہے، جو روزے اور تمام عبادات کا مطلوب ہے۔ اسی بناء پر روزے کے بارے میں ارشاد نبوی ہے:

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَt یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ e قَالَ اللّٰہُ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَہُ إِلَّا الصِّیَامَ فَإِنَّہُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہِ (رواہ البخاری: کتاب الصوم،باب ھل یقول إنی صائم )

’’سیدناابو ہریرہt  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ابنِ آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے۔ اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ۔‘‘

حج:

حج عباداتِ اسلام کا مرقع ، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی ہے جو مقررہ ایام میں متعین اوقات اور مقامات پر ادا ہو تی ہے، یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اورملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے ، اپنے اعمال اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سالانہ اجتماع منعقد کیا ہے تاکہ مسلمان حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور ذاتی اصلاح اور اجتماعی معاملات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ ایک آدمی خلوص نیت کے ساتھ اسے ادا کر لے تو اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے حج زندگی میں ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا :

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَt قالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللہِ e فَقَالَ أَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَارَسُوْلَ اللہِ  فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَھَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ e لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْئٍ فَدَعُوْہُ(رواہ مسلم: کتاب الحج)

’’سیدنا ابو ہریرہtبیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریمe نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایالوگو! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو۔ ایک آدمی نے سوال کیا اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج کرنا ہوگا؟ نبی کریم e خاموش رہے حتی کہ اس نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا ۔ آپ eنے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتااور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں کچھ نہ کہوں ۔ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں سے اختلاف اور کثرتِ سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب ِہمت وہ کام کرو اور جس چیز سے تمہیں روکو ں اس سے رک جاؤ۔‘‘

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَکَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِيْ شَيْـًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَالْقَآىِٕمِيْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ (الحج: 26)

’’اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ کی نشاندہی کی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اورمیرے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔ ‘‘

ایک مسلمان کو حج کا حکم صادر فرماتے ہوئے ہی بتلا دیا گیا ہے کہ دوسرے اعمال کی طرح حج کا پورا عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے یہاں تک کہ بیت اللہ کی تعمیر کی غرض و غایت یہی ٹھہری کہ یہ گھر اسی لیے بنایا گیا ہے کہ یہاں صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور ہر حال میں شرک سے بچا جائے۔

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (ابراھیم:35)

’’اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب !اس شہر کو امن والا بنا دے ، مجھے اور میری اولادکو بتوں کی عبادت سے بچا۔‘‘

اے دنیا جہان کے انسانو! بالخصوص مکہ میں بسنے والے لوگو! جس عالی مرتبت شخصیت کے ساتھ ناطہ جوڑتے اور اس کے بسائے ہوئے شہر میں رہتے ہو اس کا عقیدہ سنو  جب اس نے اس جگہ اپنی بیوی اور اکلوتے لخت جگر کو ٹھہرا کر اس شہر مکہ کی بنیاد رکھی تھی تو اس نے اپنے رب کے حضور سب سے پہلے یہ التجا کی تھی’’ میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے حکم پر، تیرے محترم گھر کے پڑوس میں چھوڑے جا رہا ہوں۔ میری فریاد ہے کہ الٰہی! اس شہر اور گھر کو امن وسکون کا گہوارا بنانا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا ،میرے رب! بتوں کی وجہ سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔

لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ (القریش:۱ تا ۳)

’’قریش کے مانوس ہونے کی بنا پر۔ جاڑے اور گرمی کے سفروں میں۔ انہیںاس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔‘‘

یاد رہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی قافلے شام اور فلسطین کی طرف جاتے جو ٹھنڈے علاقے تھے اور سردی کے موسم میں وہ عرب کے جنوب کی طرف سفر کرتے تھے جو گرم علاقے تھے۔

ان احسانات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ عرب صرف ایک رب کی عبادت کرتے اورنبی آخرالزمانeکی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن انہوںنے کعبے کے رب کی عبادت اور نبی uکی دعوت قبول کرنے کی بجائے بیت اللہ کے اندر تین سوساٹھ بت رکھ لیے اور رب کعبہ کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو اس کی عبادت میں شریک کرلیا تھا، وہ کسی بت کے ذریعے رزق طلب کرتے، کسی کے واسطے سے اولاد مانگتے، کسی سے عزت کی درخواست کرتے ، کسی کی طفیل بارش کے طلبگار ہو تے،کسی کی حرمت سے دشمن پر غلبہ چاہتے اورکسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ذریعہ سمجھتے تھے ،حالانکہ حکم یہ تھا کہ صرف اس گھر کے رب سے مانگا جائے اور خالص اس کی عبادت کی جائے ۔اسی لیے حج و عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے تلبیہ پڑھنے کا حکم دیا گیا جس میں عقیدہ توحید کا بار بار اقرار اور اظہار کیا جاتا ہے:

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

’’میں حاضر ہوں‘ اے اللہ !میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں‘ بلاشبہ سب تعریفیں اور شکرانے تیرے لیے ہیں ۔ حکومت تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

گویا کہ بیت اللہ کی بنا، حج کی ابتدا اور انتہاء عقیدہ توحید کی ترجمان ہیں اسی لیے  اللہ کے رسول e نے فرمایا تھا:

عَنْ عَائِشَةَr قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ eإِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِکْرِ اللهِ (رواہ ابوداود: باب فی الرمل)

سیدہ عائشہ r بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا : ’’بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور شیاطین کو پتھر مارنے کا عمل اللہ کے ذکر کو بلند کرنے کے لیے ہیں۔‘‘

۔۔۔

حقوق الوالدین

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جس نے اپنے بندوں پر فضل کرتے ہوئے حقوق و واجبات کی تفصیلات سے انہیں آگاہ فرمایا، اور انکے لئے نیک اعمال پسندیدہ قرار دیتے ہوئے، گناہوں کو ناپسند قرار دیا، اور نیک لوگوں کیساتھ بھلائی کا وعدہ فرمایا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی دعائیں قبول کرنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، ان کی اولاد اور جہادو دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے فرض کردہ احکامات کو ضائع مت کرو، اور اس کی حدود سے تجاوز مت کرو، بیشک متقی با مراد، اور خواہش پرست نامراد ہوں گے۔

اللہ کے بندو!

ذہن نشین کر لو کہ بندوں کے اعمال کا نفع و نقصان انہی کو ہو گا، چنانچہ اطاعت گزاری اللہ کا کچھ سنوار نہیں سکتی اور نافرمانی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، فرمان باری تعالی ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ (الجاثيۃ: 15)

جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گناہ کرے گا، اس کا [خمیازہ]اسی پر ہو گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

اسی طرح فرمایا:

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ (غافر:40)

جو شخص بھی گناہ کرے گا، اسے اِسی کی مثل سزا دی جائے گی، اور جو کوئی بھی مرد ہو یا عورت ایمان کی حالت میں اچھا عمل کرے تو یہی لوگ جنت میں داخل ہونگے، اُنہیں وہاں پر بے حساب رزق سے نوازا جائے گا۔

ایک حدیث قدسی میں ہے کہ : میرے بندو! تم میرا کچھ بگاڑنے کی حد تک نہیں پہنچ سکتے، اور نہ مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لئے محفوظ کرتا ہوں، پھر تمہیں پورا پورا [بدلہ] دونگا، چنانچہ جو شخص اچھائی پائے تو وہ اللہ کی حمد خوانی کرے، اور بصورتِ دیگر اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔(مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)

واجب حقوق کی ادائیگی کا فائدہ آخر کار بندے کو ہی ہوگا، جسے انسان دنیا و آخرت میں ثواب کی صورت میں وصول کریگا، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:

فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ (الأنبياء : 94)

جو کوئی بھی ایمان کی حالت میں نیکیاں کمائے، تو اس کی جدوجہد کا انکار نہیں ہوگا، اور بیشک ہم اسکے [اعمال] لکھ رہے ہیں۔

ایسے ہی فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا (الكهف : 30)

بلاشبہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے رہیں، یقیناً ہم اچھے عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرینگے۔

اسی طرح واجب حقوق میں کلی یا جزوی کمی کرنے کی سزا انہیں ضائع کرنے والے انسان پر ہی ہوگی؛ کیونکہ اس نے اللہ رب العالمین کے حقوق ضائع کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا ہی نقصان کیا ہے، اللہ تعالی تو سب سے بے نیاز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ (الزمر : 7)

اگر تم کفر کرو تو بلاشبہ اللہ تعالی تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر کرو، تو یہ اس کے ہاں پسندیدہ ہے۔

اور فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر : 15)

اے لوگو! تم ہی اللہ کے محتاج ہو، جبکہ اللہ تعالی بے نیاز، اور قابل ستائش ہے۔

ایسے ہی فرمایا:

هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ  (محمد : 38)

یہ تم ہی ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے دعوت دی جاتی ہے؛ تو کچھ لوگ بخیلی کرتے ہیں، اور جو کوئی بخیلی کرے گا، وہ اپنے آپ سے بخیلی کر رہا ہے۔

اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (النساء : 111)

اور جو شخص گناہ کمائے بیشک وہ اپنی جان پر ہی گناہ کماتا ہے، اور اللہ تعالی خوب جاننے والا، اور حکمت والا ہے۔

اور عقیدہ توحید اللہ تعالی کا واجب حق ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور اس کی حفاظت پر اللہ تعالی نے عظیم ثواب کا وعدہ بھی کیا ہے، فرمایا:

وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (ق :3132)

اور جنت کو پرہیز گاروں کے قریب کر دیا جائے گا وہ کچھ دور نہ ہوگی یہ ہے جس کا تم [جنتیوں ]سے وعدہ کیا جاتا تھا، یہ ہر رجوع کرنے والے اور [حقوق الہی]کی حفاظت کرنے والے کیلئے ہے۔

اور جس شخص نے اللہ کے حقوق ضائع کرتے ہوئے شرک کیا ، غیر اللہ کو واسطہ بنا کر اس کی عبادت کی، ان سے فریاد رسی ، مشکل کشائی ، اور حاجت روائی کا مطالبہ کیا، اور انہی پر توکل رکھا تو وہ ناکام و نامراد ہونے کے ساتھ شرک کا مرتکب بھی ہوا، اس کی تمام جد و جہد غارت ہو گئی، اللہ تعالی اس سے کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کریگا، اور اسے کہا جائے گا: جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم رسید ہو جاؤ، اِلّا کہ وہ شرک سے توبہ کر لے، ایک حدیث میں ہے کہ ایک جہنمی آدمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا: اگر تمہارے پاس زمین کی ساری دولت آ جائے تو کیا آگ سے بچنے کیلئے اسے فدیہ میں دے دو گے؟ تو وہ کہے گا: ہاں، پھر اسے کہا جائے گا: “تمہیں اس سے بھی آسان کام کا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، [لیکن تم شرک سے بالکل باز نہ آئے]”(صحیح بخاری)

خیال کرنا کہ نیکی کی جزا میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد بھی نیکی کی جائے، فرمان باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ

’’اور جو لوگ راہ راست پر چلیں تو اللہ نے ان کی مزید رہنمائی فرمائی اور انہیں تقوی عطا کیا۔‘‘(محمد: 17)

اور کسی بھی گناہ کی سزا میں یہ بھی شامل ہے کہ گناہ کے بعد پھر گناہ سر زد ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ (البقرة: 10)

ان کے دلوں میں بیماری تھی تو اللہ نے ان کی بیماری میں اضافہ کر دیا، اور ان کیلئے درناک عذاب ہے۔

متنبہ رہنا کہ جس شخص کی دن میں پانچوں نمازیں صحیح سلامت ہوں تو اس کا دن سلامتی والا ہو گا، اور جس کا جمعہ صحیح گزرا تو اس کا پورا ہفتہ سلامتی والا ہو گا، اور جس شخص کا رمضان صحیح گزرا تو اس کا پورا سال سلامتی والا ہو گا۔ جو شخص اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے مال کی حفاظت فرمائے گا اور اس میں برکت بھی ڈال دے گا، جس کا حج صحیح ہوا تو اس کی ساری زندگی سلامتی والی بن جائے گی، اور جو شخص عقیدہ توحید کے تحفظ میں کامیاب ہو گیا تو اللہ تعالی نے اس کے لیے جنت کی ضمانت دے رکھی ہے۔

اور مکلف بندہ مخلوق کے واجب حقوق ضائع کر کے اپنے آپ کو ہی دنیا و آخرت میں ثواب سے محروم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق بنتا ہے، اور اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کمی ہوئی تو اسی کے مطابق ثواب میں بھی کمی ہو گی۔

روکھی سوکھی اور تنگی ترشی میں انسان کی زندگی تو گزر ہی جاتی ہے، اس لیے انسان کی زندگی واجب حقوق پورے ملنے پر موقوف نہیں ؛ کیونکہ [اگر کوئی حق رہ بھی گیا تو]اللہ کے ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے سب جمع ہوں گے، اور اللہ تعالی مظلوم کو ظالم اور غاصب سے حق لیکر دے گا؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن تم مستحق افراد کو ان کے حقوق ضرور ادا کرو گے، حتی کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا۔(صحیح مسلم)

 اللہ تعالی اور رسول کے حقوق کے بعد والدین کے حقوق ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے حقوق کیساتھ بیان کیا اور فرمایا:

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (الإسراء :2324)

’’اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کیساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو  اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے [محبت و شفقت]سے پالا تھا۔ ‘‘

ایسے ہی فرمایا:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (لقمان : 14)

’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے [نیک سلوک کرنے کا] تاکیدی حکم دیا ، اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری سہتے ہوئے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور دو سال اس کے دودھ چھڑانے میں لگے [اسی لئے یہ حکم دیا کہ] میرا شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی [آخر] میرے پاس ہی [تجھے] لوٹ کر آنا ہے۔ ‘‘

اللہ تعالی نے والدین کے حق کو اتنا بڑا مقام اس لئے دیا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں انہی کی وجہ سے وجود بخشا اور پیدا کیا، ماں نے دوران حمل بہت بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، اور دوران زچگی زندگی و موت کی کشمکش بھی دیکھی، فرمان الہی ہے:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا (الأحقاف : 15)

ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنم دیا۔

ماں کا دودھ پلانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جبکہ والد اولاد کی تربیت، اور رزق کی تلاش میں تگ و دو کرتا ہے، والدین مل کر بیماری کا علاج کرتے ہیں، بچوں کی نیند کی خاطر خود جاگتے ہیں، بچوں کے آرام کیلئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں، انکی خوشحالی کیلئے خود تنگی برداشت کرتے ہیں، بچوں کے بول و براز کو برداشت کرتے ہیں تا کہ اولاد سُکھ میں رہے، وہ اسے سکھاتے بھی ہیں تاکہ بچہ مکمل اور مہذب انسان بنے، انکی دلی خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد ان سے بھی آگے بڑھے، اس لئے بچو! والدین کے بارے میں کثرت سے وصیت کے متعلق تعجب مت کرو، اور نہ ہی انکی نافرمانی کی وجہ سے کثرتِ وعید پر حیرانگی کوئی معنی رکھتی ہے۔

اولاد جتنی مرضی جد و جہد کر لے اپنے والد کیساتھ نیکی کا حق ادا نہیں کر سکتی، صرف ایک صورت ہے جسے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا: اولاد کسی صورت میں بھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کر سکتی ، اِلّا کہ والد کسی کا غلام ہو تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔(صحیح مسلم ، ابو داود، ترمذی)

والدین جنت کا دروازہ ہیں، چنانچہ والدین کیساتھ حسن سلوک کرنے والا جنت میں داخل ہو گا؛ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو، کہا گیا: اللہ کے رسول! کس کی؟! آپ نے فرمایا:جس شخص نے اپنے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔ (صحیح مسلم)

اے مسلمان! اگر تمہارے والدین تم سے راضی ہیں تو اللہ بھی تم سے راضی ہے، جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: اللہ کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(یہ حدیث صحیح ہے، اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے مستدرک میں اسے صحیح کہا ہے)

والدین کیساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ گناہ کے علاوہ ہر کام میں انکی فرمانبرداری کریں، ان کی وصیت اور حکم کی تعمیل کریں، انکے ساتھ نرم برتاؤ رکھیں، انہیں خوش رکھیں، ان پر خرچہ کرتے ہوئے فراخ دلی سے کام لیں، شفقت و رحمت کیساتھ پیش آئیں، انکے دکھ کو اپنا دکھ جانیں، ان کے ساتھ مانوس ہو کر رہیں، انکے ساتھیوں اور دوستوں کیساتھ اچھا سلوک کریں، انکے رشتہ داروں کیساتھ تعلقات بنائیں، اور ان سے ہر قسم کی تکلیف کو دور رکھیں جن چیزوں سے وہ روک دیں ان سے رک جائیں، انکی لمبی زندگی کی چاہت رکھیں، انکی زندگی میں اور انکے چلے جانے کے بعد کثرت سے انکے لیے استغفار کریں۔

جبکہ والدین کے ساتھ بد سلوکی گزشتہ تمام چیزوں سے کنارہ کشی کا نام ہے۔

معاشرے میں والدین کے ساتھ بد سلوکی کا بڑھ جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے؛ حدیث ہے کہ  قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ بے وقت بارشیں ہونگی، اولاد نافرمان ہوگی، برے لوگ بڑھتے چلے جائیں گے، اور اچھے لوگ کم ہوتے جائیں گے۔

والدین کے ساتھ سب سے بڑی بد سلوکی یہ ہے کہ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو اولاد کی خدمت سے نکال کر اولڈ ایج ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے -اللہ کی پناہ- اس کام کا اسلامی یا انسانی اخلاقیات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے!

اسی طرح والدین پر رعب جھاڑنا ، ان پر ہاتھ اٹھانا! انہیں زد و کوب کرنا ! گالی گلوچ کا نشانہ بنانا! اور انہیں انکے حقوق سے محروم کرنا بہت بڑی بد سلوکی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے، لیکن والدین سے بد سلوکی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔ (طبرانی)

فرمان باری تعالی ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا (النساء : 36)

اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین سے اچھا سلوک کرو، نیز قریبی رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، رشتہ دار ہمسائے ، اجنبی ہمسائے، اپنے ہم نشین اور مسافر ان سب سے اچھا سلوک کرو، نیز ان غلاموں سے بھی جو تمہاری ملکیت میں ہیں ۔ اللہ تعالی یقیناً مغرور اور خود پسند بننے والے کو پسند نہیں کرتا ۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی قوی اور مضبوط ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اس کے بندے اور صادق و امین رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو۔

اللہ کے بندو! والدین کے حقوق ادا کرنے میں جہاں عظیم اجر و ثواب اور برکت ہے، وہیں پر یہ ایسے لوگوں کی بلند صفات میں شامل ہے جن کا باطن پاک ہو ، مقام و مرتبہ بلند ہو، اور پاکیزہ اخلاق کے مالک ہوں۔

نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوتا ہے، اور کسی کی نیکی یاد رکھنا، اور نیکی کا صلہ دینا نیکی کا حق ہے، حسن سلوک کا بدلہ حسن سلوک سے ہی دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیکی کا منکر وہی شخص ہوتا ہے، جو انتہائی بد اخلاق اور بے مروّت ہو، اور اس کے باطن میں بھی خباثت بھری ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرة : 237)

اور ایک دوسرے کے احسانات کو مت بھولو ، اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔

اور اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

میں اپنی والدہ کیساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں، اللہ نے مجھے جابر اور بدبخت نہیں بنایا۔ (مريم : 32)

اور یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا (مريم : 14)

وہ اپنے والدین سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے تھے اور کسی وقت بھی جابر اور نافرمان نہ ہوئے۔

اور ایک تباہ و برباد ہونے والے بد بخت کے بارے میں فرمایا:

وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (الأحقاف : 17)

اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا :’’تف ہو تم پر، تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں [زندہ کر کے زمین سے] نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں‘‘اور وہ دونوں اللہ کی دہائی دے کر اسے کہتے: ’’تیرا ستیاناس!! ہماری بات مان جا کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے‘‘ تو وہ کہتا ہے: ’’یہ تو صرف پہلے لوگوں کے قصے اور کہانیاں ہیں!!‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے کون میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار ہے؟ تو آپ نے فرمایا: تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، اسکے بعد جو بھی قریب ترین رشتہ دار ہو۔ (صحیح بخاری و مسلم)

اللہ کے بندو!

 إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو

 اور آپ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا

اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

ۭ۔۔۔

 تبصرہ کتاب: المنہج المفید فی علم التوحید

نام کتاب : المنہج المفید فی علم التوحید (عربی)

مصنف : الشیخ افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ

تعداد صفحات : 128

قیمت : درج نہیں

ناشر : مکتبہ بیت السلام (ریاض۔ لاہور)

ملنے کا پتہ : ملک بھر کے اہم سلفی مکتبہ جات پہ دستیاب ہے۔

عقیدئہ توحید سے مراد اللہ رب العزت کو ربوبیت ،  الوہیت اور اسماء وصفات میں یکتا وتنہا ماننا اور ان سہ اقسام میں سے کسی میں بھی کسی کو بھی اس کا شریک وسہیم نا ماننا ہے۔ علم توحید سے اللہ رب العزت کی صحیح معرفت حاصل ہوتی ہے۔باری تعالیٰ کی صحیح معرفت سے ہی انسان کے اندر خشیت الٰہی کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ علم توحید سے دوری انسان میں سرکشی جنم لیتی ہے۔ جس کی بناء پر وہ اپنے خالق ومالک سے دور ہوتا جاتاہے۔

توحید رب العالمین اور اس سے متعلقہ مباحث سے آگاہی کے لیے اہل علم نے مختصر،متوسط اور مطول ہر سہ اقسام کی علمی وتحقیقی تصنیفات سپرد قلم کی ہیں۔ تقبل اللہ جھودھم وبارک فیھا

اسی سلسلہ مبارکہ میں تازہ اضافہ فضیلۃ الشیخ افتخار احمد تاج الدین الازہری (شیخ الحدیث جامعہ بحر العلوم السلفیہ میر پور خاص سندھ) کی زیر تبصرہ کتاب ہے۔باری تعالیٰ نے حضرۃ الشیخ کو فن تدریس میں مہارت کے ساتھ ساتھ سیّال قلم سے نوازا ہے جیسا کہ ان کی مطبوعہ تصانیف پر بات مترشح ہوتی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب مختصر ہونے کے با وجود انتہائی مفید ونافع ہے ۔ اس میں فاضل مصنف نے علم توحید کے مباحث کو عقلی ونقلی دلائل کی روشنی میں قلمبند کیا ہے، اس کتاب کے تین ابواب ہیں۔

پہلا باب : الالوھیات سے متعلق ہے جس میں علم توحید کی لغوی واصطلاحی تعریفات،موضوع ،ثمرات اور فوائد کے ساتھ ساتھ توحید کی تین معروف اقسام توحید ربوبیت، الوہیت اور توحید اسماء وصفات کا مدلل تذکرہ ہے۔

توحید اسماء وصفات میں صفت قدرت،صفت علم، صفت حب وغیرہ تقریباً باری تعالیٰ کی 19 صفات جلیلہ کا مجمل تعارف اور اس میں سلف صالحین کے مبنی برحق موقف  کو اجاگر کیا ہے۔

باب دوم ’’النبوات‘‘ ہے جس میں انبیاء ورسل علیہم السلام سے متعلق مفید طلب مباحث کو اختصار کے ساتھ جمع کیاہے، نبی ورسول کی لغوی واصطلاحی تعریفات، انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد، ان کے فرائض منصبی،معجزاتِ انبیاء، معجزہ اور کرامت میں فرق اور نبی مکرم کی نبوت ورسالت کے خصائص دوسرے باب کی اہم مباحث میں شامل ہیں۔

تیسرے باب کا موضوع ’’السمعیات‘‘ کے نام سے موسوم ہے جس کوعرف عام میں ایمان بالغیب بھی کہا جاتاہے اس باب میں حشر،حوض کوثر،احوال قبر، میزان، شفاعت، جنت وجہنم سمیت تقریباً 16 ایسے امور کوسپرد قلم کیا ہے جن کا تعلق ایمان بالغیب کے ساتھ ہے۔

فاضل مؤلف نے ہر بحث کی سب سے پہلے لغوی واصطلاحی تعریف ذکر کی ہے پھر متعلقہ بحث سے متعلق قرآنی دلائل ذکر کیے ہیں اس کے بعد اسی مسئلہ کی مزید وضاحت فرامین نبویہ سے کی ہے۔ اکثر مقامات پہ نقلی دلائل کے بعد عقلی ومنطقی استدلالات بھی زیر بحث لائے ہیں۔

یقیناً یہ کتاب علم توحید کی تفہیم وترویج کے لیے اہم کردار ادا کرے گی نیز دینی مدارس کے ابتدائی درجوں میں اس کی تدریس سے طلبہ کرام کوعربی زبان سے واقفیت کے ساتھ علم توحید سے متعلق بنیادی معلومات بھی حاصل ہوں گی۔إن شاء اللہ

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقیدہ توحید میں منہج سلف صالحین پہ کاربند رکھے اور ’’عقیدئہ توحید‘‘ میں اس ’’منہج‘‘ کو ہمارے لیے مفید بنائے۔

آخر میں دعا ہے کہ باری تعالیٰ اپنی توحید کےدرس کو عام کرنے کی غرض سے اس کتاب کو منصہ شہود پہ لانے والے مصنف،ناشر، تقسیم کنندگان کو اپنی مرضیات سے نوازے۔ آمین

۔۔۔۔

ماہ محرم اور محرمات

محترم قارئین ! ماہ محرم عظیم الشان اور مبارک مہینہ ہے یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ اور حرمت والے چار مہینوں سے ایک ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ( سورہ التوبۃ 36 )

مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت والےہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔

یعنی ابتدائے تخلیق ہی سے اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں جن میں چار کو خصوصی ادب و احترام اور عزت و تکریم سے نوازا گیا ہے یہ چار مہینے کون سے ہیں؟ ان کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ‏‏‏‏‏‏ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَذُو الْحِجَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُحَرَّمُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ

زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا ہے جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کیے تھے ، سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں تین تو پے در پے ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا ) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے ۔ ( صحیح بخاری : 3197 ، صحیح مسلم : 4383 )

ماہ محرم ادب احترام کا ماہ ہے لیکن ہمارے ہاں اس ماہ کے آتے ہی خرافات اور غیر شرعی افعال کو پروان چڑھایا جاتا ہے بڑے دھوم دھام سے مختلف قسم کے نذر و نیاز کیے جاتے ہیں ۔ کہیں پانی کا سبیل ہے ، تو کہیں جانوروں کا ذبیحہ اور کہیں بریانیوں کی دیگیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ( المائدہ : 3 )

’’تم پر حرام کیا گیا مردار اور (بہتا ہوا) خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا گیا ہو ۔‘‘

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والا شخص شریعت کی نگاہ میں ملعون ہے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :

لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِۂ

’’اللہ تعالی نے اس پر لعنت کی، جو غیر اللہ کے لیے ذبح کرے گا۔‘‘( صحیح مسلم : 5124 ، مسند احمد : 7198 )

یاد رہے کہ عاجزی و انکساری کی عقیدت سے کسی کے سامنے جھکنا سجدہ کھلاتا ہے اور یہ چیز ہر عام و خاص ،گلی کوچوں میں دیکھتا رہتا ہے کہ کہیں لکڑی کو تو کہیں گھوڑا

ودلدل کو جھکا جاتا ہے ۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں یمن سے واپس آیا تو میں نے کہا :

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! رَاَیْتُ رِجَالًا بِالْیَمَن ِیَسْجُدُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ أَفَـلَا نَسْجُدُ لَکَ؟ قَالَ: لَوْ کُنْتُ آمُرُ بَشَرًا یَسْجُدُ لِبَشَرٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا .

 اے اللہ کے رسول! میں نے یمن میں دیکھا ہے کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں، تو کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: اگر میں نے بشر کو بشر کے لئے سجدہ کی اجازت دینا ہوتی تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ کرے ۔ (مسند احمد: 21986)

خیل و دلدل اور لکڑیوں کو سجا کر انکے سامنے جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر ان کے لیے نذریں مانی جاتی ہیں اور ان سے التجائیں کی جاتی ہیں یاد رہے کہ نذرونیاز فقط اللہ ہی کےلیے ہیں جیسا کہ سیدہ مریم علیھا السلام نے کہا تھا

رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ(آل عمران : 35 )

’’اے میرے رب ! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے ، اسے میں نے تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانی ہے ، تو میری طرف سے قبول فرما ، یقیناً تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ۔ ‘‘

 اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :

قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ (السبا:22)

’’کہہ دیجئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب ) کو پکار لو نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے ۔‘‘

اور پھر ان مخصوص گھوڑوں اور لکڑیوں کو تعویذ و ڈوریاں باندھی جاتی ہیں ۔اس حوالہ سے نبی کریم کا سخت موقف تھا جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ‌أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا؟ قَالَ: إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا فَبَايَعَهُ وَقَالَ: مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ.

 رسول اللہ‌ کے پاس (دس لوگوں کا)ایک قافلہ آیا۔ آپ نے نو لوگوں سے بیعت لے لی اور ایک کو چھوڑ دیا۔ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے نو لوگوں سے بیعت لے لی اور اس شخص کو چھوڑ دیا؟ آپ نے فرمایا: اس نے تعویذ لٹکایا ہوا ہے۔ اس نے اپنا ہاتھ ڈال کر اسے توڑ دیا۔ تب آپ نے اس سے بیعت لی اور فرمایا: جس شخص نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔( مسند احمد : 16781 )

اور ماہ محرم آتے ہی مرد و خواتین بڑے زور و شور سے نوحہ کہنا شروع کرتے ہیں جو ماہ کے اختتام پر ختم کرتے ہیں یہاں افسوس کا اظہار ضرور کروں گا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کی آذان درس دروس وغیرہ کی آواز پست رکھی جائے یعنی فقط مسجد تک محدود کی جائے پڑوس اور ہر آنے جانے والے کو زور زور کی آوازوں سے تکلیف نہ دی جائے وہ لوگ بڑے دھوم دھام سے صوت گریہ کہتے بجاتے اپنے اصول کی ہی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔

سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :

شُعْبَتَانِ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیِّۃِ لَا یَتْرُکُہُمَا النَّاسُ أَبَدًا: النِّیاحَۃُ وَالطَّعْنُ فِی النَّسَبِ .

 دورِ جاہلیت کے دو کام ہیں، لوگ ان کو کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا اور نسب پر طعن کرنا۔  ( صحیح بخاری : 395 ، مسند احمد: 9571)

اور ایک دوسری روایت میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ النَّائِحَۃَ وَالْمُسْتَمِعَۃَ۔

رسول اللہ نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ (مسند احمد: 11645)

اور آپ نے فرمایا

أَرْبَعٌ مِنَ الْجَاہِلِیَّۃِ لَا یُتْرَکْنَ، اَلْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِی الْأَنْسَابِ، وَالْاِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُوْمِ، وَالنِّیاحَۃُ، وَالنَّائِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِہَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْہَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ أَوْ دِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ.

چار امورِ جاہلیت ہیں،لیکن ان کو چھوڑا نہیں جائے گا: حسب پر فخر کرنا، نسب پر طعن کرنا، ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا اور نوحہ کرنا۔ نوحہ کرنے والی عورت اگر وفات سے پہلے توبہ نہیں کر لیتی تو اسے اس حال میں قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا کہ اس پر تارکول یا خارش کی قمیص ہوگی ۔( صحیح مسلم : 934 )

اور کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ غم کے نام پر خود اپنے جسم کے پیٹنے کو ثواب سمجھا جاتا ہے !

اور بڑے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ دین اسلام کے جانثار اور فدائی کہ جن سے دین کے احکامات جڑے ہوئے ہیں ماہ محرم میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طعن وتشنیع کی جاتی ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( الصحیحة للالبانی : 2340 )

جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

یعنی کہ ماہ محرم میں مختلق برائیوں کو عروج دیا جاتا ہے ۔

اور حب اھل بیت کا دعوي كرتے ہوئے اس طرح سوگ منایا جاتا ہے جو شریعت میں منع ہے۔

محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ :

تُوُفِّيَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ فَتَمَسَّحَتْ بِهِ،‏‏‏‏ وَقَالَتْ :نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْج .

ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے ”صفرہ خلوق“ ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ ( صحیح بخاری : 1279 )

مذکورہ اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سوگ فقط تین دن تک ہے سوائے بیوی کے وہ خاوند کے لیے چار ماہ دس دن  عدت گذارے گی ، تو اتنے صدیاں گذرنے کےبعد یہ سوگ کا طریقہ کس شریعت سے ہے کیا صحابہ رضوان اللہ علیھم یا سلف الصالحین رحمھم اللہ کا طریقہ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو پھر افضل تو یہ ہے کے رسول اللہ   کی وفات کا سوگ منایا جائے !رخسار پیٹتے ہوئے اپنا گریبان چاک کیا جاتا ہے اور اپنے آپ کو زور زور سے پیٹا جاتا ہے ۔رخسار پیٹنا اور گریبان وغیرہ چاک کرنا غیر شرعی اور جاہلیت کے عملوں میں سے ہیں ۔

رسول اللہ   نے فرمایا  : 

لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ،‏‏‏‏ وَشَقَّ الْجُيُوبَ،‏‏‏‏ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّة ( صحیح بخاری : 1297 )

’’جو شخص اپنے رخسار پیٹے ‘ گریبان پھاڑے اور عہد جاہلیت کی سی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘

اور بعض لوگوں کو ایسا بھی پایا جاتا ہے کہ وہ ماہ محرم میں بالخصوص نو دس محرم کو زینت اور عمدہ لباس چھوڑ کر اظہار غم کرتے ہیں ننگے سر ننگے پاؤں ننگے بدن رہتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی رسومات ہیں ۔

أَبِفِعْلِ الْجَاهِلِيَّةِ تَأْخُذُونَ أَوْ بِصُنْعِ الْجَاهِلِيَّةِ تَشَبَّهُونَ ‏‏‏‏

کیا تم لوگ جاہلیت کا کام کرتے ہو یا جاہلیت کی مشابہت کرتے ہو ؟( سنن ابن ماجہ : 1485 )

آپ کا یہ فرمان سن کر لوگوں نے اپنی چادریں لے لیں اور اس کے بعد کبھی بھی اس قسم کی رسمیں نہیں کی۔

اور آگ پر چلتے ہوئے بڑے زور شور سے نعرہ لگائے جاتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ

الشِّفَاءُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي شَرْطَةِ مِحْجَمٍ أَوْشَرْبَةِ عَسَلٍ أَوْكَيَّةٍ بِنَارٍ وَأَنْهَى أُمَّتِي عَنِ الْكَيِّ.

تین چیزوں میں شفا ہے۔ سینگی لگانے میں، یا شہد كے گھونٹ میں یا آگ سے داغنے میں اور میں اپنی امت كو داغنے سے منع كرتا ہوں ۔( صحیح بخاری : 5249 )

جب شریعت میں آگ کا استعمال علاج کے لیے بھی منع ہے تو کسی کے سوگ میں اس پر چلنا اور محبت کا اظہار کرنا کہاں کی عقل مندی اور شرعی عمل ہے ؟!

جوں جوں 10 محرم کا دن قریب آتا جاتا ہے قبرستان کی رونق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ جب 10 محرم کا دن طلوع ہوتا ہے تو ایک گروہ ماتم اور سینہ کوبی کےلیے اور گھوڑے لیے گھروں سے نکلتا ہے تو دوسرا جوان بہو بیٹیوں کو لے کر قبرستان کی جانب نکلتا ہے پھولوں اور اگر بتیوں کے اسٹال لگتے ہیں ۔ مرد و زن اکٹھے مٹی ڈالنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں 10 محرم کو قبرستان تو قبرستان لگتا ہی نہیں وہ تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مینا بازار ہو  کثیر تعداد میں مرد موجود ہوتے ہیں تب بھلا مٹی ڈالتے وقت بھلا پردہ کون کرتا ہے ؟اور توہم پرستوں نے ایسی ایسی داستانیں گھڑ لی ہیں کہ اللہ کی پناہ! مٹی ڈالنے کے بعد قبر پر کھڑے ہوکے شیرینی بانٹی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے اگر کوئی مٹی ڈالنے کے بعد شیرینی نہ بانٹے تو قبر والے پر بوجھ رہتا ہے یہ سب من گھڑت چیزیں ہیں قبروں کی زیارت کا حکم نبی کریم نے اس لیے دیا ہے کہ اس سے آخرت کی یاد آئے اگر وہاں مینا بازار لگایا جائے تو آخرت کی یاد کب آئے گی ؟ہاں بے پردگی کی وجہ سے شاید گناہ مزید بڑھ جائیں دور نبوی میں بقیع الغرقد میں یا دور صحابہ رضوان اللہ علیھم میں کبھی وہاں اس طرح میلہ لگا تھا یا مٹی اور پھولوں کا اہتمام ہوا تھا ۔۔۔؟

( اسلامی مہینے اور مروجہ بدعات ، از تفضیل احمد ضیغم ایم اے ، ص : 35 )

اور اکثر خواتین سر سے دو پٹہ اتار کر سینہ پیٹتے ہوئے ننگے سر ننگے پاؤں مردوں کے ساتھ جلوسوں میں شریک ہوتی ہیں اور اس کو بڑے اجر کا کام سمجھتی ہیں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں

مَا مِنَ امْرَأَۃٍ تَطَیَّبَتْ لِلْمَسْجِدِ فَیَقْبَلُ اللّٰہُ لَھَا صَلَاۃً حَتّٰی تَغْتَسِلَ مِنْہُ اِغْتِسَالَھَا مِنَ الْجَنَابَۃِ

جو عورت مسجد کے لیے خوشبو لگاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ وہ غسلِ جنابت کی طرح کا غسل نہ کر لے۔ (مسند احمد : 7946)

جب مسجد کے لیے خواتین کے جانے پر اتنی بڑی تنبیہ آئی ہے تو فضول ناچ گانے نوحہ وغیرہ کی مجالس میں شریک ہونا کونسی شریعت ہے ؟!

یہ میں نے فقط وہ چند باتیں سرسری پیش کی ہیں جو ہمارے معاشرے میں سرعام کیے جاتے ہیں ورنہ ماہ محرم میں ہمارے معاشرے میں جو خرافات سر انجام دئیے جاتے ہیں ان پر تو ایک طویل تفصیلی مضمون لکھا جاسکتا ہے مزید ملاحظہ ہوں علماء حق کے کتب :

رسومات محرم از حافظ صلاح الدین یوسف صاحب ۔

اسلامی مہینے اور مروجہ بدعات از تفضیل احمد ضیغم صاحب۔ 

اسلامی خطبات از الشیخ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ

ریاست مدینہ اور نیا پاکستان

 25 جولائی 2018ء کے الیکشن نتائج کے بعد پی ٹی آئی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے۔ یہ کامیاب ہوئی ہے یا کرائی گئی ہے، یہ ایک الگ بات ہے، البتہ نتائج آنے کے بعد عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ جیتنے کے بعد خان صاحب نے جو پہلی تقریر کی اس میں مدینہ کی طرز پر ایک نیا پاکستان بنانے کی بات کی جسے لوگوں کی طرف سے سراہا گیا۔ اگر خان صاحب اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اہل پاکستان پر بہت بڑا احسان ہو گا لیکن اگر ان کا یہ دعویٰ صرف جذباتی گفتگو تک محدود رہتا ہے تو پھر اہل پاکستان کے ساتھ یہ وہ دھوکا اور فراڈ ہوگا جس کے بعد سہ بارہ خان صاحب پر اعتماد کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ (سہ بارہ اس لیے کہ پہلا موقع کے پی کے میں اور دوسرا موقع وفاق میں دیا جا رہا ہے۔) خان صاحب نے یہ جو مدنی ریاست کی بات کی ہے کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ بہت بڑی بات کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ قانون کی بہت ساری شقوں اور حالات کو یکسر بدل دینا۔ اس میں وہ سب باتیں آتی ہیں جن کا ذکر ہم آنے والی سطور میں کریں گے۔ البتہ خان صاحب کی گفتگو سے بظاہر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مدنی ریاست سے مراد صرف انصاف کی فراہمی لے رہے تھے۔ اگر انھوں نے مدنی ریاست کا مطلب صر ف انصاف کی فراہمی سمجھا ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ انصاف کی فراہمی تو مدنی ریاست کا صرف ایک پہلو تھا، انصاف کے علاوہ اور انصاف سے پہلے اور بھی بہت سارے پہلو ہیں جن سب کے ملنے سے مدنی ریاست کا ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔

ذیل میں ہم مدنی ریاست کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں۔ اگر خان صاحب اپنے اس دعوے میں مخلص ہیں تو انھیں اس خاکے کے مطابق نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ اگر وہ مدنی ریاست کے صرف ایک پہلو ’’انصاف‘‘ کو لیں اور باقی تمام پہلوؤں کو پس پشت ڈال دیں تو پھر ان کا مدنی ریاست کا بیانیہ سراسر دھوکے اور فراڈ پر مبنی ہو گا۔ پھر انھیں چاہیے کہ وہ مدنی ریاست کا نام لینے کی بجائے صرف ’’انصاف‘‘ کا نام لیں۔ اس لیے کہ مدنی ریاست کا جو خاکہ ہم پیش کرنے جا رہے ہیں وہ ہمارا اپنا تیار کردہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اور کتب سیرت و احادیث میں منقول مدنی ریاست کے وہ حقائق ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ آئیے! پڑھتے ہیں مدنی ریاست کے مختصر خدوخال:

عقیدئہ توحید

ریاست مدینہ کی سب سے اہم اور بنیادی اینٹ عقیدئہ توحید تھی۔ رسول اللہe نے تیرہ سال اہل مکہ کو عقیدئہ توحید کی دعوت دی۔ چند ایک افراد نے اس دعوت کو قبول کیا، اکثریت اس کی انکاری رہی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپe نے مکہ سے یثرب ہجرت کی اور مدینۃ النبی کے نام سے اس ریاست کی بنیاد عقیدئہ توحید پر رکھی۔ اس کے بعد دس سال آپe نے اس ریاست میں توحید کی خوب آبیاری کی۔ آپe نے فرمایا: ’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک لوگ عقیدئہ توحید قبول نہ کر لیں تب تک ان سے قتال کرتا رہوں۔‘‘ (صحیح البخاري:25)

ایک مرتبہ صحابہ کرامy نے آپe کے سامنے تبرک کے حصول کے لیے ذات انواط کے نام سے ایک درخت مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپe نے ان کی اس خواہش پر غصے کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’تم نے بالکل ویسے ہی مطالبہ کیا ہے جیسا موسیٰu کے حواریوں نے ان سے کیا تھا کہ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود مقرر کر دیں جیسے دوسرے لوگوں نے معبود بنا رکھے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي: 2180)

گویا عقیدئہ توحید ریاست مدینہ کی ایک بنیادی اکائی تھی۔ مدینہ طیبہ میں درباروں، مزاروں اور قبروں کی پوجا پاٹ کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ ہی کوئی ایسا تصور صحابہ کرامy میں پایا جاتا تھا۔ جب کبھی شیطان کے ورغلانے سے صحابہ کرامy کے ذہنوں میں ایسی کوئی سوچ آئی تو آپe نے فوراً ان کی اصلاح کی۔ جس دن رسول اللہe کے بیٹے ابراہیمt کی وفات ہوئی اسی دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ بعض صحابہ کرامy کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ آج سورج کو گرہن ابراہیمt کی وفات کی و جہ سے لگا ہے۔ آپe کو اس خبر کی اطلاع ہوئی تو آپe نے فرمایا: ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی شخص کی موت یا پیدائش کی و جہ بے نور نہیں ہوتے، جب کبھی تم ان کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا بیان کرو۔‘‘ (صحیح البخاري: 1043)

عقیدئہ توحید ریاست مدینہ کی وہ بنیادی اکائی ہے جس کے بغیر مدینہ کی تکمیل نامکمل ہے۔ اب مدینہ کی طرز پر جو بھی ریاست تعمیر ہو گی اس کی بنیاد عقیدئہ توحید پر ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ گویا مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے شرک کے تمام اڈوں کا خاتمہ، درباروں اور مزاروں کا صفایا ضروری ہے۔ اگر خان صاحب اپنے اس دعوے میں مخلص ہیں تو وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے یہی قدم اٹھائیں ورنہ اس اقدام کے بغیر ریاست مدینہ کا خواب محض خام خیالی ہے اور کچھ نہیں۔

نظام صلاۃ

نماز کی پابندی ریاست مدینہ کی ایک اہم خوبی تھی۔ جیسے ہی اذان ہوتی ایک عام مسلمان سے لے کر حکمران مدینہe تک تمام لوگ مسجد کا رخ کرتے۔ اگر کوئی شخص سخت بیماری یا سفر پر جانے کی و جہ سے مسجد میں حاضر نہ ہو پاتا تو آپe اس کے بارے میں معلوم کراتے۔ حکمران مدینہe کا فرمان ہے: ’’اللہ کی قسم! میں نے کئی بار یہ ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں اور پھر اذان کے بعد ایک شخص کو نماز پڑھانے کی ڈیوٹی سونپ دوں اور میں ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو نماز باجماعت کے لیے مسجد میں نہیں آتے ہیں‘‘آپe نے یہ عام آرڈیننس جاری کیا کہ جو شخص عشاء اور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا اس میں نفاق کی علامت پائی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم: 651)

حکمران مدینہe کی اپنی حالت یہ تھی کہ سخت بیماری کے ایام میں بھی صحابہ کرامy کے کندھوں کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ (صحیح البخاري: 664)

آخری وقت میں آپe نے اہل مدینہ اور تمام امت کو نماز کی اہمیت سے آگاہ کیا اور فرمایا: ’’نماز، نماز، نماز۔‘‘ (سنن أبي داود: 5156)

گویا ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں نماز کی پابندی لازمی قرار دی جائے۔ عام شخص سے لے کر ارکانِ پارلیمنٹ تک تمام افراد کو نماز بروقت اور باجماعت ادا کرنے کا پابند کیا جائے کیونکہ نماز کی پابندی ریاست مدینہ کی ایک نمایاں خوبی تھی۔

نظام زکاۃ

ریاست مدینہ کا ایک اہم پہلو زکاۃ کا نظام تھا۔ حکمران مدینہe نے ٹیکس کی بجائے زکاۃ کا نظام متعارف کرایا۔ ٹیکس وصول کرنے والوں کے بارے سخت وعیدیں ارشاد فرمائیں اور زکاۃ ادا کرنے والوں کو بڑی بڑی نویدیں سنائیں۔ اسی نظام زکاۃ کی بدولت ریاست مدینہ نے شاندار معاشی ترقی کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ زکاۃ دینے والے زکاۃ لینے والوں کو ڈھونڈ رہے تھے مگر ریاست مدینہ میں کوئی زکاۃ لینے والا میسر نہ تھا۔ گویا مدینہ کی ترقی میں نظام زکاۃ کا ایک اہم کردار شامل تھا کہ جب امراء نے غرباء کو اپنے اموال کی زکاۃ دی تو غرباء نے اس کے ساتھ اپنا بزنس شروع کیا اور یوں وہ بھی اپنے آپ کو امیر لوگوں کے برابر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر خان صاحب ملکی ترقی چاہتے ہیں اور مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر چاہتے ہیں تو اس کے لیے ٹیکس کے نظام کا خاتمہ اور نظام زکاۃ کا نفاذ ضروری ہے۔

حدود اللہ کا نفاذ

مدینہ طیبہ میں حدود اللہ کا نفاذ ایک یقینی امر تھا۔ زنا، چوری اور قصاص جیسی حدود بلاتفریق نافذ کی جاتی تھیں۔ حدود اللہ کے عملی نفاذ کی بنا پر ریاست مدینہ امن کا گہوارہ بن چکی تھی۔ حکمران مدینہe کا حدود اللہ کو نافذ کرنے کا قانون اس قدر صاف اور شفاف تھا کہ امیر اور غریب کا لحاظ کیے بغیر حد جاری کر دی جاتی تھی۔ آپe حدود کے نفاذ میں اس قدر سختی سے عمل پیرا تھے کہ کوئی بھی شخص کسی کی سفارش کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا۔ اگر کسی نے کبھی یہ جسارت کی بھی تو آپ نے سختی سے اسے ٹھکرا دیا اور سفارش کرنے والے کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حدود اللہ کے نفاذ کا نتیجہ تھا کہ ریاست مدینہ میں ہر کسی کی عزت اور مال محفوظ تھا۔ ایک موقع پر جب حکمران مدینہe کی طرف سے چوری کی حد نافذ کرنے کا آرڈیننس جاری ہو گیا تو بعض صحابہ کرامy کے کہنے پر سیدنا اسامہ بن زیدw نے حکمران مدینہe کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حکم کو کالعدم کرنے کی سفارش کی۔ آپe نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’کیا تم اللہ کی حدود کے نفاذ میں آڑے آتے ہو، تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت اور بربادی کی ایک و جہ یہ بھی تھی کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دی جاتی۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدe بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري: 3475)

ریاست مدینہ میں حدود اللہ کے نفاذ میں امیر اور غریب کے مابین کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں حدود اللہ کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ زانی کو سرعام سنگسار کیا جائے اور چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ مقتول کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے، الا یہ کہ قاتل دیت دے اور ورثاء بھی دیت لینے پر راضی ہو جائیں۔ اگر خان صاحب مدنی ریاست کو رول ماڈل بنانے میں مخلص ہیں تو پھر حدود اللہ کے نفاذ کو یقینی بنانا ہو گا۔ خان صاحب نے اپنی گفتگو میں انصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا ہے مگر حقیقی انصاف تب ہی میسر ہو گا جب حدود اللہ کا نفاذ ہو گا۔ بہرحال حدود اللہ کا نفاذ ریاست مدینہ کا وہ لازمی عنصر تھا جس کے بغیر ریاست نامکمل ہے، اس لیے اس طرز پر جس ریاست کی بھی بنیاد رکھی جائے گی وہاں حدود اللہ کا نفاذ ضروری ہے۔ صحابۂ کرامy میں سے اگر کسی سے زنا کا ارتکاب ہو جاتا تو وہ رجم کی سزا کے لیے عدالت مدینہ میں اپنے آپ کو پیش کر دیتے تھے۔ اگر جرم ثابت ہو جاتا تو حکمران مدینہ اسے رجم کرنے کا حکم جاری فرما دیتے۔ چونکہ خان صاحب بھی اس جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں، بقول ریحام خان ایک دو بار نہیں بلکہ بارہا اس جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں اور عالمی عدالتوں میں یہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہے۔ اب اگر خان صاحب ریاست مدینہ کی اتباع کرتے ہوئے حدود اللہ کے نفاذ میں سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کرتے ہیں تو یہ اس دور میں ایک عظیم مثال ہو گی۔

ارتداد کی سزا

ریاست مدینہ میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہائش پذیر تھے۔ حکمران مدینہ کی جانب سے انھیں وہاں رہنے کی اجازت تھی مگر انھیں اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ مدینہ میں اپنے مذہب کا پرچار کریں اور مسلمانوں کو اپنے مذہب میں داخل کر لیں۔ اس کی بنیادی و جہ یہ تھی کہ دین اسلام کے بعد سابقہ تمام ادیان منسوخ ہو چکے تھے۔ اب نہ تو کوئی سابقہ دین قابل قبول تھا اور نہ ہی اسلام سے ہٹ کر کوئی نیا دین یا نیا نبی۔ ا سی اصول کے تحت ریاست مدینہ کے منشور میں یہ شق شامل تھی: ’’جو اپنا دین (دین اسلام) بدلے اسے قتل کر دو۔‘‘ (صحیح البخاري: 6922)

ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان کی اس شق کو عملاً نافذ کیا جائے۔ پرانے پاکستان میں جتنے بھی مرتدین موجود ہیں انھیں اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کا ایک موقع دیا جائے۔ اگر وہ توبہ کرکے اسلام میں واپس لوٹتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان سب کی گردنیں تن سے جدا کر دی جائیں۔ خصوصاً قادیانیوں کا اس ملک سے خاتمہ کیا جائے جو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف آستین کے سانپ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تمام مرتدین کو آزادی مذہب کی چھتری تلے پناہ د ینے کی بجائے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس قانون کی زد میں اگر خان صاحب کی اپنی سابقہ بیوی بھی آئے تو اس قانون کے نفاذ میں ان کے قدموں میں ڈگمگاہٹ نہیں آنی چاہیے۔ ریاست مدینہ میں غزوئہ بدر کے موقع پر سیدنا عمر فاروقt نے یہی کہا تھا کہ یارسول اللہ (e)! جو میرے رشتے دار ہیں انھیں میرے حوالے کیا جائے، میں انھیں قتل کروں گا اور جو سیدنا ابوبکرt کے رشتے دار ہیں وہ ان کے سپرد کیے جائیں اور وہ انھیں قتل کریں۔ مدینہ کی طرز پر قائم ہونے والی ریاست کا بھی یہی تقاضا ہے۔

سودی نظام کا خاتمہ

سودی معاملات کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا سب سے کم اور ہلکا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی سگی ماں سے زنا کا ارتکاب کرے۔ (سنن ابن ماجہ: 2274)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے اوپر والے درجات کی ہیبت کیا ہو گی۔ سودی معاملات کے نتیجے میں امیر آدمی امیر سے امیر ترین اور غریب آدمی غریب سے غریب ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کی تو زندگی سودی قرض اتارتے اتارتے گزر جاتی ہے۔ ریاست مدینہ سودی غلاظت سے بالکل پاک اور صاف تھی۔ حکمران مدینہe نے سود کی تمام اقسام سے اپنی رعایا کو آگاہ کیا اور انھیں ان اقسام کو اپنانے سے سختی سے منع کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپe نے عام اعلان کر دیا کہ آج سے پہلے اہل مکہ کے مابین بھی جو سودی معاملات تھے وہ ختم کیے جا رہے ہیں، ہر شخص قرض کی اصل رقم وصول کرے، اس پر سود لینا اس کے لیے قانوناً اور شرعاً ناجائز ہے۔

مدینہ کی طرز پر نیا پاکستان تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ سود کی جتنی بھی صورتیں ملک میں رائج ہیں انھیں قانوناً جرم قرار دیا جائے۔ نچلی سطح سے لے کر بینکنگ نظام تک تمام ادارے سود سے پاک کیے جائیں۔ اگر خان صاحب سودی نظام کو زیرو پر لے جاتے ہیں تو نئے پاکستان کی تشکیل میں اہم کامیابی پا لیں گے اور اگر اس طرف توجہ نہیں دیتے تو پھر طرز مدینہ پر ریاست تشکیل دینے کے دعوے محض بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔

بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام

ریاست مدینہ کا بے حیائی اور فحاشی کے تعلق سے منشور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  (النور 19)

’’وہ لوگ جو اہل ایمان میں بے حیائی کے فروغ کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں المناک عذاب ہے۔‘‘

حکمران مدینہe نے اس کی ذیلی شق یوں بیان کی: ’’مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت و ملامت کرنے والا اور نہ فحاشی کی باتیں کرنے والا۔‘‘ (صحیح المفرد: 232/1)

گویا ریاست مدینہ کے منشور میں یہ شق شامل تھی کہ ریاست میں رہتے ہوئے بے حیائی اور فحاشی کی کسی بھی صورت کا ارتکاب قانوناً جرم ہے۔ یہ صرف قانون ہی نہیں تھا بلکہ حکمران مدینہe نے اپنی رعایا کی تربیت بھی بڑی پاکیزہ کی تھی۔ یہی و جہ ہے کہ ریاست مدینہ میں خواتین بامر مجبوری گھر سے باہر نکلتی تھیں۔ جب گھر سے باہر نکلتیں تو مکمل پردے میں ہوتیں، حتی کہ سر تا پا چادریں زمین پر گھسٹ رہی ہوتیں۔ منشور مدینہ میں بھی باحیا معاشرے کی تشکیل کے لیے خواتین کو یہی حکم دیا گیا تھا:

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی (الأحزاب 33)

’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘

طرز مدینہ پر قائم ہونے والی ریاست میں ضروری ہے کہ معاشرے کو بے حیائی اور فحاشی کے کیچڑ سے نکالا جائے۔ خان صاحب گزشتہ کچھ برسوں سے اپنے دھرنوں اور جلسوں میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے میں خاصے معروف ہوئے ہیں۔ اب چونکہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں اور نئے پاکستان کی تعمیر مدینہ کی طرز پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے انھیں اب اپنی پرانی روش کو بدلنا ہو گا۔ اگر وہ اپنے آئندہ ہونے والے جلسوں میں قوم کی بیٹیوں کو نچانے والی روش کو جاری رکھتے ہیں اور نام ریاست مدینہ کا لیتے ہیں تو یہ مدینہ طیبہ کی گستاخی ہے۔ ریاست مدینہ میں خواتین کا یوں غیر محرموں کے ساتھ مل کر ناچ گانا کرنا تو درکنار وہ تو مکمل پردے کے بغیر گھروں سے نکلا ہی نہیں کرتی تھیں۔ وہ تو راستے میں چلتے ہوئے بھی دیواروں کے ساتھ گھسٹ کر گزرتی تھیں کہ کہیں غیر مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو جائے۔ بہرحال اب خان صاحب کو اس پر خاص توجہ دینی ہو گی، اگر وہ ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تشکیل کے خواہاں ہیں تو انھیں بے حیائی اور فحاشی کے سیلاب کو روکنا ہو گا اور بے حیائی کی تمام قسموں کا خاتمہ یقینی بنانا ہو گا، چاہے وہ مخلوط سسٹم اور ناچ گانے کی صورت میں ہو یا کلچر کی آڑ میں ہونے والے پروگراموں کی صورت میں ہو یا اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں۔ اگر بے حیائی اور فحاشی یونہی رائج رہے اور دعوے ریاست مدینہ کے ہوں تو یہ قوم کے ساتھ سراسر دھوکا اور فریب ہے۔

با حیا اور غیرت مند حکمران

ریاست مدینہ کے حکمران محمدe ایک باحیا اور پاکیزہ صفت انسان تھے۔ آپ کا ماضی بھی پاکیزہ تھا اور حال بھی۔ غیر محرم عورتوں کے ساتھ آپ کا تعلق صرف اس حد تک ہوتا کہ جو عورتیں آپ سے دینی سوال پوچھتیں آپe انھیں ان کے سوالوں کے جواب دیتے اور ان کے ساتھ کوئی اضافی اٹھک بیٹھک نہ کرتے۔ آپe کی حیا اور پاکیزگی کا عالم تو یہ تھا کہ خواتین آپe کے ہاتھ پر بیعت کرنے آتیں مگر آپe نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ آپe اپنے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں کو ہمیشہ صاف رکھتے اور اپنی صفائی پیش کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوتے۔ آپe مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپe کی ایک بیوی سیدہ صفیہr ملنے کے لیے آئیں۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو آپe انھیں چھوڑنے کے لیے باہر تک آئے۔ آپe ابھی اپنی زوجہ محترمہ سے گفتگو کر رہے تھے کہ وہاں سے دو آدمی گزرے۔ آپe نے انھیں روکا اور فرمایا: ’’یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: سبحان اللہ۔ یا رسول اللہe !ہمارے ذہنوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’شیطان، انسان کے جسم میں ایسے ہی دوڑتا ہے جیسے رگوں میں خون۔ مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ وہ کہیں تمھارے دلوں میں کوئی غلط بات نہ ڈال دے۔‘‘ (صحیح البخاري: 2038)

حکمران مدینہe نے فوراً اپنی صفائی پیش کی کہ کہیں شیطان ان کے دلوں میں غلط بات نہ ڈال دے کہ محمدeکسی غیر عورت کے ساتھ کھڑے تھے۔ گویا حکمران مدینہe کا ماضی بھی پاکیزہ اور حال بھی پاکیزہ تھا۔

خان صاحب بھی طرزِ مدینہ پر بننے والے نئے پاکستان کے حکمران بننے جا رہے ہیں۔ ان کا ماضی کیسا تھا؟ ہم اسے نہیں چھیڑتے، البتہ اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اب انھیں اپنے ماضی سے توبہ تائب ہو کر اپنے حال کو بدلنا ہو گا۔ اب انھیں طرز مدینہ پر قائم ہونے والے نئے پاکستان میں غیر محرم عورتوں سے میل ملاپ اور ان کے ساتھ چمٹ کر پوز بنانے سے گریز کرنا ہو گا۔ اگر آپ ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کا عزم رکھتے ہیں تو پھر آپ کو بھی بحیثیت حکمران، حکمران مدینہe کے اعلیٰ اوصاف کو اپنانا ہو گا۔

اعلیٰ اخلاق و آداب

حکمران مدینہe بڑے اعلیٰ اخلاق اور آداب کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید میں یوں دی ہے:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم 4)

’’بے شک آپ بڑے اعلیٰ اخلاق پر ہیں۔‘‘

آ پ کے اعلیٰ اخلاق کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی آپ کو تکلیف بھی دے دیتا تو آپ نے اس سے کبھی انتقام نہیںلیا۔ حکمران مدینہe نے اپنے ورکرز کی بھی بڑی اعلیٰ تربیت کی اور فرمایا: ’’جو ہمارے بڑے لوگوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹے لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس کاہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (جامع الترمذي: 1919)

خان صاحب ماضی میں اس حوالے سے خاصے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس پر ان کے جلسوں میں ہونے والی گفتگو شاہد ہے۔ بہرحال اب انھیں اپنے اس انداز کو بدلنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ورکرز کی بھی تربیت کرنا ہو گی۔ انھیں بڑوں اور چھوٹوں کا ادب سکھانا ہو گا۔ ان کے ذہنوں میں اپنی پارٹی کے علاو جو دیگر پارٹیوں کا بغض اور نفرت بھر دیا گیا ہے اسے ختم کرنا ہو گا۔ ان کے اندر حق بات سننے اور اسے برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ انھیں گالی گلوچ کی سیاست سے نکال کر اخلاقیات کے دائرے میں لانا ہو گا۔

عورت کی سربراہی

ریاست مدینہ میں عورت کی سربراہی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ حکمران مدینہ نے امور ریاست انجام دینے کے لیے کسی عورت کو اپنا وزیر یا نگران مقرر نہیں کیا تھا۔ آپe نے مدینہ سے باہر بھی ہمیشہ مردوں ہی کو نگران بنا کر بھیجا۔ آپe نے اس ریاست کو ناکام ریاست قرار دیا جس ریاست کی سربراہ عورت ہو۔ مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں اس بات کا لحاظ رکھنا ہو گا کہ کسی بھی عورت کو کسی عہدے پر فائز نہ کیا جائے۔

دور نبوت کی ریاست مدینہ کا یہ مختصر نقشہ ہم نے کھینچا ہے۔ عمران خان صاحب نے پرانے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان میں بدلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اگر وہ اپنے اس عزم میں مخلص ہیں تو انھیں ان تمام پہلوؤں کو عملاً اپنانا ہو گا تاکہ وہ اپنے اس عزم میں کامیاب ہو سکیں اور اہل پاکستان نئے پاکستان کی شکل میں مدنی ریاست کا دیدار اپنی آنکھوں سے کر سکیں۔ چونکہ خان صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے تو ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ وہ مذکورہ نقشے کے مطابق نئے پاکستان کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ کچھ ٹھوس حقائق اور مشاہدات و تجربات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ جن بنیادوں پر ریاست مدینہ کو قائم کیا گیا تھا ان بنیادوں پر نئے پاکستان کی تعمیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آرہی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ہم نے پہلے عرض کیا کہ ریاست مدینہ کا مطلب صرف انصاف کی فراہمی نہیں بلکہ وہ تمام پہلو ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔ مدنی ریاست کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب کو سب سے پہلے اپنے گھر کی اصلاح کرنا ہو گی۔ انھیں یہ ٹھوس عقیدہ اپنانا ہو گا کہ مزاروں پر پیشانی رگڑنا ریاست مدینہ کے قانون میں حرام ہے۔ انھیں اپنی پیرنی زو جہ محترمہ کا قبلہ بھی درست کرنا ہو گا۔ انھیں ریاست میں موجود شرک کے تمام اڈوں کا خاتمہ کرنا ہوگا، یہ وہ کام ہے جس پر عمل درآمد دو بنیادی وجوہات کی بنا پر بالکل ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ پہلی و جہ یہ کہ بہت سارے امور ریاست کا انحصار ان مزارات سے حاصل ہونے والے نذرانوں پر ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس قدر وسیع ذریعہ آمدنی بند کر دیا جائے۔ دوسری وجہ یہ کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خاندانی طور پر مزارات کے گدی نشین ہیں۔ وہ اپنا یہ ذریعہ معاش بند ہوتا ہوا ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ اقدام نہیں ہوتا تب تک مدنی ریاست کا خواب فقط خام خیالی ہے۔

اسی طرح مدنی ریاست کے لیے ضروری ہے کہ نظام صلاۃ قائم ہو، ٹیکس کا خاتمہ اور زکاۃ سسٹم رائج کیا جائے۔ حدود اللہ کا عملی نفاذ ہو، سودی نظام کا خاتمہ ہو، معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کو ختم کیا جائے، قوم کے افراد کی اچھی تربیت کی جائے، یہ اور وہ تمام امور جو مدنی ریاست کے لیے ضروری ہیں انھیں یقینی بنایا جائے۔ یہاں یہ اعتراض بھی اٹھایاجا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں سے تو یہ مطالبہ نہیں کیا گیا، خان صاحب سے کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس پر عرض کریں گے کہ گزشتہ حکومتوں نے قوم کو مدنی ریاست کا خواب نہیں دکھایا۔ خواب کی تعبیر کا مطالبہ بھی اسی سے کیا جاتا ہے جو خواب دکھاتا ہے۔ خان صاحب نے نئے پاکستان کی تعمیر ریاست مدینہ کی طرز پر کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ مطالبات بھی خان صاحب ہی سے ہوں گے۔ مقولہ مشہور ہے: خوابوں کے ٹوٹنے پر ارمان اس شخص پر ہوتا ہے جس نے خواب دکھائے ہوتے ہیں، اس کے برعکس اس شخص پر ارمان نہیں ہوتا جس نے خواب دکھائے ہی نہ ہوں۔ خان صاحب اگرچہ اپنے خوابوں کی تعبیر میں مخلص ہوں مگر ان کے اردگرد جن لوگوں کا جمگھٹا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں اگر خان صاحب اپنے دعوے کے مطابق ریاست مدینہ کا نقشہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خان صاحب قوم کے ہیرو ہیں اور اگر یہ فقط کھوکھلے دعوے ہیں تو قوم انھیں معاف نہیں کرے گی!!!

سرمایہ سیادت و قیادت سیدناعمر رضی اللہ عنہ

نام ونسب

اسم گرامی عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن رباح بن عبد اللہ بن قرت بن زراع بن عدی بن کعب بن لوئی بن فہر بن مالک، کنیت ابو حفص اور لقب فاروق ہے، آپ کے والد کا نام خطاب اور آپ قریش کی شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ کا نام خنتمہ بنت ہشام بن مغیرہ تھا۔ ( روشن ستارے، ص 50 )

آپ کی پیدائش مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی کے چالیس برس قبل ہوئی، آپ کے بچپن کے حالات و واقعات کے حوالے سے تاریخ خاموش ہے۔ ( الفاروق: 30)

جوانی

سن شباب میں حضرت عمر فاروق نے علم انساب اپنے والد سے سیکھا اور اس میں مہارت حاصل کی، شہسواری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا کہ آپ گھوڑے پر کود کر اس طرح سوار ہوتے کہ جلد بدن ہو جاتے تھے۔ آپ شعر و شاعری، خطاطی، خطابت، پہلوانی اور سپر گری کے فنون پر عبور حاصل ہونے کے علاوہ تجارت کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے۔

قبولِ اسلام

سیدناعمر فاروق کا قبول اسلام بھی قابل رشک ہے، پیغمبر اسلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ یا اللہ ! عمر یا ابو جہل میں سے جو تجھے پسند ہو اسلام کو اس سے قوت عطا فرما، اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کی دعا کو حضرت عمر کے حق میں قبول فرمایا، کفار مکہ کی مشاورت میں آپ کو حضرت محمد کو نعوذ باللہ شہید کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی، آپ اس مقصد کے حصول کے لیے نکلے مگر بہن اور بہنوئی کے قبول اسلام اور استقامت کی وجہ سے دل نرم پڑ گیا، بارگاہِ نبوت میں اسلام قبول کرنے کی غرض سے حاضر ہو کر نبی کریم کے دستِ اقدس پر کلمہ اسلام پڑھا، اس وقت آپ کی عمر مبارک چھبیس سال تھی، حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کا اسلام لانا فتح و نصرت تھا اور ان کی ہجرت مسلمانوں کی مدد اور اعانت ثابت ہوا اور ان کی خلافت امت کے لیے رحمت تھی۔

نبی کریم کے ساتھ تعلق

سیدناعمر فاروق کا نبی کریم کے ساتھ سلسلہ نسب آٹھویں پشت سے ایک ہو جاتا ہے، ام المومنین سیدہ حضرت حفصہ حضرت عمر فاروق کی بیٹی تھیں اس لحاظ سے آپ کو خسر پیغمبر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضور کی نواسی اور حضرت علی کی صاحبزادی آپ کے عقد میں تھیں۔ حضرت عمر نے سب سے پہلے بیت اللہ میں اللہ کا نام بلند کیا، آپ سفر و حضر میں پیغمبر اسلام کے ساتھ با وفا ساتھی، مخلص مشیر وزیر کی طرح رہے، نبی کریم نے فرمایا : میرے آسمانوں پر دو وزیر جبرائیل و میکائیل اور زمین پر دو وزیر ابوبکر و عمر ہیں۔ ( مشکوٰة )

سیدناعمر نے نبی اکرم کے ساتھ سات سالہ مکی اور دس سالہ مدنی زندگی میں کسی موقع پر نبی کریم کا ساتھ نہیں چھوڑا، ستائیس غزوات میں شرکت فرمائی اور تمام اہم فیصلوں میں آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی، قرآنِ پاک کی ستائیس آیات آپ کی رائے کے مطابق نازل ہوئیں، نبی کریم نے فرمایا کہ عمر کی زبان پر اللہ نے حق کو جاری کر دیا ہے۔ ( بیہقی )

آپ نے فرمایا کہ جس راستہ سے عمر گزرتا ہو شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ (مسلم، بخاری )

ایک مرتبہ نبی کریم نے جنت کے احوال کا ذکر فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا وہاں ایک خوبصورت محل دیکھا، مجھے بتایا گیا کہ یہ عمر بن خطاب کا محل ہے، آپ نے فرمایا کہ میرا دل چاہا کہ میں وہ محل دیکھوں مگر اے عمر ! مجھے تیری غیرت یاد آ گئی اس لیے میں اندر نہیں گیا، ایک دفعہ حضور ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے جا رہے تھے، آپ نے فرمایا قیامت کے دن ہم تینوں اسی طرح اٹھائے جائیں گے، امت کو شیخین کی حیثیت ان الفاظ میں ارشاد فرمائی کہ میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتدا کرنا۔ ( مشکوٰة )

رسول کریم کے ساتھ محبت کی ادنیٰ سی جھلک یہ ہے کہ اپنی فقید المثال بہادری کے باوجود حضور کی وفات کی حالت کا تحمل نہ فرما سکے، سخت حیرانی و پریشانی کی حالت میں تلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں تو اس کی گردن اڑا دوں گا، حضور تو اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تشریف لے گئے تھے عنقریب حضور واپس تشریف لائیں گے اور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے جو حضور کے فوت ہونے کی جھوٹی خبر اڑا رہے ہیں، آپ کو جب نبی کریم کا زمانہ یاد آتا تو آپ رونے لگتے اور روتے روتے بے ہوش ہو جاتے۔ ( بخاری، مسلم )

خلیفۃ الرسول جناب صدیق اکبر کے دور مبارک میں آپ نے امورِ خلافت میں بہترین مشیر و وزیر کا فریضہ سر انجام دیتے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو صحابہ نے آپ کے سخت مزاج ہونے پر کلام کیا تو حضرت صدیق اکبر نے ان تاریخی الفاظ میں آپ کی غیر معمولی حیثیت کو واضح فرمایا کہ میں اللہ سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو امیر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔

محاسبہ نفس اور امانت داری

بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد جناب عمر فاروق نے امورِ خلافت کو نظم و ضبط اور عدل و انصاف کے ساتھ اس انداز میں چلایا کہ اس مثال سے طبقہ سلاطین عاجز ہیں، آپ ادنیٰ سے ادنیٰ بات پر اپنا محاسبہ فرماتے تھے، آپ کا ضمیر ہمہ وقت بیدار رہتا تھا، سب سے اہم بات یہ تھی کہ آپ نے کبھی اپنی ذات کو اہمیت نہیں دی، آپ فرماتے تھے کہ امت کا مال اسی طرح میری نگرانی میں رہے گا جس طرح یتیم کے مال کی حفاظت کی جاتی ہے، آپ نے ہمیشہ زہد و تقویٰ اور درویشی والی زندگی گزاری، آپ کو نبی کریم اور جناب صدیق اکبر کا طرزِ زندگی پسند تھا، آپ فرماتے تھے کہ میرے دو رفیق ہیں، ان دونوں نے خاص انداز میں زندگی کے دن کاٹے ہیں، میری خواہش ہے کہ میں ہو بہو ان کے طریق پر چلوں کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میری مثال سے دوسرے بھی آنحضرت اور صدیق اکبر کے طریقوں سے انحراف کریں گے۔ ( خلفاء الراشدین )

ابو لؤلؤ فیروز مجوسی کے وار کی وجہ سے آپ کو گہرے زخم لگ چکے تھے جب آپ کو اس بات کا یقین ہو چکا کہ اب صحت یاب ہونا ممکن نہیں تو آپ نے ان تمام رقوم کا حساب لگوایا جو آپ کے نزدیک بیت المال کا قرض تھیں، یہ رقوم آٹھ ہزار درہم سے زائد تھیں، آپ نے اپنے صاحبزادے کو فرمایا کہ وہ اس رقم کو بیت المال میں ادا کر دے، آپ کی شہادت کے دس دن بعد وہ ساری رقم ادا کر دی گئی۔ در حقیقت یہ آپ کا بحیثیت خلیفہ اپنی اور اپنی اولاد کی کفالت کے لیے بیت المال سے لی گئی رقم کا مجموعہ تھا۔

جنگیں اور فتوحات

خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کے دورِ خلافت میں خلافتِ اسلامیہ کا پھیلاؤ (2251030) مربع میل تک پھیل گیا تھا، آپ کے مقبوضہ علاقوں میں اہم عراق، جزائر، خوزستان، شام، عجم، آرمینیا، آزر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا کچھ حصہ آ جاتا ہے شامل تھا۔ آپ کے دورِ خلافت میں معرکۃ الآراء جنگیں لڑیں گئیں، آپ کے مشہور سپہ سالاروں میں ابو عبید، ابو عبیدہ، مثنیٰ، قعقاع بن عمرو، معاذ بن جبل، سعد بن ابی وقاص، عمرو بن عاص اور خالد بن ولید رضی اللہ عنھم ہیں جنھوں نے عزم و استقلال اور بہادری کی لازوال داستانیں رقم کیں، مشہور جنگوں میں عراق کے مختلف محاذوں پر ایرانیوں کے خلاف لڑے جانے والے معرکوں میں جنگ جسر، یوم العماس اور جلولاء کے علاوہ قادسیہ کی عظیم فتح، شام کے عظیم معرکوں میں دمشق، فحل، حمص اور یرموک کا معرکہ جب کہ مصر کے معرکوں میں فسطاط اور اسکندریہ کی فتح اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

سیدناعمر فاروق کے دورِ خلافت میں ایک اہم سنگ میل جس پر امت مسلمہ اور اہل کتاب ہر دو کو فخر ہے وہ بیت المقدس کی فتح ہے 16ہجری بمطابق 637 عیسوی حضرت ابو عبیدہ نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا، قلعہ بند ہو کر لڑتے رہے، عیسائیوں نے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے یہ شرط اضافہ کی کہ خلیفۃ المسلمین عمر خود آئیں اور معاہدہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھا جائے۔ مشاورت کے بعد حضرت عمر کا جانا طے ہوا، آپ نے حضرت علی کو اپنا نائب مقرر کر کے خلافت کے کاروبار ان کے سپرد کیے، جابیہ کے مقام پر بیت المقدس کا معاہدہ لکھا گیا، اس کے بعد حضرت عمر نے بیت المقدس کا ارادہ کیا، جو گھوڑا آپ کی سواری میں تھا اس کے سم گھس چکے تھے اور رک رک کے چلتا تھا، آپ یہ دیکھ کر اتر پڑے، لوگوں نے ترکی گھوڑے پیش کیے، مگر آپ پیادہ پا ہی رہے یہاں تک کہ بیت المقدس قریب آ گیا، حضرت ابو عبیدہ اور دیگر کمانڈر آپ کے استقبال کے لیے آئے، آپ نہایت سادہ لباس اور معمولی حیثیت کا ساز و سامان ساتھ لیے ہوئے تھے، کچھ مسلمانوں نے قیمتی لباس اور اعلیٰ نسل کی سواری پیش کی، آپ نے رد عمل میں فرمایا کہ اللہ نے جو عزت ہمیں دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ ( بخاری، مسلم )

21 ہجری میں حضرت عمر نے نئی فتوحات کو منظم کرنے اور لشکر کشی کے لیے متعدد علم تیار کر کے جدا جدا ممالک کے افسران کے حوالے کیے جن میں خراسان کا علم احنف بن قیس، سابور اور خیبر کا مجامع بن مسعود، اصطخر کا عثمان بن عاص ثقفی، افساء کا ساریہ بن زنیم ہنانی کو، کرمان کا سہیل بن عدی کو، سیستان کا عاصم بن عمروکو، مکران کا حکم بن ومیر غلبی کو اور آذر بائیجان کا عتبہ بن فرقد کو سپرد کیا۔

نظم ونسق خلافت فاروقی

 خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق کی خلافت کا بنیادی اصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا یعنی پارلیمنٹ کا با ضابطہ قیام سب سے پہلے آپ کے دورِ خلافت میں کیا گیا، جب بھی کوئی انتظامی معاملہ پیش آتا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی اور کوئی امر بغیر مشاورت اورکثرت رائے کے طے نہ کیا جاتا تھا، مجلس شوریٰ کے اہم ارکان میں حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت شامل تھے۔

سیدناعمر فاروق نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے 20 ہجری میں ملک کو 8صوبوں میں تقسیم کیا، آپ کے مقرر کردہ صوبوں میں مکہ، مدینہ، شام، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر، فلسطین شامل تھے۔ ہر صوبے میں انتظامی افسران جن میں والی صوبہ ( حاکم )، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر منشی، صاحب الخراج یعنی کلکٹر، افسر پولیس، افسر خزانہ، قاضی یعنی صدر الصدور و منصف مقرر ہوتے تھے۔ آپ جس کو بھی عامل مقرر فرماتے تھے، اس کو ایک فرمان جاری کرتے، جس میں اس کی تقرری، اختیارات اور فرائض مذکور ہوتے تھے۔ عاملوں سے جن باتوں کا عہد لیا جاتا تھا ان میں ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہونا، باریک کپڑا نہ پہننا، چھنا ہوا آٹا نہ کھائے، دروازے پر دربان نہ رکھنے اور اہل حاجت کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھنے کا عہد شامل ہوتا تھا۔

ہر سال حج کے زمانے میں تمام عمال عوامی احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے تھے، کھلی کچہری میں عوامی شکایات کو سنا جاتا تھا اور اس کے تدارک کے احکامات جاری کیے جاتے تھے، عمال پر عائد الزامات کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم تھا۔

خراج کا نظم ونسق

خراج کا طریقہ عربی میں حضرت عمر فاروق نے ایجاد کیا، خراج کا نظم و نسق عرب کی تاریخ و تمدن میں نیا اضافہ اس وزارت میں سب سے انقلابی اقدام زمینداری اور ملکیت زمین کا جو قدیم قانون اور بالکل جابرانہ تھا مٹا دیا۔ زراعت کی ترقی کے لیے آپ نے کئی اہم نہریں تیار کروائیں، جن میں نہر ابی موسیٰ جس کی لمبائی 9 میل تھی اہل بصرہ کے لیے کھدوائی گئی، جس کے ذریعے اہل بصرہ کو گھر گھر پانی کی سہولت میسر آئی۔ نہرمعقل یہ دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی، نہر سعد، نہر امیر المومنین، یہ نہر امیر المومنین کے حکم پر کھدوائی گئی، اس نہر کے ذریعے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا، اس نہر کی لمبائی 29 میل تھی نہر کو چھ ماہ کی ریکارڈ مدت میں تیار کیا گیا۔

محکمہ قضاء

یہ محکمہ اسلام میں حضرت عمر فاروق کی بدولت وجود میں آیا، آپ کے دورِ خلافت کے مشہور قاضی زید بن ثابت، عبادہ بن صامت، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم، قاضی شریح، جمیل بن معمر جمحی، ابو مریم خفی، سلمان بن ربیعہ باہلی، عبد الرحمن بن ربیعہ، ابو قرة کندی اور عمران بن حصین تھے، قاضی کا تقرر امتحان و تجربہ کی بنیاد پر کیا۔

پولیس و جیل خانہ جات

عرب میں با ضابطہ طور پر جیل کے قانون کا کوئی تصور نہیں تھا، حضرت عمر نے مکہ مکرمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار میں خرید کر جیل خانہ بنوایا، پھر اس سلسلے کو باقی صوبوں اورا ضلاع تک پھیلایا گیا، آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے درمیانی راستے میں چوکیاں اور سرائے تعمیر کروا کر حاجیوں اور دیگر مسافروں کی آمد و رفت کو سہل اور پر امن بنایا۔

محکمہ مال ( بیت المال )

محکمہ مال کا شعبہ حضرت عمر کے تجدیدی کارناموں میں سے ایک ہے، سب سے پہلے دار الخلافہ مدینہ میں مرکزی بیت المال قائم کیا گیا جس کے امین حضرت عبد اللہ بن ارقم کو مقرر کیا گیا، دار الخلافہ کے علاوہ صوبہ جات اور اضلاع کے صدر مقامات میں بھی بیت المال قائم کیے گئے، اس محکمہ کے لیے علیحدہ عمارتیں بنوائی گئیں، صوبہ جات کے دفاتر میں بقدر ضرورت رقم رکھنے کے بعد سال کے اختتام پر بقیہ رقم مرکزی بیت المال مدینہ منورہ بھی دی جاتی تھی۔

فوجی نظام اور چھاؤنیاں

شعبہ تعلیم و تربیتاس شعبہ کو دورِ فاروقی میں اس قدر منظم اور پائیدار بنا دیا گیا کہ وہ دوسری اقوام کے لیے قابل تقلید اور باعث تعجب ثابت ہوا۔ 15 ہجری میں آپ نے محکمہ فوج کو منظم و مرتب فرمایا، انصار و قریش کے کوائف جمع کیے گئے، اسلام میں خدمات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تنخواہیں مقرر کی گئیں اور کارکردگی کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً اس میں اضافہ ہوتا رہتا تھا، 11 بڑے فوجی مراکز اور حصوں میں ملک کو تقسیم کیا گیا جن میں مدینہ، کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن اور فلسطین شامل تھے، مرکزی شہروں میں فوجی چھاؤنیاں اور فوجیوں کے رستے کے لیے رہائشی کالونیاں قائم کی گئیں، ہر جگہ بڑے بڑے اصطبل خانے جن میں تقریباً چار ہزار گھوڑے ہمہ وقت تیار رہتے تھے، فوجیوں کی جنگی تربیت کے علاوہ ان کے قیام اور رخصت سے متعلق قوانین کا اجراء کے بہت سے تجدیدی کام آپ کے دورِ خلافت میں شروع کیے گئے۔

امیر المومنین نے تمام بلادِ اسلامیہ میں مکاتب قائم کیے جن میں کبار صحابہ کرام معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، ابودرداء، عبد اللہ بن مسعود اور اہل علم کو فریضہ تعلیم کے لیے مامور کیا گیا تھا، مدرسین ومعلمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں، ان کی رہائشوں کے انتظامات کیے گئے تھے، قرآن پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم حدیث، علم فقہ، ادب اور لغت عربیہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا، ان مکاتب میں نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کا خصوصی التزام کیا جاتا تھا۔

مساجد کی تعمیر اور نظم

مرکز اسلامی حرم مکی اور مسجد نبوی کی توسیع کرنے کے ساتھ ساتھ خلافت کے طول و عرض میں چار ہزار مساجد تعمیر کروائیں، ہر شہر و قصبہ میں امام و مؤذن مقرر کیے جن کی مقرر کردہ تنخواہیں بیت المال سے ادا کی جاتی تھیں۔ مردم شماری، آمد و رفت کے لیے مرکزی شاہراؤں اور مہمان خانوں کے قیام، سکہ کا اجراء، محکمہ ڈاک اور ہر شعبہ حکومت کے لیے تحریر اور رجسٹر کا اہتمام آپ کے وہ درخشندہ کارنامے ہیں جو بعدمیں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔

قابل غور امر یہ ہے کہ چودہ سو سال سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود عمر لاز مغرب کے لیے سامان سکون اور نظم حکومت کے لیے مسودہ کی حیثیت رکھتا ہے مگر حضرت عمر فاروق کی محبت کا دم بھرنے والے، ان کو اپنا مقتدا اور پیشوا کہنے والے ان کے طرزِ خلافت و اندازِ حکمرانی سے عملاً دور اور بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں، امت مسلمہ اپنے عروج اور کھوئے ہوئے مقام کو اس وقت تک نہیں حاصل کر سکتی جب تک ہم اپنے اسلاف کی متعین کردہ راہوں اور اصولوں کو اہمیت نہیں دیں گے۔

آب زمزم کی اہمیت و فضیلت

آب زم زم سبھی پانیوں کا سردار ہے اور سب سے زیادہ شرف وقدر کا بھی حامل ہے ۔پانی خواہ کسی بھی نوع کا ہو وہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کی ان عظیم نعمتوں میں سے ہےجس سے تمام جاندار سیراب ہوتے ہیں اور ان کی حیات بھی اسی پر موقوف ہے لیکن آب زم زم کی شان کچھ الگ ہی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ پیاس بجھایا جاتا ہے بلکہ بے شمار بیماریوں سے شفا یابی بھی ہوتی اور بطورِ غذا بھی استعمال ہوا ہے۔

قارئین کرام ! زمزم اللہ تعالی کی طرف سے اپنے پیارے نبی اسماعیل علیہ السلام کے لیے نکالا ہوا بابرکت پانی ہے ۔

اس پانی میں کتنی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیںآئیے احادیث و آثار میں اس کا کس انداز میں ذکر آیا ہے مختصراً ملاحظہ فرمائیں ۔

bآبِ زم زم کی فضیلت

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ

روئے زمین پر بہترین پانی آبِ زم زم ہے ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1056)

bآبِ زم زم کی افادیت

سیدناجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ

جس نیک مقصد کے لیے آب زم زم پیا جائے وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجة : 3062)

b ابن مبارک کے جذبات

سوید بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو دیکھا ، آپ زمزم کے کنویں پر آئے اور برتن بھر کر قبلہ رخ ہوئے پھر فرمايا : 

اے اللہ ! بیشک رسول اللہ نے فرمایا :

مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ وَهُوَ ذَا أَشْرَبُ هَذَا لِعَطَشِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ .

زمزم کا پانی جس نیک مقصد کے لیے پیا جائے وہ پورا ہو جاتا ہے اور میں اس مقصد کے لیے پی رہا ہوں کے قیامت کے دن کی پیاس سے محفوظ رہوں ۔(شعب الايمان : 3833)

b ایک دلچسپ واقعہ

امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سفیان بن عیینہ کی خدمت میں حاضر تھے ۔ انہوں نے ہم سے زمزم کی فضیلت میں یہ حدیث بیان کی کہ :

مَاءُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ

جس نیک مقصد کے لیے آب زم زم پیا جائے وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے ۔ یہ حدیث سن کر مجلس میں سے ایک آدمی

اٹھ کر گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور عرض کیا :

يا أبا محمد ! اليس الحديث بصحيح الذي حدثنا به في زمزم أنه لما شرب له

اے ابو محمد ! آپ نے جو حدیث بیان کی کہ زمزم کے پانی کو جس مقصد سے پیا جائے وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے ، کیا یہ حدیث صحیح نہیں ہے ؟

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا : ہاں ! یہ حدیث صحیح ہے ۔ اس نے کہا :

إني قد شربت الآن دلوا من زمزم علي أن تحدثني بمأة حديث .

ابھی میں نے زمزم کا ایک ڈول پیا ہے اور دل میں نیت یہ رکھی کہ آپ مجھے سو حدیثیں سنائیں گے ۔ ( لیکن میرا مقصد تو پورا نہیں ہوا۔ )

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا : بیٹھو میں تمہاری مراد پوری کرتا ہوں ، چنانچہ آپ نے اسی وقت ایک سو حدیثیں بیان کر دیں اور وہ آدمی خوش ہوکر روانہ ہوا ۔

(الاذکیاء لابن جوزی ص / 138)

b آبِ زم زم میں شفا ہے

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہےکہ

خَيْرُ مَاءٍ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مَاءُ زَمْزَمَ فِيهِ طَعَامٌ مِنَ الطُّعْمِ وَشِفَاءٌ مِنَ السُّقْمِ

روئے زمین پر بہترین پانی آبِ زم زم ہے، اس میں كھانے كی قوت اور بیماری سے شفا ہے۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1056)

bآبِ زم زم سے بخار کا علاج

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

إِنَّ الْحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَبْرِدُوهَا بِمَاءِ زَمْزَمَ

بخار کی شدت جہنم کی گرمی کی وجہ سے ہے اسے زمزم کے پانی سے ٹھنڈا کرو ۔(مسند احمد 2649)

bامام ابن قيم رحمہ اللہ کا ذاتی تجربہ

امام ابن قيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَلَقَدْ مَرَّ بِي وَقْتٌ بِمَكَّةَ سَقِمْتُ فِيهِ وَفَقَدْتُ الطَّبِيبَ وَالدَّوَاءَ، فَكُنْتُ أَتَعَالَجُ بِهَا، آخُذُ شَرْبَةً مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، وَأَقْرَؤُهَا عَلَيْهَا مِرَارًا، ثُمَّ أَشْرَبُهُ، فَوَجَدْتُ بِذَلِكَ الْبُرْءَ التَّامَّ، ثُمَّ صِرْتُ أَعْتَمِدُ ذَلِكَ عِنْدَ كَثِيرٍ مِنَ الْأَوْجَاعِ، فَأَنْتَفِعُ بِهَا غَايَةَ الانتفاع .

مجھ پر مکہ مکرمہ میں ایسا وقت بھی آیا جب میں بیمار پڑا تو نہ طبیب میسر آیا نہ کوئی دوا ، میں فاتحہ کے ساتھ اپنا علاج کرتا ۔ میں زمزم کا ایک گھونٹ لیتا اور اس پر کئی مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھتا اور اسے پی لیتا ۔ مجھے اس کے ذریعے مکمل صحت حاصل ہوئی ۔ پھر میرا یہ معمول بن گیا کہ میں بہت سارے امراض و تکالیف میں اسی (سورہ فاتحہ و زمزم) پر اعتماد کیا کرتا اور اللہ کے فضل سے مجھے غایت درجہ فائدہ حاصل ہوتا ۔(الطب النبوي لابن القيم 1/132)

bپروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ کا ذاتی تجربہ

عالم اسلام کی عظیم شخصیت پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

مجھے اپنی جوانی کے دنوں میں فم معدہ میں شدید تیزابیت کی شکایت رہی ۔ بیس سال تک مختلف نوعیت کے معالجوں سے معدے کے اس السر کا کوئی کامیاب علاج نہ ہو سکا ۔ 1990 ء میں میرے اس السر سے خون رسنے لگا ، جس سے کمزوری اپنی آخری حدود کو چھونے لگی۔ اسی عالم میں مجھے اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ پہلی مرتبہ 1991 ءمیں حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی میں اخلاص نیت سے زمزم کے پانی کو جس قدر پی سکتا تھا، خوب پیا ، مسنون دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب کریم سے شفایابی کے لیے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے شفایابی کے لیے دعائیں مانگیں ۔ الحمد للہ کے اس روز سے آج تک پندرہ سال گذر چکے ہیں ۔ پھر کبھی اس تکلیف کا اعادہ نہیں ہوا ۔(آب زمزم غذا دوا ، طبعہ نشریات ، ص : 15)

bزم زم بحیثیت ایک غذا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

كنا نسميها شُباعة يعني زمزم وكنا نجدها نِعْمَ العونُ على العيالِ.

ہم زم زم کو شباعہ (پیٹ بھرنے والا ) کے نام سے یاد کرتے تھے اور اہل عیال کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ ہمارے لیے بڑا مددگار ثابت ہوتا تھا۔ (صحيح ترغيب : 1163)

bسیدنا ابوذر نے تیس دن تک زم زم پر گزارا کیا

سیدنا ابوذر بیان کرتے ہیں کہ میں جب مکہ آیا تو ایک شخص سے پوچھا : وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بےدین ) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا : یہ صابی ہے ( جب تو صابی کا پوچھتا ہے ) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔

جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں ( یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے ! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا ( جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا ) ۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں ( موٹاپے سے ) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔

رسول اللہ تشریف لائے، یہاں تک کہ حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا : السلام علیکم یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : وعلیک ورحمۃ اللہ پھر پوچھا : تو کون ہے؟ میں نے کہا : قبیلہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں ( جیسے کوئی ذکر کرتا ہے ) میں نے اپنے دل میں کہا : شاید آپ کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں ( قبیلہ ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپ کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ کے ساتھی ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا : تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا : میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ نے فرمایا : تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا : کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہوگیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ نے فرمایا :

إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، إِنَّهَاطَعَامُ طُعْمٍ 

زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ (صحیح مسلم : 2473)

امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وأخبرني أنه ربما بقي عليه أربعين يوماً وكان له قوة يجامع بها أهله ويصوم ويطوف مراراً.

مجھے ایک شخص نے خبر دی کی کبھی کبھی وہ چالیس چالیس دن تک آب زمزم پر گزارا کرتا تھا ، پھر بھی اس میں اتنی طاقت ہوتی کہ وہ بیوی سے ہم بستری کرتا ، روزے رکھتا اور کئی مرتبہ طواف کرتا ۔(زاد المعاد : 4/319)

bطواف کے بعد سر پرآبِ زم زم ڈالنا مسنون ہے

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ( رسول اللہ  نے طواف کیا )

ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى زَمْزَمَ فَشَرِبَ مِنْهَا وَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ .

پھر آپ زمزم کی طرف گئے اس سے پیا اور اپنے سر پر ڈالا ۔(مسند احمد : 15243)

bحجاج کو زم زم پلانےکیلئےصحابی کا جذبہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِي مِنًى، مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ .

سیدناعباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے اجازت مانگی کہ وہ ( زمزم پر حاجیوں کو ) پانی پلانے کے لیے منیٰ کی راتیں مکہ میں گزار لیں؟ تو آپ نے انھیں اجازت دے دی ۔(صحیح مسلم : 3177)

bرسول اللہ کا زمزم کے ڈول بھرنے کی خواہش وتمنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ کنویں سے پانی کھینچ رہے تھے اور کام کر رہے تھے۔ آپ نے ( انہیں دیکھ کر ) فرمایا :

اعْمَلُوا فَإِنَّكُمْ عَلَى عَمَلٍ صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ لَوْلَا أَنْ تُغْلَبُوا لَنَزَلْتُ حَتَّى أَضَعَ الْحَبْلَ عَلَى هَذِهِ يَعْنِي عَاتِقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشَارَ إِلَى عَاتِقِهِ .

کام کرتے جاؤ کہ ایک اچھے کام پر لگے ہوئے ہو۔ پھر فرمایا : ( اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ آئندہ لوگ ) تمہیں پریشان کر دیں گے تو میں بھی اترتا اور رسی اپنے اس پر رکھ لیتا۔ مراد آپ کی شانہ سے تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔ (صحیح بخاری : 1635)

bآبِ زم زم سے رسول اللہ کا سینہ دھویا گیا

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ .

میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی، جبریل علیہ السلام اترے، میرا سینہ چاک کیا ، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کاطشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا، پھر اس کو جوڑ دیا ، پھر میرا ہاتھ پکڑ ا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے يعنی معراج کے لیے لے گئے ۔(صحیح مسلم : 415)

بعض اہل علم نے سینہ کو آبِ زمزم سے دھونے کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ ، آپ کا سینہ زمزم کے پانی سے اس لیے دھویا گیا کہ اس کے ساتھ ساتوں آسمانوں اور جنت و جہنم دیکھنے کی طاقت حاصل کر سکیں ، اس لیے کہ زمزم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دل کو طاقت بخشتا ہے اور خوف کو ختم کر دیتا ہے ۔

bآب زم زم لے جانا مسنون ہے

ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ

أَنَّهَا كَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْمِلُهُ .

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ۔(سنن ترمذي : 963)

bزمزم کا پانی اور منافقین

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِنَّ آيَةَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهُمْ لَا يَتَضَلَّعُونَ مِنْ زَمْزَمَ .

ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ زمزم کا پانی سیر ہوکر نہیں پیتے ۔ (سنن ابن ماجة : 3061)

bزمزم کا پانی کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے

شَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا مِنْ زَمْزَمَ

نبی نے زمزم کا پانی کھڑے ہو کر پیا۔(صحيح بخاري : 5617) البتہ بیٹھ کر بھی پیا جا سکتا ہے۔

bزمزم کا پانی پینے کی دعا

جناب عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب زمزم پیتے تو فرماتے :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ

اے اللہ ! میں تجھ سے نفع دینے والے علم ، وسیع رزق  اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں ۔ (دارقطني 2738)

bزمزم کا پانی پینے کے آداب

جناب محمد بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا ، تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں سے آئے ہو ؟ اس نے کہا : زمزم کے پاس سے ، پوچھا : تم نے اس سے پیا جیسا پینا چاہیے ؟ اس نے پوچھا : کیسے پینا چاہیے؟ کہا :

إِذَا شَرِبْتَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْبِلْ الكَعْبةَ وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَنَفَّسْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏وَتَضَلَّعْ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَرَغْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ (سنن ابن ماجة : 3061)

جب تم زمزم کا پانی پیو تو کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو اور اللہ کا نام لو ، اور تین سانس میں پیو ، اور خوب آسودہ ہوکر پیو، پھر جب فارغ ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

bزمزم کے پانی میں کفن دھونا

برصغیر پاک و ہند کے بعض حاجی صاحبان حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں تو وہاں سے کفن کا کپڑا لیکر اسے زمزم کے پانی سے دھو کر آتے ہیں اور وصیت کرتے ہیں کہ ہمیں اسی کپڑے میں کفن دیا جائے ، اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس سے انکی بخشش ہوگی ، اس چیز کی کوئی شرعی اصل نہیں بلکہ یہ بھی ایک بد عقیدگی ہے ۔

زمین کے پانیوں میں علی الاطلاق سب سے افضل، اشرف اور بہترین پانی آب زمزم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سب مسلمانوں کو اس بابرکت پانی کی قدر کرنے اور اس سے دنیا و آخرت کے منافع اور فوائد سمیٹنے کی  توفیق عطا فرمائے۔آمین

۔۔۔

پاکستان رب رحمن کا عظیم احسان

فحمدًا ثم حمدًا ثم حمدًا !
 لربِّ العالمين بلا توانِي !
وشُكرًا ثم شُكرًا ثم شُكرًا
له في كل أوقاتٍ وآنٍ

’’ہر قسم کی حمد ، ہر قسم کی تعریف پھر حمد پہ حمد ، تعریف پہ تعریف بلا انقطاع وتوقف رب العالمین کے لیے ہے پھر شکر پہ شکر ہزار ہا شکر ہر وقت ہر لحظہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘

پاکستان رب رحمن کا عظیم احسان ہے یہ وہ نعمت ہے جس کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے اور اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیے جو ہندو مسلم معاشرے میں رہ چکے ہیں جنہوں نے ہندؤں کا تعصب بھی دیکھا اور مسلمانوں کی غفلت کا بھی مشاہدہ کیا ۔ یوم آزادی پہ ایک ایسے ہی محترم بزرگ استاد کے ہاںاس غرض سے بیٹھا ہوا تھا کہ وہ کیا کہتے ہیں بتارہے تھے کہ راجھستان کی تحصیل الورکے گاؤں پہل میں آباد تھے ہندؤں کے ساتھ رہن سہن کی وجہ سے اپنی تہذیب اپنائے ہوئے لوگ معلوم نہیں وہ کیسے مسلمان ہوگئے تھے۔ قریب قریب کوئی مسجد نہ تھی لوگوں کو کلمہ تک نہیں آتا تھا بتارہے تھے کہ غالباً پانچ چھ سال کی عمر میں ہوں گے کہ دادا کا انتقال ہوگیا ہندؤں نے کہا ہم ارتھی نکالیں گے گاؤں کا ٹھاکر دادا کا دوست تھا وہ آڑے آیا اور تب کہیں دادا کی تدفین عمل میں آئی ورنہ ہندو تو میت کو جلانے پہ تلے بیٹھے تھے۔قریبی عزیزوں میں کسی کا نام چندر تھا اور کسی کا سنپت گویا ہندو تہذیب کا راج تھا آج جب شب وروز ان کا مسجد آنا جانا ہوتاہے، علماء کی صحبت اور دین کی برکت سے فیض یاب ہوتے ہیں تو پرانا وقت یادکرتے ہیں پھر ہجرت کی جو کلفتیں اٹھائیں اور اب پاکستان کی برکت سے جو راحتیں میسر آئیں ان کا تقابل کرتے ہوئے ان کی باتوں میں شکر وسپاس کے جذبات نمایاں تھے یہ تو ایک مختصر سی کہانی ہے ورنہ ایسی ہی اور اس سے المناک کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور اس سبز ہلالی پرچم رکھنے والے پاکستان کا خمیر لا الہ إلا اللہ سے اٹھایا گیا۔ مدینہ منورہ کے بعد سب سے پہلی نظریاتی ریاست معرض وجود میں آئی جس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں جان ومال ہی نہیں عزت وآبرو جیسی متاع عزیز بھی ارض پاک کے نام پہ لٹ گئی زخموں سے چور مہاجر قافلوں کی جبینیں جب ارض پاک پہ سجدہ ریز ہوئیں تو جیسے انہیں اپنے خواب کی تعبیر مل گئی۔ ان کی چشم تصور نے جو مستقبل کی عملی تصویر دیکھی وہ یہ تھی ۔

 اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ (الحج :41)

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔‘‘  مگر صد حیف کہ یہ خواب وخیال کی باتیں رہیں اور اکہترویں یوم آزادی اسلامی ریاست کا وعدہ اسلامیان پاکستان سے وفا کا سوال کر رہا ہے حسن اتفاق ہے کہ ماہ آزادی اور ماہ قربانی ساتھ ساتھ ہیں پھر سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کا مہینہ ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پونے آٹھ کروڑ مسلمانان عالم (سُنَّۃُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ) کے ارشاد نبوی پر عمل کرتے ہوئے تقریباً تین کروڑ جانوروں کا نذرانہ بارگاہ خداوندی میں پیش کرکے اپنے والد ابراہیم اور پیارے نبی محمد مصطفیٰ کی قربانی کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اس عہد کو تازہ کرتے ہیں کہ : 

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ (الانعام:163164)

’آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ابتلاء وقربانی سے عبارت ہے آپ کی سیرت کا یہی وہ پہلو ہے کہ رب کریم نےخلیل کو امامت عالم کے رتبہ پر فائز فرماتے ہوئے مخاطب فرمایا: اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرۃ:124) ’’ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا۔‘

حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ وقت سے لے کر پوری آزری قوم مخالف مگر قربانی وہ وصف ہے کہ جس کی وجہ سے رب کریم نے نہ صرف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام کو قیامت تک زندہ رکھنے کا انتظام فرمایا بلکہ آپ کی ذات کو تمام انسانیت کے لیے اسوہ قرار دے دیا۔ ماہ آزادی ختم ہورہاہے رب تعالیٰ آزادی قائم رکھے اور ماہ قربانی جاری ہےالحمد للہ افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے قربانیاں پیش کرکےارض پاک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے کافی حد تک محفوظ کر دیا ہے۔پڑوسی ممالک کی ٹرائیکا جن میں ایک واضح دشمن اور جو اپنی ضرورت کے وقت دوست اور ہمیں وقت پڑے تو دشمن وہ سرجیکل اسٹرئیک کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خوف نقصان دہ بھی ہے اور اعصاب شکن بھی، الحمد للہ دفاعی اداروں نے اندرونی دہشت گردوں کی بہت حد تک سرکوبی کردی اور سرجیکل اسٹرئیک کا دعوی کرنے والوں کو بھی خاموش کردیا۔ اللہ پاک جذبۂ قربانی بھی جواں رکھے کیونکہ جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا۔ذی الحج یہ ماہ حرمت بھی ہے۔ اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی حرمت والا اور پھر پہلا مہینہ محرم الحرام بھی حرمت والا یہ اسلام کا عالمی پیغام امن و آشتی ہے کہ سال کی ابتداء بھی امن کے پیغام کے ساتھ اور انتہا بھی ۔حج کا موسم اسلامی طرز حیات کا مظہر ہے جہاں نہ فساد ہے نہ جدال نہ جھوٹ ہے نہ فحش گوئی ۔ سال کے چار مہینے رب کریم نےحرمت والے قرار دے کر ان میں ویسے ہی قتال کو حرام قرار دے دیا۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ  ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ( التوبۃ:36)

’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔‘‘

یہ امن وسلامتی صرف اہل اسلام تک ہی محدود نہیں بلکہ امن عالم کے ضامن پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :

 مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ (صحیح البخاری ، کتاب الجزیۃ ، باب اثم من قتل معاھدا بغیر جرم، الحدیث:3166)

’ جس نے معاہد ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا ۔‘‘ اللہ غارت کرے ہالینڈ کے ملعون گیرٹ وائلڈرز کو جو محسن انسانیت اور پیکر حسن وجمال کے استہزائیہ خاکوں کا مقابلہ کروانا چاہتا ہے۔ عبرت کا نشان تو وہ ابھی بھی بنا ہوا ہے کہ ہر وقت خوف کا شکار لوہے میں ملبوس جس سے جلد کی بیماریوں میں مبتلا بیوی ہفتہ میں ایک بار ملنے آتی ہے تو تلاشی کی ذلت سے گزر کراور آخرت کا عذاب سوا ہے ہمیں تعجب ہے اپنے میڈیا پر جو قطرے کو چاہیں تو دریا کر دکھائیں اور سمندر کو کوزے میں بند کردیں مگر اس سب سے بڑے مسئلہ پر انہیں سانپ سونگھا ہوا ہے۔سید المرسلین کی شفاعت کیسے نصیب ہوگی؟ جب دفاع حرمت رسول میں ہماری زبانیں گنگ رہیں گی، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ چودھویں کے چاند کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اسلام آبادسینیٹ اجلاس میں ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرتے ہوئےکہاکہ’’ اس کیخلاف امت مسلمہ کو متحد کریں گے،اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس معاملے کو اٹھائیں گے۔‘‘حکومتی سطح پہ یہ ایک مستحسن اقدام ہے ، تو تمام مسلمانوں کو اس امر پر متحد ہوکر ہالینڈ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی کرنا چاہیےتاکہ آئندہ کیلئے کوئی بھی اس طرح کی قبیح حرکت نہ سکے۔الحمد للہ پاکستان اور عالم اسلام کے شدید احتجاج پر ہالینڈ حکومت نے اس مذموم مقابلے کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اہل اسلام اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک انبیاء کی عصمت سے متعلق کوئی عالمی قانون نہیں بن جاتا اس اعتبار سے وزیر اعظم پاکستان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جانے کا اعلان ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ختم ہوتا ہوا اسلامی سال یہ پیغام چھوڑ کر جارہا ہے کہ مہلت عمل ختم ہورہی ، زندگی کا ایک سال اور کم ہوگیا ہے۔ سیاسی منظرنامہ بتارہا ہے کہ بقاء ودوام کسی کے لیے نہیں کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے کل تک اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہونے والے آج پابند سلاسل ہیں گویا زبان حال سے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے والوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو ۔کاش ارباب اختیار اقتدار کو رب کی امانت سمجھیں ، وقت کو غنیمت جانیں اور اقتدار کی حقیقت کو جانیں۔

تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ(آل عمران:26)

’’تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے ۔‘‘نئے وزیر اعظم ایاک نعبد وایاک نستعین کے عقیدہ توحید پہ عملیت کا ثبوت دیں ، حلف اٹھاتے وقت خاتم النبیین کے الفاظ کی ادائیگی پہ زبان کا لڑکھڑانا اتفاقیہ امر ہی ہو، ختم نبوت کے عقیدہ کے معاملہ میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے ورنہ اقتدار کی بساط سمٹتے لمحے لگتے ہیں۔ مدینہ منورہ کی فلاحی ریاست کا جو وعدہ انہوں نے کیا ہے اسے پورا کرنے کیلئے کوشاں ہوںتو یقیناً رب تعالیٰ سب سے زیادہ مددگار ہوگا۔ عوام ضرور ساتھ دینگے تقریر میں جو کچھ خان صاحب نے کہا ہے اس پہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ان باتوں کی سچائی سامنے آجائے گی، بہر کیف جو کچھ خان صاحب نے کہا ہے وہ اشرافیہ کے لیے ناقابل عمل ہی نہیں ناقابل تسلیم بھی ہوگا جس کا آہستہ آہستہ مکمل رد عمل سامنے آئے گا وجہ یہ ہے کہ خاص ہونے کا نشہ ایسا نہیں جسے ترشی اتاردے۔ خان صاحب اگر احتساب اور انصاف کا عمل مخصوص لوگوں تک رکھیں گے تو یہ کام تو پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور اگر اسے بلاامتیاز نافذ کریں گے تو یہ بہت مشکل امر ہے مگر ناممکن نہیں اور اسی میں مکمل کامیابی ہے۔اللہ کے فضل وکرم سے 1439 کا موسم حج خیر وعافیت اور کامیابی سے تمام ہوا سعودی عرب مبارک باد کا مستحق ہے کہ جنہوں نے بے شمار وسائل بروئے کار لاکر ضیوف الرحمن کی خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔آمین

خلیل اللہ کی قربانی

پیارے بچو ! عید الاضحی کے ایام انتہائی قریب ہیں اب ہم ہر آئے دن سنت نبوی کے مطابق مختلف جانور خریدنے جاتے ہیں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے متفرق مقامات پر عید الاضحی والے دن کئی جانور ذبح کیے جاتے ہیں یہ سب کچھ اللہ تعالی کے وفادار خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یادگیری ہے جس کا ذکر باری تعالی نے یوں فرمایا :

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَکْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ کَذَلِکَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ وَبَارَکْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إِسْحَاقَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ (سورة الصفت : 102 ۔113)

’’ پھر جب وہ  ( سیدناابراہیم علیہ السلام کا پیارا ننھا منا سا بچہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام)  اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے ، تو اس ( ابراہیم )  نے کہا کہ میرے پیارے بچے ! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا : ابا ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے  (باپ نے ) اس کو ( یعنی اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو )  پیشانی کے بل گرا دیا ۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم (علیہ السلام) ! یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔ 

درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا ۔  اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا ۔ 

اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ۔ 

سیدنا ابراہیم ( علیہ السلام ) پر سلام ہو ۔ ہم نیکوکاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا ۔ اور ہم نے اس کوسیدنا اسحاق (علیہ السلام) نبی کی بشارت دی جو صالح لوگوں میں سے ہوگا۔ 

اور ہم نے سیدنا ابراہیم و اسحاق ( علیہما السلام ) پر برکتیں نازل فرمائیں اور ان دونوں کی اولاد میں بعضے تو نیک بخت ہیںاور بعض اپنے نفس پر صریح ظلم کرنے والے ہیں ۔ 

پیارے بچو ! اللہ تعالی کے فرمان :

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَتَرَکْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ

کے تحت ہر سال خلیل اللہ کی عظیم قربانی کی یادگیری منائی جاتی ہے جس میں ہم امت محمدیہ کے لیے بے شمار نصائح ہیں ہمیں چاہیے کے ان پر غورو فکر کرکے قرب الہی حاصل کریں مذکورہ قرآنی واقعہ سے ملی ہوئی چند نصیحتیں مختصراً یہاں ذکر کرتے ہیں ۔

1  اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے ۔

2  بندوں کی آزمائش ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق ہوتی ہے ۔

3  اللہ تعالی اپنے اطاعت گزاروں کو آخرت سے پہلے دنیا میں بھی بہترین صلہ عطا فرماتا ہے ۔

4  ہر کام کرنے کا مقصد و مطلب رضاء الہی ہو ۔

5  نیک اولاد والدین کے ساتھ ہمیشہ ادب احترام سے بات کرتی ہے ۔

6  مطیع فرمان بردار لوگ احکام الہی کی تعمیل بلاچوں و چرا کرتے ہیں ۔

7  حکم الٰہی کی بجا آوری میں بندہ سچے دل سے کوشش کرے کام ہونا نہ ہونا اس کی ذمہ داری نہیں ۔

8  نیکوکاروں کی نیکیاں عزت ورفعت دلاتی ہیں ۔

9  اللہ تعالی کی راہ میں قربانی سے اللہ تعالی اور بھی دگنا دیتا ہے ۔

0 کام کے ارادہ کرنے پر اِنْ شاَءَ اللہُ کہناچاہیے ۔

تلک عشرۃ کاملۃ

تبصرہ کتب

نام کتاب : اہلحدیث صحافت ۔پاکستا ن میں

مرتب : بشیر انصاری ۔ ایم ۔اے  ۔ محمد شاہد حنیف

موضوع : صحافت

سرورق : چہاررنگہ

جلد : کارڈکور

صفحات : 188

قیمت : درج نہیں

طبع اول : 2018ء

ناشر : اہل حدیث پبلی کیشنز 106 راوی روڈ لاہور

زیر تبصرہ کتاب جناب بشیر احمدانصاری ایم ۔اے اور جناب محمد شاہد حنیف کی مشترکہ تصنیف ہے یہ کتاب مجموعی طور پر 166 رسائل وجرائد کا احاطہ کرتی ہے مگر ان میں سے 59 رسائل وجرائد حیاتی اور سرگرم عمل ہیں جبکہ 107 رسائل وجرائد مماتی یعنی میدان کارزار سے ان کا عمل دخل ختم ہوچکا ان کا نام تو باقی رہ گیا مگر کام ختم ہوگیا ان رسائل وجرائد میں سے بعض تو صرف ایک ہی دفعہ چھپ کر اپنا نام چھوڑ گئے ان میں سے بعض ہفت روزہ ،  بعض پندرہ روزہ بعض ماہنامہ بعض دوماہی بعض سہ ماہی اور بعض سلسلہ وار اور کتابی سلسلہ ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں جو بچوں کے لیے چھپے بعض طلبہ کے لیے بعض اساتذہ اور بعض خواتین اور بعض طالبات کے لیے مخصوص ہیں بعض طب وحکمت سے متعلق ہیں ان میں سے بعض رسائل ہفت وار سے شروع ہوئےپھرپندرہ روزہ اور پھرماہنامہ ہوگئےجیساکہ ماہنامہ المنبر فیصل آبادان میںبعض رسائل وجرائد کے بارے میں تو بھرپورمعلومات ہیںاوربعض رسائل اور انکے مدیرکانام لکھنےکےبعدلکھاہے

تفصیلات ندارد ص124 گویاکہ اس موضوع پریہ کام ٹیڑھی کھیربنارہا اورباآخرلگتاہےبڑی مشکل سےمصنفین موصوفین نےاس کام سےجان چھڑائی کیونکہ کبھی ایساہوتاہےکہ ایک علاقےسےرسالہ ہوتاہےتو دوسرے علاقےسےکسی دوسرےرسالے کا سورج طلوع ہوجاتا ہےکبھی ایسےہوتاہےکہ ایک رسالہ کافی سال منظرعام سےغائب ہوجانےکے بعدمنصہ شہودپرآچمکتاہے تو مصنفین ایسی صورتحال میںتذبذب کا شکارہوگئے لہٰذا کسی کوزندہ میںاورکسی کو مردہ کی فہرست میںلکھ بیٹھے جورسائل سلسلہ وار کتابی سلسلےہیںان کےتناظرمیں یہ کہنا چاہوںگاکہ کتاب کوصحافتی برادری اورخاندان کا فرد سمجھناچاہیےلہٰذاہندوپاک میںاصلاح عقیدہ و عمل کے حوالےسے کسی بھی اہل حدیث مصنف کی سب سے پہلی لکھی اورچھپنےوالی کتاب کو ہندوپاک میںاہلدیث کی صحافتی تاریخ کے تناظرمیںاسےمقام دینا چاہیےاور میںسمجھتاہوںکہ کتاب سلسلہ رسائل سے قدیم ہے زیر تبصرہ کتاب کےص15پرماہنامہ اشاعۃالسنۃمولانا محمد حسین بٹالوی کے رسالے کو’’انتساب‘‘کے تحت سر فہرست جگہ دی گئی ہے اس کے بعدمولاناعبدالوہاب محدث دہلوی کے صحیفہ اہلحدیث دہلی کو درج کیا گیا ہےمیری رائےہےکہ کتاب میںکیونکہ تخلیق پاکستان سے قبل کےرسائل کوبھی اہم جگہ دی گئی ہے لہٰذاکتاب کانام ہوناچاہیے۔اہلحدیث صحافت ہندو پاک میں اگرچہ بعض اہلحدیث لائبریریوں میںرسائل کے ٹائٹل اچھی خاصی تعدادمیں موجود ہیںمثلا دار الحدیث راجووال اوراسی طرح بعض ذاتی لائبریریوں میں مناسب تعداد میں رسائل موجود ہیں۔

رسائل کے حوالے سے بہتر ہوگا کہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کو بھی اس حوالے سے یادرکھا جائے ویسے ماہنامہ محدث لاہور ، ضیاء اللہ کھوکھر صاحب گوجرانوالہ، مولانا حمید اللہ خاں عزیز احمد پورشرقیہ اور شجاع صاحب ڈیفنس کراچی کی لائبریریوں سے بھی رابطہ مفید رہے گا۔ (اگرچہ کتاب کے نقش اول میں بعض طباعتی یا فنی نقائص رہ گئے ہیں) اس کے باوجود میں اس گرانقدر کام پر جناب بشیر انصاری ایم ۔اے کو مبارکباد دیتاہوں جنہوں نے پیرانہ سالی میں ہفت روزہ اہلحدیث لاہور کے ہر ماہ چار اداریوں کے لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی کردیا اسی طرح جناب محمد شاہد حنیف صاحب کو بھی مبارکباد دیتاہوں کہ جنہوں نے اشاریہ سازی کے وقیع کام کے ساتھ اہلحدیثوں کی صحافتی سرگرمیوں کو بھی آشکارا کیا۔

نام کتاب : فضائل طیبہ طیّبہ

 (مدینۃ النبی کے احکام ، آداب اور زیارات)

مصنف : فضیلۃ الشیخ ابو عمار عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ

صفحات : 174

سائز : 4*8

قیمت : درج نہیں

ناشر : دار الابلاغ پبلشرز اینڈ دسٹری بیوٹرز لاہور

ملنے کا پتہ : ملک بھر کے اہم مکتبہ جات پہ موجودہے ۔

اللہ رب العزت نے اپنی مخصوص حکمت کے تحت کچھ چیزوں کو دیگر پہ فوقیت وبرتری عطا فرمائی ہے مثلاً دنوں میں جمعہ کا دن مرکزی حیثیت رکھتاہے۔آسمانی صحائف میں قرآن پاک کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ انسانوں میں طبقۂ رسل وانبیاء کو دیگر پر شرف وافتخار حاصل ہے اسی طرح کائنات ارضی میں کچھ دیار وامصار کو مخصوص پس منظر کی بناء پر خاص مقام وفضیلت حاصل ہے جیسا کہ اہل اسلام کے ہاں محبط وحی مکہ مکرمہ ، قبلہ اول مسجد اقصی اور شہر رسول مدینہ منورہ کو جداگانہ اور لازوال عز وشرف حاصل ہے۔

رسول مکرم ﷺ نے متعدد بار مختلف مواقع پہ مکہ ومدینہ کے فضائل ومناقب بیان فرمائے ہیں جنہیں محدثین عظام رحمہم اللہ نے فضائل الحرمین یا فضائل مکۃ والمدینۃ کے ابواب کے تحت اپنی اپنی مسانید وجوامع میں ذکر کیا ہے۔ انہی فضائل ومناقب کے پیش نظر اہل علم نے ہر دور میں بلادِ حرمین کے فضائل ومسائل قلمبند کیے ہیں جس سے اس موضوع کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اہل سیر نے بھی جہاں سیرت محبوب ﷺ کا تذکرہ کیا ہے وہاں دیار وامصار حبیب کا دل آویز بیان بھی کیا ہے جس سے اہل صدق وصفا کے شوق کو مہمیز ملتا ہے۔ اسی سلسلہ مبارکہ میں تازہ ترین اضافہ زیر تبصرہ کتاب ’’فضائل طیبہ طیّبہ‘‘ کا ہے۔ اس کتاب مستطاب کے فاضل مؤلف فضیلۃ الشیخ عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ ہیں ۔ علم کی پختگی ، عقیدہ ومنہج سے مضبوط وابستگی اور عمدہ تصنیفی ذوق کی بناء پر عوام وخواص میں خصوصی مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔ کثر اللہ امثالہ

شیخ محترم اس سے پہلے سنن ابو داؤد کی شرح اور دیگر علمی وتحقیقیتصنیفات کے ذریعے عوام وخواص سے داد ِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔تقبل اللہ سعیاھم

یہ تبصرہ تصنیف خاکہ فضیلۃ الاستاد ڈاکٹر سلیمان بن صالح الخصن (ریاض ) کے کتابچہ موسوم ب ’’فضل المدینۃ وآداب الزیارۃ‘‘ سے ماخوذ ہے۔جس میں مناسب حک واضافہ کے بعد اس کتاب کو ترتیب دیاگیا ہے۔ فاضل مؤلف نے اپنی گزارشات کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے جس کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے۔

باب اول : مدینہ منورہ اور اس کے عمومی اور خصوصی فضائل

اس باب میں فصل اول میں مدینہ منورہ کے عمومی فضائل جبکہ فصل دوم میں مدینہ منورہ کے چھ خاص الخاص فضائل مذکور ہیں۔

دوسرا باب : اس باب کا عنوان زیارات مدینہ منورہ سے معنون ہے جبکہ اس باب میں مشروع ومسنون زیارات اور غیر ضروری زیارات کو دو فصلوں میں سمویاگیا ۔ دوسری فصل جو کہ غیر ضروری زیارات سے متعلق مخصوص ہے اس حوالے سے عوام الناس میں لا علمی کی بناء پررائج بہت سے غلط اور گمراہ نظریات کا مدلل رد پیش کیاگیاہے۔

تیسرا باب : اس باب میں ’’رسول اللہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ‘‘کو تین فصلوں میں قلمبند کیاگیا ہے ۔

فصل اول حبّ نبی ﷺکی عظمتِ شان اور اس کے تقاضوں پر مبنی ہے۔

فصل دو م میںصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوران کے فضائل وحقوق کو اجاگر کیاگیاہے جبکہ فصلِ سوم میں اہل بیت اطہار کے حقوق مذکور ہیں۔

زیر تبصرہ کتاب سے متعلق محقق دوراں فضیلۃ الشیخ ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ اپنی رائے ان الفاظ میں بیا کرتے ہیں کہ ’’اس کتاب میں مدینہ منورہ کے فضائل ومناقب اور آداب زیارت شرعیہ کو بہت عمدہ پیرائے میں منضبط کیا ہے اور اس موضوع کو دلائل وبراہین سے مرصع کرکے منصہ شہود پر جلو گر کر دیا ہے اور کتاب وسنت کے گوہر ہائے نامدار او ردرر ہائے آبدار کو سلسلہ ذھبیہ میں پرودیاہے ۔عبارت کی شستگی اور تسلسل وروانی اس پہ مستزاد۔‘‘

اس کتاب مستطاب کو کتاب وسنت کے مثالی دارالابلاغ کے پلیٹ فارم سے پیش کیا جارہاہے ۔ عمدہ پیج ڈیزائننگ، بہترین کاغذ اور موضوع سے ہم آہنگ سرورق ۔ دار الابلاغ کے روح رواں محترم جناب محمد طاہر نقاش کے عمدہ ذوق کی عکاس ہے۔

ملاحظہ:

صفحات کی ترتیب میں تقدیم وتاخیر (جیسا کہ صفحہ نمبر 111۔112 پر باب اور فصول کی مطابقت نہیں)کی وجہ سے قارئین کرام کا تسلسل متأثر ہوتاہے جبکہ کتاب کا نام خالص علمی وادبی نوعیت کا ہے امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں نام کی تسہیل اور صفحات کی ترتیب پہ نظر ثانی کی جائے گی۔

امید ہے کہ باذوق قارئین اس تصنیف لطیف کا بھرپور خیر مقدم کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کے مصنف نبیل،ناشر اور تقسیم کنندگان کو اپنی مرضیات سے نوازے۔ آمین یار ب العالمین

تعلیمی سال کے آغاز پر طلبہ اور اساتذہ کو نصائح

پہلا خطبہ

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اسی نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ چیزیں بھی سکھائیں جن کا اسے علم نہیں تھا، میں تمام نعمتوں اور عنایتوں پر اسی کی حمد خوانی کرتا ہوں، اس نے جو بھی ہم پر فضل و کرم کیا اس کا شکر ادا کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں جناب محمد ﷺخاتم الانبیاء و الرسل ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی اور آپ کو عرب و عجم سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، آپ نے پیغام رسالت پہنچایا، امانت ادا کر دی اور امت کی خیر خواہی کے ساتھ کما حقہ جہاد بھی کیا حتی کہ آپ اس جہان سے چلے گئے، اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل، صحابہ کرام ،آپ کی ہدایات اور سنتوں پر چلنے والوں پر روزِ قیامت تک ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

قرآن مجید سب سے سچا کلام اور اللہ کے ہاں دین اسلام ہے، ترین طرزِ زندگی جناب محمد کا ہے،

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَا يَجْزِي وَالِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّکُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ (لقمان: 33)

لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب نہ تو کوئی باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے۔ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے لہذا یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکے باز تمہیں اللہ کے بارے دھوکہ میں ڈالے ۔

اللہ کے بندو!

اللہ تعالی نے انسان کو اس دھرتی پر اپنا خلیفہ چنا اور اسے علم سے نوازا، اسی علم کے ساتھ کارکردگی اور اشرف

المخلوقات ہونے کے اعزاز منسلک ہیں، نیز انسان کو عقل

بھی دی اور اسی عقل کی بنا پر اللہ تعالی نے اسے مخاطب کیا اور احکامات کا پابند بھی بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: 30)

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا بیشک میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں۔ انھوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا اور بہت سے خون بہائے گا اور ہم تیری تعریف کے ساتھ ہر عیب سے پاک ہونا بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ فرمایا بیشک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے یہ بھی بتلا دیا کہ علم کی وجہ سے افضلیت اور اعزاز انسان کو ملا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ کُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِکَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَکِيمُ قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُونَ (البقرة: 31 ۔ 33)

اور اللہ تعالی نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے۔ اللہ تعالی نے آدم سے فرمایا تم ان کے نام بتا دو۔ جب انہوں نے بتا دیئے تو فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب میں ہی جانتا ہوں اور میرے علم میں ہے جو تم ظاہر کر رہے ہو اور جو تم چھپاتے تھے۔

اللہ تعالی نے اپنی ساری مخلوق پر انسانوں کو علم اور عقل کے باعث فضیلت سے نوازا، اور اسی علم کی بنا پر ان سے احکامات کی تعمیل اور ان پر عمل کرنے کا مطالبہ فرمایا۔

مسلم اقوام!

ان دونوں میں طلبا اور طالبات کا نیا تعلیمی سیمسٹر شروع ہو چکا ہے، تو مبارک ہو بھر پور جد و جہد کرنے والوں کو ، کامیابی کے لیے اپنی وسعت کے مطابق کوشش کرنے والوں کو؛ کیونکہ حصول علم بنیادی ترین ضرورت ہے، علم کی بنا پر انسان دین پہچانتا ہے، یہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے پروردگار کی اطاعت کا طریقہ سیکھتا ہے، جبریل ہمارے رسول کی جانب جو اولین حکم لائے تھے وہ حصولِ علم کا ہی تھا اور وہ سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت {اقْرَأْ} [العلق: 1] ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: رسول اللہ پر وحی کا ابتدائی دور سچے خوابوںسے شروع ہوا۔ آپ خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ روزِ روشن کی طرح سچا ثابت ہوتا۔ پھر آپ تنہائی پسند ہو گئے اور آپ نے غار حرا میں خلوت اختیار فرما لی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادتِ الہی میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ آپ کا یہی طریقہ رہا یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آگیا ، آپ غار حرا ہی میں تھے کہ اچانک جبرئیل آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: ’’پڑھو!‘‘ آپ نے فرمایا: (میں پڑھنا نہیں جانتا) ، آپ نے فرمایا: (کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی) پھر فرشتے نے مجھے چھوڑ کر کہا : ’’پڑھو!‘‘ ، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: اس فرشتے نے مجھ کو دوسری بار نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف ہوئی، پھر اس نے کہا کہ’’پڑھو!‘‘ میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تو آپ نے فرمایا: اس فرشتے نے مجھے تیسری بھی بار نہایت زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف ہوئی، پھر اس نے کہا :

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ  الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: 1 ۔5)

پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کے لوتھڑے سے بنایا پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے جس نے قلم کے ذریعے سکھایا انسان کو وہ کچھ سکھایا جس کا اسے علم ہی نہیں تھا۔

اللہ کے بندو!

قرآن کریم نے حصول علم کی ترغیب دلائی ہے، بلکہ نبی کو علم کے علاوہ کسی بھی چیز میں اضافے کی دعا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ: 114)

اور کہہ دے: میرے رب، میرے علم میں اضافہ فرما۔

پھر علمائے کرام کا مقام و مرتبہ واضح کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28)

’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔ ‘‘

نیز وحدانیت الہی کی گواہی کے سلسلے میں علمائے کرام کو اللہ تعالی نے اپنے ہمراہ فرشتوں کے ساتھ ذکر فرمایا اور کہا:

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِکَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَکِيمُ

اللہ تعالی، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (آل عمران: 18)

ان کی شان مزید عیاں کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

کہہ دے: کیا جو لوگ جانتے ہیں وہ اور جو نہیں جانتے برابر ہو سکتے ہیں؟ (الزمر: 9)

لوگوں کو اہل علم کی جانب رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

پس اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے۔[النحل: 43]

حصولِ علم کیلئے رسول اللہ نے بھی ترغیب دلائی اور بتلایا کہ علم در حقیقت اللہ تعالی کے ارادۂ خیر کی علامت ہے، آپ کا فرمان ہے: اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔

نیز آپ کا یہ بھی فرمان ہے: جو شخص حصولِ علم کیلئے راستے پر چلے تو اللہ تعالی اِس کی وجہ سے اس شخص کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔

اس لیے آپ سب حصولِ علم کیلئے وقت نکالیں، اپنے بچوں کو حصولِ علم کیلئے ترغیب دلائیں؛ کیونکہ علم تربیت کا مفید ترین ذریعہ اور تزکیہ نفس کا یقینی راستہ ہے، علم ہی انسان کو فتنوں سے تحفظ دیتا ہے اور مشکل حالات میں ثابت قدمی کا باعث بنتا ہے، مصیبت کے وقت میں دلاسا دیتا ہے، حصولِ علم بہت بڑی نیکی، عظیم ترین بندگی اور بلند درجات کا حامل عمل ہے۔

مسلم اقوام!

اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے، دورِ جاہلیت میں تمہارے نامور افراد اسلام میں بھی نامور ہو سکتے ہیں اگر وہ دین سمجھ لیں، اور علما انبیائے کرام کے وارث ہیں۔

تعلیم و تعلم کی مصروفیت ابدی اور سرمدی نیکیوں میں سے ہے، یہ مصروفیت مرنے کے بعد صدقہ جاریہ بن جاتی ہے اور مسلسل ثواب کا ذریعہ بنتی ہے؛ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس وقت انسان فوت ہو جائے تو اس کے تین اعمال کے علاوہ سب منقطع ہو جاتے ہیں: صدقہ جاریہ، علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، یا نیک اولاد جو اس کیلئے دعائیں کرے۔

 علم کو دل جمعی، وقت، محنت، جاں فشانی اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ رفعت بہ قدر محنت ہی ملتی ہے۔

طلبہ کو اخلاص نیت، پختہ عزم اور تزکیۂ نفس کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ رکاوٹوں اور دیگر حائل ہونے والی چیزوں سے بچنا ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ بستر پر پڑے رہنے والا آسمان نہیں چھو سکتا

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا کَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبۃ: 122)

مومنوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سب کے سب ہی نکل کھڑے ہوں۔ پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ہر فرقہ میں سے کچھ لوگ دین میں سمجھ پیدا کرنے کے لئے نکلتے تاکہ جب وہ ان کی طرف واپس جاتے تو اپنے لوگوں کو (برے انجام سے) ڈراتے۔ اسی طرح شاید وہ برے کاموں سے بچے رہتے۔

طلبہ کو شرعی آداب کی ضرورت بھی رہتی ہے تا کہ طلبہ دوسروں کے لیے عملی نمونہ اور اچھی مثال بن کر سامنے آئیں اور دین اسلام کا پیغام آگے پہنچانے کے قابل بنیں، نیز امت کے بہترین لوگوں میں شامل ہوں نبی کریم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: اس علم کو ہر پیش رو سے صادق اور امین لوگ حاصل کریں گے، وہ اس دین سے غلو کاروں کی تحریف ، باطل لوگوں کے اعتراضات، اور جاہلوں کی تاویلیں مٹائیں گے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد، اللہ کے بندو!

تمام کے تمام مفید علوم شرعی طور پر جائز ہیں، چاہے ان علوم کا ماخذ قرآن و سنت ہوں، جیسے کہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر دینی علوم یا چاہے ان علوم کا ماخذ زندگی میں حاصل ہونے والا تجربہ اور مشاہدہ ہو؛ جیسے کہ طبی علوم، حیاتیات اور ہندسہ وغیرہ ہیں، چنانچہ اگر کوئی شخص ان علوم کو حاصل کرتے ہوئے بھی اپنی نیت خالص رکھے تو مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ بھی نبی کے اس فرمان میں شامل ہو گا: جو شخص حصولِ علم کیلئے راستے پر چلے تو اللہ تعالی اِس عمل کی وجہ سے اس شخص کیلئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَکِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَکِيمُ ذَلِکَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

’’وہی تو ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پڑے تھے اور انہی کے کچھ دوسرے لوگوں (کی طرف بھی بھیجا) جو ابھی ان سے نہیں ملے اور وہ زبردست ہے حکمت والا ہے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ [الجمعہ: 2 ۔4]

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں  جیسے اس کے جلال کے لائق ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، عظمت و کمال میں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں اور ڈھیروں سلامتی روزِ قیامت تک نازل فرمائے۔

اللہ کے بندو!

کچھ لوگ علم کے خادم ہوتے ہیں جو علم محفوظ کرتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں، علم سیکھ کر آگے پہنچاتے ہیں، اساتذہ علم کے لیے خدمات پیش کرتے ہیں، ان کے ذریعے سے علوم نسلوں تک پھیلتے چلے جاتے ہیں اور ان کی کاوشوں سے کائنات کے گوشوں میں موجود لوگ ان سے مستفید ہوتے ہیں۔

مسلم سماج!

استاد اپنی تربیتی اور تعلیمی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انبیائے کرام اور علمائے عظام کا جا نشین ہوتا ہے، استاد پوری قوم کی خدمت کرتے ہوئے قوم کو مستقبل کے معمار تیار کر کے دیتا ہے، قوم کے نوجوانوں میں دینی اور دنیاوی زندگی خوشحال بنانے کے طریقے ودیعت کرتا ہے، اس لیے استاد کا لحاظ اور سپاس انتہائی ضروری ہے، استاد کی عزت اور وقار کا احترام کرنا چاہیے، ان کی غلطیاں معاف اور لغزشوں کو درگزر کر دینا چاہیے۔

مرد و خواتین اساتذہ اور تربیت کنندگان:

آپ عملی نمونہ بنیں، علم اور آداب سے آراستہ و پیراستہ ہوں، آپ اپنے طلبہ کی نگاہوں میں بہت عظیم شخصیت ہو، طلبہ ہمیشہ تمہاری نقل اتارنے اور تمہارے نقش قدم پر چلنے کے دلدادہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے سامنے عملی نمونہ بن جائیں۔

اگر آپ انہیں سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں تو آپ سچے بن کر دکھائیں، اور اگر آپ انہیں صبر کی تلقین کرتے ہیں تو آپ صابر بن کر دکھائیں۔

اِبْدَأْ بِنَفْسِکَ فَانْهَهَا عَنْ غَيِّهَا
فَإِذَا اِنْتَهَتْ عَنْهُ فَأَنْتَ حَکِيْمُ

اپنے آپ سے ابتدا کرو اور نفس کو سرکشی سے روکو، اگر نفس اس سے رک جائے تو تم دانا ہو

فَهُنَاکَ يُقْبَلُ مَا تَقُوْلُ وَيُقْتَدىٰ
بِالْعِلْمِ مِنْکَ وَيَنْفَعُ التَّعْلِيْمُ

یہاں آپ کی ہر بات مانی جاتی ہے اور تم سے علم لیکر اس پر عمل کیا جاتا ہے، تو اچھی تعلیم دینا مفید عمل ہے

لَا تَنْهَ عَنْ خُلُقٍ وَتَأْتِيَ مِثْلَهُ
عَارٌ عَلَيْکَ إِذَا فَعَلْتَ عَظِيْمٌ

تم کسی بات سے روک کر خود اس کا ارتکاب مت کرو؛ کیونکہ یہ بری بات ہے اور تمہارا ارتکاب زیادہ سنگین ہے۔

مرد و خواتین اساتذہ کرام!

آپ کی ذمہ داری بہت بڑی ہے، آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی امانت بہت اہم ہے، اس لیے مستقبل کا نوجوان آپ کے ذمے ہے، پوری امت اور قوم کی امانتیں آپ کے اختیار میں ہیں، ان کا مستقبل بھی آپ کی کارکردگی سے منسلک ہے، اس لیے جس چیز کا آپ لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ان کے متعلق اللہ سے ڈریں؛ کیونکہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور پھر تم سے تمہاری ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اگر تم اچھی کارکردگی دکھاؤ گے -آپ سے امید بھی اسی چیز کی ہے- تو اللہ تعالی کے ہاں تمہارے لیے بہت بڑا مقام ہے، بصورت دیگر تم اپنا بھی برا کرو گے اور پوری قوم اور ملت کا بھی ۔

محترم طلبہ اور طالبات!

ذرا میری بات غور سے سننا، کان لگا کر سماعت کرنا، یہ بات تم سے محبت اور تمہارے خیر کی جانب سے تمہارے لیے خاص ہے کہ: استاد کا احترام شرعی ادب، اخلاقی فریضہ، علمی اور تربیتی کامیابی کا راز بھی ہے۔

اللہ کے نبی موسی علیہ السلام کے خضر علیہ السلام کے ساتھ سفر کے واقعے میں عبرتیں، نصیحتیں اور یاد دہانیاں ہیں، چنانچہ موسی علیہ ا لسلام نے شاگرد بن کر خضر علیہ السلام سے فرمایا تھا:

هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا

کیا میں آپ کے ہمراہ چل سکتا ہوں؟ کہ آپ مجھے رہنمائی سکھا دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے۔ [الکہف: 66]

تو اس پر استاد نے جواب دیا:

قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا

 کہا: آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکتےاور صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں آپ کو ان چیزوں کا علم ہی نہیں دیا گیا۔(الکهف:67، 68)

تو موسی علیہ السلام نے انہیں بتلانے کی کوشش کی کہ وہ استاد کے احترام اور تعلیمی مرحلے کی مشقتوں کو سمجھتے ہیں اور:

قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا

کہا ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی عدولی نہیں کروں گا۔[الکهف:69]

استاد کی بہت زیادہ فضیلت ہے، استاد کی محنت، تگ و دو اور جد و جہد کا بدلہ اچھائی کے ساتھ ہی ممکن ہے، اس لیے اپنے آپ کو استاد کی بے ادبی سے دور رکھنا، کیونکہ استاد کی بے ادبی ناقص تربیت، اخلاقی گراوٹ، اور گرا ہوا سلوک ہے، ایسی حرکت صرف کمینہ شخص ہی کرتا ہے۔

سلف صالحین ہمارے لیے اس حوالے سے بھی عملی نمونہ ہیں، چنانچہ امام شافعی کے شاگرد ربیع رحمہما اللہ کہتے ہیں کہ: ’’امام شافعی کی ہیبت کی وجہ سے میری اتنی جرأت کبھی نہ ہوئی کے ان کے سامنے پانی پی لوں‘‘

اس لیے اپنے اساتذہ کی عزت کرو، ہر شخص کو اس کا مقام دو، ہر شخص کو اس کے پورے حقوق دو، اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے، تمہیں علم نافع اور عمل صالح سے نوازے۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِيْنَ

 حاجی کےلیے خوشخبریاں

۔۔۔۔!!

عبدالسلام جمالی ۔ نوابشاہ

محترم قارئین ! حج اللہ تعالی کی پسندیدہ و محبوب ترین عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔ جیسا کہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ حَجٌّ مَبْرُورٌ . ( صحیح بخاری : 26 )

 رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ کہا گیا : اس کے بعد کونسا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ کہا گیا : پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :حج مبرور ۔

اللہ تعالی کی طرف سے ہر ذی ثروت شخص پر زندگی میں ایک بار حج فرض کیا گیا ہے اللہ رب العالمین کا فرمان ہے

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا(آل عمران : 97)

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کیا ہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :

خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ ، فَحُجُّوا ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : أَکُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَسَکَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ، ثُمَّ قَالَ : ذَرُونِي مَا تَرَکْتُکُمْ ، فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُکُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوه ( صحیح مسلم : 3257 )

رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا حج کرو ۔ایک آدمی نے کہا : کیا ہر سال ؟ اے اللہ کے رسول ! آپ خاموش رہے حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار دہرایا ۔ رسول اللہ نے فرمایا : اگر میں کہہ دیتا : ہاں تو واجب ہو جاتا اور تم (اس کی ) استطاعت نہ رکھتے ۔پھر آپ نے فر ما یا : تم مجھے اسی ( بات ) پر رہنے دیا کرو جس پر میں تمھیں چھوڑ دوں تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور اپنے انبیاءعلیہم السلام سے زیادہ اختلا ف کی بنا پر ہلا ک ہوئے ۔جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے ادا کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو ۔

حج کرنے والے شخص کے لیے قرآن حکیم و احادیث صحیحہ میں بے شمار خوشخبریاں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بالاختصار چند یہاں ذکر کیے دیتے ہیں ۔

حاجی کے لئے کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالی اس کی دعا رد نہیں کرتے بلکہ جو وہ طلب کرتا ہے اسے عطا کیا جاتا ہے ۔

جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا :

الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ (سنن ابن ماجہ:2893 )

 اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ۔

اور اللہ عزوجل حاجی کے حج  کی برکت سے اس کی تنگ دستی ختم کر دیتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے ۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ (سنن ترمذی : 810 )

حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔

اور حاجی اللہ تعالی کی ضمانت میں ہوتا ہے اسے دنیا کی کوئی چیز کچھ بہی تکلیف نہیں پہنچا سکتی ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللهِ – عَزَّ وَجَلَّ- رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلَى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللهِ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا( الصحیحة للالبانی  : 609 )

تین شخص اللہ کی ضمانت میں ہیں، وہ شخص جو اللہ کی مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف نکلا ، اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلا اور وہ شخص جو حج کرنے کے لئے نکلا۔

حاجی جب سفر حج پر نکلتا ہے اور اگر اسی سفر میں وہ فوت ہوا تو قیامت تک اس کے حق میں حج کا اجر لکھا جائے گا ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْحَاجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَمَاتَ، کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْمُعْتَمِرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللهِ فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ( المعجم الکبیر للطبرانی: 80 )

جو شخص حج کرنے کے ارادے سے نکلا اورفوت ہوگیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا، اور جو شخص عمرہ کر نے کے لئے نکلا اور وفات پا گیا، قیامت تک اس کے لئے عمرہ کرنے کا ثواب لکھاجائےگا۔ اور جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لئے نکلا اوروفات پاگیا تو قیامت تک اس کے لئے مجاہد کا اجر لکھاجائے گا۔

حاجی سے اللہ تعالی بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کے تمام تر گناہ بخش دیتے ہیں ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْفُثْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَفْسُقْ، ‏‏‏‏‏‏رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ  (صحیح بخاری : 1820 )

جس نے اس گھر کا حج کیا اور نہ شہوت کی فحش باتیں کیں، نہ گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ(صحیح مسلم :321)

’’ بلاشبہ حج کی ادائیگی سے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘

حاجی کتنا بڑا خوش نصيب انسان ہے کہ اگر دوران حج یا سفر حج میں وفات پاگیا تو روز محشر باری تعالی کے ہاں تلبیہ کہتے ہوئے حاضر ہوگا ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے

بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَوْقَصَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا (صحیح بخاری: 1265)

ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ نبی نے فرمایا : پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔

حاجی کو جہنم سے آزادی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالی اپنے اس بندے پر بہت خوش ہوکر فرشتوں کے سامنے اس کے اس عمل خیر پر فخر کرناہے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ نے فرمایا :

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  مَا مِنْ يَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنَّهُ لَيَدْنُو، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِکَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ(سنن نسائی:2859)

اللہ عزوجل عرفہ کے دن جتنے غلام اور لونڈیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا، اس دن وہ اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے، اور ان کے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ۔

حاجی کے لئے اس کے حق میں تمام مومنین لوگ روز محشر بحیثیت شفیع پیش ہوں گے اور اس کے حق میں باری تعالی سے جھگڑتے ہوئے شفاعت کریں گے ۔

سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب مومن لوگ آگ سے خلاصی پالیں گے، اور بے خوف ہو جائیں گے، تو ( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ) تم میں سے کوئی شخص دنیا میں اپنے ساتھی سے اتنا سخت جھگڑا نہیں کرتا جتنا شدید جھگڑا مومنین اپنے رب سے اپنے ان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ڈال دیئے گئے ہونگے ۔ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، روزہ رکھا کرتے تھے، حج کیا کرتے تھے ( اور ہمارے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے ) پھر بھی آپ نے انہیں آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ، ان میں سے جن کو پہچانتے ہو آگ سے نکال لو۔ جنتی ان کے پاس آئیں گے ، وہ انہیں ان کے چہروں سے پہچانیں گے۔ آگ ان کے چہروں کو نہیں جلائے گی۔ ان میں ایسے بھی ہونگے جنہیں آگ نصف پنڈلیوں تک جلائے گی، ان میں ایسے بھی ہونگے جنہیں ٹخنوں تک جلائے گی ( جنتی)  ان میں سے ( بے شمار ) لوگوں کو نکال لیں گے وہ کہیں گے: اے ہمارے رب جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا ہم نے انہیں نکال لیا …. الخ ۔( مسند احمد : 11463 )

اور اللہ عزوجل حاجی سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ اسے حج کے بدلے جنت جیسا محل عطا فرماتا ہے ۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم کی معیت میں تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺسے قریب ہوا ،ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِکْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ (سنن الترمذي : 2616)

’’اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دوررکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نمازقائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزےرکھو، اوربیت اللہ کا حج کرو۔ ‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو حج نصیب فرمائے اور جو صاحب ثروت ہیں انہیں چاہیے کہ حج کریں کیوں کہ جو حج کی بھلائیوں سے محروم ہوگیا وہ مذکورہ خوشخبریوں اور دیگر خیر سے محروم ہوگیا جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

إِنَّ عَبْدًا أَصَححتُ لَه جِسْمَه وَوَسَّعْتُ عَلَيْهِ في الْمَعِيشَة تَمْضِي عَلَيْهِ خَمْسَةُ أَعْوَامٍ لَا يَفِدُ إِلَيَّ لَمَحْرُومٌ (صحیح ابن حبان : 3703 )

میرا وہ بندہ جس کا جسم میں نے تندرست بنایا، اس کی معیشت کشادہ کی، اس کے پانچ سال گزر جائیں اور وہ حج کا سفر نہ کرے تو وہ ( بھلائی سے ) محروم ہے ۔

ایک حاجی کو چاہیے کہ حج کرنے کے بعد نیکیوں کے معاملے میں کمزور نہ بنے بلکہ اور بھی زیادہ نیکیاں کرے ان خوشخبریوں کا مقصد یہ نہیں کہ حج کرکے تمام تر نیکیوں کو ترک کیا جائے جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے ،نماز ادا کی اور بیت اللہ کا حج ادا کیا، مجھے معلوم نہیں آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں تو اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اسے بخش دے۔ اللہ کے راستے میں ہجرت کی یا اپنی اسی زمین میں بیٹھا رہا جس میں پیدا ہوا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو خبر نہ دوں؟ رسول اللہ نے فرمایا: لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ عمل کرتے رہیں کیوں کہ جنت میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے، اور فردوس جنت کا وسطی اور بلند ترین حصہ ہے ۔ اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے ، اسی سے جنت کی نہریں جاری ہیں۔ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ (سنن ترمذی : 2453 )

مذکورہ اور دیگر خوشخبریوں کا ذکرنا صرف کار خیر کی طرف جذبہ بڑھانہ ہی مقصود ہے ۔  واللہ ولی بالتوفیق

ذو الحجہ کا ابتدائی عشرہ

محمد ساجد

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم وبعد !

یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ کچھ ایسی خصوصیات اور امتیازی حیثیت رکھتے ہیں جو دوسر وں میں متوفر نہیںہوتیں۔

امتیازی خصوصیات میں ماہ ذو الحجه کے ابتدائی عشرہ کوجو امتیاز حاصل ہے بقیہ ایام کو اتنا امتیاز حاصل نہیں ہوا ،اس میں رب ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔

یہ وہ ایام ہیں جس کی بزرگی ،خصوصیت اور فضلیت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

وَالفَجرِوَلَيالٍ عَشرٍ(الفجر1۔2)

’’قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔‘‘

امام ابو الفداء عماد الدین اسماعیل ابن کثیر اپنی مایہ ناز تفسیر بنام تفسیر ابن کثیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول و دیگر اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

وَالصَّحِيحُ الْقَوْلُ الْأَوَّلُ

صحیح قول وہ پہلا قول ہے جوکہ عبداللہ بن عباس کا قول ہے۔وہ یہ ہے:

وَاللَّيَالِي الْعَشْرُ الْمُرَادُ بِهَا عَشَرُ ذِي الْحِجَّةِ

 لیالی عشر سے مراد عشر ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (تفسير ابن کثير 8/ 381)

بہر حال اللہ تعالیٰ جس کسی بھی چیز کی قسم کھاتا ہے تو وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ چنانچہ ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوئے۔

مذکورہ ایام کی قرآن و حدیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔

اور احادیث مبارکہ میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ . يَعْنِى أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ : وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَىْءٍ )سنن أبي داود کتاب الصوم ، باب في صوم العشر ، الحديث : 2438)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

 ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺاللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ نے فرمایا ! ہاں تب بھی۔ انہی ایام کا عمل زیادہ محبوب ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ تو واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا) تو یہ افضل ہے۔

قارئین کرام ! ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے اعمال کو باقی ایام کے اعمال سے برتر و بالا رکھا ہے۔

اب ہمیں ان ایام میں بڑھ چڑھ کر تکبیرات(اللہ اکبر) ، تحمیدات(الحمدللہ)، تہلیلات (لا الہ الا اللہ) کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان ایام میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے، تکبیرات پڑھا کرتے تھے، حتیٰ کہ بازار میں بھی تکبیرات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اثر منقول ہے۔

وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُکَبِّرَانِ وَيُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِيرِهِمَا (صحيح البخاري ، کتاب الجمعة باب فضل العمل في أيام التشريق)

سیدناعبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما بازار میں نکلتے اور بآوازتکبیرات کہتے تھے تو لوگ ان کی تکبیرات کو سن کر تکبیر کہتے تھے ۔

اور اس حساب سے یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہے جیسا کہ سیدنا ابو سعید الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ (مسلم، کتاب الامارة باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله بمرکوب وغيره ، الحديث : 1893)

ــ’’جو شخص نیکی کے بارے میں کسی کی رہنمائی کرتاہے تو اس کو نیکی کرنے والے جتنا ثواب ملتا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں

وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ (صحيح مسلم ، کتاب الکسوف ، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على کل نوع من المعروف ، الحديث : 1006)

’’نیکی سے متعلق حکم دینا بھی صدقہ ہے ۔‘‘

نوٹ:

9نویں ذوالحجہ کی صبح سے لیکر 13 تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات پڑھنا چاہئے اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں

اَللّٰہُ أکْبَرْ  اَللّٰہُ أکْبَرْ لَااِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ  وَاللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلہِ الْحَمْدِ

اور صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اور اثر منقول ہے ۔

وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ يُکَبِّرُ بِمِنًى تِلْکَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْکَ الأَيَّامَ جَمِيعًا (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ ، باب التکبیر أیام منی وإذا غدا إلى عرفة)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان ایام میں یعنی عشرہ ذوالحجہ منی میں نمازوں کے بعد چلتے پھرتے بیٹھتے خیمے میں بستر پر تکبیرات بلندکیا کرتے تھے۔‘‘

قارئین کرام! ذرا غور کیجیے ، صحابی رسول کا اہتمام دیکھیے تکبیرات کے ساتھ اور عبادت کا شوق کہ کس طرح اپنی زندگی کے لمحے لمحے میں تکبیرات کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتے ہیں ، لیکن ہمارا حال آج یہ ہے کہ عبادت تو دور کی بات بلکہ مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے حتی کہ مسجدوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں کسی کو اپنی زبان کے ذریعے ایذاء پہنچائیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت اور رسول اللہ نے سخت وعیدیں فرمائیں ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے :

 وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ يَأْکُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (الحجرات:12)

’’ ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیا تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے سگے مردار بھائی کا گوشت کھائے ، پس تم اس سے کراہت کرتے ہو او ر اللہ سے ڈرجاؤ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نےاپنے صحابہ سے فرمایا : 

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ . قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ. فَقَالَ : إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِى يَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِى قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِى النَّارِ (صحيح مسلم کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم ، الحديث : 2581)

کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ ﷺنے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تو اس لیے میرے بھائیو! اپنی زبان کی حفاظت کرو اس کی حفاظت اس میں ہے کہ تم اسے اچھے کاموں میں استعمال کرو ان ایام میں کثرت سے ذکر واذکار کیا کرو ۔ رسول اللہ کا فرمان ہے : 

مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّکْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ (مسند احمد : 6154)

عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دنوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما : وَاذْکُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

المراد بھا أیام عشر ذی الحجۃ (صحيح البخاری ، کتاب الجمعة ، باب فضل العمل في أيام التشريق)

ایام معلومات سے مراد عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں کیونکہ عشرہ ذی الحجہ میں زیادہ ذکر واذکار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

تو اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر واذکار کریں تکبیرات کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو ترغیب دلائیں اور ان ایام میں سے ایک دن کا روزہ بھی ہے ۔

 چنانچہ سیدنا ابوقتادہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم سے عرفہ کے روزہ سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

يُکفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ (صحيح مسلم، کتاب الصيام باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس ، الحديث :1162)

’’یہ گزرے ہوئےاورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے۔‘‘

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وقت کو غنیمت سمجھیں اور ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر کریں تکبیرات ، تحمیدات ، تہلیلات پڑھیں ، بیہودہ فضول باتوں سے بچیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

وَفِي ذَلِکَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ
وما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب

۔۔۔

 مقصدِقربانی

الشیخ محمد یونس ربانی

ماہ ذوالحجہ کے آتے ہی ایک پررونق فضا پھیل جاتی ہے ایک عجیب ہی سماں نظر آتا ہے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے منڈیاں سچ جاتی ہیں ۔ چھوٹے بڑے سب ہی مصروف نظر آنے لگتے ہیں ۔ بھیڑ ، بکری ، گائے وغیرہ کی خریدو فروخت بڑے شوروں پر ہوتی ہے ہر جگہ لوگوں کاجمگھٹا نظر آتا ہے کوئی یہاں سے وہاں اور کوئی وہاں سے یہاں آنے جانے میں مشغول نظر آتا ہے ، یہ بات بڑے زور وشور سے ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہے جی عید قربان آرہی ہے قربانی کرنی ہے ۔

خطباء وواعظین سے کچھ مسائل سن کر جستجو میں رہتے ہیں کہ جی جانور عیب دار نہ ہو کیونکہ اس قسم کے جانور کی قربانی کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے ۔

قارئین کرام! اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ جانور خوبصورت عمدہ ہو دیکھنے میں بھلا لگتا ہو ، کسی قسم کا کوئی عیب نہ ہو ، اس جیسی چیزوں کا خیال رکھنا ضروری لیکن ان تمام تر کاوشوں کے پیچھے چھپی حقیقت کو کم ہی لوگ جانتے ہیں یعنی اس قربانی کے مقاصد سے چند لوگ ہی آشنا ہیں آج ہم اس مناسبت سے مختصراً مقاصد قربانی کو ذکر کریں گے تاکہ کوئی جانور کو ذبح کرنے کی حد تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس کے مقاصد واہداف سے بھی باخبر رہے۔

جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ قربانی کے اہداف ومقاصد تو بہت ہیں ہم چند ہی ان میں سے ذکر کرتے ہیں۔

۱۔الرضا بالقضاء (اللہ تعالیٰ کے ہر (حکم) اور فیصلے پر راضی رہنا)

قربانی کا سیرت ابراہیم علیہ السلام سے بڑا گہرا تعلق ہے اگر حیات ابراہیم علیہ السلام پر طائرانہ نظر گھمائیں تو معلوم ہوتا ہےکہ ان کی زندگی میں بڑے بڑے امتحان وابتلاء آتے رہے بڑے کٹھن مراحل آئے لیکن ان تمام چیزوں کو خندہ پیشانی سے جھیل کر درجہ اول پر فائز رہے۔

جیسا کہ ابتدائ میں ہی حکم الٰہی کے تحت جب لوگوں کو دعوت دین دینے لگے تو اس کی بدولت پرائے تو کیا اپنے بھی ان سے بیگانے ہوگئے خود ان کا والد اعداء کی صف میں جاکھڑا ہوا جس سے مشرکین کا رد عمل بڑا سخت تھا بلآخر وہ دن بھی آیا جب ابراہیم علیہ السلام نے عید کے روز ان کے خود ساختہ معبودوں کو توڑ پھوڑ دیا جس پر انہوں نے بڑی برہمی کا اظہار کیا ، ان کے اور ابراہیم علیہ السلام کے مابین مکالمہ ہوا جس میں ان کو بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ابراہیم علیہ السلام نے ان پر حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت وسفاہت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لا جواب ہوگئے تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر وشرک نے ان کے دلوں کو بے نور کر دیا تھا اس لیے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے تائب ہوتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی۔

محترم قارئین! اس کڑے اور کٹھن وقت میں بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدم ڈگمگائے نہیں اور نہ ہی اپنی زبان مبارک سے ایسے الفاظ ادا کیے جو اللہ جل جلالہ کی ناراضگی کا سبب بنیں ورنہ دیکھا جائے تو اپنے پرائے ساتھ چھوڑ کر چلے گئے اس پر مستزاد یہ کہ خون کے پیاسے بن گئے اس نازک حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اپنے مولا سے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا اپنے رب سے ناتہ نہیں توڑابلکہ بڑے عمدہ الفاظ میں اپنے مولا کو یاد کرتے رہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جارہا تھا تو اس وقت ان کے لبوں پر یہ دعا تھی :

حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَکِيلُ  (البخاری ، کتاب التفسیر ، رقم الحدیث : 4563)

دنیا والوں نے دیکھا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کو نہ بھولے تو اللہ تعالیٰ نے کیسے ایک کو تمام پر غالب کر دیا جو آگ آسمان سے باتیں کر رہی تھی وہی دھکتی آگ ابراہیم علیہ السلام پر گلزار بن گئی۔

محترم قارئین ! جب ابراہیم علیہ السلام اپنا وطن اعزہ واقارب اور سب کچھ چھوڑ کر ایسی جگہ جارہے تھے جہاں وہ اپنے رب تعالیٰ کی عبادت بلا روک ٹوک کر سکیں ، اسی اثناء میں وہ یہ دعا بھی کرتے رہے۔

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

اے میرے رب! مجھے نیک بخت(لڑکا) عطا فرمایئے۔ (الصافات:100)

اس دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد نرینہ عطا فرمائی ۔

فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ

’’تو ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی۔‘‘(الصافات : 101)

جب اس بچے کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اس بچے اور اس کی ماں کو اس جگہ چھوڑ آؤ جہاں انسان تو کیا کوئی پرندہ تک نہیں رہتا ، کھانے کی چیز کیاپینے کا پانی تک نہیں یعنی ایسی بے آب وگیاہ جگہ کہ سیدہ ہاجرہ بھی بول اٹھی کہ ’’ اے ابراہیم علیہ السلام ہمیں ایسی جگہ چھوڑ کر کہاں جارہے ہو جہاں کوئی انسان ہی نہیں بستا؟ (بخاری ، کتاب أحادیث الانبیاء، رقم الحدیث : 3364)

لیکن اس عالم میں بھی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم پر دل میں کوئی تنگی محسوس نہیں کی کہ اکلوتہ بیٹا جو ابھی شیر خوار ہے اس کو ایسی جگہ کیسے چھوڑ آؤں یہ توبچے پر ظلم ہوگا اس کی ماں کے ساتھ ناانصافی ہوگی ، وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں ان کا کیا بنے گا ۔۔۔

لیکن اس کے برعکس ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی ہیں یہاں تک کہ جب بیوی وبچے کو وہاں چھوڑا تو پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔

یہ ہوتا ہے اللہ کے ہر فیصلے اور حکم پر راضی رہنا اسی عنوان کے ساتھ تعلق رکھنے والا یہ قصہ ذکر کرنا چاہوں گا ۔

جب یہ ہی بیٹا کچھ بڑا ہوا ، دوڑا دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اب حکم ہوا کہ اپنے اس کلیجے کے ٹکڑے کو ذبح کرو ۔ ارشاد الٰہی ہے :

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَى

’’ پس جب وہ ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو انہوں نے کہا : اے میرے پیارے بچے بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ واقعی میں تجھے ذبح کررہا ہوں سو تم دیکھو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ (الصافات : 102)

محترم قارئین ! ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے سوچیں وہ کیسی کیفیت ہوگی مطالبہ کسی گائے ،بکرے،اونٹ وغیرہ کی قربانی کرنے کا نہیں بلکہ ایک باپ اپنے اکلوتے پھول جیسے بچے کو ذبح کرنی باتیں کر رہا ہے آج ہمارا تو یہ حال ہے جانور کی قربانی کرتے وقت بارہا سوچتے ہیں کوئی سستا مل جائے کوئی بہانا بنا لیتے جی طاقت نہیں مفروض ہوں وغیرہ ۔

لیکن قربان جاؤں ایسے باپ اور بیٹے پر جنہوں نے حکم الٰہی کے سامنے ذرا سی بھی لب کشائی نہیں کی بلکہ باپ ذبح کرنے اور بیٹا ذبح ہونے کے لیے تیار ہوگئے حتی کہ زمین پر بھی لٹا دیا اتنے میں آواز خداوندی آئی۔

وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ o  قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

’’ اور ہم نے اسے آواز دی ، اے ابراہیم ! واقعی تم نے خواب سچ کردکھایا۔‘‘(الصافات : 104۔105)

اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں ابراہیم علیہ السلام کو کوئی چیز بھی عزیز نہ تھی حتی کہ ان کا اکلوتہ بیٹا بھی یقینا یہ بہت بڑا امتحان تھا جس میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام سرخرو ہوکر درجہ اول پر فائز ہوئے جس کی گواہی اللہ کا قرآن بھی دیتا ہے ۔

إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ

ــــ’’ درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔‘‘(الصافات : 106)

مذکورہ واقعات سے یہی پتا چلا کہ قربانی کا مقصد اول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا کسی مشکل گھڑی میں اپنی زبان سے کوئی نازیبہ جملہ نہ بولیں ، جیسا کہ گزشتہ سیلاب میں گھرے لوگوں کی باتیں سنیں جو یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ اللہ تعالیٰ کو ڈبونے کے لیے صرف ہم ہی ملے ، مصیبتیں صرف ہم ہی کو دیناتھیں ، ہمیں تکلیف دے کر اللہ کو کیا ملا ۔‘‘ (نعوذ باللہ من ذلک )

ایسی باتیں کفر ہیں اللہ کے شان میں توہین ہے تو ایسے الفاظ کو زبان پر تو کیا دل میں بھی نہیں لانا چاہیے۔

حصول تقوی :

قربانی کا دوسرا بڑا مقصد تقوی کا حصول ہے ظاہر ہے کہ قربانی کا گوشت یا اس کی کھال وغیرہ کوئی چیز اللہ کی طرف تو نہیں جاتی مقصد اس سے انسان کے اندر موجود وہ تقوی وپرہیزگاری ہے جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ بندے کی قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَکِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْکُمْ  (الحج:37)

’’ اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کو خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ ‘‘

جب انسان کے دل میں تقوی کا مادہ جاگزیں ہوگا تو اس کے ہاتھ ، پاؤں ، آنکھ ، کان ، زبان بلکہ پورا جسم ہی محرمات سے اجتناب برتے گا۔

اگر انسان کا دل تقوی نامی چیز سے عاری اور خالی ہو تو پھر چاہے وہ آدمی کتنی مہنگی ، اچھی اور عمدہ قربانی کیوں نہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قربانی کا پھوٹی کوڑی کے برابر بھی وزن نہ ہوگا اس ذبیحہ کی کوئی وقعت نہ ہوگی ایسے ہی آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں نے بھی قربانی پیش کی تھی ان میں سے ایک کا دل تو نور تقویٰ سے منور تھا ، تقوی جیسی عظیم نعمت سے مالا مال تھا جبکہ دوسرے کا دل اس بنجر زمین کی طرح تھا جو تقوی کے شریں پانی سے محروم تھا جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم کتاب میں فرمایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

’’ آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا کھرا کھراحال بھی انہیں سنا دو ، ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا ، ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مارہی ڈالوں گا ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقوی والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ ‘‘ (المائدۃ : 27)

اس سے واضح ہوگیا کہ قربانی کا مقصد تقوی کا حصول ہے جس کے بغیر قربانی رائیگاں ہوجاتی ہے ۔

اطاعت رسول

رسول اللہ کی اتباع واطاعت ہر امر میں بہت ضروری ہے جس کی اہمیت کا ذکر ہمیں قربانی کے اس باب میں بھی ملتا ہے چنانچہ کوئی کتنا ہی صاحب عزم واستقلال متقی وپرہیزگار اور محب ومخلص کیوں نہ ہو جب تک آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے نقشہ قدم پر عمل پیرا نہ ہوگا تو ساری زندگی کی کیے ہوئے اعمال جو حجم میں پہاڑوں کے برابر ہیں لیکن ان سب کو پراگندہ ذروں کی طرح کردیا جائے گا جس کے لیے کوئی ترازو نہیں لگایا جائے گا ۔ زندگی بھر کی کمائی چٹ ہوجائے گی۔ ارشاد خداوندی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ

’’ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔‘‘ ( محمد : 33)

بالکل اسی طرح ، عزم واخلاص اور تقوی وپرہیزگاری ہونے کے باوجود اگر طریقہ نبی کا نہ ہوا تو یہ قربانی نہیں کہلاتی جس کی دلیل سنن ابی داؤد میں موجود یہ حدیث ہے ۔

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الاضحیٰ کے دن عید کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے ہماری جیسی نماز پڑھی اور ہماری جیسی قربانی کی تو اس نے قربانی کی (یعنی اس کو قربانی کا ثواب ملے گا) اور جو شخص عید کی نماز سے پہلے قربانی کرلے تو وہ تو بس بکری کا گوشت ہے (یعنی اس کو قربانی کا ثواب نہیں ملے گا) یہ سن کر ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کو جانے سے پہلے قربانی کر لی۔ اور میں یہ سمجھا کہ یہ دن تو کھانے پینے کا ہے پس میں نے جلدی کی میں نے خود بھی کھایا اور اپنے اہل وعیال کو بھی کھلایا اور اپنے پڑوسیوں کو بھی۔ آپ نے فرمایا یہ بکری تو گوشت کی بکری ہوئی (یعنی قربانی نہ ہوئی) تو ابوبردہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس ایک جذعہ بکری ہے وہ گوشت کی دو بکریوں سے بہتر ہے کیا وہ میرے لئے قربانی کے طور پر کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا ہاں! مگر تیرے سوا کسی کے لئے پھر کافی نہ ہوگی ۔

(سنن ابی داؤد ، کتاب الضحایا ، باب ما یجوز فی الضحایا ، رقم الحدیث : 2800، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیاہے)

حضرات گرامی! اس حدیث کو بغور پڑھیں کہ نماز عید سے پہلے قربانی کرنے والے صحابی رسول ہیں جن کی نیت یہ ہی تھی آج تو سارے ہی قربانی کریں گے کیوں نہ میں سب سے پہلے قربانی کرکے لوگوں تک اس کا گوشت پہنچاؤں ، اور ان کی اس نیت صالحہ پر کسی کو کوئی شک بھی نہیں لیکن طریقہ ٔ رسول سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے وہ قربانی ایک عام بکری کے گوشت میں تبدیل ہوگئی اور اس کی جگہ ان کو دوسری قربانی کرنی پڑی۔

معلوم ہوا کہ ہمارے معاملے میں اطاعت رسول بہت ضروری ہے جس کے بغیر کوئی عمل کتنا اچھا کیوں نہ ہو وہ قبول نہیں ہوگا ۔

قارئین کرام ! اس تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کے کئی ایک مقاصد ہیں جن میں سے چند کو ہم نے اپنے ناقص علم کے مطابق آپ احباب کے سامنے پیش کیا ۔

1  اللہ تعالیٰ کی مشیئت ، فیصلے اور حکم پر راضی رہنا ۔

2  تقویٰ کا حاصل ہونا۔

3 آپ کے نقش قدم پر چلنا ۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام اہل ایمان کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں منظور مقبول فرمائے اور جملہ مقاصد قربانی حاصل ہونے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

 اسلامی شعائر کے بے شمار فائدے

اوراقِ تاریخ اس بات پر شاہدہیں کہ اسلام اور اہل حق کو ہمیشہ مختلف زاویوں سے نشانے پر رکھا جاتا رہا ہے مگر ان تمام مذموم و ناپاک عزائم کو ہمیشہ منہ کی کهانی پڑی ہے!!!

یہ سلسلہ ابھی، چند برس یاصدیاں قبل نہیں بلکہ ولادت  آدم سے جاری و ساری ہے کبھی آدم و ابلیس کبھی ہابیل و قابیل کبھی ابراہیم و نمرود سے لیکر وغیرہ وغیرہ پر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا!!!

قصہ مختصر کہ آج بھی یہ سازشیں ہر روز نت نئے پہلوؤں اور طریقوں سے نمودار ہوکر اسلام پہ حملہ آور ہیں بلکہ یہ بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آج کلمہ گو سادہ مسلمان بھی لاشعوری طور پرمتاثر ہوکر اکثر اوقات سوالات کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بات اسلام میں کیوں ہے!!!

اسلامی تہذیب و تمدن ہو یا شرعی اصول و قواعد!!! ہر جگہ خودساختہ اعتراضات گھڑ گھڑ کر اسلامی شعار کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے!!!

ان اصول و قواعد میں سے ایک رکن ذبیحہ یعنی عید قربان بھی ہے جس میں تمام مسلمان عیدالاضحیٰ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر یہاں بھی انسانیت کا خودساختہ رونا رو کر سادہ لوح مسلم و غیرمسلم کے اذہان میں شدید قسم کے اعتراضات اٹھائےجا رہے ہیں!!!

حقیقی معنوں میں یہ جو اعتراضات کیئے جاتے ہیں میں بحیثیت ایک کامرس طالبعلم  انہیں اعتراض بھی نہیں گردانتا بلکہ یہ ان جہلا کی جہالت ہی ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے وگرنہ معاشیاتی علم رکھنے والا کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا!!!

آئیے اسلام مخالف (ملحدین) گروہ کے ان اعتراضات کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں جس کا ہر ماہ ذی الحج میں رونا رویا جاتا ہے!!!

1قربانی کے نتیجے میں غربت کا رونا رونے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت زیادہ فائدہ کسان اور مویشی صنعت (cattle industry) کو ہی ہوتا ہے اور غریب طبقہ کیلئے پورے سال میں یہی سنہری ایام ہوتے ہیں جن میں وہ اپنی محنت کا پھل اٹھا پاتا ہے۔

جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔

2 پھر یہ پروپیگنڈہ دہرا دیا جاتا ہے کہ یہ رقم مویشیوں کا خون بہانے کے بجائے غریبوں میں بانٹ دی جائے مگر وہ کم عقل اس بات سے ناواقف ہیں کہ غربت مٹانے کیلئے رقم بانٹنا علاج نہیں ہوتا بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی سے بڑھ کر بھلا  اس عمل کا بہترین ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

3 مارکیٹ ریٹ کو دیکھا جائے تو ان بڑے جانوروں کا گوشت اس قیمت میں فی کلو فروخت ہوتا ہے جو مڈل کلاس بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا مگر یہ کتنی عظیم قربانی ہے کہ معاشرے میں غرباء و مساکین بڑے آسانی سے گوشت بالکل مفت میں حاصل کرتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔

4 اس کے علاوہ قربانی سے جو کھالیں حاصل ہوتی ہیں وہ بھی مختلف ہسپتالوں کے علاوہ سینکڑوں فلاحی و رفاہی اداروں کے فنڈنگ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جن سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں اور اس کہ ساتھ ساتھ اس سے لیدر پراڈکٹس بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔

5 پھر مویشیوںکی ترسیل کے لیے جو ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی روز روشن کہ طرح عیاں ہے کہ کیسے ان جانوروں کی ترسیل سے کروڑوں روپے گورنمنٹ کو جاتے ہیں جس سے ملک کا پہیہ چلتا ہے اور ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگ (ڈرائیور، کنڈیکٹروغیرہ) بھی وہ پیسہ روپیہ کما لیتے ہیں جن سے ان کے گھر کا چولہا چلتا ہے ۔

مختصر یہ کہ عیدالاضحٰی میں قربانی کے چند دنوں کے دوران کھربوں روپے کی خطیر رقم کو حرکت دیکر جس طرح ملکی معیشت کو مثل برکت دیتا کے وہ بالکل خشک کنواں کو پانی سے بھرنے کے مصداق ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان بے دین افراد کو غریب و مساکین کا خیال ہمیشہ اسلامی تہواروں پر آتا ہے یہ غریبوں کا ہمدرد بنتے ہوئے عید کی خوشیاں نہیں مناتے مگر کرسمس، ہولی، دیوالی ودیکر غیر اسلامی تہواروں پر مبارکباد دیتے نہیں تھکتے!!!

یہ عیدین میں مسلمانوں کی خریداری پر تو انگلی تو اٹھاتے ہیں مگر انہیں وہ لاکھوں کھربوں نظر ہی نہیں آتے جوہر میک اپ و  کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں فالتو خرچ کیئے جاتے ہیں تاکہ میں تادیر جواں دیکھائی دوں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ تدبر و فکر کی نظر سے اگر معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو اربوں کھربوں کی خطیر رقم کے بے دریغ ضیاع پر کوئی ملحد بھی اعتراض کرنے و اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا جو اپنی نوعیت میں غریب کی احساس محرومی بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی مگر سنت ابراہیمی کی ادائیگی پر ایسے ہمدرد دیکھائی دیتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی ہمدرد پیدا ہی نہیں ہوا ، دراصل یہ تمام چالاکیاں غربت کی ہمدردی نہیں بلکہ فقط اسلامی تعلیمات تہذیب و تمدن کی مخالفت ہے جو انہیں پتہ نہیں کیوں ہضم نہیں ہوتیں!!!

اخيراً اللہ تعاليٰ سے بدست دعا ہوں کہ اللہ رب العزت ان تمام احباب کو ہدایت دے جو شعوری اور لاشعوری کیفیت میں مخالفت حق میں لگے ہوئےہیں۔

آمین یارب العالمین

 قربانی کے احکام و مسائل

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ   فَاِلٰـهُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ

’’اور ہم نے ہر قوم کی عبادت(قربانی) کے طریقے مقرر کئے ہیں تاکہ وہ اﷲ کے دئیے ہوئے چوپائے جانوروں پر اﷲ کا نام لیں۔‘‘(الحج 22: آیت 34)

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر : 2)

’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام :162)

’’(اے محمد e)کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت (قربانی) میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ کے لئے ہے۔‘‘

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ لَکُمْ فِيْهَا خَيْرٌ   فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَاۗفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَهَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج : 36تا37)

’’قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے مقرر کئے ہیں ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں پس کھڑا کر کے ان پر اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر نحر (ذبح) کرو پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال کرنے اور سوال نہ کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اﷲ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون بلکہ اُسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔‘‘

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ (الحج : 28)

’’اورمقررہ ایام میں (ذبح کے وقت) چوپاؤں پر اﷲ کا نام لو جو اﷲ( تعالیٰ) نے تمہیں دئیے ہیں پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘

 قربانی کرنا سنت ہے:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّي، ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ، فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَآ (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی،باب وقتہا، حدیث:1961)

سیدنا براء ابن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ، کہ نماز [عید] ادا کرتےہیں، پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا‘‘ ۔

عَن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ، وَأَنَا أُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ(صحیح بخاری  کتاب الاضاحی،باب اضحیۃ النبیﷺ حدیث: 5553 )

سیدنا انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم دو مینڈھے ذبح کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں‘‘ ۔

کن جانورں کی قربانی درست نہیں:

أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ – فَقَالَ -: الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْکَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى  (سنن ابي داؤد ، کتاب الضحايا ، باب ما يکره من الضحايا ، رقم الحديث : 2799)

’’چار قسم کے جانورقربانی میں جائز نہیں، کانا،جس کا کاناہونا واضح معلوم ہو ، بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو اور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودھا نہ ہوا ۔‘‘

امام احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ن ابن حبان اور حاکم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَيْنِ، وَلَا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ، وَلَا مُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا خَرْقَاءَ، وَلَا شَرْقَاءَ (سنن ابي داود، کتاب الضحايا، باب ما يکره من الضحايا، الحديث:2804)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ نے حکم دیا ، کہ ہم (قربانی والے جانور کی) آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح پڑتال کر لیا کریں اور وہ جانور ذبح نہ کریں ، جو یک چشم ہو ، یا جس کے کان آگے سے یا پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں یا جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں یا عرض میں (یا جس کےکانوں میں سوراخ ہو)۔

طاقت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے لیے وعید

نبی کریم نے فرمایا:

مَنْ کَانَ لَهُ سَعَةٌ ، وَلَمْ يُضَحِّ ، فَلاَ يَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا

’’جو شخص قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے باوجود وہ قربانی نہیں کرتا تو وہ ہر گز ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ ، ابواب الأضاحی ، الأضاحی أواجبۃ ھی أم لا ؟ الحدیث : 3160)

قرباني کرنے والا ذوالحجہ کے چاند کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑے

نبی کریم کا فرمان ہے : 

إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِکْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وھویرید التضحیۃ أن یأخذ من شعرہ وأظفارہ شیئاً ، الحدیث : 1977)

’’ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربان کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کو کاٹنے اور تراشنے) سے بچو۔‘‘

پورے گھرانے کی طرف سے قربانی کا حکم

نبي کريم کا ارشاد گرامی ہے : 

بِاسْمِ اللهِ، اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب استحباب الضحیۃ ، رقم الحدیث : 1976)

’’ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرمائیے۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ (المستدرک علی الصحیحین ، کتاب الاضاحی ، رقم الحدیث : 19052)

’’رسول اللہ اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے ۔‘‘

سیدناعطابن یسارh نے سیدناابو ایوب انصاریt  سے سوال کیا کہ رسول کریم e کے زمانے میں قربانی کی کیا کیفیت تھی۔؟ تو انہوں نے فرمایا :

کَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْکُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ کَمَا تَرَى (جامع الترمذی ، ابواب الاضاحی ،باب ما جاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزئ عن أھل البیت ، الحدیث : 1541)

’’ آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا اور اس سے وہ کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے پھر لوگ فخر کرنے لگے اور نوبت جہاں تک پہنچ گئی ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔‘‘

قربانی کے جانور کی عمر کیا ہو؟

نبیٔ کریم نے فرمایا:

لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْکُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب سن الأضحیۃ ، الحدیث : 1963)

’’ دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دو دانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔‘‘

صحابہ فرماتے ہیں:

ضَحَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَذَعٍ مِنَ الضَّأْنِ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا ، المسنۃ والجذعۃ ، الحدیث : 4382)

’’ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ دو دانتوں سے کم عمر والے دنبہ کی قربانی دی۔‘‘

مشین لگے جانور کی قربانی

رسول اللہ کا فرمان ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَتَى بِکَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ عَظِيمَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَأَضْجَعَ أَحَدَهُمَا [وَقَالَ: ” بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَکْبَرُ، اللَّهُمَّ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ” ثَمَّ أَضْجَعَ الْآخَرَ فَقَالَ: “بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَکْبَرُ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ مَنْ شَهِدَ لَکَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ (مجمع الزوائد ، کتاب الاضاحی ، باب أضحیۃ رسول اللہ ﷺ  ، الحدیث : 5969)

’’یقیناً رسول اللہ کے پاس دو سینگوں والے ، چت کبرے ، بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور کہا ’’ اللہ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں ، محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام الٰہی کو پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘

قربانی کے دن

رسول اللہ کا ارشاد ہے :

کُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ (مسند احمد :16752)

’’تشریق کے سب دنوں میں (قربانی کا جانور) ذبح (کرنا درست) ہے۔‘‘

قربانی کب کي جائے ؟

نبی کریم کا فرمان ہے : 

مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، فَلاَ يَذْبَحْ حَتَّى يَنْصَرِفَ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 5563)

’’ جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیاوہ (نماز عید سے) واپس آنے سے پہلے قربانی نہ کرے۔‘‘

نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے :

إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّي، ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ، فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسُکِ فِي شَيْءٍ (صحیح البخاري ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 1961)

’’ بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز (عید) ادا کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے ہی کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا اور جس نے اس سے پہلے ذبح کیا تو وہ گوشت ہے ، جو اس نے اپنے گھر والوں کو دیا اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ۔

قربانی کاجانورکون ذبح کرے ؟

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ انہوں نے فرمایا :

ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا، يُسَمِّي وَيُکَبِّرُ ويَذبَحُهُمَا بِيَدِهِ (صحیح البخاری،کتاب الاضاحی، باب من ذبح الاضاحی بیدہ ، الحدیث : 5558)

’’ نبی کریم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی دی، میں نے آپ کو اپنا قدم ان کے پہلوؤں پر رکھے (بِسْمِ اللّهِ وَاللّهُ أَکْبَرُ)پڑھتے دیکھا اور آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا ۔‘‘

امام احمد نے ایک انصاری شخص سے روایت کی ہے :

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَضْجَعَ أُضْحِيَّتَهُ لِيَذْبَحَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلِرَّجُلِ: أَعِنِّي عَلَى ضَحِيَّتِي (مسند احمد : 23168)

رسول اللہ نے اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے پچھاڑا اور آپ ﷺ نے آدمی سے فرمایا کہ قربانی(کے ذبح کرنے) میں میری اعانت کرو۔‘‘

قربانی کا جانور دوسروں سے ذبح کروانا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :

وَضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان وجوہ الاحرام، الحدیث : 1211)

’’ اور رسول اللہ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔‘‘

خاتون کا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے

امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے :

وَأَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح ضحية غيره )

ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں ۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

أنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجْرٍ فَسُئِلَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، عَنْ ذَلِکَ فَأمَرَ بِأکْلِها (صحیح البخاری ، کتاب الذبائح والصید ، باب ذبیحۃ المرأۃ والأمۃ ، الحدیث : 5504)

بے شک ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کیا نبی کریم سے اس بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے اس کے کھانے کاحکم دیا۔

اگر کوئی نمازِ عید سے پہلے قربانی کرےتو کیساہے؟

عن جُنْدَب بْنَ سُفْيَانَ البَجَلِيَّ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَکَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 5562 )

سیدنا جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ  قربانی کے دن میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی ہووہ اس کی جگہ دوبارہ کرے اور جس نے قربانی ابھی نہ کی ہو وہ کرے۔

ذبح کرنے کا طریقہ:

أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا وَيَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ (صحيح البخاري کتاب الأضاحي باب وضع القدم على صفح الذبيحة ، الحديث : 5564 وسنن ابي داود کتاب الضحايا باب ما يستحب من الضحايا ، الحديث : 2794)

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور رسول اکرم اپنا پائوں ان کی گردنوں کے اوپررکھتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے تھے۔

قربانی کا کتنا گوشت کھایا جائےاورکتناجمع کرکے رکھا جائے

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَکْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ضَحَّى مِنْکُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ فَلَمَّا کَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ کَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: کُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِکَ العَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی،باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی،الحدیث:5569)

سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میںسے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) رسول اکرم نے فرمایا کہ اب کھائو ، کھلائو اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

ممنوعات حج

قارئین کرام ! حج کے احکامات یا مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے حوالے سے ایک حاجی کو کون کونسے کام کرنا منع ہیں ؟

آئیں ملاحظہ فرما کر اثناء ادائیگی حج ان سے اجتناب کریں۔

اللہ ہم سب کے حج و زیارات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے ۔آمین

1 مکہ مکرمہ کی حرمت پامال کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ کے دن فرمایا :

إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْکُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، فَقَالَ : إِلَّا الْإِذْخِرَ .

بلا شبہ یہ شہر ( ایسا ) ہے جسے اللہ نے ( اس وقت سے ) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی ( عطا کردہ ) حرمت ( کی وجہ ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار نہیں دیا کیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے ( اب ) یہ اللہ کی ( عطا کردہ ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرام ہے اس کے کاٹنے نہ کاٹے جائیں ، اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگایا جائے ، کوئی شخص اس میں گری ہوئی چیز کو نہ اٹھائے سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرے ، نیز اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے ۔ اس پرسیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !سوائے اذخر (خوشبو دار گھاس ) کے وہ ان کے لوہاروں اور گھروں کے لیے ( ضروری ) ہے تو آپ نے فر مایا : سوائے اذخر کے۔ (صحیح بخاری : 3302)

وضاحت : البتہ چند موذی جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت ہے ۔

2 مکہ مکرمہ میں بلا ضرورت ہتھیار اٹھا کر چلنا

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لَا يَحِلُّ لِأَحَدِکُمْ أَنْ يَحْمِلَ بِمَکَّةَ السِّلَاحَ (صحیح مسلم :3307)

تم میں سے کسی کے لیے مکہ میں اسلحہ اٹھانا حلال نہیں ۔

3 اپنا فرض حج کیے بغیر حج بدل کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

أنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَبَّيْکَ عَنْ شُبْرُمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏   مَنْ شُبْرُمَةُ ؟  قَالَ :‏‏‏‏ أَخٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَرِيبٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِکَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :حُجَّ عَنْ نَفْسِکَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ

نبی کریم نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا : ’’لبيک عن شبرمة‘‘ حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے ۔ آپ ﷺنے دریافت کیا ،شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا : میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے ۔ آپ ﷺنے پوچھا : تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پہلے اپنا حج کرو پھر ( آئندہ ) شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔ (سنن ابی داؤد : 1811)

وضاحت : یعنی جس شخص نے اپنی طرف سے حج ادا نہیں کیا وہ کسی دوسرے کی طرف سے حج بدل نہیں کر سکتا ۔

4 کسی خاتون کا بغیر محرم کے حج کا سفر کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺسے سنا آپ خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے

لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا، قَالَ : انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ (صحیح مسلم : 3272)

کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو ۔ اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو ۔ ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے آپ نے فرما یا : جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ۔

جناب یحییٰ بن عباد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ : رای (ایران کے ایک شہر ) کی ایک خاتون نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کو لکھا کہ میں مالدار ہوں ، لیکن محرم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فریضہ حج ادا نہیں کیا ہے ۔ ( لہٰذا میرے لیے کیا حکم ہے ؟ )  امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے انہیں لکھا :

إنک ممن لم يجعل الله له سبيلا (فقه السنة 1/634)

آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر اللہ نے حج فرض نہیں کیا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی خاتون کا بغیر محرم کے سفرِ حج کرنا درست نہیں ۔

5 کسی خاتون کا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی حج کے لیے جانا

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ لَهَا زَوْجٌ وَلَهَا مَالٌ وَلَا يَأْذَنُلَهَا فِي الْحَجِّ : لَيْسَ لَهَا أَنْ تَنْطَلِقَ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا (سنن دار القطني : 2431)

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ سے اس خاتون کے متعلق روایت کیا جس کا خاوند ہے اور خاتون خود مالدار ہے جب کہ وہ اسے حج ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ایسی خاتون کے متعلق آپ ﷺنے فرمایا:ایسی جاتون کو خاوند کی اجازت کے بغیر (نفلی ) حج کے لیے نہیں جانا چاہیے ۔

علامہ سید سابق مصری رحمہ اللہ مذکورہ بالا مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ خاوند اگر فرض حج ادا کرنے کی اجازت نہ دے تو بیوی بغیر اجازت کے بھی جا سکتی ہے خاوند کو فرض حج سے اسے منع کرنے کا اختیار نہیں  کیونکہ یہ اس پر واجب عبادت ہے ، کیونکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ۔ البتہ نفلی حج پر خاوند کو حق ہے کہ اگر چاہے تو روک دے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے ۔(ملاحظہ ہو : فقه السنة 1/594)

6 خوشبو لگی ہوئے چادر کو احرام کے لیے استعمال کرنا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِوَرْسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ زَعْفَرَانٍ

رسول اللہ ﷺنے محرم کو ورس ( خوشبودار گھاس ) اور زعفران سے رنگا کپڑا پہننے سے منع فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ : 2930)

7 احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا  ٹوپی جوراب وغیرہ پہننا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے پوچھا : احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ نے فرمایا :

لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ أَوِ الزَّعْفَرَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَکُونَا تَحْتَ الْکَعْبَيْنِ

 نہ قمیص پہنے نہ پگڑی باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں ( اس طرح ) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔ (صحیح بخاری : 134)

8 احرام کی حالت میں خواتین کا دستانے پہننا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ .

محرم عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے۔(سنن ترمذی : 833)

وضاحت : البتہ جب کسی غیر محرم مرد کا سامنا ہو تو مکمل طور منہ ڈھانپنا چاہیے۔

9 احرام کی حالت میں ناخن تراشنا

علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَأجْمَعَوا عَلَى أَنَّ الْمُحْرِمَ مَمْنُوعٌ مِنْ أَخْذِ أَظْفَارِهِ

اس پر اجماع ہے کہ محرم کے لیے ناخن تراشنا ممنوع ہے۔ (الاجماع : 148)

0 خواتین کا حلق کرانا

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ

عورتوں پر حلق (سر کے بال منڈوانا)نہیں صرف تقصير (بال کٹانا ) ہے ۔ (سنن ابی داؤد : 1984)

! خواتین کا حالت حیض میں طواف کرنا

سيدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

قَدِمْتُ مَکَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَشَکَوْتُ ذَلِکَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلِي کَمَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي .

میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺسے کی تو آپ نے فرمایا : جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ( ارکان حج ) ادا کر لو ہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے کے بعد کرنا۔(صحیح بخاری : 1650)

@ احرام کی حالت میں نکاح کرنا یا نکاح کا پیغام بھیجنا

سيدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَا يَنْکِحُ الْمُحْرِمُ، وَلَا يُنْکَحُ، وَلَا يَخْطُبُ

جو شخص حالت احرام میں ہو ، وہ نہ نکاح کرے نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے ۔(صحیح مسلم : 3448)

# احرام کی حالت میں شہوانی گفتگو وغیرہ کرنا

سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا :

مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (صحیح البخاری : 1521)

جس نے حج کیا نہ کوئی فحش بات کی اور نہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو وہ اس دن کی طرح واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔

$ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ

اے ایمان والو ! تم احرام کی حالت میں شکار نہ کرو ۔

(المائدة : 95)

یاد رہے کہ احرام کی حالت میں سمندری شکار جائز ہے ۔

% زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے خود کو تکلیف میں ڈالنا

مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ کَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ :‏‏‏‏ مَا بَالُ هَذَا،‏‏‏‏ قَالُوا :‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ،‏‏‏‏ قَالَ :‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ،‏‏‏‏ قَالَ :‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْکَبَ .

نبی کریم ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے ( حج کے لیے ) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! انہوں نے ( پیدل ) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے ، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔(سنن ترمذی : 1537)

^ فوت شدہ خاوند کی بیوی کا ایام عدت میں حج کا سفر کرنا

جناب سعيد بن مسيب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ :

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ يَرُدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهُنَّ أَزْوَاجُهُنَّ مِنَ الْبَيْدَاءِ يَمْنَعُهُنَّ الْحَجَّ.

سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان خواتین کو جو خاوند کے فوت ہونے کی وجہ سے عدت میں ہوتیں مقام بیداء سے ہی واپس کر دیتے ، انہیں حج کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔(مؤطا مالک : 1730)

& حالت احرام میں فوت ہونے والے پر خوشبو لگانا اور اس کا سر ڈھانپنا

أَقْبَلَ رَجُلٌ حَرَامًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَّ مِنْ بَعِيرِهِ، فَوُقِصَ وَقْصًا، فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَأَلْبِسُوهُ ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي (صحیح مسلم : 2894)

ایک شخص احرام کی حالت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ آیا ، وہ اپنے اونٹ سے گر گیا ( اس سے ) اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ اس کے اپنے ( احرام کے ) دو کپڑے پہناؤ اس کا سر نہ ڈھانپو بلا شبہ وہ قیامت کے روز آئے گا ۔ تلبیہ پکار رہا ہوگا ۔

* حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے مزاحمت کرنا

سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

يَا عُمَرُ، إِنَّکَ رَجُلٌ قَوِيٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ،إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ، وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ فَهَلِّلْ  وَکَبِّرْ  (مسند احمد : 190)

اے عمر ! تو طاقتور آدمی ہے ، کمزوروں کو تکلیف نہ پہنچانا، جب حجر اسود تمہیں خالی مل جائے تو استلام (چھولو ) کرلو اگر (بھیڑ ہو تو) اس کی طرف منہ کر کے اللہ اکبر کہو (اور اشارہ کرتے ہوئے گزر جاؤ)۔

S میدان عرفات کے بجائے وادئ عرنہ میں وقوف کرنا

سيدنا جبير بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

کُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ عُرَنَةَ

پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے وادی عرنہ سے اوپر رہو  يعنی وہاں وقوف نہ کرو ۔(المعجم الکبير :  1583)

عرنہ میدان عرفات کے ساتھ ایک وادی ہے جو عرفہ میں داخل نہیں ہے اس لیے وہاں وقوف کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

) حاجی کا عرفات کے دن روزہ رکھنا

سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

شَکَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ

عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ ﷺکے روزے کے متعلق شک ہوا ، اس لیے میں نے آپ کو پینے کے لیے کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔ (صحیح بخاری : 1658)

ایک حاجی کے لیے عرفات کے دن روزہ رکھنا مسنون نہیں جبکہ غیر حاجی کے لیے عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے ۔(ملاحظہ ہو: صحیح مسلم : 1162)

a حاجی کی گری ہوئی چیز اٹھانا

سيدنا عبدالرحمان بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجّ (صحیح مسلم : 4509)

رسول اللہ ﷺنے حاجیوں کی گری ہوئی چیز اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۔

حاجی کی گری ہوئی چیز اٹھانا منع ہے ، ہاں اگر اعلان کرنے کا ارادہ ہو تو درست ہے ۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بخاری میں موجود ہے ۔

b  مزدلفہ کے بجائے وادئ محسر میں ٹھہرنا

سيدنا جبير بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

کُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ

پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے وادئ محسر سے اوپر رہو يعنی وہاں نہ ٹھہرو ۔(المعجم الکبير :  1583)

محسر منی و مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جو مزدلفہ میں داخل نہیں ہے ، اسی ہی مقام پر اصحاب فیل پر پتھر برسائے گئے تھے ، اس لیے وہاں ٹھہرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

c  طواف افاضہ میں رمل کرنا

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ

رسول اللہ نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا ۔(صحیح ابن خزیمة : 2943)

d رسول اللہ کی قبر کو عیدگاہ بنانا

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ کُنْتُمْ  (سنن ابی داؤد : 2042)

میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا۔

حج کا پیغام اور اس کی فلاسفی

میاں محمد جمیل

عبادت کے دینی تصور کے فہم اور انسانی زندگی پر اس کے گہرے اثرات کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پرغور و فکر ضروری ہے۔ کسی مسلمان کو بار بار حج اور عمرہ کی سعادت حاصل ہونا اس کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر فرض کرنے میں غور کا یہ پہلو ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے تمام ہی پہلوؤں سے ایک مسلمان ہم آغوش ہو سکتا ہے۔ اس کی زندگی میں وہ تبدیلی رُونما ہوتی ہے جو اسے ساری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکتی ہے۔

حج عبادت کے جملہ آداب، اور اسلام کی عالم گیر اور ابدی و ازلی دعوت کے نمایاں ترین پہلوؤں کا ترجمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے رُخ کو عبدیت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ عمل اگر شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ایک بار بھی ادا ہو جائے، تو یہ اتنا محرّک اور جان دار ہے کہ پھر ساری زندگی اس ڈگر پر بسر ہو سکتی ہے۔

حج کے لغوی معنی ’بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو اس لیے ’حج‘کہا گیا ہے کہ اس میں مسلمان مقررہ ایام میں بیت اللہ کی زیارت اور حج کے مناسک ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے۔ جو شخص حج کی طاقت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ایمان ہی محلّ نظر ٹھہرتا ہے:

وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًاوَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ(آل عمرٰن:97)

’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے پرواہ ہے‘‘۔

اس فرمان میں استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی کریم e نے بھی یہی ارشاد فرمایا:

عَنْ عَلِيٍّ t قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ e مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا(رواہ الترمذی: باب ما جاء فی التغلیظ فی ترک الحج)

سیدناعلی t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر بھی حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر فوت ہونا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنے کے مترادف ہے‘‘۔

حج کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ یہ صرف بیت اللہ کی زیارت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا سیدناابراہیم علیہ السلام اور ان کے عظیم بیٹے سیدنااسماعیل علیہ السلام اور انکی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی قربانی اور صبر وشکر کی یادیں وابستہ ہیں۔

حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں جھیلنے اور روز مرّہ کا لباس ترک کرکے احرام کا فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ میں رات بسر کرنا، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور سر کے بال منڈوانا تک ہر چیز میں عبادت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ان میں ہر عمل کا اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے تعلق ہے۔ للہیت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کا اصل مقصداورفلسفہ ہے۔ اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے کر جائے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور جناب محمد e کا راستہ ہی میرا راستہ، ان کا عمل ہی ہمارے لیے نمونہ اور اس راستے پر چلنا ہی ہماری زندگی کا مقصود ہے اور ہونا چاہیے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔

عالمگیر اجتماع

حج پر سوچ و بچار کا تیسرا پہلو اس کی عالمگیریت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام عبادات کا مرقع ہے۔ نماز کی ابتدا اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور جسم کی طہارت سے ہوتی ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی قدم میں ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف چہرہ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر، اور پھر اس کا طواف اور اس میں سجدے، جسم اور روح کی طہارت کے ساتھ حج کی ابتدا سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر ہے۔ نماز اگر بے حیائی سے روکنے کا ذریعہ ہے، تو احرام اور حج بھی منکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرہ:197)

’’ حج کے مہینے متعین ہیں۔ اس لیے جو شخص ان میں حج کرے وہ نہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ ‘‘

احرام تمام مسلمانوں کے لیے مساوات کا بہترین نمونہ ہے اور امیر غریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا ہے ۔ حج میں یہ سب کچھ موجود ہیں۔

اتحاد اور وحدتِ امّت

حج امت کی وحدت اور اتحاد، مسلمانوں کے ایک خاندان اور برادری ہونے کا ترجمان ہے۔ رنگ و نسل، وطن، زبان، سماجی اور معاشی فرق، غرض کہ ہر تفریق کے عملاً خاتمے کا نام حج ہے۔ ایک رب کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے اپنے مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک جماعت بن کر ایک امام کی امامت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات گزارتے ہیں۔ تہذیب وتمدن کے سارے منفی اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور ایک امّت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو بنایا گیا ہے۔

کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ (آل عمران:110)

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘

مولانا سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ﷺمیں اس پہلو کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں:

’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔

’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سالہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود اللہ کے رسول نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے ایک لاکھ سے زائد کے مجمع کو خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین رضي الله عنهم اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اعلام اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی اشاعت کا فریضہ ادا کیا، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے تھے ‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبی، پنجم)

حج کے اثرات اور نتائج

اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح اور امت کی وحدت اور اخوت کو ایک تاریخی تسلسل میں پرو دیا ہے اور ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتی رہے گی۔

’’یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم پیدا کرتا ہے، اسی طرح حج کے ایام تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری پیدا کرتا ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے علیم و حکیم نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر دعوت مٹ نہیں پائے گی۔ دنیا کے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں اور مسلمان جس قدر بے عمل ہو جائیں، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے چلنے کا سلسلہ جاری ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔ (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

مقالہ نگار رابرٹ بیانچی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں:

’’دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے حج نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (اوکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ )

حج عبادات کا مرقع ، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہو تی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اورملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی اسٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار اور حالات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے اس کے ساتھ ہی ملتِ کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہی وہ سوچ و حکمت تھی کہ جس کے لیے سیدنا عمر فاروقt حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیںبلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیشِ نظر نبی کریم e نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپe  ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے یہ فرماتے جارہے تھے:

عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ

’’اے حجاجِ کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے ،نیکی اُچھلنے کودنے کا نام نہیں۔‘‘(رواہ البخاری: باب أَمْرِ النَّبِیِّeبِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ)

حج شوکت ِاسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کواپنے کردار کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔

حق وباطل کی رزم گاہیں

حضرات ہر مسلمان جذبات محبت اور غیر ت اسلام کے پیش نظر بدر و احد کے معرکوں کا جغرافیائی اور نظریاتی نقشہ دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی غیر ت میں اضافہ کر سکے۔یہ ایسی رزم گا ہیں ہیں جہاں عساکر اسلام نے جرأت وبہادری کے وہ کارنامے سر انجام دیئے جنہیں سن کر دنیا آج بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے یہیں تو تاریخ کے آئینہ میں شیر اسلام سیدناحمزہ t کفار کو للکارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی تو وہ مورچے ہیں کہ جہاں ایک مجاہد کو سینے پر تیر لگا تو وہ یہ کہتے ہوئے زمین پر گر پڑا تھا کہ اللہ کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا۔

فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ (رواہ البخاری: باب مَنْ یُنْکَبُ فِی سَبِیلِ اللہِ)

یہ میدان احد ہے جس میں دختران اسلام مجاہدین کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ وہ غار بھی تو یہیں واقع ہے کہ جب ابو سفیان نے کفر کا سربراہ ہونے کے ناطے سے اپنی عارضی کامیابی پر اتراتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیا تھا :

 أُعْلُ ھُبُل آج ھبل (بت ) پہلے سے بہت زیادہ بلند وبالا ہو گیا۔ تو نبی اکرمeنے اس شرکیہ نعرے کے مقابلے میں اپنے قریب کے ساتھیوں کو فرمایا تھا کہ خاموشی کی بجائے جواب دیجئے :

اَللہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (رواہ البخاری: باب مَا یُکْرَہُ مِنَ التَّنَازُعِ)

’’ اللہ ہی سب سے بلند وبالا اورجلالت وجبروت کا مالک ہے۔‘‘

تاریخ کے دریچوں میں اب بھی معوذاور معاذwابوجہل کو جہنم میں دھکیلتے نظر آتے ہیں ،یہی وہ قطعہ ہے جس پر اسلام کے عظیم جرنیل، اپنے قبیلے کے سربراہ اور نبیeکے انتہا درجے کے جانثار حضرت سعدبن ربیعہ t زندگی کے آخری الفاظ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ :اے جینے والو نبی اکرم eکی خدمت میں میرا سلام پیش کرنا اور میرے قبیلے کے جوانوں کو یہ پیغام دیناکہ تمہارے ہوتے ہوئے اگر نبیe کی ذاتِ اطہر کو کوئی نقصان پہنچاتو قیامت کے دن کیا منہ دکھاؤ گے۔  (صاحب مضمون کی کتاب :آپe کا حج )

حج کا پیغام:

نبی معظم eوادی عرفات پہنچے اور لوگوں کو خطبہ دیا اورفرمایا:

اِنَّ دِمَاءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَااَ لَا کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ وَّدِمَآءُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآءِ نَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَۃَ  ابْنِ الْحَارِثِ وَکَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَہُ ھُذَیْلٌ وَرِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ مِنْ رِّبَانَا رِبَا عَبَّاسٍ ابْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَاِنَّہُ مَوْضُوْعٌ کُلُّہُ فَاتَّقُوااللّٰہَ فِی النِّسَآءِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانِ اللہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَھُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ وَلَکُمْ عَلَیْھِنَّ اَنْ لَّا یُوْطِیْنَ فُرُشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَھُوْنَہُ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرَّحٍ وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَقَدْتَّرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللہِ وَاَنْتُمْ تُسْئَلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِاِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُھَا اِلَی السَّمَآءِ وَیَنْکُتُھَا اِلَی النَّاسِ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ(رواہ مسلم: باب حجۃ النبیﷺ)

’’تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں جس طرح یہ دن ‘ یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں ۔ دور جاہلیت کے تمام امور میرے قدمو ں کے نیچے مسل دئیے گئے ہیں۔ دورجاہلیت کے تمام خون معاف ہیں اس سلسلے میں سے سب سے پہلے میں ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں۔ جس کو رضاعت کے دوران قبیلہ بنی سعد کے ہذیل نے قتل کردیا تھا ۔ زمانۂ جا ہلیت کا ہر قسم کا سود ختم کرتا ہوں۔ سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کیا جاتا ہے۔ لوگو! عورتوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم اللہ کے کلمہ کی بدولت انہیں اپنے نکاح میں لائے ہو اوراللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو تم نے حلال کیا۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں میں کسی کو نہ آنے دیں تم جن سے کراہت کرتے ہو ۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو سزادو لیکن زیادہ شدید نہیں اور ان کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں اپنی استعداد کے مطابق نان ونفقہ اور لباس مہیا کرو ۔ بلاشبہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتا ب (اور اپنا طریقہ) چھوڑے جا رہا ہوں اگراس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ تم سے میرے متعلق سوال کیا گیا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟ صحابہ y  نے جواب دیا ‘ بلاشبہ آپ e نے ابلاغ ‘ فرض کی ادائیگی اور نصیحت وخیر خواہی کا حق ادا کر دیا ۔ آپ نے اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا ‘ بارالٰہا! گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا ۔ آپ نے یہ الفاظ تین بار دوہرائے ۔ ‘‘

۔۔۔

مناسکِ حج سے نابلد عازمین حج۔ فتاویٰ۔

کتبہ:عبد الرحمن شاکربلوچ(متعلم جامعہ ہذا)    صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)

سوال : ان لوگوں کے بارہ میں آپ کیا کہتے ہیں جو کہ مناسک حج سے نابلد ہوتے ہیں وہ صرف اس نظریے پر سفر حج اختیار کرتے ہیں کہ ہم وہاں پر اسی طرح اعمال حج بجا لائیں گے جس طرح دیگر حجاج اس فریضہ کو ادا کریں گے؟

جواب : مسافر اور آوارہ گرد میں فرق یہ ہے کہ مسافر کی کوئی منزل ہے اور آوارہ گرد بغیر منزل کے سفر اختیار کرتاہے ، حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے، اس مقدس سفر میں آوارہ گرد ہوکر شامل ہونا اس فریضہ کے تقدس کے برخلاف ہے اس لیے مسلمان ہونے کے ناطے جب ہمارے پاس مالی وبدنی استطاعت ہو تو ہمیں اس سفر میںمسافر بن کر اختیار کریںنہ کہ آوارہ گرد ۔ ہر عبادت کی قبولیت کیلئے دوشرائط کا ہونا لازم ہے۔

1 اخلاص نیت         2 متابعت ِ سنت

اخلاص کا مفہوم کسی بھی عبادت کو صرف اور صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے جبکہ ریاکاری ، نمود ونمائش سے دور رہ کر ادا کرنا ہے۔

متابعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل نبی کریم کے طریقہ کے عین مطابق ہو۔

اللہ کے رسول کا حج کے بارے میں خاص فرمان ہے

خُذُوا عَنِّي مَنَاسِکَکُمْ (السنن الکبرى للبيهقي :9524)

’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا جس کا نام ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘ (قول وعمل سے پہلے علم کی تحصیل کا بیان)تو اس لحاظ سے حج قولی اور عملی عبادت کا مجموعہ ہے اس میں علم حاصل کرنا بالاولی لازم ہے کیونکہ نماز دن میں پانچ بار فرض ہے اور اسی طرح کچھ عبادات سال میں ایک مرتبہ فرض ہیں لیکن حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی سے قبل اس کا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ سنت کے مطابق حج کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔اگر کسی کو پڑھنا نہیں آتا تو اسلام نے اس آیت کے ذریعہ ان لوگوں کی راہنمائی فرمائی کہ

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 43)

’’نہ جاننے کی صورت میں اہل علم سے پوچھو۔‘‘

الغرض اہل علم سے حج کا طریقہ سیکھنے کے بعد اس مقدس فریضہ کو ادا کیا جائے ۔واللہ اعلم بالصواب

سوال : جس کے پاس حرام طریقے سے مال آیا ہو اور استطاعت بھی ہو تو کیا اس پر حج کرنا لازم ہے ؟

جواب : بینک میں ملازمت کرنے والے کیشیئر کو ہم کروڑ پتی نہیں کہتے ہیں اس کے باوجود کہ وہ کروڑوں روپے کی مالیت اور اربوں کھربوں کا حساب کتاب رکھتا ہے اور کروڑوں روپیہ اس کے ہاتھ میں ہے مذکورہ مال اس کی ملکیت نہیں بلکہ وہ بنک کی ملکیت ہے تو اسی طرح حرام مال چاہے وہ کسی بھی طریقے سے آئے وہ اس کا مال شمار نہیں ہوگا ۔ اسلام کی نظر میں کس طرح اس کو استطاعت رکھنے والے کی صف میں شامل کریں؟!!

اسلام کی نظر میں استطاعت یہ ہے کہ آپ کے پاس مال حلال طریقے سے آیا ہو ورنہ آپ اس چور کی طرح ہیں جو کہ ڈاکہ ڈال کر غریبوں میں مال تقسیم کرتا ہے۔اسلام نے جتنا صدقہ اور حج کرنے پر زور دیا ہے اس سے زیادہ اس بات پہ زور دیا ہے کہ آپ کا مال حلال ہو ورنہ حج تو کیا آپ کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ} ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِکَ؟ (صحيح مسلم:1015)

’’اے لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالی نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا جو کہ پیغمبروں کو دیا ، فرمایا : اے رسل! پاکیزہ چیز کھا کر عمل صالح کرو بیشک جو تم کرتے ہومیں جانتا ہوں۔ اور فرمایا : اے مومنو! جو ہم عطا نے کیا ہے ان میں سے پاکیزہ چیزوں کو استعمال کرو۔پھر ایک آدمی کا ذکر کیا کہ جس نے طویل سفر کیا اس سفر نے اس کے بال پراگندہ کردیئے اور جسم غبار آلود ہے اسی کیفیت میں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے ، اے میرے رب ، اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا، پینا، اوڑھنا اور پرورش حرام مال یا ذرائع سے ہوئی ہے تو کیسے اللہ تعالیٰ اس بندے کی دعا(عبادت) قبول فرمائے۔‘‘

جب اسلام نے اس مال کو قانونی طور پر آپ کا مال مانا ہی نہیں تو آپ کی استطاعت کو کہاں مانے گا۔ اسلام کی نظر میں تو آپ کے اور ایک کنگال کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ اسلامی قوانین کے مطابق حلال مال کماؤ اور حج کرو تب آپ کا حج قبول ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 عشرہ ذوالحجہ اور قربانی

فضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کی فضیلت:

1 ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھائی ہے ، جیسے سیدنا عبد اللہ بن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ) کی تفسیر میں وضاحت کی ہے ۔ (تفسیر الطبری 30/211، ابن کثیر 6/498 طبع دار السلام)

2 ان دس دنوں کی نیکی باقی تمام ایام کی نیکیوں سے زیادہ فضیلت والی ہوتی ہے۔ (بخاری : 969 ، ترمذی : 757)

3ان دنوں میں کثرت سے یہ تکبیرات پڑھنی چاہیے

اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ کَبِيرًا (عبد الرزاق بحوالہ فتح الباری 2/587)
اللَّهُ أَکْبَرُ، اللَّهُ أَکْبَرُ، اللَّهُ أَکْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَکْبَرُ، اللَّهُ أَکْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ (ابن ابی شیبہ 1/488)

4 سیدنا ابو ہریرہ اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم یکم ذوالحجہ سے ہی بلند آواز سے بازاروں میں تکبیرات کہا کرتے۔ (بخاری ، حدیث : 969)

5 9 ذوالحجہ تا 13 ذوالحجہ کی عصر تک فرض نمازوں کے بعد بلند آواز سے تکبیرات پڑھنی چاہیے۔(إرواء الغلیل 3/125)

6 ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کرنے والے شخص کو حجامت نہیں کروانی چاہیے۔(مسلم:1977)

7جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ بھی ان دنوں میں حجامت نہ بنوائے تو وہ بھی ثواب پائے گا۔ (ابو داؤد:2789)

8 9 ذوالحجہ کا روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (مسلم : 1162)

9 یکم ذوالحجہ تا 9 ذوالحجہ کے ایام کے روزے رکھنا مسنون ہے۔ (ابو داؤد : 343)

0 10ذوالحجہ کا دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے عظمت والا دن ہے۔ (ابو داؤد : 2814)

قربانی کے احکام

1 قربانی کے جانوروں کو خوب موٹا کرنا چاہیے۔ (بخاری ،  حدیث : 5552)

2 قربانی کیلئے مسنہ (دو دانت والا) جانور ہونا ضروری ہے البتہ مجبوری کی صورت میں بھیڑ کی نسل کا کھیرا کیا جاسکتاہے۔(مسلم : 1963)

3قربانی میں عیب دار جانور ذبح کرنا درست نہیں جیسے : کانا،لنگڑا، بیمار، بہت کمزور جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو وغیرہ (ابو داؤد : 2802۔ ترمذی : 1497)

4 سینگ ٹوٹے یا کٹے ہوئے جانور کی قربانی درست نہیں۔ (ابو داؤد : 2805)

5 کان چیرا ہوا یا کان میں سوراخ والا جانور بھی قربانی کیلئے درست نہیں ۔ (النسائی : 4377)

6 سینگ والا مینڈھا جس کا رنگ سفید، آنکھوں کا حلقہ سیاہ اور ٹانگیں سیاہ ہوں افضل ہوتاہے۔(مسلم:1967)

7 خصی جانور کی قربانی درست ہے۔ (ابوداؤد:2795۔ ابن ماجہ :3122)

8آپ  نے فرمایا : جو قربانی کی وسعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ مسلمانوں کی عیدگاہ میں نہ آئے۔ ( ابن ماجہ :3123۔ احمد 2/321)

9 حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے۔ (ابوداؤد:2872)

0قربانی عید کی نماز کے بعد کرنی چاہیے ، اگر پہلے جانور ذبح کر لیا جائے تو قربانی نہ ہوگی۔ (بخاری:5556)

! جانور ذبح کرتے وقت قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑھنی چاہیے۔

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُکِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيکَ لَهُ، وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ(ابو داؤد:2795)

پھر ذبح کرتے وقت یہ الفاظ پڑھنے چاہیے

بِاسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَکْبَرُ (بخاری:5558۔ مسلم:1966)

@ ذبح کرتے وقت چھری اچھی طرح تیز کرلینی چاہیے۔ ( مسلم : 1955۔ ابو داؤد:2814)

# اگر جانور خود ذبح کیا جائے تو بہتر ہے ورنہ دوسرا آدمی بھی ذبح کرسکتاہے۔(مسلم:1218)

البتہ تمام شرکاء کا چھری کو ہاتھ لگانا ثابت نہیں ہے۔

$ دس ذوالحجہ کو قربانی کرنا افضل ہے کیونکہ آپ  100 اونٹ اسی دن نحرکیے تھے۔

% دس ذوالحجہ سے لیکر تمام ایام تشریق میں قربانی کی جاسکتی ہے۔ (الجامع الصغیر : 4537)

^ قربانی کا گوشت خود کھانا،رشتہ داروں کو کھلانا اور غریبوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔(سورۃ الحج : 36)

& قربانی کے جانور کا چمڑا ذاتی استعمال میں لایا جاسکتاہے البتہ بیچ کر ذاتی استعمال میں رقم لانا جائز نہیں ہے۔جیسے گوشت ذاتی استعمال میں لایا جاسکتاہے لیکن اسے بیچنا جائز نہیں۔ (مسلم:1971۔ مستدرک حاکم : 3468)

* ایک بکرا تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کر جاتاہے۔ (ترمذی : 1505۔ ابن ماجہ :3147)

S گائے اور اونٹ میں سات افراد شریک ہوسکتے ہیں البتہ اونٹ میں دس تک بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ (ترمذی:905)

) قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا جائز نہیں۔ (تحفۃ الاحوذی ، تحت حدیث :1560)

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری 19

بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ الْخَلَاءِ

قضائے حاجت (کے لئے جاتے) وقت کیا پڑھے

19142– حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ تَابَعَهُ ابْنُ عَرْعَرَةَ عَنْ شُعْبَةَ وَقَالَ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ إِذَا أَتَى الْخَلَاءَ وَقَالَ مُوسَى عَنْ حَمَّادٍ إِذَا دَخَلَ وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ

آدم، شعبہ، عبدالعزیزبن صہیب، سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺبیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ کہتے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ (اے اللہ میں شریر جنوں اور جنّنیوں سےتیری پناہ مانگتا ہوں) ابن عرعرہ نے شعبہ سے یہی الفاظ روایت کئے ہیں، لیکن غندر سے شعبہ نے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ جب آپ بیت الخلاء آئے اور موسیٰ نے حماد سے داخل ہونے کا لفظ روایت کیا اور سعید بن زید نے عبدالعزیز سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ جب آپ بیت الخلاء جانے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔

Narrated Anas: Whenever the Prophet went to answer the call of nature, he used to say,اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ  O Allah, I seek Refuge with You from all offensive and wicked things (evil deeds and evil spirits).”

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ  ( رقمه :  6322 )

تراجم الرواۃ : 

1آدم بن ابی ایاس

2 شعبہ بن الحجاج

3 عبد العزیز بن صہیب

4 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نوٹ : تمام رواۃ کے تراجم حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔

معانی الکلمات : 

الْخَلَاءَ

خالی مکان / کنایہ قضائے حاجت کی جگہ

اللَّهُمَّ

اے اللہ

أَعُوذُ بِکَ

میں تیری پناہ چاہتا ہوں

الْخُبُث

سرکش مذکر جن

الْخَبَائِثِ

سرکش مؤنث جن

تشریح : 

نبی کریم ﷺنے اپنی امت کی ہر معاملے میں راہنمائی فرمائی ہے جہاں مسجد میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کے آداب سکھائے ہیںوہاں ہمیں بیت الخلاء میں داخل ہونے اور نکلنے کے بھی آداب سکھائےیہ تاریخی کلمات سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ

قَدْ عَلَّمَکُمْ نَبِيُّکُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ

”تمہارے نبی تو تمہیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔(صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، الحدیث:262)

گندی جگہوں میں گندگی سے اُنس رکھنے والے جن بسیراکرتے ہیں، اسی لیے نبی کریم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنّيوں سے پناہ مانگتے تھے، انسان قضاء حاجت کے وقت گندی جگہ اور ناپاکی کی حالت میں ہوتاہےاس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کو اذیت پہنچاسکتے ہیں، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھی جاتی ہیں۔اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

دخول سے مراد ارادۂ دخول ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں صراحت ہے۔  (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۴۲)

لہٰذا یہ دعا بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔ بیت الخلا تو گندگی والی جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تقدیس و تنزیہ ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بھول جائے اور داخل ہونے کے بعد یا ننگا ہونے کے بعد یاد آئے تو اس میں صحابہ و تابعین کا اختلاف ہے کہ دل میں پڑھ لے یا رہنے دے۔ یا اگر ابھی کپڑے نہیں اتارے تو باہر آکر دعا پڑھ کر داخل ہو جائے۔

[الخبث و الخبائث] خبائث خبیثۃ کی جمع ہے، مراد جننیاں ہیں۔ خبث ’’با‘‘ کے ضمہ کے ساتھ ہو تو خبیث کی جمع ہے، مراد جن ہیں۔ اگر ’’با‘‘ کے سکون کے ساتھ ہو تو اس سے مراد ہر ناپسندیدہ اور مکروہ چیز ہے۔ اس طرح اس کے تحت تمام شریر جن، جننیاں، گندے اخلاق و اعمال اور ہر قسم کے نازیبا کلمات و اقوال داخل ہیں، لہٰذا اگر اس ضبط کے ساتھ دعا پڑھی جائے تو انسان مذکورہ ہر قسم کے شر اور مکروہات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ جن اور جننیوں سے بچاؤ کی خاطر اس حالت میں بطور خاص دعا کی تلقین اس لیے ہے کہ انھیں گندگی اور بدبو سے حد درجہ کی  مناسبت ہے اور اس موقع پر وہ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۱۰/۱)

 

——–

سچ ہی در اصل نیکی ہے

سچ ہی در اصل نیکی ہے۔

دین دراصل اخلاق حسنہ سے موسوم ہے نبی کریم ﷺ نے ہمیں ہر اچھے اخلاق کی نشاندہی فرمادی اور ہر برے اخلاق سے خبردار کردیا تو اچھا اخلاق کیا ہے ؟ اخلاق حسنہ دراصل نیکیوں کو کہا جاتاہے جبکہ برا اخلاق گناہوں کو کہا جاتاہے اور نیکیاں یا تو حقوق اللہ سے متعلق ہیں یا پھر حقوق العباد سے متعلق ۔ جب ہم نبی کریمﷺ کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیکی ایسی ہے اگر اس پر عمل کریں تو باقی تمام نیکیوں پر عمل کرنا آسان ہوجاتاہے اور ایک برائی ایسی ہے کہ جس کو ترک کر دیا جائے تو سارے ہی گناہ چھوڑےجاسکتے ہیں وہ نیکی سچ بولنا ہے اور وہ برائی جھوٹ بولنا ہے۔ نبی کریم ﷺ ہر خطبہ میں یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے

: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب70۔71)

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔‘‘ سچ بولنے سے تمہارے تمام معاملات سنور جائیں گے خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺکی فرمانبرداری کرتا ہے

فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

 دراصل کامیابی اسی کے قدم چومتی ہےاور کامیابی بھی کوئی چھوٹی اور معمولی نہیںبلکہ عظیم کامیابی ہے ۔ بطور مثال ہم حقوق اللہ کو لے لیں تو سب سے بڑی نیکی توحید کا دامن تھامنا جبکہ سب سے بڑی برائی توحید کے دامن سے بیزارہوکر شرک کی دلدل میں اپنے آپ کو لت پت کر لیناجو کہ سب سے بڑا ظلم ہے۔

إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان13)

ظلم تو بہت ہوتے ہیں مگر شرک سے بڑا ظلم اور زیادتی کوئی نہیںتوحید کہتے ہی سچے معبود کی عبادت کو ہیں جبکہ شرک جھوٹے معبودوں کی عبادت ہے۔ لاالہ میں تمام جھوٹ کی نفی کر دی گئی اور الا اللہ میں سچ کا اثبات کیاگیا ہے۔ توحید کی بنیاد میں آپ کو ہمیشہ سچ نظر آئے گا اور شرک کی بنیاد میں جھوٹ نظر آئے گا اور توحید میں بنیادی بات اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص ہونا ہے ۔اخلاص سے مراد دل کا سچے طریقے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونا ۔اخلاص کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر قیمت ہے کہ جب سچائی ہو تو ’’

الصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ (صحيح البخاري:7492)

کا انعام ملتاہے ۔ جب سچے دل سے روزہ رکھا جائے تو اس کا صلہ میں ہی ہوں اس سے اندازہ لگائیں کہ سچ کی کس قدر اہمیت ہے ۔جہاں تک صدق کا تعلق حقوق العباد سے ہےتو جھوٹے تعلق کو بدکاری جبکہ سچے تعلق کو نکاح کہا جاتاہے۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق شرم گاہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے صدقہ رکھا ہے، صحابہ نے تعجب کیا کہ ایک شخص اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو اللہ نے اس کے لیے بھی اجر رکھا ہے ؟ فرمایا کہ اگر یہی کام وہ حرام طریقہ سے کرتا ہے تو کیا اس میں گناہ نہیںہے ؟ جس طرح بدکاری کرنے میں گناہ ہے اسی طرح میاں بیوی کے حقوق ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے ثواب رکھا ہے۔ جھوٹی ملکیت خواہ چوری،ڈاکہ ، دھوکہ کی صورت میں ہو خواہ مدرسے کا مال ناجائز استعمال کرنا ہو ، خواہ وہ مسجد کے مال میں خیانت ہو یا ملک وقوم کے مال میں خیانت کی شکل میں ہو یا قومی وسائل کے استعمال میں ہو یا مذہبی نام سے مال جمع کرکے الیکشن میں حصہ لینا ہو جس میں عوام سے زیادہ ذاتی مفاد وابستہ ہو ان سب کی بنیاد میں آپ کو جھوٹ نظر آئے گاجو مالوں میں خيانت کرتا ہے روزِ قیامت وہ اس مال کو سروں پر لادے ہوئے آئے گا تو جھوٹی ملکیت کسی قسم کی ہی کیوں نہ ہو؟ اور اگر حلال ہے تو یہ آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ غریب صحابہ نبی کریم ﷺ کے پاس آتے ہیں کہتے ہیں کہ ’’ جن کے پاس مال ہے وہ تو اجر کے حصول میں سبقت اور بازی لے گئےتو حلال مال تو یہ کمال عطا کرتاہے۔الغرض چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی نیکی کو لے لیں اس میں آپ کو سچائی دکھائی دے گی اور اس کے برعکس بدی کو لے لیں اس میں جھوٹ ہی جھوٹ دکھائی دے گانبی کریم ﷺ کی پیروی حقیقت میں سچ کی پیروی ہے جبکہ اس کے علاوہ سب جھوٹ ہے

۔ شَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا (صحيح مسلم:867)

سفید جھوٹ ہے ، جس کا ثبوت نہ کتاب اللہ میں اور نہ سنت رسول اللہ میں ملتا ہو جسے شریعت میں بدعت سے موسوم کیا جاتاہے جس کی کوئی اصل وبنیاد نہیں۔ سچ اللہ کی جانب سے ہے اس کے علاوہ سب باطل کہ جس کی بنیاد ہی نہیں ہے تو ہر نیکی کی بنیاد میں سچ اور برائی کی بنیاد میں جھوٹ نظر آئے گا ۔ نبی کریم کا فرمان ہے : سچائی کو لازم پکڑو، سچائی سے نیکیاں کھلتی ہیں  اور نیکی آپ کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جائے گی۔ جو انسان سچ بولتا ہے، سچ پر جما رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتاہے ، اور فرمایا ’ لوگو! جھوٹ سے بچو، جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتاہے ، جھوٹ سے برائیاں جنم لیتی ہیں اور گناہ جہنم میں لے جاتے ہیں۔‘‘اور فرمایا ’’بندہ جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے جھوٹوں میں لکھ دیا جاتاہے ‘‘۔ صدق وسچائی کو آپ معمولی بات نہ سمجھیں ، اللہ کی قسم! راہ شہادت سے مشکل ہے راہ صداقت۔ راہ شہادت سے اعلیٰ درجہ راہ صداقت کا ہے۔ سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے لیکن مقام ومرتبہ کے اعتبار سے سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو فوقیت وافضلیت حاصل ہے کیونکہ وہ صدیق تھے۔اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ مرتبہ نبیوں کا رکھا پھر صدیقین کا پھر شہداء کا اور کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِيقًا (النساء: 69)

’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا :

 وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا (النساء: 87)

’اللہ کی بات سے سچی بات کس کی ہوسکتی ہے؟‘‘۔ یہ سچ بولنا باری تعالیٰ کی صفات میں سے ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے تو نبوت سے قبل بھی کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ سچ صرف بولنے کا نام نہیں ہے ۔ بولنے کے ساتھ عمل کا بھی نام ہے۔سچوں کا ساتھ دینے کا نام ہے، سچ پر صبر کا نام ہے۔ گواہی اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ بھلے وہ گواہی آپ کے اپنے ہی خلاف ہی کیوں نہ ہو؟ یا آپ کے والدین کے خلاف ہو اور چاہے آپ کے قرابتداروں کے خلاف ہو۔ نہ کسی امیر کی امارت سے مرعوب ہونا چاہیے نہ کسی غریب کی غربت پر ترس آنا چاہیے۔ اس کی امارت اور اس کی غربت کو اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ کسی قوم کی دشمنی آپ کو راہ عدل سے نہ ہٹا دے۔ ہمارے ہاں پنجابی پنجابیوں کے ساتھ ، اردو بولنے والے اردو والوں کے ساتھ ، فوجی فوجی کے ساتھ، وکیل وکیل کے ساتھ، اساتذہ اساتذہ کے ساتھ ہمارے ہاں تو یہ معیار ہے۔علی الاعلان سورج کی روشنی میں مساجد ومدارس پہ قبضہ کیا جاتاہے ، سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود حق کا ساتھ نہیں دیا جاتا۔جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :  يَا

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبة: 119)

اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جدھر سچ دیکھو اس طرف ہوجاؤ۔ سیدنا ابو بکر کی زندگی اسی مقصد پر رہی ہے۔ نبی کریم ﷺ پہلے دن نبوت کا اعلان کرتے ہیں ، سیدنا ابو بکر پہلے دن ہی اقرار کرلیتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو کئی سالوں بعد ایمان لاتے ہیں۔ حدیبیہ میں سیدنا عمر کی طرف سے اعتراض ہوتاہے کہ اے نبی کریم ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں لیکن سیدنا ابو بکر کی طرف سے اعتراض نہیں آتا ، وہ سیدنا عمر کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو فیصلہ کس کا ہے ؟ بناچوں چراں نبی کریم ﷺ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

واقعہ افک میں بیٹی پوچھتی ہے کہ بابا! آپ جواب دیجیے ، وہاں پر بھی سیدنا ابو بکر کہتے ہیں اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے ، منکرین زکوۃ کا فتنہ، جیش اسامہ سب لوگ کہتے ہیں کہ لشکر بھیجنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس لشکر کو اللہ کے نبی ﷺنے روانہ کیا میں اسے نہیں روک سکتا۔ یہ جو ہم تنزلی کا شکار ہیں یہ ہم راہ صداقت سے ہٹ گئے ہیں ، لوگ سمجھتے ہیں ذہین ہونے سے دنیا کی ترقی ملتی ہے، سمجھتے ہیں دولت آجانے سے دنیا آجاتی ہے۔

ترقی اگر ہوتی ہے تو اخلاقی اقدار سے ہوتی ہے ، اگر اخلاقی اقدار کو اپنایا جائے تو ترقی ہوتی ہے ، جب اخلاق اقدار کو نظر انداز کر دیا جائے تو دنیا بھی برباد ہوجاتی ہے اور آخرت میں تو فیصلہ ہونا ہی اسی بنیاد پر ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:

قَالَ اللَّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ (المائدة : 119)

یہ وہ دن ہے جس دن سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی۔ سب سے پہلے جنہیں جہنم میں ڈالا جائے گا وہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ساری زندگی جھوٹ پر بسر کی ہوگی ، جھوٹ بول کر مال ودولت جمع کیا ہوگا ، جھوٹ سے عزت،شہرت، منصب ، عہدہ اور کرسی حاصل کی ہوگی اور اس قدر جھوٹے ہوچکے ہوں گے کہ جب باری تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے وہاں پر بھی جھوٹ بول رہے ہوں گے۔ کہیں گے باری تعالیٰ ہم نے ساری عمر قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں گزاری ہے، ساری عمر جہاد میں گزاری ہے ، ساری عمر روتےہوئے گزاری ہے فیصلہ ہوگا ’’کَذَبْتَ ‘‘ تم جھوٹ بولتے ہو، اور منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

ڈرئیے اس دن سے جب یہ کہا جائے گا ’’کَذَبْتَ‘‘ آپ نے جھوٹ بولا ہے ، بڑے خوش نصیب اور خوش بخت ہوں گے وہ لوگ جن سے کہا جائے گا کہ آپ سچ بول رہے ہیں۔سچائی میں اللہ تعالیٰ نے اطمینان رکھا ہے اور جھوٹ میں پریشانی رکھی ہے ۔ سچائی ہی نجات دیتی ہے جبکہ جھوٹ سے ناکامی ہوتی ہے۔

دنیا وآخرت دونوں میں اور جھوٹ ہلاکت کر دیتاہے برباد کر دیتاہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچ بولنے اور سچ سننے کی طاقت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

دارالسلام کی شاہکارکتاب ’’ہدایة القاری شرح صحیح البخاری‘‘ کی تقریب رونمائی

تقریب میں جیدوکبائرعلماکی موجودگی اس بات کاثبوت

تھاکہ اللہ نے ’’دارالسلام‘‘کے کام اورنام کوشرف قبولیت بخشاہے۔

دارالسلام کی شاہکارکتاب

’’ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘

کی تقریب رونمائی

دس جلدوں پرمشتمل کتاب کے ترجمہ و تشریح کاکام 16 برس میں پایہ تکمیل کوپہنچاہے

دینی کتابوں کوعالمی معیارکے مطابق طبع کرنادارالسلام کاطرہ امتیازہے۔حال ہی میں دارالسلام نے شرح بخاری بنام ’’ہدایۃ القاری‘‘ شرح صحیح بخاری زیورطباعت سےآراستہ کی ہےاس سلسلہ میں گزشتہ دنوں ’’دارالسلام قرآن انسٹیٹوٹ شیخوپورہ میں تقریب رونمائی کی ایک بہت ہی خوبصورت محفل جناب عبدالمالک مجاہدکی زیرصدارت سجائی گئی۔جبکہ مہمان خصوصی استاذالاساتذہ فضیلۃ الشیخ ،مترجم وشارح صحیح بخاری، مفتی حافظ عبدالستارحمادتھے۔جمعیت مناہل الخریہ کے چیئرمین عارف جاویدمحمدی کویت سے اس بابرکت محفل میں شرکت کے لئے خصوصی طورپرتشریف لائے۔

اس بابرکت محفل کو جیدعلمائےکرام ،شیوخ الحدیث اور اساتذہ نے رونق بخشی۔صدارتی کلمات وکلمات تشکر کا فریضہ عبدالمالک مجاہدصاحب نے اداکیا۔حافظ عبدالعظیم اسدجودارالسلام ایجوکیشنل سسٹم کے مدیر، دین کے داعی، علماکے قدردان اورخدمت گزارہیں ان کی محنت نے تقریب کوچارچاندلگادیے۔اس خالصتاََ علمی،دینی اور روحانی تقریب میں ہرعالم دین اورشیخ الحدیث نے علم کے موتی بکھیرے،امام بخاری کی جلالت علمی اورصحیح بخاری کے مناقب وفضائل بیان کئے۔

مجلس کے مہمان خصوصی شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حمادنے صحیح بخاری کی شرح لکھے جانے کی سولہ سال کی طویل جدوجہد پرروشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ صحیح بخاری کی شرح لکھنا اسرارورموزکاایک ایسا بحر ذخارہے جس کادوسراکنارا ناپید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میںفقہی جواہرات اورعملی شہ پارے اتنے بکھیردیے ہیں کہ یہ وہی انسان نکال سکتاہے جواس سمندرمیں غوطہ زنی کرسکتاہو۔

مجھ جیسے کم علم آدمی کے لئے صحیح بخاری کی شرح لکھناکوہ گراں اٹھانے کے مترادف تھاتاہم میرے محبی عبدالمالک مجاہدنے مجھے یہ کام کرنے کے لئے کہاان کی خواہش پرمیں نے کام کی منصوبہ بندی کی اور رات کے پچھلے حصے میں کام کرنے کا پروگرام بنایا کیونکہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ نے بہت خیر و برکت رکھی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے درج ذیل نکات سامنے رکھ کر اس مبارک کام کا آغاز کر دیا: مثلاََ کتاب الوضوہے اوراس کے آگے چھوٹے چھوٹے باب ہیں۔اسی طرح بخاری شریف کے اندردیگرابواب ہیں۔میں نے تعارفی نوٹ لکھے کہ جن میں یہ بتایاگیاہے کہ ان ابواب میں امام بخاری کیاکہناچاہتے ہیں۔جواحادیث امام بخاری نے بیان کی ہیں ان کی تعداد،آثارہرکتاب کے شروع میں دیے ہیں۔مختلف موضوعات پربخاری شریف کے اندر98کتب ہیں۔ بخاری شریف کے علاوہ کتب ستہ میں جواضافے ہیں انہیں بھی بیان کیاہے۔

1  ہر بڑے عنوان کا مفہوم اور اس کے تحت آنے والے چھوٹے چھوٹے عنوانات کی روشنی میں اس کے مشمولات پر تعارفی نوٹ۔

2  باب کی وضاحت، اس میں آمدہ معلق روایات کی مکمل تخریج،ترجمہ اورترجمے کے ساتھ اس باب کے ساتھ جومطابقت ہے اسے بیان کیاہے۔

3 سلیس الفاظ میں حدیث کا اُردو ترجمہ۔

4 دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق حدیث کی تشریح

5 عنوان اور حدیث میں مطابقت۔

6 حدیث کا پس منظر اور سببِ ورود۔

7 بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق۔

8 دیگر روایات میں آمدہ اضافوں کی صراحت۔

9 دیگر احادیث کی روشنی میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کی وضاحت۔

0 امام بخاری پر اعتراضات اور منکرین حدیث کے شبہات کا ازالہ۔

حافظ عبدالستارحمادسلسلہ گفتگوجاری رکھتے ہوئے بتارہے تھے کہ اس مجوزہ نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے رات کے پچھلے پہر بیدار ہوتا، وضو کر کے پر سکون ماحول میں بیٹھ جاتا، پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ حدیث پر غور کرتا، اس کے پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کو دیکھتا، حدیث کا مفہوم متعین کرنے کے لیے حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تألیف ’’فتح الباری‘‘ پڑھتا، بوقت ضرورت علامہ عینی رحمہ اللہ ؤ کی ’’عمدۃ القاری‘‘ کو بھی دیکھتا، اس کے علاوہ عرب شیوخ، مثلاً: شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ محمد ناصر الدین البانی اور شیخ صالح العثیمین رحمہم اللہ اجمعین کی تالیفات و رسائل سے استفادہ کرتا، پھر گھنٹوں غور و فکر کرنے کے بعد حدیث کے مفہوم اور اس سے اخذ کردہ فوائد کو نوک قلم پر لاتاتاکہ امام بخاری کے موقف کی وضاحت ہوسکے۔ بہرحال جو کچھ لکھا وہ اندھیرے میں تیر چلانے کے بجائے علی وجہ البصیرت لکھا ہے۔ بعض مسائل کے متعلق میںنے سیر حاصل بحث کی ہے جو شاید دوسری کسی کتاب میں دستیاب نہ ہو سکے۔ صحیح بخاری کی کتاب التوحید کی تشریح کے لیے شیخ عبداللہ الغنیمان کی تالیف شرح کتاب التوحید کا انتخاب کیا تاکہ توحید الاسماء والصفات کے متعلق اسلاف کا منہج نکھر کر سامنے آ جائے۔ بہرحال صحیح بخاری کا ترجمہ اور فوائد کیا ہیں؟ اس کا فیصلہ تو قارئین اسے پڑھ کر ہی کریں گے لیکن میں نے اپنا خون جگر نچوڑ کر ان کی خدمت میں پیش کر دیا ہے۔ اس میں میری استعداد و لیاقت کا کوئی دخل نہیں بلکہ محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ اس کی توفیق ہی سے میں یہ کام کرنے کے قابل ہوا ہوں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات کے متعلق یہ بات اہل علم کے ہاں مشہور ہے کہ ’’بخاری کی فقاہت ان کے تراجم میں ہے۔‘‘ اور یہ تراجم خاموش ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ٹھوس ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تراجم پر غور و فکر کر کے کچھ اصول وضع کیے جائیں، پھر ان اصولوں کی روشنی میں پیش کردہ احادیث کا جائزہ لیا جائے اور مدارس میں ان کے مطابق صحیح بخاری کی تدریس کی جائے۔ حافظ عبدالستار حماد کا کہناتھا جب میں نے صحیح بخاری کے ترجمے وتوضیح کاکام شروع کیاتومیں نے اسی وقت عبد المالک مجاہدسے کہہ دیاتھاکہ مجھے یامیرے بچوں کوکتاب کے ترجمے وتشریح کی مدمیں کسی قسم کی مالی معاونت، اعانت، معاوضہ، رائلٹی،جملہ یاجزوی حقوق نہیں چاہیں۔اگرچہ اس کام پر میرے سولہ برس صرف ہوئے ہیں،تاہم میں نے صحیح بخاری کے ترجمہ وتشریح کاجوکام کیا صرف اورصرف اللہ کی رضاکے لئے کیاہے۔میں اللہ سے امیدرکھتاہوں کہ یہ عمل میری بخشش ونجات کاذریعہ بنے گا۔

دارالسلام کے مینجگ ڈائریکٹرعبدالمالک مجاہدنے اظہار تشکر کے کلمات کہتے ہوئے کہامیں اس بابرکت تقریب میں شرکت پرجہاں تمام علماء کرام کاشکرگزارہوں وہاں میں خصوصی طورپرشیخ الحدیث حافظ عبدالستارحمادصاحب کابھی ممنون  ہوں کہ انہوں میری گزارش کوشرف قبولت بخشتے ہوئے  صحیح بخاری کے ترجمے وفوائدکاتاریخی کام کیاہے ۔ میں نے سعودی عرب میں جامعات کے شیوخ الحدیث،علما، اساتذہ اوراپنے دوستوں کوبتایاکہ پاکستان میں الشیخ عبدالستارحمادنے سولہ برس کی محنت شاقہ کے ساتھ بخاری شریف کاترجمہ وتشریح کاکام مکمل کیاہے۔سب دوستوں کاسوال تھاکہ الشیخ عبد الستارنے اس کام کاکیامعاوضہ لیاہے۔میں نے ان کوبتایاکہ کچھ بھی معاوضہ نہیں لیا۔سب نے بہت تعجب،حیرت اور خوشی کااظہارکیاکہ اس دورمیں بھی ایسے مخلص،ایثارپیشہ علماموجودہیں جوکسی قسم کی دنیوی طمع ولالچ کے بغیردین

کی خدمت کرتے ہیں۔پھرسب نے ہی حافظ عبدالستار حماد اور ان کے اہل خانہ کی صحت وسلامتی،ایمان کی حفاظت اور درجات کی بلندی کے لئے بےشمار دعائیں کیں۔’’ ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری‘‘کی تکمیل کی خوشی میںمیں ایک انٹرنیشنل کانفرنس کاانعقادکرناچاہتاتھاجس میں امام مسجدنبوی اورعالم اسلام کے دیگرعلماوشیوخ کومدعوکرنے کاارادہ تھا۔ انسان بہت کمزورہے سوچتا بہت کچھ ہے لیکن بسااوقات ارادوںکو عملی جامہ پہنانہیں سکتااگرچہ ممکن ہے کہ کسی وقت ہم اس طرح کی کانفرنس کاانعقادکریں۔تاہم حافظ عبدالعظیم اسدنے ’’ہدایۃ لقاری‘‘کی تکمیل کی خوشی میںآج جوتقریب سجائی اوراس میں بڑے بڑے جیداورکبار علماکی آمدوموجودگی کا جوگلدستہ سجایا یہ میرے لئے اعزازبھی ہے اور ازحد خوشی ومسرت کا باعث بھی۔یہ اللہ کاخاص فضل وکرم ہے کہ اس نے اصحاب علم وفضل کے دلوں میں میری محبت، حافظ عبدالعظیم اسد اور دارالسلام کی محبت ڈال دی ہے۔

تقریب سے عظیم مذہبی سکالرپروفیسرمحمدیحیٰ، استاذ الاساتذہ حافظ محمدشریف،شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی شیخ الحدیث حافظ عبدالسلام بن محمد،عبدالمالک مجاہد شیخ الحدیث مولانامحمدرمضان سلفی مولاناعتیق اللہ سلفی چوہدری یسینٰ ظفر مولانا الیاس اثری، پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی، پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن،استاذالعلماء حافظ مسعودعالم،محقق دوراں مولاناارشادالحق اثری ڈاکٹرمحمد زبیر ڈائریکٹرالہدی انٹرنیشنل الشیخ عارف جاویدمحمدی، حافظ اسعدمحمودسلفی، اور دیگر جید علما نے بھی خطاب کیا۔ علما کاکہناتھاکہ یہ فتنے کادورہے لہذا قرآن وحدیث کی دعوت وتعلیمات کوزیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔ ہدایۃ القاری شرح صحیح بخاری اتنی عمدہ ،بلندپایہ کتاب ہے کہ ہرگھر،مسجداورلائبریری میں اس کا موجودہونا ضروری ہے تاکہ روزانہ اس میں ایک یادواحادیث پڑھ کر سنائی جائیں،اس سے ایک توقرآن وحدیث کی تعلیمات عام ہوں گی اوردوسرایہ کہ جہالت وفتنے کاخاتمہ ہوگا۔

۔۔۔

بچے رمضان کیسے گزاریں ؟

پیارے بچو ! رمضان المبارک اللہ تعالی کی طرف سے انتہائی برکتوں بھرا مہینہ ہے اس مبارک ماہ میں ہر مسلمان چھوٹے چاہے بڑے کو خوب نیکیاں کمانے کا موقعہ ہے اسی بنا پر اسے نیکیوں کا مہینا بھی کہا جاتا ہے۔تو ہميں چاہیے کہ اس ماۂ مبارک کو غنیمت سمجھتے ہوئے  خوب نیکیاں کمائيں اور بچپن سے ہی اپنے اندر نیکیوں کی عادت ڈالیںروزہ اللہ عزوجل کے ہاں محبوب ترین عمل ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :

 الصِّيَامُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا .

روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا زياده ہے۔ (صحیح بخاری)

تو پیارے بچو ! ہمیں چاہیے کہ ہم بھی بچپن کی عمر میں ہی روزہ رکھنا شروع کریں اور اللہ تعالی کی قربت حاصل کریں اور اپنے اندر اس نیک و مبارک عمل کی عادت ڈالیں جیسا کہ صحابہ کرام کے بچے کیا کرتے تھےسیدنا ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عاشورہ کی صبح کو انصارکی اس بستی کی طرف جو مدینہ منورہ کے اردگرد تھی یہ پیغام بھجوایا کہ جس آدمی نے صبح کوروزہ رکھا تو وہ اپنے روزے کو پورا کرے اور جس نے صبح کو افطار کیا ہو تو اسے چاہیے کہ باقی دن روزہ پورا کرلے اس کے بعد ہم روزہ رکھتے تھے اور ہم اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم انہیں مسجد کی طرف لے جاتے اور ہم ان کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے اور جب ان بچوں میں سے کوئی کھانے کی وجہ سے روتاتو ہم انہیں وہ گڑیا دے دیتے تاکہ وہ افطاری تک اس کے ساتھ کھیلتا رہے ۔ (صحيح مسلم:2670)

مذکورہ روایت سے آپ کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جب تھکاوٹ وغیرہ ہو یا بھوک محسوس کرنے لگو تو جائز کھیلوں کے ذریعے کھیل کر اپنی بھوک اور تھکاوٹ بھلاؤ حتی کہ افطار کا وقت ہوجائے یہ تھکاوٹ تقریباً دوپہر کے بعد محسوس ہونے لگتی ہے تو اس وقت نہا لیا کرو یا اپنے جسم پر ٹھنڈا پانی بہاؤ یا بھیگا ہوا کپڑا رکھ لو جس سے پیاس بجھ جائے اور عصر کے بعد کا وقت تلاوت میں بسر کریں اس وقت فرشتوں کا نزول ہوتا ہے باقی جو تھوڑا وقت بچے اس کو جائز کھیل میں صرف کردیں تاکہ بھوک اور تھکاوٹ بالکل محسوس نہ ہو ۔والدين کے ساتھ سحر افطار اور دیگر نمازوں میں بھی پابندی کے ساتھ مسجد جائیں قرآن مجید کی تلاوت کریں اوراپنے والدین ، رشتہ داروں ، دوستوں اور دیگر مسلمانوں کےلیے بھی دعائیں کریں ، اللہ تعالی سے استغفار کریں ، کثرت سے اللہ عزوجل کا ذکر کریں ، اگر قرآن پڑھنا نہیں آتا تو مسجد کے قاری صاحب سے قرآن پڑھنا سیکھیں روز تھوڑا تھوڑا سبق لیں تیس دنوں کے قرآن کورس کی سعادت حاصل کریں وقت کو غنیمت سمجھیں فجر سے ليکر سورج طلوع ہونے تک مسجد میں اللہ تعالی کے ذکر اور قرآن مجيد کی تلاوت میں مصروف رہیںصدقہ فطر بچوں پر بھی فرض ہے جیسا کہ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :

 فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ  (صحيح بخاري:1512)

 رسول اللہ ﷺنے ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر ، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔یہ صدقہ فطر آپکی طرف سے آپ کے والدین دیتے ہونگے ان سے لیکر اپنے ہاتھوں سے دیا کریں تاکہ آپ کے معصومانہ ذہن میں اس نیک عمل کی عادت پیدا ہوسکے۔

خلاصہ

پورے مضمون کا خلاصہ یوں سمجھیں کہ اس بابرکت ماہ میں درج ذیل نیک اعمال کی پابندی کرناضروری ہے۔

1روزه رکھنا جو انتہائی بڑے اجر کا باعث ہے۔

2صدقہ فطر کی ادائيگی اپنے ہاتھوں سے ادا کرنا۔

3والدین کے ساتھ مسجد جانا۔

4قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔

5نمازوں کی پابندی کرنا۔

6توبہ و استغفار کرنا۔

7اپنے اور دوسروں کےلیے کثرت سے دعائيں کرنا۔

8کثرت سے ذکر کرنا۔

9کثرت سے نوافل پڑھنا۔

0کوشش کرکے تراویح پابندی سے ادا کرنا۔

صحن جامعہ میں منعقد ہونے والی فقید المثال تقریب تکمیل صحیح بخاری کی روداد

مدارس اسلامیہ معاشرے کی اصلاح میں مقدور بھر کوششوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے نمایاں خدو خال نظر آرہے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ کے فارغ التحصیل علمائے کرام عامۃ الناس کی رہنمائی کے لئے مسلسل سعی و جدو جہد میں مصروف کار ہیں۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا شمار ملک عزیز پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ ارض کی ممتاز ترین اسلامی جامعات میں ہوتا ہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ہر سال فارغ التحصیل علمائے کرام کے اعزاز میں تقریبا34  سال سے پر وقار تقریب کا اہتمام کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ22 اپریل 2018بروزاتوار  کو صحنِ جامعہ میں منعقد ہونے والی فقید المثال تقریب تکمیل صحیح البخاری بھی تھی۔ اس تقریب کی صدارت حضرت الامیر ڈاکٹرمحمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ کی نیابت کرتے ہوئے سرپرست مولا نا محمد عائش حفظہ اللہ نے فرمائی۔ پروگرام کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

اس عظیم الشان تقریب کی پہلی نشست میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض فضیلۃ الشیخ ابو زبیر محمد حسین رشید حفظہ اللہ استاذجامعہ ابی بکر الاسلامیہ نے بخوبی انجام دئیے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز بعد از نمازِ عصر قاری حبیب اللہ عمر  (طالب علم معہدالثانی ) کی تلاوت سے ہوا، تلاوت کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے طالب محمد انور سرور نے حمد باری تعالیٰ پیش کی ۔

توحید کے انفرادی و اجتماعی اثرات کے موضوع پرعربی زبان میںمعہد الرابع کے طالب علم مطیع الرحمن نے  اپنے مخصوص انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ توحید سے انسان کے اندر خشیت الٰہی، انابت الی اللہ، ہمدردی، خیرخواہی اور عبادت میں لذت و احسان جیسی صفاتِ حمیدہ پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ اجتماعی طور پر بھی توحید کے گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ توحید کی معرفت سے ہی کسی معاشرے سے ظلم و جور، زیادتی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد خطاب کے لئے ترجمان اہلحدیث فضیلۃ الشیخ قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی، جن کا موضوع ’’ علم دین کی اہمیت اور دینی مدارس کا کردار‘‘انہوں نے خطبہ مسنونہ کے بعد حاضرین مجلس کو خصوصی پندو نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعات دراصل مکہ میں رسول کریم ﷺ کی قائم کردہ اسلام کی پہلی درسگاہ دارارقم اور مدینہ میں اصحاب صفہ کا تسلسل ہے ۔ انہوں نے علم سے منسلک لوگوں کو خصوصی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علم سے منسلک افراد اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔

گناہ قوموں کے لئے باعث ہلاکت ہیں، نیکی کے سلسلہ کو روکنے کا ارادہ کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ معیشت کو تباہ کردیتا ہے۔

اپنے آپ کو علم کے لئے وقف کردیں حیات مستعار کے  ایک ایک لمحے کو اس علم پر خرچ کریں۔ اور شیخ صاحب کے خطاب کے کے دوران آذان مغرب کا وقت ہوگیا اور اس طرح اس پر وقار تقریب کی پہلی نشست مکمل ہوئی۔

دوسری نشست:

اس فقید المثال پروگرام کی دوسری نشست کا آغاز نمازِ مغرب کے فوراً بعدہوا۔ نقیب محفل فضیلۃ الشیخ ابواسامہ محمد طاہر آصف صاحب استاد جامعہ ابی بکر وچیئر مین مجلس ادارت مجلہ اسوہ حسنہ نے اپنے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ سامعین کی علمی پیاس کو سیراب کیا۔ تلاوت کلام حمید کی سعادت عبد الرحمن بن عبد الرؤف نے حاصل کی اور انکے بعد جامعہ کے امسال فارغ ہونے والے طلباء احساسات و جذبات کے اظہار کے لئے خالد ظہیر کو دعوت سخن دی گئی، انہوں نے اپنے طلباء ساتھیوں کی طرف سے اساتذہ جامعہ، انتظامیہ جامعہ اور محسنین جامعہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔

کلمۃ ابناء الجامعہ کےلیے جامعہ کے ہونہار سابق طالب علم محترم جناب امجد سہیل صاحب کو دعوت خطاب دیا گیا، جس میں انہوں نے جامعہ کے بارےمیں اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کیا ،انکے بعدجامعہ کے استادفضیلۃ الشیخ عبد المجید حفظہ اللہ کو دعوت خطاب دیا گیا ان کا موضوع سخن تھا ’’پاکستان کے قیام واستحکام میں علماء اہلحدیث کامثالی و تاریخی کردار‘‘اس موضوع پر انہوںنے سیر حاصل گفتگو کی انکے بعد صحیح البخاری کی  آخری حدیث پر عالمانہ، فاضلانہ درس محدث عصر،فخرسلفیت ، متکلم اسلام فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین یعقوب حفظہ اللہ (دار العلوم تقویۃ الایمان اوڈانوالہ،فیصل آباد ) نے ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:

بعد حمد و ثناء امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب کا نام الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ و سننہ و ایامہ رکھا۔ یہ کتاب عظیم جامع ہے ، جامع کا مطلب یہ ہے اس کتاب میں زندگی کے جملہ معاملات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔

 الصحیحکا مطلب ہے کہ اس کے رواۃ ضابط، حافظ ہیں اس کی اسناد متصل ہیں جبکہ کتاب کی کسی بھی حدیث میں شذوذ یا علت خفی یا ظاہری کا وجود نہیں ہے۔

المسند: یعنی یہ کتاب با سند ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دو راویوں کے درمیان امکان لقاء کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ ثبوت لقاء کی شرط عائد کی اور پھر اپنی کتاب میں شروع تا آخر اس شرط کو پورا بھی کیا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا آغار کتاب الوحی سے کیا کیونکہ وحی ہی انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے اور پھر کتاب التوحید سب سے آخر میں لائے ہیں اس لئے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی وحی کی روشنی میں توحید کے تقاضے پورے کرنے میں بسر کرنی چاہئے اور رسول معظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ’’جس خوش نصیب نے مرتے وقت تک کلمہ توحید سے اپنا تعلق قائم رکھا وہ جنت میں ضرور جائے گا۔ ‘‘وحی کا اطلاق سنت رسول پر بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ   (النساء163)

سیدنا نوح علیہ السلام کی جانب کی جانے والی وحی سنت تھی، کیونکہ نوح علیہ السلام کو صحیفہ یاکتاب عطا نہیں کی گئی۔

صحیح بخاری میں مولف نے کتاب التوحید کے ذریعے توحید اسماء و صفات کے منکر ین کا رد فرمایا ہے، اہل السنۃ و الجماعۃ صفات و اسماء کے معاملے میں عدل و انصاف کا موقف رکھتے ہیں ہماری توحید

 قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

اہل السنۃ کی توحید فلاسفہ، جہمیہ، معتزلہ کی طرح الفاظ کا ہیر پھیر نہیں ہے۔

اہل السنۃ والجماعۃ عقیدہ توحید میں تشبیہ نہیںبلکہ تسلیم کے قائل ہیں۔ کیونکہ سلف صالحین نے صراحت کے ساتھ فرمایا: ’’اسلام کے قدم تسلیم و رضا پر ہی ثابت رہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح شرح السنۃ میںکہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تصدیق کرنے والا اور سر تسلیم خم کرنے والا نہ ہو۔ توحید اسماء و صفات کے اثبات میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التوحید میں جہمیہ معتزلہ، مشبہ اور اپنے زمانے کے دیگر گمراہ کن فتنوں کا علمی رد کیا ہے۔ یاد رکھئے کہ جہم کا سلسلہ نسب لبید بن عاصم یہودی سے ملتا ہے۔

قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے ہمیںکچھ ایسے اعمال کا علم ہوتا ہےجو کہ روزِ قیامت ترازو میں وزنی ہونگے۔ جیسا حدیث بطاقہ، جس میں کلمہ توحید کو ایک ترازو کے پلڑے میں جبکہ آسمان و زمین کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر وزن کے متعلق ذکر ہے۔ اور ایک فرمان میں آپ ﷺ نے حسن خلق کو میزان کی سب سے وزنی چیز قرار دیا ہے۔ ایک اور فرمان میں آپ ﷺ نے پانچ چیزوں کو میزان میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا ہے1 لا الہ الا اللہ2 اللہ اکبر3سبحان اللہ4 الحمد للہ5نیک اولاد جس کی وفات پر اس کے والدین صبر کریں۔

ایک اور مقام پر سيدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاموشی اور حسن اخلاق کو بھی میزان میں وزنی اعمال قرار دیا ہے۔

صحیح بخاری کی آخری حدیث مبارکہ میں سبحان اللہ کا ذکر بھی ہے دیگر احادیث میں بھی تسبیح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

آخر میںطلبہ کو نصیحت فرماتے ہوئے گو پا ہوئے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ عالم اور مفتی بن گئے ہو اور فتوی بازی شروع کردو بلکہ آپ کو تو علم کی صرف چابی ملی ہے جس سے علم کا دروازہ کھول سکتے ہو اصل علم تو ابھی حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے اہل علم کی مجالس اور مطالعہ کتب کو لازم اختیار کیا جائے ۔

درس بخاری شریف کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نائب مدیر محترم الشیخ ضیاء الرحمن المدنی نے کلمہ استقبالیہ میں معزز مہمانان گرامی قدر، قابل قدر علمائے کرام اور حاضرین مجلس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا انہوں نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں جاری دعوتی، علمی اور اصلاحی  سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ اسی طرح جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ذیلی شاخیں مثلا جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات ماڈل کالونی، حرمین کمپلیکس سپر ہائی وے، ابوبکر اکیڈمی نیو کراچی، مجلہ اسوئہ حسنہ ، مرکز الترجمۃ والتحقیق للاقتصاد الاسلامی ، الافتاء ،داعی اسلام کورس وغیرہ پروگرامز کا اجمالاًتذکرہ کیا اور جامعہ ابی بکر گلستان جوہر میں ایک پلاٹ خریدنے کا خواہاں ہے جس میں اسلامک اسکول تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہےاس پلاٹ کی لاگت ایک کروڑ تک ہے اس کارخیر میں بعض محسنین نے مالی تعاون بھی کیا ہے مزید اہل خیر وثروت سے اپیل کی کہ نیکی کے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس میں تسلسل قائم رکھنا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس علمی امانت کی ترقی و ترویج کے لئے ہمارے شانہ بشانہ چلیں آخر میں انہوں نے ایک بار پھر معززین کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔

آخر وہ گھڑی آن پہنچی جسکا ہر طالب علم کو انتظار تھا اوروہ اعلان نتائج کا مرحلہ تھا ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے تعلیمی سیشن کے خاتمہ پر منعقد ہونے والے امتحانات کا رزلٹ ڈاکٹر فضیلۃ الشیخ افتخار احمد شاہد حفظہ اللہ (مدیر الامتحانات) نے پیش کیا۔

نصابی اور اہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبائے کرام کو بیش قیمت انعامات سے نوازا گیا، یاد رہےیہ انعامات فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین یعقوب ، فضیلۃ الشیخ افضل سردار ،فضیلۃ الشیخ ابراہیم طارق ،فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عائش ، فضیلۃ الشیخ داؤد شاکر اور مدیر مالیات محترم انس محمد اور بعض محسنین حفظہم اللہ کے دست مبارک سے تقسیم کئے گئے تھے ۔ آخر میں صدارتی کلمات کے لئے حضرت الامیر محترم جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب حفظہ اللہ کی نیابت کرتے ہوئے سرپرست جامعہ مولانا محمد عائش صاحب کو دعوت دی گئی انہوں نے اس شاندار پروگرام کی ترتیب پر اساتذہ و طلباء جامعہ کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے حاضرین مجلس کو بالعموم اور طالب علوم نبوت کو بالخصوص قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کا معتمدبہ حصہ زبانی حفظ کرنے کی نصیحت کی۔

 مولانا صاحب کے صدارتی کلمات کے ساتھ ہی یہ روح پرور تقریب اختتام پذیر ہوئی، نمازِ عشاء کے بعد حاضرین مجلس کے لئے پر تکلف عشائیے کا اہتمام بھی تھا، یوں حاضرین مجلس لذت کام و دھن سے سرشار ہوکر اس تقریب کی خوش گوار یادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوئے۔

۔۔۔

وزارت مذہبی امور کی جانب سے شائع کردہ (کیلنڈر نظام اوقات نماز) پر تبصرہ

تقریباً دو سال پہلے وزارتِ مذہبی اُمور کی طرف سے اسلام آباد میں موجود مساجد کے لیے اوقاتِ نماز کے تعین کا اعلان کیا گیا۔ اتحادِ اُمت کے تناظر میں بظاہر یہ خوش کن امر ہے لیکن حقیقت میں اپنے اندر بہت سی خرابیاں لیے ہوئے تھا۔ ایسی خرابیاں جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف بھی تھیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی شدید ضرر رساں۔کچھ عرصے کے لیے یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا، لیکن اب وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور نے دوبارہ اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزارتِ مذہبی اُمور اب اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کے لیے کارروائی کر رہی ہے اور ان کے اعلانات کے مطابق بل کی تیاری میں مصروف ہے۔جو منظوری کے بعد باقاعدہ قانون بن جائے گا۔ زیر نظر مضمون میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی dنے اس معاملے کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا ہے۔ قارئین کرام کی آگاہی کے لیے وہ مضمون پیش کیا جا رہا ہے۔ (ابوبکر قدوسی)

1 [کیلنڈر نظام اوقات] سے دین میں دخل اندازی اور شرعی بات سے روکنا:

اس [کیلنڈر نظام اوقات] میں دین میں دخل اندازی اور اس بات سے روکنا ہے، جس کی شرعی حیثیت جناب رسول کریم e نے اپنے قول و عمل سے امت کے لیے بیان فرمائی۔

اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی غرض سے ذیل میں دو مثالیں ملاحظہ فرمایئے:

ا: کیلنڈر میں اذان عصر کا وقت [5 جولائی سے 18 جولائی تک] 5 بج کر 14 منٹ ہے۔ [اور یہ وہ وقت ہے، جب اسلام آباد میں ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوتا ہے۔]

نبی کریمeکی سنت طیبہ سے ثابت ہے، کہ اذان عصر کا وقت [ہر چیز کا سایہ ایک مثل] کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے اور اسلام آباد میں [5 جولائی سے 18 جولائی تک] اس وقت کا آغاز 3 بج کر 57 منٹ پر ہو جاتا ہے۔ اب [3:57] سے [5:14] کے درمیانی وقت 1 گھنٹہ 17 منٹ میں عصر کی اذان دینا اس کیلنڈر کے قانونی شکل اختیار کرنے کی صورت میں خلاف قانون ہو گا اور خلاف قانون کام کا ارتکاب کرنے والا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ سزا… سرزنش یا جرمانہ یا قید یا تینوں سزاؤں کا… مستحق قرار پائے گا۔

جس کام کا آغاز نبی کریمeکے زمانہ مبارک سے ہوا، وہ خیرالقرون سے ہوتے ہوئے، صدیوں میں جاری و ساری رہتے ہوئے، پندرھویں صدی کے اڑتیسویں سال [1438ھ] میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین میں جرم بن جائے۔ اور یہ وہی سنت نبویe، جس پر آج بھی دنیا بھر میں اہل حدیث مساجد میں توفیق الٰہی سے عمل ہو رہا ہے۔ کیا اس قسم کے کیلنڈر اوقات نماز کو نافذ کرنا درست ہو سکتا ہے؟

دو شبہات کا ازالہ:

1کسی کو یہ مغالطہ نہ رہے، کہ اس نظام اوقات کے قانون بن جانے کے باوجود، مقرر کردہ اوقات سے پہلے اذان کہنے سے روکا نہ جائے گا۔ جس وقت کسی مسلک والے اذان دینا چاہیں گے، ان پر کسی قسم کی پابندی نہ ہوگی۔

یہ کہنا درست نہیں، کیونکہ اگر اذان کے اوقات میں یہ اختیار باقی رہنا ہے، تو پھر اس [کیلنڈر اوقات نماز] کو قانونی شکل دینے کی کیا حکمت ہے؟ ایسی صورت حال تو قانون بنائے بغیر پہلے ہی سے موجود ہے۔

2 کوئی شخص اس غلطی فہمی کا بھی شکار نہ ہو، کہ اذان عصر تاخیر سے دینا بھی تو جائز ہے، لہٰذا اسے قانونی شکل دینے میں کیا قباحت ہے؟

اصل بات یہ ہے، شدید ترین خرابی اور سنگین ترین قباحت مقرر کردہ وقت سے پہلے ثابت شدہ وقت میں اذان عصر دینے کی ممانعت میں ہے۔

کیا یہ مداخلت فی الدین نہیں؟ کیا یہ شریعت اسلامیہ اور امت اسلامیہ میں تواتر سے ثابت شدہ جائز کام کو ناجائز قرار دینا نہیں؟

کیا اس صورت حال پر حسب ذیل آیت شریفہ صادق آنے کا خدشہ نہیں؟

اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ (الشوریٰ: 21)

’’یا ان ہی کے لیے ایسے شریک ہیں، جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘

ب: [کیلنڈر اوقات نماز] میں [یکم جنوری سے 31 دسمبر تک]اذانِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب سے پانچ منٹ بعد رکھا گیا ہے۔

اس کے برعکس سنت طیبہ سے اذانِ مغرب کے وقت کا آغاز غروبِ آفتاب ہے۔

امام مسلم نے سیدنا سلمہ بن اکوعtسے روایت کیا ہے، کہ [انھوں نے کہا]

’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِe یُصَلِّی الْمَغْرِبَ اِذَا غَرَبَتِ الشَمْسُ وَتَوَارتْ بِالْحِجَابَ۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، رقم الحدیث 216۔ [636]، 441/1)

’’بے شک نبی کریمeسورج غروب ہو جانے، چھپ جانے کے وقت مغرب پڑھتے۔‘‘

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ اِذَا غَرَبَتِ الشَمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَاب۔‘‘ (شرح النووی: 136135/5)

’’دونوں الفاظ ہم معنی ہیں اور ایک دوسرے کی تفسیر ہے۔‘‘

علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’وَتَوَارتْ بِالْحَجَاب ’’یعنی چھپ جاتا، یہ غَرَبَتِ الشَمْسُ کی تفسیر اور تاکید ہے۔‘‘(فتح الملھم: 362/4)

امام مسلم نے سیدنا رافع بن خدیجtسے روایت کیا ہے، کہ انھوں نے فرمایا:

کُنَّا نُصَلِّی الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم، فَیَنْصَرِفُ أَحَدُنَا، وَاِنَّہٗ لَیُبْصِرُمَوَاقِعَ نَبْلِہِ۔(صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، رقم الحدیث: 217، (637)، 441/1)

’’ہم رسول اللہ eکے ساتھ مغرب پڑھتے، تو ہم میں سے ایک [مسجد سے] لوٹتا، تو وہ اپنے نیزے کے گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا۔‘‘

علامہ نووی رحمہ اللہ شرح حدیث میں لکھتے ہیں:

’’اس کا معنی یہ ہے، کہ وہ سورج غروب ہوتے ہی اس کے اول وقت میں اسے ادا کرنے میں جلدی کرتے۔‘‘

پھر علامہ دونوں حدیثوں کے متعلق رقم طراز ہیں:ـ

وَفِیْ ھَذَیْنِ الْحَدِیْثَیْنِ أَنَّ الْمَغْرِبَ تُعَجَّلُ عَقِبَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ، وَھٰذَا مُجْمَعٌ عَلَیْہِ وَقَدْ حُکِیَ عَنِ الشِّیْعَۃِ فِیْہِ شَیْئٌ لَا اِلْتِفَاتَ اِلَیْہِ، وَلَا أَصْلَ لَہٗ (شرح النووی: 136/5)

’’ان دونوں حدیثوں میں ہے، کہ بے شک مغرب سورج کے غروب ہوتے ہی جلدی ادا کی جاتی ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اس بارے میں شیعہ سے کچھ چیز حکایت کی گئی ہے، [لیکن] وہ نہ تو قابل توجہ ہے اور نہ اس کی کوئی اساس ہے۔‘‘

علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے قلم بند کیا ہے:

قولہ: ’’اِذا غَرَبَتِ الشَمْسُ‘‘: أَیْ سَاعَۃَ تَغَرُبُ، وَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی تَأَھُّبِہٖ قَبْلَ وَقْتِھَا، وَمُراقَبَۃِ وَقْتِھَا (الفہم: 263/2)

’’آنحضرتe کا ارشاد: اِذا غَرَبَتِ الشَمْسُ ’’یعنی غروب ہوتے ہی‘‘ یہ آنحضرتeکے اس کے وقت [داخل ہونے] سے پیشتر [ہی] اس کے لیے تیار ہو جانے اور اس کے وقت کا خیال رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘

ضروری تنبیہ:

اگر یہ کہا جائے، کہ غروب آفتاب کے پانچ منٹ بعد اذان دینا ممنوع نہیں، جائز ہے۔ تو عرض کیا جائے اس مقام پر قابل توجہ بات یہ ہے، کہ غروب آفتاب سے لے کر اس کے چار منٹ بعد تک مجوزہ کیلنڈر اوقات کے مطابق، اذان مغرب دینا ممنوع، جرم اور موجب سزا ہو گا۔تو کیا مزعومہ اتفاق و اتحاد کے نام پر سنت نبوی سے ثابت، بلکہ افضل واعلیٰ بات کو جرم اور موجبِ سزا ہونے پر موافقت کی جائے گی؟

2مسنون اوقات نماز اور حکومتی کیلنڈر کے اوقات میں بعض اوقات بہت زیادہ فرق ہونا:

سنت نبویeاور کیلنڈر اوقات نماز میں فرق کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ فرق بہت معمولی اور قلیل ہے۔

بسا اوقات دونوں میں نمازِ عصر کے اوقات میں فرق نہایت زیادہ ہے۔ ذیل میں ایک مثال ملاحظہ فرمایئے:

کیلنڈر اوقات نماز کے مطابق

25 جون سے 4 جولائی تک

اذانِ عصر کا وقت

5:13

5 جولائی سے 19 جولائی تک

اذانِ عصر کا وقت

5:14

سنت کے مطابق

25 جون سے 27 جون تک

اذان عصر کا وقت

3:55

28 جون سے 3 جولائی تک

اذان عصر کا وقت

3:56

4 جولائی سے 9 جولائی تک

اذان عصر کا وقت

3:57

11 جولائی سے 18 جولائی تک

اذان عصر کا وقت

3:58

دونوں قسم کے نماز اوقات میں فرق 1 گھنٹہ 16 منٹ، 1 گھنٹہ 17 منٹ اور 1 گھنٹہ 18 منٹ تک ہے۔

کیا ایک ہی نماز کے اوقات میں ایک گھنٹے سے زیادہ فرق معمولی اور قلیل ہے؟

3  نظام اوقات کے وقت عصر کا محقق علمائے احناف کے ہاں بھی ثابت نہ ہونا:

مجوزہ نظام اوقات سے نماز عصر کے لیے اس وقت کو بزورقانون و قوت جاری کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، جس کا راجح ہونا محقق علمائے احناف کے ہاں بھی ثابت نہیں۔

اس حوالے سے ذیل میں تین شواہد ملاحظہ فرمایئے:

امام محمدرحمہ اللہ نے بیان کیا:

’’ وَأَمَّا فِیْ قَوْلِنَا: فَاِنَّا نَقُوْلُ: اِذَا زَادَ الْفَیْء عَلی الْمِثْل، فَصَارَ مِثْلَ الشَّیْئِ وَزِیَادَۃً مِنْ حِیْن زَالَتِ الشَمْسُ، فَقَدْ دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ۔ وَأَمَّا أَبُوْ حَنِیْفَۃَ فَاِنَّہٗ قَالَ: ’’لا یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ حَتّٰی بَصِیْر الظِّلُّ مِثْلَیْہِ۔‘‘ (الموطا للامام محمد، کتاب الصلاۃ، ص:4443۔ (ط: وزارۃالتعلیم الفیدر الیہ اسلام آباد)

’’جہاں تک ہمارے قول کا تعلق ہے، تو بے شک ہم کہتے ہیں: ’’جب سایہ ایک مثل ہو جائے، [یعنی] جب سورج کے زوال کے وقت سے سایہ، چیز اور اس سے کچھ زیادہ ہو جائے، تو عصر کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ جہاں تک [امام] ابوحنیفہ کا تعلق ہے، تو بے شک انھوں نے کہا: ’’عصر کا وقت سایہ کے دو مثل ہونے تک نہیں ہوتا۔‘‘

ii: ہدایہ میںہے:

وَآخِرُوَقْتِھَا عِنْدَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ۔رحمہ اللّٰہ تعالٰی ۔ اِذَا صَارَ ظِلُّ کُلِّ شَیْئٍ مِثْلَیْہِ سِوَیَ فِیْ ئَ الزَّاوَلِ۔وَقَالَا: ’’اذَا صَارَ الظِّلُّ مِثْلَہٗ، وَھُوَ رِوَایَۃٌ عِنْدَ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ ۔ رَحِمَہُ اللّٰہ تَعَالیٰ۔(الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب المواقیت، المجلد الأوّل، : 135/1۔ (ط: البشری کراتشي)

’’اور [امام] ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس [نماز ظہر] کا آخری وقت زوال کے سائے کے علاوہ ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے۔ اور ان دونوں نے کہا: [اس کا آخری وقت] سائے کے ایک مثل ہونے تک ہے اور وہ [امام] ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے [بھی] ایک روایت ہے۔‘‘

٭…یعنی قاضی ابو یوسف اور امام محمدرحمہما اللہ نے۔

ب: علامہ محمد عبدالحي لکھنوی رحمہما اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:

وَالْإنْصَافُ فِيْ ھٰذَا الْمُقَامِ أَنَّ أحَادِیْثَ الْمِثْل صَرِیْحَۃٌ صَحِیْحَۃٌ، وَأَخْبَارُ الْمِثْلَیْنِ لَیْسَتْ صَرِیْحَۃً فِيْ أَنَّہٗ لَا یَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ إِلَی الْمِثْلَیْنِ (التعلیق الممجد علی مؤطا الإمام محمد ، ص: 44)

’’اس مقام پر انصاف یہ ہے ، کہ بے شک مثل والی احادیث صریح اور صحیح ہیں۔ مثلین والی احادیث اس بارے میں صراحت نہیں کرتی، کہ عصر کا وقت مثلین ہونے تک نہیں ہوتا۔‘‘

ج: شیخ محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں:

’’مثلین یعنی ظہر کا وقت ختم ہونے کے سلسلے میں عموماً احناف کی طرف سے تین دلیلیں پیش کی جاتی ہیں، لیکن انصاف کی بات یہ ہے، کہ ان میں کوئی حدیث بھی اوقات کی تحدید پر صریح نہیں۔ اس کے برخلاف حدیث جبریل میں بصراحت پہلے دن عصر کی نماز مثل اول میں پڑھنے کا ذکر موجود ہے اس لیے یہ حدیثیں حدیث جبریل کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے بعض حنفیہ نے مثل اول والی روایت کو لیا ہے۔ کما فی درَّمختار۔‘‘ (درس ترمذی، مکتبہ دارالعلوم کورنگی کراچی، الطباعۃ 1983)

سبحان اللہ! حضرات حنفیہ کے بعض کبار محقق ائمہ وعلماء کے نزدیک غیر راحج رائے کو قانونی شکل دی جائے اور نبی کریمeکے مبارک عہد سے لے کر امت کے ایک طبقے کے ہاں آج تک موجود جاری و ساری سنت کو خلاف قانون قرار دیا جائے؟

4 نماز عصر کے مقرر کردہ وقت کا نماز ظہر کے ضائع ہونے کا سبب ہونا:

اوقات نماز کا مجوزہ کیلنڈر نماز ظہر کے ضائع ہونے کا سبب بنے گا۔ سمجھنے سمجھانے میں آسانی کی غرض سے حسب ذیل مثال پر غور فرمائے:

25 جون سے 4 جولائی تک:ان دنوں میں ظہر کے وقت کی انتہا 3بج کر 55 منٹ اور 3بج کر56 منٹ ہے، کیونکہ ان دنوں میں ہر چیز کا سایہ اسلام آباد میں، اس کے برابر، اسی وقت ہوتا ہے۔

مجوزہ کیلنڈر میں وقت ظہر کی انتہا 5بج کر 13 منٹ ہے، جب کہ ہر چیز کا سایہ دو مثل کے برابر ہوتا ہے۔ دونوں اوقات میں فرق 1 گھنٹہ 16 منٹ یا 1 گھنٹہ 17 منٹ ہے۔

اب اہل حدیث حضرات و خواتین میں سے جو لوگ اس درمیانی وقت میں نماز ظہر پڑھیں گے، تو وہ ادا ہو گی یا قضا؟

کون شخص اپنے اندر ان سب لوگوں کے نماز ظہر کو فوت کروانے کا بوجھ اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ پاتا ہے؟

5 افطاری کے لیے اذان کی ممانعت اور سائرن کا بجنا:

نبی کریمeنے فرمایا:

اذَا أَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ ھَہُنَا، وَأَدْبَرَ النَّہَارُ مِنْ ھٰھُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّآئِمَ(متفق علیہ)

’’جب ادھر سے رات آئے اور ادھر سے دن چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے، تو روزے دار نے [روزہ] افطار کر لیا [یعنی اس کے لیے افطاری کا وقت ہو گیا۔‘‘

عہد نبویe سے لے کر آج تک روئے زمین پر اہل اسلام کی مساجد میں غروب آفتاب کے وقت نماز مغرب کی اذان کے ساتھ افطاری کی جاتی ہے۔ اب مجوزہ اوقات نماز کے کیلنڈر کے مطابق اس وقت اذان دینا خلاف قانون قرار پائے گا۔ اور اس کی جگہ سائرن بجایا جائے گا۔ اذان دینے کی اجازت پانچ منٹ بعد ہوگی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی شعائر میں سے ایک کو مٹانے کی یہ تجویز!!!

’’اتفاق و اتحاد‘‘ کے نام پر خیرالقرون سے اب تک جاری و ساری خیر کو مٹا کر ایک غیر اسلامی طریقہ اختیار کیا جائے! کیا آیت شریفہ:اَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ اسی پر صادق نہیں آتی؟ (سورۃ البقرۃ: 61)

’’کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے، اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو، جو بہتر ہے؟‘‘

کیا یہ طرز عمل وہی نہیں، جسے ہمارے نبی کریمe نے ’’مردود‘‘ قرار دیا ہے؟

مَنْ أَحَدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ھٰذا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ (متفق علیہ)

’’جس نے ہمارے اس معاملے [یعنی دین] میں وہ نئی بات کی، جو اس میں نہیں، وہ مردود ہے۔‘‘

ایک شبہ کا ازالہ:

یہ نہ کہا جائے، ہمارا مقصود امت کی وحدت اور یکجہتی ہے، کیونکہ ’’اَلْغَایۃُ النَّبِیْلَۃُ لَا تُسَوِغُ ارْتِکَابَ الْمُحَرَّمَ‘‘  ’’نیک مقصد حرام کے ارتکاب کے لیے وجہ جواز نہیں بنتا۔‘‘

یہ عذر پیش کرنا بھی معقول نہیں، کہ: ’’ہماری نیت صرف خیر کی ہے۔‘‘

کیونکہ کسی کام کے درست قرار دینے کے لیے صرف [حسن نیت] کافی نہیں، اس کے ساتھ نہایت ضروری بات یہ بھی ہے، کہ وہ عمل اسلامی شریعت کے مخالف نہ ہو۔

کیا سیدناآدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل بری نیت سے کھایا تھا۔

انھوں نے اسے فرشتہ بننے اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خاطر کھایا، لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ ارشاد تعالیٰ سماعت فرمایئے:

فَاَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا  َوطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَامِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی

’’پس دونوں نے اس [ممنوعہ درخت] سے کھایا، تو دونوں کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ دونوں اپنے آپ پر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم(علیہ السلام)نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو وہ بھٹک گئے۔‘‘ (طہٰ: 121)

6 ایک وقت میں نماز وحدتِ امت کے لیے ذریعہ نہ شرط:

ایک وقت میں تمام مساجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے یہ استدلال کرنا، کہ اس سے وحدت امت ہو گی، محل نظر ہے۔ کیا کتاب و سنت میں کوئی آیت شریفہ یا حدیث شریف اس کی تائید کرتی ہے؟

وحدت امت کے لیے طریقہ و ذریعہ [کتاب و سنت کی طرف لوٹنا اور انھیں مضبوطی سے تھامنا] ہے۔ اس کے بغیر امت کا اتحاد و اتفاق ممکن نہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی  اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ  ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(النساء: 59)

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اہل اختیار کی ، پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو، تو اسے اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ وہ [یعنی ایسا کرنا] وہ بہت بہترہے اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘

کیا نبی کریمeنے اپنے زمانہ مبارک میں، جو کہ بلاشک و شبہ خیرالقرون تھا، اہل مدینہ کو تمام مدنی مساجد میں ایک ہی وقت پر نمازیں پڑھنے کا پابند کیا؟

کیا نبی کریمe نے مخصوص مقرر کردہ وقت سے آگے پیچھے نماز ادا کرنے کو خلاف قانون قرار دیا؟ کیا ان لوگوں کو کوئی سزا دی گئی، جن کے اوقاتِ نمازِ مسجد نبوی کے اوقات سے قدرے مختلف تھے؟

ایسی کوئی بات قطعی طور پر نہیں تھی، بلکہ اس کے برعکس قطعی نصوص کے ساتھ ثابت ہے۔ ذیل میں دو شواہد ملاحظہ فرمایئے:

ا: امام بخاری اور امام مسلم نے سیدناجابرt کے حوالے سے روایت کی ہے، کہ بے شک انھوں نے بیان کیا:

’’کَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَل رضي الله عنه یُصَلِّیْ مَعَ النَّبِیِّ e ثُمَّ یَأْتِیْ قَوْمَہٗ، فَیُصَلِّیْ بِہِمْ (متفق علیہ: مشکاۃ المصابیح، باب من صلی صلاۃ مرتین، الفصل الأول، رقم الحدیث 1150، [1]، 362/1)

’’سیدنا معاذ بن جبلt نبی کریمe کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اپنی قوم کے ہاں آتے اور انھیں نماز پڑھاتے تھے۔‘‘

ب: ایک شخص کا نبی کریمeکے ساتھ نماز عصر پڑھنا، پھر اس کا انصار کی ایک قوم کے پاس سے گزرنا، جو کہ نماز عصر ادا کرتے ہوئے رکوع کی حالت میں تھے۔(ملاحظہ ہو:جامع الترمذی [المطبوع مع تحفۃ الأحوذی]، أبواب تفسیر القرآن، سورۃ البقرۃ، رقم الحدیث: 240/8, 3142)

عہد نبویe کے بعد والے زمانے سے تین شواہد:

ا۔ امام ابن ابی شیبہ نے معاویہ بن قرہ سے روایت کیا، کہ

’’ کَانَ حُذَیْفَۃُ اِذَا فَاتَتْہُ الصَّلَاۃُ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِہٖ، یُعَلِّقُ نَعْلَیْہ، وَیَتْبَعُ الْمَسَاجِدَ، حَتّٰی یُصَلِّیْھَا فِیْ جَمَاعَۃٍ۔‘‘ (المصنف، کتاب الصلوات، الرجل تفوتہ الصلاۃ فی مسجد قومہ: 205/3)

’’سیدناحذیفہtکی جب اپنی قوم کی مسجدمیں [باجماعت] نماز رہ جاتی، تو وہ اپنے جوتے لٹکاتے اور [مختلف] مساجد [میں با جماعت نماز کی تلاش] میں نکلتے، یہاں تک کہ [کسی نہ کسی مسجد میں] جماعت کے ساتھ اسے ادا کر لیتے۔‘‘

ب: امام بخارم نے بیان کیا:

وَکَانَ الْأَسْوَدُ اِذَا فَاتَتْہُ الْجَمَاعَۃُ، ذَھَبَ اِلیٰ مَسْجِدٍ آخَرَ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ، 131/2)

’’اسودکی جب با جماعت [نماز] رہ جاتی، تو وہ دوسری مسجد میں جاتے۔‘‘

ج: امام عبدالرزاق نے ربیع بن ابی راشد سے روایت بیان کی، کہ بے شک انھوں نے کہا:

’’ رَأَیْتُ سَعِیْدَ بْنَ جُبَیْرٍ جَآءَنَا، وَقَدْ صَلَّیْنَا، فَسَمِعَ مُؤَذِّنًا، فَخَرَجَ لَہٗ (المصنف، کتاب الصلاۃ، باب الرجل ید خل المسجد، فیسمع الاقامۃ فی غیرہ، رقم الروایۃ، 1973، 515/1)

’’میں نے سعید بن جُبیرt کو دیکھا، [کہ] وہ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم نماز پڑھ چکے تھے، تو انھوں نے [ایک دوسری مسجد میں] موذن کو [اذان دیتے ہوئے] سنا، تو وہ اس کی جانب نکل گئے۔‘‘

7 مجوزہ نظام اوقات کا اسلام آباد کی اہل حدیث مساجد میں سبب اختلاف بننا:

نمازوں کے اوقات کے ایک ہونے کا وحدت امت کا ذریعہ نہ ہونے کی تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ اس کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر میں اتحاد کی بجائے، خود اہل حدیث مساجد میں اختلاف پیدا ہوا۔

2016ء میں وزارت مذہبی کے نظام اوقات کے جاری کرنے پر اسلام آباد اور مضافات میں موجود اہل حدیث [60] مساجد میں سے ابتدا میں صرف [4] مساجد نے اس پر عمل کا آغاز کیا۔ [56] نے قطعی طور پر نہ اسے تسلیم کیا اور نہ اس کے مطابق عمل کیا۔ پھر [4] میں سے [2] نے اس پر عمل ترک کر دیا۔ پھر [2] میں سے [1] رہ گئی اور بالآخر [1]  نے بھی اسی پر عمل قطعی طور پر ترک کر دیا۔

وَالْحَمْد لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدَانَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیْ لَوْ لَا أَنْ ھَدَانَا اللّٰہُ۔

’’سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے، کہ انھوں نے ہمیں اس کی ہدایت دی، [وگرنہ] ہم تو ہدایت نہ پانے والے تھے، اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ دیتے۔‘‘

اب نئے میلادی سال 2018ء سے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے، امت اسلامیہ اور پیارے وطن کے لیے خیروعافیت کی التماس اور ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھنے کی التجا کرتے ہیں۔ اِنَّہٗ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ

8 غیر اہل حدیث مکاتب فکر کے ساتھ اتحاد کا محض شکلی ہونا:

وزارت مذہبی امور کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کے اجتماعات میں علمائے احناف کے موقف کے بارے ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے شیخ حفیظ الرحمن لکھتے ہیں:

’’احناف نماز عصر میں دو مثل سے ایک منٹ پیچھے آنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

وزارت مذہبی امور کے اوقات نماز کے کیلنڈر میں یکم جنوری سے 31 دسمبر تک نماز عصر کا وقت سو فیصد علمائے احناف کے موقف کے مطابق ہے۔

کیا اسی کا نام [اتفاق و اتحاد] ہے، کہ ایک مکتب فکر [اہل حدیث] پر دوسرے مکتب فکر [احناف] کے موقف کو ٹھوس دیا جائے؟

حضرات احناف کے متعلق بیان کیا گیا، کہ انھوں نے نماز فجر کے لیے اذان طلوع فجر کے وقت اور نماز فجر قدرے پہلے پڑھنے پر موافقت کی ہے۔ ظہر کی اذان قدرے پہلے اور عشاء کی اذان قدرے تاخیر سے دینے سے اتفاق کیا ہے۔

اسلام آباد میں رہنے والے سنتے اور اچھی طرح جانتے ہیں، کہ حضرات احناف گزشتہ اوقات میں نماز عصر کے لیے اذان قطعی طور پر اپنی ہی رائے کے مطابق اور ظہر، عشاء اور فجر کی اذانیں بھی وزارت مذہبی امور کے نظام اوقات کے مطابق نہیںدیتے، بلکہ اپنے موقف کے مطابق دیتے رہے اور اب بھی دے رہے ہیں۔

کیا اسی کا نام اتفاق و اتحاد اور وحدت ہے؟

غیر اہل حدیث حضرات اپنے موقف کے مطابق طرز عمل اختیار کرتے رہیں، اور اہل حدیث حضرات خیرالقرون سے لے کر اب تک جاری و ساری طریقے سے دستبردار ہو جائیں؟ کیا عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے؟

اور اگر …اللہ نہ کریں کہ ایسے کبھی ہو… یہ نظام اوقات قانونی شکل اختیار کر جائے، تو صریح، قطعی واضح نصوص اور عملی تواتر سے ثابت شدہ سنت قابل مؤاخذہ جرم بن جائے اور اہل اقتدار اس پر عمل پیرا ہونے والوں کے لیے اپنی خواہش کے مطابق قید یا جرمانہ یا دونوں یا جیسے وہ پسند کر کے سزا متعین کریں۔

رب کریم ہر ابتلا ء سے اپنے حفظ و امان میں رکھیں۔ آمین

9 اوقاتِ نماز میں بازاروں وغیرہ کو بند کروانے کے لیے کسی پیش رفت کا نہ ہونا:

نماز کے نظام اوقات کی یکسانیت کا مقصد [بازاروں، دفاتر اور سرکاری، غیر سرکاری اداروں کو نماز کے اوقات میں بند کر کے نماز کا قائم کرنا] بیان کیا جاتا ہے۔

یہ خوبصورت اور خوش کن مقصد، بیانات اور گفتگو سے آگے بڑھتا ہوا نظر نہیں آیا۔ مندرجہ ذیل تین باتوں پر غور فرمانے کی التجا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ معاملہ نکھر کر سامنے آجائے گا:

ا: نماز کے اوقات میں بازاروں وغیرہ کو بند کروانے کے لیے تیاری اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود باتوں کے سوا اس بارے میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ب: گزشتہ سالوں میں مرکزی حکومت نے بجلی کی کمی پر قابو پانے کی غرض سے آٹھ بجے شب بازار بند کرنے کا اعلان کیا ۔بازار والوں نے اس حکومتی اعلان کو ماننے سے انکار کیا، حکومت نے بے بس ہو کر اپنا اعلان واپس لے لیا۔

جو حکومت دن میں ایک مرتبہ بازار بند نہیں کروا سکی، کیا اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے، کہ وہ ہر روز چار نمازوں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء، کے لیے چار مرتبہ بازار بند کروا سکے گی؟

مزید برآں حکومت کی دلچسپی نماز کے قائم کرنے کے متعلق ویسے نہیں، جیسی بجلی کی کمی کے معاملے پر قابو پانے کے بارے میں تھی۔

ج:بازاروں کو نمازوں کے اوقات میں بند کروانے کی خاطر تعزیری سزائیں دینے کی ضرورت ہوتی ہے، تو جو حکومت اپنے سارے اقتدار کے زمانوں میں اسلامی حدود کے لیے پہلے سے طے شدہ سزائیں نافذ نہیں کر سکی، کیا وہ تعزیری سزائیں ملک میں نافذ کرے گی؟

0حکومت کی اسلامی شریعت کے ساتھ سلوک کی تاریخ:

حکومت کی اسلامی شریعت کے خلاف سابقہ تاریخ اس کے خوش نما جذبات کے تسلیم کرنے اور اس کی شیریں باتوں پر اعتماد کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف موجودہ حکومت کی تاریخ میں سے چار واقعات کی طرف اشارہ ذیل میں ملاحظہ فرمایئے:

ا: سود کی شریعت کورٹ کی طرف سے ممانعت کے خلاف رٹ دائر کرنا۔

ب: جمعۃ المبارک کی تعطیل منسوخ کر کے اتوار کی چھٹی مقرر کرنا۔

ج: حکومت پنجاب کی طرف سے 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کی ممانعت کا قانون۔

د: پنجاب میں شریعت کے خلاف [حقوق نسواں] کا قانون منظور کرنا۔

+ مجوزہ نظام کا مقصد وحدت امت کی بجائے مساجد کو قابو کرنا ہونا:

حکومت کے اگلے پچھلے اقدامات اس دعویٰ کی نفی کرتے ہیں، کہ اس مجوزہ نظام اوقات کا مقصد وحدت امت ہے۔ اسلامی مدارس کے خلاف مسلسل عداوت اور معاندانہ طرز عمل اور سب مساجد میں وزارت مذہبی امور کا تیار کردہ خطبہ جمعہ کا پروگرام (ملاحظہ ہو: عبدالقیوم سومرو مشیر مذہبی امور حکومت سندھ کا روزنامہ [اسلام] مورخہ 18 جنوری 2016ء میں اعلان)اس بات پر دلالت کرتے ہیں… اللہ تعالیٰ ایسے کبھی نہ ہو… کہ اس ساری تگ و تاز کا مقصد مساجد کو بتدریج اپنے قابو میں لانا، ان کی دعوتی، تعلیمی، فلاحی سرگرمیاں کم از کم اور پھر یکسر ختم کرنا، تاکہ مساجد کی خیر کو صرف نمازوں تک محدود کیا جائے اور امت کو ان کی گوناگوں، ہمہ جہت خیر سے محروم کیا جائے۔ لَا قَدَّرَ اللّٰہُ تَعالیٰ

مزید برآں اہل اقتدار اپنی انتہائی منصوبہ بندی اور بہت ہی زیادہ جدوجہد کے باوجود امت کو اسلامی مدارس کی خیر سے محروم نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کبھی ایسے نہ ہونے دیں، کہ مساجد پر تسلط کے ذریعے امت کا مدارس سے رابطہ توڑا یا کمزور کیا جائے، کیونکہ عامۃ المسلمین کی جانب سے مدارس کے ساتھ تعاون و ہمدردی کا ایک بڑا ذریعہ مساجد ہی ہیں۔

ربِّ کریم مساجد اور مدارس کو ہر شر سے محفوظ رکھیں، ہم سب کو اپنے عذابوں سے اور ان عذابوں کو دعوت دینے والے برے اعمال سے ہمیشہ محفوظ رکھیں اور ہمارے ملک پاک کی ہر طرح اور ہر جانب سے حفاظت فرمائیں۔ آمین یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ

@ اوقات نماز اختیار کرنے کا ہر مکتب فکر کا دستوری حق ہونا:

یہ نہ کہا جائے، کہ اس نظام اوقات پر مجبوری کی وجہ سے عمل کر لینا چاہیے۔ اس خیال کی دین، قانون اور اخلاق سب نفی کرتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں ریاست کو یہ حق نہیں، کہ وہ غیر مسلم اقلیت کے ذاتی معاملات میں اس کے عقیدے کے خلاف قانون سازی کرے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمارا دستوری حق ہے، کہ جس وقت نمازوں کا ادا کرنا سنت سے ثابت ہے، بلکہ… حضرات محدثین کے مطابق نصوص ثابتہ کی روشنی میں … افضل ہے، ہم اس کے مطابق اذانیں دیں اور نمازیں ادا کریں۔

علاوہ ازیں وزیر مذہبی امور نے علی الاعلان کہا تھا، کہ فیصلہ کرنا علماء کا کام ہے، حکومت کا نہیں۔ انھوں نے مرکزی جامع مسجد اہل حدیث جی 3/6 اسلام آباد، میں 18 جنوری 2016ء کو علمائے اہل حدیث سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’ہمارا کوئی سیاسی مقصد نہیں، پھر یہ کام اصل میں تو علماء کا ہے، حکومت کا کام تو اس کا نفاذ ہے۔ یہ فقہی مسائل ہیں، ان کا فیصلہ علماء ہی کرتے ہیں۔ کسی وزیر، ممبر اسمبلی، وزیراعظم، صدر پاکستان یا اسمبلی نے اوقات نماز طے نہیں کرنے۔ یہ آپ علماء نے کرنے ہیں۔ مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے اور اس پر خوشی ہے ، کہ آپ تسلی کرنا چاہتے ہیں، بالکل آپ ٹائم لیں، ضرور غورو خوض کریں۔ ہماری تو اتحاد و اتفاق کے لیے ایک کوشش ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی عطا فرمائے۔‘‘

کیا اس کے بعد یہ کہنا، کہ مجوزہ نظام اوقات کو اپنانا ہماری مجبوری ہے؟

اہل حدیث کی کتاب و سنت سے دائمی اور تاریخی وفاداری:

اہل حدیث کی تاریخ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قطعی اور واضح طور پر دلالت کرتی ہے، کہ ان کی وفاداری ہمیشہ کتاب و سنت سے رہی ہے۔ اہل اقتدار کی [ہاں میں ہاں] ملانا، [سب ٹھیک] کی صدا لگانا، نام نہاد [وحدتِ امت]، اور غیر حقیقی بناوٹی [اتحاد و اتفاق] کے نعرے، کتاب و سنت سے ان کے تعلق میں جنبش پیدا نہیں کرتے۔ ماضی قریب، بلکہ عصر حاضر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر سینیٹر ساجد میروفقہ اللہ تعالیٰ نے محض توفیق الٰہی سے اپنے اسلاف کی زریں تاریخ کی کس استقلال و استقامت کے ساتھ زندہ مثال پیش کی۔ مرکزی اسمبلی کے تمام اراکین، اپنے اپنے القاب، مناقب اور بلند مناصب کے باوجود، میں سے کسی ایک نے بھی آمر، بے دین، ظالم حاکم کے انتخاب کے موقع پر [No] کہنے کی جرأت نہیں کی۔ [Yes] کی صدا بلند کی اور باقی حضرات و خواتین نے [No] کہنے سے فرار کا ’’باعزت طریقہ‘‘ [Walkout] اختیار کیا۔ کلمۃ الحق کی توفیق ملی تو اہل حدیث کے قائد کو:

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ رَفَعَ اللّٰہُ  رَاْسَہ کَمَا رَفَعَ رَؤُوْسَ أھْلِ الحدیث، و نصَرہٌ بِالَّدِیْنِ وَنَصَرَ الدَّینَ بِہٖ آمین یا حي یا قیوم!

$ تنظیمات اہل حدیث کی طرف سے ایسی تجویز پر موافقت سے عدالتوں سے دادرسی کی راہ بند ہونا:

اللہ تعالیٰ کبھی وہ وقت نہ لائے، کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اہل حدیث کی دیگر تنظیمیں اس پر اتفاق کریں۔ اگر …لَا قَدَّرَ اللّٰہُ تَعَالیٰ… غلط فہمی یا دلفریب وعدوں یا کسی اور سبب سے اس مجوزہ نظام اوقات کے ساتھ موافقت کی گئی، تو اس کے ملکی قانون بننے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور ایسی صورت حال میں سنت صریحہ سے ثابت شدہ اوقات میں اذان عصر اور اذانِ مغرب دینے والا قانون شکنی کا مرتکب قرار پا کر، حکومت سے مقرر کردہ سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے گا۔

مزید برآں جماعتی سطح پر اس یا اس جیسے نظام اوقات نماز کے ساتھ موافقت کی صورت میں اہل حدیث حضرات کے لیے ملکی اعلی عدالتوں میں رٹ دائر کرنے کا حق بھی باقی نہ رہے۔ لَا قَدَّرَ اللّٰہُ تَعَالٰی

خلاصہ:

ساری گفتگو کا نچوڑ اور ما حاصل یہ ہے، کہ ملک کی مساجد کے[اذان دینے کے اوقات]کے متعلق [حریت اختیار] کے ثابت شدہ اور صدیوں سے مسلمہ حق کو سلب کرنے کی ہر کوشش اور قدم سے قطعی طور پر گریز کیا جائے۔ ہمارے وطن عزیز کا ذرہ ذرہ اور چپہ چپہ نہایت ہی بیش قیمت ہے۔ ملک پاک میں پہلے فتنوں کی کچھ کمی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان فتنوں اور ان کے بپا کرنے والوں کا نام و نشان مٹا دیں۔ آمین

کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنا پر کسی نئے فتنے کو جگانے کا سامان مہیا نہ کیا جائے۔ ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں۔ رب کریم ہمارے دین اور ملک کی ہر قسم کے شرور و فتن سے تا قیامت حفاظت فرمائیں۔

آمیـن یَا حَيُّ یَا قَیُّوْمُ وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی نَبِیِّنَا وَأَصْحَابِہِ وَأَتْبَاعِہِ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْن               15 مارچ 2016ء        

۔۔۔

عقیدہ توحید و شبہات کا ازالہ – آخری قسط

شبہ

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ   (البقرۃ:154)

’’جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم احساس نہیں کرتے۔‘‘

مذکورہ آیت کی روشنی میں شہداء زندہ ہیں چونکہ اس آیت میں لوہے کی تلوار کا ذکر نہیں اس لیے جو حضرات عشق کی تلوار سے مقتول ہوئے وہ بھی ان میں داخل ہیں اس لیے شہداء اور فوت شدہ اولیاء سے مدد مانگنا جائز ہے۔

ازالہ :

قابل غور پہلو یہ ہے کہ بلاشبہ شہداء زندہ ہیں تاہم ان کی زندگی کی نوعیت کیا ہے اور شہداء سے مددمانگنا جائز ہے یا نہیں؟ گزارش ہے کہ شہداء کی شہادت کا مرتبہ اس وقت حاصل ہوتاہے جب راہِ حق میں ان پر موت طاری ہوجاتی ہے اور ان کی ارواح کا تعلق دنیا سے منقطع ہوجاتاہے ، مولانا محمد احمد رضا خان مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’موت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ شہداء کوحیات عطا فرماتاہے اور ان کی ارواح پر رزق پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘

قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ  (آل عمران:169)

’’ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں۔‘‘

صاحب کنز الایمان نے شانِ نزول کے تحت لکھا کہ یہ آیت شہدائے اُحد کے حق میں نازل ہوئی ہے ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے قالب عطا فرمائے وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں اور جنتی میوے کھاتے ہیں طلائی قنادیل جو زیر عرش معلق ہیں ان میں رہتے ہیں جب انہوں نے کھانے پینے اور رہنے کے پاکیزہ بالاخانے پائے تو کہا کہ ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں؟ تاکہ وہ جنت سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ جائیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔(ابو داؤد) اس سے ثابت ہوا کہ ارواح باقی ہیں جسم کے فنا کے ساتھ فنا نہیں ہوئیں۔(کنز الایمان) 

روزِ روشن کی طرح حقیقت ہے کہ شہداء کی روحیں جنت میں ہیں زمین میں ہرگز نہیں ، اگر زمین میں ہوتیں تو شہداء دوبارہ زمین میں آنے اور شہادت کا اعزاز حاصل کرنے کی آرزو نہ کرتیں جیسا کہ صحیح البخاری ، کتاب الجہاد میں ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص بہشت میں جاتاہے وہ پھر دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا چاہے اسے ساری دنیا کی دولت ملے البتہ شہید دنیا میں آنے کی اور دس بار اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی آرزو کرتاہے کیونکہ وہ شہادت کی عزت وہاں دیکھتاہے۔‘‘

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ تو ممکن نہیں ہے اس لیے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس

نہیں جاسکتا جنت میں سیر کرنے والی شہداء کی روحیں اپنا

پیغام اہل دنیا تک خود پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتیں تو وہ اہل دنیا کی پکار کو سننے اور مدد کرنے پر کس طرح قدرت رکھ سکتی ہیں؟ شہداء کی ارواح نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اللہ سے التجا کی تو اللہ نے ان کی دعا کو قبول کیا چنانچہ ہمیں ہر مشکل وقت میں شہداء کی روحوں کی طرح اللہ سے ہی مدد مانگنی چاہیے اور راہِ حق میں شہید ہونے کی آرزو کرنی چاہیے۔ آپ کے بقول چھری یا عشق کی تلوار سے شہید ہونے والے انبیاء کرام واولیاء عظام کی روحیں مدد کرنے پر قادر ہیں تو جب بد ر کے میدان میں 313 نہتے مجاہدین کی ایک ہزار مسلح لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہوئی اس وقت نبی کریم ﷺ نے سجدہ ریز ہوکر اللہ سے مدد طلب کی تو قادر مطلق نے آسمان سے فرشتے بھیجے غور طلب پہلو یہ ہے کہ انبیاء،شہداء اور اولیاء کی روحوں کو مدد کے لیے کیوں نہ بھیجا؟ 

مفسرین نے سورۃ البقرۃ آیت نمبر 154 اور آل عمران آیت نمبر 169 کی جو تفسیر کی ہے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے، شہید پر بھی موت طاری ہوتی ہے کیونکہ ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے ان کی بیویاں دوسروں سے نکاح کر سکتی ہیں لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں جیسی موت سمجھنے سے منع کیاگیاہے کیونکہ شہید فی سبیل اللہ کا جسم باوجود گوشت پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتابلکہ مثل زندہ جسم کے صحیح سالم رہتاہے۔

شہداء کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز وتکریم کے لیے ہے چونکہ مردہ کہنے سے لواحقین اور ساتھیوں کے حوصلے فطری طور پر پست ہوجاتے ہیں اللہ علیم وخبیر نے شہید کو مردہ کہنے سے منع کیا کیونکہ اس سے مجاہدین فی سبیل اللہ کے جہادی جذبہ کےمدھم ہونے کا خطرہ لاحق ہوسکتاہے چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والے حقیقت میں ممتازِ حیات کے ساتھ زندہ ہیں لیکن تم اپنے موجودہ حواس سے اس حیات کا ادراک نہیں کرسکتے۔

کائنات میں ماں سے بڑھ کر کوئی شفیق رشتہ نہیں، ٹھٹھرتی رات میں بچہ اس کے پہلوؤں میں پیشاب کردے تو وہ اس کو سینے سے لگالیتی ہے کہ کہیں میرے بچے کو سردی نہ لگ جائے یہی بچہ لڑکپن میں جیب خرچ کے لیے بار بار ضد کرتاہے تو وہی ماں اُسے ٹوک دیتی ہے کہ ابھی تو میں نے بیس کا نوٹ دیاہے۔

سبحان اللہ! رب ذو الجلال ہی ایک وہ ہستی ہے جس سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتاہے باربار طلب کرو، ہر چیز مانگو تو وہ دینے سے تھکتا نہیں بلکہ وہ اپنے بندے پر راضی ہوتاہے وہ ہزاروں میل کے فاصلے سے سن لیتاہے وہ دنیا کی ہر زبان سے واقف ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ  کائنات میں بسنے والے اربوں جن وانس کی بیک وقت پکار سننے کی کمال قدرت کا مالک ہے اور اُن کی مشکلات حل کرنے پر بھی قادر ہے اور دست سوال پر سب کو دیتاجائے تو اس کے خزانہ میں کبھی کمی نہیں آتی۔ وہ نیند اور اونگھ کے عیبوں سے پاک ہے خدانخواستہ آپ بولنے سے قاصر ہیں ، دل میں فریاد کریں تو اللہ سن لیتاہے لہٰذا آپ غیر اللہ کے درپرسرجھکانے کی بجائے خالق کائنات سے رشتہ قائم کرکے دعاکریں۔

دعا مانگنا عبادت کا مغز ہے (ترمذی)

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:60)

’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔‘‘

چونکہ ’’اللہ غافل قلب والے کی دعا قبول نہیں کرتا‘‘ (ترمذی) چنانچہ دعا عزم اور یقین کے ساتھ خشوع وخضوع سے مانگو۔

 رب کا فرمان ہے : 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرۃ:153)

’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔‘‘

 مزید فرمایا:

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   (البقرۃ:186)

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘

روزِ محشر شفاعت نبوی کے لیے درود وسیلہ ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’مجھ پر بکثرت درود پڑھنے والا روزِ قیامت میرے قریب قریب ہوگا۔(ترمذی)

شافعی محشر ﷺ کی شفاعت شرک نہ کرنے والوں کے لیے وسیلہ ہے۔

ہر نبی کو ایک ایک مقبول دعا کا حق ملا ہے، سب نے اپنی اپنی دعا مانگ لی ہے اور میں نے اپنی دعا قیامت کے روز شفاعت کے لیے چھپا رکھی ہے اس کا فائدہ ان شاء اللہ میرے ہر اس امتی کو ملے گا جس کو موت شرک پر نہ آئی ہوگی۔(مسلم)

والدین،اساتذہ کرام اور بزرگانِ دین کا ادب واحترام واجب ہے جبکہ سرورکائنات ﷺ سے محبت مومن کی پہچان ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ما ں،باپ ، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا نہ ہوجائے۔‘‘ (متفق علیہ)

تاہم محبت کا زیادہ حق دار اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے جس نے انسان کو پانی کے قطرے سے تخلیق کیا، ماں کے پیٹ میں خوراک کا انتظام کیا، جب دنیا میں قدم رکھا تو ماں کے خون کو دودھ میں تحلیل کیا،حرکت میں برکت ہے پر عمل کرنے کے لیے آنکھ،ہاتھ اورپاؤں عنایت کیے ، آسمان سے مینہ برسا کر زمین کو سرسبزوشاداب بنایا، سبزیاں،پھل اور اناج اُگاکر توانائی کا ذریعہ بنایا ۔

حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو شمار کرنا بھی مشکل امر ہے اس لیے محبت کا سب سے زیادہ حق دار وہی ہے جس نے محمد عربی ﷺ کو پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور پھر اپنی محبت کے حصول کا بہترین ذریعہرسول اللہ ﷺ  کی اتباع کو قرار دیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ (آل عمران : 31)

’’آپ ﷺ کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو۔‘‘

روزِ محشر مرشد کامل ﷺ کی شفاعت کے حصول کے لیے شرک کی نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اللہ ذو الجلال کی طرح کسی سے ضرر کا خوف دل میں رکھنا، طمع کی امید پر خدمت کرنا اور عقیدت کی وجہ سے محبت کا محور مان کر عجز وانکساری اور اطاعت وفرمانبرداری کا اظہا رکرنا عقیدہ توحید کے منافی عمل ہے۔

دکھ، تکلیف اور مشکل وقت ایک دوسرے کی مدد کرنا انسانیت ہے اور زندہ بزرگوں سے دعا کروانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرز عمل ہے لیکن زندہ وفوت شدہ بزرگوں کو غائبانہ پکارنا یا کسی قبر پر کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے۔

شرک ناقابل معافی جرم ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ  ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا  (النساء : 116)

’’اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیاجائے ہاں! شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرمادیتاہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو عقیدۂ توحید پر قائم رکھے شرک کی غلاظت سے محفوظ رکھے اور روزِ محشر ساقیٔ کوثر محمد عربی ﷺ کی شفاعت سرفراز فرمائے۔ آمین

۔۔۔

بیت اللہ کی تعمیر کا قصہ

عبدالسلام جمالی۔نوابشاہ

پیارے بچو !سیدنا ابراہیم علیہ السلام جو کہ ابو الانبیاء ہیں ان کی ساری زندگی آزمائشوں اور امتحانوں کا سرچشمہ ہے انہی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش اور امتحان یہ بھی تھا کہ سیدنا اسماعیل اور سیدہ ہاجرہ عليهما السلام کو بیاباں علاقے میںچھوڑ آئے سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئےانہیں چھوڑ کر واپس وطن لوٹ آئے جب ایک بڑی مدت گزر گئی تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام لوٹ آئے اسی وقت سیدنا اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنا تیر درست کر رہے تھے والد کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باپ بیٹا گرم جوشی سے ملے اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے کہا : اسماعیل ! اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے ، کیا تم اس کام میں میری مدد کروگے ؟ انہوں نے کہا : ضرور کروں گا ، ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے : اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس مقام پر ایک گھر بناؤں ، اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا ۔ چنانچہ باپ بیٹے دونوں نے اس گھر کی بنیاد اٹھائی ، اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے ۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو اسماعیل علیہ السلام یہ پتھر ( مقام ابراہیم) لے کر آئے اور اسے وہاں رکھ دیا ، اب ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہوکر چٹائی کرتے اور اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے اور یہ دعا پڑھتے جاتے : 

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

ہمارے پروردگار !تو ہم سے قبول فرما ، تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ (البقرة: 127)

الغرض وہ چاروں طرف سے تعمیر کرتے جاتے اور یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔

یوں بیت اللہ کی تعمیر سر انجام پائی اور باری تعالی کا اعلان ہوا کہ

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ (آل عمران: 96)

اللہ تعالٰی کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مُقّرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ ( شریف ) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے ۔

اور پھر اس کی انتظامی ذمہ داری بھی خود باپ کو سونپی گئی تھی جیسا کہ باری تعالی کا فرمان ہے کہ :

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (الحج: 26)

اور جبکہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام ) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی اس شرط پر کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف قیام رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھنا ۔

پیارے بچو ! اللہ تعالی کے سب سے پہلے گھر کعبہ اللہ کی تعمیراتی کام کی ابتداء سے انتھی تک سے ہمیں چند باتیں بطور نصیحت حاصل ہوتی ہیں ۔

1 والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو مساجد کی ترغیب دلائے ۔

2 والدین کو چاہیے کہ اولاد کو دینی کام میں ہاتھ بانٹنے کی ترغیب دلائیں ۔

3  اولاد کےلیے لازم ہے کہ وہ ہر نیک کام میں والدین کے دست و بازو بنیں ۔

4  بالخصوص مشکل کاموں میں والدین کی مدد کرنی چاہیے ۔

5  روئے زمین پر سب سے پہلی مسجد بیت اللہ بنائی گئی تھی ۔

6  روئے زمین کی سب سے پہلی مسجد کی امامت و موذنی خود باپ بیٹے (ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام) نے سر انجام دی تھی

اگر آپ استاد ہیں۔۔۔!

آپ مانیں یا نہ مانیں، اسکولوں میں موجود ۹۰ فیصد خواتین اساتذہ شادی نہ ہونے اور مرد اساتذہ ’’نوکری‘‘ نہ ہونے کے سبب یہ ’’کار خیر‘‘ انجام دے رہے ہیں۔ اساتذہ کرام کی اکثریت ’’دلی‘‘ طور پر نہیں بلکہ ’’حادثاتی‘‘ طور پر معلمی کر رہی ہے۔ کسی اور نے تو خیر شعبۂ تدریس کو کیا خراب کرنا ہے، اساتذہ نے خود ہی اپنے آپ کو ’’ڈی ویلیو‘‘ کیا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک، لوگ خود کو استاد کہتے ہوئے شرماتے ہیں۔ خاص طور پر مرد اساتذہ کو یہ بات کہنے میں خاصی ’’شرم‘‘ محسوس ہوتی ہے کہ وہ استاد ہیں۔ کہتے ہیں دنیا اسی کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت خود کرواتا ہے۔ جب تک ہمارے اساتذہ کرام خود اپنی عزت محسوس نہیں کریں گے، معاشرہ ان کو عزت دینے میں ناکام رہے گا۔

اساتذہ کرام کی اصل ناقدری اس ’’کارپوریٹ نظام تعلیم‘‘ نے کی ہے۔ اسکول ہوں، کوچنگ سینٹر ہوں، یا یونیورسٹیاں سب نے ہی اپنے آپ کو کارپوریٹ بنایا ہے۔ سب کی نظر میں آنے والا بچہ ایک ’’گاہک‘‘ ہے، اور ماں باپ بھی اساتذہ کو بطور ’’دکاندار‘‘ ہی دیکھتے ہیں۔ آپ کبھی جائزہ لے لیں اور اساتذہ کرام سے پوچھیں کہ انھوں نے آخری کتاب کب اور کون سی پڑھی تھی؟۔ میں جب تک اسکول میں رہا، پھر کالج، کوچنگ اور مزید چار سال یونیورسٹی میں رہا، مجھے کبھی کسی استاد نے نہیں کہا کہ ’’بیٹا یہ کتاب ضرور پڑھنا‘‘۔ میں نے کبھی کسی استاد کے ہاتھ میں کوئی کتاب ہی نہیں دیکھی۔ جو استاد خود کتاب نہ پڑھتا ہو نہ کچھ نیا سیکھتا ہو، سوائے ’’فیس بک‘‘ اور ’’یوٹیوب‘‘ کے وہ آنے والی نسل کو کیا سکھائے گا؟ مطالعہ وہ واحد ذریعہ ہے جو آپ کی شعوری عمر میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ کی ذہنی نشوونما کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ’’کتب بینی‘‘۔ اگر آپ استاد ہیں اور روزانہ کم ازکم ایک گھنٹہ آپ مطالعے کے لیے نہیں نکالتے تو پھر آپ اپنے ساتھ اور اپنے شاگردوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، پھر آپ کا غصہ ہی ان پر نکلے گا، کیونکہ جو آپ کے اندر ہوتا ہے وہی آپ اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں انڈیلتے ہیں۔

آپ کو بات بات پر غصہ آتا ہے، گھر، بازار، رشتے دار اور پڑوسیوں کا غصہ بھی آپ اپنی کلاس میں ہی نکالتے ہیں تو پھر آپ کو دو میں سے ایک کام ضرور کرنا چاہیے۔ یا تو آپ پڑھانا چھوڑ دیں یا پھر ’’معلم اعظم؟‘‘ کی طرف رجوع کریں۔ آپ کمال ملاحظہ کریں، سيدنا انس رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں 10 سال رہے لیکن مجال ہے کہ ان کی کسی بات پر آپ کے ماتھے پر شکن تک آئی ہو۔ غصہ ضرور ہونا چاہیے لیکن ایسا کہ آپ کا غصہ بھی بچوں کو بہت کچھ سکھا جائے۔ ان کو معلوم ہو کہ واقعی ایک استاد کا غصہ ’’ایسا‘‘ ہوتا ہے۔ قاسم علی شاہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کے لیے لائسنس ہے، ٹیچنگ کا بھی لائسنس ہونا چاہیے۔ پڑھائے گا وہ جس کو پڑھانا آتا ہے۔ ہر قابل آدمی قابل استاد نہیں بن سکتا ہے۔ اگر آپ ’’لینگویج‘‘ پڑھاتے ہیں اور پھر بھی آپ کا شاگرد بدزبان اور بدگو ہے تو پھر آپ کو زبان پڑھانے کے بجائے زبان ’’سکھانے‘‘ کی فکر کرنی چاہیے۔ آپ نے بچے کو ریاضی کا ہر سوال حل کرنے میں ماہر بنا دیا، لیکن اگر وہ اپنی زندگی کے معمولی مسائل تک حل نہیں کرسکتا، تو پھر آپ کو سوچنا ضرور چاہیے کہ آپ نے ریاضی تو اس کے لیے آسان کردی ہے، لیکن زندگی مشکل کرگئے ہیں۔

میرا درس و تدریس میں جتنا بھی تجربہ ہے، میں نے یہ سیکھا ہے کہ بچہ کتاب سے کچھ بھی نہیں سیکھتا۔ کتاب تو ایک بے جان چیز ہے، وہ بھی نصاب کی کتاب۔ سکھاتا تو استاد ہے۔ آپ قرآن کی مثال لے لیں، بھلا اس سے زیادہ اور کوئی کتاب کیا پُراثر ہوگی؟ لیکن مجال ہے کہ وہ ہمارے لیے کچھ اثر کرجائے۔ وجہ ’’رول ماڈل‘‘ کا سامنے نہ ہونا ہے۔ آپ بچے کو جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں، وہ بن کر دکھا دیں، بچہ خود سب کچھ سیکھ جائے گا۔ یاد رکھیں اگر استاد کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے تو وہ طالب علموں کو کوئی مقصدیت نہیں دے سکتا۔ اگر آپ کی اپنی ہی زندگی بے منزل کی راہی ہے تو بھلا آپ کے طالب علموں کی نیّا کہاں سے پار لگے گی؟

سب سے اہم مسئلہ سننے اور سنانے کا ہے۔ اساتذہ کے اندر سنانے کی لگن ہوتی ہے۔ وہ کھری کھری بھی سناتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا سناتے ہیں کہ بھری کلاس میں بچے کی ’’عزت نفس‘‘ تک مجروح ہوجائے، لیکن سننے کی تڑپ اور جستجو ان میں نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ بچوں کو سنتے بھی سنانے کے ہی لیے ہیں۔ جو اساتذہ بچوں کو سمجھنے کے لیے سنتے ہیں، کانوں سے نہیں دل کے کانوں سے سنتے ہیں، وہ بچوں کے دل میں اتر جاتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے آپ کے ہاتھ چومیں، ’’فارمیلٹی‘‘ کے لیے نہیں دل سے اٹھ کر آپ کا استقبال کریں، تو پھر آپ کو انھیں دل سے سننا پڑے گا۔ بچوں کے لیے عام طور پر وہ مضمون خودبخود دلچسپ بن جاتا ہے جس مضمون کا استاد ان کے لیے دلچسپ بن جاتا ہے۔ آپ کی ٹیچنگ کی انتہا اور معراج یہ ہے کہ بچے ’’فری پیریڈ‘‘ میں آپ کو خود بلانے آجائیں اور جب آپ کلاس سے جانے لگیں تو ان کو تشنگی محسوس ہو۔ آپ جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی شعاعیں اور ’’وائبز‘‘ آپ میں سے نکلنے لگتی ہیں۔ سورج کو بتانا نہیں پڑتا ہے کہ میں نکل گیا ہوں، صبح ہوگئی ہے۔ پھول اعلان نہیں کرتا ہے کہ میں کھل گیا ہوں، اس کی خوشبو پورے باغ کو بتا دیتی ہے کہ کوئی پھول آج کھل گیا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ واقعی قابل استاد ہیں تو پھر طالب علموں کو آپ میں سے وہ شعاعیں ہر لمحہ پھوٹتی محسوس ہونے لگیں گی۔

اگر آپ استاد ہیں اور حادثاتی طور پر ٹیچنگ میں آگئے ہیں تو کوشش کریں کہ اس کو اپنا شوق بھی بنالیں۔ غالب فرماتے ہیں کہ ’’بندہ کام سے تھک جاتا ہے محبت سے نہیں تھکتا‘‘۔ اس لیے کام سے محبت کرلیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو ’’اطمینان قلب‘‘ نصیب ہوجائے گا۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو دنیا میں کسی کسی کو ہی ملتی ہے۔ دوسرا آپ کی سیکھنے کی لگن بڑھ جائے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ آپ کو اتنی عزت دے گا کہ شاید آپ نے سوچا بھی نہ ہو۔ استاد کو سب سے بڑا فائدہ جو اللہ دیتا ہے، وہ یہ کہ اس کے رزق میں برکت ہوجاتی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے ’’جو فجر کے بعد نہیں سوتا ہے اور روزگار کی تلاش میں نکلتا ہے، اللہ اس کے رزق میں برکت دے دیتا ہے‘‘۔ آپ استاد ہیں تو پھر لوگوں کے دل اور الله كي خوشنودي دونوں آپ کے منتظر ہیں۔ (بشکریہ : معارف فیچر ۔ کراچی)

———–

حیا مسلمان کے کردار کا لازمی جزو

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے،

شرم و حیا ایک ایسی خوبی ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق ہوتا ہے، حیوان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے حیا کی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے وہ ضرورت اس کا جسمانی تقاضہ ہو یا نفسانی، ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے شرم و حیا  میں سے کسی بھی چیز کا لحاظ نہیں ہوتالیکن انسان جانوروں سے مختلف ہے انسان کو اللہ نے عقل اور شعور عطا کیا ہے، اور اس عقل و شعور کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حیا سے کام لے نبی کریم نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

اَلْاِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَةً وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ اَلْاِيْمَانِ. (بخاری، رقم9)

”ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

 اسی طرح ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا

مَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ(صحیح) ( الأدب المفرد 601)

’’حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور بے حیائی جس چیز  میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتی ہے۔‘‘

  ایک اور روایت میں ہے :

اَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ.(مسلم، رقم37)

”حیا تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘

یعنی حیا انسان کو نیکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، حیا انسان کے لیے نیکی کے دروازے کھولتی ہے، اور بے حیائی انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے ۔اسی لیے آپ نے فرمایا جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو تو حیا برائی کی طرف لپکنے میں ایک آڑ اوررکاوٹ ہے اگر وہ اٹھ جاتی ہے رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے تو انسان ہر طرح کی برائیوں میں کھلے عام ملوث ہوسکتا ہے۔

حیا کا دائرہ بہت وسیع ہے، شرم و حیا صرف جنسی معاملات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے سارے اعمال چال ڈھال، گفتگو، رہن سہن، لباس، دوسروں کے ساتھ معاملات وغیرہ میں کسی نہ کسی طرح کام کر رہی ہوتی ہے۔

1 مثلاً گفتگو ہی کو دیکھ لیجیے، جو شخص گفتگو میں حیا سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زبان سے برے الفاظ نکالتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتا، لڑائی جھگڑے کی بات ہو یا گالی گلوچ ہو دوسرے کے ساتھ بد تمیزی کرنا ہو، بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا یہ سب وہی کر سکتا ہے جس کے اندر حیا نہیں، حیادار انسان کبھی بھی کوئی منکر ناپسندیدہ بات زبان سے نہیں نکال سکتا، وہ دوسروں کا دل توڑنے اوربدتمیزی برتنے سے بھی حیا کرے گا۔

 اس کے برعکس بے حیا انسان کے جی میں جو چاہے آئے، وہ نہیں دیکھتا کہ وہ کسی چھوٹے سے معاملہ کررہا ہے یا کسی بڑے سے، جب حیا نہیں ہے شرم نہیں ہے تو پھر جو جی چاہے کرو، اسی طرح اگر نگاہ میں حیا نہیں تو انسان پروا نہیں کرے گا حلال دیکھ رہا ہے یا حرام دیکھ رہا ہے، حیا نہیں تو نہیں پروا ہوگی حرام کھا رہا ہے یا حلال، حیا ہوگی تو وہ اس کو حرام کی طرف جانے سے روک دے گی۔

2 اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی حیا محسوس کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلٰکِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يُؤْذِی النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْکُمْ وَاللهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ (الاحزاب33: 53)

’’ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو،یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘

یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی ظاہر ہے کہ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔

3 حیا کا تعلق انسان کے لباس سے بھی ہے، عریانی حیا کی ضد ہے، اپنا ستر بلاوجہ کھولنا اور ایسا لباس پہننا  جس سے حیا کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں، یہ ناپسندیدہ چیزوں میں سے ہے، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف – 26)

اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور تقوٰی کا لباس زیادہ  بہتر ہے۔ یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔

یعنی لباس کا مقصد جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانا ہے اور اگر انسان لباس پہن کر بھی ننگا رہتا ہے، تو پھر حیا کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں،

وریشا…. اور لباس پہننے میں زینت ہے،

یعنی عریانی میں زینت نہیں ہے لباس “پہننے” میں زینت ہے،  اور تقویٰ کا لباس یعنی ایسا لباس جس کو پہن کر انسان کے اندر اللہ کا خوفنظر آئے زیادہ بہتر ہے بنسبت اسکے کے انسان ایسا لباس پہنے کہ جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ اس شخص کو نہ اللہ کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی بندوں سے شرماتا ہے۔

نوٹ :

ایک بات یہاں پر سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ دین سیکھنے کے معاملے میں بلاوجہ حیا سے کام نہیں لینا چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ نے فرمایا: “انصارِ مدینہ کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کیونکہ ان کیحیادین کی گہری سمجھ حاصل کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔(صحیح مسلم: 776، باب استحباب استعمال المغتسلة)

 نبی کریم نے انصار کی خواتین کی تعریف فرمائی کے انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں ہیں کہ دین حاصل کرنے سے ان کو حیا مانع نہیں ہوتی یعنی دین کا جب کوئی مسئلہ آتا ہے دین کی کوئی بات آتی ہے تو وہ ہر طرح کا سوال کرلیتی ہیں کیونکہ دین ہماری صرف ظاہری زندگی سے متعلق نہیں، ہماری چھپی ہوئی زندگی کے متعلق بھی ہے، ان معاملات میں بھی ہمیں صحیح معلومات ہونی چاہئیں ورنہ ہم دین کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔

مثلا اپنی نجی زندگی کے بارے میں بلاوجہ گفتگو کرنا درست نہیں بلا وجہ ایسی گفتگو مجلسوں میں کرنا معیوب ہے حیا کے خلاف ہے، لیکن جس طرح انسان جسمانی بیماری کی صورت میں اپنے جسم کے بعض حصوں کو ایک مہربان معالج کے سامنے علاج کی غرض سے کھول سکتا ہے اسی طرح بعض اوقات انسان اپنی روحانی زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہو تو کسی جاننے والے یا کسی اہل علم کے پاس جاکر کوئی ایسا سوال کیا جا سکتا ہے جو عام زندگی میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، دین کو جاننے کے معاملے میں، دین پر عمل کرنے کے معاملے میں شرم و حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، جہاں پوچھنے کی ضرورت ہو وہاں انسان بہت مہذب طریقے سے مناسب الفاظ میں ہر طرح کا سوال پوچھ لے اس میں غیر ضروری حیا سے کام نہ لے یا یہ سوچ کر کہ اگر میں نے پوچھا تو لوگ مجھے چھوٹا سمجھیں گے کہ اس کو یہ بھی نہیں پتہ، یہ رویہ مناسب نہیں، لہٰذا جہاں بھی کوئی الجھن ہو وہاں پر سوال کر کے اس الجھن کو سلجھا لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں ملی مہلت کو جو صرف ایک بار ملی ہے سوچ بچار میں ضائع کردیںاور جب اللہ کے ہاں پہنچیں تو عمل کی مہلت ختم ہو جائے اور پھر پلٹنے کا کوئی وقت بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس دنیامیں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے جس بنیادی علم کی ضرورت ہے اس کو بغیر کسی جھجھک اور شرم و حیا کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

————–

دینی محبت بڑھانے کے نبوی نسخے ۔!

قارئین کرام ! ہمارا دین اسلام ہمیں ایک دوسرے سے اخوت محبت کا پیغام دیتا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا (سنن ابن ماجہ:3692)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے: تم جنت میں اس وقت تک نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور تم ( کامل ) مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو۔‘‘

اور اسی طرح اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارے کا بھی پیغام دیا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَظْلِمُهُ، وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ، كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِه (صحیح البخاری6951)

’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ( کسی ظالم کے ) سپرد کرے اور جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا ہو گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت اور حاجت پوری کرے گا۔‘‘

اور رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ

لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ (صحیح البخاری: 6076)

’’آپس میں بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ تک بات چیت بند کرے۔‘‘

 اور اللہ سبحانہ وتعالی اپنی رحمت سے بندوں کے دلوں میں باہمی محبت پیدا فرماتا ہے جیساکہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق فرمایا ہے کہ

وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیۡنَہُمۡ اِنَّہٗ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ

یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے وہ غالب حکمتوں والا ہے ۔

 اور یوںبھی ہم میں سے ہر بندہ یہی چاہتا ہے کہ مجھ سے ہر شخص محبت کرے کوئی بھی مجھ سے متنفر نہ ہو یاد رہے کہ ہر چیز کے بڑانے کے مختلف نسخے ہوتے ہیں ۔

ایسے ہی محبت بڑھانے کےبھی چند نبوی نسخے ہیں جن کی ادائیگی سے مسلمانوں کے ما بین ایک دوسرے کی باہمی محبت میں اضافہ ہوگا ۔

آئیے جانتے ہیں کہ وہ کونسے نبوی نسخے ہیں جن سے ہمارے ما بین محبت میں اضافہ ہوگی ۔

1سلام کو عام کرنا

سلام ایک ایسا با برکت عمل ہے جس سے انسان کے باہمی محبت میں اضافہ ہوگا جیسا کہ رسول نے فرمایا کہ:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، ‏‏‏‏‏‏أَفَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَمْرٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ      

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے: تم جنت میںاس وقت تک نہیں جاؤ گے جب تک ایمان نہ لے آؤ، اور تم ( کامل ) مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہیں کرنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو گے تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگوگے اور (وہ کام یہ ہے کہ) آپس میں سلام کو عام کرو ۔ (سنن ابن ماجہ:3692)

 یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا:

وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (صحیح البخاری:28)

’’ہر شخص کو سلام کر خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، ‏‏‏‏‏‏يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ (صحیح البخاری:6077)

”کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ کے لیے ملاقات چھوڑے، اس طرح کہ جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے اور وہ بھی منہ پھیر لے اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۔“

سلام میں پہل کرنے والا گویا محبت بڑھانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ بندہ منہ پھیرنے والے سے افضل بہتر ہے کیونکہ اسلام باہمی اخوت محبت کا پیغام دیتا ہے ۔

2تحائف دینا

جب بندہ اپنے کسی دوست یا رشتہ دار یا کسی بھی طرح کے شخص کو تحفہ ہدیہ کی چیز پیش کرتا ہے تو اس کےلیے محبت میں اضافہ ہوتا ہے جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :

تَهَادُوا تَحَابُّوا(صحیح الادب المفرد:594)

آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کریں ، اس سے باہم محبت پیدا ہوتی ہے ۔

اس لیے جس کو ہدیہ دیا جا رہا ہے اسے چاہیے کہ وہ بھی ہدیہ دینے والے کو کچھ نہ کچھ ہدیہ دیا کرے تاکہ دونوں کی باہمی محبت پختہ ہوجیسا کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ (سنن الترمذی:2034)

 ”جسے کوئی تحفہ دیا جائے پھر اگر اسے میسر ہو تو اس کا بدلہ دے اور جسے میسر نہ ہو تو وہ ( تحفہ دینے والے کی ) تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے تعریف کی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نعمت کو چھپا لیا اس نے کفران نعمت کیا، اور جس نے اپنے آپ کو اس چیز سے سنوارا جو وہ نہیں دیا گیا ہے، تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے“۔

3صلح رحمی کرنا

صلح رحمی کرنے اور رشتے جوڑنے سے مطلب ایک دوسرے کے باہمی شادی بیاہ میں آنا جانا اور دکھ غم میں شریک ہونا ہے اور ان کے لیے وہی چیز پسند کرنا جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں یہ محبت میں اضافے کا طریقہ ہےرشتے جوڑنے سے باہمی محبت بڑتی ہے جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ:

تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، ‏‏‏‏‏‏مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ (سنن الترمذی:1979)

”اس قدر اپنا نسب جانو جس سے تم اپنے رشتے جوڑ سکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آدمی کی عمر بڑھا دی جاتی ہے۔‘‘

یعنی ہر قسم کے رشتے کو جاننے اور ان سے تعلق جوڑنے سے باہمی محبت بڑھتی ہے۔

4ناغہ کرکے ملاقات کرنا

ناغہ کرکے ملنے یعنی تھوڑی تاخیر سے کسی کے پاس جانے اور ملاقات کرنے سے بھی محبت بڑھتی ہے کسی کے پاس ہر روز اور کسی کے پاس وقفا وقفا تاخیر سے جاکر ملنے سے دونوں کی محبت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اس لیے سیدنا حبیب بن مسلمہ الفہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :

زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا (المعجم الاوسط للطبرانی : 296۔ صحیح الترغیب و الترھیب :2583)

’’ناغہ کرکے ملاقات کرو تاکہ محبت میں اضافہ ہو ۔‘‘

5نکاح کرنا

یاد رہے کہ ہمارا معاشرہ عشق کے گند گلازت میں غرق کیا ہوا ہے اور بدبخت لوگ ایسی گندگی کو پاک محبت کا نام دیتے ہیں اور بعض تو(محبت کے نام سے) اس گندے عشق میں ڈوب کر غرق ہوتے ہیں بعض کوشش کرکے اس سے نکاح کرکے اپنے گندے عشق سے توبہ تائب ہوکر شرعی حقیقی محبت (نکاح) حاصل کرلیتے ہیں اور بعض کا نکاح نہیں ہو پاتا اب سوچیں اور اپنے ضمیر سے پوچیں کہ ان دونوں کا کیا حکم ہےجوگندے عشق میں غرق ہوگئے اور نکاح جیسی سنت بھی نہ کر پائے!

اور پھر اس گندے عشق کے ناکامی پر خودکشی جیسے قبیح عمل کرکے اپنا دنیا و آخر برباد کردیتے ہیںان مسلمان مرد اور عورتوںکےلیے یہ خصوصی مشورہ ہے کہ وہ نکاح کرکے حقیقی محبت حاصل کرلیں نکاح سے محبت اوربھی بڑھتی ہے یہی نبوی مشورہ ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول نے فرمایا کہ:

لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ (سنن ابن ماجہ:1847)

’’دو شخص کے درمیان محبت کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی ۔‘‘

اور یہ بھی یاد رہے کہ کبھی دو قوموں کے درمیان عداوت ہوتی ہے جب نکاح کی وجہ سے باہمی رشتہ ہوجاتا ہے تو وہ عداوت جاتی رہتی ہے اور کبھی محبت کم ہوتی ہے تو نکاح سے زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ ہی سبب ہے کہ قرابت دو طرح کی ہوگئی ہے ایک نسبی قرابت اور دوسری سببی قرابت انسان کو اپنی بیوی کے بہائی بہن سے ایسے الفت ہوتی ہے جیسے اپنے سگے بھائی بہن سے بلکہ اس بھی زیادہ ۔

6قبل نکاح ایک نظر دیکھ لینا

نکاح سے قبل ایک نظر دیکھنانبی کریم کاحکم و سنت ہے کیونکہ ایک نظر دیکھ لینے سے بندے کو اسکی ظاہری سیرت صورت کا اندازہ لگ جائے گا ۔

بندہ جس سے شادی کررہا ہوگا اس کی تمام عادات کو جان چکا ہوگا اور وہ بھی اس کو اور اسکے عادات کو دیکھ چکی ہوگی

وہ ایک دوسروں کی عادات سے واقف ہونگے۔ جس سے انکی باہمی محبت میں اضافی ہوگی ۔

 جیسا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  

أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ امْرَأَةً أَخْطُبُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَانْظُرْ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَطَبْتُهَا إِلَى أَبَوَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرْتُهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَأَنَّهُمَا كَرِهَا ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَمِعَتْ ذَلِكَ الْمَرْأَةُ وَهِيَ فِي خِدْرِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَكَ أَنْ تَنْظُرَ فَانْظُرْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا فَإِنِّي أَنْشُدُكَ كَأَنَّهَا أَعْظَمَتْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَظَرْتُ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَتَزَوَّجْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ مِنْ مُوَافَقَتِهَا.

میں نبی اکرم کے پاس آیا اور میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہوں آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے ، چنانچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرم کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا: اگر رسول اللہ نے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کر لی، پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ؛ 1866)

7جوچیزاپنے لیے پسند کرتے ہیںمسلمان بھائی کیلئے بھی وہی پسندکرنا

باہمی محبت بڑھانے کا نبوی طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے اگر خود مہنگی چیزیں اپنے لیے خریدتا ہے تو اپنے مسلمان بھائی کیلئے بھی مہنگی چیز خریدے ایسا نہ ہو کہ اپنے لیے تو اچھی اچھی چیزیں خرید کر استعمال کرے اور سستے دام والی چیزیں اپنے بھائی کے لیے خرید کر لائے بس دوستی کا یا ہمدردی کا فریضہ پورا کرے بلکہ محبت بڑھانے کا نبوی نسخہ یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے نفس کے لیے پسند کرتاہے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ (صحیح البخاری، کتاب الایمان،باب: من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، الحدیث:13)

”تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والانہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے (مسلمان)بھائی کے لیے وہی پسندنہ کرے جواپنے لیے پسندکرتاہے۔‘‘

8جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبتی اختیار کرنا

 جب لوگوں سے امیدیں رکھنا ترک کردینگے فقط اللہ تعالی پر ہی امیدیں ہونگی اس ہی سے ہر چیز طلب کیا کریں گے تو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوگی اور لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں گےجیسا کہ سیدنا سھل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ،‏‏‏‏ وَأَحَبَّنِي النَّاسُ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ،‏‏‏‏ وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ (سنن ابن ماجہ :4102)

نبی اکرم ﷺکے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: دنیا سے بے رغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے ۔

اس لیے کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی توقع پوری کیا کرو اور لوگوںسے اپنے لیے توقع نہ رکھو

مذکورہ بالا چند نبوی نسخے بالاختصار ذکر کیے ہیں دیگر کئی ایسے اعمال بھی اسلام نے سکھائے ہیں جن کے اپنانے سے باہمی محبت میں اضافہ کیاجاسکتاہے۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے اعمال اپنا کر اپنے معاشرے میں محبت والفت اور امن وسلامتی کو عروج دیں۔

لا إلہ الا اللہ…کا مفہوم

آخري قسط

4قربانی:

 یہ بھی عبادت کی ایک قسم ہے جس میں کئی لوگ گمراہ ہو گئے ہیں اور وہ اس ذبح کے ذریعہ غیر اللہ کا قرب حاصل کرنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ نیک لوگوں اوراولیاء اللہ کی قبروں کے پاس جانوروں کو ذبح کرنا یہ دعوی کرتے ہوئے کہ ہمارا صدقہ اس قبر والے مردے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچے گا یہ بعینہ شرک اکبر ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ذبح ہو یا کوئی اور عبادت ہو صرف خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہیے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

آپ فرما دیں کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ تعالی ہی کیلئےہے اسکا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔(الانعام:۱۶۲۔۱۶۳)

 رسول اللہ نے فرمایا :

لَعَنَ اللهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللهِ ( مسلم)

غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت۔

 بلکہ رسول اللہ نے جن جگہوں میں غیر اللہ کی پوجا کی جاتی تھی یا وہاں زمانہ جاہلیت میں میلے لگائے جاتے تھے وہاں پر جانور ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے ۔

5دَم :

 روحانی و جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے ایک شرعی و مسنون عمل ہے اور اس کے علاوہ وہ اشکال جو درست نہیں ہیں جیسا کہ تعویذ، گنڈے وغیرہ اورتعویز گنڈے وہ ہیں جو بچوں کے گلوں میں لٹکائے جاتے ہیں یا بد نظری کے خوف کی وجہ سے انکو استعمال کیا جاتا ہے یا کسی اور سبب سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی حدیث میں تعویز گنڈے اورجھاڑ پھونک منع ہیں رسول اللہ نے فرمایا :

إِنَّ الرُّقَى، وَالتَّمَائِمَ، وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ

بے شک دم، جھاڑ ،گنڈے شرک ہیں ۔(ابو داؤد)

اور ایک معروف حدیث میں سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے گلے میں ایک دھاگہ دیکھا تو انہوں نے اس دھاگہ کے بارے میں اپنی بیوی سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آنکھوں میں بیماری کی وجہ سے اس دھاگہ میںدم کروا کر باندھا ہے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس دھاگے کو کاٹ دیا اور ان سے فرمایا کہ عبداللہ کی آل شرک سے مستغنیٰ ہے ۔ او رآپکو صرف اتنا کہنا کافی ہے ۔

اَذْھِبِ الْبَأسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِی لاَ شِفَاءَ اِلاَّ شِفَاءُ کَ شِفَاءً لاَ یُغَادِرُ سَقَماً

’’اے لوگوں کے پروردگار بیماری دور کر دے اور شفاء عطا فرما تو ہی شفاء عطا کرنے والا ہے ما سوائے تیری شفاء کے کوئی شفاء نہیں ہے جو کسی قسم کی بھی بیماری نہیں چھوڑتی ۔‘‘(ابوداود، ابن ماجہ)

 سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تعویز گنڈے اور جھاڑ پھونک کے شرک ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

جھاڑ پھونک کی حرمت اورعدم حرمت میں کچھ تفصیل ہے جھاڑ پھونک کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک حرام اور شرک ہے

اور دوسری قسم جائز ہے ۔

1حرام تو وہ ہے جس میں شرکیہ الفاظ ہوں اور غیر اللہ سے مدد طلب کی جائے اور اس سے پناہ مانگی جائے ۔

2جائز وہ ہے جوشرک کے شوائب سے خالی ہو بلکہ قرآن وسنت کے الفاظ اس میں ہوں۔ حدیث میں جو منع آیا ہے وہ پہلی قسم سے روکا گیا ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ماسوائے بدنظری یا بچھو کے ڈسنے سے جھاڑ پھونک نہیں ہے ۔(متفق علیہ)

اس حدیث میں دم کروانے کی اجازت ہے ۔

بدنظری اسے کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی اچھی چیز کو دیکھتا ہے تو وہ ماشاء اللہ نہیں کہتا تو بسا اوقات اس کی نظر اس چیز کو لگ جاتی ہے ۔

کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا : بدنظری حق ہے کہ یہ انسان کو لگ جاتی ہے ۔(متفق علیہ)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےرسول اللہ سے اس دم کے متعلق سوال کیا جو وہ کرتے تھے تورسول اللہ نے ان سے فرمایا :

اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ

 تم مجھے اپنے دم درود دکھاؤ جب تک اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم و دردود میں کوئی حرج نہیں ۔(مسلم، ترمذی)

رسول اللہ نے بھی دم کیا او ران پر دم کیا بھی گیا اور انہوں نے اس دم کوبرقرار رکھا ۔چند شروط کے ساتھ دم کروانا جائز ہے ۔

1 قرآن و حدیث یا اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء اور صفات یا سلف صالحین سے منقول شدہ دعاؤں کے ذریعہ ہو ۔

2دَم عربی زبان میں ہو اگر دم کرنے والا عربی کو اچھی طرح نہیں جانتا اور عربی میں الفاظ ادا نہیں کرسکتا تو پھر شرط یہ ہے کہ مترجم دعاء کتاب و سنت کے مطابق ہو ۔

3 آدمی یہ عقیدہ نہ رکھے کہ شفا کا اثر صرف اسی دم میں ہے کیونکہ شفا تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے یہ تو علاج کا ایک ذریعہ ہے ۔ اب رہ گئے تعویذ گنڈے تو یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہیں ان کو باندھنا حرام ہے جب آدمی ان میں خیر کے طلب اور شر کے دور کرنے کا عقیدہ رکھ لے تو یہ شرک اکبر تک پہنچا دیتے ہیں ۔ عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ

 جس نے کوئی چیز لٹکائی اس کو اسی کے سپرد کر دیا جائے گا یعنی اللہ تعالی اس کو اسی طرف چھوڑ دے گا ۔(ترمذی ، أحمد)

ایک دوسری روایت میں ہے :جس نے تعویذ لٹکایا تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے ۔ (مسند احمد)

ایک آدمی رسول اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک حلقہ (کڑا) تھا تورسول اللہ نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ تو اس نے عرض کی کہ میرے جوڑوں میں بیماری ہے جس کی وجہ سے میں نے اس کوپہنا ہے

أَمَا إِنَّهَا لَا تَزِيدُكَ إِلَّا وَهْنًا انْبِذْهَا عَنْكَ؛ فَإِنَّكَ لَوْ مِتَّ وَهِيَ عَلَيْكَ مَا أَفْلَحْتَ أَبَدًا

 تورسول اللہ نے اس کو حکم دیا کہ اس کو اتار دو یہ آپ کی بیماری کو اور زیادہ کر دے گا اور اگر تم اسی حالت میں مر گئے کہ یہ آ پ کے ہاتھ میں تھا تو تم کبھی بھی فلاح نہیں پاؤ گے ۔(مسند احمد، ابن ماجہ)

تمام قسم کے تعویذات لٹکانے کی حرمت پر ادلہ واضح اور روشن ہیں چاہے ان میں قرآن حکیم کی آیات ہی کیوں نہ لکھی ہوئی ہوں ۔ جس نے یہ کہا کہ جس میں قرآن کریم کی آیات لکھی ہوں تو جائز ہے تو اس کی بات کا کچھ اعتبار نہیں اس کے قول کو دلیل نہیں بنایا جائے گا اس لئے کہ اس کی بات پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اگر یہ تعویذ گنڈے مشروع اور جائز ہوتے تورسول اللہ اس کو بیان کر دیتے اور اس عمل کی دلیل صحیح طور پر ہم تک پہنچ جاتی ۔

6وسیلہ :

 وسیلہ کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور شرعًا جس چیز کے ذریعہ مطلوب کا قرب حاصل کیاجائے وسیلہ واسطہ اور سبب ہوتا ہے جو مراد تک پہنچا دے ۔امام ابن اثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : کہ وسیلہ قرب اور واسطہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ کسی چیز تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ قرب حاصل کیا جاتا ہے۔(النہایۃ لابن الاثیر ۵/۱۸۵)

اور القاموس المحیط میں ہے : ایسا کام کرنا جس کے ذریعہ مقصود کا قرب حاصل کیا جائے ۔ (القاموس المحیط ۴/۶۱۲ ۔ مادۃ وسل)

قرآن کریم میں وسیلہ کا یہی معنی ہے جس کی سلف صالحین نے قرآن کریم میں وارد ہونے والے وسیلہ کی تفسیر کی ہے اور یہ اعمال صالحہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے معنی سے نہیں نکلے گا ۔ قرآن کریم میں وسیلہ کا ذکر دو آیتوں میں آیا ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور اس کی طرف نزدیکی کی جستجو کرتے رہو اور اس کی راہ میں جہاد کیا کرو تا کہ تمہارا بھلا ہو ۔ (المائدۃ:۳۵)

جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید واری میں لگے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہیں بات بھی یہی ہے کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔ (الاسراء:۵۷)

امام ابن جریر الطبری ( وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ )کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والے اعمال سے اس کا قرب حاصل کرو ۔

 اورابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وسیلہ کا معنی قرب نقل کیا ہے اور اسی طرح انہوں نے قتادۃ ‘ مجاہد ‘ عبداللہ بن کثیر ‘ سدی ‘ ابن زید رحمہم اللہ اور کئی دوسرے مفسرین سے یہی معنی نقل کیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ اس معنی میں ائمہ مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ وسیلہ وہ ہے جس کے ذریعہ مقصد اور مراد کو پہنچا جائے ۔دوسری آیت کے شان نزول کی مناسبت (جو وسیلہ کے معنی کو واضح کرتی ہے) کو جلیل القدر صحابی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ لوگ جنوں کی عبادت کرتے تھے جن تو مسلمان ہو گئے تھے اور ان لوگوں نے جنوں کے پہلے والے دین کو پکڑ لیا ۔ (بخاری)

اس آیت کی تفسیر میں یہی قول معتبر ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کر کے اس پرصراحت کی ہے ۔قرآن کریم کی آیت وسیلہ کو تقرب إلی اللہ کے معنی میں لینے پر صریح ہے اسی لئے تو یَبْتَغُوْنَ فرمایا یعنی جولوگ اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ۔

جیسا کہ پہلے ا س بات کی وضاحت کی ہے کہ عمل اس وقت تک قبول نہیں ہوتا جب تک خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور سنت کے مطابق نہ ہو ۔ اس اعتبار سے وسیلہ کی دو قسمیں ہیں ۔

1شرعی وسیلہ           2غیر شرعی وسیلہ

1 شرعی وسیلہ :

کتاب و سنت کی طرف رجوع کر کے ہم مشروع وسیلہ کو تین قسموں میں منحصر پاتے ہیں ۔

m اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء اور صفات کے ذریعہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا ۔

mنیک اعمال کے ذریعہ اس کی طرف وسیلہ تلاش کرنا جیسا کہ حدیث غار اس کی بیّن اور واضح دلیل ہےز

mنیک اور زندہ آدمی کی دعا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرنا ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور کا فعل اس پر دلیل کہ وہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی وساطت سے دعا کرتے۔

2غیر شرعی وسیلہ :

جیسا کہ مشروع وسیلہ اور اسکی اقسام اور دلیلیں پہچان لی ہیں لہذا اس کے علاوہ جو وسیلہ ہے جیسے بحق فلاں یا جاہ فلاں غیر شرعی وسائل ہیں اس وسیلہ پر کتاب و سنت کی کوئی نص دلالت نہیں کرتی ا ورنہ ہی اس قسم کا وسیلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ کی طرف سے منقول ہے لہٰذا اس غیر شرعی وسیلہ کے باطل ہونے پر یہی کافی ہے اسی وجہ سے اکثر ائمہ محققین نے اسکا انکار کیا ہے جس کسی بدعتی مولوی نے ا سکی اجازت دی ہے تو اس کے قول کا ادنیٰ سا بھی اعتبار نہیں ہے کیونکہ اس کا قول قرآن و حدیث کی صریح نصوص سے ٹکراتا ہے اور قرآن و حدیث دین میں بدعتیں ایجاد کرنے سے منع کرتے ہیں۔

7 قبروں کی زیارت کا حکم :

 بے شک قبروں کی زیارت کرنا مشروع اور جائز ہے لیکن اس طرح نہیں جس طرح آج لوگ کرتے ہیں ۔ قبروں پر مردوں کیلئے جانا جائز ہے مگر عورتوں کو اجازت نہیں ہے۔رسول اللہ نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا ۔ توسن لو ۔ اب تم ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔ (ترمذی) حدیث میں لفظ فزوروھا (یعنی تم ان کی زیارت کر لیا کرو) عام ہے مردوں اور عورتوں سب کو شامل ہے ۔ جب ہم قبروں پر جائیں تو یہ دعا پڑھیں:

اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الدَّیَارِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُؤْمِنِیْنَ یَرْحَمُ اللہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأخِرِیْنَ وَ اِنَّا اِنْ شَائَ اللہُ بِکُمْ لَلاَحِقُوْنَ

’’تم پر سلامتی ہو اے اس گھر والو مؤمنو اور مسلمانو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے او ربے شک ہم اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں ۔ ‘‘ ( مسلم)

یا اس طرح کی اور دعا پڑھنی چاہیے جو قرآن و سنت میں وارد ہے ۔ لوگوں کی اکثریت حدیث کے بالکل خلاف کر رہی ہے یہ وہاں جاتے ہیں اور ان کے لئے دعا کرنے کی بجائے اپنے لئے دعا کرتے ہیں اور قبروں کو ہاتھ لگاتے ہیں چومتے اور چاٹتے ہیں اور انکی طرف متوجہ ہو کر برکت حاصل کرنے اور خیر طلب یا مصائب کے دور کرنے کی امیدیں وابستہ کرتے ہیں ۔ یہ سب مشرکانہ حرکات اور بدعتی افعال ہیں رسول اللہ نے ان حرکات اورافعال پر تنبیہ کی ہے ۔ کیونکہ کبھی کبھار ایسا کرنے سے انسان شرک اکبر میں واقع ہو جاتا ہے خصوصاً جب قبر والے مردے سے یہ اعتقاد رکھ لے کہ یہ مردہ سنتا ہے اور دعا کو قبول کرتا ہے یاغیب جانتا ہے یا مصیبتوں کو دور کرتا ہے اب ان باتوں (کرتوتوں) پر تنبیہ کرنا واجب ہے اگرچہ قبروں کی زیارت کرنا مردوں کیلئے مستحب ہے لیکن زیارت کرنے کے لئے مستقل سفر کرنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی مسلمان اپنے شہر کے مسلمانوں کے قبرستان پر جائے کیونکہ یہ سفر میں شمار نہیں ہوتا ۔ اب بڑی مصیبت تویہ ہے کہ قبروں کی تعظیم کی جارہی ہے اور انکو اونچا کرکے اوپر قبے بنائے جائے جارہے ہیں اور انکو سجدے کئے جارہے ہیں باوجود اس کے کہ کئی احادیث نبویہ ان چیزوں کی نہی میں وارد ہوئی ہیں۔

8زندہ انسان کے عمل سے میت کو فائدہ پہنچنے کا حکم:

 اہل سنت و جماعت نے اتفاق کیا ہے کہ مُردوں کو دو وجہوں سے زندہ انسان کے نیک عمل سے فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔

1 وہ عمل خیر جس میں میت اپنی زندگی میں سبب اور ذریعہ بنا ہو مثلاً کوئی کنواں وغیرہ وقف کر دیا ، یااس نے وصیت کی کہ میرے مال سے مسجد بنوا دینا یا اس نے کوئی اور صدقہ جاریہ کیا ہو ۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور اس کی دلیل رسول اللہ نے فرمایا :

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ

 جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس سے اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں میں ختم نہیں ہوتا 1 صدقہ جاریہ2 یا اس نے نیک لڑکا چھوڑا ہو جو اسکے لئے دعا کرتا رہا ہو 3یا اس نے علم چھوڑا ہو جس سے فائدہ حاصل کیا جاتا رہا ہو۔ (مسلم)

2 مسلمان اس میت کیلئے دعا اور استغفار کریں مثلاً میت کی طرف سے صدقہ کریں یا حج کریں ۔ یا روزہ رکھیں اور ان اعمال کے ثواب پہنچنے کی اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کریں ۔ اور اس کی دلیل اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال ۔ اے ہمارے رب تو شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے ۔ (الحشر:۱۰)

ابو داؤد نے سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کی ہے و ہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ میت کو دفنا کر فارغ ہو جاتے اور اسکی قبر پر ٹھہر جاتے تو فرماتے :

اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ

اپنے بھائی کے لئے بخشش کی دعا کرو اور اس کے لئے ثابت قدمی کا سوال کرو اسلئے کہ اب اس سے پوچھا جا رہاہے۔ (ابو داؤد)

میت کو صدقہ کے ثواب پہنچنے کی دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ کے پاس ایک آدمی آیا تو اس نے عرض کی : 

 إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأُرَاهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْهَا

اے اللہ کے رسول میری والدہ وفات پا گئی ہے اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات کرتیں تو وہ صدقہ کرنے کے بارے میں وصیت کرتی اگر میں انکی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انکو اس کا ثواب پہنچ جائے گا ؟ ۔ تورسول اللہ نے فرمایا (نعم) ہاں پہنچ جائے گا۔ (بخاری)

اور یہ بات واضح رہے کہ تمام عبادتیں توقیفی ہیں ان میں قیاس کرنا جائز نہیں ہے ۔ لہذا مُردوں پر قرآن کریم پڑھنے والے مولویوں نے تو اپنے اپنے دفتر کھول رکھے ہیں تاکہ لوگ ان کے پاس آئیں اور اپنے مردوں پر قرآن کریم پڑھوائیں اور ان سے یہ بدبخت اجرت وصول کریں ۔ بلکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اجرت کی حد بندی میں سودے بازی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں پھر مردے کے پاس جلسے منعقد کرتے ہیں اور قرآن خوانی اور ولیموں کے ذریعہ مردوں کو تازہ دم کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ قبیح حرکت مرنے کے سات دن بعد کرتے ہیں اور پھر چالیس دن بعد پھر سال بعد اور پھر ہر سال بعد مستقل طور پر اس مردے کا دن منایا جاتا ہے ۔

دوسرا حصہ’’ محمد رسول اللہ‘‘ کا مفہوم

رسول اور نبی کا تعلق اپنی اپنی امت میں سے ہی ہوتا ہے ان پر بھی وہی احوال جاری ہوتے ہیں جو تمام بشر پر جاری ہوتے ہیں مثلاً موت و حیات ۔ اور ان کو بھی کھانے ، پینے ، سونے ، جاگنے ، راحت و آرام ، نکاح و شادی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس طرح دوسرے انسان ان چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں ۔ مگر اللہ تبارک و تعالی نے ان کو وحی عطا کرنے اور تبلیغِ رسالت کے ذریعے تمام انسانوں سے ممتاز کیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ

آپ کہہ دیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ہاں میری طرف وحی کی جاتی ہے تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ۔( الکہف:۱۱۰)

تمام امتوں میں رسولوں کی دعوت ایک ہی رہی ہے اور وہ خالص اللہ تبارک و تعالی کی توحید کی طرف دعوت دینا ہے اور توحید کو شرک و بدعت اور معاصی سے خالص کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ

اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی شریعت مقرر کر دی ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے سیدنا نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھااور جو بذریعہ وحی ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسی اور عیسی علیہم السلام کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم کرنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔ (الشوری:۱۳)

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ

اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو (اور اس کے علاوہ تمام معبودوں سے بچو) (النحل:۳۶)

محمد رسول اللہ کا مفہوم اس لیے اہم ہے کہ موجودہ زمانہ کے مشرکین نے رسول اللہ کے بارے میں بہت غلط اور باطل عقائد وضع کیے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں وہ شرک کے مرتکب ہو چکے ہیں اور ایسی صفات جو صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں ،رسول اللہ کا موجود مزکی انہی صفات سے متصف کیا جا رہا ہے جن میں سے بعض کا ذکر کیا جا چکا ہے اور کچھ کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

کیا اللہ تعالی کے رسول غیب جانتے ہیں ؟

اللہ تعالی کے رسول غیب نہیں جانتے مگر جس کا اللہ تعالی نے انہیں علم دیا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا

وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا ما سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرے لیکن اس کے آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے تاکہ ان کو اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے ۔ (الجن:۲۶ تا ۲۷)

اللہ تبارک و تعالی نے اپنے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

آپ کہہ دیں کہ میں خود اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالی نے چاہا ہو اور اگرمیں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی مضرت مجھ پر واقع نہ ہوتی میں تو محض ڈرانے اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ۔ (الاعراف:۱۸۸)

 قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا

آپ کہہ دیں کہ میں تمہارے لئے کسی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں ۔(الجن:۲۴)

جن لوگوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء رحمہم اللہ بھی اللہ تبارک و تعالی کے علاوہ غیب جانتے ہیں تو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالی پر بہتان باندھا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالی کا شریک ٹھہرایا ہے اور ان کا یہ دعوی قرآن و حدیث کی نصوص سے ٹکراتا ہے ۔

اکثر لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں غلو کرنے میں مبالغہ کیا ہے یہاں تک کہ کئی ایسے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ تمام دنیا کی مخلوق رسول اللہ کے نور سے پیدا کی گئی ہے اور اس پر موضوع ، من گھڑت  جن کی حدیث کی کتابوں میں کوئی اصل نہیں ہے ، دلیلیں پیش کرتے ہیں اور یہ بھی گمان فاسد کرتے ہیں کہ رسول اللہ اپنی قبر میں اسی طرح زندہ ہیں جس طرح وہ اپنے رفیق اعلی کی طرف منتقل ہونے سے پہلے زندہ تھے۔ اگر یہ بات اسی طرح ہوتی تو ان کے رسول اللہ کے پیچھے نماز کو چھوڑنے اور آپﷺ سے کئی گنا کم مرتبہ والے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوئی وہاں مقبول وجہ نہ ہوتی ۔

جی ہاں انبیاء علیہم السلام کی حیات پر صحیح احادیث دلالت کرتی ہیں ، جیسا کہ شہداء کی حیات پر قرآن کریم نے صراحت کی ہے لیکن یہ برزخی حیات ہے جس کی کیفیت کو ماسوائے اللہ تعالی کے کوئی نہیں جانتا ۔ اور برزخی زندگی کا دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے ۔

اکثر مسلمانوں کی حالت رسول اللہ کی شان میں غلو کرنے کی وجہ سے خطرناک مرحلہ تک پہنچ چکی ہے ۔حتی کہ انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ رسول اللہ نفع اور نقصان کے مالک ہیں اور وہ پکارنے والے کی پکار کا جواب بھی دیتے ہیں اوریہ کہ انکے قبضہ میں سب کچھ ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا:

لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ، وَرَسُولُهُ

(اے میری امت کے لوگو) تم میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا ہے میں بندہ ہوں پس تم (مجھے) اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو۔(بخاری)

رسول اللہ کو اتنا فخر کافی ہے کہ آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور آپ سیدناآدم علیہ السلام کی اولاد کے سردار ہیں اور شفاعت کرنے والے ہیں اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور آپ حوض کوثر والے ہیں اور مقام محمود والے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی آپ کئی خصوصیات کے مالک ہیںآپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلام ہو ۔

نبی کریم سے محبت کرنے کا طریقہ آپ کی شان میں غلو اور مبالغہ کرنے میں نہیں ہے ۔ بلکہ آپکی محبت آپ کی سنت اورآپ ﷺکے راستہ کی اتباع اور پیروی کرنے میں ہے ۔

رسول اللہ کی حیات ابدی کا تصور بھی غیر اسلامی ہے اور اسی طرح ان کے حاضر ناظر ہونے والا عقیدہ بھی اسی ضمن میں متصور کیا جائے گا۔

آخر میں یہ بیا ن کیا جائے گا کہ کسی مسلمان کا کون سا عمل قبول کیا جائے گا اور کون سا رد کیا جائے گا ۔

قبول عمل کی شرطیں

تمام عبادتیں توقیفی ہیں کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق عبادت کرے بلکہ اس طریقے کے مطابق عبادت کرے جس کو قرآن کریم اور سنت رسول اﷲ نے بیان فرمایا ہے یعنی کسی بھی عمل کے صحیح ہونے کے لئے دو بنیادی شرطوں کا ہونا ضروری ہے اور ان دونوں شرطوں کا ایک ساتھ پایا جانا ضروری ہے ۔

پہلی شرط : اکیلے اللہ تبارک و تعالی کے لئے عبادت کو خالص کرنا

 وہ یہ کہ عمل کرنے والا اپنے عمل سے اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا کا ارادہ کرے جو ریاکاری اور شہرت سے دور ہو وہ اپنے اس عمل سے کسی سے بدلہ تلاش نہ کرے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی نصوص کثرت سے وارد ہیں ۔

اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :

فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ

پس تو اللہ تعالی ہی کی عبادت کراس کے لئے عبادت کو خالص کرتے ہوئے۔ (الزمر:۲)

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ

اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصہ کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ تعالی نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے توبھی احسان کرتا رہے ۔ (القصص:۷۷)

رسول اللہ نے فرمایا جو کہ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

 أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ

میں تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی ہوں جس نے کوئی عمل کیا اور میرے ساتھ اس میں میرے غیر کو شریک کیا تو میں اس کا عمل اور اس کا شرک چھوڑ دوں گا ۔ (مسلم)

یعنی اللہ تعالی اپنی عبادات مالیہ، قولیہ اور بدنیہ میں کسی کی شراکت گوارہ نہیں کرتا ۔ اس لئے کہ اس وقت اخلاص اور انسان کا اپنے عمل سے دنیا کا ارادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ممکن نہیں ہوتا ۔

 جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا :

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى

اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے ہر آدمی کے لئے وہی ہو گا جس کی اس نے نیت کی ۔(بخاری )

دوسری شرط:رسول اللہ e کی متا بعت کرنا

وہ عمل جس کے ذریعہ ہم اللہ تعالی کا قرب حاصل کرتے ہیں اس آئین کے مطابق ہو جسے اللہ تعالی نے یا رسول اللہ نے بیان کیا ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے ہمارے دین کو مکمل کر دیا ہے اب اس میں کسی کمی و زیادتی کی حاجت نہیں رہی ۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ :

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور میں نے اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کوبحیثیت دین پسند کر لیا ۔ (المائدۃ:۳)

ایسی بہت سی آیات ہیں جو اتباع سنت کا حکم دیتی اور دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرنے سےمنع کرتی ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

 یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ موجود ہے ۔ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہو اور بکثرت اللہ تعالی کو یاد کرتا ہو۔ (الاحزاب:۲۱)

اور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا :

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا

جو رسول اللہ تم کو دے اس کو لے لو اور جس سے روکے اس سے باز آجاؤ ۔ ( الحشر:۷)

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ

کہہ دیں اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری تابعداری کرو تو اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا ۔ (آل عمران:۳۱)

اس سلسلہ میں احادیث رسول بھی کثرت سے وارد ہوئی ہیں ۔ رسول اللہ نے فرمایا :

 فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

تم پر میری سنت اور میرے بعد خلفاء الراشدین کی سنت لازم ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو اور نئی بدعتیں ایجاد کرنے سے بچ جاؤ اس لئے کہ (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں (لے جانے کا سبب بنتی )ہے ۔(ترمذی ، ابن ماجہ)

رسول اللہ نے فرمایا :

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ

میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں جب تک تم ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ ایک کتاب اللہ ہے اور دوسری میری سنت ہے ۔(مؤطا)

رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ

جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز گھڑی جو اس سے نہیں تو وہ رد ہے۔ (بخاری)

یہ تمام نصوص رسول اللہ کی اطاعت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو عمل رسول اللہ کی فرمانبرداری کے بغیر ہو اس کی کوئی قبولیت نہیں ہے ۔

ان دونوں شرطوں کو سورۃ الکہف کی اس آیت نے جمع کیا ہے :

فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا

جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نیک عمل (سنت کے مطابق ) کرے اوراپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (الکہف:۱۱۰)

اللہ سبحانہ و تعالی نے حکم دیا ہے کہ عمل سنت کے مطابق ہو پھر حکم دیا ہے کہ عمل کرنے والا خالص اللہ تعالی کے لئے عمل کرے اور اس عمل کے ذریعہ اس کے سوا کسی کا قرب تلاش نہ کرے ۔ اور رسول اللہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔

سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سنا کہ کچھ لوگ روزانہ مغرب کی نماز کے بعد جمع ہوتے ہیں اور اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ ، سبحان اللہ کو بیک آواز بار بار دہراتے ہیں توعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان لوگوں پر نکیر فرمائی اور فرمایا اللہ کی قسم تم لوگ ظلماً بدعت لائے ہو اور تم علم کے اعتبار سے اپنے رسول اللہ کے صحابہ سے فضیلت لے جانا چاہتے ہو۔ (دارمی)

اب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لا الہ الا اللہ یا سبحان اللہ کہنے پر نکیر نہیں فرمائی اس لئے یہ تو ذکر ہے بلکہ انہوں نے اس ہیئت پر جس کے ذریعہ ذکر کر رہے تھے نکیر فرمائی ہے اس لئے کہ اس حالت میں جمع ہو کر ذکر کرنا رسول اللہ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ، جنہوں نے آپﷺ سے روایت کیا اور آپﷺ سے اذکار کو سیکھا اور آپؐ سے سنا ، کے نزدیک مشروع نہیں ہے ۔

آخر میں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ ہمیں توحید وسنت کو اپنانے اور اس کے تقاضوںکوپورا کرتے ہوئے شرک وبدعت سے بچائے۔ آمین

۔۔۔

مدارس اسلامیہ کے طلبہ میں خود اعتمادی کا فقدان

احساس کمتری میں مبتلا شخص اپنے آپ کو نکما ، ہر فیلڈ میں ناکام، اور کمزور سمجھتا ہے، اپنی قدر اور منزلت کا ادراک نہیں کر پاتا۔

 جبکہ متکبر اور مغرور شخص اپنے آپ کو ہر ایک سے بہتر با صلاحیت، با کردار جانتا ہے، چادر سے بڑٖھ کر پاؤں پھلاتا ہۓ دوسروں کی تحقیر اور تمسخرء پر اتر آتا ہےاور پُر اعتماد شخص اپنی صلاحیتوں کو سمجھتا ہے، اسے ہر مناسب موقع پر استعمال کرتا ہے، جب بات کرتا ہے تو مخاطب کے شخصی دباو کو قبول کیے بغیر اپنا مدعا دو ٹوک الفاظ میں بیان کرتا ہے. کسی سے ملتا ہے تو نظریں جھکا کر نہیں ملتا، بلکہ نظریں ملا کر گرم جوشی سے ملتا ہے، ہیئت وحرکات (باڈی لینگویج) سے کمزوری کا پہلو ظاہر نہیں ہوتا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دینی مدارس شرعی علوم کے محافظ ہیں ، حب الوطنی وفاداری کے قلعہ ہیں ، یہ ایک چشمہ ہے جس سے سماج کے بارے لوگ اپنے کشت ایمانی کی ابیاری کرتے ہیں ، یہ مدارس معاشرے میں ایک اکلوتا لو کی مانند ہیں ، جس سے لوگ اپنے چراغ روشن کرتے ہیں ، اس کے آغوش تربیت میں پل کر ایسے علما فضلا سیاسی سماجی قومی وملی سماجی قائدین نکلے جنہوں نے دین وملت کی گراں قدر خدمات کیں ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ داخلی اور خارجی بعض وجوہات کی بنیاد پر ان کی کارکردگی بھی  متأثر ہوئے بغیر نہ رہی ۔

ان کی اس کارکردگی کو متاثر کرنے میں زیادہ تر اس روشن خیال قوت کا ہاتھ ہے جو کسی طرح مدارس سے اسلامی روح کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہ روشن خیال طاقتیں مختلف وسائل کے ذریعے ان مدارس میں پڑھنے والے طلبا کے اندر احساس کمتری پیداکرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ، تاکہ ان کے اندر سے خود اعتمادی کی دولت کو ختم کی جائے ۔ بظاہر یہ طاقتیں کچھ نہ کچھ اپنے ان منصوبوں میں کامیاب ہوئی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے مدارس میں پڑھنے والے طلبا میں خود اعتمادی کا فقدان واضح طور پر محسوس کیا جاتاہے ، ان سے اپنی تعلیم سے اعتماد اٹھتاجارہاہے ۔ ان میں سے غالب اکثریت مرعوبیت کاشکار ہیں، اکثرطلبا کسی کے سامنے ٹھیک طرح سے گفتگو بھی نہیں کرپاتے ہیں ۔

ان طلبہ کے اندر خود اعتمادی کے فقدان کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ، جن میں بچپن میں والدین اور بڑوں کا ان کے ساتھ رویہ ، گھریلو ، سماجی ، اقتصادی عوامل ، ذاتی صلاحیت وغیرہ ۔ لیکن ان عوامل کی تلافی کےلئے جدوجہد ایک ادارہ کے بس کا روگ نہیں ، اور غالبا ان عوامل کا اس کمزوری میں دخل انتہائی محدود ہوتا ہے ۔

چونکہ طلبہ اکثر وقت مدرسہ کی چاردیواری کے اندر گزرتا ہے ، اور مدارس ایک محض علمی تربیتی مرکزہوتا ہے جس کا ہدف ہی مردم سازی ہے اس لئے اگر ان کی سیرت و کردارپران کی کار گزاری پر اگر قدغن آتا ہے، ان کی پرواز میں کوتاہی آئے تو اس کی ذمہ داری اس مردم ساز ادارے پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے ان کی تعمیر سیرت میں تغافل برتا ہے ۔

 مزید برآں ! کسی بھی تعلیمی ادارے میں طلبہ کی کمزوری کو دور کرنے کے لئے مختلف اسباب کا کھوج لگا کر مختلف وسائل کے ذریعے ان اسباب کے تدارک کےلئے وقتا فوقتا کوششیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لئے اس مضمون میں بعض عوامل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ارباب مدارس اپنے طلبا ءمیں خود اعتمادی کو بحال کرنے

پر توجہ دیں ، اور ان کی اندرسے احساس کمتری کے ناسور کو ختم کرنے کےلئے مثبت قدم اٹھاسکیں، تاکہ عملی زندگی میں ان کے قدم نہ ڈگمگا سکیں ، اور ہر فورم پر ڈنکے کے چوٹ پر بات کرسکیں۔ اس المیہ میں جہاں عالمی میڈیا مختلف وسائل کے ہاتھ ہیں ،وہاں ذمہ داران مدارس اور اساتذہ کو برئ الذمہ نہیں قراردیاجاسکتاہے ، اکثر مدارس میں تعلیم پر زور دیاجاتاہے ، لیکن ان کی تربیت پر اتنااہتمام نہیں کیاجاتاہے ، جتنا اس کی ضرورت ہے ،تعلیم سر ٹیفیکٹس تو  ہاتھ میں تھما دیتے ہیں لیکن خود اعتمادی کی دولت سے مالامال نہیں کرتے جس کے بل بوتے پر وہ آن بان شان سے معاشرے میں جی سکیں ، ہر مضمون میں ۹۹نناوے ، سو نمبر دے دیتے ہیں ، لیکن اسی مضمون میں کہیں انٹریوکےلیے بلایا جائے تو طالب علم پورے اعتماد کے ساتھ سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے ۔

 اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہے ، تعلیمی ذمہ داران کو اس جانب دہیان دیناہوگا، تعلیم کے ساتھ تربیت کے پہلو پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔امام مالک رحمہ اللہ کو جب ان کی ماں نے ربیعہ بن عبد الرحمن الرأی کےپاس حصول علم کےلیے بھیجا تو یہ نصیحت کی :

يا بني اذهب إلى ربيعة فتعلم من أدبه قبل علمه

بیٹا ربیعہ کی مجلس میں بیٹھے تو ان سے ادب کی تربیت پہلے لینا علم کو بعد میں حاصل کرنا۔

مدارس کے ذمہ داران کو ذرا سوچنا ہوگا کہ ہمارے طلبہ میں کسر نفسی کہاں سے آگئی ، اعتماد کافقدان کیوں کہاں سے سرایت کر آیا، اپنی تعلیم کی قدر ان کے دلوں میں کیوں نہیں ہے ،کسی بھی معیاری درسگاہ کی ذمہ داری صرف نصابی تعلیم دینا ہی نہیں بلکہ انکی ہر لحاظ سے تربیت بھی کرنا، تاکہ وہ سماج میں ایک فعال باکردار ممبر بن سکے۔

1 مدارس کے منتظمین اور مشرفین کی جانب سے طلبہ کو طعنے

طلبہ کےاندر احساس کمتری کی بنیادی وجہ مدارس کے مشرفین اساتذہ ، ذمہ داران کی جانب سے طلباءکی معمولی غلطی پر دئیے جانے والے طعنے ہیں ( تم زکاۃ کھاتے ہو پھر یہ کرتے ہو ، تم چندہ کے مال پر اتراتے ہو۔ ایسے طعنے اکثر وبیشتر مدارس میں طلباءکو دئیے جاتے ہیں ،ایسے طعنوں سے ان کی نفسیات پر بم گرتے ہیں ، ان کی صلاحیتیں محدود ہوتی ہیں ،ان کے اندر یہ احساس سر اٹھاتاہے کہ تم غریب ہو ، تم نادار ہو ،تم کچھ نہیں بن سکتے ،پھر ان کی ہمت پست ہوتی ہے ، نگاہیں کج ہوتی ہیں ۔ نظریں معمولی چیز پر ہوتی ہیں قومی وملی قیادت کےلئے کوشش کرناچھوڑ دیتے ہیں. حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے ۔

یہ درست ہے کہ ریاست نے دینی مدارس کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر پاک وہند پر برطانوی سامراج کے بعد یہ مدارس اہل خیر کے تعاون سے چلتے ہیں ، جسے اساتذہ اور ارباب مدارس بھی مستفید ہورہے ہیں، لیکن اسے ایک طعنے کے طورپر استعمال کرنا طلبہ کے نفسیات پر جنگ مسلط کرنے کے مترادف ہے ۔ارباب تعلیم کے ذمہ داری ہے کہ طلباءکو یہ احساس دلایا  جائے کہ ان کے مقاصد تعلیم قوم وملت کی ہر شعبہ میں راہنمائی ، دینی روایات واقدارکو زندہ رکھنا ، رواداری کوفروغ دینا ، اور فکر ونظرکو بلند رکھنا ہے صرف قرآن خوانی ، سوالاکھ ، کا ورد کرنا ، نکاح خواں بننا نہیں ۔

2 حوصلہ افزائی کا فقدان

یہ انسانی فطرت ہے کہ جب اس کے کسی اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائی کی جائے ،اس کی معمولی کارکردگی پر کھل کرداد دی جائے تو اس کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آتاہے ،اس کااعتماد بڑھتاہے، مزید اچھی کارکردگی کےلئے محنت کرتاہے ، اس کے برعکس اس کے ہرکئے پر نکتہ چینی ہو ، اس کی کارکردگی کو مذاق بنایاجائے تو اس کے سارے شوق ٹھنڈے پڑھ جاتےہیں اس کی ساری امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔کامیاب مربی اپنے تلامیذ کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتاہے ، ایک دن سیدناعمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے نبی کریم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے ۔

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ ( البقرۃ : 266)

کیاتم میں سے کوئی یہ پسند کرتاہے کہ اس کاایک باغ ہو) سب نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا ہے یہ سن کر سیدناعمر رضی اللہ عنہ خفاہوگئے اور فرمایا صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ علم نہیں ،سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امیر المؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹے ! تم بتادو اور اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیاکہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے ۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیسے عمل کی ؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:کسی عمل کی ۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتاہے ، پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتاہے ، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتاہے ، اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہوجاتے ہیں ۔

ابن حجر رحمہ اللہ شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس اثر سے یہ معلوم ہوا کہ عالم دین کو اپنے باصلاحیت تلامیذکو ان سے عمر میں بڑوں کی مجلس میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ، کیونکہ اسے ان کے علمی سرگرمی میں نکھار آتاہے ،اپنے اوپر اعتماد اور علمی رغبت بڑھتی ہے ۔

3  سوال کرنے پر داد دینے کے بجائے جھاڑ دینا، علمی نکتہ اٹھانے پر معلم کو خوش ہونے کے بجائے اپنے علمی قد پر ڈاکہ تصور کرنا

معلم انسانیت محمدرسول اللہ جب اپنے پیارے اصحاب میں سے کوئی اچھاسوال کرتا تو داد دیتے تھے ، اور ساتھ ساتھ دعابھی کیا کرتے تھے، وہبی صلاحیتوں کی تعریف کرتے تھے۔

 صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول سے عرض کیا یارسول اللہ ! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے زیادہ سعادت کسے ملے گی ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ مجھے یقین تھاکہ تم سے پہلے کوئی اس بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کریگا کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری دلچسپی دیکھ لی تھی ۔ سنو! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہوگا۔ جو سچے دل سے یاسچے جی سے (لاالہ الااللہ) کہےگا ۔( صحیح البخاری )

سیدنا ابو موسی الاشعری tکی آواز بہت خوبصورت تھی آپ ﷺنے ابو موسی سے مخاطب ہو کر فرمایا:

 لَقَدْ أُوتِيَ أَبُو مُوسَى مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ

ابو موسى تجھے داود علیہ السلام جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے۔(صحیح البخاری:5048)

جب وقد عبد القیس اللہ کے رسول سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ان میں  پیشانی پر زخم والے ایک شخص تھا انہیں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ: الْحِلْمُ، وَالْأَنَاةُ

تم ميں دو خوبیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے عقل ودانشمندی تحمل اور ٹھہراؤ۔ (صحيح مسلم1/ 48)

سفیان بن عیینہ الھلالی فرماتے ہیں : میں بیس سال کی عمر میں کوفہ میں داخل ہوا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، میرے آنے پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے تلامیذسے فرمایا: مکہ مکرمہ میں عمروبن دینار کے علم کا حافظ اسکا تلمیذ رشید سفیان بن عیینہ آیاہے کہ سارے لوگ آکر مجھے عمروبن دینار کے متعلق پوچھنے لگے ، ابن عیینہ کہتے ہیں : مجھے سب سے پہلے ابو حنیفہ نے محدث بنایا۔ (سیر اعلام النبلاء)

4 علمی کمزوری :

علم ، ومعرفت انسان کے اندر اعتماد ، جرات ، بہادری پیدا کرتاہے ، جبکہ جہل انسان کوبزدل ، اور کمزور کرتا ہے۔ سورۃ النمل میں آتاہے سیدناسلیمان علیہ السلام نے پرندوں کا جائزہ لیا ، اور فرمانے لگے یہ کیابات ہے کہ میں ہدہدکونہیں دیکھتا ، کیاواقعی وہ غیر حاضر ہے ؟ یقینا میں اسے سخت سزا دو ں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یاوہ میرے سامنے کوئی صریح دلیل بیان کرے

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ  (النمل: ۲۰؍۲۲)

کچھ دیر نہ گزری تھی کہ آکر اس نے کہا میں ایک ایسی چیز کی خبر لایاہوں کہ آپ کو اس کی خبر نہیں ہیں ، میں سباء کی ایک سچی خبر آپ کے پاس لایا ہوں ۔

ہد ہد ایک چھوٹاساپرندہ ایک بادشاہ کے سامنے بڑی خود اعتمادی جرات سے بیان کرتاہے

أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ

اگر ہدہد کےپاس علم اور معرفت نہ ہوتی تو اس خود اعتمادی اور جرات کےساتھ باد شاہ کے سامنے اس زبان میں بات نہیں کرسکتاتھا۔

ایک حکایت مشہور ہے :کسی استاذ کے سامنے ایک مسئلہ دریافت کیاگیاتو اس نے لاعلمی کااظہار کیا، مجلس میں موجود ان کے کسی شاگرد رشید نے کہامجھے اس بابت علم ہے ، استاذ کو غصہ چڑھا ،شاگرد کہنے لگے : استاذجی! آپ علم وفضل کی چوٹی پر پہنچے تب بھی سلیمان علیہ السلام کے علم وفضل کو نہیں پہنچےمیں جہالت کی آخری ڈگری پر پہنچے تب بھی ہدہد سے جاہل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہدہدآکے سلیمان سے کہتاہے ( أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ) (مجھے ایسی چیز کے بابت خبر ملی ہے جس کا تمہیں علم نہیں) اس کے باوجود سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کو زیر عتاب نہیں کیا۔( مفتاح دارالسعادۃ ، ۱؍ ۲۶۸)

 جسے تیر نا نہیں آتا وہ سمندر میں اترنے سے ڈر جاتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی طالب علم علمی کمزوری کا شکار ہو ، اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں ہوتا ہے ، ہمیشہ جھجکتے رہتے ہیں اور یوں باوقار زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

ارباب مدارس کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، طلبہ کے اندر سے کھوئی ہوئی خود اعتمادی کو بحال کرنے کے لئے مختلف وسائل کو بروئے کار لاناچاہئے، اساتذہ معلمین کے لئے تربیتی کورسز کا اہتمام ضروری ہے۔

کم از کم مہینہ میں ایک بار طلبہ کے عملی زندگی سے متعلق تجربہ کار اشخاص کے لیکچرز رکھنے کا بندوبست کرنا چاہئے تاکہ عملی زندگی کے خدوخال ان کے ہاں واضح ہو ، اور اس کے لئے ازخودمنصوبہ بندی کرنے کے لائق بن سکے۔

۔۔۔

بارش کے احکام ومسائل

 قارئین کرام ! بارشوں کا موسم چل رہا ہے وطن عزیز کے کافی مقامات پر ابر رحمت برس پڑی ہے اسلام نے جہاں ہر مقام پر اپنے ماننے والوں کی رہنمائی کی ہے وہیں بارش کے متعلق بھی ان کی رہنمائی کی ہے اور ان کو  احکام عطا کیے ہیں ۔

لہذا آئیں ذیل میں بارش اور اس کے بعض احکام ملاحظہ فرمائیں ۔

1 بارش ہونے کا علم صرف اللہ کو ہے

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، کل کیا کرنا ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں ، نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی ۔

وَمَا يَدْرِي أَحَدٌ مَتَى يَجِيءُ الْمَطَرُ (صحیح بخاری : 1039)

’’اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی ۔‘‘

2 بارش ایک عظیم نعمت ہے

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

وَهُوَ الَّذي يُنَزِّلُ الغَيثَ مِن بَعدِ ما قَنَطوا وَيَنشُرُ رَحمَتَهُ وَهُوَ الوَلِيُّ الحَميدُ  (سورة الشورى : 28)

اور وہی ہے جو لوگوں کے نا امید ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے وہی کارساز اور قابل حمد و ثنا ہے ۔

3 بارش کا پانی پاک ہے

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

وَأَنزَلنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهورًا  (سورة الفرقان: 48)

اور ہم نے آسمان سے پاک پانی نازل کیا ۔

4 بارش کا پانی بابركت ہے

وَ نَزَّلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ  مَآءً مُّبٰرَکًا فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الۡحَصِیۡد  (سورة ق : 9)

اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا ہے اور اس سے باغات اور کٹنے والے کھیت کے غلے پیدا کئے ہیں ۔

5 بارش کی حالت میں اللہ سے ڈرنا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو کبھی کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کے کوے کو دیکھ سکوں، آپ تو صرف تبسم فرماتے تھے، آپ جب بدلی یا آندھی دیکھتے تو اس کا اثر آپ کے چہرے پر دیکھا جاتا ( آپ تردد اور تشویش میں مبتلا ہو جاتے ) تو ( ایک بار ) میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! لوگ تو جب بدلی دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی، اور آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ جب بدلی دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے سے ناگواری ( گھبراہٹ اور پریشانی ) جھلکتی ہے ( اس کی وجہ کیا ہے؟ ) آپ نے فرمایا :

يَا عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏مَا يُؤَمِّنُنِي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ قَدْ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ 

اے عائشہ ! مجھے یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں اس میں عذاب نہ ہو، کیونکہ ایک قوم ( قوم عاد ) ہوا کے عذاب سے دو چار ہو چکی ہے ۔(سنن ابی داؤد : 5098)

6 ستاروں سے بارش کی امید رکھنا

سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ ﷺلوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا : پروردگار فرماتا ہے .

أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ (صحیح بخاری : 1038)

آج میرے دو طرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا : اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا : فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔

7 بارش طلب کرنے کی مسنون دعائیں

اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّ اسْقِنَا، اللَّهُمَّاسْقِنَا . (صحیح بخاری : 1013)
اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا،اللَّهُمَّ أَغِثْنَا (صحیح بخاری : 1014)
اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا مُغِيثًا مَرِيئًا مَرِيعًا نَافِعًا غَيْرَ ضَارٍّ عَاجِلًا غَيْرَ آجِل . (سنن ابی داؤد : 1169)

8 بارش ركوانے کی دعا

اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَاوَلَا عَلَيْنَا  (صحیح بخاری : 933)

9 بارش طلب کرنےکیلئے نماز استسقاء ادا کرنا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے بارش نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے منبر ( رکھنے ) کا حکم دیا تو وہ آپ کے لیے عید گاہ میں لا کر رکھا گیا، آپ ﷺنے لوگوں سے ایک دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا وعدہ لیا، تو رسول اللہ (حجرہ سے ) اس وقت نکلے جب آفتاب کا کنارہ ظاہر ہوگیا، آپ ﷺمنبر پر بیٹھے، اللہ تعالیٰ کی تکبیر و تحمید کی  ….پھر آپ ﷺنے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اتنا اوپر اٹھایا کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی، پھر حاضرین کی طرف پشت کر کے اپنی چادر کو پلٹا، آپ اپنے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور اتر کر دو رکعت پڑھی

فَأَنْشَأَ اللَّهُ سَحَابَةً فَرَعَدَتْ وَبَرَقَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَمْطَرَتْ بِإِذْنِ اللَّهِ (سنن ابی داؤد : 1173)

اسی وقت اللہ نےآسمان سے بادل بھیجے، جن میں گرج اور چمک تھی، پھر اللہ کے حکم سے بارش ہوئی ۔

0 دعاء استسقاء میں چادر کو پلٹنا

سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى فَقَلَبَ رِدَاءَهُ

نبی کریم ﷺنے دعا استسقاء کی تو اپنی چادر کو الٹا کیا ۔ (صحیح بخاری : 1011)

!دعاء استسقاء میں ہاتھوں کو الٹا رکھنا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

اسْتَسْقَى فَأَشَارَ بِظَهْرِ كَفَّيْهِ إِلَى السَّمَاءِ

نبی کریم ﷺنے بارش مانگنے کے لیے دعا فرمائی تو اپنے ہاتھوں کی پشت کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم : 2075)

@ بارش طلب کرنے کیلئےکسی نیک آدمی سے دعا کروانا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کبھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے :

اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُسْقَوْن .

اے اللہ ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی کریم ﷺکا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم ﷺ کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا : چنانچہ پھر خوب بارش برسی۔(صحیح بخاری : 1010)

#بارش سے محروم کر دینے والا عمل

سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

وَلَا ظَهَرَت الْفَاحِشَةُ في قَوْمٍ قَطُّ، إِلَّا سَلَّطَ الله عَلَيْهِم الْمَوْت، وَلَا مَنَع قَوْمٌ الزَّكَاة، إِلَا حَبَس الله عَنْهُم الْقَطْر  (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 107)

جب کسی قوم میں فحاشی عام ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کو مسلط کردیتا ہے اور جب کوئی قوم زکوٰۃ کی ادائیگی روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے بارش روک لیتا ہے۔

$ صدقہ خیرات کی برکت سے بارش کا حصول

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک دفعہ ایک شخص زمین میں ایک صحرائی ٹکڑے پر کھڑا تھا۔ اس نے ایک بادل میں آوازسنی : فلاں کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل ایک جانب بنا اور ایک پتھریلی زمین میں اپناپانی انڈیل دیا۔ پانی کے بہاؤ والی ندیوں میں سے ایک ندی نے وہ سارا پانی اپنے اندر لے لیا۔ وہ شخص پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا تو وہاں ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی کا رخ ( اپنے باغ کی طرف ) پھیر رہا ہے۔ اس نے اس سے کہا : اللہ کےبندے !تمھارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا : فلاں ! وہی نام جو اس نے بادل میں سنا تھا ۔اس (آدمی ) نے اس سے کہا : اللہ کے بندے ! تم نے مجھ سے میرا نام کیوں پوچھا ہے؟ اس نے کہا : میں نے اس بادل میں جس کا یہ پانی ہے ( کسی کو ) یہ کہتے سناتھا ۔ فلاں کے باغ کو سیراب کرو تمھارا نام لیا تھا ۔تم اس میں کیا کرتے ہو۔ اس نے جواب دیا

أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَى مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَآكُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ .

تم نے یہ بات کہہ دی ہے تو میں ( تمھیں بتا دیتا ہوں ) اس باغ سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے میں اس پر نظر ڈال کر اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں ایک تہائی میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں۔اور ایک تہائی اسی ( باغ کی دیکھ بھال ) میں لگادیتا ہوں۔ (صحيح مسلم : 7473)

% استغفار کی برکت سے بارش کا حصول

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (سورة هود :  52)

(سیدنا نوح علیہ السلام نے فرمایا)  اے میری قوم کے لوگو ! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو ، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پر بھیج دے ۔

^ بارش برستے وقت کی دعا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا (صحیح بخاری : 1032)

رسول اللہ ﷺجب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے اللهم صيبا نافعا اے اللہ ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔

& بارش کے بعد کی دعا

مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ (صحیح بخاری : 103)

*بارش کے پانی میں نہانا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كه ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسنے لگی تو رسول اللہ اپنا ( سر اور کندھے کا کپڑا ) کھول دیا حتیٰ کہ بارش آپ پر آنے لگی۔ ہم نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا :

لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى

کیونکہ وہ نئی نئی ( سیدھی ) اپنے رب کی طرف سے آرہی ہے۔ (صحیح مسلم : 2083)

( بارش کے دن اذان کے کلمات

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ .

نبی کریم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو ! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ (صحیح بخاری : 666)

)بارش کی وجہ سے دو نمازیں جمع کرنا

جناب نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں

أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا جَمَعَ الْأُمَرَاءُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فِي الْمَطَرِ جَمَعَ مَعَهُمْ .

جب امراء بارش کے حالت میں مغرب اور عشاء کو جمع کرتے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ جمع کر لیتے تھے ۔(موطا مالک : 386)

aبارش کی وجہ سے مسجد میں نماز عید ادا کرنا

امام ابن حزم رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں :

وَقَدْ رَوَيْنَا عَنْ عُمَرَ و عُثْمَانَ أَنَّهُمَا صَلَّيَا الْعِيدِ بِالنَّاسِ فِي الْمَسْجِدِ لمَطَرِ وَقَعَ يَوْمَ الْعِيد .

ہم نے سیدنا عمر و عثمان رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے ، کہ انہوں نے عید کے دن بارش ہونے کے وجہ سے لوگوں کو مسجد میں نماز عید پڑھائی ۔(المحلی : 3/310)

bبارش سے سیراب ہونے والی پیداوار پر زکوۃ

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ (صحیح بخاری : 1483)

وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہو جاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔

cبارش کا بے سود ہونا علامت قیامت ہے

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُمْطَرَ النَّاسُ مَطَرًا عَامًّا وَلَا تُنْبِتُ الْأَرْضُ شَيْئًا(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2773)

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک لوگوں پر عام بارش ہو اور زمین سبزہ نہ اُگائے ۔

dہوا کو گالی دینے کی ممانعت

سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ہوا کو گالی مت دو، اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھو تو یہ دعا پڑھو :

اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِه (سنن ترمذی : 2252)

اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کی بہتری مانگتے ہیں اور وہ بہتری جو اس میں ہے اور وہ بہتری جس کی یہ مامور ہے، اور تیری پناہ مانگتے ہیں اس ہوا کےشر سے اور اس شر سے جو اس میں ہے اور اس شر سے جس کی یہ مامور ہے۔

اللہ رب العزت کے حضور دعا ہے کہ باری تعالیٰ خوشی ، مسرت وشادمانی کی ہر ایک صورت میں اپنا شاکربندہ بنا ئے اور غمی اور پریشانی وتکلیف میں صابر بنائے۔

 آمین یا رب العالمین

دینی علم کی اہمیت وفضیلت

علم ایک نور اور اللہ رب العزت کی صفت ہے،جس سے ایک طرف جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں ،تودوسری طرف انسان کی چشم بصیرت روشن ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ایک عالم اور جاہل کے درمیان فرق کی حقیقت کو اپنے ان الفاظ میں بیان فرمایا،ارشادِباری تعالیٰ ہے:

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

‘”(اے پیغمبر!کہہ دیجیے) کیا اہل علم اوربے علم برابر ہوسکتے ہیں۔“ (الزمر:9)

اہل علم کے ہاں اس اندا ز کو استفہام انکاری کا نام دیا جاتاہے۔مطلب یہ ہےکہ اہل علم اور بےعلم ہرگز برابرنہیں ہوسکتے ۔

اللہ رب العزت نےاہل علم کے درجات کو بلند فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

 يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ  (المجادلۃ:11)

”(دنیاآخرت میں اللہ تعالیٰ درجات بلند کرے گا تم سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہیں (دینی وشرعی )علم دیا گیاہے۔“

دنیاآخرت میں اہل علم کے درجات کی بلندی کا اندازہ قرآن مجید کے ایک او رمقام سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے۔

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ(آل عمران :18)

اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،اور فرشتوں نے اور اہل علم نے بھی اس حال میں کہ وہ انصاف پرقائم ہیں۔

غور کیجئے توحید کی سب سےاہم قسم” توحید الوہیت “یعنی توحید فی العبادت پر اللہ تعالیٰ خود گواہ ہیں اس کے فرشتےبھی گواہ ہیںیااہل علم گواہ ہیں اللہ تعالیٰ کا اپنی الوہیت پر علمائے حق کوگواہ ٹھہرانا اور ان کی گواہی کو اپنی اور ملائکہ کی گواہی کے ساتھ ذکر کرناعلمائے حق کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔

ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کہیں﴿ رَبِّ  زِدْنِیْ عِلْمًا ﴾ ’’میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘

معلوم ہوا کہ سوائے علم کے کوئی اور چیز شریف اور نفیس ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو اس شے کی طلب کی ہدایت فرماتا۔ پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ کے شایان شان بجز علم کے کوئی دوسری چیز نہ تھی اور اس سے زیادہ رفعتِ علم اور کیا ہوسکتی ہے کہ نبی کریم خود ارشاد فرمائیں

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ(سنن ابن ماجہ: 224

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد وعورت)پر فرض ہے۔‘‘

شرعی علم کا حصول کیوں ضروری ہے؟

اقامت دین کے دو راستے ہیں : 

1 امر بالمعروف والنہی عن المنکر (یہ دینی وشرعی علم کے حصو ل پرموقوف ہے)

2 جہادوقتال فی سبیل اللہ ۔

نفاذ ِاسلام کے یہ دو ذرائع ان میں سے پہلا ذریعہ دوسرے سے مقدم ہے ۔ جہادوقتال توانتہائی ضروری صورت ہے۔گویادینی وشرعی علم کا حصول غلبہ اسلام کا اول ترین راستہ ہے۔

علم سے تعلق جوڑنے کی تین نوعتیں ہیں

1عالم دین بننا ہے اس کے لیے جو سبیل ہمارےعلاقوں میں ہے وہ دینی مدارس ہیں ان میں ایک نصاب تعلیم ہے جن میںتفاسیر،احادیث ،عقائد،اصول،گرائمر، دیگر کتب پڑھی،پڑھائی جاتی ہیں۔اور یوں ایک عالم دین تیار ہوتاہے۔اس لیے حصول علم کے لیے ان مدارس کا رخ کیجئے۔اگر یہ موقعہ آپ کے ہاتھ سے چھن چھکا ہے تو اپنی اولاد واحفاد کو اس رخ پر ڈال دیجئے تاکہ آپ کے گھروں میں ہی ایک علم کی شمع روشن ہوجائے۔

2اگر یہ موقعہ بھی میسر نہیں ہے۔تو دوسرا موقع متعلم ہونے کا ہے ۔ آپ طلبۃ العلم میں شامل ہو جائیں ۔اور اہل علم کے علم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ وقت صرف کریں ۔

3تیسرا درجہ مستمع کاہے مستمع کا معنٰی ہے ”علم کو سننے والا“کہیں کوئی درس قرآن ہو ،درس حدیث ہو ،کسی عالم کی مجلس ہو ،وہاں خلوص اور شوق سے پہنچیں ۔

”مستمع“ اگر مستمع ہونے کا حق اداکرے تو اس کے لیے بھی بہت بڑااجر ہے ۔رسول اللہ نے دعا دی ہے کہ

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ 

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا ۔“(سنن ابی داؤد:3660)

علم صرف وحی الٰہی کا نام ہے

یہ دین ایک حقیقت ہے جس کی اساس وحی الٰہی ہے اور وحی الٰہی دوچیزوں کا نام ہے۔

1 قرآن   2 حدیث

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (النساء:113)

’’اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل  فرمائی ۔“

آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نےآپ پر دوچیزیں اتاری ۔

1کتاب یعنی قرآن مجید 2حکمت یعنی سنت وحدیث

دین میں محمدرسول اللہ نے اپنی رائے اور قیاس سے کچھ نہیں کہا۔اگر کسی شخصیت کی رائے اور ذاتی عقل وفکر اس دین میں معتبر ہو تی تو وہ محمد رسول اللہ تھے۔لیکن قرآن مجید کا صاف اعلان ہے ۔

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم:43)

 ”اور وہ اپنی خواہش سےنہیں بولتے ہیںوہ تو صرف وحی ہے جوان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘

محمد کریم بھی اپنی عقل سے بات نہیں کرتے ۔ دین کے معاملے میں جب بھی بات کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے کریں گے ۔

اگر کسی مقام پر رسول اللہ نے اپنی مرضی اور خواہش سے کوئی بات کی بھی تو اللہ رب العزت نے فورا تنبیہ فرمادی۔جیسا کہ آپ نے شہد کے بارہ میں فرمایا تھا۔ 

‏‏‏‏‏‏فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ حَلَفْتُ (صحیح بخاری:4912)

اب میں قسم کھاتاہوں کہ ہرگز (شہد)نہیں پیوںگا۔“

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہوتاہے ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (التحریم:1)

”اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔“

دیکھئے! رسول اللہ ﷺنے عبداللہ بن ابی کواپنی قمیص مبارک پہنائی اور اس (منافق) کانمازجنازہ پڑھایا اسےقبر میں خوداتارا،اس کے منہ میں اپنالعاب مبارک بھی ڈالا،آپ کی خواہش تھی کہ اس منافق کی بخشش ہوجائےمگرآپ کی خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی ۔اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمادی۔

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التوبۃ:84)

”اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔“

معلوم ہواکہ رسول اللہ اگرکسی مسئلہ میں اپنی ذاتی خواہش سے کوئی بات کی تووہ حجت ودلیل نہ ٹھہر سکی ،اگر ذاتی عقل وفکر اس دین میں کسی کی معتبرہوتی تووہ صرف محمدرسول اللہ تھے۔وہ دین جس میں محمد کی ذاتی عقل وفکر حجت ودلیل نہ ٹھہرسکی اس دین میں آپ کے سوا کسی اور کی رائےوقیاس کوکیونکر حجت ودلیل ٹھہرایاجاسکتاہے ۔اس لیے آپ نےہمیشہ وحی سے ہی بتایا۔

صحیح البخاری میں سیدنا جابر بن عبداللہ؄ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک مرتبہ بیمارہواتو نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق ؄ پیدل میری عیادت کے لیے تشریف لائے ان بزرگوں نے دیکھا کہ مجھ پر بے ہوشی غالب ہے۔ چنانچہ نبی کریم  نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے ہوش آ گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں اپنے مال کا کیا کروں کس طرح اس کا فیصلہ کروں؟ نبی کریم  نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاںتک کہ میراث کی آیت (وحی)نازل ہوئی۔(صحیح بخاری:5651)

سید الفقہا والمحدثین امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس حدیث پر عنوان قائم کیاہے:

 ” بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي:  أَوْ لَمْ يُجِبْ حَتَّى يُنْزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، وَلَمْ يَقُلْ بِرَأْيٍ وَلاَ بِقِيَاسٍ “

”نبی کریم سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس کےبارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے میں نہیں جانتا یا وحی اترنے تک خاموش رہتے کچھ جواب نہ دیتے اپنی رائے اور قیاس سےکچھ نہیں کہتے۔“

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین میں حجت ودلیل فقط وحی الٰہی ہے ۔وحی الٰہی صرف دوچیزوں کانام ہے ۔

1 قرآن  2 حدیث

اور صرف اس کی اتباع ہی کا ہمیں حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ  (الاعراف:3)

”اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوااولیاء دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔“

حافظ ابن کثیر ،تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

{اتَّبِعُوا مَا أُنزلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ} أَيِ: اقْتَفُوا آثَارَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي جَاءَكُمْ بِكِتَابٍ أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكِهِ، {وَلا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ} أَيْ: لَا تَخْرُجُوا عَمَّا جَاءَكُمْ بِهِ الرَّسُولُ إِلَى غَيْرِهِ، فَتَكُونُوا قَدْ عَدَلْتُمْ عَنْ حُكْمِ اللَّهِ إِلَى حُكْمِ غَيْرِهِ”  (المصباح المنیر)

”جو(شریعت) تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی جانب سے نازل کی گئی ہے ،اس کی پیروی کرو،یعنی تم اس نبی امی محمد کے نقش قدم پر چلوجوتمہارے پاس اس کتاب کولے کر آئے جو تمہاری طرف ہر چیزکے رب اور مالک کی طرف سےنازل کی گئی ہے،اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو،یعنی رسول للہ تمہارے پاس جو لے کرآئے ہیںقران وحدیث اسے چھوڑ کر اور کسی چیزکی طرف رجوع نہ کرو،(اگرتم اوروں کے پیچھے گئے )توتم اللہ کے حکم سے روگردانی کرکے کسی اور کے حکم کو اختیار کرلیا۔“

معلوم ہواکہ ہمیں منزل من اللہ شریعت یعنی کتاب وسنت (وحی) کی اتباع ہی کاحکم دیاگیا ہے یہی اصل علم ہے۔

دینی علم کے فوائد

1دینی علم بندے کو خشیت الٰہی سے معمور کرتا ہے

ارشادِباری تعالیٰ ہے:

 إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ  (فاطر:28)

”اللہ سے تواس کے بندوں میں صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔“

حافظ ابن کثیر  فرماتے ہیں :

وَالْخَشْيَةُ خُلَاصَةُ الْإِيمَانِ وَالْعِلْمِ (تفسير ابن كثير 1/ 76)

”خشیت الہی ایمان اور علم کا خلاصہ ہے۔“

2 دنیاوی علوم وقتی اور عارضی ہیں

دنیاکی زندگی وقتی اور عارضی ہےجبکہ اخروی زندگی دائمی وابدی ہے۔ بالکل اسی طرح دنیاوی علوم اور ان کے فوائد وقتی اور عارضی ہیں ،دینی وشرعی علم اور اس کے فوائددائمی وابدی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:  

﴿ وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾

” اور دنیا کی یہ زندگی نہیں مگر ایک دل لگی اور کھیل اور بے شک آخری گھریقینا وہی اصل زندگی ہےاگروہ جانتے ہوتے۔“

دنیا کی حقارت

د نیا کی حقارت وذلت کااندازہ ایک حدیث مبارکہ سے لگایاجاسکتاہے ۔

ایک مرتبہ رسول کائنات بازار سے گزرتے ہوئے ایک حقیر سے کانوں والے مردہ میمنے کے کان سے پکڑ کر فرمایا :تم میں سے کون اسے ایک درھم کے عوض لینا پسند کرے گا توصحابہ؇ نے کہا اے اللہ کے رسول ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں ہم اسے لے کرکیا کریں گے ۔بلکہ اگریہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کیونکہ یہ حقیرسے کانوں والا ہے ،پھر جب وہ مردار ہے تو کس کام کا؟آپ نے فرمایا

فَوَاللهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ، مِنْ هَذَا (صحیح مسلم:2957)

”اللہ کی قسم ! جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیرہے۔“

قابل غور بات یہ ہے کہ اس قدر حقیروذلیل دنیا جس کے حصول کے لیے لاکھوں کروڑں کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں ،عمریں صرف کی جارہی ہیںاس کے برعکس دینی وشرعی علوم جس کے فوائدبھی دائمی اور ابدی ہیں جوہمارا اصل مطلوب ومقصود ہے سے اس قدر اغماض؟؟

3دینی علم کا حصول دنیا کے قیمتی ترین سازوسامان سے بہتر

دینی علوم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے رسول کائنات نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے کوئی پسند کرتاہے کہ بطحان یاعقیق (وادی)(یعنی اونٹوں کی منڈیوں) میں جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت اونچی کوہان والی دوانٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ یاقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو(یعنی بغیر محنت وجدوجہد اور بغیردھوکہ دہی وفراڈ، چوری کے)۔(صحابہ کرام نے) کہا:اے اللہ کے رسول !ہم سب یہ چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:

فَلَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَيَتَعَلَّمَ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَإِنْ ثَلَاثٌ فَثَلَاثٌ مِثْلُ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ

تمہاراہرروز مسجد میں جاکر کتاب اللہ سے دوآیتیں سیکھ لینا دواونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے،اگر تین آیتیں سیکھ لے تو تین اونٹنیوں کےحصول سے بہتر ہے،اسی طرح مزید آیتوں کی تعداد کے مطابق اونٹنیوں سے بہتر ہوگا۔“ (سنن ابی داؤد:1456/صحیح مسلم:803)

4مرنے کے بعد نفع بخش صرف دینی علم

  سیدنا ابوہریرہ؄ سے مروی ہے رسول اللہ نے فرمایا:جب انسان فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے سوائے تین اعمال کے وہ منقطع نہیں ہوتے

إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ  (صحیح مسلم:1631)

”صدقہ جاریہ،یاایساعلم جس سے فائدہ اٹھایاجائے(یعنی دینی علم) یانیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔“

5دینی علم حاصل کرنے والےاور اسکو آگے پہنچانےوالے کے لیے دعائے نبوی

رسول اللہ نےدینی وشرعی علم حاصل کرنے والے اور آگے منتقل کرنے والے کے لیے دعافرمائی:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ (جامع ترمذی:2657)

”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش وخرم اور شاداب رکھے جس نے مجھ سے کوئی بھی چیز سنی اور پھر اس نے اسے ہوبہوجس طرح سنا آگے منتقل کردیا۔“ 

ایک اہم نکتہ

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ علم شریعت کا مداربراہِ راست اساتذہ سے پڑھنے اور سننے میں ہے جو شخص محض کتب وانٹرنیٹ پر اکتفاکرتاہےوہ اتنا معتمد نہیں جتنا اساتذہ سے پڑھنے اور سننے والا ہوسکتاہے ۔محض کتب بینی سے علم حاصل کرنے والے شخص کو محدثین کی اصطلاح میں صحفی کہاجاتاہے۔

6شرعی علم کا حاصل کرنے والا درحقیقت جنت کے راستے پر گامزن ہوتاہے:

رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (صحیح مسلم:2699)

”جو شخص شرعی علم کے حصول کے راستے پرگامزن ہوا،تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سےاس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمادیتاہے۔“

7دینی علوم سے بہرہ ور شخص دنیا کا بہترین شخص

رسول اللہ ﷺنے فرمایا

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (صحیح بخاری:5027)

”تم میں سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھتااور سیکھاتاہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے :

إِنَّ أَفْضَلَكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (صحیح بخاری:5028)

”بلاشبہ تم میں سے سب سے افضل وہ ہے جو قرآن مجید خود سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے۔“

مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ یہ مال ودولت کی فراوانی ،یہ معاشرتی و معاشی حیثیت ،یہ اسباب کی فراوانی،یہ اونچی اونچی ملازمتیں ،یہ مستحکم و مضبوط کاروبار ، یہ چمکیلی اور لمبی لمبی کاریں،یہ وسیع وعریض محلاّت ،یہ دولت کی ریل پیل ،یہ برادری اور معاشرے میں سٹیٹس یہ سب چیزیں افضلیت و بہتری کامعیار نہیں ،افضلیت اور بہتری کا معیار دینی علوم کا سیکھنا اور سیکھانا ہے۔

صحابہ کرام میں دینی تعلیم کے حصول کاذوق وشوق

1 سیدنا ابوہریرہ ؄بھوکے پیاسے رہ کر تحصیل علم میں مصروف رہتے ۔ “بِشِبَعِ بَطْنِهِ”یعنی شکم سیری سے بے فکر ہوکر جہاں کوئی نہ ہوتا وہاں ابوہریرہ ہوتے ۔ جوبات کوئی محفوظ نہ کرتا ابوہریرہ وہ محفوظ کرلیتے۔ (صحیح بخاری:118)

ان کی اس علمی حرص کو دیکھ کررحمت کائنات فرمانے لگے ۔اے ابو ہریرہ رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ ”حدیث کے دریافت کرنے پر میں نے تمہاری حرص دیکھ لی ہے۔“ (صحیح بخاری :99)

صرف حصول علم کاشوق ہی نہیں بلکہ علمی باتیں حدیثیں سننے کے بعد حفظ کرنے کا شوق بھی اس قدر غالب تھا: فرمانے لگے اللہ کے رسول! آپ سے بہت سی حدیثیں سنتاہوں اور بھول جاتاہوں ۔آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ،ابوہریرہ نے چادر پھیلادی۔ رحمت کائنات ﷺنے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بناکر چادر پر انڈیل دیا ۔پھر فرمایا:اپنے ساتھ لپیٹ لو، سیدنا ابوہریرہ؄ نے اسے لپیٹ لیا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (صحیح بخاری:119)

”پھر اس کے بعد مجھے کچھ بھی نہیں بھولا۔سبحان اللہ    

2 سیدنا ابن عباس ؄کی حرص دیکھ کر رحمت کائنات نے انہیں سینے سے چمٹا کر دعادی:

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الكِتَابَ (صحیح بخاری:75)

اےاللہ اسے اپنی کتاب کا علم عطاکردے۔“

سیدنا ابن عباس جلد ہی علم کے ایسے کمال کو پہنچے کہ سیدنا عمر پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیےمعمرصحابہ کےساتھ ابن عباس کو بھی شامل کیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری:4970)

3سیدنا جابر بن عبداللہ؄ نے ایک حدیث کی سماعت کے لیے “مَسِيرَةَ شَهْرٍ” ”ایک مہینے کاسفر کیا۔اور عبداللہ بن انیس کے پاس شام پہنچے۔“(صحیح بخاری: باب الخروج في طلب العلم)

4 محمود بن ربیع ایک حدیث کی دوبارہ سماعت کے لیے قسطنطنیہ سے مدینہ منورہ پہنچے اور عتبان بن مالک انصاری سے دوبارہ حدیث سماعت فرمائی ۔“(صحیح بخاری:1186)

5 عقبہ بن حارث ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے اتنے بے چین ہوئے کہ رسول اللہ کے پاس مکہ سے مدینہ پہنچے ۔(صحیح بخاری:88)

6 سیدنا عمر فاروق؄ نے حصول علم کے لیے مدینہ میں اپنے انصاری پڑوسی کے ساتھ باری مقررکر رکھی تھی۔(صحیح بخاری:89)

7سیدناعبداللہ بن عمرو؄میں علم حدیث حاصل کرنے کی حرص اس قدر تھی کہ ہر وقت حدیث لکھتے رہتے۔ قریش کے بعض لوگوں نے انہیں اس عمل سے روکا ، رحمت کائنات کوپتاچلا،توآپ نے فرمایا:

 ” اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ”     

”تم لکھو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری (محمد کی) جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتاہے۔“(سنن ابی داؤد:3646)

8 سیدنا عبداللہ بن مسعود؄ کے علمی ذوق کا اندازہ لگائیے ،فرماتے ہیں :

وَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ غَيْرُهُ، مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلاَ أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ، تُبَلِّغُهُ الإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ(صحیح بخاری:5002)

”اس اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبودبرحق نہیں اللہ کی کتاب کی کوئی سورت  نازل نہیں ہوئی ،مگر میں اس کے متعلق جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور کتاب اللہ میں کوئی آیت نہیں،مگر میں جانتا ہوں وہ کس کے متعلق نازل ہوئی ، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا ہےیعنی بڑاعالم ہے اور اونٹ ہی اس کے پاس مجھے پہنچا سکتے ہیں (یعنی ان کا گھر بہت دور ہو) تب بھی میںضرور سفر کر کے، (حصول علم کیلئے اس کے ہاں) پہنچ جاؤں۔“

9سیدناعمران بن حصین ؄رسول اللہ کی مجلس میں علمی باتیں سننے میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی نے آکرکہاکہ اے عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو،وہ بھاگ گئی ہے عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں اونٹنی کی تلا ش میں نکل کھڑا ہو امیں نے دیکھا میرے اور اس کے درمیان سراب حائل ہے ۔اللہ کی قسم! اب میں چاہتاہوں کہ :

أَنَّهَا قَدْ ذَهَبَتْ وَلَمْ أَقُمْ  (صحیح بخاری:7418)

”اونٹنی جاتی تھی تو چلے جاتی مگر میں آپ کی (علمی) مجلس سے نہ اٹھتا۔“

0 رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی ابوذر غفاری فرماتےہیں اگر تم اس پر(گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار رکھ دو اور مجھے گمان ہوکہ

 أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

”میںنے نبی سے جوایک کلمہ بھی سنا ہے گردن کٹنےسے پہلے پہلے بیان کردوں گاتویقینامیں اسے بیان کردوں گا۔“(صحیح بخاری:کتاب العلم،قبل القول والعمل)

قارئین کرام! ایمان و علم میں ایک زبردست رابطہ ہے۔ ایمان کے بعد دوسری اہم چیز علم ہے جس کا خزانہ قرآن و حدیث ہے ۔

قرآن و حدیث کے علم کو محنت، کوشش، شوق اور لگن سے حاصل کرتے جایئے اور پھیلاتے جایئے، اسے ضائع نہ کیجیے، علم کو کمرشل نیٹ سے نہ سیکھیے بلکہ اس کی تڑپ اور طلب حصول میں مخلص ہوجایئے۔ جو علم سیکھنے میں مخلص ہوجاتاہے، اللہ تعالیٰ اس کی جسمانی توانائی بڑھا دیتا ہے جس سے تحصیل علم میں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا واقعہ ہے۔ سیدناموسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے علم حاصل کرنے کے لیے طویل سفر اور تکلیف کی پروا نہ کی اور فرمایا: صدیاں بھی گزر جائیں تو علم حاصل کیے بغیر نہ ہٹوں گا۔ کچھ مدت بعدفرمایا: اس سفر میں ہم نے بڑی تکلیف اٹھائی ہے۔ مگر موسیٰ اور ان کے شاگرد یوشع بن نون علیہ السلام کو اللہ نے کتنی ہمت عطا کی کہ انھیں تھکاوٹ کی پروا نہ ہوئی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین علم سیکھنے اور اس علم پر عمل کرنے اور دوسرے لوگوں تک پہچانے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئےہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد –اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! اللہ سے کما حقہ ڈرو، اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان سمجھو۔

مسلمانو! قدر دانی اور کرم نوازی اللہ تعالی کی صفات ہیں، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے عبادت گزاروں کو عبادت کے اثرات دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے تا کہ جنت کے وعدے لوگوں کے لیے سچے اور پکے ہو جائیں۔

ماہ رمضان میں لوگ رب العالمین کی رحمتوں اور نعمتوں سے خوب بہرہ ور ہوئے کہ ان کا اللہ تعالی سے ناتا استوار رہا، ان کی شرح صدر ہوئی، دل پاکیزہ ہو گئے؛ تا کہ لوگ سارا سال اپنے رب کی عبادت پر ثابت قدم ہو جائیں اور ایسی نعمتیں ہر شخص کو مل جائیں جو ان کا مقصود اور مطلوب ہیں، جن کی بدولت دلی مسرت اور خوشی ملتی ہے، ساری مخلوقات ایسی نعمتوں کی تمنا کرتی ہیں۔ اور ان نعمتوں میں سے کامل ترین نعمت یہ ہے کہ انسان اسلام کا علم حاصل کرے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو کیونکہ مسلمان ہی دنیا، برزخ اور آخرت میں دائمی نعمتیں حاصل کریں گے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (الانفطار: 13)

یقیناً نیک لوگ[ہمیشہ]نعمتوں میں ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی دنیا میں مسلمانوں کی اسلام کیلئےشرح صدر فرما دیتا ہے، ان کی زندگی اسلام پر ہی گزرتی ہے اور وہ اسی سے روشنی حاصل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا (الأنعام: 122)

ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کر دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دیا کہ وہ اس کو لئے ہوئے آدمیوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا ؟!

 پھر اللہ تعالی نے انہی لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں رحمت بھی لکھ دی ہے، چنانچہ فرمایا:

أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ (التوبۃ: 71)

یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی عنقریب رحم فرمائے گا۔

اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں سعادت اور اجر دونوں سے نوازا؛ لیکن آخرت کا اجر بہت عظیم اور بڑا ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے:

لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ (النحل: 30)

اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ہی بہت بہتر ہے۔ اور وہ پرہیز گاروں کے لئے کیا ہی اچھا گھر ہے ۔

دنیا میں اللہ تعالی کی مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انہیں دین کی محبت عطا کی، دین کو دلوں کی زینت بنایا، اپنی اطاعت کی مٹھاس انہیں دی، اس طرح ان کا باطن بھی دینی عقائد اور حقائق سے پیراستہ ہو گیا، ان کا ظاہر دینی احکامات کی تعمیل سے آراستہ ہو گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ

اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا ۔[الحجرات: 7]

اس لیے ہر وقت اللہ تعالی کی جانب توجہ، انابت، اللہ تعالی اور اس کے فیصلوں پر رضا مندی فوری ثواب کا باعث اور دنیا کی جنت ہیں۔

اللہ اور اس کے رسول پر ایمان سعادت مندی کا محور اور بنیاد ہیں، دل میں ایمان کی مٹھاس اس بات کی علامت بھی ہے کہ اسلام دین حق ہے؛ جیسے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے ہمارے نبی محمد اور آپ کے دعوائے نبوت کی صداقت کے متعلق پوچھتے ہوئے کہا تھا: “میں نے تم سے پوچھا کہ : کوئی اس کے دین کو قبول کرنے کے بعد متنفر ہو کر مرتد بھی ہوتا ہے؟ تو تم نے کہا کہ: نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ تو ایمان کی حقیقت بھی یہی ہے کہ جب ایمانی مٹھاس دلوں میں رچ بس جائے تو دل کبھی اس سے نفرت نہیں کرتا۔(متفق علیہ)

اہل ایمان لوگوں میں سب سے اچھی زندگی گزارتے ہیں، ان کے حالات بہت اچھے ہوتے ہیں، ان کی شرح صدر ہو چکی ہوتی ہے، ان کے دل سب سے زیادہ مسرور ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ (يونس: 62، 63)

سن لو ! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی اپناتے ہیں۔

ان کی سعادت مندی کا کمال دیکھیں کہ امن و امان کی دولت ان کے دلوں اور زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی آغوش میں لیے ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (الأنعام: 82)

جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا۔ انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔

دنیا میں ایسی کوئی لذت اور نعمت نہیں ہے جس کا مقام اللہ تعالی کی معرفت اور اللہ تعالی کی پہچان سے زیادہ ہو، چنانچہ جس وقت انسان اپنے رب کو پہچان لے تو انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔

شرح صدر اور قلبی خوشی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی کی وحدانیت کے اقرار سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں، کمال درجے کی خوشیاں اللہ تعالی سے ملتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (يونس: 58)

آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔ 

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی اللہ تعالی کی ذات سے خوش ہونے کے تابع ہے؛ اسی لیے مومن اپنے رب پر اتنا راضی ہوتا ہے کہ کسی اور چیز سے اتنا خوش نہیں ہوتا، دل کو اسی وقت حقیقی فرحت ملتی ہے جب اللہ کی ذات سے خوش ہونے کی لذت پا لے اور اس کے اثرات چہرے پر رونما ہو جائیں”

بندہ جس قدر معرفت الہی میں پختہ ہو گا اس کی محبت بھی اسی مقدار میں مضبوط ہوگی ، انسان کو جتنی مسرت اللہ کی محبت اور قرب میں ملتی ہے کسی اور چیز میں نہیں ملتی، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: 165)

اور ایمان والے اللہ سے شدید ترین محبت کرتے ہیں۔

تخلیق کائنات اور دین کا ہدف صرف ایک اللہ کی بندگی ہے، لوگوں کو نعمتیں اور عزتیں اسی کی بنیاد پر ملیں گی، یہی وجہ ہے کہ نماز مسلمانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، آپ کا فرمان ہے: ’’اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘(مسند احمد)

مومن نماز سے سکون کیوں نہ حاصل کرے!؟ نماز کے دوران ہی تو اللہ تعالی مومن کے سامنے ہوتا ہے ، نیز نماز کے دوران سجدے میں انسان اللہ تعالی کے قریب ترین ہوتا ہے، حتی کہ مشرکوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ایک جنگ میں کہہ دیا تھا کہ: “ان کے ہاں نماز کا وقت ہونے والا ہے جو انہیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہے” (مسلم) چنانچہ جس قدر بندہ نماز کی مٹھاس پائے گا  اسی مقدار میں نماز کی جانب کھنچتا چلا آئے گا، اور نماز فوری ادا کرے گا۔

زکاۃ اور نماز کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے، اگر کوئی شخص دل کی خوشی سے زکاۃ ادا کرے تو اللہ تعالی اسے ایمان کی مٹھاس چکھا دیتا ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “صدقہ دینے والا شخص جب بھی صدقہ دیتا ہے تو اس کی شرح صدر ہو جاتی ہے، دل کشادہ ہو جاتا ہے، اس کی فرحت اور مسرت پائیدار ہو جاتی ہے، اگر صدقہ کرنے میں محض یہی فائدہ ہوتا تو زیادہ سے زیادہ اور فوری صدقہ کرنے کی ترغیب کیلئےبندے کو یہی کافی تھا ۔

روزے کی اپنی لذت اور روزے داروں کے لیے الگ فرحت ہے، آپ کا فرمان ہے: ’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطاری کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔‘‘( متفق علیہ)

ایسے ہی حج کرنے کیلئےبھی لوگوں کے دل کھنچتے چلے جاتے ہیں، ارکان حج ادا کر کے دل خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہے، لوگ مشاعر مقدسہ کی جانب سر پٹ دوڑتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائیں گے جیسے وہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

عبادت اور اخلاقی برتری کے ذریعے تزکیہ نفس کامیابی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (الشمس: 9)

کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اپنا تزکیہ کر لے۔

اسی طرح اللہ تعالی کی جانب دعوت دینے والا شخص بھی کامیاب ہے، وہ دائمی نعمتوں اور خوشیوں میں رہے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آل عمران: 104)

’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ ‘‘

علم نافع بھی شرح صدر کا باعث بنتا ہے، یہ دل کو کشادہ  اور بندے کو اللہ کے قریب تر کر دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28)

بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اللہ سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ایمان اور معرفت کے علاوہ اس دنیا میں ایسی کوئی نعمت نہیں ہے جو آخرت کی نعمت جیسی ہو ۔اللہ کا ذکر بھی شرح صدر کا باعث ہے، ذکر الہی کے ذریعے دل پر سکون رہتا ہے، ذکر تمام عبادات میں سے آسان ترین عبادت ہے، لیکن اس کی وجہ سے ملنے والی فرحت اور مسرت سب سے زیادہ  ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’انسان کو دل میں اللہ کے ذکر، حمد اور نعمتوں کے تذکرے سے اتنی لذت ملتی ہے جو کسی اور عمل سے نہیں ملتی۔‘‘

سب سے عظیم ذکر قرآن کریم ہے ، یہ مومنوں کے لیے ہدایت ، شفا اور رحمت ہے، قرآن کریم اللہ تعالی کی ایسی دولت اور رحمت ہے جس کے ذریعے بندے فرحت پاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (الرعد: 36)

اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل کی گئی وحی سے خوش ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جس وقت مومن آیات کی تلاوت سنتا ہے تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہےکیونکہ مومن کو ان آیات سے اطمینان اور سکون ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (التوبۃ: 124)

اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا؟  تو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کر دیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں ۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اگر آپ اپنے اور کسی دوسرے میں اللہ کی محبت جانچنا چاہتے ہیں تو دل میں قرآن سے محبت اور تلاوت سننے پر ملنے والی لذت کو دیکھ لیں۔‘‘

قرآن کریم کی مٹھاس شہد سے بھی بڑھ کر ہے، چنانچہ “ایک آدمی رسول اللہ کے پاس آ کر کہتا ہے: میں نے رات کو خواب میں ایک سایہ دار بادل دیکھا اس میں سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے عرض کیا: مجھے اس خواب کی تعبیر بیان کرنے دیں” تو آپ نے فرمایا: چلو تم اس کی تعبیر بتلاؤ،تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سایہ دار بادل سے مراد اسلام ہے، اور اس سے ٹپکنے والا گھی اور شہد قرآن ہے، یعنی قرآن اپنی مٹھاس ٹپکا رہا ہے۔ ( متفق علیہ)

اللہ کے اطاعت گزار بندے اس وقت تک نعمتوں میں رہیں گے جب تک کمال درجے کی نعمت یعنی جنت نہیں پا لیتے، پھر جنت میں بھی اعلی ترین نعمت یہ ہو گی کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدار ہو اور اللہ تعالی کی گفتگو اللہ تعالی سے سنیں، آپ کا فرمان ہے: جب اللہ تعالی حجاب ہٹائے گا، تو جنتیوں کو اللہ کا دیدار تمام حاصل شدہ نعمتوں سے زیادہ محبوب ہو گا۔(صحیح مسلم)

اور آپ اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے

وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ 

’’اور میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق چاہتا ہوں۔‘‘ (سنن نسائی)

ایمان کی مٹھاس ایک بار پا لینے والا اس سے سیراب نہیں ہوتا، اسی لیے وہ مزید نیکیوں کی کوشش کرتا ہے اور ان نیکیوں کے اثرات اس کی زبان اور اعضا پر رونما ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ایسے کام سے محفوظ ہوتا ہے جو اسے دینی طور پر نقصان پہنچائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات: 7)

لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ اور کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

امام ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: جس وقت دل ایمان کی مٹھاس پا لے تو اسے کفر، فسق اور گناہوں کی کڑواہٹ بھی محسوس ہوتی ہے، یہی وجہ تھی کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا:

رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (يوسف: 33)

اے میرے پروردگار ! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے ۔

جس وقت انسان کو ایمان کی مٹھاس مل جائے تو پھر وہ لوگوں کے ستائشی کلمات کا رسیا نہیں  رہتا، اللہ تعالی اسے دین پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دائمی عبادات کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔

دین کی مٹھاس اگر کسی کو مل جائے تو دنیا جہان کی آسائشیں اس پر قربان کر دے، اس کے لیے ہمہ قسم کی تکلیفیں جھیلنے کیلئےتیار ہو جائے، جیسے جادو گروں نے ایمان کی مٹھاس پا لینے کے بعد فرعون سے کہا تھا:

إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (طہ: 73)

ہم تو اپنے رب پر ایمان لے آئے تاکہ وہ ہماری خطائیں اور ہر اس کام کو معاف کر دے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا اللہ ہی بہتر ہے اور وہی ہمیشہ رہنے والا ہے۔

پھر جب فرعون نے انہیں قتل اور سولی چڑھانے کی دھمکی دی تو یہ بھی کہہ دیا:

فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا

تو جو کرنا چاہتا ہے کر لے۔ تو تو بس اس دنیا کی زندگی کا ہی خاتمہ کر سکتا ہے۔ [طہ: 72]

ایمان کی نعمت اخلاص کے ساتھ مشروط۔ اخلاص، دوسروں کی خیر خواہی ، ملت اسلامیہ کا التزام قلبی سلامتی اور شرح صدر کا باعث ہیں، رسول اللہ کا فرمان ہے: تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل کمی نہیں کرتا: اخلاص کے ساتھ اللہ کی بندگی۔ مسلمان حکمرانوں کی خیر خواہی، ملت اسلامیہ کا التزام ۔(سنن ترمذی)

ایمانی حلاوت اللہ تعالی سے محبت کے زیر اثر ہوتی ہے، یعنی جب یہ محبت کمال درجے کی ہو اور اللہ کے سوا کسی کی محبت دل میں نہ ہو تو ایمانی حلاوت ملتی ہے، آپ کا فرمان ہے: تین چیزیں جس میں ہوں وہ ان کے ذریعے ایمان کی مٹھاس پا لیتا ہے: اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ بندے کے ہاں محبوب ہوں۔ آدمی کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے ۔ اور کفر میں لوٹنا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے آگ میں پھینکا جانا اسے ناگوار ہے۔ ( متفق علیہ)

بندے کو اس وقت اطاعت گزاری سے مانوسیت ہوتی جب وہ اپنے دین اور اپنی عبادت پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے، اللہ اور اس کے رسول کی سختی کے ساتھ اطاعت کرے، آپ کا فرمان ہے: اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ تعالی کو اپنا رب مان لے، اسلام کو اپنا دین مان لے اور محمد کو رسول مان کر راضی ہو جائے۔ (صحیح مسلم)

اللہ تعالی سے دعا مانگنا اور حسن ظن رکھنا تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہے، اللہ تعالی کا حدیث قدسی میں فرمان ہے: میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے میرے بارے میں گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔

قضا اور قدر پر ایمان رکھنے والا شخص سعادت مندی حاصل کرتا ہے، اور ایمانی حلاوت اس کے بغیر حاصل نہیں ہو گی، چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: “میرے بیٹے! تم اس وقت تک حقیقی ایمان کی مٹھاس نہیں پا سکتے جب تک تم یہ ذہن نشین نہ کر لو کہ جو کچھ تمہیں مل گیا وہ تم سے چوک نہیں سکتا تھا اور جو چیز تمہیں نہیں ملی اسے تم حاصل ہی نہیں کر سکتے” ابو داود

ابراہیم حربی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہر قوم کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ: جو شخص تقدیری فیصلوں کے مطابق نہیں چلتا وہ کبھی بھی خوشحال نہیں ہو سکتا۔ انسان کی خوشحالی کا طریقہ یہ ہے کہ: جب اللہ تعالی اسے نعمت سے نوازے تو شکر کرے، اگر اسے آزمائش میں ڈالا جائے تو صبر کرے اور اگر اس سے گناہ ہو جائے تو استغفار کرے۔

کثرت کے ساتھ نوافل کی ادائیگی ، صبر اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد کی طلب بندے پر نعمتوں کے دروازے کھول دیتی ہے، ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: میرا بندہ نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔(صحیح بخاری)

اگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ اس کی شرح صدر نہیں ہو رہی، نہ ہی اسے ایمان کی مٹھاس مل رہی ہے، نورِ ہدایت سے وہ محروم ہے تو وہ کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرے اور ممکنہ حد تک اس کے لیے کوشش کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنے راستے دکھائیں گے۔ (العنكبوت: 69)

نفس کو حرام کاموں سے روکنے پر ہی لذت اور سلامتی حاصل ہوتی ہے، حرام کاموں کی طرف نظر اٹھانا در حقیقت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے ان پر نظر بھی نہ ڈالے تو اللہ تعالی اسے ایسا ایمان عطا کرتے ہیں جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے صرف نظر اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو! لوگوں کو نعمتیں ، مسرتیں اور خوشیاں اسی وقت ملیں گی جب وہ اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس سے محبت کریں، اللہ کی اطاعت پر فرحت محسوس کریں ۔ تو آخرت میں ان کے لیے نعمتیں جنت اور دیدار الہی کی صورت میں ہیں، تو یہ دو طرح کی جنتیں ہیں دوسری جنت میں وہی جائے گا جو پہلی جنت میں داخل ہو گا۔ اگر کسی شخص کو اطاعت گزاری میں لذت نہیں ملتی تو وہ اپنے آپ اور اپنے کردار کو قصور وار ٹھہرائے؛ کیونکہ اللہ تعالی تو ہر عبادت گزار کی عبادت کی قدر فرماتا ہے۔

اس پر تعجب نہیں کہ کس کو اطاعت کی لذت نہیں ملتی! تعجب تو اس پر ہے جو عبادت کی لذت پانے کے بعد عبادت چھوڑ دے!

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

 جو بھی مرد یا عورت حالت ایمان میں نیک عمل کرے تو ہم یقیناً اسے نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔ [النحل: 97]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئےقرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئےہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو! عید کے دن مسلمانوں کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں، اس دن اللہ کی نعمتیں اور عنایتیں عیاں ہوتی ہیں، اس لیے عید کے دن خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اپنے آپ اور اہل خانہ پر شرعی دائرے میں رہتے ہوئے دل کھول کر خرچ کریں، عید کی خوشی میں بھی تقوی اور اللہ کو مت بھولیں، اللہ کی عنایتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔

بیوی پر لازمی ہے کہ اپنے خاوند کو خوش و خرم رکھے، حسن معاشرت کا عملی پیکر بنے، اپنے بچوں کی بہترین انداز میں تربیت کرے، والد کا احترام سکھلائے، خواتین پر یہ بھی لازمی ہے کہ حجاب، حیا، حشمت، عفت اور اطاعتِ الہی کے ذریعے رضائے الہی کی جستجو میں لگی رہیں، ماہ اطاعت کے بعد اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کریں۔ مستقبل کے لیے بھی اللہ تعالی سے کامیابی اور قبولیت مانگیں؛ کیونکہ رمضان نیکیوں کی بہار ہے تو اس کے بعد بھی نیکیوں کے مواقع ہیں۔

اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے ایسے اعمال پسند ہیں جو دائمی کئے جائیں چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔ جو شخص ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے۔

اللہ کے بندو!اور اگر جمعہ اور عید اکٹھے ہو جائیں جیسے کہ آج ہوئے ہیں تو عید کی نماز ادا کرنے والے کیلئےجمعہ یا ظہر کی نماز دونوں میں سے ایک پر اکتفا کرنا جائز ہے۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

ماہِ رمضان جو ہم سےالوداع ہو چکا

ماہِ رمضان جو ہم سےالوداع ہو چکا

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے

وَ اِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى   (طٰہٰ:82)

’’ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں ۔‘‘

یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ کفر و شرک اور گناہوں سے سچی توبہ، ایمانِ کامل، عمل صالح اور راہِ راست پر چلتے رہنا، یعنی استقامت اور دوام اختیار کرنا حتیٰ کہ اسی حالت پر موت آئے ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ، استغفار و ایمان کے بعد اگر پھر انسان نے کفر و شرک، معاصی اور بد اعمالیوں کا راستہ اختیار کرلیا اور اسی حالت میں موت نے آگھیرا تو ہوسکتا ہے کہ مغفرتِ الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ٹھہرے۔اعمال پر مداومت اختیار کرنا بھی استقامت کے زمرے میں آتا ہے جیسے کہ رسول اللہ نےفرمایا:وَإِنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دَامَ وَإِنْ قَلَّ ’’اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے۔ اگرچہ کم ہو۔‘‘(صحیح البخاری:5861)

ایک صحابی نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتلادیں کہ آپ کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے، تو آپ نےفرمایا

: قُلْ: اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ

’ کہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر استقامت اختیار کرو۔(مسلم)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاحقاف : 13۔14)

’’بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے۔یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے، ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

ماہِ رمضان سید الشہور، شہر التوبۃ ، شہر المبارک ، شہر المواسات ، شہر الصبر، شہر القرابت ، شہر الصیام اور نیکیوں کاموسم بہار جو ہم سے الوداع ہوچکا ہے، جس میں روزے رکھنے کا بنیادی مقصد سیرت و کردار کی تعمیر تھا، تزکیہ نفس کرتے ہوئے روحانی تربیت اور ذہنی و جسمانی نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے انسانیت سے محبت و ہمدردی کا شعور اجاگر کرنا تھا، صبر و قناعت، ایثار و قربانی، تحمل و برداشت جیسے اعلیٰ انسانی جذبے پروان چڑھانے تھے۔ اور مادی خواہشات، لالچ، طمع، حسد، بغض، کینہ، بد اخلاقی، بد دیانتی، ملاوٹ، جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرنا تھا تاکہ اس ماہِ مقدس میں برسنے والی رحمتوں اور برکتوں سے پورا اسلامی معاشرہ مستفید ہوسکے۔

روزے سے تو نفس کی نظافت و طہارت میں نکھار آنا چاہیے تھا، اطاعت و فرمانبرداری جیسے جذبات پروان چڑھنے چاہئے تھے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر مطیع ہونا چاہئے تھا تاکہ روحانی قوت اور فکری بالیدگی میں اضافہ ہو اور اسی قوت کے ذریعے سارا سال فواحش و منکرات اور شیطان کے حملوں سے محفوظ رہا جاسکے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں صرف رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ یاد آتا ہے اور پھر رمضان المبارک کے بعد  !!  مؤ من روزے دار کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ عید کے دن خوش ہوتا ہے اور رمضان کے روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کی تعریف و تحمید کرتا ہے  وہ روتا بھی ہے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے روزے نمازیں درجہ قبولیت سے رہ نہ جائیں جیسا کہ بعض سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رمضان کے بعد مہینوں روتے رہتے تھے اور اللہ  تعالیٰ سے روزوں کی قبولیت کی دعائیں مانگتے رہتے تھے ۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ عید کے دن جس سے ایک دن قبل رمضان کا اختتام ہوا،  لہو و لعب کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عید کے روز سے ہی ہم فرض نمازیں ضائع کرنا شروع کردیتے ہیں رمضان المبارک میں نمازِ تروایح جو کہ نوافل ہیں اس کے لئے تو مسجدیں بھرجاتی ہیں لیکن افسوس وہ فرض نماز جس کو قصداً اور شرعی عذر کے بغیر چھوڑنے والاکافربن جاتاہے اس کیلئے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ نیز عید کے دن ہی سے فلمیں ، گانے ، فحاشی کی محفلیں اور تفریح گاہوں میں مرد وزن کے اختلاط کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ اس انداز سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں !!  اور یہ ہوتا ہے ہمارے رمضان کا اختتام ۔۔۔ !!  یہ شکر کا طریقہ نہیں اور روزوں کی قبولیت کی علامت بھی نہیں بلکہ یہ رمضان جیسی نعمت کی ناشکری ہے  یہ واقعی روزوں اور تراویح کی عدمِ قبولیت کی نشانی ہے ۔ اب اگر رمضان کے فرض روزے ختم ہوگئے تو روزوں سے چھٹی نہیں ہوگئی بلکہ نفلی روزوں کو اپنا شعار بنا ئیے۔ جیسا کہ شوال کے چھ روزے، یوم عرفہ اور عاشورہ وغیرہ کے روزے ۔ اسی طرح اگررمضان میں راتوں کا قیام ختم ہوگیا تو قیام اللیل تو اب بھی ہے اس پر پابندی کریں اور تہجد گذار بن جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مومنوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :

  كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ  (الذاریات:17)

اور وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں۔

 اسی طرح رمضان المبارک میں آپ نے زکوٰۃ  اور صدقۃ الفطر ادا کر لیا تو مال خرچ کرنے کے لئے اور بھی بہت سے مصارف ہیں۔ یتیموں ، مسکینوں پر خرچ کیجئے۔ اسی طرح تعمیر مساجد اور مدارس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیے۔اسی طرح کیا رمضان میں ہی تلاوت قرآن مجید فرض ہے باقی دنوں میں قرآن سے اس قدر دوری۔۔۔ !!  بلکہ ہمیں تو اس کو اپنا مشعلِ راہ بنانا چاہیے ۔ الغرض رمضان کے بعد کسی بھی نیکی کا دروازہ بند نہیں ہوتا بس آپ کو رغبت اورشوق ہونا چاہئے۔ اگر آپ نوافل پر زور نہیں دے سکتے تو رمضان کے بعد فرض نمازوں سے چھٹی تو مت کریں کم از کم فرض نماز تو جماعت کے ساتھ ادا کرتے رہیں اور گناہوں میں لت پت ہونے سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیں۔ اور جس طرح رمضان المبارک میں ہم نے TV ، ڈش، کیبل وغیرہ سے اجتناب کیا اسی طرح بقیہ مہینے بھی گناہوں سے اجتناب کریں ایسا نہ ہو ہمیں موت آئے اور ہم گناہوںمیں مصروف ہوں ،روزوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ روزے دار اپنی سابقہ کیفیت سے بہتر حالت میں آجائے یعنی گناہوں سے اجتناب جاری رکھے اور نیکیوں میں آگےہی آگے بڑھتا جائے۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو پرہیزگاروں کے اوصاف سے متصف کرلیا تو آپ نے حقیقی روزے رکھے ، حقیقی  قیام اللیل کیا اوراپنے نفس سے حقیقی مجاہدہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے اور اُسی سے ہمیشہ ثابت قدمی کی دعا مانگتے رہیے ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مسلسل اپنے رب کا فرمانبردار رہے ، شریعت پر ثابت قدم رہے ، ایسا نہ ہو کہ ایک مہینے میں اللہ کی عبادت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا  اور دوسرے مہینوں میں عبادت کا راستہ ہی بھول گیا۔ کبھی بڑا نیک اور عبادت گذار بنا پھر رہا ہے اور کبھی عبادت کی جگہ غیر شرعی مصروفیت نے لے لی۔ زیادہ ثواب کی جستجو میں رمضان المبارک میں عبادات کی کثرت اور بعد از رمضان لازمی عبادات سے پہلو تہی بہت بڑا جرم ہے ۔ ایسا نہ کریں!  بلکہ یہ ذہن میں رکھیں کہ جو رمضان المبارک میں ہمارا رب تھا دوسرے مہینوں میں بھی وہی رب ہے، اگر یہ تصور اپنے ذہن میں پختہ کرلیں گے تو ہمیشہ ہی شریعت الہٰی پر کاربند رہیں گے یہاں تک کہ آپ اپنے رب سے جاملیں گے اور وہ آپ سے بہت خوش ہوگا ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :  وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر99)

’’رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت )آجائے۔‘‘

اس کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ التفسیر علامہ عبد السلام بھٹوی اپنی کتاب ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :’’موت کو ’’ یقین ‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔ قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ’’یقین ‘‘ کا لفظ موت کے معنی میں آیا ہے، جیسے فرمایا : حَتّىٰٓ اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ ( المدثر : 47) ’’ یہاں تک کہ ہمیں یقین آ پہنچا (یعنی موت آگئی)۔ ‘‘

اس لیے سب مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت مراد لیا ہے۔ تو جب تک ہوش رہے نماز اور دوسری عبادات زندگی کے آخری دم تک حسب طاقت کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنا فرض ہے۔ بعض جاہل اور بےعمل پیر اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہو جائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو نماز، روزہ اور عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ کھیل ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل نہ ہو سکا کہ وہ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے مراد یقین قلبی لینا اور نماز روزہ چھوڑ دینا صریح بےدینی ہے۔(تفسیر القرآن الکریم)

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزے قبول فرمائے ہماری نمازوں، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر تمام اعمال صالحہ کو شرفِ قبولیت بخشے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رمضان سے بھرپور نیکیاں سمیٹنے کی توفیق بخشے اور رمضان کے بعد ہماری حالت پہلے سے بہتر ہو۔  آمین یا رب العالمین

مدارس کے طلباء رمضان کی چھٹیاں کیسے گزاریں؟

محترم ومکرم طلبہ ! يقینا آپ لوگ جس راہ کے مسافر ہیں وہ انتہائی قابل فخر علم کی راہ ہے اس راہ کے مسافر جن سعادت کے مالک ہیں وہ شاید کسی کو نصیب ہوں۔
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(المجادلۃ:11)

ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا اور اللہ تعالیٰ ( ہر اس کام سے ) جو تم کر رہے ہو ( خوب ) خبردار ہے ۔
اس سے بڑا درجہ اورکیا ہوسکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ :

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اللہ تعالیٰ ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے ، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔(آل عمران:18)
یہاں اللہ رب العزت نے اپنی توحید پر گواہ فرشتوں اور اہل علم علماء کو بھی اس عظیم شہادت میں شامل فرمایا ہے۔
اورپھر اتنی بڑی سعادت کہ اس راه پر چلنے والے کیلئے جنت کا راستہ آسان کیا جاتا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

مَا مِنْ رَجُلٍ يَسْلُكُ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا إِلَّا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (سنن ابی داود : 3643)

جو شخص حصول علم کے لیے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کر دیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکے گا ۔
عام طور پر شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی مدارس میں تعطیلات کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔ بعض مدارس میں شعبان کے پہلے ہفتے اور بعض اداروں میں دوسرے ہفتے سے چھٹیاں شروع ہوجاتی ہیںجوپورے رمضان اور اس کے بعد شوال کی دس یا پندرہ تاریخ تک جاری رہتی ہيں۔
اسی مناسبت سے بطور خاص طلباء کرام کے لئے کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں، امید ہے کہ ہمارے عزیزطلباء اوران کے والدین و سرپرستان اس پر توجہ دیں گے۔ چونکہ مدارس میں دین اور دینی علوم کو پڑھایاجاتا ہے اور اگرچہ یہاں مروجہ عصری تعلیم گاہوں کی مانند سوشل سائنس یا اخلاقیات یا نفسیات وغیرہ جیسے موضوعات نہیں پڑھائے جاتے مگرشب و روز کی تربیت اور نصابی کتابوں کی تعلیم کے دوران اساتذہ اپنے طلباء کو ان چیزوں کی بھی ضرور تعلیم دیتے ہیں۔پھر یہ کہ جو چیزیں آپ مدرسوں کی چار دیواری میں رہتے ہوئے پڑھتے ہیں وہ ایک علم ہے اور جب مدرسے سے باہر نکل کر اپنے اپنے گھروں، بستیوں اور شہروں کا رخ کرتے
ہیں اور چھٹی کے دن اپنے گھروں میں گزارتے ہیں تو وہ
آپ کے لئے عملی میدان ہوتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہوتا ہے کہ جو کچھ تعلیمی ادارے میں پڑھا ہے ، نہ صرف انہیں یادرکھنے ، انہیں دوہراتے رہنے کا اہتمام کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ آپ ان  تمام اخلاقیات پر پابندی اور مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں جو آپ کوسکھائی گئی ہیں اور نہ صرف خود قائم رہیں بلکہ اپنے گھر والوں ، محلے کے دوست واحباب اور گاؤں کے لوگوں پر بھی اچھے اثرات مرتب کرنے کی کوشش کریں۔ جو لوگ ابھی طالب علم ہیں وہی چند سالوں کے بعد باقاعدہ عملی میدان میں اتریں گے اوران کے سامنے ایک بہت بڑی جمعیت کی قیادت کا چیلنج ہوگا۔
مسلمان آج کے ناگفتہ بہ دور میں بھی اپنے سماجی و دینی مسائل و مشکلات میں اپنے علماء سے ہی رجوع کرتے ہیں اورانہی سے ان کے حل کی تدبیریں چاہتے ہیں، لہذا شروع ہی سے ہمارے طلباء کا کرداراوران کی علمی و عملی زندگی ایسی ہونی چاہئے کہ لوگ ان کے اندر اپنا راہنما اور قائد دیکھیں اوران کے بتائے ہوئے طریقوں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں۔
اس لیے طلبہ کو علامہ اقبال کے اس شعر کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ
سبق پڑھ تو صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
کام لیا جائے گا تجھ سے دنیا کی امامت کا
ان چھٹی کے دنوں کا زیادہ تر حصہ رمضان المبارک کے مہینے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس مہینہ کی اسلام میں کیا اہمیت ہے اوراس کی برکات و ثمرات کیا کیا ہیں ؟ان سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ آپ اگر حفظ کے طالب علم ہیں یا حفظ مکمل کرچکے ہیں تو اہتمام کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کریں ،اپنے اسباق کو دہرائیں اورکوشش کریں کہ تراویح میں پورا قرآن سنا سکیں۔ یہ ممکن نہ ہو، تو سننے کا اہتمام کریں اوراگر باقاعدہ تراویح میں قرآن پاک سننے کابھی موقع میسر نہ ہوتو تراویح کی نمازوں میں اہتمام سے شرکت کرنے کے ساتھ صبح وشام کم سے کم ایک یادوپارے تو پڑھے ہی جاسکتے ہیں۔کوشش کریں کہ قرآن پاک سے آپ کا رشتہ چھٹی کے دنوں میں بھی اسی طرح مضبوط رہے جس طرح تعلیم کے دنوں میں تھا۔
سنن نسائی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِذَا عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ (متفق علیہ)

صاحب قرآن کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس کے اونٹ رسی سے بندھے ہوں، جب تک وہ ان کی نگرانی کرتا رہتا ہے تو وہ بندھے رہتے ہیں، اور جب انہیں چھوڑ دیتا ہے تو وہ بھاگ جاتے ہیں ۔
اور ویسے بھی اس بابرکت ماہ ميں قرآن مجید کی تلاوت کرنا بہت ہی بڑے اجر ثواب کا باعث ہے اور نبی کریم ﷺکی سنت بھی ہے ۔
جو بچے ابتدائی دینیات کی تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے والدین صبح یا شام کے ایک متعین وقت میں اپنی نگرانی میں ان بچوں کوپڑھنے میں لگائیں، جو کتابیں وہ پڑھ رہے ہیں یا پڑھ چکے ہیں ان کاآموختہ (یعنی پچھلا سبق)دوہرانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ تعلیمی سلسلہ جاری رہے۔بہت سے مقامات پر رمضان کے مہینے میں بھی تعلیم يعنی دورہ جات کا اہتمام کیا جاتا ہے، ممکن ہوتو ان بچوں کو وہاں داخل کرائیں۔جو طلباء عربی درجات میں پڑھتے ہیں انہیں بھی عبادات و تلاوت کے اہتمام کے ساتھ مطالعہ و کتب بینی کے لئے ایک وقت مخصوص کرکے رکھنا چاہئے۔ جو درجہ آپ مکمل کرچکے ہیں،اس میں پڑھی ہوئی کتابوں کامطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ سال جس کلاس میں داخل ہونے والے ہیں اس کی بھی تیاری کرتے رہیں تاکہ جب اگلا تعلیمی سال شروع ہوتو اس کلاس میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے پہلے ہی تعارف ہو اور انہیں سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔ایک بڑی تعداد ان حضرات کی بھی ہوتی ہے جو ہر سال اپنا تعلیمی سفر مکمل کرلیتے ہیں ،ان کے سامنے کئی مسائل ہوتے ہیں۔کچھ وہ ہوتے ہیں جو آئندہ کسی خاص موضوع یا شعبے میں تخصص حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں اوراس کے لئے تیاری کریں،کچھ وہ احباب ہیں جو مدارس میں تدریسی خدمات انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ،ایسے فضلاء بھی مطالعہ اور پڑھے ہوئے مواد کے استحضار کا اہتمام کریں تاکہ رمضان کے بعد جب کسی ادارے میں تدریس کے لئے امیدوار ہوں تو وہاں ہونے والے انٹرویو وغیرہ کو آسانی سے پاس کرسکيں اور جب پڑھانے پر مامور ہوں اور انہیں مختلف درجات کی الگ الگ کتابیں پڑھانے کے لئے دی جائیں تو آسانی محسوس ہو، کچھ فضلاء ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس وقت ہوتاہے اوروہ اپنا اگلا تعلیمی سفرعصری تعلیم گاہوں سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔توان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے معتمد ذرائع اختیار کرکے ان تعلیم گاہوں میں داخلے کے اصول و ضوابط اور شرائط وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں اورپھر اس کے لئے تیاری کریں۔علم کی کوئی انتہا نہیں ہے،آپ کا علم جتنا زیادہ وسیع ہوگا اور مطالعے میں جتنی وسعت ہوگی،اسی قدر آپ کی فکر میں پختگی آئے گی اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ ہمارے دین میں سیکھنے کی حد تک ایک علم اور دوسرے علم کے مابین کوئی تفریق نہیں ہے۔اسلام کی بنیاد ہی تعلیم پر رکھی ہے ،لہذا وہ اپنی نسلوں کو ہر علم کے حصول کی ترغیب دیتاہے۔
جیسا کہ فرمان نبوی ﷺہے :

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ

’’حصول علم ہر مسلمان (مرد وعورت)پر فرض ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ:224)
البتہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے علم کو کیسے استعمال میں لاتے ہیں یا مدارس سے فارغ ہوکر عصری تعلیم گاہوں میں داخل ہونے کے بعد آپ کی زندگی کیسی گزرتی ہے۔اپنے فکر،وضع قطع اور اصول و اخلاق پر مضبوطی سے قائم رہ کر بھی آپ بڑی سے بڑی ڈگری اوراعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔بہرحال ایسے فضلاء جو عصری اداروں کا رخ کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے پوری تیاری کرلیں،یہ بھی طے کرلیں کہ ان کے لئے کونسا موضوع مناسب ہوگا اور کس فن سے انہیں زیادہ انسیت ہے،اسی حساب سے اپنا ذہن بنائیں اور داخلہ وغیرہ کے سلسلے میں کوشش کریں۔
ایسابھی دیکھنے میں آتاہے کہ بہت سے طلباء مدرسے کے احاطے میں توغیر اختیاری طورپر تمام اخلاقیات،نمازوں اور دیگر اچھی اور عمدہ اعمال کے عادی ہوتے ہیں مگر جوں ہی چھٹی ہوئی اور گھر پہنچے، ساری اخلاقیات اور اچھائیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں،ایسے طلباء کے ذریعے مدارس کا شبیہ خراب ہوتا ہے اور لوگوں تک غلط پیغام جاتا ہے،وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید ان کے اداروں میں کوئی نظم و ضبط نہیں ،کسی قسم کی اخلاقی تربیت نہیں دی جاتی اور انہیں بس وقت گزاری کے لئے وہاں رکھا جاتاہے۔
راقم الحروف کو اپنا طالب علمی کا زمانہ یاد آ رہا ہے کہ وہ الحمد للہ ٹوپی پہنے بغیر کبھی بھی باہر نہیں نکلتے اور گلی کوچوں پر کھڑے ہر شخص کو سلام دعا کیا کرتے تھے ایک بار راستے میں کھڑے کسی بندے نے پاس بلاکر کھا کہ مجھے آپ کا کردار بہت پسند ہے کیونکہ آپ ہمیشہ سر پر ٹوپی رکھا کرتے ہیں اور سلام کرنے کی عادت اپنائے ہوئے ہیں تو اس سلسلے میں طلباء کو چاہیے کہ وہ اپنا ظاہری کردار

درست رکھیں تاکہ لوگ اس کے کردار کو ديکھتے ہی مدارس کی طرف راغب ہوں اور آپکی شخصیت سے مطمئن بھی ہوں۔
اور طلبہ کے والدین کو بھی کافی بیداری و مستعدی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔طلباء کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ دین اور دینی علوم کے طالب علم ہیں،قرآن مجید واحادیث رسول ﷺ میں ان طالب علموں کے مقام و مرتبہ کو بیان کیاگیا ہے اور جو شخص جتنا اہم اور اعلیٰ مرتبے کا حامل ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی اسی قدر اہم اور غیر معمولی ہوتی ہیں،آپ ابھی سے یہ سمجھیں کہ آپ کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے قوم کی امامت و قیادت کے لئے کیاہے،آپ علم محض اپنے لئے نہیں حاصل کررہے بلکہ ایک دنیا آپ سے امید لگائے بیٹھی ہے، آج کے پُر آشوب دور میں جبکہ غیروں کے ساتھ ساتھ خود اپنوں سے بھی مسلمانوں کو بے شمار خطرات لاحق ہیں مخلص اور باعمل علماء اور دینی رہبر ہی ان کی صحیح راہنمائی کرسکتے ہیں، پس اپنے اخلاق و کردار کو ایسا بنائیے کہ لوگ آپ سے اچھا تأثر لیں نمازوں کی پابندی کریں اور گھر محلے میں موجود ان لوگوں کوبھی اس کی ترغیب دیں جو نماز نہیں پڑھتے۔ایک وقت مختص کرکے اپنے اہل خانہ ماں باپ، بھائی بہن ،دوست واحباب اور ديگر لوگوں کو بھی دین کی باتیں بتائيں چھٹی کے ان دنوں میں عام طلباء وفضلاء کو بھی تبلیغ و دعوت کے لئے وقت نکالنا چاہیے تاکہ اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہو اور ملت کی ضروریات و مسائل سے واقفیت کے ساتھ انسانیت کی مشکلات کا علم ہواور پھر وہ جب باقاعدہ عملی میدان میں اتریں تو پوری انسانیت کے خیر و فلاح کی فکر کے ساتھ اتریں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ تمام طلبہ وفضلاء کو دین حنیف پر گامزن رکھے اور ان کی ہر حال میں نصرت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔

قائد اور مبلّغ کے لیے بنیادی ہدایات۔ قسط-4

مسلسل محنت

 وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ (الحج:78)

’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔‘‘
جہاد کا لفظ ’’جُہَدْ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے ’’کوشش کرنا ‘‘ مسلم اور غیر مسلم کی کوشش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرمسلم کی کوشش صرف دنیا کے لیے ہوتی ہے ایسا شخص بظاہر نیکی کاکام بھی کرے تو اُس کے پیچھے بھی دنیا کا مقصد کار فرما ہوتاہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے رب کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر کرتا ہے کیونکہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے کوشش کرو جس طرح کوشش کرنے کا حق ہے۔

وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاوَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ (العنکبوت:69)

’’جو لوگ ہمارے لیے محنت کریں گے ہم انہیں اپنے راستے ضرور دکھائیں گے اور یقیناً اللہ نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘
حالات جیسے بھی ہوں اگر کوئی حق کی جستجو اور آزمائشوں کا مقابلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کیلئے راستے ہموار کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتاہے۔ ’’سبیل‘‘ کی جمع ’’سُبُلٌ‘‘ اور اس کے ساتھ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جمع کی ضمیر میں رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے ۔’’سُبُلٌ‘‘کے ساتھ جمع کی ضمیر لا کر یقین دلایا ہے کہ انسان کا کام خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حق تک پہنچنا آسان کر دے گا اور اپنے راستوں میں کوئی نہ کوئی آسانی کاراستہ ضرورنکال دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى (النجم:39۔40)

’’اور انسان کے لیے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اور یقیناً اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔‘‘
قرآنِ مجید کی یہ تعلیم ہے کہ ہر انسان نے اپنا اپنا بوجھ اٹھانا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اس لیے ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے دنیا میں کمایا اورعنقریب ہر کوئی اپنا کیا ہوا دیکھ لے گا اور ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا (الاسراء:19)

’’جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی اور وہ مومن ہوا ان لوگوں کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی ۔‘‘
اقوام کی تباہی میں بنیادی عنصر ان کی جلد بازی ہوا کرتا ہے ۔ جس کی بناء پر وہ اصول کے مقابلے میں وقتی مفاد ، صالح کردار کے مقابلہ میں دنیا کی لذّات، سہولیات اور آخرت کے بدلے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جس وجہ سے ذلت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں نے آخرت کو پسند کیا اور اس کے لیے کوشش کی اس حال میں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولe پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی ۔ یہاں آخرت کے لیے ’’سعی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینی اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آخر ت کا صلہ کوشش کے بغیر نہیں ملے گا۔

يَاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ يُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَانَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِيْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ  (الصف:10تا 11)

’’اے ایمان والو!کیا میں تم کو وہ تجارت نہ بتاؤں؟ جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرو، اگر تم اس کی حقیقت سمجھ جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کرے گااور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور تمہیں ہمیشہ کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا،یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور وہ چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی دے گا اللہ کی مدد اور فتح عنقریب آنے والی ہے، اے نبی!اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کونفع اورنقصان کاشعور بخشا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ریڑھی بان کومعلوم ہوجائے کہ میرا سودا فلاں چوک اور فلاں بازار میں زیادہ بِک سکتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں وہاں ریڑھی لگائوں۔ مزدور کومعلوم ہو کہ مجھے فلاں شہر میں زیادہ مزدوری ملے گی، تو وہ زیادہ مزدور ی پانے کے لیے اپنے بال بچے چھوڑ کر اس شہر کارخ کرتا ہے۔ منافع اور فائدے کے لالچ میں ہی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوردراز کے ملکوں میں جاکر نوکری اورتجارت کرتے ہیں۔ گویاکہ بنیادی طور پر ہر انسان کواپنے نفع اورنقصان کا شعور دیا گیا ہے، اس شعور کو دین اورآخرت کی خاطر استعمال کرنے کا حکم ہے۔ اے ایمان والو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاتا ہوں کہ جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا بنیادی اور دائمی فائدہ یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف ہوں گے اورتمہیں عذابِ الیم سے نجات حاصل ہو گی اور تمہیں اس جنّت میں داخل کیاجائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہاں صاف ستھرے ،اعلیٰ اورپاکیزہ مکانات ہیں،اس جنّت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، جسے اس میں داخلہ نصیب ہوا اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے،ہاں تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں دشمن پر فتح حاصل ہو وہ بھی تمہیں حاصل ہو گی۔
جس تجارت کے بدلے تمہیں ہمیشہ کی جنّت اور دشمن پرکامیابی حاصل ہوگی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول پر سچا ایمان لائو اور اللہ کے راستے میںاپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو،یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت سمجھ جائو۔ یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے مال و جان کے ساتھ کوشش کرنا پڑتی ہے، جہاد کامعنٰی اللہ کے راستے میںکوشش کرنا اورقتال فی سبیل اللہ اس مقصد کے لیے انتہائی اقدام ہے۔ اس لیے یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ کوشش شامل ہوگی جودین کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی سربلندی کے لیے کی جائے گی۔
مبلغ کو ’’اللہ‘‘ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوناچاہیے

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر:53)

’’اے نبی کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوںیقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔‘‘
ربِ کریم نے اپنے بندوں کو بڑے پیار اور دلرُباانداز میں بلایا اوریقین دلایا ہے کہ اے میرے بھٹکے ہوئے بندو ! تمہیں مایوس ہونے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آئو میری بارگاہ میں آجائو تم جیسے بھی ہو میرے ہی بندے ہو میری رحمت بے کنارہے لہٰذا میری رحمت سے مایوس نہیںہونا یقین کرو کہ میں تمہارے سارے گناہ معاف کردوں گا کیونکہ میں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ اس آیتِ کریمہ کی بار بار تلاوت کریں اور اس کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنا عظیم نام ’’اللہ‘‘ لے کر بندوں کو تسلّی دی ہے جس کا یہ معنٰی بھی بنتا ہے کہ اے نبی! میرے بندوں کو میرا نام لے کر کہیں کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف گناہوں کی بخشش کے بارے میں مایوس نہیں ہونا بلکہ کسی معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بالخصوص ایک مبلغ کو بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے کام میں مگن رہنا چاہیے۔ اس لیے سیدنایعقوب u  نے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی:

وَ لَا تَيْــــــَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ (یوسف:87)

’’ اللہ کی رحمت سے مایو س نہ ہونا ، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ۔ ‘‘
سیدنایوسف u کی جدائی میں سیدنایعقوب u ہر وقت خاموش اور غمگین رہتے تھے۔ اس غم نے سیدنایعقوب uکو ان کی عمر سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا۔ طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کا غم پہلے دن کی طرح تازہ تھا اس کے ساتھ ہی سیدنایعقوب uکو صدمے پر صدمہ پہنچتا ہے۔ پہلے یوسفu  آنکھوں سے اوجھل ہوئے پھر بنیامین اور یہودہ بھی مصر میں رہ گئے۔ اس کے باوجود سیدنایعقوب u اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب بیٹوں نے انہیں یہ بات کہی کہ آپ یوسف کو یاد کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہلاک ہو جائیں۔ اس پر سیدنایعقوب u نے فرمایا: میرے بیٹو! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تم جائو یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔

قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ (الحجر:55تا56)

’’انہوں نے کہا ہم نے تجھے سچی خوشخبری دی ہے ،آپ ناامید ہونے والوں سے نہ ہوں۔ اس نے کہا اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہو تا ۔‘‘
یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے پیغمبرe !آپ اپنے مخا لفین کو ابراہیمu کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب انہوں نے سیدنا ابراہیمu کی خدمت میں پیش ہو کر سلام عرض کیا۔ سیدناابراہیمu نے انہیں فرمایا ہم تو آپ سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ ملائکہ نے عرض کیا ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم آپ کو ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ سیدناابراہیم u نے انہیں فرمایا یہ کیسی خوش خبری ہے؟ میں تو بڑھاپے کی آخری دہلیز پر کھڑا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کیا آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سیدناابراہیمu فی الفور فرمانے لگے میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ اس کی رحمت سے مایوس گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔
حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور بہ ضرور سرفراز فرمائے گا ۔اللہ تعالیٰ اسباب کا پابند نہیںاسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ لہٰذا کسی بھی صورت میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
’’سیدہ عائشہr کے بھانجے عروہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ r نے نبی کریمeسے عرض کیا،کیا آپ پر اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ۔ جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبدکُلال کو دعوت دی۔ اس نے میری اُمید کے خلاف ردّ عمل دیا۔ میں انتہائی افسردہ ہو کر واپس پلٹا ۔ میرا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا اور میں قرن ثعالب کے قریب تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل مجھ پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ دیکھاتو اس میں جبرائیلu تھے۔ اس نے مجھے آواز دی اور کہا آپ کی قوم کا جواب اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے۔ آپ اسے جو حکم دینا چاہتے ہیں دیں۔ مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی۔ اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمدe! آپ ان کے متعلق جوحکم دینا چاہیں دیں میں حاضر ہوں۔ آپ چاہتے ہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیتاہوں ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللہَ  وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا (رواہ البخاری:باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء)

نبی کریمeنے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک سے بچنے والے ہوں گے۔ ‘‘
توکل کرنا

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِيْنِ (النمل:79)

’’ ا ے نبی اللہ پر بھروسہ رکھیں یقیناً آپ واضح طور پر حق پر ہیں۔‘‘

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ(الشعراء:117)

’’اللہ غالب اور مہربان پرتوکل کرو۔‘‘
ا لدّاعی کا کام لوگوں کو بار بار دعوت دینا ہے اگر لوگ نہیں مانتے تو اُسے اپنے رب پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے ۔
نبی اکرمeرات کی تاریکیوں میں رو،رو کر دعائیں کرتے کہ اے رب العالمین! ان لوگوں کو ہدایت سے سرفراز فرما لیکن لوگ ہدایت حاصل کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھے جا رہے تھے، جس پر آپ کو انتہائی غم ہوتا، اس صورت حال کے پیش نظر آ پ کو دوطرح سے تسلی دی گئی ان لوگوں سے کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ میں تمہارے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ میں تم سے ڈرتا ہوں کیونکہ میرا بھروسہ ’’اللہ ‘‘ پر ہے وہی مجھے کافی ہے۔جب چاہے گا حق کو غلبہ عطا فرما ئے گا وہ نہایت مہربان ہے اور مجھے ہرحال میں دیکھ رہا ہے۔
الدّاعی کا کام لوگوں کو سمجھانا ہے اگر اُس کے مخاطب سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُسے دل گرفتہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ اُلجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے عمل کا جواب دینا ہے یہی بات سرورِ دو عالم eکو سمجھائی گئی کہ ایمان نہ لانے والوں کو یہ بتلائیں کہ میں تمھارے اعمال سے بری ٔ الذمہ ہوں ۔مجھے حکم ہے میں اپنے رب پر بھروسہ کرو ں جو ہر بات پر غالب اور نہایت مہربان ہے ۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا(الفرقان:58)

’’ اے نبی اس ذات پربھروسہ رکھو جو زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو پوری طرح جانتا ہے۔‘‘
نبی کریم eکو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کو دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان سے کسی قسم کے اجر کے طالب نہیں جسے بوجھ سمجھ کر یہ آپ کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں آپ ان کی اصلاح اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے مصائب اور مشکلات برداشت کر رہے ہیں تو اس رب پر بھروسہ کیجیے جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ(التوبۃ:129)

’’ اگر وہ منہ موڑلیں تو فرما دیں مجھے اللہ ہی کافی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ ‘‘
نبی پاک کو تسلّی دینے کے ساتھ یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرف سے اعراض ہویا ان کی طرف سے آپ کے بارے میں عدم توجہ کی جائے تو آپ کو کسی صورت میں بھی دل چھوٹا اور حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ آپ عرش عظیم کے مالک کے نمائندہ ہیں اس لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت اوران کی عدم توجہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔بلکہ آپ کی دعا ، عقیدہ اور عمل یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں اور اسی پر میرا بھروسہ ہے جو عرشِ عظیم کا رب ہے ۔یہ وہ عقیدہ ہے جس بنا پر دنیا کا کوئی خوف اور لالچ مومن کے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتا۔ یہی عقیدہ اور وظیفہ ہے کہ جب سیدناابراہیمuکو آگ میںجھونکا جارہا تھاتو ملائکہ نے انہیں پیشکش کی کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو اس آگ کو نمرود اور اس کے ساتھیوں پر الٹا دیا جائے۔ سیدناابراہیمu نے ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ کیا ایسا کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے ملائکہ نے کہا اب تک اس بات کا حکم نازل نہیں ہوا۔ سیدناابراہیمuنے فرمایا :
’’حسبی اللّٰہ‘‘ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔
ادھرسیدناابراہیمuنے اپنے رب پر بھروسہ اور اعتماد کی انتہا کردی ادھر آسمان سے آگ کو حکم نازل ہوا:

قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰى اِبْرٰهِيْمَ (الانبیاء: 69)

’’ہم نے کہا اے آگ !ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ۔ ‘‘
یہی وہ وظیفہ اور عقیدہ ہے کہ جب نبی اکرم ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے استراحت فرما تھے ۔اچانک ایک بدو نے آپ کی تلوار پکڑ کر آپ کے سر پر لہرائی اور کہاکہ اے محمد! تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے اللہ بچانے والا ہے بدو کا وجود کانپنے لگا اتنے میں آپ نے اس سے تلوار اُچک لی اور فرمایا تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے معذرت کی اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوا۔ یہی وہ عمل اور ذکر ہے کہ جب احد کے میدان میں صحابہ کرامy کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں مدینہ پہنچے تو کفار کے سردار ابو سفیان کا پیغام آیا کہ ہم مدینہ پہنچ کر تمہیں تہس نہس کرنے والے ہیں ۔اس کے ردِ عمل میں صحابہ کرام’’حسبنا اللہ‘‘ پڑھتے ہوئے کفّار کے لشکر کے تعاقب میں نکلے جس کے ردّعمل میں ابوسفیان نے مکہ کی راہ لینے میں عافیت سمجھی اور صحابہ کرام اپنے مقصد میںکامیاب مدینہ پلٹے ۔

وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا(الطلاق:3)

’’جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہے اللہ اپنے کام کو پورا کرتا ہے اور ’’اللہ‘‘ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرمایا ہے ۔‘‘
وَ لِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (ھود:123)
’’اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے پاس ہے اور سب کے سب کا م اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔سو اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ کرو اورجو تم کرتے ہو تیرا رب اس سے ہر گز غافل نہیں ۔‘‘
اس فرمان میں ایک طرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور دوسری طرف داعی حق کے لیے تسلّی ہے کہ جووہ خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ انجام کار اوراس کاصلہ اس کے ہاں موجود ہے۔ لہٰذا نبی اکرمe کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دل چھوٹا کرنے اور مخالفین کی مخالفت کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت یعنی اس کی یاد میں مگن رہیں اور اس کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں۔ آپ کا رب نہ آپ کی بے مثال محنت واخلاص سے غافل ہے اور نہ ہی آپ کی مخالفت کرنے والوں کی سازشوں اور شرارتوں سے بے خبر ہے۔ توکل کا معنیٰ ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کرے۔ جو اپنے رب پر بھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتاہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ یہی غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔

فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا

’’ آپ ان سے اعراض فرمائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں  اللہ تعالیٰ کافی ہے کارساز۔ ‘‘(النساء:81)
منافقین آپe کے سامنے آتے تو ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتے کہ جن سے آپ کو یقین ہو جائے کہ یہ واقعتاً اچھے لوگ ہیں۔ لیکن جونہی آپ کی محفل سے باہرجاتے بالخصوص رات کے وقت خفیہ مجالسمیں مشورے کرتے کہ اسلام سے کس طرح چھٹکارا پائیں اور آپ کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے؟ ان کی خفیہ مجالس کو طشت ازبام کرتے بتلایا گیا کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کراماً کاتبین ان کی تمام حرکات کو ضبطِ تحریرمیں لا رہے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے سامنے مکمل ریکارڈ رکھ دیا جائے گا۔ یہاں نہایت بلیغ انداز میں منافقوں کو ایسی حرکات سے بازرہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول کریم e کو سمجھایا گیا کہ آپ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے درگزر فرمایا کریں۔ کیونکہ صاحب عزیمت لوگ سِفلہ مزاج لوگوں کی عادات سے صرفِ نظر ہی کیا کرتے ہیں آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری حفاظت کرنے والا، کار ساز اور ان کی سازشیں ناکام کرنے والا ہے۔
۔۔۔

روزہ کی اہمیت،فضیلت اور اس کی رخصتیں اور آسانیاں

روزہ کا لغوی وشرعی معنی

روزہ کو عربی لغت میں ’’صوم‘‘کہتے ہیں ، صوم لغوی طور پر رک جانے کو کہتے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر کے وقت سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزه ہے۔
روزہ کی اہمیت
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان، الحدیث:8)

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد ﷺ الله کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوة ادا کرنا، بیت الله کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
روزہ کی فضیلت وثواب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

الصِّيَامُ جُنَّةٌ فَلاَ يَرْفُثْ وَلاَ يَجْهَلْ، وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ المِسْكِ يَتْرُكُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا (صحیح البخاری، کتاب الصوم ، باب فضل الصوم  الحدیث:1894)

’’ روزه (جہنم سے) ایک ڈھال ہے لہذا روزے دار کو چاہیے کہ وه نہ تو فحش کلامی کرے اور نہ ہی جاہلوں جیسا کام کرے اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! روزه دار کے منہ کی بو الله کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیاده بہتر ہے۔ الله کا ارشاد ہے کہ روزه دار اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش میرے لئے چھوڑ تا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافرماتا ہے :

كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ (صحیح البخاری، کتاب الصوم ، باب ھل یقول إنی صائم إذا شُتم ، الحدیث:1904)

’’ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لیے ہیں مگر روزہ، وہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کابدلہ دوں گا۔ روزہ ایک ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہوتو وہ بری
باتیں اور شوروغوغا نہ کرے۔ اگر اسے کوئی گالی دے یا اس
سے جھگڑا کرے تو وہ اسے یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ بہتر ہے۔ روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے ایک تو روزہ کھولنے کے وقت خوش ہوتا ہے، دوسرے جب وہ ا پنے مالک سے ملے گا تو روزے کاثواب دیکھ کر خوش ہوگا۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الجَنَّةِ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب: هل يقال رمضان أو شهر رمضان، ومن رأى كله واسعا، الحدیث:1898)

’’جب ماه رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
مزیدفرمایا :

إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ (صحيح البخاري كتاب الصوم باب: هل يقال رمضان الحدیث:1899)

’’ جب ماه رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اورسرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ (صحیح البخاری، کتاب الصوم ، باب من لم يدع قول الزور، والعمل به في الصوم ، الحديث:1903)

’’جو شخص جھوٹ اور فریب کاری نہ چھوڑے تو الله تعالی کو اس کی ضرورت نہیں کہ صرف روزه کے نام سے وه اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔‘‘
روزہ کی رخصتیں اور آسانیاں
قارئین کرام ! رمضان المبارک کے فرض روزوں میں کون کون سی رخصتیں ہیں اور کون کون سے اعمال جائز ہیں ؟
آئیں ملاحظہ فرمائیں ! اور شارع کی دی ہوئی رخصتوں اور آسانیوں سے فائدہ حاصل کریں ۔
1 ایک آدمی کے چاند دیکھنے کی گواہی پر روزہ رکھنا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلَالَ ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي رَأَيْتُهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَصَامَهُ وَأَمَرَ النَّاسَ بِصِيَامِهِ

لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی ( لیکن انہیں نظر نہ آیا) اور میں نے رسول اللہ ﷺکو خبر دی کہ میں نے اسے دیکھا ہے، چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔( سنن ابی داؤد : 2342 )
2 ماہِ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
اُحِلَّ لَکُم لَیلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُم
روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے ۔(البقرۃ:187)
3 مسافر ، حاملہ اور مرضعہ کا روزہ مؤخر کرنا
سیدنا انس رضی‌اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ نِصْفَ الصَّلَاةِ، وَالصَّوْمَ، وَعَنِ الْحُبْلَى وَالْمُرْضِعِ . (سنن النسائی : 2274 )

اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز اور روزے کی چھوٹ دی ہے ،حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو بھی ( روزے کی چھوٹ دی ہے ) ۔
یاد رہے کہ مسافر ، حاملہ اور مرضعہ بعد میں وہ روزہ قضاء رکھیں گے ۔
4 جنابت کی حالت میں سحری کرنا
سیدہ عائشہ رضی‌اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَ لَيُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ ، ‏‏‏‏‏‏غَيْرِ احْتِلَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَصُومُهُ .

میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے (اور غسل کیے بغیر) روزہ رکھتے  بعد میں نماز فجر سے پہلے غسل فرما لیتے۔(صحیح البخاری : 1931)
اگر آدمی کی آنکھ دیر سے کھلے اور وہ جنبی ہو تو وہ حالت جنابت میں سحری کر سکتا ہے البتہ وہ سحری کھانے سے قبل وضو کرلے ۔
5 اذان فجر کے دوران سحری کرنا
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ .(سنن ابی داؤد : 2350 )

جب تم میں سے کوئی صبح کی اذان سنے اور ( کھانے پینے کا ) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے ۔
یعنی اگر سحری کرتے ہوئے اذان آ جائے تو جو کھانا کھایا جا رہا ہو اسے ترک نہ کیا جائے بلکہ مکمل کیا جائے ۔
6 روزہ کی حالت میں مسواک کرنا
سيدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ .(صحیح بخاری : 1/ 928)

میں نے نبی  کریم ﷺکو روزے کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ گن نہیں سکتا ۔
7 روزہ کی حالت میں بھولے سے کچھ کھا پی لینا
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ (صحیح البخاری : 1933)

جب کوئی بھول کرکچھ کھا پی لیا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔
یعنی روزے کی حالت میں بھولے سے کچھ کھا پی لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ۔
8 روزہ کی حالت میں خودبخود قے آجانا
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ‌ نے فرمایا :

مَنْ ذَرَعَهُ قَيْءٌ وَهُوَ صَائِمٌ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِ اسْتَقَاءَ فَلْيَقْضِ . (سنن ابی داؤد :  2380)

جس کو خود بخود قے آ جائے اور وہ روزے سے ہو تو اس پر قضاء نہیں، ہاں اگر اس نے قصداً قے کی تو وہ قضاء کرے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اگر روزے کی حالت میں خود بخود قے آ جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا ۔
9 روزہ کی حالت میں ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

لَا بَأْسَ أَنْ يَتَطَعَّمَ الْقِدْرَ أَوِ الشَّيْءَ.

روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں  ۔ (صحیح بخاری : 1/926)
10 روزہ کی حالت میں سر پر پانی ڈالنا
جناب عبدالرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے رسول اللہ ﷺکے کسی صحابی نے بیان کیا کہ :

لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ أَوْ مِنَ الْحَرِّ .  (سنن ابی داؤد : 2365 )

میں نے مقام عرج میں رسول اللہ ﷺکو اپنے سر پر پیاس س-ے یا گرمی کی وجہ سے پانی ڈالتے ہوئے دیکھا اور آپ ﷺروزے سے تھے۔
11روزہ کی حالت میں تیل و کنگھی کرنا
سيدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلْيُصْبِح دهِينًا مُتَرَجِّلًا .

جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو اسے تیل و کنگھی کر لینا چاہیے ۔ (صحیح بخاری : 1/ 926)
12روزہ کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنا
امام حسن بصري رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لَا بَأْسَ بِالسَّعُوط لِلصَّائِمِ إِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَى حَلْقِه .

روزہ دار کے لیے ناک میں دوا ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ حلق تک نہ پہنچے ۔(صحيح بخاري : 1/ 929)
– روزہ کی حالت میں سرمہ لگانا
سيدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

اكْتَحَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ

رسول اللہ ﷺ نے روزہ کی حالت میں سرمہ لگایا ۔ (سنن ابن ماجہ : 1678)
13 روزہ کی حالت میں اپنا تھوک نگلنا
امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

يَبْتَلِعُ رِيقَهُ.  (صحیح البخاری : 1/ 928)

روزہ دار اپنا تھوک نگل سکتا ہے ۔
14 دورانِ روزہ حلق میں مکھی ، مچھر وغیرہ کا چلے جانا
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إِنْ دَخَلَ حَلْقَهُ الذُّبَابُ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ

اگر روزے دار کے حلق میں مکھی چلی جائے تو کوئی حرج نہیں ۔(صحیح بخاری : 1/ 927)
15روزہ کی حالت میں سینگی لگوانا
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ (سنن ابي داؤد : 2372 )

روزہ کی حالت میں رسول اللہ ﷺنے سینگی ( پچھنا ) لگوایا ۔
16سفر کی دشواری سے روزہ توڑ دینا
سيدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :

‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ الْكَدِيدَ، ‏‏‏‏‏‏أَفْطَرَ فَأَفْطَرَ النَّاس (صحیح البخاری : 1944)

’’رسول اللہ ﷺ ( فتح مکہ کے موقع پر ) رمضان میں مکہ کی طرف نکلے تو آپﷺ روزہ سے تھے لیکن جب مقام کدید پر پہنچے تو روزہ توڑ دیا اور لوگوں نے بھی روزہ توڑ دیا ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اگر سفر یا جہادی مہم کے دوران روزے کی شدت برداشت نہ ہو تو روزہ توڑا جا سکتا ہے بعد میں قضا روزہ رکھا جائے گا ۔
17بوڑھے آدمی کو روزے کی رخصت
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ :

رُخِّصَ لِلشَّيْخِ الْكَبِيرِ أَنْ يُفْطِرَ وَيُطْعِمَ عَنْ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا وَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ .  (سنن الدارقطني : 2380)

’’بوڑھے آدمی کو روزہ نہ رکھنے کی رخصت دی گئی ہے لیکن وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو (دو وقت) کا کھانا کھلائے اور اس پر کوئی قضا نہیں۔‘‘
یہ رخصت ایسے بوڑھے آدمی کے لیے ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے ۔
18دورانِ اعتکاف بیوی کا ملنے آنا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ ، ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي .(صحیح البخاری : 3281)

رسول اللہ ﷺاعتكاف میں تھے میں آپ ﷺ سے ملنے آئی اور باتیں کرتی رہی ، جب واپس جانے کے لیے اٹھی تو رسول اللہﷺ  مجھے چھوڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص اعتکاف میں بیٹھا ہو تو اس سے اس کی بیوی ملنے آ سکتی ہے اور وہ اسےگھر تک واپس چھوڑنے کے لیے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے ۔
19قضا روزوں میں وقت کا اختیار
سیدہ عائشہ رضی اللہ‌عنہا فرماتی ہیں :

كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ(صحیح البخاری : 1950)

’’مجھ پر رمضان کے روزے باقی رہتے اور میں قضا روزے شعبان سے پہلے نہ رکھ پاتی ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کے قضا روزے آئندہ رمضان سے پہلے کسی بھی مہینے میں رکھے جا سکتے ہیں۔
20قضا روزوں میں تفریق کا اختیار
سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :

لَا بَأْسَ أَنْ يُفَرَّقَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى :  فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ  (صحيح البخاري : 1/937)

قضا روزے متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا حکم صرف یہ ہے کہ’’دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرو  ‘‘
ایک ضروری وضاحت
قارئین کرام ! ہم نے اپنے سابقہ مضمون “ممنوعات نماز” میں حدیث نمبر 28 پر سرخی لگائی تھی کہ “سوئے ہوئے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا ” اور حدیث کی وضاحت میں لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے آدمی کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا ہے جس پر نیند کا غلبہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکور حدیث میں سوئے ہوئے آدمی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ۔
ہم فضیلة الشیخ ابو حمزہ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ کے شکر گزار ہیں جنہوں نے ہماری اصلاح فرماتے ہوئے مسئلے کی نشاندہی کی ۔
لہذا ہم اپنے سہو سے رجوع کرتے ہوئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں معافی کے طلب گار ہیں ، قارئیں کرام تصحیح فرما لیں ۔

فتاوی رمضان المبارک کے احکام ومسائل

سوال :رمضان المبارک کا روزہ مسلمانوں پر کب فرض ہوا؟

جواب : راجح قول کے مطابق رمضان المبارک کا روزہ مسلمانوں پر ہجرت کے دوسرے سال ماہ شعبان میں فرض ہو ا ۔
سوال :کیسا پتہ چلتا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہوا ہے ؟
جواب : ماہ رمضان المبارک داخل ہو نے کی دو علامتوں میں سے ایک علامت ظاہر ہوجائے تو رمضان المبارک کا مہینہ داخل ہونا ثابت ہوجاتاہے۔
1 چاند کا نظر آنا خواہ ایک عادل(سچا) بالغ،عاقل مسلمان کی گواہی سے ہی کیوں نہ ہو یعنی کوئی سچا مسلمان یہ کہے کہ میں نے رمضان المبارک کا چاند دیکھ لیا ہے (اگرچہ باقی مسلمانوں کو چاند نظر نہ آئے) ۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

تَرَاءَى النَّاسُ الْهِلَالَ، فَأَخْبَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي رَأَيْتُهُ، فَصَامَ وَأَمَرَ النَّاسَ بِالصِّيَامِ
(سنن ابی داود، کتاب الصوم ، الحدیث:2342، سنن الدارمی ، کتاب الصوم ، الحدیث:1744 ، سنن الدارقطنی ، کتاب الصیام ،

الحدیث:2170  شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔دیکھیے : إراواء الغلیل 4/16 ، الحدیث:908)
’’یعنی لوگوں نے رمضان المبارک کے چاند دیکھنے لگے تو میں نے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کو بتایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے تو(اس خبر پر اعتماد کرتے ہوئے) رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھا اور آپ ﷺ نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
2 بادل وغیرہ ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو ماہِ شعبان کے تیس دن پورے کیاجائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا العِدَّةَ ثَلاَثِينَ(صحیح البخاری  الحدیث:1767)

’’یعنی اگر بادل کی وجہ سے رمضان کا چاند نظر نہ آئے تو تم شعبان کو پورا(یعنی تیس دن) کرو۔‘‘
سوال : روزہ کن لوگوں پر فرض ہے ؟
جواب : روزہ ہر اس شخص پر فرض ہوتا ہے جس میں مندرجہ ذیل شروط پائی جائیں۔
مسلمان ، بالغ،عاقل، مقیم، تندرست(صحت مند) روزہ رکھنے پر قدرت رکھنے والا  اور شرعی رکاوٹ نہ ہو۔
مندرجہ بالا شروط میں سے ایک شرط بھی رہ جائے تو اس پر ماہِ رمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔
مسلمان کی شرط سے کافر اور بالغ کی شرط سے نابالغ اور عاقل کی شرط سے غیر عاقل یعنی پاگل وغیرہ اور مقیم کی شرط سے مسافر اور تندرست کی شرط سے بیمار شخص اور قدرت رکھنے والے کی شرط سے قدرت نہ رکھنے والا یعنی بوڑھا شخص وغیرہ اور شرعی رکاوٹ نہ ہونےکی شرط سےحائضہ اور نفاس والی عورت سے ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔
سوال : مذکورہ بالا شروط میں سے کوئی ایک شرط نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو بعد میں وہ قضاء کے طور پر روزہ رکھے یا فدیہ ادا کرے۔
جواب : مذکورہ بالا شرو ط نہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی شخص رمضان المبارک کا روزہ نہیں رکھتا تو اس کے تین مختلف احکام ہیں۔
1 بعض شروط ایسی ہیں جن کے نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی شخص نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو اس پر رمضان کے بعد نہ بطور قضاء روزہ ہے اور نہ فدیہ ۔ ان شرطوں میں مسلمان ، بالغ، عاقل ہیں اگر کوئی شخص رمضان المبارک کی پندرہ تاریخ کو اسلام قبول کرتا ہے تو اسلام اس سے یہ مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ سابقہ ایام رمضان کا روزہ رکھے یا فدیہ ادا کرے یعنی اس نے اسلام قبول کرنے سے پہلے جن ایام میں روزہ نہیں رکھا تو اس کے اوپر رمضان المبارک کے بعد ان ایام کے نہ بطور قضاء روزہ فرض ہیں اور نہ فدیہ فرض ہے اس پر کچھ بھی فرض نہیں اسی طرح اگر کوئی شخص دوران رمضان بالغ ہوجائے تو اس پر نابالغ کی حالت میں رمضان کاجو روزہ نہیں رکھا اس پر بعد میں نہ قضاء ہے اور نہ فدیہ ۔ اسی طرح اگر کوئی پاگل دوران رمضان ٹھیک ہوجائے اور پاگل ہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا تو ٹھیک ہونے کے بعد اس کے اوپر نہ روزہ بطورِ قضاء فرض ہے اور نہ فدیہ جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّغِيرِ حَتَّى يَكْبَرَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ، أَوْ يُفِيقَ  (سنن ابن ماجه ، حديث نمبر :2041۔ سنن ابی داود ، حدیث نمبر :4398۔ سنن الترمذی ، حدیث نمبر :1423۔ سنن النسائی ، حدیث نمبر : 3432)

تین قسم کے افراد سے قلم اٹھا لیا گیا ہے(ان تین قسم کے افراد پر کوئی ثواب یا گناہ نہیں) سوئے ہوئے سے حتی کہ وہ بیدار ہوجائے، بچے سے حتی کہ وہ بالغ ہو جائے اور پاگل (دیوانے )سے حتی کہ اس کی عقل واپس آ جائے، یا اسے افاقہ ہو جائے۔ ‘‘
2بعض شرطیں ایسی ہیں جن کے نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی شخص نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو اس پر رمضان المبارک کے بعد صرف بطور قضاء روزہ فرض ہے اور اس پر فدیہ فرض نہیں ہے۔ ان شرطوں میں مقیم،تندرست،شرعی موانع(رکاوٹ) ہیں اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے دوران مسافر ہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتا تو اس پر لازم اور فرض ہے کہ وہ بعد میں بطور قضاء روزہ رکھے فدیہ نہ دے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص رمضان المبارک میں بیمار ہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکا تو اس پر فرض ہے کہ وہ بعد میں جب صحت مند اور شفا یاب ہوجائے تو وہ بطور قضاء روزہ رکھے فدیہ نہ دے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ  (البقرۃ:184)

’’لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی پورا کر لے۔‘‘
اسی طرح اگر کوئی مسلمان عورت کو رمضان المبارک میں حیض یا نفاس کا خون جاری ہوجانے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتی تو اس عورت پر پاک ہونے کے بعد بطور قضاء روزہ فرض ہے فدیہ نہیں۔

قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ، فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ (صحیح البخاری:321۔ صحیح مسلم :335)

’’سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جب ہم عورتیں حیض کی حالت میں ہوتیں تو ہمیں بطور قضاء روزہ رکھنے کا حکم دیا جاتا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیاجاتا۔‘‘
3 بعض شرطیں ایسی ہیں جن کے نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی شخص نے رمضان کا روزہ نہیں رکھا تو اس پر فدیہ دینا فرض ہے رمضان المبارک کے بعد طور قضاء روزہ فرض نہیں ان شرطوں میں قادر ہےیعنی روزہ رکھنے پر قدرت رکھنے والا ہو اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو تو اس پر فدیہ دینا فرض ہے بطور قضاء روزہ رکھنا فرض نہیں جیسے اگر کوئی شخص بہت بوڑھا ہونے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا یا دائمی بیماری مثلاً (کینسر) وغیرہ کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس پر فدیہ فرض ہے (یعنی ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا) بطور قضاء روزہ فرض نہیں۔
اسی طرح ایک عورت حاملہ ہو یا مرضعہ دودھ پلانے والی  عورت کا روزہ کی وجہ سے ،اس کو یا اس کے بچے کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کا حکم بھی راجح قول کے مطابق اس پر فدیہ فرض ہے بطور قضاء روزہ اس پر فرض نہیں۔ واللہ اعلم
سوال : کیا روزہ دار شخص ہانڈی کا ذائقہ چکھ سکتا ہے؟
جواب : جی ہاں ! روزہ دار شخص روزے کی حالت میں کھانا وغیرہ کا ذائقہ چکھ سکتاہے بشرطیکہ چکھا ہوا کھانا حلق تک نہ اُترے جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے:

لَا بَأْسَ أَنْ يَذُوقَ الْخَلَّ أَوِ الشَّيْءَ، مَا لَمْ يَدْخُلْ حَلْقَهُ وَهُوَ صَائِمٌ (مصنف ابن ابی شیبہ وصححہ الألبانی)

’’کوئی حرج نہیں روزے کی حالت میںکوئی شخص سرکہ چکھ لے یا کوئی دوسری چیز بشرطیکہ حلق میں نہ جائے۔‘‘
۔۔۔

استقبال وپیغام رمضان

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ( البقرۃ: 193)

’’اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو  ۔‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان ، الحدیث:8)

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
سیدنااُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا

يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.( نسائي، السنن، کتاب الصيام، باب صوم النبي صلی

الله عليه وآله وسلم بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، الحدیث: 2357 ) ’’یا رسول اﷲ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا،آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔‘‘
ماہ شعبان ماہ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہئیں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن ۔ علامہ ابن رجب حنبلی لطائف المعارف (ص : 258) میں لکھتے ہیں :’’ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رحمتوں، بخششوں ، عظمتوں اور مغفرتوں والا ماہ مقدس سایہ فگن ہونے جا رہاہے ۔مساجد کی رونق بڑھ جائے گی فرزندانِ توحید تقوی کے حصول کیلئے دنیاوی ناز ونعم کو ترک کرکے اپنے رب رحیم وکریم کا حکم بجا لانے میں مستعد ہوجائیںگے سارا سال کاہلی اور سستی کرنے والا مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر کوشش کرے گا کہ برے کاموں سے بچا رہے ۔ درحقیقت روزہ اسی کا ہے جو کھانے ، پینے ، شہوت ، غیبت ، بدزبانی ، بداندیشی اور بدعملی سے مکمل اجتناب کرے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے کا نام ہے جو روزے دار روزہ رکھ کر بھی غیبت ، گالی گلوچ، مکروفریب ، رشوت ،قماربازی ،سود خوری ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدنظری سے نہیں رکتے وہ روزے کی روح سے نابلد ہیں ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ (صحیح البخای ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :1903)

’’ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بدعملی سے نہیں رکتا(اس سے کہہ دو) کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔‘‘

دوسری جگہ ارشادفرمایا:اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلاَ یَرْفُثْ وَلاَ یَجْہَلْ وَاِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَہُ أَوْ شَاتَمَہُ فَلْیَقُلْ إِنِّیْ صَائِمٌ مَرَّتَیْنِ (صحیح البخاری ،کتاب الصوم، حدیث نمبر :1891)

’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بدزبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو اسے دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔
اسلام کا مقصد بھی ایسے ہی رجال کارکی تیاری ہے جو خواہشات ، جذبات اور اعمال میں متوازن ہو، جو خواب وخور،گفت وشنید، خندہ وگِریہ، جسم وروح اور دنیا وآخرت میں توازن قائم رکھتے ہوں۔تمام بد اعمال لوگ مثلاً : راشی اہل کار، انصاف فروش حکّام وقضاۃ، عیاش سرمایہ دار، لامذہب اساتذہ وطلباء اور گراں فروش تجار اس ماہ مقدس میں بھی اس توازن کو اپنے جذبات ،اعمال اور حرکات سے درہم وبرہم کررہے ہوتے ہیں جبکہ روزہ تو اس توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہے جس طرح فوج کو جفاکش بنانے کیلئے ہر سال ایک دوماہ کیلئے جنگلوں اور پہاڑوں میں رکھا جاتاہے جہاں سپاہی ہر روز میلوں پیدل چلتے اور پہروں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اِسے کیمپ لائف کہا جاتاہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے کیمپ لائف ہے خود ہی غور فرمائیے کہ جولوگ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی فطری محبت کے باوجود چھوڑ کررب کریم کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر روز کم از کم چودہگھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں ، سحری کے بعد دیر تک تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ تمام گناہوں سے بچتے ہیں ، پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے تصور میں ڈوبے رہتے ہیں غرباء ، مساکین ، ایتام اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرتے ہیں اپنی کمائی کا خاصہ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو تقدس اور توازن کی مطلوبہ منزل کو پہنچ سکتے ہیں۔
روزے کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت ہے اس روزے سے نہ صرف تزکیہ نفس ہوتاہے بلکہ اس کی بدولت انسان مادی خواہشات ، لالچ اور طمع جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرتاہے اور روزے سے روحانی تربیت ہوتی ہے اس سے ذہنی اور جسمانی نظم وضبط پیداہوتاہے انسانیت سے محبت کا شعور اجاگر ہوتاہے رمضان میں عبادت کے ذریعے انسان انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت بھی حاصل کرتاہے جس کے نتیجے میں مساوات پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
رمضان المبارک حقوق اللہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص محروم طبقات کی جانب متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ بنتاہے کیونکہ انسان خود بھوکا پیاسا رہ کر دوسروں کی فاقہ کشی کابخوبی احساس کرسکتاہے۔
اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے رمضان و قرآن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس ماہ مقدس میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے دل کی اجڑی بستی کو آباد کیا جاسکتاہےتاکہ وہ دل کے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بن سکے اور اللہ تعالی کا بھی ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ  (فاطر: 29۔30)

’’ وہ جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی ان کو پورا پورا اجر عطا فرمائے گا اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور قدرت والا ہے۔ ـ‘‘
اور قرآن پاک کی تلاوت سے انسان کے خیالات ، احساسات اور فکر پاک ہوتی ہے جب اس کے اندر پاکیزگی آجاتی ہے تو ظاہر بھی صاف ہوتا چلا جاتاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ قرآن مجیدکو کثرت کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھا جائے جس سے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور تعلق باللہ بڑھتاہے ۔
قرآن پاک ایک بات بہت زور دے کر کہتاہے اس پر بھی غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
بقول شاعر :             جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے            یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
روزہ مسلمانوں کو نظم و ضبط ، صبر و استقامت ، ایثارو قربانی، اتحادویگانگت، باہمی اخوت، محبت والفت، مساوات ، ضرورتمندوں سے حسن سلوک ، انفاق ، مؤثر پلاننگ اور اپنے دشمن کو پہنچانے کا اور اس سے فی سبیل اللہ نبرد آزما ہونے کا بھی درس دیتا ہے۔
رمضان المبارک تقوی و صبر کا مہینہ ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے طاقت اور جذبۂ ایمانی کے عملی مظاہرے کا مہینہ ہے اسی ماہ میں غزوہ بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں نے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دی یہ ماہ رحمت مسلمانوں کو دنیا کے فرعون کے خلاف مقابلہ اور طاغوت کے خلاف کھڑا ہو جانے کا پیغام دیتا ہے۔
ماہ ِ رمضان مسلمانوں کو درس دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! بلا شبہ روزہ تمہیں صبرو عظمت سکھاتا ہے لیکن صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی مدر پدر آزاد، پلید، رحمت دو جہاں، محبوب کائنات ﷺکی شان اقدس میں کسی طرح بھی گستاخی کرے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو نہیں بلکہ غازی عبد القیوم شھید ، غازی علم الدین شھید ، عامر عبدالرحمن چیمہ شھیداور شھیدۃ الحجاب کی طرح اپنی جان سے آگے گزر جاؤ۔
الغرض روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی عملی تربیت کا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت میں کا میابی و کامرانی حا صل ہو سکے اور یہی استقبال رمضان اور پیغام رمضان المبارک ہے۔

الاعمال البدعية المبثوثة في شهر رجب

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین أما بعد :
فمن باب التواصي بالحق والتعاون على البر والتقوى أردت أن أذكر نفسي وإخواني المسلمين بما ورد في رجب رغبة في البيان وأن الله سبحانه وتعالى أمرنا بالتبليغ لدينه واتباع رسوله صلى الله عليه وسلم فلا تقبل عبادة من العبادات إلَّا إذا كانت خالصة لله عز وجل صوابًا أي باتباع سنة محمد صلى الله عليه وسلم وقد بين الله عز وجل بقوله: {وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا} [النور:54].
التعريف بشهر رجب
شهر رجب هو الشهر السابع من شهور السنة الهجرية النبوية وهو أحد الأشهر الحرم التي قال الله عز وجل فيها: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ} [التوبة:36].
وفي الصحيحين من حديث أبي بكرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم خطب في حجته فقال: إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، السنة اثنا عشر شهرًا منها أربعة حُرُم، ثلاثة متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم، ورجب مُضر الذي بين جمادى وشعبان.(البخاري :4662ومسلم :1679)
هل لشهر رجب مزية على غيره من الشهور؟
قال ابن حجر رحمه الله: لم يرد في فضل شهر رجب، ولا في صيامه، ولا في صيام شيء منه معين، ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث صحيح يصلح للحجة ا.هـ(تبیین العجب،ص:5۔6)
بعض الاعمال البدعية المنتشرة في شهر رجب
انتشر عند بعض الناس بعض الأعمال البدعية تتعلق بهذا الشهر نذكر منها ما يلي إجمالاً:
1- الاحتفال بليلة الإسراء والمعراج:
يحتفل بعض المسلمين بالإسراء والمعراج في ليلة السابع والعشرين من شهر رجب على اعتبار أنه ﷺ أُسرِيَ به في هذه الليلة، والواقع أنه لم يثبت كون هذه الليلة هي التي أُسرِيَ به ﷺ فيها.
أذکر فی الأسطر التالیۃ بعض أقوال العلماء التی تتعلق باحتفال بلیلۃ الإسراء والمعراج وأنہا من الأعمال البدعية التی لا علاقۃ لہا بالدین.
قال ابن رجب رحمه الله: وروي بإسناد لا يصح عن القاسم بن محمد أن الإسراء بالنبي صلى الله عليه وسلم كان في سابع وعشرين من رجب، وأنكر ذلك إبراهيم الحربي وغيره(لطائف المعارف،ص:290)
وقال الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله: وهذه الليلة التي حصل فيها الإسراء والمعراج لم يأتِ في الأحاديث الصحيحة تعيينها، لا في رجب ولا غيره، وكل ما ورد في تعيينها فهو غير ثابت عن النبي ﷺ عند أهل العلم بالحديث، ولله الحكمة البالغة في إنساء الناس لها… ولو ثبت تعيينها لم يجز للمسلمين أن يخصوها بشيء من العبادات، ولم يجز لهم أن يحتفلوا بها لأن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه لم يحتفلوا بها، ولم يخصوها بشيء، ولو كان الاحتفال بها مشروعًا لبينه الرسول صلى الله عليه وسلم للأمة إما بالقول وإما بالفعل، ولو وقع شيء من ذلك لعرف واشتهر، ولنقله الصحابة إلينا.(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة (1/183)
قال الشيخ محمد بن عثيمين رحمه الله: فأما ليلة السابع والعشرين من رجب فإن الناس يدّعون أنها ليلة المعراج التي عرج بالرسول صلى الله عليه وسلم فيها إلى الله عز وجل وهذا لم يثبت من الناحية التاريخية، وكل شيء لم يثبت فهو باطل (مجموع فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين (3/297)
وقال أیضاً في موضع آخر: ثم على تقدير ثبوت أن ليلة المعراج ليلة السابع والعشرين من رجب فإنه لا يجوز لنا أن نحدث فيها شيئًا من شعائر الأعياد أو شيئًا من العبادات؛ لأن ذلك لم يثبت عن النبي ﷺ وأصحابه، فإذا كان لم يثبت عمن عُرج به، ولم يثبت عن أصحابه الذي هم أولى الناس به، وهم أشد الناس حرصًا على سنته وشريعته، فكيف يجوز لنا أن نحدث ما لم يكن على عهد النبي ﷺ في تعظيمها شيء، وفي إحيائها!(مجموع فتاوى ابن عثيمين (2/297)
مما سبق يتبين أن تخصيص ليلة السابع والعشرين من رجب باحتفال يعود كل عام، يلحقها بالأعياد المحدثة، التي لا دليل عليها من كتاب ولا سنة، ولهذا لم يفعل ذلك السلف، ولا عرفت عنهم، ولا تحدثوا عنها (الأعياد المحدثة وموقف الإسلام منها (ص:208)
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: وأما اتخاذ موسم غير المواسم الشرعية، كبعض ليالي شهر ربيع الأول التي يقال إنها ليلة المولد، أو بعض ليالي رجب، أو ثامن عشر ذي الحجة، أو أول جمعة من رجب، أو ثامن شوال الذي يسميه الجهال عيد الأبرار، فإنها من البدع التي لم يستحبها السلف، ولم يفعلوها، والله سبحانه وتعالى أعلم (مجموع الفتاوى (25/298)
وقال ابن النحاس رحمه الله: وكل ذلك [ومنه الاحتفال بالإسراء والمعراج] بدع عظيمة في الدين، ومحدثات أحدثها إخوان الشياطين، مع ما في ذلك من الإسراف في الوقيد، والتبذير وإضاعة المال(تنبيه الغافلين (ص:330)
وقال الشقيري رحمه الله: وقراءة قصة المعراج، والاحتفال لها في ليلة السابع والعشرين من رجب بدعة(السنن والمبتدعات (ص:131)
وسئل السيد محمد رشيد رضا عن الاحتفال بليلة المعراج، وما فيه من إيقاد السرج والأغاني فأجاب: لا شك في أن ما ذكرتم من البدع، وأنه ليس من شعائر الإسلام في شيء وأما محوه وإبطاله فيراعى فيه الحكمة والموعظة الحسنة، واتقاء الشقاق والتفريق بين المسلمين(فتاوى محمد رشيد رضا (6/2479)
وقال الشيخ على محفوظ رحمه الله: وقد تفنن أهل هذا الزمان بما يأتون في هذه الليلة من المنكرات، وأحدثوا فيها من أنواع البدع ضروبًا كثيرة (الإبداع في مضار الابتداع (ص:272)
وقال الشيخ محمد بن إبراهيم آل الشيخ رحمه الله: الاحتفال بذكر الإسراء والمعراج أمر باطل، وشيء مبتدع، وهو تشبه باليهود والنصارى في تعظيم أيام لم يعظمها الشرع، وصاحب المقام الأسمى رسول الهدى صلى الله عليه وسلم هو الذي شرع الشرائع، وهو الذي وضّح ما يحل وما يحرم، ثم إن خلفاءه الراشدين وأئمة الهدى من الصحابة والتابعين لم يعرف عن أحد منهم أنه احتفل بهذه الذكرى المقصود أن الاحتفال بذكرى (الإسراء والمعراج) بدعة، فلا يجوز، ولا تجوز المشاركة فيه، ولا أوافق على أن تشارك الرابطة فيه لا بإرسال أحد من موظفيها، ولا بإنابة الشيخ القليقلي أو غيره عنها في ذلك(فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم (3/103)
2- تخصيص رجب بالصيام:
من الأمور المبتدعة في شهر رجب: تخصيصه بالصيام، والمخصصين له استندوا إلى أحاديث بعضها ضعيف، وكثير منها موضوع.
3- عتيرة رجب:
العتيرة: هي ذبيحة كانت تذبح للأصنام في العشر الأول من رجب فيصب من دمها على رأسها، وهي من أفعال أهل الجاهلية، وكان بعضهم إذا طلب أمرًا نذر لئن ظفر به ليذبحن من غنمه في رجب كذا وكذا۔(لسان العرب (4/537)، مادة (عتر)
4- صلاة الرغائب:
قال النووي رحمه الله: هي بدعة قبيحة منكرة أشد إنكار، مشتملة على منكرات، فيتعين تركها والإعراض عنها، وإنكارها على فاعلها(فتاوى الإمام النووي (ص:57)
وقال ابن النحاس رحمه الله: وهي بدعة، الحديث الوارد فيها موضوع باتفاق المحدثين (تنبيه الغافلين (ص:496)
وقال ابن تيمية رحمه الله: وأما صلاة الرغائب: فلا أصل لها، بل هي محدثة، فلا تستحب، لا جماعة ولا فرادى؛ فقد ثبت في صحيح مسلم أن النبي ﷺ نهى أن تخص ليلة الجمعة بقيام أو يوم الجمعة بصيام، والأثر الذي ذكر فيها كذب موضوع باتفاق العلماء، ولم يذكره أحد من السلف والأئمة أصلًا(مجموع الفتاوى (23/132)
5- تخصيص العمرة في رجب:
يحرص بعض الناس على الاعتمار في رجب، اعتقادًا منهم أن للعمرة فيه مزيد مزية، وهذا لا أصل له، فقد روى البخاري عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: إن رسول الله اعتمر أربع عمرات إحداهن في رجب، قالت ـ أي عائشة ـ: يرحم الله أبا عبد الرحمن، ما اعتمر عمرة إلا وهو شاهدُه، وما اعتمر في رجب قط(صحيح البخاري (1776)
6- الزكاة في رجب:
اعتاد بعض أهل البلدان تخصيص رجب بإخراج الزكاة قال ابن العطار: وما يفعله الناس في هذه الأزمان من إخراج زكاة أموالهم في رجب دون غيره من الأزمان لا أصل له، بل حكم الشرع أنه يجب إخراج زكاة الأموال عند حولان حولها بشرطه سواء كان رجبًا أو غيره(المساجلة بين العز بن عبد السلام وابن الصلاح (ص:55)
وجوب الالتزام بالسنة:
على الدعاة إلى الله أن يحرصوا على نشر دين الله وأن يلتزموا بالسنة، قال الإمام سفيان الثوري رحمه الله: كان الفقهاء يقولون: لا يستقيم قول إلا بعمل، ولا يستقيم قول وعمل إلا بنية، ولا يستقيم قول وعمل ونية إلا بموافقة السنة (الإبانة الكبرى لابن بطة (1/333)
فيجب عليهم أن يتعلموا السنة، ويعلموها، ويدعون أنفسهم ومن حولهم إلى تطبيقها؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم يقول: من عمل عملًا ليس عليه أمرنا فهو رد(صحيح مسلم (1718) ولله دَرُ أبي العالية حين قال لبعض أصحابه: تعلموا الإسلام، فإذا تعلمتموه فلا ترغبوا عنه، وعليكم بالصراط المستقيم، فإن الصراط المستقيم: الإسلام، ولا تنحرفوا عن الصراط المستقيم يمينًا وشمالًا، وعليكم بسنة نبيكم، وإياكم وهذه الأهواء التي تلقي بين أهلها العداوة والبغضاء(الإبانة الكبرى (1/338)
عن حذيفة رضي الله عنه: يا معشر القراء: استقيموا، فقد سبقتم سبقًا بعيدًا، ولئن أخذتم يمينًا وشمالًا لقد ضللتم ضلالًا بعيدًا(البدع والنهي عنها، لابن وضاح (ص:10-11)
الخاتمة
إن من الأمور المقررة شرعًا أن العبرة بحسن العمل لا كثرته ولا تنوعه وإنما جاء التذكير في هذه الرسالة وتسطيرها للتركيز على العناية بالكتاب والسنة وما جاء فيهما مما هو مشروع من الأعمال والعبادات والأزمان والأماكن.
ولقد بين لنا ربنا عز وجل بالاقتداء بالرسول صلى الله عليه وسلم حيث قال: {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً} [الأحزاب:21].
وثمرة الاتباع هي الاهتداء بهديه صلى الله عليه وسلم {وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا} [النور:54].
سائلًا الله عز وجل أن يتقبل منا صالح الأعمال وأن يجعله خالصًا لله متبعًا فيه سنة رسوله صلى الله عليه وسلم راجيًا من الله القبول والسداد والهداية. وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا.

تبصرۂ کتب

کتاب کا نام:بات پر بات
مولف کا نام:صاحبزادہ برق التوحیدی حفظہ اللہ تعالیٰ
مضمون:مولاناعبداللہ دانش(امریکہ)کی تالیف جدید ”بات سے بات“میں مودودیت نوازی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ۔
ناشر:بیت التوحید،دارالسلام(ٹوبہ ٹیگ سنگھ)پاکستان۔
صفحات کی تعداد:176
قیمت:400
کتاب کا تعارف و تبصرہ:
٭کتاب ہذا میں فاضل مؤلف نے عبداللہ دانش صاحب کی کتاب ”بات سے بات“کے بہت سے قابل گرفت مواقف کا انتہائی ناقدانہ اور تحقیقانہ تعاقب و تجزیہ کیا ہے،مثلاً: دانش صاحب نے اپنی کتاب میں جماعت اسلامی کے بانی ومقتدیٰ اعظم سید ابوالاعلیٰ مودودی کوعلوم اسلامیہ آلیہ و عالیہ میں ”امام“کے منصب جلیل پر فائز کرنے کی کوشش کی ہے،اور انہیں امام عربی لغت و تفسیر،امام حدیث روایتاًودرایتاً،اور عظیم مفکر اسلام باور کرانے کی بھرپور سعی کی ہے،اس سلسلے میں انہوں نے اپنی تالیف میں دلائل کے طور پر بہت سی مثالیں بھی پیش کی ہیں،حتی کہ مودودی صاحب کی متفق علیھا لغزشوں کا بھی بے جا دفاع کیا ہے۔
مثلاً:صفحہ:31 ،پر مولانامودودی کے مناقب بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:
جو شخص اسقدر وسعت ظرف کا مالک ہو کہ اپنے ہم عصر دشنام طرازوں کےجواب میں ادنیٰ الفاظ بھی استعمال نہ کرے،وہ صحابہ کرام ؇ جیسی ہستیوں کے خلاف کیسے گستاخانہ لکھ سکتا ہے؟
صاحبزادہ برق توحیدی صاحب ”بات پر بات“ ص: 140پر اس کا نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
موصوف سے سوال کیا جانا چاہیے کہ مولانا مودودی کی ایسی تحریریں کوئی در بطنِ شاعر نہیںکہ ان کے صدور میں کوئی استحالہ ہو،ان کی تفسیر،خطبات اور خلافت و ملوکیت جیسی کتابیں اور دیگر تحریریں یا تفسیر مطبوع ہیں،لہذا صفائی کا یہ بھونڈا انداز اپنانے کے بجائے سوال تو یہ ہونا چاہیے :ایسا شخص حضرات صحابہ ؇ جیسی عظیم ہستیوں کے خلاف یہ گستاخانہ تحریر کیسے لکھ گیا اور ان کے قلم سے یہ ہرزہ سرائی کیسے سرزد ہوئی؟
٭موصوف دانش صاحب نے صرف بےجا مودودیت نوازی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ افسوس اس دفاع لاحاصل میں انہوں نے مدارس دینیہ ،اور انکے اساتذہ و طلباء کو بھی نہ بخشا،رقمطراز ہیں:
مدارس کے طلبا پر ترس آتا ہےکہ کس قدر تنگ نظری، خوف و ہراس ،کورانہ تقلید کا دور تھا،بچوں کی ذہنی نشوونما ویسے کھلی فضا میں نہیں کی جاتی جیسے سیکولر اسکولوں ، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں کی جاتی ہے۔ (بات سے بات ،ص:12)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
ہمارے بزرگ بھی(تفہیم القرآن پڑھنے سے)منع کرتے تھے،مگر جب ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنادماغ کھول کر پڑھا تو معلوم ہوا ہمارے بزرگ غلط اور وہ جھوٹ بولتے ہیں۔(بات سے بات،ص:31-32)
اس پر نقد و جرح کے مختلف انداز اپناتے ہوئے مولانا توحیدی صاحب رقمطراز ہیں:
اگر موصوف اہل حدیث مدارس میں پرورش پاکر ”یخرج المیت من الحی“کا مظہر بن گئے ہیں تو کم از کم انہیں ان مدارس کا اگر شکریہ ادا کرنے کی توفیق نہیں تو ان کے خلاف منفی تاثر دینے سے تو گریز کرنا چاہیے،کہ ماں کا حق تو والد سے بھی تین گنا زیادہ ہوتا ہے،موصوف آٹھ سال جماعت اسلامی کے فیلڈ ورکر رہ کر اتنا حق سمجھتے ہیں تو ان مدارس میں آٹھ سال تک فیڈر لینے کا کچھ حق نہیں۔(بات پر بات،ص:14)
مزید لکھتے ہیں:
ان الفاظ کو بار بار پڑھیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ الفاظ ایک ایسے شخص کے ہوں جس کا خود وجود ان الفاظ کی تردید ہے،کہ موصوف سے کوئی پوچھے اگر آپ کا یہ تاثر وتبصرہ صحیح ہے توپھر آنجناب کس صحرا کا خودرو پودہ ہیں،…. دینی مدارس کے متعلق اس تاثر کے پیچھے ان کے اندر کا چور بولتا ہے کہ یوں ثابت کیا جائے مولانا مودودی اگر کسی مدرسہ میں نہیں پڑھے تو اسی سبب وہ تنگ نظری سے محفوظ اور تحقیقات کا وسیع دائرہ رکھتے ہیں،مگر اس چور دروازہ سے حملہ آور ہونے کے نتیجے میں دینی مدارس کا کچھ بگڑتا ہے کہ نہیں مولانا مودودی بہرحال سندفراغت نہیںپاسکتے۔(بات پر بات،ص:15-16)
دور حاضر میں اسلامی علوم ودرسگاہیں اور دینی طلباء کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے بیمار قلوب واذہان کی کمی نہیں،لہذا ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خیر و برکت کے ان چشموں اور ان سے جاری فیضان کو پراگندہ کرنے کی سعی مذموم کرنے والوں کے پروپیگنڈے کا جواب دیا جائےنہ کہ انکی ہم نشینی اختیار کی جائے ،لیکن افسوس صد افسوس عبداللہ دانش صاحب کی اس بے بصیرتی اور غدر پر کہ محض تنظیمی تعصب اور اپنے ذاتی رجحانات کی بنیاد پر ثابت شدہ حقائق سے روگردانی کرگئے۔
اس تناظر میں محترم صاحبزادہ برق توحیدی کی ”بات پر بات“داد تحسین کی مستحق اور قابل ستائش ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی صاحب کا تعلق ہے تو ”لکل عالم زلۃ“کے بمصداق ان سے بہت سی لغزشیں سرزد ہوئیں،جنکے خطرناک نتائج برآمد ہوئے،جنکا اندازہ زیر تبصرہ کتاب کے مطالعے سے ہوگا۔
٭نیز فاضل مؤلف نے بھی مولانا مودودی کی بعض صفات حمیدہ کو تسلیم کیا ہے،چنانچہ صفحہ:27پر لکھتے ہیں:
بلاشبہ مولانا مودودی نے اپنے طریقہ پر بڑی خدمت دین کی ہے۔
صفحہ 153 پر لکھتے ہیں:
بلاشبہ مولانا مودودی بڑے باصلاحیت شخص تھے اور انہوں نے اپنے ماحول میں حسب استطاعت بڑا کام کیا اور نام کمایا۔مگر یہ کہنا کہ وہ جامع الصفات بلکہ سب کچھ تھے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی ہمعصر ہمسر نہ تھا بلکہ کوئی پیش رو بھی نہ تھا قطعاً خلاف حقیقت ہے۔
نیز صفحہ 20 پر مودودی صاحب کی تحریری خدمات کے متعلق لکھتے ہیں:
ہمارے خیال میں مولانا مودودی کی بعض کتب مفید طلب ہیں مگر ان کی حیثیت مولانا مودودی کی مجموعی فکر و نظر کے تناظر میں محض دام ہم رنگ زمین سے زیادہ نہیں ،بنا بریں انکی مخصوص کتب تو بہر حال ایسی کتب کے زمرہ میں آتی ہیں،جن کے مطالعہ سے گریز ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کا ابطال و اعدام ضروری ہے۔
نیز صفحہ:124 پرمولانا مودودی سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئےرقمطراز ہیں:
ہمیں معلوم بلکہ تسلیم ہے کہ مولانا مودودی کا اس پہلو میں قابل قدر کام ہے،لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے،جسکے ساتھ تصویر کا دوسرا رخ سامنے رکھنا بھی ضروری ہے،تاکہ اس کارنامے کی حقیقت واضح ہوسکے،چنانچہ کون انکار کرسکتا ہے کہ جہاں مولانا مودودی نے کالجز اور اسکولوں کے طلباء یا پڑھے لکھے طبقہ کو دین سے متعارف کروایا یا اپنی شخصیت کے سحر سے متاثر کیا وہاں یہ بھی ہوا کہ وہ تمام حضرات مولانا مودودی کی کورانہ تقلید بلکہ متعصبانہ عقیدت اور متعصبانہ محبت میں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کا مصداق بن گئے،کہ وہ مولانا مرحوم کی تحریروں میں چھپے اعتزال و رفض سے مسموم ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
٭اسی طرح مولانا عبداللہ دانش صاحب نے امام ابوحنیفہ کےمناقب بیان کرتے ہوئے بعض مقامات پر حد اعتدل سے تجاوز کیا،مثلاً:عقیقہ کے متعلق امام صاحب کے موقف کہ” یہ بدعت ہے“کی تاویلات کرنے کی کوشش کی اور اس سعی لاحاصل میں انہوں نے بہت سی فاش غلطیاں بھی کیں،اور علمی خیانت کے بھی مرتکب ہوئے،حالانکہ امام صاحب کے دفاع میں فقط اتنا کہہ دینا کافی ہوتا کہ ان تک عقیقہ سے متعلق احادیث نہ پہنچ سکیں،چنانچہ اس موضوع پر بھی زیر تبصرہ کتاب میں توحیدی صاحب نے دانش صاحب کا خوب تعاقب کیا ہے۔
٭اسی طرح عبداللہ دانش صاحب نے ”بات سے بات“میں جماعت اسلامی کی پالیسیوں،سیاست وغیرہ کادفاع کیا ہے،فاضل مؤلف نے اس عنوان پر بھی انکی خوب خبر لی ہے،مثلاً:صفحہ78 -79پر انکے دفاع بے جا پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جماعت اسلامی کی سیاست اگرچہ اسکا اندرونی معاملہ ہے اس پر ہمیں تبصرہ کا کیا حق ہے؟تاہم اس دفاع پر موصوف سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں جماعتیں(نواز لیگ اور پی پی پی)لادینی ہیں تو یہ انکشاف آپ پر کب سے ہوا ہے؟جب جماعت اسلامی نواز لیگ یا پی پی پی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو کی؟ اس وقت دین لوٹ آتا ہے اور وہ سیکولر سے دینی ہوجاتی ہیں،…..آپ کو جماعت اسلامی مختلف رنگ دھارکر رِنگ میںاترتی ملے گی،گویا وہ سیاسی ہودج میں بیٹھی ایسی دوشیزہ ہے جو ”لاترد ید لامس“کی مظہر ہے،ضرورت ہو تو وہ رات کو تحریک انصاف کے ساتھ کسی میرج ہال میں داخل ہو تو صبح حسب ضرورت پی پی پی کے ساتھ کسی کلب سے برآمد ہو،صوبہ سرحد میں وہ تحریک انصاف کی شریک اقتدار ہوگی تو اسی وقت لاہور میں نواز شریف کی حلیف اقتدار ہوگی۔
کتاب کی خصوصیات:
٭الغرض کتاب ہذا دراصل عبداللہ دانش صاحب کے زلات و اخطاء اور الزامات و افتراءات اور مودودیت و جماعت اسلامی کی مضطرب سیاست کے بے جا دفاعات کا کافی و وافی جواب اور مذکورہ عناوین میں حقائق کی آئینہ دار ہے،اگر چہ فاضل مؤلف کا انداز تقریباً پوری”بات پر بات“ میں دفاعی سے زیادہ جارحانہ رہا ہےمگر شاید یہ دانش صاحب کی ”بات سے بات“ کا فطری ردعمل ہے،جس میں دامن احتیاط کا بعض اوقات ہاتھ سےچھوٹ جانا عام سی بات ہے، جیسا کہ فاضل مؤلف نے امام ابوحنیفہ کے ضمن میں کیا۔
٭کتاب ہذا اگرچہ اپنی ضخامت کے لحاظ سے بڑی نہیں لیکن سیاسی حالات خصوصاً جماعت اسلامی کی سیاست کے تناظر میں اپنے موضوع اور مشمولات کے اعتبار سے نہایت مفید اور پڑھنے لائق ہے،البتہ اسکی قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔
٭تقریبا تمام عناوین کے انداز بیان میں روانی پائی جاتی ہے،بسا اوقات اشارات و کنایات سے بھی کام لیا ہے۔
٭حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
٭معیاری کاغذ و طباعت۔
٭خوبصورت ٹائٹل۔
 

بائبل کیا ہے؟ What is the Bible?

[5]اعمال :  (رسولوں کے اعمال)  The Acts of The Apostles
اس کتاب کا مصنّف بھی لوقا ہی ہے :جس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ وہ پولس کا شاگرد تھا: اس کتاب میں اس نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے عروجِ آسمانی کے بعد آپؑ کے حواریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا ہے: مگر ایک بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس میں آپؑ کے حواریوں کا تذکرہ نہیںہے شاید پولس سے اختلافات کی وجہ سے لوقا نے اپنے استاد کی طرف خداری کی بنا پر حواریوں کا ذکر گول کردیا : بہر حال اس کتاب کے [28]ابواب ہیں جو زیادہ تر پولس ہی کی تبلیغ کے ذکر سے بھرے ہوئے ہیں:
اہم حوالہ جات:
[1]کتاب استثناء کے باب [18]میں مذکور مانند موسٰی نبی کی آمد اور اس بشارت کے پورا ہونے تک یسُوع علیہ السلام کا آسمان میں ہونا ضروری اور مانند موسٰی نبی پر ایمان نہ لانے پر سزا کی وعید[3/19-24]
[2]جھوٹا نبی طبعی موت نہیں مرتا بلکہ قتل ہوتاہے [6/35-39]
[3]مانند موسٰی نبی والی بشارت کا ذکر[7/37]
[4]پولس کے ایمان لانے کا واقعہ۔ ایمان لانے سے پہلے اس کا نام ’’ساؤل ‘‘ تھا[9/1-5]
[5] پولس کی خلاف شرع تعلیمات کی بناپر حواریوں سے اختلاف کا ثبوت[21/21-25] ْ
[1]مانند موسیٰ نبی کی آمد پر عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان میں ہونا ضروری[3/19-4]
[2]ہرجھوٹا نبی ہمیشہ قتل ہوتاہے [6/35-9]
[3]حواریوں نے یسوع علیہ السلام کے مسیح ہونے کی تبلیغ کی:  [18/28]-[11/22-4]-[4/27]-[3/20]-[3/18]-[2/22]
[4]غیر قوموں میں جانے سے پہلے پولس نے بھی
یسوع علیہ السلام کے مسیح ہونے کی تبلیغ کی: [29/21]- [18/2]-[13/23]-[9/22]
[5]شریعت کے خلاف تبلیغ کیوجہ سے عام عیسائیوں کی  پولس کو قتل کرنے کی کوشش: [21/21-5]
[6]رومیوں : (روم کے کلیسا کے نام پولس کا خط)
Romans
نوٹ! مختلف کلیسائوں کے لکھے گئے پولس کے چودہ خطوط عہد عتیق کا حصّہ ہیں: یاد رہے کہ صرف کلیسا کا نام لکھا جائے گا : جس سے مراد اس کلیسا کو لکھا گیا پولس کا خط ہوگا۔ جیسے مذکورہ بالا کتاب کا نام صرف ’’رومیوں ‘‘لکھا گیاہے : جس کلیسا کو ایک سے زیادہ خطوط لکھے ہیں ان کے نام سے پہلے 1اور2نمبر دے دیئے جائیں گے:
اہم حوالہ جات:
[1]تبلیغ میں جھوٹ اور منافقت [3/7]
[2]جتنے روح کی ہدایت کیمطابق چلتے ہیںوہ خدا کے بیٹےہیں[8/14]
1[7]۔کرنتھیوں:Corinthians
کرنتھس کے باشندوں کے نام پولس کا یہ پہلا خط ہے : جس کے 16باب ہیں: جن میں انہیں مسیحی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے اور برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے:
اہم حوالہ جات:
[1] نعو ذباللہ۔ خدا وندکی بے وقوفی آدمیو ں کی حکمت سے زیادہ پرُ حکمت ہے اور خدا وند کی کمزوری آدمیو ں کے زور سے زیادہ زور آور ہے[1/25]
[2]پولس کی تعلیمات : جو اپنی کنواری لڑکی بیاہ دیتا ہے وہ اچھا کرتاہے اور جو نہیں بیاہتا وہ اور بھی اچھا کرتاہے[7/37]
[3] تبلیغ میں منافقت کا برملا اعتراف[9/20-22]
[4] نبوّت ابھی ناتمام ہے اور بائبل ناقص جو کامل کے آنے پر منسوخ ہو جائے گی[13/ 9-10]
2[8]۔ کرنتھیوں :
کرنتھس کے باشندوں کے نام دوسرا خط ہے جس کے 13 باب ہیں:
اہم حوالہ جات:
[1]پولس کے زمانے میں بہت سے لوگ خدا کے کلام میں آمیزش کرنے والے موجود تھے [2/17]
[2]پولس کا موسٰی علیہ السلام سے افضل ہونے کا دعویٰ[3/13]
[3]پولس کا تمام رسولوں سے افضل و اعلیٰ ہونے کا دعویٰ{11/5}
[9]گلتّیوں:Galatians
یہ خط گلتّیہ کے باشندوں کو 49تا 52عیسوی کے دوران لکھا ۔گلتیّہ کا صوبہ ایشائے کوچک کے وسطی علاقہ میں واقع تھا: یہاں بہت سے یہودی سکونت پذیر تھے: جب عیسٰی علیہ السلام ایمان لے آئے تھے: لیکن ان کے خیالات ابھی تک درست نہ تھے اسلئے انہیں یہ خط لکھا گیا۔
اہم حوالہ جات:
[1]اس خط کے باب 1میں پولس نے اپنا تعارف کروایا ہے جس میں اس نے عیسائیت کے خلاف اپنے سابقہ رویّہ کے متعلق بتایا ہے [1/12-17]
[2]آدمی شریعت کے اعمال سے نہیں بلکہ یسوع مسیح پر ایمان لانے سے راستباز ٹھہرتاہے[2/16]
[3]جتنے شریعت کے اعمال پر تکیّہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں [3/10]
[4]مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے:نعوذباللہ[3/13]
[5]ایمان آنے سے پیشتر شریعت کی ماتحتی میں ہماری نگہبانی ہوئی تھی :پس شریعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا استاد بنی تاکہ ہم ایمان کے سبب سے راستباز ٹھہریں : مگر جب ایمان آچکا تو ہم استاد کے ماتحت نہ رہے [3/23-24]
[6]کیونکہ ساری شریعت پر ایک ہی بات سے پورا عمل ہو جاتاہے :یعنی اس سے کہ تو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ[5/14]
[7]اگر تم روح کی ہدایت سے چلتے ہو تو شریعت کے ماتحت نہیں رہے[5/18]
[8]کیونکہ نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نامختونی بلکہ نئے سرے سے مخلوق ہونا[6/15]
[10]افِسیوں :Ephesians
یہ خط اِفسس کے کلیسا کو لکھا گیا: اس وقت وہ شہر روم کی حکومت ِ روم کی قید میں تھا:اس خطامیں چھوٹے بڑے ، شوہربیوی، مالک نوکرغرض سب کے لئے نصیحتیں ہیںاس خط کے چھ ابواب ہیں:
[11]فلپّیوں:Philippisns
یہ خط فلپّی شہر کے کلیسا کو60عیسوی کو لکھا گیا: اس وقت پولس خود روم میں نظر بند تھا: فلپّی مکدنیہ کا (یونان) کا دوسرا بڑا شہر تھا: اس خط میں وہ کلیسا کو بتاتاہے کہ مسیح ؑ کی پیروی کرنے والوں کے فرائض کیا ہیں اور انہیںکس طرح زندگی گزارنی چاہیے:
[12]کلسیّوں :Colossians
یہ خط کلسّی شہر کے کلیسا کو لکھا گیا: اس وقت بھی وہ روم میں نظر بند تھا: کلسّی شہر افسس سے تقریباًسومیل دور مشرق میں واقع تھا: وہ خود اس شہر میں کھبی نہیں گیا تھا: کلسّی کی کلیسا میںبعض خلاف ِ مسیح عقائد پھیلے ہوئے تھے : کلیسّہ باشندوں نے مسیح کی شخصیّت کے بارے میں صحیح عقائد سے آگاہ کرنے کی درخواست کی تھی : اسلئے انہیں یہ خط لکھا گیا:
1[13]۔تھِسّلنیکیوں:Thessalonians
[14] 2۔تھِسّلنیکیوں :Thessalonians
تھِسلینکے مکدنیہ کا صدر مقام تھا: پولس نے اپنے تبلیغی سفروں کے دوران یہاں کلیسا قائم کی تھی:یہ خط بھی روم میں نظر بندی کے دوران لکھا گیا: اس خط کے پانچ ابواب ہیں:دوسرے خط میں انہیں کاہلی کے بچنے کی نصیحت کی گئی ہے:اس کے تین ابواب ہیں۔
1[15]۔تِمتھِیُس: Timothy
[16] 2۔تِمتھِیس:Timothy
یہ دونوں خطوط پولس نے اپنے شاگرتمتھیس کو لکھے جو افسس میں مقیم تھااور کلیسا کا نگہبان تھا: پولس اسے بیٹے کی طرح محبت کرتاتھا: یہ خطوط پولس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بالترتیب[65] اور [67]عیسوی کو لکھے تھے۔ ان دنوں مسیحی رسوم و عقائد اور مسیحی زندگی کے مختلف پہلوئوں سے متعلق بہت سے سوالات پوچھے جا رہے تھے ۔ لہٰذا پولس نے یہ خط لکھ کر بعض سوالوں کے جواب دیئے تھے :
[17]طِطُس:Titus
یہ خط پولس نے اپنے ہم خدمت ططس کو [65]عیسوی میں لکھا جو اس وقت کریتے میں مقیم تھا: کریتے کے لوگ اپنی بد اخلاقی کی وجہ سے بڑے بدنام تھے: پولس نے وہاں کلیسا قائم کی تھی اور ططس کو اس کا نگہبان مقرّر کا تھا:
[18]فلِیمون:Philemon
فلیمون ایک مالدار آدمی تھا جو حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لا چکاتھا: اس کا ایک غلام اس سے ناراض ہوکربھاگ گیاتھا: پولس نے اسے واپس جانے پررضا مند کرلیا اور اسی کے ہاتھ اسے یہ خط بھیجااور درخواست کی کہ وہ اپنے غلام کی غلطیوں کو معاف کر دے :
[19]عبرانیوں: Hebrews
اس خط کا راقم کومعلوم نہیں : بعض لوگ اسے پولس ہی سے منسوب کرتے ہیں:مگر اس کا طرز بیان پولس سا نہیں: بہر حال یہ یہودی نسل کے مسیحوں کے نام ہے : جو یروشلم میں واقع ہیکل کو بڑی اہمیّت دیتے تھے اور اس سے متعلقہ یہودی رسموں کو ضروری سمجھتے تھے:یہ خط ایسے ہیں عیسائیوں کو لکھاگیا:یہ خط(13)ابواب پر مشتمل ہے:
اہم حوالہ جات:
[1]جب کہانت بدل گئی تو شریعت کا بدلنا بھی ضرور ہے:
پولس کے خطوط میںانتہائی اہم حوالہ جات : پولس عیسیٰ علیہ السلام کے عروجِ آسمانی تک عیسا ئیت کا زبردست دشمن رہا: اعمال[9/1-5]
ایمان لانے کے بعد یروشلم جانے کی بجائے عرب چلا گیاگلِتیوں[1/15-20] شریعت پر عمل کرنے کا حکم انجیل متّٰی [19/7]-[7/24]-[5/19]  ا عمال نہیں صرف ا یمان کافی ہے رومیوں[3/-20-8]  پولس کی طرف سے ختنہ منسوخ گلِتیوں [6/15]-[5/2]کرنتھیوںاوّل[7/18]شریعت ٹھوکر کھانے کا پتھرہیگلِتیوں [5/1] رومیوں [4/1-3]عہد عتیق منسوخ ہوگیا عبرانیوں[10/9] [8/13]-[7/18] شریعت بدکارلوگوںکیلئے دی گئی: تیمتھِیُس[1/9] شریعت گناہ زیادہ کرنے کیلئے دی گئی رومیوں[15/56]-[5/20]شریعت سے آزادی:رومیوں [8/2]-[7/5]- [3/23] عقیدہ کفّارہ کی ایجاد۔ رومیوں[5/19]کرنتھیوں اوّل [15/3]یسوع علیہ السلام پر ایمان لانے والے پر سزا کا حکم نہیں۔رومیوں[10/9]-[8/1]نجا ت  صرف یسوع علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی ہو گی رومیوں[10/9]-[8/1]شریعت گناہ کا باعث اور غضب پیدا کرتی ہے۔ رومیوں[5/14]  گلِتیوں [3/21]تبلیغ میںمنافقت کا برملا اعتراف۔ کرنتھیوں اوّل [9/21]بتوں کا ذبیحہ کھاؤ مگرکوئی کہے کہ یہ قربانی کا گوشت ہے تو مت کھاؤ: کرنتھیوں اوّل ٍ[10/26] بھلائی پیدا کرنے کیلئے برائی ضروری ۔رومیوں [3/7] جتنی زیادہ نافرمانی اورگناہ اتنا زیادہ رحم۔ رومیوں [11/50] اپنے ہی گناہ سے انکار۔رومیوں [7/19] جو کنواری لڑکی کو بیاہ دیتا ہے اچھا کرتا ہے اور جو نہیں بیاہتا وہ اور بھی اچھا کرتا ہے یعنی سب اچھا ہے ۔ کرنتھیوںاوّل [7/37]یسوع علیہ السلام کے بعد ان گنت حاملِ وحی نبی ۔کرنتھیوں اوّل[14/29]خدا بھی نعوذ باللّٰہ بیوقوفی کر سکتاہے۔ کرنتھیوں اوّل [2/25]
موسیٰ علیہ السلام سے افضل ہونے کا دعویٰ۔ کرنتھیوں دوئم [3/12]یسوع علیہ السلام نعوذباللہ لعنتی۔ گلِتیوں [3/13]شریعت لعنت اور شریعت کے اعمال پر تکیہ کرنے والے لعنتی۔گلِتیوں[3/10]انبیاء کی توہین۔ کرنتھیوںاوّل [2/27] یسوع علیہ السلام پر ایمان لانے والے سب خدا کے بیٹے اور وارث ہیں ۔رومیوں [16/17]-[8/14] شریعت کے خلاف تبلیغ کی وجہ سے پولس کو جان سے مارنے کی کوشش۔ اعمال [21/27] پولس کو عام عیسائیوں سے بچانے کیلئے حواریوں کی تدبیر۔اعمال [21/21]
’’نبوتیں ہوں تو موقوف ہوجائینگی:زبانیں ہوں تو جاتی رہیںگی:علم ہوتو مِٹ جائیگا : کیونکہ ہماراعلم ناقص ہے اور ہماری نبوّت ناتمام:جب کامل (قرآن ) آئیگا تو ناقص(بائبل) جاتا رہیگا‘‘
[20]یعقوب: James
یہ کھلا خط حضرت یعقوب حواری کی طرف منسوب ہے :
اہم حوالہ جات:
اس خط کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پولس کی تعلیمات پر نقطہ چینی پر مشتمل ہے :جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ پولس کی تعلیمات حواریوں کی تعلیمات کے الٹ ہیں:مثلاً پولس سیّدنا عیسٰیؑ کو مختار کل قرار دیتاہے مگر اس خط میں ہے کہ’’اے میرے بھائیوں فریب نہ کھانا :ہر اچھی بخشش اور کامل انعام اوپر سے ہے:اور نوروں کے باپ کی طرف سے ملتاہےــ‘‘[1/17] اس کے علاوہ پولس نے نہ صرف شریعت کومنسوخ کیا بلکہ گلتّیوں [3/10]میں کہتا ہے ’’جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں‘‘مگر یعقوب لکھتاہے’’لیکن کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں‘‘ [1/22:27] اس کے علاوہ پولس کی تعلیمات یہ ہیں کہ ’’آدمی شریعت کے اعمال سے نہیں بلکہ صرف ایمان سے راستباز ٹھہرتاہے۔گلیتّیوں [2/16 ]جبکہ حواری یعقوب اسے جھڑکتے ہوئے کہتاہے’’مگر اے نکّمے آدمی کیا تو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان بغیر عمل کے بیکار ہے‘‘ [2/14-26] یہ حوالے پولس کی خلافِ شریعت تعلیمات کی وجہ سے حواریوںسے سخت ترین سرد جنگ کی طرف اشارہ ہیں:
[21] 1۔ پطرس:
[22] 2 ۔پطرس:Peter
پطرس حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حواریوں میں سب سے افضل شخصیّت ہے : یہ دونوں کھلے خط انہی کی طرف منسوب ہیں:جو عیسائی علماء کے مطابق ایشائے کوچک کے پانچ صوبوں کے مسیحوں کو لکھے گئے تھے:اس زمانے میںروم کی حکومت کی طرف سے مسیحوں پر مظالم کا آغاز ہو چکا تھا: پطرس انہیں ان تکالیف سے آگاہ کرتاہے اور جھوٹے نبیوں سے خبردار کرتاہے:
[23] 1: یوحنّا
[24] 2 َ :یوحنّا
[25] 3: یوحنّا:John
یہ دتینوں کھلے خط یوحنّا نام کے شخص کی طرف منسوب ہیں: یاد رہے کہ یہ یوحنّا حواری نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی تحریر کے مطابق اسے یوحنّا بزرگ کے نام سے یاد کیا جاتاہے: اس کے بارے میں علماء کو کچھ علم نہیں کہ یہ کون تھا؟ اس کے بارے میں علماء کے قیافوں کا اندازہ علماء کے اس قول سے لگایا جا سکتاہے : اس کی تحریر سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ یہ کوئی عمر رسیدہ شخص تھا: اس نامعلوم شخصیّت نے ہی انجیل یوحنّالکھی اور آخری کتا ب مکاشفہ بھی اسی کی طرف منسوب ہے جسے یوحنّا عارف کا مکاشفہ کہاجاتاہے:
[26]یہوداہ:Jude
یہ خط عیسٰی علیہ السلام کے فرضی بھائی یہوداہ کی طرف منسوب ہے جو انجیل یوحنّا کے مطابق آپؑ پر ایمان نہیںلایا تھا:
[27]مکاشفہ:Revelation
ٰ ٰیہ یوحنّا کا لکھا ہو مکاشفہ ہے جو آئند ہ رونما ہونے والے حالات و واقعات پر مشتمل ہے: یادرہے اسی یوحنّا کے خطوط اور انجیل بھی عہد عتیق میں شامل ہے: اسے یوحنّا عارف کا مکاشفہ کہتے ہیں: جس میں باقی پیشگوئیوں کے ساتھ پیغمبراسلام ﷺ کی معراج کا آسمانی نقشہ احادیث کے عین مطابق بیان کیا گیا ہے: مکاشفہ بائبل کی آخری کتاب ہے :
نوٹ: عہد عتیق اور عہد جدید ہر دو عہدو ں کی کتابوں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کی صحت پر قدماء متفق ہیں اور دوسری وہ جن کی صحت متنازعہ ہے: جن کی صحت پر علماء متفق ہیں وہ بائبل کے دونوں عہدوں میں موجود ہیں: دوسری قسم جن کو محرف یا غیر الہامی سمجھا جاتا ہے وہ موجودہ بائبل میں شامل نہیں: یہودیوں کے پاس صرف عہد عتیق ہے کیونکہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہیں کیا اسلئے عہدجدید صرف عیسائیوں کی کتابیں ہیں:چونکہ ہمارا واسطہ عیسائیت سے ہے اور عیسائی دراصل پولس کے پیرو ہیں : جس نے عہد عتیق کو منسوخ قرار دیا ہے : اسلئے عہد عتیق کی کتابوں کا تذکرہ ضروری نہیں سمجھا گیا: مگر عہد جدید کی وہ کتابیں جن کو عیسائی علماء محرف یا غیر الہامی قرار دیکر بائبل سے خارج کر چکے ہیں مگر عیسائی لائبریریوں کی الماریوں میں اپنی بے بسی اور ناقدری پر نوح کناں ہیں:ان کی تفصیل درج کی جارہی ہے تاکہ قارئین کرام کو عہد جدید کی اصلیت کا پورا پورا علم ہو جائے :
عہد جدید کی متنازعہ کتابیں:
عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب کتب:
1۔خط بنام ایگریس بادشاہ اڑیسہ
2۔خط بنام پطرس و پولس
3۔تمثیلوں او ر وعظ کی کتاب
4۔دھرم گیت جو حواریوں اور مریدوں کو سکھائے جاتے تھے، مسیح:4۔مریم اور دایہ مریم کی جنم بھوم کی کتاب
5۔ خط جو چھٹی عیسوی میں آسمان سے گرا:
مریم علیہ السلام سے منسوب کتب :
1۔ خط بنام اگناشس Letter to Ignatius
2۔خط بنام سیلیلان
3َ۔جنم بھوم مریم
4۔ مریم اور دایہ کی کتاب
5۔مریم کی تاریخ اور حدیث
6۔معجزات مسیح کی کتاب
7۔مریم کے چھوٹے بڑے سوالات کی کتاب
8۔کتاب نسل مریم وانگشتری سلیمانی۔
پطرس سے منسوب کتب :
1۔انجیل پطرس     2 ۔ اعمال پطرس
3۔ مشاہدات پطرس     4۔ایضاً مشاہدات پطرس
5۔خط بنام کلیمنٹ    6۔مباحثہ پطرس وای میں
7۔تعلیم پطرس     8۔ وعظ پطرس
9۔آداب نماز پطرس    10۔کتاب خانہ بدوشی پطرس
11۔قیاس پطرس
یوحنّا سے منسوب کتب:
1۔اعمال یوحنّا     2۔ انجیل دوم یوحنّا
3۔کتاب خانہ بدوشی یوحنّا4۔حدیث یوحنّا
5۔ خط بنام ہیڈروپک    6۔وفات نامہ مریم
7۔مسیح اور صلیب سے ان کے نزول کا تذکرہ
8۔مشاہدات دوم یوحنّا    9۔ آداب نماز یوحنّا
اندریا حواری سے منسوب کتب:
1۔ انجیل اندریا    2۔اعمال اندریا
متّی حواری سے منسوب کتب:
1۔انجیل طفولیت     2۔ آداب نماز متّی
فیلپ حواری سے منسوب کتب:
1۔انجیل فیلپ     2۔ اعمال فیلپ
توما حواری سے منسوب کتب:
1۔انجیل توما         2۔ اعمال توما
3۔انجیل طفولیت مسیح    4۔مشاہدات توما
5۔کتاب خانہ بدوشی توما:
یعقوب حواری سے منسوب کتب:
1۔انجیل یعقوب    2۔آداب نماز یعقوب
3۔وفات مامہ مریم:
متیاہ کی طرف منسوب کتب:
(عروج مسیح کے بعد حواریوں میں شامل ہوا)
1۔انجیل متیاہ      2۔اعمال متیاہ
مرقس کے منسوب کتب:
1۔ مصریوں کی انجیل      2۔آداب نماز مرقس
3 ۔کتاب پی شن برنبار:
برناباس سے منسوب کتب:
1۔ انجیل برناباس      2 ۔ خط برناباس
تھی ڈیوس سے منسوب کتب:
1۔ا نجیل تھی ڈیوس:
پولس سے منسوب کتب:
1۔اعمال پولس      2۔اعمال تھکلہ
3۔خط بنام لادو کیان   4۔تھسلنکیوں کے نام تیسرا خط
5۔کرنتھیوں کے نام تیسرا خط
6۔خط کرنتھیوں کی طرف سے اور اُسکا جواب
7۔خط بنام سینکااور سینکا کی طرف سے
8۔مشاہدات پولس      9۔ایضاً مشاہدات پولس
10۔وژن پولس     11۔انابی کشن پولس
12۔انجیل پولس      13۔ وعظ پولس
14۔سانپ کے منتر کی کتاب
15۔پری سپٹ پطرس و پولس:
حوالہ جات دینے کا طریقہ :
آپ بائبل کی جملہ کتابوںکے نام اور ان میں مرقوم اسلام کی بشارتوں کے علاوہ آپ کے علم میں اضافے کا باعث بننے والے اور تبلیغ اسلام میں کام آنے والے اہم حوالہ جات بھی جان چکے ہیں۔ اب حوالہ دینے کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں؛
جس طرح خط بھیجنے کیلئے پہلے ملک پھر صوبے اور اس کے بعد اس کا ضلع اور شہر اور پھر محلے کی نشاندہی کی جاتی ہے ۔ آپ بائبل کاحوالہ دینے کیلئے بائبل کو ملک، عہد عتیق اور عہد جدید کو صوبے ۔ کتاب کے نام کو ضلع اور اسکے ابواب کو شہر اور آیات کو محلے تصوّر کر لیں۔ اسطرح حوالہ اسطرح دیا جائیگا:اگر آپ پیغمبرلسلام ﷺ کے ناخواندہ نبی ہونے کا بائبل سے حوالہ دینا چاہتے ہیں تو وہ اسطرح بتایا جائیگا : بائبل کاعہد عتیق ، کتاب یسعیاہ باب 29آیت نمبر 1یا صرف کتاب کانام ، باب اور آیت کانمبر بتایا جاتا ہے : اسطرح مذکورہ حوالہ اس طرح بتایا جائیگا: کتاب یسعیاہ باب 29آیت نمبر12
٭ان کتابوں میں سے کوئی بھی مستند نہیں٭
بائبل کی تمام کتابوں کے مصنفین کے متعلق کوئی حتمی رائے موجود نہیں۔ عتیق کی پہلی پانچ کتابیںپیدائش ، خروج ، احبار ، گنتی اور استثناء کو تورات کہا جاتاہے اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف سمجھی جاتی ہیں:ان تمام کتابوں میں کسی ایک جگہ پر موسیٰ علیہ السلام کیلئے حاضر کا صیغہ استعمال نہیں ہوا:بلکہ کتاب استثناء کے آخری باب میں موسیٰ علیہ السلام کی موت اور کفن دفن کا تفصیلی ذکر مرقوم ہے : جبکہ کوئی انسان اپنی کتاب میںاپنی موت کا حال بیان نہیں کر سکتا:عیسائی علماء میں بھی ان کے موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف ہونے میں اختلاف ہے :بعض اسے آپ ؑ کی تصنیف مانتے ہیں اور بعض نہیں: جو علماء ان کتابوںکو موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف کہتے ہیں ان کے مطابق موسیٰ علیہ السلام کی موت کا ذکر آپ ؑ کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے داخل کر دیا ہوگا :یہی پانچ کتابیں عہد عتیق کی بنیاد اور جان ہیں : ان کا حال یہ ہے تو دیگر کتابوں کی حالت کا
اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں: ان میں بعض کتابوں مثلاًروت اور آستر وغیرہ کے مصنفین کے ناموں میں دو دو اور تین تین اشخاص کے اندازے موجود ہیں:بعض کتابوں مثلاً قضاء ، سلاطین اور تواریخ جیسی کتابیں جو صدیوں پر محیط حالات و واقعات اور تاریخ پر مشتمل ہیں کو کسی ایک مصنّف کو نامزد نہیں کیا جا سکتا :ان کے متعلق بھی کہا جا تا ہے کہ یہ مختلف یہودی انبیاء کی تصنیف ہیں:جن کو مختلف ذرائع سے مواد حاصل کر کے لکھا گیا:مگر ان میں اسطرح کے فحش اختلافات ہیں جن کو کسی باہوش انسان کی تصنیف قرار نہیں دیا جا سکتا چہ جائیکہ انہیں انبیاء علیہم السلام جیسی حامل وحی شخصیّات کی طرف منسوب کیا جائے: مثلاکتاب پیدائش 46/21کے مطابق بن یامین کے دس بیٹے ہیں مگر تواریخ اوّل 7/6کے مطابق تین ہیں جبکہ اسی کتاب کے اگلے بات8/1کے مطابق پانچ بیٹے تھے : یہ کتاب حضرت عزراء علیہ السلام کی تصنیف بتائی جاتی ہے: اور اس اختلاف کے متعلق عذرلنگ تراشاجاتا ہے کہ جن اوراق سے انہوں نے نقل کیا وہ اوراق بہت ہی بوسیدہ تھے : کوئی کہتا ہے کہ وہ بیٹوں اور پوتوں میں تمیز نہ کر سکے :جو اس بات کی دلیل ہے کہ تمام مواد تمام لٹریچر مواد سے نقل کیا گیا ہے الہام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے:بہرحال عہد عتیق اور عہد جدید کی کتابوں میں سے کوئی کتاب بھی مستند نہیں : اس کے علاوہ ان میں ہر دور میں بے سوچی سمجھی تحریف ہوتی رہی ہے: کسی نے ایک جگہ تحریف کی اسے دوسری جگہ پر اسی واقعہ میں تحریف کی توفیق ہی نہ ہوئی : جس کے نتیجے میں اسطرح کے اختلافات وجود میں آئے جن کی تطبیق ناممکن بن چکی ہے : عیسائی علماء اپنی تفاسیر میں ان کا ذکر تک نہیں کرتے ۔
وما علینا الّاالبلٰغ المبین
۔۔۔۔

اعجاز قرآن

قرآن کریم وہ معجزہ خالدہ جو نبی اُمّیﷺ پر نازل کرکے رب رحیم نے بڑے بڑے علماء، بُلغاء،فصحاء کو حیرت زدہ کردیا۔
قرآن مجید : الفاظ کا وہ مجموعہ جو خوبصورتی اور خوب سیرتی میں ایک دوسرے پر یوں سبقت لے جائیں کہ پڑھنے والے کے تخیل پر لطف وعمل ایک ساتھ دستک دیں۔ وہ شفا کہ سب شفاؤں پر بھاری… وہ ادب کہ ہزاروں ادیب عاجز آگئے۔ عاجز کیوں نہ آتے؟ مصنف تھا ہی اتنا ارفع…ورب کریم واقعی حکیم ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں طب کا چرچا تھا تو روح اللہ کے ہاتھ سے شفا دے کر اپنے حکم سے معجزہ بناتا ہے، جادو کا عروج تھا تو موسیٰ علیہ السلام کو س جادوں پر بھاری کرکے اپنی حکمت کا ثبوت پیش کیا ہے ہر نبی کو وقت اور ضرورت کے پیش نظر معجزہ عطا ہوا۔
ہاں ! وہ اپنی روایت قائم رکھنے والوں میں سے ہے، اس دور میں جب زبان دانی کا فن اپنے بام عروج پر تھا… عرب اپنے قصیدہ،خطبہ،رسائل، محاورات میں ایسی فصیح وبلیغ زبان استعمال کرتے کہ عمدگی کا کامل نمونہ نظر آتا .. اپنے سوا سب کو ’’عجمی‘‘ خیال کرنے والوں کےدور میں رب حکیم نے قرآن کریم کو کامل معجزہ بنا کر بھیجا، معجزہ بھی ایسا کہ وہ پکار اُٹھیں۔ ما ھذا قول البشر
ہاں! یہی الفاظ ادا ہوئے تھے ایک عظیم عربی ادیب کی زبان سے اور باقی سب کا دل تو گواہیاں دیتا تھا کہ ابو جہل، ابو سفیان تک میرے نبی ﷺ کی میٹھی زبان سے رات کے اندھیرے میں چھپ چھپ کر لطف اندوزہوتے تھے اور پکار اٹھتے تھے۔ ما ھذا قول البشر
ہاں ! یہ وہ کلام تھا مصنف نے تحریر کیا تو تحریر معجزہ ٹھہری پھر وہ رب چیلنج کرتا ہے

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا (الاسراء:88)

کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں ۔
فرمان ربانی ہے :

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ  قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ(ھود:13)

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو ۔
ارشاد گرامی ہے:

وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ  وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (البقرۃ:23)

ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ، تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو ۔
فرمان باری تعالی ہے:

فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ

اچھا اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی ایک (ہی) بات یہ (بھی) تو لے آئیں ۔ (الطور:34)
ان چاروں مقامات پر مخاطب صرف کفار ہی تھے کہ جاؤ اپنے سب حمایتوں،ادباء،شعراء،بُلغاء،فصحاء کو بلا لو…اگر سچے ہو تو اس کی مثل کوئی قرآن لے آؤ… چلو قرآن نہ سہی 10 سورتیں ہی سہی… 10سورتیں بھی نہیں تو ایک سورت ہی سہی اگر ایک سورت بھی نہیں تو ایک آیت ہی بنا لاؤ؟؟ پھر ساتھ ہی فرمادیا’’پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور نہ کبھی کرسکو گے تو اس آگ سے بچ جاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘
ہاں!پورا یقین ہے میرے مالک کو تم ایسا کبھی نہ کر سکو گے… اور یہ یقین پورا ہو کر رہا… قرآن بصورت معجزہ قیامت تک کے لیےہےقرآن میرے رب کی وحدانیت ، نبی کریم ﷺ کی نبوت پر واضح دلیل بن کر آیا۔ قرآن کریم کی اس اعجازی حیثیت سے تین باتوں کا واضح ثبوت ملا۔
1۔ اللہ رب العالمین کی ہستی اور اس کی حیثیت کا ثبوت
2۔ قرآن مجید کے رب تعالیٰ کی طرف سے ہونےکا ثبوت
3۔ نبی کریم ﷺ کے برحق رسول ہونے کا ثبوت
پھر آیئے! قرآن کے چند اعجازی پہلوؤں کا جائزہ شعور کی آنکھ سے لیں۔
قرآن مجید کے چند اعجازی پہلو:
امتیاز اکبر :
بڑے سے بڑے، اعلی سے اعلیٰ،جدید سے جدید دور میں بھی یہ کتاب رہنمائی کرنے سے کبھی عاجز نہ آئی یہ اس کا سب سے بڑا امتیازی اور اعجازی پہلو ٹھہرتاہے۔
لازوال معجزہ :
پچھلے انبیاء کے سب معجزے عارضی تھے قرآن ایک زندہ جاویداور دائمی معجزہ بن کر لازوال ہوگیا۔
دلیل سے عاجز :
عرب کے فصیح وبلیغ زمانہ سے آج کے ترقی یافتہ دور تک سبھی کے سبھی اس کلام پر دلیل سے عاجز آئے بدلتے ادوار کے ساتھ نہ ان میں تبدیلی آئی اور نہ کوئی لغت دان اس پر دلیل دینے کی ہمت وجرأت کرسکا۔
امتی کی زبان سے ادائیگی :
قربان جاؤں محمد عربی ﷺ پر اور ان کے اُمّی ہونے پر ان کی زبان مبارک سے ایسا خوبصورت کلام ادا کروانے رب پر اور رب کی اس تحریر پر ، اَن پڑھ نبی ﷺ کہ جس کا ارشاد رب کے سوا کوئی نہ تھا اس زبان سے ایسا کلام عربوں کے لیے باعث استعجاب تھا۔
سادہ اور عام فہم :
میں حیرت زدہ ہوں ، میں آج تک کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو سب کے لیے یکساں ہو ایک انجینئر ڈاکٹر کی کتاب کب بھلا پڑھتا ہے ، سائنس والے آرٹس کی کتابوں پر طبع آزمائی کرتے ہیں ، کمال کا فن بس قرآن میں ہی ملتاہے۔
تضاد اور تصادم سے مبرأ:
قرآن مجید کے بنائےقوانین واحکام،انفرادی واجتماعی سب کے سب قابل عمل اور عمل میں لائے جاچکے ہیں کہیں تضادوتصادم نہیں کوئی تضاد اور تصادم نہ کوئی آیت اور نہ ہی کوئی حکم ایک دوسرے کی ضد ہے۔
جامعیت :
یہ کتاب ہدایت کے ساتھ ساتھ اسلام اور زندگی گزارنے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیےہوئے ہے۔
طاقت کے مطابق بوجھ:
روزہ ،حج وغیرہ جیسے فرائض ہر مکلف پر لازم اور ضروری ٹھہرائے گئے مگر کچھ لوگ اس سے مستثنیٰ بھی ہیں اور اس طرح کی مثالیں قرآن میں موجود ہیں جن کا اجمالاً ذکر ذیلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں۔

لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرۃ:206)

موضوع ’’انسان کی ہدایت ‘‘:
قرآن مجید کا ہر ہر لفظ انسان کی ہدایت کے گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے چاہے وہ الفاظ پہلی قوموں کے لیے استعمال کیے گئے ہوں یا مخاطب امت محمدیہ ﷺ ہو … مقصد ’’ھدایت انسان‘‘ کے سوا کچھ نہیں قرآن اپنے موضوع سے کبھی نہیں ہٹتا۔
بے کار بحث سے اجتناب:
سیدنا آدم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے وہاں پھل کا نام نہیںبتایا، آدم وحوا نے درخت کا پھل کھایا کس درخت کا پھل کھایا؟ کون سا پھل تھا؟ اس بات میں نہ ہدایت چھپی تھی نہ قرآن نے اسے بیان کیا کہ وہ بے کار بحثوں سے اجتناب کرنے والی کتاب ہے یونہی اصحاب کہف کا واقعہ ۔ 3تعداد میں تھے چوتھا کتا تھا، کچھ نے کہا 5 تعداد میں تھے چھٹا ان کا کتا ، کچھ نے کہا 7 تعداد میں تھے آٹھواں ان کا کتا۔ جب بحث شروع ہوئی تو قرآن پکار اُٹھا ’’تمہیں اس بحث سے کیا فائدہ؟‘‘
انبیاء علیہم السلام کی معصومیت :
قرآن مجید آج بھی تمام انبیاء کی معصومیت کو بیان کرتا ہے جبکہ بائبل وغیرہ سبھی کتابوں میں تبدیل شدہ حالت میں انبیاء پر فحش الزامات لگائے گئے۔
محافظ خود اللہ :
ارفع و اعلی مصنف نے اپنی اعلی تحریر کی حفاظت اسی طرح کی جس طرح اس کا حق تھا آج تک زیر سے زبر تک ایک دوسرے کی جگہ نہ لے سکیں۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر:9)

شائستہ اور مہذب:
زبان شائستہ اور الفاظ مہذب قرآن کریم فحش گوئی سے اجتناب کرنے والی کتاب ہے۔
اعلیٰ اسلوب :
قرآن کا اسلوب فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر بات کو کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے۔
پہلی قوموں کی تصدیق :
جب محمد عربی ﷺ کی زبان سے پہلی قوموں کے واقعات واحکامات وخصائص بیان ہوئے تو اتنا واضح اور سچا نمونہ دیکھ کر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ عاد وثمود کا تذکرہ۔۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے آئے؟ یہ بات سورت یوسف میں من وعن بیان ہوئی تو عرب کے کفار حیرت زدہ رہ گئے کہ محمد تو قریش کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے پھر وہ قرآن کی زبان میں بنی اسرائیل کا کیسے بتا سکتے ہیں۔
پیشین گوئیاں :
اس سچی کتاب کی بے شمار پیشین گوئیاں اور ان کا پورا ہونا اس کے برحق ہونے پر دلیل ہے اُس دور میں جب روم اور فارس کی لڑائی ہوئی رب نے کہا ’’روم غالب آئے گا یہ قرآن کی پیشین گوئی تھی جو بالکل پوری ہوئی۔
بلاغت کا مرتبہ :
بلیغ سے مراد ’’پہنچنا‘‘ گہرائی کا پایا جانا ہے ، بلاغت کا دور وہی پایا جاتا ہے جو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں ان عربوں کے پاس تھا اس کے بعد آج تک وہ دور نہ آسکا اور قرآن مجید بلاغت کے اس مرتبہ پر فائز تھا جو انسان کی پہنچ سے بالا تھا یہی معجزہ عرب کے فصیح وبلیغ لوگوں کو عاجز کیے رکھتا تھا۔
ایک ہی بات انداز الگ :
قرآن مجید مختلف جگہوں پر ایک ہی بات بیان کرتا ہے لیکن ہر جگہ انداز اتنا منفرد اورنرالہ کہ ہر بار ایک ہی بات لیکن انداز مالکل منفرد۔ قرآن مجید باکمال تصنیف اور اس کے باکمال مصنف کے مصنف اعلیٰ ہونے پر واضح دلیل ثبت کرتاہے۔
آخر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

امت محمدیہ” علی صاحبھا افضلُ الصلاۃ والسلام “کے بوڑھے قسط 5

انہیں ادب سکھانا:
علم و عمل کی تعلیم کے ساتھ ہی ادب کی تعلیم بھی ضروری ہے کیونکہ ”ادب پہلا قرینہ ہے علم کے قرینوں میں“ اور ”باادب بامراد“کے بمصداق ادب علم و عمل کا حسن ہے،ادب اس وصف کوکہتے ہیں جو انسان کو رویے اور لب و لہجے کی خامیوں سے بچائے،اور اسے حسن سلوک اور حسن اداء سے مزین کرے،یہ نہایت ہی اعلیٰ خوبی ہے،جو ہر ملنے والے پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے، لیکن افسوس نسل نو اس سے محروم دکھائی دیتی ہے،جسکی بڑی وجہ بچوں سے متعلق ٹی وی شوز،کارٹونز اور موویز ہیں،جن میں ہیرو کے طور پر ایسے افراد کو پیش کیا جاتا ہے جنہیں معاشرہ انکی خامیوں کے باعث دھتکار چکا ہوتا ہے،اور بچوں کو بڑوں سے زیادہ ہونہار ظاہر کیا جاتا ہے،اور بچپن سے ہی انہیں کسی بچی پر عاشق دکھایا جاتا ہے،اس پر مستزاد انکے عریاں لباس ،خلاف شریعت اطوار و عادات جو مذکورہ شوز ،موویز وغیرہ میںدکھائی جاتی ہیں اس طرح کی اور بہت سی خامیاں ہیں جو نسل نو کو تباہ کررہی ہیں ،انکے اخلاق و کردار کو داغدار بنانے کی تربیت دے رہی ہیں، انہیں انکے والدین اور سرپرستوں کے کنٹرول سے نکلنے کی ناپاک سوچ فراہم کررہی ہیں، لہذا یہ والدین اور خاندان کے بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس بگاڑ سے بچائیں اور انہیں ادب کے زیور سے آراستہ کریں۔
٭رسول اللہ ﷺ بذات خود بچوں کو ادب سکھایا کرتے تھے،جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ؄ نے کہا کہ:

أخذ الحسن بن علي رضي الله عنهما تَمْرَةً مِنْ تَمْر الصَّدَقَةِ فَجَعَلَهَا في فِيهِ فَقَالَ رَسُول الله ﷺ كَخْ كَخْ إرْمِ بِهَا  أمَا عَلِمْتَ أنَّا لا نَأكُلُ الصَّدَقَةَ -وفي طریق- أنَّا لا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ

ایک مرتبہ سیدنا حسن بن علی؆(جب وہ چھوٹے بچے تھے) نے زکاۃ کی ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں رکھ لی تو نبی ﷺ نے فرمایا:چھی چھی،اسے پھینک دو ،تمہیں پتہ نہیں کہ ہم زکاۃ نہیں کھاسکتے، ہمارے لئے زکاۃ حلال نہیں۔(صحیح مسلم:1069)
(فائدہ)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو شروع سے ہی حلال و حرام کی تعلیم و تربیت دینی چاہیے اور انہیں ان میں فرق کرنا سکھانا چاہیئے ۔
نیز سیدنا ابو حفص عمر بن ابی سلمہ؆ جو کہ نبی ﷺ کے ربیب یعنی زیر کفالت تھے انہوں نے کہا کہ:

كُنْتُ غلاَماً في حجر رَسُول اللهﷺوَكَانَتْ يَدي تَطِيشُ في الصَّحْفَةِ ، فَقَالَ لي رَسُول الله ﷺ يَا غُلامُ سَمِّ الله تَعَالَى ، وَكُلْ بيَمِينكَ ، وَكُلْ مِمَّا يَلِيكَ فَمَا زَالَتْ تِلْكَ طِعْمَتي بَعْدُ  (صحیح بخاری:5376)

میں بچہ تھا اور رسول اللہ ﷺ کی زیر کفالت تھا،اور میرا ہاتھ کھانے کے تھال کے الگ الگ حصوںپر گھوم رہا تھا(کھانے کے دوران)تو نبی ﷺ نے مجھ سے کہا: اے بچے بسم اللہ پڑھو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ ،عمر بن ابی سلمہ ؆ نےکہا کہ: اسکے بعد میں ہمیشہ ایسے ہی کھایا کرتا تھا۔
نیز گذشتہ صفحات میں احادیث گذرچکی ہیں جن میں نبی اکرمﷺ بچوں کو بڑوں کی موجودگی میں پہلے بولنے سے منع کیااور بچوں کو تعلیم دی کہ وہ بڑوں کو سلام کریں،اور انکا احترام کریںاورہر موقع پر انہیں مقدم کریں، نہ کرنے والے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
٭نیزلقمان حکیم  نے اپنے بچے کو ادب کی بنیادی تعلیم دیتے ہوئے کہا ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نقل فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ وَاقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ۭ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ (سورۃ لقمان:18-19)

لوگوں پر اپنے گال مت پھلا،نہ ہی زمین پر اترا کر چل،کیونکہ اللہ کسی بھی متکبر اور گھمنڈی کوپسند نہیں کرتا،اور میانہ چال چل اور اپنی آواز نیچی رکھ کیونکہ سب سے بری آوازگدھے کی آواز ہے(کہ وہ اونچی ہے)۔
نیز نبی اکرم ﷺ نے زیر کفالت لونڈی کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَالرَّجُلُ تَكُونُ لَهُ الْأَمَةُ فَيُعَلِّمُهَا فَيُحْسِنُ تَعْلِيمَهَا وَيُؤَدِّبُهَا فَيُحْسِنُ أَدَبَهَا ثُمَّ يُعْتِقُهَا فَيَتَزَوَّجُهَا فَلَهُ أَجْرَانِ (صحیح بخاری:2849)

جس شخص کی لونڈی ہو وہ اسے تعلیم دے،اسے اچھی تعلیم دے ،اسے ادب سکھائے،اور اچھا ادب سکھائے،پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اسکے لئے دوگنا اجر ہے۔
5-اولاد کے درمیان عدل کرنا:
”عدل“بڑا ہی اعلیٰ وصف ہے،زندگی کا ہر پہلو عدل کے تقاضے پورے کرتا ہواگزارنا چاہیے،اس سے زندگی میں سکون و اطمینان برقرار رہتا ہے،عدل کا معنی ہے کہ : افراط(غلو) و تفریط(تقصیر) سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا،باالفاظ دیگر حق ادا کرنا۔عدل کی ضد ”ظلم “ ہے، جسکا معنی ہے کہ:حق سے محروم کردینا،یعنی افراط یا تفریظ کا راستہ اختیار کرنا۔
اولاد کے درمیان عدل یہ ہے کہ جس شخص کے ایک سے زائد بچے ہوں اور اسکے زیر کفالت ہوںوہ لڑکے ، لڑکی،یا چھوٹے ، بڑے کا فرق کئے بغیرہر معاملے میں انکے درمیان مساوات کو قائم رکھے،اور کسی ایک بچے کو دیگر پر ترجیح نہ دے،خاص طور پر عطیات،تحائف کے معاملے میں،ایسا کرنے سے سبھی بچے ذہنی طور پر مطمئن رہیں گے،احساس محرومی کا شکار نہ ہوں گے اور والدین کا تہہ دل سے ادب واحترام کریں گے،جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا نعمان بن بشیر؆ نے کہا کہ:’’میرےوالد بشیر؄نے میری والدہ عمرہ بنت رواحہ؅ کے بے حد اصرار پرمجھےاپنا کچھ مال تحفتاًدیا ، میری والدہ نے کہا کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کو گواہ بناؤ تو میرے والد نے رسول اللہ ﷺ کوسے گواہ بننے کی گزارش کی تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ :کیا تو نے اپنے باقی بچوں کو بھی یہ دیا ہے؟ والد صاحب نے کہا کہ نہیں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی اور کو گواہ بنالو میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان تحائف میں بھی عدل کرو،چنانچہ میرے والد نے وہ تحفہ واپس لے لیا۔‘‘(صحیح بخاری:2507-2446)
نیز سیدنا انس بن مالک ؄نے کہا کہ:

 كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ رَجُلٌ، فَجَاءَ ابْنٌ لَهُ فَقَبَّلَهُ وَأَجْلَسَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ جَاءَتْ بِنْتٌ لَهُ فَأَجْلَسَهَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ:  فَهَلَّا عَدَلْتَ بَيْنَهُمَا؟

رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص بیٹھا تھا کہ اسکا بیٹا آیا اس نے اسکا بوسہ لیا اور اسے اپنی گود میں بٹھالیا،پھر اسکی بیٹی آئی تو اس نے اسے اپنی سائیڈ پر بٹھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا:تو ان دونوں کے درمیان عدل کیوں نہ کیا؟۔(شعب الایمان للبیہقی:10510،الصحیحۃ:3098)
نیز سیدنا عقبہ بن عامر؄ نے کہا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَكْرَهُوا الْبَنَاتِ، فَإِنَّهُنَّ الْمُؤْنِسَاتُ الْغَالِيَاتُ

بچیوں کو ناپسند نہ کرو،کیونکہ وہ بہت ہی پیاریاں اور قیمتی ہوتی ہیں۔(مسند احمد:17411،الصحیحۃ:3206)
نیز بعض لوگ لڑکے کی ولادت پر زیادہ خوش ہوتے ہیں،یہ بھی اولاد کے درمیان عدل کے منافی ہے،سلف صالحین کا یہ طریقہ نہ تھا ،جیسا کہ کثیر بن عبید  نے کہا کہ:

كَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا وُلِدَ فِيهِمْ مَوْلُودٌ، يَعْنِي: فِي أَهْلِهَا – لاَ تَسْأَلُ: غُلاَمًا وَلاَ جَارِيَةً  تَقُولُ: خُلِقَ سَوِيًّا؟ فَإِذَا قِيلَ: نَعَمْ، قَالَتْ: الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

سیدہ عائشہ صدیقہ؅ کے گھرانے میں جب کسی کی ولادت ہوتی تو وہ یہ نہیں پوچھتیں کہ لڑکا ہوا ہے یا لڑکی بلکہ پوچھتیں کہ :صحیح پیدا ہوا ؟اگر جواب ملتا کہ :جی ہاں،تو فرماتیں:الحمد للہ رب العالمین(صحیح الادب المفرد:956)
البتہ جن معاملات میں مساوات ممکن نہ ہو،مثلاً:بچوں کی صحت ومرض،قوت و ضعف،تعلیم وتربیت،خوراک و لباس وغیرہ تو اس میں عدل یہی ہے کہ ہر بچے کو اسکی ضرورت کے مطابق اشیاء فراہم کی جائیں،اورسبھی کی ضروریات کا خیال رکھا جائے ،اور اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ کسی ایک کی ضرورت کو ترجیح دینا لازم ہوجائے تو والدین خیر خواہی کا دامن ہر گز ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
نیز بعض بچے طبعی طور پر دیگر بچوں سے زیادہ محبوب ہوتے ہیںتو یہ معاملہ دِلی حد تک رہے تو صحیح ہے لیکن عملی طور پر اسکا اظہار” عدل“ کے منافی ہوگا۔
6-وراثت کی تقسیم میں شریعت کی خلاف ورزی نہ کرنا:
ہمارے معاشرےمیں یہ خرابی عام ہے کہ مرنے والا اپنی جائداد اپنی پسند کے مطابق تقسیم کرجاتا ہے،پھر اسکی وارثین میں تنازعات جنم لیتے ہیں،اور بسا اوقات معاملہ عدالت تک جاپہنچتا ہے،اس کا واحد ذمہ دار وہ شخص ہے جو اپنی جائداد کو اپنی مرضی سے تقسیم کرجاتا ہے اور اس سلسلے میں اپنے خالق و مالک کے احکامات کو نظر انداز کردیتا ہے،حالانکہ وہ عدل نہیں کرسکتا،لہذااپنی مرضی کرنے سےوہ گناہ گار اور مجرم قرار پاتا ہے۔
اس سلسلے میں شریعت نے اسے صرف اتنا حق دیا ہے کہ وہ اپنے کل مال کا تہائی حصہ بطور وصیت کسی کو دے سکتا ہے،یعنی وارثوں کے سوا کسی اور کو ،جبکہ وارثوں کو صرف انکا شرعی حصہ ہی ملے گا،یا اتنا مال وہ فی سبیل اللہ کسی مد میں لگا سکتا ہے،بشرطیکہ اسکے ذمہ واجب الاداء مالی حقوق ادا کرنے کے بعد اور وصیت پر عمل کرلینے کے بعد وارثوں کے لئے بھی مال بچتا ہواور اگر وارثوں کے لئے مال نہ بچے تو وصیت کالعدم ہوجائے گی۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ (سورۃ النساء :11)

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں تاکید کرتا ہے۔
یعنی اس سلسلے میں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں یہ معاملہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اختیار میں نہیں رکھا بلکہ اسکا فیصلہ خود ہی فرمادیا ہے کہ کس کو کتنا ملے گا،کیونکہ تم چاہ کر بھی نہیں جان سکتے کہ کس کا کتنا حق ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:

آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللهِ إِنّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا  (سورۃ النساء :11)

تمہاے باپ دادا اور تمہارے بیٹے تم نہیں جان سکتے کہ تمہارے لئے زیادہ نفع بخش کون ہے،اللہ کی جانب سے مقرر کردہ حصے ہیں،کیونکہ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
نیز وراثت کی تقسیم کے شرعی ضابطے کی اتباع کو لازم قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا  ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ

یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں،اور جو اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جنکے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور یہی بڑی کامیابی ہے،اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اسکی حدود کو پامال کرے گا تووہ اسے جہنم کی آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسکے لئے رسوا کن عذاب ہوگا۔(سورۃ النساء :13-14)
7-قرض اتارنا،خواہ انکا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے:
بڑھاپا ”مظنۃ الموت“ یعنی موت کی اسٹیج ہے،اور موت کے بعد محاسبہ و معاقبہ ہے،یعنی زندگی بھر کا حساب اور اسکا بدلہ،حساب کے دو مرحلے ہیں ایک کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوق العباد سےان میں سے جو حق ادا ہونے سے رہ گئے ہوں موت سے پہلے جس قدر ممکن ہو انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،تاکہ محاسبہ میں تخفیف ہو،قرض ادا کئے بغیر جو شخص اس دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس نےاستطاعت کے باوجودقرض کی ادائیگی کا انتظام نہ کیا ہو تو ایسے شخص کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ

مومن کی روح اسکے قرض کی ادائیگی تک روک دی جاتی ہے۔(سنن ابن ماجہ:2413،صحیح الجامع:6779)
یعنی جنت کے دروازے پر،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق فرمایا جو مقروض مرا تھا:

مُحْتَبَسٌ عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فِي دَيْنٍ عَلَيْهِ

اسے جنت کے دروازے پر اسکے قرض کی وجہ سے روک دیا گیا۔ (مسند احمد:20136  ،سنن نسائی:4685 ،سنن ابی داؤد:3343)
نیز نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کا جنازہ خود نہ پڑھایا بلکہ اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ خود ہی اسکا جنازہ پڑھادیں،جیسا کہ سیدنا سلمہ بن اَکوَع ؄نے کہا کہ:
ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ :اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:نہیں،پھر آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟(تاکہ اسے اسکے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے)انہوں نے کہا:نہیں،پس آپ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھادی،پھر ایک اور جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ :اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:جی ہاں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟(تاکہ اسکا قرض ادا کردیا جائے)انہوں نے کہا: جی ہاںتین دینار،پس آپ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھادی،پھر ایک اور جنازہ لایا گیا،لوگوں نے کہا کہ : اسکی نماز جنازہ پڑھادیجیے،آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس نے کوئی مال چھوڑا ہے؟انہوں نے کہا :جی نہیں،پھر آپ ﷺ نے پوچھا:کیا اسکے ذمے قرض ہے؟انہوں نے کہا:جی ہاں تین دینار،آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا:تم اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھ لو،تو ابو قتادہ؄ نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ آپ ہی اسکا جنازہ پڑھا دیجیے اورابو قتادۃ رضی اللہ نے کہا اسکا قرض میرے ذمے رہا، پس آپ ﷺنے اسکی نماز جنازہ پڑھادی۔ (صحیح بخاری:2289)
٭نیز ”قرض“کی ادائیگی نہایت ضروری ہے خواہ وہ قرض حقوق العباد سے متعلق ہو جیسے قرض لی ہوئی رقم یا ادھار یا عاریتاًیا امانتاًلی ہوئی کوئی شے یاحقوق اللہ سے متعلق ہوجیسے قضاء یا نذر یا کفارے کے روزےیا انکا فدیہ یاحج یا دَم ،اگرچہ اسکی ادائیگی کی وجہ سے ”وصیت“کو منسوخ یا مؤخر کرنا پڑے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الدَّيْنُ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ وَلَيْسَ لِوَارِثٍ وَصِيَّةٌ
وصیت سے پہلے قرض ہے اور وارث کے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں۔(سنن دارقطنی:4152صحیح الجامع:3419)
(فائدہ)وصیت سے مراد یہ ہے کہ مرنے والا اپنے کل مال کا تہائی تک کسی کو بطور صدقہ وصیت کردے ،جبکہ بقیہ مال اسکے ورثاء میں تقسیم ہوجائے گا ،چونکہ وارث کو اس بقیہ سے ملتا ہے اس لئے اسکے حق میں وصیت کرنا جائز نہیں،اور اگر وصیت پوری کرنے کے بعد ورثاء کے لئے مال نہ بچتا ہو تو وصیت کالعدم ہوجائے گی۔
نیز سیدنا ابن عباس؆ نے کہا کہ:

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟ فَقَالَ:  لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِيهُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى

ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اس نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ میری والدہ کا انتقال ہوگیا اور انکے ذمے ایک ماہ کے روزے واجب الاداء تھے،کیا میں انکی جانب سے وہ روزے ادا کرسکتا ہوں؟آپ ﷺ نے اس سے کہا:اگر تمہاری والدہ کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟اس نے کہا:جی ہاں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:پس اللہ کا قرض(یعنی روزے) ادائیگی کا اس سے زیادہ مستحق ہے۔(صحیح مسلم:1148)
٭نیز ایسی ہی ایک اور روایت کے مطابق سیدنا ابن عباس؆ نے کہا کہ:
جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریمﷺ کے پاس آئی اس نے کہا:میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن حج کرنے سے پہلے ہی وہ فوت ہوگئی تو کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں اسکی طرف سے حج کرلے،ذرا سوچ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو اسے ادا کرتی؟اللہ کا قرض ادا کرو اللہ ادائیگی کا زیادہ حقدار ہے۔ (صحیح بخاری:1852)
٭البتہ جو شخص مقروض ہو اور اپنی موت تک قرض ادا نہ کرسکے لیکن قرض ادا کرنے کا پورا ارادہ رکھتا تھا اور اسکے لئے مقدور بھر کوشش بھی کرتا رہا تواللہ تعالیٰ اسکی جانب سے قرض خواہ کو راضی کرے گا اور اسکا قرض ادا کریگا،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ

جو لوگوں کا مال لے اسے ادا کرنے کے ارادے سے اللہ اسکی جانب سے ادائیگی کرے گا،اور جو لوگوں کا مال لے اسے ہڑپ کرجانے کی نیت سے اللہ اسے ضائع کردے گا۔ (صحیح بخاری:2387)
(فائدہ)ان احادیث سے معلوم ہوا کہ فرضی روزے، فرض حج اور نذر وغیرہ فرائض جو مرنے والے کے ذمے تھے مگر وہ انہیں ادا نہ کرسکا تو اسکے وارث کی ذمہ داری ہے کہ اسکے مال سے اسکی جانب سے ادا کرے ،البتہ نماز کا معاملہ مختلف ہے ،اسکی نمازیں اسکا وارث نہیں پڑھ سکتا،کیونکہ یہ خالص بدنی عبادت ہے اور جسکی نمازیں رہ گئیں اسکا جسم اب اس دنیا میں نہیں رہانیز ایسے کرنا کسی حدیث سے ثابت بھی نہیں۔
…جاری ہے …

اہل قبور سے فیض کا حصول کیوں؟

مزارات پر حاضری دینے والوں کاگمان ہے کہ زندگی میں
اس کی صحبت سے جس طرح فیض حاصل کر تے رہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی انکی قبر سے برکت حاصل ہوسکتی ہےانکا یہ بھی نظریہ بن چکا ہے کہ جس طرح ہم ان کی حیا ت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرتے تھے اسی طرح وہ قبر میں بھی ہماری پکارسن لیتے ہیں اور وہ سفارش کرکے رب سے مشکل حل کرالیتے ہیں ۔اہل قبور سے استمداد کے حق میں کتابچہ نظر سے گزرا جس میں تحریر ہے ۔
مزارات کو سجدہ حرام ۔ان سے فیض اللہ کا انعام۔
چنانچہ چند غور طلب امور ہیں۔
اگر ولی اللہ اگر اپنی حیا ت کی طرح موت کے بعد بھی راہنمائی کرسکتا ہے تو نبی کیوںنہیں کرسکتے ؟
جب ہر نبی فوت ہونے کے بعد فیض رسائی پر قادر ہوتو یکہ بعد دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا کیا مقصد ؟
اگر ولی اللہ کی ولایت موت تک ہے تو فوت شدہ اولیاء کومشکل کے وقت پکارنے کا کیا مقصد ؟
بصورت دیگر اگر انکی ولایت موت کے بعد بھی دائمی ہے تو ان کی ولایت کا نسل در نسل نیک وبد اولاد میں منتقل ہونا چہ معنی وارد؟
ولی زندگی میں مشکل کشا اور موت کے بعد بھی تو سوچنے کا مقام ہے کہ انکی زندگی اور موت میں کیا فرق ؟
اگر فرق نہیں تو موت طاری ہونے کا کیا مقصد ؟
قابل احترام بھائیوں اگر آپ معقول جواب نہیں دے سکتے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ولی جب فوت ہوجاتا ہے تو اس کا دنیا عالم سے رشتہ کٹ جاتا ہے جس طرح اہل دنیا کا عالم ارواح سے تعلق منقطع ہوچکا ہے ۔
در حقیقت ولی کی وفات کے بعد بھی کائنات میں کئ اولیا ء ٔٔٔٔٔٔاور رحانی معالج موجود ہوتے ہیں جن سے روحانی برکت اور فیض حاصل کیا جاسکتا ہے اور دعا کی درخواست کی    جا سکتی ہے آپ ان سے رجوع کریںسب سے بڑھ کر یہ کہ جب اللہ تعالی کادر ہر وقت کھلارہتاہے وہ حی اور قیوم ہے اسے موت نہیں آتی اسکا اعلان ہے کہ ہر حالت میں مجھے پکارو میں تمہاری فریادیں سنتاہوں اور تمہاری مصیبتوں کو صرف میں ہی ٹالنے والا ہوں تو ہم اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ۔ہمارا اپنے رب کی قدرت کنـ پر ایمان اتنا کمزور کیوں ہے ؟خدانخواستہ آپ زندہ بزرگوں کی بجائے فوت شدہ بزرگوں سے فیض ،برکت اور مدد طلب کرنے موقف پر قائم ہوں تودردمندانہ التماس ہے آپ سورہ نوح کی تفسیر بالحدیث پڑھ کرذرا اس پر غور فرمائیں کہ بت پرستی کاآغاز کس طرح ہوا؟
وہ علماءجوقبور سے استمداد کے قائل ہیں انہوںنے قبر پر جاکر استمداد کے تین طریقے بیان کیے ہیں ۔
1۔ وہاں جاکر سلام کیا ہے اور پھر فاتحہ شریف پڑھی اور دعا رب سے کی اور کہا کہ یہ مقبول بندے ہیں جنکے پاس آیا ہوں تو انکے صدقے سے میری مشکل آسان کردے
2۔سلام کرنے کےبعد فاتحہ خوانی کی اور کہا کہ تم اللہ تعالی کے پسندیدہ ہو تم اللہ کے دربار میں سفارش کردو انہیںمعبود بنائے بغیر سفارشی بنانا جائز ہے۔
3۔اے اللہ تعالیٰ کےولی میں تیرے پاس آیا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا مجھے اللہ تعالیٰ سے لیکر دے۔
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اہل سنت کے لئے مشعل راہ ہے۔ زندگی کا کونسا غمی وخوشی کا موقع ہے جہاں رحمت کائنات محمد ﷺ نے دعا نہیں سکھائی۔ آ پﷺ نے سونے جاگنے، کھانے پینے کے وقت، مسجد میں داخل اور نکلتے وقت اور اہل قبور کے حق میں جو دعائیں سکھائیں احادیث میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن قبر سے استمداد کے مذکورہ تین طریقوں کا ذکر ہوا ہے۔ قائلین کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ احادیث کے ذخیرہ میں سے اس امر کی نشاندہی کریں جہاں مخبر صادق محمد ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مزارات پر جاکر مذکورہ طریقوں کے مطابق حاجت طلب کرنے کی دعائیں سکھائی ہوں؟
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے تو وہی مشکل کشائی کا حق دار ہے۔
دنیا وآخرت میں ہمارے رہبر وراہنما محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جن کے بعد وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا اب ان کے علاوہ کوئی رہبر اکمل ومرشد کامل کوئی نہیں۔
عابد،زاہد،مجاہد اور شہید کی جنازہ میں شریک افراد میت کی مغفرت ودرجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہیں جب وہ قبر میں دفن ہوجاتے ہیں تو اُن کو حاجت روائی کا وسیلہ تسلیم کرنا حقیقت کے منافی عمل ہے۔
معبود ما ، مسجود ما
اللہ احد جل جلالہ
حاجت روا مشکل کشا
اللہ واحدہ اللہ واحدہ
کامل مرشد وراہ نما
محمد مصطفی، مصطفیٰ
شافع محشر
احمد مصطفی
اولیاء کی صحبت سے فیض وبرکات کا حصول
ایمان میں تروتازگی اہل حق کا معمول
اہل قبور کے لیے مغفرت ودرجات طلب کرنا جائز
مگر ان کے وسیلہ سے حاجت ومدد مانگنا حرام
۔۔۔

ایک آزاد اسلامی عدلیہ کا نظام

عدل اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم صفت ہے۔ اللہ ذوالجلال والاکرام کے 99 صفاتی ناموںمیں سے ایک نام ’’عدل‘‘ بھی ہے۔اللہ ذوالجلال والاکرام نے کائنات کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے عدل کے اُصول کو اپنا رکھا ہے۔ چونکہ وہ ذاتِ واحد خود بھی عادل ہے، اور نظامِ کائنات کو بھی اس نے عدل سے وابستہ کر رکھا ہے۔
پانی ، ہوا، مٹی، نباتات و حیوانات اور جسم انسانی کی ترکیب و ترتیب میں بھی اصولِ عدل و اعتدال کار فرما ہے۔مثلاً اگر پانی کا کیمیائی تجزیہ کیا جائے تو اس میں توازن اور اعتدال کا فارمولا موجود ہے کہ جب تک ہائیڈروجن و آکسیجن کو باہم ملایا نہ جائے، تو پانی وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح ہوا کو لیجئے، اس میں آکسیجن ، نائیٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاص تناسب موجود ہے۔ جو نہ صرف حیاتِ انسانی کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ نباتات و حیوانات کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ اگرہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جائے تو انسانی زندگی معدوم ہوجائے گی۔
عدل کی تعریف میںمساوات اور برابری کامفہوم پایا جاتا ہے۔متوسط اور معتدل وجود کو بھی عدل کہاجاتا ہے۔ عدل کا لفظ افراط و تفریط کے مابین نقطۂ مساوات ہے،جو اطراف کو برابر رکھتا ہے۔ غرض کائناتِ ارض و سماوی اور کارخانۂ حیات کے نظام کا دارومدار، اعتدال اور توازن کے اصولِ فطرت پر قائم ہے۔ اس لیے انسان کو فطرت کے مظاہرے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی کو اس اصول کے تابع کر لینا چاہیے ۔ اس سے قبل رومن ایمپائر(Roman Empire) جس میں 90 فیصد لوگ غلام تھے۔ اس طرح ایرانین ایمپائر (Iranian Empire) میں بھی لوٹ مار اور غلامی کا نظام (نظام اغارت) قائم تھا۔جس کے تحت قافلوں کو لوٹ کر انہیںغلام بنا لینے کا عام رواج تھا اور یہ اس وقت بین الاقوامی قانون تھا کہ جس عورت کو پکڑکر لونڈی بنا لیا گیا،وہ ہمیشہ کے لیے اس کی لونڈی رہے گی۔ اور جس بچے کو پکڑ کر غلام بنا لیا،وہ ہمیشہ کے لیے اس کا غلام ہی رہے گا،اور دنیا کی کسی عدالت میں ان کی شنوائی نہیں ہو سکے گی۔ یہ اس وقت نظامِ اغارت تھا۔ جو کہ رومیوں اور ایرانیوں کے ہاں رواج پذیر تھا۔
اس طرح عرب میں بھی یہی کلچر (Culture) تھا۔ ظلم کے اس نظام کے خلاف کوئی آوز بلند نہیں کر سکتا تھا۔
لہٰذا ظلم و جبر کے اس نظام کے خاتمہ کے لیے صرف ایک شخص کو یہ ہدف (Mandate) دیا گیا، جو اس وقت سپر طاقتوں کی سرپرستی میں رائج تھا۔
رومن اور ایرانین ایمپائر کے اس ظالمانہ سسٹم (System) کو بدلنے کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا جو کہ سرمایہ دار تھا اور نہ ہی کارخانہ دار اور نہ ہی وہ کسی قبیلے کا سردار تھا بلکہ یہ عظیم ذمہ داری ایک یتیم کو سونپی گئی۔سبحان اللہ
وہ یتیم عبداللہ محمد رسول اللہﷺ جس نے شیطانی نظام کو مٹا کر اسلام کا عادلانہ و منصفانہ اور ایک ایسا مساویانہ نظام متعارف کروایا جس کی تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
آج امریکہ اور یورپ جو نظام اپنائے ہوئے ہیں، یہ تقریباً اسی نظامِ اغارت (ایرانیوں اور رومیوں کے دہشت پسندانہ نظام) کی ایک جدید شکل ہے،جو کہ کسی نہ کسی شکل میں ہر ملک میں رواج پذیر ہے۔ اس وقت جہالت ِقدیمہ کے باعث یہ نظام رائج تھا۔ جبکہ آج جہالت جدیدہ (استحصالی فکر) اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ قائم ہے جس کی بھاگ دوڑ اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ جسے ہر ملک میں فوج ،پولیس اور بیوروکریسی کے ذریعہ قانونی حیثیت حاصل ہے۔ گویا مظلوم ظلم کے خلاف فریادی بن کر ان کے پاس جانے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ جو کہ خود ظالموں کے سر پرست اور آقا ہیں۔  (إلاّماشاء اللہ)
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہماری عدالتیں بھی انگریز کے مرتب کردہ قوانین کے موافق فیصلے کرتی ہیں۔ہمارا تمام تر عدالتی سسٹم غیر شرعی وغیر اسلامی فکر پر مبنی ہے۔
جب تک ہم طاغوتی اورہامانی و قارونی فکر سے آزاد نہیں ہو جاتے تب تک حقوقِ رسالتﷺ کے تقاضوں کو پوارنہیں کیاجا سکتا اور نہ ہی حقوقِ رسالتﷺ کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ان کے ایجنٹوں (منکرین ختم نبوت ، مرتدین اور زنادقہ ) کی سازشوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔
لہٰذا مرتدین کے مکمل خاتمے کے لیے اسلامی عدلیہ کا ہوناانتہائی ناگزیر ہے اسلام کا تو بنیادی مقصد معاشرے میں ایسے ظالمانہ نظام کا خاتمہ اور اجتماعی عدل کا قیام ہے۔جیسے کہ سورئہ الحدید میں ارشادِ ربانی ہے:

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

’’ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ ہم نے الکتاب (قرآن مجید) نازل فرمائی اور میزان (بھیجا) تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوجائیں۔‘‘ (الحدید 25)
دوسرے مقام پر فرمایا:

اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوْ اللّٰہُ

’’ یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے ’’عدل ‘‘ کرو ،(یہی) بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘  (المائدہ۔ 80)
تیسرے مقام پر فرمایا:

یَٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ

’’اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جائو۔‘‘ (النساء۔ 135)
یعنی قرآن کااہل ایمان سے تقاضا ہے کہ انصاف کے علمبردار بن جائو اور مومن کی حیثیت سے ہر شخص کو عدل کے قیام کے لیے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔
نیز فرمایا:

 اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَّحکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۔  (النساء۔ 58)

’’ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو یہ اللہ تعالیٰ تمہیں نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں بھی اور جس دور میں بھی اسلامی عدالتوں کو آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہاں ظلم و نا انصافی اور جرائم کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ آج مغربی ممالک میں اگر کہیں عدل و انصاف کا چرچا ہے تو انہوں نے بھی یہ سنہری اصول اسلام ہی سے حاصل کئے ہیں اور دوسرے لفظوںمیں رحمت عالمﷺ کے اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں ہی انہوں نے اپنا عدالتی نظام مرتب کر رکھا ہے۔
ان کے معاشرتی و اخلاقی نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود ان کے عدالتی نظام کو قدر کی نگاہوں سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ وہ اس لیے کہ اسلام کے وہ سنہری اصول جنہیں ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے ، انہوں نے وہ اصول اپنا لیے ہیں۔اس کی فقط ایک مثال پیش خدمت ہے۔
امام ابو یوسفؒ (شاگردِ رشید حضرت امام ابوحنیفہؒ) نے چیف جسٹس (قاضی القضاء) کا عہدہ اس شرط پر قبول کیا تھا کہ جب چیف جسٹس قصرِ خلافت میں آئے گا تو بادشاہِ وقت احتراماً کھڑا ہو جائے گا۔ مگر اس کے برعکس جب بادشاہ عدالت میں آئے گا تو چیف جسٹس کھڑا نہیں ہو گا۔
چنانچہ یہ اصول اور قاعدہ حکومت انگلستان نے اپنا رکھا ہے۔ کہ جب لارڈ چیف جسٹس آف انگلینڈ بادشاہ یا ملکہ کے ہاں آتا ہے تو وہ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب بادشاہ یا ملکہ چیف کے پاس آتے ہیں تو وہ کھڑا نہیں ہوتا۔
غرض جو قومیں عدل کو زندگی کی طرح عزیز رکھتی ہیں وہ جج کومحترم سمجھتی ہیں۔
اس کے برعکس جہاں آئین میں ترمیم کر کے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کر کے ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر بے بس کر دیا جائے، یا راتوں رات اپنی مرضی کا قانون بنا کر عدلیہ کی عمل داری کو روک دیا جائے، اور سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث مجرمین کو ماورائے عدالت از خود معاف کر کے عزت و وقار کا تاج ان کے سروں پر سجا کر بیک جنبشِ قلم قومی دشمنوں کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دینا اور محب وطن کو موت کے گھاٹ اُتار دینا اور انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں ذرا تامل نہ کرنا اور نا اہل و کم ظرف لوگوں کو کلیدی آسامیوں پر فائز کرنا،اور اپنے ہی بہن بھائیوں (ہم وطنوں) کے ہاتھ پائوں باندھ کر غیر ملکیوں کے حوالہ کر دینا اور بے گناہوں کا ماورائے عدلت قتل اور اغواء ، کہاں کا انصاف ہے؟ یہ تو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
علاوہ ازیں چوری، ڈکیتی، سمگلنگ، عدالتوں میں نا انصافی و حق تلفی، ریاستی غنڈہ گردی، دہشت گردی نابالغ بچیوں کی عصمت دری ،بچوں سے اخلاقی زیادتی اور جبری مشقت و مزدوری ، گمشدگی کے اندھے واقعات اور ماورائےعدالت اغواء،فرقہ وارانہ دہشت گردی اور پولیس گردی (جعلی پولیس مقابلوں) اور منکرین خاتم النبیین کی ملک و ملت اور اسلام کے خلاف سازشوں کو ایک آزاد عدلیہ کی بدولت ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
یہ کب ہو سکے گا؟
جب ایک جج اور عدالتِ عظمیٰ کی نگاہ میں فقط قانون کی بالا دستی و حکمرانی کا تصور ہو گا، تب عدالت بھی کسی ظاہری اقتدار کی قوت کو خاطر میں نہ لائے گی۔
یہ کب ممکن ہو گا؟
جب جج صاحبان مقتدرِ اعلیٰ (اللہ تعالیٰ) کے ہاں جواب دہی کا خوف رکھنے والے ہوں گے، تو سو فیصد انصاف کا بول بالا ہو گا۔ اس وقت سربراہِ ملک بھی بے بس ہو کر مدعا علیہ کی صورت میں عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے کسی قسم کی ہچکچاہٹ او رعار محسوس نہیں کریں گے بلکہ حکمران بھی عدل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فخریہ طو رپر عدالتوں کا سامنا کریں گے۔
یہ کب ہو گا؟
جب انتظامیہ کی طرف سے مدعی اور مدعیٰ علیہ اورعدالت کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو؟  یعنی تحفظِ جان، تحفظِ آبرو اور معاشی تحفظ وغیرہ تب عدالتوں سے انصاف کی بھی توقع ہو گی۔
اور سَائلین دیوانی عدالتوں میں چکر لگا لگا کر دیوانگی سے بھی بچ جائیں گے اور سالوں میں فیصلے نہ ہونے والے ، ہفتوں میں ممکن ہو سکیں گے جیسا کہ مملکت ِ سعودی عربیہ میں ہے۔
تب مرتد اور زندیق (منکرین خاتم النبیینﷺ) کواپنے کفریہ عقائد کو اسلام کے نام سے پیش کرنے کی جرأت نہ ہو گی۔
اور نہ ہی ایسے مرتدین کو کسی عدالت میں اپنے نام نہاد اسلام کو چیلنج کرنے کی جسارت و ہمت ہو گی۔
عصرِ حاضر کے بد ترین گستاخِ رسالت اور منکرین ختم نبوت قادیانیوں (لاہوری اور ربوہ) دونوں کو 1974ء میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔
جس میں انہیں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کی کھلی اجازت دی گئی تھی،لیکن انہوں نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے صریحاً انکار کر دیا ہے۔
شرعی تقاضوں اور حقوقِ رسالتﷺ کے پیش نظر یہ مرتد اور زندیق کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے، کہ اس وقت قادیانی مرتدین سے بڑھ کر کائنات میں کوئی اسلام دشمن نہیں ہے؟ وہ کیوں؟ اس لیے کہ قادیانی اسلام کے روپ میں اسلام ہی کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
دنیا میں قادیانیوں کے سوا اور بھی اسلام دشمن تحریکیں ہیں جو کہ نہایت گھنائونے عزائم رکھتی ہیں۔مگر وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کرتیں، وہ اسلام کے نام سے تبلیغ نہیں کرتیں۔ جبکہ قادیانی مرتد اسلام کے نام سے اسلام کے نام لیوائوں کو ہی مرتد بنا رہے ہیں۔
قادیانی کتب میں مرزا قادیانی کو (معاذ اللہ) عین محمد رسول اللہ، اس کی بیہودہ اور لا یعنی پیش گوئیوں کو وحی من اللہ، اس کے بد کردار ساتھیوں کو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام ، اس کی فاحشہ بیوی کو اُم المؤمنین ، اس کے ناپاک خاندان کو اہل بیت، اس کی گندی حرکات کو سنتِ رسول اور اس کی منحوس بستی قادیان کو مکہ و مدینہ سے بھی افضل کہا گیا ہے۔(العیاذ باللہ)
یاد رکھئیے! قادیانیوں (غلام احمدیوں) کے علاوہ یہ جرم اور کسی کافر و مشرک میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے دنیا بھر کے کافروں اور غیر مسلموں سے ڈائیلاگ اور مذاکرات ہو سکتے ہیں، ان سے ہر قسم کے معاہدات کئے جا سکتے ہیں ، ان سے کاروباری لین دین ہو سکتا ہے، ان سے افہام و تفہیم ہو سکتی ہے۔ (بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے مخالف نہ ہوں) لیکن قادیانی مرتدین کے بارے میں ایسا سوچابھی نہیں جا سکتا بلکہ یہ زندیق کے زمرے میں آتے ہیں۔ زندیق کی تعریف یہ ہے،کہ جو اپنے کفرپہ اسلام کا لیبل لگا کر اپنے جھوٹے اور باطل نظریات کو عین اسلام کے نام سے پیش کرے، شرعی اصطلاح میں اسے زندیق کہا جاتا ہے۔
لہٰذا قادیانیوں کے خلاف کیے گئے عدالتی و قانونی فیصلوں کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس جیسے اقدامات کو بذریعہ عدالت ہی مؤثر بنایا جا سکتا ہے اور ایسے منکرین  رسالت کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ایک آزاد عدلیہ کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔قادیانیوں کے خلاف کیے گئے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو عدالت کے ذریعہ ہی مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً دفعہ 298 کے تحت قادیانی مجرم ہیں، جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کے ریمارکس عدالتی فیصلوں کے مطابق بار بار جرم کرنے والے فرد کی ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح 295-C کے تحت قادیانیوں پر فردِ جرم عائد کی جائے تاکہ یہ منکرین ختم نبوت اسلام کا نام استعمال نہ کر سکیں اور بلواسطہ یا بلاواسطہ (Direct or Indirect)اپنے آپ کو مسلم ظاہر نہ کر سکیں۔ لیکن ایسی تمام دفعات کو ایک آزاد عدلیہ کے ذریعہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ آرٹیفیشل مذہب اسلام اور ملک کی بنیادوں کو متزلزل کرتا رہے گا۔ بقول جانباز مرزا
بہت کذاب آئے ہیں ابھی کچھ اورآئیں گے
مگر اس دور کا جو کذاب آیا بے مثال آیا
ْْْْْ۔۔۔

عظیم ذکر “لا حول ولا قوة إلا بالله” کی فضیلت

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی نیک لوگوں کا ولی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں  وہ تنہا اور یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی گزشتہ و پیوستہ لوگوں کا معبودِ بر حق ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ تمام انبیائے کرام اور رسولوں میں افضل ترین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا [الأحزاب: 70، 71]

اے ایمان والو! تقوی الہی اپناؤ اور ہمیشہ سچ بولو اللہ تمہارے معاملات سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بھی بخش دے گا، جو بھی اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرے تو وہ بہت بڑی کامیابی پا گیا۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کیلئے تاکیدی نصیحت ہے۔
دورِ حاضر میں کہ جہاں فتنوں کی بھر مار ہے، مشکلات  بہت زیادہ ہیں، امت اسلامیہ پر دشمن مسلط ہو چکے ہیں، ان کی وجہ سے تکالیف کی اقسام بڑھ چکی ہیں، مصیبتیں متنوع ہو چکی ہیں، تو ایسے میں تمام پریشانیوں سے نکلنے کے یقینی راستے مسلمانوں کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے، ہمہ قسم کے دکھ ،درد اور پریشانیوں سے نجات کے حقیقی اسباب بتلانے کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔
مسلم اقوام!یہ فانی زندگی اذیتوں اور زحمتوں سے بھری ہوئی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ [البلد: 4]

یقیناً ہم نے انسان کو مشقت برداشت کرتے رہنے والا پیدا کیا۔
دنیاوی زندگی کی صعوبتوں اور پریشانیوں سے نکلنے کا عظیم طریقہ خلوت و جلوت میں تقوی الہی اپنانے میں پوشیدہ ہے، ان سے خلاصی کیلئے دن ہو یا رات  ہر وقت اللہ تعالی سے رجوع کریں، دکھ سکھ ہر حالت میں اسی کے سامنے اظہارِ عاجزی کریں اور گڑگڑائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ [الطلاق: 2، 3]

اور جو اللہ سے ڈرے اللہ تعالی اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہےاور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

اور جو تقوی الہی اختیار کرے اللہ اس کے معاملات آسان فرما دیتا ہے۔[الطلاق: 4]
اللہ تعالی کے سامنے اظہارِ عاجزی و انکساری اور سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کرنے کی تعلیمات میں نبی کریم ﷺ کی صحابہ کرام کو کی ہوئی نصیحتیں بھی شامل ہیں کہ صحابہ ان پر دل و جان ،قولاً اور فعلاً عمل کریں، اٹھتے بیٹھتے اسی میں رنگے رہیں؛ چنانچہ آپ ﷺ نے ابو موسی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: تم

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

[نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں]کہا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔( بخاری ،مسلم )
سیدناابو ذر tکہتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تاکیدی نصیحت کی تھی کہ میں زیادہ سے زیادہ
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِکہا کروں
ان احادیث میں اس جلیل القدر ذکر کا تاکیدی حکم ہے، اس ذکر کے الفاظ مختصر لیکن معنی بہت عظیم ہے، اس ذکر کے زبان پر جاری ہونے سے دل کو یقین تام حاصل ہو جاتا ہے کہ فلاح ِ دارین کیلئے صرف اللہ تعالی ہی مدد فرما سکتا ہے، اور جس کی اللہ مدد کر دے تو وہ ہی با مراد ہے، اور جسے وہ رسوا کر دے تو وہی نا مراد ہے۔
اس ذکر کی وجہ سے بندے کو یہ یقینِ محکم ہو جاتا ہے کہ وہ خود یا کوئی اور ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے کی ذاتی طاقت کا حامل نہیں ہے، بندہ اپنا کوئی بھی کام تنہا مکمل نہیں کر سکتا، کسی بھی ہدف کو پانے کیلئے انتہائی مضبوط ، بلند و بالا اور عظمت والی ذات باری تعالی کی جانب سے قوت کا ملنا ضروری ہے۔
اس ذکر میں انسان اپنی حقیقی کم مائیگی اور ناتوانی اپنے پروردگار کے سامنے رکھتا ہے، انسان یہ بھی کہتا ہے کہ اسے اپنے غالب اور زبردست خالق کی ہر وقت اور ہر لمحے ضرورت ہوتی ہے۔
جس وقت یہ ذکر انسانی زبان پر جاری ہو تو عین اس وقت دل عظیم الشان  ذات کی وحدانیت  کا اقرار کر رہا ہوتا ہے؛ کہ اسی سے مدد، کامیابی، تنگی سے نکلنے کا راستہ اور خوشحالی طلب کی جاتی ہے؛ فرمانِ باری تعالی ہے:

سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا [الطلاق: 7]

عنقریب اللہ تعالی مشکل کے بعد آسانی فرما دے گا۔
ذکر کے باعث فلاح ،کامیابی ، خلاصی اور نجات ملتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اے ایمان والو! جب تمہارا کسی دشمن سے ٹکراؤ ہو تو اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔[الأنفال: 45]
یہ ذکر ہر مسلمان کو اپنی حقیقی زبان اور زبانِ حال دونوں سے ہر وقت کرتے رہنا چاہیے اور حقیقت میں یہی عقیدہ توحید کا  جوہر ہے کہ انسان ظاہری و باطنی ہر اعتبار سے ہمہ وقت اللہ تعالی کے سامنے متواضع رہے، اسی سے تعلق ہو، اللہ تعالی کے سوا کسی سے بھی قوت و طاقت کی وصولی کو مسترد کر دے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” مشکلات کا مقابلہ کرنے اور مصیبتیں جھیلنے کیلئے اس [لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ]ذکر کی حیران کر دینے والی اثر انگیزی ہے، نیز بادشاہوں اور با رعب شخصیات کے سامنے جانے اور پرخطر امور میں بھی یہ ذکر مؤثر ہے۔”
اللہ کے بندو!یہ عظیم واقعہ سنو! اس میں واضح ترین دلیل ہے کہ عقیدہ توحید کی طاقت کے ذریعے بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے، اور سخت ترین پریشانیاں چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہوں وہ بھی مندمل ہو جاتی ہیں۔
یہ واقعہ متعدد مفسرین اور دیگر اہل علم نے بیان کیا ہے اور اس  کی سندوں کی صحت کم از کم حسن درجے کی ہے واقعہ یہ ہے کہ : عوف بن مالک کے بیٹے سالم کو مشرکوں نے قید کر لیا  تو وہ نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور کہا:” اللہ کے رسول میرے بیٹے کو دشمنوں نے قید کر لیا ہے اور گھر میں بھی فاقہ کشی ہے”، تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آل محمد کے پاس بھی کل شام تک ایک مد [دونوں ہاتھوں کے بھراؤ کے برابر] غلہ تھا، تقوی  الہی اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور “لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ”کثرت سے کہو۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں اور ان کے بیٹے کی ماں کو بھی کثرت سے اس ذکر کا حکم دیا، اس پر انہوں نے عمل کیا، عوف بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں ہی تھے کہ ان کا بیٹا واپس آ گیا اور دشمن کو پتا بھی نہ چلا، ساتھ میں وہ دشمن کے اونٹ بھی اپنے والد کے پاس لے آئے ان دنوں ان کی مالی حالت بہت پتلی تھی، اس کے با وجود وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور بیٹے کے بارے میں خبر بتلائی اور یہ بھی بتلایا کہ وہ ساتھ میں دشمن کے اونٹ لے آیاہےتو آپﷺ نے انہیں فرمایا: (تمہیں اختیار ہے ان کا جو مرضی کرو، جیسے تم اپنے اونٹوں کے ساتھ کرتے تھے) اور اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ

اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہےاور وہ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2، 3]
صحابہ کرام نے قولی اور فعلی ہر دو اعتبار سے اپنی پاکیزہ زندگیوں میں ان نبوی نصیحتوں پر عمل کیا:
چنانچہ ابن ابی الدنیا نے نقل کیا ہے کہ ابو عبیدہ محصور ہو گئے اس پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جانب لکھ بھیجا کہ: انسان کو کوئی بھی تنگی لاحق ہو تو اللہ تعالی اس کے بعد فراخی بھی عطا فرما دیتا ہے، نیز ایک تنگی دوہری آسانی پر غالب نہیں آ سکتی، اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [آل عمران: 200]

خود بھی ڈٹ جاؤ اور دوسروں کو بھی ڈٹنے کی تلقین کرو،  مورچوں میں ہمہ وقت تیار رہو اور اللہ تعالی سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
صحابہ کرام کا نظریہ ہی یہ تھا کہ حقیقی قوت اور طاقت وہی ہے جو عقیدہ توحید اور اللہ تعالی کی بندگی سے ملے۔
حقیقت میں یہ اللہ تعالی کے ساتھ لگاؤ اور توکل کا نتیجہ ہے، اپنی زبان کو ہر وقت ذکرِ الہی سے تر رکھنے کا پھل ہے، اس کی وجہ سے بڑی سے بڑی مصیبت  ہوا ہو جاتی ہے اور اللہ تعالی کی جانب سے نجات کا راستہ مل جاتا ہے۔
فضیل رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر تم مخلوق سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لو اور مخلوق سے کچھ بھی نہ مانگو تو تمہارا مولا تمہاری ساری مرادیں پوری کر دے گا”۔
مسلم اقوام:مشکل کشائی اور پریشانیوں کے خاتمے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کو جس وقت نصرتِ الہی میں تاخیر ہوتی نظر آئے اور دعاؤں التجاؤں کے بعد مایوسی چھانے لگے ،قبولیت کے اثرات عیاں نہ ہو تو پھر اپنے آپ پر نظر ثانی کرے، اور سچی توبہ کرے، مخلص ہو کر اللہ تعالی سے رجوع کرے، بندہ اللہ کے سامنے اعتراف کرے کہ وہ نازل شدہ آزمائش کا حقدار ہے ، نیز یہ بھی اعتراف کرے کہ وہ مستجاب الدعوات تو نہیں البتہ رحمتِ الہی کا امیدوار ضرور ہے، اسے اللہ تعالی سے معافی چاہیے، تو اس وقت دعا کی قبولیت شروع ہو جاتی ہے، مشکلات کے بادل چھٹنے لگتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی اپنے سامنے عاجزی کرنے والوں کی ضروریات پوری فرماتا ہے، سلف صالحین نے اس اصولِ الہی کو ثابت قرار دیا ہے۔ امت کو اس عظیم منہج پر چلنے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے؟!
مسلمانو!ہر وقت اور ہر آن اس عظیم ذکر کی پابندی کرو؛ حاضر قلبی کے ساتھ زبان سے اسے پڑھو اور اپنی حالت سے اس ذکر کی تصدیق پیش کرو؛ کیونکہ اس کے فوائد اور فضائل بہت زیادہ ہیں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اس دھرتی پر کوئی بھی شخص :

لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَسُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، اللہ بہت بڑا، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔
کہے تو اس کے سارے کے سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔( اسے احمد نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا، جبکہ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے)
اسی طرح سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رات کے وقت  بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا:

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، الحمد للہ، سبحان اللہ،  اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اللہ اکبر، نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر نہیں ہے۔
پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اسکی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کر کے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی۔(بخاری)
یہ ذکر بندے کیلئے خیر و بھلائی اور بندے کے مال و متاع کے تحفظ کا باعث بھی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص گھر سے نکلتے ہوئے کہے:

بِسْمِ اللهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اللہ تعالی پر ہی بھروسہ رکھتا ہوں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔
تو اسے کہا جاتا ہے: تمہارے لیے اللہ کافی ہے ،تمہیں محفوظ کر دیا گیا ہے اور تمہاری رہنمائی کر دی گئی، نیز شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے۔(ابو داود، ترمذی)
اس لیے کہ سب کچھ اللہ کے سپرد کر کے ہر چیز اللہ تعالی کے حوالے کرنا اس ذکر کا تقاضا ہے، اور یہ کہ بندے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، تمام معاملات کی باگ ڈور اللہ تعالی کے ہاتھ میںہے، تمام مخلوقات کے امور اللہ تعالی کے فیصلوں اور تقدیر کے ساتھ منسلک ہیں، کوئی بھی اس  کے حکم پر نظر ثانی نہیں کر سکتا۔
اس لیے اے مسلم ! اپنے عقیدہ توحید کی وجہ سے مکمل طور پر بھروسہ رکھو، مطمئن رہو، پریشان مت ہو، اور یہ یقین رکھو کہ ایک دن ضرور آفتیں اور صعوبتیں ختم ہوں گی، پوری امت کو یہ نظریہ اچھی طرح ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کائنات میں موجود ہر چیز حکمِ الہی کے تابع ہے، اس جہان میں کوئی بھی چیز چاہے وہ کتنی ہی طاقتور ہو، اسے اپنی طاقت پر کتنا ہی گھمنڈ ہو! وہ پھر بھی اللہ تعالی کی قوت ، حکم، قضا اور قدر کے تابع ہے چنانچہ تمام طاقتور اللہ تعالی کے زیر تسلط ہیچ اور کمزور ہیں۔
اب تمہارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو عبادات میں مشغول رکھو، بھلائی کے کام کرو، دکھ ہو یا سکھ مختلف قسم کے اذکارِ الہی خوشی غمی ہر حالت میں کرتے رہو کیونکہ نبی کریم ﷺ  سے ثابت ہے کہ : جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالی تنگی ترشی میں اس کی دعائیں قبول کرے تو وہ خوشحالی میں بھی اللہ تعالی سے ڈھیروں دعائیں کیا کرے۔
پوری امت کو اس ذکر کی اشد ضرورت ہے، امت اس وقت انواع و اقسام کے دکھ اور درد برداشت کر رہی ہے، پوری امت کو چاہیے کہ اس عظیم ذکر کو پہچانیں اور سچائی و اخلاص کے ساتھ اس پر ایمان لائیں اس لیے مسلمانو! ہر وقت ” لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ” کا ورد اپنی زبان پر جاری رکھو، اس سے بھاری بھرکم تکلیفوں اور بحرانوں کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے، اس سے بندے کی عظمت و شان  میں اضافہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔”لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ” یا اللہ! ہمارے لیے تمام پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بنا اور تمام تنگیوں سے خلاصی نصیب فرما۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں صرف ایک اللہ کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
توحید پرست، حدودِ الہی کا محافظ ، اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کی اطاعت پر گامزن سچے اور مخلص مؤمن کو اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے، اسی معیت کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

بیشک اللہ تعالی متقی لوگوں کے اور اعلی درجے کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[النحل: 128]
جس کے ساتھ اللہ تعالی کی معیت اور نصرت ہو تو اس کے ساتھ ناقابل شکست قوت ہے، اس کے ساتھ ہمیشہ بیدار رہنے والا محافظ  اور کبھی راہ سے نہ بھٹکنے والا رہنما ہے، یہ قول قتادہ رحمہ اللہ سے منقول ہے۔
چنانچہ مدد و نصرت اللہ تعالی کی معیت کا تقاضاہے، حفاظت اور اعانت اللہ تعالی کی معیت کا لازم ہے، سنگین آفتوں، صعوبتوں اور مصیبتوں سے بچاؤ بھی معیت الہی کا ثمرہ ہے۔
امت اسلامیہ ! جو شخص اللہ تعالی کو یاد رکھے، حقوق اللہ کا خیال رکھے تو وہ اللہ تعالی کو ہر حالت میں اپنے سامنے پائے گا، جو شخص فراخی میں اللہ تعالی کو یاد رکھے تو اللہ تعالی تنگی میں اسے یاد رکھتا ہے اور اسے تنگی ترشی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
جو شخص اپنی خوشحالی کے دنوں میں تقوی الہی اپنائے اور اسی کی بندگی کرے تو اللہ تعالی سخت حالات میں اس کے ساتھ نرمی اور کرم والا معاملہ کرتا ہے۔
مسلمانو! امتِ اسلامیہ! رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ حدیث قدسی سنو فرمانِ باری تعالی ہے: میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قرب کیلئے کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اسکا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی اسے پناہ دونگا۔(بخاری)
امت اسلامیہ!ہمیں اس امر کی کتنی ہی زیادہ ضرورت ہے! کیونکہ ہمارے دشمن ہمارے خلاف مکاری اور عیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں، وہ ہمارے خطوں اور ملکوں  کے بارے میں منفی منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمیں دل و جان ، ظاہری و باطنی  طور پر،  صداقت اور عبادت کے ذریعے اللہ تعالی کے ساتھ ہونا چاہیے۔
۔۔۔

زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی وحدت کی گواہی دیتی ہے

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً  (البقرہ:۳۰)

’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے اور اسے زمین میں خلیفہ بنانے سے پہلے کسی موجود شدہ  نمونے کے بغیر زمین و آسمان کو پیدا فرمایا جو پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ زمین و آسمانوں کو اس لیے پہلے پیدا فرمایا تاکہ مکین سے پہلے مکان اور حاکم سے پہلے اسکی ریاست کی تخلیق اور تزئین کر دی جائے ۔

ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ (البقرہ:۲۹)

’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
استواء کا معنٰی آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔سورہ ھود آیت ۷ میں وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔{ وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآ ءِ}’’اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ پھر وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہوا۔ اس آیت کے آخر میں واضح فرمایا:اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر مستوی ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر اور لاتعلق ہو گیا ہے۔ کان کھول کر سنو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے اور انکے درمیان ہر کام کے بارے میں حکم صادر فرمانے والا ہے ۔

 إِنَّ اللہَ لَا یَخْفَی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ (آل عمران:۵)

’’یقینا اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں‘‘

 اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا  (الطلاق:۱۲)

’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائی ہیں وہ ان کے درمیان حکم صادر کرتاہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بڑی تفصیل کے ساتھ سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ عربی زبان میںـ” الارض ” کا لفظ واحداورجمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس مقام پر وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کیے اوران کی مثل سات زمینیں بنائیں۔ وہ ان کے درمیان اپنے احکام نازل کرتاہے تاکہ تم انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمام معاملات اس کے حضور پیش کیے جاتے ہیںوہی ان کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرح سات زمینیں بنائیں ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ سات زمینیں اوپر نیچے ہیں یا جس زمین پر ہم بستے ہیں یہ سات قطعات اور طبقات پر مشتمل ہے۔

وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (آل عمران:۱۰۹)

’’اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جائیں گے۔‘‘
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُونَ لَہُ أَنْدَادًا ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِینَ (حٰم السجدہ:۹)
’’اے نبی ان سے فرمائیں: کیا تم اُس ذات کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسربناتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، وہی پوری کائنات کا رب ہے۔‘‘
قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں اس کا کوئی شریک تھا ۔اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا ہے کہ کیاتم اس ذاتِ کبریاء کا انکار کرتے ہو؟ کہ جس نے زمین کو دودنوں میں پیدا فرمایا لیکن اس کے باوجود تم بتوں ،بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیداکرنے والا صرف ’’ اللہ ‘‘ ہے اور وہی عبادت کے لائق اور تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ سورۃ حٰم السجدۃ میں یہ بات قدرے تفصیل سے بیان فرمائی:

وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَائً لِلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (حم السجدہ: ۱۰تا ۱۲)

اُس نے زمین بنانے کے بعد اُس پر پہاڑ جما دیے، اس میں برکتیں رکھ دیں اور زمین میںسب طلب گاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے کے مطابق اُنکے خورد و نوش کا انتظام فرما دیا، یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔ تب اُس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا قانون جاری کر دیا، آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے خوبصورت بنا یا اور اسے محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست جاننے والی ہستی کا بنایا ہوا ہے ۔‘‘

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیہَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِینَ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (الحجر:19-21)

’’اور ہم نے زمین کو پھیلا یا ،ا س میں پہاڑ گاڑ دیئے اور ہم نے اس میںہر چیز مناسب مقدار میں اُگائی اور ہم نے اس میں تمہارے لیے کئی قسم کے اسباب پیدا کئے ہیں او ران کیلئے بھی جنہیں تم کھلانے پلانے والے نہیں ہو ۔ کوئی ایسی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے اپنی حکمت کے مطابق اُتارتے رہتے ہیں ۔‘‘
یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوںکا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور ہر چیز کو زمین میں مقررہ مقدار اور معیار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بھی بندو بست کیا، جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے یعنی چرند ،پرند، درند اور حشرات الارض وغیرہ۔
ان آیات میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز میں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔
پھول کی رنگت، اس کا بناؤ سنگھار اور اس کی مہک اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اب مجھے کسی کے گلے کا ہار یا کسی گلدستے کی زینت بننا چاہیے ۔ اسی طرح ایک پودا ، بیل اور بڑے سے بڑا درخت مقررہ معیار اور مدّت سے آگے نہیں بڑھتا ۔
جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مرد یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب اور متوازن رہ سکتا تھا۔ یہی صورتِ حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی اور چیز کی پیداوار وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ رسد و نقل کے ذریعے ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے رہیں اور ایک دوسرے سے تعلق قائم کریں۔ گویا کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں بچھایا اور پھیلایا گیا بلکہ اس میں ہر جاندار بالخصوص لوگوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤںمیں رہنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتاہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق اُسے پہنچائی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں مقررہ مقدار کے مطابق نکالتا اور نازل کرتا ہے۔
ایک صدی پہلے کسے پتہ تھا کہ زمین سے تیل، پٹرول اور گیسیں نکلیں گے اور اسی پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہو گا ، کیا معلوم! زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور انہیں کس کس دور کے لوگ نکالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ حمید میں زمین کے کئی اوصاف اور فائدے بیان فرمائے جن کا اختصار اس طرح ہے:۔

 وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا (نوح:۱۹)

’’اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایاہے ۔‘‘

 وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا (النٰزعٰت:۳۰ )

’’ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔‘‘

 أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِہَادًا  (النبا:۶)

’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایاہے۔‘‘

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتًا(المرسلات:۲۵)

’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ زندہ ، مردہ اور ہرچیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی ترجمان ہیں مثلاً:
٭  مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔
٭   زمین میں اپنانیت ہے اورہر جاندار اس پر قیام کرتاہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں ۔
٭    زمین میں ٹھہرائو اور برداشت ہے ۔
٭   زمین میں پانی ہے اور اس سے ہر جاندار کی حیات وابستہ ہے۔
زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدّتوں پڑے ہوئے بیج اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُگ آتے ہیں کیا قیامت کے دن خالق کے حکم سے دوبارہ مردے پیدا نہیں ہوسکتے ؟

وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ

’’اور ہم نے زمین کو بچھایا ہے اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات: 48)
جہاں تک اس فرمان کا عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہاہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیے جارہا ہے۔غور فرمائیں ! آج سے سوسال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیاکیا نعمتیں میسر ہوں گی ۔خوردونوش کی اشیاء کا اندازہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس مَن سے زیادہ نہ تھی اورآج درمیانے درجے کے کھیت سے فی ایکڑ پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے ۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کاحال ہے کہ ان کی پیدوار اور مقدار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی حساب سے ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔

فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ (المؤمنون:14)

’’بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔‘‘

فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَی طَعَامِہِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَائَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَعِنَبًا وَ قَضْبًا وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًاوَفَاکِہَۃً وَأَبًّا مَتَاعًا لَکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ (عبس:24تا 32)

’’ انسان اپنی خوراک پر غور کرے۔ ہم نے خوب پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا پھر اس سے اناج اُگائے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور باغات اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے اور تمہارے مویشیوںکے فائدے کے لیے پیدا کیے۔‘‘
اس مقام پر انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتاہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقینا ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا ،پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گھنے، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ ہیں جو تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہیں۔
انسان کو اس کی خور اک اورچوپاؤں کے چارے کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اورغور کرو!کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو کون اُگاتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اُگانے والا نہیں ہے۔وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کر سکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نَم پیدا ہوتا ہے اوراس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑتا ہے اورہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے۔ ان میں انگور ، سبزیاں ،زیتون ، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں۔ کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے اور دیگر ضروریات کے کام آتے ہیں۔
’’اور زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف قطعات ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں۔بہت سے تنوں والے اور ایک تنے والے بھی۔ جنہیں ایک ہی پانی سے سیرا ب کیا جاتا ہے او ر ہم پھلوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں ۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیا ں ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘‘ (الرعد:۴)
اگر انسان ان نعمتوں اور نباتاتی نظام پر غور کرے تو نہ اپنے رب کی نافرمانی کرے اور نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔

قُلْ أَغَیْرَ اللہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ  (الانعام:14)

’’پوچھیں کیا میں اللہ کے سواجو آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والا ہے کسی اور کو اپنامددگار بنائوں ؟ وہ سب کو کھلاتا ہے اور اسے کھلایانہیں جاتا،فرما دیں کہ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے رب کی فرماں برداری کروں اورآپ شرک کرنے والوں سے ہرگز نہیں ہیں۔‘‘
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں اسی طرح ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے پھولوں کے بھی جوڑے بنائے ۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجو د کوئی میٹھا ہے ، کوئی کڑوا ، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور دوسرا اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور لذّت دار ہے۔ پہلے وقتوں میں انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جاندار کی طرح پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ اب جدید نباتات کا علم بتاتا ہے کہ ہر پودے میں نر اور مادہ ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا پائے جاتے ہیں ۔
اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants)میں نسل خیزی کی آخری پیداوار اُن کے پھل (Fruits)ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول نکلتاہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs)یعنی اسٹیمنز(Stamens)اور اوویولز(Ovules)ہوتے ہیں۔ جب کوئی زردانہ (Pollen) پھول تک پہنچتا ہے ، تو وہ ’’بار آور‘‘ ہو کر پھل کی صورت اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ پک جاتا ہے تو اس کے بیج اس کی افزائش کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام پھل اس حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ پودوں میں بھی نر اور مادہ کے اجزاء ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے ۔

وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی  [طٰہٰ:۵۳]

’’اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار جوڑا جوڑا نکالی ۔ ‘‘
’’اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔ ‘‘ [ الرعد: ۳]
’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود انسان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو وہ نہیں جانتے ۔ ‘‘ [یٰس:۳۶]
’’ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق سیکھو۔ ‘‘ [الذاریات: ۴۹]
ان آیاتِ مبارکہ میں ’’ہر چیز ‘‘ کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے ، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انسان انہیں دریافت کر لے ۔  پودوں اور پھلوں کے بارے میں غور فرمائیں مثال کے طور پر ہم کھجور کو دیکھیں کس طرح نر اور مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بے شمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں ۔
یوں تو تمام پودے اور پھل خالقِ ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن جن پودوں کا تذکرہ ذاتِ الٰہی نے اپنے کلام میں کیا ہے ، اس سے ان کا نام ابد الآباد تک محفوظ ہو گیا اور کلامِ الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن چکا ہے۔ قرآن مجید نے اس کے تین نام لیے ہیں :
انگلش میں :  Date  اردو ، پنجابی اور ہندی میں: کھجور
فارسی میں: خرما
قرآن مجید میں انگور ، انجیر ، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے، وہ کھجور ہے۔ نخل، النخیل اور نخلۃ کے ناموں کا ذکر قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے ۔یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلیوں کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے ہوا ہے ۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس دفعہ آیا ہے ۔ زرعی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ قارئین اور سامعین کی دلچسپی کے لئے کھجور کے بارے میں چند مزید معلومات پیش خدمت ہیں۔
عربوں میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فائدے ہیں۔کھجور کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں وٹامن اے ، وٹامن بی ، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ سوڈیم، کیلشیم ، سلفر ، کلورین ، فاسفورس اور آئرن ، سے بھرپور نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔اس کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی بشرطیکہ کھانے والے کو کوئی شوگر وغیرہ نہ ہو ۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔
کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۹۸۲ء؁ میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا ۵۶ فیصد حصہ عراق ، سعودی عرب ، مصر اور ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف عراق میں ۴۴۵ اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، اب تک کھجور کے حوالے سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ  قرآن مجید میں کھجور کا کئی بار ذکر ہوا ہے عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان زمین اور ان پودوں پر غور کرے، اپنے رب پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ ٹھہرائے۔
کھجور کے ذکر سے پہلے زمین کی خصوصیت اور اس کے فوائد کی بات ہو رہی تھی ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

 لِتَسْلُکُوا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا  (نوح:۲۰)

’’ تاکہ تم زمین کے کشادہ راستوں پر چلو۔‘‘

ہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِنْ رِزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُورُ (الملک:۱۵)

’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم رکھا ہے تاکہ اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ،اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھائو اوریاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ’’لِتَسْلُکُوْا‘‘  اور ’’ذَلُوْلًا‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’’لِتَسْلُکُوا‘‘  کا معنیٰ چلنا اور’’ذلولاً ‘‘  کا معنٰی نرم ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اورپہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے۔ یہاں تک کہ سمندر میں بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جیسا کہ سعودیہ اور بحرین کے درمیان سمندرپر ایک پُل بنایا گیا ہے۔ جس سے مختلف ممالک کی اشیاء اور اناج بآسانی دوسرے ملکوں میں پہنچ رہا ہے۔ اس سے لوگوں کے وسائل اور رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے۔ نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکتے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کر پاتی۔
۔۔۔

فكري الحاد قدیم سےحاضر تک

دین اسلام اور اس کے ماننے والے ہر دور میں دشمنان اسلام کی سازشوں کا ھدف بنتے رہے اور اس کا آغاز مشرکین مکہ سے ہوا اور پھر سیرت طیبہ میں  یہود نے مکر و فریب و دجل کاریوں کی انتہا کر دی تھی  جب انہوں نے ایک طرف تو مشرکین مکہ کو استعمال کیا تو دوسری جانب مدینہ کے منافقین کو اپنے مذمومانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا اور ارد گرد کے  مشرک قبائل کو بھی دشمنی پر ابھارتے رہے غزوہ احزاب اس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔لیکن ’

’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا‘‘ اور ’’اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ ‘

‘ کے نتیجے میں یہ سب بدترین شکست سے دو چار ہوئے یہاں تک کہ یہود کے ناپاک وجود سے پہلے مدینہ منورہ کو پاک کیا گیا پھر خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں جزیرہ عرب کو بھی ان کے خبیث وجود سے پاک کر دیا گیا ۔ سورہ روم کے عملی انطباق کے اولین مظہر کبیر معرکہ قادسیہ میں فتح کے بعد مغلوبین بھی یہود کے ساتھ ہو گئے۔اور عیسائی بھی اس دشمنی کو نبھانے میں ان دونوں سے پیچھے نہ رہے ۔ اس  مثلث مذموم نے پچھلے چودہ سو سال سے اسلام اور عالم اسلام کو زک پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ جہاں جہاں موقع ملا درندگی اور سفاکیت کے مظاہر دکھاتے رہے ۔
اس مثلث کی ہمہ جہتی یلغار نے عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچایا کہیں داخل سے تو کہیں خارج سے لیکن عالم اسلام کی مضبوط عمارت میں اس وقت ایک دراڑ پڑنا شروع ہوئی جب عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور اور پھر اس کا جانشین  مامون العباسی نے یونانی فلاسفہ کی لایعنی اور فضول مباحث پر مبنی کتب کا عربی میں ترجمہ کروانا شروع کیا بظاہر یہ ایک علمی تحریک تھی لیکن پس پردہ جو عناصر متحرک تھے انہوں نے عالم اسلام کی بنیادوں کو مسمار کرنے کی نیت سے فکری یلغار شروع کروائی جس میں علم کلام، علم منطق ، علم فلسفہ، یعنی کیا کیوں اور کیسے کی لایعنی بحث  نے تقویت پکڑی وہاں مسلمان عمل کی طاقت سے محروم ہوتے گئے جبکہ معروف ہے کہ اسلام علم و عمل کا حسین امتزاج ہے اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں قلم یا تلوار کی جگہ تسبیح ، گھوڑے کی ننگی پیٹھ کی جگہ مصلے، دعاؤں کی جگہ خود ساختہ اوراد اور وظائف ، صلوات خمسہ کے مقابل خود ساختہ نمازیںوغیرہ وغیرہ ہر عبادت کا متبادل تلاش کر لیا گیا یہاں تک کہ اب اصل عبادت بغیر روح کے ایک جسم رہ گئی یعنی صرف رسم اور اس کی جگہ  فرضی اور خودساختہ پوجا پاٹ کے مظاہر باقی رہ گئے ۔
اس میں بھی سب سے خطرناک پہلو وہ تھا جو عقائد پر حملہ کی صورت کیا گیا ایمانیات ثلاثہ کو ایک ایک کر کے شکوک و شبہات کا شکار کر دیا گیا ذات باری تعالی کے حوالے سے یونانی فلسفہ اور علم کلام و منطق کے تحت وہ وہ مسائل گھڑے گئے الحفیظ و الامان کہیں اللہ کے سائے پر بات تو کہیں اس کی مثل پر تو کہیں کچھ الغرض ان فکری مباحث کے بعد  بقول شاعر!
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتانہیں
اللہ کا قرب بذریعہ عبادت، دعا و اذکار مسنونہ کے بجائے صوفیانہ مجہول شعارات ، وظائف، چلوں کے ذریعے فنا فی اللہ کا باطل عقیدہ اختیار کر لیا گیا ، انہیں رب ہر چیز میں نظر آنے لگا ۔ رسالت کا وجود مزکی توہین کی زد میں لایا گیا پہلےﷺکے وجود مبارک کو حاضر ناظر  کی بحث کی زد میں لایا گیا ، پھر نور و بشر کی بحث شروع کی گئی جس کا کریہہ ترین مظہر اب یہاں تک آ پہنچا ہے کہ نعوذ باللہ استغفراللہ من ذلک کہ رسول اللہ ﷺکی سالگرہ پر کیک ہی نہیں کاٹے جا رہے بلکہ Happy Birth Day To You Ya Rasool Ullah جیسے واہیات اور مشرکانہ گیت بھی گائے جانے لگے۔اطاعت و اتباع کی جگہ اندھی تقلید اور  رسالت  سے محبت کی جگہ عشق رسول نے لے لی۔ اسوۃ حسنہ کے جامع و مفہوم کامل کو محدود کر دیا گیا ہر فرقہ اپنی ہی لگائی ہوئی ایجاد کردہ عینک سے رسالت کے آفاقی وجود کو زمانی و مکانی قیود کا پابند کر دیا۔کلمہ طیبہ کے دو جزء اور دونوں اجزاء اس فکری الحاد کی بھینٹ چڑھا دیے گئے ۔
اس الحاد کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان قوت عمل سے محروم ہو گیا جس کے نتیجے میں ہر مسئلے کا حل خود ساختہ اور وضعی چلے اور وظائف میں تلاش کرنے لگ گیا اولاد چاہیے تو فلاں آیت اتنی مرتبہ فلاں کیفیت میں پڑھو، مال و دولت چاہیے تو فلاں آیت اس تعداد اور فلاں وقت میں پڑھو، قرآن کتاب ہدایت تھی اسے کتاب وظائف بنا لیا گیا، قرآن کتاب تلاوت تھی تو اسے کتاب مقدس بناکر  غلاف میں لپیٹ کر گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا گیا اور جب بیٹی یا بہن کی رخصتی ہو تو اس کے سائے میں رخصتی کروا دی جائے ۔
جبکہ قرآن مجید کا آغاز ہی اس امر سے ہوا تھا کہ یہ کتاب ہدایت ہے لیکن اس کتاب سے استفادہ کی کچھ شرائط ہیں جو لازمی اختیار کی جائیں ورنہ ماحصل صفر ہو گا لیکن وہی کچھ کیا گیا جو کچھ اسوہ حسنہ کے ساتھ کیا گیا تھا اسوہ حسنہ کی بنیاد میں

’’لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا‘‘

جیسی تین خوبصورت بنیادوں تھی لیکن اسوۃ حسنہ کو بھی ان تین بنیادوں سے الگ کر کے پیش کیا گیا نتیجہ اس ادھورے اور ناقص تصور نے رسالت کے خوبصورت وجود  کے مکمل خدو خال کو بھی سامنے نہیں آنا دیا گیا۔
یہ سب فکری الحاد کے نتیجے میں رونما ہو ااس فکری الحاد کا آغاز عباسی خلفاء کے زمانے سے ہوا جس میں غیر عرب عناصر کا تسلط و غلبہ تھا  پہلے مجوس پھر اتراک پھر آل بویہہ اور جب سلاجقہ کا دور آیا تو اس دور تک وقت اپنی اتنی چالیں چل چکا تھا کہ اس کا مداوا مکمل طور پر ناممکن سا ہو گیا تھا لیکن پھر ایک خوبصورت ماں کا بے مثال پوتا جسے دنیا شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے ممتاز شاگردوں کی ایک بے نظیر جماعت نے ان ملحدین کے سامنے  بند باندھا اور ہمہ جہتی یلغار کے ساتھ قلم و سیف کے ساتھ جہادکیا اور امت اسلامیہ اپنے اس محسن کی قیامت تک مقروض ہی رہے گی بالکل ایسے ہی جیسے اپنے وقت میں سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے فتنہ وضع حدیث کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر دی جسے یہ ملحدین تمام تر مذموم کوششوں کے باوجود نے ڈھا سکے اور نہ ہی اس کا کچھ بگاڑ سکیں گے ۔ بفضلہ تعالی امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے روحانی فرزند ان کے مشن کو بھرپور قوت اور طاقت کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں خواہ ان کی تعداد کم سے کم تر ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ ’

’ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ‘‘

اور بندے کے بچے تو ویسے بھی کم ہی ہوا کرتے ہیں ۔
اس وقت اس الحاد نے ممکنہ جتنی اشکال اختیار کی ہوئی ہیں شاید ہی ازمنہ سابقہ میں اختیار کی ہوں اس کی ایک جہت ذات باری تعالی، تو دوسری جہت رسالت کا وجود مزکی، تیسری جہت قرآن مجید، چوتھی جہت حدیث و سنت ، پانچویں جہت امام بخاری رحمہ اللہ جو اہل حق اور دفاع حدیث ، حجیت حدیث کے حوالے سے ایک مثالی تعبیر بن چکے ہیں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ دیگر محدثین نے بھی تو احادیث کے مجموعات تیار کیے صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین اور پھر تابعین عظام رحمہم اللہ اور آئمہ کرام رحمہم اللہ کا ایک طویل سنہری سلسلہ ہے آخر صحیح بخاری کو یہ مقام کیوں حاصل ہوا ؟ میں ایک طالب علم ہوں صرف دو باتیں جانتا ہوں ایک مثالی ماں رحمہا اللہ کی گود، اور دوسرا دو رکعت نماز۔ جی ہاں دو رکعت نماز دنیا و مافیھا سے بہتر ہوا کرتی ہے اور ایسا ہی ہوا امام بخاری رحمہ اللہ نے فتنہ وضع حدیث کا مقابلہ اس دو رکعت نماز کے ذریعے ہی کیا تھا جب کوئی حدیث درج کرنی ہوتی تو دو رکعت نماز ادا کرتے اور اس طرح مشیت الہی بھی شامل ہو جاتی تھی اور پھر یہ مشیت الہی ایسی شامل ہوئی کہ کتاب اور صاحب کتاب دونوں ہی حیات جاوید کے حامل بن گئے یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملحدین کی اتنی جرات تو ہوتی نہیں کہ حدیث پر طعن زنی کریں لیکن اپنے خبث باطن کا ثبوت اس طرح دیتے ہیں کہ حدیث پر طعن امام بخاری رحمہ اللہ کی ذات پر طعن کر کے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جس میں سوشل میڈیا میں متحرک فکر غامدی کے ایک پرچار کنندہ جو اپنے تئیں مفکر اسلام بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ان جیسے بے شمار بے نام جو ’’ابتر‘‘ ہی رہیں گے۔
لیکن اس الحاد نے سب سے خطرناک رخ اس وقت اختیار کیا جب آزادی اظہار رائے کی آڑ میں سوشل میڈیا پر کچھ خبیث افراد نے رسول اللہﷺ کی ذات مبارکہ کو کھلم کھلا دشنام طرازی اور سب و شتم کا نشانہ بنا لیا اور یہ سب کچھ الحادی فکر سے آلودہ ان افراد نے کیا جن کے تانے بانے آج بھی بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ سے جا ملتے ہیں ، کعب بن اشرف ملعون کی روحانی ذریت نے اپنے ملعونین اب و جد کو اس مذموم مہم میں پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔گو کہ ان ملعونین کا کیس عدالت میں چل رہا ہے لہذا اس موضوع پر لب کشائی مناسب نہیں لیکن اس حوالے سے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حرمت رسالت پر مفاہمت کسی بھی مسلمان کے ایمان کا حصہ نہیں اورنہ ہی ہو سکتی ہے اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو دیکھا جائے تو جس طرح ان ملحدین پر قانونی گرفت کی جانی چاہیے تھی نہیں کی گئی جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں شدید تکلیف و اذیت میں ہیں ۔بزبان خلق اس وقت پاکستان کے آئین پر عمل کی ضرورت ہے گوکہ سفراء کی کانفرنس ایک اچھی کاوش ہے لیکن صرف اسی پر انحصار کر کے بیٹھ جانا قطعا مناسب نہیں ہے۔
لیکن اس الحادی فکر کے کھل کر سامنے آنے سے ایک فائدہ ضرور ہوا کہ’’ کچھ لوگ پہچانے گئے‘‘ لہذا  دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ  میں صف بندی ہوتی جا رہی ہے ’’ایک طرف دیندار‘‘ اور ’’دوسری طرف دکاندار‘‘ اور حیران کن امر تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کی معروف سیاسی جماعتیں توہین رسالت کے حوالے سے  سب ایک موقف پر ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیران کن رد عمل تو ان دینی جماعتوں سے ہے جو باقاعدہ سیاسی عمل میں بھرپور شریک ہیں ان کی شراکت اس مہم میں نہ ہونے کے برابر ہے چند ایک سیاسی بیانات اور پریس کانفرنسز اوربس ابھی اگر انہی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف کوئی کچھ کہہ دے تو کارکنان ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جائیں گے اور وہ کچھ بپا کیا جائے کہ الحفیظ والامان
پچھلے چند دنوں سے ایک ہی بات بار بار دل و دماغ میں گونج رہی ہے کہ کیا ان لوگوںنے مرنا نہیں ہے ؟ کس منہ سے سامنا کریں گے ؟ اور شفاعت کے طلبگار کس طرح ہوں گے ؟ کیا مرتکبین توہین رسالت کے سہولت کار رسول اللہ ﷺکی طرف نسبت کرنے کے حق دار رہے ہیں ؟ سیٹیں ، عہدے ، مناصب ، مال ، دولت ، واہ واہ ، جی حضوری، خدارا کوئی ان لوگوں کے کانوں تک یہ بات پہنچائے
سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
تو زاد راہ اس وقت ایک ہی ہو گی اور توحید کی بنیاد پر رسالت کا ساتھ، جب رسالت ہی نہ رہی تو توحید بھی نامکمل اور ادھوری بلکہ منہ پر دے ماری جائے گی، کوئی تو ان قد آور قائدین تک یہ آواز پہنچائے۔
کہ رسول اللہ ﷺکا وجود مزکی تو وہ مبارک وجود ہے جس کا احترام رب کائنات نے بھی کیا پورے قرآن میں کہیں محبوب کائنات کو ’’ یا محمد‘‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ کتنے پیار سے احترام سے پکارا

’’یا ایھا الرسول، یا ایھا النبی، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر‘‘ الخ

رسول کائناتﷺ کو ان کے منصب سے پکارنا ان کی تعظیم و احترام ہی تو ہے، ہمیں پھر بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اللہ نے یہ خبر ضرور دی کہ ساری عزت اللہ کی ہےمگر تعظیم کا حکم اپنے لیے نہیں بلکہ انبیاء کی بابت بیان کیا، فرمایا،

وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ

میرے رسولوں پر ایمان لاو اور ان کی تعظیم کرو،

لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ،

تاکہ اے لوگوتم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاو اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو، پھر حبیب کائنات کے لیے خصوصی ارشاد فرمایا:

فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ،

جو ان پر ایمان لائیں اور تعظیم کریں اورا سے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اترا وہی بامراد ہوئے۔
کوئی تو انہیں بتائے کہ دین و دنیا دونوں ان کے ہاتھ سے جا رہے ہیں اگر توہین رسالت کے مجرمین کو ابھی بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا اور ایسے تمام عناصر جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ کوئی انہیں بتائے کہ فتنہ قتل سے بڑا ہوتا ہے اور توہین رسالت کے مجرمین فتنہ پرور ہیں یہ بنو قیقناع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے روحانی جانشین ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہیے جو خود رسول اللہ ﷺنے ان تین قبائل کے ساتھ کیا تھا۔
ہے کوئی ان قائدین کو بتانے والے
پھر ایک بات ذہن میں آتی ہے : ردۃ ولا ابا بکر لھا
کہ ارتداد ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں ، الحاد ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں، دین کا استھزاء ہے لیکن کوئی ابو بکر نہیں ۔
اس الحاد کا مقابلہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ہمیں کتاب اللہ کے ساتھ علمی و عملی اعتبار سے جڑنا ہو گا یہ واضح رہے کہ عالم الحاد یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان کے دل سے رسول اللہ ﷺکی محبت نہیں نکال سکتے لیکن پھر بھی وہ ان مذمومانہ حرکات کو جاری رکھے ہوئے ہیں وہ ہمیں اشتعال میں لا کر ہمیں دین اسلام سے علمی اور عملی طور پر دور کرنا چاہتے ہیں ہم ان کی ان چالوں کو اسی صورت میں ناکام بنا سکتے ہیں جبکہ علم نافع حاصل کریں اور عمل صالح کے ذریعے اس علم نافع کو محفوظ کریں ۔
وگرنہ داستاں نہ ہو گی داستانوں میں

فتاوی! آپ کے مسائل کا حل قرآن وسنت سے

کتبہ:عبد الرحمن شاکربلوچ(متعلم جامعہ ہذا)
صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)
سوال :لےپالک بیٹے کی ولدیت تبدیل کرنے کے بارے میں شرعی حکم ؟
جواب:کسی بھی یتیم یا لاوارث کو پالناثواب ہے لیکن اس کی شناخت ختم کرنااور اسے اپنی طرف منسوب کرنا ناجائز اور حرام ہے اللہ تعالی نے ہر انسان کو ایک شناخت عطا کی ہے اس کی شناخت ختم کرنا اس کے ساتھ ظلم ہے اسی طرح جس کو بھی اللہ تعالی نے اولادعطا فرمائی ہے یہ اس کیلئے نعمت ہے اور کسی بھی بیٹے کا (اپنے باپ کی طرف نسبت )اپنے با پ کے علاو ہ کسی اور کی طرف ا پنی نسبت کرنا یہ اللہ تعالی کی نعمت کی نا شکری ہے ۔زمانہ جاہلیت سے یہ رسم چلی آرہی ہےکہ لوگ لے پالک بیٹے کو اپنی طرف منسوب کرتے تھے اسی طرح آغازاسلام میں بھی یہ حکم تھا کہ جس طرح سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کہا جاتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اس نسبت کو ختم کردیا اور یہ حکم نازل فرمایا:
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَاۗىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(الاحزاب 5)
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا عدل وانصاف یہی ہے۔
یعنی سب سےبڑاعدل یہ کہ کسی کی شناخت کوختم نہ کیاجائے اور کسی اور کی نسبت سےنہ پکارا جائے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انکے حقیقی باپ اگر معلوم نہ ہو توپھر انکو کس کی نسبت سے پکارا جائے اس آیت کے فورابعد اللہ تعالی نے اس مشکل کو بھی حل کردیا اور فرمایا

 فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيْكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا   (الأحزاب:5)

پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد نہیں بلکہ زید بن حارثہ کے نام سے پکارا جاتاتھا اسکے بعد نبی اکرم ﷺ نے بھی سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کو بیٹا کہہ کر نہیں پکارا بلکہ آپﷺ نے فرمایا
أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا(بخاری ،کتاب المغازی باب عمرۃالقضاء4251)
’’ آپ ہمارے بھائی اور دوست ہیں ‘‘۔
اور جوشخص غلط انتساب کرتا ہے تووہ سخت گنہگارہے اللہ کے نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے

وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا،

وَلَا عَدْلً(مسلم کتاب الحج باب تحريم تولي العتيق غير مواليه)
’’جس شخص نے اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی یاغلام نے اپنے مولی کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کی اس پر اللہ تعالی فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور قیامت کے دن اس کی نہ نفلی عبادات قبول ہوگی نہ فرضی ۔
اسی طرح سیدناسعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا
مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ (بخاری کتاب الفرائض باب من ادعیٰ الی غیر ا بیہ حدیث6766)
جس نے اپنے آپ کو اپنے سگے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کیا اوروہ جانتا بھی ہے کہ وہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ كُفْرٌ(بخاری 6768کتاب الفرائض)

’’اپنے والدین کو چھوڑ کر اوروںکی طرف نسبت نہ کرو جس نے ایسا کیا تو اس نے کفر کیا‘‘ ۔
یعنی اللہ تعالی نے جو نسب آپ کو دیا اس سے راضی نہ ہونا کفران نعمت میں آجاتا ہے ۔ سیدناابو ذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا

لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا ليْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(مسلم کتاب الایمان

باب بیان حال ایمان من قال لأخیہ المسلم یا کافر 61)
جوشخص جانتے ہوئے بھی اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف نسبت کی اس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور جس نے کسی ایسی قوم میں ہونے کا دعویٰ کیا جس قوم میں اس کانسب نہیں تووہ اپنا ٹھکانا جہنمبنالے ۔
ایک اور مسئلہ ہے جس کے باپ معلوم نہ ہو تو اسکو دوست یا بھائی کہہ کر پکارا جائے گا لیکن انکے کاغذات میں کیا لکھا جائے گا اسکے لیے (ابن ابیہ) لکھا جاسکتا ہے کیونکہ سلف سے کتب تاریخ ادب میں زیادہ ترابن ابیہ لکھا ہوا ملتا ہے۔مذکورہ احادیث

مطہرہ میں شدید

رسول اللہ ﷺ کے نزدیک پسندیدہ انسان

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَيَّ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا
تخریج : صحيح البخاري ، كتاب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، باب مناقب عبد الله بن مسعود رضي الله عنه ، رقم الحديث : 3759

راوی کا تعارف : حدیث نمبر 10کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں ۔
كمعانی الکلمات:
إِنَّ
بے شک
Indeed
مِنْ
سے
From
أَحَبِّكُمْ
تم میں سے زیادہ محبوب
The most beloved among you
إِلَيَّ
میری طرف
To me
أَحْسَنَكُمْ
تم میں سے زیادہ اچھا
The best of you
أَخْلاَقًا
اخلاق
Moral values/Manners
ترجمہ :
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے مجھے زیادہ محبوب وہ(شخص) ہے جس کا اخلاق تم میں زیادہ اچھا ہے۔
تشریح :
نبی کریم ﷺ خود اعلیٰ ترین اخلاق کے حامل تھے اور آپ ﷺ کو وہی لوگ اچھے لگتے تھے ، انہی سے محبت کرتے تھے جو خلق حسن رکھتے تھے ، متعدد احادیث کی روشنی میں بہت بڑےزاہد،عابد بھی اگر بد اخلاق ہوں تو کامیاب نہیں ہوسکتے۔
زبان سے کسی کی دل آزاری ، غیبت،چغلی،جھوٹ، جھوٹی گواہی،گالی گلوچ ، آنکھوں کا غلط استعمال اوربازو کی طاقت، ہاتھ کا قلم غلط استعمال نہ ہو ، باہمی معاملات میں دیانتداری اور امانتداری رہے یہی قیام امن کے راہنما اصول اور ترقی وسربلندی کے لیے نسخۂ کیمیا ہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

فیوض القرآن

قرآن مجید اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کے ذریعے خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جس کی امتیازی خاصیات میں سے اس کا شکوک و شبہات سے بالاتر ہونا اور اس کی حفاظت کاذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔قرآن مجید کی اصل ہدایت ہے اور یہ ہدایت قرآن مجید میں مختلف اسالیب اور پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔ ہدایت کے اس بنیادی مصدرکو ہر دور میں علمائے کرام کی جہود میں مرکزیت حاصل رہی گوکہ توضیحات و تشریحات کے ان سلاسل میں مختلف مناھج کو اختیار کیا گیا کہیں ادبی پہلو کو مدنظر رکھا گیا تو کہیں فقہی پہلو تو کہیں عقلی  پہلو الغرض تاریخ عالم میں شاید ہی کوئی اور کتاب اہمیت کے اعتبار سے اس درجہ تک پہنچی کہ بے شمار اور ان گنت زبانوں میں تراجم، تفاسیر، علمی پہلووں کا احاطہ،  مختلف ادوار میں اس ہدایت کے انطباقی پہلو وں کی وضاحت، عقائد، فقہی مسائل و عصری مسائل میں اس کی طرف استنادان تمام علمی جہود کا احاطہ درحقیقت ناممکن ہے یہاں تک کہ صرف اردو زبان میں قرآن اور علوم قرآن پر جو کام ہوا اس کا مکمل احاطہ ناممکن ہے ۔
تفسیر قرآن پر جو کام ہوا وہ بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
اول:کلام اللہ کی تفسیر منقولات صحیحہ (قرآن مجید، فرامین رسالت، اقوال صحابہ) کی روشنی میں
دوم:کلام اللہ کی تفسیر معقولات (عقل ، لغت) کی روشنی میں
سوم:کلام اللہ کی تفسیر منقولات و معقولات کی روشنی میں
مذکورہ بالا تینوں اسالیب کے مابین اختلاف و تضاد کے موقع پر اسلوب اول کو فیصل کی حیثیت حاصل ہے اور افضلیت تو بلا شک و شبہ اسلوب اول کو ہی حاصل ہے لیکن باقی دونوں طریقے بھی فہم قرآن میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں ۔لیکن اسلوب اول کی بنیاد پر کی گئی تفسیر کو عصری تقاضوں کے مطابق  بیان کرنا یہ امر سب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ محض قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنا کے ذریعے عام طبقہ اسے تقدس کا مقام تو دینا ہے لیکن عمل کیسے کیا جائے یہ ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اس کی وضاحت اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ بالا تینوں اسالیب کو موجودہ مثالوں کے ذریعے بیان کیا جائےتاکہ فہم قرآن ، عمل بالقرآن آسان سے آسان تر ہوتا جائے۔
فہم قرآن علمی پہلو ہے تو اعمال صالحہ عملی پہلو ہے اور یہی دونوں پہلو قرآن پر عمل کے حوالے سے مفید ہیں اور اس
کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ سورہ البقرہ کی
ابتدائی آیات پر عمل کیسے کیا جائے
سب سے پہلی آیت ’’الم ‘‘ پر عمل اس اعتبار سے کیا جائے گا کہ ہمار ا اس امر پر ایمان ہو کہ ان کلمات کے حقیقی  معانی اللہ تعالی جانتے ہیں ۔
’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ پر عمل اس اعتبار سے کیا جائے گا کہ یہ یقین کامل ہو کہ اس کتاب میں جو  کچھ موجود ہے اس میں کسی بھی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں یعنی قرآن مجید کے بارے میں عقیدہ درست بنیادوں پر تعمیر کیا جائے ۔
’’ھدی للمتقین‘‘ اس کتاب سے استفادہ کرنے کے لیے کچھ باتیں اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گی وگرنہ اس سے استفادہ صرف قولی ہی ہوگا اور جن صفات کے حاملین اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
اب ان تینوں آیات پر عمل عقیدہ کی بنیاد پر ہے لیکن اس کے بعد آیات پر عمل فعل کے ذریعے کیا جائے گا  جس کی وضاحت ان شاء اللہ باقاعدہ تفسیر ی حواشی کے موقع پر کی جائے گی ۔
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم کون سا ترجمہ پڑھیں اور کون سی تفسیر پڑھیں ؟
اردو زبان میں قرآن مجید کے بے شمار تراجم موجودہیں اور ہر ترجمہ کی اپنی خوبیاں و خصائص ہیں علی الاطلاق کسی بھی ترجمہ کو سب سے بہترین ترجمہ کہنا اور کسی ترجمہ کو مکمل طور پر رد کرنا یہ ایک نامناسب رویہ ہے ۔بنیادی طور پر تراجم قرآن کو اگر ترجمانی قرآن کہا جائے تو زیادہ انسب ہے  کہ حقیقی مفہوم کو کسی اور زبان میں نقل کرنا ناممکن عمل ہے البتہ ترجمانی کی جا سکتی ہے اور اسی ترجمانی کو اصطلاحا ترجمہ کہا جاتا ہے لہذا ہم بھی اسی متداول اصطلاح کو ہی استعمال کریں گے ۔قرآن مجید کے تراجم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
اول:لفظی ترجمہ
دوم:سلیس اور رواں دواں ترجمہ
ہر دو اقسام پر مختلف تراجم موجود ہیں اور حسب صحت و ذوق ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے راقم کے خیال میں اردو زبان کے قاری کے لیے درج ذیل تراجم پر اکتفا کرنا بہترہوگا۔
لفظی ترجمہ کے لیے چار تراجم قابل ذکر ہیں
11)حافظ صلاح الدین یوسف اور حافظ عبدالجبار سلفی مطبوعہ دار السلام
22)حافظ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ
33)ڈاکٹر فرحت ہاشمی مطبوع الھدی انٹرنیشنل
44)مصباح القرآن پروفیسر عبدالرحمن طاہر
سلیس اور رواں دواں اور آسان فہم انداز میں جو تراجم کیے گئے ہیں ان میں سے درج ذیل اہم ہیں :
11)موضح القرآن شاہ عبدالقادر دہلوی رحمہ اللہ
22)ترجمہ قرآن حافظ صلاح الدین یوسف
33)ترجمہ قرآن محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ
44)ترجمہ قرآن سید مودودی
55)ترجمہ قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد
اول الذکر ترجمہ اردو زبان میں اس  اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اختصار و جامعیت کے ساتھ ممکنہ مفہوم کا نقل کیا جانا اور اس وقت جب اردو زبان ارتقائی مراحل سے گزر رہی تھی اس کے باوجود ترجمہ میں فصاحت وبلاغت کا اس حد تک خیال رکھنا یہ واضح رہے کہ شاہ عبد القادرکا یہ ترجمہ لفظی نہیں ہے بلکہ اردو کے روز مرہ اور محاورے لیے ہوئے ایک وضاحتی انداز رکھتا ہے اسے اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ بھی سمجھا جاتا ہے۔اس ترجمے نے نہ صرف قرآن کا فہم آسان کیا ہے بلکہ ساتھ ساتھ اردو ادب کو بھی ایک بڑا خزانہ دیا ہے۔
اور اس کے بالمقابل آخر الذکر ترجمہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ نے جتنی باریک بینی سے ترجمہ کیا اردو میں اس کی مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ واحد ترجمہ ہے جس میں ضمائر ، اور اقسام معرفہ تک کو مدنظر رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے ترجمہ قرآن میں سب سے مشکل مقامات ضمائر اور اقسام معرفہ کی ترجمانی ہے ۔
لیکن اس امر کا اگر خیال رکھا جائے کہ صرف ایک ہی ترجمہ تک خاص رہنا یہ فہم قرآن کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ ہر مترجم نے اپنی فہم کے اعتبار سے مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی اور یہ ناممکن ہے کہ ایک فرد تمام ممکنہ مفاہیم یا پہلووں کا احاطہ کر سکے اس لیے فہم قرآن کے دو طریقوں میں سے کوئی بھی ایک طریقہ اختیار کر لیا جائے ۔
اول: ایک وقت میں ایک ہی ترجمہ سے استفادہ کیا جائے جب وہ مکمل ہو جائے تو دوسرا ترجمہ شروع کیا جائے ۔
دوم : ایک آیت کی فہم کے لیے جتنے تراجم موجود ہیں ان سب سے استفادہ کیا جائے جب وہ آیت واضح ہو جائے تو دوسری آیت شروع کی جائے اس حوالے سے آیات کو مختلف موضوعات میں تقسیم کر دیا جائے تو مزید آسانی ممکن ہو سکتی ہے۔
راقم کے خیال میں ہر مسلمان کو قرآن مجید کےدو نسخے اپنے لیے خاص کر لینا چاہیے ایک نسخہ جو صرف تلاوت کے لیے ہو اور دوم ترجمہ قرآن  اور وہ ساتھی جو لکھنے میں شغف و رغبت رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ بیاض القرآن کا کوئی سا بھی نسخہ خرید لیں اور اسے دو اعتبارات سے پڑھیں ایک دوران مطالعہ جو استفسارات اور سوالات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب سے لکھتا جائے بے شمار سوالات تو جیسے جیسے قرآن کا ترجمہ پڑھتا جائے گا جوابات ملتے جائیں گے اور کچھ سوالات ایسے ہوں گے جو علمائے کرام سے رجوع کے محتاج ہوں گے اور دوم جو استفادات ذہن میں آئے انہیں بھی تحریر کر لے اور علمائے اکرام سے ان کی تصدیق کروا لے ۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اردو زبان میں کون سی تفسیر پڑھی جائے؟
اردو زبان میں مکمل تفاسیر اور عربی تفاسیر کے تراجم کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے بسا اوقات ایک قاری کے لیے انتخاب دشوار ہو جاتا ہے کہ کس تفسیر کو پڑھے راقم کے خیال میں درج ذیل تفاسیر میں سے کسی ایک کو مطالعہ میں رکھ لیا جائے تو بہتر طریقے سے استفادہ ممکن ہو سکتا ہے ۔
11)تفسیر القرآن الکریم عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ چار جلدوں میں یہ تفسیر اپنے انداز بیان اور اسلوب کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے ۔
22)المصباح المنیراختصار تفسیر ابن کثیر مطبوع دار السلام۔ تمام ضعیف روایات کو نکال دیا گیا ہے اور صرف صحیح احادیث کی روشنی میں تفسیر ابن کثیر کی تلخیص کی گئی ہے جسے چھ جلدوں میں طبع کیا گیا ہے۔
33)تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف۔ تفسیر زیادہ مفصل نہ ہونے کے باوجود پر مدلل ہے اور توحید پر زور دیا گیا ہے ایک جلد میں طبع کی گئی ہے۔
فہم قرآن اور فہم سیرت کا باہمی ربط و تعلق
قرآن اور صاحب قرآن کے مابین بہت گہرا تعلق ہے فہم قرآن بغیر فہم سیرت کے ناممکن ہے یا یوں کہا جائے کہ فہم سیرت فہم قرآن کے بغیر ناممکن ہے یعنی قرآن کو صاحب قرآن کی مدد سے سمجھا جائے۔اس تعلق و ربط کو ہم اختصار کے ساتھ اس طرح

سمجھ سکتے ہیں :

41)قرآنی سورتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے مکی سورتیں وہ جوہجرت مدینہ سے قبل نازل ہوئی ہوں اور مدنی سورتیں وہ جو ھجرت مدینہ سے وفات تک نازل ہوئی ہوں ۔بعینہ سیرت طیبہ کو بھی دو بڑے حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے مکی دور  جو قبل از ہجرت کا ہے اور مدنی دور جو بعد از ہجرت تا وفات تک کا زمانہ ہے
52)مکی سورتوں کے موضوعات درج ذیل ہیں : توحید ، رسالت ، معاد ، سابقہ اقوام کے قصص اور اخلاقی تعلیمات اور بعینہ اسی طرح سیرت کے مکی دور کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکی زندگی میں کفار و مشرکین کے ساتھ انہی موضوعات پر اختلاف تھا 13 سالہ مکی زندگی توحید، رسالت، معاد اور سابقہ اقوام کے قصص اور اخلاقی تربیت کے بیان میں گزر گئی
63)مدنی سورتوں میں احکام بیان کیے گئے ہیں جیسا کہ نماز، روزہ، حج ، زکوۃ، جہاد، نکاح ، طلاق، خلع  وغیرہ  اور بعینہ اس طرح رسول اللہ ﷺکی مدنی زندگی  فقہی احکام  پر عمل اور وضاحت  پر مشتمل نظر آتی ہے
74)مکی سورتوں میں خطاب مشرکین اور کفار کے ساتھ تھا اسی طرح حیات طیبہ کے مکی دور میں تمام تر اختلاف اور محاذ آرائی مشرکین اور کفار کے ساتھ ہی نظر آتی ہے جبکہ اس کے برخلاف مدنی سورتوں میں اہل کتاب اور منافقین کا اضافہ ہو جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی مشرکین، کفار، اہل کتاب اور منافقین کے ساتھ محاذ آرائی کے ساتھ تعبیر ہے
لہذا اگر ہم فہم قرآن کو فہم سیرت کی روشنی میں سمجھنا چاہیں تو جو اسلوب اختیار کیا جا سکتا ہے وہ درج ذیل ہے:
سن ایک نبوت کے تمام واقعات زمانی ترتیب کے ساتھ جمع کر لییے جائیں اور اسی طرح سن ایک نبوت میں نازل ہونے والی سورتوں کو جمع کر لیا جائے اور پھر سیرت طیبہ کے واقعات اور سورتیں دونوں ایک ہی موضوع کو بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اسی طرحسن 2 نبوت کے واقعات اور سن 2 نبوت میں نازل ہونے والی سورتوں کے مضامین جمع کر لیے جائیں ۔

فیوض القرآن کتاب و سنت کی روشنی میں

ان تفسیر ی حواشی کی بنیاد چونکہ مختلف مبارک وجودوں کے فیضانات پر مشتمل ہوں گے لہذا اسے فیوض القرآن کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے اس میں درج ذیل منھج اختیار کیا جارہا ہے:
11)آیات کو موضوع کے اعتبار سے مختلف مجموعات میں تقسیم کیا جائے گا اور ہر مجموعہ کو آیات میں زیر بحث موضوع کی مناسبت سے نام دیا جائے گا
22)آیات کے کلمات کے معانی بیان کیے جائیں گے  بالخصوص اس وقت جب کلمات کے معانی آیت اور موضوع کی فہم کے لیے ضروری ثابت ہوئے
33)آیات میں موجود کلمات کی وضاحت اور توضیح میں ممکنہ طور پر دیگر آیات اور احادیث کا ذکر باحوالہ کیا جائے گا
44)آیات کا سیرت طیبہ کے ساتھ ممکنہ زمانی و مکانی ربط و تعلق اگر ممکن ہو ا تو بیان کیا جائے گا
55)ہر مجموعہ آیات کے آخر میں استفادات نقاط کی صورت میں رقم کیے جائیں گے
آخر میں التماس ہے اگر سطور بالا میں یا آئندہ شماروں میں بیان کیے جانے والے توضیحی کلمات میں کوئی خامی یا غلطی ہو تو ضرور از ضرور ادارہ کو مطلع کیا جائے ۔

گستاخ بلاگرز کا علاج

پاکستان کی بنیاد کلمۂ توحید پر رکھی گئی ، پاکستان کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمان سید الانبیاء ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے مسلم قومیت کی بنیاد کے بارے واضح الفاظ میں کہا تھا’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے نہ وطن ہے نہ نسل ہے ، ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا آپ غور فرمائیں کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا اس کی وجہ نہ ہندؤوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 8 مارچ 1944ء) محمد علی جناح  ؒنے کہا :”اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان کا جواز ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ داری ہیں۔ (26 مارچ 1948ء) بانیٔ پاکستان نے اپنے ایمانی جذبہ کا اظہار ان روشن الفاظ میں کیا :”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنےوالے پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پررکھیں۔“ (14 فروری 1947ء) اسلامیہ کالج پشاور میں بالکل واضح الفاظ میں کہا: اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ (13 جنوری 1948ء) بابائے قوم کے یہ تمام الفاظ ،خطبات، اسلامی روح کے آئینہ دار اور واضح اظہار ہے بلکہ انہوں نے تو ان الفاظ میں چیلنج کیا اور کہا :”ہندؤو اور انگریزو! تم دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ تم اس اسلامی تہذیب کو کبھی نہ مٹا سکو گے جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے۔ ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا“۔ (مرکزی اسمبلی 22 مارچ 1930ء) جبکہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے بھی کچھ ایسا ہی کہا’’ علماء کرام کو فتووں کی دنیا سے نکل کر دین اسلام کا اصل بیانیہ پیش کرنا چاہیے تاکہ مذہب کے نام پہ نفرت کا پرچار ختم ہوسکے انتہا پسندی اور جہاد میں فرق واضح ہونا چاہیے، مدارس دین کے عالم پیدا کرنے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کے مبلغ پیدا کر رہے ہیں۔ (11 مارچ 2017ء جامعہ نعیمیہ لاہور) مگر افسوس صد افسوس کہ جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا اس میں بعض نام نہاد مسلمان بلکہ شیطان صفت لوگ رسول معظم ﷺ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخی کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ کیا ہماری غیرت ایمانی ختم ہوچکی ہے کسی کی ماں ، باپ، بہن ،بیٹی کو گالی دی جائے یا برا بھلا کہا جائے تو کوئی غیرت مند انسان برداشت نہیں کرسکتا اور جہاں معاملہ محسن اعظم،معلم انسانیت اور رحمۃ للعالمین کا ہو تو ہر انسان ناموس رسالت کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتاہےویسے تو ابھی تک ہم کاغذی شیرکا کردار ادا کررہے ہیں باتیںتو بہت ہو رہی ہیں وزیر داخلہ صاحب بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں مگر عملی طور پر کچھ سامنے نہیں آیا بہر حال محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنی حرارت ایمانی کا اظہار کیا ہے خانوادہ صدیقی کی لاج رکھنے کی کوشش کی کیونکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہر مشکل وقت میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔فاضل جج صاحب نے زبردست بات کہی ہے کہ جغرافیائی حدود کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی حدود کی حفاظت از حد ضروری ہےکیونکہ نظریاتی حدود کے ختم ہونے سے ایمانی حدود کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گستاخانہ پیجز کیخلاف مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اللہ کی قسم! جب سے میں نے گستاخانہ پیجز دیکھے ہیں ، میں سو نہیں سکا۔ میری جان، میرے والدین اور عہدے سب ناموس رسالت پر قربان ہیں۔ قانون پر عمل نہ کرنے سے ہی ممتاز قادری جنم لیتے ہیں۔ گستاخ پیجز چلانے والے اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی مجرم ہیں انہیں سزا ملے گی، غیرت ایمانی سے سرشار جج ایک گھنٹے کی عدالتی کارروائی کے دوران کئی بارروئے مزید فاضل جج نے کہا’’یہاں لوگوں کو ویلنٹائن ڈے بہت یادرہتا ہے انسانی حقوق بھی نظر آجاتے ہیں(عاصمہ جہانگیر بھی عدالت میں موجود تھیں) جب قانون پر عمل نہیں ہوتا اور کوئی گستاخ مارا جاتا ہے تو مرنے والے کی یاد میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں ۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’ پی ٹی اے والو، ایف آئی اے والو، پولیس والو،فوجیو نبی کریم ﷺ اور ان کے اہل بیت اَطہار کے بارے میں اتنا کچھ ہو۔ میرے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی لیکن آپ لوگوں نے خاموش رہ کر اللہ کے بہت بڑے عذاب کو دعوت دی ہے روزِ محشر کس طرح ان سے شفاعت طلب کرو گے اگر عدالت کو یہ غلیظ مواد بند کرانے کیلئے پورا سوشل میڈیا بھی بند کرانا پڑا تو میں کردوں گا اور آخری حد تک جاؤں گا۔انہوں نے علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ نبی کریمﷺ کی عزت وحرمت کے تحفظ کے لیے مسلکی اور فروعی اختلافات مٹاکر ایک ہوجائیں۔یہی نسخۂ کیمیا اور واحد علاج ہے ان گستاخ بلاگرزکا۔
 

اسلامی معاشرے میں عورت کا مقام اورکردار

اسلام میں عورت کے کردار پر پہلے بھی بہت اچھا اور معیاری کام ہوچکا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہر گزرتے وقت سے زیادہ آنے والے وقت میں بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہر آنے والا نیا دور عورت کے کردار کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قرآان میں اللہ پاک نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ

’اے نبی ﷺ جب آپ کے پاس مومنات آئیں تو آپ ﷺ اس بات کی ان سے بیعت لیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھیرائیں گی اور نہ ہی وہ چوری کریں گی اور نہ ہی وہ زنا کریںگی اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی وہ بہتان گھڑیں گی جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور معروف کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی بس ان سے بیعت لے لو اور ان کی حفاظت اور مغفرت کے لئے دعا کرو بے شک اللہ تعالی مغفرت فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔(۱)

قرآان پاک میں نہ صرف عورت کے کردار کو بیان کیا گیا ہے بلکہ جتنے بھی اہم مسائل تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں انہی میں سے ایک اہم مسئلہ عورت کا بھی ہے ۔

مختلف مذاہب میں عورت کا مقام

قدیم تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو کسی قدر مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہزیب و تمدن اور علوم و فنون پہ بے انتہا ترقی کی لیکن پھر بھی وہ عورت کے بارے میں ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہےلیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عورت کی قدرو منزلت ان کے نزدیک کیا تھی۔ ان سب کے بارے میں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں لیکن اسلام سے پہلے دنیا میں جتنے بھی مذاہب رہے ہیں ان سب کا مطالعہ کر کے اگر نچوڑ لیا جائے توعورت کی حیثیت کچھ اس طرح سامنے آتی ہے ۔

1  عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے جو ٹیڑھی ہوتی ہے اس لئے عورت کی سوچ کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔

2  عورت کی وجہ سے آدم کو پرسکون جنت سے نکلنا پڑا ۔

3  عقلی اعتبار سے عورت ’ناقص‘ ہے۔

4  عورت مکمل ’فتنہ‘ ہے ۔

5  عورت کی فکر ’صفر‘ ہے ۔

6  عورت کی گواہی ’آدھی ‘ہے ۔

7  مرد کی خوشنودی کرنا ہی عورت کا اصل ’کام‘ ہے۔

8  عورت ’نجس و ناپاک‘ ہے ۔

9  عورت سے مشورہ لینا’ حماقت‘ ہے۔

0  عورت کی مختصر عقل اس کے’ جزبات ‘کے تابع ہے۔

+  عو رت مکرو فریب کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ ۔ (۲)

 قرآن پاک میں عورت کے انفرادی اور اجتماعی، دونوں حقوق و فرائص بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ میں پھر وہی بات دہرائوں گی کہ شاید قارئین کو لگے کہ پرانا موضوع ہے لیکن اس پرانے موضوع کو پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آج کا دور جسے ہم بڑے فخر سے جدید اور ترقی یافتہ دور کہتے ہیں اس میں عورت اسلامی پیرائے میں ڈھلی ہوئی ہے ؟جب تک ہم اسلام سے قبل عورت کی حالت کو نہیں سمجھیں گے، ہم اسلام میں دیئے گئے حقوق اور آزادی کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ اسلام نے کس طرح آکر عورتوں کو ایک نئی زندگی بخشی ۔

 اسلام سے قبل

یہاں اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ ہم خواتین اس بات کو اور زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں کے اسلام نہ صرف ایک نیا اور مکمل دین ہمارے لئے لایا بلکہ خواتین کے لئے نئی زندگی بھی لیکر آیا۔ اسلام سے قبل دنیا نے عورت کو ایک غیر مفید چیز سمجھ کر پستی کے ایسے دلدل میں پھینک دیا تھا جس کہ بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی ۔ اسلام سے قبل عورت کی قدرو منزلت کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) جب ان میں سے کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو (غم کی وجہ سے) اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (۳)

یعنی اسلام سے قبل بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جا تا تھا۔ اسلام ہی وہ پہلا دین ہے جس نے اس حرکت کو حرام قرار دیااور عورت کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ اس کی عزت کا بھی خوب اہتمام کرتے ہوئے اللہ تعا لی نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ

’’اور جب زندہ گاڑھی ہوئی بچی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی۔‘‘(۴)

 اسلام سے قبل عورت وراثت سے محروم تھی لیکن اسلام نے آکر اسے وراثت میں حصے دار بنایا۔ اسلام سے پہلے عورتوں پر ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ انہیں زبردستی ورثے میں لے لیتے تھے ۔ یعنی اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجاتا تو اس کے وارثوں میں سے کوئی بھی شخص اس عورت پر کپڑا ڈالتا اور اس کا وارث بن جاتا تاکہ میت کے جس مال کی وارث وہ عورت ہے ، اس مال کا وارث وہ بن جائے ۔ اس طرح وہ شخص عورت کے نفس کا اس عورت سے بھی زیادہ حق دار ہوجاتا اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا۔(۵) اور فرمایا کہ

اے ایمان والو!تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔‘‘(۶)

 جب اسلام آیا تو زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ عورت کو نکاح سے روکے رکھتے اس کو اس کے حق سے بھی محروم رکھتے اور شوہر اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہ دیتا جب تک وہ عورت اس کو اپنے اوپر خرچ کیا ہوا مال واپس نہ لوٹا دیتی ۔باپ اپنی بیٹی کو اور بھائی اپنی بہن کواگر چاہتے تو شادی سے روکے رکھتے ۔ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اسے فدیے (حق مہر کی واپسی) کے سوا طلاق دیتا۔ اسلام نے اس عمل کو بھی سخت ناپسند کیا ۔(۷)

 قرآن میں ارشاد ہے کہ

اور ان کو اس لئے نہ روک رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں۔(۸)

 اسلام سے قبل عورت اپنے شوہر کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔  اسلام نے آکر اس کی ممانعت کی اور حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو جیسا کہ تم اپنے ساتھ کرتے ہو اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں جس عورت کا شوہر فوت ہو جاتا اس کی عدت ایک سال ہوتی تھی جس کو اسلام نے تخفیف کرکے ایک تہائی کردیاور حکم دیا کہ

تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور (دس) دن عدت میں رکھیں ۔(۹)

ہم نے اندازہ لگایا کہ اسلام سے قبل عورت کس قدر پستی اور ذلت کا شکار تھی ۔ اسلام نے آکر عورت کے لئے صدائے احتجاج بلند کیا اور اسے معاشرہ کا نا صرف ایک فعال رکن قرار دیابلکہ مرد کے برابر کا درجہ بھی دیا ۔

اسلام میں عورت کے حقوق و فرائض

ہم نے مختلف مزاہب میں اور اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا ۔ اب اگر ہم قرآن کی روشنی میں عورت کا مقام دیکھیں تو قرآ ن دوسرے مزاہب کے بر عکس عورت کے کردار کو پانچ اہم شعبوں سے تقسیم کرتا ہے ۔

1  مساوات               2  درجات

3قانونِ شہادت         4 قانونِ وراثت

5  حدودوتعزیرات (۱۰)

اور جو کوئی نیک عمل کرے گا ، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔(۱۱)

اسلامی معاشرے میں جس طرح مردوں کے کچھ حقوق ہیں بالکل اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح جس طرح مردوں پر کچھ فرائض ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ بحیثیت ایک شہری تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بحیثیتِ مرد اور بحیثیتِ عورت ان دونوں کے حقوق اور فرائض میں اختلاف ضرور ہے ۔

اسلام عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ الگ قرار دیتا ہے جس کی بنا پر جدید دور کا انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد سے کم درجہ دیا ہے ۔(۱۲)

 اسلام مساواتِ مرد و زن کے مغربی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتاجس کی رو سے مرد اور عورت کی صلاحیتیں زندگی کے ہر شعبے میں برابر ہیں ۔ کیونکہ اسلام نے عورت پہ خاندان کی کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہوئی ہیںلہٰذا ان کی موجودگی میں عورت پہ ریاستی ذمہ داریاں ڈالنا خلافِ انصاف ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی جو حالت تھی اس سے اہلِ علم اچھی طرح باخبر ہیں۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیا ہے ، اس کے حقوق و رعایات کا وہ سامان مہیا کیا ہے جس کی مثال کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی۔ عورت اگر بیٹی ہے تو اس کی کفالت والدین کے ذمہ ہے، اگر بیوی ہے تو اس کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے، اگر ماں ہے تو اولاد اس کی ذمہ داری پوری کریگی اور اگر بہن ہے تو بھائی اس کی نگہداشت کریں گے۔ گویا اسلام نے عورت کو زندگی کے ہر درجے میںاور عمر کے ہر حصے میں معاشی یا معاشرتی پریشانیوں سے محفوظ کر دیا ہے۔ حفاظت و عافیت کا یہ حصار صرف مزہبِ اسلام نے ہی قائم کیا ہے۔ (۱۳)

اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے ۔(۱۴)

حقوق کے حوالے سے اگر ہم بات کریں توہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے مرد اور عورت کو برابری کے حقوق دیئے ہیں  جس میں سب سے پہلے تو اسلام نے عورت کو عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا ہے۔ اسے پرورش کا حق دیا ہے، تعلیم کا حق دیا ہے، نکاح کا حق، مہر کا حق، نان و نفقہ کا حق، کاروبار اور عمل کی آزادی کا حق، مال و جائیداد کا حق، عزت و آبرو کا حق، تنقید و احتساب کا حق غرض کہ کہیں بھی اسلام نے عورت کو حقوق دینے میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔نکاح و طلاق میں اس کی پسندیدگی و نا پسندیدگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اسلام نے نکاح و طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کیے اسی طرح اسے وہ تمام تمدنی اور معاشرتی حقوق عطا کیے جو مردوں کو حاصل تھے ۔

اللہ پاک نے عورت پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں جن کو پورا کرکے وہ اپنے خاندان کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالتی ہے اور ان فرائض کو پورا کرنے کے بعد ہی اس کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بحیثیت ماں عورت کی اہمیت کا اندازہ اس جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘یعنی ماں کو اللہ رب العزت نے اتنا بڑا درجہ دیا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔(۱۵)

ماں کے حمل کی مشقت اور رضاعت وہ عمل ہیں جن کی بدولت اللہ نے ماں کو اتنا بڑا درجہ دیا ۔ موجودہ دور میں جو کہ فتنوں سے بھرا ہوا ہے ، اس میں ماں کے اوپر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے اس کے ذہن میں اسلام کا نقش قائم کرے اور دوسری یہ کہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کے ساتھ نئی نسل کو غیر اسلامی تہذیب و معاشرت سے بھی بچائے ۔ دینی تعلیم میں صرف نماز روزہ کی تلقین ہی نہیں بلکہ دین میں غورو فکر کرنااور قرآن کو بطورِ ہدایت سمجھنے پر بھی زور دینا شامل ہے ۔

بحیثیت بیوی اللہ تعا لی نے عورت پہ بہت فرائض متعین کئے ہیں ۔ ان میں شوہر کی عزت، اپنی عزت کا خیال رکھنا، اس کے مال اور اولاد کی نگرانی کرناشامل ہیں۔  اسی طرح عورت پر پردے کے احکامات بھی عائد ہوتے ہیں جن کی بنا پر اس پر فرض ہے کے اسلامی احکامات کی پابندی کرے۔قرآن پاک میں ان احکامات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریںسوائے اپنے خاوند کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے ۔( ۱۶)

اب اگر ہم جدیددنیا کی عورت پہ نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو حقوق مسلمان عورت کو اسلام نے چودہ سو سال پہلے دئیے تھے ان کی ابتدا ہماری جدید دنیا میں انیسویں صدی سے ہوئی ہے اور صحیح معنوں میں کامیابی بیسویں صدی میں آکر ہوئی ۔ بیسویں صدی کے نصف ثانی تک بیشتر معاشروں میں عورتوں کو مردوں جیسے قانونی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔مانا کہ بہت سی خواتین نے کئی حقوق حاصل بھی کرلئے لیکن ابھی بھی کئی مردوں کا خیال ہے کہ وہ ان کہ ہم پلہ نہیں ہیں ۔زیادہ تر مردوں نے خواتین کو ایک محدود کردار سے آگے بڑھنے کی مخالفت کی ہے۔ (۱۷)

عورتوں کے عقلی طور پر گھٹیا ہونے کے مقبولِ عام خیال نے زیادہ تر معاشروں میں عورتوں کی تعلیم کو محدود رکھنے پر مائل کیا ۔ انیسویں صدی سے پہلے تک عورتوں کو مساوی حقوق دینے سے انکار پر کبھی کبھار احتجاج ہوا جس کے کوئی دیرپا نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ کیونکہ زیادہ تر عورتیں تعلیم کی کمی اور مالی وسائل کی کمی کا شکار تھیں لہٰذا اپنی کمتر حیثیت کو قبول کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بہت سے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق صرف امیر طبقے کو ہی حاصل تھے ۔جس کی بناء پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ بھی مالی مسائل کا شکار تھا۔ (۱۸)

انیسویں صدی میں یورپ و شمالی امریکہ کی حکومتوں نے جب مردوں کی مساوات کی ضمانت دینے والے نئے قوانین تیار کرنا شروع کئے تو عورتوں نے اور ان کے ساتھ کچھ مردوں نے بھی عورتوں کو مساوی حقوق دینے کا مطالبہ کیا ۔ساتھ ہی یورپ اور شمالی امریکہ میں صنعتی انقلاب نے مرد اور عورت کے کردار کو مزید الگ کردیا۔ صنعتی انقلاب سے قبل زیادہ تر لوگ کھیتوں میں کام کرتے تھے جس کے لئے گھروں سے باہر نہیں جانا پڑتا تھا ۔ عورتوں اور مردوں نے بہت سے کام آپس میں بانٹ رکھے تھے ۔ صنعت کاری نے مردوں کو گھر سے دور رہنے پر مجبور کیااور گھر اور کام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ عورت کا جائز مقام گھر میں ہے اور مرد کے ذمہ معاشی ذمہ داری ہے ۔  ۱۹۲۰  اور ۱۹۶۰ میں جا کر خواتین اپنے کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔(۱۹)

یہاں اس بحث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مسلمان عورت کو کبھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھانی پڑی ۔ اللہ سبحان تعالی نے اسے پہلے ہی سے اس سے بڑھ کر اور بہتر حقوق عطا کئے ہیں ۔ ہمیں ان حقوق کے لئے نہ تو کہیں احتجاج کرنا پڑا اور نہ ہی کہیں کسی پلیٹ فارم کو استعمال کرنا پڑا ۔ مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ ان حقوق کی قدر کرے اور ان کا غلط استعمال نہ کرے اگر عورت اللہ کی نظر میں اچھا بننا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرےجو عورت اپنی ذمہ داریوں کواحسن طریقوں سے ادا کرتی ہے تو اس کا حق اس کو ضرور ملتا ہے۔ ذمہ داریوں کو بھول کر حق مانگنا کسی اسلامی عورت کا شعار نہیں ہے ۔

اے دخترِ اسلام

لگتی ہے کلی کتنی بھلی شاخِ چمن پر

ہاتھوں میں پہنچ کر کوئی قیمت نہیں رہتی

جو شمع سرعام لٹاتی ہے اجالے

اس شمع کی گھر میں کوئی عزت نہیں رہتی

تسلیم کہ پردہ ہوا کرتا ہے نظر کا

نظروں میں بھی برداشت کی قوت نہیں رہتی

مردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت

کچھ اور ہی بن جاتی ہے، عورت نہیں رہتی

جھانک اپنے گریبان میں کیا ہو گیا تجھ کو

حیرت سے تجھے تکتا ہے آئینۂ ایام

اے دخترِ اسلام

خود اپنی جڑوں پر ہی چلاتی ہے درانتی

بربادی احساس ِ نمو مانگ رہی ہے

کب بخشی گئی ہیں تجھے آزادیاں اتنی

جو حق ہی نہیں ہے تیرا تو مانگ رہی ہے

میں تو ترے ماتھے پہ پسینہ بھی نہ دیکھوں

مجھ سے میری غیرت کا لہو مانگ رہی ہے

جنت ہے تیرے پائوں میں فرمایا نبی ﷺ نے

دریا پہ کھڑی ہوکہ سبو مانگ رہی ہے

وہ رتبۂ عالی کوئی مذہب نہیں دیتا

کرتا ہے جو عطا عورت کو مذہبِِ اسلام

اے دخترِ اسلام

( مظفر وارثی)

حوالہ جات

  ۱ ۔ سورۃالممتحنہ،  آیت نمبر ۱۲

  ۲ ۔ قرآن کی نظر میں عورت، ہما آغا، فینسی پرنٹ، کراچی،  ۲۰۰۶، ص نمبر  ۱۲

  ۳ ۔ سورۃ النحل، آیت نمبر  ۵۸

  ۴  ۔سورۃالتکویر ، آیت نمبر  ۹،۸

  ۵ ۔ تحفہ نسواں مسلم خواتین کے مخصوص مسائل اور فرائض ، ڈاکٹر صالح بن فوزان، ادارہ مطبوعاتِ خواتین، لاہور

  ۶  ۔سورۃالنساء،  آیت نمبر ۱۹

  ۷ ۔ تحفہ نسواں، ایضا ،  ص نمبر  ۱۹

  ۸  ۔سورۃالنساء،  آیت نمبر  ۱۹

  ۹ ۔ سورۃ البقرہ،  آیت نمبر  ۲۳۴

  ۱۰  ۔ہما آغا ، ایضا ، ص نمبر  ۱۳

  ۱۱ – سورۃ النساء ،  آیت نمبر  ۱۲۴

  ۱۲ – خاتونِ اسلام، مولانا وحید الدین خان،  فضلی سنز، کراچی،  ۱۹۹۸

  ۱۳ – عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین، حافظ صلاح الدین یوسف، دارالاسلام، کراچی

  ۱۴  ۔سورۃالبقرہ، آیت نمبر ۲۲۸

 ۱۵ ۔سورۃ الاحکاف،  آیت نمبر ۱۵

  ۱۶ ۔سورۃ النور، آیت نمبر  ۳۱- ۲۴

 ۱۷ ۔ عالمی انسائیکلو پیڈیا، یاسر جواد، الفیصل، لاہور،  ۲۰۰۹، ص نمبر ۱۴۰۴

  ۱۸  ۔ا یضا

  ۱۹ ۔ایضا

برصغیر کے علمائے اہلحدیث علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں۔ قسط 2

مولانا محمد ابراہیم آروی

درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے جونامور اُٹھے ان میں ایک مولاناحافظ ابراہیم آروی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اورمدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:36’’مقدمہ‘‘)

سید صاحب لکھتے ہیں

’’ہندوستان میں اہل حدیث کے نام سے تحریک مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور ان کے شاگردوں کے ذریعہ شروع ہوئی اس تحریک کا ایک خاص فائدہ یہ ہوا کہ طبیعتوں کا جمود دور ہوا اور جب ایک بند ٹوٹا تو اجتہاد کے دوسرے دروازے بھی کھلے۔ مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم صاحب آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوشگوار پُر درد واعظ تھے، وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال ان ہی کے دل میں آیا اور انہوں نے 1890ء میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لیے جلسہ مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بسال جلسہ آرہ میں ہوتا تھا ۔ مولانا ابراہیم صاحب نے سفر حجاز میں 1322ھ میں انتقال فرمایا‘‘۔ (حیات شبلی ، ص:308)

مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی

سید صاحب فرماتے ہیں کہ

’’درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی میں سے ایک نامور مولانا شمس الحق ڈیانوی صاحب عون المعبود ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔(تراجم علمائے حدیث ہند، ص:37’’مقدمہ‘‘)

مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری

سید صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ

1 درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ایک نامور حافظ عبد اللہ غازی پوری ہیں جنہوں نے درس وتدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید نذیر حسین صاحب کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اورشاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی اور شاگردوں میں نہیں ملا۔(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:37’’مقدمہ‘‘)

2 (مدرسہ احمدیہ آرہ) میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری (م 1337ھ) سالہا سال تک پڑھاتے رہے ۔ مولانا عبد السلام مبارکپوری، مولانا عبد الرحمان مبارکپوری اور ہمارے مرحوم دوست مولانا ابو بکر محمد شیث جون پوری اور بہت سے علماء یہاں کےشاگرد ہیں حافظ صاحب کے بعد مدرسہ پر زوال آیا۔(حیات شبلی ، ص:308)

3جناب مولانا عبد اللہ غازی کا واقعہ وفات علماء کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے مولانائے مرحوم نے گو لمبی عمر پائی لیکن اس خیال سے کہ وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہا یادگار تھے ہم ان کے لیے اس سے دراز عمر کے متوقع تھے ۔ مولانا اتباع سنت ،تقویٰ وطہارت، زہدوورع، تبحر علم، وسعت نظر اور کتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے علم دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس وتدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلباء ان کے فیض تربیت سے علماء بن کرنکلے ۔ ابتداء چشمہ رحمت غازی پور اور پھر مدرسہ آرہ میں اپنا مسند درس بچھایا اور آخر عمر میں دلّی کے دار الحدیث میں قیام فرمایا لیکن خانگی حوادث کے باعث پریشان حال رہے اب افسوس کہ یہ شمع نور وہدایت 21 صفر 1337ھ مطابق 26 نومبر 1918ء کو ہمیشہ کیلئے بجھ گئی ۔ رحمۃ اللہ تعالی (یادرفتگان ، ص:40)

مولانا عبد الرحمان مبارکپوری

سید صاحب فرماتے ہیں کہ

درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ایک اور نامور تربیت یافتہ ہمارے ضلع اعظم گڑھ میں مولانا عبدالرحمان مرحوم مبارک پوری تھے جنہوں نے تدریس وتحدیث کے ساتھ ساتھ جامع ترمذی کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (عربی) لکھی۔(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:37’’مقدمہ‘‘ )

مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ

سید صاحب مولانا عبد الرحمان مبارک پوری کے فضل وکمال اور تبحر حدیث ورجال حدیث کے بہت معترف تھے ۔ مصر،شام وحجاز کے جو علمی سیاح دار المصنفین آتے تو سید صاحب’’ صاحب الحدیث اور رحل الحدیث ‘‘ کہہ کر ان سے غائبانہ تعارف کراتے تھے اور وہ یہاں سے ہوکر ان کی زیارت کے لیے مبارک پور جاتے تھے ان کی شرح ترمذی شائع ہوئی تو خاص طور سے مبارک پور آدمی بھیج کر منگوائی اس کے ایک عرصہ بعد اس کا فاضلانہ مقدمہ الگ کتابی صورت میں شائع ہوا تو اس کو بھی منگوایا مولانائے مبارکپوری سے سید صاحب کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں اس کی تحقیق اب تک نہیں ہوسکی ہے ظن غالب ہے کہ ملاقات نہیں ہوئی۔(سیدنا سلیمان ندوی، ص:204)

علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی، علامہ شیخ محمد بن حسین بن محسن ،علامہ خلیل عرب بن محمد بن حسین بن محسن

علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

1بھوپال ایک زمانہ میں علمائے حدیث کا مرکز رہا ۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ،  ص:36’’مقدمہ‘‘)

2 مشہور محدث یمنی شیخ حسین صاحب عرب کے جو نواب صدیق حسن خان مرحوم کی قدردانی سے بھوپال میں رہ گئے تھے اور ہزاروں علماء اور محدثین کے استاد تھے۔

3 شیخ محمد صاحب عرب ندوہ میں مدرس ادب تھے۔

4شیخ محمد خلیل عرب صاحب نے ندوہ میں تعلیم پائی ، فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ اورپھر لکھنو یونیورسٹی میں بھی عربی کے استاد مقر رہوئے چند سال کے بعد مزاج کی ناسازی کے سبب مستعفیٰ ہوکر بھوپال چلے گئے اور اس وقت 1940ء/1359ھ مجلس علماء بھوپال کے رکن میں جو ریاست بھوپال کا ایک معزز وسرکاری منصب ہے۔ (حیات شبلی ، ص:200)

سن ہائے وفات :

علامہ حسین بن محسن ( م 1327ھ) علامہ محمد بن حسین (م 1344ھ) ، علامہ خلیل عرب ( م 1966ء)

مولانا محمد بن یوسف سورتی

مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ

مولانا محمد سورتی اس  عہد میں مستثنیٰ دل ودماغ اور مافوق العادۃ حافظ وقابلیت کے آدمی تھے، بڑے وسیع النظر اور وسیع المطالعہ تھے ، عربی لغت پر ان کو عبور تھا اپنے مسلک میں بہت متشدد تھے۔

سید صاحب کے تعلقات تو ہم ذوقی کی بنا پر مولانا سورتی سے بہت زمانہ سےتھے لیکن دار المصنفین کے قیام اور معارف کے اجراء کے بعد اور زیادہ وسیع ہوگئے تھے۔ سیرت نبوی ﷺکے بعض مباحث سے ان کو اختلاف تھا ، اس پر انہوں نے مضامین بھی لکھے تھے اور سید صاحب نے ان کے جوابات بھی دیئے تھے اس بحث ومباحثہ میں کبھی طرفین کا لب ولہجہ سخت ہوجاتا تھا لیکن اس کا ذاتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، ان کا انتقال ہوا تو سید صاحب نے ان کا بہت پُر زور ماتم لکھا ان کے علم وکمال اور خوبیوں کو بہت سراہا اور علم وفن کے اس ناقابل تلافی نقصان پر خون کے آنسو روئے۔ (سید سلیمان ندوی،ص:201)

سید صاحب نے مولانا سورتی کے انتقال پر جو تعزیتی شذرہ معارف میں لکھا اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے: ’’مولانا محمد سورتی کی وفات ایک علمی حادثہ ہے مرحوم اس عہد کے مستثنیٰ دل ودماغ اور حافظہ کے صاحب علم تھے جہاں تک میری اطلاع ہے اس وقت اتنا وسیع النظر،وسیع المطالعہ، کثیر الحافظہ عالم موجود نہیں،صرف ونحو، لغت وادب واخبار وانساب ورجال کے اس زمانہ میں درحقیقت وہ امام تھے، وہ چند ماہ سے مرض استستا میں مبتلا تھے علی گڑھ میں ان دنوں قیام تھا اوروہیں7اگست 1942 بروز جمعہ وفات پائی۔‘‘

مرحوم مسلکاً اہلحدیث تھے اور اپنے مسلک میں بے حد غالی تھے ، طبیعت بے قرار کسی ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے، ساتھ ہی نہایت سادہ مزاج ، بے تکلف احباب پرور فیاض اور مستغنیٰ تھے ، کھانے اور کھلانے کے بے حد شوقین تھے ہمیشہ مقروض اور خانہ بدوش رہتے تھے۔

مرحوم کا پایہ علم وادب اور رجال وانساب واخبار میں اتنا اونچا تھا کہ اس عہد میں اس کی نظیر مشکل تھی جو کتاب دیکھتے تھے وہ ان کے حافظہ کی قید میں آجاتی تھی سینکڑوں نادر عربی قصائد،ہزاروں عربی اشعار وانساب نوک زبان تھے ، ان کو دیکھ کر یقین آتا تھا کہ ابتدائی اسلامی صدیوں میں علماء،ادباء اور محدثین کے وسعت حافظہ کی جو عجیب وغریب مثالیں تاریخوں میں مذکور ہیں وہ یقیناً صحیح ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (یادرفتگان ، ص:232۔233)

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ( م 1378ھ) بلند پایہ عالم دین، عربی کے نامور ادیب، دانشور، مصنف اور مولانا ابو الکلام آزاد کے منظور نظر اور ان کے سفر وحضر کے ساتھی تھے ، مولانا آزاد کے ساتھ ان کی رفاقت تقریباً 40 سال تک محیط ہے۔ مولانا ابو الکلام کے حالات میں ان کی کتاب’’ذکر آزاد‘‘ ادبی  وعلمی کی دنیا میں ایک سنگ میل ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے ۔ مولانا ابو علی اثری لکھتے ہیں کہ

سید صاحب ان کی منفرد صلاحیتوں کی بنا پر ان کو بہت عزیز رکھتے تھے ، مولانا عبد الرزاق عربی میں کلکتہ سے اخبار الجامعہ نکالتے تھے، اس میں انہی کی فرمائش سے کبھی کبھی سید صاحب بھی مضامین لکھتے تھے۔ ایک دفعہ دارالمصنفین تشریف لائے ، سید صاحب نے ان الفاظ میں ان سے میرا تعارف کرایا کہ

یہ آپ کے ہم عقیدہ اور ہم مسلک ہیں

وہ یہ سن کر بہت محظوز ہوئے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔مولانا ملیح آبادی نے اپنی تنہا ذات سے بدعات ومحدثات، خصوصاً تعزیہ پرستی اور قبرپرستی اور دوسرے امور بدعیہ کے خلاف اُردو میں اتنا صالح لٹریچر اکٹھا کر دیا ہے کہ اتنا پوری جماعت اہل حدیث نے بھی نہ کیا ہوگا۔ اس توفیق ایزدی پر وہ تنہا بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کم ہے۔(سید سلیمان ندوی، ص:202۔203)

مولانا عبد السلام مبارکپوری

مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ) برصغیر پاک وہند میں ذی وقار عالم دین تھے، جن علمائے حدیث نے درس وتدریس میں بہت زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل کی ان میں مولانا عبد السلام مبارکپوری بھی شامل تھے۔ ان کے انتقال پر مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اپنے اخبار اہلحدیث میں لکھا۔

آہ! مولانا عبد السلام مرحوم

مولانا موصوف صحیح معنوں میں ایک عالم علوم کے مدرس تھے ، مدرسین کی تلاش میں جب نظر پڑتی تو آپ ہی پر پہلے پڑتی۔(بحوالہ : تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:400)

مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ

حیات شبلی میں سید صاحب نے اعظم گڑھ کے بعض مردم خیز قصبات ودیہات کے سلسلہ میں مبارک پور کا بھی ذکر کیا ہے کہ پچھلے برسوں میں یہاں بھی چند نامور علماء پیدا ہوئے ان کا اشارہ صاحب تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی مولانا عبد الرحمان مبارک پوری اور ان کے شاگرد اور معاصر مولانا عبد السلام مبارک پوری صاحب سیرۃ البخاری کی طرف تھا لیکن ان کا نام نہیں لیا۔

مولانا عبد السلام کا کچھ دنوں قیام بانکی پور پٹنہ میں بھی رہا انہوں نے اپنی کتاب تاریخ المنوال خدا بخش لائبریری پٹنہ ہی میں بیٹھ کر لکھی تھی اور سیرۃ البخاری وہیں کے قیام کا فیض تھا۔ اس تقریب سے ان کے اورسید میں کافی تعلقات ہوگئے تھے ایک مرتبہ وہ سید صاحب سے ملنے کے لیےشبلی منزل آئے تو ان کو دیکھ کر سید صاحب باغ باغ ہوگئے اور بار بار یہ شعر پڑھتے رہے ۔

وہ آئے گھر میں ہمار ےخدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ان کی سیرت البخاری ریویو کے لیے آئی تو خود اپنے قلم سے اس پر ریویو لکھا اور بڑی پسندیدگی کا اظہار کیا اور لکھا کہ اپنے موضوع پر یہ بہترین کتاب ہے۔(سید سلیمان ندوی،ص:203۔204)

مولانا عبد القادر قصوری

جب حجاز پر قبضہ وتصرف کے شریفوں اور نجدیوں میں جنگ چھڑی تو آل انڈیا خلافت کمیٹی کی طرف سے ایک سہ رکنی وفد جو تین مختلف ومتضاد مسلک کے لوگوں پر مشتمل تھا لیکن مسئلہ حجاز میں یہ مستمد تھے۔

حسب ذیل علمائے کرام پر مشتمل تھا۔

1 مولانا عبد القادر قصوری(م 1942ء) جماعت اہلحدیث کے سرخیل(رکن)

2 مولانا عبد الماجد بدایونی(م 1931ء) بریلوی جماعت کے مشہور عالم اور سحر بیان خطیب (رکن)

3 علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1953ء) ان دونوں حضرات کے بین بین (صدر وفد)

مولانا ابو علی اثری سید صاحب اور مولانا عبد القادر قصوری کے مابین جو مراسم اور تعلقات تھے حسب ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں کہ

سفر حجاز میں مولانا عبد القادر قصوری کی محبت کے جو نقوش سید صاحب کے دل ودماغ پر مرتسم ہوئے وہ زندگی کے آخر تک باقی رہے۔ مولانا قصوری سے نظریاتی اتحاد تو پہلے سے تھا، حجاز کے معاملے میں بھی حسن اتفاق سے یہ دونوں بزرگ ہم آہنگ ہوگئے ۔ سید صاحب کو مولانا قصوری اور ان کے تمام لائق صاحبزادگان سے جو ایک سے ایک بڑھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور یورپ ریزن تھے، بڑا اخلاص تمہارے مولانا قصوری کا انتقال ہوا تو سید صاحب نے معارف میں ماتم لکھا۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:205)

سید صاحب نے مولانا قصوری کی وفات پر معارف میں جو ماتمی شذرہ لکھا ، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔

پنجاب کے نامور وکیل اور عالم، مجاہد سیاسیات مولانا عبدالقادر قصوری کی وفات کی خبر سے بڑا صدمہ ہوا۔ قصور ضلع لاہور ان کا وطن تھا اور وہیں وکالت کرتے تھے اور اچھے نامور وکیل تھے،عربی کے عالم،دینیات کے فاضل اور انگریزی سے واقف تھے۔

مرحوم مسلکاً اہل حدیث تھے ، نہایت دیندار، متواضع، ملنسار،پابند وضع علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے شائق تھے اور انہی کی تحقیقات پر ان کا عمل تھا ، خلافت حجاز اور کانگرس میں بیش از بیش حصہ لیا۔

مرحوم کو خاکسار سے گوناگوں تعلقات قلبی تھے ، خیالات میں بہت کچھ ہم آہنگی تھی ، سب سے آخر بات یہ کہ وفد خلافت میں جو 1924ء میں جدہ تک جاسکا تھا وہ خاکسار کے ساتھ تھے گو وفد کی صدارت برائے نام میرے نام تھی مگر ان کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا تھا ۔ جدہ کے نہایت پُر خطر موقعوں پر جب جان کا خطرہ بھی تھا وہ برابر ہمت بڑھاتے رہتے تھے۔مکلا،سوڈان، جدہ اور قاہرہ میں ہر جگہ وہ ساتھ تھے افسوس اس وفد کے تین ممبروں میں دو مولانا عبد الماجد بدایونی اور مولانا عبد القادر قصوری چل بسے ، اب صرف ایک باقی رہے معلوم نہیں وہ بھی کئی دن کے لیے۔(معارف،دسمبر 1942ء/ ذی قعدہ 1361ھ ۔ یادرفتگان ، ص:241۔242)

علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری

علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ مصنف رحمۃ للعالمین بلند عالم دین،مفسر قرآن ، بلند پایہ محدث، مورخ،محقق اور سیرت نگار تھے ان کے اخلاق وعادات اور سیرت وکردارکے بارے میں سردیوان سنگھ مفتون ایڈیٹراخبار’’ریاست‘‘ لکھتے ہیں کہ

’’ جس نے انسانوں میں فرشتہ دیکھنا ہے وہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری کو دیکھ لے۔‘‘

مولانا ابو علی اثری قاضی صاحب اور سید صاحب کے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

قاضی محمد سلیمان صاحب منصورپوری منصف رحمۃ للعالمین ندوۃ العلماء کے ایک دیرینہ رکن تھے۔ اسی وساطت سے سید صاحب کو ان سے تعارف ہوا اور اس تعارف نے آہستہ آہستہ اُنس ومودت اور اخلاص ومحبت کی صورت اختیار کر لی جب ملاقات ہوجاتی تو دیر تک دونوں بزرگ ہم ذوقی کا لطف اٹھاتے۔ سیرت، جدید مناظرات، کلام اور محاسن اسلام کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو رہتی اور اس لطف میں تھوڑی دیر کے لیے ہر چیز فراموش ہوجاتی۔(سید سلیمان ندوی، ص:208)

قاضی صاحب کی رحلت پر سید صاحب نے معارف میں تعزیتی شذرہ لکھا ، ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔

وہ مشرقی فاضل جس کی موت پر آج ہم کو ماتم کرنا ہے، وہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری سابق جج پٹیالہ اور سیرت کی مشہور کتاب’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے مصنف ہیں ۔ وہ علم وعمل،زہد وکمال اور فضل وورع دونوں کے جامع تھے ، روشن دل اور دماغ تھے ان کے جدید وقدیم دونوں خیالات حد اعتدال پر تھے۔ عربی زبان اور علوم دین کے مبصر عالم تھے۔ توراۃ وانجیل پر فاضلانہ وناقدانہ نگاہ رکھتے تھے۔ غیر مسلموں سے مناظرہ کے شائق تھے مگر ان کے مناظرہ کا طرز سنجیدگی،متانت اور عالمانہ وقار کے ساتھ تھا۔ مسلکاً اہل حدیث تھے مگر اماموں اور مجتہدوں کی دل سے عزت اور ان کی محنتوں اور جاں فشانیوں کی پوری قدر کرتے تھے۔ (معارف ، جولائی 1930ء ۔ یادرفتگان ، ص:106)

قاضی صاحب 1348ھ میں حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اور واپسی پر جہاز میں وفات پائی اور ان کی نعش سمندری لہروں کے سپرد کر دی گئی۔

دریں بحر کشتی فرد شد ہزار

کہ پیدا نشد تختہ بر کنار

مولانا سلامت اللہ جیراج پوری

مولانا سلامت اللہ صاحب حافظ محمد اسلم جیراج پوری استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاد تھے ، مولانا سلامت اللہ آخر میں نواب صدیق حسن خاں کی طلب پر بھوپال چلے گئے تھے۔ نواب صاحب نے وظیفہ کر دیا تھا اور بھوپال کے بعض مدرسوں کے اہتمام کی خدمت سپرد کر دی تھی۔ 1322ھ / 1904ء میں وفات پائی ہمارے استاد مولانا حفیظ اللہ صاحب بھی ان کے ابتدائی شاگردوں میں ہیں۔ (حیات شبلی ، ص:100)

مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی

مولانا عبد الحلیم شرر بلند پایہ عالم دین ، صاحب تصانیف کثیرہ اور نامور صحافی تھے۔ان کا سن ولادت 1860ء ہے آپ کا جن اخبارات ورسائل کے ساتھ تعلق رہا ، ان کے نام یہ ہیں:

اسسٹنٹ ایڈیٹر اودھ اخبار

ایڈیٹر ماہنامہ دلگراز لکھنو

مولانا شرر نے 1926ء میں وفات پائی۔

علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

مولانا شرر اپنے نظری مسلک کے لحاظ سے فقہاء اہلحدیث اور عقیدہ اشعری تھے مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ (حیات شبلی ، ص:826)

مولانا شرر کی وفات پر سید صاحب نے معارف میں جو مضمون تحریر فرمایا ، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی ایڈیٹر دلگراز انشاپردازوں میں سب سے پرانے انشاپرداز تھے، 71 برس کی عمر میں بعارضہ فالج وفات پائی۔ مولانا کا میلان زیادہ تر اہلحدیث کے مسئلہ کی طرف تھا اور عقائد میں وہ سخت غالی اشعری تھے ۔ امام ابو الحسن اشعری سے ان کو خاص عقیدت تھی ، وہ عربی ادب، محاضرات وتاریخ کے بھی ماہر تھے ، مرحوم اخلاق کے لحاظ سے باوضع خاکسار، پابند اوقات اور ملنسار تھے ، چھوٹوں سے ملنے میں ان کی عزت وتعظیم اور ان کے کارناموں کی قدر شناسی میں کبھی کوتاہی نہ کرتے تھے۔ دلگرازجو ان کا خاص رسالہ تھا ، جس میں زیادہ تر تاریخی مضامین اور قصص شائع کیا کرتے تھے ، ہماری زبان کے نامور مصنف،ہندوستان کا فخر اور لکھنو کی آبرو تھے، ان کے فانی جسم نے مفارقت کی مگر ان کی ابدی زندگی ان شاء اللہ ہمیشہ قائم اور باقی رہے گی۔ (یادرفتگان ، ص: 74تا 76)

(جاری ہے)

قصہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے بچپن سے بلوغت تک کا۔۔۔!!

پیارے بچو! اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور یہ ایک سنسان بیابان علائقہ تھا یہاں پہنچ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑ کر جانے لگے توسیدہ  حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ! ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیاباں میں اکیلے تنہا چھوڑ کر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہہی  نہیں کی ، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا سیدہ ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں : اے اللہ کے خلیل ! آپ ہمیں کسے سونپ کر جا رہے ہیں ؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا : اللہ تعالیٰ کو ہی سونپ کر جارہا ہوں ! تو سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہا : اے اللہ کے خلیل ! کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! مجھے اللہ کا ہی حکم ہے یہ سن کر ام اسمٰعیل علیہ السلام کو تسکین ہوئی اور فرمانے لگیں : پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا ہمارا اس پر بھروسہ اور ہمیں اسی کا ہی سہارا ہے ۔ حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور نبی ابن نبی کو گود میں لے کر اس سنسان و بیابان علاقہ میں  لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ جاتی ہیں ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ(جگہ کا نام ہے) کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب سیدہ ہاجرہ پیچھے دیکھ نہیںسکتیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا :

 رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ (ابراہیم:37 )

 الہ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد زمین میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ اس دعا کے بعد اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوکر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ادھر سیدہ ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا کوئی گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے تو کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا  یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہم جاتی ہے معلوم ہے کہ اس بھیانک جنگل میں کسی انسان کا گزر نہیں ہونا ، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کیا؟ پانی کا ایک گھونٹ بھی میسر نہیں  آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ واپس پلٹتی ہیں اور کسی کو نہ پا کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھتی ہیں جس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب سیدہ ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ہے ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں سیدنا جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں  ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لڑکے اسماعیل کی ماں ! فرشتہ پوچھتا ہے : ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ کر گئے ہیں؟ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام فرماتی ہیں : اللہ تعالی کو سونپ کر گئے ! اس پر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: پھر تو وہ اللہ کافی و شافی ہے سیدہ ہاجرہ نے کہا : اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا میرا کچھ مسئلہ بھی حل ہو گا ؟ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا ۔ سیدہ ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ ام اسمٰعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب سیدہ ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہا : تم فکر نہ کرو اللہ تمہیں ضائع نہیں کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا سیدہ ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتاتھا اور یہاں امن رہتا تھا کچھ مدت کے بعد اتفاقاً جرہم قبیلے کا ادھر سے گزر ہوا اور یہ قبیلہ مکہ شریف کے نیچلے حصے میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاںسے آیا؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی کو حقیقت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور سیدہ ہاجرہ علیھا السلام سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہےہم بھی اسکی ہی تلاش میں نکلے ہوئے ہیںسیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا : ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں : ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا سیدنا اسمٰعیل بھی بڑے ہوئے تو ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہوئی یہاں جب آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی سیدہ  ہاجرہ علیہالسلام کا انتقام یہیں ہوا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے یہاں آئے تو سیدنا اسمٰعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ کہا : برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا : اچھا تمہارے خاوند آئیں تو انہیں سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے؟ بیوی نے کہا : ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزارا کیسے ہوتا ہے؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزارا ہوتا ہے پوچھا : کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں؟ بیوی نے کہا : ہاں کہہ کر گئے ہیں کہ وہ جب آئیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں آپ فرمانے لگے : بیوی سنو! یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ( تم نے ناشکری کی ہے لہذا ) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا ایک مدت کے بعد پھر سیدنا ابراہیم باذن الٰہی یہاں آئے اس بار بھی اتفاقاً سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہو سکی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے ، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ گزارا کیسے ہوتا ہے ؟ کیا حال ہے؟ جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے سیدنا ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو؟ جواب ملا پانی آپ نے دعا دی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو سیدنا خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور اباد رکھے بعد ازاں حضرت اسمٰعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے کر گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں ( تم شکر گزار ہو )

پیارے بچو!  ہمیں سیدنا ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام کے اس عظیم قصے سے مندرجہ چند نصحتیں حاصل ہوئی ہیں ۔

1: اللہ تعالی کی آزمائش بچپن میں بہی آ سکتی ہے۔

2: اللہ عزوجل اپنے آزمانے والوں کو کبہی بہی تنہا نہیں چھوڑتے اور نہ ہی چھوڑیں گے۔

3:اللہ تعالی پر توکل کرنے والے کبھی بھی بھوکے اور پیاسے نہیں رہتے۔

4:صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

5:مخلوق میں ماں کی محبت بے مثل ہے۔

6:مومنین و مومنات کی مدد کےلیے اللہ تعالی کی طرف سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

7:(ہر حال میں بالخصوص) تکالیف مصائب میں اللہ تعالی سے دعا مانگنی چاہیئے۔

8:شکر گذاروں کا بہترین بدلہ ہے۔

9:ناشکری پر خطرناک سزائیں ہیں۔

10:والدین کی پوری طرح اطاعت کرنی چاہیئے، اگرچہ انکے کہنے پر بیوی کو طلاق دینی ہی پڑے۔

11:اللہ تعالی دعائیں ضرور اور جلد ہی قبولتے ہیں ۔

پیوستہ رہ شجر سے اُمید بہار رکھ

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ (صحيح مسلم2623، سنن ابي داود:4983)

’’ جس نے یہ کہا لوگ برباد ہوگئے وہ ان سے زیادہ برباد ہونے والا ہے۔‘‘

حدیث مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ ناامیدی کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ مؤمن کی یہ شان ہے کہ اس کی زندگی ورجاء(امید) کے درمیان گزرتی ہے ، رب کائنات نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت کی امید دلائی ہے ۔ فرمایا

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر:53)

’’(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

جب تک امید کی ڈور انسان کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ فلک روشن ستاروں،زمین بھر کے شراروں،بحر ظلمات کے دھاروں،طوفانوں،اندھیروں سے بھی الجھ جاتاہے اور دنیا کی کوئی بھی رکاوٹ اس کے حوصلہ کو پست نہیں کر سکتی بلکہ وہ سمندر کے سینہ کو چیرتا ہے اس گہرائی میں لعل وگُہر تلاش کرتاہے ، ہواؤں اور فضاؤں میں اڑتا ہے،  پہاڑوں کی چوٹیوں کو سرکرتا ہے جب تک اس کے ہاں امیدوں کے چراغ روشن رہتے ہیںنتائج کو مقدر کے حوالے کرکے جہد مسلسل کرتا رہتاہے اس کے ارادے پختہ رہتے ہیں پاؤں منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں اکیلا ہی اپنی دنیا وآپ پیدا کرنے میں لگا رہتاہے۔ آنکھوں کے بغیر زندگی گزاری جاسکتی ہےلیکن امید کے بغیر نہیں ، جب تک انسان کے دل میں امید کا دِیپک جلتا رہتاہے جس کو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں اسے اپنے پاؤں تلے روندنے کی جدوجہد کرتا رہتاہے اور تپتے ہوئے صحرا میں کھڑا، فصل ،گل کے انتظار میں تپش کو کسی خاطر میں نہیں لاتا دین اسلام ہمیں امید،جہد مسلسل اور عمل پیہم کا سبق دیتاہے۔

دیکھیے ! جب کفار مکہ کا ظلم حد سے بڑھا تو نبی کریم ﷺ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لیکر اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہیں مکہ سے نکل کر غارثور میں پناہ لیتے ہیں دشمنان دین تلاش کرتے ہوئےغار کے منہ پہ آکھڑے ہوئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شدت خوف سے روپڑتے ہیں کہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ اگر یہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم صاف نظر آجائیں گے۔

نبی کریم ﷺ کہتے ہیں کہ ان دو کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔

رب کائنات نے اس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا

اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:40)

’’جب آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے ہیں غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

قرآن مجید میں جگہ جگہ ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اللہ کی

رحمت سے کبھی بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔ آیئے قرآن

مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پہ مختصرنظر ڈالتے

ہیں جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی خاطر لیکر نکلتے ہیں اور فرعون اپنی فوج لیکر پیچھے آجاتاہے بنی اسرائیل والے کہتے ہیں (( اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ )) موسی اب تو ہم پکڑے گئے لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام رب کائنات کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں

كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ (الشعراء : 62)

’’ ہرگز نہیں ، میرا رب میرے ساتھ ہے۔‘‘

اللہ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے بحیرہ قلزم میں ڈنڈا مارا اس میں شاہرائیں بن گئیں ۔ بنواسرائیل نے آسانی سے سمندر کو عبور کر لیا اور فرعون اور اس کی فوج کو غرق کر دیا۔

رب کائنات فرماتے ہیں کہ

وَاَنْجَيْنَا مُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗٓ اَجْمَعِيْنَ  ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ    (الشعراء : 65۔66)

’’موسی اور اس کے ساتھیوں کو ہم نے بچالیا اور دوسرے گروہ کو وہاں غرق کر دیا۔‘‘

کبھی کبھی تاریکیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں ، ظلمت شب میں کچھ سجھائی نہیں دیتا لیکن اللہ کے بندے رب رحیم کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ، دامنِ امید کو چاک نہیں ہونے دیتے ۔ بارگائہ الٰہی میں سحر ہونے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ غم رات آخر رات ہی تو ہے اندھیرے کے بعد اُجالا ، رات کے بعد سویرا ، غمی کے بعد خوشی، تنگی کے بعد آسانی، فراق کے بعد وصال اور رب کریم کے اس وعدہ پہ پختہ یقین ہوتاہے کہ

إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الانشراح:6)

’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔‘‘

سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اپنے دو بیٹوں سیدنا یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے غم فراق میں رو،رو کر آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ہے لیکن اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوتے، رب کائنات فرماتے ہیں کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے کہا

 اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (یوسف:86)

’’ میں اپنی پریشانی او رغم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ ‘‘

رب کائنات فرماتے ہیں کہ پھر آپ اپنے بیٹوں کو مخاطب ہوئے

يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ   (یوسف:87)

’’میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔‘‘

آخر کار رحمت باری تعالیٰ جوش میں آتی ہے ، سیدنا یعقوب علیہ السلام کی رب کائنات بینائی بھی لوٹا دیتے ہیں اور دونوں بیٹے بھی مل جاتے ہیں۔

امید، عزم وہمت اور حوصلہ کا نام ہے ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ۔

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

امید یہ ہے کہ شکست خوردہ بادشاہ ظہیر الدین بابر پے درپہ شکستوں کے بعد ناامید ہوکر ایک جنگل میں پناہ لیتاہے ، درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھا گردش ایام کی تلخیوں کو یاد کر رہا ہوتاہے کیا دیکھتاہے چیونٹی درخت پہ چڑھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے اور ہوا کا جھونکا اسے پھر نیچے پٹخ دیتاہےمگر ہمت نہیں ہارتی اور مسلسل کوشش کرتی رہتی ہے آخر کار چیونٹی درخت پر چڑھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ظہیر الدین کہتا ہے کہ یہ تو ایک کمزور چیونٹی تھی جو اپنے مشن میں کامیاب ہوکے رہی۔ مجھے دوبارہ ہمت اور کوشش کرنی چاہیے پھر سے اپنی بکھری ہوئی فوج کو جمع کیا اور ہندوستان پہ ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ ہندوستان کی حکمرانی اس کے قدموں میں آگری اور وہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا، ہمت مرداں مدد خدا۔

شوق برہنہ پہ چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ جب اسلام قبول کر چکے تو دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ میرا قبیلہ دوس اگر اسلام قبول کرلے تو کتنا ہی اچھا ہے واپس قبیلہ میں جاتے ہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں لیکن کوئی بھی اس پہ لبیک کہنے کے لیےتیار نہیں ہوتا مایوس وناامید ہوکر رحمت عالم ﷺ  کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ میں دوس والوں کو اسلام کی دعوت دی لیکن انہوںنے قبول کرنے سے انکار کر دیا آپ ان کے لیے بددعا کریں لیکن آپ ﷺ رحمت خداوندی سے ناامید نہیں ہوئے فوراً ہاتھ اٹھاتے ہیں پاس بیٹھنے والے کہتے ہیں لو اب دوس والے ہلاک وبرباد ہوگئے لیکن آپ کہتے ہیں

اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا (صحیح البخاری:2937)

’’یا اللہ! دوس والوں کو ہدایت نصیب فرما۔‘‘

لہٰذا سارے کا سارا قبیلہ مسلمان ہوکر دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوجاتاہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کے حلقۂ حدیث میں بیٹھا حدیث مبارکہ کا درس لے رہا تھا کہ وہ کہنے لگے کہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایسا ہو جو صحیح احادیث نبویہ کا مجموعہ تیار کرے امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ

فَوَقَعَ فِي قَلْبِي (فتح الباري)

یہ بات میرے دل کو ایسی لگی کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں ہی وہ شخص ہوں گا پھر امام بخاری نے    صحیح احادیث کا ایسا مجموعہ تیار کیا جس پر سب علماءِ امت کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح البخاری ہے۔

اس سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ ہمیشہ بچوں کو امید کا درس دینا چاہیے اور نہ ہی اس طرح کہنا چاہیے کہ تم لوگ کچھ نہیں کرسکتے خوامخواہ وقت ضائع کر رہے ہو۔

تربیت کا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ امید کی کرن دکھائی جائے حوصلہ افزائی کی جائے اس سے جذبے جوان ہوتے ہیں ۔ ایک دن شمس الدین محمد بن حمزہ عثمانی شہزادے محمد الفاتح کو حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے جب اس حدیث پہ پہنچے

لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ (مسند أحمد:18957، مستدرك للحاكم : 8300)

’’ تم قسطنطنیہ کو فتح کرکے رہو گے کتنا ہی اچھا اس کا امیر(سپہ سالار) ہوگا اور کتنی ہی اچھی وہ فوج ہوگی۔‘‘

اس حدیث کو پڑھانے کے بعد خلافت عثمانیہ کے اس شہزادے یعنی محمد الفاتح کو کہنے لگے میں اللہ سے امید کرتاہوں کہ تم ہی وہ امیر(سپہ سالار) ہوگے جو قسطنطنیہ کو فتح کرو گے۔ استاذ نے اپنے شاگرد کے دل میں امید کا ایسا چراغ جلایا کہ جس کو گردش ایام گُل نہ کرسکا اور پھر یہ نوجوان محمد الفاتح خلافت عثمانیہ کی مسند پہ بیٹھتا ہے استاذ کی کہی ہوئی بات کو اپنا مقصدِ حیات بنالیتاہے اور قسطنطنیہ موجودہ استنبول کو فتح کرکے نعم الامیر کا مستحق ٹھہرتاہے ۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیر ہے ساقی

سب مقصدوں کی سرتاج،آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کی خویش،آرزوں کی جان، حوصلوں کی رہبر امید ہی تو ہے اگر امید کا لہلہاتا ہوا باغ ہمیشہ سرسبز وشاداب نہ رہے تو لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے۔

عقیدۂ توحید اور شبہات کا ازالہ قسط 2

شبہ

ریاست کا بادشاہ امور حکومت سرانجام دینے کے لیے اپنے عملہ کو اختیار سونپتا ہے چنانچہ رعایا کا ضرورت کے وقت ان کی طرف رجوع کرنا بغاوت نہیں ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کے سپرد بھی کائنات  کا انتظام کیا ہوا ہے اس لیے ضرورت کے وقت ان سے امداد طلب کرنا جائز عمل ہے ۔

ازالہ :

پہلی بات اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دینا قطعاً درست نہیں دوسری بات یہ ہے کہ مخلوق کی قوت سماعت اور بصارت وبصیرت محدود ہے اسے نظام حکومت چلانے کے لیے عملہ کی ضرورت رہتی ہے جسے وہ اپنی طرف سے اختیار سونپتا ہے پھر وہ ان کی مدد سے رعایا کے مسائل حل کرتاہے۔ اللہ سمیع وبصیر اور قدیر ہے ، مخلوق دل میں یادکرے یا مسجد میں جاکر سجدہ کرے ، پہاڑ کی چوٹی پر یا سمندر کی تہہ  میں مدد طلب کرے اللہ تعالیٰ ان کی حرکات وسکنات کو دیکھ رہا ہے اور ان کی پکار کو سن رہا ہے بلکہ وہ ان کی مشکلات حل کر دیتاہے اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

بنی نوع انسان میں بلند مرتبہ وذوی وقار انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تاہم انہیں خدائی اختیارات نہیں دیئے بلکہ وہ ہر مشکل وقت میں رب سے ہی مدد طلب کرتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات کا ظہور اللہ کے حکم سے ہوتاتھا وہ ہمہ وقت قادر نہ تھے مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ ملا اور وہ ہر دفعہ فرماتے ’’قُم بِإذنِ اللہِ ‘‘ نہ کہ یہ  کہتے کہ میرے حکم سے اٹھو، عیسائیوں نے کچھ عرصہ بعد انہی معجزات کی بنا پر ان کو الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو قرآن مجید کے ذریعے آپ ﷺ نے اعلان فرمایا

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ  اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا

’’ بچہ(سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھےنبو ت کے منصب پر فائز کیا ہے ‘‘ (مریم:30)

فرشتوں میں سے بعض کو فضیلت حاصل ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیارات نہیں دیئے بلکہ ڈیوٹی عائد کی ہے مثلاً جناب میکائیل علیہ السلام کے ذمہ بارش برسانا ہے خشک سالی کے دوران لوگ بارش کے لیے میکائیل کو نہیں پکارتے کیونکہ وہ اللہ کے حکم کے تابع ہے وہ خود بارش برسانے پر قادر نہیں۔

نبی کریم ﷺ کے بعد محدثین کرام، آئمہ کرام اور اولیاء کرام نے دین اسلام کو سینہ بہ سینہ دوسری نسل تک پہنچایا اور ان کا تزکیہ نفس احسن انداز میں کیا وہ سب واجب الاحترام ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو خدائی اختیارات نہیں دیئے یہی وجہ ہے کہ ہمیں تلبیہ میں(لَا شَرِيكَ لَكَ)پڑھنے کا حکم ہے مگر اس کے ساتھ(إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ) ’’ہاں ! شریک ہے اور وہ بھی تو تیرا ہی ہے تو اس کا مالک ہے وہ خود کسی چیز کا مالک نہیں ‘‘ پڑھنا حرام ہے۔

شبہ

غیر اللہ سے مدد مانگنے کے ثبوت میں قرآن فرماتاہے

 اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ (الانفال:62)

’’اے نبی ﷺ ! آپ کو اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے قوت بخشی۔‘‘

پھر فرمایا :  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال:64)

’’ اے نبی ﷺ! آپ کو اللہ اور آپ کے پیروکار مسلمان کافی ہیں۔‘‘

پھر فرمایا:ـ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

’’ رسول کے مددگار اللہ،جبریل اور متقی مسلمان ہیں بعد میں فرشتے ان کے مددگار ہیں۔‘‘(التحریم:4)

ازالہ

اللہ مسبب الاسباب ہے وہ جبریل ودیگر فرشتوں اور اہل ایمان کے ذریعے انبیاء کرام کی مدد کرنے پر قادر ہے آگ کی فطرت جلانا ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے شعلوں میں ڈالا گیا تو وہی آگ گلزار بن گئی کیوں؟ پانی کا کام ڈبونا ہے مگر اس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بچپن میں پنگھوڑے کا کام کیا کیوں؟ دریائے نیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے راستے بنادیئے لیکن فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا کیوں؟ بڑی مچھلی چھوٹے آبی جانوروں کو ہڑپ کرکے خوراک کا حصہ بنالیتی ہے لیکن اس نےسیدنا یونس علیہ السلام کو ذرہ بھر تکلیف نہ دی کیوں ؟ زمین وآسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے اس کے حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، اسی ہستی نے آگ کو گلزار بن جانے کا حکم دیا،پانی کو جھولنے کا حکم دیا سیدنا موسیٰ کو بچانے اور فرعونی لشکر کو غرق کرنے کا پانی کو حکم دیا، مچھلی کو حکم دیا کہ میرا یونس تیرا مہمان ہے اسے نقصان نہ پہنچے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت شاہد ہے کہ محبوب کبریاء ﷺ نے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد طلب نہیں کی بلکہ اللہ سے مدد طلب کرتے رہے ، اللہ مسبب الاسباب نے جبریل،فرشتوں اور مومنین کے ذریعے ان کی مدد کرتا رہا ۔

شبہ

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا جرم نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام علیہم السلام نے مومنین سے مدد طلب کی ہے

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ    (محمد:7)

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (آل عمران : 52)

’’ مسیح نے کہا کہ کون ہے جو مدد کرے میری طرف اللہ کی، کہا حواریوں نے ہم مدد کریں گے اللہ کے دین کی۔‘‘

ازالہ :

اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کا مومنین سے مدد طلب کرنے کا نظریہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے دراصل اللہ نے اپنے بندوں کو دار الامتحان میں کامیابی کے نسخے سے آگاہ فرمایا ہے ، اللہ قادر مطلق تو کلمۂ ’’کُن‘‘ کہہ کر ہر کام کرنے پر قادر ہے ، فرشتے اس کی حمد وتسبیح بیان کرتے ہیں اور ہمہ وقت خالق کے حکم کے منتظر رہتے ہیں انہوں نے اپنے رب سے اشارہ ملنے پر کفار کی بستیوں کو اُلٹ پلٹ کرکے تباہ وبرباد کر دیا ، کبھی حکم ملنے پر مومنین سے مل کر مشرکین سے لڑتے رہے وہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں، فرشتوں کو بہکانے والا کوئی نہیں جبکہ شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتاہے اللہ رحیم وکریم نے بنی نوع انسان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے اللہ کےدین کو غالب کرنے کے لیے بے پناہ  جدوجہد کی،طاغوت اور اس کے چیلوں نے بھرپور مخالفت کی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہے تو مچھر کو حکم دے کر نمرود کا غرور خاک میں ملا دے اور دریائے نیل کو حکم دے کر طاغوتی چیلوں کو غرق کر دے ، وہ چاہے تو اپنے بندوں کو امتحان میں ڈال کر طاغوتی لشکر سے ٹکرادے اورامتحان  لے کہ کون ثابت قدم رہ کر اس کے نبی کا ساتھ دیتاہے؟

بلاشبہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (آل عمران : 52)

’’ مسیح نے کہا کہ کون ہے جو مدد کرے میری طرف اللہ کی ، کہا حواریوں نے ہم مدد کریں گے اللہ کے دین کی۔‘‘

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کرنے کا مطلب اللہ کے دین کی نصرت ہے۔

اللہ ذوالجلال نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ    (محمد:7)

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

اس آیت میں بھی اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی نصرت یعنی غلبۂ اسلام کی جدوجہد ہے، جن مسلمانوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مل کر جہاد کیا موجودہ دور میں جدوجہد کررہے ہیں قرآن نے خوشخبری دی ہے کہ اللہ بھی ان کی دنیا وآخرت کی مشکلات کو حل کرنے میں مدد کرے گا۔

شبہ

تم منع کرتے ہو جبکہ اللہ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔

عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ:2)

’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو گناہ اور ظلم وزیادتی میں امداد نہ کرو۔‘‘

ازالہ

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، وہ ماں باپ کے سہارے کے بغیر بھی بچے کی پرورش کا بندوبست کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس طرح اس بچے کو رزق فراہم کیا جو سمندر کی لہروں میں تیرتے ہوئے تختہ پر تنہا عورت کے ہاں پیدا ہوا تو اس کی ماں کی روح قبض ہوگئی تاریخ میں وہی بچہ بڑا ہوکر شداد کہلایا اور خدائی کا دعویٰ کرتارہا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی نوع انسان میں باہمی الفت ومحبت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ایک دوسرے کا دست نگر بنایا بچپن میں بچہ والدین کی شفقت کا محتاج اور والدین بڑھاپے میں اولاد کے سہارے کے محتاج۔ اس طرح امتحان لینا مقصود ہے کہ آیا وہ دکھ ورنج اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مدد وتعاون کرتے ہیں یا نہیں ؟

ایک شخص رات کے وقت درد کی شدت سے کراہ رہا ہو ، بچہ نہرمیں ڈوب رہا ہو ، دوکان میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی، سڑک پر حادثہ رونما ہوا، زلزلہ کی وجہ سے لوگ ملبہ کے نیچے دب گئے ، سیلاب کے ریلے نے بستی کے باشندوں کو گھیر لیا ہو ان ناگہانی مواقع پر اللہ تعالیٰ آزماتاہے اُن لوگوں کو جنہوں نے مفلوک الحال لوگوں کی چیخ وپکار کو سن لیا یا دل خراش منظر کا چشم دید مشاہدہ کر لیا کہ وہ ان مظلوم لوگوں کی حتی المقدور مدد کرتے ہیں یا کنارہ کشی کرتے ہیں ؟

اگر کوئی مدد کرتا ہے معاشرے میں سماجی کارکن بننے کے شوق میں یا الیکشن کے دوران ووٹ کی پرچی کے لیے یا مستقبل میں ذاتی مفاد کے لیے تو یہ ریاکاری ہوگی اگر کوئی انسان مظلوم انسانوں کی مدد کرتاہے اور جانوروں پر رحم کرتاہے صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوجاتاہے اور اس کے کاموں میں مدد کرتاہے۔

بنی اسرائیل کی فاحشہ عورت نے گرمی کی شدت میں تڑپتے کتے پر ترس کھاتے ہوئے  پانی پلایا تو اللہ کی مدد سے وہ ہدایت کی نعمت سے سرفراز ہوگئی۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اور برائی کے کاموں میں مدد کرنا طاغوت کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔

شبہ

اولیاء کرام اور انبیاء کرام علیہم السلام سے مدد مانگنا جائز ہے قرآن مجید میں ہے

وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (البقرۃ:23)

’’ اللہ کے سوا اپنے سارے حمایتیوں کو بلالو۔‘‘

ازالہ

یہ قرآن ان تمام لوگوں کے لیے چیلنج ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو الٰہ مانتے ہیں کہ تم سب اپنے حمایتیوں اور دوستوں کو بلا لو کہ اس قرآن کی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں یہ تونبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والے زندہ وتابندہ معجزے کی حقانیت کی دلیل ہے۔ سلف میں کسی نے اس آیت سے نتیجہ اخذ نہیں کیا کہ مسلمان کسی مشکل میں پھنس جائیں تو وہ غیر اللہ کی حمایت میں غائبانہ پکار سکتے ہیں ، اولیاء اللہ اور انبیاء کرام علیہم السلام سے مدد مانگنا مذکورہ آیت سے ثابت کرنا قطعاً درست نہیں ۔

شبہ

حضرت ذوالقرنین نے آہنی دیوار بناتے وقت لوگوں سے مدد طلب کی  فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ (الکہف:95)

’’ مدد کرو میری ساتھ قوت کے ۔‘‘

ازالہ

حضرت ذوالقرنین فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مشرق کی آخری آبادی پر پہنچے جہاں دو پہاڑ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے ان کے درمیان کھائی تھی جس سے یاجوج ماجوج اِدھر آبادی میں آجاتے اور قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ۔مقامی لوگوں نے ان کی دراندازی روکنے کے لیے حضرت ذوالقرنین سے درخواست  کیا تو انہوں نے دو پہاڑوں کے سروں کے درمیانی خلا میں دیوار تعمیر کا منصوبہ بنایا مگر اس شرط کے ساتھ کہ تم لوگ بھی دیوار تعمیر کرنے میں اسباب یعنی تعمیراتی سامان اور رجال کار کے ساتھ میری مدد کرو چنانچہ حضرت ذوالقرنین نے غیر اللہ سے غیبی قوت کی مدد طلب نہیں کی بلکہ ان سے ظاہری تعمیراتی اسباب کی مدد طلب کی ۔

شبہ

اللہ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ(البقرۃ:45)

’’مدد طلب کرو ساتھ صبر اور نماز کے ‘‘۔ نماز اور صبر بھی تو غیراللہ ہیں۔

ازالہ

نماز اور صبر زندہ یا فوت شدہ کسی جن وانس کانام نہیں بلکہ نماز رب کے دربار میں عجز وانکساری کا عملی اظہار ہے اور صبر کا مفہوم مصیبت کے وقت رب کے فیصلہ پر رضا مندی کا مظہر ہے۔ قرآن کی دعوت کا منشا یہ ہے کہ خوشی میسر ہو تو رب کا شکریہ ادا کرنے کےلیے نفل پڑھو خدانخواستہ رنج پہنچے یا کسی مشکل میں مبتلا ہوجاؤ تو بے صبری کا مظاہرہ کرکے کسی غیر اللہ کے آستانہ پر حاضری یا نذرانہ دینے کی منت نہ مانو بلکہ صبر کا دامن تھام لو اور خشوع وخضوع سے نماز پڑھ کر رب سے مدد طلب کرو کیونکہ نماز اور صبر سے مدد طلب کرنا اللہ کا حکم اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔

شبہ

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تبلیغ کے لیے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو عرض کیا

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ هٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ (طہ:29۔31)

’’ اے میرے رب !میرے بھائی کو نبی بنا کر میرا وزیر کر دے میری پشت کو ان کی مدد سے مضبوط کردے۔‘‘

ازالہ

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھائی سے مدد طلب نہیں کی بلکہ رب کے سامنے دعا کی۔ دراصل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے بندگی کا اظہار ہے کہ اے اللہ اکیلا ہونا تیری ذات کو سجتا ہے تو میرے بھائی کو نبوت سے سرفراز فرما تاکہ ہم دونوں مل کر فرعون کو حق کی دعوت دیں ۔

اعتراض

قرآن حکیم میں ارشاد ہے

اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ  (محمد:7)

’’ اگر مدد کروگے تم اللہ کے دین کی مدد کرے گا وہ تمہاری۔‘‘

اس میں خود رب تعالیٰ نے جو غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب فرمائی ۔ رب تعالیٰ نے میثاق کے دن ارواح انبیاء سے نبی کریم ﷺ کے بارے میں عہد لیا

لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ  (آل عمران :81)

’’ تم ضروربہ ضرور ان پر ایمان لانا اور ضروربہ ضرور ان کی مدد کرنا۔‘‘

ازالہ

ظہور قدسی سے قبل وعظ ونصیحت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔خاتم النبیین ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا چنانچہ اللہ نے امت مسلمہ پر ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں کو پیغام حق پہنچانے کے لیے وقت جان ومال کی قربانی دے کر مدد کریں جن لوگوں نے دین حق کی تبلیغ میں مدد کی اللہ نے دنیا وآخرت میں ان کی مدد کا وعدہ کیا ۔ یَنصُرکُم

اللہ نے عالم ارواح میں انبیاء کرام علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول آجائیں تو ان پر ایمان لے آنا اور دین کے غلبہ میں حتی المقدور ان کی مدد کرنا چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے کیے وعدہ کی تکمیل کے لیے قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور شریعت مصطفیٰ ﷺ  کے نفاذ کے لیے تمام ترصلاحیتیں صرف کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اشاعتِ اسلام کے لیے سرگرم لوگوں کے لیے بے حد اجر وثواب کا اعلان کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر مثال پیش کرکے امت محمدیہ ﷺ کو تنبیہ فرمائی ہے

وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ

’’اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں۔‘‘ (التحریم :4)

اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد کرنے والے انبیاء واولیاء کی نصرت کرنا حقوق اللہ کی ادائیگی ہے جبکہ زندہ انسانوں کا زندہ انسانوں کی مشکل ومصیبت کے وقت مدد کرنا حقوق العباد میں شامل ہےچنانچہ زندوں کا زندہ حاضر انسانوں کو مشکل ومصیبت کے وقت بلاناجائز ہے لیکن مافوق الاسباب طریقے سے اللہ کے علاوہ کسی اور کو غائبانہ مدد کے لیے پکارنا حرام ہے کیونکہ دعا اور نذر ونیاز خالص اللہ کے لیے ہے۔

اگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحیں مدد کرنے پر قادر ہوتیں تو بدر،احد اور حنین میں انبیاء کرام کی روحوں نے آکر عالم ارواح میں کیے ہوئے وعدہ کی تکمیل کرنے کے لیے مدد کیوں نہ کی؟

(جاری ہے)

کتابت حدیث عہد نبوی ﷺ میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ وحدہ والصلاۃ
والسلام علی من لا نبی بعدہ أما بعد ، قال اللہ تبارک وتعالی
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

ایک دوسری جگہ فرمایا :

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا    (الفرقان :33)

’’ اور نہیں وہ لاتے آپ کے پاس کوئی مثال گر ہم آپ کے پا س حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں۔‘‘

حدیث نبوی ﷺ جو احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے دورِ نبوی ﷺ سے ہی مدون ومرتب ہوتا چلا آرہا ہے یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ کے ایک ایک قول،فعل اور تقریر کو محفوظ کرنے کی بہت زیادہ محنت وکوشش کی ۔ ہر صحابی میں اس بات کی خواہش اور تڑپ موجود تھی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو تاکہ احادیث کا علم ہو پھر یہ اصحاب ایک دوسرے سے آپ کے فرامین وہدایات معلوم کیا کرتے تھے۔ ضروریات زندگی اور ناگزیر مصروفیات کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے استفادہ کرنے کا اور حدیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے۔

’’ کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ، باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں آتا دوسرے دن وہ آتا جس دن میں آتا اس دن کی احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ آتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا۔

(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب التناؤب… الحدیث:89)

آخر ایسے کیوں نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کی حفاظت کا ذمہ خوداٹھایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

اور دوسرے مقام پر فرمایا :

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ    اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ    فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ    فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ   (القیامۃ: 16۔19)

’’ آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، تاکہ آپ اسے جلدی(یاد)کرلیں، یقیناً ہمارے ذمے ہے اس کا جمع کرنا(آپ کے سینے میں) اور اس کا پڑھنا (آپ کی زبان سے) سوجب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیجیے پھر یقیناً اس کا واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘

بہر حال جس طرح قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کی ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی حفاظت کی ہے۔ حدیث کی تدوین وترتیب عہد رسالت سے ہی شروع ہوچکی تھی لیکن اب تدوین حدیث کے بارے میں پہلا سوال جوابھر کر ہمارے سامنے آتاہے وہ یہ کہ خود عہدِ نبوی ﷺ میں حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس والہانہ محبت وعقیدت کی بنا پر جو وہ رسول اللہ ﷺ سے رکھتے تھے۔ آب کے ارشادات گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بہت اشتیاق تھا مگر یہ کہنا سراسر حق کی تکذیب ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں احادیث ضبط تحریر میں نہیں لائی گئیں اور کتابت وتدوین کا کام نبی کریم ﷺ کی وفات کے 90 برس بعد شروع ہوا اور اس درمیانی عرصے میں محض زبانی روایات پر بھروسہ رہا۔ حدیث اور تاریخ کی مستند کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط تحریر میں لاتے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو آپ ﷺ کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔

1رسول اللہ ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث

2 آپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث

3 مجلس نبوی ﷺ کے برخواست ہونے کے بعد قلمبند کی جانے والی احادیث

1رسول اللہ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث

1صحیفہ عمرو بن حزم : نبی کریم ﷺ نے زکوۃ،صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی 2/417)

2 سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خلافت میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان صدقات کی تلاش کے لیے اہل مدینہ کے پاس قاصد بھیجا تو وہ مجموعہ احکام صدقات عمرو بن حزم صحابی کے لڑکوں سے مل گیا۔(دارقطنی ، ص:451)

3 صحیفہ عمروبن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمروبن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے پاس موجود تھیں۔

(دارقطنی ، کتاب الزکاۃ ، ص:209)

4عبد اللہ بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے ہوئے استعمال میں نہ لاؤ۔ (ترمذی1/206)

5 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جب مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے کچھ دن آپ کی خدمت میں حاضر رہے جب وطن جانے لگے تو آپ نے ایک صحیفہ لکھوا کر انہیں دیا جس میں نماز،روزہ،شراب اور سود وغیرہ کے احکام تھے۔ ( طبرانی صغیر ، ص:241۔242)

6 دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔ الفاظ یوں ہیں :

 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ (سنن دارمی،ص:393)

’’ بے شک رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرآن کو چھوئے مگر پاک آدمی ہی اور ملکیت سے پہلے طلاق نہیں ہے اور نہیں ہے آزادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘

7 سیدنا ا بن عمر  کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اپنے عالموں کے پاس بھیجنے کیلئے کتاب الصدقہ لکھوائی تھی۔ (ترمذی1/79)

8 خطوط ووثائق : احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور وثیقے ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف اوقات میں بادشاہوں، قبیلوں،سرداروں اور دوسرے لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔

9 جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو عرب اوس وخزرج بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی دس قبیلوں میں منقسم تھے۔ ہر قبیلے کا الگ راج تھا۔ کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا تو آپ وہاں کے باشندوں مہاجرین وانصاری، یہود اور غیرمسلموں سے مشورہ کرنے کے بعد ایک دستورِ مملکت نافذ فرمایا جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق وواجبات کی تفصیل تھی۔ یہ ایک اہم دستاویز تھی جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں، ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کتاب الاموال اور بعد کے مصنفین میں سے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، ابن سید الناس نے سیرت میں مکمل نقل کیا ہے اس دستاویز میں 53 جملے تھے قانون کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ 53 دفعات پر مشتمل دستورِ مملکت تھے۔

2 آپ  کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کاتب حدیث اپنے ایک بیان کی ابتداء یوں فرماتے ہیں

بینما نحن حول رسول اللہ نکتب

’’ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔ ‘‘ ( دارمی ، ص:68)

اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ آپ درمیان محفل تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور جو کچھ آپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے تو یہ بالکل املاء کی شکل ہے اور ساتھ ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی پیش نظر رکھیے۔

’’ کہ رسول اللہ ﷺ کو بات کو دو دو ، تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں سہولت ہو۔‘‘

اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو مہاجرین میں سے ہیں تذکرہ نگاروں نے انہیں ’’العالم الربّانی‘‘ کا لقب دیا ہے ۔ تورات وانجیل کے بھی عالم تھے۔ پھر ان کا زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت عہد رسالت میں ہی مسلم تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ ، 1/356)

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :

بلی فاکتبوھا

’’ کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔‘‘ (ابو داود : 3646)

n اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات نے کتابت سے منع کیا۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ ( سنن ابی داود:3646، حاکم 1/106، مسند احمد 2/207)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘

اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں فرمایا کرتے تھے ۔

فَأَمَّا الصَّادِقَةُ، فَصَحِيفَةٌ كَتَبْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن الدارمی:513)

’’رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے لکھا ہے۔‘‘

اس صحیفہ صادقہ سے بڑی محبت کرتے تھے ، زندگی کا عزیز ترین سرمایہ سمجھتے تھے ، فرماتے تھے :

مَا يُرَغِّبُنِي فِي الْحَيَاةِ إِلَّا الصَّادِقَةُ (سنن الدارمی)

’’صادقہ مجھے زندگی میں بہت زیادہ مرغوب ہے۔‘‘

اب رہا یہ سوال کہ حدیث کی یہ کتاب ’’الصادقہ‘‘ کتنی بڑی اور ضخیم تھی اور اس میں کتنی احادیث درج تھیں اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایات کی تعداد 5374 ہے ، فرماتے ہیں :

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُبُ (صحیح البخاری مع فتح الباری ، رقم الحدیث: 113، کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم)

’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو آپ ﷺ سے زیادہ روایات بیان کرنے والا ہو میری بنسبت سوائے سیدنا عبد اللہ بن عمرو کے کیونکہ بیشک وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘

n اس بات کی توثیق سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی اور زیادہ ہوجاتی ہے ۔

كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

(سنن ابی داؤد:3646۔ تحفۃ الاحوذی،ص:83)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صادقہ میں 5374 سے بھی زیادہ روایات تھیں جبکہ بخاری ومسلم کی غیر مکرراحادیث کی تعداد 4 ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن میں کافی حصہ ان حدیثوں کا ہے جو دونوں کتابوں میں مشترک ہے۔ مؤطا امام مالک جسے بعض حضرات بخاری ومسلم پر فوقیت دیتے تھے ان کی مرویات کی تعداد 1720 ہے۔

 سیدنا رافع بن خدیج فرماتےہیں کہ ہم لوگوں نے دربار رسالت میں عرض کی کہ ہمیں آپ کی بہت سی باتیں یاد نہیں رہتیںاور انہیں لکھ لیتے ہیں آپ نے فرمایا :’’ لکھ لیا کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (کنزالعمال 5/223)

 ایک دن مروان نے خطبہ میں بیان کیا کہ مکہ حرم ہے۔  رافع بن خدیج نے پکار کر کہا اور مدینہ بھی حرم ہے یہ بیان میرے پاس موجود ہے اگر چاہو تو پڑھ کر سنادوں۔ (مسلم:3315 ، مجمع الزوائد 4/14)

 آپ کے آزاد کردہ غلام اور خادم ابو رافع نے بھی آپ سے حدیث لکھنے کی اجازت مانگی اور آپ نے انہیں اجازت دے دی تھی۔ ( طبقات ابن سعد جلد 4 حصہ دوم ، صفحہ :11)

 رسول اللہ ﷺ نے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب بھی دلاتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’علم کو مقید کر لو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مقید کرنے سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ فرمایا ’’لکھنا۔‘‘ (مجمع الزائد ، ص:152)

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی کہ اسے احادیث یاد نہیں رہتیں آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنے ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو۔‘‘ ( مجمع الزوائد ، ص:152)

 سیدنا جابر اورسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے مدد لینے کا حکم دیا۔‘‘  (کنزالعمال ، 5/226)

 فتح مکہ کے موقع پر آپ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض کرنے لگے

اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ‏ﷺ

’’ مجھے بھی لکھ دو ‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا

اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ (بخاری:112۔ مسلم:3305۔ ابو داود:2017۔ ترمذی:2667۔نسائی:4799)

’’ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف احادیث کو قلمبند کیا بلکہ اپنے بچوں سے کہا تھا کہ

يَا بَنِيَّ قَيِّدُوا هَذَا الْعِلْمَ (سنن الدارمی ، ص:491)

’’ اے میرے بیٹو! اس علم کو مقید کر لو۔‘‘

منع کتابت والی حدیث کی صحیح تشریح :

لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ (مسلم:7510۔ ترمذی:2665۔ شرح السنۃ 1/234)

’’ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو۔‘‘

اس حدیث اور کتابت حدیث کی ترغیب واجازت والی احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے کہ ایک میں کتابت سے منع کیا ہے اور دیگر روایات میں لکھنے کی ترغیب ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں ہے صورت حال یہ تھی کہ قرآن مجید آہستہ آہستہ نازل ہورہا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کی توضیح فرماتے تو صحابہ احادیث اور قرآن کو ایک جگہ لکھ لیتے تھے اس کی تائید اس بیان سے بھی ہوتی ہے۔

عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى قَالَ: كَتَبْتُ عَنْ أَبِي كِتَابًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ فِيهِ كِتَابَ اللَّهِ لَأَحْرَقْتُهُ (مجمع الزائد1/60)

’’ سیدنا ابو بردہ بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ایک کتاب لکھی تو انہوں نے کہا اگر اس میں کتاب اللہ نہ ہوتی تو میں اسے ضر ور جلا دیتا۔‘‘

تو آپ نے فرمایا :

أَمْحِضُوا كِتَابَ اللَّهِ وَأَخْلَصُوهُ (مجمع الزوائد)

’’ کتاب اللہ کو مٹادو اور اس کو خالص کرلو یعنی الگ کرلو۔‘‘

صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہوا تھا سب اکٹھا کرکے جلادیا یعنی خلط ملط کرکے لکھنے سے منع کیامطلقاً منع نہیں کیا۔ جب قرآن وحدیث کا فرق واضح ہوگیا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اجازت دیدی اور صحابہ کرام نے احادیث کو قلمبند کیا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں منع کتابت والی حدیث اور اذن کتاب والی احادیث وروایات میں تطبیق دیتے ہوئے کئی احتمالات ذکر کیے ہیں مذکورہ بالا احتمال وقیع معلوم ہوتاہے۔

اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مشہور محدث مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے ایک دو فقروں پر غور کیجیے:

قد ظن بعض الجهلة في هذا الزمان أن الاحاديث النبوية لم يكن مكتوبة في عهد رسول الله ول في عهد الصحابة وإنما كتبت وجمعت في عهد التابعين قلت: ظن بعض الجهلة هذا فاسد مبني علي عدم وقوفه علي حقيقة الحال۔(مقدمة تحفة الاحوذي، ص:28 دار الحديث قاهرة)

’’اس زمانے کے بعض جاہل لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بےشک احادیث نبویہ نہ نبی کریم ﷺ کے دور میں لکھی گئیں اور نہ صحابہ کے دور میں بلکہ ان کی جمع وکتابت تابعین کے زمانے میں ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ بعض جھال کا یہ گمان فاسد ہے اور حقیقت حال پر عدم واقفیت پر مبنی ہے۔‘‘

بہر حال حکم واذن کتابت کی تمام احادیث وروایات کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے اور سیاق وسباق عبارت کو حذف کرتے ہوئے اور حکم کی علت پر پردہ ڈالتے ہوئے محض ’’لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ‘‘ کے فقرے پر ہنگامہ برپا کرنا علمی دیانت کے یکسر منافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

نبوت کا دوسرا دعویدار مسیلمہ کذاب اور اس کی نبو ت کا پس منظر

نبوت کے دوسرے دعویداروں میں مسیلمہ کذاب ایک نہایت بد صورت حیوان نما پست قد، چپٹی ناک والا شعبدہ باز اور جادو گر تھا۔ مسیلمہ نے بھی اسود کی طرح رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔

اس نے دو قاصدوںکے ذریعہ رسولِ اکرمﷺ کی خدمت عالیہ میں ان الفاظ کے ساتھ پیغام بھیجا۔

’’مسیلمہ رسول اللہ کی جانب سے محمدرسول اللہ کے نام۔ آپﷺ پر سلامتی ہو۔ اماّ بعد

واضح ہو کہ’’ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں۔لہٰذا نصف زمین میری ہےاور نصف قریش کی،مگر قریش انصاف نہیں کرتے۔‘‘

رسولِ اکرمﷺ نے خط سنااور قاصدوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟

ہم وہی کہتے ہیں، جو اس خط میں لکھا ہے، ایک قاصد نے جواب دیا۔آپ ﷺ نے فرمایا :

’’اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کے قتل کو میں جائز سمجھتا، تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘

اورآپﷺ نے مسیلمہ کذاب کے خط کا جواب لکھوایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد رسول اللہ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام:

’’ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد مسیلمہ کو سب کذاب کہنے لگے اور آج تک اسے کذاب ہی کہا جا رہا ہے۔

اسی مناسبت سے مرزا قادیانی کو بھی ’کذابِ قادیان ‘کہاجاتا ہے۔

مسیلمہ کذاب نے بھی قادیانیوں کی طرح اپنی کذب بیانیوں کو اسلام کا نام دے رکھا تھا اور شراب کو حلال قرا ر دیاتھا۔

کہتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کا دربار بڑی دلفریبی کا منظر پیش کرتا، حسین او رجوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں ہوتیں، گویا قادیانی نبوت کی طرح مسیلمی نبوت میں بھی عیش و عشرت کی آزادی حاصل تھی۔

مسیلمہ کذاب شعبدہ بازی میں ایسی ہی مہارت رکھتا تھا جیسے مرزا قادیانی شیطانی الہامات کے سنانے میں ماہر تھا۔

مسیلمہ کذاب پرندے کے پَر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا، پھر پرندے اور اسکے پَروں کو لے کر ایک ساتھ اوپر پھینکتا، تو پرندہ پَروں سمیت اُڑ جاتا جسے لوگ ایک معجزہ خیال کرتے۔

مسیلمہ ایک بد صورت حیوان نما انسان تھا۔ مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ:

’’ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کے لیے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔ جس کی ساخت مکان جیسی ہوتی۔ یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں سے سجایا جاتا، اور خیمے میں خوبصورت آتش دان رکھوایا کرتا تھا۔ اس آتش دان میںکوئی ایسی چیز یا جڑی بوٹیاں رکھ دی جاتیں۔ جن سے اُٹھنے والی خوشبو حواسِ انسانی کو متاثر کرتی۔ جیسے کسی کو ہیپناٹائز کر لیا گیا ہو۔ اس کے حواس اپنے کنٹرول میں نہیں رہتے تھے۔ وہ بے ہوش اور بے خبر ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا۔

 وہ خیمے میں داخل ہوتے ہی مسحورسا ہو جاتا۔

مسیلمہ کذاب نے اس خیمے میں سجاح (مدعیہ نبوت) کو مذاکرات کے لیے بلایا۔ جب سجاح نے مسیلمہ کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن اس کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا، طنز تھا۔ کیونکہ سجاح نے اس قدر بد صورت اور پست قدکا آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔

لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس خیمے کی دلفریبی و دلآویزی اور اس میں اُٹھنے والی خوشبوئوں نے اسے مسحورکرنا شروع کر دیا۔

اور مسیلمہ بدمعاش کی رومان انگیز باتوں نے سجاح پہ ایسا خمار ساطاری کردیاکہ جب صبح طلوع ہوئی۔ تو سجاح اس انداز سے باہر نکل رہی تھی ۔ جیسے کوئی دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔

مسیلمہ کذاب کی چال کامیاب رہی۔ اس طریقہ سے ایک کذاب نے مدعیہ نبوتِ کاذبہ کو بھی رام کر لیا۔

حالانکہ وہ بڑی کروفر سے بستیوں کی بستیاں لوٹتے ہوئے مسیلمہ کی طاقت کو کچلنے کے لیے آئی تھی مگر خود کچلی گئی۔

ایسی ہی چال مسیلمہ کذاب نے ایک صحابی رسولﷺ نہار الرجال کے ساتھ چلی ، جو کہ مسیلمہ کو راہِ راست پر لانے اورمرتدین کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا تھا۔

نہارایک پڑھا لکھا اور عالم فاضل تھا۔ ان دنوں آپﷺ بستر علالت پر تھے۔ آپﷺ نے مسیلمی سرگرمیوں کے اثرات زائل کرنے کے لیے اس شخص کو یمامہ بھیجا۔

لیکن سجاح کی طرح اس خیمہ میں داخل ہوتے ہی، ایسا مسحور ہوا کہ سجاح کی طرح مسیلمی نبوت کے گن گانے لگا اور مرتد ہو گیا۔ آخر اسی حالتِ ارتداد میں مسیلمہ کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔

مسلیمہ کذاب کا عبرت ناک انجام اور منکرین ختم نبوت کے لیے لمحہ فکریہ!

رسول اللہﷺ کی وفات حسرتِ آیات کے ساتھ ہی ہر طرف بغاوت اور عہد شکنی کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔

سیدنا ابوبکر صدیق t جب خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے لیے بہت سے چیلنجز (Challenges)  تھے۔ ان میں اہم ترین مسیلمہ کذاب کی سرکوبی اور لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کا مسئلہ تھا۔ دوسری طرف بہت سے قبائل نے بغاوت کر دی۔ یہودی و نصرانی بھی سر گرم ہو گئے اور باغیوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔

مدعیانِ نبوت کاذبہ (منکرینِ ختم نبوت) یعنی مرتدین کے علاوہ منکرین زکوٰۃ کا بھی ایک فتنہ اُبھر آیا۔

فَقَالَ بَعْضُہُمْ نُصَلِّیْ وَلَا نُزَکِّیْ (درِّ منثور۔ج۳)

’’کسی نے کہا، کہ نماز پڑھیں گے اور زکوٰۃ نہیں دیں گے۔‘‘

تو ان نازک حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا:

فَوَاللّٰہِ لَومَنَعُوِنِیْ عِقَالًا مِمَّا کَانُوْا یُعطُونَ لرَسُوْلِ اللّٰہِ، لَقَاتَلتُہُمْ عَلَیْہِ۔

’’اللہ کی قسم! جو لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں (اونٹ باندھنے والی رسِّی)پیش کیا کرتے تھے، اگر انہوں نے اسے روکا، تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ (بخاری و مسلم)

کتب احادیث میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کی وضاحت موجود ہے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے مرتدین سمیت تمام تر شورشوں اور بغاوتوں کے خلاف لشکر کشی کرنے کا عزم کر لیا۔ حالانکہ اس وقت پوری امت رسول اللہﷺ کے غم میں نڈھال تھی،اور غم کے ساتھ ساتھ بہت سے خدشات بھی ان کے دلوں میں پیدا ہو رہے تھے،کہ نامعلوم ان حالات میں اب کیا ہو گا؟

لیکن خلیفۃ المسلین کسی قسم کے خوف اور خدشے کو خاطر میں نہ لائے،اور ان تمام فتنوں کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان کر دیا۔

ان فتنوں میں سب سے طاقتور فتنہ مرتدین کا تھا۔ حدیقۃ الرحمان ، جو کبھی ایک سر سبز اور ہرا بھرا باغ ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کو پھل دیاکرتا تھا۔ تھکے ماندے یہاں آ کر آرام کیا کرتے۔ وہاں پھولوں کی مہک ہواکرتی تھی اور کبھی بلبل کا ترنم۔

مگر اب وہ ’’حدیقۃ الرحمان‘‘ نہیں رہا تھا۔ اب وہ ’’حدیقۃ الموت‘‘ بن چکا تھا۔ اس خوبصورت باغ کا حسن خون میں ڈوب چکا تھا۔ اس کی رعنائیاں لاشوں کے تلے دب چکی تھیں۔ وہ دلفریب باغ… جہاں کبھی پرندے چہچہاتے تھے، وہاں زخمیوں کی چیخ و پکار تھی اور زخمی گھوڑے بے لگام اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ان کے قدموں کی ٹاپ یوں سنائی دے رہی تھی جیسے موت بے ہنگم قہقہے لگا رہی ہو۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل، ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس، شرجیل رضی اللہ عنہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ ، براء رضی اللہ عنہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ ، زید رضی اللہ عنہ بن خطاب (برادر عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب کے علاوہ (13000) تیرہ ہزار فدائین کا یہ لشکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ،چالیس ہزار کے طاقتور مسیلمی لشکر سے برسرِ پیکار تھا۔ سیّدنا حبیب رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ (شہید اول ختم نبوت) کو مسیلمہ کذاب نے اذیت ناک طریقہ سے شہید کیا تھا۔

ان کی والدہ محترمہ اُم عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شریک جہاد تھیں۔ غزوئہ اُحد میں بھی یہ عظیم خاتون شریک لشکر رہیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی (نرسنگ) Nursingاور دیکھ بھال کرتی رہیں۔

یہ بہادر خاتون( اُم حبیب ) اپنے دوسرے بیٹے کے ہمراہ مسیلمہ کو قتل کرنے کی نیت سے جنگ یمامہ میں لشکر اسلام میں شامل تھیں۔ اس مہم میں ان کا ایک ہاتھ بھی کٹ گیا تھا۔ مگر جذبۂ جہاد و انتقام سے سرشار مسیلمہ کذاب کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی درپے تھیں۔

یہ بڑا گھمسان کارن اور بڑا خونی معرکہ تھا۔ مسیلمہ کذاب کے پیروکار قادیانیوں کی طرح اسے حقیقی معنوں میں نبی اور رسول تصور کرتے تھے اور وہ بھی خون کے آخری قطرے تک بڑی جانبازی کے ساتھ مسلمانوں سے لڑ رہے تھے۔ اس جنگ کی خون ریزی و سخت جانی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ 21 ہزار مرتدین مارے گئے جبکہ مسلمانوں میں 12سو کی تعداد میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ جن میں700 حافظ قرآن اور 200 بدری صحابہ تھے۔

اب تک کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔اور نہ ہی ان کا آج تک ایسے سخت جان معرکہ سے واسطہ پڑا تھا۔

بهر کیف مسیلمہ کذاب قتل ہوا اور اس کے ساتھ ہی جھوٹی نبوت کا یہ ڈرامہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس کا دستِ راست نہار الرجال مرتد بھی مارا گیا اور خود مسیلمہ وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ وہی وحشی رضی اللہ عنہ جس کے ہاتھوں غزوئہ اُحد میں عمِ رسولﷺ سید الشّہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے۔

آج اسی وحشی رضی اللہ عنہ نے اسلام کے اس دشمنِ اعظم کو ٹھکانے لگا کر اپنے مشن کی تکمیل کی۔

اس طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے تمام فتنوں اور شورشوں کو بفضل اللہ جہادی ضرب سے کچل کے رکھ دیا۔

لشکر اُسامہ رضی اللہ عنہ بھی کامیابی کے ساتھ اپنا ہدف پورا کر کے واپس لوٹا اور اس وقت کی سپر پاور (Super Power)روم، جس کے حملے کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا وہ خطرہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

اُدھر یمن کو بھی ایک کذاب اورلعنتی سے نجات مل گئی۔ اگر مسیلمی فتنے کو قدرے ڈھیل مل جاتی یا مسلمان لا پرواہی کامظاہرہ کرتے ۔ جیسا کہ آج قادیانیوں کے بارے میں بعض سیکولر قسم کے لوگ یا اپنی سادگی کے سبب قادیانیت سے لا علمی کی وجہ سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔تو مسیلمہ کو کچلنا بھی صحابہ  کے لیے مشکل ہو جاتا اور آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کے لیے (قادیانیوں، مرزائیوں) کی طرح یہ فتنہ بھی ایک مستقل دردِ سر بنا رہتا۔

اس لیے امت مسلمہ پر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  کا یہ ایک عظیم احسان ہے،اور وہ شہدائے ختم نبوت اور مجاہدینِ ختم نبوت نہایت قابل تحسین ہیں،جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر گلشنِ رسالتﷺ کے تحفظ کا حق ادا کر دیا۔(الحمدللہ)

امت مسلمہ تا قیامت ان کی رہینِ منت رہے گی۔

جنہوں نے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کرتے ہوئے مسئلہ ختم نبوت کو استحکام بخشا۔

اب قیامت تک کے لیے یہ مسئلہ واضح ہو چکا ہے،کہ سیدنا محمد عربیﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز ہرگز نہیں دیا جا سکتا،کہ وہ نبی یا رسول کہلا سکے۔ یا دعویٰ نبوت کے ذریعہ خود کو انبیاء المرسلین کی فہرست میں شامل کرنے کی جسارت کرسکے۔چاہے وہ کسی بھی قبیلہ اور خاندان سے کیوں نہ ہو؟

مسئلہ ختم نبوت پہ اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت مسلمہ کا اتفاق ہو چکا ہے۔اور اس میں کسی قسم کا تساہل نہیں ہوسکتا۔

آج ہماری بے حسی کہ بعض سیکولرسیاستدانوں اور حکومتوں کی Diplomacyکے سبب قادیانیت کو تقویت مل رہی ہے اور ہم نے محض انہیں غیر مسلم اقلیت کے طورپر تسلیم کرنے پہ ہی اکتفا کر لیا ہے۔ جبکہ وہ خود کو غیر مسلم تسلیم ہی نہیں کرتے۔

جب تک انہیں باقاعدہ مرتد قرار نہیں دیا جاتا،اس فتنے کا تدارک نہیں کیا جا سکتا۔

اور جب تک اسلام کی بالادستی قائم نہیںہو جاتی یہ فتنۂ قادیانیت بھی ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ کے مترادف ہی رہے گا۔

برصغیر میں انگریز بہادر نے سامراجی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے دو طرح کے اقدام کئے۔

اوّلاً، جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم ڈھایا گیا۔

ثانیاً، مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کا جذبہ ختم کرنے کے لیے قادیانی نبوت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے لیے عالمی بیماریوں کے چیمپیئن مرزا غلام قادیانی کو منتخب کیا گیا۔

مرزا ملعون نے 1880ء میں ملہم من اللہ اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر اپنے جھوٹے الہام کا سہارا لیتے ہوئے جہاد کی منسوخی کا اعلان کردیا۔

قادیانی تحریک مسلمانوں کی بے حسی اور غفلت کے سبب آج تک انگریزوں سے اپنی اس وفاداری کا صلہ وصول کر رہی ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف یا پھر خود غرض و حریص مسلم نوجوانوں کو ’’مرتد‘‘ بنانے میں بھی مصروف ہے۔

الغرض دشمن کے تمام تر حربوں اور سازشوں کے باوجود مسلمانوں میں ہمیشہ جہاد کی تڑپ اور جہادی فکر زندہ رہی ۔

اس وقت عالمی سطح پر دشمنانِ جہاد، جہاد اور مجاہدین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر کے اپنے خبث ِباطن کا اظہار کر رہے ہیں۔

اہلِ علم اور ہمارے لیڈروں کا فرض ہے کہ دشمنانِ اسلام کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا کا مؤثر جواب دیں۔

اور عظمت ِجہاد کو اُجاگر کر کے مخالفین و حاسدین اور مرتدین کی زہریلی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دشمنوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر بعض مسلم حکمرانوں نے اپنے ملک میں اپنی ہی قوم کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

اگر اسلام کا نام لیا جائے، تو انہیں ناگوار گزرتا ہے اور انہیں اس جرم کی پاداش میں بارود کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ لال مسجد کی مثال ہی لیجئے۔ کہ ان کا کیا جرم تھا؟ کیا وہ ملک دشمن تھے؟ کیا وہ باغی تھے؟ کہ فاسفورس بموں کے ذریعے ان کا نشان تک مٹا کر رکھ دیا۔ افغانستان، اراکان، شام، فلسطین، عراق، بو سنیا او رمصر میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔یہاں جمہوریت کی آڑ میں تو سب اچھا ہے۔ وہ ہماری نام نہاد لولی لنگڑی جمہوریت ، جس کا دنیا بھر میں مذاق اُڑایا جا رہا ہے،اور ہمارے بچے جمورے (لیڈرانِ جمہور) نے پاکستان اور جمہوریت کا وقار مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔

’’کہ دیکھو! یہ ہے پاکستانی جمہوری تماشا اور سلطانِ جمہور کا اندازِ سلطانی!‘‘

خود احتسابی ،،، مفہوم، اہمیت اور فوائد

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور گناہوں کو مٹاتا ہے، اسکی رحمت و علم ہر چیز پر حاوی ہے، اپنے فضل سے نیکیاں زیادہ اور نیک لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، آسمان و زمین میں کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے ذاتی مدد اور معجزات کے ذریعے انکی تائید فرمائی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد: تقوی الہی اختیار کرو، اللہ کے پسندیدہ اعمال کے ذریعے قرب الہی تلاش کرو، غضبِ الہی کا موجب بننے والے اعمال سے دور رہو ، بیشک متقی کامیاب و کامران، اور خواہشات کے پیرو کار نامراد ہوں گے۔

اللہ کے بندو!ذہن نشین کر لو! انسان کی فلاح و بہبود اپنے نفس کو قابو رکھنے میں ہے، چنانچہ محاسبہ نفس، اور کسی بھی قول و فعل پر مشتمل چھوٹے بڑے کام میں اس کی مکمل نگرانی ضروری ہے، لہذا جس شخص نے محاسبہ نفس، اور اپنے قول و فعل پر رضائے الہی کے مطابق مکمل قابو رکھا ، تو وہ بڑی کامیابی پا گیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى [النازعات : 4041]

’’اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور نفس کو خواہشات سے روکا تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانہ ہوگی۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ [الرحمن : 46]

’’اور اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے کیلئے دو جنتیں ہیں۔‘‘

ایسے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ [الحشر : 18]

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کیلئے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی تمہارے عملوں کے بارے میں خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ

بیشک متقی لوگوں کو جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں تو پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہو جاتے ہیں۔ [الأعراف : 201]

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [القيامہ : 2]

’’اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی ۔‘‘

مفسرین کا کہنا ہے کہ : اللہ تعالی نے ایسے نفس کی قسم اٹھائی ہے جو واجبات میں کمی اور بعض حرام کاموں کے ارتکاب پر بھی اپنے آپ کو اتنا ملامت کرتا ہے کہ نفس سیدھا ہو جائے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالی اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، یا پھر خاموش رہے۔(بخاری و مسلم)یہ چیز محاسبہ نفس کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

اور سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کیلئے تیاری کرے، اور عاجز وہ شخص ہے جو نفسانی خواہشات کے پیچھے لگا رہنے کے باوجود اللہ سے امید لگا بیٹھے۔(یہ حدیث حسن ہے)

سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: احتساب شروع ہونے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لو، اپنا وزن کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا وزن کیا جائے، اور بڑی پیشی کیلئے تیاری کرو۔

میمون بن مہران رحمہ اللہ کہتے ہیں:  متقی افراد اپنے نفس کا احتساب کنجوس شراکت دار سے بھی زیادہ سخت کرتے ہیں۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مومن اپنے گناہوں کو پہاڑ کی چوٹی کی مانند سمجھتا ہے، اور اندیشہ رکھتا ہے کہ وہ اس پر آ گریں گے، جبکہ فاجر اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح سمجھتا ہے، جو اس کی ناک پر بیٹھے تو ایسے اڑا دے، یعنی: ہاتھ کے اشارے سے اڑا دیتا ہے۔( بخاری)

مومن شخص خود احتسابی اور نگرانی جاری رکھتے ہوئے اچھی حالت پر نفس کو قائم رکھتا ہے، وہ اپنے افعال کا محاسبہ کرتے ہوئے عبادات اور اطاعت گزاری کامل ترین شکل میں بجا لاتا ہے، جو اخلاص سے بھر پور، بدعات، ریاکاری ، خود پسندی سے پاک ہوتی ہیں، اپنے نیک اعمال کے ذریعے رضائے الہی اور اخروی زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔

مومن شخص خود احتسابی کرتے ہوئے نیکیاں نبی کریم کی سنت کے مطابق کرتا ہے ، اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اسکا عملی تسلسل نہ ٹوٹے، انہی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [العنكبوت : 69]

اور جو لوگ ہمارے لئے کوشش کرتے ہیں، ہم ان کی اپنے راستے کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، اور بیشک اللہ تعالی حسن کارکردگی دکھانے والوں کے ساتھ ہے۔

اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ [العنكبوت : 6]

’’اور جو شخص کوشش کرتا ہے بیشک وہ اپنے لئے ہی کوشش کرتا ہے، بیشک اللہ تعالی تمام جہانوں سے غنی ہے۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا:

إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ أَلَا لِلهِ الدِّينُ الْخَالِصُ  [الزمر : 23]

’’بیشک ہم نے آپکی طرف حق کیساتھ کتاب نازل کی ہے، چنانچہ صرف ایک اللہ کی اخلاص کیساتھ عبادت کریںخبردار! خالص عبادت صرف اللہ کیلئے ہی ہے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

’’آپ کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کریگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘ [آل عمران : 31]

سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں نے اپنی نیت سے زیادہ کسی کا علاج نہیں کیا، کیونکہ یہ پل میں بدل جاتی ہے۔

فضل بن زیاد کہتے ہیں: میں نے عمل میں نیت کے بارے میں امام احمد سے پوچھا: “نیت کیسے ہوتی ہے؟” تو انہوں نے کہا: “عمل کرتے ہوئے اپنے نفس کا خیال کرو کہ عمل سے لوگوں کی خوشنودی مراد نہ ہو۔

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی کریم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے ریاکاری کیلئے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے ریاکاری کیلئے روزہ رکھا اس نے شرک کیا، جس نے ریا کاری کیلئے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔( احمد، حاکم، اور طبرانی نے معجم الکبیر میں اسے روایت کیا ہے)

مومن اپنی بول چال کا بھی احتساب کرتا ہے، چنانچہ اپنی زبان کو غلط اور حرام گفتگو کیلئے بے لگام نہیں کرتا، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دو فرشتے اس کی ایک ایک بات کو لکھ رہے ہیں، لہذا اس کے کیے ہوئے ہر عمل پر اسے بدلہ دیا جائے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ   [الانفطار : 1012]

’’اور بیشک تم پر محافظ مقرر ہیں وہ معزز لکھنے والے ہیںاور جو بھی تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں ۔‘‘

اسی طرح فرمایا: مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ق : 18]

’’جب بھی کوئی لفظ اس کی زبان سے نکلتا ہے اسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے ۔‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ ہر اچھی اور بری بات کو لکھتے ہیں، حتی کہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: میں نے کھا لیا، میں نے پی لیا، میں چلا گیا، میں آگیا، میں نے دیکھا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: بیشک آدمی رضائے الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے، اور بیشک آدمی غضبِ الہی پر مشتمل ایک کلمہ بولتا ہے، اور اس کی پرواہ نہیں کرتا، اللہ تعالی اس کلمے کے بدلے میں اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔( بخاری)

سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، روئے زمین پر زبان سے زیادہ لمبی قید کا کوئی حقدار نہیں۔

اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر کہا کرتے تھے: “اسی نے مجھے ہلاکت میں ڈالا”۔

اسی طرح مسلمان پر یہ بھی واجب ہے کہ اپنے خیالات کا محاسبہ کرے، اور دل میں آنے والے شکوک و شبہات کا مقابلہ کرے؛ اس لئے کہ خیر ہو یا شر ان کی ابتدا دل میں آنے والے خیالات سے ہوتی ہے، چنانچہ اگر مسلمان دل میں آنے والے برے خیالات پر قابو پا لے، اور اچھے خیالات پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائے تو وہ فوز و فلاح پاتا ہے، اور اگر شیطانی وسوسوں اور خیالات کو مسترد کرتے ہوئے شیطانی وسوسوں سے اللہ کی پناہ چاہے تو گناہوں سے سلامت رہ کر نجات پاتا ہے۔

اور اگر شیطانی وسوسوں سے غافل رہے، اور انہیں قبول کر لے تو یہ وسوسے اسے گناہوں میں ملوث کر دیتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [فصلت : 36]

اور اگر شیطان کی طرف سے آپکو کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگو، بیشک وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالی نے سورت “الناس” میں اس واضح دشمن سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :شیطان ابن آدم کے دل پر تسلی سے بیٹھتا ہے، چنانچہ اگر انسان [اللہ کو] بھول جائے، وسوسہ ڈالتا ہے، اور اگر اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔‘‘

اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: شیطان اپنی لگام کو ابن آدم کے دل پر رکھے ہوئے ہے، اگر وہ اللہ کو یاد کر لے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، اور اگر اللہ کو بھول جائے تو اس کے دل کو لگام ڈال دیتا ہے، یہی مطلب ہے “وسواس الخناس” کا۔(مسند ابو یعلی موصلی)

چنانچہ گناہوں سے حفاظت کیلئے سب سے پہلے شیطانی وسوسوں سے بچاؤ اور تحفظ یقینی بنایا جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ [الأنعام : 151]

’’بے حیائی ظاہری ہو یا باطنی اس کے قریب بھی مت جاؤ اور اللہ کی طرف سے حرام کردہ جان کو ناحق قتل مت کرو، اسی کی تمہیں اللہ تعالی وصیت کرتا ہے، تا کہ تم عقل کرو۔‘‘

چنانچہ جس شخص نے محاسبہ و مجاہدہ نفس کیا تو اس کی نیکیاں زیادہ، اور گناہ کم ہونگے، دنیا سے قابل تعریف انداز میں رخصت ہوگا، اور سعادت مندی کیساتھ اٹھایا جائے گا، اور وہاں رسول اللہ کے ساتھ ہو گا، جنہیں گواہ بنا کر بھیجا گیا۔

اور جس شخص نے خواہش نفس کی پیروی کی ، قرآن سے روگرداں رہا، اور دل نے جو چاہا گناہ کیا، شہوت پرستی میں ڈوبا رہا، اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا، شیطان کو اپنی قیادت سونپی ، تو شیطان اسے ہر بڑے گناہ میں ملوث کر دے گا، اور پھر وہ شیطان کیساتھ درد ناک عذاب میں مبتلا رہے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا [الكهف : 28]

’’جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اس کے پیچھے مت چلو اور وہ خواہش پرست بن چکا ہے اور اسکا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [آل عمران: 30]

’’ اس دن جب ہر شخص اپنے اعمال کو اپنے سامنے موجود دیکھ لے گا اور (اسی طرح) اپنے برے اعمال کو بھی۔ وہ یہ تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے برے اعمال کے درمیان دور دراز کا فاصلہ ہوتا۔ اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے ۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ

اور جان لو کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے اللہ اسے جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو۔ اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[البقرة: 235]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، وہی قرآن کے ذریعے دلوں کو زندگی بخشتا ہے اور نیکیاں قبول فرما کر گناہوں سے در گزر فرماتا ہے، میں اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں ، اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہی غیب کی باتیں جاننے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سربراہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ، آپ نے لوگوں کو نیکی کی دعوت دی، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل، اور تمام سر چشمہ ہدایت، اور روشن چراغ صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اپنانے کا حق ہے، یہی تقوی دنیا و آخرت کیلئے ذخیرہ ہے۔

اللہ کے بندو!زندہ دل وہی ہے جسے نیکی اچھی اور گناہ برا لگے، جبکہ وہ دل مردہ ہے جو گناہ پر بالکل درد محسوس نہ کرے، اور کسی نیکی و اطاعت پر خوشی بھی نہ ہو، اسی طرح گناہوں پر ملنے والی سزاؤں کا احساس تک نہ ہو، چنانچہ ایسے دل کو صحت اور دنیاوی ریل پیل دھوکے میں ڈال دیتی ہے، بلکہ کبھی یہ بھی سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے دنیاوی نعمتیں بطور تکریم نوازی گئی ہیں، انہی کے بارے میں فرمایا:

أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ

کیا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان کو مال، نرینہ اولاد دے کر انکی بھلائی کا سامان جلدی سے اکٹھا کر رہے ہیں! بلکہ حقیقت کا انہیں شعور ہی نہیں ہے۔[المومنون : 56]

اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: دلوں کو فتنے ایسے مسلسل در پے ہوتے ہیں کہ جیسے چٹائی کے تنکے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوتے ہیں، چنانچہ جو دل ان فتنوں کو مسترد کر دے تو اس کے دل میں ایک سفید نکتہ لگا دیا جاتا ہے، اور جو دل فتنوں کو اپنے اندر جگہ دے دے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے، حتی کہ دلوں کی دو قسمیں بن جاتی ہیں، ایک بالکل صاف ستھرا دل جیسے سخت چٹان ہو، اسے زمین و آسمان کے قائم رہنے تک کوئی فتنہ نقصان نہیں دیتا، اور دوسرا دل سیاہ خاکی مائل الٹے مشکیزے کی طرح ہوتا ہے، جو نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی نہیں سمجھتا، اسے من لگی بات ہی سمجھ میں آتی ہے۔اگر انسان اپنا محاسبہ نہ کرے تو دل کی تمام بیماریاں دل کو دائمی مریض یا سرمدی موت سے دوچار کر دیتی ہیں۔

احتیاط اور فائدے کا یہ پہلو ہے کہ انسان دن، رات، ہفتہ وار، ماہانہ، اور سالانہ محاسبہ کرے، تا کہ اسے نقصان دہ راستوں کا علم ہو، اور توبہ کر لے، اسی طرح کمی کوتاہی کو پورا کر لے، عین ممکن ہے کہ اس کی یہ کاوش اللہ کے ہاں قابل ستائش ٹھہرے، اور حسن خاتمہ کا موقع مل جائے۔

مومن ہمیشہ زندہ دل، صاحب بصیرت ہوتا ہے، اگر اسے کچھ مل جائے تو شکر، گناہ کرے تو استغفار، مصیبت آن پڑے تو صبر کرتا ہے۔

مومن کے دل میں ضمیر غفلت سے بیدار ، اور تباہی کی جگہوں سے چوکنا رکھنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ نے ایک خط مستقیم کھینچا، اور اس کی دونوں جانب خطوط کھینچے، خط کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے، اور اس سے اوپر ہے واعظ ہے، “خط مستقیم” سے مراد اللہ کا راستہ ہے، اس کے سرے پر “پکارنے والے” سے مراد : کتاب اللہ ہے، اور اس سے اوپر نصیحت کرنے والا واعظ ، ہر مومن کے دل میں موجود نصیحت کرنے والا ضمیر ہے، جبکہ دائیں بائیں خطوط گمراہی ، اور حرام کاموں کے راستے ہیں۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔ [الأحزاب: 56]

اور آپ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد

قائد اور مبلّغ کے لیے بنیادی ہدایات(قسط3)

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الحجر:94 تا99)

’’پس اس کا واضح اعلان کر دیں جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور مشرکوں کی پروا نہ کریں بیشک ہم آپ کو مذاق کرنے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بناتے ہیں عنقریب وہ جان لیں گے۔ بلاشبہ ہم جانتے ہیں یقیناً آپ کا سینہ ان کی باتوں سے تنگ پڑتا ہے۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر یں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین آجائے ۔‘‘
کفار کو انتباہ کرنے اور آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے کے بعد آپ کو مزید تسلی دینے کی خاطر ارشاد ہوتا ہے اے رسولe! ہم آپ کے حالات اور کیفیت کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیںکہ کفار کے طعن و تشنیع اوراستہزا ء سے آپ کے دل کو غم اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جب بھی آپ غم اور تکلیف محسوس کریں تو مشرکین کے طعن و تشنیع اوراستہزا ء کی طرف توجہ کرنے کی بجائے آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور اپنے رب کی آخری دم تک عبادت کرتے رہیں۔ یہاں عبادت کے لیے’’ الیقین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے اکثر مفسرین نے موت مراد لی ہے۔ انسان کو اپنی موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کرتے رہنا چاہیے۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوںفرمایا:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران :102)

’’اے صاحب ِایمان لوگو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے آئے۔‘‘
دوسرے مقام پر آپ کو یوں تلقین فرمائی گئی:

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ

’’اس لیے اے محمدﷺ! آپ اسی دین کی طرف بلائیں جس کے لیے آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں ۔ اعلان کریں کہ اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے
میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے
درمیان عدل کروں۔ اللہ ہی ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ’’اللہ‘‘ ایک دن ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو لوٹناہے۔‘‘(شورٰی: 15)
یہاں دین پر پکا رہنے اور اس میں شک وشبہ سے بچنے کے لیے چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔مسئلہ کی اہمیت کے پیشِ نظر باربار نبی اکرمeکو مخاطب کرتے ہوئے حکم ہوا ہے کہ آپ کو ان باتوں پر ہر حال میں توجہ دینا اوران پر قائم رہنا ہو گا:
1قرآن مجید اورپہلی کتابوں پر ایمان لانا۔
2حالات جیسے بھی ہوں دین پر استقامت اختیار کرنا۔
3لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرنا ۔
4حالات کی پروا کیے بغیر دین حق کی لوگوں کو دعوت دیتے رہنا۔
جس داعی میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہی عدل کی بات کر سکتا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکتا ہے۔ نبی کریمeکی زبانِ اطہر سے عدل کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جوکچھ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اس میں کسی کی حمایت اور مخالفت مقصود نہیں میں تو اسی بات کی دعوت دیتاہوں جو عدل پر مبنی ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’’اُمِرْتُ لِاَعْدِ لَ بَیْنَکُمْ‘‘ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان دینی اوردنیاوی اختلافات اور معاملات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں اگر تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہمارے ساتھ جھگڑنے کی بجائے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ کیونکہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ نہ ہمارے اعمال کے بارے میں تمہیں پکڑا جائے گا اورنہ تمہارے اعمال کی بابت ہم پر کوئی گرفت ہوگی ۔اس کے باوجود تم جھگڑتے ہوتو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اکٹھا فرما کرسب کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا ۔ ہمیں تو ہر حال میں دین پر پکے رہنے کا حکم ہے اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السجدۃ:30)

’’یقیناًجن لوگوں نے کہا کہ ’’اللہ‘‘ ہمارا رب ہے اور اس پر قائم رہے یقیناً اُن پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو،بلکہ اُس جنت کے بارے میں خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
’’رَبُّنَا اللّٰہُ‘‘سے مراد یہ نہیں کہ بس انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ہمارا رب ’’اللہ‘‘ ہے اور پھر اپنی مرضی کرتے رہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ انہوں نے مرتے دم تک دل کی سچائی اورکردار کی گواہی سے ثابت کردکھایا کہ واقعی ہمارا خالق ،مالک ،رازق اورحقیقی حاکم صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہے، وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اسی کے بندے اورغلام ہیں ۔ ہمارا مال، جان، عزت و اقبال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کے نام اورکام پر قربان ہوگا ۔اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیاگیاہے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام:162تا 164)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیری زندگی اورمیری موت ’’اللہ‘‘ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے تابعدار بنوں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں ’’اللہ‘‘ کے سواکوئی اوررب تلاش کروں؟حالانکہ وہ ہرچیز کا ’’رب‘‘ ہے۔‘‘

الٓم اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْا اَنْ يَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ (العنکبوت: 1 تا3)

’’الف۔لام۔میم۔کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کو آزما چکے ہیں ، ’’اللہ‘‘ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الثَّقَفِی قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ e قُلْ لِی فِی الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللہِ فَاسْتَقِمْ)) (رواہ مسلم: باب جَامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ)

’’سیدناسفیان بن عبداللہ ثقفی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسولe! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیں جو مجھے آپ کے بعدکسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور اس پر استقامت اختیار کرو۔‘‘
استقامت کی دعا:

عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِ  یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ(( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ)) (رواہ الترمذی:باب ماجاء أن القلوب )

’’سیدنا انس بیان کرتے ہیںرسولِ کریم  اکثر دعا کرتے ۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہم آپ پر اورآپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جیسے چاہتاہے پھیر دیتا ہے۔‘‘

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ  أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ  کَانَ یَقُوْلُ ﴿یَا وَلِیَ الإِسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ﴾)) (رواہ الطبرانی)

’’سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول  دعا کیاکرتے تھے کہ’’ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل !مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھنا یہاں تک کہ آپ سے آملوں ۔‘‘
جس طرح ظاہری دشمن کے مقابلے استقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے کا حکم ہے اسی طرح چھپے ہوئے ازلی دشمن یعنی شیطان کے ہتھکنڈوں کے مقابلے میں بھی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (حٰمٓ السجدۃ:36)

’’اور اگر آپ شیطان کی طرف سے اُکساہٹ محسوس کریں تو اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
مبلّغ بھی انسان ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں دفاع کے لیے غیر ت اور غصّہ رکھا ہے۔
اگر انسان میں غیرت اور غصہ نہ ہوتا تو یہ اپنی عزت ،مال و جان کی کبھی حفاظت نہ کرسکتا۔ غیرت اور غصہ کا اظہا ر کرنا بعض مواقع پر لازم ہوجاتا ہے۔
لیکن کچھ مواقع ایسے ہیںجن میں غصہ کا اظہار فائدے کی بجائے نقصان کا باعث ثابت ہوتا ہے بالخصوص اگر داعی جذباتی اور جھگڑالو ہو تو فائدے کی بجائے اپنا اور دینِ حنیف کا نقصان کربیٹھے گا۔ طبیعت میں غصہ اور طیش آئے تو حکم ہے کہ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھے ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے، توجہ اور بار بار پڑھنے سے غصہ رفوہو جائے گا۔عربی میںعوذ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جو ابتدائی ایّام میں چلنے کے قابل نہیںہوتا جس وجہ سے گِرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل کر اپنی مامتا کے دودھ تک پہنچتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس قدر بے بس سمجھ کر پڑھے اور اپنے رب سے پناہ طلب کریں۔

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ (المؤمنون:97۔98)

’’دعاکریں کہ اے رب! میں شیاطین کے وسواسات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اےمیرے رب !میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتاہوں کہ میرے پاس شیطان آئیں ۔‘‘
شیطان داعی کوبرانگیختہ کرتاہے کہ وہ غصہ میں آکر برائی کا جواب برائی سے دے۔ لیکن حکم یہ ہے کہ داعی پوری کوشش کرے کہ وہ برائی کاجواب اچھائی کے ساتھ دے۔جہاں تک ذاتی معاملات کاتعلق ہےتو اس میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ مظلوم ظالم کے جواب میں کوئی بُری بات زبان پر لائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن تبلیغ کے میدان میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے بلکہ حکم ہے کہ اگر ایسے موقع پر طیش اور غصہ آئے تو شیطان کی انگیخت سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ شیطان چاہتا ہے مبلغ اور مصلح برائی کے مقابلے میں بُری زبان استعمال کرے اور اپنے مشن میں ناکام ہو جائے۔ اس نقصان سے بچانے کے لیے سرور دو عالم eکو اس دعا کی تعلیم دی گئی: ’’میرے رب! میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
مبلّغ کو اپنی روحانی قوت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
روحانی قوت ذکر و فکر اور قرآن مجید کی تلاوت سےپیدا ہوتی ہے۔ خاص کر تہجد میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنا مبلّغ کی روحانی قوت اور بصیرت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔

يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَهٗ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا (المزمل: 1۔4)

’’اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے رات کو کم قیام کیا کرو۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ کر دیں، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔‘‘
الرّسولe کے منصب کا پہلا تقاضا ہے کہ رسول اس وحی الٰہی کو یاد رکھے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یاد رکھنے کے لیے آپ کو تہجد پڑھنے کا حکم ہوا تاکہ ایک طرف قرآن مجید پر غور کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف آپ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے آپ پر ضبط کرنے کے عادی ہو جائیں کیونکہ تہجد کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے تو آدمی کو اپنی طبیعت پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
نبی کریمeچادر اوڑھ کر آرام فرماتھے کہ جبریلِ امین تشریف لائے اورانہوںنے سورۃ المزّمل کے پہلے رکوع پر مشتمل چند آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیارے انداز میں نبی کریمeکو مخاطب فرمایا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے رسول! پوری رات سونے اورآرام کرنے کی بجائے آدھی رات یا اس سے کم قیام کیا کرو بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرو اور قیام میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ یہاں قیام اللّیل کے دورانیہ کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ۔ آدھی رات یا اس سے کم کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ موسم اورطبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری توجہ اوریکسوئی کے ساتھ رات کا قیام ہو سکے۔ تلاوتِ قرآن کابنیادی اصول یہی ہے کہ اسے پوری توجہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ تہجد میں یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ وقت بڑا ہی سُہانا اور بابرکت ہوتاہے۔ اس میں قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت پر بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اہلِ علم نے ترتیل کا معنٰی یہ لیا ہے کہ جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہو تو ان میں اپنے رب سے ڈرنا چاہیے اوراس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اوراس کی جنت کا ذکر ہو ان آیات کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات پر بھی غور وفکر کرنا فرض ہے۔
مبلغ کا باعمل ہونا
اللہ تعالیٰ نے رسول مکرم e کو صرف مبلّغ اور معلّم ہی نہیں بنایا تھا بلکہ آپ کو لوگوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا (الاحزاب:21)

’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے،بشرطیکہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت کے بارے میں اُمید رکھتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والا ہو۔‘‘
حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو! اللہ کا رسولeتمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید، آخرت کے حساب وکتاب پریقین اورہر حال میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کویاد کرنے والا ہے ۔اس فرمان میں اُسوہ حسنہ سے مراد رسول اکرمeکی حیات طیبہ کا کوئی خاص پہلو مراد نہیں بلکہ امّت کے لیے آپ e کی پوری حیات مبارکہ عظیم اور حسین نمونہ ہے اس فرمان سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ:
حالات کتنے پرفتن ہوں مسائل اور مصائب کاطوفان سر سے گزرچکا ہو، مشکلات پہاڑوں کی مانند سامنے کھڑی ہوں ،کلیجہ حلق میں آکے اٹک چکا ہو اور بادِ مخالف طوفان کی شکل اختیار کر جائے، غربت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے اور موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کھڑی ہو ان حالات میں بھی مسلمان کے لیے اسوۂ رسولeسے بڑھ کر کسی دوسرے کا اسوہ قابل عمل نہیں۔
اس نمونہ پر وہی شخص ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اپنے رب کی ملاقات کی امید ،آخرت پر یقین اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرتا ہے یعنی اس کی ذات اور احکام کا خیال رکھنے والا ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں مسلمانوں کو بے عملی اور بد عملی سے بچانے کے لیے انتباہ فرمایا کہ ایک عالمِ دین اور داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ باعمل بھی ہو۔

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے ہاں یہ بڑا گناہ ہے کہ وہ بات کہو جو تم خود نہیں کرتے۔ ‘‘(الصف:2۔3)
جس بات پر آدمی کا اپنا عمل نہ ہو اسے اس بات کی دعوت دوسروں کو نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے ایک طرف دعوت دینے والے کا دوغلا پن ظاہر ہوتاہے اوردوسری طرف اس کے د وغلے پن کی وجہ سے اسلام کی سبکی کا پہلو نکلتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑا گناہ ہے اور ایسے شخص کی بات تاثیر کھو بیٹھتی ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کی مثال ایک ناپسندیدہ جانور کے ساتھ دی گئی ہے۔
ترجمہ:’’جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اس کو نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بُری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلادیا اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘(الجمعۃ:5)
(جاری ہے)

اور خود تمہاری ذات میں بھی(نشانیاں ہیں) تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو

اکیسویں صدی کے معروف ماہر طبیعیات ،جنھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہول، نظریاتی کونیات (کونیات) کے میدان میںتھا ۔ ان کی ایک کتاب’’ وقت کی مختصر تاریخ‘‘ A brief History of Time ایک مشہور کتاب ہے ۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک کاوش ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار تھے اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے تھے۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی يہ بیماری ان کو تحقيقی عمل سے روک نہ سکی۔شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز حیثیت اختیار کر گئے تھے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 1962ء میں نقطۂ انقلاب آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اسکے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے ان پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوگا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا؟
اسٹیفن ہاکنگ 21 سال کی عمر میں ایک انتہائی کم یاب اور مہلک بیماری ‘موٹر نیورون کا شکار ہونے کے بعد عمر بھر کے لیے معذور اور وہیل چیئر تک محدود ہوگئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔ تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہی، جو چل سکتے ہیں اور جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے،جوکھا پی سکتے ہیں، اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟
مگر اسٹیفن ہاکنگ رب کے وجود کا انکاری ،انسان کے وجود کا پجاری اور خود اپنے نفس پر بھاری جو علم تخلیق کائنات اور سائنس کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتا تھا جو مقام کبریائی کو سائنس کے ذریعے زیر کرنے کی لگن میں مگن رہتا تھا وہ جو بس ایک سانس کے رک جانے کی وجہ سے موت کی وادی میں چاپہنچا جس کہ خود ساختہ دعووں کی سوئی پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک اٹکی رہی وہ اسٹیفن جسے موجودہ دور کا آئن اسائنEiensteinسائنسدان کہا جاتا تھا جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے ہاں البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ ایک معذور انسان تھا اس نے معذوری کے باوجود وہ اپنی ریسرچ جاری رکھی اور یہی اس کا میزہ خاص تھا جو دوسروں سے اسے ممتاز کرتا تھا کیونکہ ہ بول اور چل نہیں سکتا اور نہ کوئی چیز پکڑ سکتا تھا اس مجبوری اور محرومی کی حالت میں رب کے قریب ہونے کی بجائے رب تعالی کے وجود کے تصور ہی سے وہ دور ہوگیا۔اسٹیفن کا یہ نظریہ تھا کہ یہ کائنات کو کسی ما ورائی طاقت یعنی رب نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ خودبخود تخلیق ہوگئی ہے۔
اسٹیفن کی علم طبیعات میں بے شک خدمات ہوگی لیکن رب کے وجود کا انکار کرنا صرف ایک دعویٰ ہے جس کی تائید ایک ملحد ہی کرسکتاہے۔ ابو جہل عرب کا ایک بہت بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا تھا مگر رب کو نہ ماننے کی وجہ سےابو جہل کہلوایا، باوجود اس کے کہ اس نے ہزار ہا مرتبہ اپنے اردگرداللہ تعالی کی نشانیاں بھی دیکھیں اس طرح اسٹیفن باکمال سائنسدان تو ہوسکتاہے مگر وہ دورِ حاضر کا ابو جہل ہی تھا کہ جسے اپنے جسم میں پوشیدہ لاکھوں نشانیاں نظر نہ آئیں جو اس کے خالق کا پتہ دیتی ہیں۔مگر قرآن کریم ہر انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ ،(القیامۃ:14) “بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے ۔”
انسان کا ضمیر اس کے اپنے حق میں بالکل جائز اور درست فیصلہ کرسکتا ہے بشرطیکہ انسان اس ضمیر کو مسخ کرکےڈھیٹ پن کا ثبوت نہ دے۔ کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی بے شمار نشانیاںہیں اور قرآن کریم میں بار بار ان میں غورو فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات 21)
یہ گردش لیل و نہار ، یہ مو سموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور ،یہ بارش کا نظام ،اس سے مردہ زمین کازندہ ہونا۔
مختلف قسم کی نباتات ، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیدا وار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی زمین کےاندر مدفون خزانے ،سمندر وں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اورچوپایوں پر انسان کا تصرف اور حکمرانی ۔غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لا تعداد ہیں ،ان سب میں قدر مشترک کے طورپر جو چیز پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کےفائدے کے لیے بنائی گئی ہیں اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اگر ان میں ایسا مر بوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی ،یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق و مالک صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی بر آمد ہو نا چاہیے اور وہ نتیجہ آخرت ہے ۔
انسان کا اپنا وجود اور اس کے اند رکی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میںجود نشانیاں ہیں وہ کائنا ت اکبر کی نشانیوںسے کس طرح کم نہیں ۔ انسان کامعدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے جو غذ اکو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے جب یہ فا رغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگرمیں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی ،دفع کرنے والی ،صاف کرنےوالی ، کھنچنے والی مشینیں اور قوتیں کا م کر رہی ہیں ،یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں ،فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے سے خارج کر دیتے ہیں ۔قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہوجا تا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتا ،انہی کے ذریعے انسان کے جسم کے حصے کو خون پہنچتا ہے اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے ۔پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا بھی فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے انسان کا جسم ابتدا سے ہی حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہو ہے مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز میں ہیں ۔ان جسم کی نشانیوں میں بھی غور کرنے سے وہی دو نتائج حاصل ہوتےہیں جو کائنات کے نظام میں غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں ۔مگر یہ مشہور اور کامیاب سائنسدان اپنے وجود پر غور کرنے میں ناکام رہا اگر اپنے آپ پر غور کرتا تو اسے رب تعالی پتہ مل جاتا۔جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا ۔
بلند بال تھا ، لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
دو مذہبی جماعتوں کا انضمام ایک خوش آئند اقدام :
14 سال بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے حافظ ابتسام الہی ظہیرحفظہ اللہ کی قیادت میںفضیلۃ الشیخ پروفیسر ساجد میرحفظہ اللہ کی غیر مشروط امارت قبول کرتے ہوئے ساتھ چلنےاور اپنے تمام اختلافات ختم کرکےاپنی جماعت جمعیت اہل حدیث کو مرکزی جمعیت اہل حدیث میں ضم کردیا،سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی طرف سے زبردست خیر مقدم کیا ۔تفصیلات کے مطابق علامہ احسان الہی ظہیر شہیدرحمہ اللہ کے صاحبزادے عرصہ14 سال قبل مرکزی جمعیت اہل حدیث سے الگ ہوگئے تھے اب انہوں نےاپنے بھائیوں حافظ معتصم الہی ظہیر، حافظ ہشام الہی ظہیر ،علما ء اور کارکنوں سمیت مرکزی جمعیت اہل حدیث میں شمولیت کا اعلان کردیا ہ، لاہور پریس کلب میں پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اور ڈاکٹر سینیٹرحافظ عبدالکریم حفظہ اللہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ابتسام الہی ظہیر نے کہا کہ ہمارا مسلک، ہمارا عقیدہ ایک ہے ، ملک میں قرآن وسنت کی بالادستی اور ملکی استحکام بھی ہمارا مشترکہ نعرہ ہے ،بعض تنظیمی امور اور معاملات پر رائے کا اختلاف تھا جو الحمد للہ آج دور ہو گیا ہے، ہم پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کو اپنا بزرگ اور امیر تسلیم کرتے ہیں، ہم نے ماضی کی تمام رنجشیں بھلا کر متحدہو کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ ہم حافظ ابتسام الہی ظہیر انکے بھائیوں ،علما ء اور کارکنوں کو دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ، ا ن شا ء اللہ انہیں جماعت میں باوقار اور باعزت مقام دیں گے، جیسا کہ حافظ ابتسام نے بھی کہا کہ ہمارا عقیدہ اور فکر ایک ہے سیاسی امور میں اختلاف رائے کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ،جس اخوت اور بھائی چارگی کے جذبے اور بغیر کسی شرط کے ساتھ انہوں نے ہمارے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کااعلان کیا ہے ہم اس کا خیر مقد م کرتے ہیں ۔ پروفیسر ساجد میرصاحب نے مزید کہا کہ ہماری جماعت کے دروازے باقی لوگوں کے لیے بھی کھلے ہیں،ہم قرآن وسنت کے حاملین کو ملک کی بڑی طاقت بنائیں گے، اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے سب کو ایک صف میں لائیں گے،یہ مارچ کا مہینہ شہید اسلام علامہ احسان الہی ظہیررحمہ اللہ اور انکے رفقا ء کی قربانیوں کا مہینہ ہے ،ہم شہادتوں کے اس مہینے میں عزم کرتے ہیں کہ ان کا مشن آگے لیکر چلیں گے،اسلام کے پرچم کو سربلند رکھیں گے، ملکی سلامتی اسکے دفاع اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، تحفظ حرمین شریفین کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے،سیکولر قوتوں کامقابلہ کریں گے، ملک میں دینی اقدار کے تحفظ کے لیے دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلیں گے ۔
ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ،دوہم عقیدہ جماعتوں کے متحد ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت اس اتفاق و اتحاد کو اسلام ،ملک وملت کی کما حقہ خدمت کرنے کا ذریعہ بنائے ۔آمین ،یا رب العالمین ۔

حقائق یہ ہیں بندے ماترم ایک قومی ترانہ نہیں

ایک ملک میں اگر ایک ہی قوم آباد ہو تو اس کا قومی ترانہ بھی ایک ہی ہوا کرتا ہے ، اب اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ برصغیر میں ایک کی بجائے دو قومیں آباد تھیں کیونکہ قومی ترانے کے متعلق ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا ۔
1905ء میں جب ہندووں نے تقسیم بنگال کے خلاف اپنی تحریک شروع کی تو اس دوران انہوں نے ’’بندے ماترم ‘‘گا کر اس تحریک کو موثر بنانے کی کوشش کی۔ ایک بنگالی برہمن بنکم چندرچیٹر جی نے 1885میں ایک ناول آنند ماٹھ لکھا جس سے یہ ترانہ اخذ کیا گیا تھا ، بنکم چندر چیٹر جی بنگالی زبان کا ایک نامور مصنف تھا جو کالی دیوی اور درگادیوی کا زبردست پرستار تھااور جس نے اپنے نام نہاد تاریخی ناولوں میں مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں راجپوت اور بنگالی ہیرو جنم دئے تاکہ وہ مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں اس کا سب سے بڑا مشن ہندووں کو مسلمانوںکے خلاف اکسانا تھا ، بنکم نے یوں تو جو کچھ بھی لکھا مسلمانوں کی تاریخ کو داغدار کرنے کی خاطر لکھا ۔
اس کا بڑا نشانہ مغل شہزادیاں تھیں جنہیںاس نے اپنے ناول ’’راج سنہا‘‘ میں بے عزت کرنے کی ناپاک کوشش کی، بنکم نے حد درجہ بے باکی کے ساتھ شاہ جہاں کی دو صاحبزادیوں جہاں آراء اور روشن آراء اور اورنگزیب عالمگیر کی پاک دامن بیٹی زیب النساء کے دامنِ عصمت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ۔
یہاں سے آپ اس ناول نگار بنکم کی سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، اب اس کے کسی ناول سے جو ترانہ لے کر اسے قومی ترانہ بنانے کی سعی کی گئی تو وہ ترانہ بھی کس قدر بے ہودہ گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
بنکم چندر کا دوسرا ناول آنند ماٹھ ہے جس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ یہ بات سمجھ میں آسکے کہ اس کا نام سنتے ہی مسلمانوں کے سینے میں آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے ۔ ناول کا ہیرو بھاونند نواب سراج الدولہ کے بعد مرشد آباد کے نواب کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے فوج جمع کرتا ہے اسی دوران اس کی ملاقات مہندر سے ہوجاتی ہے جسے وہ مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے لئے ایک مسلح بغاوت کا منصوبہ پیش کرتا ہے جسے مہندر ناقابلِ عمل بتاتاہے، اس پر بھاونند سخت مایوسی اور غصے میں کہتا ہے کہ ہمارا مذہب تباہ ہو رہا ہے اس لئے جب تک ان نرشوں (مسلمانوں ) کو یہاں سے نکال نہیں دیتے اس وقت تک دھرم محفوظ نہیں ۔مہندر پوچھتا ہے کہ کیا تم اکیلے مسلمانوں کو نکال سکتے ہو، اس پر بھاونند ترانہ گاتا ہے کہ جب سات کروڑ زبانیں نعرہ بلند کریں گی اور چودہ کروڑ ہاتھ تلواریں چلائیںگے تو تم اس وقت بھی وطن کو کمزور خیال کرو گے، مہندر ابھی اس کی باتوں پہ یقین نہیںکرتا ،اس پر بھاو نند اسے یقین دلانے کی کوشش کرتاہے کہ انگریز میدانِ جنگ سے فرار نہیں ہوتا ،چاہے اس کی جان خطرے میں ہی کیوں نہ پڑ جائے ،لیکن اگر مسلمان کو پسینہ بھی آجائے تو وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوجایا کرتا ہے ۔
یہاں آپ دیکھئے کہ کس طرح مسلمانوں کو بزدل ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے،
یوں بھاونند مہندرکو یقین دلانے میںکامیاب ہوجاتا ہے پھر وہ ایک تہہ خانے میںجاتے ہیں جہاں کالی دیوی کا بت رکھا ہے وہاں مسلمانوںسے لڑنے کا عزم کرتے ہیں اور پھر ہر سپاہی بڑی عقیدت کے ساتھ ’’بندے ماترم ‘‘ کا گیت گاتا ہے ۔
بنکم کوئی محقق یا تاریخ کا طالب علم نہیں بلکہ ایک متعصب ناول نگار تھا اور مذکورہ دونوں ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ و ہ مسلمانوں کے بارے میںکن خیالات کا مالک تھا۔
تقسیم بنگال کے خلاف چلائی جانے والی ہندو تحریک میں جب ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت گایا جانے لگا تو اسی وقت بنگالی مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا کیونکہ ناول بنگالی زبان میں لکھا گیا تھا جسے بنگالی مسلمان اچھی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ6اگست1907کو نٹروکانا محمڈن انجمن نے اپنے ایک اجلاس میںایک قرارداد کے ذریعے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ
’’ بندے ماترم ‘‘کا گیت قومی گیت کے طور پر نہیں بلکہ انگریزوں اور مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے گایا جا رہا ہے ۔
1937میں جب کانگریسی وزارتوں نے ’’بندے ماترم‘‘ کو قومی ترانہ قرار دیتے ہوئے اسے سکولوںکالجوں اور مجالس قانون ساز کے آغاز پر پڑھنے کا حکم جاری کیا تو دونوںقوموںکے درمیان شدید کشمکش کا آغاز ہوا۔ ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ دعوی کیا یہ ترانہ گذشتہ 30سال ہماری قومی جدوجہد سے وابستہ چلا آرہا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی یادیں اور قربانیاں وابستہ ہو گئی ہیں اور اس ترانے میں ہندوستان کی مدح کی گئی ہے*
پنڈت جی کا اشارہ تقسیم بنگال کی طرف ہے کیونکہ 1937میں سے 30 سال حذف کر دئيے جائیں تو یہ سن تقسیم بنگال کی طرف چلا جاتا ہے اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے نہ صرف بنگال بلکہ بر عظیم کے جملہ مسلمان ہندووں کے برعکس تقسیم بنگال کی حمایت کررہے تھے اس موقع پر دونوں قومیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں لہذا اسے قومی جدوجہد سے تعبیر کرنا تاریخ کا خون کرنے کے مترداف ہوگا۔
ابھی کانگریسی وزارتوں کے قیام میں پورے چار سال باقی تھے کہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار سٹار آف انڈیا نے اپنی 2نومبر 1933کی اشاعت میں بندے ماترم کے حوالے سے ایک ادارئیے میںلکھا کہ بنگال کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس گیت پر اعتراض کیا ہے جسے ہندو قوم پرستوں نے سنا ان سنا کر دیا، اخبار نے واضح کیا کہ یہ گیت مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے چہ جائیکہ اسے ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا جائے ۔
1937میںجب کانگریس کو 8صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تو اس نے دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہندوستان میں ایک قوم آبادہے جس کا ایک قومی ترانہ بھی ہے ،’’بندے ماترم ‘‘کو قومی ترانہ کا درجہ دینا شروع کر دیا ،حکومت سنبھالتے ہی اس نے سکولوں ، کالجوں ، سرکاری دفاتر، اور اسمبلیوں کے آغاز پہ یہ قومی ترانہ گانے کا حکم جاری کردیا اب دو قومی نظریہ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتا ہے ، برعظیم کے جملہ مسلمانوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ کانگریس کے اس قومی ترانے کو مسترد کر دیا ، بنگال ، پنجاب، بہار، یوپی،سی پی، اور مدراس کے مسلمانون نے اس قومی ترانے کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے گانے سے انکار کر دیا۔ستمبر 1937میں جب مدراس اسمبلی میں حسب معمول یہ گیت گایا جا رہا تھا تو اسمبلی کے ایک مسلمان رکن نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا تھا۔
سہ روزہ نوائے وقت نے جولائی 1943میںدو مرتبہ بندے ماترم کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ اصلاً یہ ترانہ بنگال کے ہندو باغیوں کا ترانہ ہے جو انہوں نے اسلام اور حکومتِ اسلامی کو مٹاکر ہندو راج قائم کرنے کے لئے جاری کیا تھا ۔
اس نام نہاد قومی ترانے کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے کہ یہ گیت قومی ترانے کے طور پر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس کے متعصب مصنف کو یہ وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ہندوستان کا قومی ترانہ قرار پائے گا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی نظریے نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا جب ہندووں کی جانب سے بندے ماترم کو بطور قومی ترانہ اختیار کرنے پہ اصرار کیا گیا تومسلمانوں نے علامہ اقبال کی نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاںہمارا
کو ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا۔
مجلہ ادبی دنیا کے مدیر نے اس سلسلے میں انکشاف کیا کانگریس کے 1921کے اجلاس اور اس کے دو تین سال بعد تک کانگریس کی کاروائی کا آغاز علامہ اقبال کے اسی ترانے سے ہوا کرتا تھا ۔
آل انڈیا ریڈیو آج بھی اپنی نشریات کا آغاز ’’بندے ماترم‘‘کے ترانے سے کرتا ہے اور ریڈیو پاکستان اپنی نشریات تلاوت قرآن حکیم سے شروع کرتا ہے ۔
تو ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا ہوگا کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ، پاکستان بن گیا ہے اب اس کو آفات سے بچانے کے لئے قیام پاکستان کے جذبات کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
*(Bhuiyan Iqbal, Selections From the Mussalman 1906-08, Calcutta, 1994,pp.11-12)
**(عاشق حسین بٹالوی، ہماری قومی جدوجہد 1938ء لاہور، 1966 صفحہ250-51)
۔۔۔

مولانا ذوالفقار علی طاھر کا سانحہ ارتحال

ِِ۳ جنوری ۲۰۱۸ء شام کو جیسے کالج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس گھر پہنچا تو موبائیل پر کالز اور ایس ایم ایس آنا شروع ہوگئے، جن میں یہ روح فرسا اور المناک خبر ملی کہ اسلامی علوم و فنون کے ماہر، تدریس کے شہنشاہ،عالم ربانی، جماعت اہلحدیث سندھ کے روح روان، اور ماہنامہ مؤقر دعوت اہلحدیث حیدرآباد کے مدیر شہیر ، مولانا ذوالفقار علی طاہر کراچی کے ایک جان لیواٹریفک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے بار بار زبان پرانا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا ۔
شدیم خاک ولیکن ببوئے تربت ما
تواں شناخت کزین خاک مرد مے خیزد
آہ!جس مرد حق نے اسلام کی آفاقیت وحقانیت کے لئے پوری زندگی وقف کردی جس نے باب الاسلام سندھ دورافتادہ،گائوں،میں شرک و بدعت کے بتکدوں میں آذان حق دی و ہ اچانک ہم سے بچھڑ کر پیوند ہ خاک بن گیا،ابوزبیرذوالفقار علی طاھر بن حمزہ علی( متوفی ۲۰۰۵ء) بن مرحوم غلام حیدر خان (متوفی۱۹۸۳ء) بھی اپنے دور کے انتہائی نیک سیرت، پرہیزگار، اور صالحین میں شمار ہوا کرتے تھے، مولانا ذوالفقار علی طاھر تحصیل کھپرو ضلع سانگھڑ کے شہر سامارو موری میں ۴ مارچ ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوئے،آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری اور قرآن مجیدناظرہ اپنے گائوں میں حاصل کی ، جس کے بعد آپ نے مڈل اور میٹرک بھی کھپرو سے کیا، جس کے بعد انکے اقرباء کی خواہش پر انہوں نے علوم اسلامیہ اور درس نظامی کے لئے باقاعدہ مدرسہ قاسم العلوم ٹنڈوآدم روڈ میرپورخاص میں داخلہ لیا، جہاں ابتدائی فارسی اور عربی کے قواعد سے تعلیم شروع کی، انکے اساتذہ کرام عمومًا دیوبند مکتب فکر کے حامل تھے،جن میں سے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
۱۔مولانا غلام قادر مرّی پھلڈیوں سانگھڑ والے جن سے مولانا طاھر نے ابتدائی کتب فارسی کے قوائد، پہلی فارسی، کریما،نامہ حق،پندنامہ وغیرہ پڑھیں۔
۲۔مشہور مصنف،اسلامی اسکالر، پروفیسر مولانا حکیم امیرالدین مہر حفظ اللہ تعالی سابق ڈائریکٹر الدعوۃ اکیڈمی اسلام آبادسے بھی باقائدہ ترجمۃ القرآن ،اور عربی گرائمر صرف و نحو اور ادب کی کتب پڑھیں۔
۳۔مولاناعطاء اللہ خاصخیلی ٹنڈو آدم والے سے آپ نے صرف ، نحو،باالحضوص علم الصّیغہ مین مثالی مہارت تامہ حاصل کی۔
۴۔مولانا سعیداحمدخان مکرانی وغیرہ سے بھی عربی اور فارسی کتب پڑھیں جن میں اخلاق محسنی، گلستاں و بوستاںسعدی اور ’مالابدمنہ‘شامل ہیں۔
۵۔مولانا سید احمدسعید وغیرہ سے بھی عربی فارسی کا مروّجہ کورس پڑھا، واضح رہے کہ اس دور میں مدارس اسلامیہ کے کورس میں فارسی بے حد ضروری تھی چونکہ ایک عالم دین کا فارسی سے جھل بھت سارے علوم فنون اور معلومات کے خزینہ سے محروم کر دیتا ہے، اس زمانہ میں تو عربی گرائمر بھی فارسی کتب میں پڑھائی جاتی تھی مثلا مشہور کتاب ارشاد الصرف اور اس کی شرح وغیرہ بے انتہا علمی افادیت کی حامل تھی ، (جیسا کہ خود راقم الحروف نے دو سال تک مدارس اسلامیہ میں فارسی مکمل کی کہ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا) بھرحال مروجہ نصاب کو
مکمل کرنے کے بعد مولانا ذوالفقار علی طاہرنے تقریبا
ایک برس تک مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث لیاقت کالونی (گھمن آباد) حیدرآباد میں محنت وعرق ریزی سے عربی کی ابتدائی جماعت پڑھی جہاں انہیں فضیلۃ الشیخ حافظ محمد ایوب صابر ،مولاناعبدالغفور رئوف ،شیخ شبیر احمد ،شیخ محمد ذکریاوغیر ہم جیسے با وقار اساتذہ کرام سے کتب کماحقہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔جس کے بعد ۱۹۸۸ء میں آپ نے عربی کی جماعت دوئم کے لیے کراچی کی قدیم علمی ادبی اور باوقار دینی درسگاہ جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سفید مسجد سولجر بازار میں داخلہ لیا جہاں سے بفضل اللہ تعالیٰ بقیہ علوم وفنون کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ۱۹۹۴ء میں فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالخالق رحمانی رحمہ اللہ تعالی جیسے اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی جیسے محدث العصر علمی شخصیات سے دستار فضیلت و سند فراغت حاصل کی انکو اپنی پوری جماعت میں اوّل پوزیشن ملی جس کے باعث انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے، جہاں پر آپ نے اپنے وقت کے کئی جلیل القدر عُلمائے عظام سے اکتساب علم کیا تھا، مثلًا استاد العُلماء علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی سے الفیہ ابن مالک،شرح نخبۃ الفکر ، جامع ترمذی، سنن نسائی اور صحیح البخاری جلد دوئم وغیرہم جیسی کلیدی کتب پڑھیں، ان کے علاوہ دیوبندی عالم دین مولانا غلام رسول سے دستورالمبتدی،اصول شاشی، قدوری، ھدایہ، شرح جامی کے علاوہ تفسیر جلالین و تفسیر بیضاوی جیسی اہم کتب بھی پڑھیں، اسی ادارے میں میرے دیرینہ دوست، مرحوم مفتی محمد صدیق رحمہ اللہ تعالی جیسی فاضل شخصیت سے آپ نے شرح تہذیب، مولانا امان اللہ ناصر سے حجۃ اللہ البالغہ ، سید محمد شاہ سے سنن ابو دائود، الشیخ عبدالمجید سادھوی سے بلوغ المرام، شیخ افضل سردار سے مشکٰوۃ المصابیح (مکمل) فضیلۃ الشیخ محمد دائود شاکرحفظہ اللہ تعالیٰ سے معلم الانشاء، مقامات حریری، استاد العُلماء مولانا عبدالرحمن چیمہ، جیسی قد آور شخصیت سے کافیہ پڑھی، مزید فضیلۃ الشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ تعالیٰ سے مرقاۃ، علم الصّیغہ، شرح مئۃ عاملہ، ھدایت النحو، سنن ابن ماجہ، صحیح مسلم جلد اوّل و دوئم، صحیح البخاری جلد اوّل جیسی گرانقدر علمی کتب پڑھنے کی سعادت حاصل کی، اس طرح مولانا ذولفقار علی طاھر نے فراغت کے بعد ایک سال تک مشہور علمی ادارے جامعۃ الاحسان کراچی اور چار سال تک جامعہ دارالحدیث رحمانیہ میں فن تدریس کے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دیئے، اسی دوراں آپ نے وفاق المدارس السّلفیہ سے شھادۃ العالمیہ اور کراچی یونیورسٹی سے ’مولوی فاضل عربی‘بھی پاس کر لیا، سچ ہے
کلیوں میں سینے کا لہُو دے کرچلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
حسن اتّفاق سے مولانا ذوالفقار علی طاھر نے اپنی پیدائش کے پورے بیس ۲۰ سال کے بعد ۴ مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کی جس سے اﷲ تعالیٰ نے انکو دو فرزند عطافرمائے ۔
۱۔زبیر ۲۔زھیر جو بھی طالب علمانہ کاوشوں میں مصروف عمل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے والد کا جا نشیں بنائے مولانا طاھر اپنے خانداں میں پہلے فرد تھے جس نے مدارس اسلامیہ سے علوم و فنون میں تکمیل کرکے اپنے علاقہ میں کتاب و سنت کی دعوت دی،
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
۱۹۹۹ء میں سندھ کے بطل جلیل فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی کے حسن انتخاب پر الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ کراچی میں ایک باوقار استاد اور محسن منتظم کے عہدے پر مولانا طاہر فائز ہوئے، پھر یہ اشاعت کتاب وسنت کا سلسلہ پورے انیس سال تک باقاعدہ جاری رہا ، تا آنکہ مولانا طاھرنے جاں جانِ آفریں کے حوالے کی ، آپ ہمیشہ تواضع للّہ کا عکس نظر آیا کرتے تھے،مزید یہ کہ مؤقر ماہنامہ دعوت اہلحدیث کے اردو شمارے کی ادارت بھی یکم ستمبر ۲۰۱۰ء سے تادم واپسی باقاعدہ مولانا طاہر کی زیرنگرانی رہی ،مولانا طاہر کے سانحہ ارتحال سے ویسے تو پوری جماعت تنہاہوگئی لیکن مؤقر دعوت اہلحدیث جامعہ المعھدالسلفیہ اور علامہ عبداللہ ناصر رحمانی اپنے عزیز القدر رفیق سے محروم ہوگئے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
مولانا ذوالفقار علی طاہر بیک وقت ایک بہترین داعی، مؤثر خطیب، مثالی مدرس و منتظم ،جمعیت اہلحدیث کی مجلس مشاورت کے ممبر ،سندھ کے ناظم امتحانات اور مؤقر دعوت اہلحدیث کے مدیر شہیر تھے، انہوں نے خصوصًا فن تدریس میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں، ’دعوت اہلحدیث‘ کے پر مغز اداریے، جاندار محققانہ مضامین، مقالات علمیہ، حالات حاضرہ سے باخبر رہ کر بھرپور بے لاگ تجزیئے، شذّرات علمیہ کے علاوہ جب بھی کسی معاصر نے بلاوجہ طائفہ منصورہ، مسلک اہلحدیث اور کتاب و سنت کے خلاف لکھا تو مولانا طاھر مرحوم نے بروقت بھرپور علمی تعاقب کرتے ہوئے کلمۃ الحق کا فریضہ سرانجام دیا، مختصرًا آپ لایخافون لومۃ لائم کے پیکر تھے۔
کہتا ہوں وہ ہی بات سمجھتا ہوں حق جسے
میں زہر ھلاھل کوکبھی کہہ نہ سکا قند
مولانا طاھر صاحب طلباء کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیا کرتے تھے، اسباق کی باقائدگی کے متعلق ہمیشہ متفکر رہا کرتے تھے، وہ پہلے خود وقت کی پابندی کرتے پھر اوروں کو کہتے، اس بات کی گواہی آج بھی علماء و طلباء دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، مولانا طاھر کا طریقہ تدریس انتہائی جاندار ، پروقار،مدلّل،علمی انداز میں سہل، عام فہم، مختصر مگر سحّرانگیزہوا کرتا تھا، مشکل موضوعات کو بھی احسن انداز سے طلباء کو ذہن نشین کرادیا کرتے تھے،جامعہ کے پورے عملے سے انکا انتہائی مشفقانہ رویہ رہا، آپ طلباء کے سامنے اٹھتے بیٹھتے صورت و سیرت میں اپنے اکابر اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے تھے، مولانا ذوالفقار علی ویسے تو معقولات و منقولات میں مہارت تامہ رکھتے تھے، تاہم الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ میں انکے حوالے جو اسباق ہوا کرتے تھے ان میں تفسیر جلالین، صحیحین، مؤطا امام مالک سنن اربعہ، مشکٰوۃ المصابیح،شرح نخبۃ الفکر، حجۃ اﷲ البالغہ، فصول اکبری، ھدایت العبرات وغیرہ شامل تھیں، جن سے طلباء خوب استفادہ کیا کرتے تھے۔
آہ!آج جامعہ المعھد السلفیہ کے ہونہار تلامذہ اپنی کتابیں کھولے دارالتدریس میں اپنے محسن مرّبی استاد المکرم کے علمی فیوض و برکات سے استفادہ کے لیے نمناک آنکھوں سے چشم براہ ہونگے، لیکن یہاں سے جانے والے بھی کبھی واپس لوٹے ہیں؟ عرصہ تک طلباء ان کو بھول نہ پائیں گے،
دستک ہوئی دوڑ کے دہلیز تک گیا
باہر ہوا کا شور تھا، چہرہ اتر گیا
مولانا طاھر اتباع سنت کا حد سے زیادہ اہتمام کیا کرتے توحید و سنت کو اپنے لیے متاع گرانمایہ سمجھتے تھے، سچائی، سادگی، کفایت شعاری، عاجزی، فروتنی، انکساری اور رواداری انکا شعار تھا، کُن فی دنیا کأنک غریبٌ او عابر سبیلٌ کا آپ مظہر تھے۔
جس سے زینت تھی چمن کی پھول وہ مرجھا گیا
گلشن علم و عمل پر چھا گئی اک دم خزاں
ویسے تو انکے تلامذہ انکے دروس علمیّہ سے استفادہ کرنے والے لاتعداد تھے تاہم چند علماء کرام کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔ حافظ عبدالمالک مجاھد، مولانا حزب اﷲ بلوچ، حافظ محمد شعیب سلفی، حافظ عبداﷲ شمیم، حافظ محمد عثمان صفدر، حافظ فاروق کمبوہ ، حافظ اصغر محمدی، حافظ عبدالرحمٰن محمدی،حافظ حبیب احمد ثاقب،شیخ عبدالصمد مدنی حفظہم اللہ جیسے لاتعداد علمائےکرام شامل ہیں ۔
میری ویسے تو مولانا طاہر سے دیرنیہ دوستی تھی لیکن چند سال قبل جامع بدیع العلوم مٹھی کے امتحانات سے فارغ ہوکر انہوں نے ایک دن اور رات ’خاکسار‘ کے غریب خانے کو رونق بخشی پھر پورا وقت کتابوں اور راشدی برادران کے متعلق یادوں کے ساگر موضوع بحث آتے گئے پھر اتنا خوش ہوئے کہ ناچیز اور میری لائبریری پر ایک بھرپور اداریہ لکھ ڈالا، آپ نے دو مرتبہ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۵ءمیں عمرے کی سعادتیں حاصل فرمائیں، انکی غربت، سادگی، بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انکا ایکسیڈنٹ میں اچانک انتقال ہوا تو ایک گاڑی میں ہی اہل خانہ،گھر کا مختصر سامان، چند کھانے کے برتن،ایک دو ٹین کی پیٹیاں اور اوڑھنے بچھانے کے لیے رلیاں تھیں۔
ایک ایک کر کہ ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
مولانا طاھر دل آویزاں اور سحّر انگیز شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت مخلص دوست، مثالی داعی، ممتاز قلمکار، انشاپرداز، بہترین مترجم، باکردار معلم، نفیس مرّبی تھے، میں نے ہمیشہ انکو نہایت اختصار، جامعیت، پر مغز، معقولیت کے ساتھ حقیقت پسندانہ، جامع، مدلل اور محتاط گفتگو کا عادی پایا۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے
جن کو تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
میں نے انکو افکار علوم اسلامیہ کے ساتھ، حالات حاضرہ کی حسّاسیت اور نزاکتوں سے بھی خوب واقف پایا، دینی تڑپ رکھنے والے جماعتی احباب کے وہ نہ صرف قدردان تھے بلکہ دوسروں کے جذبات و نظریات احساسات کی قدر کرنے کے فن سے بھی شناسا تھے، وہ روبرو ہوں، فون پر ہوں، خط و کتابت سے مخاطب ہوں مگر ہمیشہ محبت، مئودت، شفقت، عزت اور اپنائیت کے فن سے متصّف نظر آتے تھے، میں نے مدت مدید سے انکو باہمی اعتماد، بردباری، تحمّل مزاجی، فہم و فراست میں مثالی انسان پایا۔
مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر
آج تک تیرے خطوط سے تیری خوشبو نہ گئی
(اختر شیرانی)
وہ مادری زبان سندھی ہونے کے باوجود اردو مبیّن کی نزاکتوں سے بھی شناسا تھے وہ پوری حیاتی اپنے اصولوں پر کار آمد رہے لیکن کبھی بشری تقاضا کے تحت اگر کوئی کمی بیشی رہ جاتی تو مطلع ہونے پر ایک لمحہ بھی اعتراف میں تاخیر نہیں کرتے تھے، وہ شدید مخالفت میںبھی مغلوب الغضب ہونے کےمرض سے مبرّا تھے، مولانا طاھر کو نابغہ روزگار علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبداﷲ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی خصوصی تربیت، توجہ، محبت واعتماد نے ایک معتدل مزاج بلند پایہ عالم بنا دیا تھا ان مایہ ناز شخصیات کی تربیت و شفقت سے آپ ایک تراشا ہوا ہیرہ محسوس ہوتے تھے، انکے اچانک سانحہ ارتحال سے پوری جماعت کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
مختصرا آپ صالحہ صفت ، راست باز، وضع دار، مہذب، شائستہ اور دھیمہ لہجہ کے مالک تھے، انکے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ عامیانہ گفتگو سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے، صاف گو سیدھے سادے متقی پاکیزہ اوصاف ،عبادت گزار انسان تھے، کبھی انکو کسی سے حسّد کرتے نہیں دیکھا، وہ دوسروں میں ہمیشہ حسنِ ظن رکھا کرتے تھے، وہ کسی زندہ یا انتقال شدہ مسلمان بھائی کی غیبت، عیب جوئی، تعصّب اور کردار کشی سے کوسوں دور رہتے، ورنہ موجودہ دور میں ایسی زندگی گذارنا بیحد مشکل ہے، بلکہ یہ اوصاف اب ’عنقا‘ ہوتے نظر آتے ہیں،
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
( ثاقب لکھنوی)
مولانا ذوالفقار علی طاھر خالصتًا علمی ذوق کے حامل بزرگ تھے، ان کا علوم قرآنی و احادیث رسول ﷺ سے بے انتہا شغف تھا بلاشبہ آپ ان عُلمائے عظام میں سے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا اتّباع سنت تھا، ایسے اصحابِ علم و فضل اقوام میں مدتوں کے بعد جنم لیتے ہیں، آپ نے پوری حیاتی سوز دل سے فکر و نظر کے چراغ روشن کیئے انکی یادیں اور باتیں زبانوں کو حلاوت اور نگاہوں کو بصیرت عطا کرنے والی تھیں،
سالہا زمزمہ پرواز جہاں خواھد بود
زاین نواھاکہ دراین گنبد گردن زدہ است
مولانا ذوالفقار علی طاھر کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے دل دکھتا ہے، انکی شیرین یادوں اور باتوں سے دل لبریز ہے، جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو انکی آنکھوں میں تبسّم چہرہ پھول کی طرح کھِل اٹھتا اور پھر ہمیشہ کی طرح رنگ آشنائی سے نوازتے لیکن خالقِ کائنات کے فیصلے کے سامنے کسی کو چوں و چراں کی مجال ہے؟ کلُّ مَن عَلیھا فَانٌ‘ مولانا طاھر اپنے لاکھوں چاہنے والے محبت کرنے والے طلباء، اساتذہ، عُلماء، عامۃ الناس، اعزہ اقرباء اور قریبی رشتہ داروں کو دکھی دل چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے،
اے رونق ہائے محفل ما۔ رفتیدولے نہ ازدل ما
غم فرقت بھی کیا عجیب ہے جس سے جتنا تعلق خاطر ہوتا ہے اُتنا غم بھی زیادہ، ایسے لوگوں کی باتیں اور یادیں مدت تک تڑپاتی رہتی ہیںاور ایسے لوگ اب ملتے بھی کہاں ہیں؟
یا الٰہی! تیرہ عاجز مخلص بندہ تیرے حضور قیام و قُعود رُکوع سُجود سے سر جھکائے حاضر ہوا ہے اپنے جود و کرم سے انکی مغفرت فرما، انکی اگلی منزلوں اور مسافتوں کو آسان فرما، انکی لحد کو باغیچہ فردوس بنا، اور انکے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرما، ہم سب کو جادہ مستقیم پر چلنے کے ساتھ تو اپنے پسندیدہ بندے بنا

۔ آمین یا ربَّ العالمین
الا یا ساکن القصر المعلٰی
ستُدفن عن قریب فی التراب
لنا ملک ینادی کل یوم
لدوا للموت وابنوا للخراب
۔۔۔

تذکرہ ٔخیر میرے محسن کا

قارئین کرام! میری مراد میرے محسن ومربی استاذ محترم حافظ اللہ نواز ہرل صاحب حفظہ اللہ (فاضل جامعہ اسلامیہ ، رئیس جامعہ تعلیم القرآن والسنہ نوابشاہ) ہیں ۔ استاد محترم حفظہ اللہ جیسی معزز و مکرم شخصیت پر قلم اٹھانا مجھ جیسے کم علم و عمر کے لیے یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔کافی عرصے سے خواہش تھی کہ شیخ محترم کی شخصیت پر کچھ تحریر کروں لیکن قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکی ، بالآخر اس بار دل کے ہاتھوں مجبور ہواہی ہوں۔ نہ معلوم اس کے بعد انکے متعلق لکھنے کا موقع ملے نہ ملے ۔سمجھ میں نہیں آ رہا کہ محبت و مودت میں سمندر سی گہرائی رکھنے والے اس شخص پر کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں کن باتوں کا تذکرہ کروں!
میرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
الغرض ! مختصر طور پر انکی زندگی کے بعض جہات و اوصاف کا ذکر خیر کروں گا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہ وتعالی اس تحریر کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےشیخ محترم کی شان شوکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکے استاذ (جو بحر العلم سینئر اساتذہ میں شمار کیئے جاتے ہیں )کا کہنا ہے کہ’’ میں حافظ اللہ نواز صاحب کا استاذ ہوں لیکن میں حافظ صاحب کو اپنا استاذ سمجھتا ہوں۔” استاذ ہی کو شاگرد کی ذہانت، فہم وفراست تعلیمی ذوق اور علم کےلیے جھود و مساعی کا علم ہوتا ہے شاگرد کی فطری صلاحیتیں اور مطالعہ کتب کی لگن بھی استاذ کی نظر میں ہوتی ہےجس شخص کا استاذ اسکو اپنا استاذ تسلیم کرے بتائیں ان کی شخصیت کیا ہوگی!! یقینا ہمارے شیخ اس دور کے گل سرسبد اور علمی کہکشاں کے نجم ثاقب ہیںشیخ محترم کی زندگی کے وہ لمحات جو راقم نے انکے تحت اشراف بسر کیے ہیں انتہائی عاجز مندانہ لمحات تھےع
نگہ بلند سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کےلیے
شیخ محترم اپنے اسلاف کے تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہیںنہایت ہمدرد اور رحم دل، زہد و تقوی کے پیکر ، اسلام کی دعوت و تبلیغ میں بڑےجرأت مند اور قرآن سے انتہائی لگن ۔ شیخ محترم کی خطابات میں بھی اکثر قرآن ہی سننے کو ملتا ہےبلکہ طلباء کو بھی اکثر یہ ہی نصیحت فرمایا کرتے ہیں کہ لمبی لمبی تقریریں لازم نہیں ہیں لوگوں کو فقط سورہ فاتحہ اچھی طرح سمجھا دیں تو کافی ہے -“شیخ محترم اپنے مسلک کے لوگوں سے بھی انس و روابط رکھتے ہیں تو دیگر حضرات سے بھی انکے بے تحاشا مراسم ہیںشیخ محترم کی رقت قلب غیروں کو بھی قریب ہو نے کے لیے مجبور کر دیتی ہے اور وہ بھی کچھ دیر آپ کی خدمت میں بیٹھنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
شیخ محترم کی عاجزی کے بیسوں مثالیں موجود ہیں حقیقت کی وضاحت کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے کہ’’ ایک بار یوں ہوا کہ راقم جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا کہ شیخ محترم کسی وجہ سے جمعہ پڑھانے نہیں گئے اور دوران خطبہ آکر مسجد کے ستون کے پیچھے بیٹھ گئے راقم کی جیسے نظر پڑی تو وہ تعجب کرنے لگا کہ شیخ صاحب کیسے آگئے ؟ہائے! شیخ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے ٹوٹے ،بے ربط
الفاظ … خطبہ جمعہ جیسےہی ختم ہوا تو میں فورا پیچھے صف میں
کھڑا ہوگیا کہ شیخ صاحب ہی نماز پڑھائیں گے ۔انکی موجودگی میں میں مصلے پر کھڑا ہونا کیسے گوارہ کر سکتا تھا ؟تھوڑی دیر تک رکے رہے شیخ مصلے پر نہیں آئے میں نے کہا :شیخ! نماز پڑھائیں فرمایا: بیٹا ! آپ ہی پڑھالیں ۔بہت اسرار کے بعد مصلے پر آئے اور نماز پڑھائی مقتدی آپ کی عاجزی و انکساری دیکھ کر آنگشت بدند ره گئے‘‘۔
محترم شیخ طلبہ و علماء کی بہت زیادہ توقیر کرتے ہیں انکی آمد پر خوش بھی ہوتے ہیں جب کبھی انکی خدمت میں طلبہ و علماء کی آمد ہوتی ہے تو وہ خود انکی میزبانی کرنے کی کوشش کرتے ہیںطلبہ کو اپنی اولاد جیسا پیار دیتے ہیں اگر کسی طالب پر وقتی طورغصہ آ بھی گیا تو اسے خوش کرنے کی حتی الممکن کوشش کرتے ہیںطلبہ سے ہر حوالے سے تعاون کرنا گویا اس مرد مجاہد نے اپنے ذمے اٹھایا ہوا ہے،غرباء و فقراء طلبہ پر آپ کی نظر رہتی ہے اور ان سے حتی الاستطاع تعاون کرتے ہیں،بہت مرتبہ یوں بھی ہوا کہ طلبہ نے اپنے گھریلو مجبوریاں پیش کیں تو شیخ نے ان سے بھی ہر ممکن تعاون فرمایاشیخ حفظہ اللہ جمعہ کے لیے گاؤں گوٹھوں میں جانے والے طلبہ و خطیب حضرات کو اپنی جیب سے خرچہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جماعتیوں پر حق بنتا ہے کہ وہ طلبہ سے تعاون کریں طلبہ سے تعاون نہ کرنے پر آپ بہت ناراضگی دکھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر دین کا کام نہ ہوتا تو انکے پاس جانا بھی مناسب نہیں طلبہ سے کیا تو انکی الفت ہے! (اگرچہ ظاہری طور پر وہ سخت بھی کیوں نہ ہوں) عمرہ پر جا رہے

تھے تو نکلنے سے قبل طلبہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ “میں آپکو کمی کوتاہیوں پر جو ڈانٹا کرتا تھا اس کی معافی چاہتا ہوں ۔” طلبہ کی پڑھائی کا بے حد زیادہ خیال رکھتے ہیں طلبہ کو دوران سبق ادہر ادہر دیکھتے ہیں تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ یہ آپ کے پڑھائی کے ایام ہیں ان میں اپنی پڑھائی میں خوب محنت کریں یہ وہ ایام ہیں جن میں آپکے والدین نے آپکو تمام تر کاموں سےفارغ کر رکھاہے تاکہ آپ اپنے علم پر توجہ دیں اگر آج آپ محنت نہیں کریں گے تو وہ بھی وقت آئے گا کہ آپ پڑھنا چاہو گے لیکن آپ کو اس کا وقت نہیں ملے گا ۔راقم کو شیخ محترم سے استفادہ کا الحمد اللہ بہت موقع حاصل ہوا ہے شیخ کے ہاں چھ سالہ علوم اسلامیہ حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہےہر کسی سے عاجزی سے پیش آنے والے ان عظیم شخص سے اس عربی شعر کے ساتھ مخاطب ہوتا ہوں کہ
المسلمون بخیر ما بقیت لھم
ولیس بعد خیر حین تفتقد
جب تک آپ زندہ و سلامت ہیں، مسلمانوں کو خیر و برکت حاصل رہے گی جب آپ نہ رہیں گے تو ان سے نعمتیں چھن جائیں گی ۔‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ محترم شیخ کی زندگی میں برکتیں نازل فرمائے کہ انکا سایہ فگن ہمیشہ ہم پر رہےاگرچہ شیخ صاحب کی زندگی پر لکھنا چاہوں تو آپ جن اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں اور جن محامد و مکارم سے انکی ذات متصف ہے انکی رو سے انکے متعلق اس مختصر مضمون پر اکتفاء کرنا یقینا نا انصافی ہوگی بالکل اس شعر کی طرح کہ
سوچا تھا کہ تیری سیرت پے لکھوں گا رات کو بیٹھ کر
افسوس کہ تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے اور رات بیت گئی
۔۔۔

برصغیر کے علمائے اہلحدیث علامہ سید سلیمان ندوی کی نظر میں

علامہ سید سلیمان ندوی(1884ء۔1953ء) علوم اسلامیہ کے بحر زخّار تھے ان کی شخصیت ہمہ گیر اور کثیر الجہت تھی وہ ایک عظیم المرتبت عالم، مورخ،محقق، عربی، فارسی اور اُردو کے نامور ادیب، صحافی، مصنف اور سیاست دان تھے۔ علم وفضل کے اعتبار سے جامع الکمالات والصفات تھے۔ علامہ اقبال (م 1938ء) جیسے عظیم مفکر اور شاعر نے ان کے علم وفضل ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب 28 اپریل 1918ء سید صاحب کو لکھتے ہیں کہ ’’ آج مولانا ابو الکلام کا خط آیا ، انہوں نے بھی میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاد الکل ہیں۔ اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔ (اقبال نامہ 1/80)
جب سید صاحب کی کتاب’’سیرت عائشہ ‘‘ 1924ء میں شائع ہوئی اور علامہ اقبال کے مطالعہ میں آئی تو سید صاحب کو خط ارسال کیا
” سیرت عائشہ کے لئے سراپا سپاس ہوں ۔ یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے ۔ اس کتاب کے پڑھنے سے میرے علم میں مفید اضافہ ہو گا خدائے تعالیٰ جزائے خیر دے ۔ “ ( اقبال نامہ ۱/۱۱۳ )
سید صاحب کی کتاب’’خیام‘‘ کی اشاعت پر علامہ اقبال نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا :
” عمر خیام پر آپ نے کچھ لکھ دیا ہے ۔ اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا ۔ الحمد للہ کہ اب اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف سے ہوا ۔ “(اقبال نامہ ۱/۱۷۸)
علامہ سید سلیمان ندوی کی ذات تعارف کی محتاج نہیں وہ اپنے علمی تبحر اور فضل وکمال کے اعتبار سے مفسر بھی تھے ، مورخ بھی ،محدث بھی تھے ، محقق بھی ، معلم بھی تھے، متکلم بھی ،مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی ،مدبر بھی تھے اور مفکر بھی ، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی ،فلسفی بھی تھے اور شاعر بھی ، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد اور ضخیم کتابیں لکھیں اور برصغیر کے نامور اہل علم اور اہل قلم سے خراج تحسین حاصل کیا۔ ان میں سیرۃ النبی (ﷺ) ، سیرت عائشہ، حیات امام مالک، تاریخ ارض القرآن،خیام،خطبات مدراس،نقوش سلیمانی،حیات شبلی،رحمت عالم،عربوں کی جہاز رانی، عرب وہند کے تعلقات اور یادرفتگان بہت مشہور ہیں۔
سید صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا، انہوں نے بے شمار علمی، دینی، مذہبی، تاریخی، تحقیقی ،ادبی، تنقیدی اور سیاسی مقالات ومضامین بھی لکھے جو ماہنامہ الندوہ لکھنؤ، ہفت روزہ الہلال کلکتہ اور ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں شائع ہوئے۔ ان میں بعض مقالات ومضامین اتنے طویل تھے کہ وہ سید صاحب کی زندگی ہی میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ مثلاً
1 رسالہ اہل سنت والجماعۃ ( جو عقائد میں ہے)
2 خواتین اسلام کے شجاعانہ کارنامے
3 برید فرنگ
4 دنیائے اسلام اور مسئلہ خلافت
5 خلافت اور ہندوستان
6 لاہور کا ایک مہندس خاندان( جس نے تاج اور لال
قلعہ بنایا)یہ تحقیقی مقالہ سید صاحب نے اپریل 1933ء
میں ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھا اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی اس مقالہ میں سید صاحب نے مستند شہادتوں سے مدلل کرتے ہوئے بتایاتھا کہ ’’تاج محل کا معماردر حقیقت نادر العصر استاد احمد معمار ہے جو ہندسہ، ہیئت اور ریاضیات کا بڑا عالم تھا۔ (مقالات سلیمان ۱/۲۹۳)

خطبات

سید صاحب کی درج ذیل کتابیں ان کے دینی،علمی، تحقیقی اور ادبی وتنقیدی خطبات کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے مختلف شہروں میں ادبی ،تاریخی اور تعلیمی کانفرنسوں میں ارشاد فرمائے۔ ان میں بعض کانفرنسوں کی آپ نے صدارت بھی کی۔
1 خطبات مدراس
2 عرب وہند کے تعلقات
3عربوں کی جہاز رانی
4خیام
5نقوش سلیمان
خطبات مدراس :
سید صاحب نے اکتوبر 1925ء میں مدراس مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کی دعوت پر مدراس کا سفر کیا اور وہاں سیرت نبوی ﷺ پر آٹھ خطبات ارشاد فرمائے یہ خطبات سیرت نبوی کا جوہر اور عطر ہیں۔ (حیات سلیمان ، ص:۳۸۹)
خطبات کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1 انسانیت کی تکمیل صرف انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے ہوسکتی ہے۔
2 عالمگیر اور دائمی نمونہ عمل صرف محمد رسول اللہ ﷺ  کی سیرت ہے ۔
3 سیرت محمد ی کا تاریخی پہلو ( تاریخیت)
4سیرت محمدی کا تکمیلی پہلو ( کاملیت)
5 سیرت محمد ی کی جامعیت
6 سیرت محمدی کا عملی پہلو ( عملیت)
7 پیغمبر اسلام کا پیغام
8 پیغمبر محمدی ﷺ (خطبات مدراس ، ص:5)
ان خطبات کا انگریزی ترجمہ بنام Living Proghet اور عربی ترجمہ بنام ’’ الرسالۃ المحمدیۃ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔
انگریزی مترجم : محترم سعید الحق وینوی
عربی مترجم : مولانا محمد ناظم ندوی (علامہ سید سلیمان ندوی (شخصیت وادبی خدمات ) ، ص:۹۰)
عرب وہند کے تعلقات :
سید صاحب نے مارچ 1929ء میں ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کی دعوت پر’’عرب وہند کے تعلقات‘‘ کے موضوع پر خطبات ارشاد فرمائے، یہ خطبات سید صاحب کی تحقیقات عالیہ اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں ۔
ان خطبات میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ان کا وہ عہد زریں یاد دلایا ہے جب دونوں گونا اور مختلف النوع تعلقات کے رشتوں میں منسلک تھے ۔(أیضاً ، ص:۹۰)
سید صاحب نے ان خطبات میں ثابت کیا ہے کہ اس ملک سے عربوں کا تعلق اسلام کے ظہور سے صدیوں پہلے تھا عرب تاجر یہاں دوسرے ملکوں کا مال لاتے تھے اور یہاں کا مال دوسرے ملکوں میں لے جاکر بیچتے تھے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۳)
عربوں کی جہاز رانی :
یہ خطبات سید صاحب نے مارچ 1931ء میں حکومت بمبئی کے شعبہ تعلیم کی دعوت پر چار خطبات پر ارشاد ہے ، ان خطبات کا موضوع تاریخ ہے ، ان خطبات میں زمانہ جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی جہاز رانی، عربوں کی دنیا کے سمندروں سے واقفیت، ان کے بعض بحری انکشافات، عربوں کے سامان آلات اور ان کی بحر محیط کو عبور کرنے کی کوششوں وغیرہ سے مبسوط بحث کی گئی ہے۔ (معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۲۰۵)
یہ خطبات بھی سید صاحب کی ذہانت،قوت حافظہ،ذوق تحقیق اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں، سید صاحب نے نفس قرآن مجید اور دوسرے جغرافیائی وتاریخی ماخذ کی مدد سے دو ہفتہ میں تیار کر لیئے۔(سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۵)
خیام :
سید صاحب نے دسمبر 1920ء میںآل انڈیا اور نیٹل کانفرنس کے اجلاس پٹنہ میں ایک مقالہ پڑھا۔ یہ مقالہ علمی وادبی حلقوں میں بہت پسند کیاگیا توسید صاحب نےاس میں بعض مباحث بڑھا کر ایک مستقل کتاب کی شکل دے دی۔
مغربی مصنفین خیام کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ۔ ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ خیام جیسے نامور حکیم اور جلیل القدر فاضل کو اہل یورپ نے ایک عیاش اور بدمست رندلا ابالی کی شکل میں پیش کیا تھا جو پیشہ شاہد وشراب میں غرق رہتا اور جس کا مقصد حیات صرف رندی اور عیش پرستی تھی ۔ پیش نظر کتاب میں سید صاحب نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ خیام کی اصل تصویر اس سے قطعی مختلف ہے وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم فلسفی،ہئیت، نجوم اور ریاضیات کا بہت بڑا عالم اور دوسرے علوم عقلیہ کی مہارت میں مفقود النظیر تھا اس کی زندگی زاہدانہ تھی ، مذہبی حیثیت سے وہ ایک دیندار مسلمان تھا۔ (علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۷۲)
نقوش سلیمانی :
یہ کتاب سید صاحب کےادبي مضامين كا مجموعه هے اور تین ابواب پر مشتمل ہے ۔
1خطبات
2مقالات
3مقدمات
1اس کتاب میں 6خطبات ہیں جو ہندوستان کی موقر ادبی کانفرنسوں میں بحیثیت صدر ارشاد فرمائے۔
2 14 مقالات ہیں
3 9مقدمات ہیںجو سید صاحب دوسرے مصنفین کی کتابوں پر رقم فرمائے ۔(علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۳۱۔۱۳۲)
مولانا عبد المادر دریا آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
نقوش سلیمانی ۔ کتاب کیا ہے ۔ سید صاحب کے کمالات، ادبی وتنقیدی کی ایک مہر زدہ دستاویز۔(معارف اعظم گڑھ (سلیمان نمبر) ، ص:۲۳۲)
سید صاحب کا سفر افغانستان :
اکتوبر 1933ء میں شاہ نادر خاں نے علامہ اقبال (م۱۹۳۸ء) ڈاکٹر سرراس مسعود(سابق وزیر تعلیم ریاست بھوپال(م۱۹۳۸ء) اور علامہ سید سلیمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔ شاہ نادر خان کی یہ دعوت اپنے ملک میں مذہبی وعربی تعلیم کے نصاب کے سلسلہ میں مشورہ طلب کرنا تھا۔سید صاحب نے اپنے اس سفر کی روئداد ’’سیر افغانستان ‘‘ کے نام ’’معارف ‘‘ میں شائع کی ،بعد میں اس کوکتابی صورت میں شائع کیاگیا۔
بھوپال کے قاضی القضاۃ اور امیر جامعہ مشرقیہ :
1946ء میں اعلیٰ حضرت نواب حمیداللہ خان رحمہ اللہ والئے ریاست بھوپال نےسید صاحب کوپیش کش کی کہ وہ ریاست کےدارالقضاءاور عربی مدارس کواپنی نگرانی میں لے کرخالص مذہبی اوراسلامی رنگ میں ڈھال دیں ۔ سید صاحب نےعربی مدارس کی اصلاح وترقی کےکام کواپنے خالص ذوق کےمطابق پاکہ اس پیش کش کوقبول کرلیا ۔اور جون 1949ء میں بھوپال کےقاضی القضاء اورجامعہ مشرقیہ کےامیر کےمنصب پرمامو ر ہوئے۔ لیکن دارالمصنفین اورندوۃ العلماء سےتعلقات بدستور قائم رہےجس مقصد کےلیے انہوں نے بھوپال کا قیام منظور کیا تھا۔اس کی تکمیل میں اکتوبر 1949ء تک تگ ودو کرتے رہے ۔(نزھۃ الخواطر ۸/۱۶۵)
مگر اگست 1947ء کے بعد انقلابات کی ریاست کے لیل ونہار ہی بدل دیئے۔
پاکستان آمد :
اکتوبر 1949ء میں اپنی اہلیہ اور صاحبزادے سلمان ندوی کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور شاہ سعود رحمہ اللہ کے مہمان خصوصی ہوئے۔(تذکرۂ سلیمان ، ص:۲۰۴)
اور جون 1950ء میں پاکستان منتقل ہوگئے پاکستان میں سید صاحب کے مذہبی، قومی، تعلیمی اور علمی وادبی مشاغل جاری رہے۔
حکومت پاکستان نےدستور سازی کےسلسلہ میں ادارہ تعلیماتِ اسلام کےنام سےعلماءکا ایک بورڈ بنایا تھا۔سید صاحب کواس بورڈ کی صدارت کی پیش کش ہوئی۔آپ نے کچھ شرائط کےساتھ صدارت قبول کرلی ۔(حیات سلیمان ، ص:۲۰۴)
وفات :
1953ء میں سید صاحب نے ڈھاکہ کا سفر کیا وہاں سے لکھنو تشریف لے گئے کچھ دن بعد کراچی تشریف لے آئے اور علیل ہوگئے آخر اس علم وفضل کے آفتاب نے 22 نومبر 1953ء مطابق 14ربیع الاول 1373ھ کو71سال کی عمر میں رحلت فرمائی اور ان كي تدفين مولانا شبير احمد عثماني رحمه الله كے پہلو میں ہوئی۔(معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۳۰۲)
اعتراف عظمت :
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) کے سید صاحب سے دیرینہ مراسم تھے اور دیر تک رہے اور مکاتبت بھی رہی۔
حدیث نبوی ﷺ کے بارے میں علمائے ندوہ کا نظریہ علمائے سلف کے نظریہ سے الگ ہے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(ایک تنقیدی جائزہ) میں منکرین احادیث ‘‘ کا ایک جدول ترتیب دیا ہے جس کے نمبر 10 میں تحریر فرماتے ہیں :
مولانا شبلی مرحوم ، مولانا حمید الدین فراہی ،مولانا ابو الاعلی مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی اور نام فرزندان ندوہ باستثنائے حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں لیکن ان کا انداز فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحکار معلوم ہوتاہے اور طریقۂ گفتگو سے انکار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ (جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ، ص: ۴۷ ، طبع اول ، دین محمد پریس لاہور ۱۳۷۶ھ )
سید صاحب رحمہ اللہ اپنے فقہی مسلک کے بارے میں تراجم علمائے حدیث ہند مصنفہ مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م 1966ء) کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں سنت کا پیرو اور توحید خالص کا معتقد ہوں ، سنت کو دلیل راہ مانتا ہوں اور علماء کے لیے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا جانتا ہوں اور حق کو ائمہ سلف میں کسی ایک میں منحصر نہیں سمجھتا اب اس پر آپ مجھے جو چاہیں سمجھ لیں
آزادہ رو ہوں اور میرا مسلک صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
( تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۴ طبع دہلی ۱۹۳۸ء)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م ۱۹۶۸ء) اپنے ایک مکتوب بنام ایڈیٹر الاعتصام لکھتے ہیں کہ
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم سے میرے تعلقات نیاز مندانہ تھے۔‘‘ (مقالات وفتاوی شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ، ص:۶۶۹ ، طبع ۲۰۱۶ء)
سید صاحب معتمد تعلیم ندوۃ العلما|ء تھے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی سفارش پر مولانا محمد حنیف ندوی (م ۱۹۸۷ء) اور مولانا عبد القادر ندوی (م ۲۰۱۱ء) ماموں کانجن کو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ دیا۔
مولانا محمد حنیف ندوی :
محمد حنیف ندوی ( ۱۹۰۸۔۱۹۸۷ء) علمائے اہلحدیث میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ بلند پایہ مفسر قرآن، محدث دوراں، فقیہ، مجتہد، مؤرخ، محقق، نقاد، مبصر، مدبر، مفکر، دانشور، ادیب ، متکلم، معلم، صحافی،فلسفی، مدرس، مصنف، مقرر، شیریں بیان ، سحر بیان خطیب اور عمرانیاں میں یکتا اور زبان ثلاثہ ( عربی،فارسی،اردو) میں یگانہ روزگار تھے۔
۱۹۲۵ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی کی تحریک پر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی نے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے نام ایک سفارشی خط دیا۔
(سید صاحب اس وقت ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم تھے) مولانا محمد حنیف کو ندوہ میں داخلہ مل گیا ۔ ۱۹۳۰ء میں مولانا محمد حنیف ندوۃ سے فارغ ہوئے اور محمد حنیف سے محمد حنیف ندوی کہلانے لگے ۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر سایہ رہے۔ اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور سال کے آخر میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تحریک پر جامع مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے خطیب مقرر ہوئے اور 18 سال تک (۱۹۴۸ء) مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ اور بعد نماز مغرب درس قرآن ارشاد فرماتے رہے اس عرصہ میں تین بار درس قرآن مجید ختم کیا مولانا محمد حنیف ندوی نے ۱۳ جولائی ۱۹۸۷ء میں لاہور میں وفات پائی اور وحدت کالونی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) کا مولانا محمد حنیف ندوی سے 40 سال تعلق رہا۔ مولانا بھٹی لکھتے ہیں کہ
محمد حنیف ندوی کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی اور اسلوب کلام نہایت مؤثر تھا۔ 1948ء سے لیکر ان کی وفات جولائی 1987ء تک تقریباً 40 برس میرا ان سے تعلق رہا۔ تعلق کیا بے پناہ مراسم رہے نہ کوئی میری بات ان سے مخفی تھی اور نہ میں ان کے کسی معاملے سے بےخبر تھا۔ (قافلہ حدیث ، ص:۴۸۰۔۴۸۱)
راقم نے اپنی آنکھوں سے بے شمار دفعہ لاہور میں اکٹھے دیکھا ہے ۔ بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف ندوی کی سید سلیمان ندوی سے ایک ملاقات کا ذکر بالفاظ ذیل کرتے ہیں اس مقالات میں بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف کے ہمراہ تھے۔
(یہ بات ذہن میں رکھیے کہ مولانا محمد حنیف اور سید صاحب میں بے تکلفی تھی کیونکہ مولانا حنیف صاحب تقریباً6 ماہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر تربیت رہے تھے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی تحریر :
لکھتے ہیں کہ 1951ء میں علامہ سید سلیمان ندوی جامعہ اشرفیہ کے جلسے میں لاہور تشریف لائے۔ اس وقت جامعہ اشرفیہ نیلہ گنبد میں مول چند بلڈنگ میں تھا۔ ’’الاعتصام‘‘ ان دنوں گوجرانوالہ سے شائع ہوتا تھا اور میں معاون مدیر کی حیثیت سے اس اخبار سے منسلک تھا میں اور مولانا ندوی سید صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ اشرفیہ گئے وہ ایک کمرے میں قیام فرما تھے اور ایک صاحب ان کے پاس بیٹھے تھے ہم گئے تو وہ صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔ شاید وہ اس انتظار میں تھے کہ کوئی آئے تو میں جاؤں۔ سید صاحب کو میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور پھر یہی رویت آخری رؤیت ثابت ہوئی اس سے کئی سال پہلے سید صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بیعت وارادت میں شامل ہوچکے تھے۔
مولانا حنیف ندوی کو دیکھ کر سید صاحب بہت خوش ہوئے بغل گیر ہوکر ملے۔ خیر وعافیت کے مبادلے اور اِدھر اُدھر کی چند باتیں ہوئیں ۔
مولانا نے سید صاحب سے فرمایا :
آپ نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کو ’’بہشتی زیور‘‘ کے قدموں میں ڈال دیا ہے سید صاحب نیچے دری پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے انہوں نے جسم کو تھوڑی سی حرکت دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا
آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو آپ بھی یہی کریں گے ۔
مولانا نے جواب دیا
میرا ابھی یہی خیال ہے کہ آپ پر عمر کا اثر ہے۔
یہ الفاظ سن کر سید صاحب کے چہرے پر اور مسکراہٹ پھیل گئی اور خاموشی اختیار فرمائی۔
اس کمرے کی دیوار پر جس میں سید صاحب کا قیام تھا۔ جامعہ اشرفیہ کے اس جلسے کا اشتہار لٹک رہا تھا۔ مولانا کی اس پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ ہر عالم کے نام کے ساتھ ’’حضرت‘‘ کا لفظ مرقوم تھا لیکن سید صاحب کو ’’مورخ اسلام سید سلیمان ندوی‘‘ لکھا گیا ہے ۔
مولانا نے کہا ’’ یہ اشتہار دیکھیے اس حلقے میں آپ ہمیشہ ’’مورخ‘‘ ہی رہیں گے آپ کی ’’حضرت‘‘ بننے کی خواہش یہاں کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ’’حضرت‘‘ وہی لوگ ہوں گے جو پہلے سے اس حلقے سے وابستہ ہیں۔ یہ اعزاز آپ کو نہیں ملے گا۔
سید صاحب نے ہلکا سا تبسم فرمایا لیکن مولانا کے اس طنز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ (قافلہ حدیث ، ص: ۳۳۹ تا ۳۴۱)
سید صاحب کے اہلحدیث احباب
سید صاحب کے حلقہ احباب میں اہلحدیث علماء کی بڑی تعداد شامل تھی۔ جن میں اکثر احباب کا ذکر انہوں نے اپنی کئی کتابوں میں کیا ہے۔ (حیات شبلی ، یادرفتگان)
ان علمائے اہلحدیث کا مختصرذکرذیل میں سید صاحب کے الفاظ میں کیا جاتاہے۔
مولوی فیض اللہ مئوي
یہ مئوناتھ بھنجن (ضلع اعظم گڑھ) کے باشندہ تھے۔ آخر میں مطب کرنے لگے تھے اسی تعلق سے دانا پور میں رہتے تھے وہیں ۱۲ ربیع الاول ۱۳۱۶ھ / ۱۸۹۸ء وفات پائی ۔ (حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوي
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوی مولوی فیض اللہ مئوی کے صاحبزادہ تھے جو مولوی سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے اور جنہوں نے مختلف مسائل پر چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے۔ ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۲ ء میں وفات پائی۔
(حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
مولانا شبلی کے ابتدائی عربی کےاستاد مولانا فیض اللہ مئوی کے لائق صاحبزادے مولانا ابو المکارم محمد علی صاحب موجد روغن احمر سے بڑے تعلقات تھے انہوں نے سیرت کے بعض مباحث پر دو ایک تنقیدی رسالے بھی لکھے تھے وہ اکثر اپنی علمی ضرورتوں اور سید صاحب سے تبادلہ خیالات کے لیے دار المصنفین آتے تھے۔ سید صاحب ان کا بڑا احترام کرتے تھے جب تک ان کا قیام رہتا اپنا سارا کام چھوڑ کے انہی سے مشغول رہتے ، علمی مذاکرہ اور تبادلہ خیال کرتے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۲۰۰)
مولانا سید نذیر حسین دہلوی :
سید صاحب تراجم علمائے حدیث ہند کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ علماء اہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے قلم اور مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے اور دہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین کی مسند درس بچھی تھی اور جوق درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۶)
سید صاحب اپنی آخری تصنیف ’’حیات شبلی‘‘ میں لکھتے ہیں
’’ مولانا شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد مولانا سید نذیر حسین صاحب بہاری دہلوی میں (مولانا سید نذیر حسین صاحب) کے ذریعہ سے اہلحدیث کے سلسلہ کو بڑی ترقی ہوئی۔ موصوف کے شاگردوں کا بڑا حلقہ تھا انہوں نے ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل کر اپنے طریقہ کی اشاعت کی ان کے مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں ۔
پنجاب میں مولانا عبد اللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا عبد المنان وزیر آبادی وغیرہ یورپ کے خطہ میں مولانا امیر حسن سہوانی،  مولانا بشیر صاحب سہوانی،مولانا عبد اللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی ، مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی(در بھنگہ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری اعظم گڑھی رحمہم اللہ اجمعین ۔ (حیات شبلی ، ص:۴۶۔۴۷)
(جاري ہے)

ممنوعات نماز

قارئین کرام ! وہ کونسے کام ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز سرانجام دینے سے منع فرمایا ہے۔
آئیں مختصراً ملاحظہ فرمائیں اور اپنی نمازوں کو ضائع ہونے بچائیں ۔
1 دوران نماز صفوں میں خلا چھوڑنا
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثَلَاثًا وَاللہِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ قُلُوبِكُم (سنن ابی داؤد : 662)

تم لوگ اپنی صفیں برابر کرو – یہ ( جملہ آپ نے تاکید کے طور پر ) تین بار کہا – اللہ کی قسم ! تم لوگ اپنی صفیں برابر کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا ۔
2 دوران نماز کندھے ننگے رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

لَا يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ شَيْءٌ (صحیح البخاری : 359)

تم میں سے کوئی شخص اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔
3 دوران نماز کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ، وَلَا أَكُفَّ ثَوْبًا وَلَا شَعْرًا(صحیح مسلم : 1096)

مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ میں ( نماز میں ) کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں ۔
4 دوران نماز اپنا ہاتھ اپنی قمر پر رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی ‌اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِاخْتِصَارِ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 947)
رسول اللہﷺ نے نماز میں ’’ الاختصار‘‘سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ : الاختصار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دوران نماز اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھے ۔
5 قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا
سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا(صحیح مسلم : 2250)

قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکےنماز پڑھو۔

6 حمام میں نماز پڑھنا
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :

الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الْحَمَّامَ وَالْمَقْبَرَةَ

ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے ، سوائے حمام ( غسل خانہ ) اور قبرستان کے ۔ (سنن ابي داؤد : 492)
7 نماز کے طرف دوڑنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
إِذَا سَ

مِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا (صحیح البخاری : 636)

جب تم اقامت سن لو تو نماز کے لیے اس طرح چل کر آؤ کے تم پر سکون واطمینان ہو اور جلدی مت کرو جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو ۔
8 کچی لہسن کھا کر نماز پڑھنا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلَا يَقْرَبْنَ أَوْ لَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا (صحیح البخاری : 856)

جو شخص اس درخت کو کھائے (یعنی کچی لہسن کھائے ) وہ ہمارے قریب نہ آئے اور نہ ہی ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔
9 سجدوں میں کتے کی طرح ہاتھ بچھانا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ(صحیح مسلم : 1102)

سجدے میں اعتدال اختیار کرو اور کوئی شخص اس طرح اپنے بازو ( زمین پر ) نہ بچھائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔
نماز میں سدل کرنا
سیدنا ابوہریرہ رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 643)

رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے۔
سدل یہ ہے کہ آدمی اپنے کپڑے کے دونوں کناروں کوملائے بغیر لٹکا لے ۔
!اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ (سنن الترمذی : 348)

اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو ۔
@ امام سے سبقت کرنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا :

أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ (صحیح البخاری : 691)

کیا تم میں وہ شخص جو ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ تعالی اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
# کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا
سیدنا عبدالرحمان بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَقْرَةِ الْغُرَابِ (سنن ابی داؤد : 862)

رسول اللہ ﷺنے کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے منع فرمایا ہے۔
یہاں کوے سے تشبیح ان لوگوں کو دی گئی ہے جوسجدے سے جلدی سر اٹھا کر دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور نماز میں اطمینان اختیار نہیں کرتے ۔
$ دوران نماز میں منہ کو ڈھانپنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ ‏‏‏‏‏‏، وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ (سنن ابی داؤد : 643)

رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔
% دوران نماز آسمان کی طرف نظر اٹھانا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تَرْفَعُوا أَبْصَارَكُمْ إِلَى السَّمَاءِ أَنْ تَلْتَمِعَ يَعْنِي :‏‏‏‏ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابن ماجة : 1043)

( نماز کی حالت میں ) اپنی نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بینائی چھین لی جائے ۔^ رکوع میں قرآن پڑھنا
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى … وَعَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ (سنن الترمذی : 264)

نبی کریم ﷺنے رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔
& فرض نماز کی اقامت ہو جانے کے بعد نوافل ادا کرنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی‌اللہ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ

جب نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ۔(صحیح مسلم : 1644)
* دوران خطبہ کسی کو خاموش کرانا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ (سنن ابن ماجة : 1110)

جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو ، تو تم نے لغو کام کیا ۔
( جمعہ کے دن دوران خطبہ گوٹھ مار کر بیٹھنا
سیدنا معاذ بن انس رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى عَنِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ (سنن ابي داؤد : 1110)

نبی کریم ﷺنے جمعہ کے دن دوران خطبہ گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
وضاحت: (احتباہ یا حبوۃ)اس انداز کے بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے گھٹنے اکھٹے کرکے سینے سے لگا لے اور پھر ہاتھوں سے ان پر حلقہ بنا لے یا کمر اور گھٹنوں کے گرد کپڑا لپیٹ لے۔اسی کو احتباہ یا حبوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ نشست بے پروائی اورعدم توجہ کی علامت سمجھی جاتی ہے نیز اونگھ بھی آنے لگتی ہے،تہبند پہنے ہو تو ستر کھلنے کا بھی اندیشہ رہتا ہےاور بعض اوقات انسان بے وضو بھی ہوجاتا ہے۔ اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔الغرض جمعہ میں بالخصوص اس طرح بیٹھنا ممنوع ہے۔(سنن ابو داؤد، ۱|/۷۸۵ ، طبع دار السلام)
) عورتوں کا خوشبو لگا کر نماز میں شامل ہونا
سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا :

إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ فَلَا تَطَيَّبْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ

جب تم عورتوں میں سے کوئی عشا کی نماز میں شامل ہو تو وہ اس رات خوشبو نہ لگائے۔ (صحيح مسلم : 443)
مسجد ميں اپنے لیے کوئی جگہ متعین کر لینا
سیدنا عبدالرحمان بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ كَمَا يُوَطِّنُ الْبَعِيرُ

رسول اللہ ﷺنے اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے لیے ایک جگہ متعین کر لینے سے منع فرمایا ہے ( یہ قتیبہ کے الفاظ ہیں ) ۔(سنن ابي داؤد : 862)
b نماز میں ادھر ادھر دیکھنا
سیده عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا :

هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ

یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔ (صحیح بخاری : 751)
مسجد میں کسی مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھنا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ أَخَاهُ مِنْ مَقْعَدِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِنَافِعٍ : الْجُمُعَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : الْجُمُعَةَ وَغَيْرَهَا (صحیح البخاری : 911)

نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا : کیا یہ حکم صرف جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔
d جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

‏‏أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى أَنْ يُحَلَّقَ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ .(ابن ماجة : 1133)

رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
نماز میں تھوکنا
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي جِدَارِ الْقِبْلَةِ فَحَكَّهُ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي فَلَا يَبْصُقُ قِبَلَ وَجْهِهِ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى (صحیح البخاری : 406)

رسول اللہﷺ نے قبلے کی جانب دیوار پر تھوک دیکھا، آپ ﷺنے اسے کھرچ ڈالا پھر ( آپ ﷺ نے ) لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز میں ہو تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے کیونکہ نماز میں منہ کے سامنے اللہ عزوجل ہوتا ہے۔
دیگر روایت کی مطابق ( اگر تھوک نکالے بغیر چارہ نہ ہو تو) اپنے دائیں یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک دے اور بعد میں اسے صاف کرلے ۔
نماز میں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنا
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔‏‏‏‏‏‏قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ۔أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِه (سنن ابي داؤد : 992)

رسول اللہ ﷺنے آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ عَاقِصٌ شَعَرَهُ (سنن ابن ماجة :1042 )

رسول اللہ ﷺنے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے بالوں کو جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھے ۔
سوئے ہوئے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُتَحَدِّثِ وَالنَّائِمِ . ( سنن ابن ماجة : 959 )

رسول اللہﷺنے بات چیت کرنے والے ، اور سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔شروع میں لوگ دوران نماز ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے جس سے بعد میں منع کیا گیا اور سوئے ہوئے شخص سے مراد ایسا شخص ہے جس پر نیند کا غلبہ ہو خود اسے ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے ۔
نماز میں چھینک کا جواب دینا
سیدنا معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا : یرحمک اللہ’’ اللہ تجھ پر رحم کرے ۔‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا: میری ماں مجھے گم پائے ۔ تم سب کو کیا ہو گیا ہے؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں ( تو مجھے عجیب لگا ) لیکن میں خاموش رہا جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے ، میرے ماں باپ آپ پرقربان ! میں نے آپ سے پہلے اور آپکے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم ( سکھانےوالا ) نہیں دیکھا ! اللہ کی قسم ! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا ، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا ۔ آپ نے فرمایا :

إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآن

یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ۔(صحیح مسلم : 1199)
نمازی کے سامنے سے گزرنا
سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ

اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جان لے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے کے بجائے چالیس (سال) تک وہیں کھڑا رہے ۔(صحیح بخاری : 510)
۔۔۔

قصہ دو باپ بیٹوں کا

پیارے بچو ! سیدنا ابراہیم علیہ السلام ازل سے ہی بے اولاد تھے اور انکی دعوت یہ تھی کہ جو تم سے تکلیف کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی ذرا برابر بھی طاقت نہیں رکھتے آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کو سننے والا ، تمام چیزوں سے باخبر ، اللہ سے ہٹ کر بےسمع و بصر ، بےضرر و نفع و بےقدر اور قدرت ۔چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ تمام جھوٹے معبود کسی چیز پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ہر چیز پر قدرت رکھنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ۔
عزت ، ذلت ، حکومت ، دولت ہر چیز باری تعالی کے ہاتھ میں ہی ہے اس ہی کی طرف لوٹ آؤ اور اس ہی کی عبادت کرو ۔
لیکن تعجب کی بات یہ کہ خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام بیٹے جیسی عظیم نعمت سے محروم تھے ۔
قوم والوں نے طعنے دینا شروع کیے کہ عجیب داعی ہے خود اولاد سے محروم ہے ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہر چیز پر اللہ ہی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بار دعا فرمائی کہ” اے میرے رب ! مجھے نیک صالح اولاد عطا فرما ۔ ”
اللہ تعالی نے اپنے دوست نبی کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا کہ ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔
یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو(وحیٔ الہی کے ذریعے) ایک ننھے منے پیارے بیٹے کی بشارت دی گئی۔
وہ دن جس کا برسوں سے انتظار تھا سیدناخلیل علیہ السلام آنکھوں دیکھ رہے ہیں اور اپنے ننھےمنے پیارے بیٹے کو انگلی سے پکڑ کر گھوماتے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
اب خلیل کی محبت والفت کی آزمائش شروع ہوئی باری تعالی کی طرف سے تین دن مسلسل خواب میں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں خود ذبح کر رہے ہیں۔
کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتاہے وہ جان چکے کہ یہ اللہ عزوجل کا حکم ہی ہے ۔
سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام اپنے ننھے منے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے ہاں آئے اور پورا واقعہ کھل کر سنایا پھر فرمایا کہ: میرے پیارے بیٹے ! تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ : اباجان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیں ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔
ہوا بھی یوں ہی کہ سیدنا خلیل علیہ السلام انہیں پیشانی کے بل لیٹا کر چھری چلانے لگے لیکن بیٹے نے اف تک نہیں کہا
حتی کہ وحی الہی ان لفظوں میں نازل ہوئی کہ
قَد صَدَّقتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجزِی المُحسِنِینَ
یقیناً تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔
پیارے بچو! ان دونوں باپ بیٹوں کے عظیم قصے سے ہمیں بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں جیسا کہ
1اللہ تعالی سے نیک اولاد ہی طلب کی جائے ۔
2اللہ عزوجل دعائیں قبول فرماتے ہیں اگرچہ ادائیگی میں (بحکمت) تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔
3والدین کی فرمان برداری کرنی چاہیے ان کی باتیں سن کر نالاں نہ ہونا چاہیے ۔
4وحی الٰہی (یعنی قرآن وسنت) کے ہر حکم پر سرخم کرنا چاہیے ۔
5ہر نیکی کا اچھا بدلا رکھا گیا ہے ۔
6والدین کو اچھے ناموں سے پکارا جائے ۔
7اللہ تعالیٰ ہی نفع ونقصان کے مالک ہیں۔
8 اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو باری تعالیٰ کے محبوب(دوست) بناسکتے ہیں۔
9 اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبکہ برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔
0 نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تلك عشرة كاملة
۔۔۔

گھناؤنے جرائم کا خاتمہ جنسی تعلیم سے نہیں بلکہ حدود اللہ کے نفاذ سے ممکن ہے

معاشرے جب بے لگام ہوجائیں اسلامی اقدار کو روندا
جارہا ہو جانوروں اور انسانوں کا فرق مٹ جائے، جب مخلوق اپنے خالق کے دئیے ہوئے رہن سہن کے اصولوں کو پامال کر دے قتل وغارت گری ختم ہونے کا نام نہ لے بلکہ ایک قاتل کو پکڑنے کے لیے بے گناہ خون کردیے جائیں جب معصوم بچوں کا خون پیسنے والے درندے کسی شکنجے میں نہ آئیںتو نہ مظلوم و معصوم معاشرے کو مزید کسی اندھیرےکنویں میں پھینکنے کی ضرورت ہے نہ سیکس جیسے بے مقصد مضمون پڑھانے کی ضرو رت نہ اس جملہ کے مصداق کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ہر جرم کی روک تھام کے لیے کمیٹی اور چند تجاویز اور پھر قصہ پا رینہ ،بلکہ حکمرانوں کو اسلامی حدود یعنی حدود اللہ کا فوری نفاذکرنے کی ضرورت ہے یہی نہیں بلکہ از حد ضروری ہے حدود اللہ مسلم معاشرے کی چار دیواری ہیں حدود اللہ نسل انسانی کی بقا کی ضامن ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)

قتل کابدلہ قتل میں معاشرے کی زندگی کا ضامن ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا (البقرۃ:229)

یہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدو د ہیں انہیں مت پھلانگو دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ (الطلاق:1)

جس نے اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں میں سے صرف ایک حد قائم کرنا اللہ کی زمین پرچالیس روز ،مسلسل بارش برسنے سے بہتر ہے ۔(سنن ابن ماجہ2537)
یعنی جیسے چالیس دن کی بارش سے زمین کا ماحول سر سبزو شاداب ہو جاتاہے اس طرح حدود اللہ کے نفاذ سے پورا معاشرہ پر امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی حدیں دور اور قریب پرقائم کردو اور انہیں اللہ کی بارے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ ہو (ابن ماجہ )
اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ حدیں قائم کرنے میں کسی کا لحاظ (اقربا پروری سیاسی وابستگی وغیرہ کے اعتبار سے ) نہیں رکھنا بلکہ انصاف کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کےمبارک دور میں ایک معزز خاندان کی خاتون فاطمہ نے چوری کا ارتکاب کیا تو اس کے ہاتھ کاٹنے کی حد کی راہ میں لوگ رکاوٹ ڈالنے اور سفارش تلاش کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ کردیا کہ لوگو!تم فاطمہ مخذومیہ کے بارے میں سفارش کرتے ہو کہ اسے حدنہ لگائی جائے سنو!اگر اسی جگہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ) ہوتی تو میں
اس پر بھی حد جاری کردیتا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔
عہد رسالت کا واقعہ :
رسول اللہ ﷺ نے بیت المال کے جانوروں پر چند ایک رکھوالے مقرر فرمائے عکل قبیلہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور بیمار ہوگئے توآپ ﷺ نے ان جانوروں کے پاس علاج کی غرض سے انہیں ٹھرایا جب وہ ٹھیک ہوگئے توانہو ں نے چرواہوں کو قتل کردیا اور مال لوٹ کر بھاگگئے انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی حدیں ان پر قائم کیں اور وہ قتل کردیئےگئے تواس معاشرے سے چوری اور قتل کا خاتمہ ہوگیا امن وایمان کی کیفیت اس قدر عظیم الشان ہوگئی تھی کہ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی تھی وہ اپنے اوپر حد لگانے کو جہنم میں جانے سے بہتر سمجھتا ہے اور خود آکر مردو خواتین عدالت نبوی ﷺ میں خود کو پیش کرتے تھے یہ شرعی حدود کی برکت تھی ۔
گزارش
اہل قانون وذمہ داران حضرات اللہ کا خوف کریں اور فوراً اسلامی حدود چور کا ہاتھ کاٹنا، قتل کا قصاص قتل ، شرابی کو کوڑے ، زانی شادی شدہ کو سنگسار ان تمام حدود اللہ کو نافذ العمل بنائیں۔ ان شاء اللہ معاشرے دوبارہ خلفائے راشدین والا ماحول دیکھیں گے۔
اور دوبارہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور کی یادتازہ ہوجائے گی کہ ایک گھاٹ سے شیر اور بکری پانی پیئے گے اور شیر کو بکری پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوگی اگر اس

ماحول کا عملی جائزہ لینا مقصود ہو تو اسلامی برادر ملک سعودی عرب کے قوانین کا مشاہدہ کرلینا چاہیے جہاں حدود اللہ کا نفاذ کس قدر موجود ہے تو مجرم دنلاتے نہیں ہوتے کیونکہ انہیں ہر وقت سرقلم کی سزا بہت سارے جرائم سے باز رکھتی ہے اور اگر مجرم پکڑا جاتا ہے تو بلا تمییز چند دن میں اپنے انجام کو پہنچ جاتاہے۔
معاشرے کے سدھار کے لیے کرنے کے چند ایک کام
کاش کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
1مسلمان معاشرے میںہندوانہ رواج ورسم اسکولوں میںسالگرہ کے کیک کاٹنےپرمخلوط تالیاںبجاکر داد دینا ، آئے دن کسی قومی دن پر ٹیبلو کے نام سے ناچ گانے کا ماحول فوری ختم کیا جائے ۔
2معصوم بچوںمیں غیرت ایمانی کو بڑھانے والے مضامین اور فحاشی وغیرہ یا انٹر نیٹ کے غلط استعمال کی تباہ کاریوں سے آگاہی کے پرو گرام جاری کئے جائیں ۔
3بچوں کو مار نہیں پیار کا یہ قطعی مقصد نہیں کہ عصا ادب بھی بچوں کے سروں سے اٹھالیا جائے تاکہ وہ استاد و والدین اور اللہ اور اسکے رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو سننے اور سمجھنے کےبجائے گستاخ بن جائے ۔
4والدین سے پر زور اپیل ہے کہ اپنے معصوم پھولوں اور کلیوں کی تعلیم کے لیے انتخاب کرتے وقت خدارا چیک کریں کہ آپ انہیں کیسا ماحول دے رہےہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اچھی اور بری صحبت او ر ماحول کے اثرا نداز ہونے کو آگ جلانے والے اورخوشبو بیچنے والے سے تعبیر کیا ہے (بخاری )
5ا ن واقعات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ بھی ہوسکتاہے تاکہ ملک کو افراتفری اور انارکی کی طرف دھکیلا جائے قانون کوبزور قوت توڑا جائے توآیئے اس نعمت خداوندی پاکستان کی حفاظت کے لیے اس رب العالمین کے دیے ہوئے نظام زندگی کو رائج کرکے اللہ کے حضور دست بدعا ہوں الہی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
اور ہمارے پیارے وطن کو امن کا گہوارہ بنائے آمین ۔

آیئے خوشیاں تقسیم کریں 

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ

اللہ تعالی کوسب سے پسندیدہ عمل کسی مسلمان کو خوشی فراہم کرنا ہے ۔ (المعجم الأوسط:6026)
خوشی فطرت انسانی ہے اور اسکے بے شمار روحانی جسمانی فوائد ہیں وہ لوگ بہت ہی خوش بخت ہیں جو لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ آسانیاں پید اکرتے ہیں ،خوشیا ں بانٹتے ہیں خدا ترسی اہل اسلام کا شیوہ ہے اور پہچان ہے ، رحمتوں،برکتوں کے دروازے انہی پہ کھلتے ہیں اور باران رحمت کا وہی مستحق ٹھہرتا ہے جوایمان لانے کے بعد خدا ترسی کا مظاہرہ کرتا ہے اسلامی بھائی چارے کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی کریں اس سے اچھے طریقے سے پیش آئیں اس کی خوشی پہ اسے مبارک باد دیں اور اسکے دکھ درد میں شریک ہوں یہ چیز بندہ کے ایمان کی علامت اور عقیدہ کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى(متفق علیہ)

’’مسلمان آپس میں محبت ،رحمدلی او رشفقت میں ایک جسد واحد کی طرح ہیں جسد کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘
اگر آپ دوسرے کے ساتھ مسکراہٹ سے پیش آتے ہیں اچھی بات کرتے ہیں ،ضرورت پڑنے پہ اسکی مدد کرتے ہیں اس کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آتے ہیں اپنے دل میں اسکے لیے خیر کا پہلو رکھتے ہیں ،اپنے تجربہ و معلوما ت سے اسکی مدد کرتے ہیں تو اسکا اجر اللہ تعالی کبھی بھی ضائع نہیں فرماتے بلکہ اسکی اللہ کے ہاں بہت ہی قدرو منزلت اور فضیلت ہے ،۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں :

وَخَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ(المعجم الاوسط5787)

بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور ارشاد نبوی ﷺہے :
وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ
جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی اسکی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2699)
آپکی خیر خواہی کے حقدار سب سے پہلے آپ کے والدین، بہن بھائی ،عزیز و اقارب ہمسائے اور دوست ہیں ۔
اگر ہم نبی معلم ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے آپ بچوں کو خوش کرنے کے لئے انکے ساتھ کھیلتے بھی تھے ،مرد ،عورت ،بوڑھے کے ساتھ چل کر اسکی ضرورت پوری کرتے جب آپ ﷺ پہ سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے توسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا
اس طرح آپ کی ہمت بندھاتی ہیں ۔

وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحیح البخاری:3)

اللہ کی قسم اللہ آپکو رسوا نہیں کرے گا آپ تو رشتہ جوڑتے ہیں ،عاجز لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں اور ناداروں کی مدد کرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں ایسا کیوں نہ ہو جب آپ ﷺ خودفرماتے ہیں
مِنْ أَفْضَلِ الْعَمَلِ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ
اپنے مسلمان بھائی کو خوشی پہنچانا بہترین اعمال میں سے ہیں ۔(شعب الايمان:7274)
صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک عورت جسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی وہ آپ ﷺ کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے اللہ کے رسول ﷺ مجھے آپ سے کام ہے آپ ﷺ فرماتے اے ام فلان !تم جہاں چاہو میں وہاں جاکر میں آپکی ضرورت پوری کرنے کے لیے تیا ر ہوں اور پھر آپ ﷺ اس کے ساتھ چل کر جاتے ہیں اور اسکی ضرو رت کو پورا کرتے ہیں ۔
صحابہ کرام کس طرح ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے تھے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں بغیر کسی عذر کے جنگ میں شریک نہیں ہوپائے نبی کریم ﷺ خود بھی اور صحابہ کو سوشل بائیکاٹ کاکہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی انکی توبہ قبول کرلیں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میری توبہ قبول ہو تی تو آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے کہ ایک صحابی مجھے خوشخبری سنانےکے لیے اپنے گھوڑے پہ سوار ہوکر آتا ہے تاکہ جلدی سے جلدی مجھے خوشخبری دی جائے دوسرا صحابی دور سے پہاڑ پہ چڑھ کر آواز لگاتا ہے کہ کعب اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میںمسجد نبوی ﷺ میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کرنےآتا ہوں لوگ مجھے مبارک باد دینے میں سبقت کرتے ہیں۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ مہاجر صحابی بھاگ کر میری طرف آتے ہیں اور مجھے تو بہ قبول ہونے کی خوشخبری سناتے ہیں۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پہ جب منافقین نےجھوٹی تہمت لگائی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر رورہی تھی تو ایک انصاری عورت اسی مصیبت کی گھڑی میں میرے پاس آتی ہے اور میرے ساتھ مل کر رونا شروع کر دیتی ہے ۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ کئی لوگ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر یا تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور کوئی بھی تکلیف دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے دوسروں پہ ظلم کرتا ہے ۔غیروں کا حق مارتا ہے یہ شققی القلب انسان دوسروں کو بے چین کرکے راحت محسوس کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھول جاتا ہے جسے طبرانی نےروایت کیا ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کہتا ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند کون سے لوگ ہیں اوراسی طرح کونسے کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو لوگ دوسروں کے لیے سود مند ہیں وہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں اور اللہ کو سب زیادہ عمل یہ پسند ہے کہ تم کسی مسلمان کو خوشی دو اس سے تکلیف کو دور کرو یااس کا قرض ادا کرو یا اسکی بھوک مٹاؤ

وَلِأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ(المعجم الأوسط6026)

اور میں کسی بھائی کی مدد کے لیے اس کے ساتھ چل کر جاؤں میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں اس مسجد (یعنی مسجد النبوی ﷺ)میں ایک مہینہ اعتکاف کروں
غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو
اس دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو
ہمیں چاہے ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصہ کا دیا جلاتے رہیںاور دامے ،درمے،قدمے ،سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوںکو کرسکیں کرتے رہیں ۔
خوشیاں بانٹنے کے لیے بہت زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ آپ کسی کی بات کو توجہ سے سنیں ، اس سے پیار اور دھیمے لہجے میں بات کریں، کسی کو اچھا مشورہ دے دیں ، کسی کی دکھ تکلیف میں ساتھ دے کر اس کے دکھ کو ہلکہ کرسکتے ہیں اگر مالی استطاعت ہے تو کسی کاقرض اتاردیں، عزیز واقارب، دوست واحباب کو گفٹ (ہدیہ) دے دیں۔
کسی کے سلام کا جواب مسکراہٹ سے دے دیں ، صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن جریر البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ کے چہرۂ انور پہ مسکراہٹ ہی دیکھی ۔
طبرانی کی روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین عمل یہ ہے کہ آپ کسی مومن کو خوشی پہنچائیں ، اس کی سترپوشی کریں یا اس کی بھوک کو مٹائیں یا اس کی کسی ضرورت کو پورا کر دیں۔
دعا ہے اللہ مجھے اور آپکو خوشیاں بانٹنے والا اور لوگوں کے رستے سے کانٹے چننے والا بنا ئے ۔آمین
۔۔۔

عقیدۂ توحید و شبہات کا ازالہ قسط نمبر : 2

اعتراض :

اللہ محی وشافی ہے اور عیسی علیہ السلام بھی اللہ کے حکم سے محی وشافی ہیں چنانچہ اللہ حقیقی مشکل کشا اور نبی ، ولی اللہ کے اذن سے مشکل کشا ہیں جب وہ اللہ کے اذن سے ہوئے تو ان سے حاجب طلب کرنا شرک کیوں ؟

جواب :

قرون اولیٰ کا مسلمان بیک وقت مجاہد،عالم اور مزکی بھی ہوتاتھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں خصوصیات کا ایک مسلمان میں بیک وقت ہونا مشکل امر ہوگیا۔ مغلیہ خاندان کے سپاہیوں نے ہندو راجاؤں سے لڑ کر علاقہ فتح کیا تو علماء نے مساجد آباد کیں اور اولیائے کرام نے مسلمانوں کا تزکیہ کیا ، ان اولیاء اللہ سے اللہ کے اذن کے تحت کرامات کا ظہور ہوتا ہے کہ عام طبقہ انہیں مشکل کشا سمجھ لیتا ہے صاحب بصیرت کے بقول ان کی مثال ٹیوب لائٹ کی سی ہے جب برقی تار میں کرنٹ ہوگا تو ٹیوب روشنی دے گی ورنہ نہیں ۔ اسی طرح اللہ کے اذن سے کرنٹ جاری ہو تو انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات اور اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور ہوتاہے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے تو وہ نیک بندہ اللہ کے دربار میں شکر ادا کرتا ہے جب کنکشن ختم ہوتاہے تو وہ سجدہ میں گر کر اللہ سے رحمت ونصرت طلب کرتا ہے جب روشنی نہ ہوتو آپ لائٹ کے لیے ٹیوب لائٹ سے بھیک مانگیں گے یا کنکشن کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے چنانچہ مشکل کشائی کے لیے ان کو مت پکارو جو کنکشن کے محتاج ہوں بلکہ آپ اس وحدہ لا شریک ذا ت کوپکاریں جو ساری کائنات کا خالق ومالک اور علی کل شیء قدیر ہے۔
اعتراض :
عقیدہ توحید کو سمجھانے والے اشتہار’’ ایک سوال کی دس شکلیں‘‘ شائع ہوا تو اس کے جواب میں ایک صاحب نے لکھا کہ اللہ نے قرآن میں مومنوں کو مددگار کہا ہے

اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا

’’اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اولیاء تمہارے مددگار وکارساز ہیں۔‘‘ (المائدۃ:55)
معلوم ہوا کہ اللہ کی کارسازی بالاصالت ہے رسول مکرم ﷺ اور اولیاء کا مددگار ہونا بالنیابت ہے۔ آیت مبارکہ میں ترتیب اس پر شاہد ہے کہ اولیاء ، رسول ﷺ کے نائب اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے نائب ہیں۔
جواب :
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ولی کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ وہ خود نہیں کھاتا اور دوسروں کو کھلاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔

قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام : 14)

’’آپ (ﷺ) فرمادیجیے کہ کیا بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی کو (اپنا) معبود بناؤں( وہ اللہ جو) پیدا فرمانے والا ہے ، آسمانوں اور زمین کو اور وہ (سب کو) کھلاتا اور خود نہیں کھلایا جاتا۔‘‘
معترض نے سورت مائدۃ55 میں ولی کے معنی مددگار کے کیے ہیں۔ سورت انعام کی مذکورہ آیت کی روشنی میں وضاحت مقصود ہے کہ رسول اور مومنین کو کھانے پینے کی حاجت تھی یا وہ ان عیبوں سے پاک تھے؟ دراصل گزارش ہے کہ عربی وسیع زبان ہے جس میں ایک حرف کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں جو آیت کے شانِ نزول اور سیاق وسباق کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں۔
لفظ ’’توفی‘‘ کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں آل عمران کی آیت 55 میں ’’إِنِّي مُتَوَفِّيكَ‘‘ کے حقیقی معنی ( میں تجھے پورا لینے والا ہوں) پر امت کا مسلمہ اتفاق ہے، جناب اس طرح المائدۃ کی آیت نمبر 55 میں ولی کے معنی مددگار نہیں بلکہ دوست کے ہیں ، مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ اور شانِ نزول اس طرح بیان کیا کہ ’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔‘‘
شان نزول سیدنا جابررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت سیدناعبد اللہ بن سلام کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے سید عالم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ہماری قوم قُرَیظہ اورنضیر نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھا لیں کہ وہ ہمارے ساتھ مجالست (ہم نشینی) نہ کریں گے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو عبد اللہ بن سلام نے کہا ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اس کے رسول کے نبی ہونے پر ، مؤمنین کے دوست ہونے پر اور حکم آیت کا تمام مؤمنین کے لئے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور مُحِب ہیں ۔(خزائن العرفان علی کنز الایمان ، ص:174)
آیت کی تفسیر میں مسلک بریلوی کےباني كا مؤقف تسلیم کرلیں یا اس کے پیروکار علماءکا؟ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد کائنات میں مروجہ الٰہوں کی نفی کرکے ایک اللہ کے الٰہ ہونے کا اعلان کرنا تھا یا اللہ سے مددگاری کے اختیارات تمام مومنین کو منتقل کرنا تھا؟ کیا آپ اس کا مقعول جواب دے سکتے ہیں؟
شبہ :
ایک ڈاکٹر مولانا نے آل عمران کی آیت 124 تا 125 کا حوالہ دے کر تجزیہ کیا کہ ’’اگر کسی کی مدد کرنے والا خدا ہوتاہے تو پھر فرشتوں کو خدا مانا جائے ، جو کسی کی مدد کرے وہ خدا ہوتاہے ، مدد کرنا منصب الوہیت ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن نے فرشتوں کو خدا بنا دیا۔‘‘
ازالہ :
سرورکائنات محمد عربی ﷺ نے بدر کے میدان میں رب سے مدد مانگی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محدود تعداد اور کم وسائل پر صبر وتقویٰ کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیج کر مدد کی ۔

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ بَلٰٓى اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ (آل عمران : 124۔125)

جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ۔‘‘
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مدد کی ،فرشتےسیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دیں یا قوم لوط پر عذاب مسلط کریںوہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے محتاج ہیں چنانچہ بدر کے میدان میں فرشتے خود نہیں آئے بلکہ مدد طلب کرنے پر فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئے۔ صاحبِ ذی شعور دوا میں شفاء نہیں سمجھتا اگر دوا میں شفاء ہوتی تو لقمان حکیم کے بیٹے کو شفاء ضرور ملتی چنانچہ شفا ء اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ چاہے تو دوا میں شفاء کا اثر مہیا کرے نہ چاہے تو وہی دوا کھانے سے مرض میں شدت پیدا کردے، فرشتوں کی مدد کا سبب بننا سرور کائنات ﷺ کی دعا کا ثمر ہے چنانچہ سبب مددگار نہیں ہوتا ہاں! سبب مہیا کرنے والا مددگار ہوتاہے۔
اعتراض :
بزرگوں کا ادب واحترام کرنے پر شرک کا فتویٰ صادرکر دیا جاتاہے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ – أَوْ مَفَاتِيحَ الأَرْضِ – وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا(صحیح البخاری:1344 وصحیح مسلم :2296 دار الفکر)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ نے شہداء اُحد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت پر صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے پھر منبر کی طرف تشریف لے آئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں تمہارا پیش رو ہوں میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اب اپنے حوض کی طرف مسلسل دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن مجھے تمہاری خزائن ارض میں رغبت کا خطرہ ہے۔ ‘‘
ازالہ :
مرشد کامل محمد عربی ﷺ کی تعلیم وتربیت کا فیض تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تکلیفوں اور اذیتوں کے پہاڑ سہہ کر جان کا نذرانہ دے دیا لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا اگر کسی نومسلم نے گفتگو کے دوران ادب کی وجہ سے کہا کہ ’’اگر اللہ اور اس کے رسول نے چاہا، تو آپ ﷺ نے فوراً اصلاح کر دی کہ اگر صرف اللہ نے چاہا، قربان جائیں صحابہ کے ایمان پر کہ انہوں نے آپ ﷺ کے ہر فرمان کو سینے میں بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر عقیدۂ توحید کی پاسبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔
مخبر صادق ﷺ نے تصدیق فرمادی کہ میرے بعد تمہارے مشرک ہونے کاکوئی خطرہ نہیں، نبی کریم ﷺ کو شہداء اُحد سے اس قدر پیار تھا کہ آپ کبھی کبھی وہاں تشریف لے جاتے ، زندگی کے آخری ایام میں بھی آپ ﷺ نے وہاں جاکر شہدائے اُحد کی نماز جنازہ پڑھائی پھر منبر پر بیٹھ کر جہاد کی استقامت پر خطبہ دیا کہ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا تو خطرہ نہیں البتہ اندیشہ لاحق ہے کہ دنیا میں رغبت دیکھ کر جہاد میں سست ہوجاؤ گے، مزید فرمایا ’’جہاد کو روکنا نہیں بلکہ اسلام کو غالب کرنا ہے اس خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت تھی جنہوں نے صدقِ دل سے اس کو سینہ میں بٹھالیا اور مرتے دم تک جہاد جاری رکھا اور نصف کرئہ ارضی پر توحید وسنت کا پرچم لہرایا ۔
سید الکونین ﷺ کے کسی فرمان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انہوں نے شرک سے پاک رہنے کی خبر دی البتہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بھی ہیں :

وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ

’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل مشرکین سے جاملیں گے اور حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ( سنن ابی داود : 4252)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امت محمدیہ ﷺ  تدریجی لحاظ سے شرک میں مبتلا ہوگی اس کو سمجھنے کے لیے مثال پیش خدمت ہے دورِ نبوی کے علاوہ خلافت راشدہ کا دور مسلمانوں کے لیے مشغل راہ ہے اس کے بعد بھی نظام خلافت قائم رہا لیکن وہ مسلمانوں کے لیے حجت نہیں کیونکہ نظام خلافت تدریجی لحاظ سے زوال پذیر ہوا اور خلافت کی برکات رفتہ رفتہ سمٹتی گئیں حتی کہ یورپی اقوام نے 1924ء میں مسلم دنیا پر تسلط جما کر خود ساختہ نظام رائج کیا۔
مسلم دنیا کو آزادی حاصل کیے ہوئے پون صدی گزر گئی ہے تاحال قرآن وسنت کو آئینی لحاظ سے سپریم لاء کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی جنہوں نے تگ ودو کی وہ اس نظام کا حصہ بن گئے انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو پس پشت ڈال دیا اسی طرح عالم اسلام میں تدریجی لحاظ سے شرک سرایت کرتا رہا اور کرتا رہے گا حتی کہ قیامت کے قریب چند قبائل مشرکین سے ملیں گے اور بت پرستی شروع کردیں گے۔
عصرِ حاصر کے بعض مسلم گھرانوں میں مذہبی وسیاسی راہنماؤں کی تصویریں ڈرائنگ روم میں سجی ہوتی ہیں خوبصورتی کے لیے جانوروں کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اہم شاہراہوں کے چوکوں پر شاہین،شیر اور گھوڑوں کے مجسمے نصب ہیں زمانہ بعید میں مسلمانوں کے پاس قبروں سے تقرب حاصل کرنے کا وقت نہ ہوگا وہ برکت کیلئے نیک لوگوں کے مجسمے بناکر گھروں میں رکھ لیں گے کاروبار پر جانے سے پہلے ان کی زیارت کو برکت کا باعث سمجھیں گے ، قومی راہنماؤں کےمجسمے چوکوں پر نصب ہوں گے ، قومی تہواروں کے موقع پر ان کو سلامی دی جائے گی گویا اس طرح مخبر صادق ﷺ کی زبان اطہر سے نکلی پیشین گوئی سچ ثابت ہوکر رہے گی اللہ ہم سب کو شرک کی بیماری سے محفوظ رکھے ۔ آمین

شبہ :

محمد عربیﷺ ہر سال شہدائے اُحد کی قبر پرتشریف لے جاتے تھے اس لیے ہم بزرگوں کی قبروں پر سالانہ عرس مناتے ہیں۔

ازالہ :

امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ شہدائے احد کی قبور پر غزوہ اُحد کے مقررہ دن تشریف نہ لے جاتے بلکہ کبھی کبھار جاتے تھے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ ﷺ نے شہدائے احد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت کی صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے۔ (بخاری:133 ومسلم : 2296)
مذکورہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ مخصوص تہوار کے طور پر نہیں گئے بلکہ جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو آپ اسلام کے نام پر جان قربان کرنے والے شہدائے احد کے درجات کی بلندی کے لیے تشریف لے گئے وہاں اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ جنازہ میں میت کے لیے دعا کی جاتی ہے لیکن میت کے وسیلہ سے اپنے لیے دعا نہیں مانگی جاتی۔
کسی امتی کے گھر یکے بعد دیگرے نبی کی دو بیٹیاں نکاح میں نہیں آئیں روئے کائنات میں یہ اعزاز صرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے جنہیں بے دردی سے شہید کیاگیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح ہوگئی تو خاندانِ بنی امیہ کی حکومت کئی سالوں تک قائم رہی اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حیات تھے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائیوں میں شہید ہوئے اور طبعی موت سے بھی رخصت ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے سنت کے پاسبان اور عامل قیامت تک پیدا نہیں ہوں گے اگر نبی کریم ﷺ ہر سال اُحد کے شہداء کا عرس مناتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ودیگر شہداء اور طبعی وفات پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عرس کیوں نہیں منایا؟ اگر منایا تو مدلل ثبوت پیش کریں۔

شبہ :

غیر اللہ سے منسوب جانور شرعاً حلال ہیں کیونکہ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)سے مراد وہ جانور ہیں جن کو ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

ازالہ :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)

’’ تم پر مردہ اور(بہا ہوا) خون اورسور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے۔‘‘
مسلمان فطری طور پر مردہ ،خون اور سور کے گوشت سے نفرت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام پہلے لے کر مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ جس طرح مردار،خون اور سور حرام ہے اسی طرح ہر وہ چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو حرام ہے کیونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کسی اور کانام لینا اللہ کی بجائے کسی اور کی ملکیت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ سے مراد ہر وہ جانور یا کوئی اور چیز ہے جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے،قرآن حکیم جامع اور آفاقی نوعیت کا کلام ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین کے لقب سے سرفراد کیا، خاتم کی رو سے ہر وہ مدعی کذاب ہوگا جو ظلی وبروزی یاکسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔
مخبر صادق محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ مثلاً ایک آدمی ہجرت کرتا ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دوسرا کرتا ہے کاروبار وملازمت کے لیے اور تیسرا وطن چھوڑتا ہے عورت سے نکاح کرنے کے لیے ، یقیناً دل کے رازوں کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا چنانچہ ہجرت کرنے کے بعد پاک وہی ہوتاہے جو خالص اللہ کی رضا کی خاطر تر ک وطن کرتاہے دوسرے ہرگز مصداق نہیں ہوں گے اسی طرح مالی قربانی کا انحصار بھی نیت پر ہے جب انسان کسی مشکل میں پھنس جاتاہے یا اولاد کی طلب میں منت مانتا ہے کہ میں بکرا دوں گا یا دیگ پکاؤں گا ، جائزہ لینا ہے کہ وہ کس کی عقیدت ومحبت کے حصول کیلئے اور کس کی خوشنودی وتقرب یا ڈر اور اُمید رکھتے ہوئے ذبح کرتاہے یا خوردونوش کی اشیاء تقسیم کرتا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتا ہے تو مالی عبادت میں شمار ہوگا خدانخواستہ وہ اللہ کے علاوہ غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے فعل سرانجام دیتاہے تو گویا وہ اللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کو الٰہ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا خواہ وہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام ہی کیوں نہ لے رہا ہوں ؟
اسلام میں ریاکاری کی ممانعت ہے ، ایک آدمی نماز پڑھتا ہے نمودونمائش کیلئے، حج ادا کرتا ہے دوکان چمکانے کے لیے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے معاشرے میں مقام حاصل کرنے کیلئے تویہ ریاکاری ہے حالانکہ دکھاوے کا عمل کرنے والا زبان سے وہی مسنون اذکار ادا کررہا ہے جو دوسرے نمازی اور حاجی صاحبان ادا کررہے ہیں چونکہ اس نے اپنے عمل میں غیر اللہ کی خوشنودی کو شریک کیا ہے اس لیے یہ شرک اصغر ہے۔ اسی طرح قصاب جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لے رہا ہواگر مالک جانور کے دل میں غیر کی عقیدت ومحبت،رضا مندی،خوف وامید وابستہ ہو تو وہ ’’وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ‘‘ میں شامل ہے۔ جائزہ لے کر تحقیق کرنا اس وقت ضروری ہے جب کوئی عام حالات میں گھر یا محلہ میں ذبح کرے یا کھانا تقسیم کرے لیکن جب وہ غیر اللہ کے آستانوں اور درباروں پر جاکر ذبح کرے یا خوردونوش تقسیم کرے تو پھر وہ یقیناً اس مدفون کا تقرب حاصل کر رہا ہے جس سے وہ آستانہ ، دربار یا مزار منسوب ہے۔
مخبر صادق امام کائنات محمد ﷺ نے غیر اللہ کے آستانہ پر منت پوری کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اونٹ نحر کرے گا ، سرورکائنات ﷺ  نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو سرور کائنات ﷺ نے استفسار فرمایا کہ بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں کوئی میلہ لگتا تھا ؟عرض کی گئی نہیں، حبیب کبریاء ﷺ نے فرمایا ’’ پھر تجھے نذر پوری کرنی چاہیے اور اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اسے جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہوں۔(ابو داود)
ہم نماز میں اقرار کرتے ہیں : التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘ ’’سب درود وظیفے اللہ کے لیے ہیں اور سب عجز ونیاز اور سب صدقے خیرات بھی‘‘۔ لیکن خدانخواستہ عملی میدان میں غیر اللہ کے نام پر مالی عبادت کا اظہار کریں تو یقیناً قول وفعل میں تضاد ہے۔ اللہ ہم کو قولی وبدنی اور مالی عبادات میں شرک کی آمیزش سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
سورۃ فاتحہ نماز کا اہم رکن ہے جسے ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے ، ہم اللہ کی بارگاہ میں اقرار کرتے ہیں کہ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے جو کائنات کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے اور روزِ جزا کامالک ہے اس کے بعد ہم پڑھتے ہیں

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ

’’ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ گویا مسلمان رب کے دربار میں عجز وانکساری سے اظہار کرتاہے کہ اے اللہ! ہم خوف وعقیدت اور طمع کی وجہ سے تیری ہی پوجا وپرستش ، اطاعت وفرمانبرداری اور بندگی وغلامی کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم ہر مشکل،مصیبت، تنگی اور سختی کے وقت تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
دعاعبادت کا مغز ہے دعا کیا ہے ؟ پکارنا یعنی مدد طلب کرنا۔ قرآن مجید شاہد ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کی ہی عبادت کی اور مشکل وقت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہی دعا کی۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کو بیماری نے ستایا تو التجا کی ۔

اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ (الانبیاء:83)

’’مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سیدنا زکریا علیہ السلام کے دل میں بیٹے کی حسرت پیدا ہوئی تو رب سے درخواست کی

رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ (الانبیاء : 89)

’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ تو سب سے بہتر وارث ہے۔‘‘
سیدنا نوح علیہ السلام کو مشکل پیش آئی تو رب کو پکارا

فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (القمر:10)

’’پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر۔‘‘
دعا عبادت کا مغز کس طرح ہے ؟ امام کائنات محمد عربیﷺ نے رب کے دربار میں عاجزی کے اظہار کے لیے نماز سکھائی قیام ،رکوع،سجود اور تشہد میں درودشریف کے بعد سلام پھیرنے سے قبل مسنون دعائیں پڑھنے کا حکم دیا جن میں غم اورقرضہ سے نجات، عذاب قبر اورجنہم کی آگ سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ نماز میں کوئی ایسی مسنون دعا نہیں جس میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی طرف اشارہ کیاگیا ہو چونکہ انسان کو ہمہ وقت مشکل وتنگی کے وقت مدد کی ضرورت رہتی ہے اس لیے آیت کے دوسرے حصہ ’’ایاک نستعین‘‘ میں اس امر کا اظہار کیاگیاہے کہ ہم رنج وراحت اور دکھ سکھ میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

شبہ :

انسان پیدائش سے لے کر دفن قبر تک بلکہ قیامت تک بندوں کی مدد کا محتاج ہے ۔

ازالہ :

ظاہری اسباب سے ایک دوسرے سے مدد مانگنا شرک نہیں اور مد د کرنا الوہیت نہیں بلکہ نظام قدرت کے تحت خدمت انسانیت ہے البتہ مافوق الاسباب طریقہ سے مدد طلب کرنا یا مدد کرنے کا دعویٰ کرناشرک ہے۔
(جاری ہے )

قائد اور مبلّغ کے لیے بنیادی ہدایات

حکمت و دانائی

وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰم السجدۃ: 34)

’’اے نبی! نیکی اور بُرائی برابر نہیںہو سکتے آپ بُرائی کا دفاع اچھائی کے ساتھ کریں ۔ دیکھیں جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا دلی دوست بن جائے گا۔‘‘
ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظررکھنا چاہیے کہ اچھائی اوربرائی ،نیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اوراس کا پرچارکرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد بازاور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اورغیر اللہ کی محبت میں غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔

 جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدت کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتاہے اورتوحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ موحّد کے لیے بے دین یا اس کے ہم معنٰی لفظ استعمال کرتاہے ۔اس لیے مکے کے کافر صحابہ کو صابی کہتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں داعی کی دانش اورحکمت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اوربڑے حوصلے کی ضرورت ہے، یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میںہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اوربرائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں:

1 الدّاعی کااخلاق اورکردار اچھا ہونا چاہیے۔
2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔
3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے۔
اس کے باوجود کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ بُرائی کا جواب بُرائی کے ساتھ دینے سے ماحول میںتلخی بڑھتی ہے۔ جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ جس سے داعی کی بجائے دوسرے کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ بُرا آدمی اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص کسی تعصّب اور مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسنِ سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو مخاطب کررہاہے اگر وہ نرم نہیںہوں گے تو ان میںسے کچھ لوگ اس کی دعوت پر ضرور متوجہ ہوںگے جو بالآخر اس کے ہمسفر بن جائیں گے۔
ہر دور میں اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے اکثر مساجد میں جب توحیدوسنت کی بات کی جاتی توبات کرنے
والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا، لوگوں
میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔برائی کا جواب اچھائی سے دینا ، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں یہ کام وہی مبلّغ اورکارکن کرسکتا ہے جسے مِشن عزیزاوراپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ عام مبلّغ مخالف کی بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اوراپنے دھڑے کے لیے اُسے ذلّت سمجھتاہےحالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر ِاسلامe اورکسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیںدیا یہاں تک کہ نبی کریمeنے ذاتی معاملہ میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیںفرمایا،
اگرچہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (النحل: 34)

’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ایسے لوگوں سے بہت اچھے طریقے کے ساتھ بحث کر و۔ یقیناً آپ کا رب زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی جانتا ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ آپ لوگوں کو حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ دین حنیف کی طرف دعوت دیں۔ اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں ۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے ۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے ۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی ،خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا (رواہ البخاری: باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ
’’سیدناعبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ ہم اُکتا نہ جائیں ۔ ‘‘
عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً (رواہ مسلم: باب النَّھْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)

’’عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود  فرماتے ہیں کہ تم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو اور وہ لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے ۔ ‘‘

قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہٗ (رواہ البخاری: کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ )

’’سیدنا علی  فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جسے وہ سمجھتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے‘‘

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

’’فر ما دیں یہی میرا راستہ ہے کہ میںپوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتاہوں، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے ، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘ (یوسف:108)
اے نبیﷺ! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتائیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس فرمان میں نبی اکرمe کی زبانِ اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میںلوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ ’’اللہ‘‘ کی طرف بلائوں۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں عقیدہ توحید اور اہم باتوں کے اظہار کے لیے پہلے ’’قُلْ‘‘ کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم  نے ہی بیان کی ہے ۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتّباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اورمرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے، ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبّت سے بھی منع کیا ہے۔ (البقرۃ:۲۲۱)
داعی کی چیدہ چیدہ صفات:
۱۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے ۔ (یونس: ۱۵)
۲۔داعی کو سب سے پہلے خود مسلمان یعنی ’’اللہ‘‘ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام: ۱۶۳)
۳۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے ۔ (المدثر:۴)
۴۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے ۔ (المدثر : ۶)
۵۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے ۔ (المدثر :۲)
۶۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل: ۱۲۵ )
۷۔داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے ۔ (حم السجدۃ: ۳۴ )
۸۔ داعی کو حوصلہ مند ہونا چاہیے ۔ ( المدثر: ۷)
۹۔ داعی کو عملی نمونہ بننا چاہیے ۔ (یونس: ۱۶)
حصولِ علم کے لئے دعا
ایک مبلغ کو ہمیشہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ مطالعہ سے علم میں رسوخ، ذہن میں کشادگی اور فہم و استدلال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایسی ضرورت ہے کہ اس سے انبیاء کرام بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ اس لیے قرآن مجید نے سیدناموسیٰ ؈ اور نبی کریمﷺ کے بارے میں فرمایا:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ اَمْرِيْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ(طٰہٰ:25تا 28)

’’موسیٰ نے دعا کی کہ اے میرےرب! میرا سینہ کھول دے، میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ‘‘

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰی اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا

’’ اللہ ہی حقیقی بادشاہ اور بلند وبالا ہے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کریں جب تک کہ اس کی وحی مکمل نہ ہوجائے اور دعا کریں کہ اے میرے رب! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔‘‘ (طٰہٰ: 114)
یہاں نبی ﷺ کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ساتھ قرآن مجید کو وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں دِقت پیش نہ آئے۔ لہٰذا آپ عجلت سے کام لینے کی بجائے اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرتے رہیں کہ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ یہاں علم سے مراد وحی کا علم ہے، مفسرین نے آپ کا جلدی کرنے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں آپ eاس غرض کے ساتھ جلد ی جلدی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ ضبطِ قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں، بس آپ غور سے سنتے جائیں، قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ (القیامۃ:۱۷)سورہ اعلیٰ میں فرمایا ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے ۔ (اعلیٰ:۶)

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ

’’اے نبی! کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا۔ (الانشراح:1۔2)
’’سیدنا سہل بن سعد ساعدی  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ (رواہ الترمذی: باب ماجاء فی التانی)
سیدناعبداللہ بن عباس  بیان کرتے ہیںکہ نبی مکرم e نے قبیلہ عبدالقیس کے رئیس ’’اشج‘‘ سے کہا‘ تجھ میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتاہے۔ ایک بردباری اور دوسرا معاملات کے بارے میں غور و فکر ہے۔
(مسلم: باب الامر بالایمان باللہ و رسولہ)
’’سیدنامعاویہt رسولِ اکرمeسے بیان کرتے ہیںکہ رسول مکرمe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ ‘‘(رواہ البخاری: کتاب العلم)

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (الزمر:22)

’کیا وہ شخص جس کا سینہ ’’اللہ‘‘ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی روشنی میں چل رہا ہے، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جن کے دل اللہ کی نصیحت کے بارے میں سخت ہو گئے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اسلام کی پہلی دعوت ’’اللہ‘‘کی ذات اور اس کی صفات پر اس طرح ایمان لانا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جو شخص توحید اور دین کو سمجھنےکی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا ہوتاہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتاہے ، اسے غیر معمولی کامیابی اور خوشی نصیب ہوتی تو آپے سے باہر نہیںہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر وشرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہو، اسے نصیحت کی جائے تو اس سے چڑتاہے اوراللہ کی توحید کےتذکرےسے بدکتا ہے۔اس قسم کے لوگ راہِ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میںرتی بھربھی شک نہیں رہتاکیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔

مستقل مزاجی

يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ

’’اے رسول !جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیاگیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیںپہنچایا، اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(المائدۃ: 67)
الرّسول سے مراد سرور دوعالم eکی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں ،لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں، دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، آپ کو ہرحال میں من وعن لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچانا ہے اگرآپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادانہیں کیا۔
یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کے حالات کے پیش نظر آپ اپنے ساتھ مسلح پہرے دار رکھتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیا ہے۔

وَ لَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ

’’اور جنہوں نے ظلم کیاان کی طر ف نہ جھکنا ورنہ تمہیں آگ آلے گی اور اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہو گا۔ پھر تمہاری مد د نہ کی جائے گی ۔ ‘‘ (ھود:113)
کفار، مشرکین اور یہود و نصاریٰ اس حد تک آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کو صادق و امین ماننے کے باوجود آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتےتھے۔ جس کا بحیثیت انسان آپ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر آپ کی ڈھارس بندھانے ،آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مستقل مزاجی کا سبق دینے کے لیے درج ذیل ہدایات دی گئی ہیں۔
۱۔جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ا س پر قائم رہیں ۔
۲۔کسی حال میں بھی اللہ کی نازل کردہ وحی سے سرتابی نہ کریں۔
۳۔ ہر دم یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
۴۔ظالموں کی طرف کسی صورت نہیںجھکنا۔
۵۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں۔
استقامت کا معنی ہے اِدھراُدھر جھکنے کی بجائے سیدھا کھڑے رہنا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک داعی نہ کسی قسم کے دبائو کی پرواہ کرے اور نہ ہی کسی مفاد اورلالچ میں آئے۔ ایسا شخص ہی صحیح معنوںمیں حق کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہوسکتاہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ’’وَلَا تَرْکَنُوْا‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی ہے کہ دنیا کا کوئی خوف آپ اور آپ کے متبعین کو باطل کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ اگر تم لوگ جھک گئے تو پھر تمہیں جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی تمہارا خیر خواہ اور مدد گار نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔

16(تعلیم میں مصلحت کو پیش نظر رکھنا

بَاب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لَا يَفْهَمُوا

تعلیم میں مصلحت کو پیش نظر رکھنا

17-129- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ مَنْ لَقِيَ اللهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قَالَ أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا .

مسدد، معتمر، معتمرکے والد(سلیمان بن طرخان) انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے سیدنامعاذ بن جبل سے فرمایا: “جو شخص اللہ سے اس حالت ملے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو گا تو وہ یقینا جنت میں داخل ہو گا۔” سيدنامعاذ بولے: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ سنا دوں؟ آپ نے فرمایا: “نہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کر بیٹھیں گے۔
Narrated Anas: I was informed that the Prophet had said to Mu`adh, “Whosoever will meet Allah without associating anything in worship with Him will go to Paradise.” Mu`adh asked the Prophet, “Should I not inform the people of this good news?” The Prophet replied, “No, I am afraid, lest they should depend upon it (absolutely).
معانی الکلمات :
ذُكِرَ لِي : مجھے بتایا گیا
مَنْ : جو شخص
لَقِيَ : ملاقات کرے
لَا يُشْرِكُ : وہ شرک نہیں کرتا
أُبَشِّرُ : میں بشارت دیتا ہوں
يَتَّكِلُوا : وہ بھروسہ کر لیں گے
تراجم الرواۃ :
1 نام ونسب : مسدد بن مسرهد بن مسربل بن مستورد الأسدى
کنیت : أبو الحسن البصرى
ولادت ووفات : مسدد بن مسرھد 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور 228 ہجری وفات پائی۔
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابو زرعہ رازی امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے مسدد کو ثقہ کہا ہے۔ جعفر بن ابی عثمان کہتے ہیں کہ میں نے ابن حصین سے پوچھا بصرہ میں احادیث کن سے لکھا کروں انہوں نے جواب دیا مسدد سے کیونکہ وہ ثقہ ثقہ ہے۔
خیر الدین زرکلی اپنی کتاب’’اعلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے ’’المسند‘‘ مسدد نے ہی تصنیف کی تھی۔
2نام ونسب : معتمر بن سليمان بن طرخان التيمى البصرى
کنیت : أبو محمد البصرىمشہور لقب ’’الطفیل ‘‘ تھا
ولادت ووفات : معتمر بن سلیمان 106 ہجری میںپیدا ہوئے اور 187 ہجری کو بصرہ میں وفات پائی اسی دن بصرہ میں زبان الطليقي قتل ہوا تھا عوام میںیہ بات مشہور ہوئی کہ
مات الیوم أعبد الناس ’’آج دنیا سے سب سے زیادہ عبادت گزار رخصت ہوگیا ہے(مراد معتمر تھی)۔ ‘‘
وقتل أشطر الناس
’’ اور بصرہ سب سے شاطر(چالاک) انسان یعنی زبان قتل ہوگیا۔‘‘
3 نام ونسب : سلیمان بن طرخان التیمی البصری
کنیت : ابو المعتمر البصری
ولادت ووفات : سلیمان بن طرخان 46 ہجری میں پیدا ہوئے اور143 ہجری کو بصرہ میں 97 سال کی عمر میں وفات پائی ۔
محدثین کے ہاں رتبہ :امام یحییٰ بن معین ، نسائی وغیرہما نے ثقہ قرار دیا۔امام عجلی نے بھی ثقہ کہا مزید یہ بھی کہا کہ ان کا شمار بصرہ کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔
تشریح :
نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید کا بیان کرنا ہر نبی کی بعثت کا بنیادی مقصد تھاجیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

’’اور آپ سے پہلے ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا صرف میری ہی عبادت کرو ۔‘‘ [الأنبياء: 25]

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل:36)

’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ ‘‘
عبادت وبندگی کے کاموں میں اللہ پاک کو وحدہ لا شریک ماننا یہی وہ حق ہے جو اللہ نے اپنے ہر بندے بندی کے ذمہ واجب قرار دیا ہے ۔ بندے ایسا کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ ہے کہ وہ ان کو بخش دے اور جنت میں داخل کرےمگر غلط فہمی کی بنا پر اعمال صالحہ میں سستی سے منع کیاگیاہے۔

مکافاتِ عمل

اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بعض نام نہاد ایسے مسلمان بھی ہیں جو نہ تو اسلام کو ماننے کو تیار ہیں ، نہ نظریۂ پاکستان اور نہ ہی اسلامی حدودوقوانین کو کوئی اہمیت دیتے ہیں یہ نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی لبرل ، نہ جانے کسی مٹی کا خمیر ہیں؟ دعویداراس اسلامی ملک کی حکمرانی کے ہیں، کہلانے میں مسلمان بھی ہیں مگر سورت اخلاص پڑھنی نہیں آتی حتی کہ اسلام کا اہم ترین رکن نماز تک پڑھنی نہیں آتی بلکہ سنت طریقہ سے نماز میں ہاتھ باندھنے نہیں آتے ۔ یہ منظر گزشتہ دنوں ایک فوت شدہ خاتون کے جنازہ میں دیکھنے کو ملا وہ موصوفہ قادیانیوں کی بہو اور عیسائی نوجوان کی ساس عاصمہ جہانگیر تھی جنہوں نے شانِ رسالت محمدیہ ﷺ کے گستاخوں کے حق میں کیس ترجیحا لڑے۔ 90 کی دہائی کی ابتداء میں بھارت میں ایک لیکچر کے دوران اسلامی حدود وسزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا ، والدین کی عزت کوخاک میں ملا کر گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں کو پناہ دے کر بے حیائی کو فروغ دیتی رہی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی جبکہ اسلام مخالف سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہیں ان کا شوہر میاں طاہر جہانگیر قادیانی ہے ، عاصمہ کے بارے میں بھی عمومی تأثر یہی تھا کہ وہ خود بھی قادیانی تھی ۔ شاید اس لیے عام طور پر اسلام کا مذاق اڑاتیں اور ہمیشہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کی مخالفت کرتی رہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ لیکن وہ لوگ خوش قسمت کہ جن کا خاتمہ بالخیر ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:102)

’’اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘
جہاں تک عاصمہ جہانگیر کے اسلام کا تعلق ہے تو انکا اسلام تو مشکوک ہے اگرچہ یہ خود ایک نام نہاد مسلمان، ملک غلام جیلانی پاکستان مخالف انسان کی بیٹی تھی مگر اس کا شوہر ایک قادیانی ہے جوکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کی ذیلی شق نمبر 3 میں واضح طور پر تحریر ہے کہ قادیانی بشمول لاہوری گروپ غیر مسلم ہیں، عاصمہ جہانگیر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کی بھی ہمیشہ مخالفت کرتی رہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کے مطابق عاصمہ جہانگیر کواگر نام نہاد ، دین بیزار لبرل مسلمان مان بھی لیا جائے تو بھی اسلام شعائر کو کھلواڑ بناکر مردوزن کا مخلوط نماز جنازہ پڑھنا کونسا اسلام ہے ؟ جبکہ اسلام تو عام حالا ت میں بھی مخلوط مجالس سے منع کرتا ہے ، مساجد میں خواتین کا نماز کے لیے آنے کی کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ بےپردگی اور بے حیائی کا شائبہ تک نہ ہونماز جنازہ فرض کفایہ ہے اگر بعض لوگ ادا کرلیں تو دوسروں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے عورتوں پر نمازجنازہ فرض کفایہ بھی نہیں اگر خواتین شریک ہونا چاہیں تو شروط وقیود کو ملحوظ خاطر رکھ کر شرکت کر سکتی ہیں مگر ان کی صفیں مردوں سے بالکل الگ اور پیچھے رکھی ہیں۔صحیح احادیث میں تو عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا ممنوع ہے
جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

نُهِيْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا (صحیح بخاری ، حدیث:1278 کتاب الجنائز )

’’ہمیں(یعنی عورتوں) کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کیاگیاہے اگرچہ سختی بھی نہیں کی گئی۔ ‘‘

مگر بے پردہ ہوکر اختلاط کی شکل میں نمازجنازہ پڑھنا تو کسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا شریعت اسلامیہ اورشعائر اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف اور قرآن وسنت کے واضح احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اپنی زندگی میں ہمیشہ متنازعہ کردار کی حامل رہی وہ بڑی بے باکی سے شعائر اسلام کی توہین کرتی رہیں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی قانونی معاونت حاصل رہی۔ اغیار کو خوش کرنے کے لیے اس عورت کے مرنے کے بعد بھی جنازےمیں اسلامی شعائر کی تضحیک کی گئی اور اپنے والدین کا ناخلف متنازع شخص حیدرفاروق مودودی نے اپنے سر پر ہندوؤں کی مخصوص علامت والی ٹوپی پہنے نماز جنازہ پڑھائی ۔ نظر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ قدرت کی طرف سے انتقام ہی ہے کہ جس اسلام کے شعائر کو مذاق بنایا آج جب میت کو بخشش کے لیے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہوئی ہے وہ استغفار وطلب مغفرت کا اجتماع خود مذاق کا منظر پیش کر رہا تھا لوگ زبردستی ایسی شخصیت کو جنت میں داخل کروانا چاہ رہے ہیں جس نے ہمیشہ اس خالق جنت کے احکام کا مذاق اڑایا۔فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
پاکستان جہاں عوام کی اکثریت اسلام، نظریۂ ختم نبوت اور نظریۂ پاکستان کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے مگر اسلام، ختم نبوت اور قرار داد مقاصد پر کوئی آنچ برداشت نہیں کر سکتے ۔ ایسے ملک میں اس طرح مخلوط اجتماع کرنا اسلامی عقائد کے ساتھ کھیلنا اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہے ایسے ہی محرکات اور اسباب سے شدت پسندی اور دہشت گردی کو تحریک ملتی ہے اس لیے ہم ارباب اقتدار ،سیکورٹی اداروں اورچیف جسٹس صاحب سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے اسلام مخالف اعمال کے ارتکاب سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا واحدملک ہے جو کہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ ملک ہے تو ادارے ہیں اس لیے تمام اداروںبشمول حکومت،عدلیہ اور فوج کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام اسلام اور ملک کی حفاظت کےلیے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا کریں ورنہ کل قیامت کے دن اپنے وظیفۂ منصبی میں خیانت کے جرم میں گرفتار ہوسکتے ہیں اس رسوائی وذلت سے بچنے کے لیے ابھی وقت ہے۔
مزید یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ حکومت پنجا ب یونیورسٹی کے تحت چلنے والے لاء کالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اگر ایسا ہے تو اس کی پر زور مذمت کرنی چاہیے کیونکہ عاصمہ جہانگیر نے اسلام ،ملک وقوم کی خدمت کا کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے بلکہ اس خاتون نے تو اپنی پوری زندگی اسلامی ثقافت ،تہذیب اور اسلامی اقداروروایات کو تبا ہ کرنے میں بسر کردی ، اورحقوق انسانی کے نام سے اسلام اور ملک دشمنی قوتوں خاص طور پر قادیانیت کو پروان چڑھانے کے لیے انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے اظہر من الشمس ہے ان کی روشن خیالی فکر ارتدار کا سبب بنی وہ خود ببانگ کہا کرتی تھیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ایسی متنازع خاتون کے نام سے کسی مؤقر ادارے کومنسوب کرنا ملک ،اسلام اور طلبا ء و طالبات کےساتھ زیادتی ہوگی حکومت کو ایسا قدم اٹھانے سے باز رہنا چاہیے ورنہ پاکستان کی عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ یہ اسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستانی قوم خاص طورپر نسل نو کے دل ودماغ کو اسلامی نظریات و افکا ر سے دور ہٹا کر بے دینی اور بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے۔
جن لوگوں نےاسلام ،ملک و ملت اور معاشرے کے لیے گراںقدر خدمات انجام دی ہوںتعلیمی اداروں کی نسبت ان کی طرف کرنا ایک اچھی روایت ہے مگر اس عورت کا کوئی ایسا کردار نہیں رہا جس کی وجہ سے اسے یہ اعزاز دیا جائے اگر دینا ہی ہے توان سپوتوں کودو کہ جنہوںنے اپنی جان اسلام ،ملک وقوم کے لیے قربان کی ان شہداءاسلام کو اس اعزاز سے نوازا جائے ۔
مجرم کوسر عام سزا دینا :
اسلامی شریعت اس بات پر بہت زور دیتی ہے کہ مجرم کو سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرم کو نشان ِعبرت بناکر دوسروں کو جرائم سے روکنا سزا کا اصل مقصد جو کہ سر عام سزا دئیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں بھی اس کا واضح طور پر حکم موجود ہے :

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (النور:2)

’’زنا کار عورت اور مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں غیر شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو 100کوڑوں کی سزا بتائی گئی اور اسلام کا فوجداری قانون ثابت کیا گیا ہے نفاذ قانون میں ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو مجرم کوسر عام سزا دینا یہ قانون فطرت ہے ملک وقوم اور معاشرے میں امن امان پیدا کرنے کا واحدحل ہے ۔

تبصرۂ کتب

کتاب : جوامع الکلم من سید ولد آدم

جمع وترتیب : محمد سلیمان جمالی
صفحات : 112
ناشر |: مکتبہ ابو عبیدۃ بن الجراح ۔ نواب شاہ سندھ
تبصرہ:الشیخ عبدالوکیل ناصر
جوامع الکلم،مفاتح الکلم،فواتح الکلم اور خواتم الکلم ہونا نبی کریم ﷺ کے امتیازات وخصائص میں سے ہے یہی وہ وصف خاص ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کے افصح العرب والعجم ہونا ظاہر کرتاہے اور آپ کی عمومی رسالت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ آپ کی فصاحت وبلاغت ساری دنیا سے فائق ہو۔ احادیث مبارکہ کے مطابق آپ ﷺ کو کلمہ وکلام کی ابتداء، انتہاء اور جامعیت عطا کی گئی تھی۔
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہ جنہیں جوامع الکلم کی تجمیع میں گونہ گوںسبقت حاصل ہے وہ جوامع الکلم کو دوقسموں میں تقسیم فرماتے ہیں ۔
1 وہ جو قرآنی الفاظ میں ڈھال کر آپ ﷺ کو دی گئی ۔
2 وہ جامعیت آپ ﷺ کی احادیث وسنن میں واقع ہوئی ہے۔
محدثین اور ائمہ کرام نے مختلف عناوین کے تحت تدوین احادیث کاکام کیا ہے اسی کی ایک مختصر شکل جوامع الکلم کو مرتب ومدون کرناہے۔ اللہ ان تمام اہل علم کو جزائے خیر عطافرمائے۔ آمین
دور حاضر میں ان کی مثل راسخ العلم والزہد لوگ تو ہمیں میسر نہیں ولکن اللہ یجمع العالم فی واحد اور بمصداق حدیث رسول ﷺ کے ’’ یہ علم عدول حاصل کریں گے اور باطلہ ومؤلہ کے دانت کھٹے کرتے رہیں گے‘‘۔ آج بھی کچھ ورثۃ الانبیاء کواکب کے مابین مثل القمر ہمیں مل ہی جاتے ہیں جو سابقون اولون محدثین کے طرز ونہج پر کام کررہے ہیں اسی سلسلہ ذھبیہ سے منسلک اور نہج محدثین کے ترجمان ہیں ہمارے ممدوح مولانا محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ تعالیٰ جن کی تحریر اس وقت زیر تبصرہ ہے جس کا عنوان ’’جوامع الکلم من سید ولد آدم‘‘ ہے مولانا یقیناً حد درجہ غیور اور منہجی حمیت وصلابت رکھنے والے انسان ہیں کما لا یخفی علی أھل العلم ۔ اللھم زد فزد وکثر أمثالہ فینا
مولانا موصوف کی تحریر ان کی محنت شاقہ کی عکاس ہے کہ دو حرفی،سہ حرفی اورمختصر الحروف احادیث کو انہوں نے متعدد کتابوں سے ڈھونڈ کر ضبط تحریر کی لڑی میں پرودیا ہے نیز احادیث کا ترجمہ،ضروری شرح وبسط ارقام الحدیث، مرجع وماخذ سب کچھ ہی لکھ کر گویا سمند کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔ میری نظر میں تقریباً تمام روایات مرفوعاً بیان کی گئی ہیں اور یہی اس کے عنوان’’جوامع الکلم من سید ولد آدم‘‘ کا تقاضا بھی تھا۔ البتہ اگر کوئی صاحب علم کسی روایت کو مرفوع نہ دیکھتے ہوں ’’فوق کل ذی علم علیم‘‘ کے تحت ایسا ممکن ہے ۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحب کتاب مولانا محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ کے علم وعمل اور جھود میں برکات فرما کران کے قلم کو مزید سیال بنادے ۔ آمین
کتاب ھذا تقریباً 112 صفحات کے ساتھ 350 احادیث پر مشتمل ہے ابتداء میں مختصر سا مقدمہ بھی جو کہ تحریر کی غرض وغایت اور ترتیب کو اجاگر کر رہا ہے ۔ سرورق(ٹائٹل) جاذبیت کو سمیٹے ہوئے ہے مافی الضمیر کا عکاس بھی ہے مکتبہ ابو عبیدۃ بن الجراح ۔ نواب شاہ سندھ سے شائع شدہ ہے ۔ ہر خاص وعام کیلئے انمول تحفہ ہے چاہیے کہ ہر ایک حاصل کرے،پڑھے ،ہدیہ کرے ، مکتبہ کی زینت بنائے، مؤلف وناشر کے لیے دعا کرے۔

 

نام کتاب : مقالات راشدیہ جلد نمبر 11

مصنف : شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ
اعداد : الشیخ افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ
صفحات : 448
مضبوط پائیدار جلد قیمت : درج نہیں
ناشر : المکتبۃ الراشدیۃ نیو سعید آباد (سندھ)
سرزمین سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام کی روشنی اسی خطۂ ارضی پہ پڑی۔ اس سرزمین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہ اللہ اجمعین کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔ مجاہد اسلام محمد بن قاسم ثقفی رحمہ اللہ نےدیبل پر93 ہجری میں فیصلہ کن حملہ کیا اور پورے علاقے کو فتح کر لیا اور ان پر اسلامی پرچم لہرادیا۔ ( برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد بن اسحاق بھٹی ، ص:137)
اس اولیت کی مناسبت سے سندھ کو باب الاسلام کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
سرزمین سندھ میں اسلام کی نشر واشاعت کے لیے کوشاں شخصیات اور خاندانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس طویل فہرست میں راشدی خاندان کو جومقام ومرتبہ حاصل ہے وہ ایک انفرادیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ جب سرزمین سندھ میں عوام غیر اسلامی افکار ونظریات سے متأثر ہوکر دین اسلام کے صحیح منہج وصراط مستقیم سے روگردانی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اہل سندھ کی اصلاح وہدایت کے لیے خاندان راشدیہ میں اصحاب علم وفضل کا مبارک سلسلہ شروع فرمایا اسی سلسلہ کے گل سر سبد سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ ہیں۔ سید صاحب نے باطل نظریات اور مسلک حقہ اہل حدیث کے دفاع میں جو علمی تصنیفات سپرد قلم کی ہیں وہ عوام وخواص کے لیے منارہ نور اور ہدایت کا مصدر ومنبع ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے عربی،اردو اور سندھ ہر سہ زبانوں میں تحقیقی واصلاحی تحریریں رقم فرمائیں ہیں۔
حضرت شاہ صاحب کی علمی تراث کو عہد جدید کی طباعتی خوبیوں سے مزین کرکے منصہ شہود پرلانے کا فریضہ سرزمین سندھ کے نوجوان اور کہنہ مشق عالم فضیلۃ الشیخ افتخار احمد ازہری صاحب بخوبی ادا فرمارہے ہیں۔كثّر الله أمثاله وتقبل جهوده
اس سے پہلے وہ حضرت شاہ صاحب کی علمی وتحقیقی معروضات کو 10 جلدوں میں خوانندگان محترم کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب مقالات راشدیہ کی جلد نمبر 11 دراصل حضرت شاہ صاحب کی تصنیف لطیف’’ تنقید سدید بررسالہ اجتہاد وتقلید ‘‘پر مشتمل ہے اس کتاب کی وجہ تالیف اور پس منظر کے بارہ میں فضیلۃ الشیخ افتخار احمد ازہری رقمطراز ہیں :
’’ ایک حنفی عالم نے شاہ صاحب کو تقلید شخصی پر مناظرے کا چیلنج دیا ۔ شاہ صاحب نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ مناظرے کے لیے رخت سفر بھی باندھ لیا اور اس مقلد کو اطلاع بھیج دی کہ فلاں تاریخ کو ہم مناظرے کے لیے آرہے ہیں تو اس مقلد شخص نے بجائے اس کے کہ وہ اپنے چیلنج پر قائم رہتا اور ٹائم مقرر کرکے مناظرے کے لیے آتا ایک رسالہ ’’ الاجتہاد والتقلید‘‘ مولانا ادریس کاندھلوی کا شاہ صاحب کی طرف ارسال فرما دیا اور ایک رقعہ بھی تحریر کیا کہ فی الحال یہ بھیج رہا ہوں اس کا جواب ہمیں دے دیں پھر ہم مناظرہ کریں گے۔ شاہ صاحب نے اس رسالے کا بغور مطالعہ کیا جس میں دو باتوں پر زور دیاگیا تھا۔
1 تقلید شخصی کا وجوب
2 قیاس شرعی حجت اور ضروری ہے
شاہ صاحب نے سب سے پہلے تو اس رسالہ کی متضاد باتیں الگ کیں اور انہیں بتایا کہ پہلے اپنی باتوں میں مطابقت پیدا کرو پھر کسی کو چیلنج دینااور پھر شاہ صاحب نے اس رسالہ میں ذکرکردہ دلائل جن کی حقیقت ’’تارِ عنکبوت‘‘ سے زیادہ نہیں تھی کا مکمل علمی رد پیش کیا اور چند ایام میں ہی اس رسالے کا جواب تحریر کرکے ان کی طرف ارسال کر دیا۔ جب یہ جوابی رسالہ ان حنفی عالم کو ملا تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے آپ کی طرف ایک طبع شدہ کتاب بھیجی تھی اور آپ نے یہ مسودہ ہمیں بھیج دیا یہ ہمیں قبول نہیں تو اس جواب کا کیا مطلب ؟ ’’حیلہ ساز رابہانہ بسیار‘‘۔ شاہ صاحب نے پھر اس کتاب کو ہفت روزہ ’’ الاسلام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع کروایا اور پھر بعد میں وزیر آباد کے کسی ساتھی نے اسے ایک کتابی شکل میں شائع کروادیا۔ جزاہ اللہ خیرا
یادرہے کہ شاہ صاحب کی اس تصنیف کو مکتبہ الامام البخاری کراچی نے 2007ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی جو کہ اس وقت کے طباعتی تقاضوں سے ہم آہنگ تھی اس رسالہ علمیہ پر عالم ربانی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی مختصر مگر جامع تصدیر نے اس کی علمی وقعت میں اضافہ کیا مذکورہ تصدیر میں انہوں نے مسئلہ تقلید ، اجتہاد وتقلید نامی رسالے میں ذکر کردہ دلائل اور تنقید سدید کے بارے میں خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ مسئلہ تقلید کے مالہ وما علیہ کی وضاحت میں رقمطراز ہیں : 
’ ’تقلید اور عمل بالحدیث‘‘ کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔ تقلید جامد کے رسیا اور امت کا درد رکھنے والے مصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کرکے خوب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں خیر القرون کے سیدھے سادھے دورکے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے بعض مقلد فقہاء نے اپنے اپنےمذہب کی ترجیح میں کیا کیا گل نہیں کھلائے حتی کہ اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام تک کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا جیسا کہ ساتویں آٹھویں صدی کے شافعی اور حنفی فقیہوں کی بعض کتابیں جن لوگوں کی نظر سے گزری ہیں وہ اس سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ دن جاتاہے اور یہ دن آتا ہے کہ آج تک ان دو طبقوں کی متقابل تالیفات کا ایک انبار لگا ہوا ہے اور یوں دونوں طرف کے دلائل ومتمسکات پورے طور پر سامنے آگئے ہیں۔ مزید کاوش کی بالکل ضرورت نہیں رہی لیکن حنفی بزرگ ابھی تک حدیث پر عمل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور آئے دن کسی نہ کسی بہانے’’غیر مقلدیت‘‘ کے خلاف فرسودہ اور مردودہ بحثیں چھیڑتے رہتےہیں۔ ‘‘
’’اجتہاد وتقلید ‘‘نامی رسالے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ تقلید جامد کی حمایت میں لکھی گئی اس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں ، وہی عامۃ الورود مغالطات جو علمائے دیوبند کی کتابوں اور رسالوں میں آج تک آتے رہے ہیں یعنی حنفی مذہب کے جذبات پر مبنی فضائل،مذاہب اربعہ پر اس کی ترجیح کا سفسطہ، متبوع ومقلد ہونے کی حیثیت سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب میں غلو اور مبالغہ آرائی ، اصحاب الحدیث پر اہل الرائے کے تفوق کا طنطنہ، محدثین پر مقلد ہونے کا الزام بے ثبوت،مذاہب اربعہ میں حق کے انحصار کا دعوائے بلا دلیل،ترک تقلید کے مزعومہ مفاسد اور یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب مدتوں سے بند ہے وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘
زیر تبصرہ کتاب سے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش فرما کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا لکھتے ہیں کہ
’’حضرت مولانا سید بدیع الدین شاہ صاحب نے ’’تنقید سدید‘‘ میں مقلدین احناف کے ان سب متمسکات پر مدلل ومبرہن اور سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔ انداز ایسا متین اور دلنشین ہے کہ اہل ذوق مطالعہ شروع کریں تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ طعن وتشنیع سے احتراز کیاگیاہے، بس نفس موضوع کو سامنے رکھا ہے ، غیر ضروری باتوں سے اجتناب ہے اور ہر بات باحوالہ ہے، اہل علم اور عوام دونوں کے لیے یکساں مفید ،یقین افروز اور بصیرت افزا۔‘‘
اس تصنیف لطیف میں حضرت شاہ صاحب نے مقلدین کی طرف سے پیش کئے جانے والے نقلی وعقلی دلائل کی حقیقت طشت ازبام کرتے ہوئے تقلید شخصی کی تعریف ، حکم،آغاز ، علماء کی اتباع تقلید نہیں،وجوب تقلید اہل سنت کا عقیدہ نہیں، کتب طبقات میں اہل علم کے انساب کی حقیقت جیسے موضوعات پر سیر حاصل اور مدلل ومبرہن گفتگو فرمائی ہے۔ جزاہ اللہ خیرا
اہل تقلید کی طرف سے پیش کی جانے والی قرآنی آیات کا صحیح مطلب واضح کیا اور اسی طرح جن احادیث سے تقلید کے جواز کو کشید کرنے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے ان احادیث کے درست مدلول کو بھی منہج محدثین کے مطابق واضح فرمایا ہے۔
حضرت شاہ صاحب نے فقہ حنفی کی ترجیح کی وجوہات پہ جو علمی محاکمہ فرمایا ہے اس میں ان کی جلالت علمی پوری شان وشوکت سے دکھائی دیتی ہے الغرض حضرت شاہ صاحب نے اس علمی کتاب کے ذریعے اثبات تقلید پر ’’تارِ عنکبوت‘‘ جیسے دلائل کا مکمل اور جامع محاکمہ فرماتے ہوئے کہیں بھی سنجیدگی اور متانت کا دامن نہیں چھوڑا۔
اس علمی تصنیف کو جدیدطباعت کے مروجہ ضابطوں کے مطابق مزین کرکے اہل تحقیق کی علمی تشنگی کو کافی حد تک سیراب کردیا ہے جو کہ عمدہ کاغذ،کمپوزنگ کی اغلاط سے مبرا،خوبصورت اور جاذب نظر حسین سرورق سے مزین سلیقے سے شائع شدہ عظیم علمی تحفہ ہے۔ امید ہے کہ اہل ذوق مقالات راشدیہ کی سابقه جلدوں کی طرح اس جلد کا بھی بھر پور خیر مقدم کریں گے ۔
باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے مؤلف،پیش کار،ناشر اور دیگر معاونین کو اپنی مرضیات سے نوازے۔
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

وہ اعمال جو صدقہ ہیں

قارئین کرام ! بعض نیک اعمال ایسے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ قرار دیا ہے،وہ اعمال کون سے ہیں ؟آئیں ملاحظہ فرمائیں اور عمل کرکے صدقے کا اجر و ثواب پائیں ۔
1 ہر نیک کام
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ

’’ہر نیک کام صدقہ ہے ۔‘‘ (صحيح بخاري : 6021)
2اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا
سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ .

جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ اس کے لیے صدقہ ہے ۔( صحيح بخاري : 55 )
3 پھل دار درخت لگانا
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ(صحيح بخاري : 2320 )

کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے ۔
4 عدل و انصاف کرنا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاس عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ النَّاسِ صَدَقَةٌ

انسان کے بدن کے ( تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے ) ہر جوڑ پر ہر اس دن کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے ۔ ( صحيح بخاري : 2707 )
5 سوار کو سواری پر بٹھانا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی معظم ﷺ نے فرمایا :

كُلُّ سُلَامَى عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ يُعِينُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ يُحَامِلُهُ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ،

روزانہ انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی سواری میں مدد کرے کہ اس کو سہارا دے کر اس کی سواری پر سوار کرا دے یا اس کا سامان اس پر اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔( صحيح بخاري : 2891)
6 زبان سے اچھی بات نکالنا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ ……صَدَقَة( صحيح بخاري : 2891)

( زبان سے ) اچھا اور پاک لفظ نکالنا صدقہ ہے ۔
7 نماز کے لیے اٹھنے والا قدم
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی معظم ﷺ نے فرمایا :

وَكُلُّ خَطْوَةٍ يَمْشِيهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ (صحيح بخاري : 2891 )

ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ صدقہ ہے۔
8 کسی مسافر کو راستہ بتانا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا

وَدَلُّ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ

( کسی مسافر کو ) راستہ بتانا صدقہ ہے ۔ (صحيح بخاري : 2891 )
9 راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :

وَيُمِيطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ(صحيح مسلم : 1009)

اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو وہ بھی ایک صدقہ ہے ۔
0 دودھ دینے والی اونٹنی یابکری کچھ دنوں کے لیے عطیہ کرنا
سیدنا ابوهریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :

نِعْمَ الصَّدَقَةُ اللِّقْحَةُ الصَّفِيُّ مِنْحَةً

کیا ہی عمدہ صدقہ ہے خوب دودھ دینے والی اونٹنی جو کچھ دنوں کے لیے کسی کو عطیہ کے طور پر دی گئی ہو وَالشَّاةُ الصَّفِيُّ مِنْحَةً تَغْدُو بِإِنَاءٍ وَتَرُوحُ بِآخَر اور خوب دودھ دینے والی بکری جو کچھ دنوں کے لیے عطیہ کے طور پر دی گئی ہو جس سے صبح و شام دودھ برتن بھربھر کر نکالا جائے۔ (صحیح بخاری : 5608)
!تسبیح ،تحمید تہلیل اور تکبیر کہنا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا :

فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ (صحیح مسلم : 1671)

’’ہرتسبیح ( سبحان الله) کہنا صدقہ ہے ، ہرتحمید ( الحمد لله) کہنا صدقہ ہے ، ہر تہلیل ( لااله الا الله)کہنا صدقہ ہے ، ہر تکبیر(الله اكبر)کہنا بھی صدقہ ہے ۔‘‘
@ امر بالمعروف والنھی عن المنکر
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :

وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ

( کسی کو ) نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔(صحیح مسلم : 1671)
# نابینا آدمی کو راستہ دکھانا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :

وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ

نابینا اور کم دیکھنے والے آدمی کو راستہ دکھانا تمہارے لیے صدقہ ہے ۔(سنن ترمذی : 1956)
$مسکرا کر ملنا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ

اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے ۔(سنن ترمذی : 1956)
%پانی پلانا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :

وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ

اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں تمہارا پانی ڈالنا تمہارے لیے صدقہ ہے ۔(سنن ترمذی : 1956)
^ لوگوں کو اپنےشر سے محفوظ رکھنا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے، آپ ﷺ نے فرمایا اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے پوچھا اور کس طرح کا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور مالک کی نظر میں جو بہت زیادہ پسندیدہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ اگر مجھ سے یہ نہ ہو سکے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : پھر کسی مسلمان کاریگر کی مدد کر یا کسی بے ہنر کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں ؟

قَالَ:‏‏‏‏ تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ (صحیح بخاری : 2518)

تو آپ ﷺنے فرمایا: پھر لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھ کیونکہ یہ بھی ایک صدقہ ہے جسے تم خود اپنے اوپر کرو گے۔
& بیوی سے صحبت کرنا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :

وَبُضْعَةُ أَهْلِهِ صَدَقَةٌ

’’آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرے تو یہ بھی صدقہ ہے ۔‘‘
لوگوں نے پوچھا : اللہ کے رسول ! ہم میں سے ایک شخص اپنی ( بیوی سے ) شہوت پوری کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا :

أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعَهَا فِي غَيْرِ حِلِّهَا أَلَمْ يَكُنْ يَأْثَمُ ؟

( کیوں نہیں ) اگر وہ کسی حرام جگہ میں شہوت پوری کرتا تو کیا وہ گنہگار نہ ہوتا ۔(سنن ابی داود : 1285)
* برائیوں سے باز رہنا
سیدنا عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :

يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ (صحیح مسلم: 1008)

برائیوں سے باز رہنا بھی ایک صدقہ ہے ۔
S اپنے خادم پر خرچ کرنا
سیدنا مقداد بن معديكرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، وَأَهْلِهِ، وَوَلَدِهِ، وَخَادِمِهِ، فَهُوَ صَدَقَةٌ (سنن ابن ماجہ 2138)

اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔
) تنگ دست کو مہلت دینا
جناب سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ مِثْلِهِ صَدَقَة

جس شخص نے تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے ہر دن کے بدلے اسی کے مثل صدقہ کا ثواب ہے ۔

فَإِذَا حَلَّ الدَّيْنُ فَأَنْظَرَهُ فَلَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ صَدَقَةٌ

جب قرض كي مدت پوری ہو جائے پھر اسے مہلت دے تو اس کے لئے دو گنا صدقہ ہے ۔(سلسلة الاحادیث الصحیحة : 82)
سلام کرنا
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

تَسْلِيمُهُ عَلَى مَنْ لَقِيَ صَدَقَةٌ(سنن ابي داؤد : 1285)

آدمی کا کسی ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے ۔
شوہر کا بیوی کے اخراجات پورے کرنا
سیدنا عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

مَا أَعْطَى الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَهُوَ صَدَقَةٌ .

شوہر اپنی بیوی کو جو کچھ دیتا ہے وہ صدقہ ہے ۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1024)
تہجد گذار کی نیند
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

مَا مِنَ امْرِئٍ تَكُونُ لَهُ صَلَاةٌ بِلَيْلٍ فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا نَوْمٌ إِلَّا كَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ صَلَاتِهِ،‏‏‏‏ وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْه

جو بھی آدمی رات کو تہجد پڑھا کرتا ہو، پھر کسی دن نیند کی وجہ سے وہ نہ پڑھ سکے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھ دیتا ہے، اور اس کی نیند اس پر صدقہ ہوتی ہے ۔ (سنن نسائی : 1798)

برصغیر کی تحریک آزادی میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ کا کردار 3

3 مولانا شاہ عین الحق پھلواروی
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی علمائے ربانی میں سے تھے بہت بڑے واعظ ، مبلغ،خطیب اور مقرر تھے ان کا وعظ بڑا پُر تأثیر ہوتا تھا۔ ہزارہا خلقت مولانا کے وعظ ونصیحت سے متأثر ہوکر جادئہ مستقیم پر گامزن ہوگئی ۔
مولانا سید آرزو ندی لکھتے ہیں کہ
’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ایک خوش بیان واعظ تھے ان کے وعظ کا ہر ٹکڑا دل پر تیر ونشتر بن کر چبھ جاتا تھا وہ اصلاح امت کے لیے بے چین ومضطرب نظر آتے وہ حق کے مقابلے میں کسی سے مرعوب نہ ہوتے وہ صداقت اور ایمانداری کے ہمالیہ تھے۔(المغراف فی تفسیر سورۃ ق بحوالہ اصحاب علم وفضل، ص:197)
محترم محمد تنزیل صدیقی الحسینی لکھتے ہیں کہ
’’مولانا شاہ عین الحق پھلواروی کا وعظ سریع الاثر ہوا کرتا تھا منقول ہے کہ جب مولانا حج کے لیے تشریف لے گئے تھے تو ایک مقام پر ڈاکووں نے گھیر لیا اور سارا سامان لوٹ لیا مگر ایسی حالت میں بجائے خوف زدہ ہونے کے مولانا نے ایسا وعظ کیا کہ ڈاکووں نے تلوار توڑدی اور تمام سامان واپس کر دیا اور ہمیشہ کے لیے تائب ہوگئے۔ (محمد تنزیل صدیقی الحسینی، اصحاب علم وفضل ، ص:197)
مولانا شاہ عین الحق کو جماعت مجاہدین سے خاص اُنس تھا جب تک زندہ رہے اس جماعت سے مالی تعاون کرتے رہے۔
حضرت شاہ صاحب 1287ھ میں پیدا ہوئے دینی تعلیم مولانا نعمت اللہ پھلواروی، مولاناحافظ عبد اللہ غازی پوری رحمہم اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل حضرت شیخ الکل میاں صاحب سے کی۔ تصنیف میں سورئہ ق کی تفسیر بنام ’’المغراف‘‘ لکھی۔ 1233ھ میں بمقام لکھنو وفات پائی ۔ ( اصحاب علم وفضل ،ص:205)
4 حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی
اُستاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبد المنان بن شرف الدین مشہور محدث اور عالم کبیر تھے۔ 1267ھ میں قصبہ قرولی ضلع جہلم میں پیدا ہوئے 8 سال کی عمر میں نزول الماء کے عارضہ سے بصارت سے محروم ہوگئے تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا اپنے دور کے نامور اساتذہ سے مختلف علوم اسلامیہ میںاستفادہ کیا ان کے اساتذہ میں شیخ عبد الحق بنارسی(م 1278ھ) اور شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م 1320ھ) بھی شامل ہیں فراغت تعلیم کے بعد کچھ عرصہ شیخ عبد اللہ غزنوی (م 1298ھ) کی صحبت میں رہے ۔
مولانا سید عبد الحی الحسنی لکھتے ہیں کہ
ثم سافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، ولبث عنده ثمانية أشهر واستفاض منه فيوضاً كثيرة (نزھۃ الخواطر 8/312)
’’امرتسر تشریف لے گئے اور شیخ عبد اللہ غزنوی کی خدمت میں آٹھ مہینےرہ کر کافی فیض اُٹھایا۔‘‘
1292ھ میں وزیر آباد تشریف لائے اور دار الحدیث کے نام سے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور اپنی ساری زندگی قرآن وحدیث کی تدریس میں بسر کر دی آپ نے اپنی زندگی میں 40 سال سے زیادہ عرصہ حدیث کا درس دیا آپ کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ) فرماتے ہیں

لا أعلم أحداً في تلامذة السيد نذير حسين المحدث أكثر تلامذة منه، قد ملأ بنجاب بتلامذته (نزهة الخواطر 8/321)

’’میں نے سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں سے کسی کے شاگرد ان سے زیادہ نہیں دیکھے آپ نے پنجاب کو شاگردوں سے بھر دیا۔
حضرت حافظ صاحب کے چند نامور تلامذہ حسب ذیل ہیں
مولانا عبد الحمید سوہدروی (م 1312ھ) مولانا ثناء اللہ امرتسری ( م 1367ھ) مولانا ابو القاسم بنارسی (م 1319ھ) مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ( م 1375ھ) ، مولانا عبدالقادر لکھوی ( م 1342ھ) مولانا محمد علی لکھوی (م 1973ء )
حافظ عبد المنان وزیر آبادی کاجماعت مجاہدین سے بھی تعلق رہا آپ مجاہدین کی مدد کیا کرتے تھے اور ان کے مدرسہ میں مجاہدین کے لیے پوشیدہ طریقے سے فنڈ جمع کیا جاتا تھا جو بعد میں مجاہدین تک پہنچایا جاتا تھا ۔
حافظ عبد المنان وزیر آبادی کامجاہدین سے خصوصی تعلق تھا مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی جو جماعت مجاہدین کے میر کارواں تھے حافظ صاحب کے شاگرد تھے 18 سال کی عمر میں تحریک مجاہدین سے وابستہ ہوئے اور 20 سال کی عمرمیںاسمست گئے اور امیر المجاہدین عبد الکریم کے ہاتھ بیعت جہاد کی ۔ ریلوے کی ملازمت چھوڑ کر اپنے آپ کو حق کی راہ میں وقف کر دیا امیر المجاہدین عبد الکریم نے ہندوستان میں تحریک کو بڑھانے کے لیے جن قابل اور محنتی کارکنوں کو مقرر کیا اس میں مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی بھی شامل تھے چنانچہ مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی کو ہندوستان سے مجاہدین کی امداد کے لیے مالی امداد اور نئے مجاہد فراہم کرنے کا کام سونپا گیا ۔ مولوی فضل الٰہی نے اس کام کو خوبی اور ذوق شوق سے انجام دیا کہ پشاور سے مدراس تک سرگرم کارکنوں کا جال بچھ گیا۔
(مجاہدین صادق پور، ص : 250)
مولانا غلام رسول مہر (1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’ مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی نے 1906ء میں ریلوے کی ملازمت ترک کر دی اور جماعتی کاموں کے لیے وقف ہوگئے وہ چپ چاپ ملک کے طول وعرض میں پھرتے رہتےتھے تمام ممتاز ملکی رہنماؤںسے گہرے تعلقات پیدا کر لیے ان میں سے بطورِ خاص مولانا ابو الکلام آزاد ہیں جن کی دینی دعوت نے ’’الہلال‘‘ کے ذریعے سے عالم گیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ مولوی فضل الٰہی نے اس دوران میں ہزاروں روپے فراہم کیے اور اپنے ساتھ مخلص کارکنوں کی ایک بہت بڑی جماعت پیدا کر لی جس کےافراد،فراہم کردہ روپیہ اور آدمی اسمست پہنچاتے تھے جماعت کو جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اس کا انتظام مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی کر دیتے تھے ۔ ( سرگزشت مجاہدین ، ص: 568)
وزیر آباد کے دوسرے مجاہد صوفی عبد اللہ تھے جو مولوی ولی محمد اور مولوی فضل الٰہی کی دل نواز اور ایمان افروز تقریریں سن کر جماعت مجاہدین سے وابستہ ہوئے اور مولوی فضل الٰہی کے ساتھ چندہ فراہم کرنے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے جب مولوی فضل الٰہی اسیر زنداں ہوجاتے تو صوفی صاحب ان کے قائم مقام ہوجاتے اور جماعت کی خدمات انجام دیتے تھے ۔ صوفی عبد اللہ صاحب چمرکنڈ میں کئی سال مقیم رہے اور مجاہدین کے لیے کام کرتے رہے ۔
صوفی صاحب نے چمرکنڈ سے واپسی کے بعد ضلع لائل پور ( فیصل آباد) کے چک اوڈانوالہ میں رجب 1257ھ / ستمبر 1938ءمیں ایک دینی درسگاہ بنام |’’ تعلیم الاسلام‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی قرآن وحدیث کی خدمت میں کوشاں ہے۔ (سرگزشت مجاہدین ، ص:635۔636)
وفات مولوی فضل الٰہی وزیر آبادی 5 مئی 1951ء مدفن بالاکوٹ
وفات صوفی عبد اللہ وزیر آبادی 30 اپریل 1975ء مدفن ماموں کانجن
حافظ عبد المنان نے 16 رمضان المبارک 1334ھ وزیر آباد میں وفات پائی اور قبرستان پرانی چونگی سیالکوٹ روڈ میں دفن ہوئے ۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، ص:428 طبع اول)
5مولانا عبد العزیز رحیم آبادی
مولاناعبد العزیز رحیم آبادی بن شیخ احمد اللہ برصغیر پاک وہند کے علمائے اہلحدیث میں ایک ذی وقار عالم دین تھے۔ آپ بیک وقت محدث،مورخ،خطیب ومقرر، مبلغ، دانشور اور مناظر تھے۔ علوم عالیہ وآلیہ میں ان کو مہارت تامہ حاصل تھی۔عربی ،فارسی اور اردو میں یگانہ روزگار تھے اور صاحب طرز ادیب اور بلند مصنف اور مترجم تھے۔
مولانا عبد العزیز کا تعلق صوبہ بہار کے ایک معزز خاندان سے تھا ان کے والد محترم شیخ احمد اللہ اچھی خاصی زمینوں کے مالک تھے اور بڑے حوصلہ مند اور بلند مرتبہ ومقام کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت کے ساتھ رعب ودبدبہ بھی عطا کیا تھا۔ دینی اعتبار سے بڑے متقی،پرہیزگار،زہد وورع کے پیکر، جواد،سخی،عابد،زاہد، متبع سنت اور علمائے کرام سے محبت اور ان کا احترام کرنے میں سب سے آگے ہوتے تھے۔
مولانا عبد العزیز کا سن ولادت 1270ھ / 1854ء ہے۔ 13 سال کی عمر میں ان کی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا۔ اس کے بعد عربی وفارسی کی ابتدائی کتابیں مولوی عظمت اللہ ،مولوی محمود عالم رام پوری اور مولوی محمد یحییٰ عظیم آبادی سے پڑھیں۔ بعد ازاں 1290ھ / 1873ء میں دہلی تشریف لائے اور حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے تفسیر،حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا عبد الحق حقانی صاحب تفسیر حقانی (م1335ھ) آپ کے ہم درس تھے۔
صاحب نزہۃ الخواطر حکیم سید عبد الحی الحسنی فرماتے ہیں
ثم سافر إلى دهلي وأخذ الفقه والحديث عن شيخنا المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي (نزهة الخواطر 8/256)
1293ھ/1875ء میں حضرت میاں صاحب سے سند فراغت لی اور واپس اپنے وطن رحیم آباد تشریف لائے اور ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور سلسلہ درس وتدریس شروع کیا۔
مولانا عبد العزیز نہایت ذہین وفطین تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہی قوت حافظہ کی نعمت سے نوازا تھاخطابت میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا بہت بڑے خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کا وعظ بڑا مؤثر ہوتا تھا۔ جب وعظ فرماتے خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رُلاتے ، تدریس میں بھی ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔
مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’تدریس کے ساتھ خطابت وامامت کا فریضہ بھی مولانا عبد العزیز اپنے قصبے رحیم آباد میں ادا فرماتے تھے نیز اس علاقے کے مختلف مقامات میں وعظ وتبلیغ کے لیے بھی مولانا جاتے تھے جس سے بے شمار لوگوں کو فائدہ پہنچا اور کتاب وسنت کی اشاعت کا دائرہ وسیع ہوا۔ آٹھ سال رحیم آباد میں مولانا کی تدریس وخطابت کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا اسی اثناء میں لوگ کثیر تعداد میں بدعات اور غلط رسوم وعقائد سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کتا ب وسنت پر عمل کا داعیہ ان کے ذہن وفکر کی تہوں میں جاگزین ہوا۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:150)
مولانا عبد العزیز مولانا محمد اسحاق بھٹی کی نظر میں :
مولاناعبد العزیز رحیم آبادی وسیع العلم،وسیع المطالعہ اور حاضر جواب عالم تھے وہ نہ صرف اسلامی علوم پر عبور رکھتے تھے بلکہ ہندؤوں اور عیسائیوں کے عقائد وافکار سے بھی خوب آگاہ تھے۔ فن مناظرہ میں بھی یگانہ روزگار تھے اور اپنے دور کے امام المناظرین تھے۔ 1305ھ/ 1888ء میں مرشد آباد(بنگال) میں ’’وجوب تقلید‘‘ پر (دہلی میں ان کے ہم درس اور دوست) مولانا عبد الحق حقانی( م 1335ھ) سے مناظرہ ہوا ۔ اس مناظرہ میں علمائے احناف اور اہلحدیث کے بہت سے علماء نے شرکت کی تھی۔ احناف کی طرف سے ہر روز مناظر بدلتے رہے لیکن اہلحدیث کی طرف سے اكيلےمولانا عبد العزیز رحیم آبادی تھے مناظرہ پانچ دن جاری رہا اس مناظرہ سے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے علم وفضل اور فن مناظرہ کی دھوم مچ گئی۔ اور دس ہزار حنفی افراد نے اہلحدیث مسلک اختیار کیا۔ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ اس مناظرہ میں شریک تھے اور اس پر بے حد اظہار مسرت فرمایا ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مہمان نواز اور پیکر سخاوت تھے ، ایثار وقربانی میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ تہجد گزار اور عالی ہمت عالم دین تھے، بہت بڑے مبلغ تھے۔ اشاعت دین اور تبلیغ کے ذریعے تحریک اصلاح تجدید کی آبیاری کی اور پورے ہندوستان کو اپنی تگ وتاز کا مرکز بنایا۔ مولانا رحیم آبادی میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ جماعت اہلحدیث کے قائد کی حیثیت سے تمام معاملات میں اپنی جماعت کے مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ذاتی اور خاندانی اعتبار سے اپنے علاقے کی اہم شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دور کے معاشرے میں بڑا اعزاز بخشا تھا اور وہ علمی وسیاسی اور قومی مسائل کے حل وکشود کے سلسلے میں مرجع عوام تھے اور عوام کے اعتماد پر پورا اترتے تھے۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:150)
جماعت مجاہدین سے تعلق :
جماعت مجاہدین سے مولانا عبد العزیز کا خاصا تعلق رہا ۔ صوبہ بہار میں اعلی قابلیت سے مجاہدین کی خفیہ تنظیم کی قیادت فرماتے تھے۔ جماعت اہلحدیث میں انگریزوں کے خلاف جذبۂ جہاد کی تحریک کے روح رواں تھے۔ (محمد عطاء اللہ حنیف، مضمون مندرجہ احسن البیان ، طبع لاہور 1385ھ)
مولانا محمد اسحاق بھٹی (م2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’جماعت مجاہدین سے مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کا تعلق تھا بلکہ وہ اپنے علاقے میں اس جماعت کے امیر تھے انہوں نے اس علاقے میں باقاعدہ جماعتی نظم قائم کیا اور عشر ، زکوۃ وغیرہ کی جو رقم وصول ہوتی وہ مولانا کے ذریعے سرحدپار کی جماعت مجاہدین کو بھیجی جاتی تھی ۔ سرحد پار کی مرکزی جماعت مجاہدین کے امیر اور سرکردہ حضرات کو جب مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی مستعدی اور ان کے حلقہ معتقدین کی وسعت کا پتہ چلا تو انہوں نے براہ راست امدادی رقوم کی فراہمی کی ذمہ داری مولانا کو سونپ دی اس زمانے میں یہ بے حد نازک اور خطر ناک کام تھا۔ جو ان کے سپرد کیاگیا تھا لیکن اس مرد حق شناس نے اس خطر ناک مرحلے کو طے کرنے کا فیصلہ کرلیا جس پر وہ عمر کے آخری لمحے تک قائم رہے حکومت برطانیہ کی خفیہ پولیس ان کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتی تھی اور سخت نگرانی کرتی تھی اور اس کی رپورٹیں اعلیٰ حکام کو پہنچائی جاتی تھیں۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:164)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م 1968ء) مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کی جماعت مجاہدین سے وابستگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے مزاج میں عجیب تنوع تھا ایک طرف وہ ان حضرات کے ساتھ اہل حدیث کانفرنس کے اسٹیج پر کام کرتے دوسری طرف مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ،صوفی ولی محمد مرحوم،اکبر شاہ آف ستھانہ مولوی الٰہی بخش بھیانوالہ، قاضی عبد الرحیم صاحب، قاضی عبید اللہ اور قاضی عبد الرؤف (قاضی کوٹ) اور مولانا عبد القادر قصوری کے ساتھ جماعت مجاہدین کا کام کرتے تھے اور یہ کام اس راز داری اور خوبصورتی سے ہوتا تھا کہ انگریز کی عقابی نگاہیں برسوں اس کا سراغ نہ لگا سکیں۔ معلوم نہیں یہ اطلاع کہاں تک درست ہے کہ مرحوم کی گرفتاری کے احکام اس دن پہنچے جب مرحوم اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوکر جنت کے دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت کے لیے دستک دے رہے تھے اور ’’طبتم فادخلوھا خالدین‘‘ کی آواز کے منتظر تھے ، پولیس جنازہ دیکھ کر واپس آگئی۔ اللھم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ الجنۃ (آمین ) (مقدمہ احسن البیان فیما سیرۃ النعمان مطبوعہ 1961/1385ھ اہل حدیث اکادمی لاہور،ص:37۔39)
تصانیف :
مولانا عبد العزیز رحیم آبادی مصنف بھی تھے ان کی مشہور تصانیف ’’سواء الطریق (4جلد)، روئیداد مناظرہ مرشد آباد اور احسن البیان فی ما سیرۃ النعمان ہیں۔
احسن البیان مولانا شبلی نعمانی(م 1914ء) کی کتاب سیرۃ النعمان (سوانح عمری حضرت امام ابو حنیفہ(م 150ھ) کا جواب ہے۔ مولانا رحیم آبادی نے اس پر ایسی گرفت فرمائی کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مولانا شبلی نعمانی نے اپنے قلم کا رخ مذہب کی بجائے تاریخ کی طرف موڑدیا۔(محمد مستقیم سلفی بنارسی،جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:394)
آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل :
ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کے نظم ونسق کے لیے مولانا رحیم آبادی نے بڑی تگ ودو کی۔دسمبر 1906ء میں آرہ(صوبہ بہار) میں جماعت اہل حدیث کا ایک جلسہ ہوا جس میں اس مسلک کے بہت سے علمائے کرام اور علمائے عظام نے شرکت کی ۔اسی اجلاس میں آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل کی گئی تھی۔ اس کے پہلے صدر مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م 22 نومبر 1918ء) اور ناظم اعلی شیخ الاسلام مولانا ابو اوفا ثناء اللہ امرتسری (م 5 مارچ 1948ء) کو منتخب کیاگیا تھا اور اس کا مرکزی دفتر دہلی میں قائم کیا گیا تھا۔
کانفرنس کے تعارف اور اس کو منظم کرنے کی غرض سے پورے ہندوستان کا دورہ کرنے کے لیے جو وفد ترتیب دیاگیا تھا وہ مندرجہ ذیل تین حضرات پر مشتمل تھا۔
1 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی (م 1919ء)
2 مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری (م 1948ء)
3 مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ( م 1956ء)(مضمون محمد اسحاق بھٹی ، مشمولہ سوانح مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، مرتبہ : قاضی محمد اسلم سیف فیروزپوری مطبوعہ لاہور 1994ء/1415ھ)
تقسیم ملک سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے سالانہ جلسے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے تھے چار جلسوں کی صدارت کا اعزاز مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کو حاصل ہوا۔ تفصیل حسب ذیل ہے :
1 امرتسر :دوسرا سالانہ جلسہ منعقدہ 14،15،16 مارچ 1913ء
2 علی گڑھ: چوتھا سالانہ جلسہ منعقدہ 13،14،15 مارچ 1915ء
3بنارس :پانچواں سالانہ جلسہ ، منعقدہ 25،26،27 فروری 1916ء
4کلکتہ:چھٹا سالانہ جلسہ ، منعقدہ 7،8،9 مارچ 1917ء
بنارس کے جلسے میں اہلحدیث کے علاوہ بے شمار احناف بھی سامعین میں موجود تھے جن میں احناف کے جید علمائے کرام بھی تھے۔ مولانا رحیم آبادی کی تقریر اس قدر مؤثر اور مدلل تھی کہ علمائے احناف نے بیک زبان پکار اٹھے کہ ’’یہ شخص اس عہد کا امام غزالی ہے۔‘‘(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:160)
آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کا ساتواں سالانہ جلسہ مدراس میں 3،4،5 مئی 1918ء کو منعقد ہوا۔ اس جلسہ کے صدرمولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پورے تھے۔مولانا رحیم آبادی کو انتقال کئے ہوئے ڈھائی ماہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ اس میں عبد العزیز مدراسی (جو اس وقت نوجوان تھے) نے ایک نظم پڑھی تھی جس کے تین شعر درج ذیل ہیں یہ شعر سن کر سامعین زاروقطار رونے لگے۔
شکر خدا کہ جمع ہیں ہندوستان والے
علمائے خیر امت شیریں زبان والے
جن کے مشاہدہ کو آنکھیں ترس رہی تھیں
لو دیکھ لو عزیزو! عز وشان والے
کیا خوب ہوتا وہ بھی گر آج زندہ ہوتے
عبد العزیز نامی حسن البیان والے
(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:168)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے آخری شعر دس مرتبہ پڑھایا اور زاروقطار روتے رہے ۔ مولانا عبد العزیز رحیم آبادی نے 1336ھ/1918ء کو وفات پائی۔ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ،ص:180)
6مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری
مولانا حافظ عبد اللہ بن عبد الرحیم اپنے دور کے علمائے فحول میں سے تھے ان کا مولد ومسکن ضلع اعظم گڑھ کا قصبہ مٹو تھا۔ سن ولادت 1261ھ/1845ء ہے۔12 سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اسی دوران 1857ء کا ہنگامہ رونما ہوا جس کی لپیٹ میں قصبہ مٹو بھی آگیا اور شہری زندگی ابتر ہوگئی۔ حافظ عبد اللہ کے والدین مٹو سے ہجرت کرکے غازی پور میں سکونت پذیر ہوگئے۔حافظ صاحب نے مٹو میں عربی کی بعض کتابیں مولوی محمد عالم مٹوسے پڑھی تھیں۔غازی پور مدرسہ چشمہ رحمت میں داخلہ لیا۔ اس مدرسہ میں مولانا محمد فاروق چڑیاکوٹی(م1327ھ) اور مولانا رحمت اللہ لکھنوی بانی مدرسہ چشمہ رحمت سے دینی علوم کی بعض کتابیں پڑھیں۔ غازی پور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد حافظ صاحب جون پور تشریف لے گئے اور مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی سے بقیہ نصاب کی تکمیل کی۔
جون پور سے تکمیل کے بعد حافظ عبد اللہ نے دہلی کا رخ کیا اور شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے تفسیر وحدیث پڑھ کر سند حاصل کی ۔ مولانا سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ
ثم سار إلى دهلي وأخذ الحديث عن شيخنا السيد نذير حسين الدهلوي المحدث (نزھۃ الخواطر8/287)
’’پھر دہلی کا سفر کیا اور حضرت الاستاد شیخ سید نذیر حسین دہلوی سے حدیث میں سند حاصل کی۔‘‘
تکمیل تعلیم کے بعد مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور،مدرسہ احمدیہ آرہ اور دہلی کے ایک مدرسہ میں تدریس فرمائی۔ مدرسہ احمدیہ آرہ میں ان کی تدریسی مدت 20 سال ہے۔ حافظ صاحب کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے ، مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا محمد سعید محدث بنارسی (م 1322ھ)
مولانا شاہ عین الحق پھلواروی (م 1324ھ)
مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ)
مولانا عبد الرحمان مبارک پوری (م 1353ھ)
مولانا محمد ابو بکر شیث جون پوری (م 1359ھ)
مولانا سید محمد داؤد غزنوی (م 1963ء)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م 1968ء) (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:483 ، مطبوعہ دہلی 1938ء)
علم وفضل کے اعتبار سے حافظ عبد اللہ غازی پوری ایک جلیل القدر عالم دین تھے ۔
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ
جن کی ذات پر علم کو فخر اور عمل کو ناز تھا ۔ تدریس جن کے دم سے زندہ تھی اساتذہ جن پر اس قدر ناز اں کہ حضرت شیخ الکل جناب میاں صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے۔
’’ میرے درس میں دو عبد اللہ آئے ہیں ایک عبد اللہ غزنوی دوسرے عبد اللہ غازی پوری۔‘‘ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:455)
علامہ سید سلیمان ندوی (م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری نے تدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اور شاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی کو ان کے شاگردوں میں نہیں ملا۔‘‘ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند، ص:37)
حافظ عبد اللہ غازی پوری کا مجاہدین کی جماعت سے بھی خاصا تعلق تھا آپ مجاہدین کے لیے خفیہ طریقہ سے مالی تعاون کرتے تھے۔
مولانا غلام رسول مہر (م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’حافظ عبد اللہ غازی پوری کو جماعت مجاہدین سے بڑی الفت تھی اور جہاد کا بڑا شوق تھا۔ اسی خیال سے وہ موزوں جوانوں کو منتخب کرکے ان کے لیے سپاہیانہ فنون کے سیکھنے کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین ، ص:644)
تصانیف :
حافظ عبد اللہ غازی پوری تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ان کی تصانیف عربی اور اردو میں ہیں۔ مشہور تصانیف یہ ہیں :
1 ابراء اہل الحدیث والقرآن
2 تسہیل الفرائض
3 رسالہ تراویح
4 البحر المواج شرح مقدمہ صحیح مسلم (عربی)
وفات :
حافظ عبد اللہ صاحب غازی پوری دہلی میں درس وتدریس میں مشغول تھے کہ ان کے ایک قریبی عزیز ڈاکٹر عبد الرحیم لکھنو میں انتقال کرگئے۔ حافظ صاحب دہلی میں لکھنو تعزیت کے لیے تشریف لے گئے اور وہاں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ واپس دہلی نہ آسکے اور انہیں مستقل طور پر لکھنو ہی میں اقامت اختیار کر لی ۔ حافظ صاحب نے21 صفر 1337ھ/26 نومبر 1918ء کو رحلت فرمائی اور عیش باغ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(نزھۃ الخواطر8/288)
حافظ غازی پوری کی وفات پر علامہ سید سلیمان ندوی کے تاثرات :
جناب مولانا عبد اللہ صاحب غازی پوری کا واقعہ وفات علماء کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے۔ مولانا مرحوم نے گو طبعی عمر پائی لیکن اس خیال سے وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہاءیادگار تھے ہم ان کے لیے درازی عمر کے متوقع تھے۔ مولانا اتباع سنت،طہارت وتقویٰ، زہدوورع، تبحر علم، وسعت نظراور کتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے علم دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس وتدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلباء ان کے فیض تربیت سے علماء بن کر نکلے ۔ (اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے)(سید سلیمان ندوی ، یادرفتگان ص:40 مطبوعہ کراچی 1984ء)
7مولانا فقیر اللہ مدراسی :
حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے تلامذہ میں مولانا فقیر اللہ مدراسی رحمہ اللہ بڑے ذی وقار عالم دین،مبلغ خطیب اور اسلامی علوم میں یکتائے زمانہ تھے ان کا مولد ومسکن ضلع خوشاب (مغربی پنجاب) کا قصبہ کٹھہ مصرال ہے۔ سن ولادت 1280ھ ہے۔ مولانا فقیر اللہ نے علوم عالیہ وآلیہ کی تحصیل جن اساتذہ کرام سے کی۔ ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں :
1 مولانا محمد بن فتح الدین(برادرکبیر) (م 1311ھ) تلمیذ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ
2استادپنجاب حافظ الحدیث عبد المنان وزیر آبادی (م 1334ھ)
3 حضرت الامام السید عبد الجبار غزنوی (م 1331ھ)
4مناظر اسلام حضرت مولانا محمد بشیر سہوانی ( م 1326ھ)
5 حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ)
6 علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی نزیل بھوپال ( م 1327ھ)
7 مولانا محمد اسحاق منطقی رحمہ اللہ
فراغت تعلیم کے بعد مطبع مجتبائی دہلی کے ہاں کچھ مدت عربی کتابوں کی پروف ریڈنگ پر ملازمت کر لی۔ انہی دنوں بنگلور میں ایک بریلوی مولوی سلطان احمد نے اہلحدیث کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی تھی جو اہلحدیث حضرات کے لیے بڑی پریشان کن تھی چنانچہ بنگلور کے ایک ذی وقار اور معزز سوداگر سید عباس شاہ صاحب نے حضرت میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی کو خط لکھا جس میں بریلوی مولوی سلطان احمد کے عزائم سے مطلع کیا اور اس کے ساتھ حضرت میاں صاحب سے درخواست کی کہ یہاں ایک ایسے اہلحدیث عالم کو بھیجا جائے جو بریلوی مولوی نے اہلحدیث مسلک کے خلاف شکوک وشبہات پیدا کئے ہوئے ہیں وہ دور کرے تاکہ اہلحدیث حضرات اطمینان کا سانس لے سکیں۔
چنانچہ حضرت میاں صاحب نے مولانا فقیر اللہ کو بنگلور بھیج دیا مولانا فقیر اللہ بنگلور تشریف لے گئے وہاں آپ نے کیا کارنامے انجام دیئے۔ مولانامحمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا فقیر اللہ بنگلور میں مدلل اسلوب سے وعظ وتقریر کا آغاز کیا اور مولوی سلطان احمد بریلوی سے ان کے مناظرے بھی ہوئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی سلطان احمد کی اہلحدیث کے خلاف ہنگامہ آرائی ختم ہوگئی اور مولانا فقیر اللہ سے متاثر ہوکر بہت سے لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہوگئے پھر بنگلور کے لوگوں نے مولانا فقیر اللہ کو دہلی نہیں جانے دیا اور اصرار کرکے وہیں رکھ لیا۔‘‘ (محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ، ص:253)
بنگلور کے قیام میں مولانا فقیر اللہ نے مدرسہ نصرۃ الاسلام سے ایک دینی درسگاہ کا اجراء کیا اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ مولانا فقیر اللہ کا مجاہدین سے بھی تعلق رہا اور صوبہ مدراس سے رقوم جمع کرکے سرحد پار کی جماعت مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے ایک دفعہ وہاں خود بھی گئے اور انگریزی حکومت کے خلاف جماعت مجاہدین جس طریقے سے جہاد کر رہی تھی اس سے نہایت متاثر ہوئے تھے۔(محمد اسحاق بھٹی ، دبستان حدیث ، ص:253)
مولانا فقیر اللہ مدراسی نے 6 شوال 1341ھ / 22 مئی 1923ء کو بنگلور میں انتقال کیا۔(نزھۃ الخواطر8/288)
8مولانا محمد اکرم خان :
مولانا محمد اکرم خان(آف ڈھاکہ ) مشہور عالم دین، صحافی،مصنف اورقومی وسیاسی رہنما تھے۔علوم اسلامیہ کی تحصیل حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔ مختلف اوقات میں تین اخبار محمدی،زمانہ اور آزاد جاری کیا۔ ان اخبارات نے تحریک پاکستان میں نمایاں خدمات انجام دیں مولانا محمد اکرم خان جماعت مجاہدین سے بھی وابستہ رہے اور اس جماعت کےلیے رقوم جمع کرکے مجاہدین کے مرکز میں بھیجتے رہے۔ تصنیف میں قرآن مجید کی تفسیر اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت بنگلہ زبان میں لکھیں۔ اگست 1968ء میں 99 سال کی عمر میں ڈھاکہ میں وفات پائی۔ آپ شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ کے آخری شاگرد تھے جو اس دنیائے فانی سے دار البقاء چلے گئے۔ ( ابو یحییٰ امام خان نوشہروی،ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، مطبوعہ لاہور 1391ھ ، ص:217)

جنسی تعلیم یا فحاشی کا فروغ

نئے سال کی آمد پر قصور میں زینب نامی ایک معصوم گڑیا کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں قتل کرکے لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا یہ سراسر انسانیت کی توہین تھی چاہئے تو یہ تھا کہ مجرم کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس پہ مستزاد یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ کا شور اٹھایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگر پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم نہ دی گئی تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔
قصور سمیت ملک بھر میں ہونے والے واقعات کے بغور جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ یہ سارے اغواء، زیادتی اور قتل کے کیسز ہیں یعنی فوجداری واقعات ہیں ان کی روک تھام پولیس اور انتظامیہ کے ذمے ہیں لیکن تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ان کو ٹھیک کرنے کی بجائے کمال ہوشیاری سے ان کی ذمہ داری والدین اور تعلیمی اداروں پر ڈالی جا رہی ہے ان سارے واقعات کا سیکس ایجوکیشن سے دور کا بھی تعلق نہیں لیکن مغربی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز ان سب کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔
ذیل میں ہم انہی باتوں کا جائزہ لیں گے کہ جنسی تعلیم سے کیا مراد لی جا رہی ہے اور پاکستان میںاس کے فروغ کے لئے کیوں اتنی کوششیں کی جا رہی ہیںاور اسلام اس حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے ؟
یہاں پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم دینا بذات خود معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے اس سے کسی بگاڑ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ سارا کچھ جو بچے ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں اسے سکول جا کر دہراتے ہیں جس سے دیگر بچے متاثر ہو کر وہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ تعلیمی اداروں میں آئے روز مینہ بازار کا انعقاد ہوتا ہے ثقافتی شوز کے نام پر بچیوں کے ڈانس کرواجا رہے ہیںیہ سب عریانی کے اسباق ہی تو ہیں اسی لئے اوریا مقبول جان نے کہا تھا کہ بچوں میں جنسی تعلیم بے حیائی کے فروغ کا سبب بن سکتی ہے 31دسمبر2013کو اپنے ایک بیان میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایل نرسمہا ریڈی نے کہا کہ ہائی سکولز میں جنسی تعلیم دینے سے بچوں کے ذہنوں میں خرابی ہو رہی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ مشترکہ خاندان سسٹم ختم ہونے سے بچوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے جبکہ اسلام ہرگز ایسا معاشرہ نہیں چاہتا جہاں انسانوں کی خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہو بلکہ اسلام دین فطرت ہونے کے ناطے انسانوں کی فطری ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور انہیں جائز طریقے سے پورا کرنے کا مکمل سامان اور راہنمائی فراہم
کرتا ہے تاکہ معاشرے بے لگام گھوڑے پر سوار ہوکر اپنا اخلاقی وجود نہ کھو بیٹھے لیکن جیسے جیسے ہمارے معاشرے نے اسلام سے دوری اختیاری کرکے اہل مغرب کی اندھی تقلید شروع کی تو اپنی بنیاد بھی بھول بیٹھے اور روز بروز زوال کا شکار ہوئے اور ہمارے مقامی نام نہاد دانشوروں نے اس زوال کو مزید گہرا کرنے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو مغرب کسی بھی چیز کو پردے میں رکھنے کا قائل نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مختصر لباس استعمال کیا جاتا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے پاکستان کے نا م نہاد دانشوروں پر جو کہتے ہیں کہ کم کپڑے پہننا فحاشی نہیںبلکہ کم کپڑے پہننے والوں کی زندگی میںمداخلت کرنا فحاشی ہے ایسا کہنا ہے فرنود عالم کا، اب جبکہ ان کی سوچوں کا معیار ہی ایسا ہے تو ان سے بحث بیل کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔
پاکستان میں بچوں کو جنسی تعلیم دینے پر زور وہ لوگ دے رہے ہیںجو خود بچوں کی نازیبا ویڈیوز مہنگے داموں خریدتے ہیںایسے ہی چلتے چلتے یورپ کا حال سنتے چلیے سابق برطانوی فٹبال کوچ بیری بیٹیل پر بچوں سے زیادتی کے 48مقدمات درج ہیں اور اس پر اسے عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح سابق فرنط انٹرنیشنل فٹ بالر صتیو میرلیٹ کو کم عمر لڑکے پر جنسی حملے کے الزام میں شامل تفتیش کیا گیا ۔
برطانیہ جہاں تعلیمی اداروں میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے اسی ملک کے معتبر ترین نشریاتی ادارے کے نمائندے جمی سوائل کے مرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مرنے والے نے اپنے کیرئیر کے دوران 450لوگوں بشمول بچوں سے جنسی زیادی کی اسی طرح بی بی سی(BBC) اردو کی 19اپریل 2017ء کی رپورٹ میں بتایا کہ یورپ اور جنوبی امریکہ کے حکام نے سوشل سائیٹ وٹس ایپ کے ذریعے بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی تصاویر کو تقسیم کرنے والے نیٹ ورک کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے ۔
بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے معاملے میں یورپ گلوبل ہب بن رہا ہے ۔
اسی طرح بی بی سی اردو کی 3اپریل 2017ء کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل واچ فاونڈیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ دنیا بھر میںغلط استعمال والے مواد کا 60فیصد اب یورپ میں پایا جاتا ہے جو کہ پہلے کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے اور یورپی ممالک میں غیر قانونی مواد ڈالنے کے معاملے میں نیدر لینڈ سرفہرست ہے ۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ کا شور بھی یہی یورپ اٹھا رہا ہے جس سے ان کے مقاصد کی صاف سمجھ آرہی ہے لہذا پاکستانی قوم خبردار رہے کہ اہل یورپ ہر گز پاکستانی قوم اور معاشرے کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔
مذکورہ بالا مثالیںان مغربی ممالک سے لی گئی ہیں جہاں سیکس ایجوکیشن نصاب کا حصہ ہے لیکن لاکھوں واقعات میں سے چند ایک کا ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ خود ان ممالک میں بھی بچوں سے زیادتی کے واقعات رکے نہیں اس کے باوجود اس نصاب کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کا مقصد بچوں کو قبل از وقت بالغ بنانے ، ان کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے اور معاشرے میں انارکی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں ۔
پاکستان میں موجود این جی اوز(NGO) اور ان کے ہرکارے چند ایسے فرضی سوالات کی مدد سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں جن سے انہیں پاکستان میں جنسی تعلیم کے فروغ کی حمایت دستیاب ہوتی ہے انہی سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر بچے آپ سے پوچھیں کہ ’’ بچے کہاں سے آتے ہیں ‘‘؟ تو آپ ان کو میاں بیوی کے تعلقات اور اس کے بعد کاسارا پروسیجر مکمل تفصیل سے بتا سکتے ہیں اسی طرح بچہ اگر پوچھے کہ سپرم اور انڈہ اکٹھے کیسے ہوتے ہیں تو انہیں مکمل تفصیل فراہم کی جائے
کوئی ان سے پوچھے کہ ایک بچہ یہ ہی کیوں پوچھے گا کہ بچے کہاں سے آتے ہیں ؟ اور اسے کیا خبر کہ سپرم اور انڈہ کیا ہوتے ہیں ؟اور اگر وہ پوچھ ہی لے تو اسے چھوٹی عمر میں میاں بیوی کے تعلقات سمجھانے کی کیا ضرورت ہے بھلا ؟وقت سے پہلے بچوں کو بالغ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے
اسی طرح غیر ملکی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز جس جنسی تعلیم کا پرچار کرتی ہیں اس کا ایک پوائنٹ یہ بھی ہے کہ بچوں کو بتایا جائے کہ سیکس صرف خود لذت حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے ساتھی کوبھی لذت دینا ہے اب آپ ہی بتائیے کہ یہ بد اخلاقی سے بچانے کی تعلیم ہے یا فحاشی کی ،اسلام اسی تعلیم کے کبھی بھی حق میں نہیں رہا ۔
اب آئیے اہل مغرب کے ہاں رائج جنسی تعلیم کے سلیبس پر ایک نظر ڈالتے ہیں
انٹرنیٹ سے پوچھا گیا تو وکی پیڈیا نے سیکس ایجوکیشن کی تعریف کچھ یوں کی
Sexeducation is instruction on issues relating to human sexuality
یہاں پر آگاہی کی بجائے ہدایات کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے دیگر اجزاء یا مکمل پروگرام میں جو چیزیں شامل ہیں وہ یہ ہیں :
Humansexual anatomy
1
Sexual reproduction
2
Sexual activity
3
Age of consent
4
Reproductive health
5
Reproductive rights
6
Safe Sex
7
Birth control
8
Sexual abstinence
9
ان موضوعات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا بچوں کے اغواء زیادتی اور قتل جیسےبرے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تو پھر سیکس ایجوکیشن کے لئے اتنا واویلا کیوں؟اس سارے سلیبس میں تو جنسی عمل قائم کرنا ، خود لذت لینا، دوسرے کو لذت دینا، اس سارے عمل میں بیماریوں سے بچنا اور محفوظ جنسی ملاپ کے طریقے بیان کئے گئے ہیں اور ان کی تربیت دی گئی ہے ۔
پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے لئےتٹرپنے والی این جی اوز سے سوال کیا جانا چاہئیے کہ یہ سب کیا ہے اور بچوں کو اس سب تربیت کا فراہم کیا جانا کیوں ضروری ہے؟ اور کیا یہ سب فطری ہے ؟ ہر گز فطری نہیں یاد رکھئیے اہل مغرب اور سیکس ایجوکیشن کے لیے تٹرپنے والے دراصل فطرت کی نادیدہ قوتوںسے برسرپیکار ہیں اور آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ فطرت سے برسر پیکار ہونے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے یہی وجہ ہےکہ یورپ اور امریکہ صرف سی وجہ سے اپنا خاندانی نظام تباہ کر چکے ہیں اور اب انڈیا کا سماج دہائی دے رہا ہے کہ ہائی سکولز میںجنسی تعلیم کے نتائج کے طور پر بچے خاندان سے دور ہو رہے ہیں
پاکستان اس وقت جنسی ادویات کے سمگلروں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے اور 2015-16کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں اندازاََ 8بلین امریکی ڈالر کی جعلی ادویات فروخت ہو رہی ہیںکہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ اور اس جیسے ممالک پاکستان میں اپنی انہی ادویات کی فروخت بڑھانے کے لئے جنسی تعلیم پر زور دے رہے ہیں تاکہ جہاں ایک طرف خاندان تباہ ہوں وہیں دوسری طرف ان کی ادویات کی خوب فروخت بڑھے کیونکہ وطن عزیزپاکستان میں جنسی ادویات کا ستعمال نوجوا ن نسل میں ایک نشے کی طرحپھیل چکا ہے اور اسے بیچنے والے اپنے مفاد کی خاطر کبھی بھی ان کے مضر صحت ہونے کا نہیں بتائیں گے ۔
ہم نے مغربی جنسی نظریے کا جائزہ لیا اب آئیے !اسلامی جنسی نظریے کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔
جنسی خواہش ایک فطری اور پاکیزہ جذبہ ہے جنس کے خالق نے جنسی معاملات میں جو راہنمائی کی ہے وہ نہ صرف کافی ہے بلکہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس راہنمائی کی مُروجہ علوم کے پس منظر میں مزید تشریح کی جا سکتی ہے اور کی جانی بھی چاہئیے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر مسلم ماہرین جنسیات بھی قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے مغربی ماہرین جنسیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ایک مسلم اکثریت معاشرے میں قرآن و حدیث سے ہٹ کر جنسی تعلیم دینے سے جنسی انارکی، کنفیوژن اور فحاشی تو پھیل سکتی ہے لیکن شادی شدہ لوگوں کی آسودگی اور غیر شدہ لوگوں کی تربیت کا باعث نہیں بن سکتی جبکہ یہی تعلیم ایک غیر مسلم معاشرے میںغیر مسلموں کے لئے مفید قرار پاتی ہے پس اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جنسی تعلیم کا جو نصاب ایک غیر مسلم معاشرے کے لیے سود مند ہے وہی نصاب مسلم معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے کیونکہ اہل مغرب کسی بھی چیز کو پردے میں رکھنے کے قائل نہیںجبکہ اسلام نے ہر چیز کو اس کی درست جگہ پر رکھا ہے کہ جہاںاسے ہونا چاہئیے تھا
جنس کے خالق نے جنسی ضروریات کے جائز طریقے اور ضابطے بھی فراہم کئے ہیں اور ان سے انحراف کی صورت میں سورہ نور کی شکل میں تنبیہہ بھی کی ہے
ذرا دیکھئے تو اللہ نے کیا الفاظ استعمال کئے

سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا وَاَنْزَلْنَا فِيْهَآ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (النور 1)

۝کہ یہ احکام ہم نے نازل کئے ہیںاور ہم نے ہی فرض بھی کئے ہیں یعنی یہ سفارشات نہیںکہ جی چاہا تو مان لیا اور جی نہ مانا تو رد کر دیا بلکہ یہ فرض ہیں کہ خالق کے مقرر کردہ جنسی ضابطوں سے انحراف کی شکل میں یہ سزائیں دی جانی فرض ہیں اور آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جب تک یہ سزائیں نافذ العمل رہیں تب تک اسلامی معاشرے امن و سکون کی مثالیں بنے رہے اور آج کے جدید تہذیبی معاشرے میں مغربی ممالک انہی سزاوںکو ختم کرنے کے در پے ہیں تاکہ مسلم معاشرے انارکی و انتشار کا شکار ہوجائیں
ایک مسلم معاشرے میں بچوں کو جنسی تعلیم اس قدر کھول کر نہیں دی جاتی کہ وہ قبل از وقت بالغ نہ ہوجائےاگر کسی بچے میں درج ذیل نشانیاں پائی جائیں تو اس پر فوری توجہ دی جانے کی ضرورت ہے ۔
بچہ خاموش اور سہما ہوا دکھائی دے ، یا جسم میں درد کی شکایت کرے ،یا بڑوں سے ڈر رہا ہو،یا نظریں نیچی کرکے بات کرے،یا سکول سے چھٹی کے وقت سہم جاتاہو،یا اپنے والدین یا رشہ داروں کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس نہ کرے گزشتہ ادوار میں مسلم معاشروں کا سب سے بڑا ٓدمی اپنے فہم کی تشکیل محض عقل پر نہیں کرتا تھابلکہ وہ اپنے فہم کی تشکیل میں الہامی ہدایت سے پورے طور پر فیض یاب ہوتا تھا اور اپنی عقل کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرتا تھا اور یوں فہم نافع کی تشکیل کے بعد اپنی خواہشات کو اپنی فہم کے تابع رکھتا تھا ۔
مسلم معاشروں کا المیہ ہے کہ انسان کے اندر موجود نفس کو اس درجے پر موضوع نہیں بنایا جس درجے پر موضوع بنانا ان کی سب سے بڑی ضرورت تھی
نفس کے دوشاخیں(دوڈومینز) ہیںایک ڈومین ہے طبیعت دوسرا ڈومین ہے شعور۔
طبیعت مزے اور لذت کے اصول کے مطابق چلتی ہے یعنی طبیعت خواہش کیساتھ ہوتی ہے جبکہ شعور اچھے اور برے صحیح اور غلط نافع یا نقصان دہ کو پرکھتا ہے
جب طبیعت کامیلان شعور پر غالب آجائے تو اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں لیکن جب شعور طبیعت کو اپنی تحویل میں لے تو اعلی اخلاق پیدا ہوتے ہیں
دین کی اصطلاح میں نفس کے غلبے سے مراد ہمارے اندر ہماری طبیعت کا غالب آجانا اور اپنی فطرت سے دور نکل جانا ہے ۔
دین اسلام میں انسانی تربیت کےبڑے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ تربیت کے نتیجے میں ایک ایسا انسان تیار ہوجائے جو اپنے نفس پر غالب رہے اس سے مغلوب نہ ہو لیکن اس کے لئے طبیعت کا میلان اور نفس کی صورت اور شعور کی تیاری سمجھنا بہت ضروری ہے اور نفسیات جسے ہم مغرب کی اصلاح میں وضاحت کر رہے ہیں اسے اپنے اندازواصلاح میں بیان کرنا ہوگا ۔قصور واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات بے شمار پہلے بھی ہو چکے ہیں قصور واقعہ کے نتیجے میں ایک بحث شروع ہوئی ہے جس کی نوعیت اچانک چھا جانے والی ہے اس کے پیچھے علمیت کی شدید کمی ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے ہم رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر اپنے پیراڈائم(دائرہ کار ) میںرہتے ہوئے علمیت کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کریں اور حل تلاش کریں۔
—-

جذبۂ حب رسول ﷺ اور صحابہ کرام

امام اعظم،امام دین،رحمت للعالمین جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے دل وجان سے محبت کرنا ایمان کا جزء لازم ہے جو قلب اس دولت سے خالی ہے وہ ایمان سے بھی خالی ہے اور یہ محبت دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہونی چاہیے اور اس محبت میں ہر چیز کو قربان کردینا اہل ایمان کا شیوہ ہوتاہے وہ دنیا کی بڑی سے بڑی چیز کو اس محبت میں آڑے نہیں آنے دیتے بلکہ وہ اس کے حصول کے لیے ہرچیز کو قربان کر دینا اپنے لیے باعث فخر وسعادت سمجھتے ہیں چہ جائیکہ اس راہ میں اپنی جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔

مقام رسول ﷺ :

جس ہستی سے اہل ایمان اس قدر محبت کرتے ہیں اس کا مقام ومرتبہ کیا ہے ۔اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ(صحیح مسلم:2278)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں گا اور میری قبر مبارک سب سے پہلے کھلے گی اور میں ہی سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میری ہی شفاعت سب سےپہلے قبول کی جائے گی۔‘‘
اللہ رب العالمین نے جناب محمد کو سید ولد آدم،خاتم المرسلین، رحمۃ للعالمین،شفیع المذنبین اورسرور کائنات بنایا آپ کے مقام ومرتبہ کو خطیب کی خطابت اورشاعر کی شاعری اور ادیب کا قلم بیان نہیں کرسکتا۔
بعد از خدا بزرگ تو ہی قصہ مختصر
لیکن اس کے باوجود آپ کی عاجزی وانکساری کی انتہا یہ ہے کہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ

لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ، وَرَسُولُهُ(صحیح بخاری:3445)

’’ مجھے میرے مقام ومرتبہ سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاری نے سیدناعیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو آپ کے مقام ومرتبہ سے بڑھا دیا تھا میں تو صرف اس کا بندہ ہوں پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہو ۔ ‘‘
حالانکہ آپ سید ولد آدم اور امام الانبیاء ہیں لہٰذا آپ کی سیرت کا تذکرہ کرنے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ غلو سے بچا جائے۔
رفاقت رسول ﷺ کو مال ومتاع پر ترجیح:
اگر کسی مومن کو یہ اختیار دیا جائے کہ تمہیں دنیا کا مال ومتاع چاہیے یا رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چاہیے تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہرچیز سے محبوب صرف آپ کی رفاقت کو جانے ۔ ایسی عظیم ہستیاں گزری ہیں کہ جنہوں نے دل کی گہرائیوں سے محبت رسول کو ہی دنیا کے مال ومتاع پر ترجیح دی ۔ سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

كُنْتُ أَبِيتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: سَلْ فَقُلْتُ: أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ قُلْتُ: هُوَ ذَاكَ. قَالَ: فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ(صحیح مسلم489)

’’ میں رسول اللہ ﷺ کے پڑوس میں رات بسر کرتا تھا آپ کی خدمت میں وضو کیلئے پانی اور دیگر ضروریات کی چیزیں لے کر حاضر ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ کسی چیز کی فرمائش کرو میں نے عرض کی کہ میں جنت میں آپ کی رفاقت کا سوال کرتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کوئی اور فرمائش ہےمیں نے عرض کی صرف یہی ایک گزارش ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس فرمائش کو پورا کرنے میں زیادہ سجدے کرکے میرا تعاون کرو۔‘‘
قارئین کرام! دیکھیے کہ محب صادق کو فرمائش کا موقع میسر آیا تو بلا تردد جناب رسول مکرم ﷺ کی جنت میں رفاقت کا سوال کیا دوسری مرتبہ موقع دیاگیا پھر بھی اس فرمائش کو دہرایا کسی اور فرمائش کا تصور بھی ان کے ذہن میں نہ آیا۔ (ماخوذ از نبی کریم ﷺ سے محبت اور اس کی علامتیں از ڈاکٹر فضل الٰہی )

محبت رسول ﷺ :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشادفرمایا

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ (التوبۃ : 24)

’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ ،اس کے رسول اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو

ہدایت نہیں دیتا ۔‘‘

نیز رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(متفق علیہ)

’’ تم میں سے کوئی شخص (کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے ماں باپ،اولاد اور سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت کرنے والا نہ ہوجائے۔‘‘
مزید ارشاد گرامی ہے :

ثَلاَثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلاَوَةَ الإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لاَ يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ(صحیح بخاری 16)

’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تو ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کی مٹھاس کو پالیتا ہے ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو دوسری یہ کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطراور تیسری یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح ناپسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اس کو ناپسند ہے۔ ‘‘

محبت رسول ﷺ کے تقاضے:

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دل کی گہرائیوں سے محبت رکھتا ہے تو یہ محبت تقاضا کرتی ہے کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے پسندیدہ طریقے اپنائے اور ناپسندیدہ طریقے چھوڑ دے اور ان احكامات پر عمل پیرا ہو جن احکامات سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ خوش ہو۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ناراض کرنے والی باتوں اور کاموں سے دور رہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی مرضی والے کام کرتا رہے یہی محبت کا تقاضا ہےاگر اس شخص نے کوئی ایسا کام کیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کے خلاف تھا یعنی اللہ اور رسول ﷺ کا ناپسندیدہ عمل کیا یا ان کے پسندیدہ عمل کو چھوڑ دیا تو یہ دلیل ہے کہ اسکے دل میں ان کی محبت کم ہے لہٰذا ا سکو توبہ کرنی چاہیے اور اپنی محبت کی تکمیل کرنی چاہیے جو اس پر لازم ہے ۔ (تیسیر العزیز الحمید)
سیدنا عبد الرحمن بن قراد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن وضو کیا آپ کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو؟ انہوں نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی بنا ء پر ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرے اس کو چاہیے کہ جب وہ بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسایوں سے اچھا برتاؤ کرے۔ (شعب الایمان للبیہقی )
نیز سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ يَأْبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى(صحیح البخاری7280)

’’ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہوگا؟ آپ نے فرمایا ’’ جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔‘‘
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ رسول اللہ ﷺ کی محبت آپ کی تابعداری کرنے اور نافرمانی ترک کرنے کا ارادہ ہے اور یہ اسلام کے واجبات میں سے ہے۔ (عمدۃ القاری ، ماخوذ از نبی کریم ﷺ سے محبت اور اس کی علامتیں)

محبت کی لازوال مثالیں :

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے کا حق ادا کر دیا اور ایسی مثالیں پیش کیں کہ ان کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے ۔ سیدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقعہ پر قریش مکہ کی طرف سے آپ کے پاس سفیر بن کر آئے عروہ بن مسعود نے جہاں پر سفارت کاری کا فریضہ سرانجام دیا وہاں پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے تعلق کامنظر دیکھنے لگا پھر اپنے رفقاء کے پاس آیا اور بولا

أَيْ قَوْمِ، وَاللهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا، وَاللَّهِ إِنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ (صحیح البخاری كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط الحديث:2731 )

’’ اے لوگو اللہ کی قسم، میں بادشاہوں کے دربار میں گیا، قیصر وکسریٰ اور نجاشی کے دربار میں گیا، مگر اللہ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے مصاحب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کی تعظیم اس کے اصحاب کرتے ہیں، اللہ کی قسم، جب تھوکتے ہیں، تو وہ جس کسی کے ہاتھ پڑتا ہے، وہ اس کو اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے اور جب وہ کسی بات کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو ان کے اصحاب بہت جلد اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں، جب وضو کرتے ہیں، تو ان کے غسالہ وضو کیلئے لڑتے مرتے ہیں اپنی آوازیں ان کے سامنے پست رکھتے ہیں، نیز بغرض تعظیم ان کی طرف دیکھتے تک نہیں۔‘‘
اسی طرح غزوئہ بدر کے لیے جب رسول اللہ ﷺ نے مشورہ لیا تو جہاں پر سیدنا ابو بکر صدیق،سیدنا عمر فاروق اور مقداد رضی اللہ عنہم نے کھڑے ہوکر بڑی عمدہ باتیں کیں وہاں پر انصار کی طرف سے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بھی کھڑے ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں انصار کی طرف سے بول رہا ہوں اور ان کی طرف سے جواب دے رہا ہوں ، عرض ہے کہ آپ جہاں چاہیں تشریف لے چلیں جس سے چاہیں تعلق استوار کرلیں اور جس سے چاہیں کاٹ لیں ہمارے مال میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دیدیں اور جو آپ لے لیں گے وہ ہمارے نزدیک اس سے زیادہ پسند ہوگا جسے آپ چھوڑ دیں گے اور اس معاملے میں آپ کا جو فیصلہ ہوگا ہمارا فیصلہ بہر حال اس کے تابع ہوگا اللہ کی قسم! اگر آپ پیش قدمی کرتے ہوئے برک غماد تک جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے اور اگر آپ ہمیں لے کر سمندر میں کود جانا چاہیں تو ہم اس میں بھی کود جائیں گے۔(ماخوذ از الرحیق المختوم ، ص:345)
نیز ایک اور محب رسول ﷺ کی سیرت پڑھ کر اپنے ایمان کا ہم بھی جائزہ لیں اور اپنے ضمیر کو ٹٹول کر دیکھیں کہ ہماری محبت کیسی اور کتنی ہے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے روز مجھے سعد بن ربیع کی تلاش میں بھیجا اور فرمایا کہ اگر تو انہیں دیکھے تو میری طرف سے انہیں سلام کہنا اور کہنا کہ رسول اللہ ﷺ دریافت فرمارہے تھے کہ تمہارا کیا حال ہے؟ راوی(زید) کہتے ہیں کہ میں مقتولین میں پھرنے لگا آخر میں سعد کے پاس آیا ان کا دم لبوں پر تھا نیزوں ،تلواروں اور تیروں کے بدن پر ستر نشانات تھے میں نے کہا اے سعد! رسول اللہ ﷺ نے تمہیں سلام کہا ہے اور دریافت فرما رہے تھے کہ تمہارا کیا حال ہے؟ انہوںنے جواب دیا رسول اللہ ﷺ پر سلام ، آپ سے عرض کرنا اے اللہ کے رسول ﷺ میں جنت کی خوشبو پارہا ہوں اور میری قوم انصار سے کہنا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف پہنچی اور تم میں ایک آنکھ جھپکنے والی بھی باقی ہوئی تو یادرکھو اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر سنا نہ جائے گا اس کے فوراً بعد ان کی روح جسد عنصری سے پرواز کر گئی۔ (زاد المعاد 2/192۔193)
ایک طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان اور آپ سے محبت کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف رسول اللہ ﷺ  پر ایمان لانے والی صحابیات بھی اس محبت میں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب غزوئہ احد سے واپس مدینہ منورہ لوٹے تو آپ ﷺ کا گزر بنودینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا جس کا شوہر، بھائی اور والد تینوں شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو کہنے لگی کہ رسول اللہ ﷺ کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا کہ ام فلاں رسول اللہ ﷺ خیریت سے ہیں اور بحمد اللہ جیسا تم چاہتی ہو ویسے ہی ہیں۔ خاتون نے کہا کہ ذرا مجھے دکھلا دو میں بھی آپ کا وجود مبارک دیکھ لوں۔ لوگوں نے اشارے سے بلایا جب ان کی نظر آپ ﷺ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں :
کل مصیبۃ بعدک جلل
’’ آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام بحوالہ : الرحیق المختوم ص:459)
گیارہ انصار اور طلحہ رضی اللہ عنہم کی جانثاری:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن جب مسلمان بھگدڑ میں منتشر ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف گیارہ انصاری صحابہ اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہم رہ گئے مشرکوں نے آپ کا گھیرا ڈال لیا تو آپ نے نگاہ اٹھا کر فرمایا کہ اب ہماری طرف سے کون لڑے گا طلحہ بن عبید اللہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! میں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ رہو ایک انصاری شخص بولا ۔ یا رسول اللہ! میں ، آپ نے فرمایا تو پھر وہ لڑا حتی کہ شہید ہوگیا پھر آپ ﷺ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ کون حفاظت کرے گا ، قوم کی ، طلحہ نے کہا کہ میں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنی جگہ رہو ، ایک شخص انصاری بولا میں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تو پھر وہ لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا پھر برابر آپ اسی طرح فرماتے رہے اور ایک ایک انصاری مرد لڑائی کے لیے نکلتا گیا اور لڑکرشہید ہوتا رہا یہاں تک کہ فقط رسول اللہ ﷺ اور طلحہ رہ گئے اس وقت آپ نے فرمایا اب کون لڑے گا ، طلحہ نے کہا کہ میں پھر طلحہ بھی لڑے پہلے گیارہ شخصوں کی مانند یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر ایک ضرب لگی اور انگلیاں کٹ گئیں انہوں نے کہا کہ حس(یعنی آہ ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر تو بسم اللہ کہتا (جب تجھے زخم لگا تھا) تو فرشتے تجھے اُٹھا لیتے اور لوگ دیکھتے رہتے پھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو پھیر دیا ۔ (سنن نسائی ، باب ما یقول من یطعنہ العدو)
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح اس عظیم المرتبت نبی کریم ﷺ سے اپنی جان،مال، عزت وآبرو سے بڑھ کر محبت کریں جیسا کہ انہوں نے آپ سے محبت کی جس کا نقشہ حافظ عبد الوحید نے ہفت روزہ الاعتصام لاہور شمارہ 8 جلد 58 میں ان الفاظ سے کھینچا ہے ۔
غزوئہ احد میں جونہی مسلمانوں کی فتح کا پانسہ پلٹ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے صحابہ کرام کی کثیر تعداد شہید ہوگئی بہت سے صحابہ زخمی ہوگئے جناب رسالت مآب ﷺ بھی شدید زخمی ہوگئے، اسی اثناء میں آپ کی شہادت کی خبر بھی اُڑ گئی بس پھر کیا تھا کہ صحابہ کرام کی ہمتیں جواب دے گئیں اداس ان کے انگ انگ میں سرایت کر گئی صفیں منتشر ہوگئیں ، عزائم سرد پڑ گئے اور صحابہ بدنظمی کا شکار ہوگئے مگر جیسے جیسے مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی سلامتی کی اطلاع ملی ان کی صفیں مجتمع ہونے لگیں نبی کریم ﷺ گھاٹی میں واقع اپنے کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو اس موقع پر کفار بھی نشانے لے لے کر تیر چلانے لگے اس موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس جانثاری سے حالات کی سنگینی کا مقابلہ کیا اور آپ کی حفاظت کے لیے جس جرأت ودلیری کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے سیدنا طلحہ،ابو دجانہ،ابو عبیدہ بن الجراح،فاطمہ وعلی، ام ایمن ، حمنہ بنت جحش ، بنو دینار کی صحابیہ اور والدہ اور سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کی محبت آبِ زر سے لکھی جانے کے لائق ہے ۔
۔۔۔

خواب کے بعض اہم مسائل

خواب ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا کی کوئی قوم،نسل اور انسان ایسا نہیں ہے جس نے اپنے خوابوں میں اپنے شاندار مستقبل کی تعمیر نہ کی ہو۔ انبیاء ورسل علیہم السلام نے خواب میں فرامین الٰہی اور احکامات شریعت سے آگاہی پائی تو بادشاہوں نے اس کے آئینہ میں اپنی حکومتو ں کا عروج وزوال دیکھا۔ علماء کرام اور فلاسفہ نے خواب کے ذریعہ اپنی گھتیاں سلجھائیں ، مومن خواب میں خوشخبریوں اور بشارتوں سے محظوظ ہوئے تو کفار ومشرکین اور برائیوں کے دلدل میں پھنسے لوگ اس کے ذریعہ سے متنبہ ہوتے رہے۔ اطباء اور ڈاکٹروں کے لیے خواب بیماریوں کی تشخیص کا سبب بنا تو مریضوں اور بیماروں کے لیے شفایابی کی خوشخبری یا موت کی آگاہی کا وسیلہ بنا الغرض خواب ایسی حقیقت ہے کہ اس سے مفر نہ تو کسی حاکم کو ہے اور نا محکوم کو اس سے گریز ہے ، نہ ظالم اس سے محفوظ ہے اور نہ مظلوم اس سے محروم خواب ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے ۔
خواب زندگی ہے اور زندگی خواب ہے ہم شب وروز اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان جہاں بہت سارے اچھے خوابوں کو دیکھ کر خوش ہوتاہے وہیں کچھ ناپسندیدہ خوابوں کو دیکھ کر حیران وپریشان بھی ہوتاہے یہی نہیں بلکہ خوابوں کے تعلق سے جب ہم اپنے سماج ومعاشرہ میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں اس تعلق سے لوگوں کے عجیب وغریب قسم کے عقائد وافکار کا پتا چلتا ہے۔ بعض لوگ جہاں خوابوں کی حقیقت کا ہی انکار کرتے ہیں تو کچھ لوگ خوابوں کو اس عقیدت سے دیکھتے ہیںگویا کہ وہ کوئی شرعی حکم ہو، جس پر عمل کرنا ضروری ہو۔یہی وجہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جو کہ خوابوں کے تعلق سے وارد کتاب وسنت کے احکامات سے ناواقف ہوتے ہیں ، جب کوئی خوفزدہ خواب دیکھتے ہیں تو عام زندگی میں اس کے اثرات سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں اسی طرح سے جب بہتر خواب دیکھتے ہیں تو اس پر خودساختہ عقائد واعمال کی عمارت بنانے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔شریعت اسلامیہ ہمہ گیر،آفاقی اور فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس میں زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح خوابوں کے بھی آداب کو تفصیلی طور پر بیان کیاگیاہے۔ اس وجہ سے کہ ہر انسان کی زندگی میں خواب جزء لا ینفک کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ زیر نظر مضمون میں خواب کے تعلق سے کتاب وسنت کے شہ پاروں سے ایسے ہی بعض آداب واحکام کو قلمبند کرنے کی سعی کی گئی ہے کہ جن کے تعلق سے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں اس امید سے کہ یہ چند سطور ہمارے لیے خوابوں کے تعلق سے صحیح اسلامی معلومات سے آگاہی اور غلط افکار وخیالات کے ازالے کا سبب بنیں گے۔إن شاء اللہ۔

قرآن پاک میں خوابوں کا تذکرہ :

اسلام میں سچے خوابوں کوایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ قرآن کریم میں انہیں بشریٰ اور حدیث میں مبشرات کہا گیاہے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ چھ خوابوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے تین خواب تین عظیم پیغمبروں یعنی سیدنا ابراہیم،سیدنا یوسف اور سیدنا محمد علیہم السلام کے ہیں دو خواب سیدنا یوسف علیہ السلام کے دو رفقائے کارزنداں
اور ایک خواب عزیز مصرنے دیکھا تھا ۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب :
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتاہے :

قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّىْٓ اَرٰى فِي الْمَنَامِ اَنِّىْٓ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰى قَالَ يٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يـٰٓاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا (الصافات : 102۔105)

’’(ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے بیٹے نے جواب دیا کہ اباجان! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ اس کو (بیٹے کو) پیشانی کے بل گرا دیا۔تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم!یقیناً تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ۔‘‘
اس خواب کی تفصیل یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آپ نے اولاد کی دعا مانگی جو قبول ہوئی آپ ایک صالح بیٹے کے باپ بنے جب بچہ بڑا ہوکر دوڑنے کی عمر کو پہنچا تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ آپ بیٹے کو ذبح کررہے ہیں ۔ انبیاء کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں اس لیے آپ سمجھ گئے کہ یہ خواب اللہ کی طرف سےدکھایا گیا ہے ۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کا خواب :
اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا ہے :

اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ

’’جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔‘‘ (یوسف : 4)
سیدنا یوسف علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے اور سورج وچاند آپ کو سجدہ کررہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر برسوں بعد اس وقت سامنے آئی جب برسہا برس کی گمشدگی کے بعد سیدنا یوسف علیہ السلام اپنے والد سیدنا یعقوب علیہ السلام سے ملے اور والدین اور گیارہ بھائیوں نے آپ کو تعظیماً سجدہ کیا۔

نبی آخر الزماں محمد ﷺ کا خواب :

مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے پہلے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے ہمراہ حلق اور قصر( سرمونڈھوا کر اور بال کترا کر) مکہ میں داخل ہورہے ہیں۔ جب آپ نے اس کا تذکرہ صحابہ کرام سے کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھ بیٹھے کہ اسی سال ہم مکہ میں داخل ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا خواب برحق ہوتاہے جب اس سال مسلمان مکہ میں داخل نہ ہوسکے تو عبد اللہ بن ابی،عبد اللہ بن کفیل اور رفاعہ بن حرث جیسے منافقین نے کہا کہ ہم نے تو نہ سر مونڈھائے اور نہ بال کترائے۔ ادھر کچھ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ  سے گویا ہوئے کہ اے اللہ کے رسول! آپ کے خواب کا کیا ہوا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کرکے خواب کے برحق ہونے کا اعلان کردیا۔

لَـقَدْ صَدَقَ اللّٰهُ رَسُوْلَهُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًا

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچ کر دکھایا کہ انشاء اللہ تم یقیناً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے سر منڈواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر ، وہ ان امور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی۔‘‘ (الفتح :27)
سیدنا یوسفu کے دونوںجیل کے ساتھیوں کا خواب
سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل میں موجود دو لوگوں نے خواب دیکھے ایک نے دیکھا کہ وہ انگور سے شراب نچوڑ رہا ہے اور دوسرے نے دیکھا کہ وہ روٹی کا طباق سر پر اٹھائے تھا اور پرندے اس میں سے روٹیاں کھا رہے تھے ۔ پہلا شخص بادشاہ کے دربار میں ساقی تھا اور اب معزول ہوکر قید کیاگیا تھا اور دوسرا شخص نانبائی تھا جسے اب قید میں ڈالا گیا تھا ان دونوں نے ایک ہی رات میں خواب دیکھے اور اس کی تعبیر سیدنا یوسف علیہ السلام سے دریافت فرمائی۔ انہوں نے بتایا کہ تم میں سے ایک شخص اپنے مالک کو شراب پلائے گا یعنی اس کا انتہائی قریبی بنے گا جبکہ دوسرے کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور اس کے سر کو پرندے نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے ان دونوں واقعات کو یوں بیان کیا ہے :

وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيٰنِ قَالَ اَحَدُهُمَآ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْاٰخَرُ اِنِّىْٓ اَرٰىنِيْٓ اَحْمِلُ فَوْقَ رَاْسِيْ خُبْزًا تَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَاْوِيْـلِهٖ اِنَّا نَرٰىكَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ(یوسف : 36)

’’اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتائیے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘

يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّهٗ خَمْرًا وَاَمَّا الْاٰخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَّاْسِهٖ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ (یوسف:41)

’’اے میرے قید خانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا ہے ۔‘‘

عزیز مصر کا خواب :

عزیز مصر نے ایک موقع پرخواب میں دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں سات لاغر گائیں کھا گئیں نیز سات ہری اور سات خشک بالیاں ہیں ۔ بادشاہ نے درباریوں سے اس کی تعبیر پوچھی لیکن سبھوں نے اسے خواب پریشاں بتاکرتعبیر بتانے سے منع کردیا ۔سیدنا یوسف علیہ السلان کے جیل کے ساتھیوں میں سے ساقی عزیز مصر کے یہاں نوکری پر بحال ہوگیا تھا اس کے ذہن سے یوسف نکل گئے تھے لیکن اس خواب کے موقع پر یاد آئے تو اس نے بادشاہ سے اجازت لی اور سیدنا یوسف علیہ السلام کےپاس جاپہنچا اور خواب کا تذکرہ کیا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اس کی تعبیر بتائی کہ آئندہ سات سال تم لوگ کھیتی کروگے اور اس کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے لہٰذا ایسا کرو کہ جو بھی غلہ بونا اور اسے جب کاٹنا تو اسے بالی ہی میں رہنے دینا تاکہ اس میں گھن نا لگے تاکہ قحط سالی کے ایام میں اسے کھا سکو ۔ اللہ تعالیٰ نے اس خواب اور اس کی تعبیر کا نقشہ قرآن کریم میں کچھ یوں کھینچا ہے

يُوْسُفُ اَيُّهَا الصِّدِّيْقُ اَفْتِنَا فِيْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعِ سُنْبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ لَّعَلِّيْٓ اَرْجِعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُوْنَ قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِيْنَ دَاَبًا فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِيْ سُنْبُلِهٖٓ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَّاْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ اِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّا تُحْصِنُوْنَ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيْهِ يَعْصِرُوْنَ (یوسف : 46۔49)

’’اے یوسف! اے بہت بڑے سچے یوسف! آپ ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلایئے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات ہی دوسرے بھی بالکل خشک ہیں، تاکہ میں واپس جا کر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں ۔یوسف نے جواب دیا کہ تم سات سال تک پے درپے لگاتار حسب عادت غلہ بویا کرنا، اور فصل کاٹ کر اسے بالیوں سمیت ہی رہنے دینا سوائے اپنے کھانے کی تھوڑی سی مقدار کے۔اس کے بعد سات سال نہایت سخت قحط کے آئیں گے وہ اس غلے کو کھا جائیں گے، جو تم نے ان کے لئے ذخیرہ رکھ چھوڑا تھا سوائے اس تھوڑے سے کے جو تم روک رکھتے ہو ۔اس کے بعد جو سال آئے گا اس میں لوگوں پر خوب بارش برسائی جائے گی اور اس میں (شیرہ انگور بھی) خوب نچوڑیں گے ۔‘‘

حدیث کی روشنی میں خوابوں کی قسمیں :

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: فَبُشْرَى مِنَ اللهِ وَحَدِيثُ النَّفْسِ وَتَخْوِيفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنْ رَأَى أَحَدُكُمْ رُؤْيَا تُعْجِبُهُ فَلْيَقُصَّهَا، إِنْ شَاءَ وَإِنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلَا يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ يُصَلِّي

’’خواب تین قسم کے ہوتے ہیں ایک اللہ کی طرف سے خوشخبری، دوسرے دل کے خیالات اور تیسرے شیطان کی طرف سے خوفزدہ کرنے کے لیے برے اور ڈراؤنے خواب لہذا تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا معلوم ہو تو چاہیے بیان کر دے اور اگر ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کسی کو نہ بتائے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے۔ (صحیح بخاری : 7017۔ سنن ابن ماجہ : 3906)
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

  إِنَّ الرُّؤْيَا ثَلَاثٌ: مِنْهَا أَهَاوِيلُ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ بِهَا ابْنَ آدَمَ، وَمِنْهَا مَا يَهُمُّ بِهِ الرَّجُلُ فِي يَقَظَتِهِ، فَيَرَاهُ فِي مَنَامِهِ، وَمِنْهَا جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

’’خواب تین قسم کے ہوتے ہیں ، بعض خواب ڈراؤنے ہوتے ہیں وہ شیطان کی طرف سے انسان کو پریشان کرنے کے لیے ہوتے ہیں ، بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان بیداری کی حالت میں جو کچھ سوچتا رہتاہے وہی کچھ خواب میں اسے نظر آجاتاہے اور بعض خواب وہ ہیں جو نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں۔ ( سنن ابن ماجہ : 3907)
سابقہ روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خوابوں کی تین قسمیں ہیں :
1 اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومن کے لیے خوشخبری پر مشتمل خواب
2 مومن کو پریشان کرنے کے لیے شیطانی وسوسے اور ڈراؤنے خواب
3 دن بھر کی مصروفیات ، منصوبوں اور خیالات کا نیند میں نظر آنا
خواب دیکھنے والوں کی قسمیں :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خواب دیکھنے والوں کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے ۔
1 انبیائے کرام علیہم السلام : ان کے خواب سچے اور مبنی برحقیقت ہوتے ہیں اگرچہ ان کے چند خواب تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں ۔
2 نیک لوگوں کے خواب : ان کے اکثر وبیشتر خواب سچے ہوتے ہیں جبکہ کبھی کبھار اس کے برعکس صورت حال بھی ہوسکتی ہے۔
3 عام لوگ : ان کے خواب سچے اور جھوٹے دونوں قسم کے ہوتے ہیں اس لحاظ سے ان کی مزید تین قسمیں ہوں گی ۔
۱۔وہ لوگ جو نیکی کا کام کرتے ہیں اور ان سے غلطیاں بھی صادر ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کے خواب اکثر غیر واضح ہوتے ہیں ۔
۲۔وہ لوگ جو دھڑلے سے چھوٹے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے خواب عموما پریشان کن اور عجیب وغریب ہوتے ہیں ۔
۳۔کفار اور بددین لوگوں کے خواب : ان کے اکثر خواب جھوٹے اور شیطانی وسوسے ہوتے ہیں البتہ کبھی کبھار ان کے خواب بھی سچ ہوسکتے ہیںجیسے سیدنا یوسف علیہ السلام کے دو قیدی ساتھیوں کے خواب یا فرعون کا خواب وغیرہ۔ (فتح الباری 15/449)
خواب کے تعلق سے بعض حقائق :
1 سچے اور بہترین خواب کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے :سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللهِ وَالحُلُمُ مِنَ الشَّيْطَانِ

’’ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ۔‘‘ (صحیح بخاری : 3292)
اس روایت کی مزید وضاحت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يُحِبُّهَا فَإِنَّهَا مِنَ اللہِ فَلْيَحْمَدِ اللهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا وَلاَ يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ (صحیح بخاری: 7045)

’’ جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور اسے چاہے تو بیان کرے اور اگر ناپسندیدہ خواب دیکھے تو جان لے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے چنانچہ اس تعلق سے اللہ کی پناہ کا طالب ہو اور اسے کسی سے بیان نہ کرے کیونکہ وہ خواب اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتاہے۔ ‘‘
درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی اچھے اور برے ہر طرح کے خوابوں کا خالق ہے لیکن کمال ادب کا تقاضایہ ہے کہ شرکی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ کرکے شیطان کی طرف کی جائے کیونکہ وہ چیز شیطانی فطرت اور اس کی طبیعت سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔
2 خواب مالک کائنات کی طرف سے بشارت ہے :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا المُبَشِّرَاتُ قَالُوا: وَمَا المُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ

’’ نبوت میں صرف بشارتیں ہی رہ گئی ہیں صحابہ کرام نے پوچھا : بشارتوں سے کیا مقصود ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ سچے خواب‘‘۔(صحیح بخاری:6990۔صحیح مسلم:2263)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ، يَرَاهَا الْمُسْلِمُ، أَوْ تُرَى لَهُ

’’ اے لوگو! خوشخبری دینے والی نبوت میں سے صرف بہترین خواب ہی باقی رہ گیا ہے جو کوئی مسلم دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتاہے۔ (صحیح مسلم:479)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ: فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ، قَالَ: قَالَ: وَلَكِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْيَا الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ (مسند احمد : 13824 ،سنن ترمذی:2272۔ مستدرک حاکم)

’’ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا چنانچہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں پر رسول اللہ ﷺ کی یہ بات ناگوار گزری تو آپ نے فرمایا ’’سوائے مبشرات اور خوشخبریوں کے‘‘ صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا ’’ مسلمان کا خواب ، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔‘‘
3 سچا خواب نبوت کا جزء ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

الرُّؤْيَا الحَسَنَةُ، مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ، جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ (صحیح بخاری : 6983)

’’ نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت میں وارد ہے :
’’ اچھے خواب نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سچے خواب نبوت کا سترہواں حصہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ مختلف روایتیں ہیں جن میں ایک بات مشترک ہے کہ خواب نبوت کا حصہ ہے لیکن سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ نبوت کا کونسا حصہ ہے؟ اس تعلق سے ہم نے دیکھا کہ روایتوں میں تین طرح کی باتیں وارد ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ خواب نبوت کا چھیالیسواں جزء ہے ، دوسری روایت میں ہے کہ یہ نبوت کا پچیسواں حصہ ہے جبکہ تیسری روایت میں ہے کہ سترہواں حصہ ہے تو اس تعلق سے علمائے کرام نے لکھا ہے کہ یہ اختلاف خواب دیکھنے والے انسان کی حالت کے اعتبار سے ہے۔ انسان جس قدر نیک ہوگا اس کا خواب اسی کے بقدر نبوت سے قریب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
4قرب قیامت مومن کے خواب ہوبہو سچے ثابت ہوں گے : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

إِذَا اقْتَرَبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُسْلِمِ تَكْذِبُ

’’ جب قیامت قریب ہوگی تو مسلم کے خواب بہت کم ہی جھوٹے ہوں گے۔‘‘ (صحیح بخاری:7017۔ صحیح مسلم : 2263)
اس روایت میں تقارب زمان سے کیا مقصود ہے ؟ اس تعلق سے دو اقوال ہیں :
پہلا قول یہ ہے کہ جب رات دن برابر ہوں، اس وقت مومن کے خواب زیادہ سچ ثابت ہوتے ہیں اسی قول کو اکثر علماء تعبیر نے اختیار کیا ہے۔ دوسرا قول ہے کہ اس سے مراد قرب قیامت کا وقت ہے اس کی تقویت دوسری حدیثوں سے بھی ہوتی ہے۔ (شرح مسلم للنووی15/20)
5 سچے اور نیک انسان کے خواب سچ ہوتے ہیں : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ  نے ارشاد فرمایا :

وَأَصْدَقُكُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُكُمْ حَدِيثًا (صحیح مسلم:2263)

’’ تم میں بات چیت میں جو انسان سب سے سچا ہوگا اس کے خواب اسی قدر سچے ہوں گے۔‘‘
بعض روایتوں میں وراد ہے کہ وقت سحر کے خواب سچے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں ہے
أَصْدَقُ الرُّؤْيَا بِالْأَسْحَارِ (ملاحظہ ہو : سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للشیخ الألبانی : 1732)
’’ سحر کے وقت کے خواب سب سے سچے ہوتے ہیں ‘‘۔ یہ اور اس معنی کی دوسری روایتیں ثابت نہیں ہیں ۔
6 جھوٹ موٹ کا خواب بیان کرنا سخت گناہ ہے :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذِبًا، كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ، وَيُعَذَّبُ عَلَى ذَلِكَ

’’ جس نے جھوٹا خواب بیان کیا اسے جو کے دو دانوں کو ایک دوسرے سے گرہ لگانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ ایسا نہیں کرسکے گا چنانچہ اسے اس وجہ سے عذاب دیاجائے گا۔ ‘‘ (صحیح بخاری : 6635۔ سنن ابن ماجہ : 3916)
اچھے خواب دیکھنے والے کیا کریں ؟
اگر کوئی شخص اچھا خواب دیکھتا ہے تو اسے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ،کبریائی اور بزرگی بیان کرنی چاہیے اسی طرح ایسا انسان اپنا خواب دوسروں سے بھی بیان کر سکتاہے البتہ اسے لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ کسی حاسد یا غلط انسان سے نہ بیان کرے کہ وہ اس کے خلاف سازش کرنے لگے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا :

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يُحِبُّهَا، فَإِنَّهَا مِنَ اللهِ فَلْيَحْمَدِ اللهَ عَلَيْهَا وَلْيُحَدِّثْ بِهَا (صحیح بخاری : 7045)

|’’ جب تم میں سے کوئی پسندیدہ خواب دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے چنانچہ اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور اسے چاہے تو بیان کرے۔‘‘
اگر کوئی شخص برا خواب دیکھے تو کیاکرے ؟
اگر کوئی شخص برا یا ڈراؤنا خواب دیکھے تو اسے مندرجہ ذیل امور کی انجام دہی کرنی چاہیے ۔
1 اس خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہ کرے ۔ اس موقف کی تائید سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

وَإِذَا رَأَى غَيْرَ ذَلِكَ مِمَّا يَكْرَهُ فَإِنَّمَا هِيَ مِنَ الشَّيْطَانِ فَلْيَسْتَعِذْ مِنْ شَرِّهَا وَلاَ يَذْكُرْهَا لِأَحَدٍ، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ

’’ اور اگر ناپسندیدہ خواب دیکھے تو جان لے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے چنانچہ اس تعلق سے اللہ کی پناہ کا طالب ہو اور اسے کسی سے بیان نہ کرے کیونکہ وہ خواب اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتاہے ۔(صحیح بخاری : 7045)
2 شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور تین بار بائیں طرف تھوکے ۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللهِ وَالحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلْيَنْفِثْ عَنْ شِمَالِهِ ثَلاَثًا وَلْيَتَعَوَّذْ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهَا لاَ تَضُرُّهُ (صحیح البخاری ومسلم)

’’ سچے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو برے خیالات شیطان کی طرف سے لہٰذا جب تم میں سے کوئی خواب میں ایسی چیز دیکھے جسے وہ ناپسند کرتاہے تو اپنے بائیں جانب تین بار تھوکے ، پھر اس کے شر سے پناہ طلب کرے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا۔
3 اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

فَمَنْ رَأَى شَيْئًا يَكْرَهُهُ فَلاَ يَقُصَّهُ عَلَى أَحَدٍ وَلْيَقُمْ فَلْيُصَلِّ (صحیح البخاری7017)

’’اگر کوئی شخص کچھ ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کسی سے نہ بتائے اور کھڑا ہوکر نماز پڑھے۔‘‘
4 برے خیالات اور پریشان کن خواب کے بعد انسان کو چاہیے کہ کروٹ اور پہلو تبدیل کر دے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

إِذَا رَأَى أَحَدُكُمُ الرُّؤْيَا يَكْرَهُهَا، فَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا وَلْيَسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ثَلَاثًا، وَلْيَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِهِ الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ (صحیح مسلم2262)

|||’’ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو اپنی بائیں طرف تین بار تھوکے ، تین مرتبہ شیطان سے پناہ مانگے اور جس پہلو پر ہو اس کو بدل دے۔‘‘
5 برے خیالات اور گندے خوابوں کی تفسیر وتعبیر کرنے سے باز رہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہے

إذا رأى أحدكم الرؤيا تعجبه فليذكرها وليفسرها وإذا رأى أحدكم الرؤيا تسوءه فلا يذكرها ولا يفسرها (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3/328)

’’ جب تم میں سے کوئی شخص پسندیدہ خواب دیکھے تو اسے دوسروں سے بیان بھی کرے اور اس کی تفسیر وتعبیر بھی کرے اور اگر کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے پریشان کردے تو اسے کسی سے نہ تو بیان کرے اور نہ ہی اس کی تفسیر وتعبیر کرے۔‘‘
اگر ہم برے خیالات ، شیطان وسوسوں اور پریشان کن خوابوں سے بچنا چاہتے ہیں تو شریعت اسلامیہ نے سونے سے پہلے جو اذکار ،اعمال ووظائف بتائے ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہیے نیز ہمیں اپنے اعمال وکردار کا محاسبہ کرنا چاہیے اگر ہمارے احوال درست ہوجائیں گے تو ایسی صورت میں ہم پریشان کن خوابوں سے نجات پاجائیں گے اور پریشان کن خیالات اور شیطانی وسوسے ہمیں حیران وپریشان نہیں کریں گے۔

خواب اور تعبیر کے چند راہنما اصول :

خواب کی تعبیر میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے عموماًلوگ خواب کے تعلق سے ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ اس کی تعبیر میں جلد بازی کرتے ہیں اور تعبیر نہ بھی جانتے ہوں تو اپنی طرف سے منمانی باتیں کہنا شروع کردیتے ہیں یا پھر اٹکل پچھوہانکنے لگتے ہیں یہ بیماری خواتین کے اندر کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی خواب دیکھ لے تو جب تک اسے دس لوگوں کو بتا نہ دے یا پھر اس کی من گھڑت تعبیر نہ کردے انہیں چین نصیب نہیں ہوتا جبکہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے اس وجہ سے کہ خواب تعبیر ہونے سے پہلے پہلے چڑیا کے پاؤں پر ہوتا ہے جیسا کہ مشہور حدیث میں ہے سیدنا ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعَبَّرْ فَإِذَا عُبِّرَتْ وَقَعَتْ قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ، أَوْ ذِي رَأْيٍ (سنن ابو داود : 5020

اسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیاہے)
’’ خواب پرندے کے پیر پر ہوتاہے جب تک اس کی تعبیر نہ بیان کر دی جائے اور جب اس کی تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ واقع ہوجاتاہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ اور اسے اپنے دوست یا کسی صاحب عقل کے سوا کسی اور سے بیان نہ کرے۔ ‘‘
یہی نہیں ، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اعْتَبِرُوهَا بِأَسْمَائِهَا وَكَنُّوهَا بِكُنَاهَا وَالرُّؤْيَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ

’’ خوابوں کو ان کے ناموں سے سمجھو اور چیزوں کی کنیتوں سے ان کے کنایات سمجھو اور خواب پہلے تعبیر کرنے والے کے لیے ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ 3915 اس میں یزید بن ابان نامی ایک راوی ضعیف ہے لیکن شیخ البانی نے شواہد کی بنیاد پر اسے صحیح قرار دیا ہے)
خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ اپنا خواب کسی حاسد یا دشمن سے نہ بیان کرے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایسا انسان ایسے خواب کی بھی خراب تعبیر بتائے یا پھر اس کے دل میں حسد اور کینہ کی آگ زیادہ بھڑکے اور خواب بیان کرنے والے کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کرے۔ مشہور واقعہ کہ سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام سے اپنا خواب بیان کیا تو انہوں نصیحت فرمائی :

لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا (یوسف:5)

’’ اے میرے بیٹے! اپنا خواب بھائیوں سے مت بیان کرنا کہ وہ تمہارے خلاف سازش کرنے لگیں۔‘‘
ظاہر سی بات ہے کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے انہیں اپنا خواب بیان کرنے سے صرف اورصرف اسی وجہ سے منع کیا کہ خواب سن کر سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے دلوں میں حسد پیدا ہوگا اور پھر وہ لوگ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
سیدنا ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَلَا تَقُصَّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ، أَوْ ذِي رَأْيٍ

’’ اپنا خواب اپنے کسی چہیتے یا صاحب رائے سے ہی بیان کرو۔‘‘ (سنن ابو داؤد:5017۔ سنن ابن ماجہ : 3914۔ مسند احمد 16182 شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو : سلسلہ صحیحہ : 120)
خواب دیکھنے والا کسی جاہل سے اپنا خواب بیان نہ کرے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تُقَصُّ الرُّؤْيَا إِلَّا عَلَى عَالِمٍ أَوْ نَاصِحٍ

||’’ اپنا خواب عالم یا خیر خواہی کرنے والے سے بیان کیا کرو۔‘‘(سنن ترمذی 2/45۔سنن دارمی 2/126 شیخ البانی نے اسے صحیحہ 119 میں صحیح قرار دیاہے)
سنن ترمذی 2278 کی ایک روایت میں وارد ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَلَا يُحَدِّثُ بِهَا إِلَّا لَبِيبًا أَوْ حَبِيبًا

’’ اپنا خواب دوست یا عقلمند کے علاوہ کسی سے بیان نہ کرے۔‘‘
خواب دیکھنے والے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر دن کے شروع میں پوچھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فجر کی نماز کے بعد ہی خواب کی تعبیر دریافت کیا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری : 6624)
نیز علم تعبیر کے ماہرین کا بھی کہنا کہ خواب کی تعبیر طلوع فجر سے طلوع آفتاب میں پوچھنی چاہیے۔ (منتخب الکلام بھامش تعطیر الأنام 1/3 ۔ تعطیر الأنام 2/312)
تعبیر دریافت کرنے کاموزوں ترین وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب کا وقت ہے۔ اس وجہ سے کہ اس وقت خواب دیکھے کم وقت گزرا ہوتاہے خواب کی یادتازہ ہوتی ہے اور تعبیر بتانے والا انسان بھی تروتازہ ہوتاہے۔ (تعطیر الأنام 2/312)

رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھنا :

ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرے اور یہ خواہش اس کے سچے محب رسول ہونے کی دلیل بھی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے ’’میری امت میں مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے لوگ وہ ہیں جو میری وفات کے بعد آئیں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مجھے دیکھنے کے لیے اپنے اہل وعیال سب کچھ صرف کر دیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس امت میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو رسول اللہ ﷺ کے دیدار کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب رکھیں گے۔ اس دنیائے فانی سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہوجانے کے بعد حالت بیداری میں تو آپ ﷺ کا دیدار ممکن نہیں ہے البتہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے رسول اللہ ﷺ کا خواب میں دیدار کرادیتاہے۔ اسی وجہ سے رب تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ شیطان آپ ﷺ کی شکل اختیار نہیں کرسکتاہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے مختلف حدیثوں میں بیان فرمایا ہے ۔ ان میں ایک حدیث سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ بِي (صحیح بخاری : 110۔ صحیح مسلم : 2266)

’’ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے حقیقت میں دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔‘‘
(بشکریہ : پندرہ روزہ ترجمان دہلی)

عقیدہ توحید و شبہات کا ازالہ

حمدو ثنا رب ذوالجلال کے لیے جس نے رشد وہدایت کے لیے امام کائنات جناب رسول اللہ ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا درود سلام داعی الی اللہ محمد ﷺ پر جنہوں نے پتھر کھا کر لہو لہان ہونا گوارہ کرلیا دانت مبارک شہید کرا لیے لیکن آپ ﷺ کی زبان اقدس سے اللہ کی وحدانیت کا درس جاری رہا اللہ رحمت کا مینہ برسائے صحابہ کرام پر جو آپ کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کرتے رہے اور حکم ملنے پر لبیک کہتے ہوئے جان وما ل نچھاور کرتےرہے اور سلف صالحین کی قبروںپر جنہوںنے وحی الی اللہ کا علم سینہ بہ سینہ نئی نسل تک پہنچایا
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمام اذکار سے افضل ذکر لاالہ الا اللہ ہے ‘‘
الٰہ کون ہے ؟خوف اور طمع یا محبت کی وجہ سے جس کی عبادت کی جائے وہ الٰہ ہے ۔
عبادت کیا ہے ؟زبان ،جان یا مال سے سر انجام دینے والا عاجزی کا ہر وہ عمل عبادت ہے ۔
جب اس کے دل میں یقین ہو کہ وہ جس کے سامنے عاجزی کا اظہا ر کر رہا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے اس کی پکار سن رہا ہے وہ نفع و نقصان دینے پر قادر ہے۔
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوںپر ہے اگر کوئی شخص قولی ومالی اور بدنی بندگی کا اظہارکرتے ہوئے دل میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ،اس کی پکار سن رہا ہے وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے تو اس کا ذکر وفکر ،قیام و رکوع سجدہ و تشہد طواف اور خیرات عقیدہ توحید کے عین مطابق ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی نبی ،ولی امام اور شجر و حجر ،قبرو صنم تبوت و ذوالجناح کے سامنے تعظیما قیام و رکوع ، سجدہ و طواف نذر و نیاز اور خیرات وگیرہ عاجزی وانکساری کا عمل اس نیت سے کررہا ہو کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہا ہے جو حاجت پیش کر رہا ہوں وہ اس کو حل کرنے پر قادر ہے تو یہ صریحاً شرک ہے ۔
اطلاع ملنے پر زندہ انسانوں کا مصیبت و پریشانی کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرنا اخوت و محبت خدمت انسانیت ہے لیکن لیکن فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لیے پکارنا عقیدہ توحید کے منافی عمل ہے ۔
اللہ تعالی نے مصطفی ﷺ کو فرمایا کہ اعلان کردو

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ (الانعام162۔163)

آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہےجوسارےجہان کا مالک ہےاس کا کوئی شریک نہیں۔
سید الکونین ﷺ نے معراج کے موقع پر رب کے دربار میں عاجزی کا تحفہ پیش کیا

التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ

اے اللہ قولی و بدنی اور مالی عبادتیں صرف تیرے لیے ہیں
کائنات کے امام محمد ﷺ نے رب کے دربار میں قولی ومالی وبدنی عبادت کا تحفہ پیش کیا ہمارے لیے بہترین
نمونہ کونسا ہے یہ قرآن کریم وضاحت کرتا ہے ۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ہے۔‘‘
(الاحزاب 21)
خاتم النبیین ﷺ کے پیرو کا روں کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ رب کے ساتھ قولی و مالی اور بدنی عبادت میں کسی اور کو شریک ٹھہرائیں۔
اگر آپ روز محشر شفاعت کے مستحق بننا چاہتے ہیں تو تمام معبدوں کی نجاست کو دور کرکے ایک اللہ کے معبود برحق ہونے کا عقیدہ دل میں بسا لیں کیو نکہ روز محشر شفاعت نبوی ﷺ تو حید و رسالت کی گواہی سے مشروط ہے ۔
اعتراض:اہل قبر کو پکارنے سے زائرین کی مشکلیں حل نہ ہوتی تو مزاروں پر لوگوں کا ھجوم ہر گز نہ ہوتا ۔
ازالہ:الہ کون ہے؟ روئے کائنات میں اس بارے اختلاف ہے۔ نصاری عقیدۂ تثلیث کے قائل ہیں یہودی سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ،بد ھ مت اپنے مہماتما کو اور ہندو اپنے لا تعداد دیوتاؤں کو الہ جان کر پوجتے ہیں وہ تنگی اور مشکل کے دوران ان سے مدد طلب کرتے ہیں بے اولاد میٹھا میوہ مانگتے ہیں بیمار صحت کی بھیک مانگتے ہیں ،تاجر کاروبار میں نفع طلب کرتے ہیں مرادیں پوری ہونے پر معبودوںکے قدموںمیں نذرانہ کا ڈھیڑ لگا دیتے ہیں اگر تنگی مصیبت اور مشکل کے وقت غیر اللہ کو پکارنے سے مرا د وں کا پورا ہوجانا حقانیت کی دلیل ہے تو کیا غیر مسلموں کا الہوں کے بارے میں عقیدہ درست ہے ؟
سورہ فاتحہ نماز کا اہم رکن ہے ہم بار بار اقرار کرتے ہیں  جب ہم سجدے میں جاکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو مدد طلب کرنے کے لیے اہل قبر کو پکارنااقرار باللسان کے منافی عمل کیوں نہیں ؟
نماز قائم کرنا عبادت ہے تو دعا مانگنا عبادت کا مغز ہے جب قبرستان میں نماز نہیں ہوتی تو مشکل وقت میں قبر یا مزار پر جاکر اپنے لیے مدد طلب کرنا اور دعا مانگنا شرک کیوں نہیں ؟
اعتراض: مرشد کامل محمدﷺکے تبرکات سے صحابہ کرام شفاء پاتےرہے تو پھر اولیا ء کے تبرکات سے شفا حاصل کرنا شرک کیوں ؟
ازالہ:ساقئ کو ثرمحمد ﷺ کی مبارک ہستی جن کا ہاتھ آٹا کو لگے تو اسے آگ نہ چھوئے رومال سے ہاتھ مس ہوجائے تو آگ میل کو جلادے مگر کپڑا نہ جلائے ،آپ بکری پر ہاتھ پھیریں تو وہ دودھ دینے لگے ۔آپ ﷺ دودھ کے پیالہ سے منہ مبارک لگائیں تو اس دودھ کو 71اصحاب صفہ کے طالب علم پی کر بھوک مٹالیں لیکن دودھ ختم نہ ہو آپ ﷺ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر سالن میں لعاب دہن ملائیں غزوہ خندق میں بھوک سے نڈھال 1400صحابہ کرام اللہ کے فضل وکرم سے کھانا تناول فرمائیں لیکن کھانا ختم نہ ہو ، آپ ﷺ دست مبارک سے کھجوروں پر چادر پھیلادیں ۔
سبحان اللہ !بے پناہ قرضہ کی ادائیگی ختم ہوگئی مگر کھجور کے ڈھیر میں کمی نہ ہوئی۔صحابہ کرام اس مبارک ہستی محمد ﷺ کے موئے مبارک اور جبہ مبارک کو پانی میں بھگوا کر مریض کو پلاتے تو وہ شفا ء حاصل کر لیتے یقینا ً درست ہے اللہ جو چاہے یقیناً ہو جاتا ہے نہ چاہے تو ہر گز نہیں ہو سکتا مرشد کامل محمد ﷺ کے جسم اطہر سے مس کرنے والے تبرکات کی افادیت کا انکار نہیں لیکن پند رھویں صدی ھجری کے علما ء و پیروں کے زندہ اجسام اور قبروں سے مس ہونے والی اشیا ء کے تبرکات کا جواز تلاش کرنا قطعاً درست نہیں
چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک نسبت
مزار پر چادر یا بڑے پتھر کو بھگو کر شفاکے لیے پانی پینا بہتر ہے یا اسما ء الحسنی کے نبی کریم ﷺ پر اول آخر درود پڑھ کر مقصد کے حصول یا شفا کے لیے رب ذوالجلال سے دعا طلب کرنا بہتر ہے ؟
آپ ذرا انصاف سے فیصلہ کریں ۔
اعتراض :سیدناموسی علیہ السلام نے اپنی وفات کے ڈھائی ہزار برس بعد بھی امت محمد ﷺ کی یہ مدد فرمائی کہ شب معراج میں پچاس نمازوں کے بجائے پانچ کرادیں تو ثابت ہو فوت شدگان سے مدد مانگنا شرک نہیں ۔
ازالہ :معراج کی رات نبی کریم ﷺ کی سیدنا موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انکے پوچھنے پر فرمایا کہ پچاس نمازوں کا تحفہ ملا یہ سن کر سیدنا موسی علیہ السلام نے مشورہ دیا کہ آپ ﷺ کی امت یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی تو نبی کریم ﷺ نے یکے بعد دیگرے رب سے التجا کی حتی کے پانچ مقرر ہوئیں ۔
سیدنا موسی علیہ السلام نے تو مشورہ دیا ۔رعایت لی تو کائنات کے امام محمد ﷺ نے جنہوں نے بار بار درخواست کر کے پچاس کے بجائے پانچ کرالیں ۔
معراج نبی کریم ﷺ کا معجزہ ہے جہاں دیگر انبیاء کے علاوہ سیدنا موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جناب والا ! آپ ذہن میں رکھیں یہ گفتگو سیدنا موسی علیہ السلام کی قبر پر نہیں ہوئی ۔
اعتراض : سلام زندوں کو کیا جاتا ہے مردوں کو نہیں اگر فوت شدگان نہیں سنتے تو نبی کریم ﷺ نے اہل قبر کو سلام کرنے کا حکم کیوں دیا؟
ازالہ : قرآن کرم میں اللہ کا رشاد ہے :

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا (النساء86)

اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو ۔
مشا ہدہ کی بات ہے کہ زندہ کو سلام کیا جاتا ہے تو وہ اس کا معقول جواب دیتے ہیں جو ہم سن لیتے ہیں آپ کے بقول مردے سن سکتے ہیں تو سلام کاجواب کیوں نہیں دیتے ؟کیا یہ قرآنی حکم کے خلاف ورزی نہیں ؟ دراصل زندوں پر سلام کا جواب دینا ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی کی سلامتی کے لیے دعا کریں کیونکہ مردے نہیں سن سکتے اس لیےاان پر سلام کا جواب دینا فرض نہیں ۔
نبی کرم ﷺ نے نیا چاند دیکھنے کی دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے :

اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ (مشکاۃ المصابیح باب الدعوات)

’’اے اللہ !یہ چاند نکال ہم پر ساتھ امن اور سلامتی کے (اے چاند )میرااور تیرا رب اللہ ہی ہے ۔‘‘
اس دعا کے پہلے حصے میں اللہ کے حضور دعا کی درخواست ہے جبکہ دوسرا حصہ ربی و ربک اللہ کس کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے یقینا چاند کو ۔اگر کسی کو مخاطب کرکے بات کرنے کا یہ ہو کہ وہ سن سکتا ہے تو چاند نے اثبات میں کیوں جواب نہیں دیا ؟اگرہے تو نشاندہی کرو ؟سیدنا عمر ر ضی اللہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور مخاطب کر کے کہا ۔

وَعَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْت عمر يقبل الْحجر وَيَقُول: وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ مَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقبل مَا قبلتك

سیدنا انس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چومتے اور(مخاطب کرکے) کہتے مجھے معلوم ہے کہ تو پتھر ہے تو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ  کو دیکھانہ ہوتا کہ آپ ﷺتیرا بوسہ لیا کرتے تھے تو میں تیرا بوسہ نہ لیتا۔(مشکوۃ : 2589)
چنانچہ سیدنا عمر فاروق ؄نے حجر اسود کو نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر بوسہ نہیں لیا بلکہ مرشید کامل محمد ﷺ کی سنت سمجھ کر بوسہ لیا جس حجر اسود کو نبی کریم ﷺ نے بوسہ دیا وہ نفع ونقصان ، صحت وبیماری کی صلاحیت سے محروم ہے تو تم قبر پر پڑے پتھروں کو اٹھا کر بوسہ کیوں لیتے ہو پھر ان کو جسم کے درد والے حصوں پر پھیر کر صحت کی امید کیوں رکھتے ہو ؟ یہ کس کی سنت ہے؟ کسی کو مخاطب کرکے چند جملے کہنے سے مراد وہ سن سکتا ہے تو پتھر ، چاند نے سن کر کونسا جواب دیا ، حدیث سے دکھاؤ ۔
غور طلب پہلو ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم اُٹھائے کہ میں فلاں شخص سے کلام نہیں کروں گا پھر وہ شخص مرجائے اور وہ اس کی میت کو مخاطب کرکے کوئی بات کہے تو فقہ حنفی کی رو سے اس پر کفارہ قسم ہوگا یا نہیں ۔ چنانچہ آپ کو مفتی صاحب سے یہ جواب ملے

اِنَّ المَیِّتَ لَا یَسمَعُ

’’بے شک مردہ نہیں سن سکتا۔‘‘
تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قانون الٰہی ہے کہ مردے نہیں سن سکتے البتہ معجزہ وکرامات کا ظہور الگ معاملہ ہے۔
قبرستان کی مسنون دعا سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مردے سن سکتے ہیں ۔
جناب! آپ اس دعا کے معنی پر غور کرو کہ اس دعا کو پڑھنے والا مردوں کی سلامتی وعافیت کی دعا کرتا ہے لیکن اپنے لیے نہیں ۔
اگر آپ اہل قبر سے مشکل کشائی کا عقیدہ اخذ کرنے پر بضد ہیں تو نبی کریم ﷺ نے روز مرہ زندگی کے ہر موقع کی دعا سکھائی ہے اسی طرح میت پر جنازہ اور قبر پر پڑھنے کے لیے کئی مسنون دعائیں احادیث میں موجود ہیں۔
آپ کسی ایک مسنون دعا سے ثابت کریں کہ فوت شدہ کی قبر پر اس کے وسیلہ سے اپنے لیے اولاد،رزق اور صحت کی دعا مانگنا جائز ہو ؟ ۔
شبہ : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورت نور میں فرمایا :

وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (النور:21)

’’ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تزکیہ کرنا اللہ عزوجل کا کام ہے اب دوسری جانب چلتے ہیں ۔

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہِ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ

’’بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے ۔‘‘ (آل عمران:164)
اللہ نے یزکی کو اپنی جانب منسوب کیا دوسری جانب نبی کریم ﷺ کے لیے بھی یزکی فرمایا ، وضاحت کریں۔
ازالہ : اللہ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے لیکن اللہ کا صفاتی نام سمیع وبصیر بھی ہے جس کی سماعت وبصارت کی کوئی حد نہیں وہ سمندر کی تہہ میں اور آسمان کی بلندی پر حرکات وسکنات کو دیکھ سکتاہے اور ان کی پکارکو سن سکتاہے لیکن انسان کی سماعت وبصارت محدود ہے۔ جب پردہ حائل ہوجائے یا نیند غالب ہوجائے تو اس کے دیکھنے اور سننے کی صلاحیت جواب دے جاتی ہے۔
وَلی کے معنی مددگار اور دوست کے ہیں ، مفسرین نے سیاق وسباق کی روشنی میں کہیں مددگار اور کسی موقع پر دوست کے معنی کیے ہیں۔
تزکیہ کے معنی بڑھنا ،پاک صاف کرنا ،اصلاح کرنا اور نیک بنانا کے ہیں جب اللہ کے ساتھ کا لفظ استعمال ہو تا ہے تو اس کے معنی پاک صاف کرنا ہونگے ۔
رہبر انسانیت محمد ﷺ امت کے خیرخواہ اور ہمدرد ہیں جنہوں نے کوہ صفا پر چڑھ کر کبھی مکہ کی گلیوں میں گھو م پھر کر قریش مکہ کو دعوت دی آپ ﷺ نے عکاظ کے ہجوم میں جا کر حق کا پیغام پہنچایا تو کبھی پیدل چل کر طائف تشریف لے گئے پتھروں کی فائرنگ سے لہولہان ہوگئے قربان جائیں رحمت کی برکھا پر آپ ﷺ ان کے رشد وہدایت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے رہے۔ محسن انسانیت ﷺ کی دلی تمنا تھی کہ روئے کائنات کے تمام انسان شرک کی غلاظت سے پاک صاف ہوجائیں ۔ چند قریش مکہ کے علاوہ بلال حبشی،صہیب رومی اور سلمان فارسی تزکیہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے چونکہ تزکیہ کرنے(پاک صاف ہونے) کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ رحمت کائنات ﷺ کی پر خلوص دعوت کے باوجود ابو جہل،عتبہ،ابو لہب وغیرہ تزکیہ کی نعمت سے محروم رہے کیونکہ

وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ

’’لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘
داعی الی اللہ (محمد ﷺ) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جن شرفاء نے لبیک کہی مزکی کامل ﷺ نے ان کا اس طرح تزکیۂ نفس کیا کہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ تپتے کوئلوں پر احد احد پکارتے رہے، کم سن معاذ جہاد میں شرکت کا اہل ثابت کرنے کے لیے ایڑیوں کے بل کھڑے ہوگئے۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے سہاگ رات کی صبح زبان اقدس سے جہاد کی پکار سن کر لبیک کہا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے جن کو فرشتوں نے غسل جنابت دیا ، سیدنا عثمان نے نہایت مہنگے داموں پانی کا کنواں خرید کرفی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھر میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت چھوڑ کر سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں میں پیش کر دیا۔ سیدنا حیدرکرار رضی اللہ عنہ نے مسلسل تین دن پانی سے روزہ افطار کیا لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کا نام سن کر قیصر وکسریٰ کے رنگ فق ہوجاتے تھے وہ جس وقت بیت المقدس پہنچے ان کے لباس پر سترہ پیوند تھے، غلام اونٹ پر سوار تھا ۔ مراد رسول نے جہاد ہاتھ میں تھام کر مزکی کامل ﷺ کی انکساری اور مساوات کا عملی مظاہرہ کیا۔ مرشد کامل ﷺ  نے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے نفس کا اس طرح تزکیہ کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ( ان پر انگلی اٹھانے والے بد نصیب بالواسطہ مرشد کامل ﷺ کے تزکیہ پر الزام تراشی کرتے ہیں) البتہ کفر سے اسلام میں تزکیہ(پاک صاف) کی نعمت سرفراز کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔

وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النور:21)

’’اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘

حقوقِ تکریم رسالت ﷺ کا اجمالی خاکہ

حقوقِ انسانیت کی دفعہ اوّل تکریمِ رسالت ہے۔ ایمانِ بالرسل اور ایمان بَر رسالتِ مٰابﷺ تقاضا ایمان ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف آیت 157، النساء 59، 64، 65، العمران 31، 32 اور سورۃ الاحزاب اور الفتح کا بغور مطالعہ کیجیے۔ جن کا مختصراً اجمالی خاکہ پیشِ خدمت ہے۔
اطاعتِ رسولﷺ۔
اتباعِ رسول ﷺیعنی ہو بہو رسولﷺ کی پیروی کا عزم ۔
اتباعِ رسول ﷺمیں باقی سب اطاعتوں کی نفی کرنا۔
آپﷺ کو ہی حاکم اور جج تسلیم کرنا۔
آپﷺ کی مخالفت نہ کرنا۔
آپﷺ کے فرامین کو ہی کافی سمجھنا۔
آپﷺ سے خیر خواہی کا جذبہ رکھنا۔
محبت رسولﷺ۔
حُبِّ رسولﷺ کے تقاضے، کہ (کائنات میں اور کسی سے ایسی محبت نہ ہو)
ادبِ رسول ﷺکہ (کائنات بھر میں اور کسی کا ایسا ادب نہ کیا جائے)
نصرتِ رسول ﷺکہ (بوقتِ ضرورت نبیؐ اور دینِ محمدؐ کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو)
صلوٰۃ علی الرسولﷺ(آپﷺ پہ درودوسلام کی کثرت کرنا اور تسلسل کے ساتھ درود پڑھتے رہنا)
تکریمِ رسول کریم ﷺ و آلِ رسول ﷺاور تکریمِ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

اور تکریمِ بناتِ رسول ﷺ۔

تکریمِ صحابہؓ(آپﷺ کے تمام صحابہ کرامؓ سے دلی احترام کا جذبہ اور ناموس صحابہؓ کے دفاع کا عزم)
دفاعِ حرمت قرآن مجید

دفاعِ حدیث اور سنت رسولﷺ
دفاعِ حرمتِ حرمین شریفین اور شعائرِ اسلام وغیرہتحفظ وارثانِ نبوت(یعنی آئمہ مساجد اور علماء اسلام کے حقوق کا تحفظ) آزاد اسلامی عدلیہ کا قیام۔
عزمِ جہاد فی سبیل اللہ۔
یہ بنیادی حقوق ہیں، جن کی ادائیگی ایک مسلم کے لیے لازم ہے اور ان حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے ایک آزاد اسلامی عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔
حقوقِ رسالت پہ جان بھی قربان ہے
یہی میرا دین ہے یہی میرا ایمان ہے
مسئلہ حقوقِ رسالت ﷺ: 
حقوقِ رسالتؐ کا تقاضا ہے ان دنوں
اُنؐ پہ اپنا مال و جان لٹائے جا
عصرِ حاضر میں
حقوقِ انسانی کے نام سے بہت سی ہیومن رائٹس تنظیمیں،
ویلفیئر ادارے اور تحریکیں،سرکاری و غیر سرکاری بے شمار
(NGO’s) سرگرم عمل ہیں۔ جو کہ حقوقِ انسانیت کے نہایت پر کشش نعروں کے ساتھ خدمتِ انسانیت کے لیے ہر لمحہ بیقرار دکھائی دیتی ہیں۔
اس مناسبت سے اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی ہر سال 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس روز شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔ انسانی اقدار و اخلاق اور حقوق پر بڑی دُھواں دھار تقریریں اور بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔
اور نام نہاد اقوام متحدہ کے وضع کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کا خوب پرچار کیاجاتا ہے۔
اقوامِ عالم نے جو انسانی حقوق کے چارٹرز شائع کئے ہیں وہ دراصل محسنِ انسانیتﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع ہی سے ماخوذ ہیں۔
وہ رسولِ رحمتِ عالمﷺ، جس نے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا اور انسانیت کو شرفِ فضیلت بخشا۔
اُنﷺ کی تعلیمات تو انسانوں کے علاوہ حیوانوں، جانوروں، پرندوں، بلکہ حشرات الارض کے حقوق کے تحفظ کی یکساں آئینہ دار ہیں۔ جس کا اعتراف تو متعصب غیر مسلم مفکرین اور مستشرقین بھی کرتے ہیں۔
وہ جو انسانیت کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ تھا
وہ جو انسانیت کا محسنِ حقیقی تھا
وہ جسے رحمۃللعالمینﷺ نے انسانی فلاح کے لیے بہترین نمونہ اور اُسوئہ حسنہ قرار دیا ہے۔
اور جس کی زندگی کے شب و روز اظہر من الشمس ہیں۔ وہ جو انسانی فلاح و ہدایت کے لیے ہر لمحہ بے چین رہا،اور پتھر کھا کر اپنا جسم لہو لہان کروا کر بھی انسانیت کی خیر خواہی کا دم بھرتا رہا۔سبحان اللہ
آپ ﷺ کے حقوق کوتو ہم نے یونہی فراموش کر رکھا ہے۔ آپﷺ کے حقوق کی بجا آوری اور ادب و احترام نوعِ انسانی پر ایسا لازم ہے، جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس کی نبوت و رسالت پہ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اُس کی مرضی، ایمان لائے گا، تو دنیا و آخرت کی کامیابی اس کا مقدر ہو گا۔ اگر دنیا میں کما حقہٗ کامیابی حاصل نہ ہو سکی ،تو آخرت کی کامیابی و کامرانی تو انشاء اللہ یقینی ہے۔
مگر ایک بات یاد رکھیئے ، کہ رسولِ رحمت ِ عالمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی و بے ادبی کا کسی کو بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ وہ نام نہاد کلمہ گوہی کیوں نہ ہو؟
یہاں بھی ایک بات یاد رکھئے گا!
کہ کوئی گیا گزرا اور بد عمل مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی مسلمان اس جرم میں ملوث ہو تو اسے مسلمانوں کی جماعت سے خارج سمجھیئے گا۔ کیونکہ وہ منافق ہی ہو سکتا ہے۔ مسلم ایسی جسارت کبھی نہیں کر سکتا۔
وہ قادیانی مرتدیاکوئی منکر ختم نبوت ہی ہو سکتا ہے
بقول شاعر:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اس ذاتِ برحق کو رسولِ برحقﷺ سمجھنے والے ہر صاحبِ ایمان پر سب سے بڑا حق یہ ہےکہ معاشرے میں اپنی عملی زندگی کا نمونہ پیش کرتے ہوئے آپﷺ کے طریق زندگی (اُسوئہ حسنہ) کو تمام طریق ہائے زندگی پر غالب کرنے کی جدوجہد کرتا رہے۔
اور حتی الامکان حقوقِ رسالتﷺ کا دفاع اس کی زندگی کا مشن اور منہج ہو۔
وہ دین جس کے لیے ہمارے پیارے رسول علیہ السلام نے بڑی قربانیاں دیں۔ جو پوری زندگی ہمارے لیے بے چین رہے۔ ہم نے بحیثیت مسلم اس کے لیے کیا کردار ادا کیا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ آج ہم دین کے نام لیوا تو ضرور ہیں،مگر اپنے مفاد کے لیے دین کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
کیا ہم نے شعوری طو رپر کبھی حقوقِ رسالتﷺ کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے؟
کہ اس محسنِ انسانیت اور رئوف و رحیم کے بھی ہم پر کوئی حقوق ہیں؟ جن کا تحفظ اور ادائیگی تقاضائے ایمان ہے!
جبکہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
یَآٰ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُوْلِہٖ (النساء136)
’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائو۔‘‘
یہاں ایمان والوں کو مزید ایمان کی تائید کرنا نہایت غور طلب ہے۔
رسول اللہﷺ پر شعوری و قلبی ایمان،رسالتﷺ کا بنیادی حق ہے،کہ اس ہستی اقدس و مقدس پر خلوصِ دل سے ایمان لائو، یہ رب العالمین کا بھی اہل ایمان سے بنیادی تقاضا ہے۔
آج لوگوں کی غالب اکثریت صرف کلمہ گو ہے۔ ان کا شمار کلمہ گو برادری میں تو شامل ہے مگر اہلِ ایمان میں نہیں؟ کیونکہ ایک کلمہ گو مسلمان اور حقیقی مسلمان میںبہت فرق ہے۔ کلمہ گو تو سب ہیں، جبکہ حقیقی مومن تلاش کرناپڑے گا۔
دورِ رسالتﷺ میں بعض لوگوں کو دعویٰ ایمان باِلرسالتﷺ کے باوجود انہیں اعلانیہ طورپر منافق اور جھوٹا کہا گیا ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے تفسیر سورئہ المنافقون:1)
ان منافقین کے برعکس جو صدقِ دل سے ایمان لائے اور رسالت محمدیہﷺ کی تصدیق کی۔ انہیں اسی دنیا میں اللہ رب العزت نے اپنی رضا ء و خوشنودی کی دائمی سند عطا کرتے ہوئے جنت کی ڈگری عطا کر دی۔
اور انہیں ’’رضی اللہ عنہم ورضواعنہ‘‘ کے ابدی خطاب سے نوازا۔ (سبحان اللہ)
تین گروں کو اللہ عزوجل نے یقیناً جنت کی خوشخبری سے نوازا ہے اور ان کے ایمان کی باقاعدہ تصدیق کی ہے۔
اولاً:سابقینِ اوّلین(وہ مہاجرینِ مکہ جنھوں نے ایمان میں سبقت حاصل کی)
ثانیا:انصارِ مدینہ (مہاجرین کا استقبال کرنے والے)
ثالثًا:وہ خوش نصیب جو (مہاجر ینؓ و انصارؓ) کے منہج پہ چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے اہلِ ایمان (جن میں بفضل اللہ ہم بھی شامل ہیں۔)جنتی قرار دیا۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے تفسیر سورۃ التوبہ :100)
صحابہؓ کو یہ مقام کیونکر حاصل ہوا۔ ان کے خالص ایمان اور جذبۂ ایثار کی بدولت، کہ انہوں نے دامے، درمے، قدمے، سخنے، ہر سطح پر اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کی آواز پر لبیک کہا۔ اور کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کیا۔
اورجو صدقِ دل سے ایمان نہ لائے، اُن کے نفاق کی بدولت انہیں اسی دنیا میں منافق اور جہنمی قرار دیا۔اَللّٰھُمّ اَجِرنَا مِنَ النّار (آمین)
حقوقِ رسالت ﷺ کا تحفظ کیسے؟
حقوقِ رسالت اور ناموس و حرمتِ رسولﷺ کا تحفظ فقط نظریہ جہاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے،کیونکہ توہین رسالت کے مرتکبین اور منکرین خاتم النبیین(مرتدین) کو نظریہ جہاد سے ہی اپنے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔یہی منہج نبویﷺ ہے۔
کونسا منہج؟ جو رحمۃللعالمین خاتم النبیین امام المجاہدین اور سلطانِ مدینہ سیّدنا و مولانامحمدﷺکی قیادت و سیادت میں مرحلہ وار مکہ کی گلیوں میں، شعب بن ہاشم کی تنہائیوں اور تاریکیوں میں پروان چڑھتا رہا۔
کون سانظریہ؟ جو مکے کے گرم گرم نوکیلے، پتھروں، ریگ زاروں اور انگاروںمیں سلگتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو دارِ ارقمؓ اور صحنِ حرم میں بتدریجاً نشوونما پاتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو ہجرت کی کٹھن راتوں جبلِ ثور کے سنگ ریزوں اور غارِ ثورمیں پنپتا رہا۔
کونسامنہج؟ جو بدر و احد اور یمامہ میں خون میں لت پت رہا۔
کونسا منہج؟ جو خالدؓو ابو عبیدہؓ، زیدؓ و اسامہؓ بن زیدؓ، عکرمہؓ ، مثنیٰؓ اور سعد بن وقاصؓ کی قیادت میں اپنی جوانیاں لٹاتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو غزوئہ حدیبیہ کے موقع پر انگڑائیاں لیتا رہا اور بالآخر فتح مکہ کی صورت میں رضوانِ الٰہی کا باعث بنا۔
کونسا منہج؟ جس نے قیصر و کسریٰ کے جاہ وجلال کو خاک میں ملا دیا۔
کونسا منہج؟ جو ابو بصیرؓوابو جندلؓ کی صورت میں دشمنانِ اسلام کے لیے دردِ سر بنا رہا۔
کونسامنہج؟ جو تیرھویں صدی ہجری میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شکل میں سکھوں اور انگریزوں سے برسرِ پیکارہا۔ اور کبھی حیدر علیؒ و سلطان ٹیپو شہیدؒ کی آواز میں انگریزوں کو للکارتا رہا۔
اور1857ء کی جنگ آزادی کے ردِّ عمل میں عبور دریائے شور(کالے پانیوں) اور تختہ دار پر جھولتا رہا۔
بالآخر یہی منہج تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا سبب بنا۔
یہی نظریۂ جہاد تا ابد مظلوم انسانیت سے ہمدردی و خیر خواہی، حقوقِ انسانیت کا داعی، حقوقِ رسالتﷺ کے تحفظ کا ضامن اور امن و سلامتی کا پیامبر رہے گا۔
افسوس! آج ہم اس منہج نبوی ﷺ کے ترک کے سبب ہر سو ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ذلت و مسکنت مسلمانوں کا خاصہ بن چکا ہے۔ ہمارے قبلۂ اول پہ صیہونیت کا قبضہ ہے اور ساری دنیا اسرائیلی جارحیت کو دیکھ رہی ہے۔ عالم اسلام پر قبرستان سا سناٹا طاری ہے۔ یہ منہج نبوی ﷺسے انحراف اور سیکولر فکر کا نتیجہ ہے۔اور یہ سیکولریت پسندی روز بروز جڑ پکڑ رہی ہے۔
دشمن کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک ان میں جہاد کا جذبہ موجود ہے اور مسلمان منہج نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہیں تو انہیں مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انہیں جہاد سے خالی کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے ایسی ایسی تحریکیں اُٹھائیں کہ بظاہر ان پر اسلام کی چھاپ بھی لگی ہو،اور اندرونی طورپر وہ اسلام دشمن عناصر کی ایجنٹ ہوں۔ یوں یہ اسلام نما تحریکیں بھی مارِ آستیں ثابت ہوئیں۔ جن میں آج کل داعش نامی تنظیم کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ابتدائی کڑی عبداللہ بن سبا سے جا کر ملتی ہے۔ جس نے اسلام کے لبادے میں یہودیت کے باطنی عقائد و افکار کو فروغ دیا اور تار وزِ ایں اسلام کے خلاف ان کی سازشیں جاری ہیں۔ جہاد دشمن تحریکات میں بہائیت و بابیت، صیہونیت اور قادیانیت بھی ہیں۔ بہائیت و قادیانیت کو اسرائیل و امریکہ کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس طرح فری میسن بھی ایک صہیونی تحریک ہے جس کے دنیا بھر میں ممبرز موجود ہیں۔پاکستان میں بھی اعلیٰ پیمانہ پر یہ تحریک اثر انداز ہے۔ ان میں سب سے کم عمر تحریک قادیانیت و مرزائیت کی ہے جو کہ 1857ء کی تحریک آزادی کے ردِّ عمل میں معرض وجود میں لائی گئی۔اس سلسلہ میں فتح مکہ کے بعد ذرا یک نظر فاتحِ مکہ سیّدنا محمد عربیﷺ کی انقلابی اصطلاحات کا بغور جائزہ لیجئے۔
اوّلاً:بیت اللہ کو بتوں سے پاک کر دیا گیا۔
ثانیاً:جہالت کی تمام رسومات کے خاتمے کا اعلان مثلاً لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، سود کا خاتمہ اور بیت اللہ کا برہنہ ہو کر طواف کرنا وغیرہ۔
ثالثاً:جزیرۃ العرب میں تمام مراکزِ شرک کے خاتمے کی منصوبہ بندی اور فوجی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ۔
رابعاً:ہر قسم کی سیاسی ڈپلومیسی اور مصلحت پسندی سے گریز کرتے ہوئے پیغمبرانہ حکمت ِ عملی (منہج نبویﷺ) کا اعلان۔
جس کی بدولت اہلِ مکہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔
خامساً: ہر قسم کی انتقامی کارروائی کی بجائے عفوِ عام (عام معافی) کا اعلان۔
سادساً : توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے مردو زن کی سزائے موت کے ڈیتھ وارنٹ (Death Warrent) جاری کرنے کا اعلان۔ کہ اگر وہ غلافِ کعبہ سے بھی لپٹے ہوئے پائے جائیں تو ان کے سر قلم کر دئیے جائیں۔
سادساً:خون کے پیاسوں اور جانی دشمنوں کے علاوہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں میں جو خدمتِ عالیہ میں از خود حاضر ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے۔ انہیں معاف کر دیا گیا۔ بدترین دشمنوں کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک؟یہی تو آپﷺ کی رحمۃ للعالمینﷺ صفت ہے۔یہی منہج نبویﷺ اور اسوئہ نبوت ہے۔
نوٹ:مجرمینِ توہینِ رسالت اور حقوقِ رسالتﷺ کی نفی کرنے والوں کو صرف رسولِ رحمت عالمﷺ ہی معاف کر سکتے تھے۔
آپﷺ کے بعد ایسے مجرمین کومعاف کرنے کا اب اختیار کسی کے پاس نہیں ہے ۔
لہٰذا توہین رسالت کے مجرمین کو بذریعہ عدالت ہی سزا دلوائی جا سکتی ہے اور کسی بھی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار حاصل نہیں۔بقول شاعر
ہزار نقد بہ بازارِ کائنات آمد
یکے بسکہ صاحبِ عیّار ما نرسد
(کائنات کے بازار میں ہزار نقد لائیں(ان میںسے)۔ ایک سکہ بھی ہمارے خالص سونے کے سکہ کو نہیںپہنچ سکتا۔)
اگرچہ حسن فروشاں بجلوہ آمدہ اند
کس بہ حسن و لطافت بیارِما نہ رسد
(اگرچہ بہت سے حسین جلوہ گر ہوئے ہیں، لیکن ان میں کوئی بھی(ہمارے حقیقی محبوبﷺ) کے حسن و لطافت کو نہیں پہنچ سکا۔)سبحان اللہ
۔۔۔

اللہ ہی کی ذات حاجت روا اور مشکل کشا ہے

وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌوَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ

’’اوراگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف دیناچاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اگر وہ آپ کو کوئی بھلائی دے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اپنے بندوں پرغالب، کمال حکمت والااور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘ (الانعام: 17،18)

حضرات! سب سے پہلے سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ انسان بیماری، پریشانی اور مشکل میں کیوں مبتلا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے بنیادی طور پر اس کی دو وجہ بیان کی ہیں:مصیبت، مشکل، بیماری اور پریشانی کی پہلی وجہ انسان کی اپنی غلطی کا نتیجہ اور اس کی سزا ہوتی ہے۔

وَ مَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ(الشورٰى:30)

’’تمہیں جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے اور اللہ بہت سے گناہوں سے درگزر فر مانے والا ہے۔‘‘

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (الروم:41)

’’ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کیے کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔‘‘
دوسری وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوا کرتی ہے جسے تقدیر بھی کہا جاتا ہے۔

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ (التغابن:11)

’’اللہ کے اذن کے بغیر کوئی مصیبت نہیں آتی ‘‘۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ (البقرہ: 155)

’’اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے، صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیجیے۔‘‘
صحیح العقیدہ اور بُرے عقیدے کے لوگوں میں فرق یہ ہے کہ بُرے لوگ مصیبت اور پریشانی کو حالات وواقعات کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔

وَقَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَا اِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (الجاثیۃ: 24)

’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے، گردش ایام کے سوا کوئی چیزہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘
جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتے ہیں وہ مشکل اور پریشانی کو اپنے رب کی مشیئت سمجھ کر اس سے معافی مانگتے ہیں اور اس کو مشکل کشا اور حاجت روا جانتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرتے ہیں کیونکہ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل اور پریشانی سے نجات نہیں دے سکتا۔

وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ (العنکبوت:3)

’’یقیناً ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں بس اللہ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ (الشعراء:80)

’’اورجب میں(سیدناابراہیم u نے فرمایا )بیمار ہو جاتا ہوں تومجھے بھی وہی شفادیتا ہے ۔‘‘
’’اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے‘‘ کا عقیدہ توحید اور حقیقی ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ اِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗ اِلَّا هُوَ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

’’اور اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کر لے تو اس کا فضل کوئی ہٹانے والا نہیں ، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہےدیتا ہے اور وہی بخشنے والا،نہایت مہربان ہے۔‘‘(یونس: 107)
اس فرمان سے پہلےخیر و شر کے اختیار کا ذکر کرتے ہوئےنبی کریمe کو براہ راست مخاطب کیا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ہستی نہیں جوآپ کو نقصان سے بچا سکے اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بھلائی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو زمین و آسمانوں میں کوئی طاقت نہیں جو اس میں رکاوٹ ڈال سکے۔آپ کو براہ راست مخاطب کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جب رسول معظم eاپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تو دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو یا دوسرے کو نفع دے اورنقصان سے بچاسکے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے جو مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز کر دیتا ہے اسی عقیدہ کی بنیاد پر مجاہد میدانِ کا ر زار میں اُترتاہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ اس وقت تک دشمن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یہی عقیدہ اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے۔ جس بنیاد پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے پر خلوص محبت کا ناطہ جوڑتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ خیر و شر صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ’’اللہ‘‘ہی اپنے بندوںکو نفع و نقصان پہنچانے والا ہے ۔ اس کے حکم کے سامنے کسی جابر کا جبر اور کسی نیک کی نیکی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ’’اللہ‘‘ ہی اپنے بندوں پر پوری طرح قادر ہے اور وہ اس کی حکمت سے خوب واقف ہے ۔
یہ عقیدہ دین کی ابتداء اور انتہا ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار مختلف انداز اور الفاظ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اس پر پکے ہوجاؤ۔ یہ دنیا میں کامیابی اور آخرت کی فلاح کا راستہ ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیّت اور فرضیّت کے لیے نبی کریم سے لے کر ہر انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ’’اللہ‘‘ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرے اورنہ ہی کسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔ اس سے انسان اور’’اللہ ‘‘ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ ہے کہ انسان ہر قسم کے نفع و نقصان سے بالا تر ہوکر محض اخلاص کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ اس عظیم تصور اور عقیدے کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے رسول کو مخاطب کیا:

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ (یونس:106)

’’اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، اگر آپ نے ایسا کیا تو بلاشبہ آپ کا شمار ظالموں میں سے ہو گا ۔‘‘
یہاں ظلم سے مراد شرک ہےاوراس کا ارتکاب کرنے والے ظالم ہیں اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال ہستی اور اس کی عظیم صفات کے ساتھ دوسروںکو شریک بناتے ہیں۔

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ قُلْ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَنِيَ اللّٰهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كٰشِفٰتُ ضُرِّهٖ اَوْ اَرَادَنِيْ بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكٰتُ رَحْمَتِهٖ قُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُوْنَ(الزمر: 38)

’’اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جواب دیں گے کہ’’ اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیا ہے۔ فرما دیں کہ اگر ’’اللہ‘‘ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا جنہیں تم اللہ تعالیٰ کے سِوا پکارتے ہو وہ مجھے اس نقصان سے بچا سکتے ہیں ؟یا ’’اللہ‘‘ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روک لیں گے ؟ انہیں فرما دیں کہ میرے لیے ’’اللہ‘‘ ہی کافی ہے ،بھروسہ کرنے والے اُسی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں۔ ‘‘
قرآن مجید نے ’’اللہ‘‘ کی توحید سمجھانے اوردینِ حق کی پہچان کروانے کے لیے ہر زاویہ سے کوشش فرمائی کہ لوگ ’’اللہ‘‘ کی توحید کا اقرار کریں جو دین حق کی مرکزی اور پہلی اساس ہے ۔ یہاں مشرکین کی سوئی ہوئی حِسّ کو بیدار کرنے کے لیے سوال کیا جارہا ہے کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ان کا جواب ہوگا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ان سے پھر سوال کریں کہ جن کو تم ’’اللہ‘‘ کے سوا پکارتے ہو اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کر سکتے ہیں؟اگر میرا رب مجھ پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے تو زمین و آسمانوں میںکوئی ایسی ہستی اور طاقت ہے جو اللہ کی رحمت کے نزول میں رکاوٹ ڈال سکے ؟ ظاہر ہے کہ اس کے سوا نفع و نقصان کا کوئی مالک نہیں۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خوشی اور غم ،عُسراور یُسر میں اپنے ’’اللہ ‘‘پر بھروسہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندے ’’اللہ‘‘ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
اس عقیدہ کی تازگی اور پختگی کے لیے نبی مکرم ﷺنے اپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباسw کو یوں فرمایا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللہِ  یَوْمًا فَقَالَ یَا غُلاَمُ اِحْفَظِ اللہَ یَحْفَظْکَ اِحْفِظِ اللہَ تَجِدْہٗ تُجَاھَکَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاَسْأَلِ اللہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِاجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بَشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجُفَّتِ الصُّحُفُ(رواہ أحمد :باب مسند عبداللہ بن عباس) (صحیح)

’’سیدناعبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول کے پیچھے سواری پر سوار تھا۔آپ نے فرمایا: اے بچے! ’’اللہ ‘‘ کے احکام کی حفاظت کرو،اللہ تیری حفاظت کرے گا ۔’’اللہ‘‘ کو یاد کرو تو اُسے ا پنے سامنے پائے گا۔جب مانگو توصرف ’’اللہ‘‘ ہی سے مانگا کرو۔ مدد کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو اور اس بات کو ذہن نشین کر لو اگر ساری دنیا کے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تووہ نفع نہیں پہنچا سکتے ہاں اُتنا ہی جتنا ’’اللہ‘‘ نے تیرے نصیب میں لکھ دیا ہے۔ اگر سب کے سب تجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں تو وہ تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اُتنا، جتنا’’اللہ‘‘ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے ۔ قلمیں اُٹھا دی گئیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘

عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُt إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّe یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ (رواہ البخاری: باب لامانع لما اعطی اللہ)

’’سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیںکہ سیدنا معاویہt نے مغیرہ کوخط لکھا کہ آپ نماز کے بعد جو نبی کریم e سے دعا سُنا کرتے تھے وہ لکھ کر بھیجئے۔سیدنا مغیرہ tنے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی کریمe کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ ’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی معبو دِ برحق نہیں، وہ اکیلاہے، اس کا کو ئی شریک نہیں۔ اے اللہ جسے تو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیںسکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں ، تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کو ئی فائدہ نہیں دے سکتی۔‘‘

مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (فاطر :2)

’’اللہ ‘‘لوگوں کے لیے اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے،اسے اُس کے سوا کوئی کھولنے والا نہیں، وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔‘‘
مشرکین میں سے ایک گروہ کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ یہاں اس عقیدہ کی کھلے الفاظ میں نفی کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور ذات کو رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی خدائی میں اختیارات نہیں دیئے۔ وہ کسی کواپنی رحمت سے سرفراز کرنا چاہے تو اسکی رحمت کو کوئی روکنے والا نہیں اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اسے کوئی نازل کرنے والا نہیں ہے۔ وہی اپنا حکم او ر فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے ۔پوری طرح غلبہ حاصل ہونے کے باوجود اس کے ہر کا م اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا کہ وہی دینے اور عطا فرمانے والا ہے یہ ایسا عقیدہ اور فکر ہے جس سے انسان نہ صرف مخلوق سے بے نیاز ہو جاتا ہے بلکہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے بھی بچ جاتاہے ۔ اس کے اخلاق اور معاملات میں اخلاص کا پہلو غالب رہتاہے۔ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی اس لیے نہیں کرتا کہ آنے والے کل کووہ اُسے فائدہ پہنچائے گا، وہ کسی بڑے کو سلام کرتاہے تو اس کے دل میں یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگر اس نے اُسے سلام نہ کیاتو یہ اُسے کسی چیز سے محروم کر دے گا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو چیز میر ا رب مجھے عطا کرنا چاہے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز کواس نے روک لیا اسے کوئی دے نہیں سکتا۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُولُ اللہِ  إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ: رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَھْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ (رواہ مسلم:باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ)

’’سیدنا ابو سعید خدریt ذکرکرتے ہیںکہ جب اللہ کے رسولe رکوع سے سر اُٹھاتے تو کہتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاءکے برابر اور اس کے بعد جتنی تو چاہتاہے، تو اِس تعریف کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اُس بزرگی کا سب سے زیادہ حقدار ہے جو تعریف اور عظمت تیرے بندے بیان کرتے ہیں ہم سب کے سب تیرے ہی بندے ہیں۔اے اللہ! جو چیز تو عطا فرمائے اُسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اُس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نہیں اور نہ کوئی نفع دے سکتا ہے ۔‘‘
حضرات!اسی عقیدے کی دعوت دینےکے لیے نبی کریم eکو مبعوث فرمایا گیا اور سب سے پہلے اسی بات کی طرف بلاتے تھے:

قُلْ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ (یونس: 104 تا106)

’’فرما دیں!اے لوگو! اگر تم میرے دین کے بارے میںشک کرتے ہو تو میں انکی عبادت نہیں کرتا جن کی تم ’’اللہ‘‘ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ میں تو اس ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیںموت دیتا ہے، مجھے حکم دیا گیاہے کہ میں ایما ن والوں میں سے ہو جائوں اور مجھےیہ بھی حکم دیاگیاہے کہ میںاپنا چہرہ اسی دین کی طرف سیدھا رکھوں اور مجھے حکم ہے کہ مشرکوں سے ہر گز نہیں ہونا۔اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، اگر آپ نے ایسا کیا تو بلاشبہ آپ کا شمار ظالموں میں سے ہو گا ۔‘‘ ﴾
نبی معظمe کو حکم ہواکہ آپ سرعام اعلان فرمائیں کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے اور تم کسی طرح بھی مطمئن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو۔تو یاد رکھو میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے معبودانِ باطلہ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔میں صرف اس ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتارہوں گا جو تمہیں اور سب کو فوت کرنے والا ہے۔ کیونکہ میں ایمان لانے والوں میں ہوں۔اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو مکمل طورپر اس دین کے تابع کروں جو ہر اعتبار سے کامل، اکمل اور ہر قسم کی ملاوٹ اور کمی کمزوری سے پاک ہے ۔ میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔
یہاں دین سے پہلی مراد توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ مشرکین مکہ نے نبی معظمe کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیااور وہ ہر اعتبار سے ناکام اورنامراد ٹھہرے تو انہوں نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا

وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ ( القلم :9)

’’ اے محمد!کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنا موقف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اس کے جواب میںیہ فرمان نازل ہوا کہ اے رسولe! مشرکین کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک ’’اللہ‘‘ کی عبادت کرتے رہو اور اس کی توحید کی دعوت دیتے رہو۔ انہیںسمجھائو اور بتائوکہ کیاوہ ان کی عبادت کرتے ہیں جو اپنے اور کسی کے نفع ونقصان کااختیارنہیں رکھتے۔

وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ (الاعراف:197)

’’اور اسے چھوڑ کرجنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اورنہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَ لَا تَحْوِيْلًا اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا (الاسراء:56۔57)

’’فرمادیجیے!بلائو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کر رکھا ہے پس وہ نہ تم سے تکلیف دور کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ اسے بدلنے کا۔ وہ لوگ جنھیں یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف ذریعہ قرب تلاش کرتے ہیں جو ان میں سے زیادہ قریب ہیں اور اس کی رحمت ک امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے ۔ ‘‘
اے رسول(e)!ان لوگوںسے کہیںکہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا مشکل کشا ،حاجت روا سمجھتے ہو ان کو بلائو۔ وہ تمہاری تکلیف دور کرنے یا اس کو بدل دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے ۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ اپنی مدد کے لیے پکارتے ہووہ تو اپنے رب کے ہاں اس کے قرب کے متلاشی ہیں ۔کہ کون ان میں سے اپنے ر ب کا مقرب بندہ ہے اور کون اس کے عذاب سے ڈرنے والا ہے؟ کیونکہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے ۔ یاد رہے کہ مکہ کے مشرک پتھر،لکڑی او ر مٹی کے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ اور حرمت کے طور پر پیش کرتے تھے ۔ان کا عقیدہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں مگر ان میں ان بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے ۔جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں ۔اہل مکہ کے عقیدہ کے مقابلے میں یہودو نصاریٰ بتوں کو وسیلہ بنانے کی بجائے انبیاء او ر صلحا ء کی قبروں کو وسیلہ بناتے تھے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ’’اَلَّذِیْنَ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔اس کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ’’اَلَّذِیْنَ‘‘کا لفظ ’’ذی روح‘‘اور ’’ذی عقل‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ظاہر ہے یہ بت نہیں انسان ہیں ۔ تو معنی یہ ہوا کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ مشکل کشا ، حاجت روا اور وسیلہ سمجھتے ہو ۔وہ تو خود اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے طلبگار اور اس کے عذاب سے لرزاںوترساںرہتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسی خوفنا ک چیز ہے جس سے ہر حال میں ڈرنا ہی چاہیے ۔

يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهٗ وَ مَا لَا يَنْفَعُهٗ ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِيْدُ يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ (الحج :12-13)

’’مشرک ’’اللہ‘‘ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو نہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں۔یہ پرلے درجے کی گمراہی ہے ۔ وہ اسے پکارتا ہے جس کا نقصان اس کے فائدہ سے زیادہ ہے ،بدترین ہے اس کا مولیٰ اوربدترین ہے اس کا ساتھی۔‘‘
انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اُسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے، یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کر نا تو درکنار، حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس کا عمل اس بات کی گواہی دیتاہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے ، ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ فائدے کی بجائے اس کے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے شخص کاانجام انتہائی بھیانک ہوگا، بہت ہی بُراعقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک اختیار کرتا ہے۔ مشرک کو اس سے اس لیے فائدے کی بجائے نقصان پہنچتا ہے کہ اُسے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے ساتھ شرک ٹھہرایا ہے جو تمام نیکیوں کو تباہ کر دیتاہے۔ مشرک حقیقی مشکل کشاکی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے ،لیکن یہاں جمع کی بجائے ’’الْعَشِیْرُ‘‘ واحد کا لفظ لایا گیا ہے کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرّک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے کہ بھلائی کی بجائے شیطان بدترین ورغلانے والا اور بُرا ساتھی ہے۔

عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ  قَالَ عَلَّمَنِی رَسُولُ اللہِ  کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ(رواہ ابوداود:باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ)

’’سیدناحسن بن علی سے روایت ہے اُنہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول  نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی، الٰہی بے شک توہی فیصلہ کرنےوالا ہے، تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، جس کا تو دوست بن جائے اُسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اُس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔‘‘

وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ وَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَّ لَا يَمْلِكُوْنَ مَوْتًا وَّ لَا حَيٰوةً وَّ لَا نُشُوْرًا

’’انہوں نے اللہ کو چھوڑکر ایسے معبود بنالیے جنہوں نے کسی چیز کو پیدانہیں کیا وہ تو خود پیداکیے گئے ہیں وہ اپنے لیے بھی کسی نفع اور نقصان، موت اور زندگی اور نہ دوبارہ اٹھنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ‘‘(الفرقان:3)
عقیدۂ توحید دین کی روح اور اس کی بنیاد ہے، اس کے باوجود شرک کرنے والوںنےمختلف عقائد اور انداز اختیارکررکھےہیں۔ کوئی بتوں، فوت شدہ بزرگوں اور کوئی چاند ستاروں، فرشتوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اوراختیارات میں شریک ٹھہراتا ہے، جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ ’’اللہ‘‘ کے پیدا کردہ اوراس کی مخلوق ہیں اورپکارنے والوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔یہاں تک کہ ان پر کوئی افتادآپڑے تو اپنے آپ کو بھی بچا نہیں سکتے لیکن اس کے باوجود مشرک اپنی اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک سمجھتے ہوئے بچوں کے نام پیراں دتہ ، عبدالعزیٰ وغیرہ رکھتے ہیں اور اپنی اولاد کو لے کر بتوں اور مزارات کا طواف کرتے ہیں اور ان کے سامنے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ یہ شرک پہلے زمانے کے لوگ کرتے تھے آج کل لوگ شرک میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ مزارات کے چکر لگاتے ہوئے صاحب قبر سے براہ راست اولاد اور مرادیں مانگتے ہیں۔ حالانکہ صاحبِ قبر خود محتاج ہیں نہ وہ اپنی مدد کر سکتے اور نہ دوسروں کی ۔
اگر واقعی یہ تمہاری کوئی بھلائی کر سکتے ہیں تو انھیں رہنمائی کے لیے بلائو لیکن وہ تمہاری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتے ۔ تمہارا ان کو بلانا یا نہ بلانا ان کے لیے یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن فوت شدہ بزرگوں کو تم پکارتے ہو، وہ تمہاری طرح کے ہی بندے تھے یعنی جس طرح تم ’’رب‘‘ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہو اسی طرح وہ اپنے رب کے سامنے عاجز اور بے اختیار تھے اور ہیں۔ جس طرح بیماری اور شفا ، غربت اور دولت ، عزت اور ذلت نفع اور نقصان تمھارے اختیار میں نہیں اسی طرح وہ بھی ان امور پر کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود تم انھیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو اگر تم اپنے عقیدہ اور دعویٰ میں سچے ہو تو ان کو آواز دو، چاہیے تو یہ کہ وہ جواب دیں لیکن وہ تمھیں کبھی جواب نہیں دے سکتے ۔

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ (فاطر :14)

’’اگرتم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسن نہیں سکتے اور اگر سُن بھی لیں تو اس کا تمہیں جواب نہیں دے سکتے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کر یں گے ایسی خبر تمہیں ’’ اللہ ‘‘ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
ان دلائل کے باوجود مشرکین انبیاء اور موحّدین کو دھمکیاں دیا کرتے ہیں کہ ہمارے معبود یہ، یہ کر سکتے ہیں اس کے جواب میں انھیں چیلنج دیا گیا ہے:

اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَ وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَصْرًا وَّلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَتَّبِعُوْكُمْ سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَا اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ اِنَّ وَلِيَّ اللّٰهُ الَّذِيْ نَزَّلَ الْكِتٰبَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَا اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ وَاِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا يَسْمَعُوْا وَتَرٰىهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ وَ هُمْ لَا يُبْصِرُوْنَ
(الاعراف:191تا 198)

’’کیا وہ انہیں شریک بناتے ہیں جوکوئی چیز پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیداکیے گئے ہیں۔ اورنہ ان کی کوئی مدد کرسکتے ہیں اورنہ اپنی مدد کرسکتے ہیں۔ اوراگر تم انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائو تو وہ آپ کے پیچھے نہیںآئیں گے۔ آپ کے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں بلائیں یا آپ چپ رہیں۔ بے شک جنہیں تم ’’اللہ‘‘ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے بندے ہیں، پس انہیں پکارو،پھر اگر تم سچے ہو تو وہ تمہاری بات قبول کریں۔ کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چل سکیں؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے پکڑسکیں؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھ سکیں؟ یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں؟ فرما دیں تم اپنے شریکوں کو بلا کر میرے خلاف تدبیرکرواور مجھے مہلت نہ دو۔ بے شک میرا مددگار ’’اللہ‘‘ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہی نیکوں کا مددگار ہے، اسے چھوڑ کرجنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ اگرآپ انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائیں تو نہیں سنیں گے اورتو انہیں دیکھتا ہے کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ نہیں دیکھتے۔ ‘‘
۔۔۔

نبی کریم ﷺ پر جھوٹ باندھنے کی سزا(سلسلہ رباعیات15)

16-108-حدثنا أبو معمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ أَنَسٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنہُ إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أُحَدِّثَكُمْ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ .

ابومعمر، عبدالواث، عبدالعزیز سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بہت حدیثیں بیان کرنے سے یہ امر منع کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مجھ پر عمدا جھوٹ بولے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
Narrated Anas: The fact which stops me from narrating a great number of Hadiths to you is that the Prophet said: “Whoever tells a lie against me intentionally, then (surely) let him occupy his seat in Hell-fire.”
شرح الکلمات :
لَيَمْنَعُنِي : البتہ مجھے روکتا ہے
أُحَدِّثَ :میں حدیث بیان کروں
تَعَمَّدَ : اس نے جان بوجھ کر کیا
كَذِبَ : جھوٹ
فَلْيَتَبَوَّأْ : پس چاہیے کہ وہ بنالے
مَقْعَدَهُ : اپنا ٹھکانہ
تراجم الرواۃ :
1نام ونسب : عبد اللہ بن عمرو بن ابی الحجاج التمیمی المنقری البصری
کنیت : ابو معمر
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ثقہ ثبت تھے مگر کسی نے قدری ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو معمر حافظ تھے۔
وفات : ابو معمر 224 ہجری کو وفات پائی۔
2 عبد الوارث بن سعید کا کا تعارف قسط نمبر 11 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
3 عبد العزیز بن صہیب کا تعارف قسط نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
4سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارف گزشتہ اقساط میں ملاحظہ فرمائیں۔
تشریح :
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف لوگ غلط بات منسوب کرکے دنیا میں مخلوق کو گمراہ نہ کرسکیں۔ یہ حدیث بجائے خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عام طور پر احادیث نبوی ﷺکا ذخیرہ مفسد لوگوں کے برے ہاتھوںسے محفوظ رہاہے اورجتنی احادیث لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑلیں تھیں ان کو علماء حدیث نے صحیح احادیث سے الگ کردیا۔
اسی طرح آپ ﷺنے یہ بھی واضح فرمادیاکہ خواب میں اگرکوئی شخص میری صورت دیکھے گا تووہ بھی صحیح ہوگی کیونکہ خواب میں شیطان رسول اللہ ﷺکی صورت میں نہیں آسکتا۔
موضوع اورصحیح احادیث کو پرکھنے کے لیے اللہ پاک نے جماعت محدثین خصوصاً امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ جیسے اکابر امت کو پیدا فرمایا۔ جنھوںنے اس فن کی وہ خدمت کی کہ جس کی سابقہ امتوں میں نظیر نہیں مل سکتی، علم الرجال وقوانین جرح وتعدیل بتائے گئے کہ قیامت تک امت مسلمہ ان پرفخر کیا کرے گی مگر صدافسوس کہ آج پندرہویں صدی میں کچھ ایسے بھی متعصب منکر وملحد وجود میں آگئے ہیں جو خود ان بزرگوں کو غیرفقیہ ناقابل اعتماد ٹھہرا رہے ہیں، ایسے لوگ محض اپنے مزعومہ عقائد کی حمایت میں ذخیرہ احادیث نبوی کو مشکوک بناکر اسلام کی جڑوں کوکھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
یہ حقیقت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ بتلانے والے خود بے سمجھ ہیں جو چھوٹا منہ اوربڑی بات کہہ کر اپنی کم عقلی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس مقام کی تفصیل میں جاتے ہوئے بعض لوگوں نے جماعت اہل حدیث کو باربار لفظ جماعت غیرمقلدین سے جس طنز وتوہین کے ساتھ یادکیاہے وہ حددرجہ قابل مذمت ہے مگربعض حضرات نے امت میںبہت سے اکابر کی توہین وتخفیف کی ہے۔ قدیم الایام سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ بعض معاندین نے توصحابہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ سیدنا ابوہریرہ، سیدنا عقبہ بن عامر، سیدنا انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ٹھہرایا ہے۔

سفاکیت و درندگی کے واقعات محاسبہ و تدارک

گزشتہ دنوں قصور میں کم سن بچی زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا اس سے پہلے بھی قصور میں بہت سے کم عمر بچے اور بچیوں کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاچکاہے اس کے چند دن بعد مردان میں 4 سالہ بچی کے ساتھ جنسی درندگی کا ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا جس پر انسان تو کیا خود انسانیت بلکہ حیوانیت بھی شرمسار اور زخم خوردہ ہے ۔مردان میں اس سے قبل بھی دو بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیاجاچکاہے غور طلب بات یہ ہے کہ ملک بھر میں بے حیائی، بدکاری او ر چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ اس طرح کے حیا سوز واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے 768 واقعات رجسٹرڈ ہوئے۔ایسے انسانیت سوز واقعات کا کثرت اور تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونا ایک اسلامی معاشرہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جس پر باریک بینی سے غور کیا جاناچاہیے۔ اس غور کے نتیجے میں یہ بات ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہمارا معاشرہ شدید تنزلی کا شکار ہے اس انحطاط کا سب سے زیادہ ذمہ دار بلیک میلراوربے لگام میڈیا ہے کیونکہ میڈیا ہی معاشرے میں بیہودہ ڈراموں،فلموں، شہوت انگیز اشتہارات کے ذریعے جنسی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ میڈیا پر براجمان مادہ پرست اینکر پرسن جن کا ہر دوسرے دن چینل تبدیل ہوا ہوتاہے ۔ایسےبے ضمیر لوگ مغرب کا چورن فروخت کررہے ہوتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی رجحانات پیدا کرنے میں رہی سہی کسر سوشل میڈیا،انٹرنیٹ اورموبائل نے نکال دی ہے۔20 سال قبل موبائل اور سم پچاس ہزار روپے کی تھی مگر دیگر ضروریات زندگی قدرے سستی تھی انہی میڈیا کے لوگوں کے ذریعے پاکستان قوم کے ساتھ ایک خطر ناک کھیل کھیلا گیا ان کے اخلاق کو بگاڑنے ، اسلامی اقدار اور روایات سے دور کرنے کے لیے ضروریات زندگی کو انتہائی گراںکیاگیا ، عیاشی ،فحاشی،بے حیائی اور بے غیرتی عام کرنے کے ذرائع،سوشل میڈیا،موبائل اور سم وغیرہ انتہائی ارزاں بلکہ تقریباً مفت کردی گئی۔ ذمہ دار اصحاب نے اس پر کبھی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔پاکستان میں بھی مادرپدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔قصور اور مردان جیسے واقعات ایسی آزادی کا نتیجہ ہیں۔ہمارے ملک کے بے لگام میڈیا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔چور مچائے شور کا کردار ادا کررہا ہے۔پہلے حیا سوز مناظر کے ذریعے جنسی جذبات کو ہوا دی گئی، بدکاری کی راہیں آسان بنائی گئیں اور اب منافقت کی انتہاکی جاری ہےکہ فحاشی وعریانیت پھیلانے والا ہمارے ملک کا میڈیا فلم وشوبز انڈسٹری کے افراد کے ذریعہ سانحہ قصور کی آڑ میں اسکولوں میں مغربی طرز پر جنسی تعلیم دینے کی مہم چلا رہا ہے گویا کہ ایک تیر سے دو شکار کیے جارہے ہیں جبکہ ان منافقوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنسی تعلیم سب سے پہلے امریکہ میں شروع ہوئی تھی اب وہاں ہر 8 منٹ میں ایک بچہ کا ریپ ہوتاہے۔ فرمان رسول ﷺ ہے

: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَارِيَةً وُجِدَ رَأْسُهَا قَدْ رُضَّ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَسَأَلُوهَا مَنْ صَنَعَ هَذَا بِكِ؟ فُلَانٌ؟ فُلَانٌ؟ حَتَّى ذَكَرُوا يَهُودِيًّا، فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَأَقَرَّ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ (صحیح البخاری ، کتاب الدیات ، باب إذا قتل بحجر أو عصاوصحیح مسلم ، کتاب القسامۃ ، باب ثبوت القصاص ،الحدیث:1672)

’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا تھا لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا فلاں نے یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ انہوں نے ایک یہودی کا ذکر کیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اس نے اقرار کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔ ‘‘
ایسے ہی رسول رحمت ﷺ نے حدود اللہ پر عمل کرتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کرنے والے شخص کو سنگسار کی سزا دی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى ثَنَى ذَلِكَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ دَعَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبِكَ جُنُونٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ أَحْصَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: فَكُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ هَرَبَ، فَأَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ، فَرَجَمْنَاهُ (صحيح البخاري ، كتاب المحاربين من أهل

الكفرة والردة باب لا يرجم المجنون والمجنونة ، صحيح مسلم ، كتاب الحدود باب من اعترف علي نفسه بالزنا )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ مسجد میںتشریف فرما تھے اور اس نے آپ ﷺکو پکار کر کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ ﷺنے اس سے رو گردانی کی اور اس کی طرف سے چہرہ اقدس پھیرلیا ۔ اس نے پھر آپ ﷺسے کہا اے اللہ کے رسول؟ میں بدکاری کر بیٹھا ہوں۔ آپ ﷺنے اس سے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بات کو چار مرتبہ دھرایا۔ جب اس نے اپنے آپ پر چار گواہیاں دے دیں تو رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کیا تجھے جنون (پاکل)ہوگیا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔ ابن شہاب نے کہا مجھے اس نے خبر دی جس نے جابر بن عبداللہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں ان میں سے تھا جنہوں نے اسے رجم کیا۔ ہم نے اسے عیدگاہ میں سنگسار کیا۔ پس جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگا تو ہم نے اسے میدان مرہ میں پایا اور اسے سنگسار کردیا۔
ایسے حالات میں معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے فکرمند حضرات کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور حکومت پر بھی زوردینا ہوگا کہ وہ میڈیا کے بے قابو افریت کو بوتل میں بند کرنے کا انتظام کرے غیر اسلامی تہذیب وثقافت کو ناظرین کی ضرورت قرار دینے والے اینکرز کو موت،آخرت،حساب وکتاب اور عذاب الٰہی سے ڈرانا ہوگا۔چھوٹے بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے والدین کی ذمہ داری کو حکومتی سطح سے اجاگرکرنا ہوگا کیونکہ ماں بچے کی سب سے پہلی اور اہم درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جیسے مغربی غلاموں خاص طور پر میڈیا نے حقوق نسواں اور برابری کے نام پراپنی حقیقی ذمہ داری نسل نو کی پرورش اور صالح معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنے سے دور کر دیاہے۔اور اب بچوں کو آیاؤں،ملازموں،چوکیداروںاور روضۃ الاطفال،ڈے کیئر سینٹرز کے حوالے کرنے کا رواج عام ہوتا جارہاہے کیا کوئی دوسرا بچوں کی دیکھ بھال،پرورش،تعلیم وتربیت میں ماں کا نعم البدل ہوسکتاہے؟ ہمارے ارباب حل وعقد ،علماء کرام ،ماہر تعلیم حضرات کو ملکی نظام تعلیم کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہماری درسگاہوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم وتربیت کا کتنا حصہ نصاب میں شامل ہے، مخلوط نظام کی خرابیوں کے منفی اثرات کا بھی بنظر دقیق جائزہ لینا ہوگا۔ مخلوط نظام تعلیم نے ہمارے خاندانی نظام کو بری طرح متأثر کیا ہے کیونکہ ایسے اداروں میں لڑکے،لڑکیاں تعلیم سے زیادہ کسی اور چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور تعلیم پر بھر پور طریقےسے توجہ نہیں دے پاتے ایسے میں شرعی پردہ،شرم وحیا جیسی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس میں رکاوٹ بننے والوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سمجھانے کی ضرورت ہے قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق اگر ماحول،معاشر ے اور افراد کی اصلاح کا سب نے ملکر کما حقہ فریضہ انجام نہ دیا تو پھر یادرکھنا اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بہت شدید ہوا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ جو ارباب اقتدار اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ نہیں کرتے تو وہ ظالم ہیں۔

إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (صحیح البخاری،کتاب تفسیر القرآن حدیث:4686)

رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دیتاہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی’’ تیرا رب جب کسی سرکش بستی(والوں) کو(عذاب میں) پکڑتا ہے تو اس وقت اس کی پکڑ ایسی ہواکرتی ہے بیشک اس کی پکڑ بڑی دردناک اور بڑی سخت ہے۔‘‘

معاشی خوشحالی کازریں اصول

معاشی خوشحالی کازریں اصول

پا کستان اورچین کو آزاد ی حاصل کیے ہوئے ستر برس کا عرصہ بیت گیا اس دوران پاکستان اربوں ڈالرکامقروض ہوگیا جبکہ چین معاشی لحاظ سے مستحکم ہوگیاکہ وہ پسماندہ ممالک کو آسان شرائط پر قرضہ فراہم کررہا ہے مزید ہر آن اس کے دن بیلٹ ون روڈ O.B.O.R.کے منصوبہ پر ایک سو بیس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس کا تہا ئی حصہ تینتالیس(43)بلین ڈالر پاکستان میں سی پیک کے منصوبہ پر خرچ کررہا ہے ۔اس منصوبہ سے پاکستان کو خاطرخواہ معاشی فوائد حاصل ہونگے وہاں الحاد کے پھیلنے کا خطرہ بھی موجود رہے گا۔ایک ساتھ آزاد ہوئےمعاشی لحاظ سے ان میں ااس قدر فرق کیوں ہوا؟
چین کی مخلص قیادت ماڈزنے تنگ اور چواپن لائی نے سرکاری فرائض کی انجام دہی میں قومی مفاد کو ترجیح دی وہ قومی خزانے کی امانت میں خیانت کےمرتکب نہیں ہوئے اس بنا پر چین دفاعی و معاشی لحاظ سے مستحکم ہوگیا کہ ایشیاء میں امریکہ کو اپنی چودھراہٹ کا خطرہ لاحق ہوگیا چینی قیادت نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن طرز حکومت میں خلافت راشدہ کی سادگی ، ایثار،عوامی خدمت اور عدل وانصاف کے راہنما اصول پر عمل پیراہے
بانی ٔ پاکستان محمدعلی جناح تحریک پاکستان کے دوران انتھک جدوجہد کی وجہ سے علیل ہوگئےوہ موت و حیات کی کشمکش میں خلافت راشدہ کا نظام رائج کرنے کی حسرت لے کر دنیا سے رخصت ہوئے ان کے بعد اقتدار پر ایسی قیادتیں فائز ہوتی رہیں جنہوں نے نظریہ پاکستان کے تقاضوں کوبروئے کار لانے میں روگردانی کی اور امور حکومت میں عوامی و قومی مفادکو مد نظر رکھنے کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی غیر ترقیاتی کاموں کی آڑ میںسیاسی رشوت کا بازار گرم رہا ۔طاغوتی قوتوں نے اپنے ملکوں میں ’’کالادھن‘‘یعنی لو ٹ مار کی دولت کو تحفظ کرنے کے مواقع فراہم کیے ۔سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے معاشی خوشحالی کے لیے سنہری اصول بیان فرمایا:
’’ لوگو ! میرے نزدیک ہماری معاشی حالات اس وقت تک نہیں سنور سکتی جب تک ہم تین باتوں کا خیا ل نہ کریں ۔حق سے لینا ،جائز کاموں پر خرچ کرنا اور ناجائز کاموں پر خرچ نہ کرنا۔ (کتاب الخراج از امام ابو یوسف ص117)
چینی قیادت نے فاروقی قول کو اپنی معاشی حکمت عملی کا ماٹو بنا لیا تو انہوں نے معاشی میدان میںامریکہ سے سبقت حاصل کرلی لیکن ہم نے خلافت راشدہ کے زریں اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ،ضرورت اس امر کی ہے کہ سودی نظام سے توبہ تائب ہو کراسلام کے زریں معاشی اصولوں کو اپنالیں تاکہ معاشی طور پر خود کفیل ہوسکیں۔
عطا محمد جنجوعہ

مجلہ اسوہ ٔ حسنہ ۔کراچی

کسی دانا کا قول ہے کہ اخبارات قوم کی آواز ہوتے ہیں ایک اور دانشور نے کہا کہ اچھےجرائد مذہب ،قوم اور ملک کی ترجمانی کرتے اور اس کے حقوق کے نگران ہوتے ہیں۔

مجلہ اسوہ حسنہ :

جامعہ ابی بکرالاسالامیہ کا تحقیقی و اصلاحی ماہنامہ ہے اور دوسرے معنوں میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ترجمان ہے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ جماعت اہلحدیث پاکستان کے نامور عالم دین ،عظیم اسکالر ،بلند پایہ خطیب ومقرراور وعظ و مبلغ کے پروفیسر چوہدری ظفرا للہ رحمہ اللہ وفات (1997جون )میں کراچی میں قائم کیا جامعہ کا آغاز 1978ء میں ہوگیا تھا لیکن اس کو مثالی بنانے میں چوہدری ظفر اللہ رحمہ اللہ مرحوم نے سعی و کوشش کی کہ وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک روشن باب ہے ۔
اس جامعہ میں ذریعہ تعلیم عربی کو قرار دیا گیا ہے جو اللہ کے فضل وکرم سے کامیابی سے چل رہا ہے اس جامعہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ کہ کسی غیر عرب ملک کی پہلی غیر سرکاری درسگاہ ہے جس میں ذریعہ تعلیم عربی ہے اس کا نصاب ِتعلیم مدینہ منورہ کی جامعہ اسلامیہ اورریاض کی جامعہ امامحمد بن سعود سے ہم آہنگ ہے اس کے اساتذہ کے تقرر کا معاملہ عام جامعات سے مختلف ہے اساتذہ عالم اسلامی کی سات مشہور جامعات سے لئے گئے ہیں یعنی
1جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ
2جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
3جامعہ امام محمد بن سعود الریاض
4جامعہ ازہر قاہرہ مصر
5جامعہ خرطوم سوڈان
6جامعہ بغداد عراق
7جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی (باکستان)
نصاب تعلیم کے علاوہ:
اس جامعہ کا بنیادی مقصد عقیدہ سلف کی نشرو اشاعت اوراس کے مطابق قرآن وسنت نبوی ﷺ کے احکام طلباءکے ذہنوں میں راسخ کرنا اور امت مسلمہ کو اتحاد واتفاق کی سیدھی راہ پرلگانا ہے ۔
چوہدری ظفراللہ رحمہ اللہ اس جامعہ کو بلندی کے مقام پر پہنچاناچاہتے تھے اور ان کے ذہن میں اس جامعہ کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے کئی ایک پروگرام تھے لیکن ہوتا وہی ہے جواللہ کو منظور ہوتا ہے انہوں نے سردست جامعہ میں ایک بہت بڑی لائبریری قائم کی جس میں ہر فن کی کتب یعنی تفسیر ،حدیث ،فقہ ، رجال ،تاریخ، فلسفہ ، منطق،ادب معاشیات ،لغت ،سیاسیات ،وغیرہ پر ہر زبان (عربی وفارسی ،اردو انگریزی میں کتابوں کازخیرہ جمع کیا ہے ۔
چوہدری صاحب کے ذہن میں جو منصوبے تھے وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے آپ نے 3جون 1997ء کو اپنےدو صاحبزادوںایک بھانجا اور خالہ کے ہمراہ
کار حادثہ میں انتقال کیا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون ،اللہم اغفرلہم وارحمہم ۔

مجلہ اسوہ ٔحسنہ کا اجرا ء:
مجلہ اسوہ حسنہ کااجر اء 2009ءسے ہو ا،اس وقت مجلہ کی جلد نمبر 10چل رہی ہے اس کا اجراء چوہدری ظفر اللہ کے معاونین فضیلۃالشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ ا للہ ، فضیلۃالشیخ ضیاء الرحمٰن المدنی حفظہ اللہ ، فضیلۃالشیخ محمد طاہر آصف حفظہ اللہ ،اور اس کے سرپرست اعلی ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ ہیں ۔ فضیلۃالشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ ا للہ اسکے مدیر اعلی وبانی اور روح رواں ہیں مجلس ادارت میں جماعت اہلحدیث کے نامور علماءکرام ،عظیم اسکالر اور مصنف ادیب افراد شامل ہیں ڈاکٹرمحمد حسین لکھوی ،صوفی محمدعائش (ماموں کانجن )، ڈاکٹر عبد الحئ المدنی ،ڈاکٹر فیض الابرار صدیقی اور کئی دوسرے مشائخ شامل ہیں ۔مجلہ اسوہ ٔ حسنہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ترجمان ہے یہ رسالہ پابندی کے ساتھ ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا ہے ۔مضامین کے سلسلے میں اس میں یہ التزام رکھا گیا ہے کہ جو مضمون کی شکل میں یا کسی کتاب میں چھپانہ ہو ،ہر مضمون بلند پایہ،علمی و تحقیقی ہوتا ہے بعض مضامین بہت طویل ہوتے ہیں جو کئی کئی قسطوں میں شائع کیے جاتے ہیں ،اس کا اداریہ محترم ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں اداریہ کے علاوہ دیگر موضوعات پر ڈاکٹر صاحب کے مضامین مجلہ اسوہ ٔحسنہ کے زینت بنتے ہیں اس رسالے میں ہر سال آخر میں ایک مضمون عربی کا شامل اشاعت کیا جاتا ہے ۔اداریہ
میں ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ تاریخ اہلحدیث اور مسلک اہلحدیث کی اشاعت او رملک کے عام حالات پر ملکی مسائل پر اور تعلیمی مسائل پر سنجیدہ اور متوازن اظہار خیال ہوتا ہے اور کبھی کبھی علمی دنیا کی خاص بات پر علمی اظہار خیال کیا جاتا ہے ۔
مجلہ اسوۂ حسنہ کی ایک خاص چیز نئی کتابوں پر تبصرہ ہے تبصرہ اصلاََ نئی کتابوں شائع ہونے پر کتابوں کے بارے میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی اور کتاب کاموضوع بنایا گیا ہے ،وہ حقیقت پر مبنی ہے یا قارئین کو دھوکا دینے کے لیے لفاظی کی گئی ہے ۔
تبصرہ نگار کا فرض ہے کہ کتاب کے بارے میں واضح الفاظ میں بیان کیا جائے اور پوری دیانتداری سے بتایا جائے کہ اس کتاب میں کہاں خامیاں ہیں اوراس بارے میں مصنف کو اور ناشر کتب کو مشورہ دیا جائے ۔

ارشاد نبوی ﷺ ہے :

المستشار مؤتمن
جس سےمشورہ لیاجائے اس کو امین ہونا چاہیے۔
تبصرہ نگار اگر کسی کتاب کے بارے میں جانبداری اختیار کرتا ہےتو وہ قارئین ِکتاب سے خیانت اور بد دیانتی کرتا ہے۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ کے تبصرہ نگار نے کبھی بھی کسی کتاب کی بے جا تعریف نہیں کی اور ہمیشہ کتاب کے بارےمیں ،جس موضوع پر کتاب ہے اسے احاطہ تحریر میں لائی گئی اس کو واضح کیا گیا ہے نہ کسی کتاب بے جا تعریف کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کتاب کی تنقیص کی گئی ہے ۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ ہر لحاظ سے بڑاعلمی ،اصلاحی ،تحقیقی،تاریخی او ر معلوماتی ماہنامہ ہے ۔مجلہ کا ادارتی عملہ اورخاص کر اس کے مدیر اعلی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ نے صحافت کی دنیا میں اس کو بام عروج پر پہنچانے میں جو سعی وکوشش کی ہے اور مزیداس کو صحافتی دنیا میں اس کو خاص مقام دلانے کے لیے بہت زیادہ خواہش مند ہیں اللہ تعالی اس سلسلے میںانکا معاون و مددگار ہو ا۔
اللہ تعالی مکی صاحب حفظہ اللہ کے جو عزائم ہیں ان میں انہیںکامیابی و کامرانی عطافرمائے ۔
مجلہ اسوہ ٔحسنہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی مدت اشاعت 10سال ہے اور میری معلومات میں مندرجہ ذیل مجلات خصوصی نمبر زکے ساتھ شائع ہوئے ہیں :
1قرآن کریم
2دفاع ناموس رسالت ﷺ
3سیرت رسول ﷺ
4مؤسس الجامعہ ’’پروفیسر شیخ محمد ظفر اللہ ‘‘ رحمہ اللہ
5دفاع بلادِ حرمین شریفین
6 بے دینی ، دہریت اور الحاد پر علمی محاسبہ وتعاقب
7 تذکرئہ خیر البشر ﷺ
ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفطہ اللہ مبارک باد کے مستحق ہیں جو مجلہ اسوہ حسنہ کی ترقی وترویج میں ہمہ تن مصروف ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کےعلم وعمل میں برکت عطافرمائے۔آمین یا رب العالمین
۔۔۔

تحریک ختم نبوت میں علماء اہلحدیث کی خدمات

الحمدللہ رب العالمین والسلام علی خاتم الانبیاء والمرسلین اما بعد!
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا

ترے وجود پہ فہرست انبیاء ہے تمام
تجھی پہ ختم ہے روح الامیں کی نامہ بری
شریعت کے محل کی آخری اینٹ ہے تو کامل
ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر
نہیں ہے باپ گرچے تو کسی بھی مردکا لیکن
تو مُہر انبیا ء ہے شان رسالت ختم ہے تجھ پر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
صدر مجلس اور میرےہم مکتب ساتھیوں ،ارباب علم دانش
100آیات کریمہ 200احادیث متواترہ 1200صحابہ کرام کی شہادتیں سیدنا حبیب بن زید انصاری tکا تاریخ ساز جملہ ’’أنا أصم لا أسمع‘‘ آتش نمرودی کی طرح آتش عنسی سے ابو مسلم خولانی کا جلوہ گر ہونا اس چوکھٹ کی چو کیداری کرتے ہیں
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جان سےگزر گئے
راہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گر بنادیا
اربا ب علم و حلم : مفتی یا مستفتی کا میدان ہو ،یا قلم و قرطاس کا بحرِکتابت ،یاکارواں قادیاں ہو ،یا تاریخ کی معرکہ آرائیاں ،یا لیل ونہار کی گردشیں ،یا رزم وبزم کی داستاں لکل فرعونٍ موسی کو جواز رکھتیں ہیں فتنہ قادیانیت نے جب ہندوستان کی دھرتی پر سر اٹھایا تو اس کی سر کوبی کے لیے جن نفوس مقدسہ نے قربانیاں دیں تاریخ انہیں اہلحدیث کے نام سے یاد کرتی ہے یہ وہ طائفہ منصورہ ہے جو قادیانیت کے لیے تلوار بے نیام کی حیثیت کا حامل ہے یہ وہ حزب اللہ ہے جس نے مرزائیت کو ناکوںچنے چبوائے ۔
ستیزہ کار رہاہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لھبی
شرفائے ملت ! جب ابلیسانہ تلبیس و التباس کے کالےبادل نمو دار ہونے لگے تو اہلحدیثوں کے سر خیل اور ثانی اثنین کے جانشین مولانا محمد حسین بٹالوی کی شکل میں آتےہیں جب گزری ہوئی ضیا ءپاشیا ںڈھونڈتا ہوں تو شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی کو اول المکفرین کا نشان حیدر ملتا ہے جب افق عالم کو دیکھتا ہوں تو مرد میداں مناظر اسلام دلائل و براہین کے سمندر بہا دینے والا شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری کا وجود ملتا ہے 1893میں فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ(آل عمران:61)
کی عملی تفسیر میں صوفی عبد الحق غزنوی کی صورت ملتی ہے
اولئك ابائی فجئنی بمثلہم
صدر مجلس ! جب قلم و قرطاس سے گواہی طلب کرتا ہوں تو جواب میں مولا نا اسماعیل علی گڑھی کا نام ملتا ہے ان کے ساتھ ساتھ قاضی سلیمان منصور پوری کی ’’غایت المرام ‘‘ اور علامہ ابراہیم میر سیالکوٹی کی ’’شہادت القرآن ‘‘ عربوں پرعجم نے اس فتنےکو تار تار کیا اور وجہ التسمیہ ھذہ الجامعہ کے مصنف علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ’’القادیانیت ‘‘ ملتی ہے فتوائے الہام سے لکھوی خاندا ن کی خوشبو آتی ہے تحریک ختم نبوت سے فرزند ارجمند کی جھودد ملتی ہے
کیا عشق نے سمجھا ہے کیا حسن نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
عالی وقار!جب یہ کارواں 1953کے قرینہ پر پہنچا تو پاک سرزمین پر علمائے اہلحدیث ہراول دستہ کے سپاہ تھے مفکر اہلحدیث مولانا حنیف ندوی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ پاک پر چم کے پاک سائے تلے پلید لوگوں کا پلید سایا نا قابل برداشت ہے پھر قادیانی اس ملک وملت کے غدار ہیں شہزادہ اہلحدیث داؤد غزنوی اور انکے رفقاء یہ صدا بلند کرتے نظر آتے ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے ۔
یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا
ہر مدعی کے واسطے یہ دار ورسن کہاں
سامعین باتمکین !1965کی جنگ کے احوال وکوائف کے دستاویزی ثبوت ہوں یا پاک بھارت جنگ آغاز سے لیکر شملہ معاہدہ تک کی پوری تاریخ یا پنجاب وکشمیر پر مشتمل ریاست کی تشکیل کا نعرہ ہو یا 1971کی جنگ مشرقی پاکستان میں سازشوں کا جال ؟جس کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان اور کم وبیش ایک لاکھ فوجی وسول نفری کا’’ جنگ قیدی ‘‘بنا نااس کے پس منظر میں سیاہ دل سیاہ ہاتھ سیاہ چہرے قادیانیوں کے تھے
عالی وقار !پاکستان میں خالص اسلامی نظا م کی دو وجوہات ہیں:
1 قادیاں ہندوستاں میں رہ گیا ۔
2جماعت خلیفۃ المسلمین کی ہدایات اور فیوضات سے محروم۔
زمانہ تعبیر ہے ان قوتوں سے ان عوامل سے ،خیالات وافکار کی ان موجوںسے جو زندگی کی زنجیر بنانے میں حصہ لیتی ہے آخری سوال ابراہیم کمیر پوری کی شکل اختیا ر کرتاہے یا آخری وار یا آخری فیصلہ فاتح قادیاں ثنا ء اللہ امر تسری کا روپ دھارتا ہے 7ستمبر 1974کا دن پاکستانی تاریخ کا یاد گار دن ہے جب 1953اور 1974کے شہیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا ملی اور اسلامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر ملک وملت کواس ناسور سے پاک کرتے ہوئے قادیانیوں کو دائرئہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیاگیا۔
باطل سے دبنے والے اےآسماں نہیں ہم
سوبار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
والسلام

ابن ِخدا ا ناجیل کا تضاد اوراصل حقائق

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علٰی من لا نبیّ بعد امابعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا

’’اورکہتے ہیں کہ رحمٰن بیٹا رکھتا ہےایسا کہنے والویہ تو (تم بری بات)زبان پرلاتےہو۔ قریب ہے اس(جھوٹ) سےآسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گِرپڑیں۔ (مریم:88۔90)
عالم عیسائیت سیّدنا یسوع علیہ السلام کوبغیر باپ کی پیدائش کی وجہ سے ’’ اِبن اللہ‘‘خُداکا بیٹاقرار دیکر ان کی پرستش کر رہا ہے:
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے خود دعویٰ کیاتھا یاکیا روح القدس نے خبر دی ؟کیا سید نا عیسٰی علیہ السلام کے شاگردوں نے آپؑ کے خدا کا بیٹا ہونے کی تبلیغ کی یا کسی بیرونی غیر معروف اور مشکوک شخصیت یا الفاظ ہیں :اس بارے میںاناجیل کے بیانات کی کیا حقیقت ہے ؟
بعض واقعات کو صرف ایک انجیل نے بعض کو دو نے بعض کو تین اور بعض واقعات کو چاروں میں بیان کیا گیا ہے:جن واقعات میںاناجیل کا اختلاف ہے وہ قابل قبول نہیں ہو سکتے جن میں متفق ہیں ان پر سوال اٹھایا جائیگا۔ عام عیسائیوں سے امید ہے کہ وہ غیر جانبداری سے ان پر غور کریں گے اور علماء سے امید ہے کہ ان سوالوں کے جواب دیکر مشکور فرمائیں گے۔
1اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے’’ خُدا کا بیٹا‘‘ ثابت کرنے کی کوشش:
’’اور یسُوع بپتسمہ پا کر فی الفورپانی کے پاس سے اوپر چلاگیااورد یکھو آسمان اس کیلئے کھل گیا اور ا س نے خدا وند کے روح کو کبوتر کی مانند ا پنے اوپر ا ٓتے ا ور ٹھہرتے د یکھا اور د یکھو آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہو ں۔‘‘(انجیل متّٰی:3/16-7)
تضاد:اس واقعہ کو چاروں انجیلوں میں بیان کیا گیا ہے: مرقس(1/9) لوقا (3/22)اور یوحنا (1/32) میں بیان کیا ہے:مرقس اور لوقا کے الفاظ ذرا مختلف ہیں : انہوں نے ’’یہ میرا پیارا بیٹا ‘‘کی بجائے ’’تو میرا پیارا بیٹا‘‘ کہا ہےمتّی کے الفاظ کے مطابق تو آواز بلا واسطہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہے جبکہ مرقس اور لوقا کے مطابق لوگوں سے مخاطب ہے۔ اسلام میں تو یہ بہت بڑا فرق ہے شاید عیسائیت میں اتنے فرق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ بہرحال یوحنّاان تینوں سے ہی بہت مختلف ہےاسلئے اس پر بعد میں گفتگو ہوگی،پہلے ان تینوں انجیلوں کے متفقہ واقعہ کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں:
مذکورہ بالا واقعہ میں تین نقاط قابل توجّہ ہیں:
1 یسُوع علیہ السلام سے بپتسمہ لیا
2 آسمان کھُلااور روح القدّس کبوتر کی کی شکل میں
یسُوع علیہ السلام کے کندھے پر آکر ٹھہر گیا:
3آسمان سے آواز آئی کہ ’’ یہ میر اپیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں‘‘
یاد رہے کہ بپتسمہ گناہوں کی معافی کیلئے لیا جاتا ہے بپتسمہ لینے والا دینے والے کا مرید بنتا ہےسیّدنا یسُوع علیہ السلام نعوذباللہ گنہگار تھے اور انہوں نے اپنے گناہوں کی معافی کیلئے یوحنّاعلیہ السلام سے بپتسمہ لیا اوراُن کے مرید ہوئے۔مرقس10/18اورلوقا 18/19 میں ایک شخص نے سوال کیا’’ایک نیک استاد ! میں کیا کروں کہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟ یسُوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ۔ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خُدا‘‘یسُوع علیہ السلام نے اپنے نیک اورگناہوں سے پاک نہ ہونے کا خود اقرار کیا :متّی نے اس واقعہ کو 19/17میں بیان کیا ہےمگر ا س میں’’تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے‘‘کوبعد میں بدل کر’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے‘‘کر دیا گیا ۔حالانکہ عیسائی علماء کے بقول متّی نے چھ سوسے بھی زائد آیات کو مرقس کی انجیل سے اخذکیا ہے: اس دعوے سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت مرقس کے مطابق تھی مگر کسی پادری نے کفارے کے عقیدہ کو زد میں آنے سے بچانے کیلئے یسُوع علیہ السلام کو گناہوں سے پاک ثابت کرنے کی کوشش میں یہ تبدیلی کی ہے: جبکہ پولس نے رومیوں کے نام خط 8/3میں لکھا ہے ’’اُس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کیلئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا‘‘سوال ہے کہ بائبل یسوع علیہ السلام کو گناہگاراور گناہ آلود کہتی ہے مگر عیسائیت انہیں گناہوں سے پاک اور معصوم قرار دیکر ان کی صلیب کو گناہوںکاکفارہ کس طرح کہہ سکتی ہے؟کفارہ رضامندی سے ہوتا ہے مگر یسوع علیہ السلام صلیب پر رضامندبھی نہ تھے ۔
مذکورہ بالا سوال تو ضمناً آگیا ہے :جہاں تک آسمان سے آنے والی آواز’’ تو میرا پیارا بیٹا ہے‘‘کا تعلق ہے اس واقعہ میں قابل غور بات یہ ہے کہ انبیاء کرام تک اللہ کا پیغام پہنچانے والا فرشتہ روح القدّس سیّدنا یسُوع علیہ السلام کے کندھے پر موجود ہے :اب آواز دینے دو ہی شخصیتیں باقی رہ جاتی ہیں:پہلی رحمٰن اور دوسری شیطان۔ آواز کے الفاظ’’یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں‘‘یا ’’تو میرا پیارا بیٹا ہے ۔ تجھ سے میں خوش ہوں‘‘بتا تے ہیں کہ آواز دینے والا خُود اللہ تعالیٰ ہے ۔
اس حقیقت میں مسلمانوں اورعیسائیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں تک احکامات پہنچانے کیلئے بے شمار انبیاء کرام معبوث فرمائے اورہر نبی کو اپنی تصدیق کیلئے معجزات دیکر بھیجا، بائبل کے مطابق بے شمار انبیاء کرام کونہ صرف جھٹلایا گیابلکہ متعدد کو انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا ؟مگر اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی تصدیق کیلئے یا اسے ظلم سے بچانے کیلئے آسمان سے خود آوازنہیں دی :اگر ایسا ممکن ہوتا توکم از کم اپنے بیٹے کو صلیب دیئے جانے پر تو ضرور ہی یہودیوں کو منع فرما دیتا:
جب بائبل کے مطابق اللہ تعالیٰ کا عام انسانوں کو اپنی آواز سے احکامات دینا ناممکن ہے تو پھر یہ آواز کس کی ہو سکتی ہے؟
جواب درکار ہے یا تو اللہ تعالیٰ کا اسطرح مخاطب ہونا ممکن ثابت کیا جائے یا پھر۔؟اب دیکھئے یوحنا کو اس واقعہ کا الہام کیا ہوااور اس نے اس واقعہ کے بیان کرنے میں کیا گُل کھلائے ہیں۔
2یوحنّا (یحییٰu)کی زبان سے غلط گواہی:
’’اور یوحنا نے یہ گوا ہی دی ہے کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح ا ترتے د یکھا ہے اور وہ اس پر ٹھہر گیا ا ور میں تو اسے پہچانتا نہ تھامگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ د ینے کو بھیجا ا سی نے مجھ کو کہا کہ جس پر تو روح کو ا ترتے اور ٹھہرتے د یکھے وہی روح ا لقد س سے بپتسمہ د ینے والا ہے ۔ چنانچہ میں نے د یکھا اور گوا ہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے۔(انجیل یوحنّا1/32)
نوٹ :انجیل لکھنے والا یوحنّا ’’حضرت یوحنّا اصطباغی‘‘ یا ’’یوحنّا بپتسمہ دینے والے‘‘ یا’’حضرت یحییٰ علیہ السلام‘‘ کی گواہی درج کر رہا ہے۔
مذکورہ حوالے پر غور فرمائیں ! صاحب انجیل نے اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت یوحنّا علیہ السلام پر کس قدر گھنائونابہتان باندھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بتا یا تو یہ گیا تھا کہ جس پر تو روح کو کبوتر کی مانند اترتے دیکھے وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے والا ہوگا: لیکن جب انہوں نے یسُوع علیہ السلام پر روح کو اترتے دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی شہادت دینے کی بجائے اپنی طرف سے اضافہ کر کے گواہی دی کہ یہ خُدا کا بیٹا ہے ۔یقینا اللہ کا پیغمبر اس بہتان سے پاک ہے اورصاحب انجیل اور اس واقعہ کو سچا جان کر اس کی تصدیق کرنے والوں سے ضرور سوال ہوگا اورجواب دیئے بغیر اپنی جگہ سے حرکت نہ کر سکیں گے۔
بہرحال عام فہم انسان بھی اگر غیر جانبداری سے غور کرے تو اس پر واضح ہو جاتا ہے یہ الفاظ اس تحریر کو لکھنے والے کے نہیں ہو سکتےکیونکہ ذرا سی سمجھ بوجھ رکھنے والا راقم اگر خود یسُوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹا لکھنا چاہتا تو پہلے فقرے میںہی جہاں” وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے والا ہے” لکھا ہے اس کی جگہ ہی ” وہی خُدا کا بیٹا ہے” لکھتا ۔ انجیل کا مصنّف اتنا غائب الدماغ نہیں ہو سکتا کہ اگلے فقرے میںاپنے پہلے فقرے تردید کردے اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو صاحب انجیل انتہائی جاہل تھا جس نے جڑواں فقرات میں اپنی ہی بات کے الٹ لکھ کر اپنی جہالت کا ثبوت فراہم کر دیا: دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ صاحب انجیل نے” وہی روح القدّس سے بپتسمہ دینے ولا ہے” تک لکھا ہو اور کسی خوف خُدا سے عاری پادری نے بعد میں اپنے خود ساختہ عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے” خُدا کا بیٹا ہے” کے الفاظ اللہ کے پیغمبر کے منہ میں ڈال کر بائبل کی تعلیمات کے خلاف اپنے عقیدے پراللہ کے پیغمبر کی مہر ثبت کرنے کی کوشش کی ہے یہی امر غالب نظر آتا ہے تعجّب ہے کہ اضافہ کرنے والا امتحان میں نقل لگانے والے طالب علم کی طرح جلدی بازی سے اضافہ کرتے ہوئے اتنا بھی نہ سوچ سکا کہ نہ صرف پیغمبر اس طرح کے تضاد کا مرتکب نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اضافہ تحریر کو بے ربط کرتے ہوئے اس کی جلد بازی اورجہالت کی چغلی کھاتا رہے گااور صاحب شعور لوگوں سے اسکی چوری پوشیدہ نہ رہ سکے گی :
3بادل سے اللہ تعالیٰ مخاطب ہوا :
د یکھو ایک نورا نی بادل نے ان پر سایہ کر لیا اور ا س سے آوا زآ ئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں اس کی سنو۔(انجیل متٰی: 17/5 )
موازنہ:یہ واقعہ انجیل مرقس (9/8)اور لوقا (9/36) میں بیان کیا گیا ہے ۔ مگر انہوںنے “جس سے میں خوش ہوں”نہیں لکھا :
تجزیہ: مذکورہ واقعہ بھی آسمان سے آنے والی آوازکی طرح ّ (جو روح کے کبوتر کی ماننداترتے وقت آئی تھی) ذرا فرق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کا تجزیہ بھی وہی ہے جو گزر چکا ہےلیکن اس واقعہ کی جزئیات کے ضمن میں چند سوالات جواب طلب ہیں۔
1اس کی سنو”کا حکم وہاں موجود لوگوں کے لئے تھا یا تمام لوگوں کے لئے؟ اور کیا یہ آواز موجود لوگوں نے سنی یا ساری دنیا میں سنائی دی ؟
اگر کوئی کہے کہ یہ آواز صرف وہاں پر موجود لوگوں نے سنی اور یہ حکم ان ہی کے لئے تھا: واضح ہو اس وقعہ میں یسُوع علیہ السلام کے ساتھ سب سے پہلے ایمان لانے والے تین حواری حضرت پطرس اور زبدی کے دوبیٹے حضرت یعقوب اور حضرت یوحنّا تھے ان کے ایمان ،جانثاری اور یسُوع علیہ السلام کی نظر میں ان کی اہمیّت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ بارہ حواریوں میں سے ساتھ لے جانے کیلئے ان تینوں کا انتخاب کیا گیااناجیل کے مطابق ایمان لانے سے پہلے انہوں نے نہ تو کسی معجزے کامطالبہ کیانہ کوئی اور سوال کیا بلکہ صرف اتنا کہنے پر کہ میرے پیچھے ہو لواپنا سب کچھ وہیں چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہوگئےیہاںتک یعقوب اوریوحنّانےاپنے بوڑھےباپ کوکشتی میںاکیلاچھوڑ دیااوراس سے اجازت لئے بغیر یسُوع علیہ السلام کے ساتھ چل دیئے اب سوال ہے کہ وہ تو پہلے ہی عیسٰی علیہ السلام کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر آپ کے ساتھ ہو گئے تھے اور آپ کا ہر حکم سرآنکھوں پر سمجھتے تھے:پھر انہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی زبان سے اس کی سنوکا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی اور اگرکوئی کہے کہ یہ حکم ان کو نہیں بلکہ باقی تمام لوگوں کو تھا تو ظاہر ہے کہ یہ آواز پوری دنیا میںیاکم از کم پورے ملک میںسنی گئی ہوگی؟
تو سوال ہے کہ جو لوگ وہاںسے دور تھے ان کو کیسے پتہ چلے گا کہ آواز دینے ولا کون ہے اورکون کس کا بیٹا ہے ؟ کیونکہ نہ تو آواز دینے والے نے اپنا نام بتایاکہ میں تمہاراخالق بول رہا ہوں اور نہ یسُوع علیہ السلا م کا نام ہی لیاکہ یسُوع میرا بیٹاہے ۔کیا ان واقعات کو الہامی کہنے والا ان سوالوں کے جواب دینا پسند فرمائے گا۔؟ کیا کوئی باشعور شخص اس من گھڑت او ر بے سرو پا واقعے کو سچا مان سکتا ہے؟
یہ آواز اللّٰہ تعالیٰ کی نہیں ہو سکتی:کیوں؟
اس امر میں مسلمانوںاور اہل کتاب میںکوئی اختلاف نہیں کہ خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کیلئے ان تک اپنے احکامات پہنچانے کیلئے انبیاء ورُسل معبوث فرمائےاپنی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے ہر نبی کو معجزات دیکر بھیجاگیا خود یسُوع علیہ السلام بھی معجزات لے کر آئےاگر اس طرح آواز دیکر انسانوں سے مخاطب ہونا مناسب یا ممکن ہوتا تو اپنا پیغام پہنچانے کیلئے انبیاء کرام کو معبوث فرمانے کی کیا ضرورت تھی معجزات کی بجائے خود ہی تصدیق کیوں نہ فرمادی فرعون نے معجزات کوجادوکہہ کر ردّ کر دیا تھا تو اسے ہی اللہ تعالیٰ نے کیوں نہ بتادیا کہ موسیٰ میر ا پیغامبر ہے اور یہ جادونہیں بلکہ میرے عطاکیے ہوئے معجزے ہیںنہ ہی خالق انسانیت نے کبھی آسمان سے آواز دیکر اپنے کسی نبی کی تصدیق فرمائی نہ انسانوں سے بلاواسطہ مخاطب ہو کر کوئی حکم دیا :عام انسانو ںسے اس طرح مخاطب ہونا خالقِ انسانیت کی شان کے منافی اور سنت کے خلا ف ہے۔
دوسرا یہ کہ عام انسان تو بہت دور کی بات ہے اللہ کے عظیم پیغمبر حضرت موسٰی کلیم اللہ نے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی نشانی آگ دیکھ کر اور اس سے آنے والی آواز سن کر اپنی جان کے لالے پڑھ گئے اوراللہ سے درخواست کی کہ
’’ مجھ کو نہ تو خدا وند ا پنے خدا کی آوا ز پھر سننی پڑے اور نہ اتنی بڑی آگ کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جائوں۔( کتاب استثناء 18/16)
جب ایک پیغمبر کا یہ حال ہے تو عام گنہگار انسان کی سماعت اس قابل کہاں کہ وہ اپنے خالق کی آواز کی ہیبت اور اس کے جلال کو برداشت کرسکے:ویسے بھی کسی بادشاہ کے قاصد کا حکم ٹالنے والے کو تو تنبیہہ کی جاتی ہے لیکن خود بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی حکم عدولی پر فوراً سزا واجب ہو جاتی ہے :بیعنہ انبیاء کرام کی تکذیب پر اس زندگی میں توبہ کرنے کی مہلت دی جاتی ہے:لیکن بلاواسطہ خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے دیئے گئے حکم کو نہ ماننے والوں کو زندہ نہیں رہنے دیا جا سکتااگر مذکورہ بالا الفاظ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہوتے تو یسوع علیہ السلام کی تکذیب کرنے اور انہیں صلیب پر لٹکانے والا ایک بھی یہودی زندہ نہ رہتا :کیونکہ اگر آپ کی حکم عدولی پر آپ کے ملازم کی سزا نوکری سے جواب ہے تو اللہ کے بلاواسطہ حکم نہ ماننے کی سزا فوری عذاب اور موت ہی ہو سکتی ہے صاحب انجیل نے خود اللہ تعالیٰ کی زبان سے یسُوع علیہ السلام کو اپنا بیٹا کہلوانے کی ناپاک کوشش میں یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے بیان کے مطابق خُدا تعالیٰ کا کیسا کمزرو تصور ابھر کر سامنے آتا ہے:وہ ایک عام انسان کی طرح اہل یہود کو بتا رہے ہیں کہ یہ میر اپیارا بیٹا ہے مگر یہودی نہ صرف اللہ کے بیٹے کی معجزانہ پیدائش اور صداقت کوماننے بجائے انہیںولدالزنا اور بد روح زدہ قرار دیکر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ایک عام انسان کی طرح بے بسی سے نہ اپنے بیٹے کو بچا سکا نہ انہیں کوئی سزادے سکا :صرف کر سکاتو اتنا کہ جس طرح مظلوم مقتول کے ورثاء لاش وصول کرتے ہیں تیں دن کے بعد اپنے مردہ بیٹے کی لاش میں جان ڈال کر اپنے پاس بلالیا: سبحان اللہ عمّا یصفون
4روح القدّس کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش:
(انجیل متٰی:1/20) انجیل لوقا: (1/30-2)
خدا وند کے فرشتہ نے خواب میں د کھائی دے کر کہا ۔ اے یوسف ا بن” فرشتہ نے ا س سے کہا ۔ اے مریم خوف نہ کر کیونکہ خدا وند کا تجھ پر فضل دا ؤد ا پنی بیوی مریم کو ا پنے ہاں لے آنے سے نہ ڈ ر کیونکہ جو کچھ اسکےہو ا ہے ۔ د یکھ تو حاملہ ہو گی ا ور تیرے بیٹا ہوگا ۔ا س کا نام یسوع رکھنا ۔ پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قد رت سے ہے ۔ اس کے بیٹا ہوگا اور وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گاا ور خدا وند ا سے اس کے تو ا س کا نام یسوع رکھنا ۔کیونکہ وہی ا پنے لوگوں کو گناہوں سے پاک کریگا”باپ دا ؤد کا تخت اسے د یگااور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کریگا”
متّی کی بشارت میں درج ذیل نقاط قابل ذکر ہیں:
1مریم علیہ السلام کنواری نہیں بلکہ یوسف کی بیوی تھیں۔
2بیٹے کی کی بشارت مریمؑ کی بجائے اس کے فرضی شوہر یوسف کو دی گئی۔
3 اور نام رکھنے کا حکم بھی یوسف کو دیا گیا۔
4مریم علیہ السلام کوبیٹے پیدائش سے بے خبر رکھا گیا۔ جو ناممکنات میں سےہے ۔
5 یسُوع علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل کو گناہوں سے پاک کریں گے۔
6 غیر قوموں سے انکا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیافوائد اور نقصانات

سوشل میڈیا ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں ۔کیونکہ سوشل میڈیا لوگوں کو تبادلہ خیالات اور اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے آج کے دور میں جبکہ ہر فرد کو اپڈیٹ رکھنے کا شوق سر چڑھ کر بول رہا ہے اور میڈیا اس سلسلے میں بھرپور متحرک ہے اور حقیقت پر مبنی یا غیر حقیقی معلومات کی طرف بھرمار ہے تو اس عالم میں سچائی کو تلاش کرنا بہت ہی مشکل ہوچلا ہے۔ میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا کم از کم ایک ایسا ٹول ہے کہ جس پر استعمال کنندہ کی گرفت ہوتی ہے اور جو وہ چاہے پھیلا سکتا ہے اسی لئے پیمرا کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس میڈیم کے مثبت اور قومی یکجہتی کے فروغ میں استعمال کی کوئی خاص شکل وضع کرے تاکہ استعمال کنندہ اس میڈیم کے مثبت استعمال ہی کا پابندہو، تبھی یہ ممکن ہوگاکہ سوشل میڈیا کے اس بے لگام گھوڑے کو لگام دی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جس پہ انفارمیشن کی ریل پیل ہے اور ہر دوسرا فرد اپنی مرضی سے ہر وہ چیز شئیر کرنے پہ تلا ہوا ہے کہ جس کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان نسل اس میڈیم کی رنگینیوں میں مست ہے ، وقت کے ضیاع یا ذہنی تناو کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔ نوجوان نسل میں اخلاقی پستیوں کی بڑی وجہ بھی یہی سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس میڈیم کے ذریعے آپ جب اور جہاں چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔ نازیبا اور فحش مواد تک اسی رسائی نے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ کو جنم دےکر معاشرے سے دور کر دیا ہے اور آج آپ دیکھ لیجئے یہی نوجوان معاشرے کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کو پاکیزہ تفریح اور سیر کے ساتھ ساتھ کھیل کے مواقع فراہم کرکے ان بیماریوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں میں یہی نقائص پیدا کر نے کےلئے اغیار نے سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پہ لیا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کر رہے ہیں انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کرکے ہمارے نوجوان کو حالت جنگ میں مبتلا کر رکھا ہے ، ایک ایسی جنگ جو غیر واضح ہے یہی وجہ ہے آج کا نوجوان اس کو جنگ سمجھنے پہ آمادہ ہی نہیں ۔
مغرب نے انفارمیشن کے ذریعے ذہنوں پہ کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کر رکھا ہے ہمارا نوجوان اس سے بے بہرہ ہے
معاشرے کے ذمہ داران کو چاہئیے کہ وہ ان فارغ نوجوانوں کو مثبت مصروفیات فراہم کرکے ان کی سوچوں کا رخ و محور بدل دیں تاکہ یہ نوجوان نسل ملک کے لئے مفید ثابت ہو۔
تبدیلی دو قسم کی ہوا کرتی ہے ایک تو وہ جو نظر آتی ہے اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی، سوشل میڈیا یہ دوسری قسم کی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے ایک ایسی تبدیلی جو نظریات و
عقائد سوچ اور جذبات میں آرہی ہے لیکن نظر نہیں آتی،
کیا یہ کم خطرناک بات ہے ۔
آج کے مسلم نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں معلومات اسی سوشل میڈیا سے لیتا ہے اور اس میڈیم کی رنگین پوسٹوں سے اس کا ایمان بڑھتا ہے ،جبکہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے دین اسلام کو مکمل کرکے ہم تک پہنچا دیا تھا ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ مسلم نوجوان ایک لیڈر ہوتا کیونکہ لیڈر کو
اپنی منزل واضح نظر آرہی ہوتی ہے۔وہ مستقبل سے بھی آگے دیکھ رہا ہوتاہے مسلم نوجوان کو لیڈ کرنے والا ہونا چاہئیے تھا کیونکہ لیڈر ایک انڈر پرفارمنگ یونٹ کو ہائی پرفارمنگ یونٹ میں تبدیل کردیتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس کے عزائم اور ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے جو کہ الارمنگ سیچوئشن ہے۔
سوشل میڈیا جہاں کئی نقصانات کا حامل ہے وہیں یہ بہت سے فوائد بھی رکھتا ہے مثال کے طور پہ ایک تاجر یا بزنس مین لوگوں تک اپنی پراڈکٹس کی خبر پہنچانے کے لئے اس پلیٹ فارم کا سہارا لے سکتا ہے ۔ فیس بک ، ٹوئیٹر اور وٹس ایپ کے ذریعے یہ لوگ کم وقت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا کر اپنے بزنس کو بڑھا سکتے ہیں ، اسی طرح ایک پروفیشنل اپنی کامیابیوں کا سوشل میڈیا پہ بھرپور انداز میں ذکر کرکےاپنے لئے رائے عامہ ہموار کرسکتا اور مزید کامیابیوں کی راہیں کھول سکتا ہے ۔
سوشل میڈیا تجارتی،اور پیشہ وارانہ برانڈ سازی کے لئے زبردست امکانات رکھتا ہے نیز اگر ہم سوشل میڈیا کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھ کر لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھیں تو انٹرنیٹ عوام کےلئے زیادہ حوصلہ بخش ماحول فراہم کر سکتا ہے ۔
اسی طرح کسی بھی خاص چیز کے بارے عوام کی رائے معلوم کرنے کی خاطر اسی پلیٹ فارم پہ پول بھی بنائے جاتے ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پہ قرآن وسنت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عقیدے کی درستگی کا کام بھی احسن اندا ز میں کر سکتے ہیں
یہ سب مثالیں ہیں جو بتا رہی ہیں کہ سوشل میڈیا مثبت پہلو بھی رکھتا ہے ہمیں اسی مثبت پہلو کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو اپنے لئے اور ملک و ملت کے لئے مفید بنانا ہے۔
پاکستان مخالف
پاکستان مخالف ،اسلام مخالف ، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے مخالف اور بنیادی اسلامی عقائد مخالفین کے لیے اس تحریر میں چند پوائنٹس پوشیدہ ہیں۔
ایسے مخالفین جو ہیں تو مسلم لیکن جدیدیت کے بتوں سے متاثر ہوکر اپنے ہی بنیادی عقائد کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اوریورپ کی کھوکھلی چکا چوند سے متاثر ہوکر اپنی اصل کو نظر انداز کر چکے ۔
جدیدیت کے بتوں میں سے ایک بت میڈیا اور انتہائی جدید دور میں سوشل میڈیا ہے جس کے بارے میں میں نے لکھا کہ اس میڈیم نے نوجوانوں کی ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ وہ وقت کے ضیاع سے بے خبر اس میڈیم کی روشنیوں میں مگن ہوگیا ہے ۔
ایک نقصان تو یہ ہوا
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ یورپ نے انفارمیشن کے ذریعے اذہان پر کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کیا تھا اس کا لازمی اور انتہائی جلد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہمارے نوجوان ہمیں سے خائف ہوئے، مسلم نوجوان اسلام سے دور ہوئے۔
انتہائی پیچیدہ شکوک کو پھیلانے میں اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا اور آج کا نوجوان صرف اسی بات کو درست سمجھتا ہے جس پر کمبخت فیس بک ٹویٹر انسٹاگرام ٹمبلر کی مہر ثبت ہو ۔
سوشل میڈیا پر اس یقین نے اللہ واحد سے یقین اٹھا دیا ہے جس کے نتیجے میں آج کا نوجوان جہاں ایک طرف آزاد خیالی کا مرتکب ہوا ہے وہیں دوسری طرف آخرت اور قبر سے اس کا یقین جاتا رہا ہے ۔
آزاد خیالی ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ نوجوان دھڑلے سے اپنے ہی مذہب پر حملہ آور ہے (یہ حملہ خواہ قلمی صورت میں ہے یا مسلح جدوجہد کی شکل میں) اور پاکستان میں رہ کر بھی پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں پر لاف زنی کا مرتکب ہے ۔
یہ یاد رکھئے کہ خوبیاں اور خامیاں سبھی میں ہوتی ہیں لیکن یہ بھی عجیب ہے کہ جس خوبی کو سوشل میڈیا خامی کہہ دے ہمارا نوجوان اس کو خامی سمجھ کر متعلقہ فرد یا ادارے کو رگڑا لگانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ۔
آپ دیکھ لیجئے ماضی قریب سے شروع ہونے والا قصہ کہ کیسے سوشل میڈیا پر سعودیہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا گیا اور آج ہر نوجوان کی زبانی، قلمی اور فکری توپ کا رخ سعودی عرب ہی کی طرف ہے اسی کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں کو بدنام کرنے کی خاطر جو مہم شروع کی گئی اس میں بھی اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
جبکہ دوسری ہی طرف یورپ کی خامیوں کو خوبیاں بناکر پیش کیا گیا اور ہمارا نوجوان عقل سے پیدل ہوکر یورپ کی تقلید کو اپنی نجات کا سبب گرداننے لگاکیونکہ یورپ صرف ظاہری حالت پر یقین دلاتا ہے اور اس کی ہر تان مادیت پرستی پر ٹوٹتی ہے ۔
اور کون نوجوان ہوگا جو مال و ذر کا شیدائی نہیں لہذا لازمی طور پر ہر نوجوان یورپ کا شیدائی ٹھہرا ۔
یورپ میں قتل، ریپ، اغواء اور دیگر سبھی جرائم کی شرح پاکستان سے ہزار درجہ زیادہ ہے لیکن کوئی ایک بھی خبر کہیں نہیں ملتی کیونکہ یہی تو انفارمیشن پر کنٹرول ہےجبکہ دوسری طرف پاکستان یا اس کے اداروں میں بشری تقاضوں کے تحت ریزے کے برابر بھی کوئی غلطی مل جائے تو اسے برابر اور بھرپور اچھالا جاتا ہے اس سب کشمکش نے آج کے نوجوان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔
اور اس کے عقائد اور جذبات میں نظر نہ آنے والی تبدیلی رونما ہوچکی ہے جس کا لازمی نتیجہ اپنے ہم مذہبوں سے نفرت اور اپنی ہی وطن سے اکتاہٹ کی صورت میں نکلا ہے ۔
اس کی لیڈر شپ صلاحیتوں کو جس برے طریقے سے سوشل میڈیا نے قتل کیا ہے اس کے بعد یہ بےچارہ خود تو عضو معطل ٹھہرا ہی ہے لیکن دوسروں کو اس کے فرائض سے غافل کرنے میں مصروف ہے ۔
یہاں پر بصری آلودگی کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یورپ ہمارے نوجوان کو وہی دکھاتا ہے جو یورپ کو مطلوب ہوتا ہے اور یورپ کی طرف سے دکھایا جانے والا ہر منظر حقیقت میں اس سراب کی مانند ہے جو صحرائی سفر میں کسی مسافر کو نظر آتا ہے اور سراب کی حقیقت تو آپ سب جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی چکا چوند نے اس نوجوان کو سراب کی حقیقت سے نا آشنا کر رکھا ہے اور جب حقیقت اس پر آشکار ہوگی تب بہت کچھ سر سے گزر چکا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے دیگر عوامل بھی ہیں جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں لیکن تحریر کی طوالت آڑے آرہی ہے لہذا دیگر عوامل کو پھر پر اٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔

برصغیر کی تحریک آزادی میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ کا کردار

حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی تحدیث:
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (1966ء) لکھتے ہیں :

’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔
میاں صاحب کا یہ درس 60 برس تک قائم رہا ابتداء میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث وتفسیر پر کاربند رہے ۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص:19۔20)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ محمد اسحاق کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) نے دہلی میں سالہا سال حدیث کا درس دیا اور آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے جن میں مولانا عبد المنان وزیرآبادی( جن کی کثیرتعدادِ تلامذہ پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے) عارف باللہ سید عبد اللہ غزنوی امرتسری اور ان کے فرزند جلیل مولانا سید عبد الجبار غزنوی امرتسری (والد مولانا سید داؤد غزنوی) مولانا شمس الحق ڈیانوی مصنف غایۃ المقصود ، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محمد بشیر سہوانی، مولانا امیر احمد سہوانی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ، ابو محمد مولانا ابراہیم آروی مصنف طریق النجاۃ، مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور (علمائے عرب میں سے) شیخ عبد اللہ بن ادریس الحسنی السنوسی، شیخ محمد بن ناصر النجدی، شیخ سعد بن احمد بن عتیق النجدی کے نام اس درس کی وسعت وافادیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔(سید ابو الحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت، 5/359۔360 مطبوعہ کراچی)
مولانا محمد عزیر سلفی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) نے شاہ محمد اسحاق (م 1262ھ) کی ہجرت 1258ھ کے بعد مسند درس سنبھال رکھا تھا اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یک سوئی کے ساتھ مشغول رہے اسی عرصے میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے بیرون ہند سے بھی لوگ جوق درجوق آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلا اختلاف مسلک ومشرب بعد کی کوئی بھی شخصیت ہندوستان میں ایسی نظر نہیں آتی جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک نہ ہو ہندوستان کیا پورے عالم اسلام میں اس صدی کے اندر کثرت تلامذہ میں میاں صاحب کی نظیر نہیں ہے میاں صاحب کے تلامذہ نے ہندوستان میں پھیل کر خدمت
اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی
اشاعت کتاب وسنت میں گزاردی ۔ (محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 مطبوعہ کراچی 1984ء)
ذرائع :
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1 درس وتدریس
2دعوت وتبلیغ
3تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4 تصنیف وتالیف
5باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید
6 تحریک جہاد(محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 ۔22مطبوعہ کراچی 1984ء)
شمائل وخصائل :
حضرت میاں صاحب عادات واخلاق کے اعتبار سے بہت اعلی وارفع تھے خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش گفتار اور خوش کردار تھے ۔قناعت پسند اور درویش مشن عالم دین تھے بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے ان کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی ان کے قلب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت راسخ ہوچکی تھی ان کی زندگی کے لیل ونہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے طہارت وپاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا زہد وورع کے پیکر تھے صبر وتحمل ان کا جزءحیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا ۔ (ماخذ از: دبستان حدیث ، محمد اسحاق بھٹی)
ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات :
شیخ الکل حضرت میاں صاحب علوم عالیہ وآلیہ کے بحرزخّار تھے اور تمام علوم پر ان کی وسیع نظر تھی مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے قرآن وحدیث،فقہ وکلام،صرف ونحو، اصول حدیث ، اصول فقہ ، ادب وانشاء، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروج ومتداول تھے میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا ۔ فقہ حنیفہ تو یوں سمجھیے کہ انہیں پوری ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں فتاوی عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنیفہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے میاں صاحب اس کے تمام گوشوں سے باخبر تھے اس کا انہوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:41 مطبوعہ لاہور 2008ء )
میاں صاحب میں اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ صادقہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا حدیث نبوی ﷺ کے مقابلہ قول امام کی ان کے نزدیک کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور اس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہمہ ہوکر فرماتے ۔ سنو
یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیا ہے ہم سے بڑے ، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑےلیکن رسول اللہ ﷺ سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:72 مطبوعہ لاہور 2008ء )
1857ء کی جنگ آزادی :
برصغیر (متحدہ ہندوستان پاکستان،بھارت ، بنگلہ دیش)  میں 1857ء میں جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو علمائے اہلحدیث نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا خاص طور پر علمائے صادق پور نے جو قربانیاں پیش کیں برصغیر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مولانا یحییٰ علی صادق پور( م 1284ھ) مولانا عبد الرحیم صادق پوری (م 1341ھ) مولانا حمد اللہ صادق پوری(م1298ھ) مولانا ولایت علی عظیم آبادی (م 1269ھ) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1374ھ) کی خدمات آب زریں سے لکھنے کے قابل ہیں ان علمائے کرام میں سے کئی ایک نے جام شہادت نوش کیا کئی ایک کو تختہ دار پر لٹکایا گیا کئی ایک کو جزائر انڈیان میں جلاوطن کیاگیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کئے اور وفات پائی ۔ (عبد الرشيد عراقي،حيات نذير ، ص:23 مطبوعه لاهور 2007ء)
بغاوت کے مقدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کے سلسلہ میں علمائے صادق پور پر بغاوت کے مقدمات مختلف شہروں میں قائم کئے گئے یہ مقدمات پٹنہ اور انبالہ وغیرہ میں قائم کئے گئے ۔
مقدمہ انبالہ :
انبالہ کے مقدمہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بھی مؤاخذہ ہوا حکومت کو پولیس کے اہل کاروں نے رپورٹ دی کہ مولوی سید محمد نذیر حسین دہلوی کے پاس بہت خطوط آتے ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مکان کی تلاشی لی گئی جو خطوط برآمد ہوئے وہ تمام کے تمام فتاویٰ اور دینی مسائل کے بارے میں تھے یا مختلف کتابوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تھا کہ کہاں اور کس شہر سے دستیاب ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے دریافت کیاگیا کہ
آپ کے پاس اتنے خطوط کیوں آتے ہیں ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ
یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کیا جائے نہ کہ مجھ سے بہر حال آپ کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں نظر بند کردیاگیا۔
مولانا غلام رسول مہر ( م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
شیخ الکل میا ںنذیر حسین محدث دہلوی بھی ہدف ابتلاء بنےتھے میاں صاحب مرحوم اہل حدیث کے سرتاج تھے اہل حدیث اور وہابیوں کو مترادف سمجھا جاتا تھا مخبروں نے میاں صاحب کے خلاف بھی شکایتیں حکومت کے پاس پہنچائیں ان کے مکان کی تلاشی ہوئی بہت سے خط پائے گئے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے رہتے تھے ان میں یا تو مسئلے پوچھے جاتے تھے یا مختلف دینی کتابوں کے متعلق دریافت کیاجاتا تھا میاں صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اتنے خط کیوں آتے ہیں انہوں نے بے تکلف جواب دیا کہ یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کرنا چاہیے نہ کہ مجھ سے ۔
ایک خط میں مرقوم تھا کہ نخبۃ الفکر (اصول حدیث کی ایک کتاب) بھیج دیجیےمخبر نے کہا کہ یہ خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم کچھ اور ہے اور یہ لوگ خطوں میں اصطلاحی الفاظ سے کام لیتے ہیں میاں صاحب نے سنا تو جلال میں آگئے تو فرمایا
نخبۃ الفکر کیا توپ ،
نخبۃ الفکر کیا بندوق،
نخبۃ الفکر کیا گولہ بارود
بہر حال آپ کو دہلی سے راولپنڈی لے گئے اور وہاں کم وبیش ایک سال جیل خانے میں نظر بند رکھا دو آدمی ساتھ تھے ایک میر عبد الغنی ساکن سورج گڑھ جو بڑے عابد ، زاہد بزرگ تھے انہوں نے جیل خانے ہی میں وفات پائی میاں صاحب نے خود ہی تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ دوسرے صاحب عطاء اللہ تھے جنہوں نے اس زمانے میں پوری صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن مجید بھی حفظ کیا ۔ میاں صاحب نے سرکاری لائبریری سے کتابیں منگوانے کی اجازت لے لی تھی اور ان کا بیشتر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ راولپنڈی جیل میں مجاہدین کے متعلق بہت سے کاغذات جمع کردیئے گئے تھے جن میں اکثر فارسی میں تھے ۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد ان کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگائے گئے تھے وہ بھی دیر تک راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ذوق کے دیوان کی ترتیب انہوں نے وہیں شروع کی تھی میاں نذیر حسین کے خلاف کوئی الزام پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا تو تقریباً ایک سال بعد انہیں ابتلاء سے نجات ملی ۔ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین، ص: 382، مطبوعہ لاہور)
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
ایک سال تک راولپنڈی جیل میں محبوس رہے روزانہ پھانسی کی دھمکیاں دی جاتیں مگر پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ ہوئی۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:149 مطبوعہ دہلی 1938ء)
انگریز آپ کو رہا کرنے پر مجبور تھا اس لیے کہ اس نے بہت کوشش کی کہ آپ کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوا ۔پروفیسر عبد الحکیم اپنی انگریزی کتاب Wohhabi Trial of 1863-1870میں لکھتے ہیں :
It will be difficult to obtain evidence against him.
ان (مولوی نذیر حسین) کے خلاف ثبوت مہیا ہوجانا بہت مشکل ہوگا۔ (پروفیسر محمد مبارک، حیات شیخ الکل سید محمد نذیر حسین دہلوی)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10 رجب 1320ھ / 13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی آپ کے پوتے مولوی عبد السلام ( م 1916ء) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیدی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:155)
حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے تلامذہ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں بہتوں نے صادق پوری خاندان کے ساتھ مل کر تحریک جہاد کو منظم کیا اس سلسلہ میں بڑی بری قربانیاں پیش کیں اور ہمیشہ برطانوی سامراج کی نظروں میں کھٹکتے رہے مثلاً
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
3مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ( م 1333ھ)
4 شیخ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ( م 1334ھ)
5 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ)
6 مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
7 مولانا فقیر اللہ مدراسی ( م 1341ھ )
8 مولانا محمد اکرم خان آف ڈھاکہ ( م 1968ء )
حضرت میاں صاحب کے ان تلامذہ کے بارے میں جنہوں نے تحریک جہاد کو منظم کیا اورمالی تعاون بھی کیا ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین ( جو شاہ محمد اسحاق کی ہجرت حجاز کے بعد ان کی علمی جانشینی کے سبب’’میا ں صاحب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے) کی سیاست سے کنارہ کش اور مشاغل درس کے باوجود میاں صاحب سے ایک جماعت استخلاص وطن اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور استحکام کے لیے بدستور سرگرم عمل رہی جن میں حضرت شیخنا الاکرم مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، حضرت شاہ عین الحق پھلواروی صاحب خلق سواھم وحمھم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تمام عمر یہی مشغلہ رہا اپنے ذاتی اموال نیز زکوۃ وصدقات وغیرہ سے مجاہدین کی اعانت فرماتے رہے ۔
ثبت امت بر جریدئہ عالم دوام ما
’’جریدہ عالم پر ہمارا نام مستقل طور پر نقش ہے یعنی ہمارا نام زندہ جاوید ہے ۔‘‘(مقدمہ کالا پانی از محمد جعفر تھانسیری، ص: 20 مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد 2004ء)
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
مولانا غلام رسول قلعوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتاہے آپ جلیل القدر عالم، محدث اور صاحب کرامات بزرگ تھے آپ کا سن ولادت 1228ھ/1813ء ہے بچپن ہی سے نیکی اور ورع طبیعت پر غالب تھا تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا ابتدائی تعلیم مولانا نظام الدین بگوی رحمہ اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل عارف باللہ شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) کے ہمراہ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی ( م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وأخذ الحديث عن الشيخ المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي مشاركاً للشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي (عبد الحی الحسنی ، نزهة الخواطر 8/348)
20 سال کی عمر میں علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی جب حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں مولانا شیخ عبد الغنی مجددی (م 1296ھ) سے حدیث کی سند واجازت حاصل کی۔
مولانا غلام رسول بہت بڑے مبلغ اور واعظ تھے ہزاروں غیر مسلم آپ کے وعظ اور تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ میں تقلیدیان احناف نے انگریزی حکومت سے شکایت کی کہ اس ہنگامہ میں مولانا غلام رسول قلعوی کے وعظوں کا بڑا دخل ہے چنانچہ ایک طرف انگریزی حکومت نے آپ کے وعظوں پر پابندی لگادی۔(نزھۃ الخواطر 8/348) دوسری طرف آپ کو گرفتار کرکے لاہور میں سیشن جج مسٹر منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا۔
لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مولوی غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوگا چنانچہ ہزاروں آدمی مسٹر منٹگمری کی عدالت کے باہر جمع ہوگئے ۔ مسٹر منٹگمری کو پتہ چلا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو اس کو بتلایا گیا کہ
’’مولوی غلام رسول جید عالم دین اور اہل پنجاب کا استاد اور پیر ہے یہ لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے چنانچہ منٹگمری نے پھانسی کا ارادہ بدل دیا اور کچھ عرصہ کے لیے نظر بند کردیا۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، طبع اول ،  ص:428)
مولانا غلام رسول نے 15 محرم الحرام 1291ھ / 4 مارچ 1874ء قلعہ مہان سنگھ میں رحلت فرمائی عمر 63 سال تھی۔ ( محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند 6/483، مطبوعہ لاہور 2013ء)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش علمائے فحول میں سے تھے آپ بلند پایہ خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کی وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں لوگ ( جو بدعات اور محدثات میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے) صراط مستقیم پر آگئے ان کا وعظ بڑا جامع اور پُر تأثیر ہوتا تھا علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وعظ کہتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔ (سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ، ص:308)
حدیث کی تحصیل شیخ الکل حضرت میاں صاحب سے کی جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ شیخ عبد الجبار مکی اور مدینہ منورہ میں شیخ عبد الغنی مجددی(م 1296ھ) سے حدیث میں سند واجازت حاصل کی شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) سے بھی مستفیض ہوئے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وسافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الكبير عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، واستفاض منه (نزهة الخواطر 8/4)
’’ آپ نے امرتسر کا سفر کیا اور شیخ کبیر عبد اللہ محمد اعظم غزنوی کی مصاحبت اختیار کی اور اکتساب فیض کیا۔‘‘
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام ایک دینی درسگاہ قائم کی اس مدرسہ میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) اور مولانا محمد سعید محدث بنارسی ( م 1322ھ) جیسے اساطین فن نے تدریس فرمائی۔
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ
’’مدرسہ احمدیہ اس اعتبار سے منفر د تھا کہ اس میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ (بدر الزمان محمد شفیع، الشیخ عبد اللہ غزنوی، ص:138)
مدرسہ احمدیہ اپنے عہد میں اہلحدیث کی یونیورسٹی تھی۔(ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 158)
حافظ ابراہیم صوفی،واعظ،مبلغ،مقرر،خطیب،مدرس، مصنف،ماہر تعلیم، منتظم، مجاہد،علوم اسلامیہ میں بحرزخّار، تفسیر،حدیث،فقہ،تاریخ وسیر میں یگانہ روزگار اور عربی ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
حافظ ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالت احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (سید عبد الحی الحسنی ، نزھۃ الخواطر 8/5)

ولی کے بغیر نکاح باطل ہے

جن اسلامی موضوعات پر ایک عرصے سے علمی حلقوں میں بحث مباحثہ جاری ہے، ان میں عورت کے حقوق کا موضوع متعدد پہلوؤں سے بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے،
اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں، مسلم معاشرے میں اگر ان کا احترام پیدا ہو جائے، اور وہ ٹھیک ٹھیک ادا کیے جانے لگیں، تو وہ مسائل ہی شاید پیدا نہ ہوں، جن کا حوالہ دے کر پورے اسلامی قانون ہی کو بدنام کرنے اور اسے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر مسلمان خود عورت کے حقوق ادا نہ کریں تو وہ کس منہ سے دوسروں سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حقوق ان کے لئے پوری طرح واجب الاحترام ہیں، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو وہ گوارا نہیں کر سکتے ان کی بے عملی خود اس بات کی دلیل بن جائے گی کہ اس کی تقدیس ختم ہو چکی ہے اور اس کی کم از کم عملی اہمیت باقی نہیں رہی،
عورت کے حقوق کے متعلق پھیلائی ہوئی سر فہرست غلط فہمیوں میں سے ایک اسلام میں بیٹی کی جبری شادی یا پسند نا پسند کے متعلق ہے، اس غلط فہمی کے اسباب میں سے دشمنوں کا جھوٹا اور معاندانہ پروپیگنڈا، بعض مسلمانوں کی اس بارے میں بے خبری، اور بعض دوسرے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے بے اعتنائی اور بے پرواہی ہے،اور اسی رویے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے، جہاں ایک جانب شرم و حیا اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو ٹھکراتے ہوئے، ہماری بچیاں آزادی کے خوبصورت نعرے سے مغلوب ہوکر ولی کی اجازت کے بغیر اور گھروں سے بھاگ کر عدالتوں میں نکاح کر رہی ہیں، وہیں دوسری جانب بھی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر والدین اپنی مرضی مسلط کرتے ہوئے زبردستی بچیوں کی شادی کر دیتے ہیں، اور وہ تمام عمر اس کو خاموشی سے بھگتی ہے، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ فریقین اپنے حقوق وفرائض سے آگاہ ہوں، اور انہیں نبھانے کی کوشش کریں،اور اس کے لیے طریقہ کار رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے، آپ ﷺ نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ہیں، ان میں سے ایک لڑکی کی رضا مندی ہے،اور لڑکی کی رضامندی اس کے نکاح میں ضروری ہے، چاہے وہ بیوہ ہو یا کنواری۔جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ (صحیح البخاری:5136)

کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے، اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اسی طرح سنن ابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق
ایک بالغ لڑکی رسول اللہ ﷺ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ اور کہا اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی ہے، نبی کریم ﷺنے اسے اختیار دے دیا (کہ نکاح رکھو یا توڑ دو)۔
​یہاں پر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بیٹی سے اجازت
کب لی جائے، عام طور پر تقریب نکاح کے موقع پر بیٹی
کے والد یا ماموں وغیرہ اس سے اجازت طلب کرتے ہیں، اگر اس سے بیشتر بیٹی سے اجازت لی جا چکی ہے، تو شاید اس موقع پر طلب کردہ اجازت کی شرعی حیثیت ایک رسمی کارروائی سے زیادہ نہ ہو، لیکن اگر اس سے بیشتر اجازت نہ لی گئی ہو تو یہ موقع اجازت طلب کرنے کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ رشتہ کی ناپسندیدگی کی بناء پر اگر لڑکی اس وقت انکار کر دے، تو یہ گھر والوں کے لیے پریشانی کا موجب ہو گا، اور اگر وہ اپنی ناپسندیدگی کے باوجود اظہار نہ کرے، تو اس کا حق مجروح ہو گا، لہٰذا درست طریقہ یہ ہے کہ رشتہ طے کرنے سے بیشتر بیٹی سے اجازت لی جائے، اور رضا مندی ظاہر کرنے پر ہی معاملہ کو آگے بڑھایا جائے، وگرنہ وہیں ختم کر دیا جائے،
لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عورت بذات خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔لہذا اگر لڑکی اپنی مرضی سے گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے، تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ

اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو۔(البقرۃ : 221)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رقم فرماتے ہیں:
‘یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ )آیت کریمہ پڑھی۔ (الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)
مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:
(وَلَا تُنْكِحُوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ ۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا:
(وَلَا تُنْكِحُوا)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ (البقرۃ : 232)

‘اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:
‘یہ آیت ولی کے معتبر ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہو تا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لئے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‘اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لئے کہ معقل بن یسار کی بہن طلاق یافتہ تھیں اور اگر ولی کے بغیر معاملہ اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اس آیت کریمہ میں (فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ)میں خطاب اولیاء کو ہے نکاح میں عورت کی رضا مندی کے باوجودمعاملہ مردوں پر موقوف ہے۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن کو ان کے خاوند نے طلاق دے دی پھر عدت کے پورا ہوجانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئے تو معقل بن یسار نے اپنی بہن کا نکاح دینے سے انکار کر دیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ عورت کے ولی کا حق اس کے نکاح کے انعقاد میں موجود ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ مردوں کو منع نہ کرتا۔ مردوں کو خطاب کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حق ولایت اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے رکھا ہے اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل۲/۱۱۲ امام ابنِ قدامہ نے المغنی۷/۳۳۸ اور امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر۱/۳۰۲ میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری ۲/۴۸۸ میں صحیح قرار دیا ہے۔(فتح الباری کتاب النکاح ٩٠٩)
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
دورِ جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح بخاری میںسیدہ اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہےوہ ارشاد فرماتی ہیں:
‘ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔
پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں آخر میں فرمایا:
‘جب محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیئے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی ہے اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو کالعدم کر دیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی طرح ‘سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ (ابو داؤد مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)
سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے علاوہ تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اللہ کے نبیﷺ کا یہ فرمان عالی شان اس بات پر نص قطعی کا حکم رکھتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ‘جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ ﷺنے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے۔(شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)
اس حدیث کی شرح میں محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
‘یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔

آگے مزید فرماتے ہیں:

‘حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہيں۔ (عون المعبود ۲/۱۹۱، طبع ملتانی)
علاوہ ازیں حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں ’’ایّما‘‘کلمہ عموم ہے جس میں باکرہ ‘ثیبہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی عورت داخل ہے کہ جو بھی عورت ولی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔ رسول مکرم ﷺ کی یہ حدیث اس بات پر نص و قطعی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:
‘اس مسئلے میں نبی کریمﷺ کی حدیث کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ‘پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سیدناعمر بن خطاب، سیدناعلی بن ابی طالب ، سیدناعبداللہ بن عباس اور سیدناابو ہریرہ کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہا میں سے سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح، ابراہیم النخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ اور امام ثوری ، امام اوزاعی، امام عبداللہ بن مبارک، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ رحمة اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے۔ (ترمذی ۳/۴۱۰،۴۱۱)
ثابت ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت او ررضامندی ضروری ہے قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے راہ ِفرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جاکر از خود کسی سے نکاح کر لے ۔ایسا نکاح باطل ہوگا نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ،رضامندی اور موجودگی ضروری ہے، اسی طرح والدین کو بھی قرآن وسنت کے احکامات کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اور اپنی مرضی اولاد پر مسلط نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ہی اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنانا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین پر کما حقہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین
۔۔۔

سردی اور اس کے احکام

قارئین کرام! راقم الحروف اپنے سابقہ معروضات میں گرمی اور اس کے احکام آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر چکا ہے ۔ اسی تسلسل میں اب سردی اور اس کے احکام پیش خدمت ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنا ہر موسم قرآن وسنت کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
1وجہ سردی
یہ سردی کیوں پڑتی ہے ، کیسے اور کہاں سے پڑتی ہے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ

وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح البخاری:537)

’’جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا اے میرے رب ! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس کی اجازت دی ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں تم انتہائی گرمی اور سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو اس کا یہی سبب ہے۔‘‘
2 سردی میں روزہ رکھنا غنیمت ہے :
سردی میں روزے کو غنیمت کہا گیا ہے سیدنا عامر بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا

الغَنِيمَةُ البَارِدَةُ الصَّوْمُ فِي الشِّتَاءِ

’’ٹھنڈی نعمت (یعنی نعمت کا ثواب) سردیوں میں روزہ رکھنا ہے۔‘‘ (سنن الترمذی : 797)
3 سردی میں کھجوروں سے افطاری کرنا سنت طریقہ ہے :
گرمی میں آپ ﷺ پانی سے افطاری کیا کرتے اور سردی میں کھجوروں سے کیونکہ کھجور گرم ہے سردی سے بچاؤ اور سکون حاصل کرنے کیلئے اس کا استعمال زیادہ کیا کرتے تھےجیسا کہ سنن ترمذی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے قبل چند تر کھجوروں سے افطاری کرتے تھے اور اگر ترکھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے ۔

وروي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يفطر في الشتاء على تمرات وفي الصيف على الماء (صحیح وضعیف سنن الترمذی للألبانی : 696)

اور یہ بھی مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطاری کرتے اور گرمیوں میں پانی سے
افطاری کرتے۔
4 سردیوں میں (دوران نماز) کپڑوں کے اندر ہی رفع الیدین کرنا :
سردی کے لیے پہنے گئے کپڑے کے اندر ہی رفع الیدین کیا جاسکتاہے جیسا کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّتَاءِ فَرَأَيْتُ أَصْحَابَهُ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي ثِيَابِهِمْ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 729)

’’ میں سردی( کے موسم) میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ وہ نماز میں (سردی کی وجہ سے ) اپنے کپڑوں کے اندر ہی رفع الیدین کررہے ہیں ۔
5 سردی میں آذان کے بعد ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہنا
اگر سردی زیادہ ہو تو مؤذن آذان کے بعد یہ بھی اعلان کرے کہ ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو ۔‘‘
نافع رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر آذان دی پھر فرمایا ’’أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ‘‘ کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ  مؤذن سے آذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن آذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو ! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو ، یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی حالت میں کہا۔‘‘ ( صحیح البخاری : 632)
6 سرد رات میں مؤذن کو آذان کے بعد ’’الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ کہنے کا حکم دینا
مسجد کے متولی، امام وخطیب کو چاہیے کہ وہ سرد راتوں میں مؤذن کو حکم دیں کہ وہ آذان کے بعد ’’ الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ‘‘ کا اعلان کرے ’’ بشرط یہ کہ سردی برداشت سے زیادہ ہو‘‘ ۔ نبی کریم ﷺ وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اطہر ہے جیسا کہ نافع رحمہ اللہ کہ کہنا ہے کہ

أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ فِي اللَّيْلَةِ البَارِدَةِ، أَوِ المَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ (صحیح البخاری:632)

سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان نامی پہاڑی پر چڑھ کر اذان دی اذان دی پھر فرمایا الا صلوا فی رحالککہ لوگو! اپنےاپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھلو اور ہمیں آپ نے بتلایاکہ نبی کریم ﷺ موذن سےآذان کےلیے فرماتے ، اور یہ بھی فرماتے کہ موذن آذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو اپنے ٹھکانے میں نماز پڑھ لو یہ حکم سفر کی حالت میں یا سردی یا برسات کی راتوں میں تھا
7 سردی میں نماز سویرے پڑھنا :
سردی میں نماز سویرے اپنے وقت میں پڑھنی چاہیے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ (صحیح البخاری:906)

’’اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم ﷺ نماز سویرے پڑھ لیتے۔‘‘
8 عام حالت اور احرام میں سردی کی وجہ سے دوسرا کپڑا ڈالنا
سردی سے بچاؤ کے لیے کپڑا وغیرہ ڈالا جاسکتاہے تاکہ سردی ( اور سردی کی وجہ سے ہونے والے امراض) سے بچا جائے ۔ نافع رحمہ اللہ کا کہنا ہے

عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ وَجَدَ الْقُرَّ، فَقَالَ: أَلْقِ عَلَيَّ ثَوْبًا يَا نَافِعُ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ بُرْنُسًا فَقَالَ: تُلْقِي عَلَيَّ هَذَا وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَهُ الْمُحْرِمُ (سنن ابی داؤد:1828)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کو سردی لگی انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے کہا کہ میرے اوپر کوئی کپڑا ڈال دے پس انہوں نے ان پر برنس ٹوپی( یا ایسا کپڑا جس سے سر ڈھک جائے) ڈال دیا۔سیدنا ابن عمر نے فرمایا تم مجھ پر برنس ڈالتے ہو حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے محرم کو یہ پہننے سے منع فرمایا ہے ۔
9سردی کی وجہ سے بیوی (اگرچہ حائضہ ہی کیوں نہ ہو) کو چمٹ لینا :
سردی کی وجہ سے اپنی بیوی کو اگر کوئی (پیار سے)چمٹ کر گرمی حاصل کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ سیدنا عمارہ بن غراب سے مروی ہے کہ

إِنَّ عَمَّةً لَهُ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ قَالَتْ: إِحْدَانَا تَحِيضُ وَلَيْسَ لَهَا وَلِزَوْجِهَا إِلَّا فِرَاشٌ وَاحِدٌ؟ قَالَتْ: أُخْبِرُكِ بِمَا صَنَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فَمَضَى إِلَى مَسْجِدِه – قَالَ أَبُو دَاوُدَ: تَعْنِي مَسْجِدَ بَيْتِهِ – فَلَمْ يَنْصَرِفْ حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي وَأَوْجَعَهُ الْبَرْدُ فَقَالَ: ادْنِي مِنِّي. فَقُلْتُ: إِنِّي حَائِضٌ. فَقَالَ: وَإِنْ، اكْشِفِي عَنْ فَخِذَيْكِ. فَكَشَفْتُ فَخِذَيَّ فَوَضَعَ خَدَّهُ وَصَدْرَهُ عَلَى فَخِذِي، وَحَنَيْتُ عَلَيْهِ حَتَّى دَفِئَ وَنَامَ (سنن ابی داؤد 270 ضعفہ الألبانی)

سیدنا عمارہ بن غراب کی پھوپھی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کو حیض آتا ہے اور اس کے اور اس کے شوہر کے لئے ایک بستر ہوتا ہے (ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میں اس بارے میں آپﷺ کا عمل بتاتی ہوں ایک رات آپ ﷺمیرے گھر تشریف لائے اور میں حائضہ تھی۔ آپﷺ اپنی مسجد میں تشریف لے گئے میری مراد ہے اپنے گھر کی مسجد میں (یعنی مصلے پر) پس جب تک آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تب تک میں سو چکی تھی آپﷺ کو سردی نے ستایا تو فرمایا میرے قریب آجاؤ میں حائضہ تھی (جب میں آگئی تو) فرمایا اپنی رانوں کو کھول لو تو میں نے اپنی رانوں کو کھول دیا اور آپ ﷺ نے میری رانوں پر اپنا چہرہ اور سر رکھ دیا اور میں آپ ﷺ پر جھک گئی یہاں تک کہ آپ ﷺکی سردی ختم ہوگئی اور آپ ﷺسو گئے۔
حائضہ بیوی سے جماع کے علاوہ ہر قسم کی حرارت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ اپنی عورتوں کے ساتھ ان مخصوص ایام میں اکٹھے کھانا پینا بھی چھوڑ دیتے تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ‘‘ (جماع کے علاوہ ہر کام کرو)۔(صحیح مسلم:302)
0سردي كي وجہ سے گرم اشیاء کھانا :
سردی کی وجہ سے گرم چیزیں کھانی چاہئیں تاکہ سردی سے بچ سکیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ: نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا، وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا (سنن ابی داؤد : 3836)

رسول اکرم ﷺ تربوز کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کھجور کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔
+حرام اشیاء کے ساتھ سردی کا اثر زائل کرنا درست نہیں
اسلام نے گرم اشیاء سے ٹھنڈک کو اور ٹھنڈی اشیاء سے گرمی کو زائل کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ حلال ہوں حرام اشیاء سے سردی ختم کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔سیدنا دیلم حمیری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّا بِأَرْضٍ بَارِدَةٍ نُعَالِجُ فِيهَا عَمَلًا شَدِيدًا، وَإِنَّا نَتَّخِذُ شَرَابًا مِنْ هَذَا الْقَمْحِ نَتَقَوَّى بِهِ عَلَى أَعْمَالِنَا وَعَلَى بَرْدِ بِلَادِنَا، قَالَ: هَلْ يُسْكِرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاجْتَنِبُوهُ قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ النَّاسَ غَيْرُ تَارِكِيهِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَتْرُكُوهُ فَقَاتِلُوهُمْ (سنن ابی داؤد : 3683)

میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ سرد علاقے میں رہتے ہیں اور سخت محنت و مشقت کے کام کرتے ہیں، ہم لوگ اس گیہوں سے شراب بنا کر اس سے اپنے کاموں کے لیے طاقت حاصل کرتے ہیں اور اپنے ملک کی سردیوں سے اپنا بچاؤ کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا: “کیا وہ نشہ آور ہوتا ہے؟” میں نے عرض کیا: “ہاں” آپ ﷺنے فرمایا: “پھر تو اس سے بچو”۔ راوی کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: لوگ اسے نہیں چھوڑ سکتے، آپ نے فرمایا: “اگر وہ اسے نہ چھوڑیں تو تم ان سے لڑائی کرو”۔
, سردی نیکی سے مانع نہیں :
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہم سردی کے موسم میں نماز کے لیے کئی قسم کے بہانے بنالیتے ہیں جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الخَنْدَقِ، فَإِذَا المُهَاجِرُونَ وَالأَنْصَارُ يَحْفِرُونَ فِي غَدَاةٍ بَارِدَةٍ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ عَبِيدٌ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ لَهُمْ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ النَّصَبِ وَالجُوعِ، قَالَ: ” اللَّهُمَّ إِنَّ العَيْشَ عَيْشُ الآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ (صحیح البخاری :2834)

رسول اللہﷺ جب خندق میں گئے، تو مہاجرین اور انصار سردی کے زمانے میں سویرے سویرے خندق کھود رہے تھے، جن کے پاس غلام بھی نہ تھے، جو ان کے لئے کام کرتے جب آپ ﷺ نے ان کی پریشانی اور بھوک کی حالت دیکھی، تو فرمایابیشک زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اے میرے اللہ! تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔
– سردیوں میں نماز جمعہ سویرے پڑھنا
سردیوں میں نماز جمعہ سویر ے اپنے وقت پر ادا کی جائے جبکہ گرمی میں عام نماز کی طرح جمعہ نماز کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اسے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جائے۔

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ، يَعْنِي الجُمُعَةَ (صحیح البخاری:906)

’’جب سردی بہت زیادہ ہوتی تو رسول اللہ ﷺنماز سویرے پڑھتے اور جب گرمی بہت زیادہ ہوتی تو نماز یعنی جمعہ کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھتے تھے۔‘‘
. سردی کی وجہ سے تیمم کرنا
جب سردی بہت زیادہ ہو اس سردی میں غسل یا وضو کرنے کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق ہو تو پھر تیمم کرنا جائز ہے جیسا کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے

احْتَلَمْتُ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ السُّلَاسِلِ فَأَشْفَقْتُ إِنِ اغْتَسَلْتُ أَنْ أَهْلِكَ فَتَيَمَّمْتُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ بِأَصْحَابِي الصُّبْحَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا عَمْرُو صَلَّيْتَ بِأَصْحَابِكَ وَأَنْتَ جُنُبٌ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي مَنَعَنِي مِنَ الِاغْتِسَالِ وَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ اللهَ يَقُولُ: {وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا (سنن ابی داؤد : 334)

’’ مجھے سردی کے زمانہ میں ایک رات غزوہ ذات السلاسل میں احتلام ہو گیا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو مرجاؤں گا اس لئے میں نے تیمم کر کے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھا دی بعد میں میرے ساتھیوں نے نبی کریم ﷺسے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ عمرو : تو نے جنابت کی حالت میں نماز پڑھا دی میں نے غسل نہ کرنے کا سبب بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل مت کرو اور اللہ تم پر رحم کرنے والا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ مسکرا دیئے اور کچھ نہ کہا ۔‘‘
/ سردی کے لیے موٹی جوراب پہننا اور ان پر مسح کرنا
سردی سے بچنے کے لیے پہنے گئے موٹے جورابوں پر مسح کیا جاسکتاہے جیسا کہ سیدنا عمر و بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

رَأَيْتُ عَلِيًّا بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ

’’ میں نے علی ( بن ابی طالب) رضی اللہ عنہ کو دیکھا انہوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ (الاوسط لابن المنذر :477 وسندہ صحیح )
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
الجورب هو الذي يلبسه أهل البلاد الشامية الشديدة البرد، وهو يتخذ من غزل الصوف المفتول، يلبس في القدم إلى ما فوق الكعب (البناية شرح الهداية 1/607)
’’ جراب وہ ہے جسے ملک شام کے لوگ شدید سردی میں پہنتے ہیں یہ بٹی ہوئی اون سے بنائی جاتی ہے ٹخنوں تک پاؤں میں پہنی جاتی ہے ۔
یادرہےکہ جورابوںپرمسح بالاجماع جائزہےموٹی جورابوں سے صرف یہ مراد ہے کہ جو عرف عام میں موٹی جرابیں کہلائی جاتی ہیں جن کے پہننے سے پاؤں نظر نہیں آتے جارجٹ کے دوپٹے جیسی جرابیں (جو بعض کھلاڑی وغیرہ پہنتے ہیں) جن میں پاؤں نظر آتے ہیں وہ پتلی جرابیں ہیں اور ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوں : مقالات تحقیقی ، اصلاحی اور علمی از زبیر علی زئی 6/75)
^ جرابوں پر مسح کرنےسے پاؤں دھونے کااجر
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے سے دوران وضو اعضاءدھونے کا جو ثواب حاصل ہوتا ہے بندہ اس سے محروم ہوجاتاہے حالانکہ ان کا یہ خیا ل بلادلیل ہے تیمم یا جرابوں پر مسح نبوی سنت و امر ہےاور یہ وضو ء (میں اعضاء دھونے )کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
۔۔۔

حقیقی زیاں کار

اللہ عز و جل سے ڈریے اور اس کی اطاعت کیجیے!نیک اعمال کیجیے جو آپ کواللہ عز وجل کے غضب اور عذاب سے بچا سکیں اور اس کی رحمت و رضوان کے قریب کردیں ۔یہاں فقط ایک ہی مہلت ہے جس میں انسان یاتو ابدی کامیاب ہوگا یا پھر ابدی ناکام۔

وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر:3 – 1)

’’ زمانے کی قسم! بیشک(بالیقین) انسان سرتاسر نقصان میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘
اللہ کے بندو! اس شخص کے خسارہ کے برابر کسی کا خسارہ نہیں جواپنے آپ کو حیات ِ ابدی میں خسارہ سے دوچار کرے اور عذاب زدہ لوگوں میں سے ہوجائے ۔ جب یہ شخص اوروں کو کامیاب اور کامران دیکھے گا تو شرمندہ ہوگا لیکن اس وقت شرمندگی کچھ فائدہ نہ دے گی ۔
یہی اصل نقصان ،ناکامی ،گھاٹا اور خسارہ ہے جس سے قرآن کریم نے ڈرایا ہے ۔ جس کا سبب دراصل دنیا میں دین کا خسارہ ہے ۔
مؤمنین اور متّقین اسی خسارہ سے ڈرکر اور گھبرا کر اپنے ربّ کی عبادت کی جانب دوڑے چلے آتے ہیں ۔ اس خسارہ کے سبب اہل ِ تقوی اپنے اوپر دنیوی کشادگی سے خوش نہیں ہوبیٹھتے ؛ نگاہ ِ عبرت کے خوگر اپنے اموال ، سامان ِ قوت اور جمع پونجی سے کچھ دھوکا نہیں کھاتے اور اہل ِ خشیت دنیا میں اپنی اچھی زندگی پر مبارک بادی کے متمنی نہیں ہوتے ۔ ایسے لوگ قبروں کی جانب اٹھائے گئے جنازوں کو دیکھ کر ہر گھڑی یہی سوچتے ہیں کہ یہ کامیاب ہونگے یا ناکام ۔
مومن بھائیو! خسارے ، گھاٹے ، ناکامی اور زیاں کے اسباب اور زیاںکاروں کے اعمال کی معرفت بے حد ضروری ہے کیونکہ ان کی پہچان خود ان سے بچنے کے لیے لازمی ہیں ۔
یاد رہے کہ ہر درجہ کا کفر خسارے کی جانب ایک سفر ہے۔ ہر کافر اور انکاری ناکام اور خسارے سے دوچار ہے ۔ ہر معصیت خسارے کا باعث ہے اور نافرمان اپنی معصیت کے بقدر خسارے میں مبتلا ہوتا ہے ۔
اللہ عز و جل کے ساتھ کفر سب سے بڑھ کر خسارہ ہے ۔
کیونکہ یہ ابدی زیاں کا موجب ہے ۔

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوْا بِاللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (العنکبوت 52)

’’جو لوگ باطل کے ماننے والے اور اللہ تعالیٰ سے کفر کرنے والے ہیں وہ زبردست نقصان اور گھاٹے میں ہیں۔‘‘

وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الزمر:65)

’’یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے ( کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔‘‘
موجب ِ خسارہ کفر کی ایک صورت ‘ اللہ تبارک و تعالی کی
آیات کے ساتھ کفر کرنا‘ ہے ۔ خواہ یہ آیات ‘کونی (کائناتی
قوانین سے متعلق) ہوں یا شرعی یعنی آیات ِقرآنی ہوں ۔

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’ جن جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا‘ وہی خسارہ پانے والے ہیں ۔ ‘‘ (الزمر:63)

وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَتَكُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (یونس:95)

’’اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا ‘ کہیں آپ خسارہ پانے والوں میں سے نہ ہو جائیں ۔‘‘
اللہ عز وجل خود قرآن کریم کی بابت فرماتے ہیں :

وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ(البقرۃ:121)

’’جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے۔‘‘
جزا اور بعثت بعد الموت کی تکذیب بھی خسارے کا باعث ہے ۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَاۗءِ اللّٰهِ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ (یونس 45)

’’و اقعی خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے پاس جانے کو جھٹلایا اور وہ ہدائت پانے والے نہ تھے۔‘‘
کوئی بھی سمجھنے والا یہ مت سمجھ بیٹھے کہ کفار کوئی بھی دین اختیار نہیں کرتے اور ایسے کوئی عمل ‘جنھیں وہ اچھا جانتے ہیں ‘ بجا نہیں لاتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔بیشتر کفار ’دین‘ بھی اختیار کرتے ہیں اور’ اعمال‘ بھی سرانجام دیتے ہیں ۔ لیکن ایسے سب عمل دنیا میں تھکان ہیں تو آخرت میں خسارہ ہونگے ۔

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًااُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ (الکہف:103-105)

’’کہہ دیجئے کہ اگر(تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کارہوگئیںاوروہ اسی گمان میںرہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا۔۔‘‘
کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کو ’’دین ِ اسلام‘‘ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اس اسلام میں مشروع ومقرر عبادات اور احکام کو بجا لانے کی بھی تلقین فرمائی ہے لہذا جو بھی اسلام سے ہٹ کر کوئی دین اختیار کرے گا یا اسلام سے باہر کسی عمل کو بجا لائے گا تو یہ سب کچھ‘ کرنے والے پر خسارہ کا موجب ہوگا ۔

وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (ال عمران 85)

’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ‘اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘
اس سے ایک طرف دین ِ حق یعنی ’’اسلام‘‘ کی جانب راہنمائی جیسی اللہ عز وجل کی عظیم نعمت ہم پر منکشف ہوتی ہے تو دوسری طرف بنی بشر میں ضلالت کا حجم بھی بے حد نمایاں ہوجاتاہے ۔ اگرچہ ایسے لوگ ایٹم دریافت کرلیں ، تہذیب بپا کر دیں ، آفاق تسخیر کرلیں اور سمندروں کی تہوں اور گہرائیوں میں اترجائیں ۔
کفار کی اطاعت بھی دنیا اور آخرت ہر دو جہانوں میں خسارہ لے کر آتی ہے ۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَرُدُّوْكُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْنَ

’’اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیںمانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے ( یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے) پھر تم نا مراد ہو جائو گے۔‘‘ (آل عمران:149)
کچھ لوگوں کا ایمان دنیا کی خاطر ہوتاہے ۔ جب یہ لوگ اپنے ایمان کے ذریعے مال ، وجاہت اور انعامات سمیٹتے رہیں تو ایمان سے جڑے رہتے ہیں ۔ لیکن اگر انہیں ان کے ایمان کے باعث آزمایا جائے تو وہ اپنے ایمان سے منحرف اور کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگ شدید ترین خسارہ کے حامل ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ایمان کو دنیا پانے کا وسیلہ بنایا لیکن دنیا کو اپنے ایمان کے فروغ کے لیے وسیلہ نہیں بنایا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ (الحج:11)

’’بعض لوگ ایسےبھی ہیںکہ ایک کنارےپر( کھڑے) ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آ گئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔‘‘
قرآن کریم کے ساتھ کفر ‘اس میں کچھ فرق نہیں کہ مکمل قرآن کریم کے ساتھ کفر کیا جائے یا بعض کے ساتھ ‘ بہرصورت یہ خسارہ ہی کی جانب کھلنے والا ایک باب ہے۔کچھ لوگ بسااوقات قرآن کریم میں وارد کسی حکم کو ردّکرتے ہیں اور یہ تک نہیں جانتے ہوتے کہ حکم ِ قرآنی کی تردید کے باعث یہ خاسرین اور زیاں کار ہوجائیں گے ‘اگرچہ یہ نمازی بھی ہوں ۔دورِ حاضر میں ایسا طرز ِ عمل بے حد کثرت سے وقوع پزیرہے کہ منافقین اور فاسقین نے شریعت پر حد درجہ جرأت و تعدی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں اس سے باز آجانا چاہیے!

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (البقرۃ:121)

’’جنہیں ہم نے کتاب دی اور وہ اسے پڑھنے کے حق کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وہ نقصان والا ہے ۔‘‘
عجیب بات تویہ ہے کہ قرآن کریم جوکہ انسانیت کے لیے ہدایت کا منبع و مصدر ہے لیکن اس کے باوجود اہل ِ خسارہ اس سے نفع نہیں اٹھا پاتے بلکہ قرآنی آیات و احکام کی تکذیب کے باعث مزید خسارہ میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قرآنی مواعظ و قصص سے متمتع نہیں ہوپاتے ۔

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا

’’ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔‘‘ (الإسراء :82)
کچھ اعمال بھی ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے‘ ایسے اعمال کی شناعت اور کثرت ِ وقوع کے باعث‘ خسارہ و زیاں کاری سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ تاکہ ایسے اعمال سے انسان باز رہیں ۔ مثلاً ناحق خون بھانا

فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِيْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (المائدۃ:30)

’’پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اس نے اسے قتل کر ڈالا جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔‘‘
مثلاً عہد شکنی ، قطع رحمی اور زمین میں فساد بھی خسارہ ہیں ۔

الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِه وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ اُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’وہ لوگ االلہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کوتوڑ دیتے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ،انہیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ،یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ‘‘ (البقرۃ:27)
اللہ عز وجل کی تدبیر اور پکڑسے نڈراور بے خوف ہوجانا ‘بھی خسارہ کا باعث ہے ۔

فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ

’’سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔‘‘ (الاعراف:99)
اللہ سبحانہ و تعالی کی بابت سوئے ظن ‘خسارہ ہی کی جانب لے جانے والا راستہ ہے ۔

وَذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ (فصلت:23)

’’ تمہاری اس بد گمانی نے ‘جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی‘ تمہیں ہلاک کر دیا اور با لآ خر تم زیاں کاروں میں ہو گئے۔‘‘
مال ا ور اولاد کی خاطر یادِ الٰہی سے غفلت ‘ خسارے تک پہنچا دیتی ہے ۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (المنافقون:9)

’’اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں اور جو ایساکریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔‘‘
نماز میں کوتاہی اور تقصیر خسارہ کے لیے بہت بڑا سبب ہے ۔ فرمان ِ نبی ﷺ ہے :

إِنَّ أَوَّلَ ما یُحَاسَبُ بِہٖ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہٗ ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسَرَ۔( رواہ التّرمذی)

’’روز ِ قیامت بندے کے اعمال میں سے جس کا سب قبل حساب لیا جائے گا ‘ وہ نماز ہوگی ۔ اگر نماز درست نکلی تو بندہ فلاح و نجات سے ہمکنار ہوگا ۔ اگر نماز کا معاملہ خراب رہا تو بندہ ناکام و نامراد ہوگا ۔‘‘
اموال میں حقوق اللہ کی عدم ِ ادائیگی بھی زیاں کا موجب ہے ۔
حدیث ِ ابو ذرّ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

إِنْتَہَیْتُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَلَمَّا رَآنِی قَالَ ہُمْ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ قَالَ فَجِئْتُ حَتَّی جَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی مَنْ ہُمْ قَالَ ہُمْ الْأَکْثَرُونَ أَمْوَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ ہَکَذَا وَہَکَذَا وَہَکَذَا مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ وَعَنْ یَمِینِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ وَقَلِیلٌ مَا ہُمْ ۔ (رواہ الشّیخان)

’’میں نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا ۔ آپ ﷺ کعبہ کی سایہ میں بیٹھے تھے ۔ آپ ﷺ نے مجھے دیکھا کر فرما: ’’ربّ ِ کعبہ کی قسم ! وہ لوگ بے حد خسارے اور زیاں سے دوچار ہیں ۔ ‘‘میں آکر آپ کے پاس بیٹھا ۔ پھر بے قرار ہوکر اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں !’’وہ لوگ‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے ؟فرمایا:بہتیرے مال والے ہاں مگر جس نے ایسے ،ایسے اور ایسے یعنی آگے، پیچھے ،دائیں اور بائیں (فقراء اور مساکین وغیرہ مستحقین پر) خرچ کیا ۔ لیکن ایسے بہت تھوڑے ہیں ۔ ‘‘
ہم اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں اسباب ِ خسارہ سے دور رکھے ، ہماری فوز و فلاح کے راستوں کی جانب راہنمائی فرمائے اور ہمیں اپنے صالحین بندوں میں سے بنا دے !
آخرت کے خسارے اور زیاں سے کوئی خسارہ اور زیاں نہ زیادہ بڑا ہے اور نہ زیادہ رسوا کن ۔

قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ

’’ کہہ دیجئے! کہ حقیقی زیاں کار وہ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو قیامت کے دن نقصان میں ڈال دیں گے، یاد رکھو کہ کھلم کھلا نقصان یہی ہے۔‘‘ (الزمر:15)
بعض زیاں کاروں کا زیاںو خسارہ کلی ہوتاہے ۔ یہ لوگ ’’اصل ِ ایمان ‘‘ سے عاری ہوتے ہیں اور ان کے ہاں ’’بنیادی ایمان ‘‘ ہی ناپید ہوتاہے ۔ یہ جہنم میں ہمیشگی مستحق ہیں اور ان پر کلمہ ٔ عذاب برحق ثابت ہوگیا۔

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِيْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ (الاحقاف18)

’’وہ لوگ ہیں جن پر( اللہ کے عذاب کا ) وعدہ صادق آ گیا ان جنات اور انسانوں کے گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے یقینا یہ نقصان پانے والے تھے۔‘‘
بعض خسارہ سے دوچار لوگوں کا خسارہ ‘جزوی ہے ۔ مثلاوہ شخص جس نے گناہوں کا ارتکاب کیا اور کبھی وہ آخرت میں عذاب میں مبتلا ہو۔ایسے خسارہ سے دوچار لوگوں میں ادنیٰ ترین خسارہ کا حامل وہ شخص ہے جو دنیا میں حسنات اور نیکیاں کمانے میں ناکام اور پیچھے رہا ۔ جس کے نتیجے میں وہ جنت کے اندر بلند درجات پانے سے رہ جائے ۔
بندگان ِ خدا!آخرت کی ابدی زندگی میں خسارہ اور زیاں سے سلامتی و نجات ‘ اسباب ِ خسارہ سے بچے بغیر ممکن ہی نہیں اس کے لیے کفر و گناہ سے بچنا ضروری اور ایمان و عمل ِ صالح پر عمل پیراہونا لازمی ہے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی یاد رہے کہ خطا ‘بشرکی خصائص اور علامات میں سے ہے ۔ کوئی بھی معصیت کا مرتکب خسارہ سے بچ نہ پائے گا مگر ربّ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے خاص معافی ، مغفرت اوررحمت کے بسبب ۔ لہذا ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم کثرت سے توبہ و استغفار کیا کریں ۔ یہی صالحین کا وطیرہ رہا ہے جب بھی ان سے (بتقاضا ئے بشر)خطا سرزد ہوئی(یا ترک ِ اولیٰ ایساکوئی عمل سرانجام پایا۔مترجم) کیونکہ خسارہ سے بچنے کی خاطر انبیاء وصالحین توبہ و استغفار کی جانب بے حد تیزی کے ساتھ لپک کر گئے ۔ ہمیں بھی اللہ عز و جل نے انہیں کے طریقہ کی اقتداء کا حکم دیاہے ۔
جب ابوالبشر سیدناآدم علیہ السلام او ر ان کی زوجۂ محترمہ امّاں حوّاءنے درخت کھا کر غلطی کر لی ‘ تو وہ خسارہ سے خائف ہوگئے ۔

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَالَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:23)

’’دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘

اللہم جنبنا أسباب الخسران، واجعلنا من الفائزین.
اللہم إنا نستغفرک ونتوب إلیک، اللہم اغفر لنا وتب علینا؛ إنک أنت التواب الغفور الرحیم.
اللہم إنا نسألک الجنۃ وما قرّب إلیہا من قول أو عمل، ونعوذ بک من النار وما قرّب إلیہا من قول وعمل.
۔۔۔۔

بیت المقدس کی فضیلت اور مسئلے کا حل

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے مخصوص جگہوں کو بلند مقام عطا فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک راتوں رات سیر کروائی، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الأنفال: 29]

’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں [حق و باطل کے مابین] تفریق کی قوت عطا کرے گا، تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے ۔‘‘

حمد و صلاۃ کے بعد:

ہر مسلمان کے دل میں ایک بہت ہی اہم مسئلہ جا گزین ہے اور وہ ہے مسجد اقصی کا مسئلہ ؛ بیت المقدس قبلہ اول ، حرمین شریفین کے بعد تیسری اعلی ترین مسجد اور سید ثقلین ﷺ کی جائے اسرا ہے ۔
یہ عصر حاضر کا ایسا اہم ترین مسئلہ ہے کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں ہر وقت اجاگر رہتا ہے؛ چاہے وہ مسلم معاشرہ بذات خود کسی بھی بحران کا شکار ہو یا ان کے اپنے حالات جس قدر بھی خراب ہوں مسئلہ فلسطین کبھی بھی ذہنوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔
بیت المقدس اور اس کے احاطے میں مسجد اقصی کا وجود مسلمانوں کے ہاں عقیدے سے متعلقہ مسئلہ ہے، اس کا مسلمانوں کی تاریخ سے نا قابل فراموش اور گہرا تعلق ہے، بیت المقدس اور مسجد اقصی کے اس تاریخی تعلق کو کسی بھی صورت اسلامی تاریخ سے نکالنا ممکن نہیں؛ کیونکہ یہ امت کی پہچان ہے، یہ امت اسلامیہ کی اساسی علامت اور امت اسلامیہ کے ہاں مقدس مقام ہے۔
بیت المقدس کو یہ مقام حاصل کیوں نہ ہو! اللہ کی کتاب صبح شام ہمیں یاد کرواتی ہیں کہ:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا دی، جس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اپنے بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الإسراء: 1]
مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب قرب الہی کی جستجو میں رخت سفر باندھا جا سکتا ہے، ان تینوں جگہوں کی جانب اللہ کا فضل طلب کرنے کے لیے سفر کر سکتے ہیں، جیساکہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث ثابت ہیں۔
سر زمین بیت المقدس محشر [جمع ہونے] اور منشر [دوبارہ زندہ ہونے]کی جگہ ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی لونڈسیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیں” تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جمع ہونے اور زندہ ہونے کی جگہ ہے‘‘۔( اس روایت کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
بیت المقدس کا اسلام میں بلند مقام ہے، بیت المقدس کی اعلی ترین امتیازی صفات بھی ہیں؛ چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آپس میں بات کر رہے تھے کہ کون سی مسجد افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی مسجد یا مسجد بیت المقدس؟” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس کی چار نمازوں سے افضل ہے، بیت المقدس نماز کے لیے بہترین جگہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھوڑے کی رسی کے برابر بیت المقدس سے اتنی قریب جگہ جہاں سے بیت المقدس نظر آئے وہ بندے کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو۔‘‘( اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے، نیز امام ذہبی نے امام حاکم کی موافقت بھی کی ہے)
اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں مسجد اقصی اور بیت المقدس کی شان کتنی عظیم تھی کہ انہوں نے مسجد اقصی کا موازنہ مسجد نبوی سے کیا۔
بیت المقدس کی اسلام میں اتنی فضیلت کیوں نہ ہو! یہ تو رسول اللہ ﷺ کی جائے اسرا ہے، یہاں سے ہی آپ کو آسمانوں کی جانب لے جایا گیا؛ چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس براق کو لایا گیا، وہ سفید رنگ کا گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے، وہ اپنا قدم حد نگاہ پر رکھتا ہے، تو میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچ گیا ۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے براق کو کڑے سے باندھ دیا جہاں انبیائے کرام [اپنی سواریاں]باندھتے ہیں۔آپ نے یہ بھی بتلایا کہ: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں پر دو رکعات ادا کیں، پھر اس کے بعد سیدناجبریل علیہ السلام میرے پاس شراب کا برتن اور ایک دودھ کا برتن لائے ؛ تو میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، اس کے بعد جبریل ہمیں آسمان کی جانب لے گئے۔ (مسلم)
بیت المقدس کے عظیم فضائل میںسیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس وقت سیدناسلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں مانگیں: 1قوت فیصلہ جو اللہ تعالی کے فیصلوں کے عین مطابق ہو۔ 2ایسی بادشاہی جو ان کے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ 3اور اس مسجد میں نماز کی نیت سے آنے والا کوئی بھی ہو وہ جب یہاں سے واپس نکلے تو اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہےتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلی دو دعائیں تو ان کی قبول ہو گئیں تھیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی قبول ہو گئی ہو گی۔(نسائی، ابن ماجہ نے اسے روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے)
اسلامی بھائیو!بیت المقدس اور مسجد اقصی کی اسلام میں بہت فضیلت اور امتیازی خوبیاں ہیں، انہی خوبیوں نے بہت سے مسلم علمائے کرام کو مجبور کیا کہ صدیوں سے بیت المقدس کی فضیلت ،شان اور حقوق کے متعلق مستقل تالیفات لکھتے چلے آئیں، چنانچہ اہل علم کی بہت بڑی تعداد نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی مسلمانوں کے ہاں اہمیت اور فضیلت اجاگر کرنے کے لیے کتابیں لکھیں ان علمائے کرام میں سے چند یہ ہیں:
بہاؤ الدین ابن عساکر ان کی کتاب: “الجامع المستقصى في فضائل المسجد الأقصى” ہے۔
امین الدین ابن ہبۃ اللہ شافعی ان کی کتاب: “كتاب الأنس في فضائل القدس” ہے۔
برہان الدین فزاری ان کی کتاب: “باعث النفوس إلى زيارة القدس المحروس” ہے۔
شہاب الدین احمد بن محمد مقدسی ان کی کتاب: “مثير الغرام إلى زيارة القدس والشام” ہے۔
حسین حسینی، ان کی کتاب: “الروض المغرس في فضائل البيت المقدس” ہے۔
ابن جوزی ان کی کتاب “فضائل القدس”ہے۔
اور علامہ سیوطی کی کتاب: ” اتحاف الأخصاء بفضل المسجد الأقصى”ہے۔ اللہ تعالی تمام مسلم علمائے کرام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اسی لیے تمام کے تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔
آج پوری دنیا اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ان تمام عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی شمار کرتی ہے جس میں واضح ہے کہ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
مسلم اقوام! امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مسلمانو! مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لیے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اس لیے مسلمانو! اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔
امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

اگر تم اللہ [کے دین]کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ [محمد: 7]
کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہ تمام تر صحابہ کرام نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلئے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔
اسلامی بھائیو!جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے کہ:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [آل عمران: 139]

اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب ہو۔
مسلمانوں پر اب وقت آگیا ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر خصوصاً ؛ کیونکہ انہیں خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے ،ان چیلنجز نے پوری امت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے کہ وہ نیکی اور تقوی کی بنیاد پر باہمی بھائی چارہ قائم کریں، دینی اور دیگر مفادات کے پیش نظر باہمی اختلافات ختم کریں، آپس کے جھگڑوں کا باعث بننے والے اسباب کو جڑ سے نکال پھینکیں۔ باہمی عداوت سے نکل کر اخوت کی جانب ، دلی کدورت سے صاف دلی کی جانب، منہ موڑنے کی بجائے دل جوڑنے کی جانب آئیں، ایک دوسرے کی کوتاہیوں سے صرف نظر کریں اور باہمی اتحاد و اتفاق کی راہ ہموار کریں۔ گروہ بندی اور تعصب اتار پھینکیں اور سلف صالحین والی اسلامی اخوت ایمانی محبت کی روح اپنائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، باہمی تنازعات میں مت پڑو ، ورنہ ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، اس [کی اطاعت] پر ڈٹ جاؤ، بیشک اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
[سورۃ الأنفال: 46]
مسلمان جس وقت بھی اپنی حالت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل طور پر ڈھال لیں گے کہ کسی بھی اعتبار سے کمی باقی نہ رہے، اسلامی تعلیمات کو ہی مکمل طور پر بالا دستی دیں ، ظاہر و باطن ہر طرح سے شریعت پر ہی عمل پیرا ہوں، اسلامی تعلیمات کے سائے تلے اسلام کے لیے زندگی گزاریں جیسا کہ سلف صالحین نے اپنی زندگیاں گزاریں، تو ان کی کوئی بھی کوشش اور کاوش ناکام نہیں ہو گی چاہے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، ان کے راستے میں کبھی اندھیرا نہیں ہو گا چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں، شرط یہ ہے کہ جب تک وہ اسلام پر قائم رہیں، اسلامی احکامات کی پابندی کریں، نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہوں اور انہی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ اللهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [الحج: 38]

’’بیشک اللہ تعالی ایمان لانے والوں کا دفاع فرماتا ہے۔ ‘‘
بصورت دیگر جب امت میں شہوت پرستی ، گمراہ کن لہو و لعب، ہوس پرستی، اور شبہات کا راج رہے تو امت پر جارحیت، مصیبتیں اور ہر قسم کی بلائیں اور بحران آتے رہیں گے؛ کیا اللہ تعالی نے ہمیں صاف لفظوں میں نہیں فرمایا:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ [الشورى: 30]

’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے کیے دھرے کی وجہ سے ہےاور اللہ بہت سی چیزوں سے درگزر فرما لیتا ہے۔‘‘
اسی طرح کیااللہ تعالی نے عزوۂ احد کے متعلق نہیں فرمایا

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [آل عمران: 165]

’’بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ یہ کہاں سے آ گئی ؟ حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو؟ آپ ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
قارئین کرام !یہ بات لازمی ہے کہ امت کو یقین کے تمام درجات کے ساتھ یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ اس وقت جان لیوا بحرانوں اور گری ہوئی حالت سے نجات حقیقی اسلام کے ذریعے ہی ملے گی کہ جس کی بنیاد عقیدہ توحید پر قائم ہو ، جس میں صحیح منہج کی اتباع ہو ، کتاب و سنت کو سلف صالحین کے مطابق سمجھا جائے؛ تو یہی وہ بنیادی اساس ہے جس میں شان و شوکت ، غلبہ اور نصرت کا راز پنہاں ہے، اس کے لیے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ جس وقت انہوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو تمہیں تعجب خیز معلومات ملیں گی، ہمارے پروردگار کا فرمان ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ [الأنعام: 82]

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم [شرک] سے آلودہ نہیں کیا؛ تو انہی لوگوں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘
ہمارے پروردگار کا یہ سچا وعدہ ہے اور اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی خبریں بھی سچی ہیں:

وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ [الروم: 47]

’’اور مومنوں کی مدد ہم پر حق ہے۔ ‘‘
ایسے ہی فرمایا:

وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ [المنافقون: 8]

’’عزت تو اللہ ، اللہ کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے؛ لیکن منافق اس بات سے نا آشنا ہیں۔‘‘
اسی طرح فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [المؤمنون: 1]
’’یقینی بات ہے کہ مومن کامیاب ہو گئے۔‘‘
مسلم اقوام! تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ مسجد اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ [التوبۃ: 105]

’’تم اقدامات کرو؛ تمہاری پیش قدمی کو اللہ، اللہ کا رسول اور مومنین عنقریب ملاحظہ کر لیں گے۔‘‘
کسی بھی اقدام کے لیے گہری بصیرت اور کامل حکمت کا ہونا از حد ضروری ہے کہ انہی دونوں کی بدولت امت اسلامیہ متنوع چیلنجز کا مقابلہ ہر صورت میں کر سکتی ہے۔ اس کے لیے آپس میں تعاون، مدد اور شانہ بشانہ چلیں نہ کہ گالم گلوچ، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کھول لیں۔ اس طریقے پر عمل کریں تو ظالم کو ظلم سے روکا جا سکتا ہے اور امت اسلامیہ کو فتح اور کامیابی حاصل ہو گی۔
نیز امت کو در پیش مسائل کے لیے گہری نظر و فکر کی ضرورت ہے کہ جن کی بدولت جذباتی بھنور کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات سامنے آئیں، متوازن اور بہتر طریقہ کار اپنا کر مخلص کاوشوں کو یکجا کریں، اپنائے گئے ٹھوس موقفوں کو مضبوط طریقے سے مربوط بنائیں، دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سید الانبیاء والمرسلین کی شریعت کے سائے تلے اقدامات کریں جو کہ پوری دنیا کو امن و سلامتی، خوشحالی اور امان کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔
یہ بھی ضروری امر ہے کہ امت کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی تمام تر کاوشیں ناقابل تردید دلائل اور ناطقہ بند کر دینے والے اسلوب میں ہونی چاہییں، لڑائی جھگڑے والا انداز نہ ہو، کسی خاص قوم، یا خاص تنظیم اور گروہ، یا علاقائی ایجنڈوں کا ان میں کوئی عمل دخل نہ ہو؛ کیونکہ ایسے تمام اقدامات سے امت کو ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [المؤمنون: 53]

’’پھر وہ اپنے معاملے میں کئی گروہ ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل بھی ضروری ہے:

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ [الأنبياء: 92]

یقیناً یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن و سنت کو بابرکت بنائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اپنے سمیت تمام مسلمانوں کے لیے گناہوں کی بخشش اللہ تعالی سے مانگتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش مانگیں، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اللہ تعالی کی پاکیزہ اور بابرکت الفاظ میں ڈھیروں حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! ان پر ان کی آل، ان کے صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

عدل و انصاف کرنے والے مسلمانو! مملکت حرمین کے حکمران اور عوام سب کا ہر اسلامی اور عربی مسئلے کے حوالے سے ایک اعلی کردار اور واضح موقف رہا ہے، زمینی حقائق اس بات کے اولین گواہ ہیں ، ان مسائل میں فلسطین کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس ملک اور یہاں کی قیادت کا مسئلہ فلسطین کے بارے میں ٹھوس ،واضح اور غیر متزلزل موقف ہے، اس میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں آسکتی، مملکت حرمین کے ہاں مسئلہ فلسطین کو تمام تر صورتوں میں ترجیح حاصل ہے؛ خصوصاً متوقع اقتصادی اور سیاسی حوالے سے ۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ کے عہد میں انصاف پسند پوری دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے اس مسئلے کی حمایت کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے خصوصی اہمیت دی کہ یہ عرب کا معاملہ ہونے سے پہلے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، در حقیقت یہ موقف اس ملک کی ذمہ داری بھی ہے اور اس مسئلے میں اللہ کے سامنے جواب دہ بھی ہے، نیز یہ موقف اسلامی پیغام اور عالمی اہمیت کی وجہ سے اس ملک کا اعزاز ہے۔
اس لیے کسی بھی متکبر کے لیے اس ملک کی کاوشوں پر نکتہ چینی کی گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے اپنے کسی ہٹ دھرم، خبطی اور شکوک و شبہات میں پڑے شخص کے لیے کوئی گنجائش باقی ہے کہ وہ ملکی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات پر قدغن لگائے۔ ان کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ اللہ سے ڈریں اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مملکت حرمین شریفین یا دیگر کسی بھی ملک کے خلاف اٹھنے والی مخبوط الحواس تحریکیں در اصل اسلام کے مرکز اور اسلام کے حقیقی محافظین کے خلاف ہیں، یہ بات بھی سمجھ لیں کہ ان تحریکوں کے ذریعے در حقیقت وہ اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہے ہیں اور امت کی جڑیں کاٹ رہیں ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ [البقرة: 9]

’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ؛ حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہیں اور انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔‘‘
یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس ملک کے منہج کا محور اسلام ہے جو کسی کی تعریف یا مذمت سے متزلزل نہیں ہوتا، یا کسی حاسد اور موقع تلاش کرنے والوں سے متاثر نہیں ہوتا، اور اللہ تعالی ہر ایک کے ارادوں سے باخبر ہے اور وہی راہِ راست کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، یا اللہ! ہمارے نبی اور حبیب محمد ﷺ پر رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔
۔۔۔

اللہ کی ذات میں کسی کو شریک کرنا سنگین جرم ہے

قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (سورۃ الاخلاص)

’’فرما دیں کہ وہ اللہ ایک ہے ۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہےاورنہ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔‘‘

عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا لِلنَّبِیِّe یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَاركَ وَتَعَالَی﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌاَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾(رواہ احمد مسند ابی بن کعب)

’’سیدناابی بن کعب رضی اللہ سے مروی ہے کہ مشرکین کا ایک وفد نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے۔اے محمد۔جس’’ رب‘‘ پرآپ ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب کیا ہے۔
وفد کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں ،آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل وصورت ،حسب نسب کیا ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی۔‘‘
یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اورنظریات کے مطابق ’’اللہ‘‘ کی توحید کو مانتے اور اس کی عبادت کرتے آرہے ہیں۔ مگر شرک میں ملوّث ہونے کی وجہ سے توحید ِخالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے،حالانکہ قرآن مجیداور انبیائے کرام کی دعوت توحیدِ خالص ہے۔ جسے سورہ اخلاص میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیاہے۔جو شخص ذاتی اورگروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر’’اللہ‘‘ کی ذات اور اس کی صفات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح ،مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحیدِ خالص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جز بنا لیا ہے۔جیساکہ قرآن کا ارشاد ہے۔

وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف: 15)

’’ لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا حصّہ بنا لیاہےحقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طورپرناشکرا ہے۔ ‘‘
مشرکین اللہ تعالیٰ کوخالق ومالک ماننےاوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ’’اللہ‘‘کی مخلوق اورکچھ بندوں کو اس کی ذات کا حصّہ ٹھہراتے ہیں۔جوواضح طورپر کفر اور ناشکری ہے ۔قومِ نوح نے پانچ فوت شدہ بزگوں کواللہ تعالیٰ کا جز بنایا، ابراہیم uکی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا،فرعون نے اپنے آپ کو ’’رب الاعلیٰ‘‘ کے طورپر منوایا، یہودیوں نے عزیر u کو اللہ کا بیٹا قرار دیا،عیسائیوں نے عیسیٰ u اور ان کی والدہ مریم کو رب کا حصّہ بنا لیا۔ امتِ مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ اس میںایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے اور کثیر تعداد نبی eکو’’ نور من
نوراللہ ‘‘کے طورپرمانتی ہےحالانکہ ارشادباری تعالی ہے۔

لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

’’کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشورٰی:11)

فَلَا تَضْرِبُوْا لِلهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل: 74)

’’پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دو یقیناً اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
ارشادعالی ہے کہ اس کی ذات اورصفات کے ساتھ کسی
چیز کی مثال نہ دی جائے کیونکہ اس کی ذات اورصفات بے مثال ہیں لیکن افسوس ! شرک کرنے والے پھر بھی ایسی باتیں کرتے اور مثالیں دیتے ہیںجس سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا اور ان میں واضح طور پر شرک پایا جاتا ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (التوبۃ: 30)

’’یہودیوں نے کہا عزیر’’اللہ‘‘ کابیٹاہے اورنصاریٰ نے کہا مسیح ’’اللہ‘‘ کابیٹاہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کررہے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفرکیا۔ ’’اللہ‘‘ انہیں غارت کرے کدھر بہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناءپریہ عقیدہ بنایاکہ عزیرu اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ مفسرین اس کے دوسبب بیان کرتے ہیںایک یہ کہ موسیٰ u کی وفات کے بعدجب بُختِ نصرنےیہودیوں پرحملہ کیا اور اس نے تورات کوکلی طورختم کرنےکاحکم دیا۔ جس سے ایسا وقت آیا کہ تورات دنیا میں بالکل ناپیدہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نےدین موسوی کی تجدید کے لیےسیدنا عزیر u کو مبعوث فرمایاجنہوں نے وحی الہٰی کی روشنی میں تورات کودوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سیدنا عزیرu سوسال تک فوت رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھرزندہ فرمایا۔جب وہ اٹھائے گئے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھاناسیدنا عزیر u کے ساتھ تھا وہ سوسال گزرنے کےباوجود اُسی طرح تروتازہ رہا۔ لیکن ان کاگدھا مر چکا تھا جسےعزیر uکے سامنے زندہ کیا گیا۔ اُس کی تفصیل سورۃ البقرہ: آیت 260میں بیان کی گئی ہے۔ اس عظیم معجزہ کی بناء پریہودیوں نے عقیدت میں آکرسیدناعزیرuکواللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا،ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نےسیدنا عیسیٰ u کو اللہ کا بیٹا اور سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید کی گئی ہے۔ گویا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نےاپنے اپنے انبیاء کو ’’اللہ‘‘ کا بیٹا قرار دیا جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں’’اللہ‘‘انہیں غارت کرے۔ یہ کن ٹامک ٹوئیوں میں بھٹکے جا رہے ہیں۔ انسان صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو اسکی گمراہی کی کوئی انتہانہیں رہتی اس لیے انہوں نے علماء، درویشوں اور بزرگوں کو ’’رب‘‘ کا درجہ دے دیا تھا۔ عیسائیوں نے بالخصوص مسیح ابن مریمؑ کو خُدائی مقام پرپہنچایاحالانکہ انہیں حکم دیاگیاتھاکہ وہ خالص ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور وہ ان باتوں سے مبّرااورپاک ہے جو یہود ونصاریٰ کرتے ہیں۔
عیسیٰ u کا پیدا ہونا، قوم کاسیدہ مریم پرالزام لگانا، سیدہ مریم کا گود میں اٹھائے ہوئے عیسیٰ u کی طرف اشارہ کرنا، عیسیٰ u کااپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا۔ قرآن مجید نے ان واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایاہے۔ لیکن اس کے باوجود عیسائی تثلیث کاعقیدہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔

يٰاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ وَاَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ مَا كَانَ لِلهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَهٗ اِذَا قَضٰى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ(مریم: 28 تا36 )

’’اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں گے جو بچہ گہوارے میں پڑا ہوا ہے ؟ عیسیٰ بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ اور مجھے برکت دی میںجہاں بھی رہوں اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اورزکوٰۃ کی پابندی کاحکم دیا ہے۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور سخت طبیعت نہیں بنایا گیا۔ مجھے سلامتی دی جب میں پیدا ہوا اور جب میں مروں گا اورجب زندہ کرکے اٹھا یا جائوں گا۔ یہ عیسیٰ ابن مریم ہے اور یہ ہے اس کے متعلق سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں ۔ اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام ہو جاتا ہے۔ اور عیسیٰ نے فرمایا تھایقیناً اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے ۔بس تم اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں ’’ذٰلِكَ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا جو دور اور نزدیک کے لیے اشارہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ لوگ مریم اورسیدنا عیسیٰ i اور جن کو خُدا یا خُدا کا جزء ٹھہراتے ہیں اور جہاں تک عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے انھیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت کوپوری طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بیوی ، اولاد اور ہر قسم کی حاجت اور کمزوری سے بے نیاز اور پاک اور وہ شراکت داری اور لوگوں کی یاواگوئی سے مبرّا ہے۔ اسے اولاد اور کسی سے شراکت کی کیا ضرور ت ہے؟ کیونکہ اولاد یا کسی کو اپنی ذات اور کام میں شریک بنانا ایک کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے وہ کسی کام کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ کام اس کی منشاء کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اس نے عیسیٰ کے متعلق ’’کُنْ‘‘ فرمایا تو سیدنا عیسیٰ uبغیر باپ کے پیدا ہو گئے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ’’ اللہ‘‘ تین میں سے تیسرا ہے ،حالانکہ وہ اکیلا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انہیں ضرور دردناک عذاب ہوگا ۔کیاوہ اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے ؟ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔مسیح ابن مریم ایک رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھاناکھایاکرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح آیات کھول کر بیان کرتے ہیں ،پھروہ کیسے بہکے جاتے ہیں۔ ‘‘ (المائدۃ:73 تا 75)
آدمی جب حقائق دیکھنے سے اندھا اور دلائل سننے سے بہرہ ہو جائے تو وہ کفروشرک کی وادیوں میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔عیسائی عیسیٰ u کی محبت میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیںکہ اللہ ، عیسیٰ اور مریم ایک دوسرے سے ہیں اور’’ اللہ‘‘تین میں سے ایک ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات اورصفات سے آگاہ فرماتے ہوئے انسانی رشتوں کے درجہ بدرجہ احترام کاحکم دیا ہے لیکن کوئی انسان دین و دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی بلندوبالا یہاںتک کہ رسول اورنبی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ انسان ہی رہتا ہے اور انسان کااللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بندہ ہونے کے سواکوئی رشتہ نہیں ۔
سورۃ اخلاص میں اسی عقیدہ کو نہایت سادہ لیکن انشراح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ایک ہے وہ نہ کسی سے پیدا ہوا ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک اور بے مثال ہے۔لیکن افسوس مشرک اس بات کو سمجھنے اوراسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے یہودیوں نے سیدنا عزیر u کو اللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا ۔ ان سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے عیسائی عیسیٰuکواللہ کا بیٹا اور مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ افسوس امت مسلمہ کی اکثریت شرک کی تمام اقسام کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ ہر نبی نے اپنی امت کو صرف اور صرف ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کرنے کاحکم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کواسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے۔ جو لوگ عقیدہ تثلیث اور شرک سے باز نہیں آئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ البتہ جنھوں نے شرک سے توبہ کی اور اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت ہی معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِي اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدہ: 72)

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ اللہ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہی ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔‘‘

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّهْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًاوَ لِلهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(المائدۃ:17)

’’یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح بن مریم ’’اللہ‘‘ ہے انہیںبتلا ئیںکہ کون ہے ؟جو اللہ کے مقابلہ میں کچھ اختیار رکھتاہو اگر وہ ارادہ کرے کہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو اورجوکچھ زمین میں ہےاسے ہلاک کر دے، آسمانوں اورزمین اورجو کچھ دونوں کے درمیان ہے اس کی بادشاہی ’’اللہ ‘‘کےلیےہےجو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہرچیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید یہ حقیقت منکشف کرتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ اس قدر ژود نگاہی اورکج فکری کا شکار ہوجاتی ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نظریات میں کس قدر تضاد اور الجھائو پایا جاتا ہے۔ عیسائی ایسی ہی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہسیدہ مریم ،سیدنا عیسیٰ اور اللہ کو ملا کر رب کی ذات مکمل ہوتی ہے۔غور فرمائیں کہ عیسائی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف تثلیث پراصرار کیے جا رہے ہیں۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر عیسائی تثلیث کا دعویٰ کرتےہیں وہ عیسیٰu کا بن باپ پیدا ہونا ہے جن کے بارے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف کروانے کی خاطر سولی پر لٹک چکے ہیں۔ یہ قرآن مجید کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عیسیٰu نہ سولی پرچڑھائے گئے اور نہ ہی انھیںقتل کیا گیا ہے ۔ (النساء:۱۵۷)
زمینوں ، آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا سب ’’اللہ‘‘ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار کا مظہر ہے کہ اس نے عیسیٰuکو بغیر باپ کے پیدا کیا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تواس کوجس طرح چاہےتخلیق فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ عیسائیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف عیسیٰ uکو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مصلوب بھی سمجھتے ہیں حالانکہ جو اپنی موت و حیات پر اختیار نہیں رکھتا وہ ’’اللہ‘‘ یا اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے ، کیا فنا ہونے والا اور باقی رہنے والا ،بااختیار اور بے اختیاربرابر ہو سکتے ہیں۔

يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَا اِلٰى مَرْيَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ اِنْتَهُوْا خَيْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا (النساء: 171)

’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے ذمہ سچی بات کے سواکچھ نہ کہو مسیح عیسیٰ ا بن مریم اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہے ،جو اس نے مریم کو القا کیا اور ا للہ کی طرف سے ایک روح ہے پس اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائو اور مت کہو کہ تین(الٰہ) ہیں ،باز آجائو یہ تمہارے لیے بہترہے اللہ ہی معبودبر حق ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور’’ اللہ‘‘ ہی کارساز ہے ۔‘‘
عیسائیوں کو دین میں ’’غلو‘‘ کرنے سے روکا جا رہا ہے جو ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے۔غلو کا معنٰی ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے تعصب کی بنا ءپر عیسیٰ uکے بارے میں غلو کیا وہ مخالفت میں اس قدرآگے بڑھ گئے کہ انہوں نےسیدنا عیسیٰ uاور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے جناب عیسیٰ u اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ uنے بار ہا دفعہ فرمایاتھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیامیں تورات کی تعلیم کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن ستیاناس ہو اس غلو کا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرا دیا۔ یہودیوں کے برعکس عیسائیوں نے عقیدت ومحبت کی انتہا کرتے ہوئے سیدناعیسیٰ uکواللہ کا بیٹا اور مریم کواللہ کی بیوی قرار دیا۔ یہودی عداوت کی بنیاد پر گمراہ ہوئے اور عیسائی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے گمراہ ٹھہرے۔اس سے عیسائیوں کوروکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰu کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں خداکی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ذات ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی ۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ هُوَ الْغَنِيُّ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بِهٰذَا اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (یونس: 68)

’’انھوں نے کہا’’ اللہ‘‘ نے اولاد بنا رکھی ہے۔حالانکہ وہ پاک ہے، اور بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ تمہارے پاس ’’اللہ ‘‘کی اولاد بنانے کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کچھ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے (سورہ آل عمران :۲۹تا۳۶ میں)سیدناعیسیٰu کی حیات کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کا نذر ماننا، سیدہ مریم کو نذر کرنا،سیدہ مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کےسیدنا عیسیٰu کو جنم دینا،سیدنا عیسیٰu کی پیدائش کے وقت قوم کاسیدہ مریم پر تہمت لگانا، گودمیںسیدنا عیسیٰ uکا اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں۔ سیدنا عیسیٰu کا بڑے ہوکر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، سیدنا عیسیٰu کا مجبور ہوکر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا،ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بے بسی اوران کےبندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔جس طرح عیسائی سیدنا عیسیٰ کے حالات جانتے اور مانتے ہیں یہی یہودیوں کا حال ہے۔وہ جانتے ہیں کہسیدنا عزیرu اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا ۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال پڑا رہا ہوں ۔ عزیرu کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو ۔ (تفصیل کے لیے البقرۃ : ۲۵۹ کی تلاوت کریں)
یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ ،دین کے لیے ننگ و عار، عبادت گاہوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ کیونکہ یہودیوں نے جنابِ سیدناعزیرuکو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نےان سے آگے بڑھتےہوئے سیدہ مریم کواللہ کی بیوی اور عیسیٰu کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکینِ مکہ نے بتوں کواللہ کا اوتار تصور کیا اور کچھ لوگوںنے ملائکہ کو’’ اللہ‘‘ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہےاولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری، انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ اولاد نہ ہو تو آدمی اپنے گھر میں ویرانی،بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ وہ حاکمِ کل اور قادر ِ مطلق ہے۔کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔
سنگین ترین جرم

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا(مریم: 88تا92)

’’کہتے ہیں رحمٰن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو تم بُری بات زبان پر لاتے ہو قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ اُنہوں نے ’’اللہ‘‘ کے لیے بیٹا تجویز کیا حالانکہ ’’اللہ‘‘ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ۔‘‘
۔۔۔

فتاوی

سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام دریں مسئلہ کہ ایک شخص کا انتقال تقریباً 60 سال پہلے ہوا تھا مرحوم (ا ب ج )کا ایک نواسہ جو کہ ضلع عارف والا کے قریب رہائش پذیر ہے۔ وہ اپنے خاندان میں اچھا تعلیم یافتہ نوجوان تھا انہوں نے ناجائز سفارش اور رشوت کے ذریعہ مرحوم کے ایک زندہ بھائی کو غلط طور پر سرکاری محکمہ میں مردہ لکھوادیا تھا۔
مرحوم نے اپنے ایک بھتیجے کے حق میں ایک تہائی کی وصیت تحریراً چھوڑی تھی مرحوم کے اسی نواسے نے یہ کہا کہ یہ وصیت نامہ مرحوم کے مرجانے کے بعد تیار کیاگیا ہے اور بعد ازوفات مرحوم کے انگوٹھے لگائے گئے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ایک زندہ بھائی کو مرحوم کراکر حصہ سے محروم کرایا گیا اور وصیت نامہ کو بھی جھوٹ کہہ کر بھتیجے کو محروم کرایا گیا۔
واضح رہے کہ مرحوم کے ورثاء میں اولاد نرینہ اور والدین نہیں تھے صرف ایک بیٹی دو بھائی اور ایک بہن تھی۔
سرکاری تقسیم کے بعد تنازعات ہوئے تو مرحوم کے نواسے (ا ب ج )نے یہ فیصلہ کیا کہ مرحوم کے ترکہ کو رسول اللہﷺ کی شریعت طیبہ کے مطابق تقسیم کر دیتے ہیں ،بعد میں سرکاری کاغذات میں ریکارڈ کی تصحیح کرادی جائے گی اور واقعی موقع محل پر از روئے شرع وراثت تقسیم کی گئی اس کے محروم بھائی کو حصہ دیا گیا اور بھتیجے کو وصیت کے مطابق ایک تہائی دی گئی اور جملہ اختلافات ختم ہوگئے ۔لیکن ایک طویل عرصہ کے بعد آج اسی نواسے نے (اب ج )کا پھر اصرا ر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی روشنی میں کیے جانے والے فیصلہ ہمیں قبول نہیں بلکہ اپنے بھائیوں اور بھتیجے کو کھڑا کر دیا ہے جو کہ صاف لفظوں میں زمین کے چند مرلہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی شریعت طیبہ کے فیصلے کا انکار کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہماری ماں کی زمین کا حصہ دیا جائے جس پر شدت سے مطالبہ جاری ہے نیز واضح رہے کہ آج وہ تمام گواہان وفات پاچکے ہیں کسی کے پاس کوئی تحریر ی ریکارڈ موجودنہیں ہےالبتہ جیسے زمین تقسیم ہوئی تھی آج تک وہ حصے سب کے پاس اسی حالت میں موجود ہیں ۔
استفسار طلب امر یہ ہے کہ:
1کیا رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے فیصلے کو نظر انداز کر کے جھوٹے ریکارڈ کے مطابق اصرار کرنے اور شرعی فیصلہ ہو جانے کے بعد سرکاری ریکارڈ کو تر جیح دینے والوں کی دینی و معاشرتی حیثیت کیا ہے ؟
2مرحوم کی وصیت کو چھپانے اور مشکوک بنانے والے کا حکم کیا ہے ؟
3رسول اللہ ﷺ کی شریعت طیبہ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والا شخص کا قرآن و سنت اور آئمہ اربعہ کے نزدیک کیا حکم ہے ؟
4فیصلہ کیسے کیا جائے ؟ بیّنوا تؤجروا
الجواب بعون الوھاب
صورت مسئولہ میں شرعی فیصلے کو برقرار رکھا جائے جھوٹے ریکارڈ کی شریعت کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ہے غیر شرعی تقسیم پر مجبور کرنے والے کو پنچائت کے ذریعے سمجھا یا جائے اور سرکردہ لوگوں کے واسطے اس کو انجام بد سے ڈرایا جائے اس کے برے کردار سے لوگوں کو متنبہ کیا جائے شاید اس کو غیرت حاصل ہوجائے جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَا إِلَيْهِ جَارَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ جَارِي يُؤْذِينِي. فَقَالَ: أَخْرِجْ مَتَاعَكَ فَضَعْهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَجَعَلَ كُلُّ مَنْ مَرَّ عَلَيْهِ قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي شَكَوْتُ جَارِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِي أَنْ أُخْرِجَ مَتَاعِي فَأَضَعَهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ اللَّهُمَّ اخْزِهِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ فَوَاللهِ لَا أُؤْذِيكَ أَبَدًا )) (هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاه وَلَهُ شَاهِدٌ آخَرُ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ (ص 231 ، الحدیث : 7382۔ مستدرک حاکم ، والنسائی وغیر ذلک من کتب الحدیث )

’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور اپنے پڑوسی کی شکایت کی اور عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ! میرا پڑوسی مجھے بہت ستاتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنا سامان نکال کر باہر گلی میں رکھ دو اس نے سارا سامان نکال کر راستے میں رکھ دیا جو شخص بھی وہاں سے گزرتا وہ (اس طرح سامان گلی میں رکھنے کی وجہ) پوچھتا تو وہ کہتا میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اپنے پڑوسی کی شکایت کی تھی تو آپ نے مجھےحکم دیا کہ میں گھر کا سامان نکال کر باہر رکھ دوں تو میں نے سامان نکال کر باہر رکھ دیا ہے لوگ اس (کے پڑوسی) کے بارے میں کہنے لگ گئے ’’ اے اللہ اس پر لعنت کر اے اللہ اس کو رسوا کر ۔ اس (پڑوسی) تک اس بات کی خبر پہنچ گئی وہ وہاں آیا اور کہنے لگا تم اپنا سامان واپس گھر لے جاؤ اللہ کی قسم! میں آئندہ سے تمہیں کبھی تنگ نہیں کروں گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا صحابی کا یہ عمل اپنے پڑوسی کے لیے ندامت کا سبب بنا جس کی وجہ سے اس نے اپنے پڑوسی کے ساتھ بُرا سلوک ترک کر دیا ۔
2۔میت کی وصیت کو چھپانا،بدلنا اور مشکوک بنا نا وصیت کے احکام کو ردّ کرنے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں :

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ

’’ یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد‘‘۔
یعنی ورثہ کی تقسیم وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اگر آپ وصیت پوری نہیں کرتے اور قرض میت کو ادا نہیں کرتے تو یہ ظلم وتعدی ہے مال کو باطل طریقے سے کھانا ہے گویا کہ (يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا) ہے اس مسکین کو جہنم کی وادی کا تعارف کروائیں اور نصیحت کریں چونکہ نصیحت مومن کو فائدہ دیتی ہے ۔

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات:55)

’’اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔ ‘‘
جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے دو صحابہ جو زمین کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے ان کو جہنم کی آگ کی یاد دلائی تو وہ دونوں فوراً تائب ہوئے لہٰذا ان کو آخرت کی یاد تازہ کروائی جائے۔
3 ۔ شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو چیلنج کرنا یہ ایک مسلمان کو فساق،کفار اور ظالمین کی صف میں لاکھڑا کرتاہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے :

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

’’ اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں ۔ ‘‘

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں ۔ ‘‘

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

’’اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں ۔‘‘
لہٰذا مسلمان کو اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے چند روزہ زندگی کو سنوارتے سنوارتے لا متناہی زندگی کو کہیں برباد نہ کرلیں۔
اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں :

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ( النساء : 14)

’’اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جائے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے ، ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے ۔ ‘‘
یہ آیت اور اس کے علاوہ دوسری آیات جیسے

لَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء : 65)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ ﷺکے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘ (النساء : 115)
ان کو پڑھاؤ اور سمجھاؤ
حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ نے شمارہ نمبر 16 شعب الایمان للبیہقی جلد 14 صفحہ 115 میں نقل فرمائی ہے کہ جو کسی کی وراثت کو ختم کرتاہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مقرر کی ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے ، یہ حدیث صحیح اور ابن ماجہ کی روایت ضعیف ہے ۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:فتاوی اصحاب الحدیث 1/281)
ثابت ہوا کہ شریعت اسلامیہ کی نافرمانی دنیا وآخرت کی ذلت ونکبت ہے لہذا نافرمانی سے بچیں اور توبہ کیجیے :

إِنَّ اَلتَّوبَۃَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا

’’بیشک توبہ سابقہ لغزشوں کو ختم کردیتی ہے۔‘‘
4۔ فیصلہ ہمیشہ عدالت کرتی ہے عدالت بھی دلائل وبراہین کی پابند ہوتی ہے اگر شواہد اور گواہان نہیں دلائل بھی مفقود ہیں تو نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے نصیحت کیجیے اور آخرت کا خوف وڈر اللہ رب العالمین کی قہاریت اور جباریت یاد کروائیں شاید کہ اس کے دل میں جنت کے مال ومتاع کی قیمت بڑھ جائے۔
بندئہ مومن کی دعا بھی اس کی رحمت کو نازل فرمادیتی ہے جس سے بندہ کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ سیدھی راہ پر آجاتاہے ۔ واللہ أعلم بالصواب

(14حاضرین مجلس غائب افراد کو علم پہنچائیں (سلسلہ رباعیات

15-104- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو ابْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ عَمْرٌو قَالَ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ

عبداللہ بن یوسف، لیث، سعید بن ابی سعید، ابوشر یح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عمرو بن سعید (والی مدینہ) جب ابن زبیر سے لڑنے کے لئے لشکروں کو مکہ کی طرف روانہ کر رہا تھا تو میں نے اس سے کہا اے امیر! مجھے اجازت دیں، تو میں تجھ سے ایک ایسی بات کہوں جس کو نبی کریم ﷺنے فتح کے دوسرے دن کھڑے ہو کر فرمایا تھا۔ اس کو میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور اس کو میرے دل نے یاد رکھا ہے اور جب آپ اس کو بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا کہ مکہ (میں جدال وقتال وغیرہ) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے آدمیوں نے نہیں حرام کیا، پس جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ مکہ میں خون ریزی کرے اور نہ (یہ جائز ہے کہ) وہاں کوئی درخت کاٹا جائے پھر اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے لڑنے سے (ان چیزوں کا) جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی پھر آج اس کی حرمت ویسی ہی ہوگئی جیسی کل تھی، پھر حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو (یہ خبر) پہنچادے، ابوشریح سے کہا گیا کہ (اس حدیث کو سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ انہوں نے کہا کہ (یہ جواب دیا کہ) اے ابوشریح میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی باغی کو اور خون کر کے بھاگ جانے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
When ‘Amr bin Said was sending the troops to Makkah (to fight ‘Abdullah bin Az-Zubair) I said to him, ‘O chief! Allow me to tell you what the Prophet said on the day following the conquests of Makkah. My ears heard and my heart comprehended, and I saw him with my own eyes, when he said it. He glorified and praised Allah and then said, “Allah and not the people has made Makkah a sanctuary. So anybody who has belief in Allah and the Last Day (i.e. a Muslim) should neither shed blood in it nor cut down its trees. If anybody argues that fighting is allowed in Makkah as Allah’s Apostle did fight (in Makkah ) tell him that Allah gave permission to His Apostle, but He did not give it to you. The Prophet added: Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today (now) its sanctity is the same (valid) as it was before. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent.” Abu- Shuraih was asked, “What did ‘Amr reply?” He said ‘Amr said, “O Abu Shuraih! I know better than you (in this respect). Makkah does not give protection to one who disobeys (Allah) or runs after committing murder, or theft (and takes refuge in Makkah).
شرح الکلمات:
الْبُعُوثَ :جنگی لشکر
وَعَاهُ:اسے یاد کیا
ائْذَنْ لِي:مجھے اجازت دیں
يَسْفِكَ: وہ خون بہاتا ہے
لَا يَعْضِدَ: وہ نہیںکا ٹتا
وَلْيُبَلِّغِ:چاہے کہ وہ پہنچا دے
لَا يُعِيذُ: وہ پناہ نہیں دیتا
عَاصِيًا : کوئی گناہ گار یا باغی
فَارًّا :بھاگنے والا
بِخَرْبَةٍ:خیانت
تراجم الرواۃ :
1 نام و نسب :عبد اللہ بن یوسف التنیسی الکلاعی المصریآبائی وطن دمشق ہے مگر بعد میںمصر میں سکونت اختیا رکی ۔
کنیت: ابو محمد
محدثین کے ہاں رتبہ: امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں سطح زمین پر موطا کےرواۃ سے عبد اللہ بن یوسف سے زیادہ سچا کوئی نہیں ۔امام عبداللہ بن ابی حاتم فرماتے ہیں: ثقہ۔امام الدارقطنی بھی انکے بارے میں فرما تے ہیں کہ وہ ثقہ تھے۔
وفات : عبداللہ بن یوسف التنیسی نے 218ھجری کو مصر میںوفات پائی ۔
2نام و نسب :اللیث بن سعد بن عبد الرحمن الفہمی
کنیت : ابو الحارث الفہمی ۔
محدثین کے ہاں رتبہ:عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے والد محترم امام احمد حنبل فرمایا کرتے تھے کہ
اصح الناس حدیثا عن سعید المقبری لیث بن سعدامام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں رتبہ ثقہ ،ثبت فقیہ امام
ولادت ووفات : اللیث بن سعید 94ھجری میں پیدا ہوئے اور 175ھجری میں وفات پائی ۔
3نام و نسب :سعید بن ابی سعید ان کا نام کیسان اللیثی المقبری المدنی
سعید بن ابی سعید بہت سے صحابہ کرام کے شاگرد ہیں جن میں مشہور سیدنا ابو ہریرہ ،سعد بن ابی وقاص ،سعید الخدری ،ابی شریح الخزاعی ،سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں ۔
کنیت : ابو سعد
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ سعید بن ابی سعید صدوق تھے ۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لیس بہ بأس امام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقۃ ولکن تغیر قبل موتہ باربع سنین
وفات:سعید بن ابی سعید نے 120ھجری میں وفات پائی
4نام و نسب : خویلد بن عمر بن صنجر بن عبد العزی بن معاویہ ۔فتح مکہ کے وقت اسلام میں داخل ہوئے صحابی جلیل قراء صحابہ کرام میں شمار ہو تا ہے ۔
کنیت :ابو شریح الخزاعی العدوی الکعبی
مرویات : ابو شریح ؄کی تقریبا 20مرویات ہیں ۔
وفات: ابو شریح؄68ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔
تشریح :
عمرو بن سعید بن عاص جوکہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہم کی جانب سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا اور وہ مکہ مکرمہ میں سیدناعبدا للہ بن زبیر ؄کے مقابلےکے لیے لشکر کی تیاری میں مصروف تھا ۔ابو شریح خویلد بن عمر و الخزاعی ان کے پاس تشریف لائے اور اسے نصیحت کر نے لے لیے حکیمانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
جناب امیر میں نے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک فرمان پورے غور سے سنا جو میںنے دل میں بٹھالیا آپ نے حمد و ثنا ء کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مکہ معظمہ کو ا س دن سے حرم قرار دیا ہے جب سےاس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا اسے لوگوں نے حرم قرار نہیں دیا لہذا جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اس لے کیے مکہ معظمہ میں کسی کا خون بہا نا یا کسی درخت کو کاٹنا جائز نہیں کوئی اگر یہ کہتا ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی میں جنگ لڑی تھی تو اسے بتادیا جائے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دن کے کچھ حصے کے لیے اجازت دی تھی اور پھر دوبارہ اس کی حرمت پہلے کی طرح لوٹ آئی آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا جو لو گ یہاں موجو د ہیں وہ میر اپیغام ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں مو جود نہیں چونکہ میں اس دن وہاں موجود تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کا پیغام آپ کو سنا رہا ہوں کیونکہ آپ وہاں موجود نہ تھے لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا کہ مدینہ کے گورنر عمرو بن سعید بن عاص نے کیاجواب دیا تھا فرمایا کہ اس نے میری نصیحت بھری گفتگو سن کر یہ کہا :اے بو شریح میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں سنیے حرم کسی گنہگار بھگوڑے قاتل یا بھگوڑے چور کو پناہ نہیں دیتا ۔
عمرو بن سعید کا یہ جواب اس موقع پر درست نہیں تھا کیونکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان حضرات سے کہیں زیادہ افضل تھے جن کے مقابلے کے لیے مدینے سے لشکر روانہ کیا جارہا تھا ۔
۔۔۔

مجھے بھی پڑھئیے!

انسان ، جسم وروح کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارا جسم مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس کی خوراک وعلاج بھی مٹی میں رکھ دیا ہے جبکہ ہماری روح آسمان سے نازل کی گئی ہے تو اس کی خوراک وعلاج بھی آسمان سے نازل کیا گیا ہے جو کہ قرآن مجید اور اس کی شرح حدیث رسول کی صورت میں ہمارے پاس ہے ۔ جس طرح ہمارا جسم اپنی خوراک کا محتاج ہے اور بیماری کی صورت میں دواکا محتاج ہے اسی طرح ہماری روح بھی اپنی خوراک کی محتاج ہے اور بیماری کی صورت میں علاج کی محتاج ہے ۔
آج ہر انسان جسم کی خوراک،لباس اور علاج کے لیے ہزار کوششوں میں مصروف ہے جبکہ روح کی خوراک وعلاج نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے روحانیت مردہ ہوچکی ہیں۔ اس مصروف ترین دور میں روح کی خوراک وعلاج کے لیے وقت نکالنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس کے لیے ایک انتہائی آسان اور گھر بیٹھے معمولی وقت کے ساتھ’’ فہم قرآن کورس‘‘ حاضر خدمت ہے جس میں آپ خود اور اپنی اولاد وبہن وبھائیوں کی کچھ نہ کچھ روح کی خوراک وعلاج کااہتمام کرسکتے ہیں ۔
ماہنامہ مجلہ’’اسوئہ حسنہ ‘‘ میں علمی،تحقیقی اور اصلاحی مضامین شائع ہوتے ہیں اب ان کے ساتھ ’’فہم قرآن کورس‘‘ کا اضافہ کیاجارہا ہے جس میں قرآن مجید کے آخری پارے سے تفسیر کا آغاز کیاجارہا ہے ۔ تفسیر میں مندرجہ ذیل امور کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
1 عربی گرائمر اور ادب کے مطابق لفظی مگر رواں ترجمہ
2 عام فہم مختصر عربی گرائمر اور آسان لغت کا حل
3 قرآن مجید میں وہ حروف جو اردو میں بھی مستعمل ہوئے ہیں
4 آیات وسورتوں کا مستند اسباب نزول اور فضائل کا ذکر
5آیات وسورتوں کا ماقبل ومابعد کے ساتھ ربط وتعلق
6آیات کی تفسیر وتوضیح قرآن،حدیث ،اقوال صحابہ اور سلف سے منقول شدہ
7 قرآن مجید میں بیان کردہ آفاق کے حقائق اور سائنس کے اعترافات کا بیان
8 باطل ادیان وفرق کے شبہات اور ان کا مدلل جواب نیز عصرِ حاضر کے درپیش جدید مسائل اور ان کا حل
9 آیات سے استنباط کردہ احکام ومسائل
0 اختتام پر مشقی سوالات
فہم قرآن کورس میں شرکت کرنے والوں کے لیے معلومات :
1اس کورس میں شرکت کے لیے ایڈمیشن ضروری ہے ۔
2ایڈمیشن کے بعد امیدوار کو مکمل ایڈریس اور رول نمبر ارسال کیا جائے گا جس پر وہ رابطہ کرے گا۔
3 ایک سمیسٹر 3 ماہ پر مشتمل ہوگا اور مکمل کورس 2
سمیسٹرزپر مشتمل ہوگا۔
4 ماہانہ مجلہ ’’اسوئہ حسنہ‘‘ میں فہم قرآن کورس کے سبق کے اختتام پر سوالات درج ہوں گے جن کے جوابات امیدوار ادارہ کو ارسال کرے گا۔
5 ایک سمیسٹر کی 300 روپے انٹری فیس ہوگی اورمجلہ اسوئہ حسنہ فری ارسال کیاجائے گا۔
6کورس کے اختتام پر کامیاب امیدواروں کی قیمتی انعامات سے حوصلہ افزائی کی جائے گی اور مجلہ اسوئہ حسنہ رجسٹرڈ حکومت پاکستان اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ رجسٹرڈ آف حکومت پاکستان کی طرف سے ’’سند امتیاز‘‘ دی جائے گی۔
کورس میں اول پوزیشن والے کو 5000 روپیہ ۔
دوم کو 4000 روپیہ
اور سوم کو 3000 روپیہ (نقدی) دیاجائے گا۔
7 کورس میں داخلہ اور جوابات ارسال کرنے کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے رابطہ کریں۔
بذریعہ ڈاک: مجلہ اسوئہ حسنہ ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ، گلشن اقبال 5 پوسٹ بکس11106کراچی
بذریعہ موبائل میسجز+وٹس اپ: 03003943119
بذریعہ ای میل: usva.jab@gmail.com
برائے رابطہ :  03216977241
قرآن مجید کا تعارف
لفظ قرآن قَرَءَ ، یَقرَأُ کا مصدر ہے جس کا لغوی معنی جمع کرنے اور ملانے کے ہیں پھر یہ لفظ پڑھنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے کیونکہ پڑھتے وقت بھی حروف وکلمات کو جمع کیا جاتاہے اور آپس میں ملایا جاتاہے۔
قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف :

هُوَ كَلَامُ اللهِ الْمُنَزَّلُ عَلَى مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم وَالْمُتَعَبَّدُ بِتِلاَوَتِهِ (ارشاد الفحول ص:29 ، مناھل العرفان فی علوم القرآن 1/21)

’’ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جوجناب محمد ﷺ پر نازل کیاگیا اور اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے۔‘‘
وجہ تسمیہ :
لفظ’’قرآن‘‘ مصدر ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں عربی زبان میں مصدر کو اسم مفعول کے معنی میں بھی استعمال کیاجاتاہے تو قرآن مصدر بھی اسم مفعول’’ مَقرُوءٌ‘‘ کے معنی میں استعمال کیاگیاہے اور آخر میں الف ونون مبالغہ کے لیے ہے اس لیے قرآن کا معنی ہے ، بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔
واقعی قرآن مجید اسم بامسمّٰی ثابت ہوا کہ جس قدر اس کتاب کی تلاوت کی گئی تلاوت ہورہی ہے اور آئندہ ہوتی رہے گی کسی اور الہامی یا غیر الہامی کتاب کی اس قدر تلاوت نہیں ہے۔
دیگر کتب سے خصوصیات :
قرآن مجید کی دیگر الہامی اور غیر الہامی کتب سے نمایاں خصوصیات ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
1 قرآن مجید زمانہ نزول سے آج تک سندِ تواتر سے اور صحیح تاریخ وتدوین کے ساتھ محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے ۔
2 اس کی تلاوت ہمہ وقت دنیا میں جاری وساری ہے اور اس کی تلاوت سننا ضروری قرار دیاگیا ہے اور دنیا کی تمام کتب سے اس کی اشاعت زیادہ ہے۔ صرف فہد کمپلیکس(مدینہ منورہ) میں لاکھوں قرآن اور 44 سے زائد زبانوں میں مترجم قرآن تقسیم کیے جاتے ہیں ۔
3 قرآن مجید کا دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ترجمہ وتفسیر دستیاب ہے صرف اردو زبان میں ایک سو سے زائد تراجم شائع ہوچکے ہیں اور غیر شائع کی تعداد چارسو سے بھی زائد ہے ۔
4 قرآن مجید اپنی نازل شدہ زبان میں محفوظ ہے اور اس کی عربی زبان بھی زندہ وجاوید ہے جبکہ دیگر کتب آسمانی کی اصل زبانیں مفقود ہوچکی ہیں۔
5 قرآن مجید کی تعلیمات عین انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور یہ ہر دور میں ہر علاقہ اور ہر انسان کے لیے یکساں مفید ورہنما ہیں اس لیے مرورِ زمانہ سے اس کے اصول وقوانین میں تغیّر کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی تعلیمات دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضامن ہیں ۔
6 قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت ، اسلوب بیان کی مثل لانے سے کل کائنات کو ہمیشہ چیلنج رہا اور آج تک کوئی اس کی مثل نہ لا سکا اور اس کی زمانہ ماضی کی اخبار اور مستقبل کی پیشین گوئیوںکے خلاف کوئی ثابت نہ کرسکا۔
نزول قرآن کے مراحل :
قرآن مجید کے نزول کے تین مراحل ہیں :
1 سب سے پہلا نزول لوح محفوظ میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ (البروج:21۔22)
’’بلکہ وہ قرآن مجید ہے جو لوح محفوظ میں ہے۔‘‘
2دوسرا نزول لوح محفوظ سے بیت العزۃ میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ(القدر:1)

’’ ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے ۔‘‘
3 قرآن مجید کا تیسرا نزول بیت العزۃ سے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہے ۔ اور یہ نزول آہستہ آہستہ حسب ضرورت ہوتا رہا اور 22 سال 9 ماہ اور 9دن میں مکمل ہوا ۔ عرفِ عام میں اسے 23 سال کہا جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلًا (بنی اسرائیل : 106)
’’ اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے نازل کیا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرمائیں اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ نازل کیا ہے ۔‘‘
قرآن مجید کو تدریجاً نازل کرنے میں حکمتیں :
قرآن مجید کو یک بارگی نازل نہیں فرمایا بلکہ آہستہ آہستہ نازل فرمایا ہے جس میں بہت سی حکمتیں تھیں ۔ چند مندرجہ ذیل ہیں :

1 قلبی ثابت قدمی :

مشرکین ومنکرین رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طرح طرح کی تکالیف واذیتیں پہنچاتے تھے جس کی وجہ سے بشری تقاضا کے مطابق ان کو قدرے پریشانی لاحق ہوجاتی تھی اس پریشانی کو زائل کرنے اور تسلی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ ایسی آیات نازل فرمادیتے تھے جس میں آپ ﷺ کی کامیابی اور منکرین کی ناکامی کا ذکر ہوتا اور سابقہ انبیاء اور ان کی امتوں کا تذکرہ ہوتا جس سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام کو اطمینان وسکون ہوجاتا ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ (ھود:120)

’’ اور رسولوں کے تمام وہ واقعات جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ان سے آپ کے دل کو مضبوط رکھتے ہیں ۔‘‘
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا :

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف : 35)

’’ پس صبر کیجیے جس طرح اولو العزم پیغمبروں نے صبر کیا۔‘‘

2اعتراضات کا رد:

منکرین ومخالفین کے آئے دن نئے نئے اعتراضات وسوالات ہوتے تھے تو جن آیات میں ان کا جواب ہوتا تھا ان کا نزول اسی وقت ہی مناسب ہوتا تھا جب وہ اعتراضات کیے جاتے تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا (الفرقان : 33)

’’اور وہ آپ کے سامنے جو اعتراض بھی پیش کرتے ہیں ہم اس کا صحیح اور بہترین مفصل جواب بھیج دیتے ہیں ۔‘‘
3 حفظ وفہم میں آسانی :
قرآن کریم کا نزول ایک اَن پڑھ قوم پر ہوا تھا ان کی طاقت میں نہ تھا کہ مکمل قرآن یکبارگی سمجھ لیں اور حفظ کر لیں اس لیے قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیاگیا تاکہ سمجھنے اور حفظ کرنے میں آسانی ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ (الجمعۃ : 2)

’’ وہی ذات ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک عظیم رسول بناکر بھیجا جو ان کو اس کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتاہے اور انہیں پاک کرتاہے۔‘‘
4 درجہ بدرجہ تربیت :
نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ انتہائی ابتر ہوچکا تھا ان میں حلال وحرام اور اچھی وبُری چیز میں تمیز ختم ہوچکی تھی اس لیے حکمت کا تقاضا تھا کہ ان کی اصلاح درجہ بدرجہ کی جائے جیسے شراب کی حرمت آہستہ آہستہ قرار دی گئی ہے ۔

تدوین قرآن مجید :

قرآن مجید تحریری صورت میں نازل نہیں ہوا بلکہ زبانی انداز میں نازل ہوا اور مکمل قرآن کریم ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا بلکہ ایک لمبے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا ہے اس لیے عہد رسالت میں شروع سے ہی اسے کتابی شکل میں محفوظ کرنا ممکن نہ تھا چنانچہ ابتدائے اسلام میں حفاظت قرآن کے لیے زیاد زور حفظ پر دیا جاتا تھا جب قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ ﷺ صحابہ کرام کو معانی ومفہوم کے ساتھ ساتھ حفظ بھی کرواتے تھے اور صحابہ کرام بھی حفظ قرآن میں دن رات کوشاں رہتے تھے البتہ رسول اللہ ﷺ نے حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ اس کو تحریر کروانے کا بھی اہتمام کر رکھا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ایسی جماعت ہمہ وقت آپ کی مجلس میں رہتی تھی جو لکھنے کا کام کرتے تھے اور لکھنے کے بعد آپ کو سنا کر اصلاح بھی کراتے تھے اس لیے مکمل قرآن مجید آپ ﷺ کی زندگی مبارک میں تحریری صورت میں محفوظ ہوچکا تھا لیکن مکمل قرآن کسی ایک صحابی کے پاس،کسی ایک چیز میں لکھا ہوا نہ تھا بلکہ مختلف صحابہ کرام کے پاس، مختلف چیزوں میں الگ الگ صورت میں لکھا ہوا موجود تھا۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جنگ یمامہ ہوئی جس میں حافظ قرآن صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی اس صورت حال کو دیکھ کر سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ تحریر کر کے محفوظ کرلیا جائے چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ کام سیدنازید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاتب وحی کے ذمہ لگایا اور ساتھ چھ صحابہ کرام کی ٹیم بھی مہیا کی اور سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا کہ جس کے پاس قرآن مجید تحریری شکل میں موجود ہے یااس نے وہ خود رسول اللہ ﷺ سے سن کر لکھا ہو اور لکھنے کے بعدآپ کو سنا کر تصدیق بھی حاصل کرلی ہو ایسی تحریر فوراً تدوین قرآن کمیٹی کو جمع کرا دی جائے چنانچہ جو بھی تحریر آتی تو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دو گواہوں کی شہادت کے ساتھ قبول فرماتے پھر دوسرے نسخوں سےموازنہ کرتےاور حفاظ صحابہ کرام کو سناتے اور تمام تحقیق و تفتیش کے بعد کاغذ کے صحیفوں میں تحریر فرماتے اس طرح زبر دست محنت شاتہ کے ساتھ مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ مدون و مرتب کرلیا گیا ہر سورت کو الگ الگ صحیفہ میں اور سات قرأتوں کے مطابق لکھا گیا تھا اس لیے اس کا نام ’’ام الصحائف‘‘ مشہور ہوگیا ۔پھر سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قراتوں کے اختلافات کی وجہ سے بعض لوگوں میں اختلاف شروع ہو گئے تو انہوں نے صحابہ کرام کے مشورہ سے قریشی قراءت پر مرتب کردیا قرآن مجید کا یہ صحیفہ خط عثمانی میں تحریر کیا گیا تھا لیکن نقطوںاور حرکات سے خالی تھا کیونکہ ابھی تک نقطوں اور حرکات لا رواج نہیں تھا پڑھنے والےاتنے عادی اور ماہر تھے کہ وہ ا ن کے بغیر ہی درست قراءت کر لیتے تھے کیونکہ انکا دارومدار صرف کتابت پر نہ تھا بلکہ حافظے پر بھی تھا ۔
جب اسلام عجم میں پھیلا تو ان کے لیے بغیر نقطوں اور اعراب کے قرآن مشکل تھا تو سب سے پہلے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ابو الاسود الدؤلی نے پہلے نقطے اور بعد میں اعراب لگائے اور قرآن کی تلاوت میں امت کےلیے آسانی پیدا کی اس کے بعد خلیل بن احمد نحوی نے ھمزہ اور شدکی شکلیں ایجاد کیں ۔
منازل ،پارے ،رکوع اور آیات
ٓصحابہ اور تابعین کا عام دستور تھا کہ ایک ہفتہ میں مکمل قران مجید کی تلاوت کر لیتے تھے اس لیے انہوں نے نے یومیہ تلاوت کے لیے قرآن مجید کی سات احزوب یا منزلیں بنائی ہو ئی تھیں پھر وہ سات منزلیں مشہور ہوگئیں قرآن مجید کے تیس اجزاء یا پارے ہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکتی کہ تیس پاروںمیں کب اور کس نے تقسیم کیا ہے بعض نے یہ توضیح بیان کی ہے کہ عامۃ الناس ایک ماہ میں مکمل قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرتے تھے اس اعتبار سے انہوں نے ایک ماہ کے مطابق تیس حصوں میں تقسیم کیاتھا جس سے تیس پارے معروف ہوگئے ۔(واللہ اعلم بالصواب )
قرآن مجید میں557رکوع ہیں رکوع مقرر کرنےکا مقصد یہ بیان کیا جاتاہے کہ جہاں کچھ آیات میں ایک مفہوم مکمل ہوجاتاہے وہاں رکوع کی علامت’’ع‘‘ لکھ دی گئی کہ نماز میں اتنی آیات تلاوت کرکے رکوع میں جانا بہتر ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار سے زائد آیات ہیں آیت کا معنی علامت یا نشانی ہے ہر آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہے اس لیے اس کا نام آیت رکھا گیا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ قرآن مجید کے ایک جملے کے مکمل ہونے پر گول دائرہ لگا دیاجاتا تھا تاکہ معلوم ہوکہ ایک جملہ مکمل ہوگیا اسی کو آیت بھی علامت ونشانی کا نام دیاگیا۔

رموزِ اوقاف :

ہر زبان میں کلام کرتے وقت وقف اور عدم وقف کا خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو بعض اوقات کلام کا مفہوم بالکل بگڑ جاتاہے جیسے : روکو، مت جانے دو اور روکو مت، جانے دو ۔ قرآن مجید میں بعض ایسے مقامات ہیں کہ اگر وقف یا عدم وقف کا لحاظ نہ رکھا جائے تو مفہوم صحیح نہیں رہتا اس طرح کی خامیوں سے بچنے کے لیے اہل علم نے آیات کے درمیان یا اختتام پر کچھ علامات لگائی ہیں جنہیں ’’ رموز اوقاف‘‘ کہتے ہیں ان کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن پاک کے آخر میں یہ رموز تفصیل سے لکھے جاتے ہیں تاکہ عجمی لوگ بھی صحیح انداز میں تلاوت کرسکیں۔

مکی ومدنی سورتیں :

قرآن مجید کی سورتیں دو قسموں پر مشتمل ہیں ۔ مکی اور مدنی
جو سورتیں ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کو مکی سورتیں کہا جاتاہے ، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ کے گرد ونواح میں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں وہ مدنی سورتیں کہلاتی ہیں۔
سورتوں کا مکی ومدنی ہونا اکثریت واغلبیت کے اعتبار سے ہوتا ہے ورنہ بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات اور مدنی سورتوں میں مکی آیات بھی پائی جاتی ہیں ۔

مکی ومدنی سورتوں کا اسلوب :

مکہ میں ایک طرف مٹھی بھر اہل ایمان تھے جو دن رات کافروں کی اذیتوں کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور اپنوں وبیگانوں کی طرف سے سخت مشکلات برداشت کرکے بھی ایمان کو سینہ سے لگائے ہوئے تھے تو دوسری طرف مشرک ومنکرین حق تھے جو توحید ورسالت ، حیات بعد الموت اور تعلیمات الٰہی کے منکر تھے اور بدعات فاسدہ کے مرتکب تھے ۔ اس لیے مکی سورتوں میں اہل ایمان کی استقامت اور منکرین کے عقائد واعمال کی تردید کو عقلی ونقلی دلائل سے ثابت کیاگیا ہے اور شرک کے تمام شبہات کا جواب اور توحیدالٰہی کو خوب بیان کیاگیا ہے ۔ چونکہ مکہ کے لوگ فصاحت وبلاغت میں بہت مشہور تھے اس لیے مکی سورتوں میں فصاحت وبلاغت،تشبیہ وتمثیل اور مشکل لغت کا استعمال کیاگیاہے۔
جبکہ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی اکثریت تھی،اسلامی حکومت قائم ہوچکی تہی اس لیے وہاں احکامات کی زیادہ ضرورت تھی اس لیے مدنی سورتوں میں اسلامی معاشرہ کے اصول واحکام،عبادات ومعاملات،حدود ومیراث ، خاندانی واجتماعی احکامات،بین الاقوامی تعلقات، جہاد وقتال کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اسی طرح مدینہ میں یہود ومنافقین بھی رہتے تھے اس لیے ان کے باطل عقائد ونظریات کی بھی خوب تردید کی گئی ہے۔
قرآن مجید کی کل 114 سورتیں ہیں جن میں سے 20 کے مدنی ہونے میں مفسرین کا اتفاق ہے ، 12 سورتوں کے مکی ومدنی ہونے میں اختلاف ہے اور 82 سورتوں کے مکی ہونے میں اتفاق ہے۔

قرآن مجید کا اسلوب :

پہلی دفعہ قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر پڑھنے والا آدمی اس ذہن کے ساتھ آتا ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب بھی مروجہ کتب کی طرح ہوگا یعنی زندگی کے ہر شعبہ کے احکام ومسائل الگ الگ مضامین،ابواب اور فصلوں میں خاص فنی وتصنیفی انداز میں مرتب ہوں گے ایک شعبہ کے مکمل احکام کے بعد دوسرے شعبہ کے احکام درج ہوں گے۔
لیکن جب وہ ترجمہ وتفسیر پڑھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس میںعقائد،عبادات،معاملات،اخلاقیات،تخویف و
بشارت، قصص وواقعات وغیرہ غیر مرتب انداز میں ایک دوسرے کے بعد بیان کیے گئے ہیں اگر عقائد کی بات شروع ہوئی ہے تو تکمیل سے قبل عبادات کی بات شروع ہوجاتی ہے اور مختلف عبادات ملی جلی بیان ہورہی ہوتی ہیں تو ساتھ ہی معاملات اور اخلاقیات شروع ہوجاتے ہیں اور دوبارہ پھر عقائد کا موضوع شروع ہوجاتاہے وہ ابتدائی طالب علم اپنے ذہن کے خلاف اسلوب دیکھ کر حیران وپریشان سا ہو جاتاہے ۔
اور طرح طرح کے اشکالات کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض افراد کو تو شیطان غلط راستہ پر چلا دیتاہے ایسے خواتین وحضرات کو اسلوب قرآن مد نظر رکھنا ضروری ہے اس کے لیے مندرجہ ذیل دو باتیں ذہن نشین کر لینا اہم ہوں گی۔
1 قرآن مجید کا نزول جس معاشرہ میں ہوا اس وقت ان کا اسلوب بیان آج کے اسلوب وانداز کا نہ تھا بلکہ وہ فصیح وبلیغ، جامع ومانع مفہوم والی،ٹھوس اسلوب والی، تشبیہات وتمثیلات سے مزین اور کنایات ومجازات والی کلام کہنے کے عادی تھے اس کا تعلق خواہ کسی موضوع سے ہو وہ ایک ہی وقت میں متعدد موضوعات پر گفتگو کرتے تھے جیسے ان کے اشعار ومقالات سے یہ بات واضح ہوتی ہے چونکہ قرآن مجید کا اسلوب بھی اس وقت رائج اسلوب والا ہے اس لیے ملے جلے موضوعات پر کلام کی گئی ہے ۔
2 قرآن مجید یک بارگی نازل نہیں ہوا بلکہ ضروریات واحوال کے مطابق تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے اور ایک طویل عرصہ میں نزول مکمل ہوا ہے ۔ اس لیے بعض مضامین میں تکرار اور ملے جلے عنوانات معلوم ہوتے ہیں جیسے ایک حکمران لمبا عرصہ تک حکومت کرتاہے اور روزانہ مختلف شعبہ جات کے لوگوں کو مختلف قسم کے احکام (آرڈیننس) جاری کرتا رہتا ہے اگر اس کے 20 سال دور حکومت کے تمام جاری کردہ احکامات وپیغامات کو ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقیناً اس میں تکرار،ملے جلے عنوانات،ایک کے بعد دوسرے شعبہ کو غیر مرتب انداز کے احکام وغیرہ نظر آئیں گے ۔ (مأخوذ : الفوز الکبیر از شاہ ولی اللہ )
۔۔۔

ازلی فساد پسند قوم ! یہود

بیت المقدس اور فلسطین تقریباً تیرہ سو برس قبل از مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے اور دو صدیوں کی مسلسل کشمکش کے بعد بالاخر اس پر قابض ہوگئے تھے۔ وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہیں تھے۔ قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے‘ جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اور بائبل ہی کی تصریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتلِ عام کرکے اس سرزمین پر اُسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians) کو فنا کرکے امریکا پر قبضہ کیا۔ اِن کا دعویٰ تھا کہ خدا نے یہ ملک اِن کی میراث میں دیدیا ہے‘ اس لیے اِنہیں حق حاصل ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل ہی نہیں بلکہ اُن کی نسل کومٹا کر اس پر قابض ہوجائیں۔اس کے بعد آٹھویں صدی قبل از مسیح میں اَسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیلیوں کا بالکل قلع قمع کردیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لابسایا جو زیادہ تر عربی النسل تھیں۔ پھر چھٹی صدی قبل از مسیح میں بابِل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کرکے تمام یہودیوں کو جَلاوطن کردیا‘ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی‘ اور ہیکلِ سلیمانی (Temple of Solomon) کو جسے دسویں صدی قبل از مسیح میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا‘ اس طرح پیوندِ خاک کردیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ ایک طویل مدت کی جَلاوطنی کے بعد ایرانیو ں کے دورِ حکومت میں یہودیوں کو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی‘ لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو برس سے زیادہ دراز نہ ہوا۔ ۷۰عیسوی میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی‘ جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکلِ سلیمانی کو بالکل مسمار کردیاگیا اور پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر ۱۳۵ء میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کونکال باہرکیا۔ اس دوسرے اِخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی اسی طرح عربی النسل قبائل آباد ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں وہ آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔ اسلام کی آمد سے پہلے یہ پورا علاقہ عرب قوموں سے آباد تھا‘ بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کررکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی قریب قریب بالکل ناپید تھی۔ اس تاریخ سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ:
۱) یہودی ابتداً نسل کُشی کے مرتکب ہوکر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔
۲) شمالی فلسطین میں صرف چار پانچ سو برس تک وہ آباد رہے۔
۳) جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔
۴) عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً دو ہزار سال سے آباد چلے آرہے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یہودیوں کا آج بھی یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انہیں عطا فرمائی ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس میراث کو بزور حاصل کرکے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس طرح تیرہ سو برس قبل از مسیح میں انہوں نے مقامی لوگوں کے ساتھ کیا تھا۔
دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکلِ سلیمانی کو پھر تعمیر کریں۔ ہر یہودی گھر میں مذہبی تقریبات کے موقع پر اس تاریخ کا پورا ڈراما کھیلا جاتا رہا ہے کہ ہم مصر سے کس طرح نکلے اور فلسطین میں کس طرح سے آباد ہوئے اور کیسے بابِل والے ہم کو لے گئے اور ہم کس طرح فلسطین سے نکالے گئے اور تتر بتر ہوئے۔ اس طرح یہودیوں کے بچے بچے کے دماغ میں یہ بات بیس صدیوں سے بٹھائی جارہی ہے کہ فلسطین تمہارا ہے اور تمہیں بارہویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون نے اپنی کتاب شریعتِ یہود (The Code of Jewish Law) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکلِ سلیمانی کو ازسرِ نو تعمیر کرے۔ مشہور فری میسن تحریک (Freemason Movement) بھی‘ جس کے متعلق حقائق کا سب کو علم ہے کہ اصل میں یہ ایک یہودی تحریک ہے‘ اور اس میں بھی ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو کو مقصود قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ پوری فری میسن تحریک کا مرکزی تصور یہی ہے۔ اور تمام فری میسن لاجوں میں اس کا باقاعدہ ڈرامہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہیکلِ سلیمانی کودوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ صدیوں سے یہودی قوم کی زندگی کا نصب العین یہی رہا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کو تعمیر کرے اور اب بیت المقدس پر ان کا قبضہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اس نصب العین کو پورا کرنے سے باز رہ جائیں۔
یروشلم یا القدس فلسطین کا شہر اور دارالحکومت۔ یہاں سیدنا سلیمان علیہ السلام کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کا قبلہ تھا ۔ بیت المقدس کو القدس بھی کہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً 1300 کلومیٹر ہے۔ شہر 31 درجے 45 دقیقے عرض بلد شمالی اور 35 درجے 13 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے۔ بیت اللحم اور الخلیل اس کے جنوب میں اور رام اللہ شمال میں واقع ہے۔
بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں Jerusalem (یروشلم) کہتے ہیں۔ “بیت المقدس”سے مراد وہ “مبارک گھر” یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی۔قدیم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے جد الانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے سیدنا لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔سیدنا یعقوب علیہ السلام نے وحی الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد سیدنا سليمان علیہ السلام (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔
620ء میں رسول اکرم ﷺ سفر معراج کے دوران جبریل امین علیہ السلام کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئےاور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالٰی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے۔ (سورہ الاسراء :1)
احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ”میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟ تو نبی کریم ﷺ فرمانے لگے : مسجد اقصیٰ ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ (صحیح بخاری 3366، صحیح مسلم 520)
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت اور ہجرت کے بعد16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخرۃ ہے جواسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے ۔ تاہم آجکل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرۃ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے۔زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا اور اس کی تائيد امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ:مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیدناسليمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی کو جسے سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے سیدناعمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد کی دوبارہ تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔

1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایاگیا۔پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ابھی تک یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے “دیوار گریہ” کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی بنا رکھا ہے۔ 21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگا دی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب گیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں اور ہر جنگ کے دوران وہ اس منبر کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تا کہ فتح ہونے کے بعد اس کو مسجد میں نصب کریں۔اس المناک واقعہ کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی امت مسلمہ کی آنکھ ایک لمحے کے لئے بیدار ہوئی اور سانحے کے تقریبا ایک ہفتے بعد اسلامی ممالک نے موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) قائم کر دی۔ تاہم 1973ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والے دوسرے اجلاس کے بعد سے 56 اسلامی ممالک کی یہ تنظیم غیر فعال ہوگئی۔یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گرا کر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا۔چند دنوں پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنی سفاتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ٹرمپ کے اس اعلان نے دنیا میں عام جبکہ عالم اسلام میں خاص طور پر ایک بھونجال پیدا کردیا۔
سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے ’دنیا بھر کے مسلمانوں میں اشتعال پیدہوگااور برطانیہ میں فلسطین کے نمائندے مینوئل حسسیان نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی یروشلم کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی دو ریاستی حل کے لیے کی جانے والی امن کی کوششوں کے لیے ’موت کا بوسہ‘ ہے اور ’اعلان جنگ‘ جیسا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آخری تنکا ہے جو اونٹ کی کمر توڑ دے گا‘۔ انھوں نے کہا کہ ‘میرا مطلب روایتی جنگ نہیں ہے بلکہ سفارت کاری کے حوالے سے جنگ ہے‘۔
ترکی کے وزیرِ اعظم نے بھی تنبیہ کر رکھی ہے کہ یروشلم اسلامی دنیا کے لیے ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔ غلط اقدام اٹھانے کے صورت میں ناقابلِ تلافی نتائج سامنے آئیں گے۔ ‘ ترک صدر رجب طیب اروغان نے باور کروایا کہ یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے ’سرخ لکیر ہے
فرانسیسی صدر نے صدر ٹرمپ کے اعلان کے رد عمل پر کہا ہے کہ وہ امریکہ کے یکطرفہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے جس میں اس نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔
’یہ فیصلہ افسوسناک ہے جس کو فرانس قبول نہیں کرتا اور یہ فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے انتونیو گتریس نے اپنے بیان میں ڈھکے چھپے الفاظ میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یروشلم شہر کے تنازع کو ہر صورت اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے میں روز اوّل سے مسلسل کسی بھی ایسے یکطرفہ حل کے خلاف بات کرتا رہا ہوں جس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے امکانات کو زِک پہنچ سکتی ۔
ا قوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور عوام فلسطینی عوام کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے ، فلسطینیوں کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کابنیادی حصہ ہے ، پاکستان فلسطینیوں کےساتھ کھڑا ہے ،امریکہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ دنیا برائے فروخت نہیں ، ٹرمپ کا فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہے،ہم فلسطین اوران کے جائزمطالبات کے حق میں ہیں،مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت بدلنے والا کوئی منصوبہ قابل قبول نہیں۔
امریکا۔۔۔ جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر‘ ان غاصبوں کی حمایت کررہا ہے۔۔۔ تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اُس کو صاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روئے زمین پر ایک مسلمان بھی وہ ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اُس کے لیے کوئی ادنیٰ درجہ کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے۔ اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔

تبصرہ کتب: مضاربت میزان شریعت میں

نام کتاب : مضاربت میزان شریعت میں
مؤلف : ڈاکٹر شاہ فیض الابرار
صفحات : 375
ناشر : مرکز الترجمہ والتحقیق للاقتصاد الاسلامی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی
ملنے کا پتہ : فضلی سپر بک مارٹ کراچی ،مکتبہ قدوسیہ لاہور
جامع مسجد سلمان فارسی گلستان جوہر کراچی
دین اسلام میں انسانی زندگی کے جملہ مسائل سے متعلق مکمل راہنمائی موجود ہے اسی لیے اس کو کامل دین کہا جاتاہے اور اسی وجہ سے اس دین کو دیگر ادیان پر فوقیت حاصل ہے دین اسلام نے عبادات کے متعلق کامل واکمل ہدایات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار وعادات واطوار اور مالی معاملات کے بارہ میں مفصل احکامات سے آگاہ کیاگیا ہےلیکن جہاں یہ مال زندگی کا سہارا اور ذریعہ ہے وہاں یہ زندگی میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بھی ہے اگر مال کا حصول، استعمال اور اسے خرچ کرنے میں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ مال پُر امن بقائے باہمی کی ضمانت دیتاہے لیکن اگر مال کمانے یا خرچ کرنے میں اسلامی ہدایات کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہی دولت انسان کے لیے وبال جان بن جاتی ہے ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے اندر حص، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط وتفریط کا شکار ہیں چنانچہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں غالباً رسول اللہ ﷺ نے ایسے حالات کے متعلق ہی پیشین گوئی فرمائی تھی ۔
’’لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال وحرام کی پروا نہیں کرے گا۔‘‘  (صحیح البخاری ، کتاب البیوع ، الحدیث : 2059)
حصول مال کے کئی ایک ذرائع ہیں جن میں ایک تجارت بھی ہے ۔ دور حاضر میں وہی قومیں ترقی یافتہ خیال کی جاتی ہیں جو میدان تجارت میں آگے ہوں ، اگرچہ عروج وترقی کا یہ معیار سراسر غلط ہے ، تاہم اس میدان میں آگے بڑھنا ہماری شریعت میں قطعاً ناپسندیدہ نہیں بلکہ ہم مسلمان کو اس میدان میں دیگر اقوام کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ کسی مقام پر بھی شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امانت دار تاجر کی بایں الفاظ تعریف کی ہے ۔
’’امانت دار، سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔ (سنن ترمذی ، البیوع : 1209)
تجارت، خرید وفروخت اور باہمی لین دین کے شرعی اصول کیا ہیں ؟ وہ کونسی تعلیمات ہیں جنہیں اختیار کرکے ہمارا کمایا ہوا مال ہمارے لیے حلال اور جائز ہوگا ؟ مال کمانے اور خرچ کرنے کے کون کون سے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے تاکہ حرام اور اس کی نحوست سے بچا جاسکے۔ اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو بالخصوص تاجر کو ان کا علم ہونا چاہیے چنانچہ خلیفہ ثانی امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا درج ذیل فرمان ہمارے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
’’ ہمارے بازاروں میں وہی انسان خرید وفروخت کرے جسے دین کی سمجھ حاصل ہو۔‘‘ (سنن ترمذی ، الوتر : 487)
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔ معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقہ کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہےچنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں، اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی ضرورت ہے الغرض اشیاء کی خرید وفروخت ، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
باہمی تجارتی معاملات میں سے ایک اہم طریقہ مضاربت بھی ہے یہ وہ طریقہ ہے جس کو رسول اکرم ﷺنے بھی اپنایاتھا سیدہ خديجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا ایک معزز مالدار اور تاجر خاتون تھیں لوگو ں کو اپنا مال تجارت کے لیے دیتی تھیں اور مضاربت کے اصول پر ایک حصہ طے کرلیتی تھیں ۔ مضاربت سے مراد ایک ایسا عقد ہے جس میں صاحب مال اپنا مال واضح کیفیت اور معلوم مقدارکسی کو بغرض تجارت دیتا ہے تاکہ دونوں کو نفع حاصل ہو ، بہت سے لوگوں کو تویہ فکر ہی نہیں ہوتی کہ کسب مال کے ذرائع کیا ہیں طریقہ تجارت حلال ہے یا حرام بعض لوگو ں کو یہ فکر دام گیر ہوتی ہے لیکن انہیں جائز اور ناجائز تجارت کا علم ہی نہیں ہوتا ، زیر نظر کتاب “مضاربت میزان شریعت میں ” اسلامی نظام معیشت ، مضاربت اور تجارت کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے اور حصول مال کے آداب اور مضاربت جائز اور ناجائز تمام اشکال پر روشنی ڈالی گئی جس میں مضاربت سے متعلقہ تمام فقہی جوانب کا احاطہ مدلل انداز میں کیا گیا ہے۔
صاحب کتاب نے شرکت اور مضاربت کے شرعی اصولوں کی وضاحت میں اسلامی فقہ کے چارو ں مشہور مکاتب ، حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی کی مستند کتابوں کو بھی ملحوظ رکھا ہے ۔
یہ کتاب چارابواب پر منقسم ہے ،جو کہ درج ذیل ہیں ۔
باب اوّل
کتاب کے پہلے باب میں اسلام کے نظام اقتصاد کے بنیادی خصائص وضوابط، مال کا حقیقی مالک اللہ تعالی ہے اور انسان کے پاس بطور امانت ہے، کسبِ معاش ہر انسان کا حق ہے، حصول مال کے آداب،اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادیں، اسلامی اقتصادی نظام کا نظری تصور ، اسلامی اقتصادی نظام کا عملی تصور ، ملکیت ِمال اسلام کی رو سے، انسان کی بنیادی ضروریات، اسلام میں تصور محنت و اجرت، آداب و احکام خرید وفروخت ، پرمشتمل ہے۔
باب دوم
دوسرے باب میں مضاربت تاریخی و اخلاقی پس منظر ،قبل از اسلام شراکت و مضاربت کا عمومی تصور،قبل از اسلام عربوںمیں شراکت ومضاربت کا تصور،رسول اللہ ﷺ کے تجارتی اسفار،مضاربت کی اہمیت و ضرورت اورفوائد،مضاربت کااخلاقی پہلو جیسےموضوعات پر معلومات کو جمع کیا ہے۔
باب سوم
کتاب کے تیسرےباب میں مضاربت کےفقہی احکامات کو اسلامی فقہ کے چارو ں مشہور مکاتب ، حنفی ، مالکی ، شافعی اور حنبلی کی مستند کتابوں کی روشنی میں مرتب کیا ہے جن اجمالی فہرست درج ذیل ہے،مضاربت کی لغو ی و اصطلاحی تعریف،مشروعیت مضاربت شرعی دلائل کی روشنی میں،أرکان مضاربت،مضاربت کی شروط،معاہدہ کرنے والوںکے متعلق شروط،غیر مسلم کے ساتھ مضاربت،راس المال( مال مضاربت)کی شروط، منافع کے متعلق شروط، کام کےمتعلق شروط،مضارب کادائرہ کار،اقسام مضاربت، مضارب کے حقوق ،مالک اور عامل کے مابین اختلاف کی صورتیں،مضاربت کافسخ ہونایامضاربت کو فسخ کرنا، تصرفات مضارب، عقد مضاربت میں فریقین کا متعددہونا،عقد مضاربت میں عورت کی شراکت،مضاربت فاسدہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔
باب چہارم
مضاربت سے متعلق علمائے امت کی جہود مبارکہ کے ذکرخیر پرمشتمل ہےجس میں مضاربت سے متعلق مستقل تصنیفات اورچند ایک علمائے کرام کے فتاوی جات کو جمع کیا اور اصطلاحات مضاربت کے عنوان سے کتاب میں مذکور اہم ترین اصطلاحات کی عام فہم وضاحت کی گئی ہے۔
متعدد اہل علم کی قیمتی تقاریظ سے اس تصنیف لطیف کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی مسائل سے متعلق دلچسپی رکھنے والے ارباب ذوق اس کا گرم جوشی سے خیر مقدم کریں گے۔
نوٹ : زیر تبصرہ کتاب میں حروف خوانی کا خاص اہتمام نہیں کیا گیا لہٰذا امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس پر مکمل توجہ دی جائے گی۔ ان شاء اللہ العزیز
۔۔۔

مجلہ اسوۂ حسنہ : تاریخ وارتقاء ،اہداف ومقاصد

پہلی بات :

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شمار دین اسلام کے اہم ترین امور میں ہوتاہے ۔ رسول مکرم ﷺ نے اپنے معاشر ےمیں اس امر کا ہر وقت خیال اور پاس رکھا۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہر نبی مرسل کا بنیادی مقصد رہا ہے نبی مکرمﷺ کے بعد اس ذمہ داری کو علماء کرام احسن انداز میں انجام دے رہے ہیں۔ تقبل اللہ سعیاھم
عہد جدید میں تبلیغ دین حنیف کے متعدد ذرائع ووسائل ہیں جن کے استعمال سے یہ شرعی فریضہ کما حقہ ادا ہوسکتاہے۔ تبلیغ دین کے ذرائع میں سے تحریر کے ذریعے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ عہد جدید میں تحریر وکتابت لازمی اور بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ ابلاغ وتشہیر کے ذرائع جتنے زیادہ ہوجائیں ان کی اصل تحریر کی شکل میں باقی رہے گی آج کے ترقی یافتہ دور میں کتاب یا رسالہ ایک نہایت مؤثر ذریعہ ابلاغ واشاعت ہے یہی وجہ ہے کہ علمائے حق نے ہر دور میں کتب، رسائل اور اخبارات کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی ترویج وتبلیغ کے کام کو مستقل بنیادوں پر آگے بڑھایا اور پھیلایا ہے۔ تحریر اک نازک اور مقدس عمل ہے تحریر سے قوموں کا مزاج متعین کیا جاتاہے ۔قلم سے ہی سوچ کے زاویے تبدیل ہوتے ہیں۔ تحریر کے وقت کاتب کو اللہ کی رضا، تبلیغ دین کا جذبۂ صادقہ، توجہ وانہماک اور اردو قواعد واملاء کا بھر پور خیال رکھنا چاہیے اس پُر فتن دور میں دین کی خدمت، اعلائے کلمۃ اللہ اور افکار سلفیہ کی ترویج واشاعت کے لیے اہل قلم کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں مدارس کے ارباب بست وکشاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے عزیز طلبۂ کرام کو فن تحریر میں ماہر بنائیں تاکہ وہ امت مسلمہ کو درپیش فکری ونظریاتی چیلنجز کا بصیرت کے ساتھ سامنا کرسکیں۔
مجلہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا اجراء :

پس منظر :

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ملک عزیز کی عالمگیر شہرت کی حامل دانشگاہ ہے، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بانی ومؤسس الشیخ محمد ظفر اللہ a کی شروع دن سے ہی یہ خواہش تھی کہ جامعہ کی ترجمانی کے لیے ایک ماہانہ علمی وتحقیقی مجلے کا اجراء ضرور کیاجائےگا۔ الشیخ رحمہ اللہ اس مجلے کے ذریعے جامعہ ابی بکر کے نظریے اور پیغام کو عامۃ الناس تک پہنچانا چاہتے تھے مگر وائے افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اپنے اس مشن کو اپنی زندگی میں پورا نہ کرسکے۔ الشیخ ظفر اللہ a کے سانحۂ ارتحال کے بعد ان کے جانشین ولی کامل صوفی محمدعرف عائش صاحب d نے مجلے کے موجودہ مدیروبانی الشیخ مقبول احمد مکی کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا اورمسلسل اصرار کیا کہ آپ ہی اس ذمہ داری کو لیکر آگے بڑھیںآگے کا پورا

واقعہ بانی مجلہ کی زبانی سنیںـ :

’’میںنےپہلے پہل تو اس معاملہ پر سنجیدگی نہ دکھائی آخر مولانا عائش محمد صاحب کے حکم کو تسلیم کئے بناء چارہ نہ تھا پس میں نے شیخ کو جواباً عرض کیا کہ اس مقصد کے لیے روپے پیسے دفتر اور دیگر وسائل درکار ہیں انہوں نے مجھے فوراً اس دفتر کی چابیاں دی اس وقت دفتر میں یک میز اور کرسی کے سوا کچھ نہ تھا۔ الشیخ محمد عائش نے مجھے اس منصوبے کے بنیادی خدوخال وضع کرنے کا حکم دیا میں نے توکلاً علی اللہ مضامین کی ترتیب، مجلہ کے اہداف ، طریقہ کار اور دیگر ضروری امور سے متعلق اساتذہ کرام اور طلبہ کرام کے ساتھ طویل مشاورت کی۔ فضیلۃ الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ، علامہ محمد یعقوب طاہر a اور فضیلۃ الامیر غازی عبد الکریم رحمہ اللہ کو بالترتیب مدیر مجلس ادارت،مدیر مجلس مشاورت اور مسؤل المجلہ منتخب کیاگیا ۔ اس سفر کی پہلی میٹنگ کے شرکاء درج اصحاب تھے ۔
1۔ الشیخ مولانا عائش محمد d (سابق نائب مدیر الجامعہ )
2۔ الشیخ عمر فاروق سعیدی d (سابق مدیر التعلیم )
3۔ علامہ محمد یعقوب طاہر a (سابق وکیل الجامعہ )
4۔ الشیخ محمد طاہر باغ d (مشرف عام )
5۔ الشیخ محمد یونس صدیقی d (سابق مدیر معہد علمی ثانوی )
اس کے بعد مدیر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ کے ساتھ طویل میٹنگ ہوئی اور انہوں نے ہمارے اس منصوبے کو من وعن شرف قبولیت سے نوازا اور ابتدائی طور پر مجلہ کے لیے بیس ہزار کا فنڈ منظور کیا۔
اب مجلے کے لیے عملی جدوجہد کا آغاز کیاگیا میری رہائش پریس مارکیٹ سے کافی فاصلے پر واقع تھی جس کی بناء پر میں اکثر رات کو دیر سے گھر لوٹتا تھا ادھر دفتر میں بھی ضروری لوازمات مکمل دستیاب نا تھے ان نامساعد حالات کے باوجود مدیر جامعہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اس چراغ کو روشن کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہا۔ ابتدائی ایام میں نامساعد حالات کی بنا ء پر کچھ ساتھی اساتذہ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ مجلہ عنقریب بند ہوجائے گا لیکن اللہ کی نصرت اور احباب کے تعاون سے یہ مجلہ روزِ اول سے آج تک تسلسل سے شائع ہوکر قارئین سے داد تحسین وصول کر رہا ہے والحمد للہ علی ذلک حمداً کثیرا
مجلے کی ابتدائی اشاعتوں میں اس کے سرورق پر میرے نام کے ساتھ نائب مدیر المجلہ لکھا جاتا تھا مگر مدیر جامعہ ڈاکٹر راشد کے پیہم اصرار کے بعد اپنے نام کے ساتھ مدیر مجلہ کا لاحقہ لگانا شروع کیا مجلہ جامعہ ابی بکر کا پہلا شمارہ اکتوبر 2004ء کو منصہ شہود پر آیا۔

اسوئہ حسنہ :

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ترجمان ’’مجلہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوتارہا پھر اس کے لیے ’’اسوئہ حسنہ ‘‘کے نام پرڈیکلریشن حاصل کی گئی اور یوں جنوری 2009ء سے مجلہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بجائے مجلہ ’’اسوئہ حسنہ ‘‘کے نام سے شائع کیاجانے لگا اسوئہ حسنہ کے اجراء کا پس منظر کیا تھا اس مجلے کے اجراء کا مقصد کیا ہے ان جیسے دیگر سوالات کے تشفی بخش جوابات اسوئہ حسنہ کے اولین اداریے میں بست وکشاد کے ساتھ بیان کئے جاچکے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں :
رسول معظم ﷺ تونورِ ہدایت ہیں جس کی روشنی پہلے بھی بے داغ تھی اور آج بھی بے داغ ہے اس لیے آپ پہلے والوں کی طرح آج بھی اور کل والوں کے لیے بھی بہترین اسوئہ حسنہ ہیں ۔ اس نمونہ کو تھام کر ہر فرد، ہر قوم ،ہر ملت ، ہربرادری ، ہر تنظیم ، ہر ادارہ اور ہر جماعت کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا اسوئہ حسنہ ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کاضامن ہے اور یہی وہ بنیادی اور اہم طریقہ ہے جو ایک عام انسان کو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی جنت کے قریب کرنے کا ذریعہ بنتاہے ۔ مجلے کی اس عظیم نسبت کے حوالے سے ہم پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہورہی ہیں ۔ ہمیں ان کا بخوبی احساس ہے ادارہ مجلہ کی انتہائی کوشش ہوگی کہ ہم اسے اسم بامسمّی ثابت کریںاور اس مجلہ کے ذریعے سید المرسلین ﷺ کے اسوئہ حسنہ کو عامۃ الناس تک پہنچائیں۔
یوں تو صحافتی میدان میں رسائل وجرائد کی تعداد بے شمار ہے مگر دینی رسائل کی تعداد بہت محدود ہے اور ان میں بھی کتاب وسنت کی خالص تعلیمات کو حکیمانہ انداز میں عوام الناس کے سامنے پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔ ان میں بھی بعض میں شخصیت پرستی اور شخصی اجارہ داری کا عنصربھی بہت غالب ہے بلکہ فرقہ وارانہ تعصبات اور مذہبی منافرت، شخصی تقلید اور خوشامدی صحافت کے علمبردار نظر آتے ہیں۔
’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ ان شاء اللہ صحافتی میدان میں خالص کتاب وسنت کی آواز کو تقویت باہم پہنچانے کا ذریعہ ثابت ہوگااور حق وصداقت کا ترجمان بن کر شفاف اور بے باک صحافت اور اعلیٰ اقدارکا امین بن کرنبّاض اور مصلح کی حیثیت سے اپنے سفر صحافت کو جاری اور ساری رکھنے کی بھر پور کوشش کرے گا ۔
’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ کی نوعیت ان شاء اللہ ایک علمی ، تحقیقی اور اصلاحی مجلے کی ہوگی اس میں کوئی شک نہیں کہ ملتِ اسلامیہ کے اہل توحید اور اصحاب خیر مختلف سمتوں میں توحید وسنت کی سربلندی کے لیے اپنی اعلیٰ خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن آپ محسوس کریں گے کہ اسلامی صحافتی میدان میں عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں تحقیقی کام کے حوالے سے ہماری کوششیں انتہائی ناکافی ہیں جبکہ در پیش چیلنجزسنگین تر ہوتے جارہے ہیں ۔ قرآن وحدیث کی خالص تعلیمات پر فرقہ پرست اور باطل گروہوں کی طرف سے مسلسل اور سنگین حملے ہورہے ہیں ، ان کا دفاع کرنا ، انہیں ناکام بنانا اور توحید وسنت کا تحفظ اہل توحید کی اہم ذمہ داری ہے اس ذمہ داری کا خیال رکھتے ہوئے ’’مجلہ اسوئہ حسنہ‘‘ کو بیک وقت عربی ، اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ اس وقت مختلف موضوعات اور مختلف زبانوں میں عقیدہ وفکر کی گمراہی میں مبتلا لوگوں کی جانب سے لکھی گئی لاتعداد کتابوں اور مضامین کا جواب ہم پرقرض ہے۔ہم ’’ مجلہ اسوئہ حسنہ‘‘ کے ذریعے اہل علم واہل قلم کی توجہ تصنیف وتالیف ، تحقیق واصلاح کی جانب مبذول کروانے کی کوشش کریں گے اور اہل باطل کے جواب میں کیے گئے اہل توحید کے علمی وتحقیقی کام کو منظرعام پر لانے میں ان کے معاون بنیں گے ہم جماعت کے تمام اہل علم وفضل و اصحاب قلم سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی علمی ، تحقیقی اور اصلاحی نگارشات سے ’’مجلہ اسوئہ حسنہ ‘‘ کو ممنون فرمائیں گے۔
ہم یہ عزم بھی رکھتے ہیں کہ مجلہ بیک وقت نہ صرف اساتذہ عظام اور طلباء کرام بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی بشمول خواتین واہل خانہ کے لیے مفید ثابت ہو گا اس میں علماء کرام کی دلچسپی کے علمی وتحقیقی مضامین بھی ہونگے اور عوام الناس کے لیے دینی علم وشعور واصلاح فراہم کرنیوالی ہلکی پھلکی تحریریں بھی۔
ہماری حتی الوسع کوشش ہوگی کہ اس مجلے کے ذریعہ سے قرآن وسنت کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو عام کرتے ہوئے ، مغرب سے آنے والے اور خود اپنے ملک سے بھی اٹھنے والے طوفانوں اور سیلابوں کے سامنے بند باندھ سکیں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرسکیں۔اس عظیم کارخیر میں ہمیں اپنے قارئین کرام کی تجاویز اور مشوروں کی اشد ضرورت رہے گی ، ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری صحیح سمت میں رہنمائی کرنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے صدق وسچائی کے ابلاغ کی اور ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے اس بات سے کوئی بات ہم سے قرآن وحدیث کے خلاف صادر ہو۔
مجلہ ’’اسوہ حسنہ ‘‘کے مقاصد
زرد صحافت کا مقابلہ کرنے کا ولولہ لیکر، بے نواؤں اور کمزوروں کی آواز بن کر، تحریر وبیان میں صِدقُ وصفا کی خوبیاں سمو کر، کذب وافتراء سے دور رہتے ہوئے صحافت کی دنیا میں اسوہ حسنہ بن کر مجلہ جامعہ ابی بکرالاسلامیہ اب’’ اسوہ حسنہ ‘‘کے نام سے درج ذیل مقاصد کے لئے اپنے صحافتی سفر کو جاری رکھنے کا عزم کرتا ہے :
1 طاغوت کا رد کر کے ایک الٰہ (اللہ )کی حاکمیت اعلیٰ کے حقیقی تصور کو عام کرنے کاعزم لے کر۔
2 سنت رسول ﷺ پر عمل ہی صاحب شریعت سے محبت کا تقاضا ہے کی دعوت لیکر۔
3امت محمدیہ ﷺ سے غیر مشروط وفاداری نبھانے کا عزم لے کر ۔
4 فرقہ واریت اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو کر جس کا بیج عالم کفر نے امت محمدیہ ﷺ میں ملتِ واحدۃ کے نظریہ کو ختم کرنے کی غرض سے بویا ۔
5معاشرتی اصلاح کا پیش منظر لے کر جو اغیار کی سازشوں کی نذر ہوتا چلا جا رہا ہے ۔
6 احیائے اقدار اسلامی کا محافظ بن کر کہ جنہیں اغیار مسخ کرنے کے درپے ہیں۔
7کمزور حقدار کی آواز بن کر جس کے حق کے لئے محمد ﷺ نے زندگی بھر کاوش جاری رکھی۔
8 طاقتور غاصب کی اصلاح کا موجب بن کر جسے عارضی قوت نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔
9شعبہ صحافت میں اسلامی نظریات کا علمبردار بن کر۔
مدیر مجلہ کا تعارف
مجلہ اسوۃ حسنہ کے مدیر کے مدیر وبانی اور اس گلستان کی نگہبانی کے فرائض جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے کہنہ مشق استاذ فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ انجام دے رہے ہیں انکا مختصر تعارف درج ذیل ہے ۔
نام ونسب :
ڈاکٹر مقبول احمد بن سید محمد بن علم الدین

پیدائش اور ابتدائی تعلیم :

الشیخ محترم مورخہ 9تمبر 1967م کو اوکاڑہ کے نواحی گاؤں L-1\2میں پیدا ہوئے ا آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ماموںمولانا شیث محمد  سے حاصل کی آپ اس وقت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے ماموں سلفی العقیدہ شخص تھے ناظرہ قرآن پاک گاؤں کے ایک شخص سےسیکھا جن کا نام قیام الدین تھا اپنے گاؤں کے اسکول سےاول پوزیشن میں پرائمری پاس کی اس کے بعد1983میں سائنس کے ساتھ میٹرک کا امتحان اچھے نمبر لیکر پاس کیا ۔میٹرک کے بعد شیخ موصوف مزید تعلیم کے لیے لاہور تشریف لے گئے مگر کسی وجہ سے وہاں داخلہ نہ مل سکا اثری وعصری تعلیم کے حصول کے لیےفضیلۃ الشیخ ابو نعمان بشیر احمد انتہائی خیر خواہی کے جذبۂ صادقہ سے متأثر ہوکر کراچی کی طرف رخت سفر باندھا ۔جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں آپ نے اگست 1984کو مرکز اللغۃ العربیہ میں داخلہ لیا ۔آپ نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں 8سال تک محنت ودلچسپی سے دینی علوم وفنون میں مہارت حاصل کی۔ کراچی میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی تعلیم کے دوران آپ نے 1986میں انٹر کا امتحان پاس کیا ۔فضیلۃ الشیخ نے 1991میں نیشنل کالج سے B-Aکی ڈگری حاصل کی اسی سال آپ نے کراچی بورڈ کے تحت فاضل عربی اور فاضل اردو کے امتحانات میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی ۔حصول تعلیم کے مقدس سفر میں آپ حفظہ اللہ نے وفاق المدارس السلفیہ سے 1992میں عالمیہ کی سند بتقدیر ممتاز حاصل کی جوکہ سرکاری جامعات میں MAعربی اور اسلامیات کے مساوی حیثیت رکھتی ہے۔
1993کا سال شیخ حفظہ اللہ کی زندگی کا سنہری سال تھا جب آپ اعلی وارفع مقصد کے لیے ارض مقدس مکہ مکرمہ جا پہنچے ۔ام القری یونیورسٹی میں آپ نے 6سال تک عربی مشائخ سے علوم وفنون کا حظ وافرحاصل کیا اور کلیۃ الشریعۃ قسم القضاء سے ڈگری حاصل کی۔ یاد رہے قسم القضاءکی سند پاکستان میں BA اورLLBکے مساوی ہے۔ 1999ءمیں کراچی یونیورسٹی سے MAکی ڈگری حاصل کی ۔
پاکستان واپسی کے بعد آپ کا ارادہ جامعہ ابی بکر میں تدریس کا تھا۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے زیر نگرانی چلنے والے مرکز حرمین سپر ہائی وے کی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی۔ آپ نے جامعہ میں تدریس کی درخواست پیش کی جس کو مدیر جامعہ نے قبول کرتے ہوئے آپ کی جامعہ میں بطور مدرس تعیناتی کی منظوری دی یوں آپ  2002ء سے تادم تحریرجامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اس فرض کو بانداز احسن انجام دے رہے ہیں۔
2011 میں آپ نے ـ’’رباعیات الامام البخاری من خلال کتابہ الجامع الصحیح‘‘کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھ کر کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، جامعہ کراچی میں 2011 سے بطریق احسن تدریسی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، یوں شیخ موصوف نے دینی ودنیاوی علوم میں اعلیٰ اسناد کو اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل کیا۔
خصوصی شماروں پر اک نظر
مختلف مناسبات کے پیش نظر مجلے ا وررسائل خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا کرتے ہیں اسوئہ حسنہ نے بھی اسی صحافتی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف مواقع پر خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا جس کا مختصر تعارف درج ذیل ہے :
1 دفاع ناموس رسالت نمبر
رسول معظم کی ذات بالاصفات ہر مومن کے لیے دل وجان سے زیادہ عزیز ہے ۔2005ء میں رسول اللہ ﷺ کی عزت ووقار پر مغربی گماشتوں نے گستاخانہ کارٹون کے ذریعے حملہ کیا اس پر مسلم امہ نے ہر سطح پر حرمت رسول کا دفاع کیا۔ مجلہ جامعہ ابی بکر کے ارکان ادارت نے بھی اس مقدس فرض میں تحریری حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا اور ربیع الاول کے ماہ میں حرمت رسول ﷺ سے متعلق خصوصی اشاعت کا اجراء کیا۔
2 قرآن نمبر
آسمانی کتابوں میں قرآن مجید اک زندہ معجزہ ہے جس کے
حقائق ووقائع اور حکمتوں سے متاثر ہوکر ہزارہا خوش نصیب افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں اس مقدس کتاب کا نزول ماہ رمضان میں ہوا۔ 2006ء کے ماہ رمضان کا شمارہ خصوصی طور پر قرآن مجید سے متعلق تھا اس کے چیدہ چیدہ مضامین درج ذیل ہیں ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہوکر
الشیخ محمد طاہر آصف
خصوصیات قرآن مجید
سلیمان سلمان منصورپوری
براہین قرآنیہ کا مبدء اور استدلال
مولانا ابو الکلام آزاد
تفسیر کاصحیح طریقہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ
قرآن کریم کی جامعیت اور اثر پذیری
محمد تنزیل الصدیقی
قرآن عظیم ایک سدابہار معجزہ
شہاب الدین ندوی
پیغام قرآن
حافظ مسعود عالم
قرآن حکیم اور جدید سائنس
ڈاکٹر موریس بکائے
سیدنا علی tبحیثیت مفسر قرآن
عثمان طیب
عالمی زبانوں میں تراجم القرآن
مولانافقیر محمد
بر صغیر پاک ہند میں علمائے اہلحدیث کی تفسیری خدمات
ڈاکٹر محمد حسین لکھوی
چین میں قرآن کریم کی تفہیم کا آغاز وارتقاء
حاجی ابراہیم ٹی وائی ما
کتاب مقدس اور ماہ مقدس
آصف ہارون مصلح
نزول قرآن صحابہ کرام اور ہم
ام عبد اللہ
فضائل سور القرآن کما حققھاالبانی
ابو خطاب العرضی

3 سیرت رسول ﷺ نمبر
جنوری 2013ء ماہ ربیع الاول میں نبی آخرالزمان ﷺ کی سیرت سے متعلق خصوصی اشاعت کا اہتمام کیاگیا جس میں سیرت محمدیہ کے مختلف پہلووں پر سیر حال معلوماتی تحریروں کو یکجا کرکے شائع کیا جس کی اجمالی فہرست درج ذیل ہے ۔
سیرت رسول اکرم ﷺ پر اعتراضات کا جائزہ
ڈاکٹر محمد شمیم اختر
محمدی انقلاب کے چند خط و خال
سید ابوبکر غزنوی
رسول اللہ ﷺ اور جوانی
ڈاکٹر محمد حمید اللہ
اتباعِ رسولﷺ میں انسانیت کی فوز و فلاح
راحیل گوہر
عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت
ابو نعمان بشیر احمد
رحمت دو عالم ﷺ کےجسمانی واخلاقی اوصاف کے متعلق وارد احادیث مبارکہ
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
محمد رسول اللہ ﷺ کا فکری انقلاب
پروفیسر یوسف صدیقی
سیرت النبی ﷺ ولادت تا نبوت
امان اللہ فیصل
صدائے اہل ایمان و حرم مکی
فیض الابرار صدیقی

4 مؤسس الجامعہ نمبر
زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کیا کرتی بلکہ ان کے افکار وخیالات کی روشنی میں اپنے لیے راہ عمل متعین کرتی ہیں۔ جامعہ ابی بکر کے مؤسس وبانی فضیلۃ الشیخ محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ کی ذات جامع الصفات ذات تھی۔ جولائی 2012 میں ان کی حیات طیبہ سے متعلق خصوصی اشاعت کا اہتمام کیاگیا تاکہ شیخ مرحوم کی خدمات دینیہ اور افکار عالیہ سے قارئین کو آگاہ کیاجاسکے اس خصوصی اشاعت کے مضامین کی فہرست حسب ذیل ہے۔

گرانمایہ
محمد طاہر آصف
زندہ جاوید شخصیت …
منیر احمد ایم اے
ایک فرد کہ انجمن تھا وہ۔۔۔ !
عبد الرشید ہزاری
ناممکن ہے کہ بھول جاؤں۔۔۔ !
عمر فاروق السعیدی
ایک عہدجو بـیـت گیا !
عبد الرحیم ثاقب
ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا d کے تاثرات
ادارہ
میرے والد میرے مربی
الشیخ ضیاء الرحمن
ڈاکٹر خلیل الرحمن لکھوی d کے تاثرات
ادارہ
محسن ملت الشیخ پروفیسرمحمد ظفر اللہa
الشیخ عطاء اللہ ساجد
حسن انتخاب
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
پروفیسرمحمد ظفراللہ مرحوم کی یاد میں !
ڈاکٹر عبد الحئی مدنی
متبعِ رسالت کا حسن کرداراور کچھ یادیں
افتخار احمد شاہد
اک مطیع رسالت کی بقائے دوام
فیض الابرار صدیقی
اطاعت امیر…
محمد عرف عائش
شیخ ظفر اللہa کا نظریہ تعلیم و تربیت
محمد تنزیل الصدیقی
شیخ ظفر اللہ چودھری a
رمضان یوسف سلفی
الشيخ ظفر اللهa چند یادیں چند باتیں
عبد الحنان شاہ
نہاں خانۂ دل میں استاد گرامی شہید کی یادیں
عبد اللہ قاضی
وہ ایک شجرہ سایہ دار شجر نہ رہا سایہ باقی ہے
ڈاکٹر عامر عبد اللہ محمدی
آہ ! پروفیسر محمد ظفر اللہa
ابو طاہر نذیر احمد
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری …
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
سرگزشت کی اہمیت وافادیت …
خالد حسین گورایہ
تاثرات قلب و نظر
محمد طیب معاذ
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ تعارف، اہداف و مقاصد
الشیخ محمد یعقوب طاہر
جامعۃ أبی بکر الإسلامیۃ غایات ۔ انجازات
الشیخ محمد یعقوب طاہر

5 ’’مملکت سعودی عرب کی خدمات ‘‘نمبر
مکہ ومدینہ کا شمار اہل اسلام کے مقدس ترین شہروں میں ہوتاہے اہل اسلام نے ہر دور میں ان بلاد مقدسہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی خوب خبر لی۔ دشمنان اسلام روز اول سے ہی ان بلاد مقدسہ کی مرکزیت کو ختم کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ارض حجاز پر حکمرانی کرنے والے شاہ سعود کا خاندان اہل توحید کی آنکھوں کا تارہ اور دل کا سرور ہے انہی کی محنتوں اور انتہک کاوشوں سے لاکھوں فرزندان توحید حرمین شریفین کی روحانیت سے مستفیض ہورہے ہیں۔ آل سعود ملت اسلامیہ کا محسن ہے ان کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے اکتوبر 2013ء میں خصوصی اشاعت بنام ’’مملکت سعودی عرب کی خدمات جلیلہ‘‘ معرض شہود میں لائی گئی جس میں مملکت سعودی عرب کی تاریخ، آل سعود کی جدوجہد عازمین حج وعمرہ کی خدمات وسہولیات سے متعلق مبنی برحقائق معلومات کو احاطۂ تحریر لایا گیا جس کی فہرست درج ذیل ہے ۔

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز .!
محمد طاہر آصف
فکر اسلامی کے احیاء کیلئے المملکۃ السعودیۃ العربیۃ کی خدمات
خالد حسین گورایہ
مسئلہ تکفیراور اس کے برے نتائج
ابو عمر محمد یوسف / محمد یعقوب طاہر
آل سعود نے قبروں کے اوپر بنی ہوئی عمارتیں کیوں گرا دیں
مفتی محمد شریف
حدود اللہ کی حفاظت میں مملکت کی حفاظت ہے
محمد حسین رشید
فضائل حرمین شریفین مقامات مقدسہ کا عطربیز تذکرہ
محمد طیب معاذ
خدمات المملکة العربية السعودية في عالم الغرب
شاہ فیض الابرار صدیقی
التکفير وآثاره السيئة في الأمة
ابو عمر محمد یوسف
الملک عبد اللہ بن عبدالعزیز
مفتی محمد شریف

6سیرت رسول ﷺنمبر :
نبی مکرم کی سیرت طیبہ علوم ومعارف کا بحر پیکراں ہے سیرت طیبہ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ہم اپنا طرز عمل اور راہ متعین کرسکتے ہیں۔ انہی نبوی علوم سے ہی ہمارے فرد اور معاشرے کی اصلاح ممکن ہے علوم سیرت اور صاحب سیرت کی زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق معلومات کا خزینہ بنام ’’سیرت النبی نمبر‘‘ جنوری 2014ء میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اس گلدستہ کے چند ایک اہم پھول درج ذیل ہیں ۔

پاکستان میں امن و سلامتی کا حصول سیرت طیبہ کی روشنی میں
شاہ فیض الابرار صدیقی
محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افراط و تفریط کے مابین
الشیخ ابو عبدالمجید محمد حسین
قول و فعل کی مطابقت سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک درخشاں پہلو
راحیل گوہر
سیاست کے اصولی تقاضے اسلام کی نظر میں
علامہ محمد یعقوب طاہر
رسول مجتبیٰ ﷺ کے فیصلے
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
مطالعہ سیرت طیبہ کے اصول و ضوابط پر ایک تحقیقی جائزہ
شاہ فیض الابرار صدیقی
نبی مکرمﷺ سے حقیقی محبت قرآن و سنت اور واقعات صحابہ کی روشنی میں
الشیخ حافظ محمد یونس اثری
نبی مکرمﷺ بحیثیت رہنمائے معاشیات
ڈاکٹر محمد جنید ندوی
حاملين دين كی عزت وتوقیر
ابراہیم عبد الرحیم
محمد مصطفیٰ ﷺ کے دشمنوں کا انجام
مولانا ظفر علی خان
مناہج انقلاب اسؤہ حسنہ کی روشنی میں تجزیہ و ترجیح
محمد انور الصابونی
12 ربیع الاول اور مسلمان
محمد رمضان یوسف سلفی
اظہار محبت رسولﷺ کا صحیح طریقہ
اکرام اللہ واحدی
سیرت النبیﷺ کی پہچان سے متعلق چند ضابطے
معصف ابرار
سیرت کی کتابوں کے نام
ڈاکٹر مقبول احمد مکی

7’’دفاع بلاد حرمین شریفین ‘‘نمبر
ارض حجازاہل اسلام کے لیے مقدس ترین خطہ ارضی ہے ۔ دشمنان اسلام نے ہر دور میں ان مراکز اسلام کو ختم کرنے کی ناپاک جسارتیں کی ہیں۔ سال 2015ء میں یمن کے حوثی باغیوں نے دشمنان اسلام کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے مرکز اسلام کے خلاف گہری سازش کے تحت حملہ کیا مملکت سعودیہ نے اپنے دفاع کے لیے حوثیوں باغیوں کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ ملک عزیز پاکستا ن میں مملکت سعودی عرب کے خلاف مختلف قسم کے منفی پروپیگنڈے کے جواب میں جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں دینی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں مملکت سعودیہ کے دفاع کے لیے ہر قسم کے تعاون کا فیصلہ کیاگیا۔
مجلہ اسوئہ حسنہ کی مجلس ادارت نے حالات کے پیش نظر بلاد حرمین شریفین سے متعلق خصوصی شمارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ عوام الناس کو صحیح اور مبنی برعدل موقف سے آگاہ کیا جاسکے ۔ اس عظیم اور نیک مقصد کے لیے جو خصوصی محنت کی گئی اس کی اک جھلک اس فہرست میں ہے۔

بلادِحرمین کی ہی حمایت کیوں؟
ڈاکٹر مقبول احمد مکی
حدیث نجد کے مصداق کون؟
الشیخ محمدشریف
یمن میں حوثی فسادات !اسباب، اہداف اور حل
ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
سعودیہ میڈیا وار کا ہدف کیوں؟
عطاء محمد جنجوعہ
عاصفۃ الحزم سے اعادۃ الامل تک
ڈاکٹرافتخار احمد شاہد
ارض يمن تاريخ – تصوير-تدبير
الشیخ خالدحسین گورایہ
حوثی قبائل! موجودہ فسادات کے بنیادی محرکات
شاہ فیض الابرارصدیقی
فضائلِ حرمین شریفین
مدثر بن ارشد لودھی
کعبۃ اللہ پر حملے کی ناپاک جسارتیں اور بھیانک انجام
حافظ محمد سفیان سیف
سعودی عرب کا دفاعی اقدام درست عمل کیوں؟
ابن خوشی محمد عاجز
بھیانک سازش اور مسلمان!
الشیخ محمد یونس اثری
ہمارے اینکر پرسن اور عالمِ اسلام
شاہ فیض الابرار صدیقی
قرار دادِ پارلیمنٹ اورعوام میں کھلا تضاد
الشیخ محمد یونس ربانی
ندوۃ عن دفاعِ حرمین شریفین کی روداد
حبیب الرحمن یزدانی
یمن و سعودی عرب کی صورتحال اور پاکستان !
ابراہیم شاہ/
فتح الرحمن
مملکت سعودیہ عربیہ کی دین اسلام کیلئے خدمات
الشیخ طیب معاذ
حمایۃ وتائیداً، لعاصفۃ الحزم
الشیخ ابوزبیر
العلاقات بين باكستان والمملكة العربية السعودية
الشیخ شاھد نجیب المشوانی
ان خصوصی شماروں کے علاوہ حالات کےعین مطابق تجزیے سے بھر پور اداریے، احکامات اسلامیہ سے متعلق مستند معلومات ، اسلامی افکار وخیالات پر مبنی دلچسپ تحریریں عالم اسلام اور اہل اسلام کے خلاف جاری سازشوں سے پردہ اٹھاتی تحریریں، اکابرین مسلک حقہ اہل حدیث کے سوانح حیات اور دیگر کئی ایک موضوعات اور عناوین سے متعلق نگارشات اس مجلے کی زینت بنتی رہی ہیں۔
آخری بات :
اس علمی وقلمی جہاد کو جاری وساری رکھنے میں ہر صاحب خیر کو اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہیے ہم اہل خیر سے اس کام میں تعاون کے خواہستگار ہیں اور اسی طرح اہل قلم سے ملتمس ہیں کہ وہ اپنی نگارشات کے ذریعے ہمارے اس سفر میں ہم رکاب بنیںیقیناً آپ احباب کے مخلص تعاون سے ہی یہ شمع جہالت کے اندھیروں کو ختم کرنے میں اپنا کردار بخوبی اداء کرے گی۔ ان شاء اللہ
۔۔۔

گرمی اور اس کے احکام

انسان کو زندگی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کبھی سردی سے تو کبھی گرمی سے ۔ ایک مومن بندے پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے کو کتاب وسنت کے مطابق بسر کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ راقم نے مضمون ہذا میں زندگی کے ایک مرحلے گرمی اور اس کے احکام ومسائل اور اس سے ملنے والی نصیحتوں کو جمع کیا ہے تاکہ اہل اسلام اس موسم کے احکام ومسائل اور اس سے ملنے والی نصیحتوں سے واقف ہو سکیں ۔
1 گرمی کی وجہ :
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جو اتنی گرمی پڑتی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ یہ اتنی سخت کیوں ہوتی ہے ؟ صحیح بخاری میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ (صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ ، الحدیث : 3260)

’’دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! آگ کی شدت کی وجہ سے) میرےبعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘
اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

قَالَتِ النَّارُ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأْذَنْ لِي أَتَنَفَّسْ، فَأْذِنْ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ بَرْدٍ، أَوْ زَمْهَرِيرٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ، وَمَا وَجَدْتُمْ مِنْ حَرٍّ، أَوْ حَرُورٍ فَمِنْ نَفَسِ جَهَنَّمَ(صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ، باب استحباب الابراربالظہر فی شدۃ الحر ، الحدیث : 617)

’’آگ نے عرض کی اے میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھا رہا ہے مجھے سانس لینے کی اجازت مرحمت فرما تو ( اللہ تعالیٰ نے ) اس ےدو سانس لینے کی اجازت دی ایک سانس سردی میں اور ایک سانس گرمی میں تم جو سردی یاٹھنڈک کی شدت پاتے ہو وہ جہنم کی سانس سے ہے اور جو تم حرارت یا گرمی کی شدت پاتے ہو تو وہ جہنم کی سانس سے ہے ۔
2 وجۂ گرمیٔ جہنم :
گرمی کی شدت کی وجہ آپ نے جان لی کہ یہ جہنم کی گرمائش میں سے ہے تو آیئے ذرا جہنم کی گرمی اور اس کی تپش کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ جس جہنم کی تپش اتنی ہے تو اس جہنم کی اپنی گرمی کیا ہوگی؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

نَارُكُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً قَالَ: فُضِّلَتْ عَلَيْهِنَّ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَاِ (صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ ، الحدیث : 3265)

’’تمہاری دنیا کی آگ کی حرارت جہنم کی آگ (کی حرارت) کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (ہماری آگ کی حرارت) کافی ہے فرمایا کہ وہ اس پر انہتر حصہ زیادہ کردی گئی ہے ہر حصہ میں اتنی ہی گرمی ہے۔ ‘‘
اسی طرح سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا، ثُمَّ ذَكَرَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ فَتَعَوَّذَ مِنْهَا، ثُمَّ قَالَ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ(صحیح البخاری ، کتاب الرقاق باب صفة الجنة والنار الحدیث : 6563)

’’نبی کریمﷺ نے دوزخ کا ذکر کیا تو اپنا منہ پھیر لیا اور اس سے پناہ مانگی، پھر فرمایا کہ دوزخ سے بچو، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو اور جس شخص کو یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی باتوں کے ذریعہ (اس سے بچے) ۔ ‘‘
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
’’ اہل جہنم میں سے سب سے کم عذاب میں وہ ہوگا جو آگ کی دو جوتیاں پہنے ہوگا اس کی جوتیوں کی گرمی سے اس کا دماغ کھولے گا ۔‘‘ ( صحیح مسلم ، حدیث : 514)
مذکورہ احادیث سے وہی گرمی(جہنم کی) اور تپش واضح ہوتی ہے کہ رحمۃ للعالمین ﷺ جیسے ہی جہنم کا ذکر کرتے تو اپنا چہرہ مبارک(جہنم کی تپش محسوس کرتے ہوئے) پیچھے ہٹا دیا کرتے تھے اور بھی قرآن حکیم واحادیث صحیحہ سے جہنم کی گرمی اور اس کے تپش کا ذکر ملتاہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ اللھم إنی أعوذبک من حر جھنم
3 روزِ محشر کی گرمی
قارئین کرام! آپ گرمی کی وجہ اور پھر وجۂ گرمی جہنم کی گرمی کی شدت کاذکر پڑھ آئے ہیں لیکن اس گرمی سے ملنے والی عبرت ونصیحت یہ ہے کہ اس دنیاوی گرمی سے اتنا پریشان ہیں تو روزِ محشر جہاں باری تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا کتنی خطر ناک گرمی ہوگی اس گرمی کا ذکربزبان وی یوں کیا جاسکتاہے

يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا، وَيُلْجِمُهُمْ حَتَّى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ (صحیح البخاری ، کتاب الرقاق باب قولہ تعالی ’’ألا یظن اولئک أنھم مبعوثون…، الحدیث:6532)

’’لوگ قیامت کے دن پسینہ میں غرق ہو جائینگے یہاں تک کہ ان کا پسینہ زمین میں ستر گز پھیل جائے گا اور ان کے منہ تک پہنچ کر ان کے کانوں تک پہنچ جائے گا۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ القِيَامَةِ، حَتَّى يَبْلُغَ العَرَقُ نِصْفَ الأُذُنِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ ، باب من سأل الناس تكثرا، الحدیث : 1475)

’’قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہوجائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا ۔ لوگ اسی حال میں اپنی خلاصی کے لیے آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے پھر موسی علیہ السلام سے اور پھر محمد ﷺ سے ۔‘‘
4 روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کے اسباب :
روزِ محشر کی گرمی کی شدت اور اس کی تپش کا ذکر آپ پڑھ آئے ہیں کہ وہ کتنی سخت گرمی ہوگی ہر بندہ چاہے امیر ہو یا غریب گرمی کی شدت کو برداشت نہیں کر پائے گا دنیا میں تھوڑی سی گرمی آنے پر فوراً سایہ تلاش کیا جارہاہوگا سوچیے اگرچہ 70 حصوں کے ایک حصے(کی گرمی) کو برداشت نہیں کر پا رہے تو 69حصوں (کی گرمی) کو کیسے برداشت کریں گے ؟ لہٰذا جیسے دنیا کی گرمی سے بچاؤ کا ذریعہ تلاش کرتے ہو ایسے ہی روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کا بھی سوچیں تو کیا واقعی روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ مل سکتا ہے ۔ جی ! نبوی زبان ﷺ سے روزِ محشر کی گرمی سے بچاؤ کا ذریعہ اس طرح ذکر کیا گیا ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَادِلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ فِي خَلاَءٍ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسْجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ إِلَى نَفْسِهَا، قَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ [ص:164] يَمِينُهُ (صحیح البخاری ، کتاب الحدود، باب فضل من ترك الفواحش، الحدیث : 6806)

’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں لے گا جس دن کہ اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، امام عادل اور وہ جوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی راہ میں صرف کی ہو اور وہ مرد جس نے اللہ کو تنہائی میں یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے اور وہ دو آدمی جو آپس میں اللہ کے لئے محبت کریں اور وہ جسے کوئی منصب والی اورخوبصورت عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ جو پوشیدگی سے اس طرح صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ ‘‘
جہنم کی گرمی سے بچاؤ کا ایک بہترین ذریعہ زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا ہے اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَتِرَ مِنَ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَلْيَفْعَلْ(صحیح مسلم :1016وسنن ابن ماجہ :185، سنن ترمذی:2415)

’’ تم میں سے جو اپنے چہرے کو جہنم کی گرمی سے بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘
جہنم کی گرمی سے بچاؤ کا ایک ذریعہ اچھی بات بھی ہے ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شام میں آپ ﷺ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے(ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی ، پھر آپ نے کھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا آپ ﷺ نے فرمایا (صدقہ)دو اگرچہ ایک صاع ہو،اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو اگرچھ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعے سے تم میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتاہے(تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے ہی کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں ؟ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں ، اللہ پھر کہے گا کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا کیوں نہیں تو نے ہمیں مال اور اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے،پیچھے، دائیں بائیں دیکھے گا لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے، اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش وتدبیر کرنی چاہیے ایک کھجور ہی صدقہ کیوں نہ کرنا پڑے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی وبھلی بات کہہ کر ہی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔۔۔ الخ (الصحیحہ للألبانی : 3263)
جہنم کی تپش اور اس کی شدت گرمی سے بچاؤ کے لیے کثرت سے دعائیں کرنا چاہیے سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ، وَرَبَّ إِسْرَافِيلَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ حَرِّ النَّارِ، وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ(سنن النسائی : 5528)

ــ’’اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے پروردگار میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کی گرمی اور عذاب قبر سے۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ابو القاسم ﷺ کو اپنی نماز میں کہتے ہوئے سنا

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ (سنن النسائی : 5529)

’’اے اللہ! میں قبر ،دجال ، موت وزندگی کے فتنے سے اور جہنم کی گرمی سے پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
روزِ محشر کی گرمی سے بچنے کے لیے مذکورہ اعمال کی پابندی کرناضروری ہے ۔
5گرمی میں پیدا ہونے والے امراض سے پناہ کی دعائیں :
گرمی کی وجہ سے بندہ بیمار ہوسکتاہے ،گرمی کی تپش کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اس لیے شریعت نے گرمی میں بلا وجہ بیٹھنے سے منع کیا ہے جس کا تذکرہ آگے آئے گا۔ إن شاء اللہ
لہٰذا گرمی کی تپش اور اس سے پیدا ہونے والے امراض کی اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ یہ جہنم کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہیں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الحُمَّى مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَأَطْفِئُوهَا بِالْمَاءِ قَالَ نَافِعٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ، يَقُولُ: اكْشِفْ عَنَّا الرِّجْزَ (صحیح البخاری کتاب الطب باب الحمى من فيح جهنم ، الحدیث : 5723)

’’بخار جہنم کا شعلہ ہے، اس لئے اس (کی گرمی) کو پانی سے بجھاؤ اور نافع نے کہا کہ عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم سے مصیبت دور کر۔ ‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر قسم کے درد میں یہ دعا پڑھنا سکھاتے تھے۔

بِسْمِ اللهِ الكَبِيرِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ العَظِيمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَعَّارٍ، وَمِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ (سنن الترمذی أبواب الطب عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث:2075)

’’میں بڑے اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور عظمت والے اللہ کے واسطے سے ہر بھڑکتی رگ اور آگ کی گرمی کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘
6 خامخواہ گرمی میں بیٹھنا :
خامخواہ گرمی میں بیٹھنا جائز نہیں کیونکہ ایک تو یہ گرمی جہنم کی تپش سے ہے خامخواہ گرمی میں بیٹھنا گویا اپنے آپ کو زندگی میں ہی جہنم کی تپش چکانے کے مترادف ہے اور دوسری بات کہ اس گرمی کی وجہ سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے خیر خواہی کے طور پر بھی اس سے منع کیا ہے تاکہ انسان تکالیف سے محفوظ رہے ۔
سیدنا قیس بن ابی حازم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ
رَآنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ فِي الشَّمْسِ فَقَالَ: تَحَوَّلْ إِلَى الظِّلِّ فَإِنَّهُ مُبَارَكٌ(مستدرک للحاکم :7711)
’’نبی کریم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا ’’سائے میں آجاؤ کہ یہ مبارک ہے۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ

نَهَى أَنْ يُجْلَسَ بَيْنَ الضِّحِّ وَالظِّلِّ، وَقَالَ: مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ لإمام الألبانی :838)

نبی کریمﷺ نے کچھ دھوپ اور کچھ سائے میں بیٹھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ شیطانی نشست ہوتی ہے۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ابو القاسم ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص سائے میں ہو پھر سایہ اس سے سمٹ جائے اور اس کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ حصہ سائے میں ہو تو وہ وہاں سے اٹھ جائے ۔ ( صحیح مسلم : 5308)
ان تینوں احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ خامخواہ گرمی میں بیٹھا درست نہیں ہے ۔
7گرمی سے بچنے کے لیے سر پر کپڑا رکھنا :
گرمی سے حتی الامکان بچنا چاہیے جس کی وضاحت ہم کر آئیں ہیں کہ یہ جہنم کی تپش سے ہے اور اس سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں احادیث نبوی ﷺ وآثار صحابہ سے بھی ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے سر پر کپڑا وغیرہ رکھا جائے۔
یحییٰ بن حسین اپنی دادی ام حسین سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کیا تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے چل رہے تھے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے آپ کے اوپر اپنے کپڑے کا سایہ کیے ہوئے تھے اور آپ حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی پھر لوگوں کو خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور بہت سی باتیں ذکر کیں۔(سنن نسائی :3078)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا یہ رسول اللہ ﷺ سر ڈھانپے تشریف لارہے ہیں ایک ایسے وقت جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چنانچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔ (سنن ابو داؤد : 4083)
مذکورہ بالا دونوں احادیث اور دیگر کئی احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ گرمی سے بچاؤ کے لیے کپڑا وغیرہ سر پر رکھنا چاہیے۔
8گرمی سے بچاؤ کے لیے درخت وغیرہ کا سایہ لینا:
سایہ داراشیاء من جانب اللہ نعمت ہیں ان کی قدر کرنی چاہیے موسم گرما میں ان سے سایہ حاصل کیا جائے نبی کریم ﷺ اور تمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین گرمی کی وجہ سے درختوں کا سایہ لیا کرتے تھے ۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے ایک ایسے جنگل میں جہاں ببول کے درخت بکثرت تھے ، قیلولہ کا وقت ہوگیا، تمام صحابہ سائے کی تلاش میں (پوری وادی میں متفرق درختوں کے نیچے) پھیل گئے اور نبی کریم ﷺ نے بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا …. الخ ( صحیح البخاری : 2913)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے مختلف درختوں کے سائے میں پھیل گئے تھے پھر اچانک بہت سے صحابہ آپ ﷺ کے اردگرد جمع ہوگئے …. الخ ( صحیح البخاری : 4187)
9گرمی کی وجہ سے سواری پر نماز وغیرہ کے لیے سوار ہونا:
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی تھا میرے علم میں کوئی اور آدمی اس کی نسبت مسجد سے زیادہ فاصلے پر نہیں رہتا تھا اور اس کی کوئی نماز نہیں چھوٹتی تھی اس سے کہا گیا یا میںنے(اس سے کہا ) اگر آپ گدھا خرید لیں کہ(رات کی) تاریکی اور (دوپہر کی)گرمی میں آپ اس پر سوار ہوجایا کریں اس نے جواب دیا مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ میرا گھر مسجد کے پڑوس میں ہو ، میں چاہتا ہوں میرا مسجد تک چل کر جانا اور جب میں گھر والوں کی طرف لوٹو تو میرا لوٹنا میرے لیے ثواب کا باعث بنے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ تمہارے لیے اکٹھا کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 1514)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز وغیرہ کے لیے گرمی کی وجہ سے سواری پر سوار ہوکر جانا چاہیے ، آدمی یہ سوچ نہ رکھے کہ مجھے پیدل چلنے کا اجر سواری پر جانے سے نہیں ملے گا بلکہ اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے ہر قدم کے بدلے نیکی لکھ دیتے ہیں ۔
10 گرمی کی وجہ سے نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میںادا کرنا :
گرمی کی شدت کی وجہ سے نماز ظہر ٹھنڈے وقت پر پڑھنی چاہیے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (صحیح البخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ باب الإبراد بالظہرفی شدۃ الحر، الحدیث:533)

’’ جب گرمی زیادہ ہو جائے، تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ ‘‘
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ (صحیح البخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ باب الإبراد بالظہرفی شدۃ الحر، الحدیث:538)
’’ (گرمی کے موسم میں) ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو، اس لئے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش سے ہوتی ہے۔ ‘‘
11 گرمی کی وجہ سے نماز جمعہ ٹھنڈے وقت میں ادا کرنا:
نماز جمعہ آپ ﷺ دوپہر کو پڑھایا کرتے تھے لیکن گرمیوں میں گرمی کی وجہ سے نماز جمعہ مؤخر فرما کر ٹھنڈے وقت میں پڑھایا کرتے تھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ البَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلاَةِ، وَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلاَةِ يَعْنِي الجُمُعَةَ ( صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، الحدیث:906)

’’نبی کریم ﷺ سردی کے موسم میں (نماز جمعہ) جلدی پڑھ لیتے جبکہ گرمی کے موسم میں (نماز جمعہ)تاخیر سے پڑھتے۔‘‘
12گرمی کی وجہ سے نفلی روزے نہ رکھنا :
اگر گرمی کی شدت زیادہ ہو اور بندے میں اتنی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ رکھ سکے تو اسے شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ بھلے نہ رکھے اگر وہ فرضی روزے ہوں تو (وہ ویسے چھوڑنا صحیح نہیں ہیں سوائے سفر کے) اور وہ بعد میں سفر سے لوٹ کر وہ روزے رکھے جو اس نے چھوڑے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَکْثَرُنَا ظِلًّا الَّذِي يَسْتَظِلُّ بِکِسَائِهِ وَأَمَّا الَّذِينَ صَامُوا فَلَمْ يَعْمَلُوا شَيْئًا وَأَمَّا الَّذِينَ أَفْطَرُوا فَبَعَثُوا الرِّکَابَ وَامْتَهَنُوا وَعَالَجُوا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ(صحیح البخاری ، کتاب الجہاد والسیر ،باب فضل الخدمة في الغزو ، الحدیث:2890)

’’ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺکے ہمراہ تھے تو ہم میں سے سب سے زیادہ سایہ اس شخص پر تھا، جو اپنی چادر سے سایہ کئے ہوئے تھا (بعض آدمی سورج سے اپنے ہاتھوں کی آڑ کرلیتے تھے) بعض آدمیوں کا روزہ تھا، بعض کا نہ تھا جنہوں نے روزہ رکھا تھا، انہوں نے کچھ کام نہیں کیا اور جن لوگوں نے روزہ نہیں رکھا تھا انہوں نے اونٹوں کو اٹھایا اور ان پر پانی بھر بھر کے لائے، غرض ہر طرح کی خدمت کی اور کام کیا، آپ ﷺنے فرمایا کہ آج تو روزہ نہ رکھنے والے (سب) ثواب (لوٹ) لے گئے۔‘‘
13گرمی کی وجہ سے روزہ توڑنا :
اگر گرمی کی شدت زیادہ ہو اور بندے میں برداشت کی طاقت نہ ہو تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔ سیدنا ابو بکر بن عبد الرحمن بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ النَّاسَ فِي سَفَرِهِ عَامَ الْفَتْحِ بِالْفِطْرِ، وَقَالَ: تَقَوَّوْا لِعَدُوِّكُمْ، وَصَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ: الَّذِي حَدَّثَنِي لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ، أَوْ مِنَ الْحَرِّ(سنن ابو داؤد : 2365)

’’میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا آپ نے فتح مکہ کے سال دوران سفر لوگوں کو افطار کا حکم دیا اور فرمایا اپنے دشمن کے واسطے قوت حاصل کرو ابوبکر نے کہا کہ اسی شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے آپ کو عرج کے مقام پر روزہ کی حالت میں گرمی (یا پیاس) کی وجہ سے سر پر پانی ڈالتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘
14گرمی میں پانی سے افطاری کرنا :
عام طور پر آپ ﷺ کھجور سے افطاری کرتے اور اسے افضل قرار دیا لیکن گرمی میں کھجور کے بجائے پانی سے افطاری کرتے تھے جیسے صحیح مسلم میں ہے کہ
كان يفطر في الشتاء على تمرات وفي الصيف على الماء(سنن الترمذي : 696)
’’رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔‘‘
15 گرمی کی وجہ سے سجدہ گاہ پر کپڑا بچھانا :
سجدہ گاہ پر گرمی کی وجہ سے زمین کی تپش سے بچنے کے لیے کپڑا وغیرہ بچھایا جاسکتاہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ(صحیح البخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب السجود على الثوب في شدة الحر، الحدیث : 385)

’’ہم نبی ﷺکے ہمراہ نماز پڑھتے تھے، تو ہم میں سے بعض لوگ گرمی کی شدت سے سجدہ کی جگہ کپڑے کا کنارہ بچھا لیا کرتے تھے۔ ‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ

كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ، فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الحَرِّ (صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ ، باب: وقت الظهر عند الزوال ، الحدیث : 542)

’’ہم رسول اللہ ﷺکے پیچھے نماز پڑھتے تھے، تو گرمی (کی تکلیف) سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ ‘‘
16سخت گرمی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین
اگر گرمی زیادہ ہو تو ظہر کو عصر کے ساتھ ملا کر پڑھا جاسکتا ہے یعنی گرمی کی وجہ سے جمع بین الصلاتین کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا ابو صحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ دوپہر میں نکلے تھے آپ نے وضو کیا اور ظہر کی نماز دو رکعت پڑھی اور عصر کی دو رکعت پڑھی اور آپ کے سامنے نیز بطور سترہ تھا۔‘‘ (سنن نسائی : 494)
17۔گرمی میں جمعہ کے لیے جلدی آنے کی فضیلت :
جو بندے گرمیوں میں گرمی کی پرواہ کیئے بغیر جمعہ کیلئے جلدی آتے ہیں تو ان کے لیے حدیث مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن ہوتاہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے ہوتے ہیں جو (آنے والوں کی ترتیب کے مطابق نام لکھتے ہیںجب امام (منبر پر) بیٹھ جاتاہے تو وہ (ناموں والے) رجسٹر لپیٹ کر امام کا خطبہ سنتے ہیں اور گرمی میں(پہلے)آنے والے کی مثال اس انسان جیسی ہے جو اونٹ قربان کرتا ہےپھر (جو آیا) گویا وہ گائے قربان کر دیتاہے پھر گویا وہ مینڈھا قربان کردیتاہے پھر گویا وہ تقرب کے لیے مرغی پیش کرتا ہے پھر(جو آیا) وہ تقرب کے لیے انڈا پیش کرتا ہے ۔ (صحیح مسلم:1984)
18 گرمی میں کمانے والے مزدوروں کی قدر کرنا :
ہر مزدور کی قدرکرنا چاہیے بالخصوص جو گرمی کی شدت کو برداشت کرکے ہمارے ہاں کام کرتا ہے تو ہم پر حق ہے کہ ہم اس کی قدر کریں۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
’’ جب تم میں سے کسی شخص کا خادم اس کا کھانا لائے تو اگر وہ اسے اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتا تو کم از کم ایک یا دو لقمے اس کو کھانے میں سے اسے کھلا دے کیونکہ اس نے(پکاتے وقت) اس کی گرمی اور تیاری کی مشقت برداشت کی ہے ۔ (صحیح بخاری :5465)
ایک اور روایت میں آپ ﷺ کی نصیحت مبارکہ ہے

أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ، قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ (سنن ابن ماجہ :2443)

’’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔‘‘
19گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے ٹھنڈی چیزیں استعمال کرنا :
گرمی سے بچاؤ کے لیے ٹھنڈی چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں بشرطیکہ وہ حلال ہوں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَأْكُلُ الْبِطِّيخَ بِالرُّطَبِ فَيَقُولُ: نَكْسِرُ حَرَّ هَذَا بِبَرْدِ هَذَا، وَبَرْدَ هَذَا بِحَرِّ هَذَا(سنن ابی داؤد :

3836)
’’رسول اللہ ﷺ تربوز کو تر کھجور کے ساتھ ملا کر کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک سے اور تربوز کی ٹھنڈک کو کھجور کی گرمی سے توڑتے ہیں ۔‘‘
20گرمی کی وجہ سے دورانِ روزہ غسل کرنا :
گرمی کی وجہ سے دوران روزہ چہرے کو پانی لگانےیا گیلا کپڑا سر پر رکھنے یا غسل وغیرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ سنن ابوداؤد وغیرہ میں روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا
’’یصب الماء علی رأسہ من الحر وھو صائم ‘‘ (سنن ابی داؤد :2072۔ أحمد : 375)
’’ آپ ﷺ روزے کی حالت میں گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے ۔‘‘
21گرمی کی بُو کی وجہ سے روزِ جمعہ غسل کرنا :
ہر جمعہ کے دن غسل کرنا سنت، لیکن شدت گرمی کے دن غسل کرنا اور بھی ضروری ہوجاتاہے کیونکہ شدت گرمی میں پسینے کی بدبو سے دیگر نمازیوں کو تکلیف ہوسکتی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالعَوَالِيِّ، فَيَأْتُونَ فِي الغُبَارِ يُصِيبُهُمُ الغُبَارُ وَالعَرَقُ، فَيَخْرُجُ مِنْهُمُ العَرَقُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا ( صحیح البخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب من أين تؤتى الجمعة، وعلى من تجب، الحدیث : 902)

لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاؤں سے(مسجد نبوی میں) باری باری آیا کرتے تھے لوگ گرد وغبار میں چلے آتے ، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں اسی حالت میں ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اس دن(جمعہ میں) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔‘‘
۔۔۔

مرتدین اور باغی قبائل کی سرکوبی

5جون 632ء اور 12 ربیع الاول 11ھ خاتم الانبیاء سیّدنا محمد عربیﷺ ، جب رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے، تو یہ خبر جنگل میںآ گ کی طرح ثابت ہوئی۔جہاں جہاںیہ جاں نکاہ خبر پہنچی، بغاوت کے شعلے اُٹھنے لگے۔ اسلام دشمنوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔
ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوںنےقبائلی سرداروں کی دیکھا دیکھی اسلام قبول کیا تھا۔ صدقِ قلب سے اسلام قبول کرنے والے کچھ لوگ ان میںتھے، ان لوگوں نے نہ صرف اسلام سے بغاوت کر دی، بلکہ انہوں نے مدینہ کی ریاست کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا۔
اور مدینہ منورہ پر حملے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے باغی قبائل کی طرف پیغامات بھیجے کہ اسلام کو نہ چھوڑیں، آگے سے جواب ملا کہ ہمارا اسلام تو ایک شخص (رسول اکرمﷺ) سے ایک معاہدہ تھا۔ جب وہ ہی نہ رہے تو ہمارا معاہدہ بھی ختم لہٰذا اب ہم آزاد ہیں۔ ہمارا آپ کے اسلام سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اب ہم اپنا راستہ خود اختیار کریں گے۔
ان میں سب سے خطرناک ترین فتنہ مرتدین کا تھا۔
رسولِ مکرمﷺ کی حیاتِ مقدسہ کے آخری ایام میں ہی بعض جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہو چکے تھےجن کی رومی و ایرانی اور یہودی پشت پناہی کر رہے تھے۔
ان مدعیانِ نبوت اور باغی قبائل میں اسود عنسی، مسیلمہ کذاب (مسلمہ بن حبیب) طلیحہ اسدی اور سجاح بنت حارث قابل ذکر ہیں۔
اسود عنسی کا اصل نام عقیلہ بن کعب تھا۔ چونکہ اس کا رنگ سیاہ تھا۔ اس لیے اسود کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ بڑا فصیح البیان، شعبدہ باز اور شر پسند نجومی تھا۔ وہ یمن کے مغربی علاقے عنس کا سردار تھا۔ اس مناسبت سے اسے اسود عنسی کہتے ہیں۔
بد شکل اور سیاہ رنگ کے باوجود اس مرتد میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے اشاروں پر چلتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ایک پُر اسرار شعبدہ باز اور کاہن بھی رہ چکا تھا۔ اس دور میںکاہنوں کو مشرک لوگ دیوتائوں کا منظورِ نظر اور ایلچی تصّور کرتے تھے۔
چنانچہ جنگل میں آگ کی طرح اچانک یہ خبر پھیل گئی،کہ اسود عنسی کو اللہ نے نبوت عطا کی ہے ۔ اب وہ اسود عنسی نہیں بلکہ ’’رحمن الیمن‘ ‘ کہلاتا تھا۔
خبر دینے والے اس کے کارندے بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے، کہ جا کر دیکھو تو سہی ’’رحمن الیمن‘‘ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بناتا ہے، چلو لوگو چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘
چونکہ پہلے وہ کاہن رہ چکا تھا۔ لوگ پہلے ہی اسے پُر اسرار طاقتوں کا مالک سمجھتے تھے۔ اس لیے ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اس کے دعویٰ نبوت کو بھی تسلیم کر لیا۔
یہ ایک غار کے دھانے رہتا تھااور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کو قرآن کی طرز پر کچھ جملے سناتا۔
اور کہتا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھی آتا ہے جو اسے ہر روز،ایک راز کی بات بتاتا ہے۔
وہ لوگوںکو اپنی شعبدہ بازیوں کے ذریعہ کرتب بھی دکھایا کرتا تھا۔ مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیتااور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو جل رہی ہوتی۔ وہ بڑا چرب زبان اور لسّان بھی تھا۔ اس کے بولنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’یمن یمن والوں کا ہے‘ اس نعرے میں چونکہ بڑی کشش تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل یمن ایک مدت سے ایرانیوں کے زیر نگین چلے آ رہے تھے۔ دوسری طرف وہاں یہودی، نصرانی او رمجوسی بھی تھے۔یہ سب اسلام کے مخالف متحد تھے۔ جیسا کہ روزِ اول سے ہی ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ لوگ در پردہ اسود عنسی لعنتی کی نبوت کی حمایت کر رہے تھے۔
اسود عنسی لعین نے اپنی نبوت کی صداقت کے لیے ایک گدھا رکھا ہوا تھا۔ وہ گدھا اس کے سامنے لایا جاتا۔ تو وہ گدھے کو کہتا، بیٹھ جائو، گدھا بیٹھ جاتا۔ پھر کہتا جھک جائو، تو وہ سجدے کے انداز میں اس کے سامنے جھک جاتا۔
غرض دیکھتے ہی دیکھتے اس لعین نے ایک لشکر کی صورت میں خود کو منظم کر لیا۔ اس نے اولاً نجران کا رُخ کیا۔ وہاں رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کردہ دوحاکم تھے۔ خالد بن سعیداور عمرو بن حزم رضی اللہ عنہم کو لوگ چھوڑ گئے اور اسود کی بظاہر قوت دیکھتے ہوئے نجرانی اس کے ساتھ مل گئے۔
چنانچہ رسالت مآبﷺ کے مقرر کردہ حاکم واپس مدینہ آ گئے۔ اسود عنسی نے اپنی حکومت قائم کر کے صنعا یعنی یمن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ صنعا میں باذان کے بیٹے شہر بن باذان کی حکومت تھی۔
یہی وہ باذان ہے جس نے اپنے شہنشاہ خسرو پرویز کے حکم پر رسولِ اکرمﷺ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور اپنے دو سپاہی رسول اللہﷺ کی گرفتاری کے لیے بھیجے تھے۔
رسولِ اکرمﷺ نے جن بادشاہوں کے نام قبول اسلام کے خطوط روانہ کیے تھے۔ ان میں ایک شہنشاہِ ایران بھی تھا ۔ اس کے دربار میں عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ کا خط سنتے ہی وہ آگ بگولا ہو گیا اور اس نے نامہ مبارک کو چاک کر دیاتھا۔
اور عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار سے نکال دیا گیا۔ تب اس نے یمن کے گونر باذان کو حکم دیا۔
کہ اس شخص ’’محمدﷺ’’ کو گرفتار کر کے میرے حضور پیش کیا جائے جس نے حجاز میںنبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
شہنشاہ ایران نے چونکہ نہایت گستاخی کا ارتکاب کیا تھا کہ اس نے نامہ مبارک کے پُرزے پُرزے کر دئیے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی اس گستاخی کے ردِّ عمل میں اس کے بیٹے کے ہاتھوں اس کو مروا دیا اور یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔
رسولِ اکرمﷺ نے ان سپاہیوں کو جو کہ آپﷺ کے وارنٹ گرفتاری لے کر آئے تھے۔ ان سے کہا:
جس نے تمہیں یہاں بھیجا ہے۔ اس کے بیٹے نے تو آج رات اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہ سن کروہ حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔
گورنرِ یمن باذان تک جب یہ خبر پہنچی، تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ بدستور یمن کا حاکم رہا۔
رسولِ اکرمﷺ نے یمن کے کئی حصے کر کے الگ الگ حاکم مقرر فرمائے۔ باذان کے بعد اس کا بیٹا شہربن باذان کو بدستور صنعا اور اس کے گردونواح کا حاکم بنا دیا گیا۔
چنانچہ اسود عنسی نے جب صنعا کا رُخ کیا، تو ابن باذان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ جس سے اس کی فوج کے قدم اُکھڑ گئے اور صنعا پر اسود عنسی کا قبضہ ہو گیا۔
اور اس نے ابن باذان کی جواں سال خوبصورت بیوی کو جبراً اپنی بیوی بنالیا۔
اسود عنسی نے یکے بعد دیگرے حضرموت، بحرین اَحساء اور عدن تک تمام علاقوں پر قابض ہو کر یمن میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اہل اسلام کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔
دوسری طرف رومیوں کے حملے کا بھی خطرہ تھا۔ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یمن کو ایک خود ساختہ بنی سے نجات دلانے کے لیے بھی ایک بڑے لشکر کی ضرورت تھی
چنانچہ حکمت عملی کے تحت قیس بن ہبیرہ کو اس مہم کے لیے منتخب کیا گیا اور اسود عنسی کی نبوت کو خاک میں ملانے کے لیے ٹاسک دے کر یمن روانہ کر دیا گیا۔
قیس پُر عزم انداز میں جھوٹے نبی اسود عنسی کے خاتمے کے لیے وفادار مسلمانوں سے مل کر منصوبہ بندی کرنے لگے۔ مختصراً قیس بن ہببرہ رضی اللہ عنہ اسود کے ایک معتمدِ خاص فیروز کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔
فیروز اسود کی جبراً بنائی گئی بیوی آزاد کا چچا زاد بھائی تھا۔ فیروز کی مدد سے اسود کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔مؤرخ بلا ذری نے لکھا ہے کہ
’’پروگرام کے مطابق جب فیروز اپنی چچا زاد کے ذریعہ رات کی تاریکی میں اسود کی خوابگاہ تک پہنچا۔ تو وہ شراب کے نشے میں دُھت تھا۔‘‘
یہاں بات قابل ذکر ہے کہ (تمام مدعیانِ نبوتِ کاذبہ بشمول مرزا قادیانی اور قادیانی رائل فیملی شراب و کباب کے رسیا ہیں) فیروز کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔ اسود جنگلی سانڈھ کی طرح تھا۔
دفعتاً اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے معتمد فیروز اور بیوی کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔ اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟
اسود نے نشے میں لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں پوچھا۔
فیروز نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تلوار کھینچی، اور پوری قوت کے ساتھ اسود (جھوٹے نبی) کی گردن پر وار کیا۔
اسود نے گردن بچا لی اور تلوار اس کے ننگے سر پر پڑی اور ساتھ ہی اس کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلنے لگیں۔
غلام اور پہرے دار دوڑتے ہوئے آئے۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کرتے ہوئے کہا:
رحمن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ چلو واپس اپنی جگہ پر چلے جائو۔
مؤرخ بلا ذری لکھتا ہے کہ ’’پہرہ دار نے احترام سے سر جھکایا اور چلا گیا۔‘‘
آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اُٹھ کر بستر پر گر رہا ہے،اور فیروز دوسرے وار کے لیے بڑھ رہا ہے۔
اسود بستر پر گر پڑا، اور سانڈ کی طرح ڈکا رہا تھا۔ آزاد نے آگے بڑھ کر اسود کے لمبے بال دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور پھر فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن کاٹ کر جھوٹے نبی کا کام تمام کر دیا۔
جھوٹے نبی کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا اور ساتھ ہی اَشَہَد اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔’’اللہ اکبر‘‘
یہ واقعہ مئی 632ء کا ہے۔ اگلے ہفتے قیس بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ اور وبر بن یحنّس یہ خوشخبری لے کر مدینۃ الرسول ﷺ پہنچے۔تو ان کے قدموں تلے سے زمین نکل رہی تھی اور مدینہ کی فضا سوگوار تھی۔
کیونکہ 5جون 632ء ،12ربیع الاول 11ھ کو خاتم النبیین محمد عربی ﷺ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے تھے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
بڑھے جو ہاتھ حرمتِ نبوت کی طرف تو قلم کر دو
لہو کی دھار سے کھینچو حصارِ ختمِ نبوت

تاریخ سے سبق آموزی، انداز اور فوائد

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہ غیب جاننے والا اور دلوں کو پھیرنے والا ہے، وہی گناہوں کو بخشتا ہے، میں اپنے پروردگار کی نعمتوں پر اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں ، اس کی نعمتوں کا صحیح شمار بھی وہی کر سکتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، تعریف اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺانکی آل اور صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں ، اور رحمتیں نازل فرما جنہیں اللہ تعالی نے اپنا ولی بنایا، اللہ تعالی بہترین مولا اور بہترین مدد گار ہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

خلوت و جلوت میں تقوی الہی اختیار کرو؛ تا کہ اللہ تعالی تمہارے امور سنوار دے اور حالات بہتر کر دے۔ تقوی ہی نیک اور کامیاب لوگوں کا طریقہ کار ہے، اور تقوی سے محرومی واضح خسارہ ہے۔
اللہ کے بندو!ان لوگوں میں شامل ہو جاؤ جو اہل بصیرت اور ایمان ہیں، عقلمندوں اور نیک لوگوں کی راہ پر چلو۔
عقلِ سلیم اور سلیم الفطرت لوگ ہی عقلمند ہیں، یہی لوگ وحی سے مستفید ہوتے ہیں اس کا معنی و مفہوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مراد کے مطابق سمجھتے ہیں، یہ کلام الہی پر عمل اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالی سے ثواب کی امید ہوتی ہے نیز اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتے ہوئے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ [الزمر: 17۔18]

اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے پرہیز کیا اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے وہ خوشخبری کے مستحق ہیں، میرے بندوں کو خوشخبری سنا دیجیے جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں پھر جو بہترین بات ہو اس پر عمل کرتے ہیں یہی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی اور یہی عقلمند بھی ہیں۔
عبرت حاصل کرنا اور سبق آموزی روشن ذہنوں کا خاصہ ہے، عبرت حاصل کرنا؛ تجربہ کاری اور بصیرت کی علامت ہوتی ہے، دوسروں سے سبق حاصل کرنے کا عمل انسان کو کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے اور تباہی سے نجات دلاتا ہےاس کی وجہ سے عبرت پکڑنے والا شخص مثبت اقدامات کرنے میں کامیاب ہوتا ہے نیز اس سے انسان کو نیک اور با صلاحیت لوگوں کے راستے پر چلنے کی رہنمائی ملتی ہے اور اس کے لیے نتائج مثبت برآمد ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو سبق حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا تو اس کو سمجھانا بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا، آخر کار وہ تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے اور ہوس پرست بن جاتا ہے، ایسا شخص منفی سوچ کے حاملین کے پیچھے چلتا ہے اور اپنے آپ کو پشیمان ہونے والوں میں شامل کر لیتا ہے۔عبرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ:
٭ حالیہ یا ماضی کی اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر ، اِن کے اسباب سے بچتے ہوئے بہتری کی جانب بڑھنا، یا پھر:
٭ صالحین کی سیرت اور اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والے انعامات دیکھ کر ان کے طور طریقے کو اپنی عملی زندگی میں

جگہ دینے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔ یا پھر:

٭ مخلوقات کی ماہیت، پر اسرار رازوں اور صفات کو معلوم کر کے انہیں ایک خالق کی بندگی پر کار بند کرنے کی حکمت معلوم کرنا اور اسی کی اطاعت اور بندگی پر کاربند رہنے کا نام عبرت حاصل کرنا ہے۔
اللہ تعالی نے مخلوقات کو پیدا کیا اور پوری کائنات کیلئے قوانین وضع فرمائے چنانچہ اللہ تعالی نے اپنی اطاعت کو دنیا و آخرت میں ہمہ قسم کی کامیابی کا سبب قرار دیا ہے، اور اسی طرح اپنی نافرمانی کو دنیا اور آخرت میں ناکامی قرار دیا، تو کیا اب کوئی اللہ کی نافرمانی کر کے کامیاب ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے انبیائے کرام، رسولوں اور اہل ایمان کے قصے بیان کیے ہیں ان میں ہمارے لیے بہت زیادہ اسباق اور بعد میں آنے والوں کیلئے عملی نمونے ہیں، ان کے باعث عذاب سے نجات مل سکتی ہے اور کامیابیاں حاصل ہو سکتی ہیں، انجام بھی اچھا ہو سکتا ہے اور درجات بھی بلند ہو سکتے ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ [يوسف: 111]

ان کے بیان میں عقل والوں کے لئے یقیناً نصیحت اور عبرت ہے، یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ سابقہ کتابوں کی تصدیق ہےیہ ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ [يونس: 103]

پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کریں۔
جبکہ جھٹلانے والوں کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ [النمل: 51 – 53]

دیکھ! ان کے مکر کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟ کہ ہم نے انہیں ان کی قوم سمیت سب کو غارت کر دیا یہ ہیں ان کے مکانات جو ان کے ظلم کی وجہ سے اجڑے پڑے ہیں، جو لوگ جانتے ہیں ان کے لیے اس میں بڑی نشانی ہےاور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور متقی تھے۔
اسی طرح اللہ تعالی نے سورۃ الشعراء میں متعدد انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے واقعات ذکر کئے، ان میں اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی کامیابی کا ذکر کرنے کے بعد اختتام ان الفاظ پر فرمایا

:إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

بیشک اس میں نشانی ہے، لیکن ان میں سے اکثر مانتے ہی نہیں تھے اور آپ کا پروردگار یقیناً سب پر غالب اور رحم کرنے والا ہے۔ [الشعراء: 190، 191]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالی :إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةًکا مطلب یہ ہے کہ: “اس واقعے میں اللہ تعالی کی حیرت انگیز مدد و نصرت کا ذکر ہے نیز یہ انتہا درجے کی حکمت بھی واضح کرتا ہے۔ اور وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ کا مطلب یہ ہے کہ: ہر چیز پر اسی کا تسلط ، قابو اور قہر ہے۔ الرَّحِيمُیعنی اپنی مخلوق پر نہایت رحم کرنے والا ، لہذا نافرمانوں کو فوری سزا نہیں دیتا، بلکہ انہیں مہلت دیتا ہے اور اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے، [اگر نہ سدھرے تو] غالب اور طاقتور کی طرح پکڑ لیتا ہے۔ اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: {الرَّحِيمُ} یعنی جو اللہ تعالی سے توبہ مانگے اور رجوع کرے تو اس پر نہایت رحم کرنے والا ہے”
اسی طرح لوط علیہ السلام کے قصے کے آخر میں فرمایا:

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ[الحجر: 75]

بلاشبہ نصیحت لینے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کے متعلق قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یعنی: عبرت پکڑنے والوں کیلئے ۔( تفسیر بغوی)
اس لیے تاریخی واقعات اور حالات سے وہی لوگ عبرت اور سبق حاصل کرتے ہیں جو نیک لوگوں کی راہ پر گامزن ہوں اور بہتری چاہتے ہوں، نیز برائی اور برے لوگوں سے دور ہوں۔
جبکہ ایسے لوگ جو عبرت حاصل نہ کریں، نصیحت نہ پکڑیں، محاسبۂ نفس نہ کریں، اپنی آخرت سنوارنے کیلئے کوئی اقدامات نہ کریں، ان کی عقل یا ان کا دین قبیح کاموں اور گناہوں سے نہ روکے تو وہ جانوروں جیسے ہیں، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:

أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔ وہ تو بالکل چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے۔ [الفرقان: 44]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ[يوسف: 105]

اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے وہ اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: (مؤمن بیمار ہو اور پھر بیماری بڑھتی جائے یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے، تو یہ بیماری اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، اور اگر اللہ تعالی اسے شفا دے دے تو بیماری ماضی کے گناہوں کا کفارہ اور مستقبل کیلئے نصیحت بن جاتی ہے۔ لیکن منافق بیمار ہو اور اسے شفا مل جائے تو وہ اس اونٹ کی طرح ہوتا ہے جسے مالکان پہلے باندھ کر رکھتے تھے اب اسے کھلا چھوڑ دیتے ہیں، اور اونٹ کو یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ اسے باندھ کر کیوں رکھا جاتا تھا اور اب اسے چھوڑا کیوں گیا ہے) (نسائی)
اللہ تعالی نےانبیائے کرام اور رسولوں سمیت خاتم الانبیاء ﷺ کے حالات اسی لیے ذکر کئے ہیں کہ ہم ان کی تاریخ سے سیکھیں، ان کے طریقے پر چلیں اور ان کا اخلاق اپنائیں، اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کو بھی انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا اور فرمایا:

أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ

یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت کی تھی۔ آپ انہی کے راستے پر چلیں۔ [الأنعام: 90]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ

آپ بھی اسی طرح ڈٹ جائیں جیسے اولو العزم پیغمبر ڈٹ گئے تھے۔[الأحقاف: 35]
اسی طرح اللہ تعالی نے سورہ یاسین میں مذکور مومن کی بات ذکر فرمائی:

يَاقَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ[يس: 20، 21]

میری قوم! رسولوں کی اتباع کرو ان کی اتباع کرو جو تم سے اجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
ہمارے نبی خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ جن کے ذریعے اللہ تعالی نے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ فرمایا، آپ کو کامل ترین شریعت اور دائمی دین کے ساتھ مبعوث فرمایا، بلکہ آپ کی شریعت پر کار بند رہنے والے کیلئے دنیا و آخرت میں خوشحال زندگی کی ضمانت بھی دی کہ اللہ تعالی اسے خیر الخلق کے ساتھ جنتوں میں داخل فرمائیں گے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا

اور جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرتا ہے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ اور ان کی رفاقت کے کیا ہی کہنے[النساء: 69]
اس سے بڑی اور کیا عزت افزائی ہو سکتی ہے؟ اتنے بڑے مقام کے مقابلے میں کوئی اور مقام ہو سکتا ہے؟
اور جس طرح اللہ تعالی نے ہمیں انبیائے کرام اور اہل ایمان کے واقعات بتلائے کہ ہم ان کے راستے پر چلیں اور نجات کا راستہ اپنائیں، ان کی سیرت سے سیکھیں اور ان کے حالات و واقعات کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں، تو اسی طرح اللہ تعالی نے حق جھٹلانے والوں ، ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم لوگوں کے حالات بھی بیان کئے ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، ہوس پرستی میں مگن رہے؛ ان کا تذکرہ اس لیے کیا کہ ہم ان کو ملنے والی سزاؤں سے عبرت حاصل کریں، انہیں دنیا اور آخرت میں جو عذاب جھیلنے پڑیں گے ان سے سبق حاصل کریں، ان پر پڑنے والی پھٹکار سے بچنے کی کوشش کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

اور ہم نے عاد اور ثمود کو بھی [غارت کیا] جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ظاہر ہیں اور شیطان نے انہیں انکی خوبصورت بنا کر دکھائی تھیں اور انہیں راہ راست سے روک دیا تھا حالانکہ وہ صاحب بصیرت تھے قارون، فرعون اور ہامان کو بھی[غارت کیا]ان کے پاس موسی واضح معجزے لے کر آئے انہوں نے پھر بھی زمین میں تکبر کیا لیکن وہ ہم سے بچنے والے نہ تھےپھر ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کر لیا ، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا ، بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا ، بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا ، اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا اللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے [العنكبوت: 38- 40]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ[ق: 14]

تمام نے رسولوں کو جھٹلایا تو میری طرف سے وعید نازل ہو گئی۔
بنو نضیر کے قصے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ [الحشر: 2]

اے بصیرت والو! عبرت پکڑو۔
منکرینِ رسالت اور مجرموں کی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کے ساتھ کارستانیاں لوگوں میں مشہور و معروف ہیں، یہ یہ کارستانیاں لوگ نسل در نسل ایک دوسرے کو بتلاتے آئے ہیں چنانچہ تمام واقعات اللہ تعالی کی احقاقِ حق اور اہل حق کی تائید کیلئے بڑی دلیلیں ہیں، ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی پہچان اور دعوتِ توحید کیلئے ، اسی طرح موحدین اور ان کے بہترین انجام کیلئے اللہ تعالی نے کس کس طرح سے مدد نازل فرمائی؛ کہ باطل اور شرکیہ امور کی بیخ کنی ہو سکے اور لوگوں کا ان سے بچنا ممکن ہو۔
مخلوقات کی فطرت سے سبق حاصل کرنا، ان کی صفات اور رنگ ڈھنگ سے نصیحت لینا، ان کی بے مثال تخلیق پر غور و فکر کرنا، ان تمام امور کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار مزید پختہ ہو، عبادت اور اطاعت صرف اللہ تعالی کی ہو؛ کیونکہ جو پیدا کرتے وقت اکیلا تھا وہی تنہا معبودِ برحق بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ [النحل: 66]

تمہارے لیے تو چوپایوں میں بھی بڑی عبرت ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ میں موجود گوبر اور لہو کے درمیان سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کیلئے سہتا پچتا ہے ۔
اسی طرح فرمایا:

يُقَلِّبُ اللهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ [النور: 44]

اللہ تعالی ہی دن اور رات کو رد و بدل کرتا رہتا ہے آنکھوں والوں کے لیے تو اس میں یقیناً بڑی بڑی عبرتیں ہیں۔
اسی طرح فرمایا:

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ

آپ کہیں: تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔ [يونس: 101]
مسلمان کی جانب سے مخلوقات کے بارے غور و فکر عبادت کا درجہ رکھتا ہے، اور ان مخلوقات سے عبرت حاصل کرنے پر مسلمان کو ایمان و یقین کی دولت حاصل ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ

بیشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔[الجاثية: 3]
غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے متردد دل بھی ثابت قدم ہو جاتا ہے اور دل کو جِلا ملتی ہے، بصر و بصیرت منور ہو جاتی ہیں، نیز رہن سہن صحیح ہو جاتا ہے۔
جبکہ غور و فکر اور عبرت حاصل کرنے سے رو گردانی پر دل سخت ہوتے ہیں، غفلت پیدا ہوتی ہے، انسان پشیمانی کی جانب گھسٹتا چلا جاتا ہے اور گناہ سر زد ہوتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غفلت شیطانی راہ ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اسراء اور معراج کے واقعہ کے متعلق فرمایا: جب میں آسمان دنیا تک نیچے آ گیا تو میں نے اپنے سے نیچے دیکھا: مجھے تیز ہوا ، دھواں اور چیخ و پکار سنائی دی: تو میں نے کہا: جبریل یہ کیا ہے ؟ تو فرمایا : یہ شیاطین ہیں جو ایسے بنی نوعِ آدم کی آنکھیں داغ رہے ہیں جو آسمان و زمین پر غور و فکر نہیں کرتے تھے، اگر ایسا نہ کرتے تو انہیں حیرت انگیز معلومات ملتیں۔(احمد)
فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ

بلاشبہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیںاور ان (شیطانوں) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ [الأعراف: 201، 202]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے اپنے ولیوں کے دل قرآن سے منور فرمائے، ان کی بصیرت کو ایمان سے جِلا بخشی، اور ان کی نیکیوں میں “احسان” پیدا فرمایا، میں اپنے رب کی عظیم نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی کرتا ہوں، ان نعمتوں کو اس کے علاوہ کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، تعریفیں بھی اسی کی ہیں وہی نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سربراہ اور نبی جناب محمد اسکے چنیدہ بندے اور رسول ہیں آپ کو خصوصی جوامع الکلم اور قوتِ گویائی عطا کی گئی، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، صحابہ کرام اور ان کی اقتدا کرنے والوں پر اپنی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو تو اللہ تعالی تمہارے لیے زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی بھلائیاں جمع فرما دے گا۔
اللہ کے بندو!اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے خود ہی اپنا محاسبہ کر لو، ہر ایک اپنے انجام کار اور موت کو مد نظر رکھے۔ جس قدر دوسروں سے سیکھو گے تمہاری غلطیاں اتنی ہی کم ہو جائیں گی۔ گناہوں اور نافرمانیوں سے بچ کر رہنے والا سلامتی والی زندگی گزارے گا، اس کا خاتمہ بالخیر ہو گا۔
دوسروں کو دیکھ کر نصیحت پکڑنے والا سعادت مند اور جس کی حالت سے لوگ عبرت پکڑیں وہ دھوکا زدہ ہے، اللہ تعالی نے حالات و واقعات سے نصیحت نہ پکڑنے والے ہوس پرست لوگوں کی مذمت فرمائی اور کہا:

وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ وَكُلُّ أَمْرٍ مُسْتَقِرٌّ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنَ الْأَنْبَاءِ مَا فِيهِ مُزْدَجَرٌ

انہوں نے اسے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات ہی کی پیروی کی حالانکہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہےان لوگوں کو [پہلی قوموں کی] خبریں مل چکی ہیں جن میں کافی وافی تنبیہ ہے۔ [القمر: 3، 4]
البتہ کسی کو سزا یا جزا دینے کیلئے اللہ تعالی کے کچھ قوانین ہیں، چنانچہ جس کے خلاف قانونِ الہی ہو جائے تو وہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے، وہ انحطاط اور ذلت کا شکار بن جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

سُنَّةَ اللهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا [الأحزاب: 62]

گزشتہ لوگوں میں اللہ کا یہی طریقہ جاری رہا ہے اور آپ اللہ کے اس طریقہ میں کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔
اور ایک حدیث میں ہے: (لذتوں کو پاش پاش کردینے والی [موت] کو کثرت سے یاد کیا کرو) اس لیے موت کو یاد کرنے والے کی مثبت کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ موت کو بھول جانے والے سے منفی امور سر زد ہوتے ہیں۔
۔۔۔

مدارس دینیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبۂ کرام کو نصیحتیں

خطبہ مسنونہ کے بعد:

اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم{قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ} (الزمر 9) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ‘(سنن أبي داود: 3641)

انتہائی عزیز طلبہ اور تمام سامعین و حاضرین! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس قسم کی دینی مجالس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے بہت سے ساتھیوں کی زیارت ہوجاتی ہے۔نبیuکا فرمان ہے:اللہ فرماتاہے:

وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِینَ فِيَّ

’’جو لوگ میری خاطر زیارتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ملاقاتیں کرتے ہیں ان کے لیے میری محبت فرض ہو جاتی ہے۔‘‘(صحیح الترغیب والترھیب: 349/2)
میں ضرور ان سے محبت کروں گا۔ اور ضرور انھیں اپنا محبوب بنالوں گا۔ تو یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی جنت دیکھنی ہو تو وہ علماء کی مجالس دیکھ لے۔ علماء کی مجالس دروس جس میں قَالَ اللّٰہُ اور قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ کی صدائیں گونجتی ہیں، یہ اس زمین پر اللہ کی جنتیں ہیں۔ یہ بات انھوں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ نبی u کی حدیث ہے:

اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوا

’’جب تم جنت کے باغیچوں کے پاس سے گزرو تو ضرور کچھ کھا،پی لیا کرو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ تو رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

حِلَقُ الذِّکْرِ (جامع الترمذي:3510)

اس زمین پر قائم جو علماء کی مجالس ہیں، جن میں کتاب و سنت کا بیان ہوتا ہے، ذکر ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا، اَخْبَرَنَا کی صدائیں گونجتی ہیں اورقَالَ اللّٰہُ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِکی آوازیں بلند ہوتی ہیں، یہ حلق الذکر اس ز مین پر قائم جنت کے باغیچے ہیں۔ تو ان مجالس کی بڑی شان ہوتی ہے۔ جو لوگ بڑے ذوق و شوق سے ان میں شریک ہوتے ہیں وہ ان مجالس میں شریک نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی دلیل صحیح بخاری ہی کی حدیث ہے۔ نبیu درس دے رہے تھے۔ تین افراد وہاں آئے۔ ان میں سے ایک شخص نے قریب ایک خالی جگہ دیکھی۔ بڑے وقار سے آگے بڑھتے بڑھتے اس خالی جگہ آکر بیٹھ گیا۔ نبیu کے بالکل سامنے۔ دوسرا شخص شرما گیا۔ آگے نہ بڑھا لیکن وہیں بیٹھ گیا۔ اور تیسرا اپنے گھر کو چلا گیا۔ آپe نے تینوں کا یہ عمل دیکھا اور پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر چلا گیا اور مجلس درس میں نہیں بیٹھا۔

فَأَعْرَضَ فَاَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ

اس نے مجلس سے اعراض کیا، اللہ نے اس سے اعراض کرلیا۔ اور دوسرا جو پیچھے بیٹھ گیا۔

فَاسْتَحْيٰ فَاسْتَحْيَ اللّٰہُ مِنْہُ‘

وہ شرما گیا، اللہ تعالیٰ اس سے شرما گیا، معنی اللہ اس کو عذاب نہیں دے گا۔ اس عمل کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔ اور تیسرا شخص جو آگے بڑھا اور آگے بیٹھنے کی کوشش کی۔

فَاٰوٰی اِلَی اللّٰہِ فَاٰوَاہُ اللّٰہُ

’’وہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھا اور اللہ نے اسے اپنے ساتھ ملالیا۔‘‘(صحیح البخاري: 474)
یہ اس مجلس کی عظمت ہے۔ جتنا ذوق اور شوق ہوگا، جتنا آگے بیٹھنے کی حرص ہوگی اتنے وہ قدم اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ رہے ہیںاور اللہ اس بندے کو ساتھ ملا لیتا ہے۔

اِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْراً تَقَرَّبْتُ اِلَیہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَاِذَا اَتَانِي مَشْیًا اَتَیتُہُ ھَرْوَلَۃً

’’میرا بندہ اگر ایک بالشت میری طرف آئے گا میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور اگر ایک ہاتھ وہ بڑھے گا میں دو ہاتھ بڑھوں گا اور اگر وہ چل کے آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کے جائوں گا۔‘‘(صحیح البخاري: 7536)
یہ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور اس دین کی وسعتیں اور سماحتیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ مجالس، مجالس حدیث ان میں بڑی ہیبت ہوتی ہے، بڑی ان میں عظمت ہوتی ہے۔

مَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِي بَیتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَ رَسُونَہُ بَینَھُمْ اِلَّا غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ (سنن أبي داود: 1455)

’’اگر کچھ لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوں، مسجد میں اور علمی مذاکرہ چل رہا ہو، 1ان مجالس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، 2 فرشتے ان مجالس پر سایہ کرتے ہیں۔ 3 اللہ رب العزت اس مجلس کے شریک ہر شخص کا نام لے کر ذکر کرتا ہے کہ فلاں ہے، فلاں ہے، فلاں ہے۔‘‘
رحمت بھی ڈھانپ لیتی ہے، ملائکہ بھی اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں اور سامنے طلاب علم کا جم غفیر ہوتا ہے۔ امام ذہبیa نے سیر اعلام النبلاء میں محمد بن سلام البیکندیa کے ترجمے میں ایک چھوٹا سا واقعہ لکھا ہے۔ محمد بن سلام البیکندی امام بخاری کے استاد تھے۔ کثرت تعداد طلاب کی بنا پر ان کی مجلس مشہور تھی۔ طلبہ کا بے تحاشا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ اور خالص علم سے ربط رکھنے والے تھے۔ ان کا قول سیر ہی میں ہے کہ چالیس سال گزرچکے ہیں میں نے بیکند کا بازار نہیں دیکھا۔ بیکند ان کا علاقہ تھا۔ چالیس سال سے اپنے شہر کے بازار میں نہیں گئے۔ ہمیشہ علم حدیث اوڑھنا بچھوناتھا۔ توگھر تشریف فرما تھے۔ باہر دروازے پے دستک ہوئی۔ اٹھ کے دروازہ کھولا۔ ایک شخص باہر کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میں انسان نہیں بلکہ جن ہوں اور ایک تو اپنے جنوں کے سردار کا سلام کہنے آیا ہوں اور یہ خبر دینے آیا ہوں کہ آپ کی مجلس درس میں جتنے آپ کے طلبہہوتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ جنات بھی ہوتے ہیں۔(سیر أعلام النبلاء للذھبی: 629/10)
یہ ایک عالم کی شان ہے۔ طلاب کا جم غفیر، فرشتے اوپر سایہ کیے ہوئے، رحمت نے ڈھانپا ہوا ہے اور جن بھی ایک کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو آکر حدیثوں کو سنتے ہیں اور اس نصیحت کو سنتے ہیں۔ یقینا یہ مجالس بڑی مہتم بالشان ہوتی ہیں۔ اہل علم کا یہ طبقہ انتہائی محترم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں علم و عمل کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان اداروں کو، مدارس کو قائم ودائم رکھے۔ یقینا یہ مدارس وہ مراکز ہیں جو حفاظت دین کے مضبوط قلعے ہیں اور جہاں سے علماء تیار ہوتے ہیں اور پھر میدان عمل میں اس علم کو نشر کرتے ہیں۔ امت کی خدمت کرتے ہیں۔ اور علم نافع اور عمل صالح کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ علماء کا کردار ایک مثالی کردار ہے۔ ایک تاریخی کردار ہے۔

الْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاْءِ وَإِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْھَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ

علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا ترکہ درہم و دینار نہیں ہے، روپیہ پیسہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کا ترکہ علم ہے۔

فَمَنْ اَخَذَہُ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ(سنن أبي داود: 3641)

جس نے اس علم کو سمیٹ لیا اس نے خیر کا، برکت کا، سعادت کا ایک بڑا وسیع حصہ سمیٹ لیا۔
سیر اعلام النبلاء ہی میں امام بخاریa کے ترجمے میں غالباً ان کے شاگرد اور صحیح بخاری کے راوی امام فربریa فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اپنے شیخ کے سامنے بیٹھا تھا۔ امام بخاری کے سامنے اور آپ احادیث املاء کرارہے تھے۔ نشست بڑی لمبی ہوگئی۔ مجھ پر کچھ تھکاوٹ کے آثار امام بخاری نے محسوس کیے۔ میری ڈھارس بندھائی یہ کہہ کر کہ طِبْ نَفْسًا اپنا جی اچھا کرلو اور خوشی محسوس کرو۔ فَاِنَّ التُّجَّارَ فِي تِجَارَاتِھِمْتاجر اپنی تجارتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ فَاِنَّ اَھْلَ الصّنَاعَاتِ فِي صَنَاعَاتِھِمْ اور صنعت کار اپنی صنعتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔وَاَنْتَ مَعَ النَّبِیِّ وَاَصْحَابِہِ اور تم رسول اللہe کے ساتھ ہو اور رسول اللہe کے صحابہ کے ساتھ ہو۔(سیرأعلام النبلاء:445/12)

’عَنْ اَنَسٍ، عَنْ اَبی ھُرَیرَۃَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ

صحابہ کا تذکرہ اور رسول اللہ eکا تذکرہ۔ تمھاری یہ مجلس، ہمیشہ تم اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہو اور صحابہ کے ساتھ ہو۔

اَھْلُ الْحَدِیثِ ھُمُوا اَھْلُ النَّبِيِّ
وَاِنْ لَمْ یَصْحَبُوا نَفْسَہُ اَنْفَاسَہُ صَحِبُوا

اہل الحدیث ہی درحقیقت اہل النبی ہیں۔ اگرچہ نبیu کی ذاتِ مقدسہ کی صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا لیکن نبیu کی پیاری اور بابرکت سانسوں کے دن رات کے ساتھی ہیں۔ (قواعد التحدیث: 10/1)
جو حدیثیں آپ کی صادر ہوتی ہیں، آپ کی مبارک سانسوں کے ساتھ ان سانسوں کے دن رات کے ساتھ۔ ان سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ جماعت اہلحدیث سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ علامہ ابن قیمa اپنے نونیہ میں فرماتے ہیں:
یا مبغضا اھل الحدیث وشاتما

أبشر بعقد ولایۃ الشیطان

اے اہل الحدیث سے بغض رکھنے والے اور اہل الحدیث کو گالیاں دینے والے خوش ہوجا، اپنے اس عمل سے تونے شیطان کی دوستی قائم کرلی۔ (قصیدۃ نونیۃ ص:163)
اہل الحدیث کو برا بھلا کہہ کر درحقیقت تو شیطان کا دوست بن چکا۔ بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صحیح معنی میں اپنے پیارے پیغمبر کی احادیث کی خدمت کی توفیق عطا فرمادے۔
میرے عزیز طلبہ! آپ اس درس گاہ میں جو بڑی محترم اور ذی وقار ہے اور بہت سی انفرادیتوں کے ساتھ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ شرف کی بات ہے کہ آپ یہاں کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حرص میں اور آپ کے شوق میں اضافہ فرمائے۔ یہ تحصیل اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہر لحظہ اضافے کا موجب بنتی ہے۔نبیu کی حدیث ہے۔

مَنْھُومَانِ لَا یَشْبَعَانِ مَنْھُومٌ فِی الدُّنْیَا وَمَنْھُومٌ فِی الْعِلْمِ‘ (شعب الإیمان: 271/7)

دو حریص ہیں وہ کبھی سیر ہوتے ہی نہیں۔ ایک دنیا کا حریص ہے۔ جتنا مرضی دنیا کما جائے بس نہیں کرے گا کہ اب تو میں اللہ سے کچھ شرم کرلوں اور عبادات کے لیے، اللہ کے ذکر کے لیے اوقات مختص کرلوں۔ نہیں، اگر دو فیکٹریاں ہیں تو تیسری ہونی چاہیے۔ پانچ ہیں تو پھر دس ہونی چاہئیں۔ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔

لَوکَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ ذَھَبٍ لَا بْتَغٰی الثَّالِثَ

ابن آدم کو دو سونے کی وادیاں مل جائیں تو بس نہیں کرے گا بلکہ تیسری وادی کی کوشش میں جت جائے گا۔

وَلَا یَمْلأَءُ جَوفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ

’’ابن آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔‘‘(مسند أحمد: 117/5)
اچانک موت آجائے گی، قبر میں دھکیل دیا جائے گا۔ اب قبر کی مٹی اس کا پیٹ بھرے گی۔ اب بس کرے گا۔ جو مال کمایا اسے ورثاء تقسیم کررہے ہیں اور وہ اس مال کے ایک ایک درہم کا اللہ کو حساب دے رہا ہے۔ یہ کہاں سے کمائے تھے؟ اپنی ذرائع آمدنی بتائو۔ یہ بینک بیلنس کہاں سے بنا؟ اللہ تعالیٰ کو حساب دے رہا ہے۔ ورثاء اس مال کو تقسیم کررہے ہیں۔ یہ دنیا کا حریص ہے۔ اور دوسرا علم کا حریص ہے۔ اس کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ تحصیل کا شوق، اضافہ علم کا شوق، دعائیں کرتا ہے:
رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا’’یااللہ! علم کو اور بڑھا دے۔‘‘ (طٰہٰ 114:)
یہ شوق اس پر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ سیدناابن مسعودt اس حدیث کے راوی ہیں۔ فرماتے ہیں:

اَمَّا طَالِبُ الْعِلْمِ فَیَزْدَادُ رِضَا الرَّحْمَانِ

جو صاحب علم ہیں، جو علم کا حریص ہے وہ جس قدر علم حاصل کرتا ہے اسی قدر رحمان کی رضا میں بڑھتا جاتا ہے۔(ادب الدنیا والدین للماوردی، ص: 70)
ایک حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک اور حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک آیت کی تفسیر پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ دیگر جو مضامین ہیں، فقہ ہے، اصول فقہ ہے، اصول حدیث، یہ سب علوم دینیہ ہیں۔ جوں جوں پڑھے گا رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ حتی کہ نحووصرف کا علم، یہ گرائمر، عربی کے قواعد۔ کچھ طلبہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو قرآن و حدیث پڑھنے آئے ہیں۔ وہ نحووصرف پر توجہ نہیں دیتے۔ سبق میں غیر حاضریاں کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو اساس ہے۔ کتاب و سنت کے فہم کی اساس یہ گرائمر ہے، علم نحو اور علم صرف ہے۔ شام کے ایک محدث علامہ جمال الدین قاسمیa ان کی مایہ ناز کتاب ہے قواعد التحدیث، اس میں فرماتے ہیں کہ جو طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا اس کا شمار اس وعید میں ہوسکتا ہے، اس پر یہ حدیث منطبق ہوسکتی ہے:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ

’’مجھ پے جان بوجھ کے جھوٹ باندھنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔‘‘(صحیح البخاري: 110)
وہ کہتے ہیں کہ’لِأَنَّہُ بِلَحْنِہِ کَاذِبٌ عَلَیھِنَّ‘ وہ جو غلطی کررہا ہے، حدیث مرفوع ہے وہ منصوب پڑھ رہا ہے۔ حدیث منصوب ہے وہ مرفوع پڑھ رہا ہے۔ (قواعد التحدیث ص:140)
بعض علماء نے لکھا کہ طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا۔ وہ ایک حدیث کے متن میں ایک غلطی کرتا ہے، پھر دوسری کرتا ہے، پھر تیسری کرتا ہے، نتیجہ یہ کہ عربی کی حدیث فارسی کی بن جاتی ہے۔ یہ اللہ کے پیغمبر پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ تو نحو پڑھو، صرف پڑھو، گردانیں یاد کرو، فاعل اور مفعول کے احکام پڑھو، جوں جوں پڑھتے جائو گے رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ ان قواعد کو پڑھنے میں نیت کیا ہے؟ فہم کتاب و سنت۔ کتاب و سنت کی تسہیل یہ آپ کی نیت ہے۔ تو طالب علم، کیا اس کی شان ہے! روزانہ اگر دس اسباق ہیں اور سیکڑوں مسائل پڑھتا ہے تو یہ رحمان کی رضا میں اضافے کے سیکڑوں مواقع ہیں۔ کوئی دنیا کا طبقہ اس کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔

فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ

ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر، عبادت گزار پر، ایک طرف عالم، ایک طرف عبادت گزار، عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ سخی۔ دن رات مال خرچ کرنے والے۔ عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ راتوں کو قیام کرنے والے، دنوں کو روزے رکھنے والے، جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے، یہ سب عبادت گزار ہیں۔ فرمایا کہ ایک عالم اور ایک عابد میں اتنا فرق ہے جتنا چودھویں کے چاند میں اور ستاروں میں فرق ہے۔ جو عبادت گزار ہیں وہ ستارے ہیں اور ان کے بیچ میں عالم چودھویں کا چاند ہے۔ یہ شرف ہے۔ یہ شرف شریعت نے دیا۔
لیکن میرے عزیز طلبہ اور معزز سامعین حضرات! اس شرف کے بقا کے لیے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ امام ابو عاصم النبیل امام بخاری کے شیخ، اپنے نام کے ساتھ ساتھ بڑے نبیل تھے۔ نام بھی نبیل اور عملاً بھی بڑے نبیل تھے۔ ان کا ایک قول ہے:

مَنْ طَلَبَ ھَذَا الْحَدِیثَ فَقَدْ طَلَبَ اَعْلٰی الْاُمُورِ فَیَجِبُ اَنْ یَّکُونَ خَیرُ النَّاسِ‘(تاریخ دمشق: 365/24)

جو اس حدیث کا طالب ہے وہ یہ بات نوٹ کرلے کہ وہ سب سے بہترین چیز کا طالب ہے۔ ڈاکٹر جو ہے ڈاکٹری پڑھ رہا ہے، انجینئر انجینئرنگ پڑھ رہا ہے۔ تم حدیث پڑھ رہے ہو، تم سب سے ممتاز ہو، متفرق ہو اور سب سے بہترین چیز کے طالب ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اپنی ذمہ داری کو پہچانوں اور وہ یہ ہے کہ اب تم سب سے بہترین ہو بھی جائو۔ ایسا بہترین ہوجائو کہ تمھارے ایک ایک عمل میں، بلکہ ایک ایک حرکت میں، اٹھنے بیٹھنے میں، گفتگو میں اللہ کے پیارے پیغمبر کی خوشبو آئے۔ سنت کی خوشبو آئے۔ اس طرح خیرالناس ہوجائو۔ سب سے بہترین ہو جائو۔ تو حدیث کا طالب اپنے اس منصب میں انتہائی شرف کا مستحق ہے لیکن کب؟ جب وہ واقعتا خیرالناس بن جائے۔ اور سب سے بہتر انسان بننے کی کوشش کرے، اعتقادی طور پے، منہجی طور پے، سیاسی طور پے، عملی طور پے، اخلاقی طور پے سب سے بہترین بننے کی کوشش کرے۔ امام شافعیa فرمایا کرتے تھے:

اِذَا رَأَیْتُ اَحَداً اَھْلَ الْحَدِیثِ فَکَاَنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ

جب میں کسی اہل حدیث کو دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے رسول اللہe کو دیکھا۔ کیونکہ اہل الحدیث اللہ کے پیارے پیغمبر کی سنت میں، عمل بالسنہ میں فنا ہوتا ہے۔ اس کی عبادت، اخلاقیات، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ اس دور کے اہل حدیث تھے۔ آج ہم بھی سوچیں، غور کریں، آئینہ دیکھ کر اپنا چہرہ، چہرے سے شروع ہوجائیں کہ سنت رسول کا رنگ موجود ہے؟ ہمیں دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اللہ کے پیغمبر کو دیکھ لیا، صحابہ کرام کو دیکھ لیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے؟ تو حدیث کا طالب ہونا یا اہل الحدیث ہونا ایک شرف تو ہے مگر ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے اوپر حدیث کو منطبق کرنا اور حدیث پر عمل کرنا۔ دیکھیں رسول اللہe نے اس علم کے تعلق سے بلا تمہید دو راستے بیان فرمائے۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ فرمایا کہ

وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ أَوْعَلَیکَ (صحیح مسلم: 223)

’’یہ قرآن حجت ہے آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف۔‘‘
کتاب و سنت کے ساتھ تعلق قائم کرنے والو! بس یہ دو ہی باتیں ہیں۔ یہ قرآن و حدیث یا تو حجت ہے آپ کے حق میں یا پھر آپ کے خلاف۔ اگر ان سے تعلق قائم کرو گے، پڑھو گے تو پھر یہ سارا سلسلہ کامیابی پر منتج ہوگا۔

اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ یَأْتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعًا لِأَصْحَابِہِ

یہ قرآن قیامت کے دن آئے گا اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتا ہوا۔ (صحیح مسلم: 804)
حجت بن رہا ہے۔ بلکہ بعض سورتوں کے بارے میں، مثلاً: سورۂ ملک ہے، فرمایا:

تَشْفَعُ لِصَاحِبِھَا حَتَّی یُغْفَرَلَہُ (سنن أبي داود:1400)

سورۂ ملک اس وقت تک شفاعت کرتی رہے گی، جب تک بندے کو جنت میں پہنچا نہ دے۔
سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران، جن کو قرآن کے دو نور کہا گیا ہے تُجَادِلاَنِ عَنْ صَاحِبِھِمَا‘یہ دو سورتیں آئیں گی اپنے پڑھنے والے کے لیے لڑیں گی، جھگڑیں گی، اس وقت تک جھگڑا کرتی رہیں گی جب تک اس کو جنت میں پہنچا نہ دیں۔(صحیح مسلم: 804،وجامع الترمذي: 2883)
حُجَّۃٌ لَکَ اگر پڑھو گے، حق ادا کرو گے، عمل کرو گے، کتاب و سنت کو اپنے اوپر نافذ کرو گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو’أَوْ عَلَیکَ‘ پھر دوسرا راستہ یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ سامنے کھڑا کرلے گا۔ پانچ سوال ہر بندے سے ہونے ہیں۔ پانچواں

سوال یہ ہے: مَاذَا عَمِلَ فِیمَا عَلِمَ (جامع الترمذي: 2416)

کہ جو تونے کتاب و سنت کا علم حاصل کیا، تمھیں یہ نعمت ہم نے دی اور کتاب و سنت کے نور سے تمھارے باطن کو منور کیا، اس کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اپنے علم کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اب اگر عمل نہیں ہے تو پھر یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ لہٰذا عمل کا جذبہ، یہ طلب علم کی راہ میں انتہائی ضروری ہے۔ اور پھر یہ طلب علم اور عمل یہ دو چیزیں ایک اہم بنیاد پر قائم ہیں۔ اور وہ اخلاص ہے۔ اللہ کی رضا، یہ سارا عمل اللہ کے لیے خالص ہوگا۔ کوئی اس میں ریاکاری نہیں، کوئی منفی سوچ نہیں۔ طلب علم اس لیے نہیں کہ اس علم کے ذریعے دنیا کا مکتسب ہو، دنیا کا حصول ہو، دنیا کے عہدوں کا حصول ہو، ناموری ہو، شہرت ہو، پیسہ کمانا مقصود ہو۔ یہ طلب علم کی کوئی سوچ نہیں۔ کوئی نیت نہیں۔
عزیز طلبہ! چار نیتیں کرلو: 1 اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ 2 اس علم کے ذریعے اپنے آپ سے جہالت کو دور کریں۔ کیونکہ جہل ایک مرض ہے۔ جہل ایک بیماری ہے اور علم شفا ہے۔ جہالت کے اس مرض کو دور کرنا ہے۔ امام شافعیa کا شعر ہے کہ

ومن لم یذق ذل التعلم ساعۃ

تجرع کأس الجھل طول حیاتہ
جو گھڑی دو گھڑی روزانہ علم حاصل نہیں کرتا اور طلب علم کے لیے وقت نہیں نکالتا وہ ساری زندگی جہالت کے جام انڈیلتاہے۔(العلم للشیخ ناصر، ص: 17) جہالت کے جام انڈیلتا رہتا ہے اور یہ ایک مرض ہے۔ جو اس کی بیماری میں اضافہ کا موجب ہے۔ تو اپنے آپ سے جہل کو دور کریں۔ 3 تیسری نیت یہ ہے کہ اس سارے سلسلے پر عمل کرنا۔ عمل ساتھ ساتھ ہے۔ عمل علم سے متخلف نہیں ہے۔ تَعَلَّمْنَا الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِیعًا ہم نے علم اور عمل اکٹھا سیکھا ہے۔ اکٹھا حاصل کیا ہے۔(الصواعق المرسلہ: 182/1) یہ نہیں کہ علم آج لے لو، عمل کل کرلیں گے۔ عبداللہ بن مبارکa نے اپنے شیخ سے ایک دن کی چھٹی مانگی۔ چھٹی تو مل گئی مگر شیخ حیران تھے۔ یہ ایک ملازم شاگرد، ہمیشہ آنے والا اور تحصیل کا راغب اور انتہائی اعلیٰ ذوق اور شوق کا مالک ایک دن ناغہ کرکے آخر کہاں جانا چاہتا ہے؟ اگلے دن واپس آگئے، درس میں شریک ہے۔ شیخ نے پوچھا: آپ کہاں گئے تھے؟ عرض کیا کہ حدیث پڑھی تھی اس پر عمل کرنے گیا تھا۔ عمل نہیں کرسکا تھا۔ والد فوت ہوگئے اور ایک باغ ان کا ترکہ ہے۔ ان کی میراث تقسیم نہیں کرسکا تھا۔ نبیu کا فرمان ہے:اَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِاَھْلِھَا ’’ترکہ فوراً تقسیم کرو۔‘‘(صحیح البخاري: 6732)
ایک شخص کا انتقال ہوجائے، اس کی میراث فوراً تقسیم کردو۔ علم نہیں تھا تاخیر ہوگئی۔ چھٹی لے کر گیا اور وہ میراث تقسیم کرکے آگیا۔ امام احمد بن حنبلaنے حدیث پڑھی:اِحْتَجَمَ رَسُولُ اللّٰہِ وَاَعْطٰی اَبَا طَیْبَۃَ دِینَاراًکہ اللہ کے پیغمبر نے حجامہ کروایا اور حاجم، حجام ابو طیبہ کو ایک دینار دیا۔ حدیث پہلی بار پڑھی، فرمایا کہ جائو کسی حاجم کو لے کر آئو۔ حاجم آگیا، اس نے حجامہ کیا۔ آپ نے حجامہ کروایا اور اس کو ایک دینار اجرت دی کیونکہ اللہ کے پیغمبر کی سنت ہے۔ علم اور عمل دونوں ایک ساتھ ہیں۔ 4 چوتھی چیز یہ ہے کہ جیسے اپنے آپ سے بڑی شدومد کے ساتھ جہالت کو دور کیا، اسی طرح اپنے اس علم کے ذریعے لوگوں سے بھی جہالت کو دور کریں۔ اس علم کو اپنے تک محدود نہیں رکھیں۔ اور یہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے، مجھ جیسے طالب علم کے لیے اور ان عظیم طلبہ کے لیے جو آج فارغ التحصیل ہورہے ہیں، کہ اس علم کا نشر اس علم کے آداب میں سے ہے۔ جو طالبِ علم علم حاصل کرلیتا ہے مگر نشر علم کی راہ پر نہیں چلتا وہ اس علم کا خائن ہے۔ اس کی تکمیل ہم نہیں مانتے۔ نشر علم اس پورے منصب کی تکمیل ہے۔ علم حاصل کرلیا، علم حاصل کرکے اب ملازمت ڈھونڈرہاہےکوئی سرکاری نوکری مل جائے۔ سفارتخانے میں کوئی ترجمان کی نوکری مل جائے۔ یہ اس علم سے خیانت ہے۔ علم حاصل کرلیا، اسکول ٹیچری مل جائے۔ چلو کم ازکم یہ ایک سطحی تعلیمِ علم ہے، اصل تعلیمِ علم ان مدارس میں ہے مساجد کی امامت کے ساتھ۔ جو طالب علم فارغ ہوکر مسجد کا امام نہیں بنتا اور کسی دینی ادارے میں تدریس کی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ ان آدابِ علم کی تکمیل نہیں کررہا۔ بعض اوقات حالات کی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن اس علم کو آگے نشر کرنا، آگے پھیلانایہ ایک لازمی راستہ ہے۔

سیرتِ طیّبہ کا مسلسل تذکرہ قائد اور مبلّغ کے لیے بنیادی ہدایات

﴿يٰاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْوَالرُّجْزَفَاهْجُرْ وَلَاتَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ﴾ (المدثر:۱تا۷)

’’اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھیں، خبردار کریں اور اپنے رب کی بڑائی بیان کریں، اپنے کپڑے پاک رکھیں، گندگی سے دور رہیں، زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کریں اور اپنے رب کی خاطر صبرکریں۔‘‘
سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہونے کے بعد نبی اکرم eپر کچھ عرصہ تک وحی ناز ل نہ ہوئی۔ اس مدّت کے بارے میں محدثین اورمفسرین میں اختلاف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ پہلی وحی کے بعد ایک سال تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ لیکن ثقہ روایات سے ثابت ہے کہ سورۃ العلق کے نزول کے کچھ دن بعد سورۃ المدّثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بارے میں نبی کریمe کا ارشاد ہے:

وَعَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ یُحَدِّثُ عَــنْ فَــتْرَۃِ الْــوَحْیِ قَالَ فَــبَــیْــنَا اَنَا اَمْــشِیْ سَمِعْتُ صَوْتًا عَنِ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِیْ فَاِذَاالْمَلَکُ الَّذِیْ جَآءَ نِیْ بِحِرَاءَ قَاعِدٌ عَلٰی کُرْسِیٍّ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْہُ رُعْبًاحَتّٰی ھَوَیْتُ اِلَی الْاَرْضِ فَجِئْتُ اِلٰی اَھْلِیْ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْنِی فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی{يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَفَاهْجُرْ } ثُمَّ حَمِیَ الْوَحْیُ وَتَتَابَعَ (رواہ مسلم: باب بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَی رَسُولِ اللّہِﷺ)

’’سیدناجابرt بیان کرتے ہیں میں نے اللہ کے رسولe سے سنا، آپ وحی کے منقطع ہونے کے بارے فرما رہے تھے۔ فرمایا ایک مرتبہ میںچل رہا تھاکہ میں نے آسمان سے آواز سنی، نظر اٹھائی تو جو فرشتہ میرے پاس حراء میں آیا تھا، وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر جلوہ افروز تھا۔ مجھے اس سے اتنا خوف لاحق ہوا کہ میں خوف کے مارے زمین کے ساتھ لگا جا رہا تھا۔میں اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور انہیں کہاکہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔گھر والوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیات نازل فرمائیں۔ ’’اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑے ہو جاؤاور لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈراؤ اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھو اور ہر قسم کی کثافت سے بچے رہو اس کے بعد پے در پے وحی آنے لگی۔ ‘‘
اللہ ، اللہ کتنا دلرُبا اندازہے کہ الفاظ اور انداز سے یوں لگتا ہے جیسے ہم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہوں کہ ادھر ارشاد ہوا اور ادھر محبوب ﷺپروردگار اپنے بستر سے اُٹھ رہے ہوں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ چادر اوڑھنے والے ! اللہ کے راستے میں کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کو ان کے بُرے اعمال کے بُرے انجام سے ڈراؤ اور لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے آگاہ فرماؤ۔ اللہ کے رسول eحکم پاتے ہی اللہ کے راستے میں کھڑے ہوئے اورتیئس سال تک اس کام اور پیغام کے لیے کھڑے رہے۔ نہ پہلے کی طرح کاروبار کی طرف توجہ فرمائی اورنہ ہی اپنے آرام کا خیال رکھا۔ رات کی تاریکیوں میںبھی یہ فکر دامن گیر رہی اوردن بھی اسی کام میں گزرے۔ اس قدر محنت اور مشقت سے کام کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار ارشاد فرمایا:

﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا ﴾ (الکھف:6)

’’شاید آپ خود کو اس فکر میں ہلاک کرنے والے ہیں ، کہ وہ اس بات پر ایمان نہیں لا رہے۔ ‘‘

﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ﴾
(الشعراء:3)

’’اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو کیا آپ ان کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ؟‘‘

﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ﴾ (الانشراح:۱تا۳)

’’اے نبی کیا ہم نے آپ کا سینہ آپ کے لیے کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا جو آپ کی کمر توڑے جا رہا تھا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی کیفیت کو حضرت عائشہ ؅ نے یوں بیان فرمایا:

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: هَلْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي وَهُوَ قَاعِدٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، بَعْدَ مَا حَطَمَهُ النَّاسُ(مسلم: باب فی جواز النافلۃ قائما و قاعدا)

سیدنا عبداللہ بن شقیق  بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ r سے پوچھا کہ کیا اللہ کے نبی کریمe بیٹھ کر بھی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے جب لوگوں نے آپ کو تھکا دیا تھا۔
المدّثر کی ابتدائی آیات میں آپeکو جو بنیادی ہدایات دی گئیں یہ ہر مبلغ اورراہنما کے لیے ضروری ہیں:

1 قُمْ فَاَنْذِرْ

’’اٹھیں، خبردار کریں ‘‘
راہنما اورمبلغ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو ہر قسم کے خطرات سے آگاہ کرے اور اُسے بچانے کی کوشش کرے،بالخصوص لوگوں کو آخر ت کے بارے میں متنبہ کرتا رہے کیونکہ فکر ِ آخرت کی بنیاد پر ہی انسان اپنے افکار اورکردار کو ٹھیک کر سکتا ہے، جوشخص آخرت کی جواب دہی سے لاپرواہ ہوجائے اس کا درست ہونا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے نبی ﷺ اور تمام انبیاء کرام کی تشریف آوری کا مقصد یہی تھا۔

﴿يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا﴾

’’اے نبی! بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے، بشارت دینے اور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (الاحزاب : ۴۵)

﴿وَ مَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾

’’اے نبی ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے بشیراورنذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (السبا: 28)

﴿ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لَا تُسْـَٔلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِيْمِ﴾ (البقرۃ:119)

’’ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کیا ہے اور آپ سے جہنّمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔‘‘
غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کرام کی پوری تعلیم اور تبلیغ کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کو خوشخبری سُنائی جائے اور بُروں کو ان کے انجام سے ڈرایا جائے۔

عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ النَّبِیُّﷺ مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْئًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ… فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ (رواہ البخاری: باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم)

’’سیدناعدی بن حاتم tبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اللہ کلام کریں گے ، اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا ، اللہ تعالیٰ دیکھے گا بندے نے کیا عمل کیے ہیں ، بندہ دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہی آگ ہوگی۔ تم میں جو استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچے، چاہے اسے کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنا پڑے جو یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔‘‘

یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتُمْ (رواہ مسلم: باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین)

’’ا ے محمدکی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اوراے عبدالمطلب کی اولاد۔ میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔‘‘

2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

’’اپنے رب کی بڑائی بیان کریں۔‘‘
جس بات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اورڈرانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہے اگر انسان کو اپنے رب کی بڑائی اور کبریائی کا احساس ہوجائے تو وہ جان بوجھ کر اس کی نافرمانی نہ کرے۔ انسان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ وہ اُسے جب چاہے، جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے پکڑ سکتا ہے۔اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے تصور سے انسان میں بیک وقت کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تصور رکھنے والے کے دل میں تکبر کی بجائے عاجزی پیدا ہوتی ہے وہ اپنوں کے سامنے عاجز اور متواضع ہوتاہے اوراسلام کے دشمنوں کے سامنے شیر کی طرح دلیر اور پہاڑ کی مانند مضبوط ہوتاہے۔ وہ ربِ ذوالجلال کے سوا کسی کو سُپر پاور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے رب کے حکم کے سامنے سرفکندہ رہتا ہے۔ جس مبلغ کا ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کبریاء نہیں تو وہ دین بالخصوص اللہ کی توحید کا پرچار کرتے ہوئے کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے المدثر میں آپeکو ارشاد ہوا کہ اپنے رب کی کبریائی بیان کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کا اوّلین مقصد یہ ہے کہ مبلغ دلائل سے ثابت کرے کہ ’’اللہ تعالیٰ‘‘ کے سوا کوئی خالق، مالک، رازق اور معبود برحق نہیں، وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور اسی کے لیے آپeکو حکم ہوا کہ لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈرائیں۔
اللہ تعالیٰ کے کبریا ہونے کے عقیدے کی تقویت کے لیے اذان،اقامت، پانچ وقت کی نماز اور اس کے بعد عیدین، عیدگاہ کی طرف آنے، جانے کے وقت ،چڑھائی چڑھتے ہوئے ، جانور ذبح کرتے ہوئے، یہاں تک کہ جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے اورحجرِ اسود کا بوسہ لیتے ہوئے بھی اللہ اکبر کہنے کا حکم ہے تاکہ مسلمان ’’اللہ ‘‘ کے سوا کسی کو سُپر پاور نہ سمجھے۔ مسلمان جب تک اللہ تعالیٰ کی کبریائی مانتے رہے اُس وقت تک سر بلند رہے اور جب سے مسلمانوں نے اسے کبریا ماننا چھوڑ دیا اسی وقت سے ذلیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ تھا:

﴿وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ﴾ (الجاثیہ:37)

’’زمین و آسمانوں میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔‘‘

﴿وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِيْرًا ﴾ (الاسراء: 111)

’’اورفرما دیجیے تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہو جانے کی وجہ سے کوئی اس کا حمایتی ہے اور اس کی خوب بڑائی بیان کرتے رہو۔ ‘‘

3 وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ :

اپنے لباس کو صاف اوراُجلا رکھیں۔
دعوت دینے والے کی دعوت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ صاف ستھرا نہیں رہتا تو لوگ اس کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے نفرت کرتے ہیں اس لیے نبوت کے ابتدائی دور میں آپ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے لباس کو پاک صاف رکھیں۔
یادرہے کہ اس زمانے میں لوگ اس شخص کو پارسا سمجھتے تھے جو دنیا کے امور سے الگ تھلگ رہتااور صاف ستھرا لباس پہننے سے پرہیز کرتاتھا۔اسلام ترکِ دنیا اورگندہ رہنے کو انتہائی نا پسند سمجھتا ہے، بے شک دین میں سادگی کو بڑی اہمیّت حاصل ہے لیکن انسان کا پاک اورصاف ستھرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ پاک صاف رہنے سے آدمی نا صرف دیکھنے میں معزز اور شائستہ نظر آتا ہے بلکہ اس کی طبیعت میں بھی خوشی اور مستعدی پیدا ہوتی ہے۔

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللهِ ﷺ زَائِرًا فِي مَنْزِلِنَا، فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا، فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ رَأْسَهُ وَرَأَى رَجُلًا عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يَغْسِلُ بِهِ ثِيَابَهُ “

سیدنا جابر بن عبداللہ  بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول ہمارے ہاں تشریف لائے ۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ آپ نے فرمایا ” کیا اسے کوئی چیز نہیں ملتی کہ اس سے اپنے بالوں کو سنوار لے؟‘‘ آپ نے ایک اور آدمی کو دیکھا جس کے کپڑے میلے کچیلے تھے اُسے فرمایا ” کیا تمہیں ایسی چیز میسر نہیں کہ اس سے اپنے کپڑے دھو لے ؟ “(سنن ابی داؤد: باب فی غسل الثوب و فی الخلقان)

عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللّهُ مِنَ الإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ، قَالَ:فَإِذَا آتَاكَ اللّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللّهِ عَلَيْكَ، وَكَرَامَتِهِ (سنن ابی داؤد: باب فی غسل الثوب و فی الخلقان)

سیدنا ابوالاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ۔ آپ نے فرمایا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا: اللہ نے مجھے اونٹ ‘ بکریاں ‘ گھوڑے‘ غلام اور ہر طرح کا مال دے رکھا ہے ۔ آپ نے فرمایا: جب اللہ نے تجھے مال دیا ہے تو اس کے انعام اور احسان کا اثر تجھ پر دکھائی بھی دینا چاہیئے ۔ “
4 وَالرُّجْزَفَاهْجُرْ
’’ گندگی سے دور رہیں۔‘‘
جس طرح لباس پاک صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح حکم ہے کہ انسان کو ہر قسم کی جسمانی اور اخلاقی غلاظت سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ایک آدمی لباس کے اعتبار سے کتنا ہی صاف ستھر ا رہتاہو اگر وہ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے گندہ ہے تو وہ کسی اچھے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، سب سے بڑی گندگی اعتقادکی گندگی ہے جس کا نام شرک ہے۔ اس لیے کچھ اہلِ علم نے ’’الرُّجْزَ‘‘ سے مراد شرک لیاہے کیونکہ قرآن مجید نے ایک مقام پر مشرک کو کھلے لفظوں میں گندہ قرار دیا ہے۔

﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ (الحج: 30)

’’پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔ ‘‘

﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا﴾ (التوبۃ: 28)

’’اے لوگوجوایمان لائے ہو! حقیقت یہ ہے کہ مشرک ناپاک ہیں، پس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں‘‘

5 وَلَاتَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ:

’’زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہ کریں۔‘‘
ایک مسلمان کی دوسرے کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی توحید سمجھائے اور صراطِ مستقیم کی دعوت دے۔ صراطِ مستقیم کی طرف لانے والا شخص حقیقت میں دوسرے کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ نبیu رحمتِ عالم بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے مکہ والوں کی اصلاح کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ آپe اہلِ مکہ اور انسانیت کے عظیم محسن تھے مگر مکہ والوں نے آپ کے احسان کا بُرا بدلا دیا جس پر رنجید ہ خاطر ہونا اور آپ کے دل میںاس سوچ کا آنا فطری بات تھی کہ میں ان کی خیرخواہی کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔ اس سوچ کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے آپ کو ابتدا میں ہی یہ بات سمجھا دی گئی کہ آپ نے تبلیغ یاکسی کے ساتھ نیکی اس لیے نہیں کرنی کہ وہ آپ کو اس کے بدلے میں کچھ دے اور نہ ہی اپنے کام کا کسی پر احسان جتلانا ہے۔

﴿وَ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾

’’میں اس کام پر تم سے کسی اجرکاطالب نہیں ہوں ۔ میراصلہ رب العالمین کے ذمّہ ہے۔‘‘ (الشعراء:۱۰۹)

﴿قُلْ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ﴾ (ص: 86)

’’ میں اپنے کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔ ‘‘

﴿ قُلْ مَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا﴾ (الفرقان: 57)

’’ان سے فرما دیں کہ میں اس کام پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا میرا صلہ یہی ہے کہ جس کاجی چاہے وہ اپنے رب کاراستہ اختیار کر لے۔‘‘

6 وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ:

’’ اپنے رب کی خاطر صبرکریں۔‘‘
نبی کریم ﷺ کو جس معاشرے اورقوم میں مبعوث کیا گیا وہ معاشرہ اور قوم ہر اعتبار سے گمراہی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔لوگ شرک کواللہ تعالیٰ کی قربت کاذریعہ سمجھتے اور اپنی گمراہی کودینِ ابراہیم کا نام دیتے تھے۔ ایسے معاشرے میں توحید کی دعوت دینا اورلوگوں کو گمراہی سے نکالنا، اپنے آپ کو دکھوں میں ڈالنا تھا۔ اس لیے آپ کو صبر کی تلقین کی گئی۔آپ  کو یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جس راستے پر آپ کو گامزن کیا گیا ہے یہ مصائب کا راستہ ہے۔ مصائب برداشت کرنے کے لیے آپ کو ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ جس طرح پہلے انبیاء صبر و حوصلہ سے کام لیتے رہے۔

﴿ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُوْنَ لَمْ يَلْبَثُوْا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ﴾

’’اے نبی صبر کرو جس طرح اُولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں معلوم ہو گا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔ ‘‘ (الاحقاف:35)

﴿وَاصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ لَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ﴾

’’اور صبرکیجیے آپ کا صبر تو اللہ کے لیے ہے اور نہ ان پر غم کرو اور نہ کسی تنگی میں مبتلا ہو جاؤ ، اس سے کہ جو وہ سازشیں کرتے ہیں۔‘‘ (النحل: 127)

﴿فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ ﴾ (الروم:60)

’’پس اے نبی صبر کرو یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں کرتے وہ آپ کو ہلکا نہ کر دیں۔ ‘‘

﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ وَ اهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل:10)

’’ اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ۔‘‘

﴿ اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَ اِلَى السَّمَآءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَ اِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَ اِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ فَذَكِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ﴾

’’کیا یہ لوگ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ اسے کس طرح تخلیق کیا گیا ہے۔ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے بلند کیا گیا ہے؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے نصب کیا گیا ہے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح بچھائی گئی ہے؟‘‘ اے نبی! نصیحت کرتے رہیں آپ نصیحت کرنے والے ہیں۔ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ‘‘(الغاشیہ: ۷۱ تا ۲۲)
اونٹ کی خِلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک داعی کا حوصلہ اونٹ کی طرح ہونا چاہیے جو بھوک،پیاس اورمشقت برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ داعی کی سوچ اور عزم آسمان کی طرح بلند ہونی چاہیے اور اُسے دنیا کے نفع و نقصان سے بالاتر ہوکر دینِ حنیف کی خدمت اور لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے لگے رہنا چاہیے۔ زمین کا ذکر فرماکر بتلایا ہے کہ داعی میں زمین کی مانند حوصلہ اوروسعت ہونی چاہیے۔ جس داعی میں اونٹ کا حوصلہ ،سوچ اور عزم میں آسمان کی بلندی اور زمین جیسی وسعت اور ظرف پایا جائے گا یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگر بظاہر اپنی دعوت میں کامیاب نہ ہوپائے تو تب بھی وہ زمین و آسمان کی وسعتوں سے زیادہ اجر پائے گا۔ جہاں تک مخالفت کرنے والوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ ’’اللہ‘‘ کے حوالے کرنا چاہیے، وہی ان سے حساب لینے والا اور ان کو سزا دینے والاہے۔ نبی اکرمﷺ نے اس حکم پر کس طرح عمل کیا اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں بالخصوص خطیب حضرات اور دین کا کام کرنے والے ورکر غور فرمائیں:
’’سیدہ عائشہr کے بھانجے عروہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ ؅ نے رسول اللہ eسے عرض کیا،کیا آپ پر اُحد سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے ، آپﷺ نے فرمایا: ہاں ۔ جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبدکلال کو دعوت دی۔ اس نے میری اُمید کے خلاف ردّ عمل دیا۔ میں انتہائی افسردہ ہو کر واپس پلٹا ۔ میرا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا اور میں قرن ثعا لب کے قریب تھا میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل کو سایہ کیے ہوئے پایا۔ دیکھاتو اس میں جبرائیلu تھے۔ اس نے مجھے آواز دی اور کہا آپ کی قوم نے جو جواب دیا اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے۔ آپ اسے جو حکم دینا چاہتے ہیں دے دیں۔مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی۔ اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمدe! آپ ان کے متعلق جوحکم دینا چاہیں دیں اگر آپ چاہتے ہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیتاہوں ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللہَ وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا (رواہ البخاری باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء)

نبی کریم منے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک سے بچنے والے ہوں گے۔‘‘

فتاوی: آپ کے مسائل کا حل قرآن وسنت سے

سوال : ناخن بڑھانے کا شرعی حکم کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ کتنی مدت تک چھوڑے جاسکتے ہیں؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیوان سے کئی اعتبار سے برتری دی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے حواس خمسہ اور عقل سے نوازا ہے اور ہاتھ کی نعمت عطا فرمائی ہے جس سے انسان اپنی صفائی کا اہتمام کرتا ہے ناپسند چیزوں کو اپنے بدن سے زائل کرتا ہے۔ ناخن بڑھانے کا آج کل جو فیشن رائج ہے یہ ایک غیر فطری ہونے کے ساتھ غیر شرعی بھی ہے
ایک مسلمان کیلئے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبی داؤد ، کتاب اللباس باب في لبس الشهرة ، الحدیث:4031)

’’ جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘
ناخن بڑھانا خلاف سنت ہے فرمان نبوی ﷺ ہے :

الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ (صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5891)

’’فطری اعمال پانچ ہیں : ختنہ کرنا ، زیر ناف بالوں کیلئے استرا استعمال کرنا، مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنااوربغلوں کے بال نوچنا ۔‘‘
اور کسی صورت یہ جائز نہیں کہ انہیں چالیس دن سے زیادہ چھوڑا جائے کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے کہ

وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ ، باب خصال الفطرة ، الحدیث : 258)

’’ مونچھیں کتروانے، ناخن تراشنے،بغلوں کے بال نوچنے اور زیر ناف (بالوں)کی صفائی کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہم انہیں چالیس رات سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘
نیز ان کے لمبا کرنے اور بڑھانے میں بعض حیوانات کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے بلکہ کافروں کے ساتھ بھی۔
مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوا کہ ناخن بڑھاناخلاف فطرت وخلاف شرع عمل ہے اور ناخن کو چالیس دن سے زیادہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب
سوال : انسان کے جسم پر زائدبال کا ازالہ کرنا یا تراشنا شرعیت کی رو سے کیسا ہے ؟
جواب : شرعی اعتبار سے جسم پر جو بال ہیں وہ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کے تراشنے ،کاٹنے یا زائل کرنے کا شرعیت نے حکم دیا ہے ۔
جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ(صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5891)

’’فطری اعمال پانچ ہیں : ختنہ کرنا ، زیر ناف بالوں کیلئے استرا استعمال کرنا، مونچھیں کتروانا، ناخن کاٹنااوربغلوں کے بال نوچنا ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرنا اور مونچھ کے بال چھوٹے کرنا فطری وشرعی عمل ہے اور ان کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیسدن ہیں جیسا کہ پہلے سوال میں ذکر کیا گیا ہے ۔
بالوں کی دوسری قسم جن کے کاٹنے یا تراشنے سے شریعت نے منع کیا جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
(صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب تقلیم الاظفار ، الحدیث : 5892)

’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیںکترواؤ۔‘‘
یعنی داڑھی کے بال صاف کرنا شرعاً منع ہے۔
بالوں کی تیسری قسم وہ ہے جس سے شریعت خاموش ہے جیسا کہ ہاتھ،پاؤںیا سینہ وغیرہ کے بال۔ ان کو تراشنا ممنوع ہے اور یہ تغیر خلق اللہ کے زمرہ میں آتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شیطان کہتا ہے ۔

وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ ( النساء : 119)

’’ اور میں انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خلقت کو تبدیل کریں گے۔‘‘
تراشنا یا کاٹنا اس لیے بھی ممنوع ہے کہ تراشنے یا کاٹنے سےبال زیادہ مضبوط ہوکر نکلتے ہیں جو کہ زیادہ بدنما ہوجاتے ہیں لیکن اگر یہ بال بہت زیادہ ہیں جس سے تکلیف ہوتی ہے تو شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ کم کرنے میں کوئی حرج نہیں اگر ایک حد تک ہو بالکل صاف کرنےکو انہوں نے ناجائز قرار دیا ہے ۔اگر بال نارمل ہوں تو ان کو ختم کرناناجائز ہے تو معلوم ہوا کہ نارمل بالوں کو تراشنا ناجائز اور ممکن ہے کہ یہ بھی تغیر خلق اللہ کے زمرہ میں آجائیںلہٰذا افضل فعل یہی ہے کہ اس سے بھی بچا جائےاور اگربال انسان کے غیر محل جگہ پر ہوں تو اس صورت میں ان بالوں کو زائل کیا جاسکتاہے مثلاً کسی مرد کی ناک پر بال اُگ آئے ہوں یا کسی عورت کی داڑھی کے بال نکل آئے ہوں تو ان بالوں کو زائل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری ۔ قیامت کی نشانیاں ۔ قسط11

بَاب رَفْعِ الْعِلْمِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ وَقَالَ رَبِيعَةُ لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ عِنْدَهُ شَيْءٌ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يُضَيِّعَ نَفْسَهُ

علم اٹھ جانے اور جہل ظاہر ہونے کا بیان اور ربیعہ نے کہا کہ جس کے پاس کچھ علم ہو اس کو یہ زیبا نہیں ہے کہ اپنے آپ کو ( کسی دوسرے کام میں مشغول کر کے) ضائع کر دے۔

11-80- حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا .

عمر ان بن میسرہ، عبدالوارث، ابوالتیاح ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کی علامتوں میں ایک یہ علامت بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہل قائم ہوجائے گا اور شراب نوشی ہونے لگے گی اور زنا اعلانیہ ہونے لگے گا۔
Anas: Allah’s Apostle said “From among the portents of the Hour are (the following):1.Religious knowledge will be taken away (by the death of Religious learned men) 2. (Religious) ignorance will prevail 3. Drinking of Alcoholic drinks (will be very common) 4. There will be prevalence of open illegal sexual intercourse.

وروى بسند آخرحدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الْحَوْضِيُّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَا يُحَدِّثُكُمْ بِهِ أَحَدٌ غَيْرِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ وَيَكْثُرَ الزِّنَا وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً الْقَيِّمُ الْوَاحِدُ (رقمه:5231)
وروى بسند آخرحدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ(رقمه 5577)
وروى بسند آخر حدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ أَخْبَرَنَا أَنَسٌ قَالَ لَأُحَدِّثَنَّكُمْ حَدِيثًا لَا يُحَدِّثُكُمُوهُ أَحَدٌ بَعْدِي سَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (رقمه:6808)

معانی الکلمات :
أَشْرَاطِ : جمع شرط ، مراد علامت ، نشانی
السَّاعَةِ : قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ، مراد قیامت
يُرْفَعَ الْعِلْمُ :علم اٹھا لیا جائے گا ۔
يَثْبُتَ : ظاہر ہوگا / عام ہوگا
تراجم الرواۃ :
1۔نام ونسب : عمران بن میسرۃ المنقری البصری الأدمی کنیت : ابو الحسن
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ کےہاں ثقہ، امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام دارقطنی رحمہ اللہ سے عمران بن میسرہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ثقہ ہیں ۔
وفات : امام ابوالحسن 223ہجری میںوفات پائی۔
2۔ نام ونسب : عبد الوارث بن سعید بن ذکوان التیمی البصری العنبری المقری
کنیت: ابو عبیدہ التنوری البصری
محدثین کےہاں رتبہ : صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں ، امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے ، اہل قدر میں سے ہونے کا الزام لگا مگر ثابت نہ ہوسکا۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں حافظ،ثبت ،صالح لیکن قدری۔
وفات : ابو عبیدہ نے یکم محرم الحرام 180ہجری وفات پائی۔
3۔ نام ونسب : یزید بن حمید الضبعی البصری
کنیت : ابو التیاح
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے ، امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ عابد تھے ۔
وفات : امام ابو التیاح رحمہ اللہ نے 128 ہجری میں وفات پائی۔
4۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارف حدیث نمبر 1پر ملاحظہ فرمائیں ۔
تشریح :
علامات قیامت سے مراد قیامت کی وہ نشانیاں ہیں جن کا ظہور قیامت سے قبل ہوگاانہیں علامات کبری وصغری میں تقیم کیا جاتاہے علامات کبریٰ مثلاً امام مہدی کاظہور، سیدناعیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا، یاجوج ماجوج کا نکلنا اور اﷲ کے غضب سے ہلاک ہو جانا، سورج کا مغرب سے نکلنا، آگ کا ظاہر ہونا وغیرہ یہ سب علامات ہیں۔ اس طرح جب قیامت کی تمام نشانیاں ظاہر ہوں گی پھر حکم الٰہی سے اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے جس سے سب کچھ فنا ہو جائے گا۔ پھر جب اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوگا دوبارہ صور پھونکا جائے گا، جس سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے۔
سیدناحذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم پر آفتاب نبوت طلوع ہوا، اس وقت ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے، نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ تم لوگ کس موضوع پر مذاکرہ کر رہے ہو؟ لوگوں نے عرض کیا ہم لوگ قیامت کا تذکرہ کر رہے ہیں، نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو، پھر نبی اکرم ﷺ نے دھوئیں، دجال ، دابة الارض، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے ، سیدناعیسی علیہ السلام کے نزول، یاجوج و ماجوج اور تین مرتبہ زمین میں دھنسنے کے واقعات پیش آنے کا تذکرہ فرمایا، ان میں سے ایک واقعہ مشرق میں پیش آئے گا، ایک مغرب میں اور ایک جزیرہ عرب میں ، اور سب سے آخر میں وہ ایک آگ ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان کے جمع ہونے کی جگہ کی طرف دھکیل دے گی۔(صحیح مسلم، كتاب الفتن وأشراط الساعة ، باب في الآيات التي تكون قبل الساعة ، الحدیث:2901)
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے قیامت کی دس بڑی علامتیں بیان فرمائی ہیں لیکن یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نبی كکریمﷺ کا مقصد صرف ان علامات کو بیان کرنا ہے، ان علامات میں ترتیب زمانی کا خیال رکھنا مقصود نہیں ہے، اور نہ ہی یہ علامات زمانی ترتیب کے مطابق ہیں، بلکہ ان میں سے کچھ علامات وہ ہوں گی جو پہلے ظاہر ہوں گی اور کچھ علامات ان کے بعد ظاہر ہوں گی ۔
قیامت کی علامات صغریٰ میں سے سب سے پہلی علامت سید الاولین والآخرین محمد رسول اﷲ ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اور آپ کی وفات ہے ‘پچھلی آسمانی کتابوں میں آپ ﷺکا لقب ”نبی الساعۃ“ لکھا ہے ۔ جس کا معنی ہے: ” قیامت کا نبی “یعنی آپ وہ آخری نبی ہوں گے کہ جن کی امت پر قیامت قائم ہو گی ۔
علامات صغریٰ میں سے ایک علامت یہ بھی ہے قربِ قیامت میں علماء حق کی پے درپے وفات ہو گی۔ سیدنا عبداﷲبن عمروt کی روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: بے شک اﷲتعالیٰ اس طرح علم نہ اٹھائے گا کہ اسے بندوں سے کھینچ لے، بلکہ علماء کو اٹھا کر اسے اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب (زمین پر) کسی عالم کو باقی نہ چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے جن سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دیں گے تو خود گم راہ ہوں گے اوردوسروں کو بھی گم راہ کریں گے۔ (متفق علیہ)
اولاد نافرمان ہو جائے گی ‘بیٹیاں تک ماں کی نافرمانی کرنے لگیں گی ‘ دوست کو اپنا اور باپ کو پرایا سمجھا جانے لگے گا۔
علم اٹھ جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی ‘دین کا علم لوگ دنیا کمانے کیلئے حاصل کرنے لگیں گے۔
نااہل لوگ امیر اور حاکم بن جائیں گے ‘اور ہر قسم کے معاملات ‘عہدے اور مناصب نااہلوں کے سپرد ہو جائیں گے۔جوجس کام کا اہل اور لائق نہ ہوگا وہ کام اس کے سپرد ہو جائے گا۔
لوگ ظالموں اور برے لوگوں کی تعظیم اس وجہ سے کرنے لگیں گے کہ یہ ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں۔
شراب کھلم کھلا پی جانے لگے گی‘ زنا کاری اور بد کاری عام ہو جائےگی۔
علانیہ طور پر ناچنے اور گانے والی عورتیں عام ہو جائیں گی،گانے بجانے کا سامان اور آلات موسیقی بھی عام ہو جائیں گے۔
لوگ امت کے پہلے بزرگوں کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔
جھوٹ عام پھیل جا ئے گا اور جھو ٹ بو لنا کمال سمجھا جانے لگے گا۔
امیر اور حاکم ملک کی دو لت کو ذا تی ملکیت سمجھنے لگیں گے۔
اما نت میں خیا نت شرو ع ہو جا ئے گی ‘اما نت کے طو ر پر رکھوائی جا نے والی چیزوں کو لوگ ذاتی دو لت سمجھنے لگیں گے۔نیک لو گو ں کی بجا ئے رزیل اور غلط کار قسم کے لوگ اپنے اپنے قبیلے اور علا قے کے سردا ر بن جا ئینگے،شرم و حیا بالکل ختم ہو جا ئے گا۔ظلم و ستم عا م ہو جا ئے گا۔
ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ کی طرف چلا جائے گا جیسے سانپ سکڑ کر اپنی بل کی طرف چلا جا تا ہے۔
ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ دین پر قائم رہنے والے کی وہ حالت ہوگی جو ہاتھ میں انگارہ پکڑ نے والے کی ہو تی ہے۔زکوٰۃ کو لوگ تاوا ن سمجھنے لگیں گے‘ مال غنیمت کو اپنا مال سمجھا جانے لگے گا۔ماں کی نافر مانی اور بیوی کی فرماں برداری شروع ہو جائے گی۔عورتیں زیادہ اور مرد کم ہو جائیں گے‘ یہاں تک کہ ایک مرد پچاس عورتوں کا نگران ہو گا۔
قیامت سے پہلے رسول اکرم ﷺکی امت میں سے تیس بڑے بڑے کذاب اور دجال آئیں گے‘ ہر ایک نبوت کا دعویٰ کرے گا‘ حا لانکہ نبی اکرم ﷺآخری نبی ہیں‘ آپ ﷺکے بعد کو ئی نبی نہیں۔
عرا ق کا مشہو ر دریا فرات سونے کا ایک پہاڑ یا سونے کا ایک خزانہ ظاہر کرے گا‘ جس پر لو گ لڑ ینگے‘ چنانچہ اس لڑائی میں ہر سو میں سے ننانوے قتل ہو جائینگے۔
جب یہ علا متیں ظاہر ہوجائیں گی تو سخت قسم کا عذاب شروع ہوگا‘ اس میں سرخ آندھیاں آئیں گی‘ آسما ن سے پتھر برسیں گے‘ کچھ لوگ زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے‘ لوگو ں کی شکلیں مسخ ہو جائیں گی‘ پھر پے در پے کئی نشانیاں ایسے ظاہر ہوں گی جیسے ہار کا دھاگہ ٹوٹنے پر مسلسل دانے گرنے لگتے ہیں۔

عَنْ أَنَسِ قال لَأُحَدِّثَنَّکُمْ حَدِیثًا لَا یُحَدِّثُکُمْ أَحَدٌ بَعْدِی سمعت رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ یقول من أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ یَقِلَّ الْعِلْمُ وَیَظْهَرَ الْجَهْلُ وَیَظْهَرَ الزِّنَا وَتَکْثُرَ النِّسَاءُ وَیَقِلَّ الرِّجَالُ حتی یَکُونَ لِخَمْسِینَ امْرَأَةً الْقَیِّمُ الْوَاحِدُ۔(بخاری، رقم ۸۱)

’’ سیدناانس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جو میرے بعد کوئی بھی نہ کرے گا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم کم ہو جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، زنا عام ہو جائے گا، عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی اور مرد کم ہو جائیں گے، یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا نگران ایک ہی مرد ہو گا۔‘‘

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط 16

اٹھائیسواں اصول:

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ(الاعراف:۸۵)

’’اورلوگوں کو اُن کی چیزیں کم کرکے مت دو۔‘‘
اس قرآنی اصول کاتعلق لوگوں کے حالات کے ساتھ ہے‘معاملات کے باب میں ہے‘ نیز اس اصول کاتعلق لوگوں کے مقام یا اُن کے کاموںکی درجہ بندی کے ساتھ ہے جن کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
قرآنِ حکیم میں یہ اصول تین دفعہ بیان ہوا ہے اور ہربارسیدنا شعیب علیہ وعلیٰ نبینا الصلاۃ والسلام کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جن باتوں کی سیدنا شعیب uنے اپنی قوم کو نصیحت کی تھی اُن میں سے ایک مسئلہ ماپ تول میں کمی کرنے کا تھا‘ اس لیے کہ یہ بیماری اس قوم میں بہت عام تھی اور وہ بری طرح اِس کا شکار تھے۔
جب تم اِس اصول پر غور کرو گے:

وَلَا تَـبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ(الاعراف:۸۵)’

’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو‘‘تو تمہیں معلوم ہو گا کہ پہلے ماپ تول میں کمی سے منع کیا گیا اور پھر یہ عمومی حکم آیا۔ گویا عموم کے بعد خصوص بیان ہوا ہے‘ تاکہ یہ حکم ہر قسم کی کمی کو شامل ہو جائے اور کوئی چھوٹا بڑا جزوباقی رہ نہ جائے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اس اصول کا مفہوم دور تک جاتا ہے اور بالخصوص جو حکم اس میں داخل ہوتا ہے وہ ہے مالی حقوق میں کمی کرنے کا معاملہ‘ چنانچہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے‘ تاکہ ہر ظاہری ومعنوی حق کو شامل ہوجائے جو کسی بھی انسان کے لیے ثابت ہوتا ہو۔ ظاہری حقوق بہت زیادہ ہیں‘ ان میں سے کچھ کی تفصیل گزر چکی ہے۔ انسان کے لیے ثابت شدہ حق میں شامل ہے: گھر، زمین، کتاب اور تعلیمی اَسناد وغیرہ۔ البتہ معنوی حقوق بہت ہی زیادہ ہیں جن کو شمارکرنا بھی مشکل ہے‘ لیکن یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ قرآنی اصول جس طرح معاملات کے حوالے سے ایک اصول ہے اسی طرح یہ اپنے عموم وشمول کے اعتبار سے دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے میں بھی ایک اصول ہے۔
انصاف کے اصول اپنانے اور لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرنے (کی ہدایات) سے قرآن حکیم بھرا ہوا ہے۔ مثلاًاللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کر لو :

وَلاَ یَجْرِمَنَّـکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّـقْوٰی (المائدۃ:۸)

’’کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل سے منحرف ہوجاؤ۔ عدل کیا کرو یہی پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
ذرا سوچو! تمہارا رب تمہیں حکم دے رہا ہے کہ اپنے دشمن کے ساتھ انصاف کرو اور تمہاری دشمنی تمہیں اُس کی حق تلفی پر نہ اُکسائے۔ پھر تم یہ کیسے گمان کر سکتے ہو کہ جو دین تمہیں دشمن کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دے ‘کیا وہ تمہیں اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم نہیں دے گا ؟
ادھر مسلمانوں کے حالات دیکھنے سے سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کس قدر کوتاہی کرتے ہیں‘ یا سرے سے انکارکردیاجاتا ہے او ر اس
طرح انصاف کا قتل ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں
کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے دور دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے حالات کا ذرا جائزہ لیں تو بڑے ہی تکلیف دہ واقعات سامنے آ تے ہیںــ۔ کوئی آدمی اپنے کسی دوست سے یا کسی دوسرے مہربان سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اِدھر ناراضگی ہوئی اُ دھرا س نے اُ سے زمین پر دے مارا اور اُس کی ساری خوبیوں اوراحسانات کو بھول گیا۔ جب اُس کے بارے میں گفتگو ہو تو ایسی بات کرتا ہے جو شدید ترین دشمن کے بارے میں بھی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے برے اخلاق سے محفوظ رکھے۔
اور کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوتا ہے جب ہم علماء یا واعظین کی غلطی کے بارے میںگفتگو کرتے ہیں‘ جن کے بارے میں ہم سب کو علم بھی ہے کہ یہ حضرات بھلائی کے طلبگار ہیں اور حق تک پہنچنے کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ایک دو بار ان سے کسی وجہ سے غلطی ہو گئی تو کچھ لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ اس عالم کی ساری محنت‘ کوشش‘ مشکلات پر صبر‘ جہاد اور اسلام ومسلمانوں کی خدمات سب کچھ بھلادیتے ہیں بلکہ اُسے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عالم کے خلاف زبان کھولنے والایاتنقید کرنے والاصبر نہیں کر سکا‘ حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ عالم اُس غلطی میں معذور ہو۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ وہ عالم غلطی کرنے میں معذورنہیں تھا (اس نے جان بوجھ کر غلطی کی ہے) ‘پھر بھی بات کرنےکا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے اور نہ ہی قرآن ہمیں اس طرح کی تر بیت دیتا ہے۔ جس اصولِ قرآن پر ہم گفتگو کر رہے ہیں وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بات انصاف کے ساتھ کی جائے اور لوگوں کے حقوق میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
ایک اور مثال کو بھی سامنے رکھیں جو تقریباً روزانہ پیش آتی رہتی ہے اور اس میں بھی انصاف نہیں ہوتا۔ جب کچھ کالم نگار یا تبصرہ نگار سرکاری ادارے یا کسی وزارت کے ذمہ دار افسر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اُس میں بے انصافی کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور اُس ادارے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لکھنے والا یا گفتگو کرنے والا اپنے خاص نفسیاتی ماحول میں بات کرتا ہے۔ و ہ بس غلطیوں کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے اور اُس ادا رے یا متعلقہ افسر کی خوبیوں یا خدمات کو بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم اپنے ماننے والوں کی اس طرح تربیت نہیں کرتا‘ بلکہ قرآنِ حکیم کا اصولِ تربیت تو وہی ہے جو زیر مطالعہ اصو ل میں بیان ہوا ہے:

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ (الاعراف:۸۵)’

’اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے مت دو۔‘‘
بسا اوقات یہ کمی کتابوں یامقالات پر رائے دینے میں بھی آجاتی ہے‘ جس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ شاید اس کمی کا سبب یہ ہو کہ ناقد نے کتا ب کو پڑھا ہی اس لیے ہو کہ وہ صرف غلطیاں اور کمزوریاں پکڑنا چاہتا ہو اور انصاف کے ساتھ اس پر تبصرہ دینا نہ چاہتا ہو‘ اور جب نیت صرف غلطیوں کونمایاں کرنے کی ہو تو غلطیاں ہی زیادہ نظر آتی ہیں اور اچھی باتیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔ واللّٰہُ المُستعان! (جاری ہے )

فیوض القرآن سورۃ الفاتحہ

فیوض القرآن   سورۃ الفاتحہ

ابتدائی تعارف

لفظ الفاتحہ عربی فعل فَتَحَ یَفْتَحُ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کھولنا کے ہیںچونکہ قرآن مجید کی ابتداء اس سورت سے ہوتی ہے لہٰذا اس سورۃ کو الفاتحہ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس سورت کے اس کے علاوہ بھی کچھ معروف نام ہیں جو درج ذیل ہیں :
1 الکافیہ یعنی کفایت کرنے والی ہے،
22 الشافیہ یعنی شفا دینے والی ہے۔
33 ام الکتاب یعنی کتاب کی ماں اور اصل
44 فاتحۃ الکتاب یعنی کتاب کا افتتاح کرنے والی
55 ام القرآن یعنی قرآن کی اساس
66سبع المثانی یعنی بار بار دہرائے جانی والی سات آیات
77 القرآن العظیم یعنی عظیم پڑھی جانے والی کتاب
88 الرقیۃ یعنی دم میں پڑھی جانے والی
99الصلاۃ یعنی نماز میں لازمی پڑھی جانے والی
اسماء کی کثرت سورت کے معانی و مطالب کی کثرت کی دلیل ہے اور اس کی عظمت پر بھی واضح دلیل ہے۔

زمانہ نزول:

یہ سورت مبارکہ پہلی مکمل سورت ہے جو رسول اللہ پر نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلے متفرق آیات نازل ہوئیں۔ سب سے پہلے سورۃ العلق کی پانچ آیتیں، پھر سورئہ نٓ یا سورۃ القلم کی سات آیتیں، پھر سورۃ المزمل کی نو آیتیں ، پھر سورۃ المدثر کی سات آیتیں اور پھر سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں نازل ہوئیں۔ سورت الفاتحہ رسول اللہ ﷺ پر مکہ المکرمہ میں دعوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی یعنی نبوت کے پہلے سال کے تیسرے یا چوتھے مہینے میں ۔
سورت الفاتحہ کا سیرت کے ساتھ ربط و تعلق:
اگر سیرت طیبہ بعد از نبوت ابتدائی دور کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ابھی دعوت دین کا آغاز ہے اور اس دعوت کے خدو خال مکمل طور پر واضح نہیں ہوئے تھے کہ سورت الفاتحہ کانزول ہوتاہے گویا کہ اس سورت کے ذریعے سیرت طیبہ کے جن پہلووں کی وضاحت ہوتی ہے ان کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے ۔
اول:دعوت دین کی ابتدائی موضوعات سورت الفاتحہ نے واضح کر دئیے گویا کہ قیامت تک اصولی طور پر دعوت دین اسی اساس پر قائم و دائم ہو گی جو سورت الفاتحہ میں بیان کی گئی ۔
دوم:رسول اللہ ﷺنے دعوت دین کی ابتداء میں اہل ایمان کواس امر کی تاکید کی کہ اللہ تعالی کے ساتھ ربط و تعلق مضبوط کریں اور یہ تعلق براہ راست ہو۔
سوم:دعوت دین کے ابتدائی دور میں ہی بندہ مومن کو دعا کے آداب سکھا دیئے گئے اور اس سے دعا کی اہمیت کا علم بھی ہوتا ہے ۔

سورت الفاتحہ کا سورت البقرۃ کے ساتھ ربط و تعلق:

سورت الفاتحہ کے آخر میں بندہ مومن جب سیدھی راہ کے لیے دعاگو ہوتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ اے مالک کون و
مکاں سیدھی راہ دکھا پھر اپنے اطمئنان قلب کے لیے کہتا
ہے کہ ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا نہ کہ مغضوب اور گمراہ، اور مغضوب سے مراد یہود ہیں اور سورت البقرۃ میں یہود کی مکمل تاریخ بیان کی گئی ہے ، گویا کہ بندہ مومن نے دعا کی تو اللہ رب العزت نے یہ دعا قبول کرتے ہوئے اسے یہودکا مکمل تعارف کروا دیا کہ سیدھی راہ کی طلب ہے تو ان لوگوں کو پہچان لو یہ مکاری، عیاری، فریب کاری، دھوکہ ، بدعقیدتی، نافرمانی، بغاوت، قتل وغارتگری، جھوٹ، سودی تجارت، آیات الہی کو بیچنا وغیرہ وغیرہ ان تمام منفی و شیطانی امور سے بچناہو گا صرف اسی صورت میں راہ ہدایت کا ملنا ممکن ہے ۔

سورت الفاتحہ کا داخلی تعارف:

اس سورت کا مرکزی موضوع بندہ مومن کی طرف سے راہ ہدایت کی طلب ہے جیسا کہ آیت میں ہے :

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ

آیت نمبر ایک تا چار:ہمیشہ دعا کا آغاز اللہ تعالی کی حمد سے کیا جانا چاہیے۔
آیت نمبر پانچ:بندہ مومن دعا مانگنے کے حوالے سے اپنا استحقاق یعنی حق بیان کرتا ہے ۔
آیت نمبر چھ:بندہ مومن کی ہر لحظہ اور ہر وقت مانگی جانے والی اصل دعا ۔
آیت نمبر سات :بندہ مومن اپنی دعا کی وضاحت کرتا ہے گو کہ اللہ تعالی اس وضاحت سے بے نیاز ہے ۔
سورت الفاتحہ کے فضائل:
1بندہ مومن اپنی دعاوں میں سورت الفاتحہ کو لازمی کر لے پھر جو کچھ مانگے گا وہ اسے مل جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :

هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ (مسلم، کتاب الصلوۃ، حدیث 904)

یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ سب کچھ ملے گا جو وہ مانگے گا۔‘‘
2 اس سورت کے ذریعے دم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :

وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ (صحیح البخاری:2276)

کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ سورت ’’دم‘‘ ہے ۔
3روحانی اور جسمانی بیماریوں میں شفا کے لیے اس سورت کا مسلسل پڑھا جانا شفا کے حصول کا ایک ذریعہ ہے جسمانی بیماریوں کے حوالے سے سابقہ سطر میں بھی بیان کیا گیا لیکن اس حوالے سے یہ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺسے کسی بھی معین عدد کے ساتھ یا خاص وقت میں باقاعدہ پڑھنا ثابت نہیں ہے لیکن وقت تہجد قبولیت دعا کا وقت ہے اور اسی طرح نماز فجر کی سنتوں او فرض نماز کے قائم ہونے کی درمیانی مدت میں اس سورت کا مسلسل پڑھا جانا شفا ء کے حصول کے لیے مجرب اور مشاہداتی امر ہے خواہ بیماری کی نوعیت کچھ بھی ہو ۔
سورت الفاتحہ اور نماز
جیسا کہ سطور سابقہ میں بیان کیا گیا کہ اس سورت کا ایک نام ’’الصلوۃ‘‘ بھی ہےجیساکہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي (مسلم، کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ، حدیث 395)

’’میں نے صلاۃ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے ۔‘‘
اور اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہےجس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء اور اس کی رحمت وربوبیت پر مشتمل ہے اور نصف حصے میں دعا ہے جوبندہ مومن بارگاہ الٰہی میں کرتا ہے ۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺکے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔

لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ(بخاری، کتاب الاذان، باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ، حدیث : 756 ومسلم، کتاب الصلاۃ ،

باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث 394)
اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی ۔
اس حدیث میں (مَنْ ) کا لفظ عام ہے جو ہرنمازی کو شامل ہے منفرد ہو یاامام کے پیچھے مقتدی ۔ سری نماز ہویا جہری فرض نماز ہو یانفل ہرنمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے ۔اس عموم کی مزید تائید دیگر احادیث سے بھی ہوتی ہے جو کتب احادیث میں ہیں تفصیل کے لیے کتب احادیث کے نماز کے ابواب ملاحظہ کیے جائیں ۔ جن میں سے صرف ایک معروف حدیث جو سید المحدثین و الفقہاء سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ (مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، حدیث 395)

جس نےبغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ ﷺنے فرمایا۔
قرآن مجید کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو:

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ( الاعراف:204)

جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو۔
اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں ۔ یاامام سورۃ فاتحہ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یاامام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔ (جاری ہے)
۔۔۔

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں

پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ ہونہار برواکے چکنے چکنے پات کا مصداق بننے والی شخصیت متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ تحصیل روپڑ کے ’’ملک پور‘‘ گاؤں میں چوہدری عطاء اللہ رحمہ اللہ  کے ہاں 1943ء میںپیدا ہوئے چوہدری صاحب امانت ودیانتدار اور صوم وصلاۃ کے پابند مرد مومن تھے۔ چوہدری عطاء اللہ نے اپنے فرزند ارجمند کی ذہانت وفطانت کو بھانپتے ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں مکمل کروانے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لیے اس دور کی مشہور ومعروف بزرگ ہستی محمد عبد اللہ المعروف صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کے مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد میں داخل کروایا۔صوفی عبد اللہ صاحب ایک نہایت ہی نیک، متقی، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔طلباء کرام کو بہت ہی زیادہ عزت دیتے تھے ان کے ساتھ حد درجے کی محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ خاص طور پر ان طلباء کے ساتھ جو محنتی اور مخلص ہوا کرتے تھے ۔انہی ان تھک محنتی اور وفاء شعار طلباء میں الشیخ ظفر اللہ صاحب کا شمار بھی ہوتا تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے مساجد ومدارس کی تعمیر وترقی کا جذبہ ابتدائی تعلیمی دور سے ہی موجزن تھا۔اس شوق کی وجہ سے صوفی عبد اللہرحمہ اللہ کے دوسرے مدرسے تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔پڑھائی کے اوقات سے فارغ ہوکر اوڈانوالہ سے ماموں کانجن آکر مزدوروں کے ساتھ مل کر سر پر گارا اوراینٹیں اٹھاتے ۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ  کے اس جذبہ صادقہ، ایمانی حرارت، دینی فکر اور دینی جامعہ کی تعمیر میں عملی شوق کو دیکھتے ہوئے ایک بار صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’ظفر اللہ‘‘ کیا میں تیرے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسی دعا نہ کروں کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے تیری ضروریات تجھے عطا فرماتا رہے۔صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کا فرمان سن کرالشیخ ظفر اللہ صاحب نے عرض کی حضرت اس دعا کی بجائے میرے لیے ایسی دعا فرما ئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین حنیف کی خدمت کا کوئی بہت بڑا موقع عطا فرمائے ۔ ممکن ہے اس طالب علم ظفر اللہ رحمہ اللہ کو وہ حدیث مستحضر ہو کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتاہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ یہ حکم نامہ لے کر آتا ہے

{ثُمَّ يُرْسَلُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ بِكَتْبِ رِزْقِهِ}

چنانچہ صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ کے حضور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس طرح شرف قبولیت بخشا کہ الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کا خاندان جوکہ انڈیا سے ہجرت کرکے پنجاب آیا تھا اب پنجاب سے سندھ منتقل ہوگیا۔ الشیخ رحمہ اللہ نے بقیہ عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں لکچرار کے طور تدریسی خدمات سرانجام دینا شروع کردی اور اس کے ساتھ صوفی عبداللہ رحمہ اللہ کی اس خواہش کو ’’کہ کراچی میں دینی کام کرو پوری دنیا میں کام ہوگا۔ عملی جامہ پہنانے کے لیے گلشن اقبال میں تقریب ایک ایکڑ جگہ کے حصول کے لیے تگ ودو شروع کردی تاکہ عالمی سطح کی ایک عظیم الشان دینی یونیورسٹی تعمیر کی جائے۔ گلشن اقبال میں ایک گلشن محمدی کی بنیاد رکھی جائے جس کے دروازے تشنگان علوم نبوت کے لیے کھلے رہیں اور اس ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنا صرف پاکستان کے ہر علاقے کے طالبان علوم نبوت کے لیے ہی خاص نہ ہو ، بلکہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک سے طلبہ حصول علم کے لیے آئیں۔ علوم نبوت کو پوری دنیا میں عام کیا جاسکے۔ اور ویسے بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی علوم کے فروغ اور قرآن وسنت کی خدمت کے وقف کررکھی تھی۔ قرآن وسنت کی ترویج کے لیے جنون کی حد تک شوق تھا اس کا اظہار اپنے خطوط میں بھی کرتے رہتے تھے اپنے ایک دوست مولانا منیر احمد صاحب ساہیوال والے ایک دفعہ خط ارسال کیا ۔ کہا پنجاب میں تو فرض کفایہ کی حد تک قرآن وسنت کی تعلیم کا کام ہورہا ہے مگر سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں تو فرض کفایہ کی حد تک بھی کام نہیں ہورہا اگر آپ سندھ میں آکر اپنے دینی کام کو وسعت دیں تو کیسا رہے گا۔ یہاں تبلیغی لحاظ سے زمین بہت زرخیز ہے بہت زیادہ گنجائش اور مواقع ہیں اور جماعتی اکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں ہے۔

اس وسعت نظری کے پیش نظر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اہلحدیث طلباء کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک کے طلبہ کو بھی کھلے دل سے داخلہ دیا جاتاہے بلکہ سٹاف میں بھی غیراہلحدیث حضرات شامل رکھتے تھے اس طرح یہ ادارہ مختلف مسالک کے علماء اور طلباء کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے اہم فریضہ بھی سرانجام دے ہے شیخ بولتا ثبوت ہے۔جامعہ کے دیگر شعبہ جات میں معیار کو بلند ترین کرنے کے لیے بہت زیادہ عرق ریزی کرتے تھے طلباء کرام اور اساتذہ عظام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بڑی لگن اور خلوص کے ساتھ دن رات مصروف عمل رہتے تھے۔ اساتذہ اور طلباء کے لیے قدوہ بننے کے لیے دن صبح کے اوقات میں جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کے چیئرمین بھی تھے پھر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے پورے معاملات کی دیکھ بھال اور پھر تبلیغی اور دعوتی سرگرمیاں اور مشکل ترین حالات میں بھی عشاء کی نماز کراچی سے 35کلو میٹردور دنبہ گوٹھ سپر ہائی وے پر اداکرتے اور فجر کی نماز گھر سے 40 کلومیٹر دور شیریںجناح کالونی کلفٹن میں ادا کرتے یہ آپ کی ایک منفرد خوبی تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود فجر کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے تھے تلاوت قرآن کریم ذکر الٰہی اور نفلی عبادات کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جس دن میری تلاوت قرآن مجید چھوٹ جائے اس دن میں سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتاہوں۔ تعلق باللہ ان کی نظرمیں باقی احکامات سے بھی زیادہ اہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں اتنی برکت عطا فرما ئی کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کے علاوہ صرف کراچی میں بیس کے قریب مساجد اور مدارس کے بانی اور مؤسس ہیں اور اندرون سندھ اور پنجاب اور بلوچستان اور سرحد میں مساجد اور مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ فضیلۃ الشیخ a اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اور میں بھی یہی دعا کررہا ہوں۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
شیخ صاحب a کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ دینی کاموں کا معاوضہ نہ لیا جائے بلکہ اپنی بساط کی حد تک اللہ کے دیئے ہوئے مال سے کچھ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور ان کی انتہائی کوشش تھی کہ علماء کرام کو معاشرے میں باعزت اور پر وقار مقام دلوایا جاسکے تاکہ وہ لوگوںکے دست نگر بننے کی بجائے اپنے کسی چھوٹے موٹے کاروبار اور معقول ملازمت سے مناسب مشاہرہ حاصل کرسکیں۔
اس ماہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اختتامی تقریب منعقد ہو رہی ہےاسی مناسبت سے ان چند سطور میں شیخ محترم کی علمی اور تدریسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہم ڈاکٹر عبد الوہاب a سابق وی۔سی جامعہ کراچی کے احساسات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ پروفیسر ظفر اللہ a نہ صرف ایک عالم باعمل تھے بلکہ دینی تعلیم کو پھیلانے میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔شیخ محترم کی یہ خواہش تھی کہ دینی مدارس کی تعلیم میں اس طرح کی اصطلاحات کی جائیں کہ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نہ صرف دینی علوم پر مکمل عبور اور دسترس رکھتے ہوں بلکہ جدید علوم سے بھی مکمل طور پر واقف ہوں۔ اس سلسلہ میں الشیخ ظفر اللہ a اور میںنے مل کر ایک نیا نصاب تعلیم بنانے کی کوشش کی تھی اور ان کی سینئر اساتذہ کرام کے ساتھ تین نشستیں بھی ہوچکی تھیں اور ایک نئی یونیورسٹی کا چارٹ بھی تیار کیا جارہا تھا تاکہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ایک عملی نمونہ بنا کر پیش کیا جاسکے تاکہ دینی اور جدید علوم کو ملاکر ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جاسکے جس سے امت اسلامیہ کما حقہ مستفید ہوسکے اور درس وتدریس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اسلامی منہج پر کی جاسکے انہی افراد کی اصلاح سے ہی معاشرے کی اصلاح وابستہ ہے۔ دینی اور جدید علوم کے حامل افراد صالح معاشرے کی تشکیل میں بہت زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں اور انہی دینی اداروں کے قیام سے ملک میں نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
پروفیسر ظفر اللہ a کے اچانک دنیا سے اس طرح چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک پُر نہیں ہوسکا ان کے اس مشن کی تکمیل کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا جبکہ موجودہ حالت میں فضیلۃ الشیخ a کے مشن پر گامزن ہونااشد ضروری ہے کیونکہ معاشرے کا ہر فرد اس بات کا تقاضا رکھتا ہے کہ اس معاشرے کاہر ہونہال دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرے۔آخر میں اپنی مادر علمی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے دعا گو ہوں۔

یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سَرُ وْیہاں مینارہ ہے
خدا کرے مری مادَر علمی پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو

اخلاق محمدی ﷺ کے چند عملی مظاہرے

اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانےکی کوشش کرتا ہے کیونکہ اخلاق انسا ن کا ایک ایسا جزء ہے جس کے اندر یہ صفت وخصلت پائی جائے تو سمجھ لیناچاہیے کہ و ہ آدمی  فطرت سلیم کا مالک ہے اخلاق ایک دواہے جو کہ دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے علم و عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے قیامت کے دن مومن کے میزان میں عمل کے لحاظ سے جو چیز وزنی اور بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے ۔سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

مَا مِنْ شَيْءٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ (سنن ابی داؤد:4799)

کوئی بھی چیز میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں ۔
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ (صحیح مسلم2553)

’’اچھااخلاق ہی نیکی ہے اور برائی یہ ہے جو جو کر نے کے بعد (برائی) تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ پسند کرے کہ لوگوں کو تیری کی ہوئی برائی کا علم ہوجائے ۔‘‘
اور رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا(صحیح البخاری 3559)

’’تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے (اخلاق کے اعتبار سے ) جس کا اخلاق اچھا ہو ۔‘‘
اخلاق کی تعریف:
خلق کے لغوی معنی عادت وخصلت کے ہیں اور حسن اخلاق سےمراد خوش اخلاقی ،مروت ،اچھا برتاؤ،بہتر رویہ سب سے اچھے اخلاق ہیں ۔

اخلاق کی اہمیت و ضرورت :

رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے جہاںبہت سارے کمالات وامتیازات و خصوصیات سے نوازا تھا ان میں سے ایک بہت بڑی خاصیت اخلاق حسنہ کا حاصل ہونا ہے چنانچہ باری تعالی خود ہی منظر کشی فرمائی

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:4)

’’اوربیشک آپ(اے نبیﷺ) بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‘‘
جیسا کہ یہ بات سب پر عیاں و ظاہر ہے کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کے قریب ہو ا اور آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ کو دیکھا تو آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا۔

 اخلاق اعلی :

عام اخلاق کے مقابلے میں اعلی اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پراواہ کیے بغیر اپنا رویہ و وضع قطع متعین کرلے اس کا اخلاق اصولی ہو نہ ہی جوابی ۔

اعلی اخلاقیات:

اس شخص کاایک عام اصول ہو جس کو وہ ہر جگہ برتے ،خواہ معاملہ کی موافقت ہو یا نا ہو وہ ہمیشہ لوگوں کو جوڑنے والا ہو نہ کہ توڑنے والا حتی کہ اس کےساتھ اگر برا سلوک ہوجائے تو وہ اس کو نظر انداز کرنےکی کوشش میں ہوتا ہے چونکہ ہمارا موضوع (اخلاق محمدی ﷺ کے چند اہم عملی مظاہرے جنہیں اپنانےکی ضرورت ہے)تو میں رجوع کرتا ہوں اپنے موضوع و محل کی طرف ۔

مکارم اخلاق و کمال ِنفس للرسول ﷺ :

نبی اکرم ﷺ ایسے جمال خلق اور کمال خلق سے متصف تھے جو احاطہ بیان سے باہر ہے اس جمال وکمال کا عالم و اثر یہ تھا کہ لوگوں کے دل آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم اور قدرو منزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہو جاتے تھے چنانچہ آپ ﷺ کی حفاظت اور اجلال وتکریم میں لوگوں نے بھی ایسی ایسی فداکار و جانثار ی کا جواز وثبوت پیش کیا جس کی مثال اس دنیا فانی میں کہیں نہیں ملتی ، نہ ہی اس دنیا فانی کی کسی شخصیت کےپیش ہو سکتی ہے آپ ﷺ کے رفقاء اور ہم نشین وار فتگی کی حد تک آپ ﷺ سے محبت کا پیش کرنے سے کبھی نہیں کتراتے تھے انہیں گورا نہ تھا کہ آپ ﷺ کو کوئی خراش تک آجائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی
کیوں نہ چلی جائیں اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادۃً جن کمالا ت پر جان وار کی جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ آپ ﷺ کو عطا ہو اتھا کسی اور کو نہ ہوا تو میں اپنے مضمون کو سمیٹتے ہوئے ان اوصاف و اخلاق رسول اکرمﷺ کا ذکر کرتا ہوں جنکا ہمار امعاشرہ بڑی شدّت سے پیاسا ہے ۔

1 نبی اکرمﷺ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق:

باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنی رسالت و محبوبیت اور حسنِ اخلاق سے نوازا تھا اور آپ ﷺ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادئیے تھے آپﷺ عبادت میں سب سے زیادہ کوشاں اور اسکے سب سے زیادہ شائق و مشتاق تھےچنانچہ صحابی رسولﷺ مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نماز میں قیام کی حالت میں اتنی دیر تک کھڑے رہے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک پر ورم آگیا عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ کے تواگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے گئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اپنے رب کا فرمانبردار بندہ نہ بنوں؟(بخاری )
سیدنا ابو ذرغفّاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوئے ایک ہی آیت میں صبح کردی وہ آیت ِ مبارکہ یہ تھی۔

اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (المائدۃ:118)

’’اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آپﷺ کو حا لتِ نماز (قیام اللیل ) میں دیکھنا چاہتا تو دیکھ سکتا اور اگر کوئی نیند میں دیکھنا چاہتا تب بھی دیکھ سکتا ۔
2 آ پﷺ کے سامنے دنیا کے مال ومتاع کی اہمیت اور اس سے آپ ﷺ کی بے رغبتی :
جہاں تک درہم ودینار اور دنیا کے مال ومتاع کا تعلق ہے الفاظ کا بڑے سے بڑا ذخیرہ او اعلیٰ درجہ کی قادر کلامی بھی آپ ﷺ کی نگاہ میں اس کی حیثیت کو مکمل طور پر واضح نہیں کرسکتی اسی لئےکہ آپﷺ کے ایمانی اور ربّا نی مدرسہ کے بوریہ نشین اور عرب و عجم میں ان کے شاگردوں کے شاگرداور خوشہ چیں بھی درہم و دینارخزف ریزوں کو ٹھیکروں سے زیادہ وقعت نہیں دیتے تھےانکی زاہدانہ زند گی متاع الدنیا کی بے وقعتی دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنا  اور اس کا شوق اور دوسروں کو اپنے اوپرہر معاملے میں ترجیح دینے کا شوق و ذوق قدر کفاف پر قناعت،اور شاہ بے نیازی و استغناء کے جو واقعات تاریخی طور پر ثابت ہیں ان سے عقلِ انسان حیران و عاجز آجاتی ہےاسی سلسلے کی کڑی میں چند روایات کا ذکر کرتا ہوںجو صحابہ کی زبان مبارک سےہم تک پہنچیںآپﷺ کا ما ثور شہرت کا حامل شعر جس پر آپﷺ حرف باحرف عامل تھے اور جو آپ ﷺ کی پوری حیات کا اہم ہی نہیں بلکہ مرکزی نقطہ نظر اور محور تھا وہ یہ ہے۔

اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الآخِرَهْ

اے اللہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، مزید آپﷺ کی حیات ِ مبارکہ کے بارے میںسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کو ایک چٹائی پر اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں اس چٹائی کے نشانات پڑ گئےیہ منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا ـــ’’ یا رسول اللہ ﷺ آپ ساری دنیا میں سب سے زیادہ بڑھ کر برگزیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقرّب ترین بندوں میں ہیں اور کسری اور قیصر عیش کررہے ہیں یہ سن کر نبیﷺ کا چہرہ انور سرخ ہو گیا اور آپﷺ نے فرمایا اے ابنِ خطاب !کیا تمہیں کچھ شک ہے؟پھر آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا میں ہی سارے مزے مراتب مہیا کردیے گئے ہیں۔
امّ المو منین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اہل ِ بیت محمدﷺ کو ایک چاند گزر کر دوسرا چاند نظر آجاتا اور ہمارے گھر میں چولھا نہیں جلتا تھا صرف کھجور اور پانی پر ہی گزر بسر ہوتا  تھا ۔(متفق علیہ )
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اکرمﷺ سے کسی چیز کاسوال کیا گیا ہو اور آپﷺ نے اس کے جواب میں نہیں کیا ہو ۔
3 خلقِ خدا کے ساتھ آپ ﷺ کا اخلاق
لیکن اس ذوقِ عبادت ، دنیا اور سامان ِ دنیا سے بے تعلقی ، کمال زید ، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ،اس کے سامنے آہ و زاری اور دعا ومناجات سے آپ ﷺ کی خندہ پیشانی حسنِ اخلاق شفقت و ملاطفت دلداری و دلنوازی اور ہر شخص کو اس کا حق جائز دینے اور اس کے مرتبہ و حیثیت کے مطابق سلوک کرنے میں کوئی فرق نہ آنے دیتے اور دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ان کو اسی طرح کسی شخص کے اندر ایک وقت میں جمع کرنا محال ہے چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں:

 لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا

جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم جان لو تو تم لوگ بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔(صحیحین)
سیدنا شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے امیّہ بن الصلت  کے اشعار سننے کی فرمائش کی چنانچہ میں نے انکو اس کے اشعار سنائے آپﷺ نے ایک مرتبہ اپنے نواسے حسن بن علی کو بلایا اور وہ دوڑتے ہوئے آئے اور آپ ﷺ کی گود مبارک میں گر پڑے اور پھر آپ ﷺ کی ریش  مبارکہ میں اپنی انگلیوں کو ڈالنے لگے اور اس کے بعد رسول اکرمﷺ نے اپنا دہن مبارک کھولدیا اور وہ اپنا منہ آپ ﷺ کے دہنِ مبارک میں ڈالنے لگے آپ ﷺ بچوں پر بہت مشفق و مہربان تھے اور ان سے بہت ہی محبت کا معاملہ فرماتےچنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو کھیل کودکر رہے تھے آپ ﷺ نے انکو سلام کیا ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کو جو وعظ و نصیحت فرماتے تھے وہ وقفوں کے ساتھ ہوتی تھی اس خیال سے کہیں کہ کہیں ہمارے اندر اکتاہٹ ، سستی اور کاہلی نہ آجائے نماز سےاس تعلق اور شگفتگی کےباوجود آپ ﷺ اگر کسی بچے کا روناسن لے تو نماز مختصر فرما دیتے آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتاہوں اور چاہتا ہوں کہ طویل نماز پڑھوں گامگر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس خیال سے نماز مختصر کر دیتاہوں کہ کسی ماں کو دشواری اور تکلیف نہ ہو ۔(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ)
4فطرت میں اعتدال اور سلامت ذوق
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کوجس اعلی درجہ کے اخلاق اور اعلی وعظیم درجہ کی طبعی و خلقی کمالات سے نواز اتھا وہ آنے  والی نسلوں کے لیے معراج کمال ہےاسکو ہم اعتدال فطرت ،سلامت ذوق شعور اور توازن و جامعیت اور افراط و تقریظ سے تعبیر کرسکتے ہیں چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دو کاموں میں سے کسی ایک کام کو ترجیح دینی ہوتی تو ہمیشہ اس کو اختیار فرماتے جو آسان ہو تا بشرطیکہ اس کام میں گناہ کا شبہ نہ ہو اگر اس کام میں گناہ کا شبہ ہوتا تو آپ ﷺ اس سے دور وبعید ہوجاتے ۔(صحیح مسلم)
آپﷺ تکلفات ،ضرورت سے زیادہ زید اور نفس کے جائز حقوق سے رو گردانی سے بہت دور تھے چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ آپ ﷺ  نے فرمایا دین آسان ہے اور جو بھی دین سے زور آزمائی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا اس لیے میانہ روی  اور اعتدال کے ساتھ رہو اور چلو ،قریب کے پہلو کے ساتھ رعایت کرو اور صبح و شام کسی قدر تاریکی شب کی عبرت سے تقویت حاصل کرو ۔(بخاری کتاب الایمان)
آپ ﷺ نے فرمایا ٹھر اتنا ہی کرو جتنا کرنے میں تمہارے پاس طاقت اور قوت ہے اس لیےکہ اللہ کی قسم اللہ تعالی تو نہیں تھکے گا بلکہ تم ہی تھک جاؤ گے ۔سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالی کو کون سا دین سب سے زیادہ محبوب ہے آپ مﷺ نے فرمایا سہولت وآسان اورخلوص والا دین ابرہیمی ۔(الادب المفرد 18)

5آپ ﷺ کا اخلاق اپنے اہل عیال کے ساتھ:

آپ ﷺ گھر میں عام انسانوں کی طرح ہی رہتے تھے اور جیساکہ خود آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ ﷺ اپنے کپڑوں کو خود صاف فرمالیتے تھے اور بکریوںکا دودھ بھی دوہ لیا کرتے تھے اور اپنا کام خود سر انجام دیتے آگے فرماتی ہیں کہ اپنے کپڑوں میں پیوند لگالیتے تھے جوتا گانٹھ لیتے تھے اور اسی طرح کےاور کام بھی کرلیتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں کس طرح رہتے تھے تو انہوں نے فرمایا آپ ﷺ گھر کے کام کاج میں لگےرہتے تھے جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے چلے جاتے ۔(بخاری کتاب الصلاۃ)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کھانے میں عیب نہیں نکالااگر خواہش ہوتی تو تناول فرمالیتے اگر پسند نہ ہوتا تو چھوڑدیتے ۔ (متفق علیہ)
6آپ ﷺ کی تواضح اور انکساری
اور جہاں تک تعلق تواضح و خشیت الہی کا ہے تو وہ آپ ؔﷺ کے اندر انتہاء درجے کی تھی اور آپ کسی چیز میں نمایاں ہونا نہیں چاہتے تھے او ر نہ ہی آپ ﷺ اس چیز کو اچھا جانتے تھے کوئی آپ ﷺ کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ ﷺ کا استقبال کرے اور آپ ﷺ کی مدح و تعریف بیا ن کر نے میں مبالغہ سے کام لے جیسا کہ پہلی امتوں نے سابقہ انبیا ء کےساتھ کیا اور آپ ﷺکو عبدیت اور رسالت کے درجے سے بلند کرے ۔
آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ ’’یا خیر البریۃ ‘‘( اے مخلوق میں سب سے بہتر وافضل) توآپ ﷺ نے فرمایا ’’ذاک ابراہیم علیہ السلام‘‘ یہ مقام ومرتبہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ (مسلم کتاب الفضائل)
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :میری اس طرح بڑھ کر تعریف و توصیف نہ کرو جس طرح نصاری ٰنے سیدنا عیسی ابن مریم کی کے ساتھ کیا ، میں تو صرف ایک بندہ ہوں تم مجھے اللہ کا بندہ اوراس کارسول کہو۔(بخاری)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی لونڈیوں اور باندیوں میں سے آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور جو کچھ کہنا ہوتا ،کہہ دیتی اور جتنی دور چاہتی لے جاتی ۔ جو کہ اخلاق النبیﷺ کی عظیم مثال ہے ۔(مسند احمد 198)
7مشکلوں اور مصیبتوں میں آگے آگے :
مشکلوں اور مصیبتوں میں آگے آگےجبکہ انعام و اکرام میں پیچھے پیچھے اپنےاہل عیال ،اہل بیت کےساتھ مستقل معاملہ اور اصول یہ تھا کہ جو آپ ﷺ سے جس قدر قریب ہوتا آپ خطرات اور آزمائشوں میں اس قدر آگے  اور انعام اکرام میں اور مال غنیمت کی تقسیم کے وقت انکو پیچھے رکھتے جس کی مثال ہمیں بدر کے مقام پر ملتی ہے جب عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور خالد بن ولیدنے بدر میں قریش کو للکار ااور اور مبارز طلبی کی تو آپﷺ نےحمزہ ،علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم کو چنا اور انکو آواز دی اور مقابلہ بازی کے لیے بھیجا حالانکہ آپ ﷺ مکہ کے شہسواروں کی حیثیت اور اہمیت سے خوب واقف تھے مہاجرین میں متعدد ایسے بہادراور جری شہسوار موجود تھے جو ان سے دو دو ہاتھ کرسکتے تھے مگرابن ہاشم کے تینوں افراد وہ (حمزہ ،علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم )جو خونی رشتہ میں سب سے زیادہ آپ ﷺ سے مقریب تھے اور آپ ﷺ کو عزیز و محبوب بھی تھے لیکن آپ ﷺ نے انکو اس خطرہ سے بچانے کے لیے دوسرے حضرات (صحابہ)کو خطرات میں نہیں ڈالا اور انہیں مقابلہ بازی کےلیے بھیجا اوراللہ تعالی نےان تینوں کو دشمن پر غالب کر دیا اور فتح عطا فرمائی اور سیدنا علی، سیدنا حمزہ صحیح سالم لوٹے جبکہ سیدہ عبیدہ رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں واپس لایا گیا ۔
آپ ﷺ نے جب سود کو حرام اور جاہلیت کے خون کو کالعدم قرار دیا تو اس کی ابتداء اپنےچچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اوراپنے بھتیجے ربیعہ بن الحارث کے فرزندسے فرمائی چنانچہ حجۃالوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :زمانہ جاہلیت کا سود آج سے ختم اور کالعدم ہے اور پہلا سود جو میںختم کرتا ہوں وہ ہمارے ہاں عباس کا ہے اور زمانہ جاہلیت کا خون بھی کالعدم ہے اور وہ ہمارے ہی یہاں کا ربیعہ بن حارثہ کے فرزند کا خون ہے۔ (مسلم کتاب الحج بروایت جابر رضی اللہ عنہ )
اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مشہور واقعہ جب آپ ﷺ کے پاس کچھ باندیاں آئی تو سیدہ فاطمہ کا درخواست کرنا اور آپ ﷺ کا جواباًانکو اللہ کی تسبیح و تحمید وتکبیر کامشورہ دینا اس بات کی ایک عظیم مثال ہے کہ انعام و اکرام میں سب سے پیچھے پیچھے ہونا اور اپنے اہل عیال کو پیچھے پیچھے رکھنا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
8نرم خو، تحمل اور برد باری
رسول اللہ ﷺ مکارم اخلاق ،نوازش ،نرم خو اور تواضح میں سارے انسانیت کے امام و پیشواہیں چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:4)

’’اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا

أَدَّبَنِي رَبِّي فَأَحْسَنَ تَأْدِيبِي (فیض القدیر:1262)

’’میرے رب نے میری تربیت بہترین فرمائی ہے ۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

إِنَّ اللہَ بَعَثَنِي لِتَمَامِ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ، وَكَمَالِ مَحَاسِنِ الْأَفْعَالِ (شرح السنہ مشکوۃ المصابیح 5770)

’’اللہ تعالی نے مجھے مکارم اخلاق و کمال محاسن کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کےاخلاق کے  بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کیا خوب جواب دیا :

 كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (صحیح مسلم )

’’آپ ﷺ اخلاق میں قرآ ن کا مجسم نمونہ تھے ۔‘‘
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ اس وقت نجران کی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے راستے میں ایک اعرابی آپ ﷺ کو ملا اور آپ ﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر زور سے کھینچنے لگاجس کی وجہ سے نشان پڑ گئے پھر اس اعرابی نے کہا ۔یا محمد ! اللہ کا جو مال آپ کے اصحاب کے پاس  ہے وہ مجھے دینے کا حکم دیجیے آپ ﷺ نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور ہنسنے لگے پھر یہ ہدایت کی کہ اس کو مال دے دیا جائے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہا د)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک بار مکہ سے 80مسلح آدمی ’’جبل تنعیم‘‘سے اچانک وارد ہوئے اور دھوکے میں رکھ کر آپ ﷺ کو گذند پہنچانہ چاہا آپ ﷺ نے ان سب کو  قیدی بنالیا اور ان کو  زندہ رہنے دیا ۔(مسلم کتاب الجہاد والسیر )
سیدنامعاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہا تھا کہ اچانک ایک شخص کو چھینک آئی میں نے کہا ’’یر حمک اللہ ‘‘ لوگ سن کر مجھے گھورنے لگے میں نے کہاتمہاری ماں تم پر روئےآخر کیا ہوا ہے کہ تم مجھے ایسی تیز نگاہو ں سے گھو ر رہے ہو یہ سن کر لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا جب رسول اللہ ﷺ نماز سےفارغ ہوئے ،تو میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ،میں نے نہ آپ ﷺ سے پہلے آپکی طرح کوئی مربی اور معلم دیکھا اور نہ آپ کے بعد !اللہ کی قسم نہ آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا ،نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا بس یہ فرمایا کہ نماز میں عام انسانی گفتگو مناسب نہیں ہوتی ،نماز صرف تسلیم و تکبیر اور تلاوت کےلیے ہے۔ (مسلم باب

تحریم الکلام فی الصلاۃ )

9آپ ﷺ کا حیا ء شجاعت اور دلیری
جہاں آپ ﷺ کے حیا کا تعلق ہے اس بارے میںسیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء دار اور پا کیزہ تھے جب آپ ﷺ پر کوئی چیز ناگوار گزرتی تو اس پر آپ ﷺ کا چہرہ انور سے صاف ظاہر ہوجاتا تھا ( بخاری کتاب المنقب،باب صفۃ النبی ﷺ )
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین و جمیل سب سے زیادہ سخی و فیاض اور شجاع اور بہادر تھے ایک رات اہل مدینہ خوف زدہ ہوگئے کہ جس طرف سے آواز آتی وہ لوگ اس طرف رخ کرلیتے ،راستے میں رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لاتے ہوئے انکو ملے آپ ﷺ آواز سن کر ان سب سے پہلے وہاں تشریف لے گئے آپﷺ فرماتے چلے جارہے تھے کہ ڈرو نہیں دُور نہیںاور آپ ﷺ اس وقت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑےپر سوار تھے جس پر زین بھی نہ تھا تلوار آپ ﷺ کے شان (کندھے) سے لٹک رہی ہے تھی آپ ﷺ نے گھوڑے کی تعریف فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس کو سمندر کی طرح رواں اور تیز رفتار پایا ۔(الادب المفرد بروایت صحیحین )
غزوہ احد اور حنین میںجب بڑے بڑے بہادر اور جگر دار تتر بتر ہوگئے تھے اورمیدان خالی تھا اس وقت بھی آپ ﷺ نے اپنےخچر پر اسی طرح سکون اور ثابت قدمی کےساتھ اپنے مقام پر موجودتھے معلوم ہوتا ہےکہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی آپ ﷺ پر رجز (قول) بھی پڑھتےجارہے تھے :

أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ

میں نبی ہوںیہ کوئی جھوٹی بات نہیں میں عبد المطلب کا فرزند ارجمند ہوں۔(بخاری ،کتاب الجہاد والسیر باب من وصف اصحابہ عند الھزیمہ و نزل عن دابۃ واستنصر،293)

شفقت اور محبت

اس شجاعت و بہادری کے باوجو د نرم دل و لہجہ تھے آپ ﷺ کی آنکھیں بہت جلد نم اور اشکبار ہو جاتیں کمزور اور بے زبان جانوروں کےساتھ بھی اپ نرمی کا حکم فرماتے چنانچہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چیز کے ساتھ اچھا معاملہ  اور نرم برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے اگر قتل بھی کرو تو اچھی طرح کرو ،ذبح بھی کرو تو اچھی طرح کرو تم میں سے جو ذبح کرناچاہتا ہے وہ اپنی چھری اچھی طرح تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام دے ۔(صحیح مسلم )
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت کو صرف اس بات پر
عذاب دیا گیا کہ اس نے اپنی بلی کو کھانا و پانی نہیں دیا اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ حشرات الارض (زمین کے کیڑے مکوڑوں پر گزارا کر سکے)ہی سے اپنا پیٹ بھر لے۔ (امام نووی بروایت مسلم )
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو تم کھاتےہو وہی ان کو کھلاؤ جو تم پہنتے ہو وہی انکو پہناؤ او ر اللہ تعالی کی مخلوق کو عذا ب میںمبتلا نہ کرو جن کو اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کیا ہے تمہارے خادم ، تمہارےبھائی او ر مدد گار بیلی ،جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے چاہیےکہ خود جو کھاتا ہے وہ ہی اس کو کھلائے جو خود پہنتا ہوں وہ اسے پہنائے اس کے سپرد ایسا کام نہ کرو جو انکی طاقت سے باہر ہو اگرایسا کرنا ہی پڑے توانکا ہاتھ بٹاؤ۔ (صحیح البخاری سنن أبي داؤد)
کامل عالمگیر اور لازوال نمونہ
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
رسول اللہ ﷺ کےکامل عالمگیر اور لافانی نقش حیات آپ ﷺ کی جامعیت و کاملیت اور تمام طبقات انسانی نیز ہر ماحول و زمانہ اور ہر پیشہ ومشغلہ غرض ہر قسم کے حالات اور ہر سطح و معیار کے لیے آپ ﷺ کی کامل و جامع اسوہ حسنہ نہایت احسن وواضح انداز میں تشریح کی جسارت کرتا ہوں اللہ تعالی قبول و منظور فرمائے۔ (آمین)
درِ خرمنِ کائنات کردیم نگاہ
یک دانہ محبت است باقی ہمہ کاہ
یہ باتیں بغیر کسی مبالغہ کے پیش کی گئی کہ سیرت النبی ﷺ کو انکی کوئی ضرورت نہیں انکا جمال قلب جہاں آراقلب ودفاع کو مو ہنے اور متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ایک ایسی شخص پاکیزہ زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہراور ہر قسم کے پاکیزہ و صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا نمونہ ہے ومجموعہ صرف وصرف محمد الرسول اللہ ﷺ کی زندگی اور آپ کی سیرت مطہرہ ہے اگر تم دولت مند ہوتو مکہ کے تاجر او ر بحرین کے خزانہ دار کی تقلید کرو اگر تم غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو اگر تم واعظ و ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کافریضہ انجام دینا چاہتےہو تو مکہ کے بے یاروں مددگار نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے اگر تم بادشاہ ہو تو تم سلطان عرب کا حال پڑھو اگر تم رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھ لو اگر فاتح ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر نگاہ ڈالو اگر تم نے شکست کھائی تو معر کہ احد سے عبرت حاصل کرلو اور اگر تم استاد ومربی اور معلم ہو تو صفہ کے درسگاہ کے معلم ومربی اعظم کو پڑھو اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں اور مخالفین کو مزید کمزور بنانا چاہتےہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو اگر تم اپنے کاربار اور دنیاوی جہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر ،خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو اور اگر تم یتیم ہو تو عبداللہ اور آمنہ کے جگر گوشے کو نہ بھلاؤ اگر تم بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلےکو دیکھو اور اگر تم جوان ہو تو مکہ مکرمہ کےایک چرواہے کی سیرت پڑھو اور اگر تم سفری کاروبار میں ہو تو بصری کے کارواں سالار کی مثالیں ڈھونڈو اگر تم عدالت میں قاضی اور جج کے منصب پر فائز ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کی سیرت کو پرکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک کونے میں نصب کر رہا ہے مدینہ کے کچی مٹی کےصحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا امیر وغریب سب برابر اور اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنہما کے پاکیزہ شوہر کی حیات مبارکہ کا مطالعہ ضرور کرو، اور اگر تم اولاد والے ہوتو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے مکرم نانا کی طرف نظریں دوڑاؤ، غرض تم کچھ بھی ہو اور کسی حال میں ہی کیوں نہ ہو تمہاری زندگی کے لیے وہی بہترین نمونہ ہیں ۔
اس لیے طبقات انسانی کے ہرطالب کو چاہیے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے اور اپنانے میں ہمہ وقت استعداد وکوشش میں لگا رہے جو کہ وہی صرف اور صرف نجات اور اللہ جل شانہ کے غضب سے بچنے کا حل اور نمونۂ خیر ہے اور یادرہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت وحیات مبارکہ اور اخلاق واعمال دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے جہاں پر جنس وصفت کے خریداروں اور ہر شے کے طلبگاروں کے لیے ہمہ وقت اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے بہترین سازوسامان موجود ہے ۔ ( خطبات مدراس96،98از سید سلمان ندوی)

آخرت میں عرض کرتا چلوں :

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہیں

مسلمان، امامِ کائنات سیدنا محمد ﷺ کے بارے میں جذباتی کیوں ہیں؟

ہمارے نبی محمد ﷺ سید الانبیاء اورخاتم النبیین ہیں، آپﷺ پر قرآن جیسی حکیمانہ کتاب نازل ہوئی، آپﷺ کی شریعت تمام پچھلی شریعتوں کو منسوخ کرتی ہے، قرآن گزشتہ تمام کتابوں کو منسوخ کرتا ہے، آپﷺ کی امت تمام امتوں میں افضل ہے، آپ ﷺکو اللہ تعالی نے محشر میں مقام محمود، لواء الحمد، حوض کوثر اور جنت میں سب سے اعلی وافضل مقام ‘وسیلہ عطا فرمایا ہے، انبیاء و رسل �میں آپﷺ ہی جنت کا دروازہ کھولیں گے اورسب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، آپﷺ کی امت تمام امتوں میں سب سےپہلے جنت میں داخل ہوگی، اللہ تعالی نے خود آپﷺ کی بلند اخلاقی کی شہادت دی ہے، اللہ تعالی اور اس کے تمام ملائکہ آپﷺ ہی پر صلوٰۃ وسلام بھیجتے ہیں، اللہ نے آپﷺ کو آپﷺ کی دنیوی زندگی ہی میں معراج سے سرفراز کیا، آپﷺ کی دیانت وامانت کی شہادت آپﷺ کے جانی وبدترین دشمن ابو جہل اور قریش بھی دیتے تھے۔ آپﷺ کی صداقت کی شہادت مکہ کے شجر وحجر بھی دیتے تھے، آپﷺ کی شجاعت وبہادری پرغزوہ حنین اور مدینہ کی خوف ناک رات شاہد عدل ہیں، آپﷺ کی عفت وپاک دامنی کی شہادت ازواج مطہرات دیتی ہیں، آپﷺ کی عدالت کی شہادت اسامہ �کے والد اور چچا دیتے ہیں، آپﷺ کے تحمل وبردباری کی گواہی عرب کے بدو، مدینہ کے یہودی اور ثمامہ بن اثال �دیتے ہیں، آپ ﷺکے افضل ترین میزبان ہونے کی شہادت وہ اعرابی دیتا ہے جس نے آپ ﷺکے بسترہ و کمرہ کو پاخانہ کی غلاظت سے آلودہ کردیا تھا، آپﷺ کے دینی استقامت کی شہادت اسامہ کی سفارش والا واقعہ دیتا ہے، آپﷺ کی شب بیداری وتہجد گزاری کی شہادت آپ ﷺکے سوجے ہوئے قدم دیتے ہیں، آپﷺ کے حسن عبادت کی شہادت ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت دیتی ہے، آپ ﷺکے حسن سلوک کے بارےمیں دس سالہ انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو، آپﷺ کے حسن اخلاق کے بارے میں معلوم کرنا ہو تو قرآن کے سورہ القلم کا مطالعہ کرو، آپﷺ کے عفو ودرگزر کا دریا مشاہدہ کرنا ہو تو فتح مکہ کے وقت مکہ کے خون کے پیاسے باسیوں سے دریافت کرو، آپ ﷺ کا مقام ومرتبہ معلوم کرنا ہو تو آیت

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ(النساء: 65)

کی تفسیر پڑھو، یہ داخلی شہادت نمونہ مشتے از خروارے کے

مصداق ہے ورنہ اہل علم نے آپﷺ کی سیرت پر کتابوں کے پشتارے لگا دیئے ہیں، غرض آپﷺ کی کون سی خوبی کا ذکر کریں اور کس کو ترک کریں، ماحصل یہ ہے کہ: حسن یوسف ، دم عیسی، ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ:

یا صاحب الجمال ویا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ

 بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ تو اپنوں کی شہادت ہے اور اپنے تو تعریف میں آسمان وزمین کے قلابے ملا دیتے ہیں، غیر کی شہادت اس معاملہ میں زیادہ معتبر مانی جاتی ہے، مشہور عربی کہاوت ہے:
والفضل ما شہدت بہ الاعداء
تو ایسے بیمار ذہن لوگوں کی ضیافت طبع کے لئے غیروں کی درج ذیل شہادت پڑھئے، اطمینان ہوجائے گا ان شاء اللہ: مشہور فلسفی اور مفکر جارج برناڈشا نے یہ شہادت دی ہے: اگر آئندہ سو سال کے اندر کسی مذہب کے انگلستان بلکہ پورے یورپ میں عوام کے ذہن وفکر پر چھانے کا امکان ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہوسکتا ہے۔ دینِ محمد ﷺ کی میری نگاہ میں بڑی قدر ومنزلت ہے اور اس کی وجہ اس مذہب کی اثراندازی اور اس کی طاقت ہے، اس مذہب کی تعلیمات میں ایسی جامعیت اور ہمہ گیریت ہے کہ وہ ہر دور میں زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر دور میں انسان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ اگر محمد ﷺجیسا انسان اس عالم نو میں کلی اختیارات حاصل کرلے تو بنی نوع انسان کےتمام مسائل اس طرح حل ہوسکتے ہیں کہ امن وآشتی، خوش حالی اور فارغ البالی کی منزل تک انسان کی رسائی ہوسکتی ہےجس کی تلاش میں انسان آج در بدر اور خاک بسر ہے ۔ (محمد رسول اللہﷺ- 283)
انگریزی سیاح سر ویلیم میور اپنی مشہور کتاب “لائف آف محمدﷺ” میں رقم طراز ہیں: ہمارے لئے محمد ﷺ کی سیرت کی اتباع اور اس کا احترام مناسب ہے، آپﷺ اپنے متبعین کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور احترام سے پیش آتے، آپﷺ تواضع وخاکساری، محبت ورافت اور عاجزی وانکساری اور سخاوت وبھائی چارگی کا سر چشمہ تھے”۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 165)
یہی انصاف پسند محقق سر ولیم میور نے اپنی مذکورہ کتاب میں آگے یہ اعتراف کیا ہے: ” محمدﷺ کی زندگی کا جب مطالعہ کیا گیا تو یہی حقیقت سامنے آئی کہ وہ نیک طبیعت ، ستھری نیت، بلند اخلاق اور تمام خوبیوں کا مجسم تھے ۔ ان خوبیوں کی ماضی، حال اور مستقبل میں کلی طور پر کوئی نظیر نہیں مل سکتی ہے “۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص 211)
لندن یونیورسٹی میں مشرقیات کے سابق پروفیسر الفریڈ گلیوم نے اس طرح نبی کریم ﷺکی شان میں خراج عقیدت پیش کیا ہے: سب سے پہلے اس بات کا یقین کرنا ضروری ہے کہ محمد ﷺتاریخ کی عظیم شخصیت تھے، آپ کو تمام سماجی مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں خرق عادت قسم کی قدرت حاصل تھی “۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: 171)
ویانا یونیورسٹی کے لاء فیکلٹی کے پرنسپل پروفیسر چارل نے سن 1937ءمیں حقوق کے موضوع پر منعقد ایک کانفرنس میں کہا تھا: ” انسانیت کو محمد ﷺجیسی شخصیت کی نسبت کا فخر حاصل ہے، کیونکہ محمد ﷺنے امی ہونے کے باوجود آج سے تقریبا تیرہ سو سال قبل ایسی شریعت پیش کی کہ اگر ہم دو ہزار سال بعد بھی اس چوٹی تک پہنچ جائیں تو ہم جیسے اہل یورپ کے لئے باعث سعادت ہوگا “۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں: ص209)
جرمن شاعر گوئٹے نے جب نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو سنا تو کہہ اٹھا: ” اگر اسلام یہی ہے تو ہم سب مسلمان ہیں اور ہر صاحبِ فضل اور صاحبِ شریعت انسان مسلمان تھے “۔ (اسلام اور پیغمبر اسلام اہل انصاف کی نظر میں:ص 213)
ٹریپٹی کالج آکسفورڈ کے فیلوریوزنڈ باسورتھ اسمتھ نے سن 1874ء میں اپنے ایک لیکچر میں کہا: ” عیسائی دنیا میں جانوروں اور پرندوں کی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے، لیکن یہ پیغمبر اسلام کی تعلیم کا اثر ہے کہ آج دنیا میں پرندوں کو قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت جب یورپ پہنچی تو یورپ نے جن اچھی باتوں کو اپنایا ان میں جانوروں اور پرندوں کے ساتھ محبت اور ہمدردی بھی شامل تھی “(اعتراف حق ص 168)
نبی کریم ﷺکی متعدد شادیوں کے بارے میں یہی انصاف پسند مصنف کہتا ہے: ” یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آپﷺ کی بیشتر شادیاں مخصوص حالات کے تحت ہوئیں، یہ شادیاں جذبہ رحم کا نتیجہ تھیں، بیشتر شادیاں ان خواتین سے ہوئیں جو بعض وجوہات اور واقعات کی بنا پر قابل رحم حالت میں تھیں، بیشتر خواتین جن سے آپﷺ نے شادیاں کیں بیوائیں تھیں جو صاحبِ ثروت بھی نہیں تھیں اور خوبصورتی میں بھی قابلِ ذکر نہیں تھیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ بے سہارا تھیں۔ آپﷺ پاکبا‌ز اور صالح انسان تھے، آپﷺ کا دامن ہمیشہ پاک اور بے داغ رہا ، حالانکہ اس معاشرہ میں عورتیں بے وقعت اور کھلونا تھیں، محمد ﷺنے بے وقعت مخلوق کو وقار بخشا “۔
مسٹر پیر کریٹس قرآن کی تعلیم ِحجاب کو اس طرح خراج پیش کرتا ہے: “محمد ﷺکی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں”۔ (اعتراف حق ص 209)
اب ہم انسائیکلوپیڈیا آف بریٹانیکا سے ایک اہم اقتباس نقل کرکے بات کو ختم کرتے ہیں جس میں مغربی دانشوروں اور مفکرین کی جانب سے نبی کریم ﷺکو اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے:محمد (ﷺ) کہیں پیغمبر ہیں، کہیں جنرل ہیں، کہیں سردار ہیں، کہیں سپاہی، کہیں کاروباری آدمی، کہیں واعظ، کہیں فلسفی، کہیں سیاست داں ومدبر ہیں اور کہیں مصلح، کہیں عورتوں کے نجات دہندہ ہیں، کہیں غلاموں کے محافظ ہیں، کہیں منصف ہیں، کہیں مذہبی پیشوا ہیں اور تمام سرگرمیوں میں محمد ﷺ کی حیثیت ایک سورما (Hero) کی ہے”۔ ان سارے حقائق کے باوجود
یہ بھی ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ قرونِ وسطی میں اور آج کے عصر حاضر میں بھی عیسائی راہبوں، ہندوؤں اور یہودیوں کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی جاتی ہےبلکہ یوں کہئے کہ اسلام اور نبی کریم ﷺ کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی جارہی ہے، زمانہ جاہلیت میں آپﷺ کو ساحر اور مجنون کہنا ہو یا رام پال ہندو ، آر ایس ایس کا آپ ﷺکی شخصیت کو مطعون کرنے کی کوشش کرنا ہو، یا ازمنہ وسطی میں عیسائی راہبوں، بشپوں اور یہودیوں کا آپ ﷺکو جابر وظالم اور بزورِ شمشیر اسلام پھیلانے والا باور کرانے کی سعی نا مراد کرناہو، یا سلمان رشدی ملعون کا بدنام زمانہ کتاب “شیطانی آیات” سے آپﷺ کی طہارت و نبوت پر حملہ کرنا، یا طلیحہ کی ناپاک فکری اولاد تسلیمہ نسرین کی ہفوات و ہرزہ سرائی، یا حال میں ڈنمارک کے اخبارات میں آپﷺ کے نازیبا ، گستاخ اور انسانیت کے لئے شرمناک کارٹون شائع کرکے آپﷺ کو دہشت گرد ثابت کرنے کی ناروا جسارت کرنا ہو ، یا پھر دنیا بھر کے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینی ڈکٹ کا حالیہ بیان، سب اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور آپﷺ کی محبوب شخصیت کے خلاف ایک گہری سازش اور دور حاضر میں اربوں مسلمانوں اور آپ ﷺسے انتہائی محبت کرنے والوں کے صبر وضبط کا امتحان۔اس کے باوجود ہم مسلمانوں کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ مسلمان بنیاد پرست ہیں، جذباتی ہیں اور عصر حاضر کے ساتھ دوش بدوش چلنے سے عاجز اور صبر وضبط اور تحمل وبردباری سے عاری، اور اپنی قدیم روایات اور تہذیب وتمدن کو نئے حالات کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے سے انکاری، یا کھلے لفظوں میں مسلمان اپنے دین وایمان، عقائد ونظریات اور تمدن وثقافت کو پسِ پشت ڈال کر زمانہ کے رنگ میں بالکلیہ ڈھل جانے سے منکر۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس آیت کے مصداق بن جائیں:

وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً (النساء: 89)

’’ان کی تو چاہت یہ ہے کہ جس طرح کے کافر وہ خود ہیں تم بھی ان کی طرح کفر کرنے لگو اور پھر سب یکساں(ایک جیسے) ہوجاؤ‘‘۔
آئیے دیکھیں مسلمان نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کے تعلق سے جذباتی کیوں ہوجاتے ہیں، آخر اس کی حقیقت کیا ہے اور اسلام میں اس کا حتمی حکم کیا ہے؟ اس کا جائزہ لیتے ہیں:​
1۔ایک مسلمان کے لئے نبی کریمﷺ کا اس کی اپنی جان ومال، اہل واولاد اور ماں باپ سے بڑھ کر محبوب ہونا واجب وفرض ہے، اس کے بغیر اس کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ خود اللہ تعالی کا ارشادہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء: 65)

سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ(ﷺ) کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ(ﷺ) ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی بھی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمابرداری کے ساتھ قبول کرلیں”۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:

لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين (بخاري: 14، مسلم: 63، نسائي: 4927)

’’تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ بن جاؤں‘‘۔ نیز امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان الفاظ

میں روایت کیا ہے:

كنا مع النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏وهو آخذ بيد ‏عمر بن الخطاب ‏‏فقال له ‏عمر ‏يارسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي فقال النبي  ‏لا والذي نفسي بيده ‏حتى أكون أحب إليك من نفسك فقال له‏عمر ‏فإنه الآن والله لأنت أحب إلي من نفسي فقال النبي ‏الآن يا ‏عمر (بخاري: 6142)

’’ہم نبی کریم ﷺ کی مجلس میں تھے اور آپ ﷺ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
اے اللہ کے رسولﷺ! آپ میرے نزدیک میری جان کے سوا دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں۔ یہ سن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، نہیں ! اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، یہاں تک کہ میں تیری جان سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔ یہ فرمان سن کر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم ! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اب اے عمر! کامل بن جاؤگے”۔
2۔ ایک مسلمان کے عقیدہ کا ایک حصہ یہ ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ اپنی جان ومال، عزت وآبرو اور جاہ ومنصب کی حفاظت سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی عزت وآبرو ، آپﷺ کے دین و شریعت، قانون وفیصلہ، حدیث وسنت کی فکری وعملی طور پر حفاظت کرے اور ان پر حملہ کرنے والوں کا ہر ممکن محاسبہ ، مقاطعہ اور مقابلہ کرنے کو اپنی سعادت تصور کرے اور اپنی ہر قیمتی سے قیمتی شے کو آپ ﷺپر قربان کردینا نجات وکامیابی کا ذریعہ سمجھے اور آپﷺ پر جان ومال نچھاور کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی سیرتِ طیبہ کو اپنے ذہن میں ہمہ وقت تازہ رکھے۔ نبی کریمﷺ کے ساتھ گستاخی کے تعلق سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے چند واقعات آپ کی ضیافتِ طبع کے لئے درج کئے جاتے ہیں جن سے نہ صرف صحابہ کی آپ ﷺکے ساتھ محبت ظاہر ہوگی بلکہ نبی کریمﷺ کی اہانت اور آپﷺ کے ساتھ گستاخی کرنے والوں کے بارے میں

اسلام کا حکم اور موقف بھی معلوم ہوجائے گا:

 1۔ کعب بن اشرف ایک یہودی شاعر تھا، غزوہ بدر میں کفار مکہ کی شکست سے بہت متاثر ہوا ، مکہ جاکر قریش کو آپﷺ اور مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بھڑکایا، بلکہ واپس آکر اپنے اشعار سے آپ کی اور امہات المومنین کی ہجو بیان کرنا شروع کیا جس سے آپﷺ کو سخت اذیت پہنچی ، آگے بخاری ومسلم شریف کے حوالہ سے تفصیل پڑھئے: “نبی کریمﷺ نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف سے نپٹ لے، اس نے تو اللہ ورسولﷺ کو ایذا پہنچانے میں حد کردی، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا آپ کا اشارہ اسے ختم کردینے کا ہے؟ آپﷺ نے اثبات میں جواب دیا ، انہوں نے کہا کہ آپﷺ مجھے آپﷺ کے بارے میں کچھ نازیبا کلمہ کہنے کی اجازت مرحمت فرمائیے، آپ ﷺنے فرمایا: کوئی بات نہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس گئے اور کہا: اس شخص (نبی ﷺ) نے ہم سے صدقہ طلب کرکے ہمیں پریشانی میں ڈال دیا ہے، میں تم سے کچھ قرض مانگنے آیا ہوں، کعب نے کہا: بخدا تم ان سے اکتا بھی جاؤگے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے ان کو اپنا قائد ماناہے، لہذا ہم انہیں اس وقت تک چھوڑ نہیں سکتے جب تک یہ نہ دیکھ لیں کہ ان کا معاملہ کہاں جاکر ختم ہوتا ہے؟ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک وسق یا دو وسق کھجور قرض دو۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے لیکن بطور ضمانت میرے پاس کچھ رکھو، انہوں نے کہا، بطور ضمانت تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا اپنی عورتیں ہی رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم تمہارے پاس اپنی عورتوں کو کیسے رہن رکھیں جبکہ تم عرب کے حسین ترین آدمی ہو؟ اس نے کہا: پھر اپنے بچوں کو رکھ دو، انہوں نے کہا: ہم اپنے بچوں کو کیسے رکھیں، لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہوئے کہیں گے ایک دو وسق کے لئے اپنے بچوں کو گروی رکھ دیا ، یہ تو ہمارے لئے بڑی عار کی بات ہے، چلو ہم ہتھیارگروی رکھ دیتے ہیں۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے ہتھیار ہی سہی، ہاں فلاں دن لے آنا ۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس رات کو گئے اور اپنے ساتھ ابو نائلہ رضی اللہ عنہ( جو کعب کا رضاعی بھائی تھے) کو لےگئے۔ کعب نے انہیں قلعہ میں بلالیااور ان کے پاس اتر کر آنے لگا، کعب کی بیوی نے کہا: رات کو اس وقت کہاں جاتے ہو؟ میرے کان میں ایسی آواز سنائی پڑ رہی ہے جس سے خون کی بو آرہی ہے، اس نے کہا: یہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے اور ایک عزت دار شخص کو اگر رات کو بھی نیزہ بازی کی دعوت دی جائے تو وہ انکار نہیں کرتا۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ دو اور آدمیوں کو لائے تھےاور ان سب کو ہدایت کی تھی کہ جب میں کعب کو مضبوطی سے دبوچ لوں تو تم اس کی گردن مار دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف تیار ہو کر اتر آیا ، اس کے کپڑوں سے خوشبو چھوٹ رہی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آج تو بڑی خوشبو آرہی ہے، اس نے کہا: کیوں نہیں آئے گی میرے پاس عرب کی سب سے اچھی خوشبو لگانے والی عورت جو ہے۔ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اجازت ہو تو میں تیرا سر سونگھ لوں؟ اس نے کہا: ہاں ہاں ضرور سونگھ لو۔ محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے خود بھی سونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سونگھوایا۔ پھر محمدبن سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جی چاہتا ہےکہ ایک بار اور سونگھوں۔ کعب نے کہا: کوئی بات نہیں ضرور سونگھ لو۔ پھر جب اُس نے اپناسر جھکایا تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا اور اپنےساتھیوں سے کہا: دیکھتے کیا ہو کام تمام کرو۔ اس طرح انہوں نے کعب بن اشرف کو کیفر کردار تک پہنچادیااور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوری روداد سنائی۔ (بخاری: 3731، مسلم: 3359)
2۔ ایک نابینا صحابی تھے ان کی ایک غیر مسلم لونڈی تھی جو اس کے موتی جیسے دو لڑکوں کی ماں تھی اور ان سے بڑا پیار کرتی تھی اور اندھا ہونے کی وجہ سے ان پر بڑی مہربان تھی، مگر اس کے اندر سب سے بڑی خرابی یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کو برا بھلا کہتی اور آپﷺ کومعاذ اللہ گالیاں دیا کرتی تھی، وہ صحابی رضی اللہ عنہ اسے منع کرتے تو باز نہیں آتی تھی۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی شخصیت پر طعن کرنے اور گالیاں دینے لگی،توان جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کو اپنی ان ساری محبتوں پر نبی کریم ﷺ کی محبت غالب آئی، مارے غیرت کے وہ غلطاں وپیچاں اٹھے اور تیز دھاردار گپتی کواس کے پیٹ پر رکھا اور اوپر سے پورا وزن ڈال کر اسے قتل کردیا۔ صبح جب نبی کریم ﷺ کی عدالت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے اپنے قتل کا اقرار کرتے ہوئے اس لونڈی کی پوری روداد سنائی ۔ نبی کریم ﷺنے اعلان کیا: لوگو! گواہ رہو اس نابینا کا خون معاف ہے۔ (ابوداود: 3795، نسائی: 4002)
3۔ ابو رافع ایک یہودی تاجر تھا۔ یہ نبی کریم ﷺ کو ایذا (تکلیف) دیا کرتا تھا اور اپنی دولت اور اثر ورسوخ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا تھا، یہاں تک کہ نبی کریمﷺ اور مسلمانوں کے خلاف قبیلہ غطفان اور مشرکین عرب کی بہت زیادہ مالی مدد کیا کرتا تھا۔حجاز میں اس کا مضبوط قلعہ تھا۔ نبی کریم ﷺنے عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں چند صحابہ کرام کو اس کا کام تمام کرنے کے لئے بھیجا، تفصیل بخاری شریف کے حوالہ سے پڑھئے: عبد اللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے چند ساتھیوں کو لے کر غروب آفتاب کے بعد ابو رافع کے قلعہ کے پاس پہنچا۔میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو میں قلعہ کے اندر داخل ہونے کی تدبیر کرتا ہوں، میں آگے بڑھا اور دروازے کے قریب پہنچ کر دربان کو دکھانے کے لیے قضائے حاجت کرنے کی ہیئت میں بیٹھ گیا ۔ دربان نے اعلان کیا کہ اے اللہ کے بندے! اگر تم اندر داخل ہونا چاہتے ہو تو جلدی اندر آجاؤ میں دروازہ بند کرنے والا ہوں۔ میں قلعہ کے اندر داخل ہوگیا اور چھپ کر یہ دیکھنے لگا کہ دربان چابیاں کہاں رکھتا ہے، دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں ایک ستون پر لٹکا دیں ۔ میں اٹھا اور چابیاں اپنے قبضہ میں کرلیں۔ ابو رافع رات کو بیٹھ کر لوگوں سے قصےکہانیاں سنتا تھا، کہانیوں کی مجلس جب ختم ہوئی اور سب لوگ چلے گئے تو میں ابو رافع کے محل کی طرف اٹھا اور ہر دروازہ کو کھول کر اندر سے بند کرتا چلا گیا کہ اگر قلعہ کے لوگوں کو میرے بارے میں علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ مجھ تک نہ پہنچ سکے جب تک کہ میں ابو رافع کو قتل نہ کرلوں۔ جب میں اس کے خاص فرودگاہ میں پہنچ گیا تو دیکھا کہ کمرہ میں بالکل اندھیرا ہے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہے، تاریکی کی وجہ سے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ابو رافع کہاں ہے، میں نے آواز دی: ابو رافع ! وہ بولا: کون ہے؟ میں نےاس کی آواز کو نشانہ بناکر تلوار سے وار کردیا ، وہ چیخا، میں گھبراکر کمرہ سے باہر نکل گیا اور رک گیا، پھر دوبارہ داخل ہو کر آواز دی: ابورافع ! یہ کیسی آواز ہے؟ اس نے کہا: تیری ماں مرے، کسی نےتھوڑی دیر پہلے مجھ پر تلوار سے وار کیا ہے، پھر میں نےاس پر وار کیا اور خون آلود کردیا لیکن وہ مرا نہیں،پھر میں نے تلوار کا سرا اس کے پیٹ پر رکھا اور پیٹھ سے نکال دیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ اب یہ بچ نہیں سکتا۔اب میں دروازہ کھولتا جاتا تھا اور باہر نکلتا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب میں آخری سیڑھی پر پہنچا تو سمجھا کہ زمین پر پہنچ گیا ہوں اور اس طرح زمین پر دھڑام سے گرا تو میری پنڈلی ٹوٹ گئی ،میں نے اپنے عمامہ سے اسے باندھا اور دروازہ پر آکر بیٹھ گیا، میں نے کہا: میں رات کو نہیں نکلوں گا یہاں تک کہ پورا یقین کرلوں کہ میں نے اسے موت کے گھاٹ اتاردیا ہے۔صبح جب مرغ نے بانگ دی اور ایک آدمی نے قلعہ کی فصیل پر چڑھ کر اعلان کیا کہ اہلِ حجاز کا مشہور تاجر مارا گیا ہے، تو میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا بھاگ نکلو ، اللہ نے ابو رافع کا کام تمام کردیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس آکر میں نے پوری روداد سنائی۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنا پیر پھیلاؤ، میں نے اپنا پیر پھیلادیا، آپ ﷺنےمیرے پیر پر اپنا دست مبارک پھیرا تو اس طرح اچھا ہوگیا کہ جیسے اس سے پہلے کچھ ہوا ہی نہیں۔ (بخاری: 3733)
پیارے بھائیو! بات تھوڑی لمبی ہوگئی مگر اس تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ گستاخِ رسول اور آپﷺ کی توہین کرنے والے واجب القتل ہیں، یہی فتوی ماضی میں صحابہ میں خلیفہ ثانی سیدناعمر فاروق، ابن عباس، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اور تابعین میں پانچویں خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے دیا ہے۔ اور اماموں میں امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ نے بھی شاتم رسول کو مستحقِ قتل قرار دیا ہے، امام ابوحنیفہ نے بھی مستحق قتل کہا ہے، لیکن اگر ذمی ہے تو اسے وہ توبہ کی مہلت دیتے ہیں۔ امام ابن المنذر اور امام خطابی رحمہما اللہ نے شاتمِ رسول اور اہانتِ رسول کے مرتکب کے واجب القتل ہونے میں تمام مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی مایہ ناز تصنیف ’’الصارم المسلول‘‘ اور امام خطّابی رحمہ اللہ کی ’’معالم السنن‘‘ میں دیکھئے) ۔

بقیہ : مسلمان، امامِ کائنات سیدنا محمد ﷺ کے بارے میں جذباتی کیوں ہیں؟
آج جب ذرائع ابلاغ اور وسائل اعلام میں یورپ وامریکہ اور مغربی دنیا اوراس کے زرخرید غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہانت آمیز کارٹون اور پوپ بینی ڈکٹ کے متنازعہ مبینہ بیان پر مسلمانوں کے احتجاج پر واویلا مچارہے ہیں تو اس سے مسلمانوں کو مرعوب اور احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئےاور پوری قوت اور شرح صدر کے ساتھ اپنا موقف صحیح انداز سے بیان کرنا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ اقوام متحدہ کے 1948ء کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دفعہ 18 کے مطابق: “ہر آدمی خیال، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے” مگر “اس اظہار خیال کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ کوئی شخص دوسروں کی دل آزاری کرے”۔ اُن کے جذبات سے ،مقدّسات سے کھلواڑ کرے۔ غور کا مقام ہے کہ کیا اس زمرے میں دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان نہیں آتےکہ ان کے محبوب رسولﷺ کی اہانت وتضحیک کرکے ان کی دل آزاری، حقوق تلفی کی جارہی ہے؟ جب کسی ملک کے آئین کی توہین قابل ِسزا جرم ہے ، جب کسی دیش کے بابائے قوم کی توہین کرنے والا مستحقِ سزا ہے، جب کسی ملک کے جھنڈے کی بے حرمتی خلافِ قانون حرکت مانی جاتی ہے اور اس کا یہ قصور قابلِ سزا ہے، تو پھر دنیا کے سب سے بڑے محسن، انسانیت کے نجات دہندہ، عورتوں کے حقوق کے ضامن و محافظ، رنگ ونسل کے جاہلی امتیاز وفرق کو پیروں تلے روندنے والے، امن وامان عالَم کے داعی، انسانیت کے مشاکل کی گتھیوں کو چٹکیوں میں سلجھانے والے، دنیا کی تمام خوبیوں کے حامل انسان اور سب سے بڑھ کر تمام قابل احترام ہستیوں ،انبیاء اور رسولوں ، دانشوروں، فلاسفراورحکماءکے امام سید ولدِ آدم محمّد رسول اللہ ﷺکی اہانت وگستاخی قابلِ سزا اور واجب القتل کیوں نہیں ہوگی؟

نبی اکرم ﷺ کی دعوت میں حکمت ایک عظیم پہلو

اللہ تعالی نےانسانوں کو پیدا کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے وقتا فوقتاً انبیاء و رسل کا سلسلہ بھی جاری کیا اور ہر ایک نبی کو دلائل ومعجزات اور براہین بھی عطاکیے اوراس کے ساتھ اس نبی کو دعوت کا اسلوب بھی سکھایا کیونکہ صرف دلائل ومعجزات کافی نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھار ایک حکیمانہ اسلوب ایسا اثر کرتا ہے کہ مخاطب صرف دعوت ہی قبول نہیں کرتا بلکہ دعائیں دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔اللہ رب العزت نے سیدنا موسی علیہ السلام کو معجزات عطا کیے اور فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا اور ساتھ ساتھ اپنے پیغمبر کی رہنمائی بھی فرمائی ۔فرمان باری تعالی ہے :

اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى  فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى (طہ 43۔44)

 تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہےاسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔
حالانکہ اس وقت کا بلکہ دنیا کا سب سے بڑا کافر تھا اس کے باوجود اللہ رب العزت نے نرمی کا حکم دیا ۔اسی طرح جب اللہ تعالی نے پیغمبر آخر الزماں محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا :

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل 125)

اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے ۔
اورآپ ﷺ اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور سیرت طیبہ کااگر بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ ﷺ کی کوئی دعوت حکمت اور بصیرت سے خالی نہ ہوتی تھی بلکہ مخاطب پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اس جیسا داعی اور معلم کبھی دیکھا ہی نہیں ۔
سیدنا معاویہ بن حاکم رضی اللہ عنہ جب نماز میں باتیں کرنے لگے اور انہیں معلو م نہ تھا کہ نماز میںکلام کرناممنوع ہوگیا ہے ،جب نماز ختم ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے پوچھا نما زمیں باتیں کون کررہا تھا،سیدنا  معاویہ رضی اللہ عنہ ڈر گئے کہ شاید اب نبی اکرم ﷺ مجھے ڈانٹیں گے آپ ﷺ نے انہیں قریب بلایا اور سمجھایا کہ یہ نماز ہے اس میںباتیں کرنا درست نہیں اس عمل سے نماز باطل ہوجاتی ہے ،سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم ﷺ نے ا س حسین اسلوب سے سمجھایا تو فرماتے ہیں ؛

مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي (صحیح مسلم : 537)

اللہ کی قسم میں نےکبھی نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں کوئی ایسا معلم آئے گا ،مجھے نہ مار ا،نہ ڈانٹا اور نہ گالی دی ۔
کس قدر آپ ﷺ کی دعوت نے اثر کیا اور کس انداز میں آپ ﷺ نےانہیں سمجھایا ۔اسی طرح ایک اعرابی مسجد میں داخل ہو ااوراس نے پیشاب کرناشروع کردیا صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین آگے بڑھے تاکہ اسے منع کیا جائے ،رسول اللہ ﷺ نےصحابہ کو منع کیا کہ اسے کچھ نہ کہا جائے جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو ااور آپ ﷺ نےاسے بلایا اور سمجھایا

إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنَ الْقَذَرِ وَالْبَوْلِ وَالْخَلَاءِ (مسند احمد :12984 )

کہ یہ مساجد اس لیے نہیں کہ اس میں پیشاب کیا جائے اور اس میں گندگی کی جائے( بلکہ یہ عبادت کے لیے ہیں)
آپﷺ کے سمجھانے کے بعد اس اعرابی نے جو الفاظ کہے وہ قابل غور ہیں ،آپ ﷺ نے کس قدرنرمی اور شفقت سے سمجھایا کہ ذیلی کلمات کہے بغیر نہ رہ سکا :

اللهُمُ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا، وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا(سنن النسائی 1216)

اے اللہ مجھ پراور محمد ﷺ پر رحم کر اور کسی پر رحم نہ کر نا ۔ حالانکہ دیہاتی تھا اور دیہاتی لوگ عموماً رحم کی صفت سے عاری ہوتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی تعلیم سے اس قدر متاثر ہو اکہ اس کے لب فوراً دعا کے لیے کھلے اور اگر ہم آج کے دور کےواعظینومبلغین کی طرف دیکھیں تو عموماً اس اسلوب اور انداز سے نا آشنا نظر آتے ہیں اور اگر کوئی شخص یا داعی کوشش کرتاہے تو ہم اسے عیب سمجھتےہیں کہ اس کےمنہج میں لچک ہے یہ دعوت اتنی کمزور تو نہیں کہ اس کو اس طریقے سے پہنچایا جائے اور دعاۃ کا یہمقام نہیں کہ عام لوگوں کی محفل میںجائیں اور انہیں سمجھائیں بجائے اس کے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے دعو ت کا کام کریں ہم صرف فتووں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یہاں تک نوبت ہی نہیں آتی کہ لوگوںکو دعوت دیں بلکہ ہم  پہلے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ فلان بدعتی ہے وہ ہماری دعوت کہاں قبول کرے گا یا بدعتی انسان سے نرم انداز میں بات نہیں کرنی چاہیےیہ سراسرتعلیمات نبویﷺ کے خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ۔

فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ(صحیح البخاری 220)

’’ بیشک تم تو آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو اور تم تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو ‘‘
نبی اکرم ﷺ نے معاذ بن جبل اور ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہماکو یمن کی طرف گورنر بناکر بھیجا تو ان کو یہ خصوصی نصیحت فرمائی

يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا(صحيح البخاري:69)

’’ لوگوں کےلیے آسانی پیدا کرنا اور تنگی پیدا کرنے سے گریز کرنا اور لوگوں کو خوشخبری سنا کر قریب کرنا اور انہیں متنفر مت کرنا‘‘اس لیے کہ دین میں آسانی ہی آسانی ہے
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فر مایا

 إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ(مسند ابن ابی شیبة596)

کہ تمہارا بہترین دین اور منہج وہ ہے جو آسان ہو ۔
آج مسلمان کے موجودہ حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایسے داعی اٹھیں جو نبی اکرم ﷺ کےاسوۂ حسنہ کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کریں انہیں دین کے قریب کریں اور انہیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کریں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آپ ﷺ کی تعلیمات کا حقیقی فہم نصیب فرمائے ۔(آمین)

سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں رنگوں کا استعمال

دین اسلا م کا علم حاصل کرناہر کلمہ گو مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔دین اسلام کے عقائد و فرامین اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کی پسندیدہ اور نا پسندیدہ باتوں کا علم ہونا چاہیےتاکہ صحیح عمل کرکے قیامت کے دن سرخ رو ہو سکیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔

إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ يُعْطِي(البخاری71)

میں دین کاعلم تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ تعالی دین دینے والا ہے ۔
ٓصد افسوس کہ ہم نے شریعت کے تمام سنہری اصولوں اور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو پس پشت ڈال دیا اور اپنی خواہشات اورجذبات کےپیروکاربن گئےہیں۔ ہمارے دل اپنےپسندیدہ طور طریقوں پر پتھر سے زیادہ سختی سے جمے ہوئے ہیں سنت ﷺ کو جان لینے کے باوجود ہم انہیں چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(البخاری5063)

جس نے میرے طریقے سے منہ موڑااس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
قرآن مجیدمیں اللہ رب العزت کاارشادہے :

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ  ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (الاعراف26)

اے آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ‘ ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور آرائش و زیبائش کا سبب بھی ہے اور (اس سے بڑھ کر) تقویٰ کا لباس جو ہے وہ سب سے بہترہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت اخذ کریں۔
اس آیت میںاللہ تعالی نے ہمیں تین احکام دیے ہیں لباس قابل ستر حصوں کو ڈھانپےوالاہو،تمہاری زینت کاباعث بھی ہو اورعملی زندگی میں پرہیز گاری اختیار کرو
لباس کا حکم دینے کے لیے اللہ تعالی نے تمام ا بن آدم کو خطاب فرمایاجس کامطلب یہ ہے کہ لباس کا بلااستثناء مذہب و ملت ہے اولاد آدم کے لیے ایک جیسا ہے گویا لباس کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔اسی سورۃ میں ایک اور مقام پر فرمایا۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ    (الاعراف 31)

اے آدم کی اولاد ‘ اپنی زینت استوار کیا کرو ہر نماز کے وقت اور کھاؤ اور پیو البتہ اسراف نہ کرو ‘ یقیناً وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

كُلْ مَا شِئْتَ وَالبَسْ مَا شِئْتَ مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ

’’جوچاہو کھاؤ ،جو چاہو پیو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ،اسراف اور تکبر۔(البخاری5283)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنااللہ تعالی اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا۔(ابن ماجہ2905)
شہرت کے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو عام لوگوں کے ملبوسات ورنگوں سے مختلف رنگ کا ہونے کی وجہ سے
شہرت کا باعث بنے،لوگوں کی نظر یں اس کی طرف اٹھیں
اور اسے پہننے والاتعجب و تکبر میںپڑجائے۔
یادرہے کی حدیث نفیس ،عمدہ لباس پہننے کی مخالف نہیں بلکہ عوام الناس کے لباس سے مختلف رنگ کے لباس ،تکبر فخروریاءکے لیےپہنے گئے لباس کی ممانعت ہے۔
جب سے مردوں میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کا غلبہ ہواہے تب سے مردوںنے عورتوں کی چلن اختیار کرلی ہےنہ رنگوںکی سوچ ،نہ سوتی و ریشمی کپڑے کی تمیز ،رنگوں کے انتخاب کے بارے میں پڑھے لکھے اور باشعور طبقات بھی سنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ہم ان شاءاللہ اس موضوع میں سنت رسول ﷺ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ رنگوں کے بارے میں بتائیں گے تاکہ معاشرے کے تمام مسلمان ایک ہی راستے کے راہی بن جائیںجو آپ ﷺ کابتایا ہوا راستہ ہے کیونکہ اسی پر چل کر ہم جنت کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے لیے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے انہیںمعصفرر کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ یہ تو کا فروں کا لباس ہے تو نہ پہن ‘‘ (مسلم 5318)
معصفرسے مرادوہ کپڑاہے جسے عصفر یعنی (زرد رنگ کی بوٹی)سے رنگ کیاہو گویا ایک مسلمان اپنے لباس کےرنگ کاا نتخاب کرنے میں بھی اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا پابند رہے ۔
نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح ایک مسلمان کے لیے عبادات اور معاملات کے احکام کی پابندی ضروری ہے اسی طرح لباس کے احکام کی پابندی بھی ضروری ہے ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’نبی کریمﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے جبکہ آپ ﷺ نے سیاہ پگڑی زیب تن کر رکھی تھی (سنن نسائی 5347)
مکمل لباس سیاہ رنگ کا نہ ہو کیونکہ دور حاضر میں یہ ایک خاص فرقے کی علامت بن چکا ہے انکے خاص ایام میں ایسالباس نہ پہنا جائے عام دنوں میں بھی پہننے سے بچنا چاہیے کیو نکہ عرف عام میں سیاہ رنگ حزن و ملام کی علامت ہے صرف پگڑی سیاہ ہو تو ان سے مشابہت نہیں ہوتی ۔نبی اکرم ﷺ نے بھی سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا تھا اورآج ہم کس رنگ کا باندھ رہے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہے ہیںذراخود سوچ لیجیے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’رسول اکرم ﷺ نے مجھے قسی (ایک قسم کے ریشم)کے کپڑے ،کسم (پھول جس سے سرخ رنگ کے کپڑے رنگے جاتے ہیں )سے رنگے ہوئے کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ (سنن نسائی 5180)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی مرد زعفران کے رنگ ک استعمال کرے۔(البخاری5846)
دورحا ضر میںزعفرانی رنگ کے کپڑے ہندوپنڈت اور جوگی استعمال کرتے ہیں ،انہی سے متاثر ہو کر یہ رنگ اسلامی معاشرے میں منتقل ہو رہا ہے،مسلمانون میں پائی جانے والی ہندوانہ رسم مہندی،ابٹن میں لڑکیاں زعفرانی رنگ کے ملبوسات زیب تن کرتی ہیںانہی کو دیکھ کر لڑکوں نے بھی یہ رنگ اپنالیا ہے جبکہ اسلام میں یہ رنگ مردوں کو پہننامنع ہے لیکن مسلمان مرد لا علمی میںشریعت کی خلاف وزی کے ساتھ غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیا ر کر رہاہےجبکہ نبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا ہے جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میںہے۔(ابو داؤد4031)
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ـ’’سفید کپڑے پہنا کرو یہ سب سے سے زیادہ بہتر اورپسندیدہ ہےاور انہی اپنے میں مُردوں کو کفن دیا کرو۔(سنن نسائی 3324)
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے سفید کپڑے کو اپنی پسند اور بہترفرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ سفید کپڑے پہنو اور اپنے مردوں کو اس سے کفن دو ۔سفید کپڑے فرشتوں کا بھی لباس ہے ایک حدیث میں ذکر ہے جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے نہایت سفیدلباس زیب تن کیا ہو تھا (مسلم93)سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ نبی اکرمﷺ کو تمام کپڑوں میں یمنی سبز چادر پہننابہت پسند تھی (صحیح البخاری 5813)
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ہم نےسیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ نبی اکرم ﷺکو کونسالباس سب سے زیادہ پسند تھا ؟تو انہوں نے فرمایاکہ نقشی دار(دھاری دار) ۔(سنن ابی داؤد4060)
دھاری دار چادریں بالخصوص یمن میں بنتی تھی انکی پسندیدگی کی وجہ غالبا ً انکی مضبوطی اورمیل خوار ہونا تھی ۔
سیدنا رفاء بن یثربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ہاں گیا تومیں نے نبی اکرمﷺ پر سبز رنگ کی دھاری دار دو چادریں دیکھیں(ابوداؤد4065)
قرآن مجید نے اہل جنت کے ریشم کے سبز لباس کاذکر فرمایا ہے’’انکی اوپپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہوگی ۔(الدھر61)
سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے میں نےآپ ﷺ کو سرخ جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ،میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی (البخاری 3551)علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت کی ہے کہ یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہیں تھابلکہ ا س میںسرخ رنگ کی دھاریا ں تھیںجسے ’’برو‘‘ کہا جاتاہے (زاد المعاد1/132|)
اس حدیث سے بعض علما ء نے استدلال کیا ہے کہ مردوں کے لیے سرخ لباس بھی جائز ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کا رجحان ہے ۔تاہم بعض علماء نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کایہ سرخ رنگ کالباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھابلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں۔جس کے جواز میںکوئی شک نہیں اس لیےان کے نزدیک سرــخ رنگ کے کپڑے جس طرح عورتیں پہنتی ہیں ،مردوں کے لیے جائز نہیں ہیں ۔بعض علماء نے کہا ہے کہ حالات و ظروف کے مطابق اس کا حکم ہوگا اگر کسی جگہ یہ رنگ کافروں کا شعار یا عورتوں کالباس ہے تومشابہت کی وجہ سے ناجائز ہوگا،بعض علماء نے کہا ہے کہ گھر کے اندرمر د کے لیے سرخ رنگ کا لباس جائز ہے اور گھر کے باہر اجتماعات اور مجلسوں میں ناجائز ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ سرخ رنگ کا لباس (مردوں کے لیے ) بجائے خودممنوع نہیں حالا ت و ظروف کے مطابق اس کے جوازو عدم جواز کا فیصلہ ہوگا جیسے آج کل ہمارے زمانےاورمعاشرے میںخالص سرخ رنگ کا جوڑاعورتوں کابالخصوص شادی کے موقع پر دلہنوں کا مخصوص لباس ہے اس لیے مردوں کے لیے اس کا استعمال ناجائز ہوگا۔تاہم یہ عدم جواز صرف عورتوں سے مشابہت کی وجہ سے ہے ورنہ اس کی ممانعت کی کوئی حدیث ثابت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب (ریاض الصالحین 1/638)
مسلمان مرد ہو یا عورت مذکورہ احکام الہی کا پابند ہے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والا قرآن وحدیث کو اپنے فکر و نظر اور علم وعمل کا محو ربنالے تو اس کے عقائد کی بھی تطہیر ہو جاتی ہے اخلاق و کردار کا بھی تزکیہ ہوجاتاہے آخرت کی زندگی سنوارنے کا جذبہ بھی توانا اور قوی ہوجاتا ہے جس کے بعد ہمیںبرائی سے بچنا اور ہر نیکی کا کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
انسان بھی اپنےتخلیق کے بنیادی مقصد اور اپنے رب کے سامنے اپنی پوری زندگی کےاحتساب پر غور کرلے تو انسان کبھی بھی دنیا کی لذتوں کی طرف توجہ نہ کرے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو‘‘(ترمذی2307)
موت کو ہر وقت یاد رکھنا ہی انسان کو آخرت کی تیاری پر مجبور کرتا ہے اور جو شخص آخرت کی تیاری کرتا ہے تو لازمی ہے کہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کردیتا ہے ۔درحقیقت یہی شخص اللہ تعالی کاحق ادا کرتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تبصرۂ کتب

نام کتاب: تذکرہ مشاہیرِ سندھ المعروف’’ گلستانِ محمدی‘‘
تاریخ وتالیف:  دسمبر 2016ء
مؤلف:  پروفیسر مولا بخش محمدی
مؤلف کا علمی تعارف: کتاب کے آخر ٹائٹل پرمحفوظ ہے۔
صفحات: 528    کاغذ :  اعلیٰ سفید
جلد:  مجلّد        سرورق:  چہار رنگہ
سائز:  20×30/8      تعداد: درج نہیں
قیمت: درج نہیں
ناشر و تقسیم کار: مکتبہ بیت السلام ریاض سعودی عرب/لاہور
با ہتمام:  بحر العلوم ٹرست میر پور خاص سندھ
سندھ میں ملنے کا پتہ :  درج نہیں
ملنے کا پتہ : رحمان مارکیٹ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور۔
رابطہ نمبر: 0321-9350001، 042-37361371، 37320422۔  
مؤلف کا رابطہ نمبر:  0333-2502157
پیش نگاہ تحریر اردو اور سندھی زبانوں میں شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے ۔ ( جو کہ مختلف اخبار، رسائل و جرائد میں وقتاً فوقتاً لکھے گئے) جو کہ قابلِ ستائش عمل ہے کیونکہ اگر یہ مضامین مختلف جگہوں پر بکھرے رہتے تو بہت سارے ضرورت مند اہل علم حضرات ان سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے۔
تاہم ذی وقار قارئین کرام پیش نگاہ تبصرہ پڑھنے والے حضرات دو قسم کے ہوں گے۔
1 ۔وہ لوگ جن کے پاس ”تذکرہ مشاہیر سندھ“ ہوگی۔  2۔ جن کے پاس یہ کتاب نہیں ہوگی۔
لہذا جن حضرات کے پاس یہ کتاب نہیں ہے ان کیلئے
کتاب کے مندرجات لکھنا بھی اہم ہیں۔
1۔ کتاب کے آغاز میں بلا عنوان افتخار احمد تاج الدین الازھری  نے اظہار خیال فرمایا ہے۔
2۔ ”حرف آغاز“ کے عنوان سے مولانا محمد اسحاق بھٹی  نے کتاب کا عصیر / نچوڑ پیش کیاہے۔
3۔”حرفے چند“ کے عنوان سے کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں محمد رمضان یوسف سلفی  نے لکھا۔
4۔”سخن ہائے گفتنی“ کے عنوان سے محمد تنزیل الصدیقی الحسینی نے لکھاہے۔
5۔”پیش لفظ“ کے عنوان سے اس کتاب کے تخلیق کار نے اظہار خیال فرمایا ہے۔
 اس کے بعد کتاب کا حصہ اوّل اور (اردو مضامین) ہیں۔ جس کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔
حصہ اوّل  (اردو مضامین)
ٍ1 ۔ سید احسان اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ
  2۔ پروفیسر علی احمد انصاری رحمہ اللہ
3۔حاجی احمد علی میمن کی یادیں اور باتیں  
4۔مولانا احمد ملّاح  رحمہ اللہ
5۔مولانا احمد ملّاح رحمہ اللہ
ؒ 6۔ ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ
7۔مولانا اللہ بخش تونیہ رحمہ اللہ
8۔مولانا محمد ریگستانی  
9۔مولانا محمد حیات لاشاری رحمہ اللہ
10۔مولانا دین محمد وفائی  رحمہ اللہ
11۔ڈیپلو کی علمی ادبی شخصیات کی یادیں اور باتیں  12۔مسلک اہلحدیث کی ترویج میں راشدی خاندان کی خدمات  
13۔سیّد رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا سانحہ ارتحال  14۔ڈاکٹر زبیر احمد دُوسانی  
15۔علامہ سعید بن یوسفزئی اور حافظ محمد ادریس
16۔مبلغ اسلام مولانا محمد سلیمان کھتری رحمہ اللہ
17۔مولانا عبد اللہ رتو دیروی  
18۔ مولانا عبدالجبار سلفی  رحمہ اللہ
19۔مولانا عبد الجبار گوندل رحمہ اللہ
20۔ آہ! قاضی عبد الحق انصاری بھی چل بسے  
21۔قاری عبد الخالق رحمانی  
22۔مرد خوش خصال- عبدالرحمٰن میمن رحمہ اللہ  
23۔مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ
24۔عالم ربّانی مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ  
25۔1942ء کا تاریخ ساز واقعہ اور مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ
26۔مولانا حکیم عبد العلیم ملکانی رحمہ اللہ
27۔مولوی محمد عمیرڈیپلائی  رحمہ اللہ
28۔مولانا گل محمد ریگستانی  
29علامہ سیّد محب اللہ شاہ راشدی ؒ کی یاد میں (تاثرات)  
30۔سیّد محب اللہ شاہ راشدی- ایک عہد ساز شخصیت  
31۔مولانا محمد خان لنڈ مرحوم کلوئی والے  
32۔مولانا محمود حسن تونیہ رحمہ اللہ
33۔مولوی نصیر الدّین ساھڑ رحمہ اللہ
34۔مولوی محمد ہاشم نھڑوی
ؒ35۔پروفیسرمحمد یامین محمدی
36۔ مولانا محمد یوسف زبیدی رحمہ اللہ
37۔برصغیر میں علم حدیث کا احیاء  
38۔ عقیدہ توحید اور علمائے اہل حدیث سند ھ کی خدمات  
39۔ محمد بن عبد اللہ الظاھری  
40۔ مفتی محمد ادریس سلفی رحمہ اللہ۔
حصہ دوم  (سندھی مضامین)
سندھی زبان میں شخصیات پر لکھے گئے مضامین اور ان پر لکھے گئے تبصرے۔
سندھی اہل زبان سے بڑی معزرت کے ساتھ سندھی رسم الخط پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے درج ذیل نام اردو میں لکھے جا رہے ہیںامید ہے سندھی زبان کے اہل علم حضرات ہمارے عذر کو قبول فرما لیں گے۔
1۔ مھاگ: پروفیسر محمد جمن کنبھر
2۔ بہ اکر: مولانا محمد خان محمدی ملکانی  
3۔مولانا ابو سالک سندھی     4۔حاجی ابو طالب میمن  
5۔علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی  
6۔مولانا حاجی احمد ملّاح بدین  7۔ مولانا محمد اسحاق جونیجو  
8۔مولانا محمد اکرم علی انصاری ھالائی  
9۔حاجی اللہ جڑیو ارباب      10۔مرحوم امیر حسن ارباب  
11۔علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی  
12۔حاجی تاج محمد ارباب  13 مولانا جان محمد نہڑیو  
14۔حافظ حاجی جام علیانی  15۔مولانا حبیب اللہ چوہان  
16۔ علامہ محمد حیات سندھی  17۔ استاد محمد حیات بجیر  
18۔مولانا محمد حیات لاشاری  
19۔ مرحوم خان صاحب ارباب توگاجی  
20۔مولانا خیر محمد زمانی  
21 ۔سید رشد اللہ شاہ راشدی (اوّل)  
22۔سید روح اللہ بن محب اللہ شاہ راشدی  
23۔ سید روح اللہ بن یاسین شاہ راشدی  
24۔مولانا محمد سلیمان کھٹی نئون کوٹ  
25۔مولانا شہاب الدین نہڑیو  
26۔ حاجی صاحب ڈنو میمن  
27۔حاجی محمد صدیق دل  
28۔ حاجی عبد اللہ ارباب  
29۔قاضی عبد الحق انصاری ھالا  
30۔ ڈاکٹر عبد الرزاق ارباب  
31۔مولانا عبد الرحمان مٹیاری  
32۔ مولانا عبد الرحمان ھوتی  
33۔مولانا عبد الرحیم پچھمی  
34 ۔مولانا عبد الرحیم پچھمی  
35۔ پروفیسر عبد المجید ساھڑ (حر)  
36۔ مولانا عزیز اللہ ساند  
37۔ مرحوم علی بخش ڈورتھ  
38۔مولانا علی محمد جونیجو  
39۔ حاجی علی محمد مٹھوانی  
40۔مولانا محمد عمر جونیجو ڈیپلو  
41۔ مرحوم غلام محمدجنہنجی
42۔ حاجی فیض محمد ارباب  
43۔حاجی قاضی اللہ جڑیو ارباب  
44۔مرحوم قاضی محمد ابراہیم تھیبور سعید پور  
45۔ مرحوم مجیب الرحمان نہڑیو  (پروفیسر محمد جمن کنبھر)  
46۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی  
47۔مرحوم محمد محسن ھنگورجو     48۔مرحوم محمد حسین مورو  
49۔ علامہ سید محمد شاہ راشدی  
50۔مولانا محمد علی جونیجوعالم بھلی  
51۔ پروفیسر محمد عمر میمن      52۔ استاد محمد مراد جونیجو  
53۔ مرحوم ارباب مراد علی ایڈوکیٹ  
54۔مرحوم امان مریم میمن ڈیپلو  
55۔مرحوم مشتاق احمد مٹھوانی ڈیپلو  
56۔ مرحوم معمور یوسفانی     57۔مرحوم منٹھار ارباب  
58 ۔ مرحوم منصور ویراگی    59۔ مرحوم محمد موسیٰ نہڑی  
60۔ حاجی میر محمد ارباب  61۔ پروفیسر محمد وارث سنگراسی  
62۔ حاجی گل محمد کورم  
63۔ مولانا محمد ہاشم نہڑی سدوئی  
64۔ مرحوم محمد یونس ساہڑ۔
آپ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی تحریر ہو بڑی مغزماری محنت اور جانکاری سے معرض و جود میں آنے کے بعد تنقید و تحسین کے مرحلے میں داخل ہوجاتی ہےبعض لوگ قلمی اور بعض کلامی انداز سے تنقیدی قینچیاں چلاتے اور بعض لوگ تحریر کو تنقید کی قینچیوں سے تہذیب کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں یعنی تنقید دو طرح کی ہوتی ہےیا تحریر کا مُثلہ کر دیتی ہے یا تنقید تحریر کو حسن کے زیور سے بنا سنوار دیتی ہے۔ اور بعض لوگ لکھنے والے کی تحریر کو تحسین کا جامہ پہنا کر مؤلف یا مصنف کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ مصنف کی حوصلہ افزائی بھی ہو اور مصنف کی تحریر کو اپنے تئیں مناسب تنقید کے مرحلے سے گزارا جائے تاکہ مؤلف کو اپنی تحریر کے دونوں رُخ ہی دیکھنے کا موقعہ مل سکے۔
 میں یہ کہا کرتا ہوں کہ کسی کی شخصیت کے بارے میں لکھنا اپنے آپ کو مسندِ عدل پر بٹھانے کے مترادف ہوتا ہے، شخصیت کے سکّے کے دونوں (تاریک اور روشن) رخ دکھانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ بلا شبہ یہ مشکل ترین کاموں میں سے ہے اس لیے جو لوگ شخصیات پر لکھتے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ شخصیت کے دونوں پہلو دکھا نے میں بڑے حزم و احتیاط سے کام لیں۔یہ بھی ایک المیہ ہے کہ شخصیت پر لکھنے کے لیے اکثر و بیشتر ہم اس کے مرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں حالانکہ زندہ شخص اپنے بارے میں مستند اور وسیع معلومات فراہم کر سکتا ہے۔
پیش نظر کام بہت وقیع ہے اس کتاب کے اندر بعض ایسی شخصیات آگئی ہیں جو اپنے عہد کی تاریخ ساز شخصیات تھیں۔ محمدی صاحب کے وسیلے سے ان شخصیات سے متعارف ہونا ہمارے لیے اعزاز و افتخار کی بات ہے مثلاً حاجی احمد ملّاح رحمہ اللہ، مولانا عبد الرحیم پچھمی رحمہ اللہ، راشدی خاندان کے علماء اور ان کے ضمن میں بہت ساری دوسری شخصیات کا بھی تعارف حاصل ہوگیا۔
قاری کے ذہن کو ہلکاپھلکا رکھنے کےلیے پروفیسر صاحب نے جا بجا اردو، عربی، فارسی اور سندھی اشعار کا اہتمام کیا ہے۔میں یہ سمجھتاہوں کہ جس طرح بچہ جنم سے پہلے ماں کا خون چوستا ہے اسی طرح تحریر بھی مصنف کا خون چوستی ہے آپ نے کئی لوگ ایسے دیکھے ہوںگے جو ضخیم اور کئی جلدوں پر مشتمل کتابوں کے مصنف ہوتے ہیں مگر خود دبلے پتلے ضعیف اور نحیف ہوتے ہیں۔ خون دینے سے تحریر میں جان آجاتی اور دم آجاتا ہے اور عربی زبان میں ‘”دم“ خون کو کہتے ہیں۔
واقعۃً تحریر میں اگر دم ہوگا تو لکھنے والوں کو دعائیں اور مبارک بادیں ملتیںکبھی تحفے ملتے اورکبھی پیسے بھی ملتے ہیں۔مگر کبھی کبھی اس کے بر عکس کوسنے اور کبھی مغلظات بھی ملتے ہیں۔ تاہم مولا بخش صاحب کا کہنا ہے کہ میں اس کتاب کے چھپنے سے پہلے اور بعد کے مراحل میں صعوبتوں کا شکار ہو گیا۔
مجھے اپنی ہی کتاب خریدنی پڑی اور کئی ہزار کی لاگت سے میں نے یہ کتاب خرید کر دوستوں میں بلا قیمت تقسیم کی اور اپنے ہی بعض احباب سے سرد گرم باتیں سننے کا تجربہ اور بعض بدذوق اہل علم سے تعارف حاصل ہوا۔

خیر! تصنیف و تالیف کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد بعض اوقات ایسے ایسے معاملات بھی پیش آجاتے ہیں جن کی انسان کو امید نہیں ہوتی یا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
مگر میرا یہ حسن ظن ہے کہ مصنف کو یہ کتاب نہ صرف سندھ سے باہر متعارف کرائے گی بلکہ بیرون ملک سے بھی دادِ تحسین دلوائے گی باوجود اس بات کے کہ اس کتاب میں پروف ریڈنگ کی اغلاط موجود ہیں مثلاً صفحہ 7 پر علاقے کو علائقے صفحہ 141 پر کھوکھر کو کوکھر، صفحہ 153 پرشعر درج ہے اور بلا وجہ حاشیے ؎ کا نشان موجود ہے۔ صفحہ 105 پر ایک پیراگراف کو تین بار لکھا گیا ہے۔کتاب کے ٹائٹل اور اندرون ٹائٹل پر لکھا ہے۔
1۔ بحر العلوم ٹرسٹ میر پور خاص سندھ ،  2۔ مکتبہ بیت السلام ،  دونوں میں سے کسی کے شروع میں ناشر نہیں لکھا۔مگر ایک علیحدہ جگہ پر لکھا ہے ”جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں“اسی طرح کتاب کی فہرست میں ”مشاہیر سندھ“ سے ہٹ کر بھی بعض اہلِ علم شخصیات کا ذکر آگیا ہے۔ اسی طرح فہرست کو جب آپ غور سے پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ بعض عنوان ہو بہو ایک ہی جیسے ہیں اسی طرح راشدی خاندان کے علماء کو ایک ہی ترتیب میں ذکر کرنے کی بجائے جا بجا وقفے وقفے سے تین مختلف جگہوں پر ذکر کر دیا گیا ہے۔ لگتا ہے فہرست الجھن یا عجلت میں تیار کی گئی ہے۔
اس کتاب میں سندھ کے ان مشاہیر کا بھی ذکر کرنا چاہیئے تھا جو پیدا تو سندھ میں ہوئیں مگراہل عرب کو ان کے ممالک میں فیض پہنچایا جس طرح مصنف نے بعض ان شخصیات کا تذکرہ کیا جو پیدا تو ہندوستان میں ہوئیں مگر وفات سندھ میں پائی جیسا کہ قاری عبد الخالق رحمانی  کا تذکرہ فرمایا۔فہرست سازی میں بہت محنت اور توجہ کی ضرورت ہے، ان سب کچھ کے باوجود اردو اور سندھی زبان کے اہل علم کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے بالخصوص جو شخصیات کے حوالے سے معلومات میں اضافےکے خواہاں، سندھ میں اہلحدیث کی مشکلات سے متعارف ہونااور سندھ میں تاریخ اہل حدیث جاننا چاہتےہوں۔

سفر نامہ رسول اللہ ﷺ

قارئین کرام ! رسول اکرمﷺ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں بہت سے سفر کیے جن میں سے بعض ذاتی ،بعض دعوت و جہاد کے سفر شامل ہیں آ پ ﷺ کی زندگی کے ہر پہلو پر جہاں اہل سیر نے قلم اٹھایا وہیں ضروری ہے کہ آپﷺ کی زندگی کہ اس پہلو پر بھی قلم اٹھایا جائے تاکہ آپﷺ کی سیرت سے محبت کرنے والوں سے آپﷺ کی زندگی کا یہ پہلو بھی مخفی نہ رہے
آئیے! قارئین کرام رسول اکرمﷺ کا مختصر سفر نامہ ملاحظہ فرمائیں ۔

1سفر ولادت:

آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں شعب بن ہاشم میں9ربیع الاول سنہ عام الفیل بروز پیر پیدا ہوئے اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور ۲۰یا ۲۲ اپریل 571ء کی تاریخ تھی۔

2سفر بنو سعد :

جس وقت رسول اکرمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت کا یہ معمول تھا کہ یہ لوگ اپنے بچوں کو شہری امراض سے دور رکھنے ،جسم کو طاقتور کرنے اور خالص عربی زبان سیکھنے کی غرض سے دیہاتی عورتوں کے حوالے کرتے کہ وہ  انہیں دودھ پلائیں اور پھر ان خواتین کو اس کا معاوضہ دیا جاتا۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے بعد کے ایام میں قبیلہ بنو سعد کی کچھ خواتین ایسے بچوں کو گود لینے کی غرض سے مکہ آ ئیں تو ان میں ایک خاتون حلیمہ سعدیہ کو کسی بڑے گھرانے کا بچہ گود نہ مل سکا تو انہوں نے مجبوراََ ایک یتیم کو اٹھا لیا یہی یتیم بچہ بڑا ہو کر اللہ کا آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ بنے ۔بعد میں آپ کی وجہ سے بنو سعد میں جو برکات نازل ہوئیں ان سے دنیا بخوبی واقف ہے ۔
آپ کل چار یا پانچ سال بنو سعد میں رہے پھر آپ کی رضاعی والدہ نے آپ کو آپکی والدہ کے حوالے کردیا ۔

3 چچا کی معیت میں شام کا سفر:

آپ کی عمر مبارک جب کم و بیش بارہ برس کی ہوئی تب آپ اپنے چچا سردارابو طالب کے ساتھ شام کے سفر پر نکلے جب آپ بصری حوران کے مرکزی شہر میں پہنچے تو ایک راہب کے مشورے پر آپﷺ کو آپ کے چچا نے بعض غلاموں کی معیت میں مکہ واپس بھیج دیا ۔

4سفر تجارت:

سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ عرب میں تجارت کا ایک قائدہ ہوتا تھا کہ جن کے پاس دولت ہوتی تھی وہ روپیہ دیتے تھے اور دوسرے محنتی لوگ جن کے پاس تجارت کرنے کا سلیقہ ہوتا تھا اس پیسے کو لیکر تجارت میں لگاتے تھے آپﷺ نے بھی اسی طریقہ پر تجارت شروع کی عرب میں خدیجہ نامی ایک عورت تھی جو اپنا مال لوگوں کے ذریعے بھیجا کرتی تھیں جب انکو آپ کی ایمانداری اور سچائی کا علم ہوا تو آپﷺ کو اپنا مال تجارت کے لئے دیدیا اور اپنے ایک غلام میسرہ کو بھی
ساتھ بھیجا اس تجارت سے بہت نفع حاصل ہوا جس نے
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بہت خوش کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ کو پیغامِ نکاح بھیج دیا اور کچھ دن بعد نہایت سادگی اور بے تکلفی سے یہ تقریب انجام پائی ۔

5 سفر معراج:

اہل سیر اس سال کو عام الحزن کے نام سے لکھتے ہیں کیونکہ اسی سال آپ ﷺ کے چچا اور غمخوار بیوی کا انتقال ہوا تھا ایسے موقع پر اللہ رب العالمین اپنے محبوب کا ڈھارس بندھانا چاہتے تھے تو آپ ﷺ کو معراج پر بلوایا آپﷺ کے لئے برّاق کی سواری بھیجی گئی جس پر سوار ہوکر آپﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا وہاں ہر نبی سے ملاوات ہوئی اور ان کی امامت کا شرف بھی حاصل ہوا جنت اور جہنم کی سیر کروائی گئی اور نماز جیسے اہم فریضے کا ہدیا بھی ملا پھرآپﷺ بخیریت مکہ واپس  آگئے۔

6سفر ہجرت:

جب آپ ﷺ او رآپ کے اصحاب پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے تو اللہ کی طرف سے آپ کو ہجرت کی اجازت مل گئی آپ ﷺ اپنے پیارے دوست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سا تھ لیکر عازم ِمدینہ ہوئےکفار کی طرف سے آپ کا گھیرائو کیا گیا آ پ کے سر کی قیمت لگائی گئی اور نعوذباللہ آ پ کو قتل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن اللہ نے آ پ کو اپنے حفظ و امان مین رکھا اور بخیر و عافیت مکہ پہنچ گئے آپ نے ابتدائی قیام قبا میں کیا علّامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کے مطابق آپ نے قبا میں کل چار دن یا دس دن یا پہنچنے اور روانگی کے علاوہ چوبیس دن قیام کیا اور انہیں دنوں مسجد قبا کی بنیا رکھی جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے پھر آپ ﷺ نے مدینہ منوّرہ میں قدم رکھا تو ہر شخص آپ کو اپنے گھر کا مہمان بنانے کا متمنّی تھا لیکن یہ شرف سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا یہاں آپ نے جو بنیادی کام کیا ان میں مسجد نبوی کی بنیاد رکھنا سرِ فہرست ہے ۔

7سفر غزوہ ابواء:

یہ ایک مہم تھی جس کے لئے نبی اکرم ﷺ بذاتِ خود صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے مدینہ منورہ میں سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا مہم کا مقصد قریش کے ایک قا فلے کی راہ روکنا تھی آپﷺ مقام ودان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا اس غزوہ میں آپﷺ  نے بنو صخرہ کے سردار عمرو بن مخشی سے حلیفانہ معاہدہ کیا تھا ۔(الرحیق المختوم ۲۷۱)

8سفر غزوہ بواط:

اس مہم میں رسول اکرم ﷺ دوسو صحابہ کو ہمراہ لیکر روانہ ہوئے مقصود قریش کا ایک قافلہ تھا جس میں امیّہ بن خلف سمیت قریش کے سو آدمی اور ڈھائی ہزار اونٹ تھے آپ ﷺ رضویٰ کے اطراف میں بواط تک تشریف لے گئے لیکن کوئی معاملہ پیش نہیں آیا اس غزوہ کے دوران سیّدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا امیر مقرر کیا گیا  پرچم سفید تھا اور علمبردار سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ۔(الرحیق المختوم ۲۷۲)

9 سفرِ ذی العشیرہ:

یہ مہم جمادی الاولیٰ و جمادی الآ خرہ ۲ ھجری کو پیش آئی اس مہم میں رسول اکرمﷺ کے ہمراہ ڈیڑھ یا دو سو مہاجرین ساتھ تھے لیکن آپ نے کسی کو روانگی پر مجبور نہیں کیا سواری کے لئے صرف تیس اونٹ تھے اس لئے لوگ باری باری اس پر سوار ہوتے تھے مقصد قریش کا ایک قافلہ تھا جو ملکِ شام  جارہا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ یہ مکّہ سے چل چکا تھا اس قافلے میں قریش کا خاصہ مال تھا آپ اس کی طلب میں نکلے اور ذو العشیرہ تک پہنچے لیکن آپ سے کئی دن پہلے ہی قافلہ جاچکا تھا یہی وہ قافلہ ہے جسے نبی اکرمﷺ نے شام سے واپسی پر گرفتار کرنا چاہاتو قافلہ بچ نکلا مگر بعد میں غزوہ بدر پیش آیا۔ ( الرحیق المختوم۲۷۲)

0سفر غزوہ بدر الکبریٰ :

قریش کا مذکورہ بالاقافلہ شام سے لوٹ رہا تھا جس میں ایک ہزار اونٹ تھے جن میں کم از کم پچاس ہزار دینار اور دوسو ساڑھے باسٹھ کلو سونے کی مالیت کا سازو سامان بار کیا ہوا تھا جبکہ اس کی حفاظت کے لئے صرف چالیس آدمی تھے اہل مدینہ کے لے لئے یہ بڑا سازگار موقع تھا جبکہ اہل مکّہ کی اس سامان سے محرومی بڑی زبردست فوجی، سیاسی ، اقتصادی مار کی حیثیت رکھتی تھی اس لئے مدینہ میں نبی اکرمﷺ نے اعلان فرمایا کہ قریش کا قافلہ مال و دولت سے لدا آرہا ہے اس لئے نکل پڑو ہو سکتا ہے اللہ اسے بطورِ غنیمت تمہارے حوالے کردے آپﷺ کے ساتھ صفر تین سو سے کچھ زیادہ یعنی تین سو تیرہ یا چودہ یا سترہ افراد تھے  اور پورے لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے دوسری طرف قافلے کے نگہبان ابو سفیان کو اس بات کا ادراک ہو اتو اس نے تو ایک آدمی مکہ بھیج کر مکّہ والوں سے امداد چاہی اور اس نتیجے میں دونو ں گروہوں میں جنگ برپا ہوئی  نبی اکرمﷺ نے اللہ سے مدد طلب کی اور اللہ نے بذریعہ فرشتے مومنین کی مدد کی کفّار کے سردار ابو جہل کو قتل کیا گیا مسلمانوں کے چودہ افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ قریش کے کُل ستّر آدمی واصلِ جہنّم ہوئے اور ستر قیدی ہوئے۔(الرحیق المختوم ۲۷۹)

11 ۔سفر غزوہ بنی مطلق :

یہ غزوہ اہلِ سیر کے نزدیک ۵ یا ۶ ہجری کو پیش آیا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی اکرمﷺ کو اطلاع ہوئی کہ بنو مطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار آپ سے جنگ کے لئے اپنے قبیلے اور کچھ عربوں کو ساتھ لیکر آرہا ہے آپ نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ بات درست ہے چنانچہ آ پ ﷺ بھی زید بن حارثہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کر کے روانہ ہوئے ادھر حارث نے بھی اسلامی لشکر کی جاسوسی کے لئے ایک آدمی روانہ کیا تھا جسے مسلمانوں نے قتل کردیا اس پر حارث کے لشکر میں اس قدر خوف و حراس پھیل گیا کہ اس کے لشکر کے لوگ بھاگ کھڑے ہوئےاور چشمہ مریسیع پر بنو مطلق آمادہ جنگ ہوئے اور کچھ دیر تیروں کا تبادلہ ہوا لیکن امام ابنِ قیّم لکھتے ہیں کہ یہ وہم ہے بلکہ چشمہ پر آپ ﷺ نے ان کے چشمے پر چھاپہ مار کر عورتوں  بچوں اور مال مویشی پر قبضہ کرلیا تھا لیکن اس غزوہ میں ایک بہت اہم واقعہ پیش آیا تھا جو اللہ ، رسول اللہ ﷺ اور اہل ِ ایمان کے لئے بہت بڑی پریشانی کا باعث بنا وہ واقعہ اِفک ہے ۔
اس سفر کے دوران رسول اللہ ﷺ کی پیاری زوجہ امّ الموٗ منین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول ﷺ کے ہمراہ تھی جب واپسی پر قافلے نے پڑائو ڈالا تو امّ المومنین قضائے حاجت کےلئے نکلیں قافلہ کو یہ معلوم نہ ہو سکا اور قافلہ چل پڑا اسپر منافقین نے دنیا کی پاکیزہ ترین عورت پر تہمت لگادی جس پر بہت دنوں تک اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ایک بہت بڑی اذیت کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ پر وحی نازل کرکے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاکدامن ہونے کی دلیل نازل کی اور منافقین کے اس پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا ۔

12۔سفر طائف :

رسول اکرمﷺ بغرض ِ دعوت و تبلیغ طائف تشریف لے گئے یہ علاقہ مکّہ سے تقریباََ ساٹھ میل کے فاصلے پر ہے جسے آپ ﷺ نے پیدل طے کیا آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے آزاد کردہ غلام سیّدنا زید بن حارثہ تھے طائف والوں نے بجائے آپﷺ کی بات ماننے کے آپ ﷺ کو تکالیف پہنچائیں آوازیں کسیں اور پتھر مارے جس سے آپ ﷺ لہو لہان ہو گئے لیکن پھر بھی آپ نے ان کو کوئی بد دعا نہیں دی بلکہ فرمایا اے اللہ! ان کو ہدایت دے یہ بے خبر ہیں اور پھر اسی طرح آپ ﷺ مکّہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے ۔

13۔سفرحدیبیہ:

رسول اکرم ﷺ کو مدینہ کے اندر ہی خواب دکھلایا  گیا کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بیت اللہ شریف کا عمر ہ اد اکیا ہے جب آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس خواب کی اطلاع دی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اس طرح نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام نے عمرہ کی تیاریاں شروع کردی ۔آپ نے یکم ذی القعدہ سن 6ھجری پیر کے دن سیدنا ام مکتوم کو اپنا جانشین مقرر کرکے مکہ مکرمہ کے لیے اپنا رخت سفر باندھا آپ کے ساتھ چودہ پندرہ سو صحابہ کرام تھے ذوالحلیفہ پہنچ کر آپ نے ہدی کو قلادہ پہنایا اور احرام زیب تن کیا ادھرکفار نے آپ کو روکنے کی بھر پور تیاری کرلی رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عثمان کو ان کے ہاں یہ پیغام دے کر بھیجا ہمارا لڑائی کا کوئی ارادہ نہیں ہم صرف عمرہ اداکرنا چاہتے ہیں ادھر یہ افواہ پھیل گئی کہ کفار نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا ہے جس کا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو بڑا رنج ہوا اور آپ نے صحابہ کرام سے بیعت لینی شروع کردی کہ ہم خون ِعثمان کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے اللہ رب العالمین کو بھی یہ انداز بہت پسندآیا اور اس نے وحی نازل فرماکر اس عمل کی تائیدکی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ صرف ایک افوہ تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور بعد میں قریش اس بات پرامادہ ہوئے کہ مسلمان اگلےسال عمرہ ادا کرنے آئینگے اور صرف تین دن مکہ میں گزار کر واپس ہونگے اور اس طرح مسلمانوں نے اثنائے راہ میں اپنے احرام کھول دیے اور قربانی کردی اور واپس مدینہ منورہ روانہ ہوئے ۔

14۔سفر غزوہ خیبر :

خیبر مدینہ منورہ کے شمال میں تقریباً ایک سو کلو میل کے فاصلے پر ایک بہت بڑا شہر تھا یہاں قلعےاور کھیتیاں وغیرہ بھی تھیں۔ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا پھر محرم کے باقی ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہوئے اس غزوہ کے دوران مدینے کا انتظام سیدنا سباع بن عرفطہ اور ابن اسحاق کے بقول نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو سونپا،رسول اللہ ﷺ نے ایک راستہ بنانے والے شخص کا انتطام کیا اور خیبر کی طرف چل دیے یہاں تک کہ مسلمان خیبر پہنچ چکے لیکن اہل خیبر کو کانوں کان خبر نہ ہوئی رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے نماز فجر ادا کی ا س کے بعدمسلمان سوار ہوکر خیبر کی طرف بڑھے ادھر اہل خیبر اپنے زرعی آلا ت لیے کھیتوں کی طرف جارہے تھے کہ اچانک لشکر کو دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم محمدﷺ لشکر سمیت آگئے یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہو ۔(صحیح البخاری 371)
پھر آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈادیکر روانہ کیا اور انہوں نے اللہ کی مدد سے خیبر فتح کیا ۔

15۔سفر فتح مکہ :

10رمضان المبارک سن 8ھجری کوو رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے مکہ مکرمہ کا رخ کیا آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اور مدینہ منورہ میں سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کومقر ر کیا آپ ﷺ اور صحابہ کرام روزے کی شدت سے تھے لیکن سفر کی شدت کی وجہ سے عسفان اور قدید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر روزہ کھول دیا اور صحابہ کرام نے بھی روزا افطار کیا۔ آپ ﷺ مکہ مکرمکہ میں داخل ہوئے تو اہل مکہ لشکر اسلام کو دیکھتے ہی رہ گئے اور سوچتے رہے کہ جن کا مسلمانوںکے ساتھ ہم نے مظالم کیے اب ان کا ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیا رویہ ہوگا ؟
رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کیا سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے کعبے کی چابی لیکر نماز اداکی اور اپنے تمام دشمنوں کو معاف کرتےہوئے فرمایا جاؤ آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں آج تم سب آزاد ہو اس کے بعد آپ نے کعبے کی چابی عثمان بن طلحہ کو دی اور فرمایایہ ہمیشہ تیرے پاس رہے گی ۔سیدنا بلال نے کعبے کی چھت پر کھڑے ہوکر آذان دی آپ نے سیدہ ام ہانی کے گھر غسل فرماکر ان کے گھر میں بھی شکرانے کی نماز ادا کی اور نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دیتے ہوئے فرمایاکہ اگر وہ کعبے کے پردے کے نیچے بھی پائے جائیں توا نہیں قتل کردیا جائے ان کے نام درج ذیل ہیں۔
1عبد العزی بن خطل
2عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح
3عکرمہ بن ابی جبل
4حارث بن نفیل بن وھب
5مقیس بن صباء
6ہبار بن اسود
7ابن ہجل کی دو لونڈیاں جوآپ ﷺ کی ہجو کیا کرتی تھیں۔
8سارہ جو اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی ۔
ان میں سے سیدنا عکرمہ رضی اللہ رضی اللہ عنہ کو ایمان لانے کی وجہ سے معاف کردیاگیا اور جان بخشی گئی اس طرح آپ ﷺ نے بیس دن مکہ میں قیام کرنے کے بعد واپس عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔

16۔سفر تبوک:

عیسائیوں کی مدینہ منورہ پر حملے کے ارادے کی خبر سن کر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو تیاری کا حکم دیا اتفاق یہ ہے کہ سخت گرمی کے ایام تھے ملک میں قحط کے آثار بھی تھے مگر یہ پرجوش مسلمانوں کے لیے ان کے ایمان کی تازگی کا نیا موقع تھا کہ اب عرب کے چند قبیلوں سے نہیں بلکہ بڑی سلطنت کا سامنہ تھا اور سواری کا انتظام بھی تھوڑاتھا اس لیے معذور مسلمان رو رو کر عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ﷺ سفر کا سامان مہیا فرما دیں تو ساتھ چلنے کی سعادت ملے یہ دیکھ کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فوج کے لیےتین سو اونٹ پیش کیے اورآپ  ﷺ نےانہیں دعادی مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اورآپ تیس ہزار کی فوج کے ساتھ مدینے سے نکلے جن میں دس دہزار سورا تھے ،تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ رومیوں کے حملے کی خبر صحیح نہیں تھی اتنا صحیح تھا کہ اسلام کی نئی قوت کے مقابلے میں غسانی رئیس دوڑ دھوپ ضرور کر رہے ہیں ۔
آپ ﷺ نے تبوک میں بیس دن قیام کیا اس قیام کا اثر یہ ہوا کہ تیس ہزار کی فوج نےآس پاس کے شہروں پر  اپنا اثر ڈالے بغیر نہ رہی ۔
تبوک کا سفراس حیثیت سے کہ یہ عرب کے باہر کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک سے ٹکرانے کی سب سے بڑی کوشش تھی بہت اہم تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کی بخیرو عافیت واپسی پر مسلمان بہت خوش ہوئے ۔(رحمت عالم ازندوی 92)

17۔سفر حج

ذیقعدہ 10ہجری میں ہر طرف منادی ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ اس سال حج کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں گے یہ خبر دفعتاً عرب میں یوں پھیل گئی اور سارا عرب آپ کی معیت میں حج ادا کرنے کے لیے امڈ آیا ذیقعدہ 26تاریخ کو آپ نے غسل کیا اور چادر تہہ بندباندھی اور ظہر کی نماز اداکرنے کے بعد مدینہ منورہ سے نکلے مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر ذوالحلیفہ کے مقام پر رات گزاری اور دوسرے دن دوبارہ غسل فرماکر احرام باندھ کر قصوی پر سوار ہو کر عازم مکہ مکرمہ ہوئے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں ،آگے پیچھے جہاں تک نظر کام کرتی تھی انسانوں کی کثیر تعداد نظر آتی تھی اسی طرح آپ ذوالحجہ کی 5تاریخ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے آپ نے عرفہ کے دن ایک تاریخی خطبہ دیا جسے دنیا ’’خطبہ حجۃالوداع‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے آپ نے رنگ و نسل کے فرق ، جاہلیت کے رسوم وغیرہ کو باطل قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کے مال وعزت پرحملے کو حرام قرار دیا ،اور غلاموں سے اچھائی اور خیر خواہی کی نصیحت فرمائی ۔
حج سے فارغ ہوکر 14ذی الحجہ فجر کی نماز کعبہ میں پڑھ کر سارے قافلہ اپنے اپنے علاقے کو روانہ ہوئے اور آپ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے جھرمٹ میں مدینہ کی راہ لی ۔(رحمت عالم 110)

18۔سفر آخرت :

صفر 11ہجری کو آپﷺ کسی درمیانی تاریخ میں  آدھی رات کو بقیع الغرقدتشریف لے گئے ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اس سے پہلے آپ احد کے شہداء کے قبرستان سے بھی ہو کرآئے تھے اب آپ ﷺ کی طبیعت کچھ ناساز ہونے لگی تو آپ ﷺ نے دیگر ازواج مطہرات سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منتقل ہونے کی اجازت طلب کی اورآپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منتقل ہوگئے ،نماز کے لیے اٹھنے کی سکت نہ رہی تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کی امامت کا حکم دیا مسلمانوں اور اپنے گھر والوں کو نیک کاموں کی تلقین کی اور جب بیماری نے زور پکڑا تو غشی طاری ہوگئی اور زبان سے بل الرفیق الاعلی کے الفاظ اداکیے اور روح پاک عالم قدس میں جا پہنچی ۔انا للہ وإنا إلیہ راجعون
۔۔۔

اصحاب رسول اور محبت رسول ﷺ

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری : 15)

ایک اور جگہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔

’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ، وَأَهْلِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (سنن النسائی : 5014)

قارئین کرام !ہم آپ حضرات کے سامنے رسول اکرم ﷺ کی مذکورہ دو احادیث مبارکہ کی تشریح میںیہ پیش کریں گے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کے پیارے محبوب ﷺ پر اپنا مال ،بیوی ،بچے ،والدین اور دنیا کی ہرچیز کیسے قربان کی تھی۔
1مال ومتاع اور محبت رسول ﷺ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت رسول پر اپنا مال ومتاع قربان کررکھا تھا جس کی متعدد امثال کتب احادیث میںموجود ہیں جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَنْ نَتَصَدَّقَ، وَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ, إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا, فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ ” قُلْتُ: مِثْلَهُ. وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: “يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟! ” قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللہَ وَرَسُولَهُ. فَقُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إلى شيء أبدا.

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں غزوہ تبوک کے موقع پر   صدقہ کا حکم دیا اس وقت میرے پاس مال بھی بہت تھا میں نے سوچا آج اگر میں ابو بکر سے آگے نکل گیا تو سمجھو کہ میں آگے نکل گیا پس میں اپنا آدھا مال لے آیا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا اپنے اہل وعیال کے لیے کیارکھا ہے میں نے عرض کی اتناہی مال اہل وعیال کے لیے رکھا ہے (جتنا لے آیا ہوں ) پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سامان لائے جو کچھ ان کے پاس تھا رسو ل اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ابو بکر ! اپنے اہل وعیال کےلیے کیا بچایاہے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ (یعنی ان کی محبت) ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں تب میں نے سوچاکہ ابو بکر سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (سنن الترمذی:3675)
سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہجرت کےلیے نکلے تو انہیں  قریش مکہ نے روک لیا سیدنا صہیب رومی مالدار آدمی تھے انہوں نے پیش کش کی کہ اگر میں اپنا سارا مال یہاں چھوڑ دوں تومجھے جانے دوگے ؟قریش مکہ مان گئے سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے بلاجھجک سار امال ان کےحوالے کردیا اور خود مدینہ کی راہ لی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صہیب نے نفع کا سودا کیا ۔(فضائل صحابہ کرام از محمد اقبال کیلانی ، صفحہ: 18)
مذکورہ بالا دو روایتوں اور دیگر کئی روایات سے ایسے بیسوں مثالیں ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا مال ومتاع رسو ل اکرم ﷺ کی ذات پر قربان کر دیتے تھے۔
2محبت رسولﷺ اور بیوی کی قربانی:
بیوی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے جوخاوند کے لیے ہر موڑ پر مدد گار رہتی ہے عقل مند خاوند اپنی بیوی سے انتہائی زیادہ محبت کرتا ہےاور انکے تمام تر حقوق اداکرتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی بیویوں سے محبت اور ان کے حقوق ادا کرنے میں بے مثال تھے لیکن انہوں نے محبت رسول اور ذات رسول پر اپنی بیویاں قربان کیں ہیںجن کی کئی مثالیں حیات صحابہ سے مل سکتی ہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا تھا اس کی ایک ام ولد (ایسی لونڈی جس سے اس کی اولاد تھی )وہ نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا مگر وہ نہیں مانتی وہ اسے ڈانٹتا مگر وہ نہ سمجھتی ایک رات وہ نبی ﷺ کی بد گوئی کرنے اورگالیاں دینے لگی تو اس نابینے نے ایک برچھا لیا اسے اس لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اپنا سارا بوجھ ڈال دیا اس طرح اسے قتل کردیا اس لونڈی کے پاؤں میں چھوٹا بچہ آگیا اوراس نے اس جگہ کو خون سے لت پت کردیا جب صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کو اس قتل سے آگاہ کیا گیا اور لوگ اکھٹے ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا

أَنْشُدُ اللہِ رَجُلًا لِي عَلَيْهِ حَقٌّ، فَعَلَ مَا فَعَلَ إِلَّا قَامَ فَأَقْبَلَ الْأَعْمَى يَتَدَلْدَلُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ أُمَّ وَلَدِي، وَكَانَتْ بِي لَطِيفَةً رَفِيقَةً، وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَلَكِنَّهَا كَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ فِيكَ وَتَشْتُمُكَ، فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، فَلَمَّا كَانَتِ الْبَارِحَةُ ذَكَرَتْكَ فَوَقَعَتْ فِيكَ، فَقُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا، فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ (سنن النسائی4070)

’’میں اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوںجس نے یہ کاروائی کی ہے اور میر احق ہے کہ اس پر کھڑاہوجائے تو نابینا صحابی کھڑا ہوگیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اس کے قدم لرز رہے تھے حتی کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے آبیٹھا او ر بولا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں اس کا قاتل ہوں یہ آپ کو گالیاں بکتی او ربرا بھلا کہتی تھی میں اس کو منع کرتا مگر باز نہ آتی میں اسے ڈانٹتا مگر وہ نہ سمجھتی  اس سےمیرے دو بچے بھی ہیں اور وہ میرا بڑا ساتھ  دینے والی تھی گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی اور برابھلا کہنےلگی تو میں نےچھر الیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا بوجھ ڈال دیا حتی کہ اسے قتل کر  ڈالا ۔‘‘تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:کہ خبر دار ! گواہ ہوجاؤ ! اس لونڈی کا خون ضائع ہے ‘‘۔یعنی اس پر دیت نہیں ہے یہ بالکل جائز ہے ۔
سیدنا حمزہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےکہا

كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ  وَكُنْتُ أُحِبُّهَا وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا فَقَالَ: لِي طَلِّقْهَا فَأَبَيْتُ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:طَلِّقْهَا (سنن ابی داؤد5138)

میری ایک بیوی تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے پسند نہیں کرتے تھےتو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اسے طلاق دے دو ،میں نے انکار کردیا ،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے اس بات کاتذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :اپنے والد کی اطاعت کرو اوراسے طلاق دے دو ۔
حکم رسول ﷺ پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اس بیوی کو طلاق دے دی تھی جس سے انتہائی محبت کیا  کرتےتھے ۔

3محبت رسول ﷺ اور باپ کی قربانی:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والدین کی فرمانبرداری میںانتہائی بے مثال تھے لیکن باپ کی ذات پر محبت رسول ﷺ کو ترجیح دیتے تھے حتی کہ محبت رسول ﷺ میں اپنے والدین کو قربان کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنے لیے فخر سمجھتے کہ ہمارے ہاتھوں سے گستاخ رسول ﷺکا قتل ہوچاہے سگا باپ ہی کیوں نہ ہو ۔غزوہ بدر میں سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بے خوف و خطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگےبڑھتے جارہے تھے آپ کی حالت کو دیکھ کر دشمن کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی جونہی آپ کسی شہسوار کے سامنے آتے وہ گھبرا کر طرح دے جاتا لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا تھا جو آپ کے سامنے اکڑ کر کھڑ اہوگیا اور تلوار کا وار کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے پہلو تہی اختیار کی وہ شخص آپ کے مقابلےکےلیے بار با ر سامنے آتارہا لیکن آپ مسلسل طرح کردیتےرہے لڑائی کے دوران ایک مرحلہ ایسا آیا کہ اس شخص نےآپ کو گھیرے میں لے لیا جب سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کےلیے تمام راستے بند ہوگئے تو آپ نے مجبور ہو کر اس کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا جس سےاسکے سر کے دو حصے ہوگئے اور آپ کے قدموںمیں ڈھیر ہوگیا یہ دیکھ کر دنیا آنگشت بدنداں رہ گئی کہ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا شخص انکا باپ تھا ۔آپ کا یہ کار نامہ اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ آپ کی شان میں قرآن نازل فرمایا کہ

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ  وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ  اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (المجادلۃ : 22)

جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ،بھائی ہوں یا کنبہ والے یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (الطبرانی فی الکبیر 360 الاصابہ ص476ج 4)
اور اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم  غزوہ بنوالمصطلق میں تھے ایک مہاجر نےایک انصاری کو تھپڑ مار امہاجر نے دیگر مہاجر کو مدد کے لیے پکارا اے مہاجرو مدد کرو اور انصاری نے انصار کی مدد کے لیے پکارا نبی اکرم ﷺ نے چیخ و پکار سنی تو فرمایا یہ زمانہ جاہلیت کی طرح ،کیسی چیخ وپکار ہے لوگوںنے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو تھپڑ ماردیاتھا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چھوڑو یہ بہت برافعل ہے عبداللہ بن ابی نے یہ واقعہ سنا تو انہوں نے کہا کیا واقعی مہاجر نے ایسا کیا ہے اب اگر مدینہ پہنچے تو وہاں سے عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا ۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے کہ

يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ

یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا سنو! عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں کے لئے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں ۔
جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےایسی بات سنی تو اجازت چاہی اور کہا اے اللہ کےرسول ﷺ !مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑادوں گا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو لو گ کہیںگے کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو ہی قتل کرتا ہے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے عبدا للہ بن ابی کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو سچے اور کامل مومن تھے جب خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے خبر ملی ہے۔نیز فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ جانتے ہیں سارے مدینے میں ،میں واحد انسان ہوں جو اپنےباپ کا احترام سب سے زیادہ کرتاہوں یہ بھی کہ میں اپنے باپ کے رعب و دبدے کو برداشت کرتاہوں اس قدر کہ میں کبھی باپ کی نظروں سے نظریں نہیں ملائی لیکن پھر بھی میری عقیدت و محبت کا

امتحان آیا ہے تو دیکھیں :

’’رہا آپ کا معاملہ تو آپ مجھے حکم کریں میں اپنے باپ کی گردن کاٹ کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔
اور سیرت ابن ہشام کی روایت میں ہے :
عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺکے پاس آئے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کا ارادہ میرے باپ کو قتل کرنے کا ہے(کیونکہ انہوں نےآپ کی گستاخی کی ہے )اگر آپ کا خیال ایسا ہے تو پھر مجھے حکم دیجیےمیں اپنے باپ کا سر قلم کر کے آپ کے قدموں میں لادوں گا اور مجھے خدشہ ہے کہ آپ کسی اور کو میرے باپ کےقتل کاحکم دے دیں(جس سےمیری حمیت جاگ جائے گی )نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’عبد اللہ اپنے باپ کو قتل نہیں کر نا ‘‘ لیکن عقیدت اور محبت کےاس سپوت کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو ا اور کافلے کا راستہ کاٹتے ہوئے مدینہ کے باہراس راستے پرجا کھڑا ہوا ،جہاںسے ہر ایک کا گزر ہو نا تھا ۔لوگ گزرنےلگے جب اس کا باپ عبداللہ بن ابی آیا ،تو اس نے تلوار کو میان سے نکال لیا اور کہنے لگے:
واللہ لا تدخل المدینۃ حتی یأذن لک رسول اللہ
’’تم اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے ،جب تک رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دیں‘‘۔
اور تم اس بات کا اقرار کر لو کہ رسول اللہ ﷺ عزت والے ہیں اور تو ذلت والا ہے پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے توآپ ﷺ نے فرمایا :’’اے عبداللہ !اپنے باپ کو معاف کردے اور اسے جانے دے‘‘۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ المنافقین:جلد نمبر 6/191 ،مسلم 2525)

4محبت رسول ﷺ اور بیٹے کی قربانی :

بیٹا اللہ رب العزت کی طرف سے ایک انتہائی بڑی نعمت ہو تی ہے اور انسان فطری طور پر بیٹے سے انتہائی محبت کرتا ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت رسولﷺ پر بیٹے کی محبت قربان کر دی تھی حب رسول ﷺ پر اپنے کتنے ہی ننےمنے پیارے سے بیٹوں کی قربانیا ں دی ہیں جنگ احد میں ہند بنت عمرو بن حزام (یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ہیں) کے بھائی عبداللہ بن عمرو ،خاوند عمرو بن جموح اور بیٹے خالد بن عمرو  شامل تھے ،جب جنگ احد کےحالات ناسازگار کی خبر مدینہ پہنچی اور یہ افواہ اڑگئی کہ محمد ﷺ شہید کر دئے گئے ہیں ،تو یہ عورت دیوانہ وار آتی ہے او ر میدان احد میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتی ہے کسی نے اسے کہا:کہ تمہارا بچہ شہید ہو گیا ،تو وہ کہتی ہے کہ بچے کی بات چھوڑو ، رسول اللہ ﷺ کی بات کرو ،آگےبڑھتی ہے پھر اسے کوئی کہتا ہے کہ تمہار اخاوند اور بھائی بھی شہید ہوگئے ہیں ،لیکن وہ کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی توجہ دیتی ہیں پس محبت رسول ﷺ میں ہر چیز ،رشتہ نظر انداز کردیتی ہے پھر جب رسول اللہﷺ

کو دیکھا تو کہنےلگی :

کل مصیبۃ بعدک جلل (البدایہ والنہایۃ :جلد نمبر 4 ص 47)

آپ کے بعد ہر مصیبت ہلکی ہے ۔
سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بیٹا ان سے کہتا ہے کہ ابو جی میدان کارزار میں آپ بار بارمیری تلوار کے نیچے آرہے تھے، لیکن میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا ،تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیٹا ! اگر تم میری تلوار کےنیچے آجاتے تو میں آپ کو دشمن رسول ْﷺ سمجھ کر تیری زندگی کا خاتمہ کردیتا،کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی محبت کے سامنے دنیا کی کوئی محبت آڑے نہیں آسکتی۔ (مستدرک حاکم :3/475)
اللہ اکبر! ہند بنت عمرو رضی اللہ عنہا کا یہ عالم کہ بیٹے کو حب رسول ﷺ پر قربان کردیا اور پتہ چلنے پر کہتی ہیں کہ بیٹے کو چھوڑو رسول اللہ ﷺ کی خبر دو اور یہاں صدیق اکبر کا کہنا ہے کہ بیٹا! اگر آپ دوران جنگ میری تلوار کے نیچے آئے تو میں آپکی گردن دشمن نبو یﷺ سمجھ کر اڑادیتا ۔

5محبت رسول ﷺ اور دنیا کی ہر چیز:

تمہیدی کلمات پر لکھی گئی دونوں احادیث رسول ﷺ کے آخر میں تکمیل ایمان کے لیے یہ شرط بیان کی گئی ہے کہ محبت رسولﷺ پر دنیا کی ہر چیز قربان کی جائےیقینا ً صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کی ہے اور دنیا کی ہر چیز رسول اللہ ﷺ پر قربان کردی تھی ۔صحابہ کرام کے اس کامل ایمان کی گواہی لا ریب کتاب قرآن حکیم نے یوں دی ہے کہ

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ  وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ  اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (المجادلۃ : 22)

جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ،بھائی ہوں یا کنبہ والے یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔
صحابہ کرام ساری کائنات سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ  سے محبت رکھتے تھے اور محبت رسول ﷺ پر دنیا کے ہر شخص کو قربان کر رکھتے اس کی ان گنت مثالیں ہیں جیسا کہ جنگ احدمیں سیدہ ہند کا واقعہ ملاحظہ فرما چکے ہیں اور اسی طرح بدر کے قیدیوں کے متعلق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی محبت رسول اللہ ﷺ کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ان قیدیوں کو ہراس مسلمان کے حوالے کیا جائے جو اس کا عزیز ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کر دے تاکہ دنیا کو اس کی خبر ہوکہ محبت رسول میں محمد ﷺ کے چاہنے والے ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح رسول اللہ ﷺ سے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
۔۔۔

رسول اللہ ﷺکاانداز گفتگو

گفتگو کسی بھی شخص کی سیرت و کردار اور اخلاق و عادات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ شیخ سعدی ؒ نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں یوں بیان فرمایا ہے:
تامرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہ ہفتہ باشد
جب کوئی شخص گفتگو کرتاہے تب اس کے حسن و قبح سامنے آتے ہیں، ہر شخص کی شناخت اور اس کی پہچان اس کی گفتگو ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انسان کی گفتگو صاف، واضح اور ہرشخص کے لیے قابل فہم ہونی چاہیے، حدیث شریف میں آتاہے کہ تاجدار مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ایک دوسرے سے الگ ہوتاتھا، آپﷺ کے الفاظ گنے جاسکتے تھے اور زبانی یاد کیئے جاسکتے تھے، آپ گفتگو ٹھہر ٹھہر کے فرماتے تھے اس ٹھہراؤ میں خوبصورتی، رعنائی اور دلنوازی ہوتی تھی، تاکہ لوگ ایک ایک لفظ سن لیں اور یاد کرلیں، اور اگر کچھ پوچھنا ہوتو غور وفکر کرکے مجلس ہی میں پوچھ لیں، رسول اکرم ﷺ کے الفاظ منتخب اور موزوں ترین ہوتے، گویا نگینوں کی طرح باہم جڑے ہوتے جس کو علٰحدہ نہیں کیاجاسکتا۔رسول رحمت ﷺ کالہجہ دھیما ہوتاجس میں محبت و الفت رحمت وشفقت کی حلاوت اور شیرینی ہوتی، دوست تو دوست دشمن بھی آپ کی بات سننے کے
بعد کاٹنے کی جرأت نہ کرتامخاطب کو پورے الفاظ سے گفتگو کرنے کا موقع دیتے اور پوری توجہ اور انہماک سے اس کی گفتگو سنتے اور پھر اطمینان سے اس کے سوال کے جواب دیتے، مختصر الفاظ میں تشفی بخش جواب دیتے طول و طویل کلام سے احتراز کرتے تاکہ سننے والا اکتانہ جائے۔ آپ ﷺ کی گفتگو متانت و سنجیدگی کااعلی نمونہ ہوتی گفتگو کے سلسلے میں آپ کا اصول تھاکہ اچھی گفتگو کرو ورنہ خاموش رہو، آپ ﷺکے پیش نظر ہمیشہ یہ آیت رہتی’’ قولوا للناس حسنا ‘‘لوگوں سے اچھی بات کہو، آپﷺ  ہمیشہ سنجیدہ اور بامقصد گفتگو فرماتے اور اسی کی لوگوں کوتلقین فرماتے۔ آپﷺ صحابہ سے فرماتے ’’املک علیک لسانک‘‘ (گفتگو کرتے وقت اپنی زبان کوقابو میں رکھو) کیونکہ زبان کی بے باکیاں اعمال حسنہ کوبے وزن اور بے نور کر دیتی ہیں۔ علامہ ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:’’رسول اکرم ْْﷺ کی گفتگو میں جاذبیت وکاملیت اور جامعیت ہوتی تھی، آپ نہایت سادہ اور آسان لیکن فصیح ترین زبان استعمال کرتے تھے، گفتگو نہایت واضح اور دل میں اترجانے والی ہوتی تھی اس میں کسی طرح کاابہام نہ ہوتا اور نہ ہی مشکل الفاظ اور بھاری بھرکم تراکیب ہوتی تھیں۔ ‘‘(زاد المعاد) خودرحمت کائنات ﷺ  نے ایک موقع پر فرمایا ’’انا افصح العرب ‘‘(میں عربوں میں فصیح ترین ہوں) یعنی عرب میں
ندرت کلام کاباد شاہ ہوں، ایک موقع پر خلیفہ ثانی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نےرسول اکرم ﷺ سے عرض کیا میں نے آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص نہیں دیکھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میرے فصیح ترین ہونے میں کیاچیز رکاوٹ ہے جب کہ میں قریش کا فرد فرید اور رکن رکین ہوں اور میں نے اپنا بچپن بنو سعد کی آغوش میں گزار ا ہے۔ (طبقات ابن سعد) محمد عربی ﷺکی گفتگو  میں ادب کی چاشنی، الفاظ کی خوبی، مثال کی دلچسپی ہوتی تھیں، آپ کے اقوال حیرت انگیز ادبیت  او رمعنویت کے حامل ہوتے، ایک موقع پرسیدنا علی کرم اللہ وجہ نے رسول اللہ ﷺ  سے آپ ﷺ کے مسلک زندگی کے بارے میں سوال کیا،تاجدارمدینہ  ﷺ نے جوجواب دیا وہ حکمت و دانائی، علم و معرفت کا عظیم سرمایہ اور معرفت الٰہی کامنفرد شاہکار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے علی ! عرفان میرا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، ذکر الٰہی میرامونس ہے، ا عتماد میرا خزانہ ہے، حزن میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میرا لباس ہے، رضائے الٰہی میری غنیمت ہے، عجز میرا فخر ہے، زہد میرا روزگار ہے، یقین میری قوت ہے، صدق میری سفارش ہے، جہاد میرا کردار ہے، طاعت میری پناہ ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ‘‘(بحوالہ نوائے ہادی سیرت رسول نمبر)
اس تمہید کے بعد آئیے ایک طائرانہ نظر رسول اللہﷺ کی گفتگو اور کلام کے ادبی محاسن پر یا بالفاظ دیگر احادیث نبویﷺ کے ادبی محاسن پرڈالتے چلیں۔ تشبیہ و تمثیل :ہر قسم کی مادی تعلیم اور روحانی تربیت کی تکمیل تشیبہ و تمثیل سے ہی ہوتی ہے، تشبیہ و تمثیل ہرزبان میں تعبیر و تفہیم اور اظہار وبیان کاایک موثر اور خوبصورت ذریعہ رہاہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کاکوئی لٹریچر خواہ وہ انسانی ہویا آسمانی اس سے خالی نہ رہ سکا اور نہ یہ ہونا ممکن تھا، کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اہم کلام کلام رسول ہے، آ پﷺ نے اپنے کلام میں بھی کثرت سے اس ذریعہ تفہیم کواختیار فرمایا ہے، چند تمثیلات و تشبیہات پیش کیے جاتے ہیں۔

1۔ إِنَّ أَحَدَكُمْ مِرْآةُ أَخِيهِ، فَإِنْ رَأَى بِهِ أَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ (سنن الترمذی1929 ضعفہ الألبانی)

 تم میں سے ایک دوسرے کاآئینہ ہے اگراس میں کوئی برائی دیکھے تو دور کردے۔

2۔ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ (صحیح البخاری 6416)

 دنیامیں اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر یاراہ روہو۔

3۔ مَثَلُ أَبِي بَكْرٍ مَثَلُ الْقَطْرِ حَيْثُمَا وَقَعَ نَفَعَ (مصنف ابن ابی شیبۃ :31943)

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی مثال پانی کے قطرہ کی سی ہے کہ جہاں بھی پڑتاہے نفع دیتاہے۔

4۔النَّاسُ مَعَادِنٌ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَخِيَارِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا (مسند شہاب القضاعی 196)

 لوگ سونے چاندی کی مانند کانیں ہیں جولوگ ان میں سے زمانہ ٔ جاہلیت میں بہتر تھے۔ جب انہوں نے اسلام کوسمجھ لیا تو وہ وہی اسلام میں بھی بہتر ٹھہرے۔

5۔ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ 85 ’’موضوع‘‘)

 میرے أصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔

6۔ عِلْمٌ لَا يَنْفَعُ كَكَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ (مسند شہاب القضاعی : 263 صححہ الألبانی)

 وہ علم جس سے کوئی نفع نہ ہو اس کی مثال اس خزانے کی ہے جس میں سے کچھ خرچ نہ کیاجائے۔

7۔ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَ فِيهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ (المعجم الکبیر للطبرانی2638)

 میرے اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح کی ہے جواس میں سوار ہوگیا وہ پار ہوگیا جوپیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔

8۔ لَا تَجْعَلُونِي كَقَدَحِ الرَّاكِبِ (مصنف عبد الرزاق3117 وقال الألبانی فی الضعیفۃ ’’منکر‘‘)

مجھے سوار کے پیالے کی سی حیثیت مت دو۔ یعنی جس طرح ایک شتر سوار اپنا پیالہ کجاوے کے پپچھے باندھتا ہے، اس طرح میرا ذکر آخرمیں نہ کرو، کیونکہ اس سے تمہاری بے رخی اور بے اعتنائی کا اظہار ہوتاہے، جوایمان کے خلاف بات ہے۔

9۔ وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ العُرْيَانُ (صحیح البخاری6482)

میری مثال ایسی ہے جیسے ننگا ڈرانے والا ہو۔
عربوں کے ہاں یہ دستور تھاکہ جب کوئی بڑا خطرہ درپیش ہوتاتو ایک شخص پہاڑی پرچڑھ کرکپڑے اتار کر قوم کو بلاتا تو لوگ اس کی بات سننے کے لیے جمع ہوجاتے اور وہ انھیں خطرے سے آگاہ کردیتا، آں حضور ؐ کی مراد یہ ہے کہ میں بھی تمہیں ایک بہت بڑے خطرے سے آگاہ کررہاہوں اللہ تعالیٰ کے انکار اور نافرمانی کی وجہ سے تم دوزخ میں پڑنے والے ہو، اس سے بچ جاؤ۔

10۔العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالعَائِدِ فِي قَيْئِهِ (صحیح البخاری:2621)

 کوئی چیز تحفہ دے کر واپس لینے والا ایسا ہے جیسے قئے کرکے پھر اس کو چاٹ لینے والا۔

11۔النَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لَا تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً (صحیح مسلم 2547)

 لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کی ہے جن میں سواری کے لائق ایک بھی نہ ہو یعنی عام لوگوں مین نیک و خدا پرست آدمی ایک بھی نہیں ملتا۔

12۔ وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ، إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَيْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ، إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ (سنن ابی داؤد)

نیکوکار ہمنشین کی مثال کستوری والے کے مانند ہے اگر تجھے اس سے نہ بھی ملی تو اس کی خوشبو تو ( ضرور ) پہنچے گی اور برے ساتھی کی مثال بھٹی والے کی طرح ہے ‘ اگر تجھے اس کی کالک نہ لگی تو دھواں تو ضرور آئے گا ۔
تجزیاتی کلام: رسول اللہ ﷺ کاطرز گفتگو یہ بھی ہوتا تھا کہ کسی بات پر ہمہ پہلو گفتگو فرماتے اور ایسا منطقی تجزیہ فرماتے کہ کوئی پہلو اس سے باہر نہ جاسکے، جیسے آپ ﷺ نے ایک موقع پرارشادفرمایا:

لَيْسَ لَكَ مِنْ مَالِكِ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ (مصنف ابن ابی شیبۃ 34339)

تمہارا مال صرف وہی ہے جوتم نے کھاکر فنا کردیا یاپہن کربوسیدہ کردیا یاصدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔
یہ گفتگو نہایت موثر اور عقل کواپیل کرنے والی ہوتی ہے کہ صاحب عقل و انصاف کے لیے اس کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں نمبر وار کلا م :گفتگو کودلچسپ، موثر اور یاد رکھنے میں سہل و آسان بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مختلف باتیں کہنی ہوں تو ترتیب وار کی جائیں اور پہلے اسکی تعداد شمار کرادی جائے مثلا مجھے تین باتیں کہنی ہیں، رسول اکرم ﷺ کی گفتگو میں بھی یہ طریقہ آپ کو بکثرت ملے گا، جیسے ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا :

ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ، الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ، وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا(سنن ابی داود2540)

(دوچیز رد نہیں ہوتیں، وہ دعاء جو اذان کے وقت کی جائے اور جو جنگ کی شدت کے وقت کی جائے) ایک دوسرے موقع پرآپﷺ نے فرمایا :

ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ (سنن الترمذی:2624)

’’جس میں تین باتیں ہوں وہ ایمان کے ذائقہ سے محظوظ  ہوگا۔ اس کو اللہ اور اسکا رسول ان کے ماسوا سب سے زیادہ محبوب ہو، جوکسی بندہ خدا سے اللہ ہی کے لیے محبت کرے۔ اور کفر میں لوٹنے کو ناپسند کرتا ہوجیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہے۔‘‘

استفہامیہ انداز کلام :

استفہام کے معنی استفسار اور سوال کے ہیں، آپ ﷺ نے متعدد اور بے شمار مواقع پر استفہامیہ انداز کلام کو اختیار فرمایارسول مکرم ﷺ  کامعمول مبارک تھاکہ کسی اہم بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے پہلے استفہامیہ انداز اختیارکرتے اور ایسا سوال کرتے کہ ہر شخص گو ش برآواز ہوجائے اور اگلی بات سننے کی خواہش دل میں چٹکیاں لینے لگے پھرآپﷺ ارشاد فرماتے دوتین نمونے پیش کیے جاتے ہیں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا :
أیکم مال وارثہ احب الیہ من مالہ ؟
تم میں سے کس کو اپنے مال کے مقابلہ اپنے وارث کامال محبوب ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ !
ما منا احد الا مالہ احب الیہ من وراثہ۔
رسول اللہﷺ! ہم میں سے ہرشخص کواس کے وارث کے مال سے اپنا مال زیادہ محبوب ہے۔ پھر آپﷺ نے وہ بات فرمائی جوکسی پیغمبر اور رسول ہی کی زبان سے نکل سکتی ہے۔
’’فان مالہ ما قدم ومال وارثہ ماأخر۔ ‘‘
جس مال کو اس نے (اللہ کی زبان میں) پہلے خرچ کرلیاوہ اس کا ہے اور جوچھوڑگیا وہ اس کے وارث کاہے۔ ایک موقع پر آپﷺ نےسیدناابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کوطلب فرمایا اور پوچھا :
’’أتری أحدا؟‘‘کیاتم نے احد پہاڑ کودیکھا یاکیاتم احد پہاڑ کودیکھتے ہو؟ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں دیکھ رہاہوں، آ پ ﷺ نے فرمایا:
ما یسرنی ان لی مثلہ ذھبا انفقہ کلہ الا تلثۃ دنانیر۔
مجھے اس سے خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس کے برابر سونا ہواور اس میں سے تین دینا ربھی بچ رہیں۔ معنی اور لفظ میں صوتی ہم آہنگی (مطابقت):کسی معنی کے اظہار کے لیے ایسے لفظ کا استعمال کہ خود آواز اور تلفظ ہی اس کی کیفیت کوظاہر کردے یہ بھی زبان وبیان کے محاسن اور کمالات میں سے ہے، صرف ایک نمونہ پیش کرتے ہیں ورنہ احادیث کے ذخیرے میں متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلا اٹک اٹک کرقرآن پڑھنے کی مشقت کو آپ ﷺ نے اس طرح ظاہر فرمایا۔

وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ (صحیح مسلم : 798)

یتعتعکالفظ خو د زبان حال سے اس مشقت کابیان و اظہار ہے۔ کلام نبویﷺ میں مجاز اور کنایہ :ادب کی اہم صنف مجاز اور کنایہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لفظ یاجملہ کے حقیقی معنیٰ کے بجائے لوازم معنیٰ مراد لیے جائیں، کلا م نبوی میں یہ بکثرت استعمال ہواہے ہرچندکہ فصحائے عرب ’’مجاز ‘‘ کے استعمال میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ اور ان کو اس خصوصیت پر بڑا ناز تھا، لیکن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مجازی تراکیب کے سامنے وہ شرمندہ و سر فگندہ تھے۔ ذیل میں چند ایسے ارشادات پیش کررہاہوں جواپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ھدنۃ علی دخن صلح دھوئیں پرہے۔ کل ارض سمائھا ہرزمین اس کے تنومندوں کے ساتھ ہے۔ یاخیل اللہ ارکبی اے اللہ کے سوا رو ! سوار ہوجاؤ! لاینطح فیھا عنزان اس میں دو رائیں نہیں ہوسکتی۔ رویدک رفقا بالقواریر ان آبگینوں کے ساتھ نرمی سے کام لو۔ الآن حمی الو طیس (اب تنور بھڑکا ہے)یعنی معرکہ  ٔ کار زار اب گرم ہے کل الصید فی جوف الفراء سب شکار جنگلی گدھے کے پیٹ میں۔ یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کاپاؤں نادر اور اچھوتے الفاظ کاانتخاب :مختلف معانی اور مفاہیم اور ان کے لیے موزوں سے موزوں تر الفاظ ومرکبات کے انتخاب میں بھی آپ ﷺ یدطولی رکھتے تھے، بسااوقات آپ ؐﷺنے ایسے الفاظ، مرکبات او ر جملے استعمال فرمائے ہیں جن سے عام طورپر عربوں کے کان ناآشنا تھے، ایسے جملے اور کلمات کااستعمال ’’بیان ‘‘ کی
ان خوبیوں میں سے ہے جن کی بلاغت میں نظیر نہیں ملتی۔ ایک بار ابو تمیمہ الھجمی رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ ؐ نے ان کو جونصائح فرمائیں ان میں ایک جملہ یہ بھی ارشاد فرمایا ’’ایاك والمخیلۃ‘‘انھوں نے عرض کیا یارسو ل اللہ ’’مخیلۃ ‘‘کیاہے ؟ ہم قوم عرب سے ہیں لیکن ہم یہ لفظ نہیں سمجھ سکے توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مخیلۃ ازارکا زمین پرگھسٹاناہے، گو یا یہ تکبر کی علامت ہے، اس کے بعد یہ لفظ ’’مخیلہ ‘‘تکبر کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور رسول اللهﷺ نے اس کو متعدد بار استعمال فرمایا۔ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺنے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے روبرو ’’مات حتف انفہ ‘‘ (وہ اپنی ناک کی موت مرگیا)(فطری اور طبعی) ارشاد فرمایا تو سیدناعلی رضي الله عنه نے فرمایا کہ یارسول اللہ ! میں نے ایسا جملہ سناہے کہ اس سے قبل کسی عرب کی زبان سے نہیں سنا، سیدناعلی فرماتے ہیں کہ جب میں نے آپﷺ سے اس کے معنی دریافت کیے تو معلوم ہواکہ اس کے معنی ہیں کہ ’’وہ اپنی ناک کی موت مرگیا‘‘ اردوزبان میں بھی ناک رگڑ کرمرجانا مستعمل ہے، اس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ ایک مسلمان کوشہید کی موت مرنا پسند کرنا چاہئے نہ یہ کہ وہ بستر پر پڑے پڑے دم توڑدے۔  اسی طرح غزوہ ٔ اوطاس میں جب مسلمانوں نے کافروں پر پلٹ کرحملہ کیااور ان کے کشتوں کے پشتے لگنے لگے اس وقت رسول عربیﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’الآن حمٰی الوطیس‘‘ تنور اب گرم ہوگیا یعنی اب گھمسان کارن پڑاہے۔ الغرض عربوں کی لغت دانی، الفاظ کی تراش وخراش یعنی اشتقاق کی صناعیاں رسول اللہﷺ کے حسین و دلکش لغات اور مشتقات کی جامعیت سے بھرپو رکلمات کے سامنے بالکل ماند پڑگئی تھیں۔ فصل ووصل :عربی زبان میں دوجملوں کوکسی حرف عطف کے ذریعہ مربوط کرنے یا بغیر حرف عطف کے ذکر کرنے کے مستقل قواعد ہیں جو ادب کی اصطلاح میں ’’فصل ووصل ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان کی رعایت کلام میں ایک لطف پیدا کرتی ہے کلام نبوی ﷺ میں اس کا بڑا خوبصورت استعمال موجود ہے۔ مثلا آپ ﷺ نے فرمایا ’’أدِّ الامانۃ لمن ائتمنك ولا تخن من خانك۔ امانت وخیانت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور امانت کی ادائیگی اور خیانت سے اجتناب ایک دوسرے کے لوازم میں ہیں۔ کلام نبویﷺ میں لفظی مناسبت :زبان و ادب کی خوبیوں اور رعنائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو ایسے الفاظ استعمال کیئے جائیں جوتلفظ میں یکسانیت یاقربت رکھتے ہوں اور معنی و مقصود میں ایک دوسرے سے مختلف، لیکن ایسی لفظی مناسبت میں بے ساختگی اور برجستگی شرط ہے۔ رسول اللہﷺ کی گفتگو میں اس طرح کے خوبصورت، برجستہ فقرے کثرت سے ملتے ہیں، بطور مثال چند فقرے پیش کئے جاتے ہیں : عصیۃ عصت اللہ ورسولہ  قبیلہ ’’عصیہ‘‘ نے اللہ و رسول کی معصیت و نافرمانی کی۔ غفار غفر اللہ لھا ’’غفار ‘‘ قبیلہ کی اللہ تعالیٰ مغرفت فرمائے اسلم سالمھا اللہ  ’’بنو اسلم ‘‘ کواللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ اسلم تسلم اسلام قبول کرو نجات پاؤ گے۔ الخیل معقود بنو اصیھا الخیر گھوڑے کی پیشانی سے ’’خیر ‘‘ وابستہ ہے۔ لا یکون ذو جہین وجیھا عنداللہ  ’’دو رخا‘‘ اللہ کے نزدیک وجیہ (بامراد وکامیاب)نہیں ہوسکتا۔ رعایت سجع و نغمگیں کیفیت :رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺنے متعدد اور بے شمار مواقع پرایسے فقرے اور جملے استعمال فرمائے جس میں رعایت سجع کاجلوہ نمایاں ہے۔ ادب اور زبان کی اصطلاح میں سجع کہتے ہیں فقروں کی ایسی ترتیب جس کے آخری حروف میں یکسانیت ہواور ان فقروں میں ایک طرح کا آہنگ ہو۔ اگر مسجع کی رعایت میں تکلف اور تصنع کادخل ہوتو اہل ذوق کے لیے اس سے زیادہ گراں خاطر کچھ اور کلام نہیں، لیکن اگر اس میں بے تکلفی، بے ساختگی اور برجستگی ہوتو پھر اس کی لذت اور حلاوت کاکیاکہنا۔ آپﷺ کے تمام نصائح میں بھی اور دعاؤں میں بھی یہ رنگ خوب نمایاں ہے۔ چند فقرے اور جملے بطور نمونہ پیش ہیں۔
ایک خطبے (تقریر) میں آپﷺ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

 لوگو! سلام کوعام کرو، کھانا کھلاؤ، شب کے وقت جب لوگ سوئے ہوں نماز پڑھو، اس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوسکو گے۔ (سنن ابن ماجہ 1334)
ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا

:الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ (سنن ابی داود:1964)

’’مومن شریف و سادہ اور فاجر شخص کمینہ ودھوکہ باز ہوتا ہے۔‘‘
بعض مواقع پر تو آپﷺ کے کلام میں یہ رعایت سجع اتنی خوبصورت ہے کہ گویا تأثیر میں شاعر ی مثلا یہ حدیث

كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ (صحیح البخاری7563)

دو کلمے ہیں اللہ کومحبوب، زبان پر ہلکے پھلکے، میزان عمل میں بھاری۔

سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ

دلچسپ آغاز کلام:

اللہ تعالیٰ نے تاجدارمدینہ کوآغازکلام کا بھی ایک خاص سلیقہ و دیعت فرمایاتھا، اگر اس نقطہ ٔ نظر اور پہلو سے کلام نبوی ﷺکامطالعہ کیاجائے تویہ بھی بلاغت نبویﷺ کاایک مستقل باب اور عنوان ثابت ہوگا۔ متعدد روایات میں اس طرز پر گفتگو شروع فرماتے کہ مخاطب ہمہ تن گوش ہوجائے۔ کہ آگے کیا بات کہی جانے والی ہے۔ مثلا ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ اہل ایمان کامعاملہ بھی عجیب ہے،ان کاہر معاملہ خیر ہے، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ

أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ۔

راحت میسر ہواور شکر گذار ہوتویہ بھی اس کے لیے بہتر، اگر تکلیف سے دو چار ہواور صبر کرے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر۔ اس حدیث میں آپ ﷺ کایہ ارشاد فرمانا کہ ’’باعث تعجب ہے مومن کا معاملہ ‘‘ کس قدر دلچسپ اور قلب و دماغ اور ذہن و فکر کومتوجہ کرنے والا اور خوابیدہ اذھان کوچونکا دینے والا ہے۔ کلام نبوی ﷺ میں ’’التفات ‘‘کی جھلک :بلاغت کی اصطلاح اور قواعد میں ’’التفات ‘‘بھی ہے یعنی تخاطب میں ایسی تبدیلی کہ مقصد بھی حاصل ہوجائے اور منشاء بھی فوت نہ ہونے پائے۔ عربی زبان میں اس انداز تخاطب کوپسند کیاجاتا ہے اور بہتر طرز کلام مانا جاتاہے، آں حضرت ﷺکی گفتگو اور کلام میں اس حسن تکلم کی پوری پوری رعایت موجود ہے خاص کر آپ ﷺنے دعاؤں میں اکثر ’’التفات ‘‘ سے کام لیا ہے بطور نمونہ دومثالیں پیش خدمت ہے۔ رسول اللہﷺ جب رکوع میں جاتے تو اس طرح دعاء فرماتے۔

اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ أَنْتَ رَبِّي، خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي، وَلَحْمِي وَدَمِي، وَمُخِّي وَعَصَبِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (سنن النسائي :1052)

اے رب کریم!میں آپ کے سامنے جھکتاہوں، آپ پر ایمان رکھتاہوں، چوکھٹ یارپر جبین نیازخم ہے اور اسی پر بھروسہ ہے، آپ ہی میرے پرور دگار ہیں، آنکھ، کان، گوشت، خون اور ہڈیاں خدائے پروردگار عالم کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
اس دعا میں ابتداء صیغہ ٔ خطاب سے اللہ رب العزت کا ذکر کیاگیا، پھر اختتام دعا پر اللہ رب العزت کانام نامی ذکر کیاگیا، اسی طرح رسول اللہﷺ جب گھر سے باہر تشریف لاتے تو عموما یہ دعا پڑھتے۔

بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ، أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ، أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا (سنن الترمذي

: 3427)
اللہ کے نام سے، اللہ ہی پر بھروسہ ہے، الٰہی! میں لغزش اور بے سمتی کاشکار ہونے سے آپ سے پناہ چاہتاہوں۔ اس بات سے بھی کہ میں ظلم کرو ں یامجھ پرظلم کیاجائے، میں جہالت کاثبوت دوں یا میرے ساتھ جاہلانہ رویہ اختیار کیاجائے۔ اس میں دعا اللہ رب العزت کے اسم پاک سے شروع ہوئی ہے، پھر بندہ خطاب کے صیغے سے اللہ کے حضور مناجات کرتاہے کبھی معروف کاصیغہ استعمال کرتاہے تو کبھی مجھول کا نضل اور یضل میں ایک حرف کی تبدیلی سے عبارت میں جولطافت پیداہوئی ہے وہ سب سے سوا ہے۔ مقابلہ :حسن کلام کا ایک طریقہ ’’مقابلہ ‘‘بھی ہے، بلاغت کے اعتبار سے مقابلہ کہتے ہیں کہ پہلے ایک بات ذکر کی جائے اور پھراس کے مقابلہ میں ایسی بات ذکرکی جائے جواس کے مقابل ہو، اس انداز کلام سے ایک خاص قسم کی تاکید، ہم آہنگی اور رعنائی وخوبصورتی پیدا ہوتی ہے، آپﷺ کے کلام اور گفتگو میں یہ انداز اور طریقہ کثرت سے پایا جاتاہے، صرف ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ رسول اللہ ﷺنے سیدہ عائشہrسے فرمایا:

يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَمْ يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ (مسند ابی داؤد الطیالسی 1619)

نرمی اختیار کرو کہ جس میں یہ وصف پایا جاتا ہے اس کو آراستہ کرتا ہے اور جو اس سے محروم ہواس کو عیب داربناتا ہے۔ (مستفاد ادب اسلامی ایک مطالعہ) ایجاز واختصار کلام نبوی ﷺ میں :ادب کے محاسن میں سے یہ بھی ہے کہ نہایت ہی اختصار کے ساتھ کم الفاظ میں زیادہ بات کہہ دی جائے یعنی جو گفتگو مختصر اور بامعنی ہوتی ہے اسے ایجاز کے اسلوب سے جانا جاتا ہے، اس کے بالمقابل کلام میں طوالت اور دراز نفسی ایک عیب ہے نہ کہ ہنر، ایسا کلام کہ سننے اور پڑھنے والے کے ذہن میں اس کی منزل مقصود متعین ہی نہ ہونے پائے۔ اور وہ الفا ظ کے بیابان میں اپنے آپ کو ایک گم کشتہ راہ مسافر تصور کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو او رکلام ماقل و دل کی تصویر ہوتی آپ کا کلام بلاغت نظام کی کیفیت سے معمور نظر آتا جس کے رنگ رنگ سے معنی ٹپکتا ہے اسی کو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا أوتیت جوامع الکلم مجھ کو مختصر اور پر معنی کلام کی توفیق خاص سے نوازا گیاہے۔ اوپر جواحادیث رسول اور دعاء رسول ذکر کی کی گئی ہیں وہ سبھی اس طرز کلا م کانمونہ ہیں۔ ضرب المثل او ر محاورے کلام رسول ﷺ میں :ضرب المثل اور محاورے کلام کی خوبیوں اور محاسن میں سے ہیں ضرب المثل اور محاورے کی مقبولیت اور اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ﷺکے کلام میں بھی اس طرح کے مقبول عام فقرے محاورے اور اختراعی تعبیرات بہت زیادہ ہیں طوالت کے خوف سے صرف چندمحاورے اور اختراعی تعبیرات پیش کیے جاتے ہیں۔
1۔ المرء مع من احب
آدمی جسے چاہے گا اس کے ساتھ حشر ہوگا۔
2۔ الدین النصیحۃ۔
دین خیرخواہی سے عبارت ہے۔
3۔ حوالیھا یُدندن   اس کے اقرباء بڑ بڑا رہے ہیں یعنی اظہار ناراضگی کررہے ہیں۔
4۔ اعقل و توکل  پہلے اونٹ کاگھٹنا باندھوپھر اللہ پر توکل کرو یعنی ہرمعاملہ میں پہلےاپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے پھر اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
5۔ حوالینا ولاعلیناہمارے گردو پیش ہولیکن ہم پرنہ ہو رسول اللہﷺ نے یہ الفاظ غیر متوقع بار ش کودور ہٹانے کے لئے دعائیہ انداز میں ارشاد فر مائے تھے۔
6۔ الآن حمی الوطیس اب تنور بھڑکا ہے یعنی معرکۂ کار زار اب گرم ہے۔
7۔ ھدنۃ علی دخن وجماعۃ علی اقذاء   نیچے لڑائی کادھواں سلگ رہاہے اور اوپر صلح کی اوس،دلوں میں دشمنی کی کسک ہے او ربظاہر اصلاح کی رٹ۔ یعنی منہ میں رام رام بغل میں چھری۔
8۔ لاینتطح فیھا عنزان اس میں دوبکریوں کی کوئی لڑائی نہیں ہے یعنی اس معاملہ میں کسی کومجال اختلاف نہیں ہے۔
9۔ کل الصید فی جوف الفراء ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں
10۔ المرء بالقرین انسان دوست سے پہچانا جاتاہے۔
11۔من جد وجد جس نے کوشش کی وہ کامیاب ہوا۔
12۔ من ضَحک ضُحک  جودوسروں پر ہنستاہے دنیا اس پر ہنسے گی۔
13۔ رفقا بالقواریر  آبگینوں کو ٹھیس نہ پہونچاؤ یعنی عورتوں پر شفقت اور رحمدلی کامعاملہ کرو۔
14۔مات فلان حتف انفہ وہ فطری اور طبعی موت مرا۔
15۔ ایاکم وخضراء العمن چمکتا جونظر آتا ہے وہ سب سونا نہیں ہوتا۔
16۔ ان المنبت لاارضا قطع ولا ظہرا یعنی ہرطرف سبزہ ہی سبزہ ہے، دونوں ہاتھ میں لڈو۔
17۔ لایلدغ المومن من جحرمرتین۔ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا۔
18۔ الید العلیا خیر من الید السفلی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
19۔ اذا لم تستحی فاصنع مااشئت بے حیا باش ہر چہ خواہی کن۔
20۔ لیس الخبر کالمعاینۃ  سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہے، شنیدہ کے بود مانند دیدہ (نقوش سیرت رسولﷺ نمبر جلد۔ 8)
الغرض تاجدار مدینہ رسول عربی اورنبی اکرمﷺ کی گفتگو اور کلام ان مضامین و معانی کاحامل ہوتاتھا جو انتہائی حکیمانہ عاقلانہ اور الہامات نبوت اور وحی الٰہی سے ماخوذ ہوتے تھے۔ آپ ﷺکے کلام وبیان کے یہ تمام محاسن کسبی نہیں تھے بلکہ وہبی اور توفیقی تھے اورزبان دانی کے یہ تمام کمالات رسول اللہ ﷺکی ذات والا صفات میں ایک معجزہ بن کر نمایاں ہوئے تھے اور اس موہبت عظمی کی عطا کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی ذات والا کو انتخاب فرمالیاتھا۔ سابقہ اوراق میں بنی اکرم ﷺکے کلام کی انہی خوبیوں اورمحاسن کومیں نے مثالوں کے ساتھ پیش کیاہے۔
مضمون کے اختتام پر مجھے اس بات کاشدید احساس ہے کہ ان چند صفحات میں رسول رحمت ﷺ کے کلام وگفتگو، دعا وخطاب (تقریر) کے تمام اور ہمہ جہت ادبی محاسن اور رعنائی کواجاگر نہ کرسکا۔ البتہ اہل ذوق حضرات سے گزارش او ردرخواست ہے کہ رسول معظم  ﷺ کے کلام اور احادیث نبوی کے فنی اور ادبی محاسن کوسمجھنے کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ جوبطور مراجع ومصادر نیچے لکھے جارہے ہیں۔

مراجع ومصادر

1۔ وحی الرسالۃ، احمد حسن زیات۔
2۔ الحدیث النبوی ؐ، مصطفی زرقاء۔
3۔ الحیاۃ الادبیۃ بعد ظہر الاسلام، الدکتور محمد عبد المنعم خفا جی۔
4۔ ادب الحدیث النبوی ؐ۔ الدکتور بکری شیخ امین۔
5۔ الحدیث النبوی مصطلحاتہ، بلاغتہ وکتبہ، محمد علی الصباغ۔
6۔ التصویر الفنی فی الحدیث النبوی ۔ محمد علی الصباغ۔
7۔ الحدیث النبوی الشریف من الوجھۃ البلاغیۃ۔ الدکتور کمال عزا لدین۔
8۔ فصاحت نبوی ؐ۔ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔
9۔ سرور کونینﷺ کی فصاحت۔ شمش بریلوی۔
10۔ ادب اسلامی ایک مطالعہ (مرتب رضوان القاسمی ؒ خالد سیف اللہ رحمانی)
11۔ نقوش رسول نمبر (لاہور) جلد مرتب ومدیر محمد طفیل۔
12۔ کاروان ادب سہہ ماہی نمبر (حدیث نبوی ؐ کی ادبی خصوصیات) ناشر رابطہ ادب اسلامی لکھنؤ۔
13۔ زاد المعاد۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ۔
14۔ ماھنامہ نوائے ہادی (سیرت رسول ؐ نمبر) کانپور مدیر محمد اخلاق ندوی۔
۔۔۔

محبوب کی اتباع ہی اصل میں محبت ہے

تمام قسم کی تعریف اللہ رب العزت ہی کے لئے جو تمام جہانوں کا تن تنہا واحد رب ہے معبود برحق ہے۔
کروڑوں درود و سلام رسول اللہﷺ کی ذات مقدس پہ اور رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ کی آل آپ کی ازواج اور آپ کے اصحاب پر،
یقینا حب رسولﷺ ایمان کے بنیادی تقاضوں سے اولین تقاضا ہے، محبت رسول ایمان کا حصہ ہے، اس کے بغیر بندہ مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا، جب ایمان مکمل نہیں ہو گا تو اس کے اعمال بھی قبول نہیں ہوں گے،
اور ایک مومن کے لئے حبِ رسول کی حد اس آیت سے لگائی جا سکتی ہے

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (الاحزاب 6)

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں۔
یعنی کہ نبی ﷺکا حق یہ کہ ہر مومن انہیں اپنی جان ، مال ،آل اولاد سب سے زیادہ محبوب رکھے،
اسی طرح سورہ توبہ میں اللہ و رسول کی محبت کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ     (التوبۃ24)

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالٰی اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالٰی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
یہاں اللہ رب العزت نے تمام رشتوں ، مال، تجارت، کاروبار، گھر، سب کو گنوا کر یہ واضح کر دیا کہ ان سب پہ اللہ و رسول کی

محبت فوقیت رکھتی ہے

اور جو شخص اس معیار پر پورا نہیں اترتا وہ مومن نہیں بلکہ فاسق ہے، اور اس کی  اہمیت کا اندازہ ہم ان دو احادیث سے لگا سکتے ہیں،
ایک دفعہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیاکی ہرچیز سے زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “ آپﷺ نے فرمایا: ” اے عمر! جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں جانوگے اس وقت تک تم سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ “
تب سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “
آپﷺ نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری 6632)
محترم قارئین :غور کیجئے پیارے رسول اللہ ﷺ  یہ بات ان صحابی سے کہہ رہے ہیں جو مراد نبی ہیں،
یہی وہ صحابی ہیں جن کی زبان سے نکلنے والے احکامات بعد میں رب العزت نے قرآن بنا کر نازل کر دیئے، یہی وہ صحابی ہیں جنکی قوت و غیرت ایمانی سے ڈر کر شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا جس پہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چلتے تھے، لیکن کامل ایمان ان کے لئے بھی یہی ٹھرا کہ سب سے زیادہ محبت کے حقدار ہیں تو ایک مومن کے لئے اللہ اور اس کے رسول ہی ہیں، اسی طرح صحیح بخاری ہی کی ایک حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں،

قال الَنبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “”لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ””. (صحیح البخاری 15)

نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

اور پیارے رسولﷺ نے فرمایا:

کہ تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا،
ان تین چیزوں میں سے ایک اللہ ا ور اسکے رسول کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھنا ہے۔
‏‏‏‏‏

وَحَتَّى يَكُونَ اللَّہ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا (صحیح البخاری6041)

اور جب تک اسے دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ محبت نہ ہو۔
اس بات کو مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے، چاہے ایک شخص توحید کا کتنا بڑا داعی کیوں نہ ہو۔کتنا پکا سچا موحد کیوں نہ ہو اس وقت تک وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خاتم النبین،سید البشر محمد رسول اللہ پہ ایمان نہیں لے آتا۔اور جب تک وہ اللہ کے رسول سے محبت ہر چیز سے زیادہ نہیں کرتا۔اس کا ایمان کامل نہیں ہے۔اور یقیناً صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس محبت کے تقاضے کو اس طرح نبھایا اور ایسا ایمان لایا اور محبت کی وہ داستان رقم کی ، قربانیوں کی وہ عظیم مثال بنے کہ میرے رب نے ایمان کا معیار صحابہ رضوان اللہ کے ایمان کو بنا دیااور رہتی دنیا تک ایک حجت قائم کر دی کہ اگر ہدایت پانا چاہتے ہو توایمان لاؤ تو صحابہ کی طرح، محبت کرو تو صحابہ کی طرح، رسول اللہ کے اسوہ پہ چلو تو صحابہ کی طرح تب جاکر تمہیں ہدایت نصیب ہو گی۔

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   (البقرۃ137)

اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ،  اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں ،  اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔
یہ تو تھی رسول اللہ کی محبت کی وجوبیت، اہمیت و فضیلت لیکن یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حب رسول یعنی محبت رسول ہے کیا چیز؟
محبت ایک قلبی کیفیت کا نام ہے کہ جس کا ظہور انسان کے اعمال سے ہوتا ہے ۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے، اس  کا اظہار اس کے عمل سے ہوتا ہے، محبت کرنے والے کی تمام تر توجہ اپنے محبوب کی طرف ہوتی ہے، اور وہ دوسروں سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اپنے محبوب کی خاطر اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر محبوب کی پسند کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے، یہ انسان کی دلی کیفیت اور اس کیفیت کا انسان کے جسم اور عمل پہ ظہور اسی کو محبت کہا جاتا ہے ۔
حب رسول بھی یہی ہے کہ رسولﷺ کے قول و فعل  کے آگے انسان اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال دے، نبی کا ہر عمل اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہو، نبی کا محب اس کا محبوب ہو اور نبی کا دشمن اس کا دشمن ہو، نبی کا طریقہ اس کا محبوب ہو، نبی کا ذکر اس کا سکون ہو،  اسی طرح نبی کے رہن سہن، ان کی وضع قطع، ان کا اخلاق، الغرض نبی کا ہر ہر عمل انسان کے لیے محبوب ہو تو یہی حب رسول ہے ۔
اب یہاں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ حب رسول کا تقاضا کیا ہے؟
تقاضا حب رسول بھی ایک الگ اور طویل موضوع ہے
لیکن میں یہاں مختصرا حب رسول کے تقاضے ذکر کرنا چاہوں گی،
1۔ اطاعت و اتباع
2۔ خواہشات نفس کا نبی علیہ السلام کی لائی گئی شریعت کے تابع ہونا
3۔نبی علیہ السلام کے محبوب سے محبت اور ان کے دشمن سے بغض رکھنا
4۔سنت رسول سے محبت رکھنا
5) ناموس رسالت کا تحفظ کرنا
یہ تو تھے چند تقاضے حب رسول ﷺکے ۔
ان تقاضوں کو تفصیلا بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں لیکن میرا موضوع یہ نہیں اس لئے صرف بنیاد ذکر کی تاکہ آپ لوگوں تک میری بات مختصر انداز میں پہنچ سکے
’’جذبہ حب رسول اور اصحاب رسول‘‘
اگر اس موضوع کو لکھنا شروع کردیا جائے تو صفحے ختم ہوجائیں اور سیاہی کم پڑجائے اور انسان کی عمر اپنے اختتام کو پہنچ جائے لیکن اس کا حق ادا نہیں ہو سکتالیکن اللہ رب العزت نے موقع دیا ہے کہ ان لوگوں کی زندگی کو ذکر کروں کہ جن سے رب راضی ہوا اور وہ رب سے راضی ہوئے تو اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے بہر حال صحابہ کرام کی زندگی پہ نگاہ ڈالی جائے تو ان کی زندگی جذبہ حب رسول سے پُر نظر آتی ہے کوئی ایک لمحہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جس میں ان میں جذبۂ حب رسول نہ ہو کیونکہ ایک مومن سے یہی جذبۂ حبِ رسول مطلوب ہے کہ جو اصحاب رسول نے نبھایارسول اللہ کے اصحاب نے  محبت کے تقاضے کو اس طرح نبھایا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
ایمان لائے ، محبت کی ، اور ایسی نبھائی کہ یقینا تاریخ انسانیت ایسی مثال دینے سے قاصر ہے۔
اگر محبانِ رسول کا تذکرہ کیا جائے اور جو محبت کے تقاضے انہوں نے نبھائے، اور رسول اللہ کے سسر، آپ کے ساتھی، یار غار، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ داستان محبت ادھوری ہی رہے گی یہی وہ ذات اقدس تھی جن کی محبت، اطاعت، قربانیوں، اور احسانات کے بارے رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا:’’میں ہر شخص کا بدلہ دے چکا ہوںصرف ایک ابو بکر ہے جن کے احسانات کا بدلہ کل قیامت والے رب دیں گے‘‘۔
ہاں یہی وہ ابو بکر ہیں جو اسلام سے پہلے رسول اللہ کے دوست، آپ کی صداقت، آپ کی امانت ،آپ کی پاک بازی و پاک دامنی کی معترف و گواہ تھے کہ جب رسول اللہ ﷺنے نبوت کا اعلان کیا تو یہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی آپ معراج پہ گئے تو یہی وہ ابو بکر جن سے مشرکین مکہ نے کہا اب تو انکار کر دے انکی نبوت کا جو یہ کہتے ہیں کہ آج کی رات وہ مکہ سے بیت المقدس وہاں سے ساتوں آسمان صرف اس مختصر سے وقت میں ہو کر آگئے،
فرمایا اگر محمدﷺ نے ایسا کہا ہے تو یقیناً سچ ہی کہا ہے
اسلام کا ابتدائی دور بڑا ہی مصیبتوں ،مشکلات تکالیف سے بھرا پڑا ہے یہی ابو بکر ہیں جو رسول اللہ کے شانہ بشانہ ہیںیہی ابو بکر ہیں جو ہجرت کے ساتھی ہیںغار ثور کے رفیق ہیں۔
یہی ابو بکرکہ جس نے ہر موقع پہ اللہ و رسول کی جان و مال سے مدد کی،محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع ایسا آیا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوگئے ، رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا:  اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ ، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ (سنن ابو داؤد1678 )
آئی بات شادی کی تو اپنی کنواری لاڈلی بیٹی بھی رسول اللہ ﷺکے نکاح میں دے دی،غرض یہ کہ ابو بکر کی محبت رسول کو کسی تحریر میں مکمل طور پہ لانا یا کسی ایک شخص کا مکمل طور پہ بیان کرنا نا ممکنات سے ہےاسی طرح دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محبت کو صلح حدیبیہ میں سیدنا عروہ جو اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے کچھ یوں بیان کرتے ہیں، عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو قسم اللہ! کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺ کے اصحاب آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمدﷺ نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ ﷺ نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ ﷺنے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺ کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپﷺ نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپﷺ کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔( صحیح البخاری 2731)
اور غزوہ احد کا موقع کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ کے صحابہ نے آپﷺ کی حفاظت کے لیے یکے بعد دیگرے جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ محمد رسول اللہﷺ کی حفاظت ہو سکے،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقعہ پرسیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنی ایک ڈھال سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھےسیدنا ابوطلحہ بڑے تیرانداز تھے اور خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے، چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں انہوں نے توڑ دی تھیں، اس وقت اگر کوئی مسلمان ترکش لیے ہوئے گزرتا تو آنحضرتﷺ فرماتے کہ اس کے تیر ابوطلحہ کو دے دو،رسول اللہ ﷺ حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اچک کر ملاحظہ نہ فرمائیں، کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے، میرا سینہ رسول اللہ ﷺکے سینےکی ڈھال بنا رہا،قیس بن ابی حازم نے کہا میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا ہے جس سے انہوں نے رسول اللہﷺ کی (جنگ احد میں) حفاظت کی تھی وہ بالکل بیکار ہو چکا تھا۔(صحیح بخاری)
اللہ اکبر!

أؤلئك أبائي فجئنا مثلهم

اور یہی وہ حب رسول کا جذبہ تھاکہ نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ ان کے لئے حرف آخر ہوتے تھے، جیسا کہ رسول ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ (کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ،آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرما یا “تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھا تا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے ۔” رسول اللہﷺ کے تشریف لے جا نے کے بعد اس شخص سے کہا گیا:اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کو ئی فائدہ اٹھا لو۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم !میں اسے کبھی نہیں اٹھا ؤں گا ۔جبکہ رسول ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے۔( صحیح مسلم)
غر ضیکہ صحابہ کرام کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں، کہ کس طرح انہوں نے حقیقی معنوں میں محبت واتباع کا حق ادا کیا، آپﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو، اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو، آپﷺ کے صحابہ کرام کو آپ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا، کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضور اکرمﷺ نے کیا ہوتا ،ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جسے آپﷺ پسند کرتے، جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے، یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہو جاتی، اور اس مقام پر وہی عمل کرنے کو وہ اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام کی رسول اللہﷺ سے محبت، آپ کی اطاعت واتباع کی مثالیں ایک تحریر میں بیان کرنا ناممکن ہے، لہذا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺسے محبت کرنے اور اس محبت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین یا رب العالمین )

صحابہ کرم کی نبی اکرم ﷺ سے محبت

يا رب صلِّ على المختار سيِّدِنا
والآل والصحب فى حِلٍّ وفى حَرَمِ
الحمد لله من قلبى أردده
شكرا لربى على ما  كان من نِعَمِ

ایک مسلمان کے لیے اس سے زیادہ سعادت اور خوشی کی کیا بات ہوگی کہ اس کےدل میںنبی کریمﷺ کی محبت کا دیا جلتا رہے اور نبی اکرم ﷺ اپنی مال وجان اور اولاد سے زیادہ عزیز ہوں نبی اکر م ﷺ فرماتے ہیں :
لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری : 15)
’’تم میں سےکوئی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اسکے باپ ،اولاداورسب لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں ‘‘۔
نبی اکرم ﷺ سے محبت ایمان کی کڑیوں میںسے ایک بنیادیی کڑی ہے رب کائنات نے اپنی اوراپنے پیارے محبوب محمد مصطفی ﷺ کی محبت تمام مسلمانوں پر فرض کردیا ارشاد ربانی ہے

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ     (التوبۃ24)

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارےبیٹے  اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی اور اپنےرسول ﷺ کی محبت کو سب چیزوں پر فوقیت دینےکا حکم دیا ہے ۔ آپ ﷺ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی جان ومال سے زیادہ عزیزرکھتےتھے کیونکہ آپ نے انہیں جہالت کے اندھیرں سے نکال کر اسلام کی روشنی سے آشنا کیااور زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا ، خاک کے ذروں کو ہمدوش ثریاکردیا،مُردوںکو مسیحا کرددیا ،پتھر جیسے سخت دل نرم پڑگئے جن دلوں میںظلم کی بربریت کی وجہ سے خزاں چھائی ہوئی تھی ان میں ایمان کی بہار آئی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپ ﷺ سے اتنی شدید محبت کرتے تھے کہ تاریخ ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصرہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

يَا رَسُولَ اللہِ! إِنِّي إِذَا رَأَيْتُكَ طَابَتْ نَفْسِي وَقَرَّتْ عَيْنِي (مسند أحمد :7932 )

’’اے اللہ کے رسول ﷺ جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرے دل کو قرار اورآنکھوں کو سکون مل جاتاہے۔
نبی اکرم ﷺ کے غلام ثوبان کی محبت کا اندازہ ان کی اس فکر و پریشانی سے لگائیے کہ کہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں چہرے سے پریشانی عیاں ہے رنگ اترا ہو ہے نبی اکرم ﷺ
پریشانی بھانپ لیتے ہیں کہتے ہیں ثوبان کیا بات ہے
چہرے کا رنگ کیوں اترا ہو ہے کیا پریشانی ہےتو سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ یہ کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ جب تک آپ کو دیکھ نہ لوں تب تک پریشان رہتا ہوں اب ایک پریشانی اور سوچ مجھے کھائی جارہی ہے کہ قیامت کے دن آپ انبیاء علیہم السلام کی رفاقت میں ہونگے ہم سے مرتبہ ومقام میں اعلی ہونگے میری اورآپ کی منزلت کا کیامقابلہ اگر میں جنت میں داخل ہوگیا تو میں آپ کو کیسے دیکھوں گا آپ سے کیسے ملاقات کروں گا۔سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے اپنی پریشانی کا حال بیان کررہے ہیں رب کائنات نبی کریم ﷺ پرآیت نازل فرماتے ہیں کہ اگر جو آپ سے محبت کرتا ہے اسے یہ بشارت دےدیجیے ،ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا

اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسولﷺ کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔(النساء 69)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپﷺ کی محبت میں قیمتی اور نفیس چیز خرچ کرنے میں کبھی بھی دریغ نہیں کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کو اپنی جان ومال سے زیادہ عزیز رکھتےہیں ۔
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے اللہ رسول ﷺ ہمار امال آپ کے لیے حاضر ہے جو چاہے جتنا چاہیں لے لیں ۔ہماری جان آپ پر قربان ہےآپ ہمیں سمندر میںکود جانے حکم دیں گے تو ہم سمندر میں بھی کود جائیں گے اور کوئی ہم میں سے پیچھے نہیں رہے گا۔غزوہ احد میں ایک صحابیہ کا خاوند ،بیٹا ،بھائی شہید ہوجاتے ہیں جب اسے یہ خبر پہنچائی گئی تو کہنے لگی بتاؤنبی کریم ﷺ کا کیا حال ہے جواب دیا گیا کہ آپ ﷺ خیر و عافیت سے ہیں کہنے لگیں میں دیکھنا چاہتی ہوں بتایا گیا کہ آپﷺ یہاں تشریف فرماہیں آپ ﷺ کو دیکھنے کے بعد کہتی ہیں

كُلُّ مُصِيبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ (البدایۃ والنہایۃ 4/47)

آپ ﷺ کو صحیح سلامت دیکھنے کے بعد مرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے ۔
آیئے دیکھتے ہیں دشمن آپﷺ کے اور آپ کے صحابہ کےبارے میں کیا کہتا ہے ۔صلح حدیبیہ کے موقع پہ قریش اپنے مختلف آدمیوں کو آپ ﷺ کےپا س بات چیت کے لیے بھیجتے رہے ان میں عروۃ بن مسعود بھی تھا دانش مند دور اندیش اور حقیقت شناس آدمی تھا جب اسے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی تو اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نبی کریم ﷺ سے محبت پوشیدہ نہ رہی بہت متاثر ہواواپس جاکر قریش والوں کو کہنے لگا میں نے قیصر و کسری کے دربار بھی دیکھے ہیں لیکن عقیدت ووارختگی کے وہ مناظرکہیں نہیں دیکھےجو محمدﷺ کے اصحاب میں نظر آئے میں نےایسی جمعیت دیکھی ہے جو کسی بھی قیمت پر محمد ﷺ کا ساتھ نہ چھوڑے گی آپ جو چاہو رائے قائم کرو ۔
واقع رجیع میں خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ دونوں صحابی قریش کی قید میں آگئے جب قریش زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو تنعیم میں قتل کرنے کے لیے لائے تو ابوسفیان زید بن دثنہ سے کہنے لگا کہ سچ بولنا اگر اس وقت تمہاری جگہ پر محمد ﷺ کو قتل کیا جاتا توتم اسے اپنی خوش قسمتی نہ سمجھتے ،زید بن دثنہ نے محبت رسول ﷺ سے سر شار ہو کر  اس طرح جواب دیا اللہ کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہ کرتا کہ میرے بچاؤکے بدلے میں رسول اللہ ﷺ کے پائے مبارک خلش خار سے آشنا ہوں،ابو سفیان کی زبان پہ بے تکلف یہ الفاظ آگئے واللہ میں نے کسی شخص کو دوسرے آدمی سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی اصحاب محمد  کو محمد ﷺ سے ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ صحابہ کرام کی نبی اکرم ﷺ سے محبت بیان کیجیے کہنے لگے اللہ کی قسم ہم آپ سے اپنے ماں باپ اولاد اور جان ومال سے زیادہ محبت کرتے تھے جس طرح پیاس کی شدت میں پیاسے کو ٹھنڈاپانی محبوب ہوتا ہے ہمیں آپ ا س سے بھی زیادہ محبوب تھے انسان کو انسان ،شجروحجر بھی آپ سے محبت کرتے تھے آپ ﷺ فرماتے ہیں۔

هَذَا أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ (البدایۃ والنہایۃ5/16)

’’یہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے ‘‘۔
نبی اکرم ﷺ مسجد نبوی میں درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے جب صحابہ نے آپ کے لیے منبر بنایا اور آپ ﷺ نے اس پہ کھڑے ہوکر خطبہ دیا تو یہ درخت کا تناغم فراق محمد ﷺ میں رونے لگا اورصحابہ نے اس کے رونے کی آواز سنی آپ ﷺ نے منبر سے اتر کر اس پر ہاتھ رکھا تب جاکر رونے کی آواز بند ہوئی ۔
یہ چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کی گئیں ہیں ورنہ سیرت کی کتابیں صحابہ کرام  کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کے واقعات سے بھری پڑی ہیں ۔دیکھنا یہ ہے ک نبی اکرمﷺ کی محبت ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے حقیقت یہ ہے آپ ﷺ کی محبت آپکی اتباع میں مضمر ہے ارشاد باری تعالی ہے :

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (آل عمران:31)

’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
آپ ﷺ کی اتباع کرنے سے ہی جنت کا حصول ہوگا نبی کریم ﷺ نے فرمایا :

كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى ، قَالُوا: يَا رَسُولَ الله وَمَنْ يَأْبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى (صحیح البخاری:7280 )

’’میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی مگر جس نے جنت میں داخل ہونے سےانکار کیا ،صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ!جنت میں جانے سے بھلا کون انکار کرے گا فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی گویا اس نے جنت میںجانے سے انکار کردیا ۔‘‘
آپ ﷺ کی محبت ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم آپ ﷺ سے اورآپکی سنت سے محبت کریں اوراسکا دفاع کریں ،گویا دل سے آپ کی تعظیم کی جائے ،زبان سے آپکی تعریف کی جائے اورآپ ﷺ پہ کثرت سے درود وسلام پڑھاجائے آپ ﷺ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کیا جائے جس چیز سے آپ نے منع کیا اس سے دور ہواجائے ۔
احیاء سنۃ حقیقۃ حبۃ
فی القلب فی الکلمات فی الافکار
حقیقی آپ ﷺ سے محبت یہ ہےکہ آپ کی سنت کوزندہ کیا جائے اپنے دل و دماغ اور سوچ وافکارمیں۔
جو نبی کریمﷺ سے محبت اور آپ کی اتباع کرتا ہے اسے قیامت کے دن آپ کا ساتھ نصیب ہوگا ۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مسجدسے نکل رہاتھا ایک آدمی نےآپ ﷺ سے پوچھا اللہ کے رسول ﷺ قیامت کب آئےگی آپ مﷺ نے فرمایا کیا تم نے اس کے لیے تیاری کی ہے ،کہنے لگا اللہ کے رسول ﷺ بہت زیادہ نفلی روزہ اور صدقات تو نہیں لیکن آپ سے محبت کرتاہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا :
أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ (صحیح البخاری:3688 )
تمہیں اسکا ساتھ نصیب ہوگا جس سے تم محبت کرتے ہو۔ دعا ہے اللہ تعالی مجھے اور آپ کو نبی کرم ﷺ کی اتباع کرنے کی توفیق عطافرمائے اور جنت میں آپ ﷺ کا ساتھ نصیب فرمائے ۔(آمین)
۔۔۔

رحمدلی اور اسوۂ رحمت ﷺ

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتااور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیںاور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسےاختیار کرنے کا حق ہے کیونکہ تقوی سے ہٹ کر کوئی چیز  ہمارا پروردگار قبول نہیں کرتااور صرف متقی لوگوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔
مسلمانو!دین حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر قائم ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا یہ حق ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں، اور کسی کو اس کے ساتھ شریک مت بنائیں، جبکہ مخلوقات کا حق ان پر احسان اور حسن سلوک کا نام ہے۔
ایک عظیم صفت جسے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میںپیدا فرمایا، چنانچہ نبی علیہ الصلاۃ  و السلام کا فرمان ہے:
اللہ تعالی نے ایک سو رحمتیں پیدا فرمائیں اور ان میں سے صرف ایک مخلوق کو دی، اور باقی ننانوے اپنے پاس چھپا لیں۔( مسلم)
اس صفت کا ذکر علم سے بھی مقدم فرمایا اور کہا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ( الكهف : 65)

 وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا،اور اپنے ہاں سے ایک خاص علم سکھایا تھا۔
بلکہ اللہ تعالی اس صفت سے متصف لوگوں کو پسند بھی  فرماتا ہے، نیز رحم دلی سے منسلک رہنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرنے والوں کو سراہا اور فرمایا:

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : 17)

پھر لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کی ۔
اسی صفت کی بنیاد پر ادائیگی حقوق کی عمارت قائم ہے، چاہے و واجب حقوق ہوں جیسے کہ زکاۃ ، یا مستحب حقوق ہوں جیسا کہ درگزر اور صدقات ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “انسان کیلئے ضروری ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت مطلق طور پر  لوگوں کو فائدہ اور نفع پہنچانا مقصود ہونا چاہیے”
یہی وہ رحمت ہے جوﷺ کو دیکرمبعوث کیاگیا اور حقیقت میں یہ اللہ کی طرف سے عین نوازش ہوتی ہے، وہ جسے چاہے اس سے متصف فرماتا ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ایک دیہاتی شخص میں بچوں کے متعلق رحم دلی نا پید ہونے کے بارے میں فرمایا:’’میں تمہارے کیلئے کیا کرنے کا اختیار رکھتا ہوں! کہ اللہ نے تمہارے دل سے رحمت چھین لی ہے‘‘۔  (صحیح البخاری)
جب کبھی اللہ تعالی اپنے کسی بندے کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے تو اس کے سینے میں رحم دلی ڈال دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ(الفتح : 4)

وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں : یہاں سکینت سے مراد رحمت  ہی ہے۔
ہر انسان کو اس صفت میں سے اتنا ہی ملتا ہے، جتنی کسی کے نصیب میں ہدایت ہو، یہی وجہ ہے کہ کامل ترین مؤمن ہی سب سے زیادہ رحمت کامالک ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ(الفتح : 29)

 محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت رحمدل ہیں ۔
اللہ تعالی نے مؤمنین کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ

 أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ(المائدة : 54)

’’وہ مؤمنین کیلئے نہایت رحمدل ہوتے ہیں‘‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہاں آیت میں ذلت سے مراد باہمی رحمدلی ہے۔
اس صفت سے دل کو بھر پور کرنا نیک بختی کی علامت اور رحمتِ الہی حاصل کرنے کا باعث ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’رحم کرنے والوں پر ہی رحمن رحم کرتا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، تم پر آسمانوں میں موجود  اللہ تعالی کی ذات رحم کرے گی۔‘‘( ابو داود)
جنت میں داخل ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہونگے جن کے سینے ایمان کیساتھ ساتھ رحمدلی سے بھی سرشار ہونگےآپﷺ کا فرمان ہے: جنتی تین قسم کے ہیں:
1۔ایسا حکمران جو عادل، صدقہ کرنے کی توفیق پاتا ہو۔
2۔ایسا آدمی جو نہایت رحمدل ،تمام اقرباء اور مسلمانوں  کیلئے دردِ دل رکھنے والا ہو۔
3۔  پاکدامن، سفید پوش اور بال بچوں والا شخص( مسلم)
سنگدلی  اسی وقت ہوتی ہے جب رحمدلی  نہ ہو، اللہ تعالی نے  سنگدل لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ (البقرة : 74)

’’پھر تمہارے دل اس کے بعد سنگ ہو گئے‘‘ ۔ امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی ان کے دل سنگلاخ اور بالکل خشک ہوگئے، دل اسی وقت  سنگلاخ ہوتے ہیں جب دل سے نرمی اور رحمدلی نکل جائے۔
اور یہی بات انسان کے بد بخت ہونے کی علامت بھی ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:
’’رحمت صرف بد بخت ہی سے چھینی جاتی ہے‘‘( ابو داود)
اور جو مخلوق پر رحم نہ کرے، اللہ تعالی اس پر رحم نہیں فرماتا، آپﷺ کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہ کرے‘‘
(صحیح البخاری)
رسول اللہﷺ نے رحمدلی کے معمولی اظہار سے دور شخص کی مذمت بھی فرمائی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے  ایک بارسیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو اقرع نے کہا:’’میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا‘‘تو رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا:’’جو کسی پر شفقت نہیں کرتا اس پر شفقت نہیں کی جاتی‘‘( متفق علیہ)
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ چھوٹے بچوں پر رحم کرنا، انہیں گلے لگانا، انکا بوسہ لینا اور ان کیساتھ شگفتگی سے پیش آنا رضائے الہی اور ثواب الہی کا باعث ہے، اسی طرح چھوٹے بچوں کا بوسہ لینا، انہیں گود میں اٹھانا، انکا بھر پور خیال کرنا رحمت الہی کا موجب ہے۔‘‘
انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دلی کے مستحق والدین ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ  (الإسراء : 24)

 ’’اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو‘‘۔
سب سے بہترین اولاد بھی وہی ہے جو اپنے والدین کیلئے رحمت کا باعث ہو:

 فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا(الكهف : 81)

لہٰذا ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس لڑکے کے بدلے انھیں اس سے بہتر لڑکا عطاکرے جو پاکیزہ اخلاق والا اور قرابت کا بہت خیال رکھنے والا ہو ۔
مؤمنین کی باہمی رحم دلی انہیں ایک جسم کی طرح بنا دیتی ہے، آپﷺ  کا فرمان ہے: ’’مؤمنین کو تم باہمی رحم دلی، محبت اور انس میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے، اگر ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔‘‘( متفق علیہ)
حتی کے جانوروں پر بھی رحمت کرنے کی شریعت نے بھر پور ترغیب دلائی ہے، آپ ﷺ  کا فرمان ہے:
’’تم اگر بکری پر بھی رحم کرو تو اللہ تم پر رحم کرے گا‘‘ ۔
( احمد)
ایک مؤمن کافر پر اس لیے ترس کھاتا ہے کہ اسے ہدایت نہیں ملی، جبکہ مؤمن نہ ہونے کے باعث اس سے بغض رکھتا ہے اور اگر کسی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اس کیساتھ نصیحت اور ہدایت کی دعا کے ذریعے رحمدلی کا اظہار کرے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شرابی آدمی کو لایا گیا ، آپ نے فرمایا: (اسے مارو)، تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’ہم اسے ہاتھوں، جوتوں، اور کپڑوں سے مارنے لگے، اور جب آپ جانے لگے تو کسی نے کہہ دیا: ’’اللہ تجھے رسوا کرے‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسی بات کر کے اس کے خلاف شیطان کی مدد مت کرو، تاہم یہ کہو:  اللہ تجھ پر رحم فرمائے‘‘۔(احمد)
مخلوقات میں سب سے زیادہ مشفق و رحیم اللہ کے رسول ہوتے ہیں، انہوںنے خلق خدا کی رہنمائی اور اصلاح کیلئے کوششیں کیں اور اپنی امتوں کو ہلاکت و تباہی سے بچانے کیلئے ہر حربہ آزمایاانکی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کیا، اور ان کیلئے فوری عذاب کا مطالبہ نہیں کیا۔
ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام نے جب اپنی اولاد میں سے جہنمی لوگوں کو دیکھا تو اشکبار ہو گئے ، جیسے کہ آپﷺ  کا قصہ

معراج کے متعلق فرمان ہے:

’میں نے جبریل سے کہا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ آدم ہیں، اور ان کے دائیں بائیں لوگ ان کی اولاد ہیں، جن میں سے دائیں جانب والے جنتی، جبکہ بائیں جانب والے جہنمی ہیں، چنانچہ آپ (آدم علیہ السلام)جب دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے ہیں، اور جب بائیں جانب دیکھتے تو اشکبار ہو جاتے ہیں‘‘ (متفق علیہ)
سیدناابراہیم علیہ السلام بھی اپنی قوم کیلئے نہایت نرم دل تھے، اسی لیے اپنے رب سے عرض کیا:

 فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      (إبراهيم : 36)

 جس نے میری پیروی کی وہ یقینا میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی سو تو معاف کرنے والا ، رحم کرنے والا ہے ۔
آپ کے نرم دل ہونے کا یہ عالم تھا کہ قومِ لوط کے بارے میں فرشتوں سے الجھ پڑے، کہ انہیں ہلاک مت کریں، شاید کہ وہ ایمان لے آئیں۔
سیدناموسی علیہ السلام کو دو خواتین پر رحم آیا تو ان کے جانوروں کو پانی پلادیا، حالانکہ آپ اولو العزم پیغمبروں میں سےہیں، مزید برآں کہ آپکی رحمدلی کے اثرات  اس امت تک بھی پہنچے کہ انہوں نے ہمارے نبی محمد ﷺ کو نمازوںمیں تخفیف کیلئے اللہ تعالی سے رجوع کرنے کی خوب ترغیب دلائی، چنانچہ اللہ تعالی نے نمازوں کو پچاس سے پانچ تک محدود کرد یا۔
اورسیدنا یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہت ہی مہربان  بنایا تھا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا(مريم : 13)

 ہم نے اسے اپنی مہربانی سے  نرم دل اور پاک سیرت بنایا اور وہ فی الواقع پرہیز گار تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ ہم نے انہیں اپنی طرف سے لوگوں کیلئے دلی رحمت و شفقت عنایت کی، اسی بناء پر آپ لوگوں کو اطاعتِ الہی اور اخلاص کیساتھ نیک عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے‘‘۔
سیدناعیسی علیہ السلام بھی اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے، سخت مزاج اور بے رحم نہ تھے:

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

 اور اللہ نے مجھے اپنے والدہ کیساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا، سخت دل اور بد بخت نہیں بنایا۔(مريم : 32)
انبیائے کرام میں سے کسی نبی کو انکی قوم نے اتنا مارا کہ لہو لہان کر دیا، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا:’’پروردگار! میری  قوم کو بخش دے، یہ حقیقت سے آشنا نہیں‘‘(متفق علیہ)
ہمارے پیارے نبی محمدﷺتمام مخلوقات میں سے رحیم ترین  ہیں، بلکہ سنن نسائی کے مطابق آپکے ناموں میں’’نبی الرحمہ‘‘ بھی شامل ہے۔
جس وقت آپﷺ سے کہا گیا کہ: مشرکین پر بد دعا کر دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے لعن طعن کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘( مسلم)
جس وقت آپ کی قوم نے سخت اذیت دی تو  پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کرنے کے بعد کہا:’’اے محمدﷺ!   اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں؟‘‘ تو آپﷺنے فرمایا : نہیں ! بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا، جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (متفق علیہ)
اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
(الأنبياء : 107)

 اور ہم نے آپکو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
اللہ تعالی نے آپکو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنایا، چنانچہ جس شخص نے اس رحمت کو قبول کیا اور اس نعمت کی قدر کی  تو وہ دنیا و آخرت میں خوش بخت ہوگا، اور جس نے اسے مسترد کرتے ہوئے انکار کر دیا تو وہ دنیا و آخرت میں  نقصان اٹھائے گا۔
اللہ تعالی نے آپکو مؤمنین کیلئے خصوصی طور پر رحمت بنا کر ارسال کیا ہے:

وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ(التوبة : 61)

 اور آپ مؤمنوں کیلئے رحمت ہیں۔
آپﷺ اپنی امت کیلئے نہایت مشفق تھے، چنانچہ نبیﷺ نےسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں  یہ آیت تلاوت فرمائی:

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي(إبراهيم : 36)

 پروردگار! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اب جو میری اتباع کرے وہ میرا ہے۔
اورسیدنا عیسی علیہ السلام کا یہ مقولہ تلاوت فرمایا:

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(المائدة : 118)

 ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد آپﷺنے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے، اور کہا: (یا اللہ! میری امت! میری امت!)  پھر آپ زار و قطار رونے لگے، تو اللہ تعالی نے

جبریل علیہ السلام سے کہا:

’’جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور پوچھو: ‘‘آپ کس لیے رو رہے ہیں؟”-تیرا  رب پہلے ہی جانتا ہے- تو جبریل  علیہ الصلاۃ و السلام نے آ کر آپ ﷺسے سوال کیا، اور آپ نے جواب دیا، یہ جواب جبریل نے اللہ تعالی کو بتلایا -اللہ کو جواب کا پہلے ہی علم تھا-، پھر اللہ تعالی نے  جبریل سے فرمایا: ’’جبریل! محمد  کے پاس جاؤ اور کہہ دو: ہم آپکو آپکی امت کے بارے میں راضی کر دینگے ، آپکو ناراض نہیں کریں گے۔‘‘(مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ حدیث اس امت کیلئے پر امید احادیث میں سے ایک ہے، یا اس سے بڑھ کر امید والی حدیث کوئی نہیں ہے‘‘۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کیساتھ انتہائی مشفق تھے، چنانچہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ عیادت کیلئے اپنے چند صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے، جب ان کے گھر میں داخل ہوئے تو  انہیں گھر والوں نے گھیر رکھا تھا، آپ نے پوچھا:فوت ہوگئے؟!  تو انہوں نے کہا:’’نہیں اللہ کے رسول‘‘تو نبی معظم ﷺ رونے لگے، اور آپکو دیکھ کر سب لوگ بھی رو پڑے۔
(متفق علیہ)
رسول اللہﷺ کے پاس ایک بچے کو لایا گیا،  بچہ اس وقت نزع کی حالت میں تھا، تو آپﷺ یہ دیکھ کر اشکبار ہوگئے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: “اللہ کے رسول یہ کیا ؟” تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ اسی رحمدلی کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے‘‘۔(متفق علیہ)
آپ نوجوانوں کیساتھ بھی نہایت مشفق تھے، چنانچہ سیدنامالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس آئے، ہم سب کے سب قریب العمر نوجوان لڑکے تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس راتیں قیام کیا، آپ کو محسوس ہو ا کہ ہم اہل خانہ کو یاد کر رہے ہیں، تو آپ نے ہم سے ہمارے اہل خانہ کے پاس موجودافراد کے بارے میں پوچھا، تو ہم نے آپکو تفصیلات سے آگاہ کر دیا، آپ بہت مشفق، اور نرم دل تھے، آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلے جاؤ، اور انہیں بھی دین کی تعلیمات دو، انہیں نماز کا حکم دو، اور ایسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، چنانچہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص اذان دے، اور عمر میں بڑا شخص امامت کروائے۔‘‘
(متفق علیہ)
آپ خواتین کے بارے میں بھی نہایت  نرم دل تھے، بسا اوقات آپ نماز  صرف اس لیے مختصر پڑھاتے تھے کہ ماں اور بچے کو

مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

’’ میں نماز شروع کرتے وقت لمبی نماز کا ارادہ کرتا ہوں، لیکن بچوں کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر کر لیتا ہوں، کیونکہ مجھے علم ہے کہ اس کی ماں بچے کے رونے کی وجہ سے شدید پریشان ہوتی ہے‘‘(بخاری)
آپﷺ بچوں کیساتھ بھی نہایت مہربان تھے،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ’’میں نے کسی کو رسول ﷺ سے زیادہ بچوں پر مہربان نہیں پایا‘‘۔
ایک دن آپ ﷺ  خطبہ دے رہے تھے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما آ گئے، آپ دونوں کبھی چلتے تو کبھی لڑکھڑا جاتے، تو آپ ﷺ منبر سے اترے اور ان دونوں کو اٹھا کر منبر پر تشریف لے گئے، اور پھر فرمایا:
’’اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے کہ:

 إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ(التغابن : 15)

’’ بیشک تمہارے اموال و اولاد فتنہ ہی ہیں‘‘۔ ان دونوں کو گرتے پڑتے  دیکھنے کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا، اور میں نے اپنی گفتگو چھوڑ کر  انہیں اٹھا لیا(احمد)
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’یہ سب کچھ آپ ﷺ کی بچوں کیساتھ کمال شفقت، رحمت، انس ، پیار و محبت کی وجہ سے تھا، بلکہ اس میں امت کیلئے بچوںکیساتھ شفقت و رحمت کا درس بھی ہے‘‘۔
اس امت میں سب سے زیادہ رحمدل رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ہیں، اللہ تعالی نے انکی مدح سرائی  میں فرمایا:

أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم(الفتح : 29)

 وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت مہربان ہیں ۔
صحابہ کرام میں سب سے زیادہ مشفق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، اللہ تعالی نے انہیں وسیع علم اور شفقت سے نوازا تھا، امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’انسان کا علم جس قدر بڑھتا جائے گا، وہ اتنا ہی مشفق ہوگا‘‘۔
نیک اور نرم دل علمائے کرام لوگوں کی رہنمائی کیلئے تگ و دو کرتے ہیں، چنانچہ مخالفت کرنے والے پر ظلم نہیں کرتے، اور نہ اس پر دست درازی کرتے ہیں۔
مسلمانو!شریعت میں موجود رحمت و عدل دوست اور دشمن سب کیلئے ہے، چونکہ جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے، اس  لیے جو اللہ کی رحمت  کا متلاشی ہے تو وہ بھی خلق الہی پر رحم کرے، آپﷺ کا فرمان ہے:
’’یقیناً اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے صرف  رحم کرنے والوں پر ہی رحم کرتا ہے‘‘( متفق علیہ)
اور جس پر اللہ رحم کر دے تو سعادت مندی اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اور دنیا و آخرت میں اپنے مقاصد پا لیتا ہے۔

 هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے۔(الرحمن : 60)
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ، اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!تکبر اور لوگوں کی تحقیر اس وقت دل سے نکل جاتی ہے جب دل میں رحم پیدا ہو، چنانچہ رحمدلی نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان سنگدلی ،سخت مزاجی اور لاغر پن کے درمیان رہے۔
رحمت، و شفقت اللہ تعالی کو پسند ہیں، بشرطیکہ دین الہی  سے متصادم نہ ہوں، مثلاً: رحم کے نام پر نفاذِ حدود  ترک کرنے کی دعوت دینا ؛ رحمت و شفقت کے منافی ہیں۔
جس وقت انسان شبہ و شہوت سے پاک ہو تو اسے ہدایت و رحمت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی نے اصحابِ کہف کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:

فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا(الكهف : 10)

’’ تو انہوں نے کہا: پروردگار! ہمیں اپنی طرف سے رحمت سے نواز، اور ہمارے معاملے میں ہماری رہنمائی فرما‘‘۔
حصول رحمت کے اسباب میںوالدین کیساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، صدقہ، مصیبت زدہ  اور بیمار لوگوں  پر مہربانی، مردوں کی جانب سے قبرستان کی زیارت، کثرت کیساتھ تلاوت قرآن، اور ذکر الہی شامل ہے۔

گستاخ رسول اور ہمارے حکمران

آج کل ایک مسئلہ کی صدائے بازگشت گونج رہی ہے ۔ اور اس کا تعلق رسول اللہﷺ کی تو ہین اور شان میں گستاخی سے ہے ۔ اس کا حکم کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں اللہ کے فضل و کرم سے ہم اہلحدیث کا موقف سب سے زیادہ صاف ستھرا اور واضح ہے ۔ جس کا بیان کرنا انتہائی ضروری ہے۔
قارئین کرام ! اللہ رب العزت اپنے پیارے نبی ﷺ  کی تعظیم اور توقیر کا حکم دیا ہے ۔ آپﷺ کی محبت کو جزء ایمان کہا ہے ۔ نبی ﷺکی حدیث سے یہ بات واضح ہے۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم اس وقت مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے والدین اپنی اولاد اور تمام دنیاں کے کوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرو ۔
اور حدیث سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس وقت تک تم لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنی جانوںسے  بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرو ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا  (الأحزاب:6)

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے۔
نبی ﷺ مومنوں کے نزدیک انکی جانوںسے بھی بڑھ کر محبوب ہیں اوران کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر کی تعظیم کا حکم دیا ہے اس میں بےشمار۔قرآن وحدیث میں نصوص موجود ہیں یہاں ایک بات ملاحظہ فرمائیں ۔
فرمان باری تعالی ہے ـ:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (الحجرات : 2)

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں(ایسا نہ ہو)کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔
کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اورتمہارے سارےاعمال ضائع ہو جائیںگےآپکی سب نیکیاں نماز ،روزہ ،جہاد اورحج عمرہ ،تہجد ،فرائض اور نوافل سب برباد ہوجائیں گے اگر میرے پیغمبر کی مجلس میں تمہاری آواز میرے پیغمبر کی آواز سے اونچی ہوئی یہ میرے پیغمبر ﷺ کی آواز کی شان ہے کہ اس آواز سے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے یہ اس آواز کی تکریم و تعظیم ہے ۔
آپ اس بات کا اندازہ کریں کہ پیارے پیغمبر کی اس آواز کا انکار ممکن ہے؟پیغمبر ﷺکے فرمان کی حیثیت یہ ہے کہ آپ گفتگو فرمارہے ہو تو آپ کی آواز آپ ﷺ کی آوا ز سے اونچی نہ ہوتو اس آواز کی اتنی عظیم شان ہے تو اس آواز کا انکار کتنا بڑا گناہ ہوگا کتنی بڑی گستاخی ہوگی اس آوا ز کےمقابلے میں کسی امام برادری  آباؤاجداد کی بات کو مقدم کرلیناکتنا بڑا گناہ ہوگا یہ پیغمبر ﷺ کی آوا ز کی تعظیم ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے تمہارے اعمال برباد کردوں گا اور تمہیں اس کا شعور بھی نہیں ہوگا شعور نہ ہونا ایک بڑی دھمکی ہے بُری وعید ہے انسان کو اگر یہ محسوس ہونے لگے کہ میرے اعمال برباد ہونے جارہے ہیں تو وہ احتیاط کرسکتا ہے توبہ کرسکتا ہے لیکن یہ ایک ایسامعاملہ ہے کہ پیغمبرﷺ کی تعظیم کے منافی جو بھی معاملہ ہوگا اتنا ہی سنگین ہوگا اللہ تعالی فرماتے ہیں تمہارے اعمال تمہارے نیکیاں سب برباد کردوں گا اور تمہیں اس کا شعور بھی نہیں ہو نے دونگاتم مطمئن ہوگے کہ تمہارے ذخیرہ اعمال میں بے شمار نیکیاں جو قیامت کے دن ہماری نجات کا باعث ہونگی مگر وہ سب برباد ہو چکی ہونگی اس ایک گستاخی کی بنا ء پر تمہاری آواز میرے پیغمبر کی آوا ز سے اونچی ہوگئی تواللہ تعالی کس قدر اپنے پیغمبر کی تعظیم چاہتاہے اور کس طرح اپنے پیغمبر کی شان منوانا چاہتا ہے اب جو شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی، سب وشتم یا طعنہ زنی کرےاس کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
ایسے افراد کی دو قسمیں ہیں ایک مسلمان دوسرا کافر اگر کوئی مسلمان نبی ﷺ کی شان  میں گستاخی اور سب وشتم کرے گا تو وہ اپنے اس عمل سے ،مرتد اور کافر ہوجائے گا اوربلاتأخیر بغیر توبہ طلب کیے واجب القتل ہوجائے گا۔ اور یہ ایک حاکم کیذمہ داری کہ وہ منصب اقتدار سنبھال لینے کے بعدیہ نہ دیکھے کہ میری کرسی کو تحفظ کیسے ملتا ہے اور میرےذاتی پروٹوکول کے کیا تقاضے ہیں۔ نہیں سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کا مقام ہے اس کی رعیت میں خالق کائنات کی توحید میں نقب زنی ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کا کڑا محاصرہ کرے اور اس کی رعیت میں اگر کوئی شخص اللہ کے پیا رے پیغمبر ﷺکی شان میں گستاخی یا سب وشتم کا معاملہ کرتا ہے تو وہ بلا تاخیر پکڑے اور اس کو توبہ کی پیشکش کے بغیر قتل کر دے اس جرم کی سزایہی ہے اور اگرنبی ﷺکی شان میں گستاخی کر نے والا کافر ہے تو اس کی بھی دو قسمیں ہیں :
1۔ ذمی کافر        2۔حربی کافر
ذمی کافر وہ ہے جو ہمارے علاقے ، معاشرے میں رہتا ہے۔ اسے ذمی اس لئے کہا جاتاہےکہ اگر وہ ہمارے بیچ رہتا ہے تو اسے ہمارے سارے قوانین کا احترام کرنا ہو گا تب اس کی حفاظت کا ذمہ ہم لیں گے اس لئے اس کو ذمی کہا جارتا ہے کہ اس کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے ۔  دوسرا کافر حربی ہے جو دار الحرب میں رہتاہے کنارے کے علاقے میں سکونت پذیرہےمگر ہمارے معاشرے میں نہیں رہتا یہ دو طرح کے کافر ہیں اگر ذمی کافر رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور پیغمبر ﷺ کی ذات میں طعنہ ذنی کرے تو حاکم وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو گرفتار کرے اور اس کا یہ جرم ثابت ہو نے پر اسے قتل کردے اس کا ذمہ ٹوٹ گیا جو اس کی حفاظت کا ہم نے لیا ہواتھا۔ وہ ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی بنا ء پر ٹوٹ کیالہذاوہ فوری واجب القتل ہے۔یہی اس کی سزا ہے اس کے لئےکوئی رحم کی درخواست نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی حاکم کو اختیارہے کہ اس کی رحم کی اپیل کو قبول کر کے اسے معاف کردے۔ اللہ اور اس کے رسول نے جو سزا دی ہے کسی حاکم میں یہ جرأت نہیں ہے کہ اس سزاکو معافی میں تبدیل کر دے۔ یہ بذات خود ایک ہولناک جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سزادیگا اگر یہ معاف کر تا ہے اس کا معنی (نعوذباللہ) اللہ کا فیصلہ ظلم پر قائم ہے اور یہ بڑا رحم دل ہے کہ جس کا فیصلہ معافی پر قائم ہےہمارا  جمہوری نظام جو رحم کی اپیل کا باب ہے یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے کہ جب سزا ہو چکی تو اس مجرم کو آخری حق دیا جاتا ہے کہ وہ حاکم وقت سے رحم کو اپیل کر دے اور حاکم وقت قبول کرلے تواس کو رہا کردیا جائے گا یہ قانون  اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کے مقاصد کے خلاف ہے یہ قانون ایک مجرم کو تحفظ دینے کے مترادف ہے تو یہ ایک ذمی کا معاملہ ہے جو ہمارے درمیان رہتا ہے اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو وہ فوری واجب القتل ہے اس کو ڈھیل نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی معافی ہے اور دوسرا کافر وہ ہے جو حربی ہے دار الحرب میں رہتا ہے اور وہاں رہتے ہوئے ہمارے نبی کی شان میںگستاخی کرتا ہے تو اس سلسلے میں بھی ہم اہل الحدیث کا موقف یہ ہے کہ حاکم وقت اس صورت حال میں اس ملک پر حملے کی تیاری کرے جس کے ایک فرد نے یہ بکواس کی ہے کیونکہ   یہ معاملہ بھی ایسا ہے کہ جس میں کسی ڈھیل کی گنجائش نہیں البتہ تیاری کے لیے جو امور ضروری ہیں انہیں اپنایا جائے یہ خلاصہ ہے نبی اکرم ﷺ کی شان میںگستاخی کرنے والوں کے حکم کے بارے میں اور اس پر صحیح ادلہ موجود ہیں اللہ تعالی فرماتے ہیں

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  (التوبۃ:13)

تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ۔
تم ایسی قوم سے ،اعلان جہاد کیوں نہیں کرتے جو قوم اپنے عہد کو توڑ دے اورجو قوم پیغمبر ﷺ کو نکالنے کی کوشش کرے یہ دو معاملے ہیں ایک عہد شکنی اور دوسرا پیغمبر ﷺ کو نکالناخواہاں اپنے شہر سے یا اپنے ملک سےیااپنی آبادی سے نکالنے کی کوشش کرنا اور ظاہر ہے کہ سب وشتم اس سے بڑا جرم ہے عہد شکنی بھی ہماری توہین ہے اگر کفار اور ہمارے مابین کوئی معاہدہ ہوتا ہے اور کفار اس معاہدے کو توڑ دیں تو یہ بھی ہماری توہین اور ناقابل معافی جرم ہے ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ (التوبۃ:12)

اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔
اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد عہد کو توڑ دیں ،عہد کی تو بڑی اہمیت ہوتی ہے وہ لوگ کیا جانے جو عہد کرکے توڑ دیں اور کہیں کہ کونسا یہ قرآن و حدیث تھاوہ لوگ درحقیقت اس بلند اقدار سے ناواقف ہے جواقدار شرعی اخلاقی اور انسانی ہوتے ہیںاور معاہدے کی اہمیت کا احساس نہیں کرتے فرمایا کہ اگر یہ کفار تم سے معاہدہ کریں اور پھر توڑ دیں (وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ)اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں (فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ)توان سے قتال کرو یہ کفر کے امام ہیں ۔
دو چیزیں ہیں ۔
1۔عہدشکنی :میثاق ومعاہدہ ہو ااور اس کو توڑ دیا یہ ہماری توہین ہے یہ ناقابل برداشت ہے اس پر عظیم الشان شرعی ادلۃ موجود ہیں کہ جناب محمد ﷺ جب کفار کے نرغے میں تھے یعنی جنگ احزاب کے موقع پراور کفار نے پوری طرح محاصرہ کیا ہو تھا مسلمانوں کا ، خواتین کااور بچوں کا ،مدینہ شہر کااور مسلمان خندقیں کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے یہ 22یا 23 دن کاطویل محاصرہ تھا ایک صبرآزمامحاصرہ کہ جس کی قرآن نے کچھ یوں تصویر کھینچی ہے کہ اس محاصرے کے دوران تمہارے کلیجے تمہارے حلق کو آرہے تھے اور ایک عجیب خوف وہراس کی فضاقائم تھی تمہار اشہر،  تمہاری خواتین، تمہارے بچے غیر محفوظ تھے اور ادھر کفار دس ہزار کا  لشکر لیکر مدینہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے پہنچ چکے تھے یقیناً وہ فضابہت ہی خوف وہراس پر قائم تھی بالآخر اللہ تعالی کی فتح ونصرت آپہنچی اللہ تعالی نے صحابہ کی استقامت کو دیکھ لیا اور آقاﷺ کی یہ دعا

حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

 صورت حال بہت ہی گھمبیر ہے مگر ہمیں اللہ تعالی کافی ہے اور بہترین کارساز ہے بالآخر اللہ کی مددآگئی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے اللہ نے میری مدد کی صباوہوا کے ذریعے مشرق سے چلنے والی جس کا رخ مغرب کی طرف تھا اور وہ آندھی اپنی باہوں میں مٹی اور کنکر لے کر آگے بڑھی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی اور وہ تیز ہواجس سے انکے قدم اور خیمےا کھڑ گئے اور وہ دوڑے اپنی جانیں بچانے کے لیے اور انکی املاک تباہ ہوگئی اور اللہ نے اس لشکر کو شکست خردہ ذلت ورسوائی کے ساتھ واپس کردیا مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔اور ایک طویل صبر آزما محاصرہ اپنے اختتام کو پہنچا ،رسول اللہ ﷺ ام ہانی کے گھر پہنچے ام ہانی کا بیان ہے کہ میں آپ ﷺ کو پہلی نگاہ میں پہچان نہ سکیںچونکہ پیغمبر ﷺ کا پورا جسم اطہر مٹی اور گردوغبارسے ڈھپا ہو ا تھا ،اس سے آپ اندازہ کریں کہ کس قدر پر مشقت یہ معرکہ تھا گھر پہنچ کر غسل کی تیاری کی اورابھی ہتھیار اتارے ہی تھے کہ جبریئلامین فوراً پہنچ گئے اور فرمایا اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے ہتھیار کیوں اتار دیے جب کہ ملائکہ ابھی تک تیار ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ معرکہ ختم ہوچکاکفار بھاگ چکے ہتھیارتو اتارنے ہی تھے جبرائیل آمین نے فرمایا نہیں!اس معرکے کے دوران بنو قریظہ کے یہودیوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا تھاان کو فوری عہد شکنی کی سزا دینی ہے یہ ہماری توہین ہے اس کا معنی انکے نزدیک اللہ کے نبی ﷺ کی اہمیت نہیں ہتھیار پہن لو اور صحابہ کوکہو گو کہ جنگ احزاب کے بعد تھکاوٹیں ہیں اور بڑا ہی ضعف ہے مگر کچھ بھی ہو عہد توڑنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے ہتھیار پہن لیے اور صحابہ کو جمع کیا اور فرمایاجو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ آج عصر کی نمازیہودیوں کی بستی بنو قریظہ میں اداکرے اور صحابہ کا کیا مقام کوئی سوال واستفسار نہیں کہ ابھی تو چند لمحات ہی گزرے ہیں کچھ آرام کی گھڑیاں ہی نصیب ہوجاتی فرمایا کہ ابھی نکلنا ہے بغیر سوال کیے دوڑتے جارہے ہیں اورآخر کاربنو قریظہ میں پہنچ کر نماز عصر اداکی اس سے آپ اندازہ کریں کہ جو قوم عہد کرکے توڑ دے تو وہ ہماری توہین کے مترادرف ہےہم نے فوراً اس قوم کو سزا دینی ہے یہ اس واقعہ سے ہمیں بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔
ان جانے والوںمیں ایک صحابی سیدنا سعدبن معاذ بھی تھے یہ وہ واحد صحابی ہیں جو جنگ احزاب کے موقع پرایک کافر کے تیر مارنے کے باعث زخمی ہوگئے تھےرگ کھل چکی ہے خو ن ابل رہا ہے سعد نے دعا کی :یا اللہ یہ کفار و مشرکین تیرے نبی ﷺ کے شہر کی حرمت پامال کرنے آئے ہیں اور ایک محاصرہ قائم ہے اب مجھے معلوم نہیں کہ انکا دوبارہ آنا ممکن ہے یا نہیں لیکن اے اللہ مجھے مہلت دے کہ یہ دوبارہ تیرے نبی کے شہر کا رخ کریں تو میں دفاع کر سکوں انکی یہ دعا عرش معلی تک پہنچی اور وہ بہتا ہوا خون رک گیا اور انہوں نے کہا تھا کہ اے اللہ یہ خون بہہ رہا ہے ورنہ تو اس خون کو میری شہادت کا ذریعہ بنادے لیکن اتنا موقع دے دے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا انجام اپنی آنکھ سے دیکھ سکوں شدید زخمی حالت میں بنو قریظ تشریف لے گئے اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ یہودی مسلمان کے لشکر جرار کو دیکھ کر پسپا ہوگئے اور کہاکہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ سعد کرے گا وہ ہمیں منظور ہے فیصلہ کر کے آگئے اللہ کے نبی ﷺ نے پوچھا سعد تم فیصلہ جو کرکے آئے ہو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تونبی اکرم ﷺ نے فرما یا کہ عرش معلی پر خالق کائنات کابھی یہی فیصلہ ہےمدینہ پہنچ کر سعد کو ایک خیمہ میں لٹا دیا گیا ان خیموں کے ساتھ اور خیمے بھی تھے ان خیموں والوں نے اپنے خیموں میں خون دیکھا پریشان ہو کر سعد کے خیمے میں پہنچے تو سعد کے زخم کھل چکے تھے اور خون بہنے کے باعث سیدناسعد رضی اللہ عنہ شہید ہو چکے تھے یہ مراتب کیوں حاصل ہوئے ؟جب سعد ابن معاذ کا جنازہ ہو تو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا ’’اس کی وفات پر اللہ کا عرش ہل گیا ہے اور اس کے جنازے میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی تھی جب میت اٹھائی گئی تو صحابہ نے اس میت کو ہلکا محسوس کیا ،صحابہ نے فرمایا سعد تو کافی وزنی تھے انکی میت ہلکی کیوں ہے ؟نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا سعد کی میت کو اوپر سے اللہ کے فرشتوں نے اٹھائے رکھا ہے ۔یہ اسلام کی غیرت کے تقاضے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے جو قوم تم سے عہد کرے اور توڑدے تو یہ تمہاری توہین ہے ایسی قوم کو فوری سزا دو معنی دین میں طعنہ زنی کرنے والے عہد توڑنے والے اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے یہ کفر کے امام ہیںفرمایا کہ ان سے معاملے کو شروع کرو ان کو قتل کرو باقی جو چھوٹے چھوٹے کافر ہیں وہ انکا انجام دیکھ کر خودبخودسنبھل جائیں گےاور ممکن ہے کہ وہ اسلام قبو ل کر لیں تو یہ عمل اس بات کی شاھد ہے کہ جو لوگ گستاخی کرتے ہیں وہ فوری سزا کے مستحق ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ کون ہے کہ کعب بن اشرف کو قتل کرے ؟ کعب وہ شخص ہے جس نےاللہ و رسول اللہﷺ  کو ایذا دی ہے محمد ابن سلمہ تیار ہوئے اور پھر یہ ایک طویل واقعہ ہے بالآخر انکو قتل کیا اور کعب ذمی اورمدینہ کے رہنے والے تھے لیکن یہ نبی اکرم ﷺ پر سب و شتم کرتا تھا شاعر تھا ایسےقصیدے پڑھتا تھاکہ جس میں اللہ کے نبی ﷺ کی شان مجروح ہوتی ہے اور معرکہ بدر کے بعد اس نے قریش مکہ کو بڑ ھکایا کہ بدر کے بدلے  کے لیے ہم تمہاری مدد کریں گے تم بدلے کی تیاری کرو یہ شخص رکاوٹ تھا اسلام کے پھیلاؤ میں اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آخر اسےصحابی محمد بن سلمہ نے قتل کردیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ یہ کتاب تقریباً 600 صفحات پر مشتمل ہے یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ایک اہلحدیث عالم نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں یہ کتاب لکھی ۔انہوں نے سارے واقعات کو جمع کیا ،نبی اکرم ﷺ کےدور اقدس میںتین نابینا افرادنےاپنے احاطہ میں کچھ عورتوںکو دیکھا کہ وہ نبی اکرم ﷺ پر سب وشتم کرتی ہیںایک نابینا صحابی جس کی وہ عورت لونڈی تھی اور اس کےاس سے دو بچے بھی تھے اور وہ شان محمد ﷺ میں گستاخی کرتی تھی ایک دن برداشت نہ کرسکا آلہِ قتل لا کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا مقدمہ آقاﷺ تک پہنچا آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کسی کو معلوم ہے کہ اس عورت کا قاتل کون ہے وہ نابینا صحابی اٹھے اور فرمایا میں اس کا قاتل ہوں وجۂ قتل یہ ہے کہ یہ عورت آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو معاف کردیا جس  سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اسی سزا کے مستحق ہیں شرعی حکم بھی یہی ہے کہ انہیں فوراً قتل کیا جائے نہ کہ ان سے معافی کا مطالبہ کیا جائے اس بارے میں سابقہ گورنر پنجاب کا موقف انتہائی مجرمانہ تھا حکام پر سر عام تنقید جائزنہیں لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس میں انکا یہ انتہائی مجرمانہ عمل ہے گورنر پنجاب سفارش لے کر صدر پاکستان پہنچے اور صدر پاکستان نے بھی بلا سوچے سمجھے ایک کمیٹی بنادی اس عورت کی گستاخی پر نہیں بلکہ اس بات پرکہ جو قا نون ہے کہ نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے اس قانون پر نظر ثانی کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی لیکن جب رعیہ وعلماء کا احتجاج دیکھا تب وزیر اعظم کو ہوش آیا لیکن معاملہ بڑا سنگین ہے ہم اہل الحدیث کا یہ موقف ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کو حکومت وقت فوراً قتل کردے اور اگر یہ کہیں کہ کیس عدالت میں ہے اور اگر جرم ثا بت ہوجائے تو فوراً قتل کردیا جائے کیونکہ جرم کا ثبوت ضروری ہے یہ بھی ہمارے لیے شرعی ہدایت ہے اور اگر حکام پھربھی ٹس سے مس نہ ہوئے تو ان شا ء اللہ ہمارا رب خود بدلہ لینے پرقادرہے ہمار اکام اپنے پیغمبر ﷺ کی شان بیان کرنا ہے اگر کوئی شخص اپنے سامنے گستاخی دیکھتا ہے اور جوش میں آکر قتل کر بیٹھتا ہے تو یہ جائز ہے مگر اصل معاملہ حاکم تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو فوراً قتل کرے ورنہ اللہ رب العزت اپنے پیغمبر ﷺ کی شان کا خود محافظ ہے اور پھر وہ ان لوگوں کو بھی دیکھ لے گا جو اقتدار ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی شان کے تقاضے پورے نہیں کرتے ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ نے ہماری ماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایاکہ اے عائشہ دیکھو اللہ نے قریش کی گالیوں کو مجھ سے پھیر دیا اوراللہ نے میرا دفاع کیا اورانکو ٹال دیا ۔قریش نے ایک اجلاس بلایا جس میںکہا گیا کہ محمد ﷺ کا نام تبدیل کردو کیونکہ محمد کےمعانی تعریف کیاہو اہے اس کو بدل دو اور مذمم کردویعنی مذمت کیا ہوا نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اب یہ لوگ صبح وشام مذمم کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ ہوں جنگ احد میں ایک آدمی سامنے آگیا اس نےایک پتھر آپ کی طرف پھینکا اور کہا اے محمد اس کو پکڑو یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے آپ لہو لہان ہوگئے آپ نےفرمایا میر ا رب تجھ سے اس کا بدلہ لےگا اور تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اتفاق سے اسی لمحے احد کی چوٹی سے ایک سانپ نمودار ہو اجس نے اس کا تعقب کیا اور اس کو پکڑلیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے بے شک اللہ تعالی انتقام لینے پر قادر ہے کاش ہمارے حکمرانوں اور رعیہ میں بھی وہ غیرت آجائے جو اللہ کے سولﷺ کے دور کے ان دو بچوں میں تھی سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں معرکہ بدر میں كم سن دو بچے مجھے اپنے پیچھے محسوس ہوئے میںنے خطرہ محسوس کیا میں نے اپنی جگہ بدلنا چاہی ہی تھی کہ ایک بچہ اچانک میرے سامنے آگیا اور پوچھا اے چچا جان!ابو جہل کہاں ہے انہوں نے فرمایاکہ تمہارا اس سے کیا کام ہے وہ تو کفار کا بڑا کمانڈر ہے تو اس بچے نے فرمایا ہم نے اپنی والدہ اور دیگرافراد سے سناہےکہ وہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو گالیاں دیتا ہے خدا کی قسم ہم اس وقت تک اس کےجسم سے جدا نہیں ہونگے جب تک ہم میں سے جس کی موت پہلے ہے وہ اس پر وارد نہ ہوجائے اچانک ابو جہل سامنےآگیا سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نےاس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ ہے تمہاری منزل یہ دونوں اس پرجھپٹے اور وار کیا اور کفر کے جرنیل کو ٹھنڈا کردیا یہ غیرت اگر ہم میں آجائے تو ان شاء اللہ ایک انقلاب اوراسلام کے غلبے کا باعث بن سکتی ہے ۔اللہ تعالی انکو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے جن کی دن ورات ایک ہی رٹ ہے ہائے ہماری کرسی ،ہمارا اقتدار ،ہمارا پروٹوکول لیکن اللہ کی توحید اللہ کے نبی کریم ﷺ کی سنت وعزت کے تعلق سے انہیں کسی پروٹوکول کا علم نہیں ہے ۔اللہ تعالی یا انکو بدل دے یا انکو ہدایت دے دے ۔(آمین )

نبی اکرم ﷺ کے آخری لمحات کی وصیتیں

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:

اللہ تعالی کے لیے اس قدر تعریفات جتنی اس کی شان کے لائق ہیں درود وسلام نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کے لیے جو ہمارے آقا ،رہبر، رہنما اور اسوہ ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں ہی ہماری نجات ہے نبی اکرم ﷺ کی پیروی اس وقت آسان ہو جاتی ہے جب نبی اکرم ﷺ سے محبت ہو جائےاور محبت کا خوبصورت ترین اظہار درود ابراہیمی ہے ۔
قارئین کرام !کثرت سے نبی ﷺپر درود بھیجا کریں یہ اللہ تبارک وتعالی کا ذکر بھی ہے اورنبیﷺ کے لیے دعا بھی ۔درود و سلام دنیا کے غموں کا مداوا ہے۔

عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللہَ اذْكُرُوا اللهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ، قَالَ أُبَيٌّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِي؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ. قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِي كُلَّهَا قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ (سنن الترمذی:2457)

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لئے مقررکروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا : ایک چوتھائی؟ آپﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : کیا آدھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : دوتہائی ؟ فرمایا : اس میں بھی اضافہ کردو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اپنی ساری دعا (کا وقت ) آپ پر درود کے لئے وقف کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’تب تو تیرا ہر غم دور ہو گا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔‘‘
چنانچہ کثرت سے نبی اکرمﷺ پر درودابراہیمی پڑھا کریں یہ نبی اکرم ﷺ سے تعلق میں پختگی لاتا ہے ۔ میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں جو آیتیںپیش کررہا ہوں  وہ سورۃ ضحی کی ہیں ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں :

وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (الضحی:4)

’’یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا ۔‘‘
اور ترجمہ کچھ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کی آ خرت دنیا سے بہتر بنائی ہے اور یہ بھی ترجمہ ہے کہ آنے والا زندگی کا ہر لمحہ گزرجانے والے زندگی کے ہر لمحات سے بہتر ہے ۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى   (الضحی:4)

’’تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی و خوش ہو جائے گا ۔‘‘
یہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کو خوشخبری دی ہے نبی ﷺ بھی یہ فرمایا کرتے تھے۔

وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِيمِ (صحیح البخاری:6607)

’’تمام اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے ۔‘‘
زندگی کا اور ہماری آخرت کے فیصلہ کا دارومدار زندگی کے آخری لمحات پر ہےاسی لئے نبی اکرمﷺ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ

اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا(مسند احمد 17628)

ــ’’اے اللہ ہمارے انجام کو بہتر بنا دے ۔‘‘
نبی اکرمﷺ کی ساری زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور اس کا موازنہ کسی شخص سے نہیں کیا جاسکتا،جس طرح مثال دی جاتی ہے کہ یہ کتاب اللہ کی کتاب ہے مگر اس میں بہترین کلام وہ ہے جو اللہ کے بارے میں ہے اسی طرح نبی ﷺ کی ساری زند گی ہمارے لئے نمونہ ہےفرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(الأحزاب:21)

’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ (کی زندگی) عمدہ نمونہ ہے ۔‘‘
بچپن سے بڑھاپے تک الغرض نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی بہترین ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی زندگی قابل دیدنہیں البتہ اس میںسب سے بہترین وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے آخری لمحات تھے اور یہ بات بیان کردہ آیات و احادیث سے واضح ہو تی ہے کہ سب سے قیمتی لمحات انسان کے آ خری لمحات ہوتے ہیںہمارا جو موضوع ہے وہـ نبی اکرم ﷺ کے آخری لمحات کا اجمالاً تذکرہ ہی مقصود ہے کہ جو وصیتیں نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخر ی مرض وفات میں کی ہیں وہ قارئین کرام سے ذکر کرتا ہوں۔
قارئین کرام!چار بنیادی چیزیں آپ حضرات کے سامنے پیش کر رہا ہوں نبی اکرمﷺ نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو بہت پہلے سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جب فوت ہونے والا فوت ہوجاتا ہے تو پھر اس کی باتیں یاد آتی ہیں یہ ہمارے ہاں عام سی بات ہے والد صاحب جب فوت ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو ایسا فرما رہے تھےخلاصہ کلام یہ ہے کہ جب جانے والا اس دنیا سے چلاجاتا ہے تو پھر اس کی باتیں یاد آتی ہیں لیکن جب جانے والااس دنیا سے جا رہا ہوتا ہے تووہ کچھ ایسی باتیں کرتا ہے جو اللہ تعالی اس کے منہ میں ڈال دیتا ہے وہ بتا رہا ہوتا ہے ہے کہ میں جارہا ہوں اورنبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کہ جن کی رہنمائی خود اللہ تعالی کرنے والا ہے جن کے استاد جبرائیل امین علیہ السلام ہیں نبی اکر مﷺ نے بھی دنیا سے جانے سے پہلے بہت ساری باتیں ایسی کیں ایک مرتبہ فرمایا ’’ایک شخص ہے جسے اللہ نے اختیا ر دیا کہ آخرت اور دنیا میں سے جسے اختیار کرنا چاہے کرلے تواس شخص نے آخرت کو دنیا پرترجیح دی سارے لوگوں کے نزدیک یہ ایک عام بات تھی مگر اس بات کا فہم سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوافوراً رونے لگےاورعرض کیا۔

 فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي یَا رَسُولَ اللہِ !

’’اے اللہ کے رسول ﷺ !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔‘‘
لوگوں نے کہا نا معلوم اس بزرگ کو کیا ہوا ہے یہ کس طرح کی بات کر رہا ہے نبی اکرم ﷺ نے تو محض ایک شخص کی بات کی ہے مگر جب نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوا تب لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ اپنے بارے میں بتلا رہے تھے تو نبی اکرم ﷺ کی زندگی کہ آخری لمحات آخرت کے طلب گار تھے اللہ تعالی ہمارے بھی آخری لمحات آخرت کے طلبگار بنادے ۔(آمین )
نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے اچھا وقت آخری ہو اور وہ وقت ہو جب میں اپنے رب کے سامنے ملاقات کے لیے کھڑا ہوں یہ نبی کریم ﷺ کی دعا ہوا کرتی تھی ۔ نبی معظم ﷺ نے بہت ساری نصیحتیں کی ہیں لیکن میں چار بنیادی باتیں عرض کروں گا ۔  نبی کریم ﷺ نے ساری زندگی ہماری توجہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف مبذول کرائی ہے ۔یہی نبی کریم ﷺ کی ابتداء وانتہاء تھی نبی کریم ﷺ کی پہلی دعوت یہ ہوا کرتی تھی

قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ

’’اےلوگو! اقرار کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحتیں بھی اسی سے متعلق ہیں نبی کریم ﷺ نے قرب الموت میں یہی وصیت فرمائی

لَعَنَ اللہُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ (صحیح البخاری1390)

’’یہود ونصاری پر اللہ کی لعنتیں ہوں انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔‘‘
اور واضح طور پر نصیحت کی ہے کہ میری قبر کو بت خانہ نہ بنادینا کہ اللہ کے مقابلہ میں پوجنا شروع کردیا جائے۔‘‘
اور آخری نصیحتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ’’میری قبر کو عیدگاہ نہ بنادینا‘‘ اور عید کی تفسیر صحابہ نے یہ کی ہے کہ کثرت کے ساتھ قبر پر جانا جس صحابی کا قبر مبارک پر جانا ثابت ہے وہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ،سفر پر نکلنے سے پہلے اور واپسی پر اکثر نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر جاتے تھےدوسرے صحابہ اس قدر نہ جاتےیہ کثرت  اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان کی محبت ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے لیے نبی کریم ﷺ  کی مدینہ میں داخلے والا دن خوشگوار تھا اور جس دن وہ مدینہ سے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے رخصت ہوئے تو وہ دن ہم صحابہ پر ناخوشگوار تھا یہاں تک کہ ہماری عقلیں کام کرنا چھوڑ گئی ،جسم جامد ہوگئے مجھے اپنے والد کا فوت ہونا یادآگیااس وقت ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے دماغ سن ہو گیا ہو کہاں میرے والد صاحب کا فوت ہونا اور کہاں نبی کریم ﷺ کا فوت ہوناصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ تعلق نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوئہ احد میں ایک صحابیہ عورت کو بتایا گیا کہ تمہارے والد شہید ہوگئے ہیں کہنے لگی مجھے نبی کریم ﷺ کے بارہ میں بتایئے پھر فرمایا کہ تمہارے بیٹے شہید ہوچکے ہیں اس نے پھر وہی دریافت کیا پھر اس کو بتایا گیا کہ تمہارا شوہر بھی شہید ہوگیا ہے اس پر وقتی طور رنجیدہ تو ہوئی لیکن محبت رسول ﷺ میں وہی دریافت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں بتایئے جب نبی معظم ﷺ کا چہرئہ انور نظر آگیا تو کہتی ہے

 كُلُّ مُصِيبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ (تاریخ الاسلام 1/218۔ البدایۃ والنہایۃ 4/47)

’’آپ کے بعد ساری مصیبتیں ماندہیں۔‘‘
ایسا تعلق ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کی قبر پر صحابہ کتنا جایا کرتے تھے؟ لوگ محبت میں گستاخی کرجاتے ہیں اس سے زیادہ بے ادبی نبی علیہ السلام کی کوئی نہیں کہ ان کو رب تعالیٰ کے ہمسر بنادیا جائے اس معاملہ میں نبی کریم ﷺ ادنیٰ سی بے ادبی بھی برداشت نہیں کرتےتھے نبی کریم ﷺ نے افراط وتفریط سے منع فرمایا :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، يَقُولُ عَلَى المِنْبَرِ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُهُ (صحيح البخاري:3445)

سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی کریم ﷺ کے حوالے سے فرماتے ہوئے سنا مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ: مَا شَاءَ اللہُ وَشِئْتَ، فَقَالَ: ” أَجَعَلْتَ لِلہِ عَزَّ وَجَلَّ عَدْلًا، قُلْ: مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَهُ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی:667 )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’کیا آپ نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ‘‘ بلکہ اس طرح کہہ ’’ جو اللہ وحدہ لاشریک چاہے۔‘‘
آدمی کے اس مقولہ میںبنیادی عقیدہ پر ایک خفیہ وار تھا ليكن نبي كريم _ ﷺکی یہ عادت مبارکہ تھی کہ عقیدہ کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ اورادنیٰ سی بھی بے ادبی برداشت نہ کیا کرتے تھے بلکہ اس آدمی کو تنبیہاً صحیح بات کی طرف راہنمائی کی اور دیکھا جائے تو محمد ﷺ کی چاہت تھی کہ ابو طالب مسلمان ہوجائےلیکن اللہ کو منظور نہ تھا۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص:56)

’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہے تو بلال،سلمان فارسی،خبیب جیسی ہستیوں کو نبی کریم ﷺ کا غلام بنادے اور اگر رب تعالیٰ کی چاہت نہ ہو تو نبی کریم ﷺ کے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ہدایت نہ دے۔
قارئین کرام ! سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں قرآن میں پڑھا ہوگا کہ روزِ قیامت عیسیٰ علیہ السلام کا کیا حال ہوگا؟ فرمان باری تعالیٰ ہے :

ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  (المائدۃ:116)

’’کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو۔‘‘
گواسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ابتداء وانتہاء  قولوا لا إلہ الا اللہ کے فرمان سے کی نبی علیہ السلام کی جاتے جاتے یہ نصیحت ملی ہے کہ میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرنااس بنیادی بات سے آپ ﷺ نے آگاہ کیا ہے۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے :

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن : 46)

رب كائنات كے سامنے کھڑا ہونا کوئی آسان اور سہل بات نہیں سیدنا آدم سے لیکر عیسی علیہم السلام تک تمام انبیاء کے پاس روزِ محشر لوگ جائیں گے اور کہیں گے کہ رب سے کلام کیجیے کوئی اس بات پر رضا مند نہیں ہوگا سب کا ایک ہی جواب ہوگا کہ آج ہمارا رب اتنا غصہ میں ہے نہ اس سے پہلے اتنا غصہ میں تھا اور نہ بعد میں ہوگا۔
ہمیں اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے فوت ہونے سے قبل کے الفاظ ہیں جو کہ آپ ﷺ کی دوسری وصیت تھی

الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ(مسند أحمد26684)

یہ نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحت تھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب نبی علیہ السلام بیمار ہوگئے تو ان پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی نبی علیہ السلام کو جب افاقہ ہوا تو فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ وہ نبی علیہ السلام کی عشاء کی آخری نماز تھی جواب ملا کہ نہیں آپ کا انتظار ہورہا ہے آپ نے فرمایا میرے لیے ایک ٹب میں پانی بھرو پانی بھرا گیا نبی علیہ السلام نے غسل فرمایا ابھی اٹھے ہی تھے کہ دوبارہ غشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو وہی سوال دہرایا پھر لوگوں کی جانب سے وہی جواب ملا پھر نبی کریم ﷺ نے پانی طلب فرمایاغسل فرماکر اٹھنے کی کوشش ہی کی تھی کہ غشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا وہی سوال وجواب پھرپانی طلب فرمایاغسل فرماکراٹھنے کی کوشش کی ہی تھی غشی طاری ہونے لگی تو فرمایا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائےیہ نبی کریم ﷺ کے آخری ایام ہیں چند ایام سیدنا ابو بکر امامت کرواتے رہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو ایک کندھے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کندھے سےسیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ پکڑ کر مسجد کی طرف لے جاتے ہیں ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے قدم مبارک زمین پر لکیر بناتے ہوئے جاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مصلیٰ کے برابر میں بیٹھا یا جاتاہے۔
نماز سے ہی بندۂ مومن کی پہچان ہوتی ہے اسی سے انسان منافق اور کافر جانا جاتاہے یہ بطور شناختی کارڈ ہے اگر نماز میں خشوع وخضوع ہے تو یہ بندۂ مومن کی علامت وگرنہ پھر نفاق کے دائرہ میں ہے اور خدانخواستہ اگر نماز ترک کرنے کا معاملہ ہے تو یہ نعوذ باللہ من ذالک اسلام سے نکلنے کا سبب ہے۔
اور تیسری اور چوتھی وصیت  حقوق العباد سے متعلق ہے ایام اخیرہ کی حدیث میں سے ہے کہ اے اللہ ! اگر مجھ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات ہوئی ہے تو اسے اس کے حق میں دعا بنا دینا پھر ایک دن نبی کریم ﷺ آخری ایام میں کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے ساتھ میں نے کوئی ظلم وزیادتی کی ہے اور کسی نے مجھ سے بدلہ لینا ہے تو میں بدلہ دینے کےلیے تیار ہوں کیونکہ میں اس دن سے قبل بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ جس دن مال واولاد کام نہ آئے گی اپنی بات کو دہراتے رہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رو رہے ہیں پیچھے سے ایک آواز آتی ہے کہ اے اللہ کےنبیﷺ میں نے بدلہ لینا ہے لوگ کانپ اٹھتے ہیں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیںآگے آؤ جب قریب آتے ہیں تو وہ صحابی عکاشہ ابن محصن رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں یہ وہ صحابی ہیں جنہیں اللہ کے نبی ﷺ نے ان ستر ہزار لوگوں کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنائی جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے نبی اکرم ﷺ فرماتےہیں اے عکا شہ! کیا تم نے بدلہ لینا ہے ؟فرمایا جی ہاں ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے اللہ کے نبی ﷺ !ہم آپ کی جگہ بدلہ دینے کے لیے تیار ہیں فرمایا نہیں میں خود اس کو بدلہ دونگا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کہا واقعہ یہ تھا کے جب آپ صفیں سیدھی کرا رہے تھے تب آپ نے میرے پیٹ میں چھڑی ماری تھی نبی اکر م ﷺ نے چھڑی طلب فرمائی پھر عکاشہ نے فرمایا جب آپ نے چھڑی ماری تھی تب میرے تن پر قمیض نہیں تھی آپ ﷺ نے اپنی قمیض اٹھا دی حدیث میں آتا ہے کہ تین دفع چھڑی کو لہراتے ہیں اور اس کےبعد چھڑی کو پھینک کر آپ ﷺ کے جسم اطہر سے لپٹ کر چومنا اور رونا شروع کردیتے ہیں فرماتے ہیں کہ میںیہ چاہتا تھا کہ سب سے آخری شخص میں ہوں جو آپ ﷺ کے جسم اطہر سے لپٹااور بوسہ دیاہو،آپ سے بدلے کاتومیں سوچ  بھی نہیں سکتانبی اکر م ﷺ فرماتے تھے کہ سارے متقیوں کےامام اورڈرنے والوںمیںسب سے زیادہ  اللہ تعالی سے ڈرنے والا میںہی ہوں ۔
قارئین کرام! یہ ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جس کا ساری زندگی نبی اکرم ﷺ نے خیال رکھا اور آخری نصیحت اللہ کےنبی ﷺ کی ’’الصلاۃ‘‘لوگوں نماز ’’وما ملکت ایمانکم ‘‘ جو آپ کےزیر کفالت لونڈیاں اورغلا م ہیںان کو میں قبل الموت حق دے کر جارہا ہوں  اپنے سب سے کمزور ترین لوگوں کا خیال رکھنا ہے جو خود کھاؤ انہیں کھلاؤجو خود پہنو انہیں پہناؤ ،کبھی ان سے وہ کام نہ لو جس کی وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں اور اگرایسا کام لو توانکی خود مدد کرو ۔
وفات سے قبل نبی اکرم ﷺ كي یہ چارنصیحتیںتھیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین )
۔۔۔

عقیدۂ ختم نبوت کے چار تقاضے

مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا   (الاحزاب:40)

’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ‘‘
نبی کریم eکی ازواجِ مطہرات مومنوں کی مائیں تھیں ان میں سے سیدہخدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے آپe کی چاربیٹیاں ہوئیں جن کے اسمائے گرامی زینب ،رقیہ ،امّ کلثوم ،فاطمہg ہیںاور بیٹے قاسم ، طیب ہیں۔ آپ کا تیسرا بیٹا آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ r کے بطن سے پیدا ہوا جس کا نام ابراہیم تھا۔نبی eکے تینوں بیٹے اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے فوت ہوچکے تھے ان کے بعدآپ کے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا ۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ محمدeمردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں آپ اللہ کے رسول اور خاتم المرسلین ہیں اللہ تعالیٰ ہر بات اور کام کو اچھی طرح جانتا ہے۔
1اللہ تعالیٰ اس حکمت کوجانتا ہے کہ اس نے آپ e کے بیٹوں کو کیوں حیات نہیں رکھا۔
2 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت محمد eخاتم المرسلین ہیں جو بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے مگر تم نبی e کی شوکت و عظمت کو پوری طرح نہیں جانتے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ حقیقت میں اس کے نبی کا کیا مقام ہے ۔
3 جب محمدرسول اللہ  تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں تو زید t کی بیوی آپ کی بہو کیسے بن گئی۔
نبی کریمe کی بعثت سے پہلے نبوت کے چار بنیادی تقاضے پورے نہ ہوئے تھے اس لیے آپ سے پہلے سلسلہ نبوت جاری رکھا گیا۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کے حوالے سے تمام تقاضے اور ضرورتیں پوری ہو گئیں لہٰذا اب کسی اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے نبی e کو خاتم النبیین کے عظیم الشان اور بے مثال اعزاز سے نوازا گیا۔
1جب پہلے نبی کو جھٹلادیا جاتا تو دوسرا نبی مبعوث کیا جاتا:
سلسلہ نبوت کو جاری رکھنے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ تھی کہ پہلے نبی کو کلّی طور پر جھٹلا دیا جاتا تو اس کی تائید اور تصدیق کے لیے دوسرے اور تیسرے نبی کو بھیجا جاتا جیساکہ سورۃ یٰسین میں ہے:

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ اِذْ جَاۗءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ   قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَآ اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَكْذِبُوْنَ   (یٰسٓ:13 تا 15)

’’انہیں بستی والوں کا واقعہ سنائیں جب اُس میں رسول آئے۔ ہم نے ان کی طرف دورسول بھیجے انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے ان کی تائید کے لیے تیسرا رسول بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو کہا کہ ہم تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔بستی والوں نے کہا تم کچھ بھی نہیں مگر ہم جیسے انسان ہو ،الرّحمان نے ہرگز کوئی چیز نازل نہیں کی ہے تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
اگرچہ کچھ لوگوں نے نبی کو جھٹلا دیا لیکن آپeکا کلمہ پڑھنے والے مکی دور سے لے کر اب تک رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔آپ کی امت قیامت کے دن تمام امتوں سے زیادہ ہو گی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ  قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ يَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الرَّهْطُ وَالنَّبِيُّ وَلَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ فَرَجَوْتُ أَنْ يَكُونَ أُمَّتِي فَقِيلَ هَذَا مُوسَى فِي قَوْمِهِ ثُمَّ قِيلَ لِي انْظُرْ فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفُقَ فَقِيلَ لِي انْظُرْ هَكَذَا وَهَكَذَا فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الْأُفق فَقيل هَؤُلَاءِ أُمَّتُكَ وَمَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعُونَ أَلْفًا قُدَّامَهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ هُمُ الَّذِينَ لَا يَتَطَيَّرُونَ وَلَايَسْتَرْقُوْنَ وَلَا يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رجل فَقَالَ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ (متفق علیہ)

’’سیدنا عبداللہ بن عباس t بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہe باہر نکلے اورارشاد فرمایا‘ مجھ پر اُمتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا ‘اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔کسی کے ساتھ دوآدمی تھے، کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی اوربعض ایسے پیغمبر بھی آئے‘ جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑااجتماع دیکھا‘ جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا‘ شاید یہ میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ موسیٰ u کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا‘ آپ نظر اٹھائیں، تو میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہواہے ۔مجھ سے دائیں اوربائیں جانب دیکھنے کے لیے کہا گیا۔میں نے دیکھا ادھر بھی بہت زیادہ لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھ سے کہا گیا‘ یہ سب آپ کے اُمتی ہیں اور ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہ ایسے لوگ ہیں‘ جو نہ بدفالی اورنہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں ۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصنt  نے کھڑے ہوکر کہا‘ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل فرمائے۔ آپ e  نے دعاکی‘ اے اللہ! اسے ان میں شامل فرما۔ اس کے بعد ایک اور شخص کھڑا ہوا‘اس نے آپ سے دعا کی درخواست کی کہ اللہ مجھے بھی ان سے شامل کرے ۔ آپ e نے فرمایا‘ عکاشہ  تم سے سبقت لے گیا۔‘‘

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّtعَنِ النَّبِيِّ قَالَ۔۔۔ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ أَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ فَكَبَّرْنَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَبْيَضَ أَوْ كَشَعَرَةٍ بَيْضَاءَ فِي جِلْدِ ثَوْرٍ أَسْوَدَ)) (رواہ البخاری: باب قصۃ یأجوج ومأجوج)

’’سيدناابو سعید خدری t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں چوتھائی تعداد تمہاری ہو گی ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں تمہاری تعداد تیسرا حصہ ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں، کہ تم جنت والوں میں نصف ہو گے ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا تمہارا تناسب لوگوںمیں ایک سیاہ بال کی طرح ہے جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا سفید بال کی مانند جو سیا ہ رنگ کے بیل پر ہو۔ ‘‘

اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ   اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا (النصر)

’’جب اللہ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہو جائے اور اے نبی آپ دیکھ لیں کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔ اپنے رب کا شکر اور اس کے حضور استغفار کیجئے، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
2پہلے انبیاء کرام oکی شریعتیں نامکمل تھیںآپ کا دین کامل اور اکمل ہے اس لیے آپ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں:
ابتدائی دور میں انسان کے شعور میں اتنا ارتقاء پیدا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی انسان نے تمدن، سماج اور دیگر شعبہ جات میں اتنی ترقی کی تھی کیونکہ انسانی زندگی کا ارتقائی دور تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کی خاطر دین میں ارتقائی اور تدریجی عمل پسند فرمایا۔ نبی e کے دور میں انسان نے کافی حد تک شعور حاصل کر لیا تھا اس لیے ہمیشہ کے لیے دین یعنی دستور حیات کو مکمل کر دیا گیا اور اعلان ہوا:

 اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا   (المائدۃ:3)

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے، میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو دین کے طورپر پسند کر لیا‘‘۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ t أَنَّ رَجُلًا مِنَ اليَهُودِ قَالَ لَهُ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ اليَهُودِ نَزَلَتْ لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ عِيدًا قَالَ أَيُّ آيَةٍ قَالَ ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ قَالَ عُمَرُ قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ اليَوْمَ وَالمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ  وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ)) (رواہ البخاری: باب زیادۃ الایمان ونقصانہٖ)

’’سيدنا عمر t فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے مجھے کہا اے امیر المؤمنین! تمہاری کتاب میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے، میں نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ اس نے کہا ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ﴾ عمر t فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ مجھے وہ دن اور مقام یاد ہے جہاں نبی e  پر یہ آیت  نازل ہوئی اس وقت آپ جمعہ کے دن عرفات میں کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔‘‘
3پہلے انبیاء کرامoکی لائی ہوئی کتب مسخ کر دی گئیں،اس لیے ایک مکمل کتاب، داعی اور نبی آخر الزمان کی ضرورت تھی لہٰذا آپﷺ مبعوث کیے گئے:
پہلی آسمانی کتابوں کو تبدیل کردیا گیا جس کی وجہ سے نبوت کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔

 وَقَدْ كَانَ فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ يَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ يُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ  (البقرہ:75)

’’حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کا کلام سن کر سمجھنے اور جاننے کے باوجود اسے بدل دیتے ہیں۔‘‘
دوسری کتابوں کے مقابلے اور حقیقت کے اعتبار سے قرآن مجید اپنی زبر، زیر کے ساتھ محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا یہاں تک کہ آپeکی احادیث اور اس کے بیان کرنے والے راویوں کے نام اور کوائف بھی محفوظ کر لئے گئے ہیں۔لہٰذا اب کسی نبی کی ضرورت نہیں ۔

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ    (النحل: 44)

’’اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت نازل کی ،تا کہ آپ اسے لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اُتارا گیا ہے اس لیے کہ وہ غوروفکر کریں ۔‘‘

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر:9)

’’یقیناً ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔‘‘

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ    اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ   ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ (القیامۃ:16تا19)

’’اے نبی وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔ اس کو جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں تو اس کی قرأت غور سے سنتے رہیں۔ یقیناً اس کا بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ ‘‘
ان آیات میں قرآن مجید کو ’’اَلذِّکْرَ‘‘ قرار دے کرفرمایا ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن مجید کی حفاظت کا بندوبست کر دیا ہے بلکہ قرآن مجید کی تشریح یعنی حدیث مبارکہ کو بھی قیامت تک کے لیے محفوظ فرما دیا گیا ہے۔عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ مذہبی‘ ثقافتی اور تجارتی مرکز ہونے کے باوجود مکہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بیس سے زیادہ نہ تھی اور یہ بھی معمولی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ شدید علمی فقدان اور پڑھائی لکھائی کا رواج نہ ہونے کے باوجود نبی معظم e نے اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جوں ہی قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ اسے اپنی نگرانی میں مرتب کرواتے۔ کاغذ کی عدم دستیابی کی وجہ سے قرآن مجید کو کھال،لکڑی، پتھر یہاں تک کہ بعض درختوں کے پتے اس طریقے سے تیار کیے جاتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا جیسا کہ پرانے زمانے کے کتبات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس طرح مکمل قرآن مجید مختلف کتبات کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا۔
4پہلے انبیاء کرام oمخصوص قوم اور زمانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے لیکن آپ کو e قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے لہٰذا اب کسی نبی کی ضرورت نہیں:

 قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ   (الاعراف:158)

’’فرما دیں اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں وہ اللہ جس کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں جو زندہ کرتا اورمارتا ہے پس اللہ اور اس کے نبی امی پر ایمان لائو جو اللہ اور اس کی باتوں پرایمان رکھتا ہے۔ اور اس کی پیروی کروتاکہ تم ہدایت پائو۔‘‘
امام ابن کثیر  نے اس آیت سے آپ کی ختم نبوت کا استدلال کیا ہے کیونکہ آپ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں لہٰذا آپ کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی گنجائش نہیں۔ آپ کی عالمگیر نبوت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ جس طرح  اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بلا شرکت غیرے مالک اور معبود ہے اسی طرح کسی شراکت کے بغیر محمد e بھی قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان کے لیے رسول ہیں ۔

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ  (سبا:28)

’’اے نبی  ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ  (الانبیاء: 107)

’’اے نبی ہم نے آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے ۔‘‘

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ الْأَنْصَارِیِّt قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی کَانَ کُلُّ نَبِیٍّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِہِ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ إِلَی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تُحَلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَیِّبَۃً طَہُورًا وَمَسْجِدًا فَأَیُّمَا رَجُلٍ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ صَلَّی حَیْثُ کَانَ وَ نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ بَیْنَ یَدَیْ مَسِیرَۃِ شَہْرٍ وَأُعْطِیتُ الشَّفَاعَۃَ)) (رواہ مسلم: کِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاۃَ )

’’سيدنا جابر بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم  نے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیںجو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔
1 پہلے انبیاء کو ان کی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔
2 میرے لیے مال ِ غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا ۔
3 میرے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے ، جہاں بھی نماز کا وقت ہوجائے اُسی جگہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
4  ایک مہینے کی دوری پر ہونے کے باوجوددشمن مجھ سے ڈرتا ہے ۔
5 مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔‘‘

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ  أَنَّ رَسُولَ اللہِ  قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ  بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ (رواہ مسلم :کتاب المساجد ، و مواضع الصلاۃ )

’’سيدناابو ہریرہ tبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئی ہیں۔
1 مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی ۔
2 اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔
3  مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ۔
4میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا ۔
5 مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا اور مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کر دیا گیا۔ ‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  أَنَّ رَسُولَ اللهِ  قَالَ إِنَّ  مَثَلِي وَ مَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَ أَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ لَهُ وَيَقُولُونَ هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّينَ))  (رواہ البخاری:  باب خاتم النبیین)

’’سيدنا ابوہریرہ t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا: میری اور پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہےکہ جس طرح ایک آدمی نے بڑا خوبصورت گھر بنایا لیکن اس عمارت میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس کے حسن و جمال پر تعجب کرتے ہوئے سوچتے اور کہتے ہیں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ فرمایا: میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘

عَنْ ثَوْبَانَ  قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ  لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالمُشْرِكِينَ وَحَتَّى يَعْبُدُوا الأَوْثَانَ وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي)) (رواہ الترمذی:باب ماجاء لاتقوم الساعۃ)

سيدناثوبان  بیان کرتے ہیں کہ نبی   نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے اور بتوں کی عبادت کرنے لگیں گے، عنقریب میری امت میں تیس کذاب آئیں گے، ہر ایک اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہوگا حالانکہ آخری نبی میں ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘
۔۔۔

اک آدمی کونین کا حاصل بنا

اللہ تعالی کے بے شمار احسانات ہیں ان نعمتوں میں نعمت عظمی محمد کریم ﷺ کا وجود اور بعثت ہے ارشاد باری تعالی ہے :

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِهِ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ   وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْن

’’بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔(آل عمران 164)  رسول الثقلین ﷺ اس دنیا میں بگاڑو فساد ،ظلم وشرک ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تاکہ یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بنے ظلم ختم ہو عدل قائم ہو مختلف درگاہوں پہ جھک کر ذلیل ہونے والی جبینیں صرف ایک رب کے دربار میں جھک کر عزت وو قار پائیں کیونکہ وہ احکم الحاکمین اپنے سامنے جھکنے والوں کو عزت و کامرانی کی بشارت ان الفاظ میں دیتا ہے

: وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 139)

تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو ۔ اُس نبی کا کتنا احسان ہے کہ اس نے انسانیت کوقعرمذلت سے نکال کرتوحید کی دعوت کے ساتھ شرف و عزت سے سرفراز کیا وہ رب کس قدر شکر و محبت کا سزاوار ہے جس کی انسان سے محبت کا پرتو بعثت سید المرسلین ہے سلسلہ نبوت سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور بقول احسان دانش کہ :
آب و گِل میں مدتوں آرائشیں ہوتی رہیں             تب کہیں اک آدمی کونین کا حاصل بنا
انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت میں رسول رحمت ﷺ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی حیات مبارکہ کومالک ارض و سماء نے ’’ اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے ، خالقِ کائنات کا پُرحکمت فرمان ہے

۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔ (الاحزاب:21)
ربِ کریم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو بہترین نمونہ قرار دیا تو پھر اخلاقیات کی تمام اعلیٰ اقدار کا اتمام بھی اپنے حبیب ﷺ کی ذات میں فرمادیا ۔ ارشاد ہوا

:إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ

  مجھے مکارمِ اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ (بیہقی) سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے ’’لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘‘ہر قوم کے لئے ہادی و راہنما مگر رسول اکرمﷺ

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا’

’اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے‘‘۔(السبأ:28)تمام لوگوں کی طرف نبیٔ رحمت بناکر مبعوث کیے گئے، سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اور خاتم النبیین قرار پائے۔چونکہ پہلے کسی نبی کی مکمل سیرت کو ربِ تعالیٰ نے سب کے لئےاسوئہ حسنہ  قرار نہیں دیا، اس لئے وہ مکمل سیرت محفوظ بھی نہ رہی، اور رسول ِ مقبول ﷺ کی سیرت کو چونکہ قیامت تک کے لئے’’اسوئہ حسنہ ‘‘ قرار دیا سب کے لئے قابلِ اتباع بنایا ، ایمان کی جان اپنے نبی ﷺکی محبت کو قرار دیا تو نہ صرف اس سیرت مطہرہ کو محفوظ کرنے کا بندوبست فرمایا بلکہ جن خوش نصیبوں نے اس سیرت مطہرہ کو نقل فرمایا ان کی زندگیوں کو بھی محفوظ کردیا۔اور یوں علم الرجال جیسا عظیم فن وجود میں آیا ۔
’’اسد الغابۃ‘‘ نامی مشہور کتاب اس کی بہترین مثال ہے۔ معاشرے میں بسنے کے لئے ایک فرد کی جو مختلف حیثیتیں ہیں وہ سب کی سب رہبرکامل ﷺ کی حیات مقدسہ میں موجود ہیں، مبلغ و داعی، مہاجر و مصلح، تاجر و معلم، حاکم وسرپرست،سپاہی و سپہ سالار، فاتح و مفتوح پھر خاندانی حیثیتیں باپ، داماد، شوہر، سسر پھر زندگی کا ہر ہر گوشہ لوگوں کے سامنے عبادت و ریاضت ، خاموشی و گفتگو، جنگ و صلح اور معاہدے یہاں تک کہ لکھنے والا جب سب کچھ لکھنے لگا تو کچھ صحابہ کرام کو وہم سا گزرا کہ سب کچھ کیوں لکھتے ہو کبھی آپ غصہ میںہوتے ہیں تو کبھی خوشی میں لکھنے والا صحابی مغموم ہوا اور پیارے پیغمبر علیہ السلام سے اس کی بابت معلوم کیا جواب ملا  اُكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا خَرَجَ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ  تم لکھتے جاؤ، کیونکہ اللہ کی قسم ! اس زبان سے سوائے حق کے اور کچھ ؕنکلتا ہی نہیں۔(مسند احمد) سو انصاف و حقیقت پسندی کی بات یہی ہے کہ آپ ﷺہی کی سیرت ایسی سیرت ہے جو ہر لحاظ سے ہر شخص کے لئے قابلِ اتباع ہے۔ اس پاکیزہ سیرت میں تاریخیت بھی ہے، عملیت بھی، جامعیت بھی ہے اور کاملیت بھی ۔محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرماکراللہ تعالیٰ نے قصر نبوت کو مکمل کردیا اور یہ اعلان کردیا گیا کہ

:مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ(الاحزاب 40)

’’لوگو! تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد ﷺ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔‘‘ اب کوئی اس قصر میں نقب لگانے کی کوشش کرے گا تو کذابین و دجالین میں اس کا شمار ہوگا پشت پناہی کرنے والے یا ایسے نقب زنوں کو مسلمان گرداننےوالا ایمان سے محروم ہو سکتاہے ملک خداداد میں عجیب صورت حال ہے کہیں محبت کے نام پہ سرور کونین کی سنت کی مخالفت ہو رہی ہے جو کام اصحاب رسولﷺ نے نہیںکیا پانچ صدیاں بیت گئیں قرون مفضلہ میں اس کا ثبوت نہ ملا چاروں امام گزر گئے اور سب سے بڑھ کر شریعت بتلانے والے اپنی پیدائش کا دن منایا اورنہ منانے کا حکم دیا پھر کہاں کی شریعت ہے جس سے صاحب شریعت ناآشنا رہے اب کہیں گستاخی کی انتہاء یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نعلین کا نقش بنایا ہے جو کسی حدیث سے ثابت نہیں پھر جوتیوںکے اس نقش میں ظالم قرآن کی آیات اور اسم محمد ﷺ لکھتے ہیں حد ہوگئی ہے جہالت کی حکومتیں ایک طرف حرمت رسول اور ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالنے والوں کے لیے آغوش محبت کھلی رکھتی ہے تو دوسری جانب جشن ولادت میں چراغاں کر کے محبت رسول کا د م بھرتی ہیں حالانکہ محبت اصل میں اطاعت رسول ﷺکا نام ہے

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (ال عمران 31)

کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا ۔
جشن منانے کے لیے دلیل شریعت اسلامی میں تونہیں ہے البتہ عیسائیوں کے ہاںسیدنا عیسی علیہ السلام کا دن منانے سے دوستوں نے دلیل لی کہ ہم تو اپنے نبی کا جشن ولادت منانے کے زیادہ حقدار ہیں ایسی ہی دلیل کی وجہ سے اب یہ نوبت آئی ہے کہ وہ جمعۃ المبارک جسے’’ سید الایام‘‘کہا گیا ہے وہ یورپ کی اقتداء میں اب نومبر کے آخر میں بلیک فرائيڈے (black friday) کے نام سے منایا جا نے لگاہے وہ جمعے کا دن جو یوم مشہود ہے جس میں نبی رحمتﷺ نے کثرت سے درود پڑھنے کا سبق سکھایا ہے جس جمعہ سے قرآن پاک کی ایک مکمل سورت موسوم ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا تذکرہ ہے اور یہودیوں کی سیاہ تاریخ اجمالی انداز میں بیان کی گئی ہے شاید اسی لیے انہوں نے نومبر کے آخر میں آنے والے جمعہ کو سیاہ جمعہ’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کا نام دیا ہے اور ہمیں تو بس تقلید کرنی ہے سو خو ب سیلز کا اہتمام بلیک فرائیڈے کے نام سے کیا جاتا ہےکیا یہ وائیٹ یا گولڈن فرائیڈے نہیں ہوسکتاتھامگر کیا کریں
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ایسا تو ہوگا جب یہود و نصاری سےدلیل لی جائے گی کیونکہ نبی رحمت ﷺ فرما چکے :

  مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن أبی داود کتاب اللباس باب في لبس الشہرۃ ، الحدیث :4031 )

شریعت کا مزاج دیکھیں نبی رحمت ﷺ تو عبادات میں بھی کہیں ذرا سی مشابہت کو گوارا نہیں کیا رمضان میں سحری اور عاشورہ کا روزہ اس کی مثال ہے ۔ ن لیگ کی موجودہ دور حکومت میںشروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ دینی حلقوں کے ووٹ کی تائیدملنے کی وجہ سے دین سے نسبتاً قریب ہونےکا جو تاثر ہے اسے زائل کرے سو وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج اس کام کےلیے جت گئی پھر حقوق نسواں کےنام پر آزادی نسواں کا بل ناموس رسالت میں گستاخی کرنے والوں کا دفاع ممتاز قادری کوپھانسی دینے میں  پھرتیاں جب پھر بھی کچھ دیوانے دفاع کرتے نظر آئے تو ختم نبوت کی آئینی دستاویز سے چھیڑ چھاڑ کر کے میڈیا پہ کئی وزیر باتدبیر قادیانیوں کو اپنا بھائی قرار دیتے نظر آئے مودی کی محبت اورامریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایجنڈابیچ چوراہے میں عریاں پڑا ہے مگر نواز شریف صاحب پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ایک طرف اسلام آباد کی سڑکیں دھرنا دینے والوں نےاس نبی کے نام پہ بند کر رکھی ہیں جس نے راستوں کے کئی حقوق بتائے ہیں جس نے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کا حصہ بتایاہے دھرنا دینے والے لوگ خود تکلیف اٹھارہے ہیںاورلوگوں کے لیے بھی باعث آزار بنے ہیں مگر حکومت وزیر قانون کی وزارت کی قربانی اس نبی کے لیے دینے کو تیار نہیں جس نبی کے شہرکی خاک کو اقبال نےآنکھوں کا سرمہ بنانے پہ فخر کیا ہے اگر اتنی بھی ایمان کی اتنی حمیت بھی نہیں تو اس جمہوری حق کو ہی مان لو جس کے ذریعے تم نے حکومت حاصل کی ہے ، دھرنا دینے والےہوں یا فساد خلق کے ڈر سے گھر بیٹھنے والے سب یہی چاہتےہیں کہ وہ وزیر گھر جائے جس نے ختم نبوت ﷺ کے پاکستانی آئین سے چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کی ہے اسے اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس وزارت کو نبی اکرم ﷺ کی جوتیوں پر قربان کردینا چاہیے۔

لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کا مفہوم

کلمہ طیبہ کے دو حصے ہیں پہلا حصہ اللہ تعالی کاتعارف کرواتا ہے اور دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کا تعارف کرواتا ہے اور یہ دونوں حصے مل کر توحید کے تصور کو مکمل اور واضح کرتے ہیں پہلے حصہ میں ہر معنوی و حسی وجود کی نفی ہے جو اللہ تعالی کے مقام و مرتبہ میں شریک بنایا جا سکتا ہے اور اسی طرح دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے تصور کو واضح کرتا ہے اس تحریر میں کلمہ اخلاص کے انہی دونوں اجزا کو واضح کیا جائے گا
پہلا حصہ : لا الہ الا اللہ کا مفہوم

’’لا الہ‘‘ کا مفہوم:

لا الہ کو ہم اصطلاح میں شرک کہہ سکتے ہیں اس سے قبل کے الا اللہ کے مفہوم پر بات کی جائے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ لا الہ کو واضح کر دیا جائےکہ جیساکہ مقولہ مشہور ہے کہ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ لہٰذا اگر شرک کو مکمل طور پر سمجھ لیا جائے تو ذات الہٰی کا سمجھنا ممکن ہو جائے گا اور اس کے تقاضوں کی تکمیل بھی آسان ہو جائے گی سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم شرک کو کیوں پہچانیں تو اس کا جواب بہت آسان ہے ۔
شرک سب سے بڑا گناہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاتی ہے اور اس کا خطرہ بہت بڑا ہے اور یہ چیونٹی کے چلنے سے بھی باریک اور خفیف ہوتا ہے اسی لئے ہر مسلمان پر اس کی پہچان واجب ہے تا کہ وہ ا س سے محفوظ رہے ۔ اور اپنے معاملہ میں صاف ستھری راہ پر ہو جائے اور اس میں واقع ہونے سے محفوظ ہو جائے اس کی وجوہات ویسے تو بہت زیادہ ہیں لیکن چند کا مختصرذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ اس امت میں عنقریب شرک واقع ہو گا اور بتوں کی پوجا کرنے والے لوگ پائے جائیں گے اورپہلے والے مشرکین کے راستہ پر چلیں گے ،جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمانہ زیادہ نہیں گزرے گا یہاں تک کہ لات اور عزی کی پرستش کی جائیگی۔(متفق علیہ )
قیامت قائم نہیں ہو گی حتی کہ میری امت کے کئی قبیلے مشرکین سے جا ملیں گے او ریہاں تک کہ میری امت کے کئی قبیلے بتوں کی پوجا کرنے لگیں گے ۔ (ابو داؤد )
مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ شرک کو پہچان لے اور اس سے دور رہے او رڈرے اگر اس نے شرک کو پہچانا نہیں تو بسا اوقات بے شعوری کی وجہ سے اس میں واقع ہوجائے گا ۔ جیسا کہ سیدنا حذیفہ tکا قول ہے : رسول اللہ ﷺ سے لوگ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اورمیں آپﷺ نے شرک کے متعلق سوال کرتا تھا اس خوف سے کہ میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں ۔(متفق علیہ)
m عملا حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں ایسے اجتماعات ہوتے ہیں جن کی تعظیم کی جاتی ہے اور قبروں کی تعظیم کی جاتی ہے ان کے لئے نذریں مانی جاتے ہیں او ران کے پاس جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اور قبر والوں سے فریاد رسی کی جاتی ہے اور ان کے پاس چراغ جلائے جاتے ہیں اور وہاں میلے لگائے جاتے ہیں اور قبر والوں سے حاجتوں کے پورا کرنے، مصیبتوں کے دور کرنے اور بیماریوں کے زائل کرنے کا سوال کیا جاتا ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قبر والے مردے ہم کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کر دیں گے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہاں قبروں کی پوجا کرنے والوں کے درمیان اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کے درمیان کیا فرق ہے ؟ حالانکہ یہ دونوں مخلوق ہیں ۔مشرکین مکہ بھی بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے اور ان سے فریاد رسی کرتے تھے اور آج کے مشرک بھی اپنے آباؤ اجداد کے نقشے قدم پر چل رہے ہیں ۔
mسب سے پہلا شرک جو واقع ہوا وہ نیک لوگوں کی تعظیم میں غلو کرنے کے سبب سے رونما ہوا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب جہالت عام ہو جائے اور علم کم ہوجائے تو پھر شیطان لوگوں کے اندر گھس جاتا ہے اور ان کے لئے نیک لوگوں کا وسیلہ پکڑنا مزین کر دیتا ہے اس کے بعد ان کو نیک لوگوں کی عبادت کرنے حکم کرتا ہے ۔
اس پرعبداللہ بن عباس wکا قول اس آیت کی تفسیر میں دلالت کرتا ہے۔اور کہا انہوں نے کہ اپنے معبودوں کو ہر گز نہ چھوڑنا نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ۔( نوح/۲۳)
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ سیدنا نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب یہ لوگ وفات پا گئے تو شیطان لعین نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ تم ان کے مجسمے بنا لو او ران کے پاس اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو تو انہوں نے ایسا ہی کیا جب ایک زمانہ گزر گیا اور یہ لوگ بھی فوت ہوگئے اور ان کے بعد کی نسلیں آ گئیں اور علم بھول گیا تو وہ انہیں مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔(بخاری)
سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ کے یہ بت بعینہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کے ہاں پائے گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے غلو کرنے سے ڈرایا ہے ۔ فرمایا :اے اہل کتاب ! تم اپنے دین میں غلو نہ کرو ۔(النساء/۱۷۱)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غلو کرنے سے بچ جاؤ تم سے پہلے لوگوں کو غلو نے ہلاک کر دیا (بخاری)
اللہ تبارک و تعالی نے جنوں اور انسانوں کو بہت بڑی حکمت کے تحت پیدا کیا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ اکیلے اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کرنا ا س کے سوا اوروں کی عبادت سے بچنا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ۔(الذاریات/ ۵۶)
اور اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص رکھیں (ابراہیم حنیف کے دین پر) نماز کو قائم رکھیں ، زکاۃ دیتے رہیں ۔ یہی دین درست اور مضبوط ہے ۔ ( البینۃ/ ۵)
مذکورہ بالا آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اکیلے اللہ تعالی کی ہی عبادت کرنا واجب ہے جو شخص اکیلے اللہ تعالی کی عبادت نہیں کرتا بلکہ اوروں کو بھی اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے تو وہ مشرک اور کافر ہے ، دائرہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اگر وہ کوئی بھی عمل کرے تو وہ عنداللہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ وہ عمل اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اس لئے کہ اس نے توحید کی شرط کو ثابت نہیں کیا ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں اڑے ہوئے ذروں کی طرح کر دیا ۔ (الفرقان/ ۲۳)
رسول اللہ ﷺ نے حدیث قدسی میں فرمایا : جس نے کوئی عمل کیا اور اس عمل میں میرے ساتھ اس نے کسی دوسرے کو شریک کیا تو میں اس عمل کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دوں گا ۔ (مسلم )
شرک کی تعریف اور اسکی قسموں کا بیان اور ہر قسم کا حکم
شرک کہتے ہیں کہ انسان اس چیز میں جس کا اللہ تعالیٰ کو حق ہے اللہ تعالیٰ کیساتھ غیر اللہ کو برابر کرے اور اس میں شریک کرے مطلب یہ ہے کہ عبادت کی تمام اقسام میں سے کسی قسم کو غیر اللہ کیلئے پھیر دینا۔ اسکی دو قسمیں ہیں ۔ کلمہ طیبہ کے آغاز میں سب سے پہلے ’’الہ‘‘کی کی نفی کی گئی خواہ یہ الہ حسی ہو یا معنوی ہو اور اگر یہ نفی قولی یا عملی طور پر نہ کی جائے تو اسے شرک کہا جاتا ہے اس کی دو اقسام ہیں

شرک اکبر:

کسی بھی قسم کی عبادت کو غیر اللہ کی طرف پھیرنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ جیسا کہ کوئی غیر اللہ کے نام پر جانورذبح کرے یا نذر مانے یا غیر اللہ کو پکارے یا اس سے فریاد رسی کرے یہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے بتوں کو پکارا ہے اور اولیاء اور صالحین کی قبروں پر جاکر فریاد رسی کرتا ہے اوروہ اس چیز کر مدنظر رکھتا ہے کہ یہ مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب کر دیں گے اب جو آدمی اس مھلک مرض میں مبتلاء ہے وہ کافر اور مشرک ہے دائرہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرے گا اگر وہ اپنے اس شرک پر بغیر توبہ کئے مر گیا وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہے گا اس پردلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو اس حالت میں مر گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اوروں کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہو گا ۔ (بخاری)
کیونکہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے جو حالت شرک پر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے کبھی بھی نہیں بخشے گا ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہیں بخشے گا کہ اسکے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے سوا کے گناہ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔ (النساء/ ۱۱۶)
یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گناہ گاروں کی مدد کرنے ولا کوئی نہیں ۔ (المائدۃ/۷۲)
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کر دیا کہ جو اس کے ساتھ شرک کریگا اس کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہو گا ۔

شرک اصغر :

چھوٹا سا شرک بھی گناہ کبیرہ میں سے ہے مگر وہ شرک اکبر سے کم تر ہے شرک اصغر میں مبتلا شخص ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ وہ دیگر گناہوں کی طرح جو شرک اکبر سے کم ہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تحت ہو گا ۔ (اگر چاہے تو معاف کر دے یا جہنم میں اولاً ڈال کر اور گناہوں سے پاک کر کے جنت میں داخل کر دے ) ۔

’’الا اللہ‘‘ کا مفہوم

جھوٹے معبودان کی پہچان اور نفی کے بعد اب سب سے اہم مرحلہ آتا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف اللہ کو ایک مانا جائے بلکہ ایک اللہ کی مانی جائے
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘کی اقسام
لا الہ الا اللہ کا معنی جیسا کہ بیان کیا گیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں یعنی اس کا کویی شریک نہیں اس کے تین بنیادی پہلو ہیں اور یہ تینوں پہلووں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ان تینوں کو ایک ساتھ اختیار کرنا لازمی ہے وگرنہ لا الہ الا اللہ کا مفہوم نامکمل ہو گا ۔

ربوبیت الہی

اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی خالق، رازق ، مالک متصرف اور ہر چیز کا مدبر ہے اور اس کے فیصلے کو کوئی روکنے والانہیں ہے ۔اللہ تعالی کی ربوبیت پر بہت دلیلیں ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے چھ دنوںمیں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا چھپا دیتا ہے رات سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ رات اس دن کو جلدی سے لے آتی ہے اور سورج اور چاند اوردوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں ۔ یاد رکھو ۔ اللہ ہی کیلئے خاص ہے خالق اور حاکم ہونا بڑی خوبیوں کا بھرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الاعراف/۱۵۴)
اس کا اقرار سابقہ اقوام کے مشرکین نے بھی کیا تھا لیکن اس اقرار نے انہیں اسلام میں داخل نہیں کیا کیونکہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کے دیگر پہلووں کا اقرار نہیں کیا تھا جس کاذکر آگے کیا جائے گاجیساکہ قرآن میں بھی ہے : اور اگر آپ ان (کفار) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور کہیں گے ان کو غالب جاننے والے نے پیدا کیا ۔ (الزخرف31)
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو یقیناً یہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے تو پھر کہاں الٹے جاتے ہیں ۔ (الزخرف/87)
اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر دلائل بہت سے ہیں جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا دلائل عقلی ہوں یا نقلی پس مخلوق خالق کے وجود پر دلیل ہے اور ہر بنی ہوئی چیز کے بنانے والے کا ہونا ضروری ہے ۔ اللہ ذوالجلال نے فرمایا :کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خود بخود پیدا ہو گئے ہیں یا خود یہ پیدا کرنے والے ہیں ۔ (الطور/ ۳۵)
یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی کیا تم دیکھتے نہیں ہو اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے سب آسمانوں میں ہے ۔(الذاریات/۲۰، ۲۱، ۲۲)

اللہ کے خوبصورت نام اور صفات

اللہ کے خوبصورت نام اور صفات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات پر اس طرح ایمان لائے جس طرح کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں وارد ہے اور وہ ان اسماء اور صفات میں نہ تحریف کرے اور نہ الفاظ بلا معنی سمجھے اور نہ کیفیت بیان کرے اور نہ تاویل کرے اور نہ کسی مخلوق کیساتھ تشبیہ دے او رنہ ہی مثال بیان کرے کیوں کہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا ہے: ’’اس کی طرح کوئی چیز نہیں وہ سنتا اور دیکھتا ہے ۔‘‘(شوری/۱۱)
پس مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اسی طرح صفت بیان کرے جس طرح اس نے اپنی ذات کی صفت بیان کی ہے یا اس کے رسول اللہ ﷺ نے بیان کی ہے بغیر کسی زیادتی اور نقصان کے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو اس کے اسماء اور صفات میں ملحد ہوگئے ہیں عذاب دینے کا وعدہ کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اچھے اچھے نام اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں ان لوگوں کو ان کے کیئے کی ضرورسزا ملے گی ۔ (الاعراف/ ۱۸۰)
جس نے اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں سے کسی کا انکارکر دیا تو وہ کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
پس مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء اور صفات پر ایمان لائیں اور انکو اس نہج پر ثابت کریں جو اسکی شان اور عظمت کے لائق ہے ۔

عبادت الہی

انسان ایک اللہ کی عبادت کرے ان تمام امور میں جو عبادت کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ متعلق ہیں جیسا کہ نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ، ذبح ، نذر ، فریاد وغیرہ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام عبادات کو ایک اللہ رب العزت کے لئے خاص کرنا ہے اب اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی کو پکارا نہیں جائے گا نہ کسی مقرب فرشتے کو اور نہ کسی نبی مرسل کو پس جس نے ان عبادات میں سے کسی بھی عبادت کو غیرا للہ کیلئے خاص کر دیا تو وہ مشرک اور کافر دائرہ اسلام سے خارج ہے اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میراجینا اور میرا مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں ۔ (الانعام/ ۱۶۲)
جو شخص اللہ تعالیٰ کیساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں پس اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے بے شک کافر لوگ نجات سے محروم ہیں ۔ ( المؤمنون/۱۱۷)
اور لا الہ الا اللہ کا یہی پہلو ہی سابقہ اقوام کا اپنے رسولوں کے ساتھ مختلف فیہ تھا یعنی وہ اس کا اقرار نہیں کرتے تھے جب کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خالق ، رازق اور مدبر ہونے کا اقرار کرتے رہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں دوسرے معبودان باطلہ کو شریک کرتے رہے اور وہ یہ خیال فاسد کرتے تھے کہ جن کی ہم عبادت کرتے ہیں یہ ہم کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کر دیں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے انہی کے قول کو نقل کیا ہے:اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ بزرگ ہمیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں( الزمر/ ۳)
اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل علیہم الصلوٰۃ السلام کو توحید خالص کی طرف دعوت دینے کے لئے بھیجا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف بھی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے پس تم میری ہی عبادت کرو ۔ ( الانبیاء/ ۲۵)
جب ہم جائزہ لیتے ہیں سابقہ مشرکین کا موجودہ زمانے کے مشرکین کے ساتھ توآج کے مشرکوں کوپہلے زمانہ کے مشرکوںسے زیادہ سخت کفر و شرک میں پاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ اول کے مشرکین تو حالت رخاء میں اللہ تبارک و تعالیٰ کیساتھ شرک کرتے تھے مگروہ مصیبت اور پریشانی کے وقت خالص اللہ تبارک و تعالیٰ کو پکارتے تھے اوراللہ تعالیٰ کی طرف پناہ لیتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیںتو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔ (العنکبوت/۶۵)
اب رہ گئے آج کے مشرک تو یہ ہر حالت میں غیر اللہ کو پکارتے ہیں چاہے امن و سکون کی حالت ہو یا تنگی اور مصیبت کی حالت ہو آپ ان میں سے کسی کو بت کے سامنے یا کسی کو قبر کے سامنے پائیں گے اور اس قبر والے سے مصیبتوں اور پریشانیوں کے دور کرنے کی فریاد رسی کر رہاہو گا اور اس سے مدد یا اولاد مانگ رہا ہو گا اور جانور ذبح کرنے کی منتیں مان رہا ہوگا جیسا کہ قبر پرستوں کا حال ہوتا ہے بس ان کا کام صرف قبروں پر چلّا کشی کرنا اور بڑے بڑے مزاروں کا طواف کرنا اور قبر والوں سے اپنی حاجتوں اور ضرورتوں کے پورا کرنے کی امیدیں کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اسکی دعا کو قبول نہ کر سکیں بلکہ وہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہوں۔(الاحقاف/ ۵)
یہ لوگ قبروںمیں ہیں اپنے لئے کسی چیز کے مالک نہیں ہیں چہ جائیکہ یہ دوسروں کے مالک ہوں؟ پس جب وہ اپنے لئے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں تو وہ دوسروں کیلئے بطریق اولیٰ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہوں گے ۔ بلکہ نفع و نقصان کا مالک سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اگر تم کو اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچا دے تواس کودور کرنے والا سوائے اللہ کے کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کوئی نفع پہنچا دے تو وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔(الانعام/۱۷)
عبادت اور اس کی اقسام
چونکہ عبادت کا لفظ ہی اصل محور اور مرکز ہے اور اس کی بنیاد پر جنت اور جہنم کا فیصلہ ہو گا لہذا اس کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے
عبادت کا لغوی معنی عاجزی کرنا مطیع اور تابعدار ہونا ہے اور شرعًا اس کا معنی یہ ہے کہ عبادات اسے کہتے ہیں جو ایسے اعمال اور اقوال (چاہے ظاہرہ ہوں یا باطنہ) کو جامع ہے جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے ۔ اور یہ عبادت دو اصولوں پر مبنی ہے ۔
خالص اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنا ۔
رسول اللہ ﷺ کی کے طریقہ کے مطابق کرنا ۔
جب تک یہ دو شرطیں نہیں پائی جائیں گی تو عبادت صحیح و مقبول نہیں ہو گی ۔ اسی طرح عبادت کی کئی اقسام ہیں ان سب کو اکیلے اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے کرنا واجب ہے اگر کسی نے غیر اللہ کے لئے کوئی عبادت کی تو وہ مشرک اور کافر ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ عبادت کی چند قسمیں ذکر کریں گے کیونکہ تمام عبادت کی قسموں کا احاطہ کرنا یہاں مشکل ہے ۔

دعا :

اللہ تعالیٰ سے خیر کو طلب کرنا یا کسی مصیبت کے دور کرنے کا سوال کرنے کو کہتے ہیں ۔ اور دعا خالص اللہ تعالیٰ سے کی جائے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری فریاد قبول کروں گا جو لوگ مجھے پکارنے سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونگے۔( غافر/ ۶۰)
اور اسی طرح فرمایا: تم لوگ اپنے رب سے دعا کیا کرو تذلل ظاہر کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی ۔( الاعراف/۵۵)
اور تم اس کو ڈر او رتوقع سے پکارو ۔ (الاعراف/۵۶)
اور رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ: دعا عبادت ہے (ابوداؤد، ابن ماجۃ)
یہ تمام نصوص دلالت کرتی ہیں کہ دعا عبادت کی قسموں میں سے خاص ترین اور اہم ترین عبادت ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے دعا کرنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ فرمایا : اور اس سے بڑا گمراہ کون ہو گا؟ جو اللہ تعالیٰ کے سوا ایسوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اسکی دعاکو قبول نہ کرسکے بلکہ انکے پکارنے سے وہ محض بے خبر ہیں ۔ (الاحقاف/۵)
اور جب لوگوں کو جمع کیا جائے گا تو یہ ان کے دشمن ہوجائیں گے اور ان کی پرستش سے صاف انکار کریںگے (الاحقاف/۶)
اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں ۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسنتے ہی نہیں او راگر بالفرض سن بھی لیں تو قبول نہیں کر سکتے بلکہ قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے تجھے کوئی بھی حق تعالیٰ جیسا خبردار خبریں نہ دیگا (فاطر/۱۳۔ ۱۴)
یہ آیات اور ان کا مفہوم غیر اللہ سے دعا مانگنے کے خطرہ پر دلالت کرتا ہے ۔مسلمان ان جیسی آیات قرآنیہ سے کیسے غافل ہیں کیونکہ کئی مسلمانوں کو خصوصًا قبروں کے پاس پاتے ہیں جو ان سے دعائیں مانگ رہے ہیں جن کو یہ لوگ اولیاء کہتے ہیں وہ ان سے یہ گمان فاسد کرتے ہیں کہ یہ ان کی دعا کو سنتے ہیں اس عمل بد کو شیطان لعین نے ان کے لئے مزین اور خوبصورت بنا دیا ہے ۔ یہاں تک کہ حق بات سننے سے ان کے کان بہرے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان احمقوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ قبر میں مردہ ان کو نفع دے گا یا ان کی کوئی مصیبت دور کرے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کے سوا انکی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نقصان کے مالک ہیں نہ کسی نفع کے ،اللہ ہی خوب سننے اور پوری طرح جاننے والا ہے (المائدۃ/۷۶)

استغاثہ :

انسان پر اترنے والی مصیبتوں کے دور کرنے کی طلب کو استغاثہ کہتے ہیں اور یہ بھی دعا کی ایک قسم ہے ۔
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ، پھر اس نے تمہاری سن لی ۔(الانفال/ ۹)
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ابی بن سلول مسلمانوں کو تکلیف اور ایذا پہنچاتا تھا تو لوگوں نے کہا تم ہمارے ساتھ اٹھو ہم اس منافق سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ سے فریاد رسی کرتے ہیں تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھ سے فریاد رسی نہیں کی جائے گی صرف اللہ ہی سے فریاد رسی کی جائے گی۔(مجمع الزوائد، طبقات ابن سعد)
یہ حدیث غیر اللہ سے مدد مانگنے اور فریاد رسی کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے بالیقین رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس منافق سے چھٹکارا دینے پر قادر تھے مثلاً اس کو مدینہ منورہ سے نکلوا دیتے اس کے باوجودرسول اللہ ﷺ نے ان پر فریاد رسی کی نکیر فرمائی یہ آپﷺ نے شرک کے دروازے بند کرنے کے لئے کیا ۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مدد طلب کرنا اور فریاد رسی کرنارسول اللہ ﷺ سے اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے انسان سے جائز ہے ۔

نذر :

آدمی اپنے اوپر کوئی ایسی عبادت لازم کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر لازم نہیں کی ۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کے کرنے سے آدمی اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے جبکہ ان اعمال سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور یہ اعمال خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوں عبادتوں میں اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور یہ اعمال انسان کی طاقت میں ہوں مثلاً یوں کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لئے اتنے روزے رکھوں گا یا اتنی رکعات نفل نماز پڑھوں گا یا یہ یہ عبادتیں کروں گا ایسے لوگوں کی جو اپنے منتوں کو پورا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :وہ نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے ۔ ( الدہر/۷)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ : جس نے نذر (منت) مانی کہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں گا تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے نذر (منت ) مانی کہ میں اللہ کی نافرمانی کروں گا تو وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔ (صحیح بخاری )
—-

دخولِ جنت کے اسباب

تمہید:

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف انبياء والمرسلين أما بعد:

انسان جو بھی عمل کرتا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ہدف ضرور ہوتا ہے اگر ہم کاروبار کرتے ہیں تو ہمارا ہدف رزق حلال کمانا، ضروریات زندگی پوری کرنا اپنی اولاد کو بہترین انداز میں تعلیم و دیگر مراعات فراہم کرنا ہوتا ہےاور اگر اسی طرح ایک شخص پڑھائی میں محنت کرتا ہے پسند کی فیلڈ اختیار کرتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی ہدف ضرور ہوتا ہے۔
اسی طرح انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ہدف اخروی زندگی میں سرخرو ہونا ہوتا ہے۔
انسان اچھے أعمال سے آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے، گویا دنیا آخرت کی تیاری کا میدان ہے جیساکہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا

الدنيا مزرعة آخرة

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
ہر انسان کا دنیا اور آخرت کے ایک ہدف ہوتا ہے کہ وہ کامیاب کیسے ہوں؟
جیساکہ ہم دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے محنت کرتے ہیں ویسے ہی اخروی کامیابی وکامرانی کے لئے بھی محنت کرتے ہیں۔
اخروی کامیابی کے لئے ہم نیک اعمال کے پابند ہوتے ہیں اور ہر وقت رضا الہی کو بروکار لاتے ہیں۔
تو ہمارا دنیا میں نیک اعمال کرنے اور اللہ کو راضی کرنے کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ اخروی زندگی میں کامیاب وکامران ہوں اور جنت میں اعلی مقام حاصل ہو۔
اگر آپ کا ہدف جنت میں داخل ہونا ہے تو اسلام نے اس ہدف کے حصول کے لئے قرآن و حدیث میں کچھ خاص اعمال کی طرف رہنمائی کی ہے۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے چند اہم اعمال کو بسلسلہ وار بیان کرنے کی کوشش کریں گے امید ہے کہ قارئین حضرات مستفید ہوں گے ۔ ان شاء اللہ

پہلا سبب عقیدہ توحید:

عقیدہ توحید وہ سب سے بڑا سبب ہے جو دخول جنت کے اسباب میں سب سے اہم اور بنیادی سبب ہے کہ جس نے توحید کو جانا اور اس پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہوا تو جنت میں داخل ہونے کے لئے سوائے موت کے کوئی اور چیز رکاوٹ نہیں ہوگی، جیساکہ فرمان نبوی ﷺ ہے

’’من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة‘‘ (متفق عليه)

’’اس حالت میں جس پر بھی موت آئے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اسی طرح ایک اور روایت میں نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة (رواه أحمد وأبو داود)
’’جس کا خاتمہ کلمہ شہادت پر ہو یعنی( کہ جس نے اپنے آخری وقت میں کہا میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ) وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
انسان کو صرف کلمہ توحید پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ جتنا ہوسکے عمل کرنا ضروری ہے جیسے ہم اپنے بچوں کو کسی سکول میں داخلہ کرانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ بچے کو گھر میں پڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور کسی اچھے سے ٹیوشن سینٹر میں داخلہ کراتے ہیں حسب استطاعت گھر میں کسی مربی کو مقرر کرتے ہیں تاکہ بچہ زیادہ سے زیادہ نمبر لے سکے۔
ایسا ہی انسان دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد جتنا ہوسکے اچھے عمل کرنے کی کوشش کرے۔ نماز، زکوۃ، روزہ، صاحب استطاعت کو اللہ کے گھر کا حج بھی کرنا چاہیے اس کے علاوہ ہر وہ اچھا عمل جس سے اللہ راضی ہو جیساکہ امام حسن بصری

رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ :

إنَّ ناساً يقولون : من قال : لا إله إلا الله ، دخل الجنَّة ؟!فقال : من قال : لا إله إلا الله ، فأدَّى حقَّها وفرضها ، دخلَ الجنَّةَ.

لوگ کہتے ہیں کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا؟آپ نے فرمایا: جس نے لا الہ الا اللہ کہا، اس کا حق ادا کیا اور اس کی فرضیت پوری کی وہی جنت میں جائے گا۔

وقيل لوهب بنِ مُنبِّه : أليس لا إله إلا الله مفتاح الجنَّة ؟ قال : بلى ؛ ولكن ما من مفتاحٍ إلا وله أسنان ، فإنْ جئتَ بمفتاحٍ له أسنانٌ فتح لك ، وإلاَّ لم يفتح لك “

امام وھب بن منبہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا،کیا ایسا نہیں کہ لا الہ الا اللہ جنت کی چابی ہے؟عرض کیا: جی ہاں،
لیکن ہر چابی کے دندانے ہوتے ہیں اگر تم دندانوں والی چابی لاؤ تبھی دروازہ کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔(جامع العلوم والحکم 208/210)

توحید کے منافی:

شرک عقیدئہ توحید کے منافی ہے جو اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا کہ اگر اللہ چاہے تو تمام گناہوں کو معاف کرسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا ہےجیساکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :

إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ وَمَن يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا (النساء48)

’’بیشک اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک ٹھہرانے والے کو معاف نہیں کرتا، اس کے سوا جسے چاہے اللہ تعالی معاف کردیتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا ہے۔‘‘
ایک بار نبی کریم ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

أتدري ما حق الله على العباد وما حق العباد على الله؟ قلت: الله ورسوله أعلم!! قال: حق الله على العباد أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا وحق العباد على الله ألا يعذب من لا يشرك به شيئا (متفق عليه)

’’اے معاذ !بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے اور اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانیں! آپ ﷺنے فرمایا : اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندہ اللہ ہی کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، اللہ اسے عذاب نہ دے۔‘‘
۔۔۔

دنیا کا بہترین سرمایہ

صومال (اردو میں صومالیہ) کے مشہور شہر مقدیشو یا مغادیشو صومالیہ کے ایک پرائمری اسکول میں اساتذہ اور کلرک بڑے تعجب اور حیرت سے اس کی خوبصورت آواز میں نغمے سن رہے تھے۔ “غضب کی آواز ہے”ایک نے کہا۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا: “اتنی خوبصورت آواز میں نے کبھی نہیں سنی۔ اس کے پا س لحن داؤدی ہے”اس نے ایک نغمہ ختم کیا ۔ اب وہ پرانی شاعری سنا رہا تھا۔ ایک کہنے لگا:”منحنی سی شکل و صورت کا عبداللہ… جب بڑاہوگا تو کیا غضب ڈھائے گا۔ ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ یہ ہمارے اسکول کا طالبعلم ہے”خوبصورت آواز اور اس کی ساتھ صحیح تلفظ ایک نعمت خداوندی ہے جو چھوٹے عبداللہ کو بڑی کم عمری میں میسر آگئی تھی۔ وہ جیسے جیسے بڑاہوتا گیا اس میں خود اعتمادی بڑھتی چلی گئی۔ اب وہ بڑے اجتماعات کے سامنے اپنی آواز کا جادو جگاتا اور لوگ مبہوت ہوکر رہ جاتے۔
ان دنوں صومال پر صیاد بری کی حکومت تھی۔ ایک دن وزارت تعلیم کے ایک بڑے افسر نے اس کے قصائد سنے۔ “اگر یہ ہمارے صدر کی مدح میں اشعار پڑھے تو مزہ آجائے۔اس نے سوچا، چنانچہ عبد اللہ کیلئے خصوصی تعلیم اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا ۔ اب وہ گانے کے ساتھ ساتھ موسیقی کا بھی ماہر بن گیا۔ میٹرک کے بعد اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ اس وقت کے وزیر تعلیم نے اس کی آواز سنی تو گرویدہ ہوگیا۔ اس نے خصوصی قانون پاس کروایا… اسکولوں میں موسیقی کے شعبے کا قیام عمل میں آیا اور نوجوان لڑکوں او رلڑکیوں کیلئے موسیقی اور رقص و سرور کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز سرکاری سرپرستی میں شروع ہوا۔ اس کا چیف عبد اللہ کو بنایا گیا۔
اسکولوں اور کالجوں میں موسیقی کی تعلیم شروع ہوگئی… اندرون ملک اور بیرون ملک ثقافت کے نام پر ثقافتی طائفے جانے لگے… عبد اللہ کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ صومال ہی نہیں، ہمسایہ ملک جیبوتی(سابق فرانسیسی صومالی لینڈ) میں بھی لوگ اس کی آواز کے دیوانے تھے۔ اسے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ عبد اللہ جہاں بھی جاتا لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے اکٹھے ہوجاتے۔ بڑے بڑے ہوٹلوںمیں ہفتوں پہلے اس کی بکنگ کی جاتی ۔ جب وہ اسٹیج پر آتا تو کئی منٹ تک مسلسل تالیاں بجتی رہتیں۔ جب گانا شروع ہوتا تو دلوں کی دھڑکنیں ٹھہر جاتیں۔ اس کا لقب شہنشاہ ترنم تھا۔
1977میں صومال میں انقلاب برپا ہوا۔ روسی اقتدار اور اثر و رسوخ کا خاتمہ ہوگیا۔ حکومت تبدیل ہوگئی، اس کا رخ مغرب کی طر ف ہوگیا۔ ملک میں اشتراکیت کی بجائے جمہوریت کا غلغلہ ہوا۔ ایک اچھے بزنس مین کی طرح عبد اللہ نے بھی اپنا رخ تبدیل کیا۔ پہلے وہ اشتراکیت کے گن گاتا تھا، اس کے نغمے اور گیت اس نظام میں مراح سرائی میں ہوتے۔
نظام بدلا تو وہ بھی بدل گیا۔ اب اس کی زبان پر جمہوریت کیلئے نغمے تھے۔ ملک میں اقتصادی اصلاحات ہونے لگیں تو اس نے بھی اپنی کمائی کو محفوظ کرنے کا سوچا… اور پھر وہ ایک عدد نائٹ کلب کا مالک بن گیا۔ مقدیشو میں اول درجے کا نائٹ کلب، جہاں راتیں جاگتیں اور دن سوتے تھے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک بڑاگروہ اس کے گرد جمع ہوگیا۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اس کی شہرت تھی، اب وہ مختلف ممالک کے دوروں پر جانے لگا۔
عبد اللہ نے ایک مرتبہ انٹرویو میں کہا:”میں جب نائٹ کلب کا مالک بن گیا تو پھر وہاں گانے گاتا…مقدیشو کے ہوٹل اور نائٹ کلب میری بکنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ رقومات پیش کرتے۔ راتوں کو زندہ کرنے کیلئے، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو مزید پاپولر بنانے کیلئے میں نت نئے ناٹک رچاتا۔ عریاں ڈانس، فحش مکالمات اور عشقیہ گیتوں کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارا مقصد حیات بن چکا تھا۔ جب یہ چیزیں میسر ہوں تو پھر شیطان خوب خوش ہوتا ہے۔ بگڑے ہوئے گھرانے، ان کی امیر لڑکیاں، اور لڑکے، شراب، نشہ، ہیروئن سب کچھ میسر تھا۔ رقص گاہیں ہماری وجہ سے آباد تھیں۔
شیطان کے اہداف حاصل کرنے کیلئے ہمارے ارد گرد بدکار لوگوں کا ایک بڑا گروہ تھا… اس دوران ملک میں اسلام کے خلاف حکومتی لابی دن رات کام کررہی تھی۔ علماء، صلحاءاور مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ جب کفر اور اسلام کے درمیان کشمکش جاری ہو تو طاغوت اور زیادہ خوبصورت چہرے کےساتھ سامنے آتا ہے۔ ہم نے بھی اسلامی اقدار کو ختم کرنے اور شیطانی مجالس کو فروغ دینے میں ساری قوتیں صرف کردیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان تھے۔ اسلامی روح کے بغیر… ظاہری حد تک… میں نے کتنے ہی یورپی ممالک کا سفر کیا۔ وہاں نائٹ کلبوں میں گاتا رہا، صومال کے آرٹ کو اجاگر کرتا رہا، مغرب کو خوش کرنے کیلئے کہ ہم ترقی پسند قوم ہیں… میرے ایمان کا، اسلام کا اور اخلاق کا جنازہ نکلتا گیا… مگر میری جیب بھرتی گئی۔
1983ءمیں میرے والد نے مجھ پر شادی کرنے کیلئے زور دیا۔ والدین کیلئے اپنی اولاد کی شادی بہت بڑی خوشی ہوتی ہے۔ والدین نے اپنے ہی خاندان میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔ یوں تو صومال کی بہت سی لڑکیاں میرے ساتھ شادی کی تمنا کرتی تھیں مگر یہ لڑکی میرے خاندان سے تھی۔ خوبصورت، خوب سیرت اور خاصی پڑھی لکھی تھی، لہٰذا میں نے ہزاروں لڑکیوں پر اس کو ترجیح دی اور شادی پر فوراً رضامند ہوگیا… کچھ ہی دنوں کے بعد شادی کا ہنگامہ شروع ہوا۔ ایک گلوکار کی شادی… یقینا بہت یادگار تھی۔ پورے صومال سے گلوکار آئے، خوب ہلاگلا ہوا۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہوئے۔ یقینا یہ ایک یادگار شادی تھی۔
شادی کے دوران میں، میں نے یہ محسوس کیا کہ میری بیوی اتنی زیادہ خوش و خرم نہیں ہے جتنا کہ میرے جیسے معروف آدمی سے شادی کے بعد کسی لڑکی کو خوش اور فخرہونا چاہیے۔ میں نے اس کو اس کی فطری حیا پر محمول کیا… شادی کے بعد ہم ہنی مون کیلئے چلے گئے۔ یہ دن اتنی تیزی سے گزرے کہ اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ میں نے دوبارہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لی… میرا کاروبار رات کو شروع ہوتا، میں فجر سے ذرا پہلے گھر آجاتا… پھر میں سو جاتا اور عصر کے وقت اٹھتا… میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب صبح گھر آتا ہوں تو میری بیوی جاگ رہی ہوتی ہے اور عموماً اس کے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا ہے جسے وہ پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں آکر اسے بڑے جوشیلے انداز میں اس رات کی کارکردگی سناتا۔ اپنے پرستاروں کی چاہت سے آگاہ کرتا۔ آج کتنی لڑکیوں اور لڑکیوں کے فون آئے جو میرے فن کے شیدائی ہیں۔ میری بیوی ان باتوں کو ناگواری سے سنتی اور میرے لیے ہدایت کی دعا کرتی۔ اس دوران میں فجر کی اذان ہوجاتی اور وہ مصلے کی طرف بڑھ جاتی، جب کہ میں نماز پڑھے بغیر ہی سوجاتا۔ میں جب بھی اس سے نائٹ کلب کا ذکر کرتا، وہاں کی باتیں سنانا، اپنی کمائی کا ذکر کرتا، بینک بیلنس کا رعب جماتا تو وہ جواباً کہتی: “رازق تو صرف اللہ کی ذات ہے”
ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ میں مسلسل اپنے فن میں مبتلا اور فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نماز اور عبادت کے بغیر زندگی گزارتا رہا… پھر
اچانک ہماری زندگی میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ 1988کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ سے کہا:”میں اس شخص کے ساتھ ہرگز زندگی نہیں گزارسکتی جو اپنے رب کا وفادار نہیں، جو نماز ادا نہیں کرتا… اس کی کمائی حرام ہے جو فجر کے وقت گھر آتا ہے”
میری وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میری بیوی میرے لیے ایسا سوچ سکتی ہے۔ بہرحال گھر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ میں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کردیں”
کچھ دن گزرے، ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ شہر کی مساجد میں اذانیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر طرف اللہ اکبر۔۔۔اشھد ان لا الہ الا اللہ حی علی الصلاة کی گونج تھی۔ جب سونے کیلئے اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری بیوی نے کہا: آپ مسجد میں نماز کیلئے کیوں نہیں جاتے؟ کیا آپ نے اذان کی آواز نہیں سنی؟
میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھاکہ کسی نے مجھے نماز کیلئے کہا تھا۔ اس لمحے میں نے خود بھی نماز پڑھنے کے بارے میں سوچا… میرے جسم میں جھرجھری سی آئی۔ بیوی کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی۔ “اس وقت مسلمان مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کیوں مسجد کا رخ نہیں کرتے؟ یہ رحمن کا بلاوہ ہے۔ یہ مالک الموت کی طرف سے دعوت ہے”اور پھر میرے ذہن میں خیر اور شر کی کشمکش ہوئی۔ فطرت کی آواز بلندہوئی: تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے… عبد اللہ… تم اللہ کے بندے ہو۔ مگر نہیں… تم تو شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہو۔ کبھی تم نے اپنے مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تم کب تک زندہ رہو گے ، کب تک زندگی رہے گی، کب تک جوانی رہے گی؟ میرے سامنے ماضی آگیا… ضمیر نے ملامت شروع کی… مگر فوراً کلب کی رعنائیاں، ٹیلی ویژن کی سکرین، اسٹیج، شہرت، عزت… کیا میں بیوی کی بات مان لوں؟ یہ کام چھوڑ دوں؟ یہ مقام حاصل کرنے کیلئے میں نے بے حد محنت اور جدوجہد کی ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میں حسب عادت سوگیا”
شام کے وقت میں نے کپڑے تبدیل کیے۔ کلب جانے کیلئے تیاری کی …میری بیوی نے میرے کان میں سرگوشی کی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہی تھی: ذرا بیٹھ جائیں…ذرا میری بات تو سنیں…کیا ہمارا رازق اللہ نہیں ہے؟ حلال کا ایک لقمہ حرام کے ہزاروں لقموں سے بہتر ہے”
مجھے ایسا محسوس ہو اکہ بیوی کی آواز…اس کی گفتگو… اس کے کلمات…یقینا درست ہیں۔ ان میں صداقت ہے…یہ فطرت کی آواز ہیں… مگر… میرافن… میری آواز… میری شہرت؟…میں تیزی سے بھاگا کہیں بیوی کی بات مان نہ لوں
راستے میں بیوی کے کلمات میرا پیچھا کر رہے تھے کہ میں نائٹ کلب کے دروازے پر پہنچا۔ اس دوران عشاءکی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ میرے کانوں میں موذن کی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی آواز گونجی… حی علی الصلاة… حی علی الفلاح
بیوی کی نصیحت یاد آئی…اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ فسق و فجور اور کفر کے غبار کی تہ بیٹھنے لگی… ایمان کی حرارت اور اسلام کی قوت زوردکھانے لگی… اور پھر میرا رخ نائٹ کلب سے مسجد کی طرف ہوگیا
میں مسجد میں داخل ہوا،وضو کیا۔ جماعت ہورہی تھی، میں نے نماز ادا کی۔ بعض نمازیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کوئی ہاتھ ملا رہا ہے، کوئی دور سے سلام کررہا ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور میرا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ الحمد اللہ میں نے فطرت کو پالیا ہے
کسی نے مجھے صحیح بخاری کا نسخہ تحفے میں دیا۔ یہ اب میرے لیے متاع حیات تھی… میں اپنی نئی ماڈل کی قیمتی گاڑی میں سوار ہوا۔ اس کا رخ نائٹ کلب کی بجائے گھر کی طرف دیکھا۔ میری بیوی جو مجھے فجر کے وقت گھر آتے دیکھاکرتی تھی… آج عشاءکے بعد گھر میں دیکھ رہی تھی۔ بیوی کی طرف بڑھا۔ بیگم… تمہیں مبارک ہو… میں نے آج سے گانوں سے توبہ کرلی ہے۔ میں نے فسق وفجور اور لہو و لعب کی زندگی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ میں نے سچی توبہ کرلی ہے۔ میں الحمد للہ تائب ہوگیا ہوں۔
پھر میں نے محسوس کیا گویا میں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے… سب سے پہلا کام… وہ اسٹوڈیو، جس کا میں مالک تھا، جس میں گانے ریکارڈ کراتا تھا، جس میں دنیا بھر کی جدید مشینیں تھیں، جن کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرتا رہا تھا… میں نے اس اسٹوڈیو کو دعوت الی اللہ کیلئے وقف کردیا کہ اب یہاں قرآن پاک کی کیسٹیں، علمائے کرام کی تقاریر اور اسلامی ترانے ریکارڈہونگے… میںنے قیمتی گاڑی فروخت کردی، خوبصورت محل نما کوٹھی فروخت کردی… میںایک اوسط درجے کے مکان میں آگیا۔ اب میرا وقت اپنے گھر میں گزرنےلگا۔ میری ایک ہی تمناتھی ایک ہی جستجو… میں حلقہ قرآن سے وابستہ ہوگیا… اب مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کی خواہش تھی
کچھ عرصہ ٹھیک گزرا… مگر جب کوئی اسلام کی راہ پر چلے گا تو آزمائش لازماً آئے گی… یہ تو سنت اللہ ہے۔ حق کی راہ میں یقینا بہت سی مشکلات ہیں … دنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت ہے… یہ پھولوں کی سیج نہیں، یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے۔ عبد اللہ کیلئے سب سے پہلی آزمائش مال کی کمی تھی… وہ گانے بجانے کی علاوہ کوئی کام نہیں جانتا تھا۔یہ گانا بجانا ختم ہوا تو مصدر رزق بھی ختم ہوگیا۔ پہلے کا کمایا ہوا مال… وہ حرام کی کمائی تھی… لہٰذا اس میں برکت تو سرے سے تھی ہی نہیں… پس انداز بھی کم ہی تھا… کئی دن، کئی راتیں، کئی ہفتے گزرگئے… آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ بن سکا… جس شخص نے ساری زندگی عیش و عشرت میں گزاری ہو، اب اس کیلئے فاقہ کشی… شیطان نے کئی بار بہکایا۔ ماضی یاد آیا… کس طرح مال و دولت میں کھیلتا تھا اور اب روٹی کیلئے ترس رہا ہوں… اسی زندگی میں لوٹ جاؤں؟ … مگر ایمان کے تقاضے کچھ اور تھے۔ اور پھر ایک دن اس کے پرانے رفقاءآگئے… موجودہ صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا اور دامِ تزویر پھیلایا: “عبد اللہ… ایک رات ہمیں دے دو… صرف ایک رات… اور معاوضہ؟ … تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو پہلے ایک رات میں کماتے تھے اس سے دوگنا… تین گنا زیادہ … پانچ … سات … نو… ہم دس گنا زیادہ دینے کیلئے تیار ہیں۔ ایک مرتبہ ہاں کردو “مگر جب ایمان باللہ پختہ ہوجائے تو پھر انقلابات برپا ہوجاتے ہیں، سخت پہاڑ بھی راستہ چھوڑ دیتے ہیں… ایمان اور اس کے مقابلے میں دنیا بھر کی دولت، دنیا بھر کی سیادت اورحکمرانی پَرکے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی … عبداللہ کے دل میں رب تعالیٰ کی محبت راسخ ہوچکی تھی۔ تمام اقسام کی مراعات، لالچ، فوائد … کچھ منظور نہیں … میں نے رحمن کو راضی کرنے کا عزم صمیم کیا ہوا ہے۔
آزمائش کا اگلا دور شروع ہوا… حکومت کو معلوم ہوا کہ عبد اللہ نے گانا گانے سے توبہ کرلی ہے۔ اس کی یہ مجال؟ … اس کو بلایا گیا، پوچھا گیا، تنبیہ کی گئی، منع کیا گیا کہ یہ تمہارا فیصلہ نہایت نامقعول اور احمقانہ ہے۔
بعض نے کہا کہ چھوڑ دو، چند دن کی بات ہے۔ خود ہی واپس آجائے گا… پھر اس کے ساتھ متعدد دانشوروں نے … اپنے تئیں عصر حاضر کے نام نہاد دانشوروں نے عبد اللہ سے مناقشہ شروع کیا، مناظرہ ہوا، اس سے بحث ہوئی … تو معلوم ہو اکہ یہ وہ عبد اللہ نہیں ہے جس نے 18 سال فن کاری کی ہے… یہ وہ مشہور مغنی، وہ گلوکار نہیں ،کوئی اور عبد اللہ ہے۔ ان کو خوب معلوم ہوگیا کہ اب وہ عبد اللہ گویّا نہیں بلکہ داعی الی اللہ ہے۔
اور جب مناقشہ، مناظرہ، بحث، لالچ، سب ناکام ہوگئے، عبد اللہ کو منوانے میں سب مکمل طور پر ناکام ہوچکے تو … پھر منوانے کا، رام کرنے کا نیا انداز اختیار کیا گیا… وہی انداز، جو تمام طاغوتی طاقتیں اختیار کرتی ہیں۔ ہر زمانے میں، ہر دور میں، ڈرانے کا، دھمکانے کا انداز … تمہیں ٹیلی ویژن پر آناہوگا اور اعلان کرنا ہوگا … “میں نے گانے بجانے سے جو انکار کیا تھا اب دوبارہ اس سے رجوع کررہا ہوں … وہ میری غلطی تھی، وہ وقتی طور پر تھا” … اور اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو پھر جیل، قید خانہ، مقدمات، بدنی سزا… مگرایک سچا مومن، جس کا ایمان راسخ ہے، جسے رب کی تائید اور مدد کا پختہ یقین ہے … اس کے رویے میں کوئی نرمی نہیں آئی … یہ زندگی ہے نا، ایک ہی، اسے ختم ہوجانا ہے … اگر رب کی فرمانبرداری میں ختم ہوتی ہے تو سودا مہنگا نہیں … عبداللہ نے اپنے رب کے ساتھ سچا سودا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو وہ حق سے نہیں پھرے گا … پھر عبد اللہ نے شدت سے اور پوری قوت سے ان کے تمام مطالبات کو ٹھکرا دیا… خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے … میں تمہاری بات ہرگز نہیں مانوںگا۔
ان حالات میں طاغوت کے دیگر حربوںمیں سے ایک حربہ … حق کی آواز کو روکنے کا … قید، جیل، حبس، نظر بندی، مقدما ت ہوتاہے۔ چنانچہ یہ حربہ بھی آزمایا گیا … اس کو جیل میں ڈال دیاگیا، شاید لوٹ آئے … اس کا جرم، اس کا قصور، رقص و سرود اور گانے سے انکار… جی ہاں … اس مقبول شخصیت کو جیل کی کال کوٹھری میں ڈال دیاگیا کیونکہ اس نے اس بات کا اعلان کیا تھا: … میرا رب اللہ ہے … اور اگر وہ ان کی بات مان لیتا … غنا کو، رقص کو، رات کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیتا تو ا س کی عزت و احترام، منصب، دولت، شہرت، سب برقرار رہتے اور وہ اس کو کندھوں پر بٹھاتے۔
عبد اللہ ایک مدت تک قید میں رہا۔ اس دوران میں اس کو تعذیب دی گئی، مارا گیا، سزائیں دی گئیں کہ ترک غنا سے رجوع کرلے … مگر وہ اللہ کا بندہ اپنے عزائم پر ثابت قدم رہا۔ جیل میں ایک مدت گزارنے کے بعد میں اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو حکمران اس سے مایوس ہوگئے اور اسکو رہا کردیا۔
جیل سے نکلنے کے بعد معاشی حالات بہت پریشان کن ہوگئے مگر ان مشکل حالات میں، کٹھن اوقات میں اس کی بیوی اس کا مکمل ساتھ دیتی رہی۔ اس کا حوصلہ مزید بڑھاتی رہی کہ دنیا کے مال و متاع بالکل ناپائیدار ہیں۔ حقیقی طور پر امیر کون ہے، وہ نہیں جس کے پاس مال و دولت کے انبار ہوں بلکہ حقیقت میں امیر وہ ہے جس کا دل امیر ہے… حقیقی قوت کیا ہے، عقیدہ اور ایمان کی قوت … حقیقی خوشی، سعادت اور خوش بختی کس چیز کا نام ہے … یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اور اس کی رضا میں ہے۔
1990میں عبد اللہ نے اپنے وطن کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا۔ یوں بھی ملک کے حالات خراب ہوچکے تھے، خانہ جنگی شروع تھی۔ مختلف قبائل ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور قتل و غارت گری میں مبتلا تھے… اور پھر وہ پہلی مرتبہ اس گھر کی زیارت کیلئے آیا جس کی زیارت اور جس کے گرد چکر لگانے کی تڑپ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ وہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا، نیک بخت بیوی بھی ہمراہ تھی۔ عمرہ ادا کیا تو اس کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں بعض اہل خیر کو معلوم ہوا ،وہ اس سے واقف تھے … اس کی سابقہ زندگی سے… اس کے ماضی سے … اس کی اسلام پر پختگی سے … اور پھر انہوں نے عبد اللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی تکریم کی، اس کی کفالت کی … کچھ ہی عرصہ میں اس نے قرآن کے دس پارت حفظ کرلیے۔
اس کے وطن میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ ان حالات میں اس نے ایک مصلح کا کردار اداکیا، وہ وطن واپس گیا۔ قبائل کے درمیان صلح کی کوشش کی، فساد کو ختم کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ اور شہرت کو استعمال کیا… اب وہ ایک مبلغ تھا … عقیدہ کا، اسلام کا ، قرآن کا، حدیث کا … پھر وہ اس دوران میں کئی مرتبہ عمرہ کرنے کیلئے مکہ مکرمہ آیا۔ پھر اس کو اس بلد الحرام میں، مکہ مکرمہ میں، اس مبارک اور مقدس شہر کی ایک مسجد میں بطور موذن موقع مل گیا۔ عبد اللہ آج بھی مبلغ ہے، وہ موذن ہے اسلام کی آواز کا … وہ سعودی عرب میں ہو یا صومال میں، ہر جگہ وہ دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور نجانے کتنے ہی گنہگاروں اور خطاکاروں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی ہے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنالی ہیں تاکہ وہ بھی حقیقی سعادت سے بہرہ ور ہوسکیں … بالکل اسی طرح جس طرح عبد اللہ سعادت حاصل کرچکا ہے۔
اللہ کے رسولﷺ کا فرمان بالکل حق ہے:

الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراة الصالحة

’’دنیا ایک پونجی(فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترین پونجی نیک بیوی ہے‘‘
—–

روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا

برما (میانمار) کے مغربی صوبہ رخائن کاتاریخی نام اراکان ہےتھا جہاں عمر بن عبد العزیز کے دور میں اسلام کی کرنیں جلوہ گر ہوئیں یہاںایک آزاد مسلم ریاست بھی قائم ہوئی جس کا اپنا سکہ تھا اس پر کلمہ طیبہ کندہ تھا اراکان کا صوبہ جغرافیائی و تاریخی لحاظ سے برما سے جدا علاقہ فطری طور پر بنگلہ دیش سے متصل ہے 1778ءمیں برما نے اس پر قبضہ کرلیابعدازاں1824ءسے لے کر 1947ءتک برطانیہ کےزیرتسلط رہا۔اراکان کا قدیم نام روہنگیا تھا اسی لیے یہاں کے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں۔تقسیم ہند کے دوران اراکان کے مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں مشرقی پاکستان میں شامل کیا جائے لیکن فتنوں کی ماں برطانوی حکومت نے پنجاب کی طرح اراکان کے علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کرایاایک حصہ چٹاگانگ کو بنگال کا حصہ بنادیا اور دوسرے حصےراخائن کو برما کے تسلط میں دے دیا ۔ اراکان
راخائن میں تیل گیس سمیت قیمتی خزائن موجود ہیں برمی حکومت کے ذہن پر خوف سوار ہے کہ کہیں کشمیر کی طرح راخائن میں آزادی کی لہر نمودار ہو جائے تو برمی حکومت ان قیمتی خزائن سے محروم نہ ہوجائے اس لیے برما کی بدھ مت حکومت روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کرتی آرہی ہے ۔عالم اسلام کے کے مسلمان عیدا لاضحی1438ھ کے موقع پرقربانی کے جانور ذبح کر رہے تھے جبکہ میانمار کے بدھ پرست روہنگیا کے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے تھے سوشل میڈیا پر انسان کے جسموں کے تکے دور دور تک پھیلے نظر آتےلاشوں کی بے حرمتی میں غزوہ احد کی تاریخ دہرائی گئ بلکہ ایک قدم بڑھ کرانہوں نے لاشوں کو آگ لگادی خود تماشا دیکھتے رہے اور سیٹیاں بجاتے رہےایک اور تصویر میں مسلما ن کے جسم میں درجن بھر چھرے پیوست کیے کہیں مسلمانوں کی گردن کو ڈرل کر رہے ہیں دوسرے مقام پر مسلم کی لاش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر سڑک پر گھسیٹا جارہاہے برمی بدھوں نے مسلمانوں کی بستیوںکو آگ لگادی چار لاکھ سے زائد مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ،تاحال سلسلہ جاری ہے ترکی کے کہنے پر بنگلہ دیش نے مخصوص علاقہ میں پناہ دی ہے جبکہ بھارت سرحد پر پہرہ لگادیا کہم کوئی دراندازی نہ کرسکے اسرائیل نے فلسطین سے مسلمانوں کو بےدخل کیاوہ خیموں میں رہنے پر مجبور ہو گئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کوآباد کیابوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی یہی تاریخ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں سے دوہرائی جارہی ہے جن کامقصد وہی ہے کہ مسلمانوں کو بے دخل کر کے وہاں بدھوں کو آباد کیا جائے۔
یہود ،ہنود،مجوس اورنصاریٰ مسلمانوں کا بے دریغ خون بہارہے تھے البتہ بدھ مت غیر جانبدار پالیسی پر گامزن تھے ۔پاکستان وچند دیگر ممالک نے امریکہ کے دوغلے پن سے مجبور ہو کرچین کی طرف جھکاؤکیا تو طاغوتی قوتوں کی سازش تنازعہ کھڑا کردیا تاکہ بدھ پرستوں اورمسلمانوں میں نفرت کی خلیج حائل ہو جائےاس وقت کرہ ارض کے تمام مذاہب مسلمانوں کے خلاف سر گرم عمل ہیں۔ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے ہے کہ کہیں مسلمانوں کا آپس میں اتحادنہیں وہ مذہبی نسل ،لسانی اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ داخلی اختلاف کو پس پشت ڈال کر برما کے مسلمانوں کا ساتھ دیں اور دنیا بھر کے روہنگیا مسلمانوں کو واپس لاکر اراکان میں آباد کریں اور مشرقی ۔۔۔۔ کی طرح اراکان کو خود مختار کی حیثیت دلوائیں لیکن اس حسرت کو کون پایۂ تکمیل تک پہنچائے کرہ ارض پر تقریبا ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں وہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے دعا تو کرسکتےہیں لیکن دوانہیں کرسکتے کیونکہ وہ پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر دوسرے ملک میں جانہیں سکتے ۔دنیا میں 57اسلامی ممالک ہیں وہ اقوام متحدہ کے ضابطوں کی وجہ سے عدم مدافعت کی پالیسی پر گامزن ہیں اسلیے وہ مظلوموں کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے اپیل کرسکتے ہیں براہ راست عملی کاروائی نہیں کرسکتے جبکہ او آئی سی(O.I.C)بھی اقوام متحدہ کے تابع ادارہ ہے.

اقوم متحدہ اپنے طورپر مالی تعاون تو کرسکتی ہے اس کی امن فوج اس وقت تک حرکت نہیں کرسکتی جب تک پانچ ویٹوپاور ممالک منظوری نہ دیں افسوس کن امر ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل نے اپیل کی ہےکہ اگر اقوام عالم نے مالی تعاون نہ کیا تو روہنگیا کےمہاجر بھوک اور بیماری سے مر جائیں گے اور یہ تاریخ کا المناک سانحہ ہوگا۔
مسلم دنیا کے کسی ملک میںخدانخواستہ عیسائی دہشت گردی کا نشانہ بن جائے یا تو ہین رسالت کے مقدمہ میں صرف گرفتار ہوجائے تو امریکہ و یورپ کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک ایک کے بدلےمیں سینکڑوں کو موت کے گھاٹ نہ اتار دے اور توہین رسالت ﷺ کے مرتکب کو آزاد نہ کرالے۔ اگر مسلم دنیا کا کوئی ملک حقیقی معنوں میں آزاد ہوتا تو وہ محمد بن قاسم کی طرح کسی جرنیل کو بھیج کرروہنگیا کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انتقام لیتا فلسطین ،افغانستان ا ورعراق میں کسی کو حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی شام میں بشار کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنے والوں پر کسی کوکیمیائیبمباری کرنےکی ہمت نہ ہوتی کشمیر کے سات لاکھ بھارتی فوج کو بے گناہ شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی سکت نہ ہوتی ۔
مسلم دنیا خلافت کے سائبان سے نکل کر چھوٹی ریاستوں میں بٹ چکے ہے اگر کوئی ریاست معاشی طور پر خود کفیل ہے تو دفاعی طور پر کمزور ہے ،اگر دفاعی طور پرمضبوط ہے تو وہ معاشی طور پر عالمی ساہوکاروںکی غلام ہیں۔امت مسلمہ کے عالمی مسائل کے حل کے لیےخود مختارمسلم ریاست کا قیام ضروری ہے جواللہ تعالی کے ضابطوں کی توپابند ہو لیکن طاغوت کے خود ساختہ ضابطوں کی گرفت سے آزادہو اللہ تعالی کی نصرت سے یہ شرف افغانستان اور شام کی دھرتی کو حاصل ہوگا۔(ان شاءاللہ)

مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ

مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ1895ءمیںحضرت الامام سید عبد الجبار غزنوی کے گھر بمقام امر تسر پیدا ہوئے آپ سید عبداللہ غزنوی کے پوتےہیں ۔

تعلیم:

ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید عبد الجبار غزنوی ،مولانا عبدا لاول سے حاصل کی ۔اردو اورحساب کی تعلیم مولانا گل محمدسے حاصل کی جنہیں سید عبد الجبار غزنوی نے مدرسہ غزنویہ میں رکھا ہوا تھا دہلی ان ایام میں علوم دینیہ کا مرکز تھا اور آپ کا دل وہاں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیتا ب تھا لیکن اپنے والد گرامی سے اس قدر مرعوب اور ہیبت زدہ تھے کہ ان سے اجازت لینے کی جرأت نہ کرسکے بلکہ دہلی پہنچ کر والد گرامی حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کو خط لکھااور دہلی میںقیام کی اجازت چاہی ۔آپ اس مادر علمی سے فیضیاب ہونے کے لیے بے قرار تھے جہاںسے سید عبدا للہ غزنوی اور حضرت الامام عبدا لجبار غزنوی فیضیاب ہو چکے تھے اور یہ درسگاہ میاں نذیر حسین محدث دہلوی کی تھی مولانا سید داؤد غزنوی کو استاذ الاساتذہ حضرت عبداللہ غاز ی پوری رحمہ اللہ سے علم حدیث پڑھنے کا شرف حاصل ہوااور حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ حضرت میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ سے فیضیاب ہوئے اورحضرت میاں صاحب رحمہ اللہ نے حضرت شاہ محمداسحاق رحمہ اللہ سے استفادہ کیاحضرت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلف الرشید تھے اور نواسےبھی تھے اور شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے والد ماجد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے جانشین تھے ۔
حضرت سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے علوم عقلیہ مولانا سیف الرحمٰن سے اکتساب کیا ۔

عملی زندگی کا آغاز:

مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہر امرتسر واپس تشریف لے آئے اور بڑی مستعدی اور ذوق وشوق کے ساتھ اپنی آبائی درسگاہ مدرسہ غزنویہ میں تفسیر اور حدیث کا درس دینے لگے اورایک عرصہ تک کتاب وسنت کے چشمہ صافی سے تشنگان علوم اسلامیہ کی پیاس بجھاتے رہے اور اس زمانے میں تدریس کے ساتھ ساتھ تبلیغ واشاعت دین ،تحریک آزادی وطن سے دلچسپی اور کمال خطابت کی وجہ سے امرتسر میں اپنا ایک مقام پیداکرلیا تھا۔آپ کو جو علمی اور روحانی میراث ملی تھی وہ اسکے سزاوار بھی تھے اور امین بھی اگر آپ نےاپنا دامن سیاست میں الجھایا نہ ہوتا یا سیاست نے آپ دھاوانہ بولا ہوتا اورآپ کی سرگرمیاں علمی حد تک محدود رہتیں تو بلاشبہ آپ کے فیوض وبرکات لازوال صورت اختیار کرلیتے ۔آپ کا کتب خانہ بے مثل تھا آپ سفر وحضرمیں ، ریل اور جیل میں بھی مطالعہ کے عادی تھےآ پ تمام علوم پر وسیع نظر رکھتےتھے ،ذہانت و فطانت میں لاثانی شخصیت تھے زہد وورع ،علم وفضل، تحقیق و دانش ،عبادت و ریاضت ،جرأت و مردانگی اور وجاہت آپ کو وراثت میں ملی تھے ۔
آپ بر صغیر کے ایسے دو دھان عالی سے تعلق رکھتے تھے جن کے عملی وروحانی فیوض کے احساس سے پاک وہندکے لوگ سبکدوش نہیں ہوسکتے۔

سیاست میں حصہ:

سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اصلاً مدرس تھے اور تدریس کرنا چاہتے تھے لیکن حالات کی سنگینی اور وقت کے تقاضوں نے انہیں سیاست میں آنے پر مجبور کردیا،مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پنجاب میں جمعیت علماء کی بنیاد رکھی اور خلافت کمیٹی کی طرح ڈالی نتیجتاً تین سال قید بامشقت ہوئی دوسری مرتبہ1925ء میںپکڑے گئے تیسری مرتبہ 1927ءمیں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کی تحریک میں گرفتار کیے گئے مجلس احرارکا قیام ہواآپ اسکے بانیوں میں سے تھے ایک عرصہ تک اس کے سیکٹری وجنرل رہے ۔کشمیر ایجی ٹیشن میںچوتھی مرتبہ قید ہوئے ۔تحریک مقل پورہ اور تحریک کپور تلہ میں بھی گرفتار ہوئے ۔ہندوستان چھوڑدو تحریک میں تقریباً تین سال جیل میں رہے۔دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں گرفتار ہوئے 1945ء میں صوبہ پنجاب کے کانگریس کے صدر چنے گئے 1946ء کا الیکشن دھاری والاکی لیبر سیٹ سے لڑا اورپنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے 1946ءمیں کانگریس سے الگ ہو کر مسلم لیگ میں شا مل ہوگئے۔
پاکستان بنا تو سید حسین شہید سہروردی ،نواب افتخار حسین ممدوٹ ،میاں عبدالباری چوہدری محمد افضل چیمہ اور مولانا عبدالستار خان نیازی سے مل کر جناح عوامی مسلم لیگ قائم کی مارچ 1951ءکے صوبائی انتخابات میں پتوکی مہاجر سیٹ سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔آپ چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس رکھتے تھے ۔آپ سر دےسکتے تھے ،ضمیر کا سودا نہیں کرسکتے تھے ،مرسکتے تھے لیکن جھک نہیں سکتے تھے ۔آپ نہ ہی دبنے والے تھے اور نہ ہی ڈرنے والے تھے ،آپ اپنے دور میں سب سے زیادہ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ سے متأثر تھے ،آپ کے صاحبزادےپروفیسرابو بکر غزنوی لکھتے ہیں کہ:
میںنے ایک دفعہ ان سے پوچھا کے آپ نے لیگ میں شامل ہوتے وقت ابوالکلام آزاد سے مشورہ کیا تھا؟تو فرمانے لگےکہ اگر انکے پاس مشورے کے لیے چلاجاتا تو مجھے کبھی مسلم لیگ میں شامل نہ ہونے دیتے قرین مصلحت یہی تھی کہ لیگ میں شمولیت کے اعلان کے بعد ان سے ملاقات کرتا۔

صحافت کے میدان میں:

مولا نا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے یکم اپریل 1927ءکو امر تسر سےہفتہ وار(توحید) کا پہلا شمارہ شائع کیا اوراس کے سرورق پر یہ دعا اور اس کا ترجمہ لکھا :

رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا

اے میرے رب مجھے داخل کر عزت کا داخل کرنا اور مجھے نکال عزت کا نکالنا اور مجھے خاص اپنے پاس سے مددگار قوت عطا فرما(سورۃ الاسراء 80)
اور توحیدکی پیشانی پر ہمیشہ یہ آیت مرقوم ہوتی تھی

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ( سورۃ ال عمران139)

اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے۔
مجلہ توحید تبلیغی مضامین کے علاوہ آپ نے بلند پایہ علمی اور تحقیقی مضامین بھی لکھےایک مضمون ’’ایام ھدایت اور امام سیاست‘‘ کے عنوان سے تین اقساط میں لکھا جس میں منصب امامت پر نہایت شرح و بسط سے روشنی ڈالی۔ایک تحقیقی مضمون تدوین حدیث پر لکھا جس کا عنوان ’’تاریخ جمع و تدوین احادیث رسول اللہ ﷺ‘‘تھا اس مضمون میں تحقیق پیش کی کہ عہد نبویﷺ اورعہد صحابہ و تابعین میں حدیث کا کتنا سرمایہ ضبط تحریر میں آچکا تھا اور آیتیعلمہم الکتاب والحکمۃ اور ثم ان علینا بیانہکی تشریح بھی فرمائی آپ اپنے ہم عصر صحافیوں سے کبھی کبھار نوک جھونک بھی کیا کرتے تھے ۔

مجلہ’’ توحید‘‘ میں لکھنے والے:

توحید میں سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے علاوہ بہت سے ممتاز علماء اور مقتدر ہستیوں کے مضامین شائع ہوتے رہے جن میں سے چند کےاسماء گرامی یہ ہیں ۔
1۔مولا ناسید سلیمان ندوی
2۔مولانا ابو الکلام آزاد
3۔مولاناعبد الواحد غزنوی
4۔قاضی محمد سلیمان منصور پوری
5۔مولانااسماعیل غزنوی
6۔مولانامحمد علی قصوری ایم اے
7۔مولانا محی الدین قصوری۔
۔۔۔

سوانح حیات سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (سوالاًجواباً)

احمد: سیدنا ابوہریرہ  کو ابو ہریرہ کیوں کہتے ہیں؟
محمد: جی ہاں ،عبد اللہ بن رافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ  سے کہا:

لِمَ كُنِّيتَ أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ أَمَا تَفْرَقُ مِنِّي؟ قُلْتُ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لأَهَابُكَ. قَالَ: كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي، فَكَانَتْ لِي هُرَيْرَةٌ صَغِيرَةٌ فَكُنْتُ أَضَعُهَا بِاللَّيْلِ فِي شَجَرَةٍ، فَإِذَا كَانَ النَّهَارُ ذَهَبْتُ بِهَا مَعِي فَلَعِبْتُ بِهَا فَكَنَّوْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ.(ترمذی3840)

آپ کی کنیت ابو ہریرہ کیوں پڑی ؟تو انہوں نے کہا کیا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ہو میں نے کہا دکیوں نہیں ،اللہ کی قسم میں میں آپ سےڈرتاہوں پھر انہوں نے کہا میں اپنے گھر والوں کی بکریا ں چراتا تھا میری ایک چھوٹی سی بلی تھی میںاس کو رات کو راستے میں بٹھا دیتا تھا اور دن میں اسے اپنے پاس لے جاتا اور اس سے کھیلتا،تو لوگوں نے میری کنیت ابو ہریرہ رکھ دی ۔
احمد:کیاسیدنا ابو ہریرہ  نے بکریاں بھی چرائیں؟
محمد :جی ہاں سیدنا ابو ہریرہ  نے بکریاں بھی چرائیں ہیں جیسا کہ انہوں نے خودفرمایا كُنْتُ أَرْعَى غَنَمَ أَهْلِي میں اپنے گھر والوں کی بکریاں چراتا تھا ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ  سے زیادہ کوئی حافظ حدیث تھے؟
محمد:جی ہاں جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا:

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُب(البخاری113)

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا،مگر وہ لکھ لیاکرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۔
احمد: کیا سیدناابو ہریرہ t احادیث نہیں لکھتے تھے؟
محمد:زمانہ نبوی ﷺ میں وہ احادیث نہیں لکھتے تھے جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا :

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُب(البخاری113)

رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں عبد اللہ بن عمرو کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا،مگر وہ لکھ لیاکرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۔
احمد: کیا زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابو ہریرہ  نے اپنی حفظ شدہ احادیث کو تحریری شکل دی؟
محمد:جی ہاں جیسا کہ فضل بن حسن بن عمروبن امیہ الضمری کی اپنی والدسے روایت الکفایہ اور تہذیب وغیرہ میں مروی ہے کہ میں نےسیدنا ابو ہریرہ t کے سامنے ایک حدیث بیان کی آپ نے اس کا رد کیا میںنے عرض کیا آپ سے ہی میں نے سنی ہے کہنے لگے کہ اگر تم نے مجھ سے سنی تو میرے پاس لکھی ہوگی وہ میرا ہاتھ تھام کر اپنے گھر لے گئے اور احادیث کی متعدد کتابیں مجھے دکھائیں اور وہ حدیث بھی اس میں تھی ۔اور اسکے علاوہ ھمام بن منبہ بھی حال میںدریافت ہواہے یہ انکی تالیف ہے مگر کتابت کی وجہ سے کاتب کی طرف منسوب ہے ۔
احمد: سیدنا ابو ہریرہ رات کیسے گزارتے تھے؟
محمد:سیدنا ابو ہریرہ  رات کو تین حصوں میں تقسیم کیاکرتے تھے جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا :

إِنِّي لَأُجَزِّئُ اللَّيْلَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ: فَثُلُثٌ أَنَامُ، وَثُلُثٌ أَقُومُ، وَثُلُثٌ أَتَذَكَّرُ أَحَادِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلَّمَ (سنن الدارمی272)

میں رات کو تین حصوں میںتقسیم کرتا ہوں ایک حصے میں آرام کرتا ہوں ،ایک حصے میں قیا م کرتا ہوں اور ایک حصے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتاہوں ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ t رات کو بھی احادیث یاد کرتے تھے ؟
محمد: جی ہاں جیسا کہ انہوں نے خود فرمایا (عربی عبارت) میں رات کو تین حصوں میںتقسیم کرتا ہوں ایک حصے میں آرام کرتا ہوں ،ایک حصے میں قیا م کرتا ہوں اور ایک حصے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتاہوں۔
احمد: سیدناابو ہریرہ  سے زیادہ احادیث مروی ہیں،اسکا سبب کیا ہے ؟جبکہ انہوں نے اسلا م میں رسول ﷺکے ہاں بہت کم وقت گزارا ـہے؟
محمد:جی ہاں اس کے دو سبب ہیں جو انہوں نے خود بیان فرمائے جو لوگ کہتے ہیں ابو ہریرہ t احادیث زیادہ بیان کرتے ہے

وَلَوْلاَ آيَتَانِ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا حَدَّثْتُ حَدِيثًا، ثُمَّ يَتْلُو

میں کہتا ہوں کہ قرآن میں اگر دو آیتیں نہ ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتااور پھر یہ آیت پڑھی

اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ اُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰۗىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (البقرہ 159-160)

یقیناً وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اس شے کو جو ہم نے نازل کی بیناتّ میں سے اور ہدایت میں سے بعد اس کے کہ ہم نے اس کو واضح کردیا ہے لوگوں کے لیے کتاب میں تو وہی لوگ ہیں کہ جن پرلعنت کرتا ہے اللہ اور لعنت کرتے ہیں تمام لعنت کرنے والے،سوائے ان کے جو توبہ کریں اور اصلاح کرلیں اور (جو کچھ چھپاتے تھے اسے) واضح طور پر بیان کرنے لگیں تو ان کی توبہ میں قبول کروں گا اور میں تو ہوں ہی توبہ کا قبول کرنے والا ‘ رحم فرمانے والا
اور سیدنا ابو ہریرہ  نے کہا :

إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ “البخاری 118)

ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے ہیں اور انصار بھائی اپنی جائیداد وں میںمصروف رہتےہیں اور ابو ہریرہ  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کے رہتے تھے تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پروری سے سے بھی بے فکر رہے اور ان مجلسوں میںحاضر رہتا ہوں جن مجلسوں میـں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ باتیں محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتےتھے۔
احمد: سیدنا ابو ہریرہ دن کیسے اور کہاں گزاراکرتے تھے ؟
محمد:سیدنا ابو ہریرہ دن کو اللہ کے رسول ﷺ کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے جیسا کہ وہ بیا ن فرماتے ہیں :

إِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَانَنَا مِنَ الأَنْصَارِ كَانَ يَشْغَلُهُمُ العَمَلُ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِبَعِ بَطْنِهِ، وَيَحْضُرُ مَا لاَ يَحْضُرُونَ، وَيَحْفَظُ مَا لاَ يَحْفَظُونَ “البخاری 118)

ہمارے مہاجرین بھائی تو بازار کی خرید و فروخت میں لگے رہتے ہیں اور انصار بھائی اپنی جائیداد وں میںمصروف رہتےہیں اور ابو ہریرہ  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جی بھر کے رہتے تھے تاکہ آپ کی رفاقت میں شکم پروری سے سے بھی بے فکر رہے اور ان مجلسوں میںحاضر رہتا ہوں جن مجلسوں میـں دوسرے حاضر نہ ہوتے اور وہ باتیں محفوظ رکھتا جو دوسرے محفوظ نہیں رکھ سکتےتھے۔
احمد : کیا سیدنا ابو ہریرہ t احادیث کا زیادہ حرص رکھتے تھے ؟
محمد :جی ہاں جیسا کہ انکا کہنا ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے کہا:

مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لاَ يَسْأَلُنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ (البخاری 99)

قیامت کے دن آپ ﷺ کیشفاعت سےسب سے زیادہ سعادت کسے ملی گی ؟تو فرمایا اے ابو ہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی مجھ سے اسکے بارے میں دریافت نہیں کرے گا کیوں کہ میں حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی سنو:قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت کا وہ شخص ہوگا جو سچے دل سے لاإِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے گا ۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ t احادیث بھول جاتے تھے ؟
محمد : ہاں شروع میں احادیث بھول بھی جاتے تھے جیسا کہ انکا کہنا ہے پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورکہنے لگے اے اللہ کے رسول ﷺ :

إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ:ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ،ثُمَّ قَالَ:ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (البخاری 119)

میں آپ سے بہت اباتیں سنتا ہوں اور انکو بھول جاتا ہوںآپﷺ نے فرمایا اپنی چادر بچھاؤمیں نے بچھائی آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ سے ایک لپ لیکر اس میں ڈال دیا پھر فرمایا اسکو لپیٹ لو(یا اپنے سینے سے لگا لیں )میں نے لپیٹ لیا (یا سینے سے لگالیا )اسکے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا۔
احمد: کیا سیدنا ابو ہریرہ  کی والدہ غیرمسلمہ تھیں؟
محمد: جی ہاں :جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ کا فرمان ہے:

كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ (صحیح مسلم 2491)

میں اس کو اسلام کی دعوت دیا کرتا تھااور ایک دن میں نے انکو دعوت دی تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے متعلق وہ باتیں کہیں جو ناگوارہ تھیں۔
احمد : کیا پھر انہوں نے اسلام قبول کیا ؟
محمد : جی ہاں

فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح مسلم 2491)

انہوں نے رسول اکر مﷺ کی دعا سے اسلام قبول کیا تھا۔
احمد : کیا آپ یہ واقعہ ہمیں سنا سکتے ہیں کہ وہ کیسے مسلمان ہوئی تھیں ؟
محمد:جی ہاں سیدنا ابوہریرہ t بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرکہ تھیں ایک دن میں اسے مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں وہ باتیں کہیں جو مجھے ناگوار اگزری ۔میں رسول اللہ ﷺ کے پاس روتا ہو آیا اور عر ض کی کہ میں اپنی والدہ کواسلام کی طرف بلاتا ہوں وہ مانتی نہیں اور آج اس نے آپ کے حق میں وہ بات کہیں جو مجھے گوارہ نہیں تھیں تو اے اللہ کے رسول ﷺ آپ دعا کیجئے کہ اللہ تعالی ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے تو رسو ل اللہ ﷺ نے دعا کی :

اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ

اے اللہ ابو ہریرہ کے کی ماں کو ہدایت عطافرما۔
میں رسول اللہ ﷺ کی دعا سے خوش ہوکرنکلاجب گھر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا ،میری ماں نے میری پاؤں کہ آواز سنی تو کہا کے ذرا ٹھہرو ، میںنےپانی کے گرنے کی آواز سنی غرض ہی کہ میری ماں نے غسل کیااور اپنا لباس پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی اور پھر دروازہ کھولا اور کہا کہا اے ابو ہریرہ :

إِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔سیدنا ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس خوشی سے دوڑتا ہو اآیا اور عرض کی کہ اے اللہ کہ رسول اللہﷺ خوش ہو جایئے اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول کی اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دی تو آپ ﷺ نے اللہ کی تعریف کی اور بیشتر باتیں کہیں ۔میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ تعالی سے دعا کیجیے کہ میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں بھی ڈال دے او ران کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے ۔تب اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا

اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا – يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ – وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ

اے اللہ اپنے بندے کی یعنی ابو ہریرہ اور انکی ما ں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور ان مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے ۔(صحیح مسلم 2491)
احمد:کیا اللہ کے رسول ﷺ نے سیدنا ابو ہریرہ  کو (امین سمجھ کر) چوکی پر مقرر کیا تھا ؟
محمد:جی ہاں رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر آپ ﷺ نے سید نا ابو ہریرہ t کو چوکی پر مقرر کیا تھا جیساکہ وہ خود فرمارتے ہیں :

وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ(البخاری 2311)

آپ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی زکوۃ پر مقر فرمایا۔
احمد : سنا ہے کہ ابو ہریرہ t کی اس چوکی کے دوران شیطان (مردود) چور بن کر آیا اور پھر جب سیدنا ابو ہریرہ t نے اس کو پکڑا تو اس نے انکو وظیفہ بتا کر جان چھڑالی یہ واقعہ کس طرح ہے ۔
محمد : یہ واقعہ خود سیدنا ابو ہریرہ tاپنی زبانی یوں بیان کررہے ہیں ۔

وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ:وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ، وَسَيَعُودُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ، لاَ أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَنَّكَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ، ثُمَّ تَعُودُ قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255] ، حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: مَا هِيَ ، قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255] ، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ – وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الخَيْرِ – فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: لاَ، قَالَ:ذَاكَ شَيْطَانٌ(البخاری 2311)

رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا رات میں ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا قسم اللہ کی : میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے چلوں گا اس پراس نے کہا کہ اللہ کی قسم میں بہت محتاج ہوں میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں ابو ہریرہ t نے فرمایا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہ ؑﷺ نے مجھ سے پوچھا اے ابو ہریرہ گزشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا ؟میں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا اس لیے مجھے اس پر رحم آگیااور میں نےاسے چھوڑدیا ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا ،رسول اللہﷺ کےا س فرمان کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر آئے گااس لیے میں اسکی تاک میں لگا رہتا جوں ہی وہ دوسری رات آیا پھر غلہ آٹھانے لگاتو میں نےا سے پھر پکڑااور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے جاؤں گا لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے میں محتاج ہوںبال بچوں کا بوجھ میرے سر پرہے اب میں کبھی نہیںآؤں گا مجھے اس پر رحم آیا اور میں نےاسے پھر چھوڑ دیا ۔صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابو ہریرہ تمہارے قیدی نےکیا کیا؟میں نے عرض کی کہ وہ پھر سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا جس پر مجھے رحم آگیا آپ ﷺ نے اسی مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر چلا گیا ہے اور وہ پھرآئے گا ۔تیسری مرتبہ میں پھر اسکی انتظار میں تھا کہ اس نے تیسری پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانہ شروع کیا تو میں اسے پکڑا اور کہاکہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچانہ اب ضروری ہوگیا ہے یہ تیسرا موقع ہے ہر مرتبہ تم یقین دلاتےرہے کہ پھر نہیں آونگا لیکن تم بازنہیں آئے اس نے کہا اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے کلمات سکھا دوں گاجس سے اللہ تعالی تمہیں فائدہ پہنچائے گا میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیںاس نے کہا جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی پوری پڑھ لیا کرو ،ایک نگران فرشتہ اللہ تعالی کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کر تا رہے گااور صبح تک شیطان تمہارے پاس نہیںآسکے گا اس مرتبہ بھی میں نے اسے چھوڑدیا۔
آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیاکہ اسے نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی مکمل پڑھ لو اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کی طرف سے تم پر اسکے پڑھنے سے ایک نگران فرشتہ مقرر رہے گا اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکےگا۔
صحابہ کرام خیر کو سب سے آگے بڑھ کے لینے والے تھے۔نبی کریم ﷺ نے ان کی بات سن کر فرمایاکہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا لیکن تم سے یہ بات سچ کہ گیا اے ابو ہریرہ تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟انہوں نےکہا نہیں،نبی کریم ﷺ نےفرمایا کہ وہ شیطان تھا ۔
احمد : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرض الموت میں کیوں رو رہے تھے ؟
محمد: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ مرض الموت میں رونے لگے تو لوگوں نے پوچھاآپ کیوں رو رہے ہیں؟ فرمانے لگے ؛
’’سفر بہت لمبا ہے اور زاد ِراہ بہت تھوڑا ہے آگے دو ہی منزلیں ہیں جنت یا جہنم میں نہیں جانتا کہ میری منزل کونسی ہے ‘‘۔
—–

دور جدید کی بد تہذیبی: پگڑی اچھالنا

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں، اسی نے فرمایا:

الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْآ إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُوْنَ

جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم [یعنی شرک] کی آمیزش نہیں کی تو انہی کے لئے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ( الأنعام: 82)
میں اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں وہی ان کا مستحق ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنے بندوں پر سورۂ عصر نازل فرمائی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں، آپ ایمان، تقوی اور صبر میں سب کے لئے عملی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک راتیں آتی رہیں اور نورِ صبح پھیلتا رہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون(آل عمران: 102)

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اسلام نے انسانیت کو اعلی مقام دینے کے لئے پر اطمینان اور امن و سلامتی والی زندگی کا فہم عطا کیا، پھر شریعت اسلامیہ کے احکامات میں ہر قسم کی رہنمائی بھی دی، نیز پوری امت کو اعلی اخلاقی اقدار کی باڑ عطا کی جس کے باعث امت کے تمام گوشوںکو تحفظ ملا، ساتھ میں بلند اخلاقی اقدار اور اعلی کردار کی دعوت دی جو کہ امت کو گھٹیا اور گرے ہوئے کردار سے کہیں بلند کر دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ(آل عمران: 102)

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ اور ایسے ہی فرمایا:

اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا

میں نے آج تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ،اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،نیز میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔(المائدة: 3)
اسلامی تعلیمات نے جرائم کو پھیلنے سے روکنے کے لئے جرائم کے اسباب ہی دفن کر دئیے ہیں، جرائم کی وجہ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کیا اور ان کے سر اٹھنے سے پہلے ہی ان کی سر کوبی کر دی؛ صرف اس لیے کہ معاشرے کا امن برقرار رہے اور ہر فرد کے حقوق کو تحفظ ملے۔
اسی طرح اسلام نے منبعِ جرائم خشک کرنے کے لئے معاشرے کی اعلی اخلاقی اقدار پر تربیت کی، ان کے اندر اتنی اخلاقی غیرت پیدا کی جو انہیں برائی سے روک دے، پھر اس کے بعد شریعت نے شرعی حدود، قصاص اور تعزیری سزائیں پورے معاشرے کے امن کے لئے قائم کیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(البقرة: 179)

اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے عقل والو تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
ایسے جرائم جن کی تباہ کاریوں سے لوگ چیخ اٹھے ہیں اور اہل دانش ان جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر متفق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں، یہ جرم گمراہی، ایذا ءرسانی اور دھوکا دہی جیسے گناہوں میں ملوث ہونے کا موجب بنتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا گھٹیا حرکت ہے اور تباہ کن خرابی ہے، اس سے جذبات بھڑکتے ہیں اور حساسیت بڑھتی ہے۔
کسی کی عزت اچھالنے کے نقصانات شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، بلکہ متاثر شخص میں ایسے نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو اسے اندر سے توڑ دیتے ہیں اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے اجڈ اور گھٹیا لوگوں کی روک تھام شرعی واجب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِيْنًا

اور جو لوگ مومن مرد و خواتین کو بلا وجہ اذیت دیتے ہیں تو وہ بہتان اور واضح گناہ اٹھا رہے ہیں۔(الأحزاب: 58)
اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی کے ہاں روزِ قیامت بد ترین شخص وہ ہے جس کی بدی سے بچنے کے لئے اسے لوگ چھوڑ دیں یا مسترد کر دیں‘‘۔
پگڑی اچھالنے کے عمل کو جرم قرار دینا اور اس کی روک تھام کے لئے اقدامات کرنا بہت بڑا عمل ہے، اس میں حکم الہی کا نفاذ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی سرزنش ہے جو دھرتی پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، فتنوں کو چنگاری دکھا کر امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور باطل امور میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی کے احکامات لوگوں کی عزت، شہرت اور مقام مرتبے کا تحفظ کرتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دھرتی پر قائم کی جانے والی ایک حد اہلیان دھرتی کے لئے چالیس دن کی موسلا دھار بارش سے بھی بہتر ہے‘‘(ابن ماجہ)
یہ بھی دیکھیں کہ قرآن مجید مومنوں کو مخاطب کر کے صلائے عام لگاتا ہے کہ شیطانی راستوں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ

’’ظاہری یا باطنی بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ ‘‘ (الأنعام: 151)
ایسے ہی فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ(النور: 21)

’’ اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو بھی شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو شیطان اسے فحاشی اور برائی کا حکم دیتا ہے‘‘۔
یہ سب احکام اس لیے ہیں کہ برائی کے راستے ہی بند ہو جائیں اور اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانے والے باز آجائیں۔
کسی کی عزت اچھالنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے، ایسی حرکت وہی کرتے ہیں جو کمزور دل اور بے عقل ہوں، جن کے دلوں میں بیماری ہو، جن کے ہاں اخلاقی گراوٹ پائی جائے، مروّت کا پاس نہ رکھتے ہوںاور یہی عزتیں اچھالنے والے قبیح اعمال میں ملوث ہوتے ہیں۔
کسی کی پگڑی اچھالنے کی کئی ایک صورتیں ہیں، اس کے لئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، پگڑی اچھالنے کی ابتداءبد زبانی اور بد کلامی سے شروع ہوتی ہے جو کہ پگڑی اچھالنے والے منہ پھاڑ کر کرتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’ اپنے آپ کو فحش گوئی سے بچاؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی فحش گو اور بد کردار شخص کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ایسے ہی ایک اور حدیث میں فرمایا: ’’مومن لعن اور طعن کرنے والا نہیں ہوتا، نہ ہی وہ فحاشی پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی فحش باتیں کرتا ہے‘‘
نیز آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’ہر ابن آدم زنا میں ملوث ہے، چنانچہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور آنکھوں کا زنا نظر ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں ہاتھوں کا زنا پکڑنے میں ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنے میں ہے، منہ بھی زنا کرتا ہے منہ کا زنا بوسے دینا ہے‘‘۔ اس روایت کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند امام مسلم کے معیار کے مطابق ہے۔
اور جب انسان کی زبان لغو باتوں میں مگن ہو تو انسان اپنے آپ کو دنیا میں تباہی کے در پے کر دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے آخرت میں اسے افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ

کوئی بھی بات منہ سے نکالتا ہے تو چوکنّا نگران اسے لکھنے کے لئے] اس کے پاس ہی ہوتا ہے۔(ق: 18)
کسی کی پگڑی اچھالنے کا عمل ہر میدان میں بڑھتا جا رہا ہے، زندگی کے تمام گوشوں پر اس کا راج ہے، بلکہ [سوشل میڈیا کی]تصوراتی دنیا جو کہ وقت اور جگہ کی حدود سے بھی آزاد ہے اس میں یہ مزید پھل پھول رہا ہے کہ ایسے ایسے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں کہ پہلے ان کا تصور تک بھی نہیں تھا؛ ان کی وجہ سے دلوں میں کدورتیں بھر گئیں ہیں، دماغ خراب ہو گئے ہیں اور طبعی فطرت کو بھی اس نے تباہ کر دیا ہے۔
پگڑی اچھالنے کے طریقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ سوشل میڈیا پر گھٹیا قسم کے ویڈیو کلپ نشر کیے جائیں کہ جن کی وجہ سے برائی پروان چڑھتی ہے، بے حیائی پھیلتی ہے، اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے اور ناقابل بیان نقصانات ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النور: 19)

’’بیشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے، اور اللہ تعالی سب جانتا ہے اور تمہیں علم نہیں ہے‘‘۔
ایسے ویڈیو کلپ نشر کرنے اور ان کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرنے والوں کا انجام انتہائی برا اور بھیانک ہوتا ہے، ان کا خاتمہ دردناک اور المناک ہوتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو برے خاتمے سے محفوظ رکھے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

لِيَحْمِلُوْٓا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ

روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو اِنہوں نے علم نہ ہونے کے باوجود گمراہ کیا تھا۔(النحل: 25)
اور ایسے ہی فرمایا:

وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

اور لازمی طور پر وہ اُن کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور یقیناً ان کی افتراء بازیوں کے متعلق قیامت کےروزان سے پوچھا جائے گا (العنكبوت: 13)
کسی کی عزت کو نشانہ بنانے کی بیماری اس لیے پھیلی ہے کہ بہت سے لوگ اعلانیہ گناہ کرنے لگے ہیں، احتیاط سے کام نہیں لیتے، برائی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور برائی کو اچھائی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف گھروں میں حد سے زیادہ خشک مزاجی نے نوجوان لڑکیوں ، بچوں اور خواتین کو ایسے لوگوں کے لئے بہت ہی آسان ہدف بنا دیا ہے۔
اہل علم، دانش مند، با اثر شخصیات اور صحیح فکر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دینی غیرت دلوں میں پیدا کی جائے، دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر مضبوطی سے کار بند رہنے کی تلقین کی جائے، قول و فعل پر تقوی کے آثار نظر آئیں، نظریں جھکی ہوئی ہوں، لباس ڈھانپنے والا ہو، دل و دماغ عفت اور خوفِ الہی سے سرشار ہو۔
یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ نوجوان تابناک قوت ہیں، ان میں ابھرنے والاجوش پایاجاتاہے، اگر نوجوانوں کو اِن امتیازی خوبیوں کے ساتھ ایسی رہنمائی بھی ملے جس میں ان کی صلاحیتیں نکھریں اور انہیں کچھ کر دکھانے کا موقع دیا جائے تو نوجوان سیدھے راستے پر قائم رہتے ہیں وہ اپنی فکر اور مشغلے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں، اس طرح نوجوان کارکردگی اور تعمیر و ترقی میں عملی شریک ہو جاتے ہیں ، آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہو کر عزتیں اچھالنے جیسی فضولیات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد بھرا تعلق بھی ایک مضبوط شخصیت کو پروان چڑھاتا ہے، اس سے مثبت طریقے اور سلیقے کو مہمیز ملتی ہے، یہ اعتماد لڑکوں میں بہادری کو پروان چڑھاتا ہے اور بزدلی کو اتار پھینکتا ہے، نیز دوسری طرف اس اعتماد سے بچیوں کو عفت، پاکدامنی اور باپردگی پر تربیت ملتی ہے۔ جبکہ ایسے خاندان جو ہمیشہ مسائل، لڑائی جھگڑوں اور انتشار میں پنپتے ہیں تو ایسے گھرانے بد کردار لوگوں کے لئے زر خیز زمین ثابت ہوتے ہیں۔
اسی طرح جلدی شادی کرنے سے جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور اس سے دل کی خالی جگہ پر ہو جاتی ہے شادی انسان کو اخلاقی برائیوں سے بھی تحفظ دیتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی ضروریات کا مالک ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظروں کو جھکانے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے‘‘۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ سے نسبت رکھنے والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔اور اس موضوع میں یہ بھی ہے کہ بچوں کے چال چلن پر کڑی نظر رکھنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسے معمولی مت سمجھیں؛ خصوصاً ایسے حالات میں جب بچوں کی جانب سے مشکوک حرکتیں سامنے آئیں۔
کسی کی عزت سے کھیلنے اور دیگر جرائم کا خاتمہ کرنا معاشرے کے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ویسے بھی جس شخص کو قرآنی تعلیمات اور ایمانی رہنمائی جرائم سے نہ روکے تو اس وقت حکومت کی جانب سے آہنی ہاتھوں نمٹنا لازمی ہو جاتا ہے، چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “بیشک اللہ تعالی سلطان کے ذریعے ایسی حرکتوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا خاتمہ قرآن کے ذریعے نہیں فرماتا‘‘۔
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰﷺ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔(الأحزاب: 56)

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

برصغیر کی تحریک آزادی میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ کا کردار:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :

حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی (1114ھ۔1176ھ) 1142ھ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجاز تشریف لے گئے اور حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد علامہ شیخ ابو طاہر الکردی(م1145ھ) کے درس میں مدینہ منورہ میں شامل ہوئے اور تین سال ان کی خدمت میں رہ کر الجامع الصحیح البخاری کے درس میں شرکت کی۔ علاوہ ازیں اس کے بقیہ کتب صحاح ستہ وموطا امام مالک ومسند دارمی وکتاب الآثار کے اطراف سنا کر سند واجازت حاصل کی۔ (۱)
امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تین سال تک شیخ ابو طاہر الکردی رحمہ اللہ کی خدمت میں رہے شیخ کی وفات (1145ھ) سے کچھ ماہ قبل شاہ ولی اللہ نے واپس ہندوستان آنے کا پروگرام بنایا اور آنے سے قبل شیخ ابو طاہر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور الوداعی ملاقات کے بعد ان کے سامنے یہ شعر پڑھا

نسيت كل طريق كنت أعرفه
الا طريقا يؤدینی لربعكم

’’ میں چلنے کا راستہ بھول گیا سوائے اس راستہ کے جو آپ کے گھر تک پہنچاتا ہے۔‘‘
اور اس کے بعد فرمایا کہ
’’میں نے جو کچھ پڑھا تھا سب بھلا دیا سوائے علم حدیث کے‘‘(۲)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی پوری زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ حدیث نبوی ﷺ کی تشریح وتفہیم ، تدریس واشاعت، مدافعت ونصرت اور حمایت وتائید میں مصروف رہے۔
ہندوستان واپس آکر اپنے آبائی مدرسہ میں حدیث نبوی ﷺ کی تدریس وتعلیم واشاعت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور ان کا مدرسہ برصغیر کے طول وعرض میں ایک مثالی دینی درسگاہ قرار پایا اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے تشنگان علم حدیث نے پروانہ وار ہجوم کیا آپ کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں تاہم چند ایک نامور تلامذہ کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔

آپ کے صاحبزادگان عالی مقام :

شاہ عبد العزیز دہلوی ( 1159ھ۔1239ھ)
شاہ رفیع الدین دہلوی ( 1163ھ۔1233ھ)
شاہ عبد القادر دہلوی (1167ھ۔ 1230ھ)
شاہ عبد الغنی دہلوی ( 1170ھ۔ 1227ھ)
علاوہ ازیں ان کے علامہ سید مرتضیٰ بلگرامی صاحب تاج العروس شرح قاموس (1145ھ۔1205ھ) بیہقی وقت قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب تفسیر مظہری (1147ھ۔1235ھ)
حضرت شاہ ولی اللہ نے خدمت حدیث کے سلسلہ میں بذریعہ تصنیف وتالیف بھی گرانقدر خدمات انجام دیں موطا امام مالک کی دو شرحیں المسوّی (عربی) اور المصفّی (فارسی) لکھیں ۔ (۳)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی(1999ء) فرماتے ہیں کہ
’’ شاہ صاحب رحمہ اللہ فقہ حدیث اور درس حدیث کا جو طریقہ رائج کرنا چاہتے تھے یہ دونوں کتابیں اس کا نمونہ ہیں اور ان سے شاہ صاحب کی علوم حدیث اور فقہ حدیث میں محققانہ اور مجتہدانہ شان کا اظہار ہوتاہے۔ (۴)

وفات :

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے 30 محرم الحرام 1176ھ بمطابق 1762 دہلی میں وفات پائی۔ عمر 62 سال تھی ،اپنے والد محترم شاہ عبد الرحیم دہلوی کے پہلو میں راحت فرما ہوئے۔ (۵)

انا للہ وإنا إلیہ راجعون

جانشین شاہ ولی اللہ دہلوی :

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی وفات کے بعد آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (1159ھ۔1239ھ) مسند وحی الٰہی دہلوی پر پراجمان ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قرآن وحدیث کی تدریس وتعلیم اور اشاعت میں بسر ہوئی علاوہ ازیں اس کے حضرت شاہ عبد العزیز کا دوسرا عظیم کارنامہ فتنہ رفض وتشیع کا مقابلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرنا ہے اور ساتھ ہی جہاد فی سبیل اللہ کا احیاء ہے خدمت حدیث میں محدثین کے حالات پر فارسی زبان میں ایک کتاب ’’بستان المحدثین‘‘ تالیف فرمائی۔ اصول حدیث میں ’’عجالہ نافعہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور شیعہ فرقہ کی تردید میں ایک عظیم کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ تصنیف کی ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے درس حدیث کی مدت تقریباً 24سال ہے اس مدت میں آپ نے نہ صرف صحاح ستہ کا درس دیا اور بستان المحدثین، عجالہ نافعہ جیسی مفید کتابیں تصنیف کیں جو حدیث کا صحیح ذوق، طبقات حدیث سے واقفیت اور محدثین کا مرتبہ شناس بتاتی ہیں اور اصول سے واقف کرتی ہیں جن میں سینکڑوں صفحات کا عطر آگیا ہے۔‘‘ (۶)
حضرت شاہ عبد العزیز کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے تاہم مشہور تلامذہ حسب ذیل ہیں :
مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی ( 1192ھ۔1262ھ)
مولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی(1200ھ۔1282ھ)
مولانا مفتی صدر الدین دہلوی (1204ھ۔1285ھ)
مولانا خرم علی بلہوری (م 1260ھ)
مولانا شاہ محمد اسمعیل دہلوی ( ش 1246ھ)
مولانا سید اولاد حسن قنوجی (1210ھ۔ 1253ھ)
حضرت شاہ عبد العزیز کے دوسرے بھائیوں نے بھی خدمت دین اسلام میں گرانقدر خدمات انجام دیں شاہ ولی اللہ کے چاروں صاحبزادوں نے قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس میں جو کارنامے انجام دیئے وہ تاریخ اسلام کا ایک زریں باب ہے حضرت شاہ ولی اللہ کے صاحبزادگان کی ولادت ووفات کی ترتیب حسب ذیل ہے۔
شاہ عبد العزیز دہلوی
ولادت: 1159ھ/1745ء
وفات:1239ھ/1822ء
شاہ رفیع الدین دہلوی
ولادت: 1163ھ/1749ء
وفات:1233ھ/1818ء
شاہ عبد القادر دہلوی
ولادت:1167ھ/1753ء
وفات:1230ھ/1815ء
شاہ عبد الغنی دہلوی
ولادت: 1170ھ/1756ء
وفات: 1227ھ/1812ء
مگر ان بھائیوں کی وفات عجیب ترتیب سے ہوئی ۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کی وفات پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرمایا
’’ترتیب منعکہ در رحلت برادران واقع شد یعنی اول مولوی عبد الغنی کہ خورد ترین ہمہ ہا جودند بعد ازاں مولوی عبد القادر ازدشان بعد مولوی رفیع الدین کلاں سال ازدشاں ہستم باری ماست
’’الٹی ترتیب بھائیوں کی وفات میں واقع ہوئی اول مولوی عبد الغنی کہ سب سے چھوٹے تھے اس کے بعد مولوی عبد القادر اور ان کے بعد مولوی رفیع الدین سب سے بڑا میں ہوں اب میری باری ہے۔‘‘ (۷)
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی :
مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی (1193ھ۔1246ھ) ایک جید عالم ، دینی مفکر، قاطع بدعت ، بلند پایہ مبلغ اور عظیم مجتہد تھے وہ غیر معمولی علمی وسعت کے مالک ذہین وفطین دین سے محبت کرنے والے ، متقی ، پرہیزگار ، مجاہد، مصنف، شجاع اور بے پناہ بصیرت کے مالک تھے۔
خاندان ولی اللہ دہلوی کا ہر فرد علم وعمل ،عقل وفہم،زور تقریر ، فصاحت تحریر، ورع وتقویٰ، دیانت وامانت اور مراتب ولایت میں یگانہ روزگار،فریددہر اور وحید عصر تھا ان کی اولاد بھی انہی درجات بلند پر فائز تھی یہ ایک زریں سلسلہ تھا۔ (۸)
علامہ اقبال ( م 1938ء) فرماتے ہیں کہ
ہندوستان نے ایک مولوی پیدا کیا اور وہ مولوی شاہ محمد اسمعیل کی ذات تھی۔ (۹)
شاہ اسماعیل شہید نے 24 ذی قعدہ 1246ھ / 5 مئی 1831ءامیر المؤمنین سید احمد شہید کے ہمراہ بالاکوٹ میں شہادت پائی اور وہیں دفن ہوئے۔(۱۰)
شاہ محمد اسحاق دہلوی :
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی (1192ھ۔ 1262ھ) بن علامہ شیخ محمد افضل فاروقی سیالکوٹی (م1245ھ) حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے نواسے تھے علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے آپ کے درس میں بڑی برکت عطا فرمائی تمام بڑے بڑے علماء ان کے شاگرد تھے۔(۱۱)
حضرت شاہ محمد اسحاق علم وفضل میں یگانہ روزگار تھے۔ حدیث نبوی ﷺ کے تمام گوشوں پر ان کی نظر وسیع تھی بڑے عبادت گزار،متقی،پرہیزگار اور زہد وورع کے جامع تھے ان کے نانا حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی ان کو دیکھتے تو فرماتے تھے ۔

اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ

’’ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا تعریف ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق عطا فرمائے۔ (۱۲)
شیخ الاسلام سراج مکی نے حضرت شاہ محمد اسحاق کے جنازہ پر فرمایا تھا۔
واللہ إنہ عاش وقرأت علیہ الحدیث طول عمر ما نلت ما نالہ
’’ بخدا اگر یہ زندہ رہتے اور میں تمام عمر ان سے حدیث پڑھتا رہتا تو اس رتبے کو نہ پہنچ سکتا جس پر یہ پہنچ چکے تھے۔‘‘ (۱۳)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :
مولانا احمد علی سہارن پوری محشی الجامع الصحیح البخاری (م 1298ھ)
نواب صدر الدین خان دہلوی
نواب قطب الدین خان دہلوی
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ)
مولانا سید عبد الخالق دہلوی ( م 1261ھ)
مولانا شاہ محمد یعقوب دہلوی ( 1282ھ)
حضرت شاہ محمد اسحاق نے اپنے نانا حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی زندگی میں تدریس شروع کی اور برسوں حدیث کا درس دیا۔ درس حدیث کے اس اہتمام کی وجہ سے ’’ الصدر الجید‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے حضرت شاہ محمد اسحاق نے 1258ھ میں اپنے برادر اصغر شاہ محمد یعقوب کے ہمراہ حجاز ہجرت کی وہاں بھی تدریس ہی مشغلہ تھا۔
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے رجب 1262ھ / 1846 میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (۱۴)
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی المعروف حضرت میاں صاحب (1220ھ۔1320ھ) جو اپنے استاد حضرت مولانا شاہ محمداسحاق دہلوی کی ہجرت کے بعد ان کی مسند تدریس پر متمکن ہوئے اور شیخ الکل کہلائے ۔
حضرت میاں صاحب صوبہ بہار کے ضلع سورج گڑھ کے قصبہ بلتھوا میں 1220مطابق1805ء میں پیدا ہوئے انکے والد محترم کا نام سید جو اد علی تھا جو فارسی زبان میں مہارت تامہ رکھتے تھے ۔میاں صاحب کا عہدطفولیت لہو ولعب میں گزرا آخر 15 سال کی عمر میں اپنے والد مرحوم کے ایک برہمن دوست کے کہنے پر تعلیم کی طرف مائل ہوئے پہلے اپنے والد ماجد سے فارسی کی چند کتابیں پڑھیں تھوڑے عرصہ بعد عربی کی ابتدائی تعلیم پڑھنا شروع کی اس وقت میاں صاحب کی عمر 17 سال ہوچکی تھی اور میاں صاحب مزید تعلیم کے حصول کے خواہاں تھے چنانچہ آپ نے اپنے ایک دوست اور ہم عمر طالب علم بشیر الدین عرف مولوی مراد علی سے مشورہ کیا کہ مزید تعلیم کے حصول کے لیے کسی دوسرے شہر جانا چاہیے چنانچہ ایک دن موقع ملا آپ اپنے دوست کے ہمراہ رات کے وقت گھر سے روانہ ہوئے۔ اور عظیم آباد(پٹنہ) جا پہنچے اور مولوی شاہ محمد حسین کے مکان میں اقامت گزیں ہوئے ( مولوی شاہ محمد حسین مولانا ولایت علی عظیم آبادی ( م 1249ھ/ 1852ء) کے خلیفہ تھے۔مولوی شاہ محمد حسین نے اپنے مکان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا ہوا تھا طلباء کی تعلیم اور ان کی ضروریات کا اچھا خاصا انتظام تھا میاں صاحب اور ان کا ساتھی مولوی امداد علی نے وہاں 6 ماہ قیام کیا وہاں انہوں نے اساتذہ سے قرآن مجید کا ترجمہ اور کتب حدیث میں مشکوۃ المصابیح کا درس لیا یہ واقعہ 1237ھ/1821ء کا ہے اسی دو ران امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہید بریلوی (ش 1246ھ) حضرت مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی ( ش 1246ھ) کے ہمراہ اپنے تین صد جانثاروں کو لے کر عظیم آباد (پٹنہ) تشریف لائے جمعہ کی نماز ایک میدان میں ادا کی گئی مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید نے وعظ فرمایا تھا میاں صاحب کا ارشاد ہے :
’’ ہم اس وعظ اور نماز میں شریک تھے سارا میدان لین کا آدمیوں سے بھرا ہوا تھا پہلی ملاقات سید صاحب اور مولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی تھی۔(۱۵)
اس ملاقات کے بعد حصرت میاں صاحب نے دہلی جانے کا قصد کیا اس وقت حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بقیدحیات تھے چنانچہ میاں صاحب اپنے رفیق سفر مولوی مراد علی کے ہمراہ 1237ھ/ 1822ء دہلی روانہ ہوئے۔پٹنہ سے چل کر میاں صاحب غازی پور پہنچے وہاں چند روز قیام کیا اور مولوی احمد علی چڑیاکوئی ( م 1272ھ) سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھیں۔ غازی پور سے بنارس کا عزم کیا بنارس میں کچھ مدت قیام کیا پھر بنارس سے الہ آباد تشریف لے گئے الہ آباد میں ایک مسجد میں قیام کیا وہاں آپ نے مولوی زین العابدین رحمہ اللہ سے صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔
الہ آباد سے میاں صاحب دہلی کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں کان پوریاں چند روز قیام کیا پھر کان پور سے روانہ ہوئے اور فرخ آباد پہنچ گئے۔
فرخ آباد سے دہلی کےلیے روانہ ہوئے اور 1243ھ/ 1828ء کو دہلی پہنچ گئے ۔ 1237ھ میں وطن سے روانہ ہوئے اور 1243ھ میں دہلی پہنچ گئے اور 6 سال کی مدت بنتی ہے دہلی میں سب سے پہلے ان کا قیام مولوی محمد شجاع الدین کے مکان پر رہا حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلو ی سے میاں صاحب کی ملاقات نہ ہو سکی وہ 1239ھ میں رحلت فرما چکے تھے اور چار سال کا عرصہ بیت چکا تھا ۔
میاں صاحب مولوی شجاع الدین کے ہاں سکونت ترک کرکے مسجد اورنگ آبادی میں مولانا عبدالخالق دہلوی (م 1261ھ) کی خدمت میں حاضر ہوکر علوم اسلامیہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔(۱۶) میاں صاحب نے جن اساتذہ کرام سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا اُن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
nمولانا عبد الخالق دہلوی (م 1261ھ)
nمولانا اخوندشیر محمد قندہاری (م1257ھ)
nمولانا جلال الدین ہروی
nمولانا کرامت علی اسرائیلی
nمولانا سید محمد بخش عرف تربیت خان نہدس
nمولانا شیخ عبدالقادر رام پوری
nملا محمد سعید پشاوری
nمولانا حکیم نیاز احمد سہوانی ۔ ( ۱۷)
حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے درس میں :
جب حضرت میاں صاحب ( 1243ھ / )1828ء میں دہلی وارد ہوئے تو حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی وفات پا چکے تھے ( حضرت شاہ عبد العزیز کی تاریخ وفات 7 شوال 1239ھ ہے ) اور مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کا فیضان علم وعمل جاری تھا مگر اس وقت میاں صاحب شامل حلقہ ہونے کی قابلیت نہ رکھتے تھے اس لیے پہلے دوسرے اساتذہ سے اکستاب کیا حضرت میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد حضرت شاہ محمد اسحاق نواسہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے مرکز حدیث کا رخ کیا ۔
مورخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’ میاں صاحب نے علوم رسمیہ سے فراغت کے بعد علوم تفسیر وحدیث اور فقہ کی تحصیل کے لیے شاہ محمد اسحاق کے مرکز حدیث کا رخ کیا حضرت شاہ صاحب ممدوح سے میاں صاحب نے صحاح ستہ کی تکمیل کی نیز تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، کنز العمال اور حافظ سیوطی کی جامع صغیر کا درس لیا علاوہ ازیں 13 برس کی مدت ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے۔(۱۸)
کیا میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے :
1258ھ میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی نے اپنے برادرخورد کے ساتھ حرمین شریفین ہجرت کی تو ان کے مسند تدریس کے وارث حضرت میاں سید محمد نذیر حسین دہلوی ہوئے اور مکمل 12 سال تک دہلی میں علوم اسلامیہ کا درس دیا۔
علمائے تقلید اپنے تقلیدی تعصب کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد نہ تھے بلکہ تبرکاً حدیث کی سند حاصل کی تھی ، باقاعدہ شاگرد مولانا شاہ عبد الغنی مجددی( م 1296ھ) تھے ۔ ‘‘
علمائے اہلحدیث کا موقف ہے کہ
’’ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی کے باقاعدہ شاگرد تھے اور 13 سال ان کی خدمت میں رہ کر علوم اسلامیہ کی تحصیل کی ۔
جن علمائے کرام ، مورخین اورمقالہ نگاروں نے اپنی کتابوں میں باحوالہ لکھا ہے کہ
|’’ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد تھے :
اگر ان کی تحریریں ذیل میں درج کی جائیں تو مقالہ خاصا طویل ہوجائے گا صرف ناموں پر اکتفا کیا جاتا ہے اور کتاب کا حوالہ بھی پیش خدمت ہے ۔
مولانا شیخ محمد تھانوی (1296ھ)الحیاۃ بعد المماۃ ،  ص:34
مولانا رحمان علی بریلوی(1325ھ)تذکرہ علمائے ہند، ص:92
مولانا سید نواب صدیق حسن خان (1307ھ)حیات شبلی ، ص:46
مولانا شمس الحق ڈیانوی(1329ھ ) مقدمۃ غایۃ المقصود ، ص:11
مولانا محمد ادریسبگرامی(1330ھ)تذکرہ علمائے حال ، ص:92
حکیم سید عبد الحی الحسنی(1341ھ)نزھۃ الخواطر 8/498
مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (1353ھ) مقدمۃ تحفۃ الاحوذی ، ص:52
مولانا عبید اللہ سندھی (1363ھ)حاشیہ المسوّی من احادیث الموطا امام مالک ، ص:11
علامہ سید سلیمان ندوی (1373ھ)حیات شبلی، ص: 41و46۔مقالات سلیمان ، 2/52،53
مولانا عبد المجید سوہدروی (1959ء )سیرت ثنائی ،  ص:97 طبع اول
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشیروی (1386ھ)تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:138۔ ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20
شیخ محمد اکرام (1396ھ )موج کوثر ، ص:68
مولوی بشیر احمد دہلوی (1921ء )دلی اور اصحاب دلی ،  ص:132
پروفیسر خلیق احمد نظامی (1418ھ )تاریخی مقالات ،  ص:253
مولانا نسیم احمد امروہی ۔الفرقان لکھنو فروری ،مارچ  1977ء
مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی (1375ھ )تاریخ اہلحدیث ، ص416 طبع اول
پروفیسر محمد مبارک(کراچی)۔حیات شیخ سید محمد نذیر حسین دہلوی، ص:6
ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی۔ مولوی نذیر احمد دہلوی احوال وآثار ، ص:46
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (1999ء)تاریخ دعوت وعزیمت 5/359
محترمہ ڈاکٹر ثریا ڈار ۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات ، ص:163
مولانا قاضی محمد اسلم سیف(1417ھ)تحریک اہلحدیث تاریخ کے آئینے میں ، ص:325(۱۹)
سید رئیس احمد جعفری ندوی(1968ء )بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ، ص: 281
مولانا محمد اسحق بھٹی(2015ء)دبستان حدیث ، ص:33

دور ِ حاضر کا الحادی منظر نامہ ۔ قسط 2

پہلا حصہ سابقہ شمارہ میں طبع ھوچکا ھے۔ )

عالم ِ عرب میں حالیہ الحادی شبہات اور معاصر لا دینی فکر کا پھیلاؤ
مواصلات اور خصوصا سوشل میڈیا کے انقلابات سے قبل عرب ملحدوں اور لادینوں نے کسی ایسے دن کا خواب ہی نہ دیکھا تھا ۔ جس میں وہ اپنے خیالات و افکار کو جرأت کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھیں گے ۔ ان ملحدین کے پاس متروکہ ٹوٹے پھوٹے تجزیات کو ’حریت ‘سے تعبیر کرنے کے لیے مکالماتی ویب سائٹس(جینے کے لیے) سانس لینے کا واحد راستہ تھیں ۔ اس کے بعد اب ان کی کوشش کے ذریعے فیس بک اور دیگر مواصلاتی ویب سائٹس کی وساطت سے ’حریت ‘ کی تعبیر و بیان آسان ہوگیا ہے اور ملحدین کا باہمی نظم و نسق قائم ہو گیا ہے ۔ فیس بک پرعرب لادین صفحات(Pages) اور مجموعوں (Groups)کا شمار یا ان کے پیروکاروں (Followers)کا شمار بے حد مشکل ہوگیا ہے ۔ شاید کم از کم بھی ان کی تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے ۔ یہ صفحات اپنی افکار کو پیش کرنے اور ان کی ترویج میں مختلف نوعیت کے ہیں ۔ کچھ ناقدانہ طنز آمیز ہیں ۔جبکہ کچھ دیگر صفحات علمی فکری منصوبہ بندی کے حامل ہیں ۔ جو اپنے عمومی پیروکاروں کے لیے ثقافت اور کلچر کی ترویج اور روشن خیالی( Enlightenment ) کو ہدف بناتے ہیں ۔ (۱)
عالم ِ عرب میں میڈیا پر ملحدین کے فورمز
فیس بک ، ٹویٹر ، یوٹیوب اور بلاگزمیڈیا کے ایسے وسائل ہیںجو عرب ملحدین کے مابین کئی وجوہات کی بنا پر بے حد متداول ہیں ۔ ان وجوہات میں سے اہم ترین وجہ یہ ہے کہ یہ ویب سائٹس صارف کو اپنے پتہ کی تفصیلات کھولے بغیر استعمال کی سہولت دیتی ہیں ۔
بی بی سی کے ’’میڈیا پیروی ‘‘(Media follow-up)کے شعبہ نے عرب دنیا میں سوشل میڈیا کے نیٹ ورکس پر عربی و انگلش زبان میں ’’ بے دین ‘‘ لفظ کے بارے میں ایک تحقیق جاری کی ہے ۔ جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کے سینکڑوں صفحات ہیں جو عالم ِ عرب کے بے دینوں کے پیروکار ہیں اور جنہوںنے اپنی جانب ہزاروں پیروکاروں کو مائل کر لیا ہے ۔
فیس بک
فیس بک پر کئی ایسے صفحات ہیں جو عرب بے دینوں کو اپنے ساتھ شمولیت کی دعوت دیتے ہیں ۔
انہیں صفحات میں تیونسی ملحدین ہیں جو دس ہزار (10000) سے زائد پیروکاروں پر مشتمل ہیں ۔ سوڈانی بے دینوں تین ہزار (3000)سے زائد پیروکاروں پر مشتمل ہیں ۔ اسی طرح شامی ملحدین کا نیٹ ورک چار ہزار(4000) سے زائد پیرکاروں پر مشتمل ہے ۔

ٹویٹر

ٹویٹر پر اکائونٹس کے پیروکاروں کی تعداد سینکڑوں سے ہزاروں کے درمیان مختلف ہے ۔ جن کے مالکان اپنی بے دینی کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ’’اراب اثیست‘‘ کے اکاؤنٹ کے پیروکاروں کے گنتی آٹھ ہزار (8000)سے متجاوز ہے ۔
ان اکاؤنٹس کے مالکان جو کچھ بحث و مباحثہ کرتے ہیں ‘ اس کا مواد (Contents) متنوع انداز کا ہوتاہے ۔ کچھ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ’عقل کو بروئے کار لاکردین کی خرافات کا انہدام ‘ چاہتے ہیں ۔ کچھ دیگر اپنے اکاؤنٹس پر اسلام مخالف تصاویراور تعلیقات و حواشی نشر کرتے ہیں ۔ مثلاً قرآن کریم کے نسخوں کے پرزے پرزے ہونے کی تصاویر
کچھ دیگر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہدف ‘عقل کو عمل میں لانا اور سائنس کی نشر و اشاعت ہے ۔
بعض یہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹویٹس کو رخ تو فقط بے دینوں کے متبعین کی جانب ہے ۔ کچھ تو سیدھا سیدھا اپنے آپ کو’کافر اور بے دین ‘ کہتے ہیں اور ایسے مراسلات (Posts) لانچ کرتے ہیں جس میں وہ اس چیز کے دعویدار ہوتے ہیں کہ اسلامی گفت و شنید دیگر ادیان کے خلاف تشدد اور سختی پر ابھارتی ہے ۔

یوٹیوب

بعض عرب ملحدین نے کئی ایسے چینلز بنا لیے ہیں جو ہزاروں صارفین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکے ہیں۔ ان چینلز کے مالکان اکثر و بیشتر جو وڈیوز نشر کرتے ہیں ‘ وہ دین ِاسلام کے مخالف ہوتی ہیں اور ’دین کی خرافات ‘ ایسے عنوانات کی حامل ہوتی ہیں ۔
انٹر نیٹ پر دیگر نیٹ ورکس
بعض عرب نوجوانوں نے انٹر نیٹ پرایک ٹی وی چینل ریلیز کیا ہے ۔ جس کا نام ’آزاد عقل ‘ ہے ۔ اس چینل کی ویب سائٹ اس حوالے سے بہت معروف ہے کہ یہ انٹر نیٹ کے رستے پوری دنیا اور مشرق ِ وسطیٰ کے لوگوں تک خبریں پہنچانے کے لیے سیکولر میڈیا کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔ جس کا ہدف ایسی خبروں کو مقدم کرنااور آگے لاناہیں ‘ جو دینی اور حکومتی کنٹرول سے آزاد اور باہر کی خبریںہوں ۔ (۲)
الحاد کے سوشل اور سماجی نتائج
ملحدوں کے معاشرہ کو آپ ایسے خیال کیجیے کہ جو نہ کسی حلال کو حلال جانتاہے اور نہ کسی حرام کو حرام ۔ توہلاکت خیز چیزوں میں سے جوآپ چاہیں ‘وہ آپ اس معاشرہ میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ بے دین ان ہلاکت خیز اشیاء سے کسی صورت اجتناب نہیں کرتا۔ جب تک کہ اسے کسی انجام ِ بد میں مبتلا ہوجانے کا خوف نہیں ہو جاتا ۔ (۳)
معاصر الحادی تحریک کے مسلمانوں پر اثرات
شروع سے پوری دنیا کے اکثرو بیشتر مسلمان اپنے دین ، ایمان بالغیب اور جنت وجہنم پر ایمان سے جڑے ہوئے ہیں اور شرعی عبادات پر قائم و دائم ہیں ۔وللّٰہ الحمد۔ مگر الحاد و بے دینی کی لہر مسلمانوں کی زندگی کے بیشتر جوانب خصوصا معاملات ، اخلاق اور تعلقات ِ عامہ پرحاوی ہورہی ہے ۔ اور دشمنوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے دین ، عقیدہ اور قوتوں کے بارے میں شک پیدا کرنے کے لیے بڑی بڑی کوششیں کی جارہی ہیں ۔(۴)
آج مسلمان معاشرے اپنے مسلّمات و ثوابت پر طعن و تشنیع کے مسلسل حملوں کا سامنا کرر ہے ہیں۔ وہ اس چیز کا بھی مقابلہ کررہے ہیں کہ انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر سے غافل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بلکہ ان مسلم معاشروں کو اس چیز کا بھی سامنا ہے کہ انہیں شناخت ، فکر اور فلسفیانہ تصادم کی مشکلا ت میں ہی الجھاکررکھاجائے ۔ یہ سب کچھ اسلام کے ’ فرزندان ‘ کے ہاتھوں داخلی سطح پر اسلام کو گرادینے کے نظریہ کی خاطر مسلسل کیا جارہا ہے ۔
آج مسلمانوں کے نوجوانوں میں جس قدر فکری شبہات اور بوہیمی(مطلق آزادانہ) خواہشات پھیلائی جارہی ہیں ‘ یہ اعدائے اسلام کی جانب سے کوئی نئی بات ہے نہ اجنبی ۔ بلکہ حق و باطل کے معرکہ میں یہ الٰہی سنت ہے اور ربانی طریقہ ۔ لیکن ایک چیز نئی ہے جسے اِس الحادی حملہ نے اوڑھ رکھا ہے ۔یعنی بے دینی کا یہ حملہ جدیدیت (Modrenism)کے لبادہ میں ہے اور ٹیکنالوجی ، مال ودولت اور میڈیا کے وسائل سے لیس اور مسلح ہے۔
لیکن مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کثیر رجال ِ کاراور علمائے صدق نے مسلمانوں کے’ فرزندان ‘کی جانب سے جھگڑوںسے لبریز اِن پے در پے حملوں کا خوب مقابلہ کیا ۔ جنہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی نصرت کے لیے خرچ کر دیں ۔اور جنہوں نے دعوت ، مکالمہ ، تنقیداور ملحدوں کے شبہات کا لبادہ چاک کرنے کے ذریعے اِن ’فرزندان ِ مسلمین ‘ کی جانب سے اِس الحادی گھٹا کے خاتمہ کے لیے اپنے اوقات ِ کارنذر کر دیے ۔ (۵)
دورِ حاضر میں الحادی فنامنا اورفتنہ کے مقابل غور وفکر سلب کرنے اور آنکھیں موند لینے کی بجائے تین قسم کے قواعد پر مبنی مجوزہ حکمت ِ عملی
احتیاطی قواعد

پہلا قاعدہ :

اسلام کے اصولوں پر یقین کو تقویت دینے کے چند وسائل
۱۔ اللہ عز وجل کی کائناتی آیات اورنشانیوں پر تفکر کی عبادت کااحیاء اور فروغ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب میںاس بات کی خوب وضاحت ہے کہ تفکر اور بڑے بڑے حقائق کے ادراک کے مابین بڑاگہرا تعلق اور ربط ہے۔ فرمان باری تعالی ہے :

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(آل عمران3: 191)

’’جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی پہلوؤں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پرودگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔تو پاک ہے ۔پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔‘‘
عبادت ِ تفکر کے احیاء کے چند وسائل
وڈیو اور قابل ِ مطالعہ ایسے مواد کی نشر و اشاعت جو تفکر و تأمل کے میدان کی ضروریات پوری کر سکے۔
اس میدان میں لکھی گئی مباحث یا وڈیو مواد میں سب سے اچھی تصدیر پر مقابلہ جات کی داغ بیل۔
۲۔ مخصوص کتب پر بالاہتمام توجہ
ایسی کتب کو خصوصی توجہ دی جائے جن میں اصولِ اسلام کی صحت کے دلائل کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اس میدان میں قدیم و جدیددور کے علماء نے کتب تحریر فرمائی ہیں ۔ ہمیں متقدمین میں بہتیرے علماء کرام ملتے ہیں جنہوں نے ’’اعجاز القرآن ‘‘ کی بابت لکھا۔ مثلاً خطابی ؒ، رمانی ؒ،باقلانیؒ ،جرجانیؒ وغیرہ ۔ البتہ اس حوالے سے دور ِ حاضر کی کچھ کتب یہ ہیں:
کتاب النبأ العظیم اور کتاب مدخل الیٰ القرآن الکریم از محمد عبد اللہ دراز
کتاب براھین وأدلّۃ ایمانیۃ از عبد الرحمن حسن حبنکۃ المیدانی
کتاب نبوّۃ محمد ﷺ (من الشک الیٰ الیقین) از فاضل السامرانی
کتاب الأ دلّۃ العقلیۃ النقلیۃ علیٰ أصول الاعتقاداز سعود العریفی
کتاب کامل الصورۃ از أحمد یوسف السید
۳۔ دعوت ، تعلیم اور عمل میں قلوب کی عبادت کا اہتمام
بلا شبہسیدناابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام اللہ عز وجل کی جانب انابت کرنے ،اسی پر توکل کرنے اور اسی کے سامنے خشوع کرنے والے تھے۔ لہذا جب قوم اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابت آپ علیہ السلام سے جھگڑی ‘ آپ ؑ نے قوم سے کہا:

قَالَ اَتُحَآجُّوْ نِّیْ فِیْ اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰنِ(الانعام ۶:۸۰ )

’’ آپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایاہے ‘‘
۴۔ نومسلموں کے قصوں کی نشر و اشاعت
اس میں کچھ شک نہیں کہ ایمانی راحت کے حصول میں اِن قصوں کی بے حد تاثیر ہے ۔ خصوصا اس وقت جب آپ ان نومسلموںکی خصوصیات کے تنوع اور علاقوں کے فرق کو بغور دیکھتے ہیں ۔

دوسرا قاعدہ :

ناقدانہ عقل کی افزائش

تیسرا قاعدہ :

شرعی اصولوں کا استحکام
عقیدہ ، فقہ ، اصول فقہ ، اصطلاحات ِ حدیث ، زبان اور علوم ِ قرآن وغیرہ وغیرہ ایسے سب شرعی علوم کی تعلیم سے یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے ۔

چوتھا قاعدہ :

استدلال ، معرفت اور موقفات کے لیے مصادر (Sources)کی حد بندی اور تعین

پانچواں قاعدہ :

شبہات پربات چیت کے لیے ماہرانہ صلاحیت سے عاری (Non-specialist)لوگوں سے احتیاط

چھٹا قاعدہ :

ردّ ِ شبہات کی محتاط تعلیم
شبہات اور اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب کی چند شروط کے تحت محتاط تعلیم دینی چاہیے ۔ یہ شروط ہیں:
یہ کہ شبہات تازہ اور عام پھیلے ہوئے ہوں اوریہ کتب سر عام پیش آمدہ خطرات کی متعلق ہوں ۔
یہ کہ کتب کا اسلوب ِ نگارش کچھ اس طرح ہوکہ شبہہ کو بیان کرنے میں وہ مجمل ہو۔ لیکن شبہہ کی تردید میں وہ تفصیلی گفتگو کرے۔ کیونکہ بعض لکھاری شبہہ کو پیش کرنے میں تفصیل برتتے ہیں اور اس شبہہ کے حوالہ جات اور اصولوں تک کا ذکر کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ اسلوب خصوصی لوگوں کے لیے مناسب ہے ۔ لیکن ہم سرِ دست عمومی طبقہ کی حفاظت اور بچاؤ کی بابت گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان عمومی لوگوں کو تفصیل در تفصیل کے ساتھ شبہات پڑھوانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
یہ کہ شبہہ کی تردید محکم اور مضبوط ہو۔ جو ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں سے ہی ملنا ‘ متوقع ہوتی ہے ۔ حالیہ شبہات کی تردید کے میدان میں کچھ مناسب کتب درج ذیل ہیں جن کو شبہات سے تحفظ کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے :
کتاب السنّۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی از مصطفی السباعی
کتاب کامل الصورۃ (دونوں جزء)

ساتواں قاعدہ :

فکری اور پراثرہونے کے اعتبار سے مفید اجتماعی پروگرامز کی حوصلہ افزائی اورتقویت

آٹھواں قاعدہ :

دعا اور آہ و زاری (۶)

نواں قاعدہ :

د عوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت
باطل شبہات و اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب اور عقیدہ کی کتب کی طباعت اور سٹیلائٹ چینلز پر علمی پروگرامز کی تقویت کے ضمن میں دعوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت خصوصی توجہ کا مرکز رہے ۔ یہ کتب اور پروگرامز عظمت ِ الٰہی کے حامل ہوں اور محاسن ِ اسلام اور توحید ِ ربوبیت پر خصوصی روشنی ڈالیں ۔

دسواں قاعدہ :

شبہات کی تردیدکی باقاعدہ تعلیم اور ٹریننگ
شبہات کی تردید اور اللہ کے دین کے دفاع پر اپنے نوجوانوں کی خصوصی ٹریننگ اور مشق کرائی جائے ۔
یہ چیز نوجوانوں کو عقیدہ کی صحیح کتب کی تعلیم دے کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جولوگ لازمی کتب کی خریدی نہیں کر سکتے ‘ کتب کی فراہمی کی خاطر ان کے لیے لائبریریوں کے قیام کو عمل میں لایاجائے ۔

گیارھواں قاعدہ:

علمائے امت کی خصوصی ذمہ داری
اہل علم اور علمائے امت نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہولناک خطرات سے متنبہ کریں ۔ دنیا کے زوال اور دنیا پر عدم ِ انحصار کی یاد دہانی اصحاب ِ تربیت کا شغل ہونا چاہیے ۔ یہاں تک وہ اپنا کردار ادا کردیں اور توحید و ایمان کا پیغام پہنچادیں۔ (۷)

شبہات میں گھر جانے کے بعد بچاؤکے قواعد

1پہلا قاعدہ :

ناقدانہ سوچ و فکر کا استعمال اور معلومات و افکار کو بروئے کار لانے میں علمی ثقاہت و پختگی
یہ ضروری ہے کہ کسی قابل ِ نظر اور لائق ِ مناقشہ قیمتی معلومات کو استعمال میں نہ لایا جائے ۔ جب تک کہ اس میں علمی توثیق کا ادنیٰ ترین درجہ میسر نہ آجائے ۔

چندواقعی مثالیں :

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی احادیث کو رد کرنا اور ان پر طعن ۔ اس دعوی کے سبب کہ نبی کریم ﷺ نے ان پر لعنت بھیجی تھی ۔ یہ خبر ثابت نہیں ہے ۔ لہذا دعویٰ اور نتیجہ دونوں باطل ہوگئے ۔دعوی: نبی کریم ﷺ کاسیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ لعنت بھیجنا ۔ نتیجہ :احادیث ِ معاویہ کی تردید اور عدم ِ قبول۔
سیدناابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع ۔ کیونکہ سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان پر چوری کی تہمت لگائی ۔ یہ خبر بھی ثابت نہیں ۔
سنت کے بارے میں شکوک و شبہات اٹھانا ۔ اس سبب سے کہسیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کئی ایسے صحیفے جلادیے تھے ۔ جن میں احادیث ِ رسول ﷺ تھیں۔ اس خبر سے بے حد استدلال کیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ خبر صحیح نہیں ہے۔
(زُرْ غِبًّا تَزْدَدْ حُبًّا) حدیث کی وجہ سے سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ میں تنقیص کی کوشش۔ حالانکہ یہ مزعومہ قصہ صحیح نہیں ہے ۔

2دوسرا قاعدہ :

ماہرانہ صلاحیتوں کے حاملین سے سوال اور استفادہ

3تیسرا قاعدہ :

مشکل مسئلہ کی تردید کے بارے میں سابقہ کاموں اور جہود کی جانب مراجعت

4چوتھا قاعدہ :

متشابہ کو محکم پر پیش کرنا
بلاشبہ محکم و متشابہ کا مسئلہ قرآن فہمی کے اہم منہجی امور میں سے ہے ۔ یہی مسئلہ راسخین فی العلم اور بھٹکنے والوں کے مابین فرق کرنے والا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرما چکے ہیں :

ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ

’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ‘‘ (آل عمران ۳: ۷)
امام ابن کثیر ؒ اس آیت کے معنی کا خلاصہ قیمتی اورواضح کلام میں یوں پیش کرتے ہیں :
’’ اللہ عز وجل نے قرآن کریم کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ {اٰ یٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ}ہے ۔ یعنی اپنی دلالت میں ایسے واضح دلائل کہ کسی ایک شخص کو ان کی بابت التباس نہیں ۔ اسی قرآن کی کچھ دیگر آیات ہیں جن کی دلالت کی بابت کثیر یا چند لوگوںکو کچھ اشتباہ ہوجاتا ہے ۔ جس شخص نے قرآن کے متشابہ حصہ کو واضح حصہ کی جانب پیش کردیا اوراپنے ہاں قرآن کے محکم کو متشابہ پر حاکم بنا دیا ‘ وہ ہدایت پا گیا ۔ جس نے برعکس کیا تو وہ برعکس نتیجہ پائے گا ۔ اسی لیے اللہ عز وجل نے { ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ} کے لفظ ارشاد فرمائے ہیں ۔ یعنی یہ قرآن کا اصل ہیں جن کی جانب اشتباہ کے وقت رجوع کیا جائے۔ {وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ}یعنی ایسی آیات جن کی دلالت اور مفہوم محکم کی موافقت کا احتمال رکھتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھی یہ آیات اپنے الفاظ اور ترکیب کی حیثیت سے کسی دوسری شے کا احتمال رکھتی ہیں لیکن مراد کے حیثیت سے یہ قطعا کسی دوسری شے کا احتمال نہیں رکھتی ہیں ۔ ‘‘
مثلاً : ایک عیسائی آکر کہتاہے : تمہارا قرآن کریم متعدد معبودوں کی خبر دیتا ہے ۔ جس کی دلیل اللہ عز وجل کا یہ فرمان ہے :

اِ نَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَ وَ اِ نَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ

’’ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘( النحل:۹)
اس آیت میں وجۂ دلالت یہ الفاظ و کلمات ہیں : اِنَّا (ہم) ،نَحْنُ (ہم )، نَا (ہم ) اور حَافِظُوْنَ میں جمع کی واؤ۔ یہ سب کلمات جمع پر دلالت کرتے ہیں ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ سب ضمائر (Pronouns)جیسے جمع کا مفہوم دیتی ہیں ‘ ویسے ہی یہ تعظیم کامفہوم دیتی ہیں ۔ جیساکہ بادشاہ اپنے بارے میں تعظیم کے طور پر جمع کے کلمات بولتے ہیں ۔ لیکن جب ہم قرآن کریم میں محکم اور بیّن حکم کو دیکھتے ہیں تو وہ توحید ہے ۔ فرمان ِ خداوندی ہے :

وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَۃٌاِ نْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِ ن مَا اللّہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗ (النساء:171)

’’ اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتری ہے،اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے ‘‘

قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ(الاخلاص : ۱)

’’آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک(ہی) ہے‘‘
لہذا جھگڑا اور فساد باطل ہو گیا ۔

5پانچواں قاعدہ :

ایسے شبہہ سے توقف جس کا جواب جانا پہچانااور معروف نہ ہو۔

6چھٹا قاعدہ :

لادینی فکر یا جسے جھوٹ کے طور پر قرآنی فکر وغیرہ کا نام دیاجاتا ہے ‘ اس کی جانب منتقلی کے منفی نتائج سے آگہی اور واقفیت

7ساتواں قاعدہ :

شبہات اور وسوسات سے نمٹنے میں فرق
بلاشبہ وسوسات ‘ شبہات سے قدرے مختلف ہوتے ہیں ۔ شبہات کا جواب حاصل کرلینے سے شبہات کا علاج ہوجاتاہے ۔جب جواب محکم اور مضبوط ہو‘ تو شبہات زائل اور نابود ہو جاتے ہیں ۔ البتہ وسوسات کا حل جواب میں نہیں ہوتا ہے ۔ یہ جواب سے ختم نہیں ہوتے ۔اگرچہ سو مرتبہ جواب کا تکرار کر لیا جائے ۔ ان کا حل فقط یہ ہے کہ ان سے اعراض کرکے رہا جائے ۔
شبہہ کے علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ شبہہ کامنبع و مصدر اکثر و بیشتر محدود ہوتا ہے ۔ یاتو کوئی وڈیوکلپ ہوتا ہے یا کتاب یا کوئی دوست وغیرہ ۔ جبکہ وسوسات میں اصول یہ ہے کہ یہ انسانی خیالات کے ذریعے آتے ہیں ۔ جن کو انسان اپنے اندر محسوس کرتاہے ۔ اکثر و بیشتر اوقات ِ عباد ت میں آتے ہیں ۔
شبہات میں مبتلا لوگوں سے مکالمہ کے قواعد

— پہلاقاعدہ —

مکالمہ سے قبل مقابل مکالمہ کرنے والے کے مذہب کا استیعاب اور اس کے میسر آڈیوزووڈیوزمواد کا جائزہ

— دوسرا قاعدہ —

مکالمہ میں مشترکہ نکتہ پر اتفاق

–تیسرا قاعدہ —

محل ِ نزاع نکتہ کی لکھت
بعض مباحثوں میں مکالمہ کرنے والوںکو کچھ وقت کے بعد جا کر ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نکتہ پر بات کرتے رہے جس پر وہ متفق تھے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے ۔ انٹرنیٹ کے بیشتر نیٹ ورکس پریہ بہتیرا ہوتا ہے کہ دلی کینہ کے باعث فضا بے حد پراگندا رہتی ہے ۔ لہذا دونوں مکالمہ کرنے والوں کے لیے یہ نہایت اچھا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی بات بحسن وخوبی سمجھیں، محل ِ نزاع نکتہ کو متعین کریں اور واضح ہدف کی جانب گامزن رہیں ۔

— چوتھا قاعدہ —

فریق مخالف کے کلام میں خوب دقت ِ نظری اور ناقدانہ جائزہ نیز کلام میں درج اشکالات کی گہری خبرگیری

–پانچواں قاعدہ —

صرف دفاع پر ہی اکتفاء نہ کیاجائے ۔

–چھٹاقاعدہ–

باطل مقدمات کو تسلیم نہ کیا جائے۔
باطل مقدمات یا مبادیات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ فریق ِ مخالف بہت جلد آپ پر باطل نتائج لازم ٹھہرا لے گا ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم باطل مقدمات کو ابتداء سے ہی قبول نہ کریں ۔ اس طرح سے دراصل آپ نے صاحب ِ شبہہ کا راستہ ہی اُدھیڑاور اُکھیڑ دیا ہے ۔
مثلاً
بعض ملحدین بحث و مباحثے میں ( آ پ کو پھانسنے کے لیے )سیڑھی چڑھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں : ہر موجود شے کا کوئی نہ کوئی مُوجِد (بنانے والا ) ہوتا ہے ۔ کیا ایسانہیں ہے؟ اگر آپ کہہ دیتے ہیں : ہاں ، کیوں نہیں ، ایسے ہی ہے ۔ تو وہ آپ سے کہے گا : اللہ موجود ہے لہذا اس کا موجد کون ہے ؟ حالانکہ اس بابت درست طریقہ یہ ہے کہ آپ بنیادی طور پر قاعدہ اور مقدمہ کو تسلیم نہ کریں ۔ کیونکہ یہ مقدمہ درست ہی نہیں ہے ۔ صحیح مقدمہ اس بابت یوں ہے : ہر حادث (فنا ہونے والی شے ) کا کوئی نہ کوئی محدث(بانی)ہے ۔ البتہ اللہ عز وجل حادث نہیں ہے ۔ لہذا اللہ عز وجل کے احداث ، خلق اور ایجاد کا سوال ہی ختم ہوگیا ۔

— ساتواں قاعدہ —

اگر آپ دعویدار ہیں تو دلیل آپ کے ذمہ ہے ۔ اور اگر کہیں سے نقل کرکے پیش کررہے ہیں ‘ تو اس نقل کی صحت کی ذمہ داری آپ پر ہے ۔

— آٹھواں قاعدہ —

نصوص شرعی سے اخذ شدہ استدلال کی خبر داری اور متعلقہ باب کی جمیع نصوص کے احاطہ کی ضرورت پر ہوشمندی

حواشی و حوالہ جات:

(1)دیکھیے : ملاذ الملحدین و اللادینیین العرب از عادل قلقیلی
(ایڈریس:http://rsif.me/of375)
(2)دیکھیے الالحاد فی العالم العربی : لما ذا تخلی البعض عن الدین ؟ (قسم المتابعۃ الاعلامیۃ ۔ بی بی سی )از أحمد نور
(3)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(4)دیکھیے الالحاد (اسبابہ و علاجہ)از ابو سعید الجزائری
(5)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(6)دیکھیے : باسغات از أحمدالسید
(7)دیکھیے : منظمات عالمیۃ تنشر الالحاد بیننا از قاری عبد الباسط
—–

شرک کی ابتدا اور اس کی پہلی بنیاد

عقیدت و محبت یا کسی کی وجہ سے یہ سمجھنا اور عقیدہ بناناکہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت، ریاضت سے خوش ہو کرانہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیارات عنایت کر رکھے ہیں۔ یہ شرک ہے کیونکہ اہلِ مکہ حج اور عمرہ کے موقعہ پر یہی شرک کرتے تھے جس سے ان کو روکا گیا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ  قَالَ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ قَالَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللهِ eوَيْلَكُمْ قَدْ فَيَقُولُونَ إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ يَقُولُونَ هَذَا وَهُمْ يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ (رواہ مسلم: باب التلبیۃ و صفتھا و وقتھا)

سیدنا ابن عباس w بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کا تلبیہ یہ تھا۔ ’’اے اللہ! میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ‘‘ یہ سن کر رسولِ اکرمe فرماتے‘ ہلاک ہو جاؤاسے چھوڑ دو ! مشرکین تلبیہ میں یہ اضافہ کرتے تھے۔ ’’ماسوائے اس شریک کے جس کو تو نے خود اختیارات دے رکھے ہیں۔‘‘ حقیقتاً خودوہ بادشاہ اور مالک نہیں ہیں۔ یہ تھا ان کا تلبیہ جو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے اہلِ مکہ کہتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کوحقیقی مالک و مختار مانتے اور پکار تے تھے تاہم انکا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار ات فوت شدہ بزرگوں کو دے رکھے ہیں۔ جس بناء پر وہ یہ تلبیہ کہتے اور دعا کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کو وسیلہ اور طفیل کے طور پر اللہ تعالیٰ کے شریک بناتے تھے۔ آپ e فرماتے کہ ہلاک ہو جاؤ اب یہ شرک تمہیں چھوڑ دینا چاہیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہی شرکیہ عقیدہ کی پہلی اور بڑی بنیاد ہے باقی عقائد اس کے لوازمات اور متعلّقات ہیں۔ اگر اس بات پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی یہ عقیدہ رکھنا کہ مدفون لوگ سنتے اور دیکھتے ہیں، غیب جانتے اور مدد کرتے ہیں اور قیامت کے دن سفارش کریں گے۔ یہ تملیک کے عقیدے کے ہی تقاضے ہیں۔ قرآن مجید نے اس تملیک اور اختیارات کی مذمت اور تردید کرتے ہو اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے:

قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ(سبا: ۲۲)

’’اے نبی! مشرکین سے فرما ئیںکہ شرک کرنے والو! اپنے اُن کو بلائو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھتے ہو ، وہ زمین و آسمانوں میں ذرّہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں نہ وہ آسمانوں وزمین کی ملکیت میں شریک ہیں اور نہ ہی اُن میں کوئی اللہ کا مددگار ہے۔‘‘

قُلْ لَّا اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ (الاعراف:188)

’’فرما دیں کہ میںتو اپنے لیے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ ہاں !جو اللہ چاہے اوراگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی خیر حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ، میں صرف انتباہ کرنے والا اور خوشخبری دینے والاہوں ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی ، نبی اور فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے یا دوسرے کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن افسوس فرقہ واریت کی لہر میں بہہ کر بڑے بڑے علماء کھلم کھلا ایسے اقوال اور واقعات نقل کرتے ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ایک عالم نے کچھ اقوال کے ذریعے اپنا کمزور عقیدہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
اس آیت کریمہ میں حضوراکرم  اپنی ذات مقدسہ سے الوہیت کی نفی فرما رہے ہیں کہ میں خدا نہیں کیونکہ خدا وہ ہے جس کی قدرت کامل اور اختیار مستقل ہے جو چاہے کر سکتا ہے نہ کسی کام سے اُسے کوئی روک سکتا ہے اور نہ اُسے کسی کام پر مجبور کر سکتا ہے اور مجھ میں یہ اختیار کامل اور قدرت مستقلہ نہیں پائی جاتی ۔ میرے پاس جو کچھ ہے میرے رب کا عطیہ ہے اور میرا سارا اختیار اسی کا عنایت فرمودہ ہے ۔ ’ لَا اَمْلِکُ ‘ کے کلمات سے اپنے اختیار کامل کی نفی فرمائی اور ’’اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ ‘‘ سے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھے کہ حضور کو نفع و ضرر کا کچھ اختیار ہی نہیں ۔ فرمایا مجھے اختیار ہے اور یہ اختیار اتنا ہی ہے جتنا میرے رب کریم نے مجھے عطا فرمایا ہے اب رہی یہ بات کہ کتنا عطا فرمایا ہے تو انسانی عقل کا کوئی پیمانہ اور کوئی اندازہ اس کا احاطہ نہیں کر سکتا کوئی بناوٹی حد قائم نہیں کی جا سکتی ۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو ’’قُلْ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کیا اورحکم فرمایا کہ اے نبی!کہتے جائیں کہ میں اپنے رب کی دعوت اورعبادت میں کسی کوشریک نہیں کرتا اورنہ ہی میں اس کی خدائی میں اختیارات رکھنے کا دعویٰ کرتاہوں۔ میری دعوت اور اعلان یہ ہے کہ میں نہ تمہارے نفع اور نقصان کامالک ہوں اور نہ اپنے بارے میں کوئی اختیارات رکھتاہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑنے پر آئے تو مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اورنہ اس کی پکڑ سے مجھے کوئی چھڑاسکتا ہے۔

قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوْا رَبِّيْ وَ لَا اُشْرِكُ بِهٖ اَحَدًاقُلْ اِنِّيْ لَااَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا (الجن:21 20)

’’اے نبی فرما دیں کہ میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ فرما دیں کہ میں تمہارے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔‘‘
حضرات! شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان سے شرک کروائے، مشرک یہ گمان کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بزرگوں کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے جس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد ہوا: ’’اے پیغمبرe! جو اللہ کے سوا دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے اور پکارتے ہیں انہیں فرمائیں کہ وہ ان کو اپنی مدد کے لیے بلائیں، انہیں معلوم ہو جائے گاکہ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں، نہ ہی ان میں کسی چیز میں حصہ دار ہیں اور نہ ان میں اللہ تعالیٰ کا کوئی معاون اور مدد گار تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں رائی کے دانے کے برابر بھی حصہ دار نہیں تو اس کے حضور سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے ۔اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش کرپائے گا جسے وہ اجازت عنایت کرے گا۔ اس کے باوجود ہر دور کے مشرکوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہوکر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اس لیے اگر بزرگ کسی کے حق میں سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کرپاتا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا اختیار نہیں دیا البتہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دے گا وہ بھی کسی کے حق میں اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَايَسْمَعُوْا دُعَآءَكُم وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ (فاطر:14، 13)

وہ دن میں رات اور رات میں دن کو داخل کرتا ہے ،چاند اور سورج کو اُسی نے مسخر کر رکھا ہے ہر کوئی وقت مقرر تک چلا جا رہا ہے، وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بادشاہی اُسی کی ہے اس کے سِوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اگر انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکارسن نہیں سکتے اور اگر سُن لیں تو اس کا تمہیں جواب نہیں دے سکتے، قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر یں گے ایسی خبر تمہیں ’’ اللہ ‘‘ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
’’قِطْمِیْرُ‘‘کھجورکے اس پردے کو کہاجاتا ہے جو اس کی گٹھلی کے درمیان پایا جاتا ہے یہ پردہ اس قدر باریک اور نازک ہوتاہے کہ اکثر اوقات کھجور کے گودے کے ساتھ ہی چمٹا رہتا ہے اوردیکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتاگویا کہ بہت ہی حقیر اور کمزور ہوتا ہے مگر مشرک ان لوگوں کو خدا کی خدائی میں شریک کرتے ہیں جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ۔
قرآن مجید باربار ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو نہ پکارا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتاہے اور اس کے ساتھ بتوں ، فوت شدگان ،جِنّات ،ملائکہ یا کسی غیر مرئی طاقت سے بھی امداد طلب کرتاہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع، سجدہ اورنذرونیاز پیش کرتاہے اسی طرح ہی دوسروں کے سامنے جھکتا اور نذرانے پیش کرتا ہے گو یا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت کرتا اور ان کو پکارتا ہے ۔ یاد رہے کہ قرآن مجید اس بات سے بھی روکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارا جائے پہلے طریقہ کے لیے’’ وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرے کے لیے ’’مِنْ دُوْنِ اللّٰہ ‘‘یا ’’مِنْ دُوْنِہٖ‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جس کا صاف معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے ۔بے شک وہ سیدنا عیسیٰu ہوں یا سیدنا عزیر uیا کوئی فوت شدہ ہستی، تمام فوت شدگان کے بارے میں یہی ارشاد ہے کہ وہ نہیں سُنتے بفرضِ محال اگر وہ سن بھی لیںتو وہ تمہاری فریاد کا جواب نہیں دے سکتے ۔قیامت کے دن جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کا انکار کردیں گے اگر
سُن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یہ الفاظ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ سُن سکتے ہیں اور نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔
لوگو! سنو اور سوچو! تمہارا رب تمہیں شرک کے بارے میں کس طرح باربار روکتاہے اور اسے کھول کھول کربیان کرتا ہے اس علیم و خبیر کے سوا کوئی تمہیں اس طرح نہ سمجھاسکتا ہے نہ بتلا سکتا ہے اور نہ ہی تمہاری خیرخواہی کر سکتا ہے۔

يٰاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ

’’اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو!اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے کمزور ہیں ان سے مددمانگنے والے اور جن سے مدد مانگی جاتی ہے وہ بھی کمزور ہیں۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جس طر ح پہچاننے کا حق ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا طاقتور اور بڑی عزت والا ہے ۔‘‘(الحج:73، 74)
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اُس کی قدر جاننے کا حق تھا ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے ۔ان الفاظ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفعل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے ۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ یہ مکھی اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتاکسی چیز سے سیر نہیں ہوتے اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے ۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَ لٰكِنَّهٗۤ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ (الاعراف:173 تا 176)

’’اور انہیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنائیں جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں لیکن وہ ان سے نکل گیا، بس شیطان نے اسے اپنے پیچھے لگالیا اور وہ گمراہوں میں سے ہوگیا، اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کر دیتے مگر وہ زمین کے ساتھ چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریںتوزبان نکال کر ہانپتا ہے یا اسے چھوڑ دیں توبھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو یہ سنائیں تاکہ وہ ان پر غوروفکر کریں ۔‘‘
یہ بے شمار کلمہ گو حضرات کا حال ہے ۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ تو شرک کرنے کی وجہ سے اس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں، سانپ اور بچھو کی پوجا کرتے ہیں۔ درحقیقت مشرک نے اپنے رب کی قدر کو نہیں پہچاناجس وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ذلیل کر دیتاہے۔

وَ رَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ يَخْتَارُمَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

’’آپ کا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے جسے چاہتا ہے ۔اس انتخاب کا لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے ۔اللہ پاک ہے اور بہت بلند و بالا ہے اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں۔‘‘(القصص:68)
یہاں شرک کی نفی ایک خاص انداز میں کی گئی ہے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھول کر دوسروں کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمتِ کا ملہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کو ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے کہ دونوں میں سے وہ جس راہ کا چاہیں انتخاب کرلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس فطرت پر چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کو کس قسم کی صلاحیتیں دینی چاہئیں وہ جسے چاہتا ہے اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے اس کی تخلیق اور اس کے اختیارات میں کوئی بھی مداخلت نہیںکر سکتا اور نہ ہی اس نے کسی مردہ یا زندہ بزرگ کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے وہ ہر قسم کی شراکت داری سے مبرّا اور مشرکوں کے کردار اور تصورات سے بلند و بالا ہے ،وہ لوگوں کے دلوں کے حال جانتا ہے کہ لوگ کس نیت اور مفاد کی خاطر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک ٹہراتے ہیں ۔ اس کی قدرت اور اختیارات کا عالم یہ ہے :

قُل اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ

’’اے نبی! ﷺ انہیں بتلائیںکہ کبھی تم نے غور کیا ہے کہ اگر اللہ قیامت تک رات طاری کر دے۔‘‘

مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَآءٍاَفَلَا تَسْمَعُوْنَ

’’تو اللہ کے سوا کونسا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی لے آئے کیاتم سنتے نہیں ہو؟۔‘‘

قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ

’’ان سے پوچھیں کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر دن چڑھائے رکھے۔‘‘

مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ

’’تو اللہ کے سوا وہ کونسا معبود ہے جو تمہارے لیے رات لائے گا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو کیا تم دیکھتے نہیں؟ ‘‘(الْقَصَصِ: 71، 72)
اللہ تعالیٰ صرف مخلوق کو پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا نظام بھی چلا رہا ہے ۔ جس میں مشرکوں کے بنائے ہوئے شریکوں کا ذرا برابر بھی عمل دخل نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لیل و نہار کا آنا جانا، اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایسی دلیل ہے کہ مشرکوں ، باغیوں اور کفار کے پاس اس کے مقابلے میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس لیے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات مسلّط کر دے تو بتائو اس کے سوا کوئی ہے؟ جو تمہارے لیے دن کی روشنی لے آئے لیکن پھر بھی تم اس کی قدرت پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک کے لیے طویل کر دے تو بتائو کوئی ہے جس رات میں تم سکون پاتے ہو اسے کوئی دن میں تبدیل کر دے لیکن پھر بھی تم نگاہِ عبرت کے ساتھ اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی قدرتوں پر غور کرنے کے لیے تیارنہیں ہو؟ پھر دیکھو اور غور کرو کہ تمھارے رب کا تم پرکتنا کرم ہے کہ اس نے رات کو تمھارے سکون کے لیے اور دن کو تمھارے کام کاج کے لیے بنایا تاکہ تم اس کی ذات پر ایمان لائو اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شکر گزار بن جائو۔ شکرگزار ہی اپنے رب کے تابعدار ہوا کرتے ہیں۔
دنیا میں انسان کو اس کی ذات کے حوالے سے کچھ اختیارات دیئے گئے ہیں۔ جن سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اپنے رب کی نافرمانی اور دوسروں کو اس کا شریک بناتا ہے لیکن قیامت کے دن کسی کو کچھ اختیار نہیں ہو گا۔ اس وقت رب ذوالجلال تمام انسانوں سے مخاطب ہو کر سوال فرمائے گا اور شرک کرنے والوں سے پوچھے گا:

يَوْمَ هُمْ بٰرِزُوْنَ لَا يَخْفٰى عَلَى اللّٰهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

’’جس دن اللہ سے اُن کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں ہو گی، پوچھا جائے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے اس دن اللہ واحد قہار کی بادشاہی ہوگی۔‘‘ (غافر: 16)
اس پورے نظام میںدنیا کے کسی حکمران، ستارے ،دیوتا اور فوت شدگان کاکوئی عمل دخل نہ ہے اورنہ ہوگا ۔مگر اس کے باوجود کافر اور مشرک نہ اس کو ایک الٰہ مانتے ہیں اور نہ اس اکیلے کی عبادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

عَن عبد الله بن عَمْرو لَ قا ل رَسُولُ اللهِ  يَطْوِي اللهُ السَّمَاوَاتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ يَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟ ثُمَّ يَطْوِي الْأَرَضِينَ بِشِمَالِهِ وَفِي رِوَايَة يَأْخُذُهُنَّ بِيَدِهِ الْأُخْرَى – ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أينَ الجبَّارونَ أينَ المتكبِّرونَ؟ (رواہ مسلم:کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار )

سیدناعبداللہ بن عمرو  بیان کرتے ہیں کہ رسولِ محترم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ زمینوں اورآسمانوں کو یکجا کرکے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ آج ظالم وسفّاک اور نخوت و غرور رکھنے والے کہاں ہیں ؟ ‘‘

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ tعَنِ النَّبِیِّ  قَالَ یَقُوْلُ اللہُ تَعَالَی لأَھْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ )) (مسلم: باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَھَبًا)

’’ سیدنا انس بن مالک tنبی کریم کسے بیان کرتے ہیں، آپ eفرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گاکہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔تو کیا اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بہت ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پُشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتاہے کہ آپ eنے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگرتو شرک سے باز نہ آیا ۔‘‘
آخر میں رب العزت سے دعاگو ہوں کہ باری تعالی ہمیں توحید اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے اور شرکیہ امور سے بچنے کی توفیق اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔
(امین یارب العالمین)

فتاویٰ: صفر کا مہینہ کی نحوست اور دینی ایس ایم ایس وغیرہ سے متعلق

کتبہ :عبد الرحمن شاکر
صححہ: مفتی محمد شریف علی
سوال: کیاصفر کا مہینہ منحوس ہے؟کیا اسلام میں کسی مہینے یا دن کی نحوست ثابت ہے؟
جواب:اگر انسان اپنے ذہن میں کسی چیز کے بارے میں منفی سوچ رکھتا ہےتواس میںاس کے لیے اتنی ہی برائی اور نحوست ہوسکتی ہے کہ وہ اگر اچھی سوچ رکھے تواس کے لیے اچھائی کا دروازہ کھل سکتاہے حدیث قدسی ہے

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي(صحیح البخاری 7405)

’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں‘‘ آپ یہ جان کر حیران تو ضرور ہونگے کہ جب ہم نیند میں بھاگنے کا خواب دیکھتے ہیں توایک دم بیدار ہونے پر ہمیں اپنے جسم پر پسینہ نظرآتا ہے جیساکہحقیقی زندگی کی دوڑ میں ہوتا ہے اس میں نہ آپ کے پاؤں ہلتے ہیں نہ ہاتھ لیکن جب دماغ نے قبول کرلیا کہ آپ بھاگ رہے ہیں تو جسم نے وہی عمل کیا۔
اسی طرح کوئی بھی دن یا مہینہ نحوست والانہیں ہوتا یہ انسان کے اعمال اور سوچ کا نتیجہ ہےکہ وہ زمانے کو قصوروارٹھہراتا ہے ۔نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے

لَا تَسُبُّوا الدَّهْرَ، فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ(المسلم2246)

زمانہ کو گالی مت دو اللہ ہی زمانہ ہے(یعنی زمانہ کی تدبیر کرنے والا اللہہےکسی بھی چیز کی برائی کو اس مدبر کی برائی میں شامل کیا جاتا ہے )
رہا صفر کا مہینہ کہ جس میں کچھ لوگ شادی بیاہ ،تجارت وغیرہ نہیں کرتے اور محتاط رہتے ہیںاور اس مہینے کو منحوس سمجھتے ہیںتویاد رہے کہ صفر کا مہینہ بھی باقی مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ (التوبۃ 36)

بےشک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ‘ اللہ کے قانون میں ‘ جس دن سے اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے

مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، فَمَا كَفَّارَةُ ذَلِكَ؟، قَالَ: ” تَقُولُ: اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ (المعجم الکبیر للطبرانی 38)

جس کو بدفالی نےکسی کام سے روکا یقیناً اس نے شرک کیا توصحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ﷺتو اس کا کفارہ کیا ہے تو فرمایا کہ وہ یہ دعا پڑھے:

اللهُمَّ لَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ، وَلَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
نہ کوئی بیماری اللہ کے حکم کے بغیر متعدی ہوتی ہے اور نہ بدفالی (نحوست)درست ہے اور مجھے فال سے محبت ہے تو پوچھا گیا کہ فال کیا ہے عرض کی :اچھا کلمہ ۔
اس سے ثابت ہوا کے اسلام نے ہمیں ہمیشہ اچھا سوچنے کی ترغیب دی اوربری سوچ اور نحوست سمجھنے سے منع فرمایا ہے۔شریعت سے کسی مہینے یادن کی نحوست ثابت نہیں البتہ کچھ ایام اور مہینوں کی فضلیت ثابت ہےجیساکہ ’’عشرہ ذی الحجہ،یوم عاشوراء،رمضان اور أشہر الحرم‘‘وغیرہ
اپنی زندگی کے مصائب کا ڈیٹا جمع کریں پھرسال کے سارے مہینے اور دن محفوظ کرلیں ،آپ کو سارے دن مصائب زدہ نظر آئینگےلیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ دن یا مہینے منحوس ہیں چنانچہ اللہ پر توکل کریںکوئی دن نحوست والا نہیں ہے صرف صفر کے مہینے کو منحوس جانناجاہلیت کے رسموں میںسے ہےاس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے ۔

لاَ عَدْوَى وَلاَ صَفَرَ وَلاَ هَامَةَ(البخاری5717)

’’مرض کے متعدی ہونے اور(ماہ) صفر کی نحوست اور ہامہ کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘( واللہ اعلم بالصواب)
سوال:آج کل اسلامی میسجز جوموبائلوں میں زیادہ ترآتے ہیں کیا ان میسجز کی کوئی حد یا قید ہے یا فوراً آگے بھیج دیناچاہئے؟
جواب: جومیسجز یا ویڈیوزقرآنی آیت یا صحیح حدیث پر مشتمل ہوں تو اسے آگے فارورڈ کیا جاسکتاہے بشرطیکہ جس کی طرف قرآنی آیت بھیجی جارہی ہے وہ مسلمان ہو البتہ پبلک میسجز کو بھیجتے وقت چند اصولوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
1: اللہ تعالی کا فرمان ہے

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ (الحجرات:6)

اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
مذکورہ بالا آیت سے معلوم ہوا کہ اگر بات کسی فاسق آدمی سے سنی ہو تو اس کی تحقیق کرلینی چاہیے اور جب تک تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اسے آگے نہ بھیجا جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

اہل علم سے معلوم کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔(الانبیاء7)
2۔کبھی کبھی صحیح احادیث اور قرآنی آیات میسجز میں آتی ہیں لیکن آخر میں لکھا ہوتا ہے دس لوگوں کو سینڈ کرو، دو دنوںمیں خوشی ملے گی ۔اس میں وہ قرآنی آیت یاحدیث میں کوئی شک نہیں ہوتا لیکن کمزور ایمان والے لوگ اسےدس لوگوں کو سینڈ کرکے کسی معجزاتی خوشی کا انتظار کرتے ہیںجب انہیں کوئی خوشی نہیں ملتی تو وہ اسلام سے بد ظن هہونے لگتے ہیں ۔ایسے میں کوئی فرد اس طرح کے جرم میں شریک ہوکر قصور وار ہوتا ہے اس صورت میں قرآنی آیات یاحدیث صحیح پر عمل کرنا چاہیے لیکن اسے آگے بھیج کر بدعقیدگی پھیلانے سے بچیں بصورت صحت حدیث وقرآنی آیات
3۔کبھی کبھار بہترین اقوال زریں لکھ کر اسے رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کیاجاتا ہے اس صورت میں قول،زندگی کے لیے کتنا بھی مفید ہی کیوں نہ ہو لیکن رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنےکے زمرے میں آئے گا ۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ؛

مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ(صحیح البخاری110)

جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔(واللہ اعلم بالصواب)

بیان کردہ مسئلہ کے عدم فہم پر دوبارہ سوال کرنا

اس شخص کا بیان جو کوئی بات سنے اور اس کو نہ سمجھ نہ سکے پھر اسکے بارے میںدوبارہ پوچھے یہاں تک سمجھ لے

14-103- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَا تَسْمَعُ شَيْئًا لَا تَعْرِفُهُ إِلَّا رَاجَعَتْ فِيهِ حَتَّى تَعْرِفَهُ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ أَوَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى(فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَتْ فَقَالَ إِنَّمَا ذَلِكِ الْعَرْضُ وَلَكِنْ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ يَهْلِكْ .

سعید بن ابی مریم، نافع ابن عمر، ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی زوجہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جببھی ایسی بات کو سنتیں جس کو نہسمجھ نہ پاتیںتو پھر دوبارہ اس میں تفتیش کرتیں، تاکہ اس کو سمجھ لیں۔چنانچہ (ایک مرتبہ) نبی کریم ﷺنے فرمایا (قیامت میں) جس کا حساب لیا گیا اس پر (ضرور) عذاب کیا جائے گا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں (یہ سن کر) میں نے کہا کہ اللہ پاک تو یہ فرماتا ہے کہ پس عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا (معلوم ہوا کہ حساب کے بعد عذاب کچھ ضروری نہیں) آپ نے فرمایا یہ حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے درحقیقت حساب نہیں بلکہ صرف پیش کردینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ کی گئی وہ یقینا ہلاک ہوگا۔
Ibn Abu Mulaika: Whenever Aisha (the wife of the Prophet) heard anything which she did not understand, she used to ask again till she understood it completely. Aisha said:Once the Prophet said “Whoever will be called to account (about his deeds on the Day of Resurrection) will surely be punished. I said Doesn’t Allah say: He surely will receive an easy reckoning. The Prophet replied “This means only the presentation of the accounts but whoever will be argued about his account, will certainly be ruined.

وروى بسندآخر حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ قَالَتْ قُلْتُ أَلَيْسَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى ( فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا) قَالَ ذَلِكِ الْعَرْضُ
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَتَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمٍ وَأَيُّوبُ وَصَالِحُ بْنُ رُسْتُمٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (وله متابعة رقمه:6536)

شرح الکلمات :
رَاجَعَتْ : مراجع یعنی دوبارہ سوال کرتی
حُوسِبَ : سوال وجواب کے ساتھ حساب لیاگیا
يَسِيرًا : آسان حساب
الْعَرْضُ : صرف حساب کے لیے بلایاگیا بغیر سوال وجواب
نُوقِشَ : سوال وجواب کیے گئے۔
يَهْلِكْ : ہلاک ہوجائے گا۔
تراجم الرواۃ :
1۔نام ونسب :سعید بن الحکم بن محمدبن سالم المعروف ابن ابی مریم الجمحی
کنیت:ابو محمد المصری
محدثین کے ہاں رتبہ :ابن ابی مریم امام نافع بن عمر الجمحی اور امام مالک اور امام اللیث رحمہم اللہ کےشاگرد تھے ۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت اور فقیہ تھے اورامام الذہبی رحمہ اللہ کےہاں الحافظ اورامام ابو حاتم رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
ولادت:امام ابن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی اور وفات ربیع الثانی 224ھ میں ہوئی۔
2۔ نام ونسب :نافع بن عمر بن عبد اللہ بن جمیل بن حذیم القرشی الجمحی المکی
محدثین کے ہاں رتبہ :نافع بن عمر کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثقہ ثبت ،صحیح الحدیث تھے۔
امام ابن معین اورامام النسائی رحمہم اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتےہیںکہ میں نے اپنے والد محترم سےان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا وہ ثقہ تھے ۔
وفات:169ھ کو مکہ المکرمہ میں وفات پائی۔
3۔نام ونسب :ابن ابی ملیکۃ کا اصل نام عبد اللہ بن عبید اللہ ابن ابی ملیکۃ زھیر بن عبد اللہ بن جدعان بن عمرو القرشی التیمی المکی القاضی
کنیت: ابو بکر بعض کہتے ہیں کہ ابو محمد تھی۔
محدثین کے ہاں رتبہ : ابن ابی ملیکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے مکہ المکرمہ کے قاضی تھے اور حرم مکی کے مؤذن تھے۔
تیس کے قریب صحابہ کرام سے ملاقات ثابت ہے اور ان میں سے بعض سے حدیث بھی روایت کرتے ہیں مثلاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن سیدہ اسماء رضی اللہ عنہااور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا عبد اللہ بن عباس ،سیدنا عبداللہ بن عمر،سیدنا عبداللہ بن عمرو اور ابی محذورہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ اور ابو حاتم رحمہ اللہ نے ثقہ کہاہے اور امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ فقیہ تھے ۔
ولادت : ابن ابی ملکیہ کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ولادت ہوئی اور 117ھ کو وفات پائی۔
4۔نام و نسب :
عائشہ بنت ابو بکر صدیق بن ابی قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن بن فہر بن مالک
کنیت:ام عبداللہ۔ لقب:حمیرا ،صدیقہ۔
ولادت: ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے یعنی9 شوال قبل ہجرت۔ہجرت سے 3برس پہلے 6سال کی عمر میں یعنی ربیع الاول 11ھ میں بیوہ ہوئیں۔
مناقب:صحیح بخاری میں سیدناابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بنت صدیق کی دیگر ازواج مطہرات پر فضیلت:
1نبی کریم ﷺ نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
2میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
3اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
4نبی رحمت ﷺ کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
5میں اور نبی اکرم ﷺایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔
6میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
7آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی، اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
8نبی اکرم ﷺکی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی (جب رسول اللہ ﷺکا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
9نبی کریم ﷺمیری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
0نبی معظم ﷺمیرے حجرے میں مدفون ہوئے۔
وفات:رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وفات پائی۔
تشریح :
اس حدیث میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے شوق علم اور سمجھ داری کا ذکر ہے کہ جس مسئلہ میں انھیں الجھن ہوتی، اس کے بارے میں وہ رسول اللہ ﷺسے بے تکلف دوبارہ دریافت کرلیاکرتی تھیں۔ اللہ کے یہاں پیشی تو سب کی ہوگی، مگر حساب فہمی جس کی شروع ہوگئی وہ ضرور گرفت میں آجائے گی۔ حدیث سے ظاہر ہوا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے توشاگرد استاد سے دوبارہ سہ بارہ پوچھ لے، مگرکٹ حجتی کے لیے باربار غلط سوالات کرنے سے ممانعت آئی ہےجیسا فرمان نبوی ﷺ ہے :

إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ (صحیح البخاری1477)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتابلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی ،لوگوں سے بہت مانگنا۔‘‘
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں۔ قسط 19

اکتیسواں اصول :

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)

’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو۔‘‘
یہ قرآنی وایمانی اصول ہے جس کالوگوں کی اجتماعی ومعاشرتی زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے‘ بلکہ تمام معاشرتی تعلقات کی بنیاد یہی قرآنی قاعدہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بیان کررہا ہے:

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)

’’اور تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیا کرو۔‘‘
اس اصول کو سمجھنے کے لیے یہ چیز مدد دیتی ہے کہ ہم آیت کا سبب ِنزول بیان کردیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’صحیح البخاری‘‘ میں سیدنا عبداللہ بن عباس wکے حوالے سے روایت کیا ہے کہ: ’’جب کوئی آدمی مر جاتاتو مرنے والے کے وارث اُس کی بیوی کے زیادہ حق دار ہوتے‘ اگر اُن میں سے کوئی چاہتا تواِس عورت سے شادی کر لیتا‘ اوراگر چاہتے تو اِس عورت کی شادی کسی اورمرد سے کر دیتے‘ اور اگر چاہتے تواِس عورت کی شادی ہی نہ کرتے۔ اِس عورت کے اپنے خاندان سے زیادہ یہ سسرالی خاندان کے لوگ اِس عورت کے زیادہ حقدار ہوتے۔ اس رواج کے حوالے سے یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ ڪ(صحیح البخاری:۴۳۰۳)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت کے ضمن میں یہ مستحکم قرآنی اصول بیان ہوا ہے‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

یٰٓـــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَحِلُّ لَــکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآئَ کَرْہًا وَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَـآ اٰتَـیْتُمُوْہُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّـاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَــیِّنَۃٍ وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَـعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا(النساء:19)

’’اے ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو۔ انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو کچھ تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اِن کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔ گو تم انہیں ناپسند کرو‘ لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔‘‘
اس آیت میں شوہروں کوحکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں‘ اور اچھے طریقے سے رہنے کا معنیٰ یہ ہے کہ عورت کا مہر‘ نان نفقہ‘ اور حقوق کی تقسیم پوری پوری کریں‘ اس سے تکلیف دہ بات نہ کریں‘ اس سے منہ موڑ کر دوسری کی طرف متوجہ نہ ہو جائیں‘ اور بغیر کسی گناہ یا وجہ کے اسے قہر آلود نگاہوں سے نہ دیکھیں۔جس نے بھی اس عظیم

قرآنی اصول:

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)

’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو‘‘ پر غور وفکر کیا ‘اسے یقین ہو جائے گا کہ قرآن حکیم واقعی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے‘ اور اس کی درجِ ذیل وجوہات ہیں:

پہلی وجہ :

زیر ِنظر اصول‘ اگرچہ اس کے کلمات بہت تھوڑے ہیں‘ تم دیکھ رہے ہو کہ یہ دو ہی لفظ ہیں‘ لیکن یہ اصول بہت عظیم معانی اور مفاہیم پر مشتمل ہے‘ جن کی شرح کی جائے تو بات لمبی ہو جائے گی۔ یہاں پر تو ہم بس روشنی ڈال رہے اور اشارے کر رہے ہیں۔دوسری وجہ: یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حسن سلوک کو عرفِ عام سے جوڑ دیا ہے اور کسی معین چیز کے ساتھ اِس کو خاص نہیں کیا ہے‘ کیونکہ یہ بات بہت واضح ہے کہ مختلف علاقوں میں عرف مختلف ہوتا ہے ‘ اور اس لیے بھی معین ومحدود نہیں کیا کہ شوہروں کی مالی ومعاشرتی حیثیت مختلف ہوتی ہے۔ اختلاف کی اور بھی بہت ساری صورتیں ہوا کرتی ہیں‘ مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت رہی ہے۔

یہ قرآنی اصول:

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء:19)

’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو‘‘ اپنے مفہوم میں بہت عظیم معانی لیے ہوئے ہے‘ اسی لیے دنیا میں اپنے وقت کے عظیم اجتماع میں جب رسول اللہﷺ نے عرفات کے میدان میں لوگوں سے خطاب فرمایا تو اِن حقوق کو ادا کرنے کی تاکید فرمائی۔

ایک مؤمن جب اس قاعدے کی بکثرت خلاف ورزی اور اس کے حدود سے متعلق لاپرواہی ہوتے دیکھتا ہے تو ُسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ بعض مرد وں کو صرف اپنے حقوق سے متعلق آیات یاد ہیںاور انہی کو دہراتے رہتے ہیں‘ اور جن نصوص (قرآنی آیات یا حدیث نبویہ) میں بیویوں کے حقوق کا بیان ہے اُن کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ایسے حقوق تلف کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔
دوسری طرف بیوی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہے اور جس حد تک ہو سکتا ہو اس کے حقوق کو ادا کرتی رہے۔ ایسا نہ ہو کہ چونکہ اس کا خاوند اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہ ہے ‘لہٰذا وہ بھی اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگے۔ بیوی کی ذمہ داری ہے کہ صبر کرے اور اجر کی طلبگار رہے۔
اِس امت کے سلف صالحین اِن عظیم نصوص کے مفہوم کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے اور اس قرآنی اصول کو بھی اچھی طرح جانتے تھے:

{وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}

’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیاکرو۔‘‘ اُمت ِ اسلامیہ کے عظیم عالم اور مفسر قرآن سیدنا عبد اللہ بن عباسi فرمایا کرتے تھے: ’’میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کے لیے خوبصورت بن کر رہوں‘ جیسا کہ مجھے پسند ہے کہ وہ میرے لیے خوبصورت بن کر رہے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ}

’’اور اچھائی کے ساتھ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں‘‘۔ اور مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اپنی بیوی سے اپنے پورے حق وصول کروں (اور خود اُس کی حق تلفی کروں) اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ(البقرۃ:228)

اور مردوں کا عورتوں پر ایک اضافی درجہ ہے۔‘‘
جناب یحییٰ بن عبدالرحمن الحنظلیؒ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے فرزند محمد بن الحنفیۃ رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا‘ آپ خوبصورت چوغے میں باہر تشریف لائے اور آپ کی داڑھی میں خوشبو چمک رہی تھی۔ میں نے دریافت کیا: یہ کیا ماجرا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’یہ چوغہ مجھے میری بیوی نے پہنایا ہے اور مجھے خوشبو بھی لگائی ہے‘ جیسے ہم پسند کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے تیار ہو کر رہیں ‘انہیں بھی پسند ہے کہ ہم ان کے لیے بن سنور کر رہیں۔‘‘اسلام کی نگاہ میںمیاں بیوی کے تعلقات کس قدر گہرے ہوتے ہیں‘ اسے اس قرآنی اصول نے مختصراً بیان کردیا ہے:

وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

’’تم عورتوںکے ساتھ بہت اچھے طریقے سے برتاؤ کیا کرو۔‘‘ یہ تعلق معروف (نیکی اوربھلائی) کی بنیاد پر قائم ہے یعنی دونوں میں سے کسی سے جو کمی کوتاہی ہو جاتی ہے ‘اس پر صبر کی بنیاد پر قائم ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے یہ تعلقات آگے نہ بڑھ سکتے ہوں تو معروف کے ساتھ جدائی کا حکم ہے۔
یہی طریقہ دونوں میاں بیوی کے عزت واحترام کا ضامن ہے۔ اس سارے عائلی نظام کی وجہ سے مؤمن کواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ اس نے ہدایت عطا فرمائی اور ایسی شریعت کے ساتھ اس کا تعلق ہے جو ہر اعتبار سے کامل ومکمل ہے۔ اور مؤمن ایسے گندے لکھاریوں اورخبیث نعروں کو شدید غیظ وغضب سے دیکھتا ہے جوایک طرف عورت کو‘ دوسری طرف مرد کو بھڑکا رہے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے اسے فریق ثانی کی کوئی بات نا پسند ہو تو وہ شرعی پابندیوں سے آزاد ہو جائے‘ اور یہاں یا وہاں حرام تعلق قائم کر لے۔
(جاری ہے)

بات بدلی ساکھ بدلی

سب کچھ الفاظ ہی کا ممنون ہے کائنات بھی ایک حکم کے نتیجہ میں معرض و جود میں آئی انسان کو انسانیت کا درس دینے کی تمام تر رہنمائی الفاظ ہی سے عبارت ہے ایک لفظ کہنے پر انسان اسلام سے کفر میں ،کفر سے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے ملکوں او ر حکمرانوں کےفیصلے بھی انہی الفاظ سے کیے جاتے ہیں گویاکہ قوموں کی آزادی اور غلامی کے فیصلے بھی الفاظ سے ہی کئے جاتے ہیں کیونکہ لفظ سے خیال پھوٹتا ہے خیال سےارادہ جنم لیتا ہے ارادے کی گود میں عمل کی پیدائش ہوتی ہے عمل سے عادت بنتی اور عادت کردار کی استاد ہے جس کی تراش خراش سے تمام شخصیت تشکیل پاتی ہے ۔یہ تمہید میں نےاس لیے باندھی ہے کہ آگے چل کر میں بتانا چاہوں گا کہ ہمیں الفاظ کا چناؤ اوراستعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈرز الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں برتتے جیسا موجود ہ حکومت نے چند دنوں پہلے انتخابی اصلاحات کےقانون میں ایمان کے لازمی جزو کو رسمی اقرار میں بدل دیا۔ نامزدگی فارم میں تبدیلی کر کے عقیدۂ ختم نبوت پر صدق دل سے قسم کی شرط ختم کر دی۔
نوازشریف کو پارلیمانی سیاست میں واپس لانے والے نئے قانون نے تو عقیدۂ ختم نبوت پر بھی وار کر ڈالا۔ نئے نامزدگی فارم کو منفرد بنا دیا گیا جس میں صدق دل سے قسم اٹھانے کے الفاظ حذف کرکے یعنی ختم نبوت کا اب زبانی، کلامی، سطحی، سرسری اور کھوکھلا اقرار ہی کافی ہے۔قانون ختم نبوت کی دیوار میں رخنہ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ جبکہ قادیانی اعلی حکومتی مناصب پر پہلے سے ہی براجمان ہیں ۔مگر ہمیں 7 ستمبر 1974کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یاد گاردن یاد رہنا چاہیے جب 1953اور1974کےشھیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی اوراسلامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئےکی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا ۔
دستور کی دفعہ 260میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہو ا ہے ’’جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر یامذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔’’
اسلام کو اس ملک میںکبھی کوئی خطرہ لاحق نہیںرہا اسلام ایک اخلاقی سماجی اور تہذیبی قوت ہے یہ اب اپنے و جود کی بقا کے لئے ریاست کا محتاج نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو انگریز کے دور میں ختم ہو گیا ہو تا اسے ترکی میں دم توڑدینا چاہیےتھا مسلمان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا جب ان کے پاس کو ئی سیاسی قوت نہ تھی اس کے باو جود نہ صرف باقی و قائم رہا بلکہ بین الاقوامی سیاست میں ایک بڑے اوراہم کردار کے ساتھ پھراس نےاپنا وجود منوایا ۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہےکہ اسلام ایک سیاسی عمل کا نتیجہ ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ آ ئی تو اسلام باقی نہیں رہے گایعنی ان کا خیال ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لئےاسلام آباد پر قبضہ ضروری ہے 

چا ہے اس کی کوئی بھی قیمت اد اکر نی پڑے ایمان فروخت ہو جائے، کردا ر داغ دارہو جائے قائدین کو سرعام جھو ٹ بولنا پڑےنصوص صریحہ کی من منائی تاویلیں کر نی پڑے ، ٹھنڈے کمروں اور لگژری گاڑیوں کے مزے لیتے ہوئے کہاں جائے ہم حالت جنگ میںہیں اس لئے ہر طرح کا جھوٹ جائز ہےاگر ایسا نہ کیا تو اسلام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کل تک جو چیز حرام تھی سیاست کے لیے حلال ہو گئی ہے۔کل تک جو چیز شیطان کہلاتی تھی آج وہ ذریعہ شہرت ہے جس پر کفر کے فتوےلگائے جاتے تھے آج وہ عین اسلام ٹھہری عوام کہاں جائے کس کی بات مانے ،مذہبی جماعتوں کی یا سیاست دانوں کی، سیاست دانوں کے بارے میں تو معروف ہے کہ وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بول کربھی کہتے ہیں یہ فیصلہ ہم قوم کے وسیع تر مفاد میں کر رہیں ہیں چاہے وہ حلال وحرام کے متعلق ہی کیوں نہ ہو مگر اسلام کے نام پر پلنے والی مذہبی جماعتوں اور تنظیموںکا کیا کریں کہ جو اسلام کے مسلمہ اصولوںکو اپنے دنیاوی مفاد ،اپنی سیاست کی خاطر تبدیل کر رہے ہیں عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ ہم مذہبی بن کر تواسلام کی خدمت نہ کرسکےاور اب سیاستدان بن کر ہم اسلام کی خدمت پہلے سے زیادہ کریں گے۔گویا کہ یہ جواب دیا جارہا ہے کہ ابھی ہمیں کھل کر جھوٹ بولنے دیں کل کوسیاسی لیڈر بن کراسلام کی خدمت وسیع پیمانہ پرکرکریں گے ۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والےان موسمی سیاستدانوں سے کوئی پوچھے کہ سادہ لوح عوام جو کہ اسلام ،جہاداور ختم نبوت پر مر مٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی اور جس عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی اسلام اور جہاد کے نام پر نچھاور کی،کیاانہوں نےآپ کو اس جھوٹ کے بازار میںسوداگر بننے کے لیےچندہ دیا تھا ۔کیا جھوٹ کا سہارا لے کر اسلام کی خدمت جائز ہے ؟یقیناًناجائز ہوگی تو پھر ان جماعتوں کوہوش کے ناخن لینے چاہیے کیونکہ برائی کبھی بھی اچھائی کی ترویج کا ذریعہ نہیںبن سکتی عوام سے جمع کیا گیا مال ان کے پاس امانت ہے جو انہیں اسلام کی تعمیر و ترقی اور ترویج کے لیے دیاگیا ہے اس امانت میں خیانت کا ارتکاب نہ ہی کیا جائے تو اسی میںہم سب کی دنیا وآخرت کی بھلائی ہے ۔
پاکستان میں امام کعبہ کی آمد:
مسجدالحرام کے امام وخطیب ڈاکٹرصالح بن عبد اللہ بن محمدبن حمیدحفظہ اللہ ورعاہ تین روزہ دورے پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی خصوصی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ڈاکٹر صالح کا شمارعالم اسلام کے چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے۔ وہ سعودی عرب میںسپریم علماء کونسل اور او آئی سی کے ذیلی ادارے مجمع الفقہ الاسلامی کے رکن بھی ہیں۔نیزڈاکٹرصالح نے مختلف موضوعات پرلاتعدادکتابیں تصنیف کی ہیں۔ علمی ودینی خدمات کے علاوہ وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے صدر بھی رہے ہیں۔ فی الوقت وہ شاہی کورٹ کے ایڈوائزر ہیں، جو وفاقی وزیر کے مساوی عہدہ ہے۔1404ھجری سے وہ مسلمانوں کی سب سے مقدس مسجد ،مسجد الحرام میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹرصالح اپنے دورہ ٔ پاکستان کے دوران مختلف تقریبات کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے لئے بڑےفخر کی بات ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے انکو مدعو کیا ۔ پاکستان اور سعودی عرب یکجان دو قالب ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ پاکستان میرا دوسرا وطن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے تین ضروری شرائط تقویٰ ،اخلاص اورحسن کارکردگی ہیں۔ دنیا میں وہ ممالک عدم استحکام کا شکار ہوئے جو اپنا اتحادواتقاق برقرار نہ رکھ سکے اور انتشار کا شکار ہوئے۔ذاتی مفاد کے بجائے ملکی و قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ اسلام آباد میں ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئےڈاکٹر صالح نے اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےسیدنا موسیٰ اورسیدنا ہارون علیہماالسلام کی مثال دی کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم راہ راست سے ہٹ گئی توسیدنا موسیٰ علیہ السلام نے واپس آکر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو ڈانٹا کہ انہیں کیوں نہیں روکا۔سیدناہارون علیہ السلام نے کہاکہ میں انہیں روکتا تو ان میں اتحادواتقاق نہ رہتا،یعنی کچھ میری بات مانتے اورکچھ نہ مانتے۔ اس سے اتحاد ویکجہتی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ڈاکٹرصالح نے کہاکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل اتحاد واتفاق میںمضمرہے۔ اسی سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ انہوں نے فرقہ واریت کوزہر قاتل قراردیا۔ حرمین شریفین کی امامت وخطابت بلاشبہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے اہم دینی منصب ہے۔ان ائمہ کرام کی تقر ری بھی انتہائی کڑی شرائط کی بنیاد پر خود سعودی فرمانروا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی باتوں کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ امام حرم کی فکر انگیزباتوں کو اپنےقومی وذاتی وجود پر عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب قرآن کریم میں بھی اختلاف وانتشارسےبچنے اور اتحادواتفاق کوقائم رکھے پر زوردیا گیا ہے۔

 

الشیخ عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ کے جانے سے رُت ہی بدل گئی

ابتدائے آفرینش سے اب تک کتنے انسان آئے ہیں اور کتنے چلے گئےماہرین بھی اندازہ نہیں لگا سکتے اور کوئی کتاب ان کے نام محفوظ نہیں کرسکی بعض ماہرین کو یہ کہنا پڑا کہ ممکن ہے ہمارے درودیوار بھی انسانوں کے جسموں سے بنے ہوں لیکن کچھ انسان ایسے بھی گزرے ہیں جن کے خاندان، علاقے اور مدفن تک کو ہم نہیں جانتے لیکن ان کے تعلق باللہ ، اعلیٰ اخلاق وکردار، خدمتِ خلق اور دین متین کی خدمت کی وجہ سے وہ آج بھی ہمارے دلوں میں ایسے زندہ ہیں جیسے بذاتِ خود ہمارے اندر موجود ہیں ان کے اقوال وافعال کی عزت وتکریم اپنے آباؤ اجداد اور دوست واحباب سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ایسی عظیم ہستیوں میں سے میرے محسن ومربی ، میرے شیخ ، شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد عبد اللہ امجد چھتوی رحمہ اللہ ہیں جنہیں لوگ رہتی دنیا تک یاد کرتے رہیں گے اور تاریخ کے اوراق ان کے لیل ونہار کو محفوظ رکھیں گے۔ (ان شاء اللہ)
وفات سے لے کر آج تک ان کے حالات لکھنے کا سوچتا رہا لیکن کیا قلم کروں ، کہاں سے شروع کروں اور کیسے ہمت کروں؟؟؟ آخر آج بہت کرکے لرزتے ہوئے قلم سے کچھ بے ترتیب جملے وکلام لکھ رہا ہوں اور سعادت مندی کی بیساکھی کے سہارے ہمت باندھ رہا ہوں۔
1 نام ونسب :
استاد محترم کا نسب نامہ یہ ہے : محمد عبد اللہ امجد چھتوی بن مولانا عبد العزیز بن جلال الدین ، قوم راجپوت ، فیروزپوری
2 ولادت ومسکن :
شیخ محترم کی ولادت باسعادت (قومی شناختی کارڈ کے مطابق) 1940 ہے آپ ہندوستان کے معروف ضلع فیروزپور کے علاقہ بینکانیر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرکے ضلع فیصل آباد کے مشہور قصبہ ستیانہ بنگلہ کے مشرق میں واقع گاؤں 36 گ ب میں سکونت اختیار کی اس وجہ سے آپ کو ’’چھتوی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ یہ گاؤں قیام پاکستان سے لے کر اب تک بہت سے علماء وصلحاء کا مسکن ومرجع رہا ہے۔
3تعلیم :
شیخ موصوف ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد محترم مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں اپنے گاؤں کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے رہے ہیںاور ناظرہ قرآن، احوال الآخرت، زینت الاسلام اور دیگر علمی وتربیتی کتب کی تعلیم باقاعدگی سے دیتے رہے ہیں حتیٰ کہ عید کے دن بھی چھٹی نہ کرتے تھے اور گندم کی کٹائی کے ایام میں طلباء کو گاؤں کے متصل کھیت میں درخت کے نیچے کلاس لگاتے تھے۔ ایسے مذہبی اور علم دوست آدمی اپنی اولاد کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں اس لیے شیخ موصوف نے ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والد محترم سے حاصل کی پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اوڈانوالہ(ماموں کانجن) تشریف لے گئے ابتدائی تین سال کے بعد ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) میں علمی تشنگی بجھانے کے لیے تشریف لے گئے۔1957 میں اسی جامعہ سے سندِ فراغت حاصل کی۔
آپ کے معروف اساتذہ کرام میں چند مندرجہ ذیل ہیں :
شیخ الحدیث حافظ محمد عبد اللہ بڈھیمالوی، مولانا عبدہ الفلاح، مولانا پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا محمد صادق خلیل، حافظ محمد بھٹوی، حافظ محمد اسحاق، مولانا عبد الرؤوف رحمہم اللہ اجمعین
4 درس وتدریس :
شیخ محترم نے جامعہ محمدیہ (اوکاڑہ) سے 1957ء میں فراغت حاصل کی تو مولانا معین الدین لکھوی نے تدریس کے لیے شیخ موصوف کو جامعہ میں استاد رکھ لیا۔
1960 میں تدریس کے لیے پنجاب کا معروف ادارہ کلیۃ القرآن(فیصل آباد) میں تشریف لےگئے اور چار سال تک اسی ادارہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے پھر 1964 میں امیر جماعت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے حکم پر جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) تشریف لے گئے ادھر جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) والے اپنے ادارہ میں لانے کے لبے بہت کوشاں تھے آخر کار شیخ موصوف کے استاد محترم مولانا عبدہ الفلاح اور مولانا معین الدین لکھوی کے اصرار پر دوبارہ جامعہ محمدیہ تشریف لے آئے اور 1967 میں اپنے شیخ عبدہ الفلاح کی جگہ صحیح البخاری کی تدریس شروع کر دی اور صحیح البخاری کی تدریس کایہ سلسلہ زندگی کے آخری دن تک جاری رہا۔
جامعہ محمدیہ ( اوکاڑہ) میں تقریبا 16 سال تدریس فرمائی پھر جامعہ اشاعت الاسلام 149 ای بی (عارف والا) میں 12 سال تک تدریس کی اور 1992 میں مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں تشریف لائے اور 14 اگست 2017 تک صحیح البخاری اور دیگر کتب اسی ادارہ میں پڑھاتے رہے۔
5 طرز زندگی :
بفضل اللہ تعالیٰ راقم الحروف کو 26 سال تک شیخ محترم کے زیر سایہ درس وتدریس کا شرف حاصل ہے جس دن استاد محترم ستیانہ بنگلہ میں تشریف لائے تھے تو سب سے پہلا درس بلوغ المرام کی کلاس کا دیا تھا جس میں بندئہ خاکسار، ذرہ بے مقدار کو حاضری کا شرف حاصل ہوا تھا اور زندگی کے آخری دن صحیح البخاری کا درس دے رہے تھے تو درس کا کچھ حصہ سننے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے جب آخری دن طلباء کو صحیح البخاری کا درس دے رہے تھے اور میں دیگر اساتذہ کرام کے ہمراہ کلاس میں گئے تو شیخ محترم اس آیت کریمہ

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرۃ:177)

کی ترکیب نحوی اور تفسیر بیان کر رہے تھے۔
لمبی رفاقت وصحبت کے دوران میں نے شیخ محترم کو اسم بامسمیٰ پایا آپ حقیقتاً عبد اللہ اور امجد تھے کتاب وسنت اور سلف کے منہج پر سختی سے کاربند تھے اور طرز زندگی عین تعلیمات اسلامیہ کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ فقہی مسائل کا استنباط کرنے اور اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرنے میں ان کا ثانی نہیں دیکھا ۔ فی البدیع درس وتدریس اور فتوی اس انداز میں فرماتے کہ سننے والا سمجھتا کہ آپ اس موضوع پر اسپیشل تیاری کرکے آئے ہیں ۔ مجھے جب کبھی بھی قرآن،حدیث،عربی گرائمر،اصول حدیث، اصول فقہ، وراثت اور ادب وغیرہ کی پیچیدگی محسوس ہوتی تومیں شیخ محترم سےپوچھ لیتا تو آپ چند الفاظ میں ایسا حل فرماتے جیسے ابھی کتاب سے یہ مقام پڑہ کر آرہے ہیں بعض اوقات کوئی مسئلہ درپیش ہوتا اور بذریعہ فون پوچھتا تو سوال کی تکمیل ہونے سے پہلے مکمل جواب دے دیتے اور ساتھ کئی کتب کا حوالہ دے دیتے کہ مکمل تفصیل وہاں سے پڑھ لیں۔ بہت سارے سفروں میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا تو دورانِ سفر کام جمع شدہ مسائل کا حل پوچھ لیا جاتا تو شیخ محترم خوش گوار ماحول میں حل فرماتے جاتے میں کبھی کبھی مخالف دین کے اعتراضات پیش کر دیتا تو وہ بڑی وجاہت سے جواب دیتے اور ساتھ ہی اعتراض پر چند اعتراضات کر دیتے جس کا میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا تو پھر خود اس کا جواب بھی دے دیتے۔
اگر میں سوال نہ کرتا تو خود ہی کوئی اپنا یا قریبی اسلاف کا واقعہ سنانا شروع کردیتے خصوصاً جس علاقہ سے گزر رہے ہوتے تو وہاں کا پیش آمدہ واقعہ بڑی دلچسپی سے سناتے۔
اور سفر میں ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے باربار کھانے پینے کا بھی پوچھتے رہتے ایک دن دورانِ سفر گفتگو کے دوران اپنا سرخ عربی رومال مجھےدے دیا میں نے کہا رومال نہیں بلکہ ٹوپی دیں شیخ محترم نے سیاہ رنگ کی جناح کیپ پہن رکھی تو فوراً اتار کر مجھے دے دی ، مجھے اس پر شرمندگی ہوئی لیکن میں نے جناح کیپ پکڑ کر کہا ’ ’ اب یہ میری ہوگئی لیکن اب آپ کو دیتا ہوں پھر کبھی لے لوں گا شیخ محترم فرمانے لگے میں نے حقیقتاً دل سے دی ہے(آج مجھے جناح کیپ دینے کی تعبیر سمجھ آئی ہےاور علم آگے کچھ نہیں لکھ رہا …. )
دوران سفر جب کسی اسٹاپ سے گزرتے تو شیخ خود بھی نظریں گھما کر دیکھتے اور ہمیں بھی کہتے دیکھ کوئی طالب علم یابارش میں کوئی آدمی کھڑا ہوتو سوار کرلیں کبھی کبھی ہم عرض کرتے کہ استاد جی حالات درست نہیں ہیں اس طرح راہگیر کو سوار نہ کیا کریں وہ ہنس کر فرماتے ہم سے کسی نے کیا لے لینا ہے کسی بے چارے کا بھلا ہوجائے گا۔
بعض مدرسین تدریس کے حوالہ سے اچھی گفتگو کر لیتے ہیں لیکن خطابت میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن استاد محترم کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ عطا فرمایا تھا کہ مجلس ، موقع محل اور حاضرین کے حالات کے مطابق بہترین گفتگو فرماتے تھے خطاب کے افتتاح پر اکثر سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوتا اور تقریر سے زیادہ وقت سوال وجواب کی نشست میں صرف ہوجاتا لیکن بغیر کسی گبھراہٹ وتنگی کے عمدہ اسلوب میں جواب دیتے جاتے۔ طلباء واساتذہ کرام کی بہت تکریم کرتے تھے ناظم ادارہ سے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو طلباء واساتذہ اپناملجا وماوی شیخ محترم کو سمجھتے اور ان کی خدمت میں اپنا مسئلہ پیش کرکے مطمئن ہو جاتے کہ اب مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ میں نے اپنے ناقص قلم سے آپ کے کون کون سے اوصاف حمیدہ درج کروں مختصر یہی ہے کہ آپ بیک وقت عظیم مفسر، محدث، فقیہ،محقق،مدرس،مفتی،خطیب ، مناظربھی تھے۔
6جماعتی وملی سرگرمیاں :
شیخ موصوف صاحب جس طرح دعوت وتبلیغ اور درس وتدریس میں ہمہ وقت سرگرم رہتے تھے اسی طرح جماعتی سرگرمیوںمیں بڑے ذوق واہتمام سے حصہ لیتے تھے۔ اور جماعتی کام کو بہت ترجیح دیتے اس سلسلہ میں بعض اوقات طویل سفر اور اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے تو گریز نہ کرتے تھے اس سلسلہ میں آپ کی خدمات کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
1953 میں تحریک ختم نبوت میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اس وقت شیخ موصوف جامعہ محمدیہ(اوکاڑہ) کی چوتھی کلاس میں جاکر داخل ہوئے تھے تو مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ نے ان کے ذمہ لگایا کہ ختم نبوت کے موضوع پر تم نے جمعہ کا خطبہ دیناہے شیخ موصوف نے معذرت کی کہ میں اس سال اس جامعہ میں آیا ہوں اور اساتذہ کرام کی موجودگی میں کیسے خطبہ دے سکتا ہوں لیکن لکھوی رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ تم نے ہی جمعہ پڑھانا ہے چنانچہ استاد محترم نے اس انداز میں خطبہ دیا اور حکومت کی غلط پالیسی کا رد کیا کہ دوران خطبہ میں گرفتاری کے آرڈرجاری ہوگئے اس طرح 1974 میں تحریک ختم نبوت کے سلسلہ میں واضح الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا اور کتاب وسنت کے دلائل عوام کے سامنے رکھے اور اس سلسلہ میں تین مرتبہ شیخ محترم کوجیل بھی جانا پڑا۔1977 میں تحریک نظام مصطفیٰ میں بھی بھر پور حصہ لیا اور عوام کو اس مقصد کے لیے تیار کیا۔
7 أنت ترید وأنا أرید واللہ یفعل ما یرید
14 اگست 2017کا دن بڑے تزک واحتشام سے گزر چکا تھا اور 15 اگست کادن آنا چاہتا تھارات کو سوتے وقت دیر تک میں قیام پاکستان اور اپنے اسلاف کی قربانیوں ومصائب کا نقشہ بنا کر ذہن میں گھما رہا تھا اور اسلاف کی بے شمار قربانیوں سے بے وفائی پر افسوس بھی کر رہا تھا اور انہی خیالات میں مسنون اذکار بھی پڑھنا جاری تھا اور نیند کا غلبہ ہوگیا صبح تقریباً 10:3 بجے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی میں الارم کی گھنٹی سمجھ کر بند کر دی چند لمحات بعد شعور بیدار ہوا اور اس نے آگا کیا کہ یہ آلارم والی گھنٹی نہیں ہے چنانچہ اُٹھ بیٹھا اور موبائل کو چیک کیا تو مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ کے ناظم تبلیغ مولانا نصر اللہ صاحب کی کال تھی یہ دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ اس وقت کال کیوں؟ خیر ہو ، جلدی سے فون کیا تو آگے سسکیاں بندھی رونے کی آواز تھی وہ مجھے بتلانے کے لیے استاد جی کا لفظ بولتے اور سسکیاں غالب آجاتیں اور لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ میرے دل نے فوراً دبے الفاظ میں کہا : دو میں سے ایک نہیں ، اتنے میں مولانا نصر اللہ رحمہ اللہ نے ہمت باندھ کر بتلایا کہ استاد محترم چھتوی صاحب رحلت کرگئے ہیں ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
پھر کیا ہوا یہ وہ جانتا ہے یا میں جانتا ہوں۔
جی ہاں ! یہ 15 اگست 2017 کی سحری 45:2 بجے کا وقت تھا جس وقت شیخ محترم تہجد اور تلاوت قرآن کے لیے بیدار ہوتے تھے لیکن آج زندگی کی بیداریوں کا ثمرہ پانے کے لیے ہمیشہ کی نیند سوگئے تھے آناً فاناً خبر اندرون وبیرون ملک پھیل چکی تھی اور عصر کے بعد نماز جنازہ کا وقت مقرر کر دیا گیا جسے استاد محترم کی زندگی میں مجھے سعادت کے کئی کام نصیب ہوئے اس طرح ذات الٰہی نے یہ سعادت بھی نصیب فرمائی کہ غسل دینے کا موقع ملا۔ غسل کے وقت تن سے کپڑے اتارنے کی ہمت نہ ہورہی تھی آنسووں کےساتھ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا تھا ، میری یہ کیفیت دیکھ کر دوسرے ساتھی نے تعاون کروایا(اللہ اسے جزاء خیر عطافرمائے) دورانِ غسل میں نے کیا کچھ محسوس کیا اس سے زبان اور قلم دونوں معذرت خواہ ہیں۔
بس اتنا ہی عرض کر دیتا ہوں کہ جب معاون ساتھی دیگر اعضاء کو غسل دیتے تو میں چہرہ سے ہاتھوں میں لیے ہونٹوں کو تکتا اور زندگی بھر جن ہونٹوں سے قال اللہ تعالیٰ ، قال رسول اللہ ﷺ ادا ہوتا رہا مجھے اس وقت بھی یہی الفاظ ہونٹوں سے نکلتے محسوس ہو رہے تھے مجھے محسوس کیوں نہ ہوں، شیخ محترم کی وفات کے دنمجھے خواب میں ملے کہ میں ایک باغ میں عید الاضحی کی نماز پڑھانے جلدی جلدی جارہا ہوں آموں کے درختوں کے نیچے شیخ محترم کی چارپائی رکھی ہوئی ہے اور لوگوں کا ہجوم ہے، مجھے دیکھ کر لوگ پیچھے ہٹ گئے اور کہنے لگے مولانا صاحب بتلائیں گے کہ شیخ صاحب کا زندہ ہیںیا وفات پاگئےمیں نے دیکھا تو آپوفات پاچکے ہیں لیکن داڑھی مبارک آہستہ آہستہ حرکت کر رہی ہے جیسے کو ئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں میں نے دل میں کہا کہ شیخ صاحب تو وفات پاگئے میں نے خود غسل دیا ہے لیکن زندگی بھر کتاب وسنت پڑھنے پڑھانے کی وجہ سے کرامت کے طور پر اب بھی وظائف ادا کر رہے ہیں۔ ( أو کما رأیت)
نماز جنازہ کا اہتمام گورنمنٹ ہائی اسکول ستیانہ بنگلہ کے دو متصل وسیع میدانوں میں کیا گیا تھا اور تصور یہ تھاکہ یہ جگہ کافی ہوگی لیکن جلدی دونوں میدان تنگ ہوگئے ، ستیانہ پل سے لیکر ہائی اسکول تک دونوں روڈ اس طرح کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے کہ پانچ سات منٹ کا سفر میں نے بھی 25 منٹ میں بمشکل طے کیا اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول سچ ثابت ہورہا تھا۔

الفرق بیننا وبینکم یوم الجنائز

ملک بھر کے نامور شیوخ الحدیث ،مدرسین،خطباء، مصنفین میں سے شاید ہی کوئی نہ پہنچا ہو بلکہ ہرکوئی نمازجنازہ میں شرکت اپنے لیے سعادت سمجھ رہا تھا اور تمنا کر رہا تھا کہ کاش ایسی سعادت ہمیں بھی نصیب ہوجائے۔
پھر جس رقت آمیز انداز میں مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ نے نماز جنازہ پڑھایا کہ ہر آنکھ صرف اشکبار ہی نہ تھی بلکہ سسکیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع تھا اور اکثر کی سسکیاں بلند آواز سے رونے میں تبدیل ہورہی تھیں ہر خاص وعام کی زبان پر یہی تھا کہ آج تک اس طرح کا جنازہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ حتی کہ بعض اسکول وکالج کے اسٹوڈنٹ نے اعلان کر دیا کہ آج کے بعد ہم دینی تعلیم ہی حاصل کریں گے اور بہت سے والدین نے عزم کر لیا کہ ہم اپنی اولاد کو دینی تعلیم دلائیں گے اور بعض نے متأثر ہوکر مسلک اہلحدیث قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور بعض نے اپنے بچوں کا نام عبد اللہ امجد رکھ دیا۔ ایک متعصب حنفی کہنے لگا کہ نماز جنازہ میں اتنی بڑی تعداد اہلحدیثوں کی نہیں ہوسکتی اتنی تعداد تو ان کی ملک میں بھی نہیں ہے اس سے پوچھا گیا پھر جنازہ میں شریک ہونے والے اتنے افراد کون ہیں ؟ تھوری دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے لگا یہ تقریباً تمام سفید لباس میں تھے اور تمام خوبصورت داڑھی والے تھے ایسے لگتا ہے جیسے فرشتے جنازہ میں آئے ہیں کیونکہ اتنی تعدادوہابیوں کی نہیں ہوسکتی۔

راقم نے1995 میں پنجاب پبلک سروس میں لیکچرار کے لیے امتحان دیا تو عربی واسلامیات دونوں میں اچھی کامیابی ملی۔ مولانا عتیق اللہ سلفی حفظہ اللہ کی ترغیب اور خود دعاؤں استخارہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ مدرسہ میں خالص کتاب وسنت کی تعلیم دینا زیادہ بہتر ہے اس لیے کالج والا ذہن ختم کر دیا کئی دوست واحباب مشورہ دیتے رہے کہ کالج کی زندگی بہتر تھی وہاں تبلیغ کے بہت زیادہ مواقع میسر ہوتے ہیں اور دنیاوی لحاظ سے بھی پریشانی نہیں ہوتی کبھی کبھی انتظامیہ کے رویہ سے پریشان ہوکر ذہن میں معمولی سا خیال آجاتا کہ کالج والا راستہ شاید بہتر تھا لیکن شیخ محترم کے جنازہ کو دیکھ کر کبھی کبھار آنے والا تصور بھی ختم ہوگیا اب میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے بالکل صحیح فیصلہ کرایا اور اس پر ذرہ برابر بھی دل میں دوسرا خیال نہیں ہے۔
شیخ موصوف کا جس طرح جنازہ ستیانہ کی تاریخ میں منفرد تھا اس طرح ان کے آبائی گاؤں 36/گ ب میں دوسرا نماز جنازہ ہوا جسے فضیلۃ الشیخ حافظ عبد العزیز علوی حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ نے پڑھایا اور وہ جنازہ بھی چک 36 گ ب کی تاریخ کا منفرد جنازہ تھا اس طرح علم وعرفان کے اس آفتاب کو نماز مغرب کے بعد چک 36 گ ب کے قبرستان میں فضیلۃ الشیخ عبد الشکور شاہ صاحب رحمہ اللہ کی قبر کے قریب دفنایا گیا آہ شیخ محترم کے چلے جانے سے رُت ہی بدل گئی اور زندگی کا مزہ تبدیل ہوگیا مولائے کریم سے صبح وشام دعا گوہوں کہ میرے استاد، میرے شیخ کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔

مومن کی داڑھی۔ ریشِ مومن

لوگوں کے داڑھی کے بارے میں مختلف تصورات پائے جاتے ہیں بہت سے لوگ تو وہ ہیں جو نہ صرف داڑھی منڈواتے ہیں بلکہ داڑھی کا انکار کرتے ہیں اور اس کا مذاق آڑتے ہیں انکے کفر میں کوئی شبہ اور اندیشہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :

قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ

کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔( التوبۃ 65)
مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہے جو داڑھی کا انکا ر یا استہزاء تو نہیں کرتی بلکہ اسکو شریعت کا حکم تسلیم کرتی ہے لیکن داڑھی رکھتی نہیں ہے شریعت کی رو سے یہ لوگ کافر نہیں فاسق ہیں۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو داڑھی رکھ تو لیتے ہیں مگر سنت پیغمبری اور حکم شرعی کے اعتبار سے نہیں بلکہ اپنے پیروں صوفیوں لیڈروں اور کنجر مراسیوں کی تقلید کرتے ہوئے داڑھی رکھتے ہیں انہیں اسلامی شریعت سے کوئی سرو کار نہیں۔ چہرے پر ایک لکیر سی داڑھی ٹھوڑی پر (French cut)داڑھی ،خشخشی داڑھی اور کئی نام سے منصوب داڑھی سب غیر فطری اور غیر شرعی ہیں بلکہ داڑھی کااستہزاء ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا تو اس کے عموم میں داڑھی کٹانا بھی شامل ہے کیونکہ اسے منڈوانا،تراش و خراش اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے ۔ داڑھیکو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائےاسے پوراپورا رکھا جائے شیطان کی پیروی نہ کی جائےجیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا

اور انہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا۔(سورۃ النساء آیت 119)
اسی طرح اللہ کا فرمان ہے کہ :

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (سورۃ الروم آیت 30)
امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یعنی داڑھی کو کاٹنا مجوسیوں کا طریقہ ہے اور اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا ہے۔(حجۃ اللہ البالغۃ ص153جلد1)
دنیا بھر میں مغربی تہذیب و تمدن کے غلبہ کے نتیجے میں جو بہت سی معاشرتی ،تہذیبی،اخلاقی خرابیاںاور رسمیں عام ہوئیں اور دینی شعائر سے رو گردانی کی وبا پھیلی ان میں داڑھی کا کتروانا(منڈوانا)سب سے نمایاں بگاڑ ہے عصر حاضر میں بعض لوگ داڑھی منڈواتے ہیں یا غیر شرعی طریقہ سے پست کراتے ہیں لہذاکسی کو شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید کسی نہ کسی عالم نے اس کی اجازت دی ہو یا کچھ نہ کچھ گنجائش اس بارے میں ہو در حقیقت یہ شبہ بالکل بے بنیاد ہے کسی بھی عالم سے اس طرح داڑھی پست کرانے یا داڑھی نہ رکھنے کی کسی قسم کی اجازت نہیں ملتی ۔لوگ داڑھی کے احکام سے بالکل ناواقف ہیں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ داڑھی رکھنا سنت ہے حالانکہ داڑھی رکھنا واجب ہے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو عشق رسول ﷺ کانعرہ بہت زور و شور سے لگاتے ہیں لیکن وہ لوگ حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کی صورت کو بھی پسند نہیں کرتے ہیں کہ داڑھی نہیں رکھتے ۔
داڑھی منڈوانا یا ناجائز طریقے سے کٹانا یہ ایک شیطانی فعل اور گناہ ہے جو ایک لحاظ سے دوسرے گناہوں سے بد تر ہے کیونکہ دوسرے گناہ کسی خاص وقت میں ہوتے ہیں ہمیشہ نہیں ہوتے مگر داڑھی کٹانے کا گناہ ہر وقت 24گھنٹے ساتھ لگا ہوا ہے داڑھی رکھنا نبی کریم ﷺ کی سنت داڑھی رکھنا نبی کریم ﷺ کی ہی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء کرام ؊ کی ایک ایسی سنت ہے کہ عمل کرنے والےکو 24 گھنٹے ثواب ملے گا جہاں تک تاریخی معلومات کا تعلق ہے داڑھی منڈوانا جو ایک شیطانی تعلیم ، خبیث عمل ہے اسکی ابتداء سیدنا لوط ؈کی قوم کےبد چلن اور اوباش لوگوں سے ہوئی ان کے مردوں کو جب داڑھیاں آجاتی تھی تو نوعمر ہی رہنے کی غرض سے وہ داڑھی منڈاوایا کرتے تھے ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا دس خصلتیں ایسی ہیں جو قوم لوط میں تھیں جنکی وجہ سے وہ ہلاک ہوئی ان میں داڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی شامل ہیں (ابن عساکر )
نہایت افسوس ہے کہ آج کا مسلمان جن میں بہت پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں داڑھی کٹواکر قوم لوط کے بد معاشوں اور اوباشوں کی اندھی تقلید اور پیروی کر رہے ہیں اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنت اور جملہ صلحاء امت کا طریقہ چھوڑدیتے ہیں ۔ داڑھی منڈوانے یا کٹوانے والے کی اطاعت رسول ﷺ میں خلل ہے ایسے شخص کو توبہ کرنی چاہیے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے داڑھی پوری رکھنی چاہیے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں (بخاری 5063)
اس حدیث کا معنی ہے کہ جو شخص میرے اس طریقے سے جس پر میں ہوں اعراض کرے تو وہ مجھ سے نہیں ہے کیونکہ اس نے ایک ایساطریقہ اختیار کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے خلاف ہے ایک مسلمان پر بحیثیت مسلمان فرض ہے کہ اللہ ﷻاور اسکے بھیجے ہوئے پیغمبرمحمد ﷺ کی ہر بات اور ہر حکم کو بلا چوں چراں دل وجا ن سے قبول کرے اور عمل کرے۔ مونچھیں کٹوانے والے اور داڑھی بڑھانے کو ان امور میں شامل کیا ہے جن کا تعلق فطرت سے ہے۔(بخاری 5889) مسلمانوں کو اپنے دینی شعار (داڑھی )کی قدر کرنا چاہیے اور اس کو شرم کے بجائے فخر سمجھنا چاہیے ورنہ مسلمانوں، کفار اور منافق کے مابین امتیاز باقی نہیں رہے گا ۔
نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی (مسلم2344)
داڑھی کی حد جیسا کہ اہل لغت نے ذکر کیا ہے چہرے ، دونوں جبڑوں اور دونوں رخساروں کے بالوں تک ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى

مونچھیں خوب کتروالیا کرو اور داڑھی کو معاف کردو (یعنی بڑھاؤ )۔(بخاری 5893)

وضو میں داڑھی کا خلال کرنےے کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے بہت سی روایات منقول ہیں اور خلال کرنے کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے کہ جب داڑھی گھنی اور لمبی ہو۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ، فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ

جب رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا تو داڑھی مبارک کا خلال فرمایا۔(ابن ماجہ)
اسلامی بھائیوں ،دنیا والوں کی فکر چھوڑ دیں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کریں نبی کریم ﷺ کافرمان ہےاللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اطاعت صرف نیکی میں ہے (البخاری :4340)اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

اےایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔(سورۃ البقرہ آیت 208)
آپ نے داڑھی کے احکام پڑھ لیے ہیں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خالص عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب عملی رہنمائی کا ذریعہ بھی ہے اسلام اللہ تعالی کا آخری دین ہے اس کے علاوہ کوئی دین اللہ کے ہاں منظور نہیں ہے۔کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی سنت اور تعلیمات کیا ہیں ۔
اللہ تعالی کا حکم ہے ،دین اسلام میں جہاں داڑھیاں بڑھانے کا حکم ہے وہاں مونچھیں پست کرانے کا بھی حکم ہے ،نبی کریم ﷺ کی جتنی بھی احادیث ہیں ان میں مونچھیں خوب کتر وانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم آیا ہے الغرض احادیث میں کہیں بھی حلق (ریزر سے منڈانا) کرنے کاحکم نہیں آیا ،آج ہمارے بہت سے بھائی یہ کام کر رہے ہیں ۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی تحریر فرماتے ہیں مونچھ کا کتروانا اس قدر کر کہ لب کے برابر ہو جا ئے(بہشتی زیور 11حصہ 115)
مونچھیں رکھنی ہیں تو اوپرکےہونٹ کا کنارہ صاف رکھنا مسنون ہے ،مونچھوں کو اتنابڑھانا کہ یہ کنارہ چھپ جائے حرام ہے ۔دنیا داروں کی نظروں میں فیشن ایبل اور مہذب بننے کے لیے فطرت اسلام کے خلاف عمل کرنا ہے جو کہ درجہ بدرجہ ذلالت وحماقت ہے ،مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میں نبی کریم ﷺ کی سنت کو دیکھے اور اس کے مطابق ساری زندگی بسر کرے ۔
مونچھیں بڑھانے والے شخص سے رسول اللہ ﷺ نے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے اور فرمایا ہے جس نے اپنی مونچھوں کا نہیں تراشا وہ ہم میں سے نہیں ۔(ترمذی 2909)
شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس معنی پر دلالت کرتی ہے کہ مونچھوں کا وہ حصہ جو ہونٹوں پر گرے اسے تراشنا چاہیے ۔ ساری مونچھوں کی صفائی جس طرح بعض صوفی اور شدت پسند لوگ کرتے ہیں جیسا کی امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا مسئلہ ہے اور اسی طرح میں نے ایک دوسری حدیث میں پڑھا کے حجام نے صرف آپ ﷺ کی زائد مونچھیں تراشی تھی (بدعت انسا ئیکلوپیڈیا )
جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ ﷺکی مخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ ٹھرنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔(النساء 115)
قران کریم کی یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کسی اور راستے کی پیروی کرنا سراسر گمراہی ہے ،جس پر یہاں جہنم کی وعید بھی سنائی گئی ہے ۔سبیل مؤمنین سے مراد صحا بہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو کا ر ہیں اور اسکی تعلیمات کا کامل نمونہ ہیں اور ان آیا ت کے نزول کے وقت ان کے سوا ء کوئی گروہ ِ مؤمنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو ۔اسی لیے اتباع رسول ﷺ کی مخالفت اور غیر السبیل المؤمنین کی اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے اسی لیے صحابہ کرام کے راستے اور منہج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہے (تفسیر احسن البیان)
رسول اللہ ﷺ کا فرما ن ہے :میری ساری امت جنت میں جائی گی سوائے انکے جنہوں نے انکار کیا ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!بھلا انکار کون کرے گا ؟فرمایا: کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائےگا اور جو میری نافرمانی کرے گا گویا اس نے انکار کیا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے اور آپ ﷺ کی سنتوں پر صحیح طریقے سے عمل کرنے والا بنائے ،ہم سب کو دین کی سمجھ اور خالص عمل کرنے کی توفیق عطاءفرمائے اور دآخرت میں نبی کریمﷺ کی معیت نصیب فرمائے ۔(آمین)

امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے بوڑھے

بوڑھوں کے لئے شرعی و معاشرتی رخصتیں:

دین اسلام کی بہت سی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں احکام شریعت پر عمل کرنے کے اعتبار سے عمل کرنے والوں کو انکی استطاعت کے مطابق تکلیف دی گئی ہے،اور ان پر اسی قدر مشقت ڈالی گئی ہے جسے وہ آسانی سے برداشت کرلیں،اور عمل کرنے کے دوران انہیں سختی اور بے جا مشقت نہ سہنی پڑے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَمَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ

اس نے دین کے سلسلے میں تم پر سختی نہیں کی۔ (الحج:78)
شریعت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلاۃ والسلام کا مقصد انسانوں پر سختی کرنا نہیں،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

مَا یُرِیدُ اللهُ لِیَجْعَلَ عَلَیْكُمْ مِنْ حَرَجٍ

اللہ تعالیٰ نے قصد نہیں کیا کہ وہ( دین کے سلسلے) میں تم پر سختی کرے۔(سورۃالمائدۃ:06)
بلکہ اللہ تعالیٰ اس دین کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ آسانی اور نرمی کا ارادہ رکھتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:

یُرِیدُ اللهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے (دین کے سلسلے میں)آسانی کرنا چاہتا ہے نہ کہ وہ تمہارے لئے سختی چاہتا ہے۔(سورۃ البقرۃ:185)
نیز نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدِّینَ یُسْرٌ (صحیح بخاری:39)

بلاشبہ یہ دین آسان ہے۔
نیز فرمایا:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ , إِنَّكُمْ لَنْ تَفْعَلُوا , وَلَنْ تُطِیقُوا كُلَّ مَا أُمِرْتُمْ بِهِ , وَلَكِنْ سَدِّدُوا وَأَبْشِرُوا (سنن ابی داؤد:1098،ارواء الغلیل:616)

اے لوگو!تم ایسا ہرگز نہیں کرسکتے کہ ہر وہ کام جسکا تمہیں حکم دیا گیا تم اس پر عمل کرلو، البتہ تم اعتدال کی راہ اختیار کرو اور خوشخبری حاصل کرو۔
اور جو شخص دین اسلام پر عمل کرنے میں بے جا سختی اور تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اسے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوتی بلکہ مشقت سہنے کے علاوہ اسے نبی كکریم ﷺ کی بیان کردہ ملامت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا:

هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ (صحیح مسلم ،کتاب العلم،باب ھلك المتنطعون)

’’تشدد اختیار کرنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘
نیز اس طرح ممکن بھی نہیں کہ کوئی شریعت کی سو فیصد اتباع کرے ،شرعی رخصتوں سے فائدہ نہ اٹھائے ،صرف عزیمتوں پر عمل کرتا رہے کیونکہ بہرحال انسان ہونے کے ناطے کہیں نہ کہیں کمزور پڑجائے گا ،اور شرعی رخصت کو اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا،نبی کریمﷺ نے فرمایا:

وَلَنْ یُشَادَّ الدِّینَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ

’’جو کوئی دین سے زور آزمائی کرے گا دین اسے پچھاڑدے گا۔‘‘(صحیح بخاری:39)
سابقہ شریعتوں (عیسوی و موسوی علیہما السلام)میں جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا انکی ہلاکت کو بیان کرتے ہوئے نبی معظمﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِتَشْدِیدِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ، وَسَتَجِدُونَ بَقَایَاهُمْ فِی الصَّوَامِعِ وَالدِّیَارَاتِ

’’اپنے اوپر سختینہ کرو کیونکہ تم سے پہلے جن لوگوں نے خود پر سختی کی وہ ہلاک ہوگئے اور انکے باقی ماندہ لوگ تم (راہبوں کی) کُٹیاؤں اور خانقاہوں میں پالو گے۔ ‘‘
(طبرانی اوسط:3078،الصحیحۃ:3124)
پادریوں،راہبوں اور راہبات نے کس طرح دین اور محبت کے نام پر اپنے اوپر تشدد کو لازم کیا اور ہر طرح کی آسائش کو خود پر حرام کرلیا ، ترک دنیا کرکےٹاٹ اور بوری کا لباس پہنا،گھٹیا خوراک کھائی،موسم کی سختی کو جھیلا،شادی نہ کی ،اور پھر جب وہ برداشت نہ کرسکے تو ان میں کس قدر بگاڑ آیا یہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے،اور آج بھی انکی باقیات کٹر یہودیوں اور عیسائیوں (صیہونیوں) کی شکل میں موجود ہیں۔
شریعت اسلام کی اس سہولت و سماحت کا تعلق مرد و عورت امیر و غریب،جوان و بوڑھوں ،مریض و صحیح،اور مقیم و مسافر،مجبورولاچار،سبھی سےہے،البتہ بعض احوال و ظروف میں رخصت پر عمل کرنا عزیمت پر عمل کرنے کی نسبت فرض ہوتا ہے جبکہ دیگر بعض میں عزیمت پر عمل کرنا فرض ہوجاتا ہے،ایسے ہی بسا اوقات رخصت کو اختیا ر کرنا افضل ہوتا ہے جبکہ بعض اوقات رخصت پر عمل کرنا مباح ہوتا ہے،اس میں کچھ فضیلت نہیں ہوتی،اسکا انحصار حالت و کیفیات پر ہے۔
گذشتہ سطور میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ بوڑھے اور بزرگ افراد پر کچھ معاشرتی و شرعی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںیہ ذمہ داریاں ان حقوق کے مقابلے میں ہیں جو انہیں عطا کئے گئے اسی طرح ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے مقابلے میں انہیں بہت سی رخصتیں بھی دی گئی ہیں،یہ دو قسم کی ہیں ایک شرعی رخصتیں دوم معاشرتی رخصتیں،ذیل میں ہر ایک کی تفصیل درج ہے۔

شرعی رخصتیں:

بوڑھوں میںچونکہ جوانوں جیسی چستی و طاقت نہیں ہوتی اور جسمانی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں لہذا انہیں بدنی عبادات جو کہ فرض ہوں میں کچھ رعائتیں دی گئی ہیں۔
یہ تمام فرائض ایسی عبادات ہیں جن کی ادائیگی کے لئے جسم کو مشقت اٹھانی پڑتی ہے ،لہذا جو جسم اس مشقت کو اٹھانے کے قابل نہ ہوں مثلاً: کمزور و بوڑھا جسم توان کے لئے کچھ رعائتیں دی گئی ہیںالبتہ مالدار حضرات کے لئے خالصتاً مالی عبادات میں کوئی رعایت نہیں ،اگرچہ جسمانی طور پر وہ نحیف و عاجز ہوں، تفصیلات درج ذیل ہے:
فرائض و واجبات کی رخصتیں

نماز کی رخصتیں:

بوڑھے اور عمررسیدہ افراد عموماً جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوتے ہیں،اور انکے اعصاب کمزور پڑجاتے ہیں بسااوقات انکی تکلیف شدت اختیار کرجاتی ہے،جسکے باعث انہیںخاص طور پر نماز کے دوران قیام میں کھڑا رہنے، قیام سے رکوع میں جانے ،رکوع سے پھر قومہ میں آنے، پھر سجدے میں جانے اور اٹھنے ،بیٹھنے کے دوران جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے،بعض اوقات موتیا کے آپریشن کے باعث ڈاکٹر انہیں سجدے کی کیفیت اختیار کرنےسے روک دیتے ہیں،بسا اوقات کمزوری یا بیماری کے غلبے یا دیگر عوارض کے باعث بہت سے واجبات نماز کی ادائیگی انکے لئے مشکل ہوجاتی ہے،تو دین اسلام کا کمالی و اعجازی پہلو اس قسم کی صورتحال سے تہی دامن نہیں بلکہ اس بارے میں واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔
امام ابن تیمیہ (المتوفیٰ:728ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

وَالشَّرِیعَةُ طَافِحَةٌ بِأَنَّ الْأَفْعَالَ الْمَأْمُورَ بِهَا مَشْرُوطَةٌ بِالِاسْتِطَاعَةِ وَالْقُدْرَةِ كَمَا {قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لِعِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ: صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ} .
وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّیَ إذَا عَجَزَ عَنْ بَعْضِ وَاجِبَاتِهَا: كَالْقِیَامِ أَوْ الْقِرَاءَةِ أَوْ الرُّكُوعِ أَوْ السُّجُودِ أَوْ سَتْرِ الْعَوْرَةِ أَوْ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ أَوْ غَیْرِ ذَلِكَ سَقَطَ عَنْهُ مَا عَجَزَ عَنْهُ. وَإِنَّمَا یَجِبُ عَلَیْهِ مَا إذَا أَرَادَ فِعْلَهُ إرَادَةً جَازِمَةً أَمْكَنَهُ فِعْلُهُ وَكَذَلِكَ الصِّیَامُ اتَّفَقُوا عَلَى أَنَّهُ یَسْقُطُ بِالْعَجْزِ عَنْ مِثْلِ:الشَّیْخِ الْكَبِیرِ وَالْعَجُوزِ الْكَبِیرَةِ الَّذِینَ یَعْجِزُونَ عَنْهُ أَدَاءً وَقَضَاءً وَإِنَّمَا تَنَازَعُوا هَلْ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ الْفِدْیَةُ بِالْإِطْعَامِ؟ فَأَوْجَبَهَا الْجُمْهُورُ: كَأَبِی حَنِیفَةَ وَالشَّافِعِیِّ وَأَحْمَد وَلَمْ یُوجِبْهَا مَالِكٌ وَكَذَلِكَ الْحَجُّ: فَإِنَّهُمْ أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا یَجِبُ عَلَى الْعَاجِزِ عَنْهُ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: {وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَیْهِ سَبِیلًا}

شریعت میں بے شمار دلائل ہیں کہ جن افعال کی ادائیگی کا حکم ہے وہ استطاعت و قدرت کے ساتھ مشروط ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے عمران بن حصین ؄سے کہا تھا کہ:کھڑے ہوکر نماز پڑھو ،اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر،پھر بھی طاقت نہ ہو تو پہلو پر لیٹ کر۔
مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ نماز پڑھنے والا جب بعض واجباتِ نماز کی ادائیگی سے عاجز ہو مثلاً:قیام ، قراءت، رکوع ،سجود،ستر عورۃ،استقبال قبلہ،وغیرہ تو وہ اس سے ساقط ہوجائیں گے،اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ بوڑھے مرد و عورت سے روزہ ساقط ہوجائے گا جب وہ اسے رکھنے اور قضاء دینے سے عاجز ہوں،ایسے ہی حج کے سلسلے میں بھی اتفاق ہے کہ وہ بھی عاجز پر فرض نہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:لوگوں پر اللہ کے لئے حج کرنا فرض ہے جو اسکی طاقت رکھتے ہوں۔(آل عمران:97)(مجموع الفتاوی:8/438)
٭سیدنا عمران بن حصین ؄جن کا اس حدیث میں ذکر ہوا انہیں” بواسیر“ کا عارضہ لاحق تھا،جسکی بناء پر انہیں نماز کے بعض ارکان کی ادائیگی میں دشواری ہوتی چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں بعض رعائتیں دیں۔
٭ایسے ہی نبی رحمتﷺ ایک مریض کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے آپ نے دیکھا کہ وہ تکیےنما کسی چیز پر نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے اسے ہٹادیا ،پھر اس نے کو لکڑی کی بلی پکڑلی تاکہ اس پر نماز پڑھے تو آپ نے اسے بھی ہٹادیا اور فرمایا:

صَلِّ عَلَى الأَرْضِ إِنِ اسْتَطَعْتَ ، وَإِلاَّ فَأَوْمِئْ إِیمَاءً ، وَاجْعَلْ سُجُودَكَ أَخْفَضَ مِنْ رُكُوعِكَ

زمین پر نماز پڑھو اگر طاقت ہو ،وگرنہ اشارے سے نماز پڑھ لو ،اور سجدوں میں رکوع سے زیادہ جھکو۔(بیہقی صغری:590،الصحیحۃ:323)
(تنبیہ)نماز میں تکیے یا لاٹھی کا استعمال اسوقت منع ہے جب انہیں اٹھا کر ان پر سجدہ کیا جائے،اور خود نہ جھکا جائے،لیکن اگر تکیہ زمین پر پڑا ہو اور پھر اس پر سجدہ کیا جائےتو حرج نہیں جیسا کہ امام سفیان الثوری رحمہ اللہ (المتوفی:161ھ)نے کہا۔(ایضاً)
نیزسیدنا ابن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ یَسْجُدَ فَلْیَسْجُدْ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَلَا یَرْفَعْ إِلَى جَبْهَتِهِ شَیْئًا لِیَسْجُدَ عَلَیْهِ، وَلَكِنَّ رُكُوعَهُ وَسُجُودَهُ یُومِئُ بِرَأْسِهِ

تم میں سے جو (زمین پر)سجدہ کرسکتا ہے وہ سجدہ کرے،اور جو نہیں کرسکتاتو وہ اپنی پیشانی کی جانب کوئی شے اٹھائے نہیں،تاکہ اس پر سجدہ کرے،لیکن اپنے رکوع و سجود میں سر سےاشارہ کرے۔(طبرانی اوسط:7089، الصحیحۃ:323)
نیز حسن بصری رحمہ اللہ کی والدہ جناب خیرۃ جو کہ سیدہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں نے کہا:

رَأَیْتُ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَسْجُدُ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ مِنْ رَمَدٍ بِهَا

میں نےسیدہ ام سلمہ کو دباغت شدہ چمڑے کے تکیے پر سجدہ کرتے دیکھا ،انکی آنکھوں میں سوجن کی وجہ سے۔
(بیہقی کبری:3674،مسندشافعی:555،مصنف عبدالرزاق:4145)
نیزسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمابھی بوقت عذر تکیے و گدےپر سجدہ کرنے کی اجازت دیتے تھے۔(بیہقی کبری:3675)
٭اسی طرح حالت قیام میںیا ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال میں بیساکھی یا کسی ستون یا ہاتھوں کا سہارا لیا جائے تو اس میں بھی حرج نہیں،خود رسول اللہ ﷺ جب تکلیف میں ہوتے تو چار زانو ہوکر بیٹھتے پھر نماز پڑھتے،ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہا:

رَأَیْتُ اَلنَّبِیَّ – صلى الله علیه وسلم – یُصَلِّی مُتَرَبِّعًا

میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے تھے چونپڑی مارکر۔(سنن نسائی:1661،اسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا:تعلیق صحیح ابن خزیمہ:978)
نیز سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہانے کہا:

لَمَّا أَسَنَّ وَحَمَلَ اللَّحْمَ، اتَّخَذَ عَمُودًا فِي مُصَلَّاهُ يَعْتَمِدُ عَلَيْهِ

جب نبی معظم ﷺ عمررسیدہ اور وزنی ہوگئے تو آپ نے اپنی نماز کی جگہ ستون بنالیا جس پر آپ (حالت قیام میں)ٹیک لگالیتے۔(سنن ابی داؤد:949،الصحیحۃ:319)
٭ایسے ہی بہت سے بزرگ افراد ”سلسل البول“کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں،اور بہت سے”سلسل الریاح“کے مرض کا شکار ہوتے ہیں،انہیں پیشاپ کے ”قطرات“ اور”ریاح“ کو روکنے پر کنٹرول نہیں ہوتا یا ”ریاح“ کو روکنا انکے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، یہ چیزیں ناقض وضو ہیں وضو کو توڑ دیتی ہیں ،جبکہ وضو نماز کے لئے شرط ہے،تو انکے متعلق بھی شرعی رہنمائی موجود ہے،کہ یہ حضرات اپنا علاج کرواتے رہیں اور دوران علاج چند احتیاطی تدابیر اختیار کریں:
٭نماز کے وقت اچھی طرح فراغت حاصل کرلیں اوراستنجاء کرلیں ،کیونکہ پیشاپ کے بعد استنجاء کرنا فرض ہے۔
٭ہر نماز کے لئے نیا وضو کریں۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فاطمہ بنت ابی حبیش کو حکم دیا تھا جب انہوں نے استحاضہ کی شکایت کی۔
٭نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کریں ،اس سے پہلے وضو نہ کریں،الا یہ کہ پہلے سے کیا گیا وضو وقت شروع ہونے پر بر قرار ہو۔
٭وضو کرنے کے بعد ایک چلو پانی لیکر شرمگاہ والے حصے پر جو کپڑا ہوتا ہے اس پر چھڑک دیں،اس سے وہ حصہ تر ہوجائے گا۔
پھر اگر نماز میں قطرہ نکل بھی جائے تووضو ٹوٹنے کا وسوسہ نہیں ہوگا بلکہ ذہن اس تری کی جانب منتقل ہوجائے گا جو پانی چھڑکنے سے حاصل ہوئی۔
٭بعض روایات میںایک صحابی کے متعلق آیا ہے کہ جب وہ بوڑھے ہوگئے تو انہیں سلسل البول کا عارضہ لاحق ہوا وہ حتی الامکان اسکا علاج کرواتے،لیکن جب مرض بڑھ جاتا تو اسی یعنی سلسل البول کی حالت میں نماز پڑھ لیتے۔واللہ اعلم(بیہقی کبری:1669-سنن دارقطنی:776-مصنف عبدالرزاق:582-المعرفۃ للبیہقی:580،مصنف ابن ابی شیبہ:2107-الاوسط لابن المنذر:58-3073)
٭نیزبہت سے بزرگ افراد ”نسیان“کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں،انکی یادداشت کمزور ہوجاتی ہے ،وہ زیادہ دیر تک کچھ یاد نہیں رکھ پاتے،بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے نماز پڑھ لی ہے یا نہیں،یا کتنی رکعات پڑھی ہیں، کتنے سجدے کئے ہیں،وضو کیا تھا یا نہیں وغیرہ اس طرح کے بہت سے مسائل ہیں جو اس نوع کے مریضوں کو درپیش ہوتے ہیں،یعنی وہ کوئی بھی بات صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پاتے،تو شریعت میں انکے لئے یہ رخصت ہے کہ وہ جسقدر یاد رکھ پائیں اسی قدر کے مکلف ہیں اور جو کچھ وہ بھول جاتے ہیں یاد کرنے کے باوجود یاد نہیں کرپاتے تو وہ اسکے مکلف نہیں، اگر اسکی وجہ سے انکی نماز رہ جائے تو وہ معاف ہے ان شاء اللہ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ (الاعراف:42)

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ، ہم کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے،تو یہ لوگ ہی جنتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
نیز فرمایا:

وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَلَدَیْنَا كِتَابٌ یَنْطِقُ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا یُظْلَمُونَ (سورۃالمومنون :60-62)

’’جو لوگ عمل کرتے ہیں جو وہ کرتے ہیں،اور انکے دل بھی ڈرتے رہتے ہیں،کہ انہیں اپنےرب کے پاس لوٹ جانا ہے،یہی لوگ نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ جاتے ہیں ،اور ان میں وہ سبقت کرتے ہیں،اور ہم بھی کسی کو اسکی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے،اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق بیان کرتی ہے،اور ان پر (اجر کے سلسلے میں)کمی نہ کی جائے گی۔‘‘
نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِی الْخَطَأَ، وَالنِّسْیَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَیْهِ

اللہ تعالی نے میری امت سے خطا،بھول،اور زبردستی کو معاف کردیا ہے۔(سنن ابن ماجہ:2043،ارواء الغلیل:82)
یعنی جو کام بھول چوک سے غلط ہوجائے اس پر گناہ نہیں البتہ اسکا حکم باقی رہے گا،مثلاً:نماز فرض ہوگی لیکن اگر بھول سے رہ جائے تو اس پر گناہ نہ ہوگا ،البتہ اگر بھول سے ایسا کام ہوجائے جس سے کسی کا نقصان ہوجائے تو نقصان کی بھروائی واجب ہوگی،اگر چہ نقصان کرنے پر گناہ نہ ہوگا۔
امام ابن رجب الحنبلی (المتوفی:795)رحمہ اللہ نے کہا:

وَالْأَظْهَرُ – وَاللَّهُ أَعْلَمُ – أَنَّ النَّاسِیَ وَالْمُخْطِئَ إِنَّمَا عُفِیَ عَنْهُمَا بِمَعْنَى رُفِعَ الْإِثْمُ عَنْهُمَا، لِأَنَّ الْإِثْمَ مُرَتَّبٌ عَلَى الْمَقَاصِدِ وَالنِّیَّاتِ، وَالنَّاسِی وَالْمُخْطِئُ لَا قَصْدَ لَهُمَا، فَلَا إِثْمَ عَلَیْهِمَا، وَأَمَّا رَفْعُ الْأَحْكَامِ عَنْهُمَا فَلَیْسَ مُرَادًا مِنْ هَذِهِ النُّصُوصِ، فَیُحْتَاجُ فِی ثُبُوتِهَا وَنَفْیِهَا

إِلَى دَلِیلٍ آخَرَ.
راجح یہ ہے کہ بھول یا چوک کرنے والے سے درگزر کیا گیا ہے اس معنی میں کہ ان پر گناہ نہ ہوگا ،کیونکہ گناہ کا تعلق قصد و ارادے سے ہوتا ہے،اور بھول جانے یا چوک جانے والے کا قصد نہیں ہوتا،لہذا ان پر گناہ نہیں،جبکہ ان احادیث میں حکم کا ساقط ہوجانا مراد نہیں ہے،وہ ثابت رہے گا یا نہیں اسکے لئے دیگر دلائل دیکھیں جائیں گے۔(جامع العلوم والحکم-2/369)
علامہ اسماعیل بن محمد الانصاری(المتوفیٰ:1417ھ) رحمہ اللہ نے کہا:

رفع الإثم عن المخطىء والناسی والمستكره ، وأما الحكم فغیر مرفوع ، فلو أتلف شیئا خطأ ، أو ضاعت منه الودیعة نسیانا ضمن ، ویستثنى من الإكراه : الزنى والقتل فلا یباحان بالإكراه ، ویستثنى من النسیان : ما تعاطى الإنسان سببه ، فإنه یأثم بفعله لتقصیره .

’’بھول چوک جانے والے اور مجبور کردیئے جانے والےسے گناہ اٹھالیا گیا ہے ،جبکہ حکم نہیں اٹھایا گیا،لہذا اگر وہ غلطی سےکوئی شے ضائع کردے،یا اس سے کسی کی امانت بھول سے ضائع ہوجائے،تو وہ بھروائی کرے گا،اور اکراہ(زبردستی مجبور کردینے)سے زنا اور قتل مستثنی ہیں،یہ دونوں اکراہ سے جائز نہ ہوں گے،جبکہ نسیان(بھول جانے)سے وہ جھگڑا مستثنی ہے جسکا یہ سبب بن جائے،اس صورت میں یہ اپنے اس فعل پر گناہگار ہوگا کیونکہ اس نے تقصیر کی ہے۔(التحفۃ الربانیۃ ،ص:89)
علامہ سلیمان بن عبد القوی بن عبد الکریم الطوفی الصرصری، ابو الربیع، نجم الدین (المتوفی: 716 هـ)رحمہ اللہ نے کہا:

والأشبه العفو عن الإثم، فمن ثم قیل: الكلام فی الصلاة، والأكل فی الصوم والوطء فیه، وفی الحج ناسیا یبطلهن حكما، ولا إثم على الفاعل.

راجح یہ ہے کہ گناہ معاف کیا گیا ہے،لہذا کہا جاتا ہے کہ نماز میں بھول سے کلام کرلینا،یا روزے میں کھا پی لینایا جماع کرلینا،ایسے ہی حج میں تو انکاحکم یہ ہے کہ وہ باطل ہوجائیں گے لیکن ایسا کرنے والے پر گناہ نہ ہوگا۔ (التعیین فی شرح الاربعین:1/323)
سابق مفتی اعظم سعودیہ الشیخ بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:

س:أصیبت والدتی بمرض النسیان، وعالجناها ولم نخرج بنتیجة، فمضى علیها أربع سنوات، وهی بهذه الحالة، ولم تصم أیاما من رمضان، مرة تأكل فیه بسبب النسیان، رغم أن صحتها جیدة، ثم توفیت على إثر حادث، خرجت من البیت بغیر إذن منا، وتاهت، وبعد البحث عنها، وجدناها قد صدمها صاحب سیارة صغیر فی السن، وهرب، وتركها، وتوفیت، ماذا أفعل فی الأیام التی تركتها، ولم تصمها، وهل نتنازل عن دیتها للمتسبب، رغم أنه غنی، أم آخذ الدیة، وأتصدق بها على المستحقین؟
ج:إذا كان عقلها قد تغیر، وذاكرتها قد تغیرت، لا تضبط شیئا فقد اختل عقلها ولا علیها شیء ؛ إذا كان عقلها قد اختل، لم تعد تضبط الأمور، فلیس علیها شیء، ولیس علیكم الصیام عنها، أما الدیة فینبغی أن تأخذوا الدیة، وهی حلال لكم وإرث لكم فتأخذون الدیة، وتتصرفون فیها كسائر أموالكم، تأكلونها، أو تتصدقون بها، أو تفعلون بها أشیاء أخرى مما أباح الله.

سوال:ہماری والدہ کو بھولنے کا عارضہ لاحق ہوا،ہم نے علاج کروایا لیکن فائدہ نہ ہوا،اسی طرح چار سال گزرگئے، اس دوران وہ رمضان کے روزے بھی نہ رکھ پائیں،وہ روزے میں بھول کر کھا پی لیتیں،بیماری کے باوجود وہ صحتمند تھیں،پھر ایک حادثے میں انکا انتقال ہوگیا، وہ ہمیں بتائے بغیر گھر سے نکلیں،تو ایک کم عمر ڈرائیور نے انہیں ٹکر ماری،اور بھاگ گیا،جس سے وہ فوت ہوگئیں، میرا سوال ہے کہ جن دنوں کے انہوں نے روزے نہیں رکھے میں انکا کیا کروں،اور جو انکی موت کا سبب بنا کیا میںاس سے دیت لینے سے دستبردار ہوجاؤں باوجود کہ وہ مالدار ہے،یا میں دیت لے سکتا ہوں، اور اسے مساکین پر صدقہ کردوں؟
جواب:جب انکی عقل اور یادداشت برقرار نہ رہی،وہ کسی بھی بات کو یاد نہیں رکھ پاتی تھیں،تو انکی عقل مختل ہوگئی ،چنانچہ انکے ذمے کوئی فرض نہ رہا،کیونکہ وہ کسی بھی شے کو یاد نہیں رکھ پاتی تھیں،چنانچہ آپ کے ذمے بھی انکی جانب سے قضا نہیں،جبکہ آپ کو دیت لینی چاہیئے ،وہ آپ کے لئے حلال ہے،آپکی میراث ہے،آپ دیت لے کر اسے اپنے دیگر اموال کی طرح خرچ کرسکتے ہیں،اسے کھا سکتے ہیں،اسے صدقہ کرسکتے ہیں،اور دیگر کام کرسکتے ہیں جو اللہ نے جائز کئے ہوں۔(مجموع فتاوی بن باز،22/356-رقم:223)
البتہ ایسے افراد کو بکثرت یہ دعا کرتے رہنا چاہیئے:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِینَ (البقرة:285)

’’اے ہمارے پروردگار،اگر ہم بھول جائیں یا غلط کر بیٹھیں تو ہماری پکڑ نہ کیجیو،نہ ہی ہم پر اتنا بوجھ لادیو جتنا تو نے ہم سے پہلے والوں پر لادا،نہ ہی ہم سے اسقدر بوجھ اٹھوائیو جسکے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو،ہمیں معاف فرما،ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما،تو ہی ہمارا کارساز ہے،پس کافروں پر ہماری مدد فرما۔‘‘
البتہ ایسے افراد کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرسکتے ہیں،مثلاً:
ظمسجد کے قریب رہائش اختیار کریں۔
ظنماز باجماعت کا اہتمام کریں۔
ظکسی کا تعاون حاصل کرلیں جو انکو یاددہانی کرواتا رہے۔واللہ اعلم
٭نیز بہت سے بزرگ حضرات کی بینائی انتہائی کمزور ہوجاتی ہے،ایسی ہی انکی سماعت بھی کمزور ہوجاتی ہے،اور مسجد تک کا راستہ خطرات سے خالی نہیں ہوتا،نیز انہیں لانے لیجانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا،تو ایسے افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ جہاں ہوں وہیں نماز ادا کرلیں، مسجد میں جماعت میں شریک نہ ہوں،کیونکہ راستہ انکے لئے سازگار نہیں،اور لانے لیجانے والا بھی کوئی نہیں،جیسا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدناعتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا:

وَأَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالسَّیْلُ، وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِیرُ البَصَرِ، فَصَلِّ یَا رَسُولَ اللَّهِ فِی بَیْتِی مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلَّى، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ؟ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ البَیْتِ، فَصَلَّى فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:اللہ کے رسول اندھیرا ہوتا ہے،سیلاب کا پانی بھی،اور میری نگاہ کمزور ہے،پس آپ میرے گھر میں نماز پڑھ لیجیے تاکہ میں اس جگہ کو مصلیٰ بنالوں ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ انکے گھر آئے اور پوچھا: کونسی جگہ تمہیں پسند ہے میں نماز پڑھ لوں؟انہوں نے ایک جگہ اشارہ کیا،تو وہاں رسول اللہ ﷺ نے نماز ادا کی۔(صحیح بخاری:667)
(تنبیہ)البتہ نماز جمعہ کے لیے بہتر ہے کہ کسی طرح مسجد پہنچنے کا اہتمام کیا جائے۔واللہ اعلم
٭نیز بڑھاپے میں بیماریاں حاوی ہوجاتی ہیں،موسم کی تبدیلی یا شدت ناقابل برداشت ہوتی ہے،اوپر سے اعصابی کمزوری بھی ہوتی ہے،لہذا اس حالت میں بھی مسجد میںجماعت سےپیچھے رہنا جائز ہے اگرچہ مسجد قریب ہی ہو، خود رسول اللہ ﷺ بیمار تھے تو مسجد میں جماعت کے لئے حاضر نہ ہوسکے،البتہ گھر میں ہی جماعت کا اہتمام کرلیا،جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا:

صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم فِی بَیْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِیَامًا، فَأَشَارَ إِلَیْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا؛ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا

رسول اللہ ﷺ جب بیمار ہوئے تو گھر میں نماز پڑھی،آپ بیٹھ گئے ،پیچھے لوگ کھڑے رہے،تو آپ نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا،پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اسکی اقتداء کی جائے ،سو جب وہ رکوع میں چلا جائے پھر تم رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھالے پھر تم سر اٹھاؤ،اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔(صحیح بخاری:688)
ابراہیم النخعی(المتوفی:95ھ) رحمہ اللہ نے کہا:

مَا كَانُوا یُرَخِّصُونَ فِی تَرْكِ الْجَمَاعَةِ ، إِلاَّ لِخَائِفٍ ، أَوْ مَرِیضٍ

صحابہ کرام خائف اور مریض کے سوا کسی کو جماعت ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ:3523)
(تنبیہ)واضح رہے یہ سب رخصتیں ہیں ان افراد کے لئے جو عام حالت اختیار کرکے نماز ادا نہیں کرسکتے۔

روزے کی رخصتیں:

بوڑھے کمزورافراد جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے یا انہیں برداشت سے زیادہ مشقت سہنی پڑتی ہے تو انکے لئے رخصت ہے کہ وہ روزے کے بجائے فدیہ ادا کردیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِیضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِینَ یُطِیقُونَهُ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِینٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَیْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر میں ہو،وہ دوسرے دنوں میں(رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی) گنتی پوری کرلے،اور جو لوگ اسکی طاقت رکھتے ہیں(مشقت کے ساتھ)انکے ذمے فدیہ ہے،ایک مسکین کا کھانا،پس جو زیادہ دے تو وہ اسکے لئے بہتر ہے،اور تم روزہ رکھو یہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے اگر تمہیں یقین ہو۔(سورۃ البقرۃ:184)
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا:

لَیْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ هُوَ الشَّیْخُ الْكَبِیرُ وَالْمَرْأَةُ الْكَبِیرَةُ لَا یَسْتَطِیعونَ أَنْ یَصُومَا فَیُطْعِمَانِ مَكَانَ كُلِّ یَوْمٍ مِسْكِینًا.

یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ بوڑھے مرد و عورت کے بارے میں ہے،جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے،وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلادیں۔(صحیح بخاری:4505)
نیز کہا:

رُخِّصَ لِلشَّیْخِ اَلْكَبِیرِ أَنْ یُفْطِرَ, وَیُطْعِمَ عَنْ كُلِّ یَوْمٍ مِسْكِینًا, وَلَا قَضَاءَ عَلَیْهِ (وهذا إسناد صحیح)

بوڑھے آدمی کو رعایت دی گئی ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلادے،اور اس پر قضاء بھی نہیں۔(سنن دارقطنی:2380)
نیز حسن بصری اور ابراہیم النخعی رحمہما اللہ نے کہا:

إِذَا خَافَتَا عَلَى أَنْفُسِهِمَا أَوْ وَلَدِهِمَا تُفْطِرَانِ ثُمَّ تَقْضِیَانِ، وَأَمَّا الشَّیْخُ الكَبِیرُ إِذَا لَمْ یُطِقِ الصِّیَامَ فَقَدْ أَطْعَمَ أَنَسٌ بَعْدَ مَا كَبِرَ عَامًا أَوْ عَامَیْنِ، كُلَّ یَوْمٍ مِسْكِینًا، خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأَفْطَرَ

دودھ پلانے والی یا حاملہ خاتون کو اگر اپنے متعلق یا بچے کے متعلق کوئی اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑدیں ،بعد میں قضا دیں،جبکہ بوڑھا آدمی اگر روزے کی طاقت نہ رکھے تو انس بن مالک نے بوڑھے ہونے پر ایک سال یا دو سال تک ہر دن کے بدلے مسکین کو کھانا کھلایا(یعنی فدیہ دیا)روٹی یا گوشت اور روزہ چھوڑدیا۔(صحیح بخاری)
٭اور اگر فدیہ ادا کرنے کی بھی طاقت نہیں تو اس پر فدیہ بھی واجب نہیںلیکن بہتر ہوگا کہ کوئی مسلمان اسکی جانب سے فدیہ نکال دے،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے انہوں نے کہا:

عَنْ عَائِشَةَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِی المَسْجِدِ، قَالَ: احْتَرَقْتُ، قَالَ:مِمَّ ذَاكَ، قَالَ: وَقَعْتُ بِامْرَأَتِی فِی رَمَضَانَ، قَالَ لَهُ: تَصَدَّقْ ،قَالَ: مَا عِنْدِی شَیْءٌ، فَجَلَسَ، وَأَتَاهُ إِنْسَانٌ یَسُوقُ حِمَارًا وَمَعَهُ طَعَامٌ – قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: مَا أَدْرِی مَا هُوَ – إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَیْنَ المُحْتَرِقُ؟ فَقَالَ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ: خُذْ هَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنِّی، مَا لِأَهْلِی طَعَامٌ؟ قَالَ: فَكُلُوهُ۔ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: الحَدِیثُ الأَوَّلُ أَبْیَنُ، قَوْلُهُ: أَطْعِمْ أَهْلَكَ۔

ایک شخص مسجد میں نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ:میں جل گیا۔آپ نے پوچھا :وہ کیسے؟اس نے کہا:میںرمضان میں اپنی بیوی پر واقع ہوگیا(صحبت کرلی)۔آپ نے اس سے کہا:صدقہ دو۔اس نے کہا:میرے پاس کچھ نہیں۔پھر وہ بیٹھ گیا،اور ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس گدھے پر اناج لے کر آیا،آپ نے پوچھا:وہ آدمی کہاں ہے ؟اس نے کہا:میں یہیں ہوں، آپ نے فرمایا:یہ لو اسے صدقہ کردو۔اس نے کہا:اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر،جبکہ میرے گھر والوں کے لئے کھانے کو کچھ نہیں؟آپ نے فرمایا:پھر یہ تم ہی کھالو۔ایک روایت میں ہے-:یہ اپنے گھر والوں کو کھلادو۔(صحیح بخاری:6822)
البتہ اگر بوڑھا شخص روزہ رکھنے کی بلا مشقت طاقت رکھتا ہے تو اس پر روزہ رکھنا فرض ہے ۔

حج وعمرہ کی رخصتیں:

٭جس بوڑھے کمزور پرحج فرض ہو چکا ہو (یعنی مالی اعتبار سے)لیکن سفر وغیرہ کی طاقت نہ ہوتووہ کسی کو اپنا نائب بنادے،اپنی جگہ اسے حج پر روانہ کردے،جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ:

جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ، قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَرِیضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِی الحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِی شَیْخًا كَبِیرًا لاَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یَسْتَوِیَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ یَقْضِی عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ۔

خثعم قبیلے کی ایک خاتون نے حجۃ الوداع کے موقع پرکہا:اللہ کے رسول فریضہ حج نے میرے والد کو پالیا،جو بوڑھا ہے،سواری پر نہیں بیٹھ سکتا،کیا میں اسکی طرف سے حج کرلوں؟آپ نے فرمایا:ہاں۔(صحیح بخاری:1854)
سیدنا ابورزین العقیلی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا:

یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَبِی شَیْخٌ كَبِیرٌ لَا یَسْتَطِیعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ قَالَ: ” حُجَّ عَنْ أَبِیكَ وَاعْتَمِر

اللہ کے رسول میرے والد بوڑھے ہیں،حج و عمرہ اور سفر کی طاقت نہیں رکھتے؟آپ نے فرمایا:اپنے والد کی طرف سے حج و عمرہ ادا کرلو۔(سنن ترمذی:930،صحیح ابی داؤد:1588)
٭اگر حج کے لئے نکلا نہ ہو مگر نکلنا چاہتا ہولیکن بیماری وغیرہ کا اندیشہ ہو،تو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد نکل جائے ،جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ:

دَخَلَ النَّبِىُّ -صلى الله علیه وسلم- عَلَى ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّى أُرِیدُ الْحَجَّ وَأَنَا شَاكِیَةٌ. فَقَالَ النَّبِىُّ -صلى الله علیه وسلم- حُجِّى وَاشْتَرِطِى أَنَّ مَحِلِّى حَیْثُ حَبَسْتَنِى (صحیح مسلم،کتاب الحج،بَابُ جَوَازِ اشْتِرَاطِ الْمُحْرِمِ التَّحَلُّلَ بِعُذْرِ الْمَرَضِ وَنَحْوِهِ)

نبی کریمﷺ ضباعہ بنت زبیررضی اللہ عنہما(آپکی چچا زاد ہمشیرہ)کے پاس آئے تو انہوں نے کہا:اللہ کے رسول ﷺ میں حج کے لئے جانا چاہتی ہوں لیکن بیمار ہوں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا:حج کرلو اور (احرام باندھتے وقت)شرط لگالو کہ:میں اس جگہ حلال ہوجاؤں گی(احرام کھول دوں گی) جہاں تو مجھے روک لے۔
(وضاحت)یعنی جہاں بیماری کی وجہ سے حج کی ادائیگی دشوار ہوگئی وہیں حج روک دوں گی۔
٭اگر حج کے لئے نکل چکا ہو اور احرام باندھتے وقت ایسی شرط بھی نہیں لگائی لیکن وہاں پہنچ کر بیمار ہوجائے،یا ادائیگی کے دوران بیمار ہوجائے تو وہ بھی حلال ہوجائے،جیسا کہ عکرمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ :عبداللہ بن رافع مولی ام سلمہ رحمہما اللہ نے کہا کہ:میں نے حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے محرم(جس نے احرام باندھا ہو) کے (کسی عذر کے باعث) روک دیئے جانے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كُسِرَ أَوْ مَرِضَ أَوْ عَرَجَ، فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَیْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ. قَالَ عِكْرِمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا هُرَیْرَةَ فَقَالَا: صَدَقَ.

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جسکی ہڈی ٹوٹ جائے یا وہ بیمار ہوجائے یا لنگڑا ہوجائے وہ حلال ہوجائے اور اس پر آئندہ سال حج ہوگا۔عکرمہ نے کہا کہ:میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابو ہریرہ سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا کہ:حجاج بن عمرو نے سچ کہا۔رحمہم اللہ(سنن ابی داؤد:1864،صحیح ابن ماجہ:2498)
٭اگر طواف میں رمل (تیز چلنا)ایسے ہی صفا و مروہ کے درمیان سعی(دوڑنے) کی طاقت نہ ہو تو چل لے،جیسا کہ کثیر بن جہمان تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ:

رَأَیْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمَا یَمْشِی فِی الْمَسْعَى بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَتَمْشِی مِنَ الصَّفَا إِلَى الْمَرْوَةِ؟ فَقَالَ: إِنْ سَعَیْتُ فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْعَى، وَإِنْ أَمْشِی فَقَدْ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَمْشِی، وَأَنَا شَیْخٌ كَبِیرٌ

میں نے سیدناابن عمر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ وہ صفاو مروہ کی سعی میں چل رہے ہیں ،میں نے کہا:ابو عبدالرحمن آپ چل رہے ہیں؟انہوں نے کہا:اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے اور اگر میں چل رہا ہوں تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور میں بوڑھا ہوں۔(سنن ترمذی:864،صحیح ابی داؤد:1662)
٭اور اگر چلنے کی بھی طاقت نہ ہو تو سوار ہوجائے،جیسا کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانےکہا کہ:

شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنِّی أَشْتَكِی فَقَالَ:طُوفِی مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ قَالَتْ: فَطُفْتُ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حِینَئِذٍ یُصَلِّی إِلَى جَنْبِ الْبَیْتِ، وَهُوَ یَقْرَأُ بِالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ

میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے بیمار ہونے کا بتایا تو آپ نے فرمایا:سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے رہ کرطواف کرلو۔ام سلمہ نےکہا کہ:چنانچہ میں نے طواف کیا،جبکہ رسول اللہ ﷺ اس وقت بیت اللہ کے پہلو میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ سورۃ الطور کی تلاوت کررہے تھے۔(صحیح بخاری:464)
٭کمزور مرد و خواتین مزدلفہ سے منی کے لئے رات میں ہی روانہ ہوسکتے ہیں تاکہ رش اور دھکم پیل سے بچ جائیں،جیسا کہ سالم رحمہ اللہ نے کہا:

وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَیَقِفُونَ عِنْدَ المَشْعَرِ الحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِلَیْلٍ فَیَذْكُرُونَ اللَّهَ مَا بَدَا لَهُمْ، ثُمَّ یَرْجِعُونَ قَبْلَ أَنْ یَقِفَ الإِمَامُ وَقَبْلَ أَنْ یَدْفَعَ، فَمِنْهُمْ مَنْ یَقْدَمُ مِنًى لِصَلاَةِ الفَجْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ یَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوْا الجَمْرَةَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا یَقُولُ: أَرْخَصَ فِی أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ

سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمااپنے کمزور اہل خانہ کو رات میں ہی روانہ کردیا کرتے تھے،پس وہ مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس کچھ رات وقوف کرتے،اللہ کا ذکر کرتے،پھر امام کے (مزدلفہ میں)وقوف کرنے اور (منی کے لئے) روانہ ہوجانے سے پہلے ہی (منی) لوٹ آتے ،ان میں سے کچھ نماز فجر سے پہلے منی پہنچتے اور کچھ نماز فجر کے بعد،جب وہ پہنچ جاتے تو رمی بھی کرلیتے،اور سیدناابن عمر کہا کرتے تھے کہ :ان لوگوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے رعایت دی ہے۔(صحیح بخاری:1676)
٭یہ چند رخصتیں ہیں جو بطور مثال کے پیش کی ہیں انکے علاوہ بھی کئی رخصتیں ہیں جن کا تعلق کمزوروں اور بیماروں سے ہے۔

زکاۃ

زکاۃ مالی عبادت ہے ،صرف صاحب نصاب مسلمان پر فرض ہے خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھا،اس میں کسی طرح کی بدنی مشقت نہیں ،لہذا اس میں کوئی رعایت نہیں۔واللہ اعلم

جھاد فی سبیل اللہ کی رخصتیں:

٭کمزور بوڑھوں پر جہاد فرض نہیں،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِینَ لَا یَجِدُونَ مَا یُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِینَ مِنْ سَبِیلٍ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ

کمزوروں ، بیماروں اور ناداروں پر (جہاد و قتال سے پیچھے رہنے میں)حرج نہیں جب وہ اللہ اور اسکے رسول کے خیر خواہ ہوں، نیکوکاروں پر کوئی حرج نہیں،اور اللہ بخشنے والا ، مہربان ہے۔(سورۃ التوبۃ:91)
٭لیکن اگر وہ امیر ہیں یا امیر کی جانب سے مقرر ہیں تو ان پر امیر کی اطاعت فرض ہے۔
٭لیکن جو بوڑھے حضرات امیر یا مامور نہ ہوں تو وہ جہاد میںفضیلت و شہادت کے حصول کی خاطر حصہ لے سکتے ہیں جبکہ جہاد کمزور کرنے کا باعث نہ بنیں،بے شمار ایسے صحابہ کرام تھے جو عمر رسیدگی کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ میں حاضر ہو کر داد شجاعت دیا کرتے تھے۔
٭یا اپنی جانب سے کسی کو تیار کرکے جہاد میں کھڑا کرسکتے ہیں،(خواہ جہاد فرض عین ہو یا فرض کفایہ )جیسا کہ یعلی بن منیہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

آذَنَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله علیه وسلم- بِالْغَزْوِ وَأَنَا شَیْخٌ كَبِیرٌ لَیْسَ لِى خَادِمٌ فَالْتَمَسْتُ أَجِیرًا یَكْفِینِى وَأُجْرِى لَهُ سَهْمَهُ فَوَجَدْتُ رَجُلاً فَلَمَّا دَنَا الرَّحِیلُ أَتَانِى فَقَالَ : مَا أَدْرِى مَا السُّهْمَانُ وَمَا یَبْلُغُ سَهْمِى فَسَمِّ لِى شَیْئًا كَانَ السَّهْمُ أَوْ لَمْ یَكُنْ. فَسَمَّیْتُ لَهُ ثَلاَثَةَ دَنَانِیرَ فَلَمَّا حَضَرَتْ غَنِیمَتُهُ أَرَدْتُ أَنْ أُجْرِىَ لَهُ سَهْمَهُ فَذَكَرْتُ الدَّنَانِیرَ فَجِئْتُ النَّبِىَّ -صلى الله علیه وسلم- فَذَكَرْتُ لَهُ أَمْرَهُ فَقَالَ : مَا أَجِدُ لَهُ فِى غَزْوَتِهِ هَذِهِ فِى الدُّنْیَا وَالآخِرَةِ إِلاَّ دَنَانِیرَهُ الَّتِى سَمَّى

’’رسول اللہ ﷺ نے جنگ پر جانے کا حکم جاری کیا،میں بوڑھا تھا،میرے پاس کوئی خادم بھی نہ تھا (جسے اپنی جگہ بھیج دیتا) چنانچہ میں نے کسی اجرتی کو ڈھونڈھاجو میری جگہ پر کرے،اورمیں اسے اسکا سہم(غنیمت کا حصہ)دے دوں،پس مجھے ایک آدمی مل گیا،جب روانگی کا وقت ہوا تو وہ مجھ سے کہنے لگا:مجھے نہیں پتہ کہ غنیمت میں کیا ہوگا اور مجھے کیا ملے گا،لہذا آپ میرا حصہ مقرر کردیں،خواہ غنیمت کا مال آئے یا نہ آئے۔میں نے اسکے لئے تین دینار مقرر کردیئے،پھر جب مال غنیمت آیا تو میں نے اسے اسکا غنیمت کا حصہ دینا چاہا ،لیکن مجھے دینار یاد آگئے ،لہذا میں نےرسول اللہ ﷺ سے اسکا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:اسکی اس لڑائی کے عوض اسکے لئے دنیا و آخرت میں تمہارے مقرر کردہ دیناروں کے سوا کچھ نہیں۔(سنن ابی داؤد:2527،الصحیحۃ:2233)
٭جہاد کے تعلق سے کفار کے بوڑھوں کے لئے بھی بعض رعایتیں ہیں،انکا قتل بالاتفاق ناجائز ہے،ا لَّا یہ کہ وہ کفار کے لشکر کی کسی طرح کی معاونت کررہے ہوں،خواہ صرف زبانی معاونت ہی کیوں نہ ہو۔
مذکورہ سطور میں بیان کردہ رخصتوں کا تعلق فرضی عبادات سے تھا،نیز یہی رخصتیں اسی نوع کے نوافل کے لئے بھی ہیں۔
….جاری ہے….

ہماری ماں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خزینۂ علم و حکمت

قرآن و سنت میں خواتین کی عظمت واکرام کے نقوش قدم بہ قدم نمایاں نظر آتے ہیں ۔ذرا تصور کیجیے عرب کے اس جاہل معاشرے کاجہاں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اس ماحول میں آنحضرت ﷺ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کو دنیا میں سب سے محبوب کون ہے ؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں عائشہ ۔سائل نے پھر سوال کیا میری مراد مردوں سے تھی ، آپ ﷺ نے فرما یا عائشہ کے باپ ،یہ عملی نمونہ تھا عورت کے مقام کی بحالی کا ۔۔۔!
مسلمان معاشروں میں صورت حال افسوس ناک ہے باوجود اسکے کہ اسلامی تاریخ میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے عظیم نمونے پائے جاتےہیں مگر ان کا کردار ،مقام و مرتبہ نہ درسی کتب میں درج ہے نہ میڈ یا کے ذریعے اسے اجاگر کیا جاتا ہے اس لیے ہماری نسلیں باوجود رول ماڈل رکھنے کے اس کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہیں ۔
مثال کے طور سیدہ عائشہ صدیقہ ؅کے کردارسے مسلم معاشرے کے کتنے لوگ آگاہ ہیں کہ وہ مفسر ہ ہیں ،محدثہ ہیں ،حافظہ ہیں ،قاریہ ہیں ، ادیبہ ہیں ، معلمہ ہیں ،فقیہ ہیں۔ غرض مجموعہ ٔ حسانات و کمالات ہیں بلکہ بلامبالغہ پوری تاریخ عالم میں اتنی عظیم صفات والی خاتون جو ایک طرف عالم و فاضل اور منصب افتا ء پر فائز ہوں دوسری طرف بہترین خاتون خانہ اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کی مالک ہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
افسوس یہ ہے کہ دور نبوی ﷺ کے یہ فعال اور جرأت مند اور علم وحکمت سے دنیا کو منور کرنے والے کردا ر طبقۂ نسواں میں نشوونما پانا بند ہو گئے ۔مقام فکر یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں صدیوں کے سفر میں سیدہ عائشہ؅ جیسے کردار کیوں نہیں پیدا ہوسکے ۔جو نہ صرف مسلم امہ بلکہ طبقہ اناث کے مقام و مرتبہ کے لیے بھی اتنی حساس تھیں کہ روایا ت میں ذرا سی بھول یا تفسیر میں کسی جھول پرفورا تڑپ اٹھتیں اور اصلاح کرتیں اور عورتوں کے اکرام کے خلاف ذرا سی بھی بات برداشت نہیں کرتیں۔

1علم واجتھاد:

یہ سیدہ عائشہ؅ کی سیرت کاوہ باب ہے جہاں نہ وہ صرف عورتوں بلکہ مردوں سے بھی ممتاز نظر آتی ہیں بڑے بڑے اصحاب رسول ﷺ جب کسی مسئلے میں ٹھیک رائے پر نہ پہنچتےتو سیدہ عائشہ ؅ کے پاس جاتےیہاں تک کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی الجھے مسئلوں کو سلجھانے کے لیے اکثر ان کے پاس جاتے تھے اس لیے کہ علمی حیثیت سے انہیں نہ صرف عام عورتوں اور امہات المؤمنین پر بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ کرام  پر فوقیت حاصل تھی ۔ جامع ترمذی مین سیدنا ابوموسی اشعری ؄ روایت ہے کہ ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات نہیں آئی کہ جس کو ہم نے عائشہ ؅ سے پوچھا ہواور ان کہ پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔
اگر چہ حفظ حدیث اور سنت نبوی ﷺ کی اشاعت کا
فرض دیگر ازواج مطہرات بھی اداکرتیں تھیں تا ہم سیدہ
عائشہ؅ کے رتبے کو ان میں سے کوئی بھی نہیں پہنچیں امام زہری رحمہ اللہ کی شہادت ہے کہ اگر تمام مردوں اور امہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو سیدہ عائشہ؅ کا علم ان میںسب سے وسیع ہوتا ۔(مستدرک حاکم)

2قرآن مجید :

قرآن مجید کی تفسیر میں اصحاب رسول ﷺ سے جو روایات ہیں ان میں سے زیادہ تر سیدنا عباس رضی اللہ عنہمااور سیدہ عائشہ؅ کی روایات ہیں ۔سیدہ عائشہ ؅ نو برس میں کی عمر میں نبی کریم ﷺ کے گھر آئیں اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس برس تک رفاقت کا شرف حاصل رہا ۔نزول قرآن کریم کا نصف سے زیادہ حصہ ان کے شعور میں آنے سے پہلے کا واقعہ ہے لیکن اس غیر معمولی دل و دماغ کی ہستی نے اس زمانے کو بھی جو بچپن اور نا سمجھی کا دور ہے رائیگاں نہیں کیا ایک تو نبی کریم ﷺ تقریبا روز بلا ناغہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لا تے تھے پھر خود ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں مسجد بنا لی تھی اور اس میں نہایت خشوع سے تلاوت ِقرآن کریم فرماتے ۔سیدہ عائشہ؅ کی یاداشت کا یہ عالم تھا کہ فرماتی ہیںجب یہ سورۃ قمر کی یہ آیت نازل ہوئی :

بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ

بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے (سورہ القمر آیت 46)
تو میں کھیل رہی تھی۔(صحیح البخاری )

3حدیث:

علم حدیث کا موضوع در حقیقت ذات نبوی ﷺ ہے اس لیے اس علم سے واقفیت لا محالہ اس کو زیا دہ ہوگی جو آپ کے جتنا قریب رہا ہو ۔سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہانو جوان تھیں اورعقلی اور دماغی قوتوں میں بے مثال تھیں اور آپ ﷺ کی اخیرعمر تک ہمیشہ خدمت گزار اور شرف صحبت سے ممتاز رہیں ۔اس لیے انکونبی اکرم ﷺکے احوال واحکام سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقفیت تھی ان کا حجرہ بھی مسجد نبوی ﷺ سے متصل تھا اس لیے ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی حدیث کی واقفیت اور اطلاع میں انکا مد مقابل نہیں ۔ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں کی تعداد 2210ہے کثرت روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکاچھٹا نمبر ہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ، سیدناانس رضی اللہ عنہ سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے زیادہ احادیث بیان کی ہیں ۔متعدد مسائل ایسے ہیں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا اجتھاد یا کسی روایت کی بنا پر کوئی مسئلہ بیان کردیا اور سیدہ عائشہ؅ نے اپنے ذاتی واقفیت کی بناء پر اس کو رد کردیا اور آج تک ان کے مسائل میں سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا کا قول ہی مستند ہے ۔
روایات کی کثرت کے ساتھ ساتھ آپ تفقہ ،اجتھاد ،فکر ، میں اصحاب رسول میںبھی ممتاز اور نمایا ں مقام رکھتی تھیں ۔

4مغز سخن سمجھنا سمجھانا :ـ

مغز سخن کا مطلب یہ ہے کہ بات کی تہہ تک پہنچنا ،یہ سمجھانا کہ اصل بات کیاہے ۔سیدہ عائشہ ؅اپنے شاگرد وں کو پوری طرح بات سمجھانے کے لیے بات کا موقع و محل بتاتی تھیں ۔یہ بتاتی تھیں کہ قرآن کریم کی کونسی آیت کس موقعہ پر ،کن حالات میں ، کہاں نازل ہوئی ،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آیا توانہوں نے اپنی پسند کے کپڑے منگوائے اور پہنے پھر فرمایا کہ مسلمان جس لباس میں مرتا ہے اسی لباس میں اٹھا یا جاتا ہے یہ بات انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ جب سیدہ عائشہ ؅سے لوگوں نے یہ بات عرض کی کہ انہوں نے انتقال کے وقت یہ کہا اور نئے کپڑے پہنے تو ام المؤمنین نے سمجھایا کہ رسول اللہ ﷺ نے انسان کے عمل کو لباس کہاہے یعنی جو جیسے عمل لے کر مرے گا وہی لے کر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔
رسول اللہﷺ کا جب انتقال ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینمیں اختلاف پیدا ہوا کہ آپ کی کہاںتدفین عمل میں آئے ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہاکہ پیغمبر جہاں انتقال فرماتے ہیں وہیں انکی تدفین ہوتی ہے ۔اس لیے آپ ﷺ سیدہ عائشہ ؅کے حجرے میں جہاں آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تھا وہیں آپ کی تدفین کی گئی ۔ جب کہ سیدہ عائشہ ؅اس کا اصل سبب اس طرح بتاتی ہیں کہ آپ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا : اللہ تعالی یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔اگر یہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلے میدان میں ہوتی لیکن چونکہ اس کا خوف تھا کہ وہ بھی سجدہ گاہ نہ بن جائے ۔(اس لیے آپ کی تدفین حجرے کے اندر ہوئی )۔(صحیح البخاری )
ایک بارنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قربانی کا گو شت تین دن کے اندر کھالیا جائے ۔سیدہ عائشہ ؅اسکی وضاحت فرماتی ہیں : ان دنوں میں قربانی کرنے والے کم تھے ، رسول اللہ ﷺ کا منشا تھا کہ جو قربانی نہیں کرسکتے ان تک بھی گوشت پہنچے یعنی یہ قطعی حکم نہیں تھا۔ (مسلم کتاب الذبائح)

5طب:

سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےسیدہ عائشہ ؅ سے زیادہ کسی کو طب کا ماہر نہیں پایا یہ ظاہر ہے کہ عرب میں فن طب کا باقاعدہ رواج نہ تھا ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ شعر کہتی ہیں تو میں نے ماناکہ آپ ابو بکر کی بیٹی ہیں کہہ سکتی ہیں لیکن آپ کو طب سے واقفیت کیسے ہوئی؟فرمایا :نبی کریمﷺ آخر عمر میں بیمار رہا کرتے تھے اطبائے عرب آیا کرتے تھے جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی (مستدرک حاکم ،مسند احمد)
مسلمان عورتیںعموما لڑائیوں میں نبی کریم ﷺ کے پاس جاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں (ابو داؤد ،کتاب

الجہاد )

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد مبارک میں خواتین ِ اسلام کو حسب ضرورت اس فن سے واقفیت تھی۔

6تاریخ:

اسلام کے اہم تاریخی واقعات مثلا واقعہ افک ،ہجرت کے تفصیلی واقعات ،نبی کریم ﷺ کے مرض الموت کے واقعات اسکے علاوہ غزوات بدر ،احد ،خندق کے کچھ حالات ،فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت ،حجۃالوداع کے واقعات اسکے علاوہ آپ ﷺ کی خانگی اخلاقی اور مشاغل ہمیں سیدہ عائشہ؅ کی زبانی معلوم ہوئے ۔

7افتاء:

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مخصوص کبار صحابہ کے علاوہ کسی کو افتاء کی اجازت نہ تھی مگر سیدہ عائشہ ؅ اس زمانے میں نہ صرف فتوے دیتیں بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود ان سے حدیث کا علم حاصل کرتے ۔
ایک مرتبہ آپ نے حج کے موقع پر ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر پر صلیب سے مشابہ نقش ونگار بنے ہوئے تھے آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو ،نبی کریم ﷺ ایسے کپڑے دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے ۔اسی طرح ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر آئی تو آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اوربولیںآپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں اور جس قافلے میں گھنٹیاں بجتی ہوں وہاں فرشتے نہیں آتے (مسندجلد 6،موطا)
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور معمولی سے جھٹ پٹ وضو کر کے چلے گئےسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےفورا ٹوکا اور فرمایا عبد الرحمٰن وضو اچھی طرح کیا کرو ، نبی کریم ﷺ کومیں نے کہتے سنا ہے کہ وضو میں جو عضو نہ بھیگیں ان پر جہنم کی پھٹکار ہو ۔
ایک شخص نے آکر پوچھا اے ام المؤمنین ~:بعض لوگ ایک شب میں قرآن دودو ،تین تین بار پڑھ لیتے ہیں فرمایا انکاپڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ پوری پوری رات نماز میں کھڑے رہتے تھے لیکن سورۃ البقرہ ،آل عمران ،النساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے ۔جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتےتو اللہ سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید پر پہنچتے تو اللہ کیپناہ مانگتے ۔(مسند جلد 6)
کعبہ پر ہر سال نیا غلاف چڑھا یا جاتا تھا اور پرانا اتار لیا جاتا ہے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زمانے تک متولی پرانے غلاف کو گہرا کنواں کھود کر دفن کردیتے تھے کہ کہیں ناپاکی کی حالت میں کوئی ہا تھ نہ لگالے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ تعظیم مناسب نہ معلوم ہوئی ۔کعبہ کے کلید بردار شیبہ بن عثمان کو بلاکر فرمایا یہ اچھی بات نہیں تم برا کرتے ہو جب وہ غلاف کعبہ سے اتر گیا اور اگر کسی نے ناپاکی کی حالت میں چھو لیا تو کوئی بات نہیں تم کو چاہیے اس کو بیچ ڈالا کرو اور جو دام آئے اسے غریبوں اور مسافروں میں تقسیم کردیاکرو۔غالبا اسی کے بعد سے پرانا غلاف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے مسلمانوں میں تبرکا تقسیم کردیا جاتاہے اس فیض کے لیے مسلمانوں کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یقینا ممنون ہونا چاہیے ۔۔۔۔
آپ کے زیادہ تر فتوی زنانہ یاخانگی مسائل سے متعلق ہیں ۔

8خاندان صدیق ؄کی برکتیں:

یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہےاورفضل کرم ہے کہ اس نے اس سورۂ نور کے ذریعے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر افتراپردازی (جو واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے ) کے جواب میںنازل ہوئی اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سماجی اصلاح کے لیے بہترین اصول اورفوجداری ضابطے اور ہتک آبرو کو معاشرتی جرم قرار دیتے ہوئے معاشرتی زندگی کو گندگی سے بچانے کے لیے بے مثال اور بے نظیر قوانین عطا فرمائیں جو درج ذیل ہیں :
٭زانیہ عورت اور زانیہ مرد دونوں میں سے ہر ایک کو100 کوڑے مارو ۔
٭بدکار مردوں اور عورتوں کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دیا۔
٭جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمتیں لگائیں اور ثبوت میں چار گواہ پیش نہ کریں ان کے لیے 80کوڑوں کی سزا مقررکی۔
٭شوہر اپنی بیوی پر تہمت لگائیں تو لعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
٭افواہوں میں حصہ نہ لو ،افواہ سازوں کی ہمت افزائی نہ کرو ،تہمتوں کو دبانے کی کوشش کرواور آپس میںحسن ظن رکھو۔
٭خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ۔
٭دوسرےکے گھر میں اجازت اور مرضی پاکر جایا کرو اگر کسی گھر میں کوئی نہ ہو تو اس گھر میں ہر گز نہ جاؤاور کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو خاموشی سے واپس ہوجا یا کرو۔
٭اے نبی ﷺ مومن مردوں اور عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔
٭عورتیں اپنا بناؤ سنگھا ر دکھاتی نہ پھریں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں ۔
٭نکاح کو رواج دیا جائے معاشرے میں بن بیا ہے مرد اور عوتیں نہ رہیں ۔
یہ قیمتی سماجی ہدایت اس افواہ اور اس پس منظر میںنازل ہوئیں اور یہ قانونی برکتیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معرفت امت مسلمہ کا اثاثہ بن گئیں ۔اسی طرح ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے سیدہ عائشہ بھی ساتھ تھیں قافلے نے پڑاؤ کیا۔یہا ں بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا پڑاؤ کے مقام پر پانی بھی دستیاب نہ تھا لوگ ہار ڈھونڈنے لگ گئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو ئے ۔رسول اللہ ﷺ صبح بیدار ہوئے تو بتایا کہ نماز کاوقت ہے اور پانی دستیاب نہیں ہے سب پریشان تھے کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:

وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا

اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میںسے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔(النساء 43)
مسلمانوں کا لشکر جو مصیبت میں تلملا رہا تھا یہ آیت سن کر مارے خوشی کے لوگ اچھل پڑے ۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو کچھ دیر قبل اپنی صاحبزادی کو ڈانٹ کر گئے تھے دوڑے ہوئے آئے اور پیا ر سے بولے جان پدر مجھے معلوم نہ تھا کہ تو اس قدر مبارک ہے تیری بدولت مسلمانوں کو کتنی آسانی مل گئی۔

9اجالا پھیلتا گیا :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ نے اولاد سے نہیں نوازاتھا اس لیے وہ بوجھل خانگی ذمہ داریوں سے آزاد تھیں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی انہوں نے لمحہ لمحہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور علم پھیلانے میں وقف کردیا تھا ،انکے شاگردوں اور علم سے استفاذہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں مرد ،عورتیں ،صحابی ،غلام ،مسافر اورہر طرح کے لوگ شامل ہوتے تھے ۔جنکی طویل فہرستیں تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں چند بڑی شخصیات سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ ،
سیدنا قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ، سیدنامسروق کوفی رضی اللہ عنہ ،عمرہ بنت عبد الرحمٰن ،صفیہ بنت شیبہ ،کلثم بنت عمرہ القریشہ ،عائشہ بنت طلحہ ،معاذہ بنت عبد اللہ وغیرہ ہیں ۔ان سب سے بکثرت احادیث مروی ہیں اسکے علاوہ وہ خاندان کے لڑکے لڑکیوں شہر کے یتیم بچوں کو آغوش تربیت میں لے لیتیں اور ان کو علم سے منور کرتیں غیر بچوں کو بھانجیوں اور بہنوں سے دودھ پلواکر اپنے حرم میں شامل کر لیتیں لوگ حجرے کے سامنے مسجد نبوی میں بیٹھے رہے دروازے پر پردہ پڑا رہتا ۔پردے کی اوٹھ میں خود بیٹھ جاتیں سارادن سوال وجواب کی نشستیں چلتیں ،استاد وشاگرد مختلف موضوعات پرسیر حاصل گفتگو کرتے۔(مسند)
آپکا معمول تھا کہ ہر سال حج کو جاتیں ،تشنگان علم جوق در جوق انکے خیمے میں آکر حلقۂ درس میں شریک ہوتے ،مسائل پوچھتے ،فتوے لیتے کوئی سوال کرتے ہوئے جھجکتا تو فرماتیں جو تم اپنی ماں سے پوچھ سکتے ہو مجھ سے پوچھ لو ۔(مسند مؤطا)
وہ بچیوں کے تعلیم کے مصارف خود اٹھا تیں انہیں متبنٰی بنالیتیں ،انکے شاگردوں میں کوئی فن سیرت کا امام بنا ، کوئی مدینہ میں فضل و کما ل کا تاجدار بنا،کوئی امام الفقہ بنا،انکے شاگرد عروہ رضی اللہ عنہکے بارے میں امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں انکے پاس پہنچاتو انکو علم کا اتھاہ سمندرپایا۔تاریخ گواہ ہے کہ ان سےاستفادہ کرنے والے وقت کے امام بنے ۔

0خواتین اسلام پر سیدہ عائشہ؅ کے احسانات :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنس نسوانی پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کو دکھایا کہ ایک مسلمان باپردہ اور باحیا عورت اسلام کی تمام حدود کی پاسداری کرتے ہوئے علمی ،سیاسی ،مذہبی ،اجتماعی حالات امن اور جنگ میں قول وفعل کے ذریعے امت کی بھلائی کے لیے کتنی عظیم الشان خدمات سر انجام دے سکتی ہے ،اسلام نےدورجاہلیت کے برعکس عورت کو جو عظیم رتبہ بخشا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی زندگی اس کی عملی تفسیر تھی اور تمام امہات المؤمنین نے شریعت کا عملی پیکر بن کر دکھایا ،امت کی ان عظیم ماؤں پر لاکھوں سلام ؛
جو لوگ عورتوں کی عزت واکرام میں کوئی کمی کرتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان پر سخت برہم ہوتی تھیں ،ایک عورت کو چوری کے جرم میں سزا دی گئی جس کے بعد وہ تائب ہوگئی جب وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس آتی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاعزت سے اس سے ملتیں اور ضرورت ہوتی تو نبی کریمﷺ تک بھی پیغام پہنچادیتیں جس سے انہوں نے یہ عملی سبق دیا کہ اگر کوئی گناہ سے تائب ہوجائے تو ہمیں حق نہیں کہ اپنے رویے سے اس کو شرمندہ کرتے رہیں۔اس لیے کہ اللہ تعالی بھی توبہ قبول کرنے والا ہے (بخاری )اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ عورت ،کتا اور گدھے سامنے سے گزرنے پر نماز ٹوٹ جاتی ہے اس پر آپ ان پر برہم ہوئیں اور فرمایا کہ تم نےکیسا برا کیا کہ ہمیں گدھے اورکتے کے برابر کردیا۔
نبی کریم ﷺ کی حیات میں صحابیات اپنے مسئلے مسائل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی معرفت رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتیں ،ازدواجی زندگی کے مسائل براہ راست رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے سے جھجھکتیںسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسہوت کارکے فرائض انجام دیتیں حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی عدالت عالیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ہی تھا ۔بعض اصحاب لڑکی کی رضامندی کے بغیر صرف اپنے اختیا ر سے بھی نکاح کردیتے تھے ،ایسی ہی ایک لڑکی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی آپ ﷺ اس وقت حجرے میں موجود نہ تھے آپ نے اسے بٹھائے رکھا جب آپ ﷺ تشریف لائے تو صورت واقعہ سامنے رکھی آپ ﷺ نے لڑکی کے باپ کو بلا یا اورلڑکی کو اپنا مختا ر آپ بنادیا لڑکی نے عرض کی :میرے باپ نے جو کچھ کیا ہے میں اس کو جائز ٹھہراتی ہوں میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کے حقوق معلوم ہوجائیں ۔
اسی طرح اگر خواتین مناسک حج کے دوران طہارت سے باعذر شرعی محروم ہوجائیں اور مناسک حج انکی طہارت تک ان کے لیے ممنوع ہوجائیں تو اس طرح ہزاروں مردوں کو بھی انکے ساتھ رکناپڑے گا یا حج نا تمام چھوڑنا پڑے گا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو یہ مشکل پیش آئی تو مشکل کا حل خود اپنے واقعہ سے فرمادیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ:طواف کے سواء تمام مناسک اداکیے جاسکتے ہیں جو حاجی اداکرتے ہیں اور اگر 10ذو الحجہ کے قریب واقعہ پیش آئے تو آخری طواف ضروری ہے ۔
تمام علماء کرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاعورتوںمیں سب سے افضل ہیںاگر دینی خدمات ، علمی کمالات اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات وارشادات کی نشرو اشاعت کا پہلو سامنے ہو تو ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا کوئی ثانی نہیں ہوسکتااللہ کے نبی ﷺ نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے

سچا فیصلہ کیا ہوسکتا ہے کہ:

فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کو عورتوں پر ایسی فضیلت ہےجیسے ثرید کےدوسرے کھانوں پر ۔
ثرید ایک عربی کھانا ہے جو کہ روٹی کو بھگو کر تیار کیا جاتا ہے اوررسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عربوں میں بہت اعلی غذاسمجھی جاتی تھی اور آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھی۔ازواج مطہرات کے روشن اور کامل نمونوں سے بے توجہی برتنے کی بہت سزا ہم انفرادی واجتماعی زندگی میں بھگت چکے مزید خسارے سے بچنے کے لیے ہمیں انہی کامل نمونوں سے رجوع کرنا ہوگا ۔مسلمان عورتیں ان پاکیزہ سیرتوں میں وہ گوہر نایاب پائیں گی جو انہیں ہر طرح کے ذہنی انتشار سے بچا کر دین الٰہی کی پاکیزہ تعلیمات پر یکسو اور مطمئن کردے گا اگر چہ کہ چشم فلک نے یہ تابندہ نمونے تاریخ میں دوبارہ نہ دیکھے مگر انکی تابندہ سیرت رہتی دنیا تک بنی نوع انسان اور بالخصوص عالم نسواں کی رہنمائی کرتی رہے گی ۔
۔۔۔

امام حرم شیخ الشریم مستجا ب الدعا ولی ہیں

شیخ سعود بن ابراہیم الشریم دنیا کے مشہور قاری اور مسجد حرام کے امام و خطیب ہیں۔مسجد حرام کے دس سے زائد ائمہ کرام میں شیخ سعود شریم تقوی کے سب سے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور وہ مستجابات الدعوات ولی ہیں جن کے ہاتھوں سے متعدد بار مختلف کرامات ظاہر ہوئی ہیں ۔مشہور ہے کہ ایک مرتبہ سعودی عرب میں طویل عرصے سے بارشوں کا سلسہ رک گیا تھا اسی دوران شیخ نے تہجد کی نماز میں سورۃ الا نعام کی تلاوت شروع کردی ،جب اس آیت پر پہنچے (ترجمہ )او ر زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جسکا رزق اللہ تعالی نے اپنے ذمے نہ رکھا ہو ۔
تو اس آیت کو شیخ شریم مخصوص انداز میں دہراتے رہے اور ان پر رقت طاری ہوگئی ابھی تہجد کی نماز پوری بھی نہ کر پائے تھے کہ موسلا دھا ر بارش شروع ہوگئی شیخ شریم کی یہ کرامت زبان زد عام ہے واضح رہے کہ رمضان المبارک کے دوران مسجد حرام میں تہجد کی نماز باجماعت اداکی جاتی ہے ۔(عرب جریدہ الیوم 5اپریل 2015)
دنیا میں چند قراء کرام کی تلاوت سب سے زیادہ سنی جاتی ہے ، قاری شریم بھی ان میں شامل ہیں مسجد حرام کے سب سے سینئر امام وخطیب اور حرمین کمیٹی کے چیئر مین شیخ عبد الرحمٰن السدیس کا ماننا ہے کہ اس وقت شیخ شریم سے زیادہ قرآن کریم کو عمدہ انداز میں پڑھنے والا کوئی نہیں ۔ شیخ شریم انتہائی پر سوز انداز میں تلاوت کرتے ہیں ان کی آواز میں جو درد و سوز ہے اسکی مثال ملنا مشکل ہے شیخ شریم کی خشیت الٰہی اور تقویٰ کا اثر ہے کہ ان کی تلاوت دل پر اثر کرتی ہے ۔وہ قرآن کو بروایت حفص عن عاصم پڑھتے ہیں شیخ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے ایام شباب میں وقت ضائع نہیں کیا ان کے بقول انہوں نے قرآن مجید کی سورۃ النساء کو صرف ٹریفک سگنل میں انتظار کےوقت زبانی یا د کیا ۔
وہ اکثر و بیشتر خود بھی قرآن کریم کی تلاوت کے دوران روتے ہیں اور حاضرین بھی اشکبار ہوجاتے ہیں بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ ان پر اتنی رقت طاری ہوجاتی ہے کہ آیت کا پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ تراویح کی نماز کے دوران ایک رکعت کے شروع سے آخر تک اتنی شدت سے روتے رہے کہ کئی نمازی بھی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ عرب میڈیا کے مطابق اقویٰ بکاء فی تاریخ الحرم المکی یعنی مسجد حرام کی تاریخ میں سب سے زیادہ رقت آمیز اور آہ بکا ء سے پرُ نما ز تھی جس کی ویڈیو کلپ صرف یو ٹیوب پر دس لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھی جاچکی ہے علاوہ ازیں اپنی والدہ کی وفات کے روز بھی شیخ شریم نے اسی طرح رقت آمیز نماز پڑھائی جس میں وہ بڑی مشکل سے سورۃالفاتحۃپوری کر پائے اس رقت آمیز تلاوت کی ویڈیوکے علاوہ آڈیوکلپ دنیا بھر میں مقبول ہیں شیخ شریم اپنے کانوں میں رس گھولنے والی تلاوت کی وجہ سے بے حد پسند کیے جاتے ہیں خصوصا عرب نوجوان ان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں ٹیوٹر میں ان کی فالور کی تعدادایک ملین سے زائد ہے جبکہ فیس بک میں عشاق الشیخ الشریم اور محبی الشیخ الشریم کےنام سے ان سےعشق کی حد تک محبت کرنے والے عرب نوجوانوں نے مختلف پیچز بنا رکھے ہیں۔
شیخ شریم 19جنوری 1964ءکو سعودی دار الحکومت ریاض میں پیداہوئے ان کا آبائی تعلق نجد کے شہر قحطان قبیلے سےہے ان کے دادا محمد بن ابراہیم الشریم شقراء کے گورنرتھے۔شیخ شریم نے ابتدائی تعلیم مدرسہ عرین میں حاصل کی اور مڈل کے لیے نموذجیہ میں داخلہ لیا اور 1404ھ میں سیکنڈری کی تعلیم سے فارغ ہوئے شیخ شریم نے اعلی تعلیم کے لیے ریاض شہر میں واقع امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ عقیدہ و معاصر مذاہب میںداخلہ لیااور سال 1409ھ یہا ں سے فراغت حاصل کی ۔1410میں ہائر انسٹیٹیوٹ آف جسٹس میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1413ھ میں امتیازی درجا ت سے ما سٹر کی ڈگری حاصل کی ۔1416میں ام القریٰ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی پی ایچ ڈی میں ان کے مقالے کا عنوان ’’المسالک فی المناسک‘‘ تھا اس مقالے کے نگران اعلیٰ سعودی شیخ عبدالعزیز آل شیخ تھے
انکے اس مقالے کو کتابی شکل میں بڑی تعداد میں چھاپاگیا شیخ شریم نے شیخ عبد العزیز بن باز ،شیخ عبد العزیز بن عقیل ،شیخ عبد الرحمٰن البرک،شیخ عبد العزیز الراجحی اور شیخ صالح فوزان الفوزان جیسے بڑے اساتذہ کرام سے استفادہ کیا 1410ھ میں شیخ شریم ہائر انسٹیٹیوٹ آف جسٹس میں مدرس کی حیثیت سے مقرر ہوئے1412ھ میں خادم حرمین شریفین کی جانب سے حرم مکی میں آپ کے امام و خطیب مقرر کیے جانے کا فرمان جاری ہوا جبکہ وہ ا س سے پہلے دار لحکومت ریاض میں ایک مشہور امام تھے شیخ شریم نے جب پہلی بارریاض نمازپڑھائی تو انکی تلاوت کوبے حد پسند کیا گیااسی دوران ان کی اہلیہ نے ایک خواب دیکھ کر انہیں خوشخبری سنائی کہ وہ مسجدحرام کے امام بن جائیں گے ۔اس وقت ان کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ انہیں یہ سعادت عظمیٰ نصیب ہوگی مگر چند برس گزرنے کے بعد انکی اہلیہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگیا سال 1413ھ میں مسجد حرام میں درس وتدریس کے لیے آپکے نام شاہی فرمان جاری ہوا شیخ شریم مسجد حرام کی امامت و خطابت کے فرائض کے ساتھ سا تھ ام القریٰ یونیورسٹی کے شریعہ فیکلٹی میں میں ڈین اور استاد کی خدمت سر انجام دے رہے ہیںشیخ شریم عربی کے مشہور شاعر سلیمان بن شریم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ خود بھی مایہ ناز شاعر ہیں وہ ایک بہترین انشاءپردیز ،ادیب ماہر خطیب اور مصنف ہیں ان کے قلم سے دینی موضوعات پر 13کتابیں چھپ کر قارئین سے داد وصول کر چکی ہیں ۔حرم شر یف میں ان کے دیئےگئےبلیغ خطبات بھی چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں وہ مسجدحرام میں کئی خطبات اشعار کی صورت میں بھی دے چکے ہیں جن میں صلوٰۃ الاستسقاء کا خطبہ بہت مشہور ہے جس میں انہوں نے قصیدے کی صورت میں نہایت بلیغ انداز اور رقت آمیز انداز میں بارش کی دعا مانگی ہے اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر بھی شیخ شریم نے انتہائی رقت آمیز مرثیہ لکھا ہے باقی ائمہ حرم کے برعکس شیخ شریم اپنے خطبوںاور ٹیوٹر میں سعودی حکومت کی پالیسی کے خلاف لکھتے اور بولتے رہتے ہیں ۔جب سعودی حکومت نے مصری آمر جنرل سیسی کی کھل کر حمایت کی تو شیخ شریم نے اس پر تنقید کر کے اخوان المسلمون کے شہداء کو سلام پیش کیا تھا جب سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کا انتقال ہوا تو ائمہ حرم نے اپنے اپنے ٹیوٹر پیچز میں ان پر تفصیل سے لکھا مگر شیخ شریم نے ایک جملہ بھی نہیں لکھا جبکہ اسلام کی موجود ہ صورتحال خصوصاشام کے حالات کا وہ اپنے خطبوں میں ذکر کرتے رہتے ہیں شامی مظلومین کا ذکر وہ انتہائی رقت آمیز انداز میںکرتے ہیں اور حرم شریف میں ان کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔
۔۔۔

سود کے احکام اور بینکاری نظام

سود کے احکام اور بینکاری نظام

سپریم کورٹ شریعت اپلیٹ بنچ کے سوالات کے جوابات

سوال نمبر1: ربا کی حقیقت، تعریف ا ر معنویت کیا ہے؟

جواب : رِبا عربی زبان کا لفظ ہے اور قرآنِ کریم میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اس کے لغوی معنی زیادتی، بڑھوتری، اضافے کے ہیں۔ لیکن شرعی اصطلاح میں اس سے مراد مطلق اضافہ اور زیادتی نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص قسم کی زیادتی ہے اور وہ یہ کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم اُدھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا …مثلاً کسی کو سال یا چھ مہینے کے لئے۱۰۰ روپے قرض دیئے، تو اس سے یہ شرط کر لی کہ وہ ۱۰۰ کے ۱۲۰ روپے لے گا۔ مہلت کے عوض یہ ۲۰ روپے جو زیادہ لئے گئے ہیں، یہ سود ہے۔ ورنہ انسان کاروبار کرتا ہے تو وہ سو روپے کے ساتھ عموماً۲۰،۲۵ روپے نفع کما لیتا ہے، یا کسی کو سو روپے قرضِ حسن کے طور پر دیتا ہے، دیتے وقت سوائے ہمدردی اور ثواب کے کوئی اور نیت نہیں تھی۔ لیکن قرض لینے والا اپنے طور پر

﴿هَل جَزاءُ الإِحسـٰنِ إِلَّا الإِحسـٰنُ ﴾(الرحمن:60)

کے تحت ۱۰،۲۰ روپے زائد دے دیتا ہے تو یہ دونوں اضافے سود کی ذیل میں نہیں آئیں گے۔ کیونکہ کاروبار اور تجارت ایک جائز فعل ہے، اللہ نے اسے حلال اور مشروع کیا ہے، اور اس کا مقصد ہی نفع کمانا ہے۔ اس لئے تجارت کے ذریعے سے جتنا اضافہ حاصل ہوگا، بشرطیکہ اس میں کسی امر حرام کا اِرتکاب نہ کیا گیا ہو، وہ حلال اور جائز ہوگا ۔ اسی طرح قرض دیتے وقت، قرض دینے والے نے زیادتی کی کوئی شرط عائد نہیں کی تھی، صرف اللہ کی رضا کے پیش نظر مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے قرض دیا تھا، اب قرض لینے والا اگر اپنی مرضی سے کچھ رقم زائد دے دے، تو یہ بھی جائز ہے، کیونکہ یہ نبیﷺ سے ثابت ہے۔ (صحیح بخاری:باب حسن القضاء) یہ اضافہ بھی سود نہیں ہے۔
بہرحال سود کی تعریف میں وہ اضافہ آئے گا جو شرط کرکے لیا جائے، اور وہ اضافہ بھی صرف مہلت کا عوض ہو۔ یہ ربا النسیئۃ یا ربا الجاھلیۃ کہلاتا ہے۔ اسے ربا النسیئۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ادھارپر سود لیا جاتا ہے کہ اس کے معنی ہی، ادھار کا سود ہیں۔ اور اسلام سے قبل زمانہ ٔ جاہلیت میں بھی اس کا چلن تھا، اس لئے اِسے ربا الجاھلیۃ بھی کہا جاتا ہے …اس کے علاوہ شریعت نے ربا کی بعض مزیدصورتوں کو بھی حرام کیاہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:

الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلاً بمثل یدا بید، فمن زاد أو استزاد فقد أربی ، الآخذ والمعطي فیه سواء (مسلم، المساقاة، باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقداً)

’’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے، یہ برابر برابر ہوں اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہوں۔ ( تب ان کا باہمی تبادلہ جائز ہے) جس نے زیادہ دیا یا زیادہ طلب کیا، تو اس نے سودی معاملہ کیا، لینے اور دینے والا دونوں اس میں برابر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم :حدیث نمبر ۱۵۸۴)
اس حدیث کی رو سے (مثلاً) گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے، تو ایک تو وہ برابر برابر ہو دوسرے ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونا بھی ضروری ہے۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ (نقد) ہونے کی بجائے ایک نقد اور دوسری ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں، تب بھی یہ سود شمارٰ ہوگا۔ تاہم ایک جنس کا دوسری جنس سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنا جائز ہے، بشرطیکہ دست در دست (ہاتھوں ہاتھ) ہو
غرض شریعت میں ربا کااطلاق ’’بیع میں ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے میں کسی ایک چیز میں ہو یا قرض کی واپسی کے وقت اصل چیزیا رقم میں ہو۔‘‘ پر ہوتا ہے… اس کی دو صورتیںہیں
1 ربا الفضل: ایک جیسی دو چیزوں کے تبادلے کے وقت ایک چیز کے عوض میں زیادہ لینا ۔
ربا الفضل کی مختلف صورتیں :ہر مال کا ایک وصف عام ہوتا ہے، اس اعتبار سے اسے جنس کہا جاتا ہے اور ایک وصف خاص ہوتا ہے، جسے صنف (قسم) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسے غلہ جات ہیں، یہ اپنے وصف عام (کہ ان کو کھایا جاتا ہے) کے اعتبار سے ایک جنس ہیں۔ یعنی کھانے والی جنس۔ لیکن و صف خاص کے اعتبار سے غلہ جات کی کئی صنفیں (قسمیں) ہیں جیسے چاول، جو، گندم، مکئی، جوار وغیرہ۔ یہ سب وصف عام کے اعتبار سے ایک جنس ہیں: جنس مطعومات، لیکن اپنے اپنے خاص اوصاف کے اعتبار سے یہ الگ الگ قسمیں ہیں۔ چاول ایک قسم ہے، گندم ایک قسم، جوار ایک، مکئی ایک، منقیٰ ایک، نمک ایک وغیرہ۔ ہر کھانے والی چیز کو اس پر قیاس کرکے اس میں شامل کیا جاسکتا ہے چاہے وہ ماپ کر فروخت ہوتی ہو یا تول کر…ایک مال کی قسم وہ ہے جسے ثمن کہا جاتاہے جیسے سونا، چاندی ہے اور اسی پر آج کل قیاس کیا جاسکتاہے: سکے، کرنسی نوٹ، چیک او رکمپنیوں کے شیئرز (حصے) وغیرہ کو۔
شریعت میں ان دونوں قسموں کی بابت اَحکام وارد ہیں۔ حدیث میں جن چھ چیزوں کا ذکر ہے وہ ان دونوں قسموں کو حاوی ہیں:سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور او رنمک ۔ بعض ائمہ نے سودی معاملات کو صرف ان چھ چیزوں تک محدود رکھا ہے، باقی دیگر چیزوں میںوہ کمی بیشی کو سود قرار نہیں دیتے۔ جب کہ اکثر ائمہ و فقہاء نے قیاس کرکے دوسری چیزوں کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً جو کھانے والے چیزیں ہیں چاہے کَیْلی(ماپی جانے والی) ہوں یا وزنی (تولی جانے والی)یا(سابقہ حاشیہ)جن میں (سونے چاندی کی طرح ) ثمنیّت پائی جاتی ہے، یا بعض کے نزدیک جن کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہو۔ اس حساب سے ایک جنس وزنی چیزوں کی ہے یعنی جنہیں تول کر بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ دوسری جنس کَیلی چیزوں کی ہے جنہیں پیمانوں سے ماپ کر بیچا جاتا ہے او رایک جنس ان چیزوں کی ہے جنہیں ذخیرہ کیا جاسکتا ہو او رایک جنس وہ ہے جو ثمن بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، جیسے سونا، چاندی، سکے کرنسی نوٹ وغیرہ۔ ان اَموال میں سودی اور غیر سودی صورتیں حسب ِذیل ہونگی:
(۱) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس اور قسم کے اعتبار سے ایک ہوں گی۔ مثلا گندم کا گندم سے، چاول کا چاول سے تبادلہ ہو، تو اس میں کمی بیشی بھی حرام ہوگی اور اُدھار بھی ۔ ان کا برابر ہونا بھی ضروری ہے اور مجلس عقد میں قبضہ بھی ضروری ہے۔
(۲) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس کے اعتبار سے ایک ہوں، البتہ قسم کے اعتبار سے مختلف ہوں تو ان میں کمی بیشی جائز ہوگی تاہم اُدھار ناجائز ۔ جیسے ایک کلو چاندی کا تبادلہ ایک یا دو گرام سونے کے ساتھ، ایک کلو جو کا سودا آدھا کلو گندم کے ساتھ۔ ایک دینار کا تبادلہ تین چار ریالوں کے ساتھ۔ اگر یہ سودا نقد ہوگا تو جائز ہے، اس میں اُدھار کرنا صحیح نہیں۔
(۳) جب دونوں تبادلوں والی چیزیں جنس کے اعتبار سے بھی ایک نہ ہوں اور قسم کے اعتبار سے بھی مختلف ہوں توان میں کمی بیشی بھی جائز ہے اور ادھار کرنا بھی جائز۔ جیسے (مثلاً) ایک کلو گندم کا ایک گرام سونے سے تبادلہ۔ ایک کلو کھجور کا سودا دس یا بیس تولہ چاندی کے ساتھ، ان میں کمی بیشی بھی جائز ہے او رادھار کرنا بھی جائز۔
2 ربا النسیئۃ: ایک جیسی دو متبادل چیزوں میں سے کسی ایک کا زیادہ معاوضہ لینا، مگر ایک مقررہ مدت کے بعد۔
یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب ِالٰہی کا باعث ہے۔ اس شدت کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد اُخوت، ہمدردی، ایثار و قربانی پر ہو۔ کسی کو مال کی ضرورت ہو، تو اصحابِ اموال ضرورت مندوں کی ضرورت فی سبیل اللہ، اللہ کی رضا کے لئے پوری کردیں یا پھر قرضِ حسن کے طور پر۔ جب کہ سود کی بنیاد اس کے برعکس خود غرضی، دوسرے کے استحصال اور ظلم پر ہے۔ اس میں اصحاب ِثروت کسی ضرورت مند سے اللہ کی رضا کے لئے تعاون پر آمادہ نہیں ہوتے۔ انہیں صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ غریب کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کے باوجود ان کی حرص میں کمی نہیں ہوتی۔ اسی لئے شریعت نے ہر قسم کے سود کو ممنوع اور حرام قرار دیا ہے،چاہے وہ ذاتی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیئے گئے قرض پر وصول کیا جائے یا تجارتی مقاصد کے لئے حاصل کردہ رقم پر۔
سوال نمبر 2: کیا ’’ربا‘‘ کی ا صطلاح کا بنکوں او رمالیاتی اداروں کے دیئے گئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی اطلا ق ہوتا ہے؟
جواب : یہ سوال ا س لئے پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ’’قرآن نے جس سود سے روکا ہے، وہ صرف وہ سود ہے جو ذاتی ضروریات کے لئے لئے گئے قرض پر لیا جائے۔ لیکن جو قرض تجارت اور کاروبار کے لئے لیا جائے، ا س پر لیا جانے والا سود اس کی ذیل میں نہیں آتا اور نہ وہ ممنوع ہی ہے، کیونکہ نزولِ قرآن کے وقت تجارتی قرض کا رواج ہی نہ تھا‘‘… لیکن یہ دعویٰ بالکل بے دلیل ہے۔ علماء نے بڑی وضاحت اور تفصیل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضے لئے جاتے تھے، ذاتی ضرورت کے لئے بھی اور تجارت و کاروبار کے لئے بھی اور دونوں پر سود لیا اور دیا جاتا تھا اور قرآنِ کریم میں بغیر کسی قسم کی تفریق کے سود کو حرام قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہر قسم کے سود کی ممانعت اور حرمت ہے، چاہے قرض ذاتی ضرورت کے لئے لیا گیا ہو یا تجارت کے لئے۔
اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ دونوں صورتوںمیں ظلم اور خود غرضی کا پہلو پایا جاتاہے۔ ذاتی ضرورت پر لئے گئے قرض پر سود کا ظلم تو مسلم ہے، لیکن تجارتی قرض پر سود میں بھی ظلم صریح اور بدترین خود غرضی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ مثلا ً ایک شخص نے بنک سے یا کسی ساہوکار سے کاروبار کے لئے قرض لیا، لیکن کاروبار چل نہ سکا یا کاروبار میں نقصان ہوگیا۔ لیکن قرض دہندہ تو ہر صورت میں اپنا سود کا مطالبہ جاری رکھے گا، حالانکہ وہاں اصل رقم بھی ڈوب گئی ہے چہ جائیکہ وہ اس کے منافع سے سود ادا کرے۔ لیکن بنک یا سود خور مہاجن کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوگی، وہ اصل رقم کے ساتھ اپنا طے شدہ سود بھی ضرور وصول کرے گا۔ اسلام اس ظلم اور خود غرضی کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے؟ اس لئے اسلام میں دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام او رناجائز ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عرب میں تجارتی مقاصد کے لئے قرض لینے اور دینے کا رواج ہی نہیں تھا، صرف ذاتی ضروریات کے لئے ہی قرض لینے دینے کا معمول تھا۔ اس لئے جو سود حرام کیا گیا ہے، وہ صرف ثانی الذکر قسم کا سود ہے نہ کہ اول الذکر سود۔ کیونکہ پہلی قسم کے سود کا تو وہاں رواج ہی نہیں تھا۔ اس بنا پر وہ صنعت و کاروبار کیلئے لئے ہوئے قرض پر سود کو جائز قرار دیتے ہیں۔ اس کو وہ تجارتی سود سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کی بابت کہتے ہیں کہ یہ حرام نہیں ہے، ا س سے تو لوگ کاروبار کرکے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر وہ اس فائدے میں سے تھوڑا سا فائدہ صاحب ِمال کو ایک سالانہ شرح کے حساب سے لوٹا دیں، تو یہ کس طرح ناجائز ہو سکتا ہے، یہ تو صاحب ِمال کا وہ حق ہے جو اپنے مال کی وجہ سے اسے ملنا چاہئے۔ لیکن اوّل تو یہ دعویٰ ہی صحیح نہیں ہے کہ عرب میں تجارتی قرض کا رواج نہیں تھا، عربوں میں تجارتی مقاصد کے لئے بھی قرض لینے دینے کا رواج تھا۔ علاوہ ازیں صنعت و تجارت میں لگے ہوئے سرمائے کی بابت کوئی شخص یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ بہرصورت نفع دے گا، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ لیکن بنک یا ساہو کار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی، وہ ہر صورت میں اپنے دیئے ہوئے قرض پر سالانہ شرح سے سود وصول کرنا ضروری سمجھتا اور وصول کرتا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں، خود غرضی نہیں، استحصال نہیں؟ اور اگر نقصان نہ ہو تو یہ سودی قرض گرانی کا باعث بنتا ہے۔ ایک صنعت کار، جتنا سود ادا کرتا ہے، اسے وہ پیداواری لاگت میں شامل کرکے اپنی تیار کردہ اشیاء کی قیمت مقرر کرتا ہے، جس سے عوام کو وہ چیز نسبتاً مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے۔ اس لئے اسلام نے ہر قسم کے سود کو حرام کرکے ظلم و استحصال اور گرانی کے ایک بہت بڑے ذریعے اور سرچشمے کو بند کردیا ہے۔

تجارت اور سود میں فرق ہے:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ سودی قرض بھی تو ایک تجارت ہے، قرآن نے ان کا یہ قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے

:وَأَحَلَّ اللهُ البَيعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا﴾ (البقرۃ)

بیع بھی تومثل سود ہی کے ہے، اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا:یہ دونوں چیزیں کس طرح ایک ہوسکتی ہیں۔ بیع کو تو اللہ نے حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام؟ جس سے واضح ہے کہ یہ دونوں ایک نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے۔ دوسرے ا س میں نفع نقصان کا اِمکان رہتا ہے۔ جبکہ سود میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں، تیسرے، تجارت باہم تعاون و تناصر کا نام ہے جبکہ سود خود غرضی، بے رحمی اور سنگ دلی کا۔ چوتھے، تجارت میں رقم او ر چیز کے تبادلے کے بعد دونوں ایک دوسرے کے تبادلے کے مالک بن جاتے ہیں او راس کے بعد ان کا آپس میں کوئی مطالبہ نہیں رہتا۔ جبکہ سود میں ایسا نہیں ہوتا، بلکہ صاحب المال کی طرف سے ہر سال زیادتی کا مطالبہ رہتا ہے جو سالہا سال تک بلکہ بعض دفعہ نسل درنسل چلتا رہتا ہے۔ ان وجوہ سے سود اور تجارت ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔ ایک حلال ہے اور دوسرا حرام۔
لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں بھی مغرب کی نقالی میں معیشت کی ساری بنیاد سودی نظام پر قائم ہے اور اس سے بچنے کی کوئی سعی و کاوِش اسلامی ملکوں کے مغرب زدہ حکمرانوں کی طرف سے نہیں ہو رہی ہے۔ اسی طرح مسلمان عوام میں بھی اب سود سے بچنے کا کوئی جذبہ نہیں رہا اور ان کی اکثریت بنک کے سود کو وصول کرتی اور کھاتی ہے اور سودی کھاتوں میں شریک ہوتی ہے۔
بنا بریں بنکوں اور مالیاتی اداروں کے دیئے قرضوں اور ان پر عائد کردہ سود پر بھی ربا کا اطلاق ہوگا۔ کوئی بھی سودی قرضہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر 3: پاکستانی بنک اور بعض مالیاتی ادارے اپنے گاہکوں کو ‘مارک اَپ پر دوبارہ خریداری کے معاہدوں کی بنیاد پر رقم دیتے ہیں۔ اس طریق کار کے تحت بنک کا گاہک یہ مراد لیتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جنس بنک کو فروخت کرتا اور عین اسی وقت اس جنس کو مؤثر ادائیگی کی بنیاد پر زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے۔ مارک اَپ کی کوئی شرح (فی صد سالانہ) کا اطلاق دوسری فروخت پر ہوتا ہے۔ کیا یہ معاہدہ ’’ربا‘‘ کے زمرے میں آتا ہے؟
جواب: یہ بھی ایک حیلہ ہے جس کا مقصد سودی نظام کا نام بدل کر اسے جائز قرار دینا ہے۔ اس میں بنک کا گاہک قطعاً کوئی چیز بنک کو فروخت نہیں کرتا، صرف فرض کر لیا جاتاہے جب کہ ایسا کرنا بھی ممنوع ہے، کیونکہ جس چیز کا عملاً وجود ہی نہیں ہے، اُسے فروخت کرنے کے کیا معنی؟ نبی کریمﷺ نے قبل القبض (اپنے قبضے میں لینے سے پہلے) کسی چیز کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جب قبل القبض ہی فروخت کرنا جائز نہیں ہے، توایک معاملے کو فرض کرکے اس پر بیع و شراء کے احکام کس طرح لاگو ہوسکتے ہیں؟
پھر وہ گاہک (جو اصل میں بنک سے قرض لینے کا خواہش مند ہوتا ہے) بنک سے اپنی (فرضی) فروخت شدہ چیز بنک سے زیادہ مدت کے عوض دوبارہ خرید لیتا ہے (جس کا مطلب دراصل زیادہ رقم کا حصول ہے) اور پھر وہ گاہک بنک کو سود ادا کرتا رہتا ہے جس کا نام مارک اَپ رکھ لیا گیا ہے۔ اصل مقصد بنک سے تجارت کے لئے قرض لینا ہی ہے، لیکن سیدھے طریقے سے ناک پکڑنے کی بجائے، ہاتھ کو پیچھے سے گھما کر ناک پکڑنے کا کام کیا گیا ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک سودی حیلہ ہی ہے جس کا جواز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
سوال نمبر4: کیا ’’ربا‘‘کی حرمت کے معاملے میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کے مابین کوئی فرق ہے؟ کیا ’’ربا‘‘ کی حرمت کا دائرہ غیر مسلموں سے لئے گئے قرضوں یا ایسے مسلم ممالک جن کے قوانین اور قومی پالیسیاں بین الاقوامی مالیاتی قوانین اور پالیسیوں سے منسلک نہیں اور جو صدرِ مملکت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہیں، تک بڑھایا جاسکتا ہے؟
جواب: ’’ربا‘‘کی حرمت میں مسلم اور غیرمسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ کوئی سودی معاملہ نہیں کرسکتا، اسی طرح ایک مسلمان کسی غیر مسلم کے ساتھ سودی لین دین نہیں کرسکتا۔ جن لوگوں نے اس میں فرق کیا ہے، ان کے پاس اس کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قول کو ان کے اپنوں نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں اس کی حرمت کا دائرہ ان تمام مالیاتی قوانین اور پالیسیوں تک وسیع ہے جن پر سودی معاملات کا اطلاق ہوتا ہے، چاہے وہ قرضے غیر مسلموں سے حاصل کئے گئے ہوں یا مسلم ممالک سے، چاہے وہ پاکستان کے کنٹرول میں ہوں یا نہ ہوں۔ ان چیزوں سے سود کی حرمت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اصل چیز سود کی وہ تعریف ہے جو پہلے گزری، جو بھی معاملہ اس کی زد میں آئے گا اور اس تعریف کا مصداق قرار پائے گا، اس پر یقینا حرمت کا اطلا ق ہوگا۔
سوال نمبر5: حکومت ِپاکستان اور اس کے زیر کنٹرول بعض ادارے بانڈز اور سرٹیفکیٹس وغیرہ جاری کرکے قرضے حاصل کرتے ہیں اور ایسے بانڈز کے حامل افرا دکو مقررہ ہر مدت کے بعد منافع ادا کرتے ہیں۔ کیا یہ منافع ’’ربا‘‘ کی تعریف میں آتا ہے؟
جواب: یقینا ان پر ’’ربا‘‘ کی تعریف صادق آتی ہے کیونکہ یہ قرضے ہیں، کوئی کاروباری شراکت نہیں ہے، اور حکومت یا اس کے ادارے ان پر ایک طے شدہ رقم منافع کے نام سے (فی صد سالانہ کے حساب سے ) ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، جب کہ ان کی اصل رقم محفوظ ہوتی ہے، وہ جب چاہیں اپنی رقم لے سکتے ہیں، لیکن جب تک یہ رقم حکومت یا اداروں کے پاس رہے گی، وہ اس پر متعین منافع دیتے رہیں گے۔ یہ وہی قر ض کے بدلے میں مہلت کا معاوضہ وصول کرنا ہے، جو خالص سود ہے، اس کا نام منافع رکھ لیا گیا ہے، گویا شراب کی بوتل پر ‘روح افزا کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہے۔
سوال نمبر6: یہ امر واضح ہے کہ کاغذ کی کرنسی افراطِ زر کی صورتِ حال میں اپنی قیمت کم کرنے کے رجحان کی حامل ہے۔ ایک قرض دار جو پیپر کرنسی کی اپنی مخصوص رقم اگر بطورِ قرض حاصل کرتا ہے، تو جب وہ یہ رقم ایک طے شدہ مدت کے بعد اپنے قرض خواہ کو لوٹاتا ہے، تو قرض خواہ افراطِ زر کی وجہ سے نقصان اُٹھا سکتا ہے۔ اگر قرض خواہ اپنے قرض دار سے اپنے نقصان کی تلافی کے لئے مزید رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، تو کیا یہ مطالبہ سود طلب کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے؟
جواب: یہ مسئلہ نہایت اہم ہے، کیونکہ جو ملک اقتصادی اور سیاسی استحکام سے محروم ہیں، جن میں بدقسمتی سے پاکستان بھی شامل ہے، وہاں آئے روز افراطِ زر کی صورتِ حال نمودار ہوتی رہتی ہے، جس سے کرنسی کی قدروقیمت مسلسل گھٹتی ہے۔ اس لئے طویل ُالمیعاد قرضوں پر یقینا قرض خواہ کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ اب اس نقصان کی تلافی کے لئے قرض خواہ اپنے قرض دار سے مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ اگر کرسکتا ہے تو یہ سود کی ذیل میں تو نہیں آئے گا؟ …یقینا یہ قابل غور اور اجتہادی مسئلہ ہے اور اس قسم کے مسائل کے حل کے لئے اجتماعی اجتہاد ناگزیرہے، یعنی عالم اسلام کے جید علماء اور ماہرین معیشت مل کر اس کے تمام پہلوئوں پر غور کریں اور اس کے لئے کوئی اصول اور ضابطہ طے کریں، تاکہ کسی فریق پر بھی ظلم نہ ہوسکے۔ کیونکہ جس طرح ظلم کرنا صحیح نہیں ہے، اسی طرح کوئی دوسرا شخص یا فریق ظلم کا ہدف بن رہا ہو، تو اس کے اِزالے کے لئے بھی سعی کرنا ضروری ہے۔ قرآنِ کریم کے حکم ﴿لَا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴾(البقرة279) ’’ نہ خود ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘کا مفاد بھی یہی ہے۔
آج سے ۱۴؍۱۵ سال قبل، شرعی عدالت میں بھی اس قسم کا ایک کیس آیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ شفعہ کا ایک مقدمہ ۲۰ سال کے بعد انجام کو پہنچا ہے۔ جبکہ ۲۰ سالوں میں کرنسی کی قدروقیمت بہت گھٹ چکی ہے۔اب قیمت کی ادائیگی وہی کی جائے جو ۲۰ سال قبل لی گئی تھی، جو کہ گھٹتے گھٹتے برائے نام رہ گئی ہے، یا اب موجودہ حالات کے مطابق اس میں اضافہ کرکے ادائیگی کی جائے، تاکہ مالک کو بھی نقصان نہ ہو؟ اس وقت جسٹس گل محمد (مرحوم) عدالت کے چیف جسٹس تھے، عدالت نے مختلف علماء سے استفسار کیا، راقم نے اس وقت فاضل عدالت کے سامنے جو رائے پیش کی تھی، مناسب معلوم ہوتا ہے، اسے علماء کے غوروفکر کے لئے یہاں دہرا دیا جائے۔ یہ تحریر عدالت میں تو شاید محفوظ ہوگی، لیکن کسی اور جگہ ابھی تک شائع نہیں ہوئی۔
یہ تحریر حسب ِذیل ہے: کرنسی کی قوتِ خرید میں کمی کا ادائیگی پر اثر:چند سا لو ں سے کر نسی نو ٹ اپنی ما لیتی اعتبا ر سے جس غیر یقینی صو رتحال سے دو چا ر ہے، اس کے پیش نظر زیر بحث مسئلہ فی ا لو اقع سنجیدہ غو رو فکر کا مستحق ہے۔ علما ء کو اجتما عی غو رو فکر اور بحث و تمحیص کے ذر یعے سے اس کا شر عی حل پیش کرنا چاہیے…اس سلسلے میں را قم کی رائے حسب ِذیل ہے:
کر نسی نو ٹ موجودہ دور میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ سونے چا ند ی کے سکو ں کی بجا ئے اب یہی نو ٹ اس کے متبا دل بن گئے ہیں۔ لین دین اور ما لی معا ملا ت کی اساس بھی یہی نو ٹ ہیں،اس لئے بعض علما ء تو اس کو عر فاً ثمن تک کا در جہ دیتے ہیں جس طر ح کہ سو نا چا ندی اپنی اصل کے اعتبارسے ہی ثمن ہیں ۔لیکن کر نسی کی تمام تر اہمیت کے با وجود اسے بعینہٖ سو نا چا ندی کی طرح بطو رِ ثمن سمجھ کر سو نا چا ندی وا لا حکم ا س پر لا گو کرنا بعض علما ء کے نزدیک صحیح نہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سو نا اور چا ندی دونوں کا زکوٰ ۃ کے لئے نصا ب متعین ہے جب کہ کر نسی نوٹوںکی زکوٰۃ ادا کر نی ہو تو اس کے لئے کو ئی متعین نصاب نہیں ہے، نہ ہی اس کا تعین ممکن ہے۔ کیونکہ کر نسی نوٹو ں کی زکوٰ ۃ کے لئے پہلے سو نے یا چا ندی (بہ اختلا فِ علما ء ) کے متعین نصا ب کی کر نسی کے اعتبا ر سے قیمت متعین کی جا ئے گی اور پھر اس کے بعد اس کی زکوٰۃ ادا کی جا ئے گی، جس میں ہر سا ل کمی بیشی کا امکا ن ہی نہیں، ایک حقیقت اور وا قعہ ہے ۔
مثلاً اگر کر نسی نو ٹو ںکے لئے سو نے کے نصا ب کو بنیا د بنایا جا ئے (جیسا کہ علا مہ یو سف قرضاوی وغیر ہ علما ء کا خیال ہے) تو سا ڑھے سا ت تو لے سو نے کی قیمت کر نسی کے اعتبا ر سے ہو گی ۔اتنی ما لیت کے کر نسی نو ٹ اگر کسی کے پا س زائد از ضر ورت ایک سا ل تک مو جو د رہیں تو پھر ڈھا ئی فی صد کے حساب سے زکوٰ ۃ ادا کی جا ئے گی، مثا ل کے طو ر پر اس وقت سو نا۶۰۰۰ روپے فی تو لہ ہے تو ۴۵ہزار کے کرنسی نو ٹو ں پر زکوٰ ۃ ( شر و طِ مقررہ کے مطا بق) اس کے ما لک پر عا ئد ہو گی، اس سے کم پر زکوٰ ۃ نہیں ہو گی، لیکن سا ل دو سا ل بعدسو نا ۶کی بجا ئے ۷ہزار روپے فی تو لہ ہو جا ئے تو پھر ۴۵ہزار روپے پر بھی زکوٰۃ عا ئد نہیں ہو گی ۔پھر یہ رقم اس سے بھی زیا دہ ہو گی تب قابل زکوٰۃ ہو گی۔ یو ں سو نے کے اُتا ر چڑھا ئو کے سا تھ کر نسی نو ٹو ں کی شر حِ نصا ب میں بھی ردّو بدل ہو گا ۔
یہی صو رتحا ل کر نسی نو ٹو ں کی زکوٰۃ چا ندی کے نصا ب سے و ا بستہ کر نے کی صو رت میں بھی پیش آئے گی۔جیسا کہ پا ک و ہند کے علما ء نے چا ندی کے نصا ب کو ہی کر نسی نو ٹو ں کی زکوٰ ۃ کے لئے بنیا د بنا یا ہو ا ہے اور اس اعتبا ر سے سا ڑھے با ون تو لہ چا ندی کی قیمت اس کا نصا ب ہے۔ اگر اتنی چا ندی ۶ہزار کرنسی نو ٹو ں میں آتی ہے تو۶ہزار کی رقم کرنسی نو ٹو ں کے لئے زکوٰ ۃ کا نصاب ہو گی۔ اگر ۷ہزار میں ساڑھے با ون تو لہ چا ندی آئے گی تو ۷ ہزا ر روپے ہو گا، ۸ہزار میں آئے گی تو ۸ہزار نصاب ہو گا۔
اس سے یہ با ت و ا ضح ہو جا تی ہے کہ سو نے چا ندی کی طرح کر نسی نو ٹو ں کا کو ئی متعین نصاب نہیں ہے، اس لئے شر عی طو ر پر یہ سو نا چا ندی کی طرح ثمنیت کے حا مل نہیں سمجھے جا سکتے اور جب ان کی حیثیت با لکل سو نے چا ندی کی طرح نہ ہوئی تو اُصو لی طو ر پرلمبے مالی معا ہدات میں کمی بیشی کا جو از تسلیم کیا جا نا چا ہئے تا کہ کسی ایک فر یق کو نقصا ن نہ ا ٹھا نا پڑے ۔
بنا بر یں حکو مت اگر کو ئی ایسا قا نو ن یا اُصو ل وضع اور متعین کر تی ہے کہ جس کی رو سے ما لی معاہدات میں کر نسی کی قیمت کے اُتار چڑ ھا ئو کا اعتبا ر کیا جا سکے تو شرعاً اس کی گنجا ئش معلو م ہو تی ہے کیونکہ ایک عرصہ گز ر جا نے کے بعد کر نسی کی قیمت میں خا طر خو اہ کمی آجا تی ہے جس سے بعض دفعہ بہت سے لو گو ں کو خا صا نقصا ن بر دا شت کر نا پڑتا ہے۔ اسی طرح اند رونِ ملک عا م لو گو ں کو بھی خسا رہ برداشت کر نا پڑتا ہے جب کہ کچھ دو سرے لو گو ں کو خا ص منفعت حا صل ہو جا تی ہے ظا ہر با ت ہے کہ یہ صو رتحال لا ضَرَر ولا ضِرار (موطأ امام ما لک، کتا ب ا لبیو ع) کے خلا ف ہے۔
اسلام کے اس اصو ل کا تقا ضا یہ ہے کہ جب کہ کر نسی کی قیمت مسلسل گر رہی ہے تو اس کے لئے حکو مت کو ئی ایسا اصول اور ضا بطہ بھی تجو یز کرے جس سے اس سے پیدا ہو نے والے نقصا ن کی تلافی بھی بآ سا نی ہو سکے ۔
مذ کو رہ با لا وضا حت سے رٹ گزار کے مو قف کی اصو لی تائید ہو تی ہے کہ ۲۳ سا ل میں ز مین کی قیمت میں سو فی صد ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیا دہ اضا فہ ہو گیا ہے۔ اس لئے قا نو نِ حق شفعہ کی زیر بحث شق کو اس طر ح تبد یل کر نے کی ضرو رت ہے جس سے خریدار کو نقصا ن نہ اُٹھانا پڑے۔ اس مو قف میں بظا ہر شر عاً کو ئی قبا حت نظر نہیں آتی کیو نکہ اس طرح ایک فریق کے نقصان کا ازالہ مقصو د ہے جو مستحسن امر ہے ۔تا ہم یہ با ت یا د رکھنی چا ہئے کہ حکومت کی طر ف سے جب تک اس کے لئے کو ئی اصول اور ضابطہ تجویز نہیں کر دیا جا تا، اس وقت تک عا م لین دین عا م معمول اور عر ف کے مطابق کر نا ضر وری ہے اور وہ عرف فی ا لحا ل یہی ہے کہ جتنی تعداد کے کر نسی نو ٹو ں میں سو دا طے ہو ا تھا یا معا ہد ہ ہو ا تھا، اتنی ہی تعداد کے نوٹ وصول کر نے کا فریق ثا نی حقدار ہو گا۔ کر نسی کی قیمت میں کمی کا اعتبا ر نہیں ہو گا کیو نکہ کسی اصول اور ضابطے کے بغیر مذ کو ر ہ اجا زت مفا سد ِکثیرہ اور نزا عات کا باعث ہو گی تا ہم عدا لتیں خصوصی کیسو ں میں مذکو رہ شر عی گنجا ئش کی روشنی میں کر نسی کی قیمت میں کمی سے پیدا ہو نے والے نقصان کے اِزالے کا فیصلہ کر سکتی ہیں جیسا کہ زیر بحث مقد مہ میں بھی اس کی گنجا ئش معلو م ہو تی ہے ۔
سوال نمبر7: اگر سود یا مارک اَپ کی تمام اقسام اسلامی احکامات کے خلاف قرار دے دی جائیں تو آپ فنانسنگ کے کیا طریقہ ہائے کار تجویز کرتے ہیں:
( الف) تجارت اور صنعت کی فنانسنگ
(ب) بجٹ کے خسارے کی فنانسنگ
(ج) بیرونی قرضوں کا حصول
(د) اسی نوعیت کی دیگر ضروریات اور مقاصد
جواب: اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سود یا مارک اَپ کی تمام قسمیں حرام ہیں۔ لیکن اس کے لئے متبادل صورتیں کیا یا کیا کیا اختیار کی جاسکتی ہیں؟ یہ بہت تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ اسے یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا، علاوہ ازیں علماء اس کی تفصیلات بھی کماحقہ بیان نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ ان کا میدان نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ علماء اور ماہرین معیشت باہم مل کر اس کا حل تلاش اور متبادل تجویز کرسکتے ہیں۔ بلکہ بہت سے حل اور تجاویز پہلے بھی مرتب ہوچکی ہیں جو کتابوں اور رپورٹوں کی شکل میں موجو دہیں۔ خود اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس مسئلے کے حل کے لئے ماہرین معیشت کے مشوروں سے ایک رپورٹ تیار کی تھی جوموجود ہے، اس کے علاوہ بھی اسلامی بنکاری یا اسلامی معیشت کے نام سے بہت سی کتابیں تحریر شدہ موجود ہیں، جن میں اسی مسئلے پر بحث کی گئی ہے کہ سودسے بچ کر کس طرح ہم اپنے اقتصادی ڈھانچے کو استوار کرسکتے ہیں۔ نیت اگر صاف ہو اور سود سے بچنے کا جذبہ اور داعیہ قوی ہو، تو ابتدائی طور پر ان خاکوں اور تجاویز کو سامنے رکھ کر غیر سودی نظام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ ابتداء میں یقینا مشکلات آئیں گی، صدیوں سے بنے بنائے نظام کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرنا بلاشبہ جان جوکھوں کا کام ہے، لیکن جو قومیں عزم اور جذبے سے سرشار ہوتی ہیں، وہ مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتیں، بلکہ تیشہ فرہاد سے جوئے شیرنکال کر دکھا دیتی ہیں۔ ہم بھی اگر ابتدائی مشکلات سے گھبراتے اور ڈرتے رہے، جو یقینا پیش آئیں گی، تو کبھی بھی یہ معرکہ سر نہیں کرسکیں گے۔ اس کے لئے پھر صدیاں بھی ناکافی ہوں گی۔ لیکن ہم اللہ پر بھروسہ کرکے اور ایمانی عزم و جذبہ سے سرشار ہو کر یہ تہیہ کر لیں کہ ہم نے اس سودی نظام سے نجات حاصل کرنی ہے۔ تو یقینا چند سالوں میں بھی ہم اس میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ ’’جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم اس کیلئے راہیں کھول دیتے ہیں۔‘‘ ﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنَا﴾(العنكبوت:69)
تاہم اس میں کامیابی کے لئے بیک وقت دو محاذوں پر ہمیں سخت محنت اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ ایک محاذ قوم کی اِصلاح و تربیت اور کردار سازی کا ہے، جس سے ہمارے حکمران بالکل ہی غافل ہیں۔ حالانکہ اسلام کا پودا اسلام کی سرزمین پر ہی نشوونما پاسکتا ہے، غیر اسلامی آب و ہوا میں ہرگز نہیں پنپ سکتا۔ اس وقت ہماری قوم سچائی، امانت و دیانت اور دیگر اَخلاقی خوبیوں سے یکسر محروم ہے۔ الا ماشاء اللہ اور اسلامی نظامِ معیشت کا پودا سچائی اور امانت و دیانت کی سرزمین پر ہی لگ سکتا ہے، جب تک قوم کے اندر یہ وصف اور خوبی پیدا نہیں ہوگی، اس وقت تک غیر سودی نظام کا پودا یہاں لگ سکتا ہے نہ نشوونما ہی پاسکتا ہے۔ اس کے لئے تعلیمی نصاب بدلنا ہوگا، تعلیمی اداروں میں اسلامی روح پھونکنی ہوگی، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان سب کا قبلہ درست کرنا ہوگا، ان سب کا قبلہ اس وقت بالکل مخالف سمت میں ہے۔
دوسرے نمبر پر اسلامی معیشت کے اُصولوں پر اپنے بنکاری نظام کو استوار کرنا ہے، ا س سلسلے میں اب تک فکرونظر کے دائرے میں جو کام ہوا ہے، اس سے استفادہ کیا اور اسے بنیاد بنایا جائے۔ لیکن چونکہ عمل کا میدان، فکر و نظر سے مختلف ہے۔ ممکن ہے عمل کے میدان میں نئی صورتیں پیش آئیں، جن کا حل پہلی رپورٹوں اور خاکوں میں نہ ہو۔ تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دل میں اخلاص ہو اور جذبہ صادق ہو، تو قدم قدم پر رہنمائی ملتی رہے گی، راستے میں پہاڑ آئیں گے تو وہ بھی راستہ دینے پر مجبور ہوں گے،سمندر آئیں گے توانہیں بھی عبور کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ مخالفتوں کی بادِ تند بھی اپنا رخ بدل لے گی اور اغیار کی سازشوں کے طوفان بھی آہنی عزم کی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہوجائیں گے۔ شرط صرف ایک ہی ہے: ایمان، عزم اور قوت ِعمل سے سرشاری۔

﴿وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنِينَ ﴾( آل عمران:139)

سرمایہ کاری کی چند متبادل صورتیں:ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بنک موجودہ سودی طریقہ چھوڑ کر اگر نفع نقصان کی بنیاد پر مضاربت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس میں کامیابی کی کوئی اُمید نہیں۔ کیونکہ اس طرح اکثر لوگ کاروبار میں نقصان ظاہرکرکے بنک کی ساری رقم ہڑپ کر جائیں گے۔
موجودہ حالات میں بنک والوں کی یہ بات ایسی نہیں کہ اسے اہمیت نہ دی جائے اور اسے یوں ہی مذاق میں اُڑا دیا جائے، بلکہ قومی اَخلاق کی پستی اور کردار کی زبوں حالی اس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کہ بنک والوں کی بات کو ردّ نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ قوم کو اس اَخلاقی پستی سے نکالنے کی ذمے داری بھی تو حکومت کی ہے، وہ اس طرف بھی بھرپور توجہ دے تاکہ اِقتصاد و معیشت کی بنیاد بھی صحیح ہوسکے۔
لیکن تعلیم و تربیت اور اصلاح ، یہ وسیع المیعاد پروگرام ہے، اوّل تو اس کی طرف کسی کی توجہ ہے نہ مستقبل قریب میں بظاہر کسی حکومت سے اس بارے میں اچھی اُمید ہی وابستہ کی جاسکتی ہے۔ اس لئے بنک کے لئے فی الحال کچھ متبادلات ہیں، جن پر بنک سرمایہ کاری کرکے لاکھوں، کروڑوں کا نفع حاصل کرسکتا ہے۔
مثلاً جس صنعت و کارخانے وغیرہ کے لئے بنک رقم مہیا کرے، تو بنک اس کی مؤثر نگرانی کے لئے اپنے چند آدمی بھی اس میں رکھوا سکتا ہے، یہ نگرانی اور بندوںکی تقرری معاہدے کا باقاعدہ حصہ ہو، تو بنک کے ساتھ فراڈ کرنا ممکن نہیں رہے گا۔
(2) بنک قابل کاشت زمینیں خرید کر ان پر سرمایہ کاری کریں اور مزارعت یا نقد ٹھیکے پر وہ زمینیں کاشت کرنے والوں کو دیں۔ یہ مزارعت اور نقد ٹھیکہ جائز ہے، بنک اس کاروبار کے ذریعے سے معقول آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔
(3) اسی طرح ملک میں زمینوں کا ایک بہت بڑا حصہ بیکار پڑاہوا ہے، وہ زمینیں بنجر یا ریگستانی ہیں۔ لیکن اگر ان پر سرمایہ کاری کی جائے ، تو وہ قابل کاشت ہوسکتی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ذاتی طور پرایسا کیا ہے تو واقعی اس کے بہت مفید نتائج سامنے آئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ’’جنگ‘‘ کے ایک کالم نگار جاوید چوہدری کا ایک کالم بعنوان… ’’چولستان کے دکھ کون سنے گا‘‘… شائع ہوا ہے، چولستان بہاولپور کا ایک صحرائی اور ریگستانی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں ایک صاحب نے چند مربع زمین لے کر اس میں جو جنت ِارضی بسائی ہے، وہ حکومت اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والوں، دونوں کے لئے لمحہ ٔ فکریہ اور دعوتِ غور ہے۔ چونکہ ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے او راس کی ایک عملی مثال ہمارے سامنے آئی ہے، ا س لئے اس کالم کا یہ متعلقہ حصہ ملاحظے کے لئے پیش خدمت ہے… کالم نگار لکھتے ہیں:
’’چولستان سے واپسی پر ایک عجیب منظر دیکھا۔ ریت کے ٹیلوں، چھدری جھاڑیوں اور آوارہ بگولوں کے عین درمیان جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ زمین پر سبزہ بچھا تھا، گھنے درخت آسمان کی طرف منہ اُٹھائے کھڑے تھے، کپاس بار تھی اور ایک چھوٹی سی نہر ساتھ ساتھ بہہ رہی تھی۔ ہم لوگ وہاں رک گئے۔ میں نے جنت کے رکھوالے سے مالک کا نام پوچھا، اس نے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر جواب دیا ’’یہ سیٹھ عقیل الرحمن کے مربعے ہیں‘‘۔ یہ نام میرے لئے جانا پہچانا تھا میں نے اپنے ساتھیوں سے سیٹھ صاحب کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا سیٹھ عقیل الرحمن قومی اسمبلی کے رکن ہیں، حکام کی مہربانی سے چولستان سے ساٹھ ستر مربع اَراضی حاصل کی۔ اسے ہموار کیا اورمیلوں دور بہتی نہر کا پانی کاٹ کر ریت کو سونا بنا لیا۔ جب یہ داستان سنائی جارہی تھی تو میں سیٹھ عقیل الرحمن کا حوالہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ان سے واقف ہوں یا میں نے اُن کے بارے میں سن رکھا ہے۔ ابھی داستان جاری تھی کہ میرے دماغ میں روشنی کا گولہ پھٹا اور میں نے اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا :کہیں یہ سیٹھ صاحب وہی تو نہیں ہیں ساتھی نے ہاتھ چھڑا کر جواب دیا ہاں وہی سیٹھ عقیل الرحمن ہیں جو وزیراعظم کو ساتھ لے کر پہنچے، محکمہ آبپاشی کے افسر طلب کرائے اور انہیں پانی چوری کرانے کے جرام میں ہتھکڑیاں لگوا دیں میں نے حیران ہو کر پوچھا کیا ان کی زمینوں کو سیراب کرنے والا یہ پانی جائز ہے؟ میرے ساتھی نے قہقہہ لگایا اور ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے بولا چودھری صاحب !نا سمجھ بچوں جیسے سوال نہ کیا کریں!!
سیٹھ عقیل الرحمن کی تشکیل کردہ جنت سے آگے نکل کر میں نے سوچا ،اگر نہر سے پانی کی پتلی سی لکیر نکل کر صحرا کے دوزخ میں فردوس کا یہ ٹکڑا تخلیق کرسکتی ہے تو ایک ذرا سی بڑی آبی لکیر پورے صحرا کو جنت کیوں نہیں بنا سکتی؟ صدیوں سے جگہ بدلتے ٹیلوں اور برسوں سے بوندوں کو ترستے بگولوں نے سرگوشی کی ‘‘بنا سکتی ہے ،بناسکتی ہے …لیکن اس لئے ایک دور تک سوچنے والا لیڈر چاہیے۔ میں نے کہاہمارے پا س ایسا لیڈر ہے تو سہی’’ ٹیلے قہقہ لگا کر بولے ’’نہیں نہیں جس لیڈر کے پاس مہر اقبال جیسے لوگوں کے زخموں پر پھائے رکھنے کا وقت نہ ہو وہ لاکھوں سال کی منتظر زمینوں کا دکھ سننے کیلئے فرصت کہاں سے لائے گا۔‘‘ (روزنامہ جنگ ، لاہور :۴؍ ستمبر ۱۹۹۹ء)
(4) اسی طرح کمپنیوں کے شیئرز ہیں ۔اس میں بھی کاروباری شرکت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس میں اصل خرابی سٹے کا جز شامل ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر قانونی طور پر اس خرابی کو شامل ہونے سے روک دیا جائے، تو شیئرز کے کاروبار سے بھی بنک بہت منافع حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ سرمایہ کاری کی چند مثالیں ہم نے اس لئے دی ہیں کہ اگر مضاربت میں کامیابی کا فی الحال امکان نہیں ہے تو سرمایہ کاری کا یہ واحد میدان نہیںہے، بلکہ سرمایہ کاری کا میدان بہت وسیع ہے اور بہت سی جائز متبادل صورتیں سوچی اور اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اگر سود سے بچنے کا عزم قوی اور داعیہ سچا ہو، تو بہت سی راہیں نکل سکتی ہیں اور اس حرام کاری و حرام خوری سے قوم کو بچایا جاسکتا ہے ورنہ ع
خوئے بدرا حیلہ ٔ بسیار!
اور اس خوئے بد اور حیلوں بہانوں کا علاج کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ آپ متبادلات کے ڈھیر لگا دیں، خاکوں پر خاکے اور رپورٹوں پر رپورٹیں تیار کرکے دے دیں، ان سے ردّی میں تو اضافہ ہوگا، عمل و اقدام کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ گویا ہمارا اصل مسئلہ متبادل اَساس کا نہیں ہے، وہ تو موجود ہے اور اسے ہم اپنے عزم اور قوتِ عمل سے مزیدبہتر اور سازگار بنا سکتے ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ کہ ہمارے اندر ایمانی عزم کی کمی ہے او رہم حرام خوری سے بچنے کا کوئی جذبہ اور داعیہ ہی نہیں رکھتے۔
سوال نمبر 8: اگر آپ کے خیال میں سود کی تمام اقسام شرعی طور پر حرام ہیں تو حقیقت سے اس کے خاتمے کے لئے آپ کیا طریقہ کار تجویز کرتے ہیں، کیا آپ موجودہ اقتصادی نظام کو فوراً ختم کردیں گے یا قومی معاشی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تدریجی عمل تجویز کریں گے؟ اگر آپ تدریجی عمل کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ اس مقصد کے لئے کیا حکمت ِعملی تجویز کرتے ہیں جو قرآن و سنت کے تقاضوں کے مطابق ہو؟
جواب: حکمت ِعملی کے طور پر تدریج کی اہمیت و ناگزیریت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن تدریج کے نام پر عملی اقدامات سے گریز کی تائید بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہی تدریج مرحوم ضیاء الحق نے بھی اختیار کئے رکھی، جس سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے تدریج تو ضروری ہے، کوئی نظام بھی راتوں رات نافذ نہیں ہوسکتا۔ ایک بنے بنائے نظام کو، جس کی جڑیں بڑی گہری اور وسیع ہو، اسے اُکھیڑ کر ایک نیا نظام استوار کرنا، پھر اس کی نشوونما اور استحکام کے لئے آب و ہوا بھی اس کے موافق بنانا (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا) ایک مناسب تدریج اور حکمت ِعملی کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمہ جہتی اقدامات، گو تدریج کے ساتھ ہوں، نہایت ضروری ہیں، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ کسی ایک شعبے میں جزوی یا نیم دلانہ اقدامات سے کچھ نہیں ہوگا، یہاں تو مکمل آپریشن اور سرجری کی ضرورت ہے، جب تک قوم اس عمل جراحی سے نہیں گزرے گی، کسی بھی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں۔
سوال نمبر9: اگر تمام معاملات خلافِ شرع ہیں تو ماضی میں کئے گئے معاملات اور معاہدات کا کیا کیا جائے گا؟ خاص طور پر حکومت پچھلے غیر ملکی قرضوں کے معاملے میں کیا طریق کار اختیار کرے گی؟
جواب: جہاں تک اندرونی معاہدات اور معاملات کا تعلق ہے، ان میں سود کا لینا اور دینا فوراً ممنوع قرار دیا جائے۔ تاہم کسی کی اصل رقم پر زَد نہ پڑے، وہ ہر صورت میں واپس کی جائے۔ یا پھر یہ رقم مالکوں کی اجازت کے ساتھ غیر سودی معاملات میں شرعی طریقوں کے مطابق استعمال میں لائی جائے اور اس کے نفع نقصان میںان کو شریک کیا جائے۔ اگر حکومت نے غیر سودی نظام قائم کرنے میں اِخلاص کا ثبوت دیا، تو قوم بھی اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے تیار ہوگی، کیونکہ قوم اپنی تمام تر کمزوریوں اور بدعملیوں کے باوجود اسلامی نظام کی خواہش مند اور اس کے لئے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ اس کی اکثریت میںاب بھی اسلام کے لئے قربانی کا جذبہ اور داعیہ موجودہے، بدقسمتی سے اب تک کوئی حکمران بھی ان کے اس جذبے سے فائدہ نہیں اُٹھا سکا، بلکہ سب نے ان کا استحصال ہی کیا ہے، اس لئے قوم حکمرانوں سے مایوس ضرور ہے، لیکن اللہ سے مایوس نہیں ہے، وہ اب بھی کسی مسلمان مردِ غیب کی منتظر ہے، جس مقتدر ہستی میں ا ب بھی ان کو امید کی کوئی کرن نظر آئے گی، وہ اس پر اپنا مال ہی نہیں، دل وجان بھی فدا کرنے کے لئے تیار ہوگی۔ کاش کوئی مردے از غیب پیدا ہو اور ‘کارے بکند، کے مصداق کچھ کرکے دکھائے۔
جہاں تک بیرونی قرضوں کا تعلق ہے،یہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان قرضوں نے ہم سے ہماری خودی چھین لی ہے، ہماری آزادی کو گروی رکھ دیا ہے، اور ہمیں خوئے غلامی میں پختہ تر کردیا ہے۔ ان کا سلسلہ یکسر اور فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان کی بھی اصل رقم کی ادائیگی ضروری ہے اور سود کی عدم ادائیگی کا فوری اعلان کردینا چاہئے۔ ہمارے سامنے کئی ملک ہیں جنہوں نے عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے قرضے دینے سے بالکل انکار کردیا ہے، صرف سود ہی نہیں، بلکہ اصل رقم بھی دینے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ جب دوسرے بعض ممالک اتنی جرأت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں، تو کیا ہمارے اندر اتنی جرأت بھی نہیں کہ ہم صرف سود ادا کرنے سے انکار کردیں جو سراسر ظلم ہیں، ہم ظلم کے خلاف بھی لب کشائی نہیں کر سکتے؟ اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہیں کرسکتے؟ غیر ملکی قرضوں کی دلدل سے نکلنے کا یہی واحد طریقہ ہے کہ ہم ایک تو خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں اور ایک پیسہ بھی قرض نہ لیں اور دوسرے، اس جرأتِ گفتار اور قوتِ کردار کا مظاہرہ کریں کہ سود دینے سے انکار کردیں۔ اگر ہم نے اپنے اندر یہ جرأت اور قوت پیدا کرلی، تو غیر ملکی طاقتیں ہمارا کچھ نہیں کرسکتیں۔ ہمارا موقف عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، ا س لئے جیت ہماری ہی ہوگی، نہ کہ قرض دینے والی طاقتوں کی، جو دراصل ظالم اور کمزور قوموں کا خون چوس لینے والی ہیں۔
سوال نمبر 10: کیا قرض دینے والا قرض سے متعلق منافع حاصل کرنے کا وقت اور اس کی شرح مقرر کرسکتا ہے جبکہ قرض لینے والا یہ کہہ رہا ہو کہ وہ مطلوبہ روپیہ کمانے اور بروقت رقم لوٹانے کے قابل ان شاء اللہ ہوجائے گا اور اگر اس کے بعد قرض لینے والا رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو گارنٹی دینے والا منافع، بونس یا تلافی کے لئے زائد رقم دے سکتا ہے۔ اگر اس صورت حال میں انشورنس کا نظام متعارف کرایا جائے تو اس کی کیا صورت ہوگی اور اس کا جواز ہوگا؟
جواب: یہ سوال کئی سوالات کو متضمّن ہے… اس میں پہلی با ت تو یہ ہے کہ قرض دینے والا قرض پر کوئی متعین منافع لے ہی نہیں سکتا، تو اس کی شرح مقرر کرنے کا کیا سوال؟ البتہ قرض کی واپسی کے لئے وقت کا تعین کیا جاسکتا ہے، کیونکہ یہ تو قرض دینے والے کا حق ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی کے لئے وقت کی تعیین اور تاکید کرے۔ لیکن اس رقم پر چونکہ متعین منافع سود کی ذیل میں آتا ہے، اس لئے اس کی شرح کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اگر کیا جائے گا تو یہ معاملہ سودی بن جائے گا۔
اسی طرح گارنٹی دینے والا بھی اصل رقم کی واپسی کی گارنٹی دیتاہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ لیکن منافع کی گارنٹی دیتا ہے، تو یہ سود کی گارنٹی دینا ہے جو ناجائز ہے۔
اس میں تیسرا مسئلہ انشورنش کے نظام کا ہے، انشورنس کی آج کل بے شمار قسمیں ہیں: قرض کے تحفظ کے لئے انشورنس کا کوئی نظام تجویز کیا جاتا ہے، تو ایسا کرنا جائز ہوگا بشرطیکہ اس کا طریق کار شریعت کے خلاف نہ ہو۔ لیکن اگر اس کا مقصد سودی قرضوں کا تحفظ ہے تو یہ ناجائز ہوگا۔
نیز اس سوال سے اگر مقصد یہ ہے کہ قرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کرنے سے دائن کو افراطِ زر کی وجہ سے جو نقصان ہوسکتا ہے، اس کے اِزالے کے لئے کوئی ضابطہ بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اس کے لئے یقینا ضابطہ بنایا جاسکتا ہے بلکہ بنایا جانا چاہئے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں قرضوں کی وصولی ایک نہایت سنگین مسئلہ ہے۔ دائن تو ضرورت پر قرض دے کر ایک احسان کرتا ہے، لیکن ہماری قوم سخت احسان فراموش ہے، وہ حسن قضاء کی بجائے قرضہ ہی ہڑپ کرجانے کی کوشش کرتی ہے، علاوہ ازیں دوکانداروں اور سرمایہ داروں میں بھی قرضوں کی عدم ادائیگی کا رجحان عام ہے، اس عادتِ بد کی وجہ سے بہت سے صنعت و حرفت سے وابستہ افراد، جو محدود سرمائے کے حامل ہوتے ہیں، اپنا کاروبار ہی بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ا س لئے قرضوں کی بروقت ادائیگی کے لئے اگر کچھ اصول اور ضابطے تجویز کر لئے جائیں تو ان سے یقینا ان خرابیوں کے ازالے میں مدد مل سکتی ہے۔اس کے لئے ایک تو تحریری معاہدہ ضروری قرار دیا جائے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
دوسرے بروقت ادائیگی نہ کرنے میں جو نقصان ہوسکتا ہے، اس کا ازالہ افراطِ زر کی روشنی میں کیا جائے یا قرضوں کو کسی مستحکم چیز سے وابستہ کردیا جائے، مثلاً چاندی یا سونے کی قیمت سے یا کسی مضبوط کرنسی سے۔ مثلاً کسی نے پچاس ہزار روپے چھ مہینے یا سال کے وعدے پر لئے، تو اس کے لئے ضابطہ بنایا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کو قرض دیا گیا، اس روز پچاس ہزار اتنے تولے سونے کی مالیت کے حامل تھے، یا اس کے اتنے ڈالر یا پونڈ آتے تھے، ادائیگی کے وقت اتنے ہی تولے سونے کی رقم یا اتنے ہی ڈالر یا پونڈ کی شکل میں وصولی کی جائے۔ کاروباری قرضوں پربالخصوص ان ضابطوں کا اطلاق کیا جائے، تاکہ کاروباری لوگ بلاوجہ محدود سرمایہ رکھنے والے لوگوں کو پریشان کرنا چھوڑ دیں او ربروقت رقم کی ادائیگی کردیں اور ادھار بھی کرنا ہو تو اسے زیادہ لمبا نہ کریں۔
اس ضابطے سے یقینا قرضوں کے ڈوب جانے کے امکانات میں بھی کمی آئےگی اور چھوٹے موٹے کاروباریوں کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ اس کے لئے پھر ایک عدالت کا قیام بھی ناگزیر ہوگا، جہاں ان معاملات کا فیصلہ ہوسکے۔ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں معمولی اور ڈھیروں سب نعمتوں پر اسی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت عظمت اور کرم والی ذات ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ خیرِ عام کے داعی ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی آخرت کیلیے زادِ راہ، تنگ حالات میں قوت، اور آزمائش کے وقت تحفظ کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]

اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا، اسے خوبرو بنانے کے ساتھ کامل دل بھی عطا فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ [الانفطار: 6 – 8]

اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکا دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے ٹھیک ٹھاک کیا اور تجھے متوازن بنایا پھر جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔
انسان کی خوبصورتی دل کے صاف ہونے سے تکمیل کے زینے عبور کرتی ہے اور صاف دل ظاہری خوبصورتی کا حسن دوبالا کر دیتا ہے، نیز یہی دل کی صفائی رنگ روپ کو بار آور بنانے والا جوہر ہے۔
اگرچہ لوگ رنگ روپ کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور اسی تک ان کی دوڑ دھوپ ہوتی ہے؛ لیکن اللہ تعالی کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی یقینی طور پر تمہاری صورت اور دولت کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
دل کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ جس قدر مضبوط ہو گا اتنی ہی لوگوں میں محبت اور شہرت پائے گا، لہذا جس بندے کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہو تو زمین و آسمان میں کہیں بھی دلوں میں جگہ بنا لے گا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے محبت فرمائے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: ’’میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو‘‘اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان میں صدا لگاتا ہے: اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو” اس پر اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر پوری زمین پر اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے۔‘‘
لوگوں کے ظاہر اور باطن سب کو قیامت کے دن حساب کتاب میں شامل کیا جائے گا، فرمان باری تعالی ہے:

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا [الإسراء: 36]

’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ؛ کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘‘
اتنی گہرائی والا یہ فہم مسلمان کو اپنے دل کی اصلاح کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور دل کی اصلاح کیلیے بنیاد یہ ہے کہ معبود کی عبادت خالص نیت کے ساتھ کی جائے؛ کیونکہ نیت ہی بندگی کا راز ہے۔
اللہ کی بندگی میں ظاہری رنگ روپ کے اہتمام کو شامل کرنے کا ذریعہ بھی اتباع اور اقتدا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ [آل عمران: 31]

کہہ دو: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
عبادت مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے تربیت کرتی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر غور و فکر کرنے والے کو ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں کا اہتمام واضح ملے گا، مثلاً: مسلمان نماز میں اپنے پروردگار کے سامنے سیدھی صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، بلکہ شریعت نے صف بندی کو نماز کے قیام میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ لوگوں کو صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے اور فرماتے :’’اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں سیدھی کر لو، وگرنہ اللہ تمہارے چہروں کو ایک دوسرے سے موڑ دے گا۔‘‘
اسی طرح ہم ظاہری طہارت اور باطنی پاکیزگی کا اہتمام مناسک حج میں بھی واضح دیکھتے ہیں؛ چنانچہ مسلمان کا حج بیت اللہ کیلیے گھر سے چلنا اللہ تعالی کے حکم کی ظاہری اور باطنی تعمیل کی اعلی ترین منظر کشی ہے؛ پھر حج کیلیے خاص لباس، نیت، تلبیہ اور ذکرِ الہی اس مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ [البقرة: 197]

حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کر لے وہ حج میں بیہودگی، گناہ اور لڑائی جھگڑا نہ کرے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ زادِ راہ لے لو سب سے بہتر زادِ راہ تقوی الہی ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔
ایسے ہی حبیب اور مصطفی ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام میں باطن کی قدر و قیمت ہمارے سامنے رکھی کہ اللہ تعالی کی نظریں تمہارے باطن پر ہیں، آپ نے فرمایا: لوگو! یقیناً تمہارا پروردگار ایک ہے، تم سب کا والد بھی ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ، نہ کسی گورے کو سیاہ پر نہ ہی کسی سیاہ کو گورے پر تقوی کے بغیر فوقیت حاصل نہیں ہے۔

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ [الحجرات: 13]

یقیناً اللہ تعالی کے ہاں تم میں سے معزز ترین وہی ہے جو اعلی متقی ہے۔
مسلمان کو تمام گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ [الأعراف: 33]

آپ کہہ دیں: میرے پروردگار نے ظاہری اور باطنی تمام فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ ظاہری صفائی اور باطنی پاکیزگی پورے مسلم معاشرے کو پاک صاف کر سکتی ہے، اس سے اخلاقیات اور سلوکیات میں بہتری آسکتی ہے۔
ہر مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کا تعلق ہوتا ہے، چنانچہ مسلمان جب بھی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو ظاہری طور پر خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور ساتھ ہی باطنی طور پر سچے دل سے اس کیلیے دعائیں کرتا ہے، خیر سگالی جذبات کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’کوئی بھی مسلمان آدمی اپنے بھائی کیلیے پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ لازمی کہتا ہے کہ:تمہیں بھی یہ سب کچھ ملے۔‘‘
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ظاہری طور پر دیگر مسلمان محفوظ رہیں نیز حسد اور کینے جیسی بیماری سے باطنی طور پر محفوظ ہوں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’حسد، دھوکا دہی، بغض اور نفرت مت کرو، کوئی بھی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی کو ظلم، تذلیل، دروغ گوئی اور تحقیر کا نشانہ نہیں بناتا۔‘‘
اسلامی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کی ظاہری طور قلم اور کلام کے ذریعے مدد کریں ، نیز باطنی طور پر قلب و ذہن کے ذریعے بھی مدد کریں۔ ہر مسلمان پر مسلمانوں کے مسائل کی اپنے مال، اثر و رسوخ، اظہار رائے اور اللہ سے دعا کے ذریعے تائید کرنا واجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

یقیناً ہم نے آپ سے پہلے امتوں کی جانب رسول بھیجے تو ہم نے انہیں تنگی اور سختی میں پکڑ لیا تا کہ وہ گڑگڑا کر دعائیں کریں۔[الأنعام: 42]
اگر مسلمان کوئی حکم صادر کرنا چاہیے تو اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ لوگوں کی جاسوسی کرے اور ان کے خلاف تاک میں رہے، اللہ تعالی کو دلوں کے بھیدوں کا علم ہے چنانچہ ان کا حساب بھی وہی ذات لے گی جس کے سامنے کوئی خفیہ ترین چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دے دیں پھر نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں، اگر وہ یہ سب کام کر لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے ، ما سوائے اسلامی حقوق کے، نیز ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمے ہو گا۔‘‘
اس لیے مسلمانوں کے ضمیر پر شک کرنا ان کی نیتوں پر حکم لگانا حقیقت میں مسلمان کی عزت اور احترام سے متصادم ہے، یہ مسلمانوں کے مقام اور مرتبے کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی طرف لے جائے گا؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: پوری دنیا کی تباہی اللہ تعالی کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے ابتر ہے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ اسلام کا دعوی کرنے والے منافقین کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی برتاؤ کرتے تھے، اور ان پر اسلام کے احکامات لاگو کرتے تھے، حالانکہ کچھ کی منافقت کے بارے میں آپ کو علم بھی تھا۔
ایمان کے اثرات آزمائش میں ظاہر ہوتے ہیں: ظاہری طور پر صبر کی صورت میں اور باطنی طور پر امیدِ اجر کی صورت میں؛ لہذا مسلمان اپنے آپ کو بے قابو نہیں ہونے دیتا ، نہ ہی اللہ تعالی کے ساتھ ادب و احترام کا پیمانہ لبریز ہونے دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا [اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پرفرمان ہے: آنکھیں اشکبار ہیں اور دل افسردہ ہے، پھر بھی ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہو گی: ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر یقیناً غم زدہ ہیں۔‘‘
جنت کی جانب دوڑ دھوپ میں کامیابی قلبی امور پر موقوف ہے تاہم ظاہر کی اہمیت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ سبقت لے جانے والے اور بلند درجات پانے والے قلبی امور کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ ، بلکہ اس جنت کی خوشی خبری سن لو جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو۔[فصلت: 30]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اسی ذات کیلیے ہیں جس نے ہمیں اسلام کے ذریعے ہدایت دی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بادشاہ اور انتہائی گہرا علم رکھنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے ہیں ، نماز، روزہ اور قیام میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
اللہ تعالی کی یہ وسیع رحمت ہے کہ انسان کیلیے ایمانی اڈے قائم فرمائے جہاں پر انسان رک کر ایسی چیزیں حاصل کر سکتا ہے جن سے قلبی تزکیہ ہو اور ظاہر کی نشو و نما ہو، ایسے ہی عظیم اور بابرکت ایام جن میں اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے عشرہ ذو الحجہ کے دن ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ [الفجر: 1، 2]

قسم ہے فجر کے وقت کی اور قسم ہے [عشرہ ذو الحجہ کی]دس راتوں کی۔
اور انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ان ایام میں کئے ہوئے عمل سے بڑھ کر کوئی بھی عمل نہیں ہے) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: جہاد بھی افضل نہیں ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد بھی افضل نہیں ہے، ما سوائے اس صورت کے کہ: کوئی شخص اپنا مال اور جان جوکھوں میں ڈالے اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔‘‘(بخاری)
انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان ایام میں کثرت سے اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اور الحمد للہ کا ورد کرو۔
چنانچہ عشرہ ذوالحجہ سمیت تمام ایام تشریق میں ہر وقت تکبیرات کہنا مسنون ہے کہ عشرہ ذوالحجہ شروع ہوتے ہی آخری یوم تشریق تک تکبیرات کہیں[انہیں تکبیرات مطلق کہتے ہیں]، جبکہ نمازوں کے بعد کی تکبیریں یوم عرفہ کو فجر کی نماز سے لیکر آخری یوم تشریق کے دن سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہیں[انہیں تکبیرات مقید کہتے ہیں]۔

الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد

اس عشرے کے اعمال میں قربانی ذبح کر کے قرب الہی کی جستجو بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: یوم النحر [دس ذو الحجہ عید الاضحی] کے دن کئے ہوئے اعمال میں سے اللہ کے ہاں قربانی سے زیادہ کوئی محبوب عمل نہیں۔
اسی عشرے کے اعمال میں غیر حجاج کیلیے یوم عرفہ کا روزہ بھی شامل ہے، اس دن کا روزہ افضل ترین روزہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: یوم عرفہ کے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بندو! رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

کیا نافرمان اولاد کو وراثت سے(عاق) محروم کرنا درست ہے

سوال :کیا نافرمان اولاد کو وراثت سے(عاق) محروم کرنا درست ہے ؟

جواب : انسان اس دنیا میں نہ اپنی مرضی سے آیا ہے نہ موت اس کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی جب چاہیں جہاں چاہیںجس گھر میں چاہیں اس کی پیدائش کا بندوبست فرماتے ہیں اور جب چاہتا ہےموت سے ہمکنارکردیتا ہے کس کو کس کا وارث بنائیں یہ اللہ کے ہاتھ میں ہیں بندے کے اختیارمیں نہیں ورنہ غریب کا کوئی وارث نہ ہوتا اب جو مرنے کے بعد مال رہ جاتا ہے اسے میراث یا ترکہ کہا جاتا ہے ۔میراث یا ترکہ میں اللہ تعالی نے تمام وارثوں کاحق مقرر فرمایا ہے اپنی مرضی سے کم یا زیادہ کرنے کی گنجائش نہیں۔رسول اللہﷺ نےفرمایاـ’’لا وصیت لوارث‘‘ (وارث کے لیے کوئی وصیت نہیںہے) اب انہیں وارثوں میں کچھ صفات کی بناء پر وراثت سے محروم ہوتے ہیں۔ان صفات میں سرفہرست اختلاف دین کا ہونا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے :
لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم (صحیح البخاری کتاب الفرائض)
’’نہ مسلمان کافر کا وارث ہوتا ہے نہ کافر مسلمان کا‘‘۔
اگر اولاد مسلمان ہو ماں باپ کافر توکافر والدین مسلمان اولاد کے وارث نہیں بن سکتے۔
دوسرا یہ کہ قاتل مقتول کا وارث نہیں بن سکتا جیسا کہ سیدنا عبدا للہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لا یرث القاتل شیاء (سنن ابی داؤد ،کتاب الدیات)

’’قاتل کسی بھی چیز کا وارث نہیں بنے گا‘‘ ۔
اسی طرح غلامی میں انسان وراثت سے محروم ہوتا ہے۔اسکے علاوہ کوئی بھی وجہ تلاش کرکے اولاد کو وراثت سے محروم کرنا درست نہیںہے ہوسکتا ہے کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ اولاد نا فرمان ہو تو نافرمان اولاد انسان کے لیے امتحان ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ کا ارشادہے :

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ

’’اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے ۔‘‘ (الانفال28)
اسکا علاج اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا نہیں ہے اس کو وراثت سے محروم کرنا اسکے ساتھ ظلم ہے ،انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کے فیصلے پر رضامند ہو جائے ۔جس گھر میں اللہ نے آپ کی پیدائش کا بندوبست کیا جس کو آپکی اولاد بنایا یہ اسی کی تقدیر ہے۔اس میں انسان کابالکل اختیار نہیں ہے مطلب جو اللہ کی طرف سے تقدیر ہے اس سے راضی ہونا چاہیے اور فقر کی ڈر سے اولاد کو قتل نہیں کرنا جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ۭنَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاهُمْ (الانعام 151)

’’اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو ہم تم کو اور ان کو رزق دیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَيُّھُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا (النساء:11)

’’تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
آدمی کو نہیں معلوم کہ اسکے لیے کیا درست ہے ،کیاغلط ہےاللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہونا چاہیےان ساری باتوں سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ عاق کرنا شرعادرست نہیں(واللہ اعلم بالصواب)

سوال:وظائف بالخصوص درود شریف کی تعداد مقرر کرنے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

جواب :کوئی بھی معاملہ جس کا تعلق عبادات سے ہو یا عادات سے ہو اس میں میانہ روی لازمی ہے بالخصوص عبادت کہ جس میں دعابھی بالاولی آجاتی ہے اس لیے ضروری ہے انسان بدعت سے محتاط رہے۔عبادات ساری کی ساری توقیفی ہیں یعنی کوئی بھی عبادت بغیر دلیل کے بدعت کے زمرے میں شامل ہوجاتی ہے ،اب وظائف کے تعداد کے بارے میں جوغلو(یعنی حد سے تجاوز کرنا )کہا جاتا ہے کہ صبـح سے لے کر شام تک اللہ ھو اللہ ھو کا ورد کریںیا دوسرا تو یہ درست نہیں لیکن بدعت کے ڈر سے ذکرسے کنارہ کشی اختیا ر کرنا بھی درست نہیں ہے لیکن بعض اذکا ر عدد کے مطابق کرنے چاہیے جن کی تعداد صحیح احادیث سے ثابت ہے جیساکہ اللہ رسول ﷺ کا فرما ن ہے ۔

من صلی علی حین یصبح عشراوحین یمسی عشرا ادرکتہ شفاعتی یوم القیامۃ(صحیح ترغیب وترھیب)

’’جس نے مجھ پر صبح و شام دس دس مرتبہ درود شریف پڑھاقیامت کے دن اسے میری شفاعت نصیب ہوگی۔‘‘
اور بعض جگہ زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

جیسا کہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :

اکثر الصلاۃ علی یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ فمن صلی علی صلاۃ صلی اللہ علیہ عشرا (صحیح الجامع الصغیر للابانی)

’’جمعہ والے دن جمعہ والی رات مجھ پر کثرت سے درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نا ز ل فرمائے گا۔‘‘
لہذا اس سے یہ معلوم ہو اکہ جوجو اذکاراحادیث سے ثابت ہیںان کو پڑھنا لازم ہے اور جن احادیث میں وظائف (اذکار ) کی تعداد کو متعین کیا گیا ہو تو انھیںانہیں اعداد میں بجا لانا چاہیےاور ہمیشہ اللہ تعالی کوکثرت سے یاد کرنا چاہیے،اللہ تعالی کا فرمان ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا وَسَبِّحُــوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب:41۔42)

’’مسلمانوں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کیا کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔‘‘
مزید ارشاد فرمایا:

فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ

’’ تم میرا ذکر کرو میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو ۔‘‘
اور کثرت سے درود شریف اور باقی وظائف کا ورد کرنا چاہیے (واللہ اعلم بالصواب)

ہاتھ کے اشارے سے کسی شخص کا فتویٰ دینے سے متعلق بیان

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری
بَاب مَنْ أَجَابَ الْفُتْيَا بِإِشَارَةِ الْيَدِ وَالرَّأْسِ
ہاتھ کے اشارے سے کسی شخص کا فتویٰ دینے سے متعلق بیان

بَاب مَنْ أَجَابَ الْفُتْيَا بِإِشَارَةِ الْيَدِ وَالرَّأْسِ

اس شخص کا بیان جو ہاتھ کے اشارے سے فتوی کا جواب دے

12-85- حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ سَالِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُقْبَضُ الْعِلْمُ وَيَظْهَرُ الْجَهْلُ وَالْفِتَنُ وَيَكْثُرُ الْهَرْجُ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْهَرْجُ فَقَالَ هَكَذَا بِيَدِهِ فَحَرَّفَهَا كَأَنَّه يُرِيدُ الْقَتْلَ .

مکی بن ابراہیم ،حنظلہ بن ابی سفیا ن،سالم ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا آئندہ زمانے میں علم اٹھا لیا جائے گا اور جہل اور فتنے غالب آجائیں گے اور ہرج پھرعرض کیا یا رسول اللہ ہرج کیا ہے ؟آپﷺ نے ہاتھ سے تِرچھا اشارہ کر کے فرمایا اس طرح ،گویا آپ کی مراد (ہرج سے ) قتل تھی۔
معانی الکلمات :
یقبض :اٹھا لیا جائےگا ،
یظہر :ظاہر ہوگا
الفتن :فتنہ کی جمع
یکثر :کثرت ہو جائے گی
ھرج :فتنہ ،مراد قتل
ترا جم الرواہ:
1۔نام و نسب :مكي بن إبراهيم بن بشير بن فرقد
کنیت:ابو السکن
رتبہ :امام البخاری کے کبار شیوخ میں سے ہیں اور امام ترمذی ،امام ابو داؤد ،اور نسائی ان سے روایت کرتے ہیں ،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ہیں ۔
ولادت :126ہجری
وفات :214ہجری کو بلخ میں ہوئی ۔
2۔حنظلہ بن ابی سفیان بن عبد الرحمٰن بن صفوان بن امیہ بن خلف الحمحی المکی
عبدا للہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدامام احمد بن حنبل سے حنظلہ بن ابی سفیان کے بارےمیں پوچھا توا نہوں نے فرمایا ثقہ،ثقہ ۔
حنظلہ بن ابی سفیان کا رتبہ امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ صحۃا ور امام الذھبی رحمہ اللہ کے ہاں الاثبات تھے۔اور کہا جاتا ہے کہ مکہ میں حدیث کے امام تھے ۔
وفات :حنظلہ بن ابی سفیان کی وفات 151ہجری میں ہوئی ۔
3۔نام و نسب :سالم بن عبد اللہ بن عمربن الخطاب القرشی العدوی المدنی الفقیہ
کنیت: ابو عمریا حفص، کہاجاتاہےکہ ابو عبداللہ یا ابو عبید اللہ
ولادت:سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میںآپ کی ولادت ہوئی ۔
وفات :106ہجری میں ہوئی ۔
تشریح گزشتہ حدیث میں ملاحظہ فرمائیں ۔

بَاب مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الْإِمَامِ أَوِ الْمُحَدِّثِ

امام یا محدث کے پاس ( ادب سے) دو زانو بیٹھنے کا بیان

13-93- حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ مَنْ أَبِي فَقَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا فَسَكَتَ

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں انس بن مالک نے بتلایا کہ ( ایک دن) رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ اے اللہ کے رسول ﷺحضور میرا باپ کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : حذافہ پھر آپ ﷺ نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد ﷺکے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ ﷺخاموش ہو گئے۔

وروى بألفا ظ مختلفة وسندهما واحد أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى الظُّهْرَ فَقَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ السَّاعَةَ فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا ثُمَّ قَالَ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ فَلَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا فَأَكْثَرَ النَّاسُ فِي الْبُكَاءِ وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَقَامَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ فَقَالَ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوكَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا فَسَكَتَ ثُمَّ قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ فَلَمْ أَرَ كَالْخَيْرِ وَالشَّرِّ(رقمه:540)

ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی اکرمﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ ﷺ برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے باپ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمدکے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ ( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں ) اس پررسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی ) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی)۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّى لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قِبْلَةِ هَذَا الْجِدَارِ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ ثَلَاثًا ( رقمه : 749 )

ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابھی جب میں نماز پڑھا رہا تھا تو جنت اور دوزخ کو اس دیوار پر دیکھا۔ اس کی تصویریں اس دیوار میں قبلہ کی طرف نمودار ہوئیں تو میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے قول مذکور تین بار فرمایا۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِي اللَّه عَنْه سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِينًا وَشِمَالًا فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي فَإِذَا رَجُلٌ كَانَ إِذَا لَاحَى الرِّجَالَ يُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ أَبِي قَالَ حُذَافَةُ ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِيَ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتَّى رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ وَكَانَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ عِنْدَ هَذَا الْحَدِيثِ هَذِهِ الْآيَةَ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ) (رقمه:6362)

ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہاہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو رسول اللہﷺ کو ناگواری ہوئی ، پھر آپﷺ ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا ، آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤںگا ۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سراپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رورہے تھے ، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف ( طعنہ کے طورپر ) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! میرے باپ کون ہیں؟رسول اللہﷺنے فرمایا کہ حذافہ ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے ، محمدﷺ سے کہ وہ سچے رسول ہیں ، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، آج کی طرح خیروشر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا ، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا ۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت سورۃ مائدہ کی ) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے ” اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہرہوجائے تو تم کو برالگے۔ “
سیدناعمررضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اورمحمدؐ کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوںنے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اورثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، سیدنا عمر رضی اللہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپﷺ کا غصہ جاتا رہا اور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔
اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ ﷺکو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپﷺ کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپﷺکے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب اللہ عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں۔ قسط ۱۸

تیسواں اصول :

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق3)

’’ جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہو گا۔‘‘
یہ قرآنی اصول ہونے کے ساتھ ساتھ ایمانی اصول بھی ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک اس کی جڑیں اہل ِ توحید کے دلوں میں گہری ہیں اور جب تک اس کائنات کا نظام چل رہا ہے یہ اسی طرح رہے گا۔
اس اصول کا معنیٰ ومفہوم بہت واضح ہے۔ اس اصول کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص دین و دنیا کے معاملات میں اپنے رب اور مولا پر بھروسہ کرے‘ اس طرح کہ جو چیز نفع دیتی ہے اس کو حاصل کرنے میں‘ یا جو چیز نقصان دیتی ہے اس کو دور کرنے میں اللہ ہی پر بھروسہ کرے اور اسے یہ بھی یقین ہوکہ ہر قسم کی آسانی بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ یعنی جن جن چیزوں کے معاملے میں اُس نے توکل کیا اس میں اللہ کافی رہے گا۔
قرآنی اصول:

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق3)

’’جو شخص اللہ پر توکل کرے گا تواللہ اسے کافی ہوگا‘‘۔
یہ آیت سورۃ الطلاق میں احکامِ طلاق کے حوالے سے بیان ہوئی ہے کہ جس نے طلاق کے معاملے میں اللہ کے احکام کی پیروی کی‘ اس کو کتنی اچھائیاں ملتی ہیں۔ طلاق سے متعلقہ احکام کو ذکر کرنے کے بعد ان باتوں کو ذکر کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس میں اِحتیاط کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورساتھ ہی ساتھ اطمینانِ خاطر بھی دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم
توجہ دلا نے والی بات دونوں میاں بیوی سے کہی گئی ہے کہ طلاق کے معاملے میں دونوں کے دل کسی طرح بھی اللہ کے احکام کو توڑنے کا نہ سوچیں جن کا تعلق عدت سے ہو، نان نفقہ سے ہو یا کسی اور معاملے سے ہو۔ کیونکہ عام طور پر طلاق کے موقع پر دل ایک دوسرے سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور معاملہ طے کرنے میں منصفانہ سوچ نہیں رکھتے اور حالت ِ غصہ میں عدل وانصاف سے ہٹ جاتے ہیں۔
رہی بات اطمینانِ خاطر کی تو جو آدمی بھی طلاق کے معاملے میں سچے دل کے ساتھ اللہ کے حکم کی پابندی کرے گا‘ خواہ اُس کے ساتھ کوئی دھوکہ کرے‘ یقینا اللہ اُس کے ساتھ ہے‘ اس کا مدد گار ہے‘ اُس کے حقوق کا محافظ ہے‘ اور جو کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہو اس کی سازش کو ناکام بنانے والاہے۔واللّٰہ أعلم بمرادہ
اگرچہ یہ اصول طلاق کی آیات کے حوالے سے بیان ہوا ہے(جس کا ذکر گزر چکا ہے)لیکن اس کا مفہوم وسیع وعریض ہے‘ جس کواس ایک موضوع میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ توکل کے موضوع پر قرآن ِ کریم میں متعدد آیات ہیں‘ جن میں توکل کی فضیلت‘ اس کی تعریف اور بندے کی زندگی پر ا س کے اثر ات بیان ہوئے ہیں۔
ان باتوں کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے اس بات کی یاد دہانی کرانی ضروری ہے کہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہﷺ کے دلائل سے واضح ہے کہ ظاہری اسباب کا اختیار کرنا توکل کی معراج ہے۔ اور یہ حقیقت بہت واضح ہے‘ لیکن اس بات کی طرف توجہ دلانا اس لیے ضروری ہے کہ بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ توکل کا مفہوم یہ ہے کہ اسباب کو چھوڑ دیا جائے‘ جبکہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے سامنے سمندر آگیا‘ جب سیدہ مریم علیہا السلام کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی‘ اسی طرح اولیاء وصالحین کے بہت سارے واقعات ہیں۔ جب تم ان واقعات پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ انہیں بھی کم سے کم اسباب پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ سیدناموسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ پتھر کو چوٹ لگائیں‘ اور سیدہ مریم علیہا السلام کو حکم ہوا کہ کھجور کے تنے کو ہلائیں۔ زندگی کے ہرکام میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل کرنا ضروری ہےبالخصوص کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں آپ ﷺ کو اور دوسرے اہل ِ ایمان کو توکل کی ترغیب دی گئی ہے‘ جن کی تفصیل یوں ہے: جب مدد کی درخواست کرنی ہو‘ جب مشکل کا حل مطلوب ہو‘ جب دشمن غالب آرہا ہو اور اس کی طاقت کاخوف ہو‘ جب مخلوق منہ پھیر لے‘ جب وقت کم ہو اور کام زیادہ ہو‘ اور اسی طرح کے دوسرے مواقع۔
اے اللہ! ہم ہر قسم کی طاقت وقوت سے اظہارِ لاتعلقی کرتے ہیں اور صرف تیری طاقت وقوت کا سہارالیتے ہیںاور ہم اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ذرا سی دیر کے لیے اپنی ذات پر توکل کر بیٹھیں۔

عصرِ حاضر کی مظلوم ترین قوم اور امت مسلمہ کی بے حسی

 

گذشتہ چند ہفتوں سے شاید اس صدی کی مظلوم ترین قوم ایک بار پھر اخبارات، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں آئی ہوئی ہے۔ظلم کی یہ داستان سننے والوں کے لئے شاید نئی ہو مگر تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محکوم و مظلوم قوم مختلف ادوار میں ظلم کی چکی میں پستی رہی ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں تو خود کو ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ برمی بودھوئوں کا خیال ہے کہ چونکہ مسلمان یہاں غیر قانونی طور پر ہجرت کرکے آئے اس وجہ سے انہیں خود کو ملک کا شہری کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں، اس لئے بار بار مسلمانوں کے خلاف میدان سجایا جاتا ہے تا کہ مسلمان یہاں سے واپس ہجرت کرکے اپنے ملکوں میں چلے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں سے ہجرت کرکے بنگلا دیش کے ساحلی علاقوں پر پناہ لینے پر مجبورہوگئی ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ان لوگوں کو نہ صرف شہریت دی بلکہ انہیں اپنے یہاں آباد بھی کیا۔ بے شمار روہنگیا بنگلا دیش اور انڈیا کے راستے پاکستان میں آکر آباد ہوئے۔ ’’اراکان ہسٹوریکل سوسائٹی‘‘ کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی دو لاکھ سے زائد برمی مسلمان کراچی میں آباد ہیں۔ برما کی تاریخ اُٹھا کر دیکھا جائے تو مسلمانوں پر اس طرح کی قیامتیں ٹوٹنے کے کئی واقعات ملتے ہیں۔ 1559ء میں مذہبی عقائد کی آڑ میں جانور ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ حتیٰ کہ عید الاضحی کے موقع پر بھی کسی مسلمان کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی جانور پر چھڑی چلا سکے۔ 1752ء میں بھی جانوروں کے ذبح پر پابندی لگا دی گئی۔ 1782ء میں تو بادشاہ ’’بودھاپایہ‘‘ نے پورے علاقے کے مسلمان علماء کرام کو سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا اور انکار پر ان سب کو قتل کر دیا گیا۔ ظلم و ستم کی یہ داستان بڑھتے بڑھتے 1938 ء تک جا پہنچتی ہے جب برمی بودھ برطانوی فوجوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑنے میں مشغول تھے تو گولیوں سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد مسلمانوں کا پہلا قتلِ عام 1962ء میں ہوا جب فوجی حکومت نے اقتدارسنبھالنے کے بعد مسلمانوں کو باغی قرار دے کر اُن کے خلاف آپریشن شروع کردیا، جو وقفے وقفے سے 1982ء تک جاری رہا اور اس میں کم و بیش 1 لاکھ مسلمان شہید ہوئے اور اندازاً 20 لاکھ کے قریب مسلمان اس دور میں بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان کی طرف ہجرت کرگئے۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8 لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی، مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ جس وجہ سے وہاں رکنے والوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوگیا۔ روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کی ایک تاریخ 1997ء میں بھی رقم کی گئی جب 16 مارچ 1997ء کو دن دیہاڑے بے لگام بودھ راکھین صوبے کے شہر’’مندالے‘‘ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں داخل ہوگئے اور مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے لگے۔ گھروں، مسجدوں اور مذہبی کتابوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، دکانوں کو لوٹ لیا گیا اور مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کردیا گیا جس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے شہروں میں پناہ لی۔ اس فساد کی اگلی قسط 15 مئی سے 12 جولائی 2001ء کے دوران اس وقت دیکھی گئی جب بودھوئوں نے ایک مسجد پر حملہ کرکے عبادت میں مصروف نمازیوں کو قتل کر دیا اور اس فساد کے نتیجے میں 11 مساجد شہید، 400 سے زائد گھروں کو نذرِآتش اور کم و بیش 200 مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ دنیا میں جب کبھی، کہیں بھی کسی نے اگر اسلام کے نام پر کوئی ظلم کیا تو اس کا شکار بے چارے روہنگیا مسلمان ہوئے۔ حتیٰ کہ جب طالبان کی طرف سے بامیان کے مجسموں کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں پر حملے کی خبریں سامنے آتی رہیں اور بودھ بھکشوئوں کی جانب سے مسلسل یہ ہی مطالبہ کیا جاتا رہا کہ برمی حکومت کو انتقاماً برما میں موجود تمام مسجدوں کو ڈھا دینا چاہئے۔ 1962ء سے میانمار فوجی حکومت کے زیر اثر تھا۔ 2010ء میں الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں طویل آمریت کا یہ سورج 2011ء میں غروب ہوا اور ملک میں ایک جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران روہنگیا مسلمانوں نے بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کا مطالبہ دہرایا لیکن بڑی سختی کے ساتھ یہ آواز دبا دی گئی۔ مسلم کش فسادات کی ایک قسط مئی 2012ء میں بھی نشر ہوئی جب ایک بودھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر بودھ بہت رنجیدہ ہوئے اور لڑکی کو گھر بدر کردیا، لڑکی نے مسلم آبادی میں پناہ لے لی۔ چند دن بعد اس لڑکی کی لاش ملی جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ مسلمانوں نے الزام لگایا کہ بودھوئوں نے اپنی خفت مٹانے کے لئے اسے قتل کیا ہے جب کہ بودھوئوں نے تین مسلمان نوجوانوں کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ جس نے علاقے کے حالات کافی کشیدہ کر دئیے۔ اس کے بعد 3 جون 2012ء کو بودھ بھکشوئوں نے زائرین کی ایک بس روکی اور اس میں سے عمرہ کی ادائیگی کرکے واپس آنے والے 10 مسلمان علماء کو باہر نکال کرموت کے گھاٹ اتار دیا اور بس جلا دی۔ ساتھ ہی ساتھ بودھوئوں کی جانب سے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی دھاوا بول دیا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قتلِ عام پر بہت واویلا کیا مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ پہلے پہل تو مقامی حکومت کی جانب سے اسے صاف جھٹلا کر حیلے بہانے کئے جاتے رہے اور متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگادیا اور فوج بھیج کر صحافیوں کو فساد زدہ علاقوں سے نکال دیا گیا۔ مگر اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں قریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارۂ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ پھرجولائی 2012ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بنگلادیش کے کیمپوں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر ایک رپورٹ شائع کی جس میں اکثر نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں کومیانمار کی فوج نے قتل کیا۔ اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس طرح کے دفاتر ’’لوگوں کی خواہشات‘‘ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن ساری کوششیں بے سود رہیں۔ دوسری جانب میانمار کی عالمی شہرت یافتہ رہنما ’’آنگ سان سوچی‘‘ نے مسلمانوں کو ’’صبر‘‘ کی تلقین کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’’رہنما کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا چاہئے‘‘، انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے اس پر سوچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں اس قسم کے ردعمل پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ پھر 2012ء میں عین عید الاضحی کے موقع پر جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی لگا دی گئی جس کے نتیجہ میں عید کے روز ہونے والے فساد میں 50 مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ویسے بھی جہاں انسانوں کا گلا کاٹا جا رہا ہو وہاں سنتِ ابراہیمی کی یاد میں جانور نہ کاٹنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور فرق پڑتا ہی کسے ہے،تمام عالم ہی چپ چاپ تماشا دیکھنے میں مصروف ہے۔ میانمار کی حکومت اور اس کا موقف کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میانمار کے صدر نے تو جولائی 2012ء میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ ’’اس سارے مسئلے کا حل صرف یہی ہے کہ یا تو مسلمانوں کو ملک بدر کیا جائے یا پھر انہیں مہاجر کیمپوں میں منتقل کیا جائے‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بارہا مطالبہ کیا ہے مگر ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا۔ ان عالمی اداروں کی کاوشوں سے فسادات کی تحقیقات کیلئے 2012ء میں مسلمانوں، بودھ، عالمی اور مقامی لوگوں پر مشتمل ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر میانمار کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کی قیادت میں کمیشن کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پھر ان فسادات میں ایک ٹھہراو سا آگیا لیکن بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ ٹھہراو ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھا کیونکہ اس کے بعد فسادات کی لہر راکھین سے نکل کر ملک کے سب سے بڑے شہر رنگون تک پہنچ گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگا رہا جبکہ مسلم ممالک اور انسانی حقوق کے دعوایدار ’’روز روز کی اس چک چک اور بک بک‘‘ سے تنگ آ چکے تھے۔ اسی دوران 2013ء میں مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے میانمار کے دو صوبوں میں ایک سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی جبکہ ان کے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ بودھوئوں سے تو کسی کو کوئی گلہ بھی نہیں تھا کیونکہ وہ درست انداز میں گوتم بودھ کے فلسفے پر عمل کر رہے ہیں کہ آپ کا فلسفہ تھا کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ بس ذرا سا سمجھنے کا فرق ہے کہ میانمار کے بودھ بھکشوئوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس نے کسی انسان کو قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی جانور کو قتل کیا۔ البتہ مسئلہ توروہنگیا مسلمانوں کا تھا کہ وہ کہاں جاتے، کس کو دکھڑے سناتے۔ شرع یہ کہتی ہے کہ جب تم پر زمین تنگ کردی جائے تو ہجرت کر جاؤ، روہنگیا ئی ہجرت کرکے بنگلادیش پہنچے جہاں پر ان کا گولیوں کے ساتھ استقبال کیا گیا، کئی مرگئے، کچھ زخمی ہوئے مگر مجال کہ کسی نے دنیا کے اس سوتیلے بچے کو جسے اس کا ملک بھی تسلیم نہیں کرتا، اپنانے میں حامی بھری ہو۔ انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ، سنگا پور، سری لنکا، کون سا ایسا ملک تھا جہاں انہوں نے رحم طلب نگاہوں سے پناہ کی اپیل نہ کی ہو۔ وہ بھارت گئے مگر وہاں بھی ردعمل مختلف نہ تھا۔ یہ تو فطرتِ انسانی ہے کہ وہ مہمان کو بھی چند دن سے زیادہ قبول نہیں کرتی۔ اسی لئے بنگلا دیشی حکومت نے اپنا اصل رخ دکھلایا اور جو پناہ گزین بنگلادیش میں محصور تھے انہیں فوری طور پر بنگلادیش سے نکل جانے کو کہا۔ یہ ساڑھے تین ہزار افراد خدا کے
سہارے کشتیوں میں بیٹھ کر نکل پڑے کہ شاید کوئی ان پر مہربان ہوجائے مگر یہ تو دنیا کے لئے ایک پنگ پانگ بال کی حیثیت رکھتے تھے، بنگلا دیش نے بال کو ہٹ کیا تو یہ سری لنکا پہنچا، وہاں سے ہٹ ہوئے تو تھائی لینڈ، وہاں سے ملائیشیا، وہاں سے انڈونیشیا، وہاں سے سنگاپور۔ دنیا کو کیا فکر کہ یہ انسانوں کی بات ہو رہی ہے، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، سب کو اپنا بارڈر محفوظ اور پناہ گزین سے پاک چاہئے تھا۔ 2013ء میں پھر برما میں روہینگا مسلمانوں کے خلاف فسادات کیے گئے۔افسوس کہ سدھا رتھ گو تم بدھ نے عالم گیر انسانی محبت کا ہمیشہ درس دیا اورحشرات الارض اور دیگر جانداروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ،آج اسی گو تم بدھ کہ یہ نام نہاد پیرو کار برمی مسلمانون پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں جس کی باز گشت صدیوں گونجتی رہے گی ۔اسلام کے نزدیک ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے جس میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی کا راز مضرہے اور جو عقل والے ہیں وہ خوب اس حکمت سے واقف ہیں ۔
دوسری جانب جہاں دیگر اقوامِ عالم اس مظلوم ترین قوم سے اظہارِ یکجہتی کرتے نظر آتی ہے، وہاں کچھ اسلامی ممالک کے حکمران بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔
عالم اسلام کا اہم ملک ترکی کی جانب سے برما کے مسلمانوں پر بدترین مظالم کے خلاف عالم اسلام کو متوجہ کرنا اور ان کی مدد کے لئے عملی طور پر آگے آنا خوش آئند امر ہے۔ یہ صرف ترکی کی نہیں پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ برما کے مظلوم اور بربریت کاشکار مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے اقدامات کریں۔ترکی کی نیوز ویب سائٹ ٹی آر ٹی ورلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اوغلو نے صوبہ انطالیہ میں عید الاضحی کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ میانمار کی ریاست راکھائن میں پرتشدد فسادات سے جان بچا کر نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کے لیے بنگلہ دیشی حکومت اپنے دروازے کھولے اور اخراجات کی فکر نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ روہنگیا مہاجرین پر جتنے بھی پیسے خرچ ہوں گے وہ ترکی برداشت کرے گا۔ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے اسلامی تعاون تنظیم کو بھی متحرک کیا ہے اور اس معاملے پر رواں برس ایک سمٹ کا انعقاد کیا جائے گا، ہمیں اس معاملے کا کوئی فیصلہ کن حل نکالنا ہے۔ دریں اثناء پاکستان کی جانب سے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور جبرا ًنقل مکانی کی رپورٹس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کے حکام سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس قسم کے اب تک گنتی کے مسلم حکمران ہیں جنہوں نے اس مظلوم ترین قوم کی داد رسی کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے۔گو کہ یہ لائقِ تحسین امر ہےمگر زخم ان مرہموں سے کہیں گہرا ہے اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر امداداور ان کی فریاد رسی کی ضرورت ہے۔
دیگر امت مسلمہ محض احتجاج، سوشل میڈیا پر ڈی پی لگاکر اور کچھ گلی چوراہوں میں برمی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے کچھ کلمات ادا کرکے اپنا فرض پورا سمجھ بیٹھے ہیں۔
شاید علامہ اقبال کسی اور امت کے متعلق کہہ گئے تھے
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہوجائے

اعتزال یعنی عقل پرستی سے سلف صالحین نے خبردار کیاہے

کائنات کے امام علیہ الصلاۃ والسلام نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بتلائی ہے

[بادروا بالأعمال فتنا كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل مؤمنا ويمسي كافرا، أو يمسي مؤمنا ويصبح كافرا، يبيع دينه بعرض من الدنيا] (صحیح مسلم:۱۱۸)

یعنی : ’’ ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح ( چھا جانے والے ) ہوں گے، (نیک) اعمال کرنے میں جلدی کرو ۔ (ان فتنوں میں ) صبح کو آدمی مو من ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو مومن ہو گا توصبح کو کافر ، اپنا دین (ایمان ) دنیوی سامان کے عوض بیچتاہو گا۔‘‘
سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیاوی طور پر انسان تو انتہا درجے کی ترقی کرچکا ہے نت نئی ایجادات و تحقیقات وغیرہ ، بھلا یہ کیسے ممکن ہے انسانی شعور کا عالم ایسے ترقی یافتہ دور میں یہ ہو کہ وہ دن میں متعدد بار کفر و اسلام کی کشمکش میں رہےگا۔جواب اس کا یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: قرب قیامت علم اٹھ جائے گا اور علم اٹھنے کی کیفیت بھی بتلائی ، فرمایا کہ یہ علم لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر نہیں نکالا جائے گا بلکہ یہ علم علماء کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گا۔ اور پھر ایسا دور آئے گا کہ لوگ اپنا قائد و رہنما جہلاء کو بنالیں گے جو خود تو گمراہ ہوں گے ہی لوگوں کو بھی گمراہ کرڈالیں گے۔
اس حدیث میں واضح طور پر یہ بات بتلائی گئی ہے کہ لوگ جب علماء کا مقام کسی ایسے شخص کو دیں جو بظاہر دنیاوی طور پر بڑی بڑی ڈگریوں کا حامل ہو، ڈاکٹر و انجینئر ہوگا، لیکن علم و حی سے بالکل نا آشنا ہوگا۔ اور جب لوگ اس کو سردار بنا کر اس سے مشورے اور نصیحتیں طلبہ کریں گے تو یہی چیز گمراہی کا سبب بنے گی۔ کیونکہ عالم اپنی عقل سے جواب دینے کی بجائے صرف اور صرف قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی عقل ان گہرائیوں تک نہیں پہنچ سکتی ، جو علم وحی میں موجود ہے۔ لیکن اس کے برعکس علم دین بالکل دور شخص جب انہیں چیزوں کو عقل پر پرکھے گا تو گمراہی یقینی ہے۔ اسی لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ عقل کے دائرہ کار کی تحدید ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ اگر دین عقل کا نام ہوتا تو موزوں کی بالائی جانب مسح نہ کیا جاتا بلکہ نچلی جانب کیا جاتا۔ اب یہ بات بظاہر غیر معقول ہے لیکن اس کے بعد اسے اپنایا اور جس میں امت کے لئے پیغام ہے کہ آپ کی عقل کا دائرہ کار ہے اور حد ہے جس سے وہ متجاوز نہیں ہوسکتی ، یہی وجہ ہے کہ ’’سلف ‘‘ اہل السنہ‘‘ یہ لقب اور تعارف بنا ان لوگوں کا جنہوں نے نقل (قرآن و سنت کی نصوص ) کو عقل کی جولانیوں پر ترجیح نہیں دی۔ اس کے علاوہ جتنے بھی فرقے وجود میں آئے وہ سب عقل کی جولانیوں کا نتیجہ تھے۔ کسی نے عقل کی بنیاد پر صفات الہیہ کا سرے سے انکار کردیا ، کسی نے عقل کی بنیاد پر صفات الہیہ کو مخلوق جیسا قرار دے دیا۔، کسی نے صفات الہیہ کومانا لیکن ان کی عقل کلی طور پر ان صفات الہیہ کو ماننے میں رکاوٹ بنی تو انہوں نے تاویل کا سہارا لے کر اپنی عقل کو بھی سمجھانے کی کوشش کی اور بزعم خویش صفات الہیہ پر ایمان لانے کی بھی۔ کوئی عقل کے گڑھے میں ایسا گرا کہ تقدیر کا انکار کردیا اور کسی نے عقلی جامہ ایسا پہنایا کہ بندے کو مجبور محض قرار دے دیا۔ کسی نے عقلانی فلسفہ کی بناء پر قرآن کو مخلوق کہہ ڈالا ،، پیغمبروں کے معجزات عقل سے با لا تر ہونے کی وجہ سے اس کا بھی انکار کردیا گیا، کسی کی عقل میں حدیث کا وجود کھٹکا تو اس کا بھی انکار کردیا گیا، کسی کی عقل کو موجودہ قرآن کے مختلف تراجم نہ بھائے تو اس محاذ کو بھی کھول لیا گیا۔
بہرحال یہ سب ’’سلف ‘‘ ’’ اہل السنۃ ‘‘ کے طریق سے بھٹک کر اعتزال کی مختلف شکلیں ہیں۔ جس کا سلسلہ امام حسن بصری رحمہ اللہ کے دور میں ان کے حلقہ سے علیحدگی اختیار کرنے والے واصل بن عطاء اور اس کے شاگرد عمرو بن عبید سے شروع ہوا اور تاحال جاری ہے۔
اس فکر کی تردید کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ فهذا ديننا واعتقادنا ظاهرا وباطنا. ونحن براء إلى الله من كل من خالف الذي ذكرناه وبيناه ۔ ونسأل الله تعالى أن يثبتنا على الإيمان، ويختم لنا به. ويعصمنا من الأهواء المختلفة، والآراء المتفرقةوالمذاهب الردية مثل المشبهةوالمعتزلة، والجهمية والجبرية والقدرية وغيرهم، من الذين خالفوا السنة والجماعة، وحالفوا الضلالة ونحن منهم براء ، وهم عندنا ضلال وأردياء. وبالله العصمة والتوفيق ‘‘ ( متن عقیدہ الطحاویۃ )

یعنی :پس ظاہرا و باطنا یہ ہمارا دین و اعتقاد ہے نیز ہم ہر اس شخص سے اللہ کی طرف براءت کا اظہار کرتے ہیں جو اس دین کی مخالفت کرتا ہے جس کو ہم نے واضح طور پر بیان کردیا ہے، نیز ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور ہمیں مختلف خواہشات اور مختلف آراء نیز غلط طریقوں سے محفوظ فرمائے، مثلاً مشبہ ، معتزلہ ، جہمیہ ، جبریہ، قدریہ وغیرہ سے دور رکھے جو سنت اور جماعت کی مخالفت کرتے ہیں اور گمراہی کے حلیف ہیں ہم ان سے براءت کا اظہار کرتے ہیں یہ تمام فرقے ہمارے نزدیک گمراہ اور بدترین ہیں ہم اللہ ہی دعا کرتے ہیں۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے عبدالملک رحمہ اللہ کو خط لکھا :

’’أما بعد فاتخذ الحق إماما ولا تكن ممن يقبله إذا وافق هواه ويدعه إذا خالف هواه فإذا أنت لم تؤجر فيما قبلت منه ولم تنج من الإثم فيما دفعت منه إذا خالفك‘‘ (ذم الکلام و اھلہ : 810، صفحہ نمبر 5/31، شرح عقیدہ طحاویہ للعبدالعز الحنفی : ۴۳۹)

یعنی:حق کو اپنا امام بنالو، اور ان لوگوں میں سے مت ہوجاؤ جو حق کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب وہ ان کی عقل کے موافق ہو اور اگر وہ ان کی عقل کے خلاف ہو تو وہ حق کو چھوڑ دیتے ہیں اگر تو نے حق کو موافقت عقل کی بنیاد پر تسلیم کیا تو اس پر کوئی اجر نہیں اور مخالفت عقل کی بنیاد پر چھوڑ دیا تو تو تو گناہ گار ہے۔
اور اس فتنہ کے بارے میں امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا قول بھی ملاحظہ فرمائیں : ’’

وقعت الفتنة الأولى – يعنى مقتل عثمان – فلم تبق من أصحاب بدر أحدا ، ثم وقعت الفتنة الثانية – يعنى الحرة – فلم تبق من أصحاب الحديبية أحدا ثم وقعت الثالثة فلم ترتفع وللناس طباخ ‘‘ (صحیح بخاری:بعد از حدیث ۴۰۲۴)

یعنی:ہ پہلا فساد جب برپا ہوا یعنی سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا تو اس نے اصحاب بدر میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر جب دو سرا فساد برپا ہوا یعنی حرہ کا ، تو اس نے اصحاب حدیبیہ میں سے کسی کو باقی نہیں چھوڑا ، پھر تیسرا فساد برپا ہوا تو وہ اس وقت تک نہیں گیا جب تک لوگوں میں کچھ بھی خوبی یا عقل باقی تھی ۔
اور یہ عقل پرستی جو حقیقتاً بے عقلی ہے اسی کی کارستانیاں ہیں کہ یہ گمراہ فرقے وجود میں آئے، اس موقع پر امام کائنات کا فرمان ذہن نشین رکھا جائے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:’’

يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا، من خلق كذا، حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته ‘‘ (صحیح بخاری: ۳۲۷۶، صحیح مسلم : ۱۳۴)

یعنی : تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی ، فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے ، شیطانی خیال کو چھوڑ دے ۔
واضح ہوگیا کہ جب انسان عقل کی پیروی کرتا ہے تو حقیقتا وہ اس راہ سے شیطان کی پیروی کرنے لگتا ہے اور پھر وہ مرحلہ بھی آتا ہے کہ وہ عقل ، عقل کرتا انتہائی بے عقلی اور گمراہی کے دھانے پر جاپہنچتا ہے ، بلکہ بسا اوقات عام دیہاتی کی عقل بھی اس کی بے عقلی کو قبول نہیں کرتی مثال کے طور پر عمرو بن عبید معتزلی جو یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ خیر اللہ کی طرف سے اور کوئی نقصان دہ کام اللہ کی طرف سے نہیں۔ ایک دفعہ یہ اپنے حلقہ احباب میں بیٹھا تھا کہ ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا میری اونٹنی گم ہوگئی ہے اللہ سے دعا کرو کہ میری اونٹنی مل جائے ، اب عمرو بن عبید نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ ! بے شک تیرا ارادہ ہرگز یہ نہ تھا کہ اس کی اونٹنی گم ہو لیکن وہ گم ہوگئی، اللہ تو اس کی اونٹنی لوٹا دے۔ اعرابی نے یہ عجیب و غریب بے تکی اور بے عقلی پر مبنی بات سنی (جسے عمرو بن عبید نہ جانے کتنی بڑی معقول بات سمجھتا تھا) اعرابی نے جواب دیا : لا حاجۃ لی فی دعائک مجھے تیری اس بے تکی دعا کی ضرورت نہیں۔ عمرو بن عبید نے کہا: کیوں؟ دیہاتی نے ایسا جملہ کہا کہ اس عقل پرست کی عقل ٹھکانے آگئی ، کہ اگر اللہ کا معاذاللہ ارادہ یہ تھا کہ چوری نہ ہو اور پھر بھی وہ ہوگئی ۔ تو پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ اللہ مجھے لوٹانا چاہے مگر نہ لوٹا پائے۔ (شرح عقیدہ طحاویہ: ۱۸۲)
قارئین ! اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ عقل پرست جن باتوں کو عقل کے گھوڑے دوڑا کر معقول قرار دیتے ہیں وہ اتنی ہی بے تکی اور بے عقلی پر مبنی ہوتی ہے جس کی بے عقلی کو عام دیہاتی شخص بھی آسانی سے پہنچان سکتا ہے۔
خیر ان اعتزال پسند، منحرف مزاج ، شہوات کے پجاری قسم کے لوگوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ،جو مختلف صورتوں میں اپنی بد مستیوں میں مست ہوکر اسلامی مسلمات پر اپنی بے عقلی اور حماقتوں کے حملے کررہے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے نے یونانی فلسفے کو ویلکم کہا اور سب کچھ اسی کو بنا لیا وہ یقیناً معتزلہ تھے ، جنہوں نے اپنے مذہب کی بنیاد فلسفہ و کلام پر رکھی، اور آج یہ فکر پرویز ، غلام جیلانی برق ،امین احسن اصلاحی ، عنایت اللہ المشرقی ، سے ہوتا ہوا ، غامدی اور ڈاکٹر شبیر جیسے نامعقول قسم کے لوگوں کی صورت میں زندہ ہے، اور جہاں تک معاملہ ہے سلف کا انہوں نے فلسفہ کی مذمت کی ، مستقل طور پر اس کی مذمت میں کتابیں لکھیں ، اور وہ کس حد تک اس فلسفہ کے مخالف تھے چند ایک اقوال سے بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔
چند ایک اقوال امام لالکائی کی اصول اعتقاد سے ملاحظہ فرمائیں :

سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’إياكم وأصحاب الرأي , فإنهم أعداء السنن , أعيتهم الأحاديث أن يحفظوها فقالوا بالرأي , فضلوا وأضلوا ‘‘

یعنی : اصحاب الرای یعنی عقل پرستوں سے بچنا کیونکہ وہ احادیث کے دشمن ہیں انہیں احادیث نے تھکا دیا ہے کہ انہیں یاد کریں تو انہوں عقل کو لےلیا اور خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’

ما ذكر الله هوى في القرآن إلا عابه‘‘

یعنی: قرآن کریم میں اللہ نے جہاں بھی خواہشات کا تذکرہ کیا اس کی مذمت کی۔
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عربی میں خواہشات کو اھواء کہتے ہی اس لئے کہ اس کی وجہ سے آدمی جہنم میں جا گرتا ہے۔ امام ابو العالیہ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اللہ کی دو نعمتوں میں سے بڑی نعمت کون سی ہے ایک اللہ نے شرک سے نکال کر اسلام کی دولت سے مالا مال کردیا اور دوسری نعمت یہ ہے کہ اسلام کی دولت دے کر پھر خواہش پرستی سے محفوظ رکھا۔امام ابو الجوزاء رحمہ اللہ کہا کرتے تھے میرے بندر ، خنزیر ہوں مجھے قبول ہے لیکن کوئی عقل پرست ، خواہش پرست کا ساتھ نہیں چاہئے۔امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دجال کے بھی اکثر پیروکار خواہش پرستقسم کے لوگ ہوں گے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا

: ’’ لأن يبتلي الله المرء بكل ذنب نهى الله عنه ما عدا الشرك خير له من الكلام‘‘

یعنی اللہ تعالی سب سے پہلے شرک اور پھر فلسہ اور عقل پرستی سے محفوظ رکھے ۔ (مفہوما)
امام احمد رحمہ اللہ نے متکلمین کو زندیق قرار دیا۔ (تلبیس ابلیس )
امام ابو یوسف نے بھی علم الکلام کے ذریعے سے عقیدہ سیکھنے والے کو زندیق قرار دیا۔ (اصول الاعتقاد للالکائی )
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ ما شيء أبغض إلي من علم الكلام‘‘ (سیر اعلام النبلاء : ۱۶/۴۵۷، الرسالۃ)
مجھے سب سے زیادہ نفرت علم الکلام سے ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ترجمے میں ان کا یہ قول پیش کرنے کے بعد حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’

’ قلت: لم يدخل الرجل أبدا في علم الكلام ولا الجدال، ولا خاض في ذلك، بل كان سلفيا‘‘

یعنی : میں یہ کہتا ہوں کہ کسی شخص کو علم الکلام اور بحث و جدل میں داخل نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی وہ ان میں غور و خوض کرے بلکہ اسے سلف صالحین کے منہج کو اختیار کرنا چاہئے۔‘‘ (ایضاً)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان تلبیس الجھمیۃ علم الکلام کے حوالے سے کئی ایک مقامات پر یہ لکھا علم الکلام کی مذمت اور باطل ہونے پر سلف اور ائمہ کا اتفاق ہے۔ (دیکھئے صفحہ ۱/۳۷۳، ۴۳۸، ۴/۶۲۴) نیز دیکھئے درء تعارض العقل والنقل : ۱/۳۰۹ ، ۲/۲۲۴ ،
بلکہ درء تعارض العقل والنقل میں تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ان شخصیات کا بھی تذکرہ کیا اور جنہوں نے پہلے علم الکلام کو جائز قرار دیا اور پھر بعد میں اس سےرجوع بھی کیا اور اس کی مذمت بھی بیان کیا۔
ایک مقام پر لکھتے ہیں

: ’’هذا علم الكلام قد أفضى بأربابه إلى الشكوك، وأخرج كثيراً منهم إلى الإلحاد بشم روائح الإلحاد من فلتات كلامهم، وأصل ذلك كله أنهم ما قنعوا بما قنعت به الشرائع (درء تعارض العقل والنقل :۸/۴۹)

اسی عقل پرستی نے اہل کلام کو شکوک وشبہات میں داخل کیا اور پھر انہیں الحاد کی طرف نکال دیا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رائے اور کلام کو ترجیح دی اور شریعت پر قناعت نہیں کی۔(مفہوما)
بہرحال اس باب میں مزید اقوال جمع کئے جاسکتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے جب انسان شرعی نصوص کو چھوڑنے کی جرأت کرتا ہے اور اپنی عقل کو کافی سمجھتا ہے تو پھر وہ الحاد اور بے دینی کے گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اللہ اس فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے اور سلف صالحین کے منہج صافی پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

الحاد کا تاریخی پس منظر

اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل تھی: یعنی توحید،نبوت و رسالت اور آخرت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے اس کائنات کو ایک رب نے تخلیق کیا ہے۔ تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہو ا بلکہ اس کائنات کا نظام وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے جسے اخلاقیات (ethics)یا دین فطرت کہتے ہیں۔ مزید برآں اس نے انسانوں میں چند لوگوں کو منتخب کرکے ان سے براہ راست خطاب کیا ہے اور انہیں مزید ہدایات دی ہیں جس کے مطابق انسانوں کو اپنی زندگی گزارنا چاہئے۔ انسان کی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
موجودہ دور کی اصطلاح میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور اللہ پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کردیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم جس الحاد کی تاریخ پر گفتگو کریں گے وہ وجود باری تعالیٰ، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے نظریاتی یا عملی طور پر کسی ایک یا تینوں کے انکار پر مبنی ہے۔ ہماری اس تحریر میں الحاد کی تعریف میں مروجہ Atheism, Deism اور Agnosticism سب ہی شامل ہیں۔
قدیم زمانہ سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیاہے ۔ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی رب کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں رب کائنات کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد
میں دنیا میں موجود رہے۔نبی اکرم ﷺکے دور کے
مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔
عالمی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بنیاد پر الحاد کو اس قدر فروغ حاصل ہوا ؟ دنیا بھر میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا فتوحات حاصل کیں اور اسے قبول کرنے والے ممالک اور اقوام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا رنگ اختیار کئے اور دور جدید میں الحاد کی کونسی شکل دنیا میں غالب ہے؟ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو چکے ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
یورپ عیسائی عہد میں
یورپ میں قرون وسطیٰ ہی میں عیسائی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں اور چرچ کا ادارہ پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا۔ جب تیسری صدی عیسوی میں عوام الناس کی اکثریت نے عیسائیت قبول کرلی تو ان کے بادشاہ قسطنطین نے بھی عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد عیسائی علماء اور ان کے قائد پوپ کو حکومتی معاملات میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہوگیا۔ حکومتی طاقت کو استعمال کرکے انہوں نے معاشرے میں پھیلے ہوئے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کردیا اور اس کے ماننے والوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جن لوگوں نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کیا انہیں تہہ تیغ کردیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر عیسائیت میں بھی حلول اور مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا عقیدہ پیدا ہوگیا اور شخصیت پرستی اور اکابر پرستی نے جنم لیا۔
عیسائی علماء نے وقت کے مسلمہ نظریات جن میں ارسطو اور افلاطون کے سائنسی اور فلسفیانہ افکار بھی شامل تھے کی مقبولیت کے پیش نظر انہیں اپنے دین میں داخل کر لیا۔ حکومتیں پوپ اور مذہبی رہنماؤں کی رہنمائی میں چلنے لگیں جسے آج تھیو کریسی کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی رہنما اپنے مسلک اور عقیدے میں شدت اختیار کرتے گئے۔ صدیوں کے انحطاط (Degeneration) کے عمل سے ان میں بہت سے فرقے بھی پیدا ہوگئے اور ان میں اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا ہو گئیں۔ مذہبی انتہا پسندی اس حد تک پہنچ گئی کہ کوئی بھی شخص جو مرکزی چرچ کے معمولی سے حکم سے بھی اختلاف کرتا، اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا۔ نئے علوم و فنون کی تحصیل پر پابندی عائد کردی گئی ۔
اسی دور میں مسلمانوں نے یونانی فلسفے کی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل قدر اضافے کئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اہل یورپ میں بھی علم حاصل کرنے کا شعور پیدا ہوااور وہ یہی چیزیں سیکھنے کے لئے مسلم دنیا میں آئے۔ ایک ممتاز امریکی مصنف کے الفاظ میں:
جیسے جیسے مسلمانوں کا اقتدار پھیلتا گیا، یہ لوگ اچھے سیکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ثابت ہوئے۔مسلمان حکمرانوں نے مفتوحہ علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیب کے مقابلے میں اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے مقامی اداروں، خیالات، نظریات اور ثقافت کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا ۔ انہوں نے اپنے زیادہ ترقی یافتہ مفتوحین سے سیکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔عظیم لائبریریاں اور دار التراجم قائم ہوئے۔ سائنس، طب اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتابوں کو مشرق و مغرب سے اکٹھا کرکے ان کے ترجمے کئے گئے۔یونانی، لاطینی، فارسی، شامی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کرنے کا کام عام طور پر یہودی اور عیسائی مفتوحین نے سر انجام دیا۔اس طرح ادب، سائنس اور طب کی دنیا بھر کی بہترین کتابیں عوام الناس کے لئے میسر ہو گئیں۔ترجمے کے دور کے بعد تخلیقی کام کا دور شروع ہوا۔تعلیم یافتہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں نے حاصل شدہ علم میں قابل قدر علمی اضافے کئے۔یہ وہ دور تھا جس میں سائنس اور فلسفہ کے عظیم امام ابن سینا، ابن رشد اور الفارابی پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے شہروں قرطبہ، نیشاپور، قاہرہ، بغداد، دمشق اور بخارا میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں جبکہ یورپ اس وقت دور تاریک سے گزر رہا تھا۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کی سیاسی اور ثقافتی زندگیوں کو ، ان کے قبائلی اور مذہبی پس منظر کی رعایت سے اسلام کے فریم ورک میں لایا گیا۔نئے نظریات اور طور طریقوں کو اسلامائز کیا گیا۔اسلامی تہذیب ایک متحرک اور تبدیلی کے تخلیقی عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمانوں نے دوسری تہذیبوں سے آزادانہ اچھی چیزوں کو لیا۔ یہ خود اعتمادی اور کھلے پن کا مظہر تھا جو اس خیال سے پیدا ہوا کہ ہم آقا ہیں غلام نہیں ہیں، فاتح ہیں مفتوح نہیں ہیں۔بیسویں صدی کے مسلمانوں کے برعکس، وہ مسلمان تحفظ اور اعتماد کے احساسات سے بھرپور تھے۔ان کو مغرب سے کچھ لینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوتی تھی کیونکہ مغرب اس وقت ان پر سیاسی یا ثقافتی غلبہ نہ رکھتا تھا۔کلچر کا یہ بہاؤ اس وقت الٹی سمت میں بہنے لگا، جب یورپ تاریک ادوار سے نکل کر مسلم مراکز میں اپنا کھویا ہوا ورثہ سیکھنے کے لئے آیا جس میں مسلمانوں کی ریاضی، طب اور سائنس کے اضافے بھی شامل تھے۔
(John L. Esposito, The Islamic Threat: Myth or Reality, 2nd Ed. p. 33-34)
ری نی ساں اور ریفارمیشن کی تحریکیں
تیرہویں سے سترہویں صدی تک یورپ میں چرچ کے اقتدار اور تنگ نظری کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ اس دور میں یورپ میں ری نی ساں (Renaissance)اور ری فارمیشن (Reformation) کی تحریکیں چلیں جن میں چرچ پر بھرپور تنقید کی گئی۔
اسی دوران مارٹن لوتھر کی مشہور پروٹسٹنٹ تحریک بھی چلی جس نے دنیائے عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یورپ میں ایسے مفکرین بھی پیدا ہونے لگے جن کی تحقیقات نے ارسطو اور افلاطون کے ان سائنسی نظریات کو بھی چیلنج کردیا جنہیں اہل کلیسا نے طویل عرصے سے مذہبی عقائد کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ ان میں سب سے مشہور زمین کے کائنات کا مرکز ہونے اور اس کے ساکن ہونے اور سورج اور تمام اجرام فلکی کے زمین کے گرد گھومنے کا نظریہ تھا۔ ان مفکرین میں لیونارڈو ڈاونسی (1452-1519) ، جیارڈینو برونو (1548-1600) ، گلیلیو (1564-1642) اور جوہانس کپلر (1571-1630) زیادہ مشہور ہیں۔
مذہبی علماء نے اس تنقید اور جدید نظریات کا سختی سے نوٹس لیا۔ انہوں نے عقل و منطق اور مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے سائنسی علم کو طاقت سے دبانا چاہا۔ احتساب(Inquisition) کی مشہور عدالتیں قائم ہوئیں جو اس قسم کے نظریات رکھنے والے مفکرین کو سخت سزائیں دیا کرتے۔ برونو کو کئی سال قید میں رکھنے کے بعد آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ گلیلیو کو اپنے عقائد سے توبہ کرنا پڑی ورنہ اسے بھی موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ری نی ساں کے دور میں فکر انسانی :
اس دور میں آزادانہ سوچ اور الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ صرف اور صرف چرچ کے حکم کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول کرنے کی پابندی کے بڑے مخالفین میں لیونارڈو ڈاونسی تھے۔ انہوں نے علم کے حصول کے لئے تجربے کی اہمیت پر زور دیا۔ نکولو میکیاولی بھی چرچ پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ ان کی شہرت بھی ایک ملحد کی ہے۔ جیارڈینو برونو کی موت (1600) آزادی فکر کے نئے دور کا آغاز ہے۔ برونو اٹلی کے رہنے والے ایک مصنف تھے جو علم کلام کے ماہر تھے۔ اپنی تحریروں کے باعث انہیں محکمہ احتساب (Inquisition) کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پورے یورپ کا سفر کیا جس کے دوران وہ اپنے نظریات کو تقریر و تحریر کے ذریعے پھیلاتے رہے۔ انہیں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق رہا۔ چودہ سال کے بعد ، وینس شہر میں انہیں ان کے ایک پرانے شاگرد نے احتساب والوں کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ برونو احتساب کی عدالت کے سامنے اپنے نظریات سے انحراف نہ کرسکے جن میں مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام )کی الوہیت سے انکار، اس دنیا کے ہمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ اور روح کے حلول کا عقیدہ شامل ہے۔ وہ نظام شمسی کے کوپر نیکی نظریے (یعنی سورج نظام شمسی کا مرکز ہے) پر بھی یقین رکھتے تھے اور اس پر لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ برونو پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت کے سامنے ان کا جرم ثابت ہوگیا۔ برونو نے روم میں سات سال جیل میں گزارے۔ بالآخر فروری 1600 انہیں آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ اگلے دو سو سال میں ان کے علاوہ آزادی فکر کے اور بھی لوگ مارے گئے ہیں۔
(Dr. Gordon Stein, The History of Free Thought and Atheism, www.positiveatheism.org)
مذہبی علماء اور سائنس دانوں میں یہ چپقلش چلتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے پر اہل کلیسا کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور فلسفیوں کا اثر و ٍرسوخ بڑھتا چلا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط تک ملحد فلسفیوں اور سائنس دانوں کی فکر اہل یورپ میں غالب فکر بن چکی تھی۔ چونکہ اہل کلیسا نے اپنے اقتدار کے دور میں سائنس دانوں کے ساتھ بہت ظالمانہ اور جابرانہ رویہ رکھا تھا اس لئے مذہب اور سائنس میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوچکی تھی۔ اہل سائنس نے مذہب کے بارے میں کوئی معقول رویہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے سائنسی نظریات کی روشنی میں یہی مناسب سمجھا کہ اسے خیر باد ہی کہہ دیا جائے۔ اس معاملے میں اہل مذہب کا کردار بھی اتنا معیاری نہ تھا کہ اس کی پیروی کی جاتی۔ چنانچہ مشہور برطانوی ملحد فلسفی برٹرینڈ رسل لکھتے ہیں:
میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض ہی اہم نیکیاں مذہب کے علمبرداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیںاور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے۔ تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع کردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے (اور سچائی ثابت کرے) لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لئے قبول کرلینا چاہئے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔اشتراکیت کی برائیاں وہی ہیں جو ایمان کے زمانوں میں مسیحیت میں پائی جاتی تھیں۔ سوویت خفیہ پولیس کے کارنامے رومن کیتھولک کلیسا کی قرون وسطیٰ کی عدالت احتساب کے کارناموں سے صرف مقداری طور پر ہی مختلف تھے۔ جہاں تک ظلم و ستم کا تعلق ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس پولیس نے روسیوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو ایسا ہی نقصان پہنچایا جیسا کہ مذہبی احتساب کی عدالت نے مسیحی اقوام کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو پہنچایا تھا۔ اشتراکی تاریخ کی تکذیب کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ تک چرچ بھی یہی کام کیا کرتا تھا۔ جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کومبرا عن الخطأ خیال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔
(برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ قاضی جاوید، ص 81-86 )
ڈی ازم کی تحریک
اسی دوران Deism کی تحریک بھی پیدا ہوئی۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ اللہ ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اب یہ کائنات خود بخود ہی چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف مذہب کے عقیدہ رسالت و آخرت کا انکار تھا۔ اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا۔ ان لوگوں نے بھی چرچ پر اپنی تنقید جاری رکھی اور چرچ کا جبر و تشدد جاری رہا۔ تقریباً دو سو سال تک یہ تحریک بھی موجود رہی۔ کلیسا کے انتہا درجے کے جبر وتشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اہل علم میں بالعموم انکار اللہ کی لہر چل نکلی جو انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ترکی کے مشہور عالم ہارون یحییٰ کے الفاظ میں:
یقینا الحاد یعنی وجودباری تعالیٰ سے انکار کا نظریہ پرانے وقتوں میں بھی موجود رہا ہے لیکن اٹھارہویں صدی میں کچھ اینٹی مذہب مفکرین کے فلسفے کے پھیلاؤ اور سیاسی اثرات سے اس کا عروج شروع ہوا۔ مادیت پرستوں جیسے ڈائڈرٹ اور بیرن ڈی ہالبیک نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کائنات مادے کا ایسا مجموعہ ہے جو ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے اور اس کا کوئی نقطہ آغاز نہیں۔ انیسویں صدی میں الحاد مزید پھیلا۔ بڑے بڑے ملحد مفکرین جیسے مارکس، اینجلز، نٹشے، ڈرخم اور فرائڈ نے سائنس اور فلسفے کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا۔ (ان میں سے مارکس اور اینجلز ماہر معاشیات (Economics) ، نٹشے ماہر فلسفہ (Philosophy)ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociology)اور فرائڈ ماہر نفسیات (Psychology) تھے۔ )الحاد کو سب سے زیادہ مدد (ماہر حیاتیات) چارلس ڈارون سے ملی جس نے تخلیق کائنات کے نظریے کو رد کرکے اس کے برعکس ارتقاء (Evolution) کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون نے اس سائنسی سوال کا جواب دے دیا تھا جس نے صدیوں سے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ ’’انسان اور جاندار اشیاء کس طرح وجود میں آتی ہیں؟‘‘ اس نظریے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایسا آٹو میٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پذیر ہو کر اربوں کی تعداد میں موجود جاندار اشیاء کی صورت اختیار کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک ملحدین کائنات کے بارے میں ایک ایسا نقطہ نظر (Worldview) بنا چکے تھے جو ان کے نزدیک اس کائنات سے متعلق ہر ایک سوال کا جواب دیتا تھا۔ انہوں نے کائنات کی تخلیق کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کائنات کا کوئی مقصد نہیں۔ اس میں جو توازن پایا جاتا ہے وہ محض ایک اتفاقی امر ہے۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ جاندار اشیا کے وجود پذیر ہونے کا سوال ڈارون نے حل کردیا ہے۔ ان کے خیال میں تاریخ اور عمرانیات سے متعلق ہر مسئلے کی تشریح مارکس اور ڈرخم نے کر دی ہے اور ملحدانہ بنیادوں پر فرائڈ نے ہر نفسیاتی سوال کا جواب دے دیا ہے۔ (Harun Yahya, The Fall of Atheism, www.harunyayha.org)
سیکولر ازم کا فروغ
اسی الحاد کی بنیاد پر سیکولر ازم کا نظریہ وجود پذیر ہوا جو مذہب اور الحاد کے درمیان تطبیق (Reconciliation) کی حیثیت رکھتا تھا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔ دوسری طرف عوام الناس میں اہل مذہب کا اثر ورسوخ خاصی حد تک باقی تھا۔ اہل مذہب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اور ایک فرقے کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ دوسرے کی بالادستی قبول کرسکے۔ ان حالات میں انہوں نے یہ طے کر لیا کہ ہر فرد کو اپنی ذات میں تو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے لیکن اجتماعی اور ریاستی سطح پر مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر خالص عقل و دانش اور جمہوریت کی بنیادوں پر نظام حیات کو مرتب کر لیا جائے۔ اگر حکومت کا کوئی سرکاری مذہب ہو بھی تو اس کی حیثیت محض نمائشی ہو، اسے معاملات زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔
سیکولر ازم کے اس نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی بہت بڑی شکست اور الحاد کی بہت بڑی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہوکر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ تمام قوانین جمہوری بنیادوں پر بنائے جانے لگے۔ عیسائیت میں بھی فری سیکس گناہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی خواہش پر اسے جائز قرار دیا گیا، حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کو بھی قانونی مقام دیا گیا اور ایک ہی جنس میں شادی کو بھی قانونی ٹھہرا لیا گیا۔ سود ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں ممنوع رہا ہے، لیکن معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا۔
سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا ۔ان کی اکثریت اگرچہ اب بھی اللہ کی منکر نہیں ہے لیکن عملی اعتبار سے وہ توحید، نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ اگر کوئی مذہب کو حق مانتا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اپنی پرائیویٹ لائف کے ساتھ ساتھ پبلک لائف میں بھی اپنائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ماننے کے باوجود وہ عملاً خدا ، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے الحاد کو اختیار کرہی چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف انسانی اخلاقیات یا دین فطرت ہی باقی رہ جاتا ہے جسے ملحدین بھی مانتے ہیں۔ اہل مغرب اگرچہ ان میں سے بہت سے اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی وہ ان اخلاقی اصولوں کے بڑے حصے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

ملحدین ومسلمین سوشل میڈیا ، ذرائع ابلاغ ، ویب سائٹس پر جاری کشمکش

دنیا ایک بستی کی مانند ہوتی جارہی ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے قریب تر آتے جارہے ہیں، کوئی واقعہ دنیا کے کسی بھی کونے میں وقوع پذیر ہو، اس کی خبر اور براہِ راست اس واقعہ کو کسی بھی جگہ سے دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔علی ہذا القیاس انسانی افکار، نظریات، اور فتنے پہلے جس رفتار سے پھیلتے تھے اس کی بہ نسبت آج کے دور میں کئی گنا تیزی سے پھیل رہے ہیں،حق اور باطل کی کشمکش روزِ اول سے ہی جاری ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی یہ کشمکش اپنے عروج پر ہے۔
نورِ الہی کی شمع بجھانے کے لئے ہردور کی شیطانی قوتوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر یہ شمع روشن ہی رہی کیونکہ اسے ربّ کائنات نے روشن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (الصف:8)

اور اللہ اپنے نور کو کمال تک پہچانے والا ہے گو کافر برا مانیں ۔
حق و باطل کی اس کشمکش میں جہاں کفر کے سامنے اسلام ، توحید شرک کے مقابل اورسنت بدعت کے سامنے مد مقابل ہیں یہاں ایک اہم میدان میں دہریت یعنی ملحدین کے مدِ مقابل بھی مسلمان کھڑے ہیں ۔
ملحدین در اصل ایک ایسے راستے کی جانب بھٹک گئے ہیں جس کی سمت انہیں خود نہیں پتہ، وہ عقل کی بنیاد پر چل پڑتے ہیں جہاں عقل رک ہوجاتی ہے وہاں یہ خود بھی حیران ہوکر مزید بہک جاتے ہیں۔
عصر حاضر میں یہ فتنہ انتہائی خطرناک انداز میں نوجوانوں اوردینی علوم میں کم فہم لوگوں کو بہت تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ جس کے لئے ہر قسم کے پلیٹ فارم کا استعمال ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا سمیت کئی دیگر ذرائع کو بخوبی استعمال کرتے ہوئےملحدین کے گروہ ہمارے درمیان یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں چونکہ دنیا ایک بستی نما ہے لہٰذا ایسے افکار اور نظریات کو پھیلانے میں کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی۔آیئے ذرا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

سوشل میڈیا

انٹرنیٹ کی دنیا جب سے وجود میں آئی، ترقی کی نہ رکنے والی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے جس کا خمیازہ انسانیت کو اخلاقیات میں گراوٹ، مذہب سے دوری و بیزاری،بد امنی و بےچینی اور مختلف صورتوںمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دینِ اسلام کو اس سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہےگوکہ اس کے مثبت فوائد کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا نقصان بہر حال فائدے سے کئی گنا زیادہ ہے ۔

وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ:219)

لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے۔
سوشل میڈیادیگر فتنوں کی طرح فتنہ الحاد کا مضبوط ذریعہ تصور کیا جائے تو غلط نہ ہوگا،اسی نیٹ ورک کے ذریعے فتنہ الحاد اپنے زور و شور کے ساتھ پھیل رہا ہے، اسکی زَد میں ہر قسم کا انسان آرہا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، برصغیر خاص کر ہمارے ملک پاکستان میں اردو دان طبقے کے لئے یہاں مقامی لوگ کچھ بیرون ملک اور اپنے ملک میں بھی بیٹھ کر اس فتنے کو پھیلانے میں سرگرم ہیں جن کے متعلق پچھلے دنوں کافی خبریں گرم رہی تھیں، پھر ان کا کیا بنا؟ یہ کسی کو نہیں پتہ چلاکیونکہ یہ فتنہ اپنے لپیٹ میں کئی وزیروں، مشیروں اور دیگر اہم عہدیداران کو بھی لے چکا ہے۔ اس لئے ان گستاخی کے مرتکب بلاگرز اور الحاد پھیلانے والے خبیث لوگ جانے پہچانے ہونے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔
سوشل میڈیا پر تشکیک پھیلانے کے لئے باقاعدہ پیجز بنائےگئے ہیں، بلاگرز اپنے بلاگ میں دینِ اسلام کے احکامات کا کھلے عام انکار کرتے ہیں۔ اور انہی کے کچھ کارندے غیر محسوس انداز میں شکوک و شبہات کو مختصر اور ناقص پوسٹ بناکر شئیر کردیتے ہیں جسے پڑھ کردین میں کم عقل رکھنےو الا شک و شبہ میں پڑ جاتا ہے، پھر وہ شخص کسی عالم کے پاس جاتے ہوئے بھی ڈر محسوس کرتا ہے کہ کہیں مجھے گستاخ نہ قرار دیا جائےاس طرح سوشل میڈیا کےذ ریعے یہ پہلا وار ملحدین کا کامیاب ہوجاتا ہے اور اس طرح ان کے بچھائے گئے جال میں شکاری آ جاتے ہیں۔ علمائے کرام سے خاص التماس ہے کہ نوجوان نسل کے شکوک و شبہات کو انتہائی حکمت و دانائی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔
ایک صورت یہ بھی دیکھی گئی ہے کچھ مذہبی شعائر کی گستاخی کے پوسٹ بناکر اس پر بڑا سا لکھ دیتے ہیں کہ سبحان اللہ کہہ کر شئیر کریںجیسے پچھلے دنوں ایک سلائی مشین کی تصویر کافی گردش کرتی رہی جس پر لکھا تھا کہ ’’یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ہے‘‘ سبحان اللہ کہہ کرشئیر کریں حالانکہ وہ سلائی مشین اسی صدی کی بنی ہوئی تھی۔ اسے شئیر کرنے کا مقصد بھی ’’شکاری ‘‘ہیں کہ لوگ بہک کر شئیر کردیتے ہیں اور اپنی عقیدت و محبت میں یہ سوچ کر کہ شاید انہی کی ہو، پھر مزید پوسٹ دیکھنے کیلئے اس کے اصل پیج پر بھی جاتے ہیں، اس پیج کو لائک کرتے ہیں پھر وہ اس جال میں غیر محسوس طریقے سے آجاتا ہے اور مزید پوسٹ دیکھ کر شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
کچھ براہِ راست شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں وہ ایک الگ عنوان ہے مگر الحاد کا انجکشن مسلم نسل میں داخل کرنے کے لئے ظاہری حلیہ، نام مسلمانوں کے جیسا رکھ کر اس قسم کی حرکات کرتے ہیں۔
ہم سب پر فرض ہے کہ اس قسم کی ہر چیز پر نظر رکھیں اور ایک دوسرے کو آگاہ رکھیںاور امر بالمعروف نہی عن المنکرکا فریضہ کسی بھی موقع پر ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
شکوک و شبہات کی پوسٹ جہاںشئیر کی گئی ہوں وہیں اس کے جوابات کا لنک شئیر کردیں یا اسے ٹیگ Tagکردیں تاکہ اس شک والے پوسٹ کے ساتھ آپ کا لنک بھی منسلک ہو اورشاید کوئی بھٹکنے سے بچ جائے۔ !

ویب سائٹس اور خبر رساں ادارے

انٹرنیٹ کی دنیا میں ویب سائٹس ایک لائبریری یا مرجع اور ایک دوکان کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں دوکاندار جتنی چیزیں رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے پھر اس سائٹ پر آنے والا اس سے استفادہ کرتا ہے۔ جہاں دیگر بہتر فوائد کیلئے کئی ویب سائٹس ہیں اسی میدان میں انسانیت کی بگاڑ کیلئے بھی ناعاقبت اندیش لوگوں نے اپنی ویب سائٹس بنائی ہوئی ہیں۔ ملحدین نے بھی اس میدان کا بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے آئے روز اس میں مضامین ، تبصرے اور حالات سے متعلق اپنی بنائی گئی خبریں شائع کرتے ہیں جو بظاہر تو سادی ہوتی ہیں مگر ان خبروں سے عام آدمی ضرور متاثر ہوتاہے۔جیسے ایک مشہور ویب سائٹ پر خبر کی شکل میں یہ آرٹیکل موجود ہے کہ ’’قاہرہ کے ریلوے اسٹیشن پر چلتے پھرتے مذہبی فتوے لیجئے‘‘ اس خبر کو بناتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ان مذہبی پیشواؤں کو دوسرے کام کرنے چاہیے، مسجدوں تک محدود رہنا چاہئے، پرتشدد کاروائیوں کو روکنا چاہئے۔ وغیرہ۔
حالانکہ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے پروڈکس کے لئے دنیا کے ہر کونے میں اسٹال لگاتی ہیں، سائن بورڈز، ٹی وی اشتہار کے ذریعے گھرگھر گھستی ہیں، دیگر غلط کام کے ادارے اپنے ناپاک عزائم کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں ۔ اس پر ان ملحدین کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، بس جہاں دین اسلام کا نام آنےسے ان کے تن میں آگ سلگنے لگتی ہے۔
قارئین کرام ! ہمارے سامنے یہ ایک مثال ہے، اس قسم کے لاکھوں عجیب و غریب مضامین بناکر ملحدین ویب سائٹس پر نشر کرتے ہیں۔ اس کے سب سے بڑے آلہ کار بی بی سی ، سی این این سمیت بڑے بڑے نشریاتی ادارے بھی ہیں، جنہیں اسلام کے خلاف چھوٹی سے چھوٹی خبر پہاڑ بناکرپیش کرنے کی بہت ہی مہارت ہے۔جبکہ اسلام کی اچھائی کی کوئی خبر ہو تو ان سب کے چہرے دوسری طرف پھرجاتے ہیں اور اس کی اشاعت میں یہ سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ شام، فلسطین، عراق، میں جاری مظالم سے متاثر ہونے والے لاکھوں عورتیں،بچے انہیں نظر نہیں آتے،لیکن کسی جگہ اسلام کے نام پر کوئی فساد برپاہوکر کوئی عورت یا مرد مرجائے تو اسے یہ نشریاتی ادارے، ملحدین کی ویب سائٹس، سوشل میڈیا، موم بتی مافیا فوراً متحرک ہوجاتے ہیں۔چترال میں ایک امام مسجد نے ایک شخص کو گستاخی پر لوگوں کے نرغے سے بچایا، مذکورہ بالا مافیا اس خبر میں بھی دینِ اسلام کی بدنامی کی خبر ڈھونڈتا رہا بالآخر یہ خبر مل گئی کہ مشتعل اسلام پسندوں نے امام صاحب کے گھر کو آگ لگائی۔ العیاذ باللہ۔ اگر یہ امام صاحب بچا نہ پاتے تو خبر اس طرح بننی تھی کہ ایک پیش امام کے ورغلانے پر ہجوم مشتعل ہوا اوربندے کو قتل کردیا۔ وغیرہ۔
میڈیا /ذرایع ابلاغ
کچھ دنوں پہلے انڈیا کے ایک ٹی وی چینل پر ہونے والی مباحثہ کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان کچھ یوں تھا کہ کائنات کا وجود، اللہ تعالیٰ کی موجودگی؟اس میں ایک بظاہر مسلمان سائنسداں کا تعارف پیش کیا گیا جس کا نام رضا گوہر تھا، مباحثے میںاس شخص پر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ دنیا کے معرض وجود میں آنے کے 101 لوگوں کے نظرئیے واضح کر رہا تھا کہ فلاں کا یہ کہنا ہے ، فلاں کے نزدیک دنیا میں پہلے یہ ہوا، پھر آبادی ہوئی، پھر یہ سسٹم خود بخود بنتا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ وہ اپنی علمیت سے یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ گویا دنیا کا کوئی خالق نہیں، یہ سب چیزیں خودبخود بنی ہیں، سسٹم خود چل رہا ہے۔اور آخر میں یہ بھی کہہ دیا کہ میں کسی خدا کو نہیں مانتاجو دنیا کے ظلم کو طاقت کے باوجود روک نہیں رہا۔ انسان کی تخلیق کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں اور اٹکل لگا رہا تھا۔ اس شخص نے زندگی میں کبھی ایک آیت کو بھی نہیں پڑھا تھا ورنہ اسے تخلیق کے بارے میں بہت سی باتوں میں قرآن کریم سے رہنمائی مل جاتی!
یہ ایک پروگرام کا حال تھا،اردو دان طبقے کو گھیرنے کے لئے یہ عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس قسم کے سیکڑوں پروگرامز مختلف ٹی وی، اور ویب چینلز کے ذریعے نشر کئے جاتے ہیں۔جس میں ایک دنیاوی علم رکھنے والے کو بلاکربات کی جاتی ہے اور اس کے مقابل کسی ایسے بندے کو لائیں گے جس سے یا تو اپنی پوری بات کی نہیں جاتی ہوگی، یا اسے سمجھانا نہیں آتا ہوگا اور اگر اتفاق سے یہ دونوں صفات ہوںتو اسے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا۔ اس طرح انسانوں میں دہریت اور الحاد کو راسخ کیا جارہا ہے۔
ان کا عمومی نظریہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود بنی، اور ساری چیزیں بس ایک آٹو سسٹم کے تحت چل رہا ہے۔

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (المؤمنون:115)

کیا تم یہ گمان کئے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔
اس کے علاوہ فلموں، ڈراموں، گانوں میں ایسے جملے اور منظر کشیاں کی جاتی رہی ہیں جس میں لوگوں کا الحاد اور بےدینی کے لئےذہن سازی کی جاتی ہے۔ اور ایسے واقعات بناکر پیش کرتے ہیں جسے دیکھنے والا تو فلم / ڈرامہ سمجھ کے دیکھتا ہے مگر وہ واقعہ لاشعوری طور پر اس کے دل و دماغ میں اپنا اثر چھوڑ چکا ہوتا ہے۔
اس قسم کے کچھ ڈرامے پاکستانی چینلز بھی دکھاتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران اور ذمہ دار ادارے آنکھیں بند کرکے خوابِ خرگوش میں مگن رہیںگے تو وقت ایسا بھی آئےگا ہمارے معاشرے کا حال بھی انہی ذرائع ابلاغ کی بدولت مغربی معاشرے کی طرح مادر پدر آزاد اور دین و مذہب سے دورہوگا۔

فلاحی ادارے

یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں جہاں ہم نہیں پہنچ پاتے، یہ فلاحی ادارے پہنچ کر اپنا مشن پورا کرچکے ہوتے ہیں۔ جن میں کافی سارے ادارے غیر مسلموں کی زیرنگرانی چل رہے ہوتے ہیں، جن کا بظاہر مقصد تو انسانیت کی خدمت ہے مگر وہ اپنے عقائد اور نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ آج سے پندرہ سال قبل ایک کتابچہ دیکھنے کو ملا جو ہمارے گاؤںبلتستان میں تقسیم کیا گیا تھا، اسے پڑھنے کے دوران حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتابچہ وہاں کی مقامی زبان ’’بلتی‘‘ میں تھا جس میں عیسایت کی تبلیغ کی گئی تھی۔ابھی گذشتہ دنوں یوٹیوب پر عیسائت کی تبلیغ والی ویڈیو کا بلتی ترجمہ بھی دیکھا۔
بلتی زبان میں ہماری اپنی مذہبی کتب کا ترجمہ ہم نے اس انداز سے نہیں دیکھا ، مگر یہ فلاحی ادارے کی آڑ میں اپنے مشن میں ہم سے کتنا آگے ہیں یہ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
اسی طرح دیگر اسلام مخالف مشنریز سے متعلق پچھلے دنوں میں وزارتِ داخلہ پاکستان کی جانب سے باقاعدہ پابندی کا اعلان کیا گیا تھا کہ یہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
ان سب کے علاوہ جن ذرائع سے الحادہمارے گھروں میں داخل ہورہا ہے ان میںمختلف جرائد، رسائل، کتب کے علاوہ بہت سے شعرا کے اشعارشامل ہیں۔
بہترین علاج یہ ہے کہ دینِ اسلام کا مکمل فہم حاصل کیا جائے۔سلف صالحین کی منہج سے مکمل آگاہی حاصل کی جائے، ہم خود اور اپنی نسلوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم سے لازمی طور پر روشناس رکھیںتاکہ ملحدین کے ناپاک اور خطرناک ہتھکنڈوں سے بچ سکیں۔
۔۔۔

جدید تعلیمی ادارے اور فتنہ الحاد

نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْمِلَّةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُشَرِّكَانِهِ (سنن الترمذي:2138)

ہر بچہ ملت پہ پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یامشرک بنادیتےہیں۔
ایک دوسری حدیث میں ملۃکی جگہ فطرۃ کالفظ ہےاور اصل میں ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے جو کہ اسلام ہے جیساکہ محدثین نےاس کی وضاحت کی ہے کیونکہ یہاں فطرت سے مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ رب العزت نے عالم ارواح میں ہم سب سے لیا تھا کہ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْاور ہم سب نے اسکے جواب میں کہا تھا کیوں نہیں اے رب العالمین۔
یہی بچہ جو کہ اصلا مسلمان اور مومن ہوتا ہے جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے والدین اور اردگرد رہنے والوں کی نقل کرنے لگ جاتاہے اور ان ہی جیسا بن جاتا ہے اس حدیث اور اسکی تشریح کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہو جاتی ہے کہ بچوں کی تربیت کی کیا اہمیت ہے!
ہمارے معاشرے میں بچے ذرا سا ہوش سنبھالتے ہی سکولوں میں داخل کر دئیے جاتے ہیں اور والدین سے بھی زیادہ اثر بچے اپنے اسکولز کے ٹیچرز اور اردگرد کے بچوں کا لیتے ہیں اور یہیں سے بچوں کی وہ ذہنی نشوونما ہوتی ہے جس سے انکے رحجانات کا تعین ہوتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے سے اپنوں اور اغیار کا خاص نشانہ ہمارا نظام تعلیم ہے کیونکہ یہی وہ نسل نو ہے جو کل کلاں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے اور کیونکہ زمانہ طالب علمی وہ دور ہوتا ہے جس میں اذہان ہر نئی چیز کو قبول کرتے ہیں اور اگر مناسب وقت پہ رہنمائی نا کی جائے تو یہ نئے خیالات اور نظریات ذہن کے مستقل مکین ہو جاتے ہیں اور اس نوخیز دماغ کو کسی نا کسی فتنے کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں ۔نعوذ باللہ من ذلك
گزرے چند برسوں میں جدید تعلیمی اداروں اور وہاں پڑھنے والے طلبا کے لیے جو نیا فتنہ بھرپور طریقے سے آیا ہے وہ سیکولرازم اور لبرل ازم ہے جس کی انتہا الحاد ہے اور یہی اس تحریر کا موضوع گفتگو ہے۔
یقینا بہت سے اس بات سے چونک گئے ہونگے اور بہت سے ایسے ہوں گے جو اس سے اتفاق نہیں کر پا رہے ہونگے لیکن یہ فتنہ ہمارے در تک اچانک تو آیا نہیں کہ جس کے آنے کا معلوم ہو جاتا بلکہ اسکے پیچھے برسوں کی وہ پلاننگ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ اب زور آور ہو چکا ہے، اس پلاننگ میں نصاب پہ اثرانداز ہونا، معلمین کی ایسی کھیپ جو ان مقاصد کے لئے فائدہ مند ہو، پھر تعلیمی اداروں کا ماحول ایسا بنا دیا جانا کہ مذہب پہ عمل کرنا مشکل تر اور لہو و لعب کی محافل آسان تر لگیں اور ایک اور حربہ جو استعمال کیا گیا وہ این جی اوز کا تعلیمی اداروں میں بڑھتا ہوا رسوخ ہے۔
نصاب تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو قیام پاکستان کے فوری بعد لارڈ میکالے کے لائے گئے اس نظام تعلیم کو ہی پاکستان کا نظام تعلیم بنا دیا گیا جس کے بارے میں اس نظام کے بانی لارڈ میکالے نے خود کہا تھا کہ اس نظام تعلیم سے ہم ایسے افراد تیار کریں گے جو ہونگے تو ہندوستان کے رہنے والے ہونگے لیکن وہ وفادار انگریزوں کے ہونگے یعنی سادہ لفظوں میں کالے انگریز!
بدقسمتی سے پاکستان میں بھی وہی نظام تعلیم نافذ العمل رہا اور اسکے ساتھ ساتھ برطانوی دور کے چھوڑے ہوئے مشنری اسکولز جوں کے توں قائم رہے جن میں عیسائی تربیت یافتہ اساتذہ پڑھاتے تھے۔ مزید برآں ہماری اس سائیکی نے کہ انگلش زبان ہی ترقی کا زینہ ہے ہم نے امریکن سکول سسٹم اور برطانوی سکول سسٹم اپنے ہاں برآمد کیے۔ ان سسٹمز کے تحت چلنے والے سکولز میں نصاب مکمل طورپر غیر اسلامی ہے جس میں اردو اور اسلامیات کی کتب کو شامل تو کیا گیا لیکن ان میں ایسے اسباق شامل کیے گئے جو بجائے بچے کے نظریات مضبوط کرے بلکہ اس میں تشکیک پیدا کرتے ہیں۔ سکولز میں تو یہاں تک ہے لیکن یونیورسٹی لیول پہ آزادی اظہار رائے کے نام پہ کورس آوٹ لائن کے نام پہ عجیب گل کھلائے جاتے ہیں جہاں ایسی اسائنمنٹس اور پروجیکٹز شامل کیے جاتے ہیں جو الحاد کا پہلا قدم ہوتا ہے جو کہ تشکیک ہے۔ یہ نصاب عموما غیر ملکی این جی اوز، پاکستان میں کام کرنے والے آزادی اظہار رائے کے ادارے مل کر بناتے ہیں اور اس پہ عمل کرانے کے لیے اگلا مقصد ٹیچرز کی تربیت ہوتی ہے۔
کسی بھی نصاب کو عملی طور پہ کامیاب کرنے کے لیے یقینا ٹیچرز ہی کردار ادا کرتے ہیں۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں دیار غیر سے پڑھے ٹیچرز کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ معمار قوم اپنی حب الوطنی اور دین پہلے ہی یرغمال بنا کر آ چکے ہوتے ہیں یا پھر مقامی طور پہ تیار ٹیچرز کو بار بار ٹریننگ کے نام پہ این جی اوز سے تیار کروایا جاتا ہے جس سے انکے اذہان بھی کسی حد تک بدل ہی جاتے ہیں۔ نصاب اور ٹیچر دونوں جب بدل جاتے ہیں تو پھر تشکیک کا بیج با آسانی معصوم کونپلوں کے ذہن پہ نمو پانے لگتا ہے۔
عبدالوارث گِل صاحب ایک معروف مبلغ ہیںاور حقوق الناس ویلفیئر فاونڈیشن کےسربراہ ہیں گل صاحب عیسائیت سےاسلام کے دائرےمیںداخل ہوئے اور ان کو اس سفر میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہی مشکلات سے لوگوں کو بچانے کے لیے انھوںنےیہ مذکورہ تنظیم بنائی جو پاکستان میں موجود غیر مسلم اقلیتوں کو قبول اسلام کی دعوت اور انکو درپیش مشکلات کے حل اور الحاد کے خلاف کام کرتی ہے۔
ایسے کئی واقعات کے وہ شاہد ہیں بتانے لگے عیسائی کونونٹ سکول میں ٹیچرز کس طرح کرتے ہیں کہ ٹیچر نرسری کلاس میں داخل ہوئی اور کہنے لگی سب اپنے گاڈ سے چاکلیٹ مانگو، ہر بچہ اپنے اعتقاد کے مطابق مانگنے لگا لیکن چاکلیٹ نہیں ملی اب ٹیچر نے کہا کہ ہم یسوع مسیح علیہ السلام سے مانگتے ہیں بچوں نے آنکھیں بند کیں اور جیسا کہ پہلے سے انتظام موجود تھا اس دوران چھت سے چاکلیٹس گرنے لگیں اب اسکا نتیجہ کیا نکلنا ہے یہ قارئین خود ہی سوچ لیں۔
بچوں کے معصوم ذہنوں میں چونکہ اللہ عزوجل کا تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ سنتا ہے اور فوری دیتا ہے انکے ساتھ اس طرح کی منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جاتا ہے لیکن اس سے ذرا بڑھے بچوں کے ساتھ تھوڑے مختلف طریقے سے کام کیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس ایک اسکول ٹیچر انوار احمد کی وڈیو تو سوشل میڈیا پہ ایکٹو بہت سے احباب نے دیکھی ہو گی جس میں وہ نہم کلاس کے بچوں کو پڑھاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ یہ جنت، جہنم اور حوریں یہ سب مولویوں کی کارستانی ہیں حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک گورنمنٹ سکول میں پڑھانے والے ٹیچر کا طریقہ تدریس ہے اسی طرح کے ان گنت واقعات اب تعلیمی اداروں میں عام ہیں جو ہمیں معلوم نہیں ہیں۔
تشکیک جو کہ الحاد کی پہلی سیڑھی ہے اس طریقہ واردات کے لیے ہر طرح کے مضامین سے مددلی جاتی ہے آپ اسلامیات پڑھ رہے ہیں تو اسلامی تاریخ کے بارے ابہام پیدا کرنا یہ باور کرانا کہ مسلمان جب مضبوط تھے تو انھوں نے قتل عام کیا، احادیث کی سند کو مشکوک ٹھہرانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عدالت کو غلط ثابت کرنا۔ ادبی مضامین کا تو اللہ ہی حافظ ہے کہ ناول اور افسانوں میں محبت وعشق کے نام پہ براہ راست اللہ سے شکوے شکایتیں اور جنگ کرنا، اسی طرح سوشل سائنس کے مضامین میں خاندانی نظام، غربت، معاشرے کے اندر بڑھتی عدم رواداری اور اس پہ مذہب کو قصوروار ٹھہرانا اور اس طرح منفی نفسیاتی رویوں کی وجہ اسلام پہ عمل کرنے کو ٹھہرانا۔
سائنس کے مضمون میں ڈارون کی تھیوری آد ایولوشن اس شدومد سے پڑھانا کہ کہیں نا کہیں پڑھنے والا اسکا قائل ہو جائے، تخلیق کے متعلق عجیب و غریب باتیں کرنا یہ سب وہ نکات ہیں جو ایک عام طالب علم کو آسانی سے الحاد کی طرف لےجاتےہیںاوراردگردمذہب کی مناسب راہنمائی نا ہونے کی وجہ سے یہی نظریات اس کو دین سے برگشتہ کرنے لگ جاتے ہیں یا پھر اس کا ایک اور ردعمل ہوتا ہے وہ کہ یونیورسٹیز کے طلباء شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے سوالوں کے جواب نا پا کے گالم گلوچ، دوسروں کو گمراہ اور کافر قرار دینے اور آخرکار خارجیت کی راہ لیتے ہیں۔ اس امر کی نشاندہی سندھ حکومت بھی کر چکی ہے کہ یونیورسٹیز کے طلبا اس قسم کی شدت پسندی کا شکار ہیں اور اسکی مثال صفورہ بس کیس کے نامزد ملزم بھی ہیں۔
تشکیک کے اس سفر میں آغاز ان باتوں سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے ذہن میں جو بھی سوال ہے وہ پوچھیے، اگرچہ یہ ایک مثبت بات ہے لیکن اسکو بنیاد بنا کر مذہب کے خلاف سوال اٹھائے جاتے ہیں، اسی طرح کے ایک واقعہ کا میں خود شاہد ہوں کہ ہمارے لیکچرار نے کلاس میں اعلان کیا کہ آپ جو سوال پوچھنا چاہتے ہیں پوچھیے، ایک ساتھی نے فوری سوال کیا کہ احادیث کے بارے اکثر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں انکا کیسے جواب دیا جائے۔ لیکچرار خود اسی قبیل سے تھے کہنے لگے بیٹا اب باتیں تو انکی ٹھیک ہوئی ہیں، دیکھیں نا امام بخاری نے بھی تو دو لاکھ احادیث ضائع کیں تھیں۔ اب اس سوال کو لے کے بہت دن ڈسکشن ہوتی رہی اور بہت سے طلبا کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ امام بخاری نے احادیث ضائع کی ہیں اور احادیث کا جو مجموعہ ہم تک پہنچا ہے وہ قابل اعتبار نہیں ہے۔
تیسرا جو حملہ کیا گیا وہ این جی اوز اور اس قبیل کی تنظیموں کا حملہ تھا جو ریسرچ اور تفریح کے نام پہ تعلیمی اداروں میں اپنی تقریبات کرتی ہیں اور مختلف اوقات میں ٹریننگ سیشنز، پروگرامز کرتی ہیں اور ان اداروں میں ہونے والے مختلف حیا باختہ پروگرامز کو سپانسر کرتی ہیں، ان کا طریقہ واردات بھی غیر محسوس سا ہوتا ہے مثال کے طور پہ مختلف سوالنامے فل کروانا، جس میں عجیب و غریب

سوالات ہوتے ہیں، مثلاً آپ مذہب پہ کتنا عمل کرتے ہیں؟ آپ کو اللہ پہ کتنا یقین ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں موجودہ دین ہماری دنیاوی ضروریات کو سمجھتا ہے؟ اسی طرح یہ احساس پیدا کرنا کہ اسلام آوٹ ڈیٹ ہو چکا ہے، مذہب اور دنیاوی زندگی الگ معاملات ہیں۔ اسی طرح دینی موضوعات پہ سیمینار کا انعقاد اور ان میں ایسے لوگوں کو دینی اسکالرز کے نام پہ بلایا جانا جو خود اسی فکر کے ہوتے ہیں اور انکو اس طرح متعارف کروانا کہ یہ دین کی جدید تعبیر کو سمجھتے ہیں اور فرقہ واریت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ وہ سب حربے ہیں جن کی مدد سے تشکیک، لبرل ازم کو فروغ دیا جاتا ہے اور یہی مراحل آخرکار الحاد پر منتج ہوتے ہیں۔ الا من رحم ربی!
اب کرنا کیا چاہیے یقینا اللہ کا یہ دین اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اور اس نے غالب ہو کے رہنا اور ہمارا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ ہم اس دین کی سربلندی کے لیے کچھ کر جائیں۔
سب سے پہلا قدم تو گھر میں بچوں کی مکمل تربیت کا انتظام کیجیے انکے سوالات کا جواب دیجیے، اپنے بچوں کو اللہ عزوجل کا مکمل تعارف کروائیے، اسلام کے محاسن سے آگاہ کیجیے، نبی کریم ﷺکی بطور مبلغ قربانیوں سے انکو روشناس کروائیے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کروایں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے روشن کردار کا بتائیے، تدوین احادیث اور محدثین کی لازوال اور انتھک محنت سے انھیں آگاہ کریں۔
لیکن پھر بھی بہت سے اسلامی اسکولز موجود ہیں ان میں اپنی اولادوں کو بھیجیں، انکے نظریات و خیالات کا مکمل احتساب کریں، اگر آپ کو ایسے تعلیمی ادارے نہیں ملے اور آپ کی اولاد، بہن بھائی ایسے اداروں میں داخل ہیں تو انکی سرگرمیوں اور افکار پہ نظر رکھیں اور کم ازکم تعلیمی ادارے کے پراگندہ ماحول کا مداوا کرتے انھیں گھر اور مسجد میں بہتر ماحول فراہم کرنا ہو گا۔
اس کے علاوہ ایسے اداروں میں یقینا بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں انھیں چاہیے کہ بطور معلم اپنے فرائض کا احساس کریں اور طلبا کی علمی اور نظریاتی بنیادیں مضبوط کریں، این جی اوز کے مدمقابل جو اسلامی علمی اور رفاہی تنظیمیں موجود ہیں اگرچہ وہ بہت کم ہیں لیکن انکا وجود غنیمت ہے اس لیے ان کی ہر ممکن مدد کریں۔
ان سب فتنوں نے اس لیے جگہ بنائی کیونکہ ہمارا اپنا رشتہ اللہ عزوجل اور اسکے دین سے مضبوط نہیں رہا اسکو مضبوط بنائیں اور اسکو مضبوط کرنے کے لیے مساجد جو کہ اللہ کے گھر ہیں انکو نوجوان نسل میں مقبول بنایا جائے، انکا ماحول اس طرح کا بنایا جائے کہ آج کا نوجوان ادھر آنا پسند کرے اور اسکا دل وہاں سکون محسوس کرے، وہاں ایسی سرگرمیاں شروع کی جائیں جو فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خالص قرآن وسنت کی تعلیمات پر مشتمل ہوں اور جدید ذرائع کو استعمال کرتے قرآن مجید کے ترجمہ اور تفسیر کو پڑھایا جائے، احادیث نبویہ کے دروس دئیے جائیں جس میں جدید نسل کے سوالات کے جوابات ہوں۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمارے نیک اعمال قبول فرمائے، ہمارے دلوں کو ایمان سے منور کرے اور الحاد، لبرل ازم اور اس قبیل کے سب فتنوں سے ہمیں بچائے، ہماری نسل نو کو دین کا صحیح معنوں میں خادم بنائے۔
۔۔۔

عہدِ قدیم میں الحاد کا تصور

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين وعلى آله وأصحابه ومن اتبعهم الى يوم الدين، أما بعد :

جیساکہ عنوان سے واضح ہو رہا ہے کہ زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور پایا جاتاتھا؟یہاں ایک ضروری بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اگرہم الحاد کا معنی اردو زبان میں لیتے ہیں تو اس کا تصور زمانہ قدیم میں کہیں بھی موجود نہیں تھا کیونکہ اردو زبان میں الحاد کا معنی ہر خالق اور وجود باری تعالیٰ کا انکار ہے اور اگر عربی زبان میں الحاد مراد لیں گے تونام کے لحاظ سے نہیں بلکہ عملا ملحدین موجود تھے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [فصلت:40]

بیشک جو لوگ ہماری آیتوں سےاعراض و انحراف کرتے ہیں وہ (کچھ) ہم سے مخفی نہیں (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔
یہاں ہم ملحدین کی تاریخ جاننے کے لئے کوئی تاریخی کتاب یا کسی فلاسفر کی کتاب اٹھا کر مطالعہ نہیں کریں گے بلکہ قرآن کریم سے ملحدین کا ٹولہ جاننے کی کوشش کریں گے اس پہلے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں الحاد ہے کیا؟؟ الحاد کا کیا معنی ہے؟
الحاد کا لغوی معنی: ”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ (المنجد) اور تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:

”الالحاد: المیل والعدول، ومنه اللحد فی القبر، لأنه میل الی ناحیة منه “(تفسیرسورۃ حم سجدۃ:40)

’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے بغلی قبر کے لئے لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا زیادہ مشہوراورصحیح ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہذا اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد،

جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:

فالملحد هو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)
”ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “۔
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:

ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة (تفسیر سورۃ حم سجدۃ:40)

”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں
پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں۔
ہم الحاد کے معنی جاننے کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں زمانہ قدیم میں الحاد کا تصور تھایا نہیں ؟؟ جب سے انسان نے اللہ تعالی کے احکامات میں اپنی من مانی شروع کی وہاں سے الحاد کی تاریخ رقمطراز ہوتی ہے ، اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا اس وقت ان کی قوم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا میں غرق تھی اور الحاد کی تاریخ یہاں سے شروع ہوتی ہے، آپ نے کم وبیش ساڑے نو سو سال قوم کو اللہ کی طرف بلایا اور قوم جواب کیا دیتی تھی آئیے قرآن کریم سے پوچھتے ہیں اللہ تعالی نے سورہ ھود میں قوم نوح کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ [هود: 25 – 27]

یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیںاور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کےاور کوئی نہیں جو بےسوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں ۔
یہی الحادی سوچ ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت کا اجتماع ممکن نہیں اور اسی طرح اہل اسلام اور اسلام پر پختہ لوگوں کو دنیا کے حقائق سے دور سمجھنا اور ان کو نیچا گرداننا اس وقت کے ملحدین کا شیوہ تھااور جوکہ آج بھی ہے اسی طرح قوم نوح کی حالت سورہ نوح میں مفصل بیان کی گئی ہےکہ قوم نوح کتنے بتوں کی عبادت کرتے تھے؟ اور ان کے کیا نام تھے۔؟ وغیرہ۔
قوم نوح کی اللہ کے دین سے انحراف واعراض کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی طرف آئے ہوئے نبی سے عذاب الہی کی طالب تھی۔ جس کا نقشہ رب کائنات نے یوں کھینچا ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

قَالُوا يَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [هود: 32]

اے نوح علیہ السلام تم نے ہم بحث کرلی بہت زیادہ بحث کی ہے اب اگر تو سچا ہے تو جس چیز سے ہمیں ڈرا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آاگر تو سچوں سے ہے۔
اس طلب عذاب الہی کے بعد اللہ تعالی نےاس قوم پر درد ناک عذاب نازل کردیا اور مؤمنین کے علاوہ باقی سب تباہ و برباد ہوگئے یہی حال ہر اس انسان کا ہوگا جو اللہ تعالی کے احکامات سے منہ پھیرنے والا ہوگا۔
ہم مضمون کے اختصار کے لئے پہلے دنیا میں آنے والے نبی کے بعدآخری دنیا میں آنے والے نبی محمد عربی ﷺ اور اس کے زمانے میں پائے جانے والے ملحدین کی طرف آتے ہیں، جس طرح سیدنا نوح علیہ السلام کے زمانہ میں ملحدین کے نام سے کوئی نہیں ویسا ہی آپ ﷺ کےزمانہ میں ملحدین کے نام سے کوئی نہیں تھا لیکن عملا اللہ کے انکار کرنے والے پائے جاتے تھے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ[الجاثية: 24]

ان لوگوں نے کہا کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا کی زندگی ہے ،ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں صرف زمانہ ہی مارڈالتا ہے در اصل انہیں اس کا کوئی علم ہی نہیں ہے یہ تو صرف گمان کررہے ہیں۔
مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اپنی تفسیر احسن البیان میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: یہ دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے ،وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی پہلی اور آخری زندگی ہے ،اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت وحیات کا سلسلہ محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے ، جیسے فلاسفہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت پر لوٹ آتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ کسی صانع اور مدبر کے از خود یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔
جب اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں یہی دہریہ اور ان کے ہمنوا مشرکین مکہ اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار بھی کرتے تھے اس عقیدہ سے متعلق قرآن کریم سے پوچھتے ہیں کہ میرایہ دعویٰ کہاں تک سچ ہے اللہ تعالی سورۃ یونس میں حکم صادر فرمارہے ہیں ، آپ ان مشرکین سے پوچھ لیں تمہیں رزق دینے والا ، زندہ کو مردے سے نکالنے والا کون ہیں تو وہ جواب دیں گے اللہ ہی ہے جیسا کہ فرمایا:

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ [يونس: 31]

آپ کہہ دیجئے کہ وہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچاتا ہے ،اور وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہ کون ہے جو تمام کاموں میں تدبیر کرتا ہے؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ، تو ان سے کہیے پھر کیوں نہیں ڈرتے۔
اسلام میں الحاد کی ابتدا خوارج کی شکل میں ہوئی جیسا کہ یہ صحیحین میں ہے کہ بنو تمیم سے ایک آدمی اللہ کے نبی ﷺکی تقسیم پر اعتراض کررہاتھا ۔

عن أبي سعيد قال بينا النبي صلى الله عليه وسلم يقسم جاء عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله فقال ويلك ومن يعدل إذا لم أعدل قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه قال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاته وصيامه مع صيامه يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية (صحيح البخاري:6933)

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ ہم میں مال تقسیم فرمارہے تھے اتنے میں عبد اللہ بن ذو خویصرہ تمیمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ انصاف کر آپ ﷺ نے فرمایا : تم برباد ہو اگر میں انصاف نہ کروں تو کون کرےگا ۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑا دوں ،آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو کیونکہ اس کے اور ساتھی بھی ہیں جن کو تمہاری نماز اور روزہ اپنی نماز اور روزے کے بدلے حقیر دکھائی دیںگے اور یہ لوگ دین سے ایسے نکلیں گے جیسے تیر قوس سے نکل جاتا ہے۔
خلاصہ: قرآن اور حدیث کے مطالعے سے یہی معلوم ہوتا ہےکہ جو آج کے ملحدین ہیں ان کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن اللہ اور اس کے رسول کے انکار کرنے والے اور دین سے منحرف ملحد بہت تھے۔

سائنس اور اسلام

حکیم و علیم کی پیدا کردہ یہ کائنات بلاشبہ اسرار و رموز اورآیات و حقائق کا عظیم الشان بھنڈار ہے،اسکا چپہ چپہ رب تعالیٰ کی معرفت کا نشان ہے ،ضرورت صرف ان میں غور و فکر کرکے عرفان پالینے کی ہے،گویا معارف کا بحر بے کراں ہے جو ہر نگاہ رکھنے والے کو دعوت غوص و خوض دے رہا ہے،لیکن جذب و کش کے باوصف اس صدائے بے آواز پر کان دھرنے والے کم ہیں ،جیساکہ ذوالجلال والاکرام کا فرمان ہے:

وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ (یوسف:105)

آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی آیات ہیں جن پر سے لوگ توجہ دیئے بغیر گزر جاتے ہیں۔
بلکہ بات صرف اعراض اور عدم توجہی تک نہیں رہتی انسان کی بےحسی اس قدر بڑھی ہوئی ہے،کہ جب کوئی داعی اسے توجہ دلاتا ہے تو وہ توجہ کئے اور نظر ڈالےبغیر ہی آیات کو جھٹلادیتا ہے،اسی بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہُ (یونس:39)

انہوںنے ایسی بات کو جھٹلایا جس کو انہوں نے جانا نہیں، اورابھی تو اسکی حقیقت ان تک پہنچی ہی نہیں۔
لیکن جو توجہ کرتے ہیںپھرمانتے ہیں ،تسلیم کرتے ہیں،انکے شب و روز خالق کائنات کی محبت و جستجومیں بسر ہوتے ہیں،انکی زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گزر جاتی ہے،نہ انہیں کسی کی ملامت کی پرواہ ہوتی ہے نہ کسی کا خوف ان پر طاری ہوتا ہے،بس ایک ہی دھن ان پر سوار ہوتی ہے کہ :

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:192)

ہمارے مالک،یہ سب تونے بیکار میں پیدا نہیں کیا،ہم تجھے (ہر عیب سے )پاک مانتے ہیںپس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لینا۔
انسانیت کا آغاز،مقصد حیات، انجام اور علم

اسلامی نقطہ نگاہ:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سب سے باکمال انسان ہے،اور اسکے عروج کی بنیاد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پہلے اسے عطا کیا،جسکا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا،ارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرۃ:30-33)

یاد کرو جب آپکے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں،تو انہوں نے کہا:کیا تو اِس پر اُسے پیدا کرے گا جو اِس میں فساد مچائے گااور خون بہائے گا،اللہ نے فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جان سکتےاور ُاس نے آدم کو سبھی ناموں کا علم سکھادیا پھر اسے فرشتوں پر پیش کیا اور کہا کہ:اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتاؤ؟انہوں نے کہا:تو پاک ہے،ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا،توہرشے کو جاننے والا اور حکمت والا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:اے آدم تم اِنہیں اُنکے نام بتاؤ سو جب انہوں نے انہیں انکے نام بتادیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
پھر سند علم ملنے کے بعد اسے مسجود ملائکہ بنادیا،یعنی روحانی (علمی)وجسمانی(سجدہ)دونوں طرح انسان کودیگر خلائق پر

فضیلت بخشی۔

اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ نہیں بلکہ علم کی روشنی سے ہوا،چنانچہ انسان کبھی بھی وحشی یا جنگلی نہیں رہا بلکہ وہ اپنے آغاز سے ہی متمدن و مہذب ہے۔
اس آیت میں بیان کردہ علم ”اسماء کا علم“ہے،یعنی تمام اشیاء و موجودات کی معلومات پر مشتمل علم،اب تک صرف علم ہی حاصل تھا،بابا آدم علیہ السلام کو جنت میں بسائے جانے کے بعد عمل(پریکٹیکل)کا آغاز ہوا (جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے)پھر مشیئت باری تعالیٰ کے تحت انہیں انکی پوری نسل سمیت زمین پر ایک اور امتحان کی تیاری کے لئے بھیج دیا گیا۔
گویا انسان کا آغاز ،اسکا مقصد حیات اور اسکا انجام سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔
زمین پر بھیج دیئے جانے کے بعد علم کی قدر میں اور اضافہ ہوا،اور انسان کے مقصد حیات (امتحان کی تیاری)کو سامنے رکھتے ہوئےیہاں علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم اور اسکے مطابق عمل ہےیعنی عقائد و شرائع کا علم اور ان پر عمل کرنا،جو انسان اس علم کے نور سے منورہوئے انہیں دیگر انسانوں پر برتر قراردیا،جن میں سرفہرست انبیاء و رسل علیہم السلام ہیں،انکے بعد دیگر علماء کرام،چنانچہ ارشاد فرمایا:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

اے نبی ﷺ کہہ دیں کہ کیا جولوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟دراصل عقل والے نصیحت پکڑ لیتے ہیں۔(الزمر:9)
دوسرے مقام پراس سوال کا جواب مزید وضاحت سے بیان ہوا ارشاد فرمایا:

يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

تم میں سے اللہ ان لوگوں کو بلند درجات عطا کرے گا جو ایمان لائے اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا،اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ خبر رکھ رہا ہے۔(المجادلہ:11)
اسکے بعد یہ ضابطہ بھی بیان کردیا کہ :

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ،آپ کہیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں جو بھی علم دیا گیا وہ نہایت کم ہے۔(الاسراء:85)
یہ اس انسان کے متعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر خلائق پر برتری عطا کی جبکہ دیگر خلائق کا علم اور بھی کم ہے،اور اس آیت میں تقابل اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم سے ہے، جیسا کہ موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ میں خضر علیہ السلام (جو راجح قول کے مطابق فرشتے تھے اورجنکے پاس اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو حصول علم کے لئے بھیجا )نے فرمایا:

مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا العُصْفُورُ مِنْ هَذَا البَحْرِ

میرا علم اور آپکا علم اللہ کے علم کےسامنے اتنا ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر سے لیا۔(صحیح بخاری:4725)
جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم” ازلی“ ہے ،اور ہر نقص و عیب سے پاک ہے،اور ذرے ذرے کو محیط ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

عام طور پر سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ انسان آغاز میں چیمپیزین (لنگور)تھا،پھر ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہوا انسان بنا،جس نے جنگلوں اور غاروں میں رہائش اختیار کی پھر طویل عرصہ گزرنے کے بعد متمدن ہوا، متمدن ہونے کے بعد یہ صرف جیتا ہے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی تگ و دو میں لگا ہے اور اسکا انجام(اب تک کی ریسرچ کے مطابق) عدم/فنا (موت)ہے۔
”سائنس“لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا معنی ”علم“ہے، سائنٹسٹ یا سائنسدان سے مراد” عالم“ ہے،اور علم سے مراد فطری و طبیعی حقائق کا وہ علم ہے جو غور و فکر،تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہو،یہ علم تاریخ رکھتا ہے،اپنی ابتدائی تاریخ کے اعتبار سے یہ صرف فلسفے تک محدود تھا،پھر (مسلم سائنسدانوں کی آمد کے )بعد اس میں عقل کی وسعت کے ساتھ تجربے و مشاہدے کے دروازے بھی کھل گئے،دور حاضر سائنسی علوم کی معراج کا زمانہ ہے،اسکے باوجود آسمان کی وسعتیں تو کجا یہ زمین پر موجود سمندر کو بھی پانچ فیصد سے زیادہ نہ جان سکے۔
گویا سائنس کے مطابق انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ ہوا،اسکا مقصد حیات صرف زندگی گزارنا اور اسے خوشگوار بنانےکی کوشش کرنا ہے اور اسکا انجام”کچھ نہیں“ہے،اور علمی اعتبارسےیہ”حقائق کائنات“ کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
عقائد و رسوم،سلوک و طریق

اسلامی نقطہ نگاہ:

٭عقائد یاایمانیات:
دین اسلام فطرت انسانی کے عین مطابق ہے،دنیا کے تمام مذاہب میں یہ اعزاز صرف دین اسلام کی تعلیمات کو حاصل ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس آپ یکسو ہوکراپنا چہرہ دین کی جانب متوجہ رکھیں، یعنی اللہ کی اس فطرت کی جانب جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا،اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی درست دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔(الروم:30)
یعنی اللہ تعالیٰ نے جس شے کو جس طرح پیدا کیا اسلامی تعلیمات ان کی حیثیت و ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتیں،جبکہ دیگر مذاہب کبھی کسی انسان کو اسکے مرتبے سے اٹھاکر معبود کے رتبے تک پہنچادیتے ہیں ،کبھی کسی مظہر قدرت کو،کبھی

کسی اور شے کو،جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق :

توحید:”الوہیت“و ”ربوبیت“کے مناصب صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہیں،جو اَزَل سے ہے، جسکو فنا نہیں،اور وہ ہرشےکا خالق و مالک و مدبّر و مربّی ہے۔
تقدیروتخلیق:ہر شے کی تخلیق سے پہلے اس نے اسکی ہر ہر حرکت و سَکنَت ،ماہیت و کیفیت،آغاز و انجام کو پہلے سے ہی جان لیا، پھر اس نے انسان کو مٹی و پانی سے پیدا کیا۔
روح و حیات:اس میں روح ڈالی،اسے عارضی زندگی دے کر امتحان کے لئے زمین پربسایا۔
ارسال و ارشاد:اسکی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ چلایا،جسکی آخری کڑی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
ملائک و کتب:ان انبیاء و رسل علیہم السلام پر اس نے اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کی وساطت سے وحی (کتب و صحف)نازل کی۔
موت و آخرت و انجام:عارضی مدت کے اختتام (موت)کے بعد روز قیامت جزا و سزا کے لئےجن و انس کو دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ کیا،نیکو کاروں کے لئے جنت بنائی اور بدکاروں کے لئے جہنم کی سزا تجویز کی۔

٭رسوم یا اسلامیات:

یعنی دین اسلام کے خاص شعائر عبادات جو اسے دیگر مذاہب سے ممتاز بناتے ہیں، بہت سے ہیں ،جن میں سرفہرست یہ ہیں:
الشھادتین:اس بات کی زبانی و عملی شہادت دیناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
الصلوات الخمس:دن و رات میں پانچ وقت صلاۃ (نماز) ادا کرنا۔
صیام رمضان:ہر سال ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
حج بیت اللہ:زندگی میں ایک بار بیت اللہ کا حج کرنا۔
زکاۃ المال:نقدی پر ہر سال اور فصلوں پر ہر بار زکاۃ ادا کرنا،ان میں سے ہر ایک کی جنس اور اسکا نصاب مقرر ہے،جسکی تکمیل پر زکاۃ ادا کی جائیگی۔
نوافل:ان پانچ فرائض کے علاوہ بقیہ تمام عبادات نفل (یعنی جنکی ادائیگی فرض نہ ہو)ہیں۔
نوٹ:دین اسلام میں ہر عمل استطاعت کے ساتھ مشروط ہے،اور استطاعت کی صورتیں ہر عمل کے لئے مختلف ہیں،البتہ عاقل و بالغ ہونا سب کے لئے ضروری ہے۔

٭سلوک وطریق یا اخلاقیات و معاملات:

عائلیت و زوجیت،معاشرت و معیشت،تجارت و اقتصاد، سیاست و حکومت،اور امن و جنگ،محاسبہ ومجازاۃ و معاقبہ وغیرہ ان تمام پہلوؤں میں اسلامی نظام و سلوک سب سے عمدہ اور مبنی بر اعتدال ہے،دین اسلام میں صدق، امانت،عدل،اصلاح،نصیحت وغیرہ اوصاف حسنہ کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں،اور انہیں اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ کذب،خیانت، ظلم، فساد،فضیحت وغیرہ اوصاف سیّئہ کی مذمتیں بیان کی گئی ہیںاور ان سے روکا گیا ہے،دین اسلام کےمعتدل و فطری ہونے کی ایک چھوٹی سی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں جانوروں تک کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

آج تک جتنے سائنسی نظریات مقبول ہوئے ہیں،وہ سب خالق کے تصور سے خالی ہیں ،ان کے مطابق یہ کائنات اور اسکی ہر شے حادثاتی طور پر ازخود وجود میں آگئے،اور موجودہ صورت تک پہنچنے میں وقت کو لامحدود سفر کرنا پڑاجو اَب بھی ختم نہیں ہوا ،وہ دھماکہ جو بگ بینگ کے نام سے موسوم ہےاسکے اثرات اب تک جاری ہیںاور نامعلوم کب تک جاری رہیں،جب اس کائنات کے پھیلاؤ کا عمل رک جائے گا تو اسکے سکڑنے اور سمٹنےکا عمل شروع ہوجائے گا،یہ عمل بھی طویل زمانوں تک جاری رہے گا،حتی کے ساری کائنات دوبارہ ایک ذرے میں سما جائے گی،جیسا کہ اس سے پھوٹی تھی،گویا آغاز و انجام ایک ذرہ(ایٹم)ہے،مگر وہ ذرہ کہاں سے آیا ،کس روحانی طاقت نے اسے پھوڑا، اور کون اسے پھر سے ایک ذرہ بنادے گا،(یہاں آکر سائنس کی علت و معلول کا بنیادی اصول نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے)بہت سے سوالوں کی طرح اس سوال کا بھی سائنس آج تک جواب نہیں دے سکی،شاید مستقبل میں وہ اسکا جواب معلوم کرلیں جو خالق کے وجود کو مستلزم ہو،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (فصّلت:53)

ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور انکے اپنے نفوس میں دکھاتے رہیں گے حتی کہ ان پر عیاں ہوجائے کہ وہ حق ہے ،کیا یہ کافی نہیں کہ آپکا رب ہر شے پر حاضر ہے،سنو انکا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات میں شک کرتے ہیں،سنو وہ ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
بہر حال سائنس کا سارا زور صرف ایٹم تک محدود ہے اسکے پیچھے کارفرما روحانیت و مشیئتِ رب العالمین سے اسے مطلق انکار ہے،سو جب سائنس نے خالق کے وجود کا ہی انکار کردیاتوایمانیات و اسلامیات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
البتہ سائنسدانوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تواس میں تفصیل ہے،دور حاضر کے سائنسدان عام طور پر جن مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ غیر فطری ہیں اور ان میں مظاہر قدرت کو پوجا جاتا ہے،جبکہ ایک سائنٹسٹ ان مظاہر کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے،لہذا وہ مذہب سے بیزار ہوجاتا ہے،بلکہ مذہبی عناصر بھی ان سے شدید بیزار اور انکی جان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسا کہ چرچ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
لیکن اگر وہ سچا(پریکٹیکل) مسلمان ہوتو صورت حال اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے،یعنی وہ دین اسلام کےاور نزدیک آجاتا ہے،کیونکہ دین اسلام دین فطرت ہے،اسلامی اور سائنسی تاریخ گواہ ہے کہ حالیہ سائنس کی بنیادمسلم سائنسدانوں نے رکھی اور نامور مسلم سائنسدان فراہم کئے جبکہ عیسائی دنیا میں سائنسدانوں اور سائنسی علوم پر مکمل پابندی تھی۔
٭سائنسی علوم کا نقص یا عیب کہہ لیں کہ ان میں دینیات کو تو بالکل ہی خارج از بحث کردیا جاتا ہے، اخلاقیات و معاملات سے بھی چنداں بحث نہیں کی جاتی جبکہ دین اسلام کا کمال یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا مادی یا معنوی وجود نہیں جسکے متعلق اس میں رہنمائی نہ دی گئی ہوخواہ وہ کتنا ہی جدید یا ماورائی ہو،یہاں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سائنس کوئی مذہب یا شریعت نہیں محض ایک فن ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

تحقیقات حقائق وتحلیل مسائل

اسلامی طریقہ کار:
فطری حقائق کے اثبات اورانسانیت کو درپیش مسائل کی تحلیل کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کار بالکل واضح اور معتدل ہے۔
تحلیل مسائل سے مراد انسان کو درپیش جسم،نفسیات، روح،خاندان،ازدواج،معیشت،معاشرہ،سیاست،جنگ
و امن وغیرہ سے متعلق مسائل ہیں کہ انکا صحیح حل کیا ہے، اس سلسلے میں دین اسلام تو سبھی پہلوؤں پر رہنمائی بالتفصیل فراہم کرتاہے جبکہ سائنس صرف جسمانی اور بعض نفسیاتی پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتی ہے جبکہ بقیہ تمام مسائل سے لاتعلق رہتی ہے۔
فطری حقائق کی تحقیق سے مرادکائنات میں بکھرے ہوئےاسرار و رموز تک رسائی ہے،ہر ایک رازتک رسائی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاصّہ ہے کیونکہ وہ”لَطِيفٌ خَبِيرٌ“اور”الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ“ہے،چنانچہ کتاب اسلام قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (الحج:63)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین زرخیز ہوگئی،یقینا اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔
مشہور مفکر ودانشور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:

يَابُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (لقمان:16)

اے میرے بچے،اگر رائی کے دانے برابر کوئی شے کسی چٹان پر ہویاآسمانوں یا زمین میں کہیں ہو تو اللہ اسے ڈھونڈ لائے گا،کیونکہ اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ انکے مابین ہے واقعتاً پیدا کیا ہے،اور قیامت بھی واقع ہوگی،سوآپ خوبصورتی کے ساتھ درگزر کرتے رہیں،آپکا رب بہت بڑا خالق،بہت بڑا عالم ہے۔(الحجر:85-86)

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (یس:81)

کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ (دوبارہ ان انسانوں)جیسا بنانے پر قادر نہیں،کیوں نہیں؟وہ تو بہت بڑا خالق ،بہت بڑا عالم ہے۔
اثبات حقائق بذریعہ صراحت نص
(٭)البتہ بعض حقائق واسرار ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں صراحتاًیا اشارتاًبیان کیا ہے،مثلاً:
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق اسلامی نظریہ
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (الانبیاء:30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ساتوں آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔
نیز فرمایا:

قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

کہہ دیجیئے کہ میں پناہ میں آتا ہوں فلق کے رب کی ،ہر اس شے کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔(الفلق:1-2)
”فلق“کسی شے کے اچانک پھٹ جانے کو کہتے ہیں، اسکے فوراً بعد مخلوق کا تذکرہ اشارہ کرتا ہے کہ اس سے مراد گذشتہ آیت میں بیان کردہ ”فتق“کے نتیجے میں ہونے والا دھماکہ ہے،نیز اس آیت میں ”فلق کے رب“ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ بگ بینگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔واللہ اعلم
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق سائنسی نظریہ:
ماہرین فلکیات کی کئی عشروں پر محیط تحقیقات کے مطابق ہماری کائنات ابتداء میں ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی(جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر بگ بینگ یعنی بہت بڑا دھماکہ ہواجس کا نتیجہ کہکشانوں کی شکل میں ظاہر ہوا، پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں، کائنات کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔
پھیلتی ہوئی کائنات

اسلامی نظریہ:

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ

اور آسمان کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔(الذاریات:47)

سائنسی نظریہ:

1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیںایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو اکہ کائنات پھیل رہی ہے، یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے جسکے متعلق سوا چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں اس وقت بیان کیا گیا جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی۔
زمین کا انتہائی مربوط و مستحکم نظام

اسلامی نظریہ:

اللہ تعالیٰ نے زمین پربسنے والی جملہ مخلوقات کی ضرورت کی ہر شے کو ٹھیک ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کیا تاکہ کسی شے کی کمی یا زیادتی سے زمین کا نظام فساد کا شکار نہ ہوچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ

اور ہم نے زمین کو پھیلادیا،اور ہم نے اس میں میخیں (پہاڑ) گاڑھ دیں،اور ہم نے اس پر ہر شے ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار میں پیدا کی۔(الحجر:19)
1۔اس آیت میں زمین کے پھیلاؤ (امداد)کا ذکر ہے،اس میں زمین کی ساخت اور بناوٹ کی جانب اشارہ ہے کہ زمین پیاز کی تہوں کی طرح تہہ بہ تہہ بچھائی گئی ہے۔
2۔اس میں میخوں یعنی پہاڑوں کے گاڑھے جانے کا ذکر ہے،جسطرح خیمے کو روکے رکھنے کے لئے زمین میں میخیں گاڑھی جاتی ہیں اسی طرح زمین کی حرکت کو متوازن بنانے کے لئے اس میں پہاڑ گاڑھ دیئے گئے جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:

وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (النحل:15)

اور اس نے زمین پر میخیں گاڑھ دیںکہیں تمہیں لئے ڈولتی نہ رہے،اور نہریں چلادیں اور راستے بنادیئے تاکہ تم راہ پالو۔
3۔اس میں ہر شےکی نپی تلی مقدار پیدا کئے جانے کا ذکر ہے،جسکی زمین پر بسنے والی مخلوق کو ضرورت ہوسکتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی شے ہو مثال کے طور پر آکسیجن جو کبھی بھی 20 فیصد سے نہیں بڑھتی ۔
نیز فرمایا:

قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (فصّلت:9-11)

آپ پوچھیں:کیا تم اس کا انکار کرتے ہو اور اس کے شرکاء مقرر کرتے ہوجس نے زمین کو دو دنوں میں بنادیا ،وہ رب العالمین ہے،اور اسی نے چار دنوں میں اس میں اسکے اوپر سے میخیں بنادیں،اور اس میں برکت رکھ دی،اور اس میں اسکی قوتیں چھپادیں،پھر وہ آسمان کی جانب متوجہ ہوا تو وہ دھواں تھا،اس نے اس (دھویں) سے اور زمین سے کہاآؤ دل سے یا بادل نخواستہ،انہوں نے کہا :ہم آئے خوشدلی سے۔
4۔اس آیت میں زمین کے دو دن میں پیدا کئے جانے کا ذکر ہے۔
5۔زمین میں پہاڑوں کے گاڑھے جانے،اس میں برکت رکھے جانے،اور اس میں طاقتوں (powers) کے رکھے جانے اور یہ سب کام چار دنوں میں کئے جانے کا ذکر ہے۔
6۔زمین کے بعد آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے،جبکہ سورہ النازعات میں ہے:

وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (النازعات:30)

اسکے بعد اس نے زمین کو بچھایا(ہموار کیا)۔
تو اس سے مراد زمین کی پیدائش یا پھیلاؤ نہیں بلکہ اسے بیضوی شکل عطا کرنا ہے ،جیساکہ لفظ” دحی“ سے معلوم ہوتا ہے،یعنی پہلے زمین کا مٹیریل پھیلا دیا پھر اسے بیضوی شکل عطا کی۔واللہ اعلم

سائنسی نظریہ:

زمین کا متناسب پھیلاؤ
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین اپنے محور پر23.5 ڈگری جھکی ہے،اگر یہ جھکاؤ 25 ڈگری پر ہوتا تو قطبین کے سرے چند سالوں میں پگھل جاتے،اور اگر یہ جھکاؤ 22ڈگری پر ہوتا تو قطب شمالی کی برف سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی،اور زمین پر انسانی آبادی کے لئے بہت کم جگہ بچتی۔
زمین کی متناسب گردش
زمین اپنے محور پر 24 گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے،اگر یہ گردش 30 گھنٹوں پر محیط ہوتی تویہ زندہ مخلوق کے لئے طوفان زدہ صحرا بن کر رہ جاتی،اور اگر یہ گردش 20 گھنٹوں میں پوری ہوتی تواکثر نباتات اپنی حیاتیاتی سرگرمیاں پوری نہ کر پاتیں اور زمین خشک سالی کا شکار ہوجاتی۔
زمین پر آکسیجن کامحدود مقدار میں قائم رہنا
ہر قسم کا دھواں اور خارج ہونے والی چیزیں پودوں کے ذریعے آکسیجن میں تبدیل ہوجاتی ہیں،اور زمین پر آکسیجن کی مقدار 20 فیصد سے تجاوز نہیں کرتی،اگر آکسیجن کا یہ تناسب کم یا زیادہ ہوجائے تو زمین پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں،اور انسان بھی ڈائنوسارز کی طرح ختم ہوجائیں۔
درختوں اور جنگلات کی متناسب مقدار
سو سال پہلے تک توانائی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ تھا یعنی آگ جو لکڑی سے سلگائی جاتی،چند عشرے قبل قدرت نےزمین میں کڑوڑوں سال سے ذخیرہ کردہ کوئلے اور تیل کو ظاہر کردیا اور توانائی کے متبادل ذرائع عین وقت پر فراہم کردیئے،اگر ایسا نہ ہوتا توحالیہ انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرتے کرتے زمین سے جنگلات اور درختوں کے وجود کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔
الغرض زمین میںہر شے دھاتیں،یورنیم،کاربن ، پانی، ہوا،روشنی،سردی،گرمی،جانور،پرندے،حشرات وغیرہ مناسب مقدارمیں پائی جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا اور اس پر زندگی ناپید یا دشوار ہوجاتی۔
پہاڑوں کا زمین میں میخوں کا کام دینا
ماہرین ارضیات نے تسلیم کیا ہے کہ زمین کی سطح جس پر انسان آباد ہے تقریباً 70 کلو میٹر موٹی ہے اور ٹھنڈی ہے لیکن زمین کی اندرونی تہیں نہایت گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں سو اگر پہاڑ اوپری سطح پر گڑھے ہوئے نہ ہوتے تو زمین کی سطح اندرونی تہوں پر پھسلتی رہتی اور زمین کی سطح پر کچھ باقی نہ رہتا۔
قرآن پاک میں یہ حقائق کئی صدیاں قبل بیان کئے گئے،جو اسکے کلام اللہ ہونے کا ثبوت ہیں۔
سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا

اسلامی نقطہ نگاہ:

اللہ تعالیٰ نےکفار کے اعمال اور انکے انجام کی مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ

یا گہرے سمندر کے اندھیروں کی مانند ،جسے موج نے ڈھانپا ہو،اسکے اوپر ایک موج اور ہو،اسکے اوپر بادل ہو، اندھیرے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے،جب وہ اپنا ہاتھ اٹھائے تو اسے دیکھ نہ پائے،اللہ جسکے لئے روشن نہ کرے اسکے لئے روشنی ہو ہی نہیں سکتی۔(النور:40)
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ سمندر میں کئی طرح کے اندھیرے ہوتے ہیں،بادلوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا،پھر لہروں کا ایک دوسرے پر سوار ہونے کا اندھیرا،پھر سمندر کے اندر گہرائیوں کا اندھیرا،سمندر کے اندر موجوں کا اندھیرا،الغرض گہرے سمندر میں اسقدر اندھیرا ہوتا ہے کہ انسان کواسکا اپنا وجود تک دکھائی نہ دے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

جدید سائنسی نظریات اس آیت کے ایک حرف سے بھی انکار نہیں کرتے جسکا تعلق سمندر کے اندھیروں سے ہے،سائنس کے مطابق روشنی کے ساتوں رنگ سمندر کی مخصوص گہرائیوں میں ایک ایک کرکے ختم ہو جاتے ہیں تقریباً 1000 میٹر کے بعد اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔
نکتہ:اللہ تعالیٰ نے سمندر میں اندھیروں کے متعلق جو کچھ بیان کیا وہ کفار کے اعمال کی مثال وتشبیہ کے ضمن میں بیان کیا،حالانکہ مثال صرف تفہیم کے لئے دی جاتی ہے نہ کہ تحقیق کے لئے،اسکے باوجود یہ مثال اپنی ذات میں خود بہت بڑی ایسی حقیقت ہے جسکا اس زمانے کے لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے،قرآن پاک میں بیان کردہ دیگر امثال کا بھی یہی حال ہے جو اسکے کلام اللہ ہونے کی بین دلیل ہیں۔
زمین پر پانی کا وجود،زمین کے اندر پانی کے راستے،بادلوں میں پانی کا وجود
اسلامی نقطہ نگاہ:
قرآن مقدس میں آبیات کے متعلق متعدد آیات ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ زمین پر پانی آسمان سے آیااور اللہ تعالیٰ نے اس پانی کو زمین کے اندر دریاؤں اور چشموں کی صورت میں جاری کیا،

وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

اور ہم نے آسمان سے طے شدہ مقدار میں پانی اتارا،پھر اسے ہم نے زمین میں چلادیا،اور ہم اسے واپس لے جانے پر بھی قادر ہیں۔(المومنون:18)
نیز فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ (الزمر:21)

کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھراسے زمین کے اندرونی راستوں، خزانوں میں بہادیا۔
اور بادلوں میں پانی زمین سے آبی بخارات کے ذریعے پہنچتا ہے،جیسا کہ درج ذیل آیت اس جانب بلیغ اشارہ کرتی ہے:

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ

قسم ہے آسمان کی لوٹانے والا،اور قسم ہے زمین کی شگاف والی۔(الطارق:11-12)
یعنی بادل جو زمین سے حاصل کردہ پانی واپس زمین کو لوٹادیتے ہیں ،اور دراڑ والی زمین سے مراد ہے کہ ان دراڑوں کے ذریعے بارش کا پانی زمین کے اندر تک داخل کیا جاتا ہے۔

سائنسی نقطہ نگاہ:

پانی دو عناصر سے مل کر بنا ہے،ہائیڈروجن اور آکسیجن، لیکن انہیں ملانے کے لئے جو درجہ حرارت درکار ہے وہ زمین پر ممکن نہیں ،لہذا پانی کی تخلیق زمین سے باہر کہیں ہوئی ہے ،پانی فضا میں تیرتا رہا پھر زمین پر اچانک اس پانی کی آمد ہوئی۔
سائنس کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا،یہ پانی ہمیشہ سرکل میں رہتا ہے،سمندر سے بادلوں میں ،بادلوں سے زمین پر موجود جھیلوں ، جوہڑوں تالابوں، ڈیموں،زمین کی درزوں،دراڑوں کے ذریعے زیر زمین جھیلوں ،نہروں،چشموں ،کنوؤں،وغیرہ میں پھر زمینی راستوں پر چلتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے،یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔
بادلوں میں پانی آبی بخارات کے ذریعے آتا ہے جو جھیلوں یا سمندر کی سطح پر دھوپ لگنےکی وجہ سے بنتے ہیں،یہ بخارات جب بادلوں کے بالائی سرد حصوں سے ٹکراتے ہیں تو عمل تکثیف کی وجہ سے بادلوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،پھر اس طرح کے بہت سے بادل جمع ہوتے رہتے ہیں یہاںتک کہ بادلوں کا ایک پہاڑ سا بن جاتا ہے،اور اگر ان بادلوں کا واسطہ ایسی ہوا سے پڑجائے جسکا درجہ حرارت وہی ہو جو بادلوں کا ہے تو یہ بادل پانی کو روکے رکھتے ہیں،اور اگر یہ گرم ہوا سے ٹکرا جائیں تو ان میں جمع شدہ پانی پھر سے بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اگر یہ سرد ہوا سے مل جائیں تو برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ حقائق جو سائنسدانوں نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے اور کڑی محنت کرکے،اور بہت سے تجربات سے گزر کر معلوم کئے 1400 سال قبل قرآن پاک میںاللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیئے تھے۔
جانوروں،پرندوں اور حشرات کا منظم ہوکر رہنا

اسلامی نقطہ نگاہ:

قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح منظم ہو کر،غول بناکر رہتے ہیں،اور ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ

جو بھی جانور زمین پر چلتا ہے یا پرندہ فضا میں اپنے پروں سےاڑتاہے وہ تمہاری طرح جماعتیں ہیں،ہم نے کتاب میں کمی نہیں رکھی،پھر انہیں اپنے رب کی جانب جمع کیا جائے گا۔(الانعام:38)
سیدنا سلیمان علیہ السلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ دیگر جنات،جانوروں اور ہواؤں پر بھی بادشاہت عطا کی تھی ان کے متعلق ارشاد فرمایا:

وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (النمل:17-18)

اور سلیمان کے روبرو اسکے انسان،جن اور پرندوں پر مشتمل لشکر جمع کئے جاتے پھر انہیں بانٹ دیا جاتا،پس ایک بار وہ چیونٹیوں کی وادی سے گذرے تو ایک چیونٹی نے کہا:اے چیونٹیوں اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان اور انکا لاؤ لشکرانجانے میں تمہیں روند نہ دے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ”ہد ہد“نامی پرندے کی پوری گفتگو نقل کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ پرندے بھی شعور رکھتے ہیں ، پہچانتے ہیں،جائزہ لیتے ہیں،فیصلہ کرتے ہیںاور عمدہ گفتگو کرتے ہیں،ارشاد فرمایا:

فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

پس ہد ہد نے کہا:میں وہ جان آیا جو آپ نہیں جانتے،میں آپکے پاس سبا کی پکی خبر لایا ہوں،میں نے ایک عورت کو انکی سربراہی کرتے دیکھا ہے جو ہر شے سے مالا مال ہے،اور اسکا بڑاتخت ہے ،میں نے اسے اور اسکی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کے سواسورج کو سجدہ کررہے ہیں،اور شیطان نے انکے اعمال انکے سامنے خوبصورت بنادیئے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روک رکھا ہے،سو وہ راہ راست پر نہیں چل رہے کہ اللہ کو سجدہ نہیں کررہے جو آسمانوں اور زمین میں دانہ اگاتا ہے،اور تم جو چھپاتے یا دکھاتے ہو جانتا ہے،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔(النمل:22-25)
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک اونٹ نے نبی کریم ﷺکے پاس آکر اپنے مالک کی شکایت کی(سنن ابی داؤد:2549،صحیح مسلم:باب ما یستتر بہ لقضاء الحاجۃ)کنکریوں اور کھانے کے لقمے نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی،مکہ کا ایک پتھر آپکو سلام کیا کرتا تھا۔
نیزنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ اس پر بھیڑیئے نے حملہ کیا اور ایک بکری لے بھاگا،چرواہے نے اسے تلاش کرلیا تو بھیڑیا اسکی جانب منہ کرکے کہنے لگا:درندوں کے دن اسے کون بچائے گا جس دن انکا میرے سوا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟اور ایک آدمی گائے لے جارہاتھاوہ اس پر سوار تھا تو گائے نے اسکی طرف رخ کرکے کہا:میں اس لئے پیدا نہیں کی گئی لیکن میں کھیتی باڑی کے لئے پیدا کی گئی ہوں،یہ حدیث سن کر لوگوں نےتعجب سے کہا:سبحان اللہ تو نبی ﷺ نے فرمایا:میں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہمااس حدیث پر ایمان لائے۔(صحیح بخاری:3663)

سائنسی نقطہ نگاہ:

جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق جانور ریوڑ یا غول بناکر منظم انداز میں رہتے ہیں ،ایک دوسرے سے بات کرتےہیں،ہر ریوڑ یا غول کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو پورے ریوڑ یا غول کی رکھوالی کرتا ہے،سارا ریوڑ مل جل کر کام کرتا ہے،اسی طرح چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں انتہائی منظم انداز میں مل جل کر رہتی ہیں،ہر مکھی اور ہر چیونٹی کی ذمہ داری مقرر ہوتی ہے جو وہ ہر حال میں ادا کرتی ہے،شہد کی مکھیاں آپس میں بات بھی کرتی ہیں ، اسی طرح چیونٹیاں بھی،انکی باقاعدہ کالونیاں ہوتی ہیں جسکی وہ حفاظت کرتی ہیں،موسم سرما کے لئے یہ پلاننگ کرتی ہیں اور خوراک ذخیرہ کرتی ہیں،چیونٹیاں تو بازار تک بناتی ہیں اور ان میں اشیاء کا باہم تبادلہ کرتی ہیں اور اپنے مُردوں کو دفناتی ہیں،ان کے علاوہ بھی ان میں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جب انہیں قرآن و حدیث میں بیان کیا گیاتو لوگ مذاق اڑاتے لیکن آج یہی حقائق سائنس بیان کرتی ہے تو لوگ ایمان لے آتے ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ،وگرنہ اس سلسلے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے،تفصیل کے لئے درج ذیل کتب ملاحظہ ہوں:
قرآنی آیات اور سائنسی حقائق از ڈاکٹر بلورک نور بائی(ترکی)
قرآن اور جدید سائنس از پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم
قرآن اور جدید سائنس ازڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک
اثبات حقائق بذریعہ تدبر و تفکر
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں سرسری غور و فکر کرنے سے معلوم کیا جاسکتا ہے،مثلاً:آسمان کی بلندی اور اسکی وسعت،کائنات میں پایا جانے والا حُسن، اجرام فلکیہ کا مربوط و مستحکم نظام،ستاروں کا طلوع و غروب،زمین پر انسانی ضرورت کی ہر شے کا وافر مقدار میں مہیا ہونا، انسانی جسم کی عظیم کاریگری،پہاڑ ،دریا،سمندر، چرند، پرند،شجر،حجر،سمندری حیوانات ومعدنیات،زمین و آسمان کی ہر شے کا انسانوں کے لئے مسخر ہونا،انسان کا مخدوم جبکہ ان سب کا خادم ہونا،وغیرہ،انکے لئے صرف مشاہدہ اور تدبر کافی ہے تجربہ کی ضرورت نہیں۔
اثبات حقائق بذریعہ تجربہ ومشاہدہ
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جن تک رسائی کے لئے تجربات و مشاہدات کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، کتاب و سنت میں اسکی بہت سی مثالیں ہیں ،مثلاً:
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں شہد کو شفا کا باعث قرار دیا ہے(النحل:69) اور بعض پھلوں اور میوؤں کی قسم اٹھائی ہے،جیسے انجیر اور زیتون،(التین:01) خالص دودھ کو انسان کے لئے نفع بخش قراردیا (النحل:66) مردارکو،بہتے خون کو،خنزیر کے گوشت کو انسان کے لئے حرام قرار دیا (البقرۃ:173) جو اسکے مضر صحت ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس سب کا انحصار تجربے و مشاہدے پر ہےکہ انکے نفع یا نقصان کی کیا صورتیں ہیں،اور یہ دونوں اپنی جگہ مسلّم ہیں ،جیسا کہ قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کی بابت ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مشاہدے کی درخواست کی اور کہا:

رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي

اے میرے مالک مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے،اللہ نے پوچھا:کیا تیرا ایمان نہیں ؟انہوں نے کہا:کیوں نہیں،لیکن میرا دل مطمئن ہوجائے(عین الیقین کے ساتھ)۔(البقرۃ:260)
ایسے ہی موسی علیہ السلام کی بابت ہے کہ جب وہ کوہ طور پر گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ:

رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

اے میرے مالک مجھے دکھا میں تجھے دیکھوں گا،اللہ نے فرمایا:تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا،لیکن پہاڑ کو دیکھ اگر وہ ٹکا رہا تو مجھے تو دیکھ سکے گا ،پھر جب اس نے پہاڑ پر تجلی ڈالی اس نے اسے پیس ڈالااور موسی بے ہوش ہوکر گر پڑا، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا:تو پاک ہے میں تیری جانب لوٹتا ہوںاور میں ایمان لانے والوں میں پہلا ہوں۔(الاعراف:143)
نبی کریم ﷺ نے مشاہدے کے متعلق ارشاد فرمایا:

لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ , إِنَّ اللهَ – عز وجل – أَخْبَرَ مُوسَى بِمَا صَنَعَ قَوْمُهُ فِي الْعِجْلِ , فَلَمْ يُلْقِ الْأَلْوَاحَ فَلَمَّا عَايَنَ مَا صَنَعُوا , أَلْقَى الْأَلْوَاحَ فَانْكَسَرَتْ

زبانی خبر آنکھوں دیکھے کی مانند نہیں ہوتی،اللہ عز و جل نے جب موسی علیہ السلام کو بتایا کہ اسکی قوم نے بچھڑے کے ساتھ کیا کیا انہوں نے تختیاں نہیں پھینکیں لیکن جب اپنی آنکھوں سے انکے کرتوت دیکھے تو تختیاں پھینک دیں پس وہ ٹوٹ گئیں۔(مسند احمد:2447-صحیح الجامع:5374)
ایسے ہی تجربہ بھی دلیل ہے،جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے کہا کہ اسکے بھائی کا پیٹ خراب ہے،نبی کریمﷺ نے اسکے لئے شہد تجویز کیا،جب اسکے بھائی نےشہد استعمال کیا تو اسکا پیٹ مزید خراب ہوگیا،وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور اپنے بھائی کا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے اسکے لئے اس بار بھی شہد ہی تجویز کیا،اسکا بھائی شہد استعمال کرنے سے مزید بیمار ہوگیا،آخر کار تیسری یا چوتھی بار میں اسے شفا ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا:

صَدَقَ اللَّهُ، وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ (صحیح بخاری:5684)

اللہ نے سچ فرمایا لیکن تیرے بھائی کا پیٹ خراب ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ، قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: مَا لِنَخْلِكُمْ؟قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم)

نبی کریم ﷺ کچھ لوگوں پر سے گزرے ،آپ نے دیکھا کہ وہ کھجوروں کی تلقیح کررہے تھے،آپ نے فرمایا اگر ایسا نہ کرو تو بہتر ہو،انس نے کہا کہ:انہوں نے آپ کی بات مانی تو ردی پیداوار ہوئی،آپ نے پوچھا کہ تمہاری کھجور کیسی رہی تو انہوں نے کہا کہ:ایسی اور ایسی تو آپ نے فرمایا:تم اپنی دنیا کو بہتر جانتے ہو۔
یعنی دنیا کے وہ امور جن کا تعلق شریعت سے نہ ہو ان میں تم بااختیار ہو جو تمہارا تجربہ کہے ویسا کرلو بشرطیکہ شریعت کی مخالفت نہ ہو۔
اسی طرح ایک اورحدیث میں آتا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَاجْتَوَوْهَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا

عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ آئے تو انہیں وہ راس نہ آیا(یعنی مدینہ میں وہ بیمار پڑگئے)رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا:اگر تم چاہو تو زکاۃ کے اونٹوں کا دودھ و پیشاپ پی لو،انہوں نے ایسا کیا تو تندرست ہوگئے۔(صحیح مسلم)
نیزکچھ لوگ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی ولدیت میں شک کرتے تھے،تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ:

دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مَسْرُورٌ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا المُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ

ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ بہت خوش تھے،فرمانے لگے:عائشہ تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا ،تو اس نے اسامہ بن زید کو دیکھا،ان دونوں نے اپنے سر چادر سے ڈھانپ رکھے تھے،اور ان کے قدم باہر کو نکلے ہوئے تھے تو وہ کہنے لگا:یہ قدم ایک دوسرے سے ہیں۔(صحیح بخاری:6771)
یعنی یہ دونوں باپ بیٹے ہیں،یہ شخص قائف تھا یعنی قیافہ شناس جو محض قدم دیکھ کر نسب جان لیا کرتے تھے اور ان کا اندازہ کم ہی غلط ہوتا تھا،اور اسکا یہ فن مہارت اور تجربہ پر قائم تھا،نبی کریم ﷺ نے اسکے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح قیلولہ،حجامہ،آب زم زم،اثمد سرمہ،عجوہ کھجور کلونجی ،رقیہ ،اسلامی طریقے پر ذبح شدہ گوشت،کتے کے سانے برتن کو سات بار پانی سے ایک بار مٹی سے دھونا، مشروب میں گرجانے والی مکھی کو نکالنے سے پہلے ڈبونا وغیرہ ایسے امور ہیں جنکی افادیت تجربے کی محتاج ہے،اور اسکے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ،غیر مسلم بھی ان سے برابر مستفید ہوسکتے ہیں۔
٭اور بعض حقائق تک سائنس کی رسائی اب تک ممکن نہیں ہوسکی،انکی تفصیل آگے آرہی ہے۔
نکتہ:کتاب و سنت میں بیان کردہ مذکورہ حقائق ایک جانب کتاب و سنت کی حقانیت کے دلائل ہیں تو دوسری جانب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں ان حقائق کو اس طرح نہیں سمجھا جاسکتا تھا جس طرح دور حاضر میں سمجھا جاتا ہے ،تو یہ اس زمانے میں کیوں بیان کئے گئے،اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے کہ قرآن و سنت صرف اس زمانے کے لئے ہدایت ، حجت اورمعجزہ نہ تھا بلکہ دور حاضر کے لئے بھی ہے اور قیامت تک اسکا یہ اعجاز وارشاد باقی رہے گا۔

خلاصہ کلام:

اثبات حقائق کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کارکتاب و سنت کے نصوص پر ایمان و تدبر اور تجربے و مشاہدے دونوں قسم کے دلائل پر مشتمل ہے ،اصل اعتماد نصوص شرعیہ پر ہے،جبکہ تجربہ و مشاہدہ تبعی دلائل ہیں،کیونکہ کتاب و سنت کے نصوص میں خطا کا امکان صفر ہے اس لئے کہ وہ خالق کائنات کی وحی پر مشتمل ہیں جو وحی ہمارے پاس اپنی اصل حالت میں محفوظ و موجود ہے،اور خالق کائنات خطا تو درکنارامکان خطا سے بھی پاک ہے، جبکہ تجربہ و مشاہدہ کا تعلق انسانی افعال سے ہے جو انسان مجسم خطا ہے،لہذا جب تجربہ یا مشاہدہ کتاب و سنت کے نصوص سے متضاد ہو تو اس صورت میں کتاب و سنت کو ہی ترجیح دی جائے گی،جبکہ تجربہ و مشاہدہ کی تاویل کی جائے گی اگر ممکن ہو یا اسے خطا قرار دیکر یکسر مسترد کردیا جائے گا۔
جبکہ اس سلسلے میںسائنسی علوم کا کلی انحصار مادی دلائل پر ہے،یعنی تدبر،تجربہ،مشاہدہ،ان میں سے تدبر کا تعلق عقل سے ہے،جبکہ مشاہدہ کا تعلق حواس خمسہ سے ہے، حواس سے حاصل شدہ نتائج پر تجربات کئے جاتے ہیں، اگر تجربہ نتیجہ حسیہ کے مطابق ہو تو اسے اصول یا حقیقت قرار دیا جاتا ہے،اور اگر مطابق نہ ہو تو مزید تجربات کئے جاتے ہیں تاآنکہ خاص نتیجے تک پہنچا جائے،پھر بھی غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر دس سال بعد نئی سائنسی تحقیقات پرانی تحقیقات کی جگہ لے لیتی ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ چند موٹے موٹے سائنسی نظریات کو چھوڑ کر اکثر نظریات خود سائنسدانوں کے مابین مختلف فیہ رہتے ہیں،کیونکہ ہر ایک اپنے تجربے، مشاہدے اور تدبر کو ترجیح دیتا ہے،جبکہ اس نوع کا اختلاف تضاد کتاب و سنت کے بیان کردہ حقائق میں نہیں پایا جاتا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء:82)

کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے ،اگر وہ اللہ کے سوا کسی کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں اختلاف پاتے۔

اختلافات

سائنس کے بیشتر نظریات اسلامی نظریات کے مطابق ہیں،کیونکہ دونوں ہی فطرت سے تعلق رکھتے ہیں،دین اسلام تو ہے ہی دین فطرت اسکا کوئی نظریہ فطرت سے متصادم نہیں لیکن سائنس فطرت کی تلاش میں رہتی ہے، سو جن امور میں وہ فطرت کو تلاش نہ کرسکی ان میں سائنسی نظریات اسلامی نظریات سے ٹکرا جاتے ہیں، ایسا اختلاف عام طور پر ان امور میں ہے ،جو اسلامی عقائد یا عبادات سے متعلق ہیں،جبکہ وہ امور جنکا تعلق مادیت سے ہے یا آفاقیت ،یا طبعی حقائق سے تو ان میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے ،اور جہاں اختلاف ہے تو یہ تضاد نہیں بلکہ تنوع ہے اور اگر دو چار نظریات میں تضاد بھی ہے تو اس لئے کیونکہ سائنس حتمی نتیجے تک نہیں پہنچی،جب پہنچ جائے گی تو یہ اختلاف بھی ختم ہو جائے گا،مثلاً:
وجود باری تعالیٰ، روح ، معجزات، جنات ،فرشتوں کا وجود،تقدیر،آخرت،عالَم جن،مقام یاجوج ماجوج، جزیرہ دجال، آسمانوں اور زمین کے دروازے،آسمانوں اور زمینوں میں سے ہر ایک کا سات کی تعداد میں اوپر تلےہونا،آسمانی خبریں چرانے والے جنات کی سزا کے لئے شہاب ثاقب کا مقرر کیا جانا،ہر ہر شے کاخواہ وہ جاندار ہو یا بے جان تسبیح بیان کرنا، عبادات کے روحانی و طبی فوائد،وہ امور جنکا تعلق خالصتاًعلم غیب سے ہے، مثلاً:عالم برزخ،عالم ارواح،عالم آخرت،جنت، جہنم، میزان،صراط،لوح و قلم،عرش، انزال وحی ،سورج کا ہرروز عرش کے نیچے سجدہ کرنا،وغیرہ۔
دین سےبیزاربعض سیکولر و لبرل حضرات دین اسلام کے عقائد کو سائنسی نظریات سے متصادم قرار دیتے ہیں ، حالانکہ عقائد کا تعلق ”ایمان“سے ہے،اس میں تجربے یا مشاہدے کا اس طور پر دخل نہیں،جس طور پر سائنس دان تجربہ یا مشاہدہ کو تحقیق کا معیار گردانتے ہیں۔
دین اسلام میں عقائد کا اثبات تجربے یا مشاہدے سے نہیں ہوتا بلکہ دین کے بنیادی مآخذ سے ہوتا ہے،یعنی کتاب و سنت سے،جبکہ کتاب و سنت کی حقانیت کا اثبات تجربہ یا مشاہدہ سے ہوتا ہے،یعنی بارہا کے تجربات جو کتاب و سنت کے صداقت میں اضافہ کرتے آئے ہیں اور معجزات کے مشاہدات جو اس امت کے نبی کے ہاتھوں صادر ہوئے اور اس امت کے پہلے اور صالح ترین گروہ صحابہ کرام نے انکا مشاہدہ کیا اور انہوں نے اپنا مشاہدہ پوری صداقت کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کیا اسی طرح یہ محدثین تک پہنچا جنہوں نے اسے کتابوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا۔
مثلاً: شق القمر کا واقعہ ایک حقیقت ہے،جسکا بیان قرآن مجید میں ہے(القمر:1) لیکن سائنس اسے ماننے کے لئے تیار نہیں،کیونکہ انہوں نے اسکا مشاہدہ نہیں کیا،جبکہ مسلمانوں تک اس واقعہ کی خبر تواتر کے ساتھ ان لوگوں سے پہنچی ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کا مشاہدہ کیا،لیکن امید واثق ہے کہ آئندہ کسی زمانے میں وہ اسے حقیقت تسلیم کرلیں۔یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح شاید ہی کسی نے اپنے دسویں داداکو دیکھا ہو لیکن اس کے کسی زمانہ میں موجود ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
نیزبہت سے ایسے امور ہیں جن میں پہلے اختلاف تھا لیکن اب نہیں رہا،اور فتح دین اسلام کو حاصل ہوئی، سائنس نے بھی آخر کار وہی بات کہی جو اسلام 1400 سالوں سے کہتا آرہا تھا،مثلاً:سورج کی حرکت،کائنات کا وسیع ہونا،ایٹم کا قابل تقسیم ہونا،وغیرہ۔

ترجیحات و تصدیقات

اب تک کی تحریر سےیہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کے پیش کردہ نظریات سائنسی تصدیق و تائید کے محتاج نہیں کیونکہ ان میں حقیقت کو خود حق تعالیٰ بلاواسطہ تجربہ و مشاہدہ بیان کردیتا ہےبلکہ سائنسی نظریات کتاب و سنت کی تائید و تصدیق کے محتاج ہیں کہ یہ مفروضے و خیال سے حقیت بننے کے سفر کے دوران بہت سے مقامات پر بھٹک چکا ہوتا ہے۔
وہ تمام حقائق جنکا جاننا انسان کے لئے مفید ہوسکتا ہے سب کے سب قرآن مقدس اور حدیث مقدس میں بیان کردیئے گئے ہیں البتہ صحیح وقت پر وہ خودبخود آشکار ہوجاتے ہیں،جیسے ہی کوئی ماڈرن نظریہ پروان چڑھتا ہے یا کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہےعلماء اسلام اسکے متعلق کتاب و سنت میں تحقیق شروع کردیتے ہیں،اور اسکے صدق یا کذب کا فیصلہ کرلیتے ہیں،عام طور پر اسکے بارے میں کوئی نہ کوئی واضح آیت پائی جاتی ہے،یا کسی حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہوتا ہے،یا اسکی جانب کوئی نہ کوئی اشارہ مل جاتا ہے،آج تک سائنس ایسی کوئی حقیقت پیش نہیں کرسکی جسکے متعلق کتاب و سنت مکمل اندھیرے میں ہوں،اور ہمارا دعویٰ ہے کہ آئندہ بھی ایسا نہ ہوسکے گا،یہ اس بات کا بڑا واضح ثبوت ہے کہ کتاب و سنت ہی تمامتر حقائق کے اصل ماخذ و مصدر ہیں،تمامتر علوم نافعہ کا منبع و سرچشمہ یہی کلام ہے اور یہ انسانی کلام نہیں بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے۔
جب ایسا ہے تو لازماً ترجیح و فوقیت کتاب و سنت کو حاصل ہے ،اور مصدّق یعنی تصدیق یا تکذیب کرنے والا بھی کلام اللہ ہے،نہ کہ سائنس،جبکہ کتاب و سنت سائنس کی تصدیق یا تکذیب کی قطعاً محتاج نہیں،نہ ہی سائنسی نظریات کتاب و سنت کی معتبر تشریح کہلائے جانے کے مستحق ہیں،کیونکہ کوئی بھی تشریح اصل متن کی مبادیات و اساسیات کی مخالف نہیں ہوسکتی،جبکہ سائنس کتاب و سنت کے بنیادی عقائد کی منکر ہے،سو جب سائنس کتاب و سنت کے مصروحہ عقائد کو ہی نہیں مانتی تو اسے کتاب و سنت کی پیش کردہ فروعات کے سلسلے میں کس طرح حجت یا مہیمن مانا جاسکتا ہے؟۔
نیز سائنسی نظریات کی عدم ترجیح کی ایک علمی وجہ یہ بھی ہے کہ سائنسی نظریات تجربات و مشاہدات کے بہت سے مراحل در مراحل سے گزر کر حاصل ہوتے ہیں،باالفاظ دیگر بعض امور مظنونہ کو بعض امور معلومہ کے ساتھ ترتیب دے کر نتیجے تک پہنچا جاتا ہے،اور خاص نتیجے تک پہنچ کر بھی غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے،اس اعتبار سےاس نوع کے تمامتر سائنسی حقائق فی الحقیقت ”حقیقت“ کہلائے جانے کے مستحق نہیں ، زیادہ سے زیادہ اسے” ظن غالب“ یا ”امر راجح “یا ”نظریہ “کہا جاسکتا ہے۔
جبکہ کتاب و سنت میں بیان کردہ کردہ حقائق کا تعلق روایت سے ہے،اور روایت کے متعین اصولوں اور شروط کے کڑے معیار سے گزر کر جو خبر ہم تک پہنچتی ہے (خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے متعلق)علمی طور پر وہ ”علم“یا” حقیقت“کہلائے جانے کی مستحق ہوتی ہے۔
دعوت دین بذریعہ سائنسی نظریات
دین اسلام سچا دین ہے اور اسکی سچائی کتاب و سنت میں منحصر ہے،اور یہ ہمارا سرمایہ افتخار ہے،لیکن جو شخص اسلام کو سچا دین نہیں مانتا اُسے سمجھانے کے لئے اسلامی عقائد و تعلیمات کی خوبیاں اور انکا فطری ہونا،اور عقل کے مطابق ہونا بیان کرنا چاہیئے،اس ضمن میں اگر کوئی سائنسی نظریہ بطور ثبوت یا تائید کے پیش کرنا پڑے تو ایسا کرنا بالکل جائز ہےبشرطیکہ:
٭دعوت” دین اسلام“ کی طرف ہو نہ کہ سائنس کی طرف۔
٭سائنسی نظریہ صرف تائیدی شہادت کے طور پر پیش کیا جائے ،نہ کہ اصلی دلیل کے طور پر۔
٭صرف ضرورت پڑنے پر سائنس کو دلیل بنایا جائے، بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے۔
٭سائنسی نظریے کےساتھ اسلامی نظریہ بھی ترجیحاً پیش کیا جائے۔
٭سائنسی شہادت پیش کرنے کا مقصد دعوت دین یا دفاع دین اسلام ہو،نہ کہ سائنسی معلومات کا اظہار کرنا۔
٭سائنسی نظریات کو کتاب و سنت کی تفسیر کے طور پر نہ پیش کیا جائے۔
٭ کسی سائنسی نظریے کے اثبات کی خاطر یا کسی آیت یا حدیث کو سائنسی نظریے کے مطابق کرنے کی خاطرکسی آیت یا حدیث کی باطل تاویل نہ کی جائے۔
٭کسی طرح کی مرعوبیت کی بنا پر ایسا نہ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔آمین

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فکری و عملی انحراف کے خطرناک نتائج

حمد وثناء کے بعد :

فرمان الٰہی ہے :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور:63)

فرمان نبوی ﷺ ہے :

بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا (صحیح مسلم186)

انحراف کی دو صورتیں ہیں ایک عملی انحراف اور دوسرا فکری انحراف۔ فکری انحراف عملی انحراف سے زیادہ خطرناک ہوتاہے ایک شخص اگر نماز نہیں پڑھتا تو یہ عملی کفر ہے لیکن اگر فکری طور پر نماز کو مانتا ہی نہیں تو یہ اعتقادی کفر ہے ایسا انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہے۔ ایک شخص عملاً کسی کو قتل کر دیتا ہے تو یہ عملی انحراف ہے لیکن اگر کسی کو حلال سمجھ کر قتل کرتاہے تویہ فکری انحراف ہے اور یہ زیادہ خطر ناک اور کفر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قتل وغارت گری کی خبردی ہے ’’ یہ دنیا کے دن ختم نہیں ہوں گے جب تک یہ منظر آپ نہ دیکھ لیں۔‘‘
اس وقت تک یہ دنیا کےدن ختم نہیںہوںگے جب تک یہ کیفیت نظر نہ آئے کہ قتل و غارت گری ہوگی اورقاتل کو معلوم نہیں ہوگا کہ وہ کس کو قتل کر رہا ہے اور مقتول کو معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کیوں قتل ہو رہا ہے اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ اگر قتال کی یہ صورت دیکھ لو تو دجال کا انتظارکرنا وہ آج بھی آسکتا ہے اور کل بھی آسکتا ہے معنی قتل وغارت گری کی یہ صورت بڑی بھیانک ہے اور یہ قیامت کی قریبی علامات بن سکتی ہیںجب قتل وغارت گری کی یہ صورت عام ہوجائے تو دجا ل کا ظہور و خروج قریب ترین ہوجائے گا لیکن قتل وغارت گری اگر اس فکر کے ساتھ کی جائے کہ فلاںشخص کو قتل کرناحلال ہے جیسے آج کل مذہبی ، سیاسی اور لسانی گروہ بندی ان گروہ بندیوں میں تعصب کا عالم یہ ہے کہ دوسرے گروہ و جماعت کاخون بہاناجائز سمجھا جاتا ہےخواہ وہ اختلاف لسانی بنیادوں پر ہو یا مذہبی بنیا د پر ہو ، سیاسی بنیاد پر ہو یہ کفر ہے قتل کرنا فسق وفجور ہے لیکن قتل کو جائز سمجھ کرکرنا یہ کفر ہے،عملی انحراف بخشش کے قابل ہے کیااللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے 100افراد کے قاتل کو معاف نہیںکیا ؟یہ حدیث کے الفاظ ہیں اس نے 99قتل کیے تھے اور ظلم و بربریت میں کیےکوئی قصاص میں نہیں کیے تھے ظلم وبربریت میںایک اور قتل کرد یامفتی صاحب کا ،  جس نے علم کے بغیر فتوی دے دیا تو اس نے کہا چلیں مجھے بھی ایک قتل چاہیے تھا تاکہ سو پورے ہوجائیں اسے بھی قتل کر دیا تو یہ ظلم میں تھا بربریت میں تھا اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ا سکو بلکہ اس کے جنت کے داخلے کی تدبیریں فرمائیں جو اس کی توبہ کی زمین تھی اس کو قریب کر دیا اور معصیت کی زمین کو دو رکر دیا اس کو اس طرح گرایا کہ اس کا پاؤں معصیت کی زمین کے قریب تھا اور اس کا دل توبہ کی زمین کے قریب تھا تو دل کے مقام پر فیصلہ ہوا یہ اشرف الآراء ہے کہ سو افراد کے قاتل کو معاف کر دیا گیا لیکن اگر فکری انحراف ہو کہ فلاں پارٹی ، فلاں گروہ کے بندے کو قتل کرنا حلا ل ہے یہ فکری انحراف ہے ایسا اگر ایک بھی قتل کروگے تو کفر ہوگا اور کفر ناقابل معافی گناہ ہے تو یہ
فرق ہے عملی اور فکری انحراف میں عملی انحراف قابل بخشش
ہے لیکن فکری انحراف جو کہ کفر ہے اور کفرناقابل بخشش گناہ ہے ایک انسان کافر ہوجائے اس کی نیکی اس کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا جب تک کفر کو ترک نہ کر دے اور کفر کو ترک کرکے توبہ کرے ۔
آج کا دور انتہائی خطر ناک ہے کیونکہ نبی علیہ السلام نے صحیح بخاری کی ایک حدیث میں فتنوں کے وقوع کی خبر دی ہے اور یہ بتایا کہ ان فتنوں کی یلغار دل پر ہوگی، یہ دل فکر ، عقیدہ کا مرکز ہے، منہج کے فہم کا مرکز ہے۔ سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
کہ فتنے دلوں پر پیش کیے جائیں گے اور وہ ایک دو فتنے نہیں ہوں گے بلکہ وہ فتنے چٹائی کی مانند ہوں گے کہ جیسے چٹائی بہت سے تنکوں سے بنتی ہے کہ ایک تنکا پھر دوسرا تنکا پھر تیسرا تنکا ساتھ جوڑتے جاتے ہیںپھر آخر میں دھاگے کو کھینچ کر چٹائی کی شکل بناتے ہیں فرمایا کہ انسان کے دل پرفتنوں کی یلغار ہوگی۔ پھرفرمایا
جس دل نے اس فتنے کو قبول کر لیا اس فتنے کے بدلہ اس دل میں ایک سیاہ نشان لگا دیا جاتاہے
یہ اس چیز کی علامت ہے کہ یہ دل جو ہے وہ فکری انحراف کا شکار ہوچکا ہے ۔ایک سیاہ نشان اور فتنہ کوئی ایک دو تو نہیں ہوگے یہ تو چٹائی کے تنکوں کی طرح لائن بہ لائن آئیں گے دل پہ یہ یلغار کریں گے حملہ آور ہوں گے اورجو دل ان فتنوں کو قبول کرتا گیا اس پر ایک سیاہ نشان ، سیاہ نقطہ لگا دیا جائے گا دوسرے فتنہ پر دوسرا نشان ، تیسرے فتنہ پہ تیسرا نشان …
اور جس دل نے ان فتنوں کا انکار کیا ۔ اس دل میں ایک نور کا نشان لگا دیا جائے گا جو چمکتا ہوگا جو اس بات کی علامت ہوگا کہ یہ دل منہجی طور پر استقامت پر قائم ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اس دل کو کوئی چیز نقصان نہیں دے سکتی ، کوئی تحریک،کوئی بربریت، کوئی طاغوتی طاقت اس دل کو نقصان نہیں دے گی جس دل میں ایک فکری اور منہجی انسان ہے جو ان فتنوں کا انکار کرتاہے تو وہ دل جو فتنوں کوقبول کر لیتا ہے فرمایا یہ دل سیاہ اور الٹے پیالے کی مانند ہوگا بڑی خطر ناک مثال ہے گلاس میں پیالے میں کوئی چیز ہو پانی ہو ، دودھ ہو۔ اس کو آپ الٹا دیں سارا دودھ گر جائے گا معنی جو ایمان ہے وہ ختم ہوجائے گا اب الٹے گلاس میں الٹے پیالے میں آپ کوئی چیز داخل کرسکتے ہیں ؟پانی یا دودھ داخل کرسکتے ہیں ؟ جو دودھ تھا وہ بھی گر گیا اور آئندہ اس میں کچھ داخل نہیں ہوگا۔ ہاں اگر سیدھا ہو تو امکان ہے، الٹا ہو تو کوئی امکان نہیں ۔ بڑی خطرناک تشریح ہے کہ جو دل فتنوں کو قبول کرے گا وہ ایک تو سیاہ ہوجائے گا دوسرا وہ اس الٹے پیالے کی مانند ہوگا کیونکہ ایمان کی جو رونق دل کے اندر ہے وہ اگر گرگئی ؟اور چونکہ اب اس میں مزید کوئی چیز داخل بھی نہیں ہوسکتی،کیونکہ پیالہ الٹا ہے۔ یہ ہے فتنوں کی یلغار انسان کے دل پر اور میں یہ سمجھتا ہوں واللہ اعلم ہر گناہ ہر معصیت جو انسان کے سامنے آتی ہے وہ ان فتنوں کی وجہ سے آتی ہے اور واقعی یہ فتنہ کی چٹائی کے تنکوں کی طرح ہے یکے بعد دیگر آرہی ہے ہر جگہ فتنے گھروں میں فتنے،مسجدوں میں فتنے، ہر جگہ فتنے وہ لوگ جو ان فتنوں کا باعث بنتے ہیں ان کو قبول کرتے ہیں فتنوں کا وہ اقرار واعتراف کرتے ہیں اس حدیث کی رو سے ان کے دل سیاہ ہونے لگے ہیں جب پورا سیاہ ہوجائے گا فتنے قبول کرکرکے پھر وہ الٹے پیالے کی مانند ہوں گے جو ان کے اندر ایمان ہے وہ نکل جائے گا اور آئندہ وہ ایمان ان کے اندر داخل ہو ہی نہیں سکتا یہ اس امت کا المیہ ہے یہ امت فتنوں سے دو چار ہوگی لہٰذا جو فکری اور منہجی انحراف ہے اس سے بچاؤ کی تدابیر کریں۔

تدابیر:

اور تدبیر کیا ہے ؟ تدبیر یہ ہے علم نافع اور حصول علم ۔ علم کا ہتھیار واحد ہتھیار ہے جو ہمیں ان فتنوں سے بچا سکتاہے دوسری کوئی چیز نہیں چار خوبیاں گنوائیں فرمایا کہ فتنے یوں تم پر یلغار کریں گے جتنے بھی فتنے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں :
ایک ہے فتنہ شہوات اور ایک ہے فتنہ شبہات ۔
شہوات کا فتنہ آپ کے دل کی خواہشات مال کی محبت ہے تو حلال وحرام کی تمیز نہیں اور دل کی خواہش نعوذ باللہ من ذلک اگر زناکی طرف ہے تو وہ سوچ بندے پر غالب ہے ہمیشہ ایک ہی سوچ سوچتا ہے۔ یہ شہوات کا فتنہ ہے۔
اولاد کی محبت ہے تو ان کی ہرخواہش کو پورا کرنا حلال وحرام کا نہ سوچنا ،بیوی کی محبت ہے اتنا اس کو غالب کر لیا کہ بیوی کی ہر خواہش کو پورا کرنا ، حلال وحرام کی تمیز نہیں، گھر میں خیر بھی آرہی ہے شر بھی آرہا ہے یہ شہوات کے فتنے ہیں ان کا معاملہ ہلکا ہے۔ ایک ہے شبہات کا فتنہ، شبہات کا فتنہ علم کی کمی کی بناپر، کتاب وسنت سے دوری کی بناپر، دینی حقائق میں شبہات وارد ہوتے ہیں۔ حق واضح نہ ہو حق خلط ملط ہوجائے یہ ہے شبہات کا فتنہ۔
تو ہر قسم کا فتنہ دل پہ یلغار کرے گا جو اس کو قبول کرتا گیا وہ اس عذاب الیم سے دو چار ہوگا کہ اللہ اس کے دل کو سیاہ کرکے اس کے دل کو الٹا کر دے گا جو ایمان کی رمق تھی وہ نکل جائے گی اور آئندہ ایمان کا قطرہ بھی اس میں داخل نہیں ہوسکتا لیکن جو دل انکار کرے گا ۔
اس انکار کی بنیاد بھی علم ہو اور علم کی بنیاد علماء ہیں۔ کتابوں میں علم ہے لیکن وہ آپ کے لیے کافی نہیں ہے ، ایک ہے علم کا فہم ، کتابوںسے علم آپ کے سامنے آسکتا ہے ، علم کا فہم نہیں آسکتا یہ فہم آپ کو علماء دیں گے۔امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے : اپنے دور کے بہت بڑے تابعی ، محدث،فقہاء کے سردار فرمایا کرتے تھے :
فتنہ جب آتا ہے حملہ آور ہوتاہے تو ہر عالم اس کو پہچان لیتا ہے کہ یہ فتنہ ہے ، عالم اس کو پہچان لیتا ہے، جاہل نہیں پہچانتا کیونکہ جاہل تو ایک شئی کی رنگینی کو دیکھے گا ، بعض اوقات کوئی شئی اندر سے جھوٹی ہوتی ہے اور اوپر سے مرقہ سازی ہوتی ہے یعنی باطل پر حق کی ملمہ سازی، جہلاء کو نظر نہیں آتی ، علماء محسوس کرتے ہیں اور جب فتنہ پوری طرح تباہ کرکےواپس پلٹتا ہے پھر جاہل بھی پہچان جاتے ہیں کہ یہ فتنہ تھا۔ لیکن ایک جاہل اگرعلماء کی صحبت اختیار کرے اورآج کے پر فتن دور میں علماءسے تعلق رکھے تو پہلی یلغار پر علماء اس فتنہ کو پہچان لیں گے جہلاء بھی پہچان لیں گے بچاؤ آسان ہو گا ۔علم کے بغیر فتنہ نہیں پہچان سکے گا۔
اور سب سے بڑا فتنہ دجال کا فتنہ ہے اتنا بڑا فتنہ ہے کہ جناب محمد ﷺ ہر نماز میں فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ طلب کرتے تھے ہر نمازمیں جب نماز پڑھو تشہد میں چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور یہ دعا مانگو

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَالِ

دجال کے فتنے سے پناہ مانگو جب دجال آئے گا تو اچھے خاصے لوگ اس کی گمراہی کے لپیٹے میں آجائیں گے ، دجال آئے گا کس دور میں جب عقل اکثر لوگوں کی گم ہوچکی ہوگی، دین کی کمزوری ہوگی اور لوگ تفرق کا شکار ہوں گے دجال انہی چیزں سے فائدہ اٹھائے گا اور چوتھی جو ہولناک چیز ہو گی وہ یہ کہ دنیا کی معیشت تباہ ہوچکی ہو گی اور دجال معیشت سے مالا مال ہوگا مسند احمد کی حدیث ہے دجال کی آمد سے تین سال قبل کا دور ہوگا پہلے سال اللہ رب العزت آسمانوں کی آدھی بارش روک دیں گے اور زمین کی آدھی فصل روک دیں گے ، دوسرے سال ، دو تہائی بارش ختم ہوجائے گی اور زمین کی جو دو تہائی پیداوار ہے وہ بند ہوجائے گی اور تیسرے سال آسمانوں کی پوری بارش رک جائے گی اور ایک قطرہ نہیں برسے گا پورا سال زمین سے ایک دانا نہیں نکلے گا معیشت تباہ وبرباد ہوچکی ہوگی اور لوگوں پر ایک فاقہ کشی کی کیفیت ہوگی بہت سے لوگ ہلاک ہوں گے، لوگ موت کے منہ میں پہنچ چکے ہوں گے، اس وقت دجال آئے گا دنیا کی صنعتوں سے مالا مال اشاروں سے بارش برسائے گا ، اشاروں سے اناج اگائےگا اور پھر یہ لوگ کس طرح اس کے فتنے کا شکار ہوں گے ،بڑا خطرناک فتنہ ہے ،بچے گا کو ن جسے اللہ توفیق دے اور خاص کر کے جو آج کے جہلا ء ہیں ہم نے ایسے کئی لوگ دیکھے ہیں جنکی زندگی لباس سے عاری گزرتی ہے نہ انکو لباس کا ہوش ہے،عقل سےبالکل بیگانہ ہے غلاظت کے ڈھیرمیں بیٹھے ہیں چاروں طرف کتے ،بلی اور جانوروں کی یلغار ہے اور لوگ انکو مشکل کشا مانتے ہیں ایسے لوگ جب دجال کو دیکھیں گے توکہیں گے جناب یہ تو پیران پیر ہے یہ تو اشاروں سے بارش برساتا ہے اشاروں سے اناج اگارہا ہے یہ تو بہت ہی پہنچاہوا اور بہت بڑا مشکل کشا ہے یہ لوگ جو ان بے ڈھنگ ملنگ لوگوں کو اپنا الٰہ مانتے ہیں دجال کو تو فور ا قبول کریں گے لیکن بچاؤکس کو حاصل ہوگا؟ جس کے پا س علم نافع ہوگا جب یہ دجا ل مدینے کے قریب پہنچے گا مدینے میں داخل ہو نے کے لیے وہ زمین جو اگنے کے قابل نہیں ہوگی اس تک پہنچے گا تو اس کو آگے ملا ئکہ نظر آئیں گے جو تلواریں لے کر کھڑے ہونگےکہ تو آگے بڑھ توذرا صحیح،تو دجال ملائکہ کے سے آگے نہیںجائے گااور وہیں رک جائے گاتین جھٹکے مدینے کو لگیںگے ان جھٹکوں سے وہ لوگ ڈر جائیں گے جن کے ایمان میں کمزوری ہوگی وہ ڈر جائیں گے اور مدینے سے بھاگ نکلیں گے لیکن جن کے دلوں میں ایمان کی استقامت ہوگی اور توحید کی پختگی ہوگی وہ مدینہ نہیں چھوڑیں گے گویا قرب قیامت مدینہ صاف ستھرا ہو جائے گا ،منافقین سے پاک صاف ہو جائے گا اور یہ لوگ مدینے سے نکل کر دجال کی فوج میں شامل ہوجائیں گے مدینے میں ایک ایسی شخصیت ہوگی حدیث میں آتا ہے کہ اس کا نام محمد بن عبد اللہ ہو گا جس کو آپ امام مھدی کہتے ہیں وہ دجال کے پاس آئیں گے اور اس کا کھلے عام انکار کریں گے دجال کہے گا تم کیسے انکار کرو گے میری طاقت اور قوت دیکھو میں اشاروں سے بارش برساتا ہوں اشاروں سے اناج اگا یا کروں گا اچھا کرو ،وہ کرنے میںکامیاب ہوجائے گا ،میں اشارے سے تم کو مار سکتا ہوں -مار کر دکھاؤ-تووہ اشارہ کرے گا اور وہ نیچے گر جائیں گے لوگ پریشان ہو جائیں گے کہ آپ اشارے سے مار بھی سکتے ہیں میں اشارہ سے زندہ بھی کرسکتا ہوں -تو کر کے دکھاؤ اشارہ کرے گا وہ زندہ ہو جائیں گے اور پیچھے جہلاء مزید ہو جائیں گے اور یہ محمد بن عبداللہ امام مھدی کھڑے ہو کر کہیں گے کہ میرا ایمان پہلے سے بڑھ گیا تووہی جھوٹا دجال ہے کیونکہ یہ ساری علامتیں اللہ کے پیغمبر ﷺ نے بیان فرمائیں ہیں ایک آنکھ سے کانا ہو گا ،ماتھے پر کافر لکھاہوگا،اناج پیدا کرنا، اشارے سے بارش برسانا ، اشارے سے مارنا و زندہ کرنا ، میرے پیارے پیغمبر ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ ایسا کچھ کرے گا اور جب یہ کرے گا تو ایک بار کامیا ب ہوگا دوبارہ مارنا اور زندہ کرنا اس میں کامیاب نہیں ہوگا اب امام مھدی کہیں گےمجھے مار کے دکھاؤ اب وہ اشارہ کرے گا تو کچھ نہیں ہوگا اور پیارے نبی ﷺ کی حدیثیں ہم نے پڑھی کہ رب کو دنیا میں کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا تم کیسے رب ہو کہ سارا دن نظر آرہے ہو چل پھر رہے ہو، رب کو تو قیامت کے دن دیکھنا ممکن ہوگا وہ بھی قیامت کی نگاہوں سے، دنیا کی نگاہوں سے نہیں ، دنیا کی نگاہیں کمزور ترین ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہ بصارت و قوت دے گا کہ جس بصارت سے اللہ کا دیدار ممکن ہے ، کیا ثابت ہوا ؟ کہ فتنوں سے بچاؤکی واحد اثاث علم نافع ہے۔اپنی نگاہوں سے فتنوں کا دور ہم دیکھ رہے ہیں ، قتل وغارت گری کی یہ کیفیت جو قرب قیامت کی علامت ہے کہ قاتل کو پتہ نہیں کہ وہ کس کو قتل کر رہا ہے اور مقتول کو پتہ نہیں کہ اس کا قاتل کون ہے ؟ کراچی میں اجتماعی جو قتل ہوتے ہیں ، دھماکے ہوتے ہیں کیا پتہ قاتل کو، کون کون مارا گیا ہے۔ ان مقتولین کو کیا معلوم ہمیں کون قتل کررہا ہے گویا جب قتل کی یہ کیفیت ہو تو دجال کا انتظار کرنا وہ آج آئے یا کل آئے۔ ……..اپنی توجہ آخرت کی استعداد پر مرکوز رکھیے اور یہ کوشش کریں کہ ہم فتنہ کا حصہ نہ بنیں۔ پیارے پیغمبر محمد مصطفیﷺ نے فرمایا کہ جب قتل وغارت گری کا فتنہ پھیل جائے تو اس سے اس طرح بچنا کہ رات کی تاریکی میں اپنی تلوار کو لے کر کسی پہاڑ پر چڑھ جانا پھر اس پر وار کرنا حتی کہ یہ تلوار دو ٹکڑے ہوجائے پھر اس کو نیام میں لے کرواپس آجانا دنیا سمجھے گی کہ آپ کے پاس تلوار ہے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ یہ کندہے قتل نہیں کرسکتی۔دنیا ڈرے گی آپ سے دور رہے گی کہ تلوار ہے اس کے پاس اور آپ کسی فتنہ میں ملوث نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ تلوار کند ہے۔ لوہے کی تلوار ختم کرکے لکڑی کی تلوار رکھ لو صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ میرے پاس تلوار ہےمگر آپ کو معلوم ہے کہ لکڑی کی ہے قتل نہیں کر سکتی۔ اس طرح فتنوں سے بچیں حتی کہ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے ’’ تم اللہ کا مقتول بند ہ بن جانا قاتل نہ بننا ‘‘ ایک حدیث میں ہے آدم کے جودو بیٹے تھے ان میںسے ایک بن جانا، قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تھا تو ان میں سے بہتر ہابیل تھا اس لیے ہابیل بن جانا قابیل نہ بننا اس طرح فتنوں سے بچاؤ کی آپ نے ترغیب دی ، تلقین کی ، کتنی خطر ناک چیز تھی کہ نبی ﷺ دعا کیا کرتے تھے،
یا اللہ جب تو بندوں میں فتنوں کا فیصلہ فرمالے تو مجھے فتنوں کی یلغار کے دور سے پہلے اٹھالے کتنی خطر ناک یہ حدیث ہے اور دانا انسان وہ ہوگا جو ان فتنوں سے اپنے آپ بچا کے رکھے گا۔ سوال کیا گیا  اللہ کے نبی ﷺ نجات کیا ہے ؟ فرمایا تین چیزیں نجات ہیں : اپنی زبان کو بند کر لو، تم فتنوں کی تشہیر نہ کرنا اپنی زبان کو بند کر لینا جبکہ ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم بڑے شوق سےخبریں نشر کرتے ہیں سوشل میڈیا پر اور میڈیا بھی شیطان ہے جھوٹی وسچی ہر خبر آگے منتقل ہورہی ہے۔ ایک سے دس تک، دس سے سو تک فرمایا کہ تم فتنوں کے معاون کیوں بن رہے ہو اپنی زبان بند کر لو اور یہ سوچ کرکہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے اپنے گناہوں پر رونا شروع کر دو ، توبۃ نصوحۃ کر لو پتہ نہیں کیسا چل چلاؤ کا وقت ہے کل وہاں یلغارہے توآج یہاں ہوسکتی ہے گناہوں پر رو اور تمہارا گھر تمہارے لیے کافی ہے گھر کی چار دیواری کو اپنے لیے کافی سمجھو یعنی زیادہ وقت گھر میں گزارو اس کے دو فائدے ہیں ایک فتنوں سے دوری،اور دوسرا اپنے اہل وعیال پر نظر رکھو ان کی اصلاح کرو، ان کے درمیان رہنا،انکی اصلاح کرنا یہ نہ ہو کہ میں تو گھر میں ہوں یاگھر سے باہر اور بچے گھر سے باہر پھرنا شروع کردیں ، فتنوں کی

لپیٹ میں آجائیں۔نبی کریمﷺ کی حدیث ہے:

دجال کے ظہور کے وقت سب سے دانا انسان وہ ہوگا جو گھر سے نکلے تو اپنی عورتوں کو رسی سے باندھ کر نکلے تاکہ یہ باہر جھانکے بھی نہ۔ نکلنا تو دور کی بات ہے کہ عورتیں فتنہ جلدی قبول کرنے والی ہیں ، شبہات کا شکار ہوتی ہیں عقیدے کچے ہوتے ہیں فکر کمزور ہوتی ہے اورعقل میں ناپختگی ہوتی ہے عاقل اور دانا انسان وہ ہوگا جو اپنی خواتین کو رسی سے باندھ کر نکلے تاکہ نہ باہر جاسکیں نہ باہر جھانک سکیں اس قدر عافیت کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے اس قدر تعلیم اور تاکید علم اور علم نافع کی طرف کی ہے ۔
آپ ﷺ کی حدیث آپ کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ جزیرئہ عرب میں شیطان مصلون (نمازیوں) سے مایوس ہوچکا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںیعنی شرک،کفر سے مایوس ہوچکا ہے لیکن شیطان تحریف میں کامیاب ہوجائے گا ۔ تحریف کا معنی لوگوں میں بگاڑ،تفرق،اختلاف و انتشارپیدا کرنا ہے یہ چیز قابل غور ہےجزیرئہ عرب میں شیطان کی شرکیہ دعوت کو کوئی انسان قبول نہیں کرے گا اس سے مراد اجتماعی شرک ، ایک دو بندے اس کے شکار میں آسکتے ہیں مگر پورا جزیرئہ عرب جیسے پہلے شرک پر قائم تھا اب نہیں ہوسکتاکیونکہ ان کے عقیدے ٹھوس اور پختہ ہوچکے ہیں اب تحریف میں شیطان کامیاب ہوسکتاہے ، تحریف لوگوں میں بگاڑ پیدا کرنا، امن کو بگاڑ کر ایسا فتنہ بنانا کہ انتہائی ضعف اور کمزوری کا باعث بن جائیں، دینی قوت ختم ہوجائے گی اس تحریف اور بگاڑ کو دلوں کا کینہ اور بغض بنائے گا جس بناء پر لوگوں میں دوریاں ہوںگی حتی کہ بھائی بھائی سے دور ہوگا ، بیوی شوہر میںناچاقیاں،باپ بیٹے میں اختلاف ہوگا یہ تو مقدس رشتے ہیں لیکن شیطان اس میں کامیاب ہوگا یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ نبی کریم ﷺ نےمصلونکا لفظ کیوں استعمال کیا؟ لوگ کہہ دیئے ہوتے کہ لوگ اس کی عباد ت نہیں کریں گے معنی شیطان کا جو نشانہ ہیں وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں آتے ہیںاور ان مقدس جگہوں کو آباد کرتے ہیںشیطان ان میں تحریف زیادہ پیدا کرے گا تبھی تو آج مساجد میں فتنے ہورہے ہیں ،غیبتیں، ایک دوسرے کے خلاف آوازیں کسی جارہی ہیں یہ آپ کا فرمان کس قدر پورا ہوا کہ نمازی اس کی عبادت کریں یہ ممکن نہیں کہ اب شیطان آکر کہے کہ جاؤ جاکے فلاں قبر پر سجدہ کرو، آپ کریں گے ؟ نہیں ، کتنا مستحکم عقیدہ اور ٹھوس فہم توحید ہے کہ اس میں شیطان کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ شیطان کہے گا کہ چلو گیارہویں کی مجلس قائم کرو آپ کریںگے،نہیں کیونکہ آپ ان چیزوں سے نفرت اختیار کرچکے ہیں ،شیطان تحریف ،تفرق پیدا کرے گا جوکہ فتنوں کی جڑ ہے ،اس سے دعوت دین مانندپڑجاتی ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے ہماری کمزوری کا ایک ہی سبب بیان کیا ہےوہ ہے آپس کا اختلاف۔ وسائل کم ہوں،تعداد کم ہو کوئی پرواہ نہیں کیونکہ نہ ہم وسائل کےمحتاج اور نہ تعداد کے بلکہ آپس کا اختلاف اور تفرق ہماری کمزوری اور شیطان کی طاقت ہے۔اگر دین کمزور ہوگا تو دشمن کا کفر طاقت پکڑے گا اور وحدت،پختگی،اتفاق واتحاد، باہمی محبت تمہاری اصل طاقت ہےیہ تمہارے غلبہ کی داستان ہےجو مسجدوں سے دور ہیں ان میں ہوسکتا ہے آپس میں پیار ومحبت ہو ، محبت کی بنیادیں ہوں مگر جو مسجدوں میں داخل ہوگئے ان پر شیطان زیادہ وار کرےگا اب جو اس وار میں آگیا تو وہ اس کی تحریف کو قبول کر بیٹھا وہ شیطان کا چیلا بن گیا وہ شیطان کی خوشی کا باعث بن گیا۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ جب صبح ہوتی ہے تو شیطان اپنے تخت پر بیٹھتا بھی نہیں کہ اپنے لشکر کو بھیج دیتا ہے جاؤ جاکر اللہ کے بندوں کو گمراہ کرکے آؤ اور شام کو رپورٹ پیش کرو، شام ہوتی ہے تو سارے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کرتے ہیںکہ فلاں شخص حج کرنا چاہتا تھا میں نے اس سے کہا کہ تیرے یہ تین چار لاکھ روپے ہیں ضائع ہوجائیں گےاتنے مسائل پیدا کیے کہ اس کو حج سے روک دیا ۔ کہے گا تم نے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ دوسرا کہے گا کہ فلاں بندہ نماز پڑھنے جارہا تھا میں نے اسے روک دیا ، مسجد سے دور کردیا کہے گا جاؤ ٹھیک ہے تو نے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ ایک آئے گااور کہے گا کہ میں فلاں گھر میںداخل ہوااس میں سے اس وقت تک نہ نکلا جب تک میاں بیوی کے درمیان ناچاقی نہ پیدا کر دی تفرقہ نہ پیدا کردیا ابلیس اسے قریب کرے گا سینہ سے لگائے گا کہ تم آج کے ہیرو ہو، یہ شیطان کا ہتھیار ہے اور جو اس ہتھیار میں آجائےوہ چیلہ بن جاتا ہے ۔
مسجد کا تذکرہ ہورہا تھا مسجد کی ایک انتظامیہ ہوتی ہےاس کو قبول کریں کہ انتظامیہ غلط ہے یا صحیح دو صورتیں ہیں :  اگر صحیح ہے تو تسلیم کرلیں اگر غلط ہے تو اس کی اصلاح کریں اس میں آپ کا بھی فائدہ اور ان کا بھی فائدہ ہے اگر تسلیم نہ کریں تو آپ پیچھے ہٹ جائیں اگر میں اسے بڑھاؤں،فتنہ بناؤں، انتشار پھیلاؤں تو میں اس سے بڑا مجرم ہوں ’’الفتنۃ أشد من القتل‘‘ فتنہ قتل سے بڑا گناہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی لحاظ سے جو سب سے بڑی کوتاہی ہے وہ تفرقہ ہی ہے۔

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال:46)

تنازعہ، تفرقہ مت کرو ورنہ کمزور ہوجاؤ گے۔تنازع کا نقصان اللہ کے نبی کے دور میں بھی ہوا تھا، آپ گھر میں تشریف فرما تھے ، بڑے خوش ہوکر باہر نکلے، نبی کریم ﷺ کے دورسے زیادہ بابرکت دور کونسا ہوسکتا ہے ، اختلاف اور تفرقہ کی نحوست اس دور میں اثر انداز ہوئی۔ رسول اللہ نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ آج میں گھر میں تھا کہ نےمجھے میرے سامنے شب قدر کا تعین فرما دیا کہ وہ فلاں رات ہے بڑی نعمت والی تھی ، میں بڑا خوش گھر سے باہر نکلا تھا مگر جب مسجد میں آیا تو لوگ جھگڑ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کی نحوست کی وجہ سے مجھ سے شب قدر کا علم، میرے سینہ سے محو کر دیا ۔ اللہ نے وہ علم ہی چھین لیا ۔ مسجد جو بھی ہو وہ کوئی جھگڑے کی جگہ نہیں ہے اللہ کے ذکر اور عبادت کی جگہ ہے اللہ کے سامنے رونے، دروس،جمعہ کے خطبات کی جگہ ہےزمین کی سب سے بہترین جگہ مساجد ہیں اور ہم اس کو اکھاڑا بنالیں یہ خلاف منہج ہے یہ فکری انحراف ہے اور یہ فکری انحراف بہت بڑا نقصان ہے۔ تمہاری کمزوری انحراف ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے وہ تمہارا اختلاف۔ شیر وشکرہو جاؤ،پیار ومحبت کی فضا قائم کرو تو یہ تمہاری قوت ہے تمہاری دعوتی قوت،عقائد کی پختگی ہے اور تفرق قابل قبول نہیں ۔ ایک سفر سے اللہ کے رسول ﷺ لوٹ رہے تھے اور صحابہ سائے کی تلاش میں ٹھہر گئے کسی کو سایہ ملاکسی کو دور تو کسی کوقریب جس کو جہاں جگہ ملی وہیں ٹھہر گئے شدت کی گرمی تھی ۔ نبی کریم ﷺ نے سب کو جمع کیا اور کہا تم اس طرح پھیل کر جداجدا کیوں بیٹھے ہو، میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں باہم ساتھ مل کر بیٹھا کرو صحابہ نے یہ بات ایسی پلے سے باندھی کہ جب کبھی سفر کرتے تو ایک جگہ پڑاؤ ڈالتے اور ایسے جڑ کربیٹھتے کہ ایک چادر ان کے لیے کافی ہوجاتی وہ تو اللہ کے نبی کی تعلیمات کو سینے سے لگانے والے تھے تو آج کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ جو فکری انحراف ہے وہ عملی انحراف سے زیادہ خطر ناک ہے اور فکری اور منہجی انحراف کا ازالہ تعلق بالوحی ، تعلق بالکتاب والسنۃ،تعلق بالعلماء الربانیین ان کے ساتھ تعلق قائم کریںاللہ تعالیٰ نے علماء کے وجود کو خیر کا باعث قرار دیا

شَهِدَ اللهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ (آل عمران:18)

اس پر تین دلیلیں ہیں ایک یہ میں خود گواہی دیتا ہوں ، میں اکیلا ہوں اوردوسرا میرے ملائکہ تیسرا علماء کی گواہی ،جو عالم اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک لہ نہیں مانتا وہ بھلے ہی بہت بڑے آستانوں،جبے،قبے میں ہی کیوں نہ ہو وہ عالم نہیں ہے عالم ربانی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر گواہ ہو، توحید کو سمجھے، توحید پر درس دے ، توحید علماء کی شان ہے، اللہ تعالیٰ نے علماء کی توحید کو گواہ بنا کر بھیجا ہے اور پیارے پیغمبر کا فرمان ہے ’’العلماء ورثۃ الأنبیاء‘‘ علماء انبیاء کےوارث ہیں ، علماء انبیاء کا کام کرنے والے معنی جو عالم اس مشن پر قائم نہ ہو وہ عالم نہیں ، حقیقی عالم وہ ہے جو توحید پر قائم ہو ، انبیاء کے مشن پر قائم ،دین کا داعی، سچی لگن کے ساتھ ، اخلاص کے ساتھ ، مخلص ہو ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے جس بستی میں عالم دین نہ ہو اس بستی کے رہنے والوں پر ہجرت کرنا فرض ہوجاتی ہے اس علاقے کو چھوڑ دو ایسے مقام پر جاؤ جہاں دین کے عالم موجودہوں ، فرمایا کرتے تھے کہ اس امت کو ڈاکٹر سے زیادہ ایک عالم کی ضرورت ہےڈاکٹر جسم کا معالج اور عالم روح کا معالج ہوتا ہے، جسم کا علاج اگر نہ بھی ہو تو چلو موت واقع ہوجائے گی لیکن اگر روح کا علاج نہ ہو ، روح کی موت دنیا وآخرت کی موت ہے اور جو ڈاکٹر علاج کرتا ہے بعض اوقات وہ علاج کسی عام شخص کو بھی معلوم ہوتاہے ہمارے گھر کی دادیاں ،نانیاں انہیں کئی نسخے معلوم ہوتے ہیں بچوں کا گھر بیٹھے بیٹھے علاج کر دیتی ہیں۔ لیکن شریعت تجربہ،مشورہ کا نام نہیں شریعت وحی الٰہی کا نام ہے جس کے حامل علماء کرام ہیں اسی لیے قرب قیامت علماء کا چلے جانا اور جہل کا پھیلنا علامت ساعہ میں سے ہے۔’’علم اٹھا لیا جائے گا اور جہل پھیل جائےگا‘‘ اللہ تعالیٰ علم علماء کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ علم کو اٹھائے گا علماء کے اٹھانےسے ۔ کتابوں میں تو سب کچھ ہوگا مگر علم نہیں ہوگا علم کیوں نہیں ہوگا؟ علم علماء کی وجہ سے ختم ہوجائے گا اسی لیے ان سے محبت ،ان سے لگاؤ، فتنوں سے بچاؤ کے لیےازحدضروری ہے تاکہ کوئی فکری ومنہجی انحراف پیدا نہ ہو اپنی اصلاح کیجیے فکرکی عقیدہ ومنہج کی ، اور عمل کی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا (الاسراء:74)

اے محمد ﷺ سنیے! اگر ہم آپ کو ثابت قدمی نہ دیتے تو ممکن تھا کہ آپ ان کفار کی طرف تھوڑا بہت مائل ہوجاتے ، ثابت قدمی ،پختگی ہم نے دی،اگر ہم ثبات واستقامت نہ دیتے تو آپ تھوڑا بہت صحیح ان کفار کی طرف مائل ہوجاتے اور اگرمائل ہوجاتے پھر ہم دنیا میں آپ کو ڈبل عذاب دیتے اور آخرت میں بھی ۔ ہم نے ہی آپ کو ثبات اور پختگی اور ثابت قدمی دے کربچایا، یہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے اس کے بغیر نہیں یہ ثابت قدمی ایک نعمت عظمیٰ ہے تاکہ کوئی انحراف داخل نہ ہواور ثابت قدمی جو ہے وہ کتاب وسنت کے ساتھ تعلق جوڑنے میں اور توحید کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ (ابراھیم:27)

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ثابت قدمی قول ثابت کی برکت سے دیتا ہے ۔یہ قول ثابت توحید ہے لا الہ الا اللہ
اس کلمےکی گواہی کو سمجھو، اس کا فہم حاصل کرو جو کہ علماء کی مرہونِ منت ہے۔کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ میں اس کلمہ اس گواہی کو جانتاہوں جانتے ہو تو بتاؤ اس گواہی کی شرائط کو توڑنے والے کون کونسے مواقع ہیں؟ کچھ مواقع ہیںکہ انسان کلمہ پڑھ لیتا ہے مگر ان چیزوں کے ارتکاب سے کلمہ وایمان ٹوٹ جاتاہے سب کو معلوم ہے اس پر محنت کرو، یہ ثابت قدمی کی اساس ہے اور اس ثابت قدمی کا حقیقی فائدہ قیامت کے دن ہوگا، جہنم پر پل صراط نصب ہے اور اس پر سے لوگ گزر رہے ہیں قدموں کو استقرار نہیں ملے گا قدم ڈگمگائیں ،پھسلیں گے۔
ثابت قدمی اس کو ملے گی جس کو اللہ دے اور اللہ نے وعدہ فرمایا کہ

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ

ہم قول ثابت کی برکت سے ثابت قدمی دیں گے ایسی ثابت قدمی کہ لمبے پل صراط کے نیچے جہنم کی دہکتی آگ ہے اور اللہ ایسی ثابت قدمی دیں گے کہ بجلی کی کڑک کی طرح گزر جائیں گے، اس جگہ پر اس مکان پر اس کے دونو ں طرف نوک دار کنڈے ہیں لوگوں کو کھینچیں گے دونوں طرف تیز دھار جھاڑیاں ہیں پاؤں ذرا سا الجھا، جھاڑی میں پھنس گیا تو پھر نہیں نکلے گا بڑا ہی خطر ناک معاملہ ہے ثابت قدمی مطلوب ہے تو آج عقیدہ کی ثابت قدمی ، توحید کی ثابت قدمی،منہج کی ،فکرکی ثابت قدمی اس کی بنیادیں حاصل کرکے اپنانے کی کوشش کیجیے اور پھر یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ ’’الدعاء سلاح المؤمن‘‘ دعا مومن کا ہتھیار ہے‘‘اس کو استعمال کریں یہ ایک اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ وانعام ہے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں، پوری رات دعائیں کریں اور خاص کرفتنوں کے دور میں اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی ، عقیدہ ،منہج،عمل ،فکر،دل کی ثابت قدمی کی دعائیں کیا کریںاور اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے

يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا (صحیح مسلم186)

فتنوں کی یلغار میں لوگ اپنے دین کو بیچ دیں گے دنیا کے معمولی مفاد کی خاطر ،اسمبلی ، سینٹ کی ایک سیٹ کی خاطر، تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو بیچ دیں گے انسان صبح کو مومن شام کو کافر،شام کو مومن صبح کو کافر بن چکا ہوگا۔ لا الہ الا اللہ کافہم اس کی بنیادوں کے ساتھ یہ ایک واحد حقیقت ہے جو بندے کو ثابت قدمی پر قائم کرسکتی ہے بس اللہ تعالیٰ توفیق دے مجھے اور آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ثابت قدمی عطا فرمائے۔ اللہ رب العزت عقیدہ کی محبت اور توحید کا فہم عطا فرمائے ۔ یا اللہ دلوں کے بغض ، نفرتیں، اختلافات ختم کر دے یا اللہ ہمیں انصار ومہاجرین کی جماعتوں کی طرح باہم شیروشکر بنادے اور ہمارے درمیان اتحاد، محبت پیدا فرمادے جو کہ ہمارے مشن کی طاقت، منہج ومسلک کی طاقت ہے۔

أقول قولی ھذا وأستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین من کل ذنب فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم

حقوقِ نسواں، اشکالات اور ان کے جوابات

اشکال نمبر1: ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟
اسلام میں ایک آدمی کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یا اسلام میں مرد کو متعدد شادیوں کی کیوں اجازت ہے؟ ”
کثیر ازواجی یا تعددِ ازواج سے مراد شادی کا ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص ایک سے زیادہ بیویاں رکھ سکتا ہے۔ کثیر ازواجی دو قسم کی ہے۔
(1) کثیر ازواجی زنانہ: جس میں ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔
(2) کثیر ازواجی مردانہ: جس میں ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہیں ۔
اسلام میں ایک محدود حد تک زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
کثیر ازواجی مختلف مذاہب میں :اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسلام ایک آدمی کو ایک سےز یادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن دنیا میں وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں تحریر ہے : صرف ایک سے شادی کرو۔ “

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا

اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔ (النساء : 3/4)
کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ صرف ایک بیوی رکھ رکھو ۔ چاہے ہندوؤں کے وید، رامائن، مہا بھارت کا گیتا ہوں، یا یہودیوں کی تالمود یا عیسائیوں کی بائبل ہو، ان کتابوں کےمطابق ایک آدمی جتنی شادیاں چاہے کرسکتا ہے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہندو پنڈتوں اور عیسائی کلیسا نے بیویوں کی تعداد ایک تک محدود کردی۔
بہت سی ہندو مذہبی شخصیات جن کا ان کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے، رام کے باپ راجہ دسرتھ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، اسی طرح کرشن کی بہت سی بیویاں تھیں۔
شروع میں عیسائی مردوں کو بھی اجازت تھی کہ وہ جتنی چاہیں بیویاں رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ، یہ تو محض چند صدیوں پہلے ہوا کہ چرچ نے بیویوں کی تعداد محدود کرکے ایک کردی۔
یہودیت میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے : یہودیوں کے تالمودی قانون کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کی تین بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام ) کی سینکڑوں ۔ ( حاشیہ: بائبل کی اس تصدیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔)

حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن هشام بن حجير،‏‏‏‏ عن طاوس،‏‏‏‏ سمع أبا هريرة،‏‏‏‏ قال قال سليمان لأطوفن الليلة على تسعين امرأة،‏‏‏‏ كل تلد غلاما يقاتل في سبيل الله‏.‏ فقال له صاحبه ـ قال سفيان يعني الملك ـ قل إن شاء الله‏.‏ فنسي،‏‏‏‏ فطاف بهن،‏‏‏‏ فلم تأت امرأة منهن بولد،‏‏‏‏ إلا واحدة بشق غلام‏.‏ فقال أبو هريرة يرويه قال ‏”‏ لو قال إن شاء الله،‏‏‏‏ لم يحنث وكان دركا في حاجته ‏”‏‏.‏ وقال مرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لو استثنى ‏”‏‏.‏ وحدثنا أبو الزناد عن الأعرج مثل حديث أبي هريرة‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ جی ان شاءاللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے ان شاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بے کار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتااور ہم سے ابوالزنادنے اور انہوں نے اعرج سے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اسی طرح بیان کی۔ (صحیح البخاری، الأیمان و النذور، باب کیف کانت یمین النبی حدیث 6639)
کثیر ازواجی اس وقت تک جاری رہی جب ربی گرشوم بن یہودا ( 960ء تا 1030ء) نے ایک فرمان کے ذریعے سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگا دی مگر مسلم ممالک میں رہنے والے سیفارڈی یہودیوں نے 1950ء تک اس پر عمل درآمد جاری رکھا حتی کہ۔
اسرائیل کے دفتر پیشوائے اعلیٰ (Chief Rabbinate) نے ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی کا دائرہ بڑھا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975ء کی بھارتی مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسبت زیادہ شادیاں کی ہیں۔ “کمیٹی برائے اسلام میں عورت کا مقام ” کی رپورٹ جو 1975ء میں شائع ہوئی اس کے صفحات 66-67 میں بتایا گیا کہ 1961ء سے1991ء تک کے دوران میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ہندوؤں کا تناسب 5.06%جبکہ مسلمانوں کا 4.31%تھا۔ بھارت کے قانون کے مطابق صرف مسلمانوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ وہاں کسی غیر مسلم کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود کہ یہ غیر قانونی ہے، مسلمانوں کی نسبت ہندو زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت میں بیویوں کی زیادہ تعداد کے بارے میں پابندی نہ تھی، 1954ء میں جب بھارت میں شادی کا قانون ( میرج ایکٹ ) پاس کیا گیا تو ہندوؤں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی قرار پایا ( یہ بات قانون میں ہے لیکن ہندو مذہب کی کسی کتاب میں نہیں )۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلےعرض کی کہ قرآن کرۂ ارض پر واحد کتاب ہے جو یہ کہتی ہے کہ ” صرف ایک سے شادی کرو۔” قرآن عظیم کی سورۃ النساء میں اس بات کو اس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے:

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً

چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمہیں اچھی لگیں دو دو ، تین تین یا چار چار (عورتوں ) سے ، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم ( ان کے ساتھ ) انصاف نہ کرسکو گے تو صرف ایک سے ( نکاح کرو )۔(سورۃ النساء: 3)
نزول قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئی مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے، اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں، لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4 تک محدود رکھی ہے، اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کرسکے۔
اسی سورت ، یعنی سورۃ النساء کی آیت 129 کہتی ہے۔

وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ

تم عورتوں کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے۔(النساء: 129)
اس لیئے زیادہ شادیاں کرنا کوئی قانون نہیں بلکہ استثناء ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حلت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں:
فرض: یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
مستحب: اس کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
مباح: یہ جائز ہے ، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہ۔
مکروہ: یہ اچھا کام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حرام: اس سے منع کیا گیا ہے، یعنی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑان باعثِ ثواب ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک مسلمان جس کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔

عورتوں کی اوسط عمر :

قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔

بھارت میں نسوانی جنین اور لڑکیوں کا قتل :

بھارت اور اس کے ہمسایہ ممالک ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بچپن میں ہی لڑکیوں کو ہلاک کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہاں لاکھوں عورتیں حمل کے طبی معاینے میں لڑکی کا علم ہونے پر اسقاط کروا دیتی ہیں۔ اس طرح ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ بچیاں قبل از ولادت ہی موت کے گھاٹ اُتار دی جاتی ہیں۔ اگر اس سفاکی کو روک دیا جائےتو بھارت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے :
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں۔ نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں ، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں۔ اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ ہیں۔ فی الجملہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔

ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابل عمل ہے :

اگر ایک مرد ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی۔ ( یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں ، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنہیں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیرشادی شدہ خواتین میں سے ہے۔ یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر ” پبلک پراپرٹی” ( اجتماعی ملکیت ) بنے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ جو پاکدامن عورتیں ہیں وہ یقیناً پہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب گھمبیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معمولی ذاتی نقصان برداشت کرسکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی دوسری مسلمان بہنیں ” پبلک پراپرٹی ” بن کر رہیں۔
شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتاہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا۔ حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقار زندگی بسر کرسکتی ہے۔
اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا ” اجتماعی ملکیت ” بن جائے، اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دلاتا ہے اور دوسری صورت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔
اشکال نمبر 2:ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟
اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟
بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے تو یہی “حق” عورت کو کیوں نہیں دیا گیا ؟
سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ، مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔
سورۃ النساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کرسکتے۔ مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو شادی شدہ ہوں ۔
مندرجہ ذیل نکات یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے:
1) اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہوسکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاص طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہوسکتی ہے۔ اس لیئے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باپ کی جائیداد وجاگیر کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔
2) مرد فطری طورپر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔
3) جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیئے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ ایک عورت کے لیئے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہرگز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔
4) ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں۔ اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔ جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کرسکتی ہے، چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔
یہ تمام وہ ظاہری وجوہ جن کا آسانی سے علم ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اور بھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالی علیم و خبیر کو ہی بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔
حاشیہ: اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے، وہ خاندان کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کرسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔
جیسا کہ امام بخاری ( رحمۃ اللہ علیہ) نے عمر بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے، حافظ ابن حجر ( رحمۃ اللہ علیہ ) نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے :
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا ایک بندر اور بندریا وہاں آئے، بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سوگیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جاکر انہوں نے بدکاری کی ، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرناچاہا تو وہ جاگ اُٹھا، اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکھٹے ہوگئے وہ مسلسل چلائے جارہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ بندر ادھر اُدھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی، انہوں نے ان دونوں کے لیئے ایک گڑھا کھودا اور انہیں رجم کردیا۔ ( فتح الباری 7/202، حدیث : 3859) ​
اشکال نمبر 3:کیا حجاب عورت کا استیصال نہیں؟
اسلام عورت کو پردے میں رکھ کر اس کی حیثیت کیوں گھٹاتا ہے؟
سیکولر میڈیا میں اسلام میں عورت کی حیثیت کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حجاب یا اسلامی لباس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عورت اسلامی شریعت کی محکوم اور باندی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسلام کے حجاب کے حکم کا تجزیہ کریں، ہمیں اسلام سے پہلے کے معاشروں میں عورت کی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
زمانہ قدیم میں عورت کی حیثیت :تاریخ سے لی گئی درج ذیل مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں عورت کی حیثیت نہایت بے وقعت تھی اور اسے محض شہوانی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا حتی کہ اسے بنیادی انسانی شرف و عزت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔
بابل کی تہذیب: اس تہذہب میں عورتوں کو گھٹیا سمجھا جاتا اور بابلی قوانین کے تحت وہ تمام حقوق سے محروم تھیں۔ اگر ایک آدمی قتل کا مرتکب ہوتا تو بجائے اس کے کہ اُسی کو سزا ملے، اس کی بیوی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
یونانی تہذیب: یونانی کو قدیم تہذیبوں میں بہترین اور شاندار تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اس “شاندار” تہذہب میں عورت تمام حقوق سے محروم تھی اور اسے حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایک خیالی عورت جسے ” پنڈورا” کہا جاتا تھا، اُسے انسانوں کی بدقسمتی کی بنیادی وجہ خیال کیا جاتا تھا۔ یونانی لوگ عورت کو مرد سے بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اگرچہ عورت کی دوشیزگی کو قیمتی سمجھا جاتا اور عورتوں کو اس حوالے سے خاصی اہمیت دی جاتی تھی لیکن بعد میں یونانی تہذیب پر بھی انانیت اور جنسی بے راہ روی چھا گئی اور اس تہذیب میں ذوقِ طوائفیت عام ہوگیا۔
رومی تہذیب: جب رومی تہذیب اپنی “عظمت” کی بلندیوں پر تھی، ایک مرد کو یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ اپنی بیوی کی جان لے سکتا تھا، طوائف بازی اور عریانیت اس معاشرے میں عام تھی۔
مصری تہذیب: یہ تہذیب عورت کو مجسم برائی سمجھتی اور اُسے شیطنت کو علامت گردانتی تھی۔
اسلام سے پہلے عرب کی تہذیب: عرب میں اسلام آنے سے پہلے عورت کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا اور جب لڑکی پیدا ہوتی تو اُسے بالعموم زندہ دفن کردیا جاتا۔
اسلام نے عورت کو مساوی درجہ دیا :اسلام نے عورت کو برابری کا درجہ د یا۔ اس کے حقوق کا تعین 1400 سال پہلے کردیا اوروہ توقع کرتا ہے کہ عورت اپنا یہ درجہ برقرار رکھے۔
مردوں کا حجاب: لوگ عام طور پر “حجاب ” کو عورتوں کو تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں لیکن قرآن عظیم میں اللہ تعالی مردوں کے حجاب کو عورتوں کے حجاب سے پہلے بیان کرتا ہے۔ سورۃ نور میں بیان کیا گیا ہے:
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
اور ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیںنیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کیلئے پاکیزگی کی بات ہے، اور اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔ جو کام تم کرتے ہو۔ ( النور 30)​
لہذا جب ایک مرد کی نگاہ کسی غیر محرم خاتون پر پڑے تو اسے اپنی نظر جھکا لینی چاہیے۔
سورۃ النور کی اگلی آیت میں ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

اور ایمان والی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ سوائے اس کے جو ( از خود ) ظاہرہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ دادا پر یا اپنے شوہروں کے باپ دادا پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہروں کے ( سوتیلے ) بیٹوںپر، اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی ( مسلمان ) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت ( کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکر چاکر مردوں پر یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی چھپی باتوں سے واقف نہ ہوں۔( سورۃ النور 31)​
حجاب کا معیار :قرآن و سنت کے مطابق پردے کے لیے چھ بنیادی معیار ہیں :
پہلا معیار یہ ہے کہ جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیے۔ یہ عورتوں اور مردوں کے لیئے مختلف ہے۔ مرد کے لیئے یہ معیار ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے جبکہ عورتوں کے لیئے تما جسم کا ڈھانپنا لازم ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے، اور اگر ان کی خواہش ہو تو جسم کے ان حصوں کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔بعض علمائے کرام کے نززیک ہاتھ اور چہرہ بھی لازمی پردے میں شامل ہیں۔ ( اوریہی بات راجح )۔
علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کے لیئے حجاب کے پانچ یکساں معیار ہیں :
1) کپڑے جو پہنے جائیں وہ ڈھیلے ڈھالے ہوں جو جسمانی اعضاء کے خدوخال کو واضح نہ کریں۔
2) کپڑے اتنے باریک نہ ہوں کہ ان میں سے سب کچھ نظر آئے یا آسانی سے دیکھا جا سکے۔
3) لباس اتنا شوخ نہ ہو جو جنسِ مخالف کے مشابہ ہو (یعنی عورتیں مردوں جیسے کپڑے نہ پہنیں اور مردوں کو چاہیے کہ عورتوں جیسا لباس نہ پہنیں )۔
4) لباس غیر مسلموں کے لباس سے مشابہ نہ ہو، یعنی ایسا لباس نہ پہنیں جو غیر مسلموں کی مذہبی شناخت اور مخصوص علامت ہو۔
5) حجاب میں اخلاق اور شخصی طرز عمل بھی شامل ہیں۔
مکمل حجاب میں ان چھ بینادی معیاروں کے علاوہ اخلاقی کردار، سماجی رویے، وضع قطع اور شخصی ارادے کا بھی دخل ہے۔ حجاب کو صرف لباس کے معیار کی حد تک سمجھنا محدود سوچ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں، دِل، سوچ اور ارادے اور نیت کا حجاب بھی ضروری ہے۔ اس میں انسان کے چلنے کا طریقہ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کا اظہار بھی شامل ہے۔
حفاظتی حصار : حجاب چھیڑ چھاڑ سے بچاتا ہے، آخر عورت کے لیئے پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ سورۃ الاحزاب میں بیان کی گئی ہے۔ اِرشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (الاحزاب :59)​

اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دیجیے کہ وہ ( گھر سے باہر ) اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو گرا لیا کریں۔ یہ ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ ( حیا دار مومنات کے طور پر ) پہچانی جاسکیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے ( کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے ) اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے” ۔
قرآن سے واضح ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیئے دیا گیا ہے کہ وہ باحیا عورتوں کی حیثیت سے پہچانی جائیں اور مردوں کی شرارتوں اور چھیڑ خانیوں سے محفوظ رہیں۔
مغرب میں عورت کا استحصال :
مغربی تہذیب عورت کی جس آزادی اور آزاد خیالی کی بلند آہنگ وکالت کرتی ہے وہ اس کے جسمانی استحصال، اس کی روحانی تحقیر اور اس کی عزت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں، مغربی تہذیب عورت کا درجہ بلند کرنے کا بڑا چرچا کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، واقعہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے عورت کی عزت کو پامال کردیا ہے۔ اُسے عورت کے شرف و منزلت سے گرا دیا ہے ، اُسے داشتہ اور محبوبہ بنا دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں عورت، عورت نہیں ہے۔ رنگین تتلی ہے، حصول لذت کا کھلونا ہے، مغرب نے عورت کو نیلام کا مال بنا دیا ہے، نام نہاد ” فن” اور ” ثقافت ” کی آر میں عورت کا شرمناک استحصال کیا جارہا ہے۔
امریکہ میں ریپ :امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں عورتوں کی سب سے زیادہ عزت آبروریزی بھی وہیں ہوتی ہے۔ امریکی تحقیقی ادارہ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صرف 1990ء میں روزانہ عصمت دری کے اوسطاً 1756 مقدمات درج ہوئے۔ بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ تقریباً 1900 کی اوسط سے عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔ سال نہیں بتایا گیا۔ ہوسکتا ہے 1992ء یا 1993ء ہو، مزید برآں ہوسکتا ہے اس کے بعد امریکی جبری بدکاریوں میں اور زیادہ نڈر ہوگئے ہوں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیے:
میں آپ کے سامنے امریکہ کا ایک منظر پیش کرتا ہوں جہاں مسلم خاندانوں میں پردہ کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی عورت کو پردے میں یا اسلامی حجاب میں بُری نگاہ سے دیکھتا ہے یا کوئی شرمناک خیال اُس کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ ہر عورت اسلامی حجاب پہنتی ہے جس میں اس کا تمام جسم ڈھکا ہوا ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے ، اس کے بعد اگر کوئی زنا بالجبر کرتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس پس منظر میں امریکہ میں عصمت دری کے واقعات بڑھیں گے ، اسی طرح رہیں گے، یا کم ہوجائیں گے۔

اسلامی شریعت کا نفاذ :

فطری طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہوتے ہی مثبت نتائج ناگزیر ہوں گے۔ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں چاہے وہ امریکہ ہو یابرطانیہ، اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے تو معاشرہ سکون کا سانس لے گا۔ اسلامی حجاب عورت کا مرتبہ کم نہیں کرتا بلکہ بلند کرتا ہے اور اس کی حیاداری اور پاکدامنی کی حفاظت کا ضامن ہے۔
اشکال نمبر 4:مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟
دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟
دو عورتوں کی گواہ ہمیشہ ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں۔ قرآن مجید میں تین آیات ہیں جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر گواہی کے احکام آئے ہیں:
وراثت کے متعلق وصیت کرتے وقت دو عادل اشخاص کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے :
سورۃ مائدہ میں قرآن عظیم کہتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ

اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیے۔ ترکے کی وصیت کے وقت دو انصاف والے اپنے ( مسلمانوں ) میں سے گواہ بنا لو اگر تم زمین میں سفر پر نکلو اور ( راستے میں ) موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر قوم کے دو ( گواہ بھی کافی ہوں گے )۔ ( المائدۃ106)
طلاق کے معاملے میں دو عادل اشخاص کو گواہ بنانے کا حکم ہے :

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلهِ

اور تم اپنے میں سے دو اشخاص کو گواہ بنالو جو عادل ہوں اور اللہ کے لیئے گواہی دو۔ (الطلاق2)
پاکباز عورت کے خلاف گواہی کیلئے چار شہادتیں درکار ہیں:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اور جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ پیش نہ کرسکیں ( اپنے الزام کی تصدیق میں ) تو ان کو 80 کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔” (النور4)

مالی لین دین میں عورت کی گواہی :

یہ صحیح نہیں کہ ہمیشہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ یہ صرف چند معاملات کے لیے ہے۔ قرآن میں 5 آیات ہیں جن میں گواہی کے بارے میں مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ صرف ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ مالی معاملات کے متعلق یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى (البقرۃ 282)

اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے لیے ایک دوسرے سے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارے درمیان انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے اسے لکھنا چاہیے، اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے قرض ہو اور اسے اپنے رب، اللہ سے ڈرنا چاہیے اور (لکھواتے وقت ) وہ ( مقروض ) اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ فرد جس کے ذمے قرض ہو، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے، اور تم اپنے مسلمان مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں کے طور پر پسند کرو ( یہ اس لیے) کہ ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسرے اُسے یاد دِلا دے۔ ”
قرآن کی یہ آیت صرف مالی معاملات اور لین دین کیلئے ہے۔ اس قسم کے معاملات میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ معاہدے کو دونوں فریقوں کے مابین لکھا جائے اور دو گواہ بنائے جائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ صرف مرد ہوں۔ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔
اسلامی شریعت میں مالی معاملات میں دو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام مرد سے خاندان کی کفالت کی توقع کرتا ہے۔ چونکہ اقتصادی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لین دین میں عورتوں کی نسبت زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی کہ اگر ایک غلطی پر ہو تو دوسری اُسے یاد دِلا دے ۔ قرآن میں عربی لفظ “تَضِل” یا ” بھول جاتا “، یوں صرف مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔

قتل کے مقدمات میں نسوانی گواہی :

اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں کہ عورتوں کی شہادت قتل کے معاملے میں بھی دوہری ہے، یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عورت ، مرد کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جذباتی حالت کی وجہ سے پریشان ہوسکتی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک قتل کے مقدمات میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔
کچھ علماء کے نزدیک دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی کی برابری تمام معاملات کے لیے ہے۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۃ نور میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (النور 6 تا 9)

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو سوائے ان کی اپنی ذات کے ، تو ان میں سے ہر ایک کی شھادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے۔ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا تب ٹلتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ بلا شبہ وہ ( اس کا شوہر ) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ ( شوہر ) سچوں میں سے ہوتو اس ( عورت ) پر اللہ کا غضب ہو۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) کی گواہی :

سیدہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) سے ، جو ہمارے نبی (ﷺ) کی بیوی تھیں، کم و بیش 2220 کے قریب احادیث مروی ہیں۔ جو صرف ان کی واحد شہادت کی بدولت مستند ہیں، یہ امر اس کا واضح ثبوت ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے۔
بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک عورت کی گواہی نیاچاند دیکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اندازہ کریں کہ روزہ رکھنے کے لیے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ ایک عورت کی گواہی کافی ہے اور اسکی گواہی پر تمام مسلمان مرد و عورتیں روزہ رکھتے ہیں۔ کچھ فقہاء کے نزدیک آغازِ رمضان کے سلسلے میں ایک گواہی درکار ہے جبکہ اس کے ختم ہونے کے لیے دو گواہیاں ضروری ہوں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گواہی دینے والے مرد ہوں یا عورتیں۔
بعض معاملات میں عورتوں ہی کی گواہی کو ترجیح حاصل ہے : بعض معاملات میں صرف خاتون گواہ درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے مسائل عورت کی تدفین کے وقت غسل کے معاملات میں صرف عورت ہی کی گواہی مستند ہوگی۔ ایسے معاملات میں مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔
مالی معاملات میں مرد اور عورت کی گواہیوں میں نظر آنے والی عدم مساوات اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی مختلف نوعیت اور مختلف کرداروں کی بناء پر ہے جو اسلام نے اُن کے لیئے متعین کیئے ہیں۔
اشکال نمبر 5:اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟
اسلامی قوانینِ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت آدھا کیوں ہے؟
قرآن عظیم میں بہت سی آیات ہیں جن میں ورثے کی جائز تقسیم سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:
1) سورۃ بقرہ آیات: 180 اور 240
2) سورۃ النساء آیات: 7-9 اور آیات 19 اور 33
3) سورۃ مائدہ آیات: 106 تا 108
رشتہ داروں کا وراثت میں مخصوص حصہ :
قرآن مجید میں 3 آیات ہیں جو واضح طور پر قریبی رشتہ داروں کے وراثت میں مقررہ حصے بیان کرتی ہیں، جن میں سے دو درج زیل ہیں:

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللهِ وَاللهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کے لیئے ترکے میں دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیئے آدھا حصہ، اور اس ( مرنے والے) کے والدین میں سے ایک کے لیئے ترکے میں چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد ہو ، لیکن اگر اس کی اولاد نہیں اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیئے تیسرا حصہ ہے اور اس کے ( ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارے والدین یا اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ (اللہ) کی طرف سے مقرر ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں تمہارا نصف حصہ ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں تمہارا چوتھا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تمہارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، لیکن اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے ( یہ تقسیم) تمہاری وصیت پر عمل یا ادائیگی قرض کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ اُس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی ہی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑے حوصلے والا ہے۔ (النساء 11 و 12 )​
مزید فرمایا:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

اے نبی (ﷺ) ! لوگ آپ سے فتوٰی مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ ( النساء : 176)​
عورت کا حصہ برابر بلکہ ” دوگنا ” بھی ہوسکتا ہے :
وراثت اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں کا نصف ملتا ہے ، تاہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باپ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی ( ماں کی طرف سے سگے ) بھائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سےہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گااور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دوگنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں۔ اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔
اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے –
مردوں کی نسبت خواتین کا حصہ نصف کب ہے ؟
یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی ہیں ، مثلاً درج ذیل صورتوں میں:
بیٹی کو وراثت میں بیٹے سے نصف ملے گا۔
عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا اور شوہر کو چوتھا، اگر مرنے والے / والی اولاد ہو۔
عورت کو چوتھا حصہ اور شوہر کو آدھا ملے گا اگر مرحوم / مرحومہ کی اولاد نہ ہو۔
اگر مرنے والے کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو تو بہن کو بھائی کے کل ترکے کا نصف ملے گا۔
مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟
اسلام میں خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ شادی سے پہلے باپ یا بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی رہائش، لباس اور دوسری مالی ضروریات پوری کرے اور شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر یا بیٹے کی ہے۔ اسلام مرد کو پابند کرتا ہے کہ وہ خاندان کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اس وراثت میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیڑھ لاکھ روپیہ چھوڑ کر مرجائے جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو 50 ہزار ملیں گے۔ ایک لاکھ روپے جو بیٹے کو ورثے میں ملیں گے وہ ان میں خاندان کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ خاندان پر تمام رقم یا یوں کہیے 80 ہزار روپے خرچ کردے۔ یوں درحقیقت اسے ورثے میں سے بہت کم حصہ ملے گا، یعنی 20 ہزار روپے، دوسری طرف بیٹی جس کو 50 ہزار ملیں گے وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ وہ تمام رقم خود رکھ سکتی ہے، کیا آپ وہ ایک لاکھ روپے لینے کو ترجیح دیں گے جن میں سے آپ کو 80 ہزار روپے یا زائد رقم اوروں پر خرچ کرنی پڑے یا وہ 50 ہزار روپے لیں گے جو مکمل طور پر آپ ہی کے ہوں؟
۔۔۔

پرامن ایٹمی پاکستان,مهجر الهند ارض الباكستان

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پرامن ایٹمی پاکستان
اسلام اور ایمان ہم سب کی ہے یہ پہچان
دستور اور قانون ہم سب کا ہے قرآن
تأسیس ہے اسکی شب نزول قرآن
تکریم ہے اسکی بنزول ملائکۃ الرحمان
ہم ہیں مہذب انسان ہم ہیں پاکستان
ہم ہیں مُحب انسان ،نہ پہنچائیں گے کسی کو نقصان
گر کوئی اٹھے شیطان ہم پر گرے عدوان
وہ بے ایمان ، وہی ہوگا صاحب خسران
65 کا ستمبر تاریخ ہے ہماری خوشبو وعنبر
اب کر دیا ہے ہند کو حیران وپریشان سیونٹین ٹھنڈر
گونجے گا دنیا میں فتح ونصرت کا اعلان
نہ کام آئیںگے تیرے مورتی واصنام کشمیر بنے گا پاکستان
جاری ہے تسخیر انسان اور جاری ہے درس حدیث وقرآن
ہم میں ہیں بہت سے فرزند مانند عبد القدیر خان
ہم ہیں ایٹمی پاکستان ہم ہیں محب انسان
ہے یہ ارض پاکستان بلوچستان تا کشمیر و بلتستان
{فبأی آلاء ربکما تکذبان}
اور تم رب کی کون کونسی نعمتوں کا کروگے انکار
جو کرے گا رب کی نعمتوں کا انکار پڑے گی اس پر پھٹکار

أسستِ على الإسلام بكلمة الإيمانِ
في شهر رمضان ليلة نزول القرآن
كم من دماء الشيوخ أرقتِ والشبان والصبيان
ونالوا أعلى الدرجات عند الله في الجنان
قوتكِ لواء التوحيد العزيز القوي المنان
ونِلنا قوة القنبُلية الذرية للباكستان
دفاعاً عن أهل الإسلام وردعاً على أهل العصيان
أهل الحسود من الهنود واليهود والصلبان
حذاراً يا أهل باكستان من فتنة عباد الأصنام والشيطان
يريدون أن يشعلوا النيران في أرضنا بلوشستان
إذا هم لم يميزوا الخير عن الشر فهم كالحيوان
يا معلمي الشبانِ ومهذبيهم قوموا بتربيتهم وتنمية باكستان
أهل الغيور فيك والجسور كأمثال عبد القدير خان
شكر الله مرافقيه ومساعديه من العرب والباكستان
وسيتم أهداف آبائنا في قريب الزمان (ان شاء الله)
تدبروا وتفكروا بصبر وحكمة لتنفيذ القرآن
ولا تستعجل أن العجلة من الشيطان فيستفيد أهل الطغيان
ومن استعجل قبل الأوان عوقب بالحِرمان
ونشكر الله العَلِي المنّان {فبأي آلاء ربكما تكذبان}

انکارِ حدیث الحاد کی جانب بڑھتاپہلا قدم

اس پر گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتاہے کہ الحاد کے حوالےسے لغوی اصطلاحی بحث کرلی جائے پھراصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔

الحاد کا لغوی معنی:

”میلان اور انحراف“ کا ہے ۔ (المنجدفی اللغۃ)
تفسیر روح البیان میں ہے:

”الالحاد فی الاصل: مطلق المیل والانحراف ومنہ اللحد لانہ فی جانب القبر“ (تفسیرسورۃ حم سجدۃ: 40)

”الحاد اصل میں ”مطلقاً اعراض وانحراف“ کے معنی میں آتا ہے، اسی لیےلحدوالی قبر کو لحد کہا جاتاہے، کیونکہ وہ بھی ایک جانب سے بنائی جاتی ہے“۔
تفسیر القرطبی میں مذکور ہے:

”الالحاد: المیل والعدول، ومنہ اللحد فی القبر، لانہ میل الی ناحیة منہ“ (تفسیرسورۃ حم سجدۃ: 40)

’’الحاد ”اعراض اور تجاوز“ کرنے کو کہا جاتا ہے، اسی مناسبت سے لحد والی قبر کےلیےبھی لحد کا لفظ استعمال ہوتا ہے، کیونکہ وہ بھی ایک کونے کی طرف مائل ہوتی ہے“۔

اصطلاحی معنی:

اصطلاح کے اندر ”الحاد“ سے ”الحاد فی الدین“ کا معنی ومفہوم مراد لینا شائع وذائع ہے، چنانچہ عرف میں اس لفظ کو ”الحاد فی الدین“ کے ساتھ ہی خاص کردیا گیا ہے، لہٰذا جب یہ لفظ بولا جائے تو اس سے دین کے اندر الحاد مراد ہوگا، نہ کہ مطلق الحاد، جیساکہ تفسیر کبیر میں مذکور ہے:
”فالملحد ھو المنحرف، ثم بحکم العرف اختص بالمنحرف عن الحق الی الباطل“(تفسیر حم سجدۃ: 40)
”ملحد“ اصل میں ”انحراف کرنے والے“ کو کہا جاتا ہے اور عرف میں اس لفظ کا استعمال ”حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والے“ پر ہوتا ہے “۔
اور تفسیر روح البیان میں مذکور ہے:

”ثم خص فی العرف بالانحراف عن الحق الی الباطل ای یمیلون عن الاستقامة“(تفسیرسورۃ حم سجدۃ: 40)

”پھر اس لفظ کو عرف میں حق سے باطل کی طرف انحراف کرنے والوں کے ساتھ خاص کردیاگیا، یعنی ان لوگوں پر اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو دین کی درست راہ سے پھر جاتے ہیں“۔
لغوی معنی کے اعتبار سے تو یہ عام ہے کہ کھلے طور پر انکار وانحراف کرے یا تاویلاتِ فاسدہ کے سہارے سے انحراف کرے، بہرصورت الحاد میں داخل ہے،
اصطلاح میں ”الحاد“ ایسے انحراف کو کہا جاتا ہے کہ ظاہر میں تو قرآن اور اس کی آیات پر ایمان وتصدیق کا دعویٰ کرے، مگر اس کے معانی اپنی طرف سے ایسے گھڑے جو قرآن وسنت کی نصوص اور جمہور امت کے خلاف ہوں اور جس سے قرآن کا مقصد ہی الٹ جائے، جیساکہ سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے:
”ھو تبدیل الکلام ووضعہ فی غیر موضعہ“ (تفسیر القرطبی ، سورۃ حم سجدۃ: 40)
”الحاد“ کلام کو تبدیل کرنے اور اسےاس کی جگہ پر نہ رکھنےکو کہا جاتا ہے“۔

آمدم برسر مطلب:

اس مختصر سی لغوی واصطلاحی تعریف کے بعد فی الوقت کچھ لوگ احادیث رسول ﷺ پر تنقید کرکے شکوک وشبہات کے ذریعے سے لوگوں کو گمراہ کرکے ان میں الحاد کو پھیلاناچاہتے ہیں ۔
ایسے لوگوں کا نبی کریم ﷺ کی احادیث پر طعن کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے۔
ملحدین اور منکرین حدیث میں کوئی خاص فرق نہیں، بلکہ منکر حدیث ہی الحاد کا سب سے بڑا داعی اور علمبردار ہوتاہے۔
نبی کریم ﷺ کے مبارک فرامین کی حجیت اور اس کی اہمیت اظہر من الشمس ہے ،اور محدثین نے اس باب میں بہت محنت کی اور صحیح کو ضعیف سے الگ کرکے بالکل واضح کردیاکہ اب کوئی بھی انسان ان مبارک فرامین سے کھلواڑ کی جرأت وجسارت نہیں کرسکتا۔
لیکن پھر بھی کچھ ایسے لوگ جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو ’’پھنے خاں‘‘ قسم کاسمجھتے ہیں انھوں نے اس طعن و تنقیص کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاہے۔
حقیقت میں یہ لوگ اس طعن وتشنیع کے ذریعے سے الحاد کے راستے کو کھول کر لوگوں کو گمراہی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔
ان میں ایک بڑا نام ایک قاری صاحب کا ہے جوکہ ’’فیس بکی ‘‘مفکر ودانشور سمجھے جاتے ہیں،عرب ملک کی کسی مسجد میں امام خطیب ہیں،فیس بک پر بڑے زوروشور سے اپنے ’’افکارعالیہ‘‘ کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں، موصوف کی فیس بک پہ آنے والی پوسٹیں اس بات کی غمازی ہیں کہ موصوف کواحادیث نبویہ سے خاص قسم کی الرجی ہے، بڑے عجیب بے ہودہ بھونڈے انداز میں احادیث بالخصوص احادیث صحیحین پر نیش زنی کرتے ہیں کہ اس باب میں اپنے پیشروؤں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔کبھی یہ قرآن کی سبع قراءات والی احادیث پر اعتراض کرتے نظر آئیں گے،کبھی اونٹوں کے پیشاب والی احادیث پر اعتراض کرتے نظر آئیں گے۔
ان کے یہ اور دیگر اعتراضات کے جواب علمائےاہل حدیث نے دفاع حدیث کے ضمن میں مدلل انداز میں اس وقت دئیے ہیں جب ان کے اکابرین نے یہ اعتراضات کیے تھے،ان کتب کی طرف مراجعت کرلی جائے تو کافی ہے ۔(آئینۂ پرویزیت،عقل پرستی اور انکار معجزات ،ازمولا عبدالرحمن کیلانی مرحوم،غلام احمد پرویز اپنی تصنیفات کے آئینے میں ا زپروفیسر دین محمد قاسمی)
حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ بھی اپنے ’’زریں خیالات‘‘ پیش کررہے ہیں یہ کوئی نئے نہیں ہیں بلکہ ان سے قبل کے لوگوں(منکرین حدیث چکڑالوی،پرویز، جیراج پوری اور غامدی وغیرہم ) نے اس قسم کی جوحرکات کیں اور ’’علمیت‘‘ کے نام پر جو کچھ اگلا اسے یہ لوگ چاٹ رہے ہیں اور اسے اور بھی متعفن کرکے معاشرے میں پھیلارہے ہیں ،انھیں ’’زلہ خواری ‘‘ کی پرانی عادت ہے نیا کچھ لانے کی ہمت نہیں بس پرانے گھسے پٹے اعتراضات کو نئے انداز میں لا کر لوگو ں میں پھیلا کرانھیں دین سے متنفر کرکے ان میں ’’ملحدانہ‘‘ سوچ کو پروان چڑھانے کی سعئ لاحاصل میں مگن ہیں۔
ایسے ہی ایک اور صاحب ہیں جوکہ شہر کراچی کی معروف سرکاری یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں اور اپنے آپ کو ایک مکتبہ فکر کے دینی ادارے کا فاضل بتاتے ہیں، ان موصوف کو ایم فل کی کلاس میں حدیث کامضمون پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی حضرت والا کلاس میں تشریف لائے شکل وصورت کہیں سے بھی معلوم نہیں ہوتاتھا کہ یہ صاحب حدیث کے استاذ ہیں اور حدیث پڑھائیں گے !۔
موصوف کی حالت یہ ہوتی تھی کہ کلاس میں تشریف آوری سے قبل ’’سگریٹ‘‘ سے’’شغل‘‘ فرماکر پھر کلاس میں قدم رنجہ ہوتے۔
انھوں نے حدیث کے پڑھانے سے زیادہ حدیث اور محدثین پر جس انداز میں نیش زنی کی یہ انہی کاہی خاصہ ہے۔
موصوف اپنے آپ کو ’’قرآن‘‘ کا محافظ بتاتے ہیں ،اور پھر ہر اس روایت پر نقد کرتے جوان کے خیال میں قرآن کے خلاف ہے۔
گفتگو سے یہی چھلک رہاتھا کہ موصوف نے اپنے پیشرو حضرات کا قئی شدہ مواد اتنا چاٹ لیاہے کہ اب ان سے یہ سب کچھ ٹھیک سے اگلابھی نہیں جارہا۔

موصوف کے چندایک ’’شہ پارے‘‘ ملاحظہ ہوں:

صحیح بخاری کی جمع قرآن سے متعلق حدیث جس میں یہ الفاظ ہیں:

ففقدت آية من سورة الأحزاب ، كنت أسمع رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقرأ بها ، فلم أجدها إلا مع خزيمة بن ثابت الأنصارى الذى جعل رسول الله – صلى الله عليه وسلم – شهادته شهادة رجلين ، وهو قوله ( من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه )(حدیث نمبر2807)

سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو جمع قرآن کی ذمہ داری سونپی گئی اس سلسلے میں انھیں سورہ احزاب کی مذکورہ بالاآیت نہیں مل رہی تھی پھر انھیں وہ آیت ایک صحابی رسول ﷺ سیدناخزیمہ بن ثابت کے پاس سے (لکھی ہوئی) دستیاب ہوئی۔
اس میں لفظ ’’فقدت‘‘ آیاہے جس سے موصوف یہ سمجھے کہ یہ آیت گم ہوگئی ہے حالانکہ شارح صحیح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس لفظ کی وضاحت کرتےہوئے فرمایاہے:

’’ والذي يظهر في الجواب أن الذي أشار إليه أن فقده فقد وجودها مكتوبة لا فقد وجودها محفوظة بل كانت محفوظة عنده وعند غيره‘‘(فتح الباری8/518)

’’اور یہ جو جواب میں گم والی بات کی طرف اشارہ ہے اس (گم ہونے)کا مطلب یہ ہے کہ انھوں (سیدنا زید) نے اسے لکھاہواکہیں نہیں پایاجبکہ یہ آیت انھیں اور دیگر صحابہ کو زبانی یاد تھی۔انھیں تحریری طورپر مطلوب تھی جوکہ سیدناخزیمہ کے پاس لکھی ہوئی مل گئی۔
اس واضح حدیث کا موصوف نے انکار کرتےہوئے فرمایاکہ ایسی کسی حدیث کاکوئی وجودہی نہیں ہے ،گویاکہ موصوف، امام بخاری رحمہ اللہ پر ’’حدیث گھڑنے‘‘ کاالزام لگاناچاہتے تھے لیکن اس کی ہمت نہ کرسکے۔
دوسرا موصوف کی عربی دانی کی حالت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
ایک موقع پر ہمارے دوست نے -جوکہ اسی ایم فل کی کلاس میں موصوف کے شاگردتھے- کہا کہ قرآن وحدیث کو سلف صالحین کی روشنی میں سمجھاجائے ورنہ اگر اپنی عقل سے خودہی سمجھنے کی کوشش کرےگا تو ٹھوکریں کھائےگا ،کہنےلگے کیا دلیل ہے؟ہمارے دوست نے قرآن کی آیت

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا(النساء:115)

پڑھی تو تو موصوف کہنے لگے کہ’’ میں کسی سلف کا مقلد نہیں ہوں‘‘۔
اسی سے اندازہ کرلیں کہ اس قسم کے لوگ جب ازخود قرآن فہمی کا دعویٰ کرتےہیں پھر کس طرح کی گمراہیاں پھیلاتے ہیں۔
مزید فرماتےہیں کہ’’ یہ نہیں ہوسکتاکہ نبی ﷺ دنیاسے جائیں تو قرآن کو لاوارث چھوڑجائیں کہ بعد میں اس کے اس طرح جمع کرنے کی نوبت آئے‘‘۔
پھر اس پر سورہ مریم کی آیت

(يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ)(مریم:6)

سے ایک عجیب قسم کا اچھوتا استدلال کرتے ہیں کہ ’’سیدنا زکریا علیہ السلام اپنا وارث مانگ رہے ہیں کہ جو ان کا اور آل یعقوب کاوارث ہو ، پھریہاں اس آیت کو پڑھ کرایک جذباتی قسم کا سوال کرتےہیں ’’کیا سیدنا زکریا علیہ السلام کے اثاثے جس کی حفاظت کےلیے وہ اللہ تعالٰی سے دعا کررہے ہیں ہمارےنبی کے اثاثے (قرآن)سے بڑھ کرہے؟ جو کہ نہیں ہے تو سیدنا زکریا علیہ السلام کو ان کے اثاثوں کی حفاظت کےلیے اللہ تعالیٰ وارث عطاکردے اور ہمارے نبی کے اثاثے کی حفاظت کےلیے کچھ بھی نہ ہو؟یہ نہیں ہوسکتاقرآن کی حفاظت کےلیے اس قسم کی روایت کی کوئی ضرورت ہی نہیں اپنی طرف سے یہ واقعہ گھڑلیاگیاہے۔جبکہ حقیقت یہ کہ موصوف اور ان سے قبل جتنے بھی اس قسم کے خیالات کے حامل گزرے ہیں ان کی تکلیف کا سب سے بڑا سبب وہ امام زہری رحمہ اللہ ہیں جوکہ اس حدیث کی سند میں ہیں اور حدیث کوبیان کرتےہیں۔ایسے لوگ تعلیم کے شعبہ میں اعلیٰ عہدوں پرفائز ہوکر کس حدیث ،ائمۂ حدیث و شعائر دین کا استہزاء کرکے بی اے ، ایم اے لیول کے طلباکے ذہنوں میں الحاد کازہر بھرتےہیں اور انھیں دین سے برگشتہ کرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو تعلیمی اداروں فکری ونظریاتی انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں ،جس کے معاشرے پر بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جہاں دہشت گردی کے خاتمے کےلیے قابل قدر کوششیں کاوشیں کررہی ہےوہاں ساتھ میں ضرورت اس امر کی بھی ایسے عناصر کی بھی بیخ کنی کی جائے جو فکری اور نظریاتی انتہاپسندی پھیلارہےہیں ان کےساتھ آہنی ہاتھو ں نپٹاجائے ۔’’بغض امام زہری ‘‘ کےحوالے سے مولاناامین ا حسن اصلاحی صاحب کی کتب ملاحظہ کرلی جائیں تو سب کچھ واضح ہوجاتاہے ،اصلاحی صاحب نےاپنی کتب کے بعض مقامات پر امام زہری رحمہ اللہ کو ’’ یہود کا ایجنٹ‘‘ بتایاہے۔(نعوذباللہ من ذلك)
یہ کچھ امور تھے جن کو سامنے رکھ کر یہ بتانے کی کوشش کی
ہے کہ یہ عناصر غیر محسوس انداز میں نبی مکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ میں تنقیص کرکے شکوک وشبہات کے ذریعے طلبا عوام میں الحاد کوفروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسوں کے شبہات کاعلمی اسلوب میں جائزہ لے کر ان کی خیانتوں کو بیان کرکے ان کے دجل سے عامۃ الناس کو آگاہ کرکے ان کے دام تزویرسے انھیں محفوظ رکھاجائے۔
اللہ تعالیٰ حق کی طرف ہم سب کی رہنمائی کرے اور اس پر ہم سب کو مرتے دم تک قائم رکھے آمین۔

اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ

حدودوتعزیرات اسلامیہ کے بارہ میں بہیمانہ تصور

عصر حاضر میں جرائم نے ایک عالمگیر وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دنیا کا کوئی خطّہ محفوظ و مصون نہیں ۔ تمام ممالک ان کی لپیٹ میں ہیں چاہےوہ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ ۔ ان کا دائرہ معاشرہ کے تمام طبقات تک پھیلا ہوا ہے۔ کسی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھ لیجئے، وہ ، چوری، اغوا،قتل،ڈکیتی، اسمگلنگ، زنا بالجبر،جنسی تشدد، لوٹ کھسوٹ، بچوں کی خرید و فروخت ، رحم مادر میں بچیوں کا قتل، جبری مزدوری، شراب نوشی ، رشوت اور منشیات کا استعمال الغرض مختلف جرائم کے واقعات اور ان کی رپورٹوں سے بھرا ہوتا ہے۔
جرائم کے خاتمے کی تدابیر ڈھونڈنے میں دانشورانِ ملک وملت اور ارباب حل و عقد سرگرم ہیں لیکن جرائم اور واردات کم یا ختم ہونے کے بجائے بڑھتےجارہے ہیں ، یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اسلام کے قوانین جرائم کے خاتمےمیں کس حد تک ممد ومعاون ہیں۔اہل علم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان قوانین کی معنویت کو آشکارا کریں اور ان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کودور کریں۔
اسلام کے تعزیری قوانین کے مطالعہ و جائزہ کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ قوانین آزمودہ ہیں۔ جس زمانہ میں یہ قوانین نافذ کئے گئے اس زمانے میں سرزمین عرب فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ لوٹ مار، چوری ڈکیتی، قتل و غارت گری ،عصمت دری، شراب نوشی اور دیگر معاشرتی برائیاں، جن کا آج ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں، عام تھیں، ان قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں یہ برائیاں تقریباً ختم ہوگئیں اور پورے خطے میں امن وامان کا دور دورہ ہوگیا۔
شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
1۔حد 2۔قصاص 3۔تعزیر
حد کی جمع حدود ہے۔جس کا لغوی معنی منع ، روکنا اورخط کھینچنا کے ہیں ،آخر الذکر سے متعلق امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ’’المفردات‘‘ میں لکھاہے:

الحد الحاجز بين الشيئين الذى يمنع اختلاط احدهما بالآخر، يقال حددت كذا جعلت له حدا يميز و حدالدار ما تتميز به عين غيرها(المفردات في غريب القرآن:109)

’’حدوہ ہے جو دو چیزوں کے درمیان حد فاصل قائم کرتا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے ملنے سے روکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے یہ حد لگا دی یعنی خط کھینچ دیا تاکہ تمیز ہو سکے اور گھر کی حد جو اسے دوسرے گھر سے علیحدہ کرتی ہے وہ اس کا خط ہوتا ہے۔‘‘

حد کی اصطلاحی تعریف

کسی جرم کی وہ سزا جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں مقرر کر دی گئی ہو، اس میں کمی و بیشی کا اختیار پیغمبر ﷺ کو تھا، نہ حاکم وقت یا قاضی وقت کو ہے،حدیث میں جہاں بھی لفظ حد استعمال ہوا، اکثر و بیشتر کسی جرم کی سزا کے لئے ہی استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

ادْفَعُوا الْحُدُودَ مَا وَجَدْتُمْ لَهُ مَدْفَعًا (سنن ابن ماجہ : 2545 (ضعیف)

’’تم جرم کی سزا کو ختم کر دیا کرو، اگر اس کے ختم کرنے کی کوئی صورت نظر آئے۔‘‘
عُقُوبَة مقدرَة وَجَبت على الْجَانِي (المعجم الوسیط:160 مادۃ ’حد‘)
’’شرعی اصطلاح میں مجرم کے لئے وہ مقرر کردہ سزا جو اس کے لئے واجب ہے۔‘‘
قرآن و سنت میں جن جرائم کی سزائیں متعین کی گئی ہیں وہ یہ ہیں:
1۔ زنا کرنا 2۔ جھوٹی تہمت لگانا
3۔ چوری کرنا 4۔ شراب پینا
5۔ ڈاکہ ڈالنا 6۔ مرتد ہونا
قتل نفس کو اس لئے حدوداللہ میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ وہ بندے کا بندے پر حق ہے اور اس کے لئے قرآن و سنت میں قصاص و دیت کا پورا قانون موجود ہے۔
تعزیر کی لغوی تعریف
لغوی معنی: تعزیر، عزّر، يعزّر، تعزيراً سے ماخوذ ہے، جس کا معنی روکنا، منع کرنا
النصرة مع التعظيم
اور تعظیم کے ساتھ مدد کرنا۔ (المفردات، ص:333)
قرآن مجید میں بھی اس سے مراد مدد کے ہےجیسا کہ فرمان الٰہی ہے: وَعَزَّرْتُمُوهُمْ (المائدہ: 12)
’’ اور ان کی مدد کرو گے۔‘‘
اصطلاحی مفہوم
امام راغب اصفہانی تعزیر کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

والتعزير ضرب دون الحد فان ذلك تاديب والتاديب نصرة معه (المفردات، ص:333)

’’تعزیر کا معنی وہ سزا ہے جو حد سے کم تر ہوتی ہے اور یہ دراصل تادیب ہوتی ہے اور تادیب در حقیقت کسی کی برائی سے روکنے میں مدد ہوتی ہے۔‘‘
صاحب فقہ السنۃ رقمطراز ہیں :

التاديب على ذنب اى انه عقوبة تاديبه يفرض الحاكم على جناية او معصية لم يعين الشرع لها عقوبة (فقہ النسۃ: ج 2،ص 497 )

’’حاکم وقت کسی جرم یا گناہ پر ایسی سزا نافذ کرے جو شریعت نے مقرر نہیں کی۔‘‘
مذکورہ بالاسطور سے معلوم ہوا کہ تعزیرایسے جرائم کی سزا کو کہتےجوقرآن و سنت میں متعین نہ ہو اس صورت میں مجرم پر حد یا قصاص تو جاری نہیں کیا جائے گا لیکن اسے آزاد بھی نہیں چھوڑاجائےگا بلکہ اس کے جرم کے مطابق اسے کوئی دوسری سزا دی جاتی ہے۔یہ سزا جسمانی بھی ہوسکتی ہے مالی بھی۔ قید و بند کی بھی ہوسکتی ہے اور شہریا ملک بدری کی بھی۔
رسول اکرم ﷺنے تعزیر کی سزا دس کوڑے رکھی ہے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شراب کے بارے میں چالیس کوڑوں کی حد کو اَسی (80) کوڑوں میں تبدیل کیا۔
اسلامی سزاؤں کی حکمت وفلسفہ
اسلامی حدود و تعزیرات کابنیادی فلسفہ یہ ہے کہ معاشرے کے اندر امن اور استحکام پیدا ہو۔اس کی عملی مثال ہم قرون اولیٰ سے پیش نہیں کرتے بلکہ آج کی دنیا میں سعودی عرب کا معاشرہ اس کی بہترین مثال ہے، آج سعودیہ میں جرائم کا تناسب ساری دنیا سے کم کیوں ہے؟
اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کہلانے والے، سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تسلیم کروانے والے کیا یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے ممالک میں جرائم کا تناسب سعودیہ سے کم ہے؟
سعودی عرب کے رہنے والے آسمانوں سے نہیں اترے اور نہ وہ فرشتے ہیں اگر آج وہاں جرائم کی تعداد کم ہے، معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ ہے، گاڑیاں بغیر لاک کے کھڑی رہتی ہیں، نماز کے اوقات میں دوکاندار کھلی دکانیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، ڈکیتیاں اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں قرآن و سنت کے مطابق حدود و تعزیرات کا نظام نافذ ہے اس کی برکتیں معاشرے میں دیکھنے والوں کو نظر آتی ہیں۔
اسلامی حدود و تعزیرات کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سزائیں باعث عبرت ہوتی ہیں، اسی لئے قرآن و سنت میں انہیں سرعام نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ نور میں ہے:

وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ

اور اس (جرم زنا) کی سزا کا مشاہدہ مومنین کی ایک جماعت ضرور کرے۔ (النور:2)
رسول اکرم ﷺاور خلفائے راشدین کے دور میں جتنی بھی سزائیں دی گئیں وہ سب سرعام مسجد نبوی کے سامنے دی گئیں۔ سیدناماعز بن مالک اسلمی اور غامدیہ کو مسجد نبوی کے سامنےرجم کیا گیا اورمخزومیہ کا ہاتھ مسجد نبوی کے سامنے کاٹا گیا، اس پر کسی نے چوں و چرا نہ کی لیکن حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے نام نہاد دانشور اور بعض جدید تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ لوگ یہ کہتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے کہ “سرعام سزا دینا انسانیت کی توہین ہے۔” تو کیا نعوذباللہ من ذلک، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انسان نہ تھے؟
سعودی عرب میں قرآن و سنت کے احکام کے عین مطابق آج بھی سزائیں بیت اللہ کے سامنے، مسجد نبوی کے سامنے اور ہر شہر میں جامع مسجد کے سامنے نافذ کی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔ مجرموں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انسانی فطرت میں بعض اوقات جرم بڑھ رہا ہوتا ہے لیکن انسان نے اس پر عمل نہیں کیا ہوتا۔ سزا کے مشاہدے سے ایسے مجرم ضمیر خود بخود اپنی اصلاح کرتے ہیں اور جرم سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے ہیں۔
اسلامی حدود و تعزیرات کی سب سے بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ جس آدمی کو اس جہاں میں اسلامی شریعت کے مطابق سزا مل جائے تو آخرت میں اللہ کی طرف سے اسے کوئی سزا نہیں دی جاتی گویا وہ آدمی پاک و صاف ہو کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے۔
اللہ نے انسان کی تخلیق کی اور وہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے اور کتنی سزا سے ہو سکتی ہے، لہذا اسلامی حدود و تعزیرات کا نظام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، ایک شادی شدہ مرد و عورت کے لئے جب رجم کی سزا متعین ہوئی تو یہ ان کے ساتھ زیادتی نہ تھی بلکہ تجربے اور مشاہدے میں یہی آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھتا ہے تو غیرت کے مارے دونوں کو قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور یہی سزا جب اسلام سناتا ہے تو یہ ظالمانہ نہیں اور نہ صرف فطرت کے عین مطابق ہے بلکہ اپنے اندر بہت سی سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کی اصلاح کی بھی ضامن ہے۔
اللہ تعالیٰ آیتِ قصاص کے آخر میں فرمایا ہے:

وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَوٰۃٌ یَاْ أُولِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ179)

’’اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل و خرد رکھنے والو۔ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کروگے۔‘‘
اسلامی تعزیرات کی حکمت پریہ ایک معنی خیز آیت ہے۔ قصاص میں قاتل کو بھی قتل کردینے سے بظاہر ایک اور جان کا ضیاع ہوتاہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ اس میں حیات ہے۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امام قرطبی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ آیت بلاغت اور ایجاز کا نمونہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب قصاص کو نافذ کیا جائے گا تو جو شخص کسی کو قتل کرنے کا خواہاں ہوگا وہ اس خوف سے رک جائے گا کہ بدلے میں اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ اس طرح دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ عربوں میں جب کوئی شخص کسی کو قتل کردیتاتھا تو دونوں کے قبیلے غیظ و غضب سے بپھر جاتے تھے اور ان میں باہم جنگ ہونے لگتی تھی۔ اس طرح بہت بڑی تعداد کے قتال کی نوبت آجاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جب قصاص کو مشروع کیا تو تمام لوگ قانع ہوگئے اورانھوں نے باہم لڑائی جھگڑا بند کردیا۔ اس طرح انھیں زندگی مل گئی۔‘‘( القرطبی، الجامع لاحکام القرآن2/256)
اسلامی سزاؤں کے نفاذ سے ہر دور میں ان کے مطلوبہ مقاصد حاصل ہوتے رہے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی اگر دنیا کے مختلف ممالک میں رونما ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت پورے طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جن ممالک میں یہ سزائیں نافذ ہیں ان کے مقابلہ میں جن ممالک میں نافذ نہیں ہیں ان میں جرائم کا تناسب کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔
عقل پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ اور ظالمانہ ہیں، غیر فطری اور غیر انسانی ہیں جبکہ یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون سزاؤں سے مستثنیٰ نہیں، وہ ممالک جو کسی مذہب کو نہیں مانتے، دہریت و الحاد ان کا ایمان ہے، وہ بھی اپنے ملکی قانون میں سزاؤں کا ایک نظام رکھتے ہیں اور وہ معمولی جرائم پر اس قسم کی سزائیں بھی دیتے ہیں جن کا تصور بھی قرآن و سنت میں نہیں کیا جا سکتا۔
ذرائع کے مطابق چین میں چار انجنئیرز کو گولیوں سے اڑا دیا گیا، ان کا جرم یہ تھا کہ جس ڈیم کی تعمیر پر ان کی ڈیوٹی تھی وہ گر گیا۔ اس طرح دنیا کے ہر ملک کے قانون میں سزاؤں کا ایک نظام ہے جو انسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام میں جرم کم ہوتا ہے سزا زیادہ ہوتی ہے یا سزا کم ہوتی ہے اور جرم بڑا ہوتا ہے لیکن اس نظام کا مقصود بھی فرد اور معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام نے حدود تعزیرات کا جو نظام دیا ہے اس سے ہی جرائم کا استحصال ہوسکتاہے۔
اللہ ہی نے انسان کی تخلیق کی اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی اصلاح کیسے ہو سکتی ہے، یہ بات معروف ہے کہ جو انجنئیر جس مشینری کا مُوجد ہوتا ہے وہ اس کی سب سے بہترین اصلاح کر سکتا ہے۔ امریکی معاشرے کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہاں لوگ زیور تعلیم سے آراستہ ہیں۔
مقام افسوس یہ ہے کہ ان مہذب لوگوں نے جرائم کی تعریف بدل ڈالی ہے۔ ان کے ہاں زنا صرف وہ ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ زبردستی کیا جائے، اگر باہمی رضامندی سے بدکاری کی جائے تو یہ زنا کی تعریف میں نہیں آتی اور مستوجب سزا نہیں بلکہ ایسے مادر پدر آزاد معاشروں میں اگر ماں باپ اپنے بچوں کو منع کرنے کی کوشش کریں تو وہ قابل گردن زنی قرار پائیں۔
بہرحال یہ بات واضح ہے کہ دنیا کا کوئی قانون سزا کے نظام سے مستثنیٰ نہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ سزا سے اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ جیسے اہم مقاصد حاصل ہوتے ہیں، اس لئے اسلام نے جو سزائیں مقرر کی ہیں، وہ نہ صرف اصلاح نفس و معاشرہ کے لئے کام آتی ہیں بلکہ یہ ایسا نظام ہے جو باعث برکت و رحمت ہے۔ جو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو کا محافظ بھی ہے اور دنیا میں باعث امن اور آخرت کے لئے فوز و فلاح کا ضامن بھی ہے۔

خلاصۂ بحث :

عبد القادر عودۃ اسلامی حدود وتعزیرات کا راز اپنے لفظوں میں اس طرح بیان فرماتے ہیں :
ولعل السر في نجاح الشريعة أن عقوباتها وضعت على أساس طبيعة الإنسان, ففي طبيعة الإنسان أن يخشى ويرجو ۔۔۔ وقد

استغلت الشريعة طبيعة الإنسان فوضعت على أساسها عقوبات الجرائم عامة وعقوبات جرائم الحدود والقصاص خاصة (التشريح الجنائى الاسلامى ج 2، ص 713،714)

’’یقینا شریعت کی کامیابی کا راز اس کی سزاؤں میں ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، شریعت نے انسانی فطرت کا محاصرہ کیا ہے ….اور فطرت انسانی کی اساس کی بنیاد پر عام جرائم کی سزائیں متعین کی ہیں جبکہ حدود اور قصاص کے لئے خاص سزائیں مقرر کی ہیں۔‘‘
اسلام کے تعزیری قوانین کی حکمت و معنویت سے جو حضرات ناواقف ہیں وہ ان پر مختلف پہلوؤں سے اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں وحشیانہ ، بہیمانہ اور سفّاکانہ ہیں بلکہ آج جو مسلمان ترقی پسند کہلاتے ہیں اور جنہوں نے اسلام کی تعلیم براہ راست نہیں بلکہ مغربی اہل قلم کے توسط سے کی ہے، وہ بھی محض غلط فہمی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی پوری تعلیم میں کوئی ایک بات بھی ایسی موجودنہیں جسے قدامت یا تاریک خیالی کا مظہر قرار دیاجاسکے۔
اسلامی سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہارہمدردی تو کرتے ہیں لیکن درحقیقت وہ پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کررہے ہوتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے ، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ پورے معاشرے کیلئے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔ حجۃ الاسلام ابو حامد محمدغزالی مقاصد شریعت کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وَهَذِهِ الْأُصُولُ الْخَمْسَةُ حِفْظُهَا وَاقِعٌ فِي رُتْبَةِ الضَّرُورَاتِ، فَهِيَ أَقْوَى الْمَرَاتِبِ فِي الْمَصَالِحِ وَمِثَالُهُ: قَضَاءُ الشَّرْعِ بِقَتْلِ الْكَافِرِ الْمُضِلِّ وَعُقُوبَةِ الْمُبْتَدِعِ الدَّاعِي إلَى بِدْعَتِهِ فَإِنَّ هَذَا يُفَوِّتُ عَلَى الْخَلْقِ دِينَهُمْ، وَقَضَاؤُهُ بِإِيجَابِ الْقِصَاصِ أَدَبُهُ حِفْظُ النُّفُوسِ، وَإِيجَابُ حَدِّ الشُّرْبِ إذْ بِهِ حِفْظُ الْعُقُولِ الَّتِي هِيَ مِلَاكُ التَّكْلِيفِ وَإِيجَابُ حَدِّ الزِّنَا إذْ بِهِ حِفْظُ النَّسْلِ وَالْأَنْسَابِ، وَإِيجَابُ زَجْرِ الْغُصَّابِ وَالسُّرَّاقِ إذْ بِهِ يَحْصُلُ حِفْظُ الْأَمْوَالِ الَّتِي هِيَ مَعَاشُ الْخَلْقِ وَهُمْ مُضْطَرُّونَ إلَيْهَا وَتَحْرِيمُ تَفْوِيتِ هَذِهِ الْأُصُولِ الْخَمْسَةِ وَالزَّجْرِ عَنْهَا يَسْتَحِيلُ أَنْ لَا تَشْتَمِلَ عَلَيْهِ مِلَّةٌ مِنْ الْمِلَلِ وَشَرِيعَةٌ مِنْ الشَّرَائِعِ الَّتِي أُرِيد بِهَا إصْلَاحُ الْخَلْقِ (المستصفی ص: 174)

’’ان پانچوں اصولوں کی حفاظت ضروریات’’انتہائی ناگزیر چیزوں‘‘ کے درجے میں ہے، اس لیے کہ یہ انسانی مصالح کااعلیٰ ترین درجہ ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ شریعت نے اس منکر دین کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے جو دوسروں کو گمراہ کرنے کے درپے ہواور اس بدعتی کو بھی جو دوسروں کو اپنے خود ساختہ عقیدہ کی طرف دعوت دے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ نے قصاص کو واجب کیا ہےتاکہ انسانی جانیں محفوظ رہیں۔ شراب نوشی پر سرزنش رکھی تاکہ عقلیں محفوظ رہیں، جن کی وجہ سے انسانوں کو احکام کامکلّف کیا گیا ہے۔ زنا پر حد واجب کی تاکہ نسل اور نسب محفوظ رہیں۔ چوروں اور لٹیروں کی سرزنش کا حکم دیا ہے، تاکہ اموال محفوظ رہیں، جو انسانوں کی معیشت کا ذریعہ ہیں اور جن کے وہ محتاج ہیں۔ ان پانچوں بنیادی اصولوں کی پامالی کی ممانعت اور اس پر تنبیہ و سرزنش دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب میں پائی جاتی ہے۔
درج بالا گزارشات کو مرتب کرنے کے لیے جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں :
1۔حجۃ اللہ البالغۃ لشاہ ولی اللہ (مترجم)
2۔فقہ السنۃ لسید سابق (مترجم)
3۔المستصفی لابی حامد الغزالی
4۔التشريح الجنائى الاسلامى لعبد القادر العودۃ
5۔المفردات لإمام راغب الاصفہانی
6۔الحدود والتعزيرات عند ابن القيم لأبی زید بکر بن عبد اللہ (المتوفی 1429ھ)

قرآنِ کریم کے مسلّمہ معجزات جنہیں اغیار بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے

رسول اللہ ﷺ اپنے خطبہ کے شروع میں یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے’’جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
ہدایت اور گمراہی کے کچھ اسباب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں اللہ ان کے لیے (ہدایت) کے رستے کھول دیتا ہے۔(العنکبوت : 69)

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللهِ لَا يَهْدِيهِمُ اللهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (نحل:104)

اور جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اس مختصر مضمون میں قرآن کی آیات پیش کی گئی ہیں جن سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتی ہے کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے شک اور شبہ سے پاک ہے اس کی بتائی ہوئی ہر بات سچ اور حق ہے جو شخص حق کو سمجھنا چاہے اس کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے اللہ رب العزت ہم کو کتاب وسنت کی اتباع کی توفیق عطا فرماتےکیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔
1۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرۃ:2)

’’ قرآن مجید شک سے پاک ہے۔‘‘
قرآن مجید نے جو بھی باتیں بیان کی ہیں کسی ایک بات میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے آج تک قرآن کی کسی ایک بات کو بھی کوئی غلط ثابت نہیں کر سکا نہ قیامت تک کوئی غلط ثابت کر سکتاہے۔
2۔ فرمان الٰہی ہے :

فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ ( البقرۃ : 23)

’’ا س جیسی کوئی ایک سورت بھی نہیں بناسکتا۔ ‘‘
یہ چیلنج چودہ صدیوں سے آج تک موجود ہے کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی اس جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکا نہ قیامت تک بنا سکتا ہے یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔
3۔رب العالمین کا فرمان ہے :

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (نوح: 16)

اللہ تعالیٰ نے چاند کو روشن اور سورج کو چراغ بنایا ۔
آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ درحقیقت چاند کی سطح سے منعکس ہونے والی شمسی روشنی سے چاند چمکتا نظر آتا ہے۔
قرآن مجید نے یہ حقیقت 14 سو سال قبل بتا دی تھی۔
4۔ فرمان الٰہی ہے :

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا

’’ کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا اور پہاڑوں کو میخیں (نہیں بنایا) ۔(نبا:6۔7)
پہاڑ زمین پر گڑے ہوتے ہیں پہاڑ جتنا زمین کے اوپر ہیں اس سے دس گناہ زیادہ زمین کے اندر ہیں یہ حقائق قرآن نے بیان کئے جو آج ہوبہو پورے ہورہے ہیں ۔
5۔ اللہ کا فرمان ہے:

فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ يَّخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ

’’ انسان دیکھے اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے اسے ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیاہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ ( طارق 5۔7)
آج جدید سائنس یہ تسلیم کررہی ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا ہوتا ہے جو سینے اور پیٹھ کے بیچ سے نکلتا ہے قرآن نے اس بات کو 1400 برس قبل ہی بتا دیا تھا ۔
6۔ فرمان ربانی ہے :

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ

’’ بلاشبہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر ہم نے اسے ایک محفوظ قرار گاہ(رحم) میں نطفہ بنا کر رکھا پھر ہم نے نطفے کو خون کی پھٹکی بنایا پھر ہم نے خون کی پھٹکی کو لوتھڑے میں ڈھالا پھر ہم نے لوتھڑے سے ہڈیاں بنائیں پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا پھر ہم نے اسے ایک اور ہی صورت میں بنادیا پس بڑا بابرکت ہے اللہ جو سب سے عمدہ بنانے والا ہے۔‘‘ (مومنون : 12۔14)
یہ وہ حقیقت ہے جو اللہ رب العزت نے کئی صدیاں پہلے بیان فرما دی تھی اور آج کی جدید سائنس اسے لفظ بہ لفظ تسلیم کرتی ہے کہ انسان کی پیدائش رحم مادر میں بالکل اسی طرح ہوتی ہے یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے کیونکہ قرآن نے جو حقیقت بیان کی تھی اس وقت دور جدید کے کوئی آلات موجود نہ تھے جو اس کیفیت کو بیان کرتے ۔
7۔ اللہ کا فرمان ہے :

اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهٗ بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَهٗ ( القیامۃ : 3۔4)

’’کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کر پائیں گے کیوں نہیں بلکہ ہم تو اس کی پور پور ٹھیک کرنے پر قادر ہیں ۔
پوری دنیا میں کوئی بھی دو انسان ایسے نہیں ہیں جن کی انگلیوں کے نشانات ایک جیسے ہوں آج پوری دنیا میں انسان کی شناخت اس کی انگلیوں کے نشان سے کی جارہی ہے قرآن نے قیامت والے دن بھی انسان کو دوبارہ اٹھانے کا تذکرہ کرتے ہوئے انگلیوں کے پوروں کا تذکرہ کیا ۔
آج انگلیوں کے پوروں، نشانات کی جو حقیقت کھلی ہے 14 صدیاں قبل یہ حقیقت کس کو معلوم تھی یقیناً صرف اللہ رب العزت کو ہی معلوم تھی۔
8۔ فرمان الٰہی ہے :

سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ

’’ پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کئے ان چیزوں کے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان کی اپنی جنس( نوع انسانی) کے اور ان اشیاء کے بھی جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ۔ ( یس : 36)
آج سائنس یہ انکشاف کر رہی ہے کہ ہر چیز کے جوڑے ہیں پودوں اور پھولوں کے بھی اللہ نے یہ خبر 1400 برس قبل اپنے نبی علیہ السلام پر وحی کے ذریعے سے بتادی تھی پتا چلا کہ قرآن آسمانی کتاب ہے اللہ کا کلام ہے شک سے پاک ہے ۔
9۔ فرمان الٰہی ہے:

وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰـنًا حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا (احقاف:15)

’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ(30 مہینے) کی مدت ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:

وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ

’’مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہتا ہے ۔ ( البقرۃ : 233)
پہلی آیت میں حمل اور دودھ پلانے کی مدت 30 ماہ بیان ہوئی دوسری آیت میں صرف دودھ پلانے کی مدت 24 ماہ بیان ہوئی 30 ماہ سے 24 ماہ دودھ پلانے کے منفی کئے تو باقی 6 ماہ بچے قرآن کے اعتبار سے حمل کی مدت کم سے کم 6 ماہ ہوئی۔
جنین کی پیدائش کی مدت 9 ماہ شمار کی جاتی ہے مگر آج کی جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں 6 ماہ کی مدت گزارنے کے بعد صحیح سالم پیدا ہوسکتاہے۔
یہ حقیقت قرآن نے کئی صدیاں قبل بیان کر دی تھی۔
10۔ اللہ کا فرمان ہے:

وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ

’’ ان کے لیے ایک نشانی( یہ بھی) ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور ان کے لیے اس جیسی اور چیزیں پیدا کیںجن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔ (یس 41۔42)
قرآن نے یہ حقیقت کئی سو سال قبل بیان کر دی تھی غور کریں اللہ فرما رہا ہے کہ ان کے لیے کشتی جیسی اور سواریاں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں ۔
کتنی جیسی سواریاں کونسی ہیں ؟ کار ، ٹرین، جہاز……
کیا یہ سواریاں اس دور میں تھیں جس وقت قرآن نازل ہوا ہرگز نہیں یقیناً ہم کو ماننا پڑے گا قرآن اللہ کا کلام ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ
اس جیسی بہت ساری باتیں مزید بتائی جاسکتی ہیں قرآن کی ہر بات بالکل سچ اور حق ہے ۔
جو حق کو سمجھنا چاہتا ہو اپنے آپ کو آگ سے بچانا چاہتا ہو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے کے بعد نبی علیہ السلام کے طریقے کو اپناتے یقیناً یہ ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
اللہ رب العزت سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں کیونکہ توفیق دینے والی ذات تو صرف اللہ کی ہے۔

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے عقل پرستی اور انکارِ معجزات

پہلی بات

دین اسلام کی روشن تعلیمات سے بہرہ مندی فضل الٰہی کی مرہون منت ہے ہدایت ربانی کے چشموںسے فیض یاب ہونے کے لیے توفیق ایزدی لازمی امر ہے اسی کی وضاحت درج ذیل فرمان نبوی علیہ السلام سے ہوتی ہے ارشاد رسول مکرم ﷺ ہے :

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

’’ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ رکھتے ہیں اس کو دین کی سمجھ بوجھ عطا کرتےہیں۔‘‘(صحیح البخاری:71)
دین اسلام کی ہدایت کو قبول کرنے میں انسانوں کے مختلف درجات ہیں کچھ سعید لوگ ہدایت کے سرچشمے سے فوری طور پر سیرابی کی کوشش کرنے لگتے ہیں کچھ لوگ ہدایت کو قبول کرتے وقت سوچ وبچار اور معاشر ےکے رخ کو دیکھتے ہیں جبکہ کچھ لوگ دعوت دین کو صرف اسی وقت قبول کرتے ہیں جب اس دعوت کے مدعی سے معجزات کا ظہور دیکھتے ہیں ۔ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الهُدَى وَالعِلْمِ، كَمَثَلِ الغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ، قَبِلَتِ المَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الكَلَأَ وَالعُشْبَ الكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ، أَمْسَكَتِ المَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لاَ تُمْسِكُ مَاءً وَلاَ تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ، وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا، وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ، قَاعٌ يَعْلُوهُ المَاءُ، وَالصَّفْصَفُ المُسْتَوِي مِنَ الأَرْضِ (صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ بَابُ فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ)

’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت زیادہ سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے حصے ایسے بھی ہیں جہاں پر پانی پڑتا ہے وہ بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا‘‘۔

معجزہ کسے کہتے ہیں :

” معجزہ“ کا مطلب عاجز کر دینا ، عقل کو حیران کر دینا، اسباب کے بغیر کسی کام کا ہوجانا، وغیرہ معجزہ کہلاتے ہیں۔
شرح العقیدۃ الطحاویہ میں امام علی بن علی بن محمد بن أبی العز الدمشقی معجزہ کی لغوی تعریف میں رقمطراز ہیں :

المعجزة في اللغة تعم كل خارق للعادة

’’لغت میں ہر خرق عادت کو معجزہ کہتے ہیں۔‘‘
اسی طرح شرح عقائد نسفی میں ہے کہ :
المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علی ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علٰی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ
مفہوم : معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف مدعی نبوت کے ہاتھ پر بطور چیلنج ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں ۔
شارح بخاری امام قسطلانی رحمہ اللہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف “المواھب اللدنیہ ” کے باب معجزات میں پہلی فصل کے تحت

معجزہ کی تعریف اور شرائط کے تحت رقمطراز ہیں :

معجزہ کی تعریف : معجزہ ایک ایسا خلاف عادت کام ہوتا کہ جس کے ساتھ چیلنج متصل ہوتا ہے اور یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی صداقت پر دلالت کرتا ہے ۔
معجزہ کی وجہ تسمیہ : اسے معجزہ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انسان اسکی مثل لانے سے قاصر ہوتا ہے ۔

معجزہ کی شرائط

امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس کے لیے پانچ شرائط ذکر کی ہیں اور فرمایا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو وہ فعل معجزہ نہیں کہلاتا وہ پانچ شرائط حسب ذیل ہیں :
1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ فعل اس جنس کا ہو جس پر حق تعالیٰ کے سوا اور کسی کو قدرت حاصل نہ ہو مثلاً ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے اور اپنا معجزہ یہ پیش کرتا ہے کہ وہ حرکت بھی کرتا ہے اور ٹھہرتا بھی ہے ، اٹھتا اور بیٹھتا بھی ہے لیکن اس کا یہ فعل معجزہ نہیں کہلائے گا کیونکہ اس پر مخلوق کو بھی قدرت حاصل ہے ہاں سمند ر کا رک جانا، چاند کا دو ٹکڑے ہوجانا اور اس قسم کے دوسرے واقعات معجزہ کہلائیں گے کیونکہ ان پر کسی انسان کی قدرت حاصل نہیں ۔
2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ فعل خارق عادت ہو کیونکہ اگر کوئی شخص کہے کہ میرا معجزہ یہ ہے کہ میں رات کے بعد دن کو لانے والا ہوں اور مشرق سے سورج کو نکالنے والا ہوں تو اسکا یہ فعل معجزہ نہیں کہلائے گا کیونکہ ان باتوں کو اگرچہ حق تعالیٰ کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں کر سکتا لیکن ایک تو اللہ تعالیٰ نے یہ اس کی نبوت کے دعوی کے ثبوت کے لیے نہیں کیا ۔ دوسرے یہ خارق عادت نہیں ہے بلکہ عادت کے عین مطابق ہے ہاں اگر اللہ تعالیٰ عصا کو اژدھا بنا دیتے یا اگر کسی پتھر کو پھاڑ کر اس کے درمیان میں سے کوئی اونٹنی نکال دیتے یا جس طرح کسی چشمہ سے پانی نکلتا ہے اس طرح انگلیوں سے پانی نکال دیتے یا اس طرح کا کوئی اور خرق عادت واقعہ ظہور میں لے آتے تو یہ معجزہ ہوتا۔
3۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مدعی نبوت اس کے ساتھ یہ دعوی بھی کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے کہنے پر یہ معجزہ دکھلائے گا، مثال کے طور پر وہ یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دعوی نبوت کی تصدیق کے لیے اس پانی کو تیل بنا دے گا یا زمین کو اس کے لیے حرکت میں لے آئے گا ۔
4۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ معجزہ مدعی نبوت کے دعوی کی تصدیق بھی کرے کہ میرے دعوئ نبوت کی دلیل کے طور پر میرا ہاتھ یا یہ جانور بولنے لگے گا لیکن وہ بول کر یہ کہے کہ یہ شخص اپنے دعوی نبوت میں جھوٹا ہے تو اگرچہ خرق عادت کے طور پر ہاتھ یا جانور بولا ہے لیکن جو بولا ہے وہ اس کے دعوی کے خلاف ہے جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے کنویں میں اس غرض سے تھوکا کہ اس کا پانی زیادہ ہوجائے لیکن زیادہ ہونے کے بجائے اگلا پانی بھی سوکھ گیا تو یہ فعل بھی معجزہ نہیں ہے۔
5۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مدعی نبوت کے مقابلہ میں کوئی دوسرا شخص اس کی مثل نہ لاسکے لیکن اگر دوسرا شخص بھی مدعی نبوت کے مقابل میں وہی کام کر دکھائے تو اس مدعی نبوت کے معجزہ کا دعوی باطل ہوجائے گا اسی لیے قرآن حکیم میں معجزہ قرآن کے مقابلہ میں ساری دنیا کے انسانوں کو کہا گیا ۔

فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِهِ إِنْ كَانُوا صَادِقِينَ

’’تو یہ لوگ اس طرح کا کوئی کلام ( بنا کر) لے آئیں اگر یہ دعوی میں سچے ہیں۔‘‘ (الطور:34)
ایک اور جگہ فرمایا :

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ

’’کیا یوں کہتے ہیں کہ ( نعوذباللہ) آپ ﷺ نے اس کو اپنی طرف سے خود بنالیاہے آپ ﷺ فرمادیجیے کہ تم بھی اس جیسی دس سورتیں بناکر لے آؤ۔‘‘(ھود:13)
یعنی اگر تمہارا دعوی ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ کی ذہنی تخلیق ہے تو تم بھی اپنے ذہنی غور وفکر کے نتیجہ میں پورا قرآن نہیں بلکہ صرف دس سورتیں بنا کر لے آؤ اور اگر تم ایسا کرنے سے اپنے آپ کو عاجز اور درماندہ سمجھتے ہو تو جان لو کہ یہ محمد ﷺ کی ذہنی تخلیق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کتاب ہے۔ (پیغامر اسلام اور معجزات)
یادرہے کہ قرآن پاک میں معجزہ کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ قرآن پاک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کے لیے آیت، البینہ اور البرہان جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
کیا انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے ؟
در اصل انبیاء کو مبعوث کر نے کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کہ جن چیزوں کو عقل نہیں سمجھتی انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کو انسانوں کو سمجھائیں اﷲ کے احکام کا فطرت کے مطابق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان اس مطابقت کو خود سمجھ جائیں گے ۔اگر کو ئی شخص آپ کے پاس آکر یہ کہے کہ (میں آپ کے پاس فلاں شخص کا یہ پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں کہ آپ فلاں چیز مجھ کو دیدیجئے )
توآپ اس سے یہی سوا ل کریں گے کہ :آپ کے پاس فلاں شخص کے پاس سے آنے کا کیا ثبوت ہے ؟
اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کو ئی خط یا کو ئی نشانی ہونی چاہئے یا وہ کوئی ایسی چیز جانتا ہو جسکا اس شخص کے علاوہ او ر کسی کو علم نہ ہو یا اس پیغام رساں کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہو جو فلاں شخص سے مخصوص ہو اگر اس طرح کا کو ئی ثبوت پیغمبر کے پاس مل جا ئے تو ظاہر ہے کہ اس کا فلاں شخص سے رابطہ ثابت ہو جا ئیگا ۔ تو نشانی طلب کرنے کا مقصد پیغام کی صداقت کا پتہ چلا نا ہے لیکن اگر پیغمبر کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو پیغام رساں کے پیغام کو قبول کر نا لازم نہیں ہے اللہ تعالیٰ جب پیغمبر کو لو گوں کے در میان مبعوث کر تا ہے تو وہ لو گوں سے جان، مال ،افکار ،عقائد اور ایک لفظ میں پوری ہستی کا طالب ہو تا ہے ۔ اب اگر کوئی شخص آ کر یہ کہے کہ یہ سب کچھ مجھے دیدو اپنی جان فلاں جگہ قر بان کر دو اپنا مال فلا ں جگہ خرچ کر دو تو جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ شخص اللہ کا نبی ہے ہم اس کو یہ چیزیں دینے کا حق نہیں رکھتے ۔ اسی لئے نبی کے پاس کو ئی الہٰی نشانی ہو نا چاہئے اور یہ ایک فطری امر بھی ہے اور اسی لئے قر آ ن کریم میں بہت سی قو موں سے نقل ہوا ہے کہ جب ان کے در میان انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جا تے تھے تو وہ ان سے نبوّت کی نشانی کا مطالبہ کیا کرتے تھے :

فَأْتِ بِآیَةٍاِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ

’’اگر آ پ سچّے ہیں اور اللہ ا کے نبی ہیں تو آ پ کے پاس کو ئی نشا نی ہو نا چا ہئے ‘‘۔
اس بنا ء پر کچھ اہل علم کے ہاں انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہو نا ضرو ری ہے ‘جب تک ان کے پاس نبوّت کی نشانی نہ ہواسوقت تک لوگوںپرحجت تمام نہیں ہوسکتی۔

نبوی معجزات

محسن انسانیت ﷺنے بھی اپنی حقانیت کے ثبوت میں متعدد معجزے پیش کیے۔رسول اللہ ﷺ کے بہت سے معجزات ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے، امام ابن قیم رحمہ اللہ نے”إغاثة اللهفان”(2/691) میں صراحت کیساتھ بیان کی ہے، ان معجزات میں سے کچھ رونما ہو کر ختم ہو چکے ہیں اور کچھ جب تک اللہ چاہے گا باقی رہیں گے، آپ ﷺکا سب سےبڑا معجزہ قرآن مجید ہے ،یہ ایک زندہ کتاب ہی نہیں بلکہ زند ہ معجزہ ہے جو تاقیامت زندہ رہے گا۔کسی کتاب کی زبان کازندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔دنیامیں کسی زبان کی عمر ساٹھ ستر سالوں سے زیادہ نہیں ہوتی، اس مدت کے بعد وہ زبان تبدیل ہوجاتی ہے یا پھر کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعدمتروک ہی ہوجاتی ہے جب کہ قرآن مجید کی زبان گزشتہ کئی صدیوں سے اسی طرح محفوظ و مامون چلی آرہی ہے۔قرآن کی پیشین گوئیاں آج تک سچ ثابت ہوتی چلی آرہی ہیں اوراس کتاب کے سربستہ راز کھلتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ صدیوں کے بعد پیداہونے والے انسانی قبیلے کے اعلی ترین دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں لیکن ہر آیت ان کواپنی نئی نئی اطلاعات سے آگاہ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کتاب کامعجزہ ہے کہ اسے من و عن حفظ کرلیا جاتا ہے کوئی کتنی اچھی غزل،ہو،گانا ہو،ناول ہو یا فلم وغیرہ ہو اس سے کتنی دفعہ کوئی التفات کرتا ہے پھر تھک جاتاہے لیکن صدیوں سے انسانیت اس کتاب کو پڑھتی چلی آرہی ہے ،سنتی چلی آرہی ہے اور سناتی چلی آرہی لیکن کبھی کسی نے اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔
قرآن کریم اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں دیئے جانے والے احکامات محکم ہیں پوری بشریت مل کر بھی ایسے قوانین نہیں بنا سکتی۔
قرآن کریم اس اعتبار سے بھی معجزہ ہے کہ اس میں علوم و اخبار کے ساتھ ساتھ اس کائنات کے راز بھی ذکر کیے گئے ہیں، اور جدید علوم ان رازوں کو دن بدن فاش اور سب کیلئے عیاں کر رہی ہےجبکہ نبی مکرم ﷺ ایسے معجزات جو رونما ہونے کے بعد ختم ہو چکے ہیں تو وہ بہت زیادہ ہیں، ان میں سے مشہور ترین یہ ہیں:
اسرا ءاور معراج کا معجزہ، قرآن کریم نے اسرا ءکا ذکر صراحت کیساتھ کیا ہے ۔
نبی ﷺکے سامنے پڑے ہوئے تھوڑے سے کھانے میں اتنا اضافہ ہو جانا کہ پورا لشکر ہی اس سے سیر ہو جائے، اور پھر بھی کھانا بچ جائے، یہ واقعہ صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔
آپ ﷺکی انگلیوں سے پانی بہنا، اور تھوڑا سا پانی اتنا زیادہ ہو جائے کہ پورا لشکر اس سے پی کر سیر ہو جائے ، اس بارے میں بھی احادیث مبارکہ بخاری و مسلم میں موجود ہیں۔
نبی ﷺکی جانب سے مستقبل کی پیشین گوئی اور پھر وہ چیزیں اسی طرح رونما ہوئی ، آج بھی ہم کچھ باتیں اسی طرح ہوتی دیکھ رہے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے بتلائیں ۔
جب نبی کریمﷺ نے منبر بنوایا اور کھجور کے تنے کو چھوڑ دیا تو وہ آپ کے فراق میں رونے لگا، اس بارے میں حدیث صحیح بخاری میں ہے۔
جب آپ ﷺمکہ مکرمہ میں تھے تو پتھر آپ کو سلام کیا کرتا تھا، اس بارے میں حدیث صحیح مسلم میں ہے۔
معجزہ شق القمر: یہ معجزہ ہجرت سے پانچ سال قبل منیٰ کے میدان میں ظہور پذیر ہوا۔ سورۃ القمر میں اس معجزے کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے۔ ’’قیامت قریب آگئی ہے اور چاند شق ہوگیا ہے اور اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں یہ تو بڑا زبردست جادو ہے‘‘۔zمختلف اشیاء میں برکت کے اثرات، پیش گوئیاں ، فارس وروم،مصر کی فتح کی پیش گوئی وغیرہ کا عین حقیقت ہونا۔
عطائے کوثر: یہ اعزاز بھی صرف آقائے دو جہاں سرور کونین کو حاصل ہے۔ سورہ الکوثر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’’ہم نے آپ کو کوثر عطا کی‘‘۔
خاتم النبیین: یعنی آپ پر کمالاتِ نبوت ختم ہیں۔ نبوت کا وہ سلسلہ جو سیدناآدم علیہ السلام سے شروع ہوا آپ پر ختم ہوا۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سورۃ الاحزاب میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ: ’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی) اس کو ختم کردینے والے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے‘‘۔
مکمل سوانح حیات: سابقہ انبیاء کے حالاتِ زندگی ہم تک جامع ذرائع سے نہیں پہنچے لیکن نبی کریم سیدنا محمدﷺ وہ مقدس اور برگزیدہ ہستی ہیں، جن کی زندگی کا ہر لمحہ اور فعل احادیث نبوی اور سنت نبوی کی صورت میں احاطۂ تحریر میں لایا گیا ہے جو اب تک محفوظ ہےاور اس سیرت مبارکہ کا تحفظ یقیناً اک نبوی معجزہ ہی ہے۔
الغرض رسول رحمت کے معجزے بہت زیادہ ہیں، اور جو ہم نے ذکر کیے ہیں یہ ان میں سے چند ایک ہیں، علمائے کرام نے نبی ﷺ کے معجزات کے بارے میں متعدد کتب لکھی ہیں مثال کے طور پر امام بیہقی کی کتاب “دلائل النبوۃ” اسی طرح امام ماوردی کی کتاب : “اعلام النبوۃ”نیز عقیدے کی کتابوں میں رسولوں پر ایمان لانے کے ابواب اس کے متعلق بھرے ہوئے ہیں۔

سابقہ انبیاء کرام کے معجزات

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام کو جو جو معجزات عطا فرمائے، وہ ان انبیاء و رسل علیہم السلام کے مخاطبین کے موافقِ حال دیے۔ تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ صاحبِ معجزہ کو بلاشبہ نصرتِ حقانی اور تائیدِ ربانی حاصل ہے۔اوروہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کردہ سچا نبی اور رسول ہے، کہ جس کی اطاعت و اتباع اگر دنیا اور آخرت میں کامیابی و کامرانی کی دلیل ہے، تو اس کی نافرمانی و تکذیب دین و دنیا کےخسارہ کی بھی باعث ہے۔
چند ایک اہم قرآنی معجزات درج ذیل ہیں:
1۔سیدناسلیمان uکے معجزات کا تذکرہ سورۃ النمل میں آیا ہے۔ سیدنا سلیمان کو اﷲ تعالیٰ نے پرندوں کی بولی سمجھنے کی تعلیم دی، وہ باقاعدہ پرندوں کی حاضری لیتے تھے، سامان سلطنت کے متعلق ہر قسم کی اشیاء فراہم کی گئیں۔ بہت بڑا لشکر جس میں نہ صرف انسان بلکہ جن اور پرندے بھی شامل تھے، اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ ہوا کو بھی ان کے لیے مسخر کردیا جو سیدنا سلیمان uکے حکم سے چلتی تھی۔ سیدنا سلیمان uکے ایک درباری نے پلک جھپکنے سے پہلے ہزاروں میل دور سے ملکہ بلقیس کا تخت لاکر حاضر کردیا تھا۔
2۔سیدنا ایوب  کو قرآن میں ’’نعم العبد‘‘ یعنی بہت اچھا بندہ قرار دیا، سورۃ الانبیا اور سورۂ ص میں ان کا تذکرہ مبارکہ ہے کہ جب سیدنا ایوب uنے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے تو اﷲ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اﷲ نے حکم دیا کہ ’’اپنا پاؤں زمین پر مارو یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ نے زمین پر پاؤں مارتے ہی ایک چشمہ جاری کردیا جس میں یہ خاصیت تھی کہ غسل کرنے اور پینے سے بیماری دور ہوگئی۔
2۔سیدنا صالح uکی نافرمان قوم ثمود نے معجزہ طلب کیا تو سیدنا صالح uنے اﷲ کے حکم سے پہاڑ پر اپنی چھڑی مبارک ماری تو اونٹنی برآمد ہوگئی یہ اونٹنی کوئی عام اونٹنی نہیں تھی۔ سورۂ ہود میں اﷲ کا فرمان ہے ’’ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی کے طور پر ہے‘‘۔
3۔سیدنا ابراہیم uبے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور آگ گلزار بن گئی۔ سورۃ البقرہ میں سیدنا ابراہیمu کے ایک معجزے کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے۔ ’’جب ابراہیم  نے کہا تھا کہ میرے مالک! مجھے دکھادے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اﷲ نے فرمایا کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے، ارشاد ہوا کہ اچھا تو تم چار پرندے لے کر اسے اپنے سے مانوس کرلو۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر ان کو پکارو، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لو کہ اﷲ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے‘‘۔
4۔سیدنا یعقوب uنے اپنے بیٹے سیدنایوسف کی قمیض کو اپنی آنکھوں سے لگایا تو ان کی بینائی لوٹ آئی۔ سورۂ یوسف میں ہے’’جاؤ میری یہ قمیض لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، ان کی بینائی پلٹ آئے گی‘‘۔
5۔سیدنا یونس uکے معجزہ کا تذکرہ سورۃ الصٰفٰت میں اس طرح آیا ہے۔ ’’یونس کو مچھلی نے ثابت نگل لیا۔ سو اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں رہتے۔
6۔سیدنا موسیٰ uکے معجزات: یدبیضا سیدناموسیٰ u جب اپنا ہاتھ باہر نکالتے تو نور کی شعاؤں سے چمکنا شروع ہوجاتا۔ سورۃ الاعراف
7۔عصائے موسیٰ: سیدنا موسیٰ uجب بنی اسرائیل کو وادیٔ سینا لے کر پہنچے جہاں دور تک پانی اور سبزہ کا نام و نشان نہ تھا، بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ  سے پانی طلب کیا تو عصائے موسیٰ کی ایک ضرب سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔
8۔من و سلویٰ: سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے: ’’ اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا، ان طیب چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دیں‘‘۔
9۔بادلوں کا سایہ: قرآن مجید کا تذکرہ ہے۔ ’’اور ہم نے بادلوں کا سایہ کیا‘‘۔
10۔سیدنا عیسیٰ uکی پیدائش اﷲ کے حکم سے بغیر باپ کے معجزانہ طور پر ہوئی۔ ایسی عمر میں کلام کیا جس عمر میں بچے کلام کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اپنی ماں سیدہ مریم علیہا السلام کی پاک دامنی ثابت کردی۔ سیدنا عیسیٰ u کے دور میں طب یونانی اور جادوگری عروج پر تھی اس لیے طب کے حوالے سے بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ پیدائشی گونگے بولنے لگتے، کوڑھی تن درست ہوجاتے۔ اﷲ کے حکم سے مردوں کو بھی زندہ کردیتے۔ مٹی کے پرندے بناکر اﷲ کا نام لے کر پھونک مارتے تو وہ سچ مچ اڑنے لگتے۔ الغرض قرآن پاک میں سابقہ انبیاء کرام کے معجزات کا خصوصی تذکرہ کیا ہے جس سے قرآن کا مقصد وحید معرفت الٰہی کا داعیہ پیدا کرنا ہے۔

منکرین معجزات کے خود ساختہ اعتراضات:

ملحدانہ افکار ونظریات کے حامل افراد دین اسلام پر اعتراضات کے ساتھ ساتھ معجزات کے ساتھ بھی معاندانہ اور مخالفانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ منکرین معجزات درحقیقت یونانی فلاسفہ سے از حد متاثر ہوتے ہیں جس کی بناء پر وہ مسلّمات دین کو بھی یونانی فلسفہ کے اصول وضوابط پر پرکھتے ہیں ۔ انکارِ معجزات کا بنیادی سبب ہر چیز کواپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا نظریہ بھی ہے حالانکہ نفس امارہ دل اور عقل دونوں پر حملہ کرتا ہے نفس امارہ عقل کو یرغمال بنا کر اسے ہر وقت مادی مفادات ، مادی فکر وفلسفوں میں غلطاں رکھتاہے اس طرح انسانی نفس فرد کا وحی اور مذہب سے علمی واعتقادی رشتہ توڑ دیتاہے یا پھر وہ اسے مذہبی تعلیمات سے بیگانہ کر دیتاہے یا نفس انسانی انسان کی عقل میں دین سے متعلق شکوک وشبہات کو جنم دینے کا باعث بنتاہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے معجزات دیکھ اورسن کر بعض ناسمجھ اور جاہل لوگ اسے نظام فطرت کے منافی سمجھتے ہوئے ان کے انکار پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ان کی سخت غلطی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عادت کے فرق سے یک قلم ناآشنا ہیں وہ قدرت کو عادت کے پیمانے سے ناپنا شروع کر دیتے ہیں چنانچہ صاحب الیواقیت والجواہر الشیخ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے ایک مقام پر بڑی عجیب بات فرمائی جس سے ہماری عقلوں کی نارسائی کا پتہ چلتاہے ۔ فرماتے ہیں :
’’یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ انسان ماورائے عقل وفکر کو اپنی عقل وفکر کی میزان میں تولنا چاہتا ہے حالانکہ اس کو اپنی عقل کا قصور اور اس کی نارسائی کا پورا پورا احساس ہے پھر اپنی قوت حافظہ اور وقت متخیلہ کا قصور بھی اسے معلوم ہے اس پر قوت واہمہ کے تصادم کا بھی اسے پتہ ہے اس کے باوجود جب اس کے سامنے ربانی معاملات کا ذکر آتا ہے تو وہ اپنی ہی عقل وفکر کی تقلید کرنے لگتا ہے کیا اس کا یہ فریضہ نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی ذات کے بارے میں فرمایا ہے اسے وہ بے چوں وچرامان لیتا اور اپنی اس فکر کی تقلید نہ کرتا جو اسی کے خیال کا مقلد ہے اور جس کا خیال اسی کے حواس کا مقلد۔‘‘ ( بحوالہ : پیغمبر اسلام اور معجزات ص:22)
انکارِ معجزات کی دو اہم صورتیں ہیں :
1۔ معجزات کے وجود کاسرے سے انکار
2۔ نصوصِ معجزات کی من مانی تاویلات
علماء کرام نے منکرین معجزات کے اعتراضات کاتفصیلی جوابات دیئے ہیں ذیل میں چند ایک اہم اعتراضات کا جواب پیش کیا جارہا ہے۔
1۔نبی کریمﷺ کے معجزات کی بابت معاندین (مستشرقین نے یہ پراپیگنڈہ کیا) کہ یہ مسلمانوں کی اپنی ہی روایات سے ملتے ہیں دیگر ’ذرائع‘ سے ان کی تصدیق ہونا ممکن نہیں۔
جواب: اِس کے کئی ایک جوابات ہیں مگر بائبل پر ایمان رکھنے والے یہ لوگ ہمیں یہی بتا دیں کہ وہ کونسا نبی ہے جس کے حسی معجزات کا ذکر نسلیں گزر جانے کے بعد اُس کے اپنے ہی پیروکاروں کے سوا کہیں اور پایا گیا ہو؟سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مصر میں اللہ کے حکم سے معجزات دکھائے اور مسیح علیہ السلام کے آنے تک کوئی ڈیڑھ ہزار سال اِن معجزات کا ذکر چلتا رہا تو وہ بنی اسرائیل کی اپنی ہی روایات تھیں جوکہ ایک قابل وثوق طریقے سے ذکر ہوتی تھیں جسے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
مصر میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جو معجزے برسرعام دکھائے تھے ان کا ذکر کیا بنی اسرائیل کے علاوہ بھی کسی کے پاس رہا؟ ان معجزات کا ثبوت آلِ فرعون کے ’آرکائیوز‘ سے لا کر تو کبھی نہیں دیا گیا!!!
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے جو بطور نبی چھ سو سال تک یعنی پیغمبر آخر الزمانﷺ کی بعثت تک ذکر ہوتے رہے پیروانِ مسیح کے سوا اُن معجزات کا ذکر کس کے پاس پایا گیا؟ یہود یا پھر دیگر اقوام کے ’ریکارڈ‘ سے تو ان کے ثبوت لا کر کبھی پیش نہیں کئے گئے!!!
سیدنا موسیٰ اور سیدنا عیسی علیہما السلام کا معاملہ تو ابھی پھر کچھ مختلف رہا ہو گا، اِس نبی ﷺ کی تو کامیابیاں ہی اتنی تھی کہ یہ سوال اٹھنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ پورے کا پورا جزیرۂ عرب ہی تو اِس نبی پر ایمان لے آیا۔
پورے کے پورے جزیرۂ عرب ہی نے تو گواہی دے ڈالی کہ ”محمد اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہے“!!! اِس جزیرۂ عرب سے اِن معجزات کی گواہی نہ لیں تو کہاں سے لیں؟!! جہاں معجزے پیش آئے گواہیاں وہیں سے تو لی جائیں گی!!!
اگر حسی معجزات physical miraclesکے ثبوت evidence کے لیے ایک پوری قوم کی گواہی کافی نہیں تو تاریخ کا کونسا واقعہ دنیا میں معتبر رہ جاتا ہے؟
2۔نبی کریم ﷺ کے شق القمر کے معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اسکا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔
جواب: (الف) اگر اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ چاند کا پوری دنیا میں ایک ہی وقت دیکھا جانا نا ممکنات میں سے تھا.کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اسکے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا. پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نہیں تھا اور اس سے کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اس کے زمین پر کسی قسم کے اثرات پڑے کہ لوگ خصوصی طور پر گھروں سے نکل آتے اور اس منظر کو دیکھ پاتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چاند پر ہوتیں. اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا. لیکن پھر بھی بہت سے ایسے آثار موجود ہیں جو اس واقعے کی گواہی دیتے ہیں، ہم چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔
(ب) آثار قدیمہ کے ماہرین کو اس قسم کے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو معجزہ شق القمر کو بخوبی واضح کرتے ہیں، ، ایک غیر ملکی اخبار نے ایک خبر نشر کی تھی جس کا عربی ترجمہ آستانہ سے نکلنے والا عربی اخبار ’الانسان‘ میں شائع ہوا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کی ایک قدیم عمارت سے کچھ پتھر نکلے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ اس مکان کی تعمیر فلاں سال میں ہوئی، جس سال کہ ایک بہت بڑا آسمانی حادثہ اس طور پر رونما ہوا تھا کہ چاند دو حصوں میں بٹ گیا، ماہرین نے اس پتھر پر لکھی ہوئی تاریخ کا جب حساب لگایا تو ٹھیک وہی تاریخ تھی جب سول اللہ ﷺ کے انگلیوں کے اشارہ سے ’معجزہ شق القمر‘ رونما ہوا تھا!!
(باکورة الکلام، بحوالہ محمد ﷺ ص ۳۸۳، مطبعۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت، سنۃ 1975)۔
(ج) ہندوستان کی مشہور تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ” شبِ انشقاقِ قمر” کے نام سے مقرر کی گئی۔
معجزہ شق القمر پرسائنسی اعتراض
معجزہ شق القمر پر سائنسی حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔انکے جواب میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ”شق القمر” کا واقعہ ایک معجزہ تھا ۔ معجزہ ایک عام طبیعی عامل کے زير اثر رونما نہیں ہوتا بلکہ اعجاز نمائی کا نتیجہ ہوتا ہے، اسکے لیے سائنسی ثبوت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جب معجزہ اپنے دعوے کے اعتبار سے ہی عام قانون سے ہٹا ہوا ہے تو آپ اس کا ثبوت کیسے پا سکتے ہیں۔ معجزے کا اصل مقصد کسی نبی کی نبوت کی دلیل دینا ہوتا ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ دلیل انہیں کے لئے با معنی ہوسکتی ہے جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی مشاہدہ نہیں کیا ہے وہ یہ دعوی کس بنیاد پر کر سکتے ہیں کہ یہ ہوا ہی نہیں؟
دوسری بات یہ ہےکہ چونکہ سائنس ایک ارتقائی علم ہے اور سائنس کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے تمام حقیقتوں کو جان لیا ہے۔ ہر وقت اس بات کا امکان رہتا ہے کہ سائنس ایک ایسی نئی تحقیق کے ساتھ آجائے جس کو کل غلط ثابت کیا جائے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو معجزہ ہوا وہ تو سائنس کے مطابق ہی ہوا، لیکن اس وقت کا سائنسی علم اتنی ترقی پر نہیں ہے کہ وہ اس معجزے کی سائنسی تشریح کر سکے۔

آخری بات :

معجزات کا قران وحدیث سےثابت ہونابدیہی امر ہے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ خالق کائنات نے اپنی وحدانیت اور اپنے انبیاء کی صداقت کے لیے اس طریق کار کو اختیار کیا ہے معجزات دراصل انبیاء کی حقانیت کو ثابت کرنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہے ان معجزات کا انکار رب العالمین کی آیات، دلائل اور براہین کے انکار کے مترادف ہے اس بات میں کچھ شک نہیں کہ یہ کائنات اپنی وسعت اور موجودات کی کثرت کی بناء پر انسانی طاقت اور صلاحیت سے باہر ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی رب العالمین کی نشانیاں عقل انسانی اور علم انسانی سے ماوراء برتر وبالا ہیں تو پھر پروردگار کے عرفان اور اس کی صفات وآیات کے علم، زندگی کے معمہ کے حل اور فوزوفلاح کے راستہ کی طرف راہنمائی کا آخر کیا طریقہ ہوگا۔ معرفت الٰہی کے لیے بعض دفعہ انسان کے سامنے معجزات کا ظہور ضروری ہوتاہے۔ انبیاء کرام نے باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے اثبات کے لیے مثبت پہلو کو زیر بحث لایا قرآن نے اسی انبیائی طرز عمل کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشاد رب العالمین ہے :

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ

’’آپ کا رب (ہر قسم کے عیب سے) پاک ہے ۔‘‘
رب العزت نے اپنی ذات وصفات کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے جو ذرائع مناسب سمجھے وہ اختیار کیے ہیں ان کا انکار کرنا نقل وعقل کے خلاف ہے۔ دونوں جہانوں کا مالک اپنے پیغام کی حقانیت کو آشکارا کرنے کے لیے ہر قسم کا طریقہ اختیار کر سکتاہے ۔؎
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
مذکورہ بالا گزارشات کی ترتیب میں جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان کی فہرست ذیل میں ہے باری تعالیٰ اس علمی راہنمائی پہ مؤلفین وناشرین کو اپنی مرضیات سے نوازے۔ آمین
1۔ معرکہ ایمان ومادیت مترجم مولانا محمد الحسنی ندوی
2۔ پیغمبر اسلام اور معجزات از حکیم محمود احمد ظفر
3۔ اسلام اور سائنس مترجم : مولانا سید محمد اسحاق علی صاحب
4۔ اسلام اور غیر اسلامی تہذیب ترجمہ اقتضاء الصراط المستقیم از شیخ الاسلام ابن تیمیہ مترجم مولوی شمس تبریز خان
5۔ مذہب وتمدن ازسید ابو الحسن علی ندوی
6۔ نفسی قوتیں جدیدیت کے پس منظر میں ازمحمد موسیٰ بھٹو

(سیکولرازم، لبرل ازم اور جدیدیت (مختلف الحادی حربے

افسوس صد افسوس’’الحاد‘‘ ، ’’دہریت‘‘اور لادینیت نے دنیا کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص تیزی سےاپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے۔ یہ عصر حاضر کا فوری توجہ طلب اور فوری حل طلب مسئلہ ہے۔ مولانا سید ابو الحسن علی الندوی اس بارے میں لکھتے ہیں :
’’ آج رسول اللہ کے سرمائے پر ڈاکہ ڈالا جارہاہے آپ کے قلعے میں شگاف پیدا کیے جارہے ہیں آپ کے دارالسلطنت پر حملہ کیا جارہاہے اگر آج امام ابو حنیفہ، امام شافعی،امام مالک،امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہوتے تو میں یقین کرتا ہوں کہ شاید وہ فقہ کی تدوین بھی تھوڑی دیر کے لیے روک دیتے اور اس مسئلے ’’الحاد‘‘ کی طرف توجہ کرتے۔ ‘‘ ( بحوالہ ’پاجا سراغ زندگی‘ ص:48 طبع نشریات اسلام)
آج یہ ’’الحاد‘‘ سیکولرازم،لبرل ازم،فیشن ازم،ماڈرن ازم اورجدیدیت کے نام سے مسلم معاشروں میں جگہ پکڑتا دکھائی دیتاہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس الحاد اور بے دینی اور سیکولرازم کے حامیوں کواس کے نقصان کا اندازہ اور احساس تک نہیں ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
سیکولرازم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’بے دینی‘‘ یا “لادینیت” ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے وحی الٰہی کی روشنی میں اپنی امت کو قیامت تک برپا ہونے والے فتنوں سے آگاہ کردیا تھا تاکہ امت محمدیہ گمراہی سے بچے۔آج الحاد ، بے دینی، سیکولرازم کے نام سے جو فتنے سراٹھائے ہوئے ہیں غالباً انہی کے حوالے سے ارشاد نبوی ﷺ ہے :

دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ، مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا (صحيح البخاري7086، صحيح مسلم:1847، سنن ابن ماجه:3979)

’’ایک زمانے میں امت پر ایسا وقت آئے گا کہ جس میں شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے میں کھڑے ہوں گے،انسانوں کو اورخاص کر مسلمانوں کو اس کی طرف بلائیں گے جو ان کی بات مان لے گا وہ اسے اس جہنم میں جھونک دیں گے۔‘‘
سیکولرازم کا مقصد حقوق انسانی،آزادی،تحقیق،قانون اور تعلیم کے نام پر زندگی کے تمام شعبوں سے دین کے عمل دخل کو ختم کرنا ہے کیونکہ سیکولروں کے خیال میں دین فطرت کے خلاف ہے لہٰذا کسی دین کی پیروی کرنا درست نہیں ہے۔ (العیاذ باللہ)
ترقی اور جدیدیت کے نام پر کھیلے جانے والے اس گھناؤنے کھیل کا’’ہدف‘‘ عقائد وایمانیات کا شکار کرنا ہے۔ اس کھیل کا پہلا مرحلہ پرانی روایات کا خاتمہ ، دوسرا مرحلہ مذہبی واخلاقی اقدار پر حملہ کرکے ان کا خاتمہ کرنا اور تیسرامرحلہ جارحانہ رویے کے ذریعے کسی معاشرہ یا مذہب پر اپنی’’گرفت‘‘ مضبوط کرنا ہے۔
طارق جان کے الفاظ میں ’’ سیکولرازم اپنے قبول کرنے والوں سے جو قیمت مانگتا ہے وہ بھی بے حد گراں ہے۔ یہ انسان کو روحانیت سے محروم کرکے اسے محض ایک مادی انسان بنادیتا ہے۔ ‘‘ (بحوالہ: سیکولر ازم :مباحث اور مغالطے)
سیکولر،لبر ل اور متجدد کا نعرہ ہے کہ اسلامی تعلیمات عصرِ حاضر میں قابل عمل نہیں ہیں بلکہ فرسودہ ہیں۔ قرآن وحدیث کی کوئی حقیقت نہیں یہ تو انسان کے مرتب کردہ ہیں(العیاذ باللہ)
ملائکہ،جن ،انبیاء،جنت، دوزخ،حوروقصور،آخرت یہ سب افسانے ہیں، یعنی ایمان بالغیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ان کے خیال میں:
ایہہ جہان مٹہا ،تے اگلا کیں نے ڈٹہا
’’یعنی اس دنیا کی زندگی کے مزے اٹھاؤ،اگلا جہان کس نے دیکھا ہے‘‘۔
یہ اسلامی حدود وتعزیرات کو ظالمانہ قرار دیتے ہیں۔ان کی نظر میں عالمی قانون شریعت اسلامیہ سے زیادہ نفع بخش ہے ۔(العیاذ باللہ)۔ان کا مطمع نظر یہ ہے کہ حلال وحرام کی تمیز ختم کردی جائے۔مسلمان معاشروں سے اخلاقی قدروں کا خاتمہ کردیا جائے، تعلیمی نصاب سے دینی واسلامی ابواب کا خاتمہ کرکے جنسیت،مادیت پرستی،عشق بازی،حیا سوزی، فیشن پرستی اور بداخلاقی کو فروغ دیاجائے۔ مغربی وغیر اسلامی فکری یلغار کو ثقافت کے تبادلے کا نام دے کر اسلامی معاشروں میں رائج کیا جائے،مسلمانوں کو دہشت گرد اور بے رحم ثابت کیا جائے تاکہ لوگ مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کرنے لگیں ۔ حلال وحرام کی تمیز باقی نہ رہے۔اور تو اور یہ سیکولر!قوم لوط کے اس عمل”لواطت”(ہم جنس پرستی) تک کو جائز قرار دے رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نےقوم لوط پر ایک نہیں کئی عذاب نازل کئے۔
طارق جان کے خیال میں:
ایک سیکولر ہو یا کوئی سیاستدان ،دونوں سمجھتے ہیں
کہ دینی روایت کا دور گزر چکا ہے،گویا اب رسم جہاں اور ہے، دستور زماں اور”۔(بحوالہ “سیکولرازم :مباحث اور مغالطے” ص21)
سیکولرازم مذاہب کو غیر اہم قراردیتاہے جبکہ اسلام نے ایک مذہب کے ماننے والوں کو(خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں) ایک ملت قرار دیا ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی قوم کی بنیاد مذہب کو قرار دیتے ہوئے کہا :
قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں ،محفل انجم بھی نہیں
ہمارے اسلامی معاشرہ پر اس روشن خیالی اور سیکولرازم کے اثرات بد دن بدن بڑھتے جارہے ہیں روشن خیالی کے نام پر جسم کے مختلف حصوں پر ٹیٹو کے نشان بنوانا اوران کی نمائش کےلیے ان حصوں کو عریاں رکھنا، ناک اور کان عجیب وغریب انداز میں چھدوانافیشن بن گیا ہے۔ عورتیں لباس پہننے کے باوجود عریان دکھائی دیتی ہیں۔ فیشن کے نام پر لباس مختصر سے مختصر ہوتا جارہا ہے۔ قمیض کی آستینیں غائب ہوچکی ہیں۔ ٹراؤزر اور پاجامے اس قدر چست کہ جسم کی ساخت کو نمایاں کرنے والے، جدیدیت کی گرویدہ عورتوں کی قمیض کی لمبائی اس قدر کم ہوچکی کہ گھٹنے قمیض سے باہر ، بوتیکوں پر کم عمربچیوں، نوجوان لڑکیوں حتی کہ عمررسیدہ عورتوں کےلئےبھی عریانیت کا اشتہاردکہائی دینے والے لباسوں کی بھرمار۔ الغرض عورت کی آزادی کے نام پر عورت کی مارکیٹ سازی مقصود ہے۔ عورت کو سرمایہ کاری اور سرمایہ میں اضافہ کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔
عورتوں کا تو ذکرکیا ۔۔۔ مرد عورتوں پر بھی بازی لے گئے۔ عورتوں کی طرح چست لباس،کانوں میں بالی، ہونٹوں پرلالی، عورت کا دوپٹہ جو رسی بن کر گلے میں لٹکتا تھا، وہ ان کے لیے پھندا بن گیا سو وہ اب مردوں کے کندھوں پر لہراتاہے۔
دف اب پرانی ہوگئی ۔ جدید دور میں نیاساز اور نئے ہنگامہ خیز راگ آگئے ہیں۔پورے خاندان کا اکٹھے بیٹھ کر بے ہودہ فلمیں اور ڈرامے دیکھنا روشن خیالی ہے۔ معصوم بچے کلمہ طیبہ اور دیگر اذکارکے ورد کی بجائے فلمی گانوں پرتھرکتے ہیں تو ماڈرن والدین نہ صرف گھر آنے والے مہمانوں کواس رقص کا نظارہ کرواتے ہیں بلکہ وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے “لائکس” کی شکل میں داد وصول کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔آج یہودوہنود ونصاری کے رسوم ورواج اپنانابلکہ اپنی خوشی کا اظہار انہی کے انداز میں کرنا جدیدیت ہے۔ جو پیدائش اور شادی کی سالگرہ نہ منائے وہ دقیانوس اورسالگرہ بغیر کیک کاٹے تو بے مزہ رہتی ہے ۔اب صرف ’’لبرل ‘‘نہیں بلکہ ’’دیسی لبرل‘‘بھی میدان میں آگئے ہیں۔یہ نام نہاد روشن خیال 12 ربیع الاول کو جشن آمد رسول کے موقع پر 63 پونڈوزنی کیک کاٹتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنا اپنا حصہ ڈال کر ثواب دارین کے حق دار ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرتے ہیں کیونکہ عام لوگوں کی سالگرہ منانا ’’فرض عین‘‘ہے تو’’محبوب‘‘پیغمبر کی سالگرہ نہ منانا تو یقینا ’’گناہ کبیرہ‘‘ کے زمرے میں آئے گا۔(العیاذ باللہ)
کسی کی آنکھ میں سمایا ہے شعار اغیار
ہوگئی کسی کی نگہ طرزِ سلف سے بےزار
قلب میں سوز نہیں ، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں
یہ سیکولر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کو مولوی اور ملّانی کہتے ہیں۔ ان روشن خیالوں کا “روشن خیال “ہے کہ یہ مولوی اور ملانیاں وہی 1437 سال پرانے اور فرسودہ خیالات،فرسودہ فیشن اپنائے ہوئے ہیں ۔وہی داڑھی، برقع،ٹخنوں تک شلوار،منہ میں مسواک، سر پر رومال، دوپٹے ، ٹوپی۔۔۔اُف کس قدر’’ڈھیٹ‘‘ بلکہ ’’گنوار‘‘ ہیں (العیاذ باللہ) کنویں کے مینڈک۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ’’گنوارپن‘‘ چھوڑ کر’’انٹلیکچول‘‘ بنیں۔
جن مسلم معاشروں نے سیکولرازم کو قبول کر لیا ہے وہ حرکت پزیری سے محروم ہوچکے ہیں۔ موجودہ دور کے مسلمان سیاسی قوت سے تو محروم ہیں ہی ، اب کفر والحاد کے بھی عادی ہوگئے ہیں۔ وہ “آدھے تیتر،آدھے بٹیر” بن گئے ہیں ۔ “کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا” کے مصداق وہ سکون واطمینان کی دولت سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔
طارق جان اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ایمان کے مرکزی ستون ٹوٹ کر ہم پر گرنے والے ہیں۔لگتاہےقوم فالج کا شکار ہواچاہتی ہےکیونکہ لادینی فکروعمل نے اس کا ابتدائی تحرک اور جوش نچوڑ ڈالا ہے‘‘۔(بحوالہ “سیکولرازم:مباحث اور مغالطے”ص 9)
علامہ اقبال اپنی مشہور نظم ’’جواب شکوہ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
مختصر یہ کہ الحاد اوربے دینی کے خوگر سیکولرازم کو جدت پسندی اور ترقی پسندی کا نام دے کر اسے “انسان دوست” اور “ماحول دوست” ظاہر کیا جارہا ہے حالانکہ یہ وہ زہر قاتل ہے جسے شیرے میں لپیٹ کر یا کُونِین کو چینی میں لپیٹ کر بچوں کی طرح ’’بہلانے‘‘ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سیکولروں کی طرف سے جو فتنے اور فساد برپا کیے جارہے ہیں وہ “دہشت گردی” اور’’تخریب کاری‘‘ کا ایک فیشن ایبل یا جدید انداز ہے۔ مسلمانو!اس زہر قاتل، فتنے،دہشت گری اور تخریب کاری کو روکنے کے لیےفوری اور ٹھوس اقدامات اٹھاؤ،اسلام کی طرف لوٹو۔اسلام کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرو،ورنہ اللہ نہ کرے
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

مسئلہ تقدیراور ملحدین

ایمان بالقدر کا شمار ارکان ایمان میں ہوتا ہے ، تقدیر پہ ایمان سے ہی کسی انسان کو مومن کہا جاسکتا ہےجبکہ تقدیر کے منکر کا ایمان واسلام سے کوئی تعلق نہیں درج ذیل سطور میں ایمان کے اہم ترین ستون ایمان بالقدر سے متعلق دیگر باطل نظریات کی تردید کے ساتھ ساتھ اہل الحاد کے شکوک وشبہات کے عقلی دلائل کی قلعی کھولی گئی ہے۔
لغوی تعریف:
قدر کے لغوی معنی اندازے کے ہیں۔ قَدَّرَ الامرَ کے معنی کسی کام کی تدبیر کرنے، اس کا فیصلہ کرنے اور اس کے بارے میں حکم صادر کرنے کے ہیں۔ یہ لفظ قوت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔
جب یہ لفظ باب تفعیل کے وزن پر استعمال ہوتاہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس نے اس کا حکم دیا۔ اس کا فیصلہ نافذ ہوگیا اور اس نے فیصلہ کیا۔

اصطلاحی تعریف :

وہ فیصلہ جس کا اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اندازہ مقرر فرمادیا اور اس کے بارے میں فیصلہ کردیا۔
گویا کہ تقدیر اللہ سبحانہ وتعالیٰ صاحبِ علم مطلق کے مقرر کردہ اندازے کا نام ہے جو ماضی،حال اور مستقبل کا علم رکھتا اور زمانے کو اس کی تینوں جہتوں سے ایک ہی زمانے کی طرح دیکھتا ہے اللہ تعالیٰ کی نیت سے زمانہ ماضی ، حال اور مستقبل میں تقسیم ہی نہیں ہے تو تقدیر اس علم کا نام وہ سب کچھ جو ہوچکا یا ہوگا کے مکمل ریکارڈ کا نام ہے ، بلکہ تمام امور ومعاملات کو وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی کتاب مبین میں لکھ دیا گیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم وقدرت کے ساتھ ہر اس چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے جو کائنات میں موجود ہے اورآئندہ ہوگی۔

خلاصۂ کلام :

چونکہ اللہ تعالیٰ کا علم بہت بلند اور عالی ہے وہ آن واحد میں ہر اس چیز کو جانتا ہے جو پیدا ہوتی ہے یا مستقبل میں وقوع پذیر ہوگی۔
تقدیر سے مرادان جملہ اشیاء کی وہ منصوبہ بندی، نظم ونسق اور تدبیرہے جوکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے طے فرما رکھی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اَللہُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَکُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہٗ بِمِقْدَارٍ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْکَبِيْرُ الْمُتَعَالِ سَوَاۗءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ

مادہ اپنے شکم میں جو کچھ رکھتی ہے اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے اور پیٹ کا گھٹنا بڑھنا بھی ،ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے۔ظاہر و پوشیدہ کا وہ عالم ہے (سب سے) بڑا اور (سب سے) بلند وبالا۔تم میں سے کسی کا اپنی بات کو چھپا کر کہنا اور بآواز بلند اسے کہنا اور جو رات کو چھپا ہوا ہو اور جو دن میں چل رہا ہو، سب اللہ تعالیٰ پر برابر و یکساں ہیں۔(الرعد ۸تا۱۰)
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

اِنَّا کُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ (القمر49)

’’بیشک ہم نے ہرچیز کو ایک (مقررہ) اندازے سے پیدا کیا ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں وزمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل مخلوق کی تقدیر بنائی اوراس کا عرش پانی پر تھا‘‘۔ (صحیح مسلم)
تقدیر پر ایمان لانا ہر مسلمان پر واجب اور ضروری ہے۔
جیسا کہ حدیث جبریل علیہ السلام سے ثابت ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایمان کیا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا تو اللہ پر ایمان لائے ، اس کے فرشتوں کو مانے اس کی کتابوں کو تسلیم کرے اس کے رسولوں پر تیرا ایمان ہو ،یوم آخرت پر تیرا یقین اور تقدیر کے اچھا اور برا ہونے پر بھی تو ایمان رکھے۔ (صحیح مسلم)
مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیر پر ایمان لانا لازم اس سے انکار کرنا گویا کہ اللہ کی جملہ صفات سے انکار کرناہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ تقدیر کا تعلق قدرت سے ہے لہٰذا جو محض تقدیر کا انکار کرتاہے وہ ان بہت سے امورکا منکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت کے ساتھ خاص ہیں۔
ادب کا تقاضا ہے کہ انسان نیکی، احسان اور اچھائی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرے اور برائی اوربدی کی نسبت شیطان اور اپنے نفس کی طرف کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَيِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ (النساء : 79)

’’ تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے سوا تمام مخلوق فنا ہوگی۔ اور مخلوقات کے فنا ہونے کا ایک وقت مقرر ہے جس میں نہ تو ایک لمحہ تاخیر ہوگی اور نہ تقدیم ہوگی مرنے والا خواہ اپنی طبعی موت مرے یا کوئی اسے قتل کرے یا خود کشی کرے ہر صورت میں وقت مقررہ پر موت آئے گی رہا قاتل کو قتل کی سزا ملنا تو وہ اس کو اس کے جرم کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے دی جائے گی اس وجہ سے نہیں کہ اس نے قتل کرکے اس کو وقت سے پہلے موت کی نیند سلا دیا بلکہ اس کی موت اس کے مقررہ وقت پر واقع ہوئی ہے کوئی مخلوق اپنے وقت سے پہلے ختم نہیں ہوسکتی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِيْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰہُ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ

’’آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے تو کسی نفع کا اور کسی ضرر کا اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا اللہ کو منظور ہو، ہر امت کے لئے ایک معین وقت ہے جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں‘‘۔(یونس 49)

وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَمَنْ يُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْھَا وَسَنَجْزِي الشّٰکِرِيْنَ

’’بغیر اللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے دنیا کی چاہت والوں کو ہم دنیا دے دیتے ہیں اور آخرت کا ثواب چاہنے والوں کو ہم وہ بھی دے دیں گے اور احسان ماننے والوں کو ہم بہت جلد نیک بدلہ دیں گے‘‘۔(آل عمران 145)
حدیث مبارکہ میں ارشادہے :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے دعا کی اے اللہ مجھے میرے شوہر (یعنی رسول اللہ ﷺ) اور ابو سفیان اور میرے بھائی معاویہ کا مجھے فائدہ عطا فرما یعنی ان کی عمر میں اضافہ کر سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو نے اللہ سے سوال کیا ہے کہ متعین اجل میں تاخیر ہوجائے اور جس قدر زندگی کے دن لکھے جاچکے ہیں ان میں اضافہ ہو اور جو رزق قسمت میں لکھا جا چکاہے اس میں اضافہ ہو (یادرکھو) وقت مقررہ میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوسکتی بجائے اس کے اگر تو اللہ سے یہ سوال کرتی کہ وہ تجھے جہنم کے عذاب یا عذاب قبر سے بچائے تو تیرے حق میں بہتر ہوتا۔ (صحیح مسلم)
پس جو شخص قتل ہوتاہے اپنی اجل کے مطابق قتل ہوتاہے۔ اللہ کا علم اوراس کی تقدیر ہے کہ یہ انسان فلاں کے ہاتھوں فوت ہوگا اور فلاں قتل ہوگا اور فلاں پر عمارت گرے گی اور فلاں آگ میں جل کر مرے گا اور فلاں پانی میں ڈوب کر مرے گا اللہ تعالیٰ ہی نے موت وحیات کو پیدا کیا اور ان کے اسباب کو بھی پیدا کیا۔

تقدیر سے متعلق فرقہ معتزلہ کا نظریہ :

معتزلہ کہتے ہیں جو شخص قتل ہوا وہ اپنی اجل سے نہیںمرا اگر قتل نہ ہوتا تو وہ اپنی اجل تک زندہ رہتا گویا ان کے ہاں انسان کی دو اجل ہیں ان کا یہ خیال قرآن پاک اور احادیث کی روشنی میں باطل ہے۔

معتزلہ کا رد:

جبکہ اللہ تعالیٰ پر مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کوئی چیز مخفی نہیں تھی وہ ان کے پیدا کرنے سے پہلے یہ جانتا تھا کہ وہ (اپنی زندگی میں)کیا کچھ کرنے والے ہیں اس کے بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا اور نافرمانی سے روکا۔
اللہ تعالیٰ کا انسان کو اشرف المخلوقات بناناعقل وفہم سے مالا مال کرنا۔ کسب واختیار کی قوت عطا کرنا ایک خاص مقصد کے لیے ہے انسان آزاد اور من مانی کرنے والا نہیں بلکہ وہ اطاعت وعبادت باری تعالیٰ کا مکلف اور احکام شریعت کا پابند ہے اسی لیے اس کو باقاعدہ ایک شریعت اور طریقہ دیاگیا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کی اطاعت اور فرمانبرداری کرے اورمنہیات سے بھی اجتناب کرے۔
یعنی کہ معتدل قول یہ ہے کہ انسان نہ مختارِ کُل ہے نہ مجبورِ مَحض۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انسان کہاں کہاں اختیار رکھتا ہے اور کہاں مجبور ہے۔
کچھ چیزیں انسان کے اختیار میں بالکل نہیںمثلاً: اس کا رنگ و نسل، پیدائش کا وقت، موت کا وقت وعلی ھذا القیاس یہاں انسان بالکل مجبور ہے اور وہ یہ کبھی بھی طے نہیں کر سکتا کہ اسے کب پیدا ہونا چاہیے، کس قوم وقبیلہ اوررنگ و نسل کا ہونا چاہیے وغیرہ۔
اکثر معاملات ایسے ہیں جہاں انسان کا اختیار ہے۔ جیسے کھانا، پینا، بھاگنا،دوڑنا، اچھلنا، کودنا، حرکت کرنا وغیرہ۔ یا جو بھی ایسی حرکات ہیں جو بغیر ارادہ کےہوں وہ انسان کے کافی حد تک اختیار میں ہوتی ہیں۔ یہاں کافی حد تک اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اس میں بعض حالات میں انسان کی حرکات کچھ ارادی اور کچھ غیر ارادی کا مرکب ہوتی ہیںیا پھر ان دونوں کے درمیان ہوتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔[الذاريات: 56]
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

اِنَّ اللّٰہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل90)

’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو‘‘۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَہُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ [الملك: 2]

’’جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے‘‘۔
ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر کے مطابق چلتی ہے۔ (اس جہاں میں) اس کی مشیت نافذ العمل بندوں کی کوئی مشیت نہیں ہوتی مگر جو اللہ تعالیٰ ان کے لیے چاہیے۔

فَمَا شَاءَ لَہُم کَانَ وَمَا لَم یَشَاء لَم یَکُن

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جو چاہا ہوا اور جو نہیںچاہے گا وہ نہیں ہوگا۔اللہ رب العزت نے ہر مخلوق کے جملہ امور کو تقدیر یعنی اپنے نظام قدرت سے وابستہ کررکھا ہے چنانچہ مومن کا ایمان ، کافر کا کفر ، فاسق کا فسق ،مالدار کی مالداری، فقیر کا فقر اور نفع ونقصان سب تقدیر الٰہی کے تابع ہیں جس مخلوق کو جو کام سپرد کردیا وہ اسی کے لیے مسخر ہے۔جیسا کہ باری تعالیٰ ہے :

وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ(یٰسٓ38)

’’اور سورج ، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے ‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِي الْاَآرْضِ وَالْفُلْکَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَيُمْسِکُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ

’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں اور اس کے فرمان سے پانی میںکشتیاں بھی چلتی ہوئی۔ وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت و نرمی کرنے والا اور مہربان ہے‘‘۔(الحج65)
ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ العمل ہے بندہ اگر کسی چیز کے کرنے کا ارادہ بھی کرے اور اللہ تعالیٰ کی مشیت شامل حال نہ ہوتو وہ چیز محض بندہ کے ارادہ سے وجود میں نہیں آسکتی اور اگر بندہ کسی کام کا ارادہ بھی نہ کرے مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ کرنے کا ہو تو وہ کام ہوجائے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِيْمًا حَکِيْمًا (الدھر30)

’’اور تم نہ چاہو گے مگر وہ کہ جو اللہ تعالیٰ ہی چاہے بیشک اللہ تعالیٰ علم والا با حکمت ہے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات قرآنیہ سے معلوم ہوا کہ مومن کا ایمان ، کافرکا کفر وغیرہ مخلوق کے جملہ اموراللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ کے ماتحت ہیں ۔
البتہ تقدیر کے متعلق اک مشہوراعتراض ہے کہ

مَنْ يَهْدِي اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ

’’ اللہ جسے ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔‘‘
اس آیت کے تحت ملحدین بہت سے سوالات اٹھاتے ہیں
سوال 1: ’’اگر گمراہ کر دے تو اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا‘‘جب اللہ تعالیٰ خود گمراہ کرنے پے تلا ہے اور ساتھ ہی میں یہ قید بھی لگا ڈالی کہ اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا تو اس میں اس شخص کا کیا قصور؟ پھر سزا کیسی اور جزا کیسی؟
سوال 2: گمراہ کرنا شیطان کا کام تھا یا اللہ کا؟
سوال3: اگر ہدایت اور گمراہی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو شیطان کیوں مردود ہوا؟ اور بندے کے گناہ وثواب کی کیا حیثیت ہے ؟
جواب:اسکا ایک سادہ ترین جواب یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ کی قدرت وطاقت کا بیان ہے نہ کہ سنت و قانون کا..!!
یعنی وہ چاہے تو کوئی اسکے ارادے کو بدل نہیں سکتا۔ اسے سورہ بقرہ میں بیان کردہ بات سے سمجھا جا سکتا ہےجہاں کہا گیا کہ

وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ

’’اپنے جادو منتر سے وہ کسی کو اللہ کی اجازت کے بغیر نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے‘‘۔(البقرۃ:102)
یعنی ایسا نہیں تھا کہ جادو منتر کی اثر انگیزی ارادہ الہی سے ماوراء یا کائنات میں کسی دوسرے رب کی اجازت سے ہوتی ہے، اسباب کا یہ سلسلہ بھی تمام سلسلوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی اجازت کا اظہار تھا ، اسکی قدرت سے باہر کچھ نہیں۔ اسی طرح ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے کہ اللہ کی قدرت و طاقت یہ ہے کہ اگر وہ کسی کو ہدایت یا گمراہی دے دے تو کوئی اسکے فیصلے کو اسکی مرضی کے خلاف بدل نہیں سکتا۔
باقی ہدایت و گمراہی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی سنت و طریقہ کیا ہےاس کا بیان دیگر آیات میں موجود ہےجیسے

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت:69)

اور جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم یقینا انھیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقینا اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہدایت و گمراہی اور مسئلہ تقدیر کے باب سے متعلق بہت سی آیات کو سمجھنے کے لئے ’’اللہ کی قدرت اور اس کی سنت‘‘ نیز ’’اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رضا‘‘ کے فرق کو ذہن نشین رکھنا نہایت ضروری ہے، بصورت دیگر ایسے بہت سے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا يَرْضٰى لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ (الزمر7)

’’ اور وہ اپنے بندوں کے کفر سے خوش نہیں۔‘‘
ایک اشکال اور اس کا جواب :
کچھ لوگ تقدیر کا سہارا لے کر غلط کو صحیح اور ناجائز کو جائز قرار دینا چاہتے ہیںجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں کا قرآن کریم میں تذکرہ کیا ہے۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (الانعام:148)

’’یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کر سکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۚ فَہَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ

’’مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے‘‘۔(النحل 35)
ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نےشرک کرنے والوں کی مذمت ذکر کی ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں ہمارا شرک کرنا اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہے۔
اشکال کا جواب :
ان لوگوں کے اس اشکال کا یہ جواب دیا جاسکتاہے کہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس فعل پر راضی ہے اور وہ ہمیں محبوب سمجھتا ہے۔ ا ن کا یہ دعویٰ سراسر غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے کاموں کا حکم بھی دیاہے۔
اللہ تعالیٰ کا تو ارشاد ہے :

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْہَآ اٰبَاۗءَنَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِہَا قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَاۗءِ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (الاعراف28)

’’اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتلایا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالٰی فحش بات کی تعلیم نہیں دیتا کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کی تم سند نہیں رکھتے‘‘۔
اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حیثیت کو بطور توحید ذکر نہیں کیا بلکہ بطور اعتراض کے ذکر کیا ہے یہ مشیت الٰہی کا بہانہ بنا کر اور اپنے گناہوں پر تقدیر کا سہارا لے کر اوامرونواہی سے اعراض کرنا چاہتے ہیں شریعت اسلامیہ پس پشت ڈالنا چاہتے ہیں جیسا کہ زندیق اور جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے کہ جب انہیں کسی کام کا حکم دیا جاتاہے یا کسی کام سے منع کیا جاتاہے تو وہ تقدیر کا سہارا لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب کسی آدمی نے تقدیر کا سہارا لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی تو تیرا ہاتھ اللہ تعالیٰ کی قضاء اور تقدیر کے ساتھ ہی کاٹ رہا ہو۔
جبکہ ایمان دار آدمی اپنے گناہ پر تقدیر کا سہارا نہیں لیتا بلکہ توبہ واستغفار کرتاہے۔
امام وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا قول زریں :
امام وہب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے تقدیر میں غور کیا حیران ہوگیا ، پھر غور کیا مزید حیران ہوا بالآخر میں نے دیکھا کہ مسئلہ تقدیر کو وہ انسان زیادہ جانتاہے جو اس میں بحث کرنے سے رکتاہے اور وہ زیادہ جاہل ہے جو تقدیر میں بحث کرتاہے۔
منکرین تقدیر اس طرح کے سوالات بھی کرتے ہیں کہ جب میرے رب کو پہلے سے معلوم ہے کہ میں جہنمی ہوں یا جنتی اگر جہنمی ہوں تو اس میں میرا کیا قصور؟
جواب: اللہ پاک نے اپنے علم سے ہمیں سزا دینی ہوتی تو پیدا کرنے کا جواز نہیں بنتا تھا اورہمیں پیدا کرنا ایک مذاق اور ڈرامہ کہلاتا ۔اللہ اس قسم کے عبث کاموں سے پاک ہے۔
اس نے ہمیں پیدا فرمایا ،، علم دیا ، وقت دیا اور ذرائع دیئے ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دیں اور ارادے کی طاقت ہمارے ہاتھ میں دے دی ،، نیکی بدی کا زیادہ تر احساس ہمارے ضمیر میں رکھا تو مزیدرہنمائی کے لئے رسول اور پیغمبر بھیجے ۔ جنہوں نے نیکی اور بدی کا فرق روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا اگر شیطان آپ کو برے ارادے کے لئے ابھارتا ہے تو فرشتے نیک ارادے کے لئے ابھارتے ہیں،،مگر زبردستی نہ شیطان کر سکتا ہے اور نہ فرشتہ ،عملی جامہ بہرحال آپ نے پہناناہے، کافروں سے حشر میں یہی کہا جائے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (التحریم:7)

’’ اے کافرو آج عذر مت تراشو ،، تمہیں اسی کا بدلہ مل رہا ہے جو تم نے کیا ہے ؟‘‘۔

انتہا پسندی، مفہوم ،نقصانات ،سدباب

اسلام دین اعتدال ہے جس میں افراط و تفریط کی کوئی گنجائش نہیںہے اور یہ اعتدال دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے یعنی حیات انسانی کا کوئی بھی پہلو افراط و تفریط سے تعبیر نہیں ہونا چاہیے ۔ اعتدال در اصل ا فراط وتفریط اورتشدد وانتہا پسندی کی دونوں مذموم انتہاؤں کے درمیان ایک مامو ن و محفوظ شاہراہ کا نام ہے۔ اسلام کا راستہ اعتدال کا راستہ ہے اوراسی کا نام صراط مستقیم ہے ، یہ ان گروہوں کی راہ سے الگ راہ ہے جن پر غضب الٰہی نازل ہوا یا جوحق پانے کے باوجود گم راہ ہوگئے ۔
اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو جن بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ان میں ایک وصف ِ خاص اور ایک طرّئہ امتیاز یہ ہے کہ اس کا ہر حکم معتدل اور متوسط اور افراط وتفریط سے پاک ہے۔ قرآن مجیدارشاد میں ہے:اور ہم نے تم کو امت وسط بنایا ۔(البقرۃ: 142)
وسط اور اعتدال دونوں کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے، ائمہ لغت نے وسط کے معنی لکھے ہیں الخیار والاعتدال من کل شيء ’’ ہر چیز کا بہترین اور درمیانی حصہ وسط ہے‘‘ بعض اہل لغت نے وسط کی تعریف کی ہے: الخیاروا لا علی من کل شيء ہر چیز کا بہترین اور اعلی پہلووسط کہلاتاہے۔ لغت کی تصریحات کے مطابق اعتدال اور توسط کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کے دو متضاد و بالمقابل پہلوئوں کے درمیان کا حصہ اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان دونوں پہلوئوں میں سے ایک دوسرے پر غالب نہ آئے اور کسی بھی مرحلے میں افراط یا تفریط کا احساس نہ ہو۔ اس کے بالمقابل انتہا پسندی یا غلو کے مفہوم کا تعین بھی بہت ضروری ہے ۔
کسی بھی مسئلے میں اپنی ذاتی فکر کوحتمی، حرفِ آخرقرار دینا،اسی کو حق سمجھنا،اس کو منوانے کےلیےتشدد کرنا،اور کفر کے فتوے لگانا،کسی دوسرے کی رائے کو قبول نہ کرنا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔البتہ حق کو سمجھنا اور اس کی اتباع کرنا انتہا پسندی نہیں۔ واضح رہے کہ حق پر مطلوبہ سختی کرنا انتہا پسندی اورفرقہ واریت نہیں ہے۔بچے جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز کے معاملے میں سختی کرنے کا حکم ہےتو اصل بات یہ ہے کہ باطل پرسختی نہیں ہونی چاہیے لہذا اصل بات سے ہٹنا ہی فرقہ واریت ہے جبکہ اصل قرآن وسنت اورمنہج سلف ہے۔
یادرہے کہ انتہا پسندی کا تعین اس بات بھی موقوف ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ عدل واعتدال کیا ہے؟ جس کی وضاحت ابتدائی سطور میں کی جا چکی ہے اس کے مطابق معاشرے میں عدل واعتدال کوقائم کرنا دین کا بنیادی مقصد ہے، اسی کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور قرآن میں عدل وانصاف کا حکم موجود ہےگویا کہ عدل واعتدال کتاب وسنت میں ہی ہےاور اس کو قائم کرنا انتہاپسندی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ نرمی اختیار کرو اور غلو سے بچو‘‘۔دوسری حدیث میں ارشاد ہے:

اَللهُمَّ ارْفُقْ بِمَنْ رَفَقَ بِأُمَّتِي، وَشُقَّ عَلَى مَنْ يَشُقُّ عَلَيْهَا (مسند احمد: 26237)

الٰہی! اس شخص پر رحم کرجو میری اُمت پر رحم کرے اور اس شخص پر سختی کر جو اس پر سختی کرے۔
اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :

إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَة (صحيح بخارى: 39)

’’بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا اور اس کی سختی نہ چل سکے گی ۔پس اپنے عمل میں پختگی اختیار کرو اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتیں اور خوش ہو جائیں اور صبح اور دوپہر اور شام اور کسی قدر رات میں عبادت سے مدد حاصل کریں‘‘۔
مذکورہ بالا نصوص سے توپتہ چلتا ہے کہ اسلام کا پیغام نرمی اور اعتدال کا ہے،نہ کہ تشدد اور فرقہ واریت کا۔انتہا پسندی اورفرقہ واریت چاہے سیکولرازم کی طرف سے ہو یاداعیانِ مذہب کی طرف سے دونوں کا راستہ روکنا ضروری ہے، کیونکہ فرقہ واریت ایک غلط رویّہ ہے نہ کہ مطلوبِِ شریعت ۔یعنی اعتدال کے مقابل جس رویے پر ہم بات کرنا چاہتے ہیں وہ غلو اور انتہاپسندی ہے جس کی دین میں سختی کے ساتھ ممانعت ہے اور جس کے مظاہر صرف فتنہ اور فساد فی الارض کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں ۔مقاصد شریعت میں سے ایک بنیادی اوراہم مقصد بندوں کو تکالیف سے بچانا ہے ، اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے: ان الدین یسر (بخاری) ایک موقع پر فرمایا :

ان اللہ لم یبعثنی معنتا ولا متعننا ولکن یبعثنی معلما میسراً (صحیح مسلم)

’’اللہ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔
سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ (الحج :78)

’’اوراس نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ‘‘
دوسری جگہ فرمایا :

يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا ‘‘۔ (البقرۃ:185)
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام کے تمام احکام اورشریعت کے تمام مسائل اس حکمت الٰہی کا مظہرہیں ۔ قرآن میں انتہا پسندی کے لئے جولفظ استعمال کیا گیاہے وہ’’ غلو‘‘ ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ غلو کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : کسی کی تعریف ومذمت میں حدود کوپامال کر تے ہوئے مبالغہ آمیزی سے کام لینا غلو کہلاتا ہے۔ (اقتضاء الصراط : ۱؍۲۸۹) اور شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں :

المبالغۃ فی الشی والتشدید فیہ بتجاوزالجد

یعنی حدو د کو پامال کرکے مبالغہ وتشد د سے کام لینا ۔ (فتح الباری : ۱۳؍۲۷۸)
غلو وانتہا پسندی کی مختلف صورتیں ہیں لیکن یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ انتہا پسندی کی ہر صورت کی مخالفت اور مذمت کرتا ہے ، جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

ایاکم والغلو فی الدین فانہ اھلك من کان قبلكم الغلوفی الدین (ابن ماجہ باب قدر حصی الرمی)

’’ دین کےباب میں غلوسے بچو تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کا سبب یہی غلو تھا ‘‘۔
تشدد وانتہا پسندی کے انجام بد سے باخبر کرتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺنے ایک موقع پر فرمایا :

ھلك المتنطعون….(صحيح مسلم )

’’تشدد وغلو کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ ‘‘امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جوبال کی کھال نکالتے ہیں ، شدت پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اوراپنے قول وعمل میں حدو د سے تجاوز کرتے ہیں۔انتہا پسندی کو دو بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک اعتقادی اور دوسرا عملی۔
اعتقادی انتہا پسندی کے مظاہر میں سر فہرست محبت رسول میں حد اعتدال سے تجاوز کرنا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو زندہ تصور کرنا ، حاضر وناظر سمجھنا اورعالم الغیب سمجھنا حالانکہ متعددآیات واحادیث میں ان باطل تصورات واعتقادات کی صریح تردید موجود ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّکَ مَیِّتُ وَاِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ

’’تمہیں بھی مرنا ہے اوران کوبھی مرنا ہے‘‘ (زمر30)
علم غیب کے سلسلہ میں فرمایا :’’ یہ علم غیب کی خبر یں ہیں جوہم تمہاری طر ف وحی کررہے ہیں ، اس سے پہلےنہ تم ان کوجانتےتھے اورنہ تمہاری قوم‘‘ (ہود49)
سورہ اعراف میں ارشاد باری ہے : ’’ اے نبی! ان سے کہو کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اورنقصان کا اختیار نہیں رکھتا ، اللہ جو چاہتا ہے وہ ہوتا ہے ، اوراگر مجھے غیب کا علم ہوتا تومیں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا ۔‘‘ ( اعراف188)
لیکن ہم ان دو پہلوؤں کے اعتبار سے نہیں بلکہ انتہا پسندی کے دو رخ جن پر ہم تفصیل سے بات کریں گے ان میں سے ایک پہلو کا تعلق علمائے دین سے ہے اور دوسرا پہلو عوام سے ہے لیکن اس سے قبل عوام اور علماء کے علم حاصل کرنے میں فرق جان لیا جائے کہ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے اس امر کو اس طرح سمجھ لیا جائے کہ کچھ مسائل ایسے ہیں جو ہر فرد کے لیے لازم ہے کہ انہیں سمجھے اور اس پر عمل کرے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی کوشش بھی کرے مثال کے طور پر بنیادی عقیدہ توحید کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازم ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (محمد:19)

اس آیت میں فاعلم کا مخاطب ہر انسان ہے اور اسی طرح عبادات ، معاملات اور اخلاقیات میں بنیادی امور کا علم ہر مسلمان کے لیے لازم ہے عبادات میں اس قاعدہ کا علم سب کو ہونا چاہیے کہ عبادت صرف وہی ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہو کسی انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں یا انسانی عقل کی بنیاد پر کوئی قول یا فعل عبادت نہیں بن سکتا خواہ وہ کتنا ہی محترم و مکرم کیوں نہ ہو اور یہ کہ صرف عبادت کیفیت و مقدارو تعداد بھی وحی کی روشنی میں ہی کی جائے اگر عبادت میں اس بنیادی قاعدے کا علم نہ ہو تو افراط و تفریط کا شکار ہونا بہت آسان ہو جاتا ہے جیسا کہ اذان سے قبل اور بعد میں الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کے کلمات کا پڑھا جانا ہے جبکہ ان کلمات کا اس موقع پر پڑھا جانا مصادر شریعت ثابت نہیں ہے ۔
معاشرے میں انتہا پسندی کے عمومی اسباب:
انحراف وبگاڑ کبھی اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ دھیرے دھیرے اوربتدریج آتا ہے اور اس کے در آنے کے پیچھے بھی کچھ اسباب وعلل ہوتے ہیں۔اسی طرح دین کے باب میں غلو وانتہا پسندی کے بھی کچھ اسباب ہیں ، ان میں دینی ونظریاتی بھی ہیں ،سیاسی وسماجی بھی جبکہ بعض نفسیاتی ہیں۔
ذیل میں ان اسباب کا اجمالی ذکر کیا جاتا ہے ۔
جہالت وحقیقت دین سے عدم واقفیت: مقاصد شریعت سے ناواقفیت،حدود شریعت سے دوری اور مسائل شریعت کو صحیح طور سے سمجھنے میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ مثال کے طور پرقرآن وسنت میں وعدہ ووعید اورثواب وعذاب دونوں طرح کی نصوص وارد ہیں ۔ وعدہ پر مشتمل آیات کا تقاضا ہے کہ ان کوپڑھ کر دلوں میں اللہ کی رحمت سے امیداور اپنے گناہوں کی مغفرت کا جذبہ بیدار ہو اوروعید پرمشتمل آیات کفار ومشرکین اور مرتکبین معاصی کوعذاب الٰہی سے ڈر نے کا موجب ہوتی ہیں۔ اس سلسلہ میں کوتاہی کی وجہ سے انتہا پسندی نے جنم لیا اورنتیجہ یہ ہوا کہ کسی نے ہر گناہ کے مرتکب کو کافر اور دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرادیا تودوسری طرف یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ایمان لانے کے بعد ارتکاب معصیت سے کوئی نقصان نہیں ہوتا اورتعظیم وتوقیر رسول میں اس قدر غلو کیا کہ خالص تصور توحید نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گیا ۔
خواہش نفس کی پیروی: جس سے قرآن پاک نے بار بار روکا ہے : ارشاد ہے :

لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيْلِ۔(مائدۃ77)

یعنی دین کے معاملہ میں ناحق غلو نہ کرو اوران لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جوتم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اوربہتوں کوگمراہ کیا اور ’’ سواء السبیل ‘ ‘ سے بھٹک گئے ۔
رد عمل: عصر حاضر میں عالمی سطح پر سیاسی حالات نے جو رخ اختیار کیا کہ مسلمان رد عمل کا شکارہوئے ، ایک طرف شعائر دین کی بے حرمتی اورمسلمانان عالم کے ساتھ ظلم وزیادتی ، غیر اسلامی افکار ونظریات اور منکرات کا بڑھتا ہوا طوفان ، ذرائع ابلاغ سے بے حیائیوں کا پرچار ، جذبات کوبھڑکانے والا عریاں ادب ، فحش لٹریچر اورننگی تصویریں ، عورتوں کا بے لباسی میں دعوت نظارہ دینا ان ساری چیزوں نے دین دار مسلمان کوبالخصوص نوجوانوں کو رد عمل پر آمادہ کیا اور اس ردعمل کے مظاہر قطعا غیر اسلامی اور جارحیت پر مبنی تھے ۔ واضح رہے کہ رد عمل کے لیے اسلام نے شروط و ضوابط مقرر کیے ہوئے ہیں ان کی عدم پابندی سے کبھی اچھے اورخوشگوار نتائج برآمد نہیں ہوئے ۔

عوام میں انتہا پسندی کے اسباب:

 عوام نے بنیادی عقیدہ پر توجہ دینے کے بجائے ان علمی مسائل میں دخل اندازی کرنا شروع کر دی جنہیں صرف علمائے کرام کی مجالس تک محدود رہنا چاہیے تھا۔ عوام کی کم علمی اور لاعلمی نے مسلمان معاشرہ میں جس طرح باہمی منافرت پیدا کرنا شروع کر دی اس کا سدباب بسااوقات بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔
عوام نے عملی طور پر درپیش آنے والے مسائل کے بارے میں علمائے کرام سے دریافت کرنے کے بجائے فرضی مسائل کے بارے میں سوالات کرنے شروع کر دیے جس سے عمل کے مظاہر کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں اور کلامی اور منطقی بحوث نے عوام الناس کو بری طرح اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے
عوام نے فرضی مسائل کی طرح لا یعنی مسائل پر بھی ضرورت سے زائد توجہ دینا شروع کر دی جبکہ حدیث میں ہے کہ مِنْ حُسْنِ

إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (سنن ابن ماجہ:3976)

’’کسی شخص کے حسن اسلام کی دلیل یہ ہے کہ وہ لا یعنی امور کو نظر انداز کردے‘‘۔اب جن مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت تھی ان پر توجہ نہ دی گئی جس کی وجہ سے جہالت اور لا علمی میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا گیا۔
مذہبی جماعتوں کی باہمی منافست و تنازعات سے علمائے کرام کا مقام و مرتبہ کم ہوتا گیا جس کی وجہ سے عوام میں ’’ اہل علم‘‘ اور ’’ اہل ذکر‘‘ کی علمی ہیبت کی وہ کیفیت باقی نہ رہی جو ہونی چاہیے تھی ہر مسلک میں داخلی طور پر بھی اور دیگر مسالک کے علمائے کرام کی تضحیک و استھزاء ایک معمول بنتا جا رہا ہے اور پھر عمل اور ردعمل کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔
عوام کا میڈیا سے متاثر ہونا ایک طبعی اور فطری امر ہےاور میڈیا کا دیندار طبقہ اور مدارس کے حوالے سے جو موقف ہے وہ سب کے سامنے ہے لہذا میڈیا کے اس غیر فطری اور غیر شرعی رویوں نے بھی عوام کو اعتدال پرستی پر نہیں رہنے دیا ۔
عوام کی انتہا پسندیت میں ایک اہم سبب غیر فطری اور غیر شرعی سیاسی گروہ بندیاں ہیں جس کے بعد مسلمان (جن کی محبت اور نفرت کی بنیاد کلمہ الاخلاص ہونا چاہیے تھا) کی محبت اور نفرت اس کی سیاسی وابستگی بنتی گئی ، حق و باطل کے مابین خط تمییز سیاسی وابستگی قرار پائی یعنی راہ اعتدال سے انحراف کے بعد شیطانی شکنجوں میں گرفتاری آسان سے آسان تر ہوتی گئی ۔
دین اسلام میں دلیل کا مفہوم ، مقام و مرتبہ اور اہمیت کا عوام الناس کے لیے غیر واضح ہونا بھی ان کا جادہ حق اور راہ اعتدال سے ہٹنے کا ایک سبب بنا ۔ لا علمی کی وجہ سے دلیل کا مفہوم بدل گیا اورجسے کتاب و سنت اور فہم صحابہ کرام اور اجتہاد علمائے کرام کے ساتھ مختص ہونا چاہیے تھا وہ صرف اور صرف اقوال علمائے کرام تک محدود رہ گئی اور اس پر مستزاد یہ ہوا کہ قول بھی صرف ان علماء کا جو اپنے مسلک کے یا اپنے من پسند ہوں گو کہ یہ رویہ علمائے کرام میں بھی موجود ہےمگر عوام الناس کی اکثریت بھی اس کج روی کی شکار ہے۔
اسلام میں مسجد معاشرتی مرکز کی حیثیت کی حامل ہے قرون اولی میں مسلمانوں کا مسجد کے ساتھ تعلق بہت زیادہ مضبوط تھا جس کی وجہ سے وہ کم از کم علم و عمل کے سلسلے سے وابستہ رہتے تھے وطن عزیز میں مسجد کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اسے صرف نماز کی ادائیگی کا مرکز بنا دیا گیا اور باقی اعمال خیر سے اسے محروم کر دیا گیا جیسا کہ درس و تدریس اور علمی دروس وغیرہ اور مزید یہ الم ہوا کہ امام مسجد کے لیے علم دین سے قطع نظر صرف قاری قرآن کو بنیاد بنا دیا گیا جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسجد کی مسلمان معاشرے میں مرکزیت ختم ہو گئی۔ اور عوام کے لیے علم دین حاصل کرنے کا سب سے آسان ترین اور براہ راست ذریعہ بند ہو گیا ۔
یہ چند بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے عوام میں اعتدال پسند رویہ ختم ہو گیا اور انتہا پسندیت در آئی جس کا تعلق ان کی زندگی کے دینی اور دنیاوی پہلو سے تھا او ر افراط و تفریط پر مبنی اس رویے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ قوت برداشت ختم ہو گئی اور ذہنی تناؤ و فرسٹریشن میں شدید اضافہ ہو گیا ۔
علمائے دین میں انتہا پسندیت و غلو کے ممکنہ اسباب:
علماء کرام کا افراط و تفریط میں مبتلا ہونا عوام کا انتہا پسندیت میں مبتلاہونے سے کہیں زیادہ نقصان دہ اثرات کا حامل ثابت ہوا ۔اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جن اسباب کی بناء پر عوام میں افراط وتفریط کے رویے در آئے ان میں سے کچھ اسباب یہاں بھی کارفرما ہیں لیکن مجموعی طور پر اسباب درج ذیل ہیں ۔
عصر حاضر میں علماء کرام کا انتہا پسندیت اور غلو میں مبتلا ہونے کی سب سے بڑی وجہ فقہ الواقع کا علم نہ ہونا ہے۔ اگر کتاب و سنت کی تعلیمات تاقیامت باعث ہدایت ہیں اور اس میں کوئی شک بھی نہیں تو اس کی تعلیمات و ارشادات زمانی و مکانی قیود سے ماوراء ہیں یعنی ان پر عمل ہر زمانے اور ہر جگہ ممکن ہے لیکن علماء کرام نصوصِ کتاب وسنت کو بسا اوقات اپنی لاعلمی و کم علمی کی وجہ سے وہ نصوص کو فقہ الواقع کے اعتبار سے منطبق کرنے میں جزوی یا کلی طور پر ناکام رہتے ہیں جس کی وجہ سے راہ اعتدال پر قائم رہنا ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اس میں دعوت دین کے حوالے سے اختیار کردہ حکمت عملی و اسالیب میں موقع وضرورت کی بنیاد پر تبدیلی کی مثال واضح ہے ۔ اس میں کہا جا سکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز اگر بتوں کو منھدم کر کے کیا تھا تو رسول اللہ ﷺنے دعوت کا اختتام بتوں کو منھدم کر کے کیا یہ دعوتی اسالیب فقہ الواقع کی بہترین مثال ہیں جس سے عصر حاضر کے علماء کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے۔
علماء کرام کا مذہبی و سیاسی جماعتی قیود کا پابند ہو نا بھی انہیں راہ اعتدال پر رہنے سے روکتا ہے کیونکہ بسااوقات جماعتی پالیسیاں اس راہ میں حائل ہو جاتی ہیں ۔
علماء کرام میں شخصیت پرستی کا عنصر در آنا ایک حیران کن امر ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوا گوکہ شاگردانہ عقیدت کا وجود تو ابتداء سے ہی ہے اور تاریخ مسلمانان عالم کےادوار اس رویے پر شاہد ہیں یہ فقہی مذاہب ابتداء میں شاگردانہ نسبت کی بنیاد پر وجود میں آئے تھے اورجیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مخالفت میں جو علماء کرام تھے وہ سب اسی حوالے سےتاریخ کے صفحات میں محفوظ کیے گئے ہیں اور عصر حاضر میں بھی یہی امر بعض علماء میں بہت زیادہ در آیا ہے جس کا نقصان خود علماء کو بھی اٹھانا پڑا کہ کسی شخصیت کی رائے کا دفاع کرنے پر اسلام کے واضح اور متعین کردہ اصول و ضوابط کی پابندی بہت مشکل ہو جاتی ہے اور مستزاد یہ ہوا کہ اس کے اثرات عوام تک بھی پہنچے نتیجتاً عوام بھی انہی علماء کی تقلید میں شخصیت پرستی کے زہر میں گرفتار ہوتے گئے اور اس کے پس منظر میں سبب یہی کارفرما تھا کہ ہمارے استاد سے غلطی نہیں ہو سکتی ۔
بعض علماء کی طرف سے بے جا اور بلا ضرورت فتوی بازی نے بھی علماء کرام کی صف کو نقصان پہنچایا اور یہ فتوی بازی محض فقہی مسائل پر مبنی نہ تھی بلکہ فقہی مسائل سے متجاوز ہو کر عقائد کی حد تک پہنچ گئی جس کے بعد مخالف مسلک کے علماء بالعموم شرک، بدعت، فاسق، فاجر، گستاخ، کافر جیسے فتاوی کا نشانہ بنے اور بالخصوص اپنے ہم مسلک علماء بھی ایسی شدت پسندی کا ہدف بن گئے واضح رہے کہ یہ فتاوی درست ہیں یا غلط اس امر سے قطع نظر بات کی جا رہی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا سردست اس امر کی ضرورت ہے جو بلا محابا اور انتہائی جارحیت پر مبنی لب و لہجہ کی بنیاد پر فتوی بازی کی جائے اور یہ بھی نہ سوچا جائے کہ ان کے فتاوی کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ الغرض غلو پر مبنی ان فتاوی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا خود دیندار طبقہ دو حصوں میں منقسم ہو گیا ایک طبقہ ان فتاوی کے دفاع میں سرگرم عمل ہو گیا اور دوسرا طبقہ ان فتاوی کے رد میں شدت پسندی اختیار کرتا چلا گیا نتیجہ علماء کی صف میں اعتدال پرستی کما حقہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
فتوی بازی میں جارحیت اور شدت پسندی کے مظہر پر مبنی کلمات اور اسالیب استعمال کرنا اور ایسی تعبیر استعمال کرنا جو ایک اور شدت پسندی کو جنم دے رہی ہو اور سوء اتفاق سے یہ طرز عمل آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے ۔
علماء کا سوشل میڈیا کو ایسے استعمال کرنا جیسا کہ وہ دوران تدریس طرزِ تکلم اختیار کرتے ہیں یا عام مذہبی اجتماعات میں جوش و جذبات سے بھرپور انداز اختیار کیا جاتا ہے واضح رہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال کرنے کے اپنے آداب ہیں جن کا ملحوظ خاطر رکھنا از حد ضروری ہے ۔
علماء کرام کا انتہا پسندی میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تنگ نظری اور اپنے مسلک کی حمیت کے نام پر تعصب اور دیگر مسالک کے علماء پر باطل ہونے کے فتاوی سے جوابی طور پر بھی یہی عمل اختیار کیا گیا جس کی ایک واضح مثال گذشتہ مہینوں میں سید مودودی رحمہ اللہ کے حوالے سے جاری بحوث کا ایک سلسلہ لا متناہی تھا جس میں کچھ افراد انہیں منکر حدیث اور گمراہ تک گردان رہے تھے اور ان کی تمام حسنات کو رد کیا جا رہا تھا تو احباب جماعت اسلامی سید مودود ی کی شخصیت میں غلو آمیز رویے کو اختیار کرنا شروع ہو گئے اور اس کی ایک واضح مثال ملک غلام علی نامی ایک جماعتی مؤلف کی ہے جس نے سید مودود ی کے دفاع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن زنی شروع کر دی تھی ۔
کبار مشائخ کا طرز عمل شخصیات پر حکم لگانے کے حوالے سے بہت محتاط ہوتا ہے کہ وہ نتائج و عواقب کو بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں لہذا ’’ رد بقدر غلطی‘‘ کا منھج اختیار کرتے تھے اور ہیں لیکن بعض جارح پسند افراد نے غلطی کی نوعیت کو دیکھے بغیر بلا محابا اور بلا ضرورت اسلام سے خارج کرنا شروع کر دیا اور حکم لگاتے لگاتے خود فتنہ تکفیر میں گرفتار ہوتے گئےاور یہ عمل بھی راہ اعتدال اور امت وسط کے منھج سے انحراف ہی تھا اور اس کا سب سےبرا اثر عوام پر مرتب ہوا کہ وہ بھی اسی طرز عمل کے عامل ہوتے گئے ۔
علماء کرام کا عصری سیاسی اسالیب کو اختیار کرنا جس میں مکر وفریب، مخالف کو دشنام طرازی اور الزام تراشی کا اسلوب بد اختیار کرنا تھا جس سے ا ن کے مقام و مرتبہ کو شدید نقصان پہنچا اور اس کی ایک واضح مثال موجودہ ملکی سیاست میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین اخلاقیات کی ہر حد سے تجاوز کر جانا یہاں تک ذاتیات اور گھریلو خواتین پر انتہائی واہیات تبصرے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر کثرت سے دیکھے جا سکتے ہیں ۔سوء اتفاق سے علماء کرام میں سے کچھ ناعاقبت اندیش افراد اس غیر اخلاقی و غیر شرعی جنگ میں کود پڑے معاشرے میں موجود کسی موضوع سے متاثر ہونا اور محدود انداز اپنے دینی مقام و مرتبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مہذب ردعمل دینے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن عصری سیاسی کارکنان کا انداز اختیار کرنا اس میں اعتدال پرستی پر قائم رہنا ناممکن العمل ہے ۔
علماء کرام کا وجود مسعود علم کی اساس پر ہے جدید ایجادات نے علوم اسلامیہ سے استفادہ کو سہل ترین بنا دیا ہے یہ واضح رہے کہ علوم اسلامیہ کی تحصیل کی بات نہیں کی جا رہی کہ تحصیل علوم اسلامیہ اپنے روایتی خدوخال کی بنیاد پر ہی درست ہے لیکن جدید ایجادات نے علماء کرام کو مصادر و مراجع سے عملی طور پر دور کر دیا ہے جس کا نقصان یہ ہوا کہ کتب سے تعلق ٹوٹتا جا رہا ہے اور جدید ایجادات بطور مصادر علمیہ ممد و معاون ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کتب سے تعلق منقطع کر دینا ایک ضرر رساں پہلو ہے کیونکہ مطالعہ کتب انسان کی فکر و نظر میں وسعت کا سبب بنتا ہے جبکہ کتب بینی میں مطلوبہ موضوع کی تلاش کے ساتھ ساتھ دیگر مفید نکات بھی نظر کے سامنے آتے رہتے ہیں جبکہ جدید ایجادات میں تلاش کی صورت میں صرف مطلوبہ معلومات ہی سامنے آتی ہیں اور مطلوبہ معلومات کے متعلقات سامنے ہی نہیں آتے جس کی وجہ سے کسی بھی موضوع کا حق ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا ۔
مطالعہ کتب کے پس منظر میں علماء کرام کا غلو و انتہا پسندی میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صرف اپنے موقف کی تائید کی کتب پڑھی جائیں اور اگر مخالفین کی کتب پڑھی بھی جائیں تو اس میں خامیاں تلاش کرنے اور اس پر رد کرنے کے لیے جبکہ یہ طرز عمل کسی بھی صورت میں عالم دین کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دلیل کےساتھ ہوتا ہے لیکن وہ مطالعہ محدود بنیادوں پر کرتا ہے تو اس بنیاد پراسے اپنا آپ ہی درست نظر آتا ہے اور باقی سب خطا کار اور غلط نظر آتے ہیں۔
الغرض معاشرے کے یہ دونوں عناصر شعوری اور لاشعوری طورپر انتہا پسندیت کی زد میں ہیں۔ دیندار طبقہ کا انتہا پسندی کے عفریت کے چنگل میں پھنسنا تو الگ رہا معاشرے میں کچھ عناصر ایسے بھی ہیں جو مذہب اسلام کے نام پر معاشرے میں انتہا پسندانہ افکار کو پھیلا رہے ہیں جس میں سرفہرست لبرل فاشسٹ ہیں جنہیں ہر داڑھی، ٹوپی اور کُرتے والا انتہا پسند یا دہشت گرد نظر آتا ہے۔ اور ہمارا میڈیا بھی نامعلوم ایجنڈے کے تحت دنیا کو یہی باور کروانے میں مصروف عمل ہے کہ مذہب اسلام کے ساتھ وابستگی ہی انتہا پسندیت اور دہشت گردی کو جنم دیتی ہے جبکہ حق تو یہ ہے کہ انتہا پسندی میں مذہب کے حقیقی وارثین تو بہت کم ہیں لیکن اس کے نام پر مذموم کردار ادا کرنے والے بہت ہیں جیسا کہ وطن عزیز میں مختلف ٹی وی چینلز میں سارا سال فحاشی پھیلانے والے کردار رمضان میں اسلام کے نام پر غیر اسلامی فکر کو پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں بلکہ بول چینل میں تو باقاعدہ میزبان دشنام طرازی کروانے میں مصروف عمل تھے اور اسے دین کی نشر و اشاعت کا نام دے رہے تھے ۔ الامان والحفیظ
یہ بات واضح کر دی جائے کہ انتہا پسندی کو مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک مخصوص مذمومانہ اہداف کی تکمیل کا حصہ ہے وگرنہ ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت سے بے شمار افراد کو شکوہ ہے کہ اس کے کارکنان ذرا سے اختلاف رائے کو بھی برداشت نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر مغلظات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں ۔
یہاں بسااوقات انتہا پسندی کو بنیاد پرستی سے جوڑ دیا جاتا ہے جبکہ اس کا مطلب کسی بھی نظرئیے یا عقیدے کی اصل بنیادوں یا نظریات پر قائم رہنا ہے۔ اب یہ جہاں تنگ نظری اور نظریات کی سطحی اورغلط تشریحات جنم دینے لگے تو دیگر عقائد و نظریات اور ان کے حامل افراد بنیاد پرستی کی اس لپیٹ میں آنے لگتے ہیں۔ عموماً مذہبی بنیاد پرستی سے وابستہ رجعتی نظریات ذہنی و تمدنی پسماندگی، غربت، جہالت اور سماجی بوسیدگی میں پرورش پاتے ہیں۔ لیکن اس کے پر تشدد ہونے میں انسان کے اس ردعمل کا بھی ہاتھ ہوتا ہے جس کا اظہار وہ معاشرے کے ظالم، استبدادی نظام سے نفرت کے طور پر کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ انتہا پسندی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے، اور اس کی تمام تعلیمات میں یہ وصفِ خاص ممتاز طور پر نظر آتاہے۔ لہذا اسلام اس کی تائید نہیں کرتا ، اس انتہا پسندی کے جس پہلو سے دہشت گردی جنم لیتی ہے، اور جہاں پہنچ کر عدل وانصاف کے تمام تقاضے رخصت ہوجاتے ہیں، صرف ایک جنون باقی رہ جاتاہے، قابل مذمت ہیں۔ آج جہاں کہیں بھی دہشت گردی نظر آرہی ہے، وہ اسی جنون کے مختلف مظاہر ہیں۔ اسلام کو وہ انتہا پسندی بھی مطلوب نہیں جو کسی فرد یا قوم کو انتہائی بزدل بنادیتی ہے اور اس میں اتنی صلاحیت یا اتنا حوصلہ اور سکت بھی باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنا حق لے سکے یا اپنا دفاع کرسکے۔ اسلام کی اعتدال پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی جان ومال، اور دین ووطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے سینہ سپر رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی فرد یا قوم سے کسی دوسرے فرد یا قوم کو بلا قصور کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
ملک کے معروف ماہر تعلیم اور مذہبی ا سکالر ڈاکٹر عبد الرحمن المدنی مدیر جامعہ رحمانیہ لاہور اپنے ایک خطاب میں اس

حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ :

’’اسلام دین برحق ہےاور حق کو دنیا میں نافذ العمل بنانا دین اسلام کا سب سے بڑا مشن اور مقصد ہے ۔جبکہ موجودہ حالات میں سیکولرازم دین اسلام کی حقیقی ہیئت اور شکل کو مسخ کرنے کے درپے ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ علم اور دلیل کی بات کرتا ہے ،جبکہ مذہب جذبات اور عقیدت کی بات کرتاہے ۔1857ء تک تمام دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور فکری اساس متحد تھی،کسی مسلک کی تفریق نہ تھی۔ 1857ء کے بعد برطانوی سامراج نے مسلمانوں میں اتحاد کو ختم کرنے کے لیے شیعہ سنّی کی تفریق پیدا کی جس کی وجہ سے مسلمان اُمت وقت گزرنے کے ساتھ باہم دست و گریباں ہونے کی وجہ سے تشدد اور انتہاپسندی کی نذر ہوگئی۔اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے دو واضح بلاک بن چکے ہیں :سنّی ،شیعہ۔پہلا بلاک فقہ جعفری کا ہےجس کے مطابق ایران کا آئین اور دستوربنایا گیا ہے۔ جبکہ دوسرا بلاک سنّی ہے جس کوآگے تین گروپوں میں تقسیم کیاگیاہے:اہلحدیث، دیوبندی،بریلوی…. طالبان کے دور میں فقہ حنفی کو افغانستان کا آئین اوردستوربنانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں باقی مسالک اور قرآن وسنت سے براہِ راست استدلال کے امکانات مخدوش ہوگئے۔کسی بھی معاملے کو اکثر یت اور غالب ہونے کی وجہ سے قبول کیا جائے یا دلیل کی بنیاد پر…؟ آیتِ مبارکہ :

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ وَ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ (ص:24)

کے مطابق سیدنا داؤد علیہ السلام کے پاس ایک کیس لایا گیا کہ ایک آدمی کی99 بھیڑیں تھیں، دوسرے کی ایک ہی بھیڑ تھی۔ 99والے نے ایک بھیڑ لینے کا کیس سیدنا داؤد علیہ السلام کے سامنے دائر کیا تو آپ نے علم وحکمت کے ساتھ فیصلہ فرمایا، نہ کہ اکثریت کو بنیاد بنا کر۔اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت حق اور دلیل کو دیکھا جاتا ہے، نہ کہ محض اکثریت اورغلبے کو۔اُنہوں نے مزید فرمایا کہ’دانش گاہیںاور عدالتیں‘ایسی جگہیں ہیں جہاں صرف اور صرف دلیل کا زور چلتا ہے۔ تعلیمی اور قانونی اداروں میں ذاتی پسند و نا پسند،گروہ بندی اور حزبیت کی بجائے دلائل کی حکومت ہوتی ہے اور ہونی چاہیے،ان سے بلند ہونے والی طاقتور آواز سے معاشرے اور اقوام کا رخ بدل جاتا ہے۔اور تعلیم ہی انسانی فکر کی تشکیل کرتی ہے۔اسی لیے ہم نے ان میدانوں میں سے اللّٰہ کے دین کا بول بالا کرنے کے لیےاس میدانِ کا ر کو منتخب کیا ہے۔ ‘‘
یہاں اس امر کابھی خیال رکھا جائے کہ اعتدال پرستی کو اختیار کرتے کرتے ہم مداہنت کا شکار نہ ہوجائیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فریق مخالف سے بات سنیں اور سنائیں، وہ مانے یا نہ مانے یہ اس کی مرضی ہے۔ ہمارے ذمہ کوشش ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ابو طالب کو دعوتِ اسلام دی لیکن اس نے آپ کی دعوت کو نہیں مانا کیونکہ توفیق دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔ جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ (سورة القصص: 56)

’’ آپ جسے چاہیں، اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللّٰہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے‘‘۔
انتہاپسندی ہر پہلو اور سمت سے قابل اصلاح ہے، اسلام کے نام پر ہونے والی انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ لبرل اور سیکولر طبقے بھی انتہاپسندانہ رویے اختیار کرچکے ہیں، جس کی مثال فیس بک اور سوشل میڈیا پر آئے روز اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف آنے والے اعتراضات ہیں۔ ان کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے اور ہر لحاظ سے معاشرہ کو اعتدال کا علم بردار ہونا چاہیے۔

انتہا پسندی کے نقصانات:

انتہاپسندی کے ضرر رساں پہلوؤں پر اگر بات کی جائے تو اس وقت معاشرے میں جو صورت حال ہمارے سامنے ہے اس کو اختصار کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے :
ملکی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں ’’صادق وامین‘‘ کا خاتمہ، علم کےنام پر بددیانتی کارائج کیا جانا، معاشرے میں جا بجا شکوک وشبہات اور ابہامات کا فروغ، تعمیری ومثبت سوچ کا فقدان، قتل و غارتگری ، اسلامی تعلیمات پر عملی عدم اعتماد، مالی ،جانی اور دیگرنہ ختم ہونے والے نقصانات کا اک طویل سلسلہ یعنی انتہا پسندی کے بے شمار انفرادی واجتماعی نقصانات ہیں ، مگر یہاں بعض اہم نقصانات کے ذکر پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔
بدعات کا ارتکاب : رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ (صحیح بخاری:2697)

اس حدیث میں دین کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے اوروہ یہ کہ ہر وہ کام جسے نیکی اورقربِ الٰہی کا ذریعہ سمجھ کر انجام دیا جائے حالانکہ اس پر کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہ ہو۔ ایسے تمام کام بدعت شمار ہوں گے ۔
عمل سے دوری: انتہا پسندی کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے ، غلو کی راہ پر چلنا اوراسے عادت بنا لینا آسان نہیں ہوتا ، اکتاہٹ انسانی فطرت کا خاصہ ہے نیز انسان کی قوت کار بھی محدود ہوتی ہے ، اگروہ سختی پر کچھ دن صبر کربھی لے تو جلدہی اس کی ہمت جواب دے دیتی ہے اورآخر کار آزادی وبے عملی کی راہ اختیار کرلیتا ہے اس لئے دین کی تعلیم یہ ہے کہ :

عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ، فَوَاللَّهِ لاَ يَمَلُّ اللَّهُ حَتَّى تَمَلُّوا

تم اسی کے اوراتنے کے ہی مکلف ہو جتنا تمہارے بس میں ہے ، اللہ کی قسم!اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا مگر تم اکتا جاؤ گے ۔ (صحیح بخاری:43)
دین سے نفرت: کوئی بھی مذہب اپنے افکار ونظریات اور اصول وعقائد سے زیادہ اپنے ماننے والوں کے کردار سے جانا جاتا ہے ۔ مذاہب جہاں اپنے حاملین کے بلند کردار سے پھیلتے ہیں وہیں ان کے غلط رویے اور شدت پسندی کی وجہ سے بدنام بھی ہوتے ہیں اوردوسروں کے لئے باعث نفرت بن جاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے امت کو ہدایت کی کہ وہ لوگوں کودین سے متنفر کرنے کا سبب نہ بنیںیہ اصول بھی ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے ۔
حقوق تلفی : بنیادی انسانی حقوق کا خیال نہ رکھنا بھی انتہا پسندی کا ایک مظہر ہے حتی کہ عبادات کی ادائیگی میں بھی جسم کے حقوق کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اپنی ساری توجہ کسی ایک عبادت پر مرکوز کردے تو دیگر عبادات اورحقوق لازماً متاثر ہوں گے ۔ اس لئے بندۂ مؤمن پر ضروری ہے کہ عبادات کی انجام دہی میں اعتدال وتوازن سے کام لے تاکہ دوسرے حقوق متاثر نہ ہوں ۔
افتراق وانتشار : شدت پسندی کا سب سے بڑا نقصان تفرقہ بازی بھی ہے ، صد ر اول میں تاریخ اسلام میں جوفرقے وجود میں آئے ان میں بیشتر اس غلو وشدت پسندی کا نتیجہ تھے ۔ عصر حاضر میں انتہا پسندی دو حیثیتوں سے افتراق امت کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ ایک منہج اعتدال سے دوری کی حیثیت سے ۔ امت کا بڑا طبقہ ، دانستہ یا غیر دانستہ ۔ اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے اعتدال سے دورہورہا ہے جس کے نتیجہ میں فکرونظر ، سلوک رویہ ، دین ودنیا غرض ہرشعبۂ ہائے زندگی میں بے اعتدالی نے راہ پالی ہے ۔دوسرے اس انتہا پسندی کے نتیجہ میں اسلامی غیر ت وحمیت کی بجائے جماعتی ، تحریکی اورمسلکی تعصب دن بدن شدت اختیار کرتا جارہا ہے اورحال یہ ہوگیا ہے کہ اسلام اب فرقوں ، جماعتوں اور مسلکوں کے ذریعہ جانا جانےلگا ہے ۔وإلی اللہ المشتکی
غیر اسلامی اصولوں کی ایجاد:غلووانتہا پسندی سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے ایسے اصول وقواعدوضع کئے گئے ہیں جودین میں تحریف کا سبب بنے جس کی ایک واضح مثال گروزنی میں صوفیاء کانفرنس تھی جس میں خود ساختہ قواعد و ضوابط کے تحت امت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے کو دین اسلام سے ہی خارج کر دیا گیا ۔
تصوف کے مظاہر: انتہا پسندی کا نقصان تصوف کے مظاہر میں دن بدن غیر اسلامی حرکات و شعائر کا اضافہ ہے گو کہ تصوف اپنی اصل میں ہی اسلام سے بہت بعید ہے یہ اسلام کے بالمقابل ایک متوازی نظام ہے جس میں اسلامی اصطلاحات کو جزوی طور پر اور جن اسلامی اصطلاحات کو من و عن ااستعمال نہیں کرنا تھا ان کے متبادل یونانی فلسفہ اور ہندووانہ افکار سے کلمات مستعار لے لیے گئے ۔ نتیجہ وطن عزیز میں آئے دن تصوف کے نام پر کچھ بدبخت شرکیہ اور کفریہ افعال کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ خواتین کی عصمت دری ایک عام فعل ہے لہذا جب تک ایسا کوئی بدبخت پکڑا نہ جائے وہ نعوذ باللہ ’’ اللہ کا ولی ‘‘ بنا رہتا ہے اور جب پکڑا جاتا ہے تو وہ جعلی عامل بن جاتا ہے اس کے باوجود جہالت کی وجہ سے اس کا سدباب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

سدباب :

ہمیں اسلام کی تمام تعلیمات میں اسی حسن اعتدال کی جھلک ملتی ہے، یہاں تک کہ انتہا پسندی کے باب میں بھی اسلام اسی جادہ اعتدال پر گامزن نظر آتاہے، آج دنیا انتہا پسندی اور اس کے پہلو سے جنم لینے والی دہشت گردی سے پریشان ہے بلا شبہ بے قصور انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، اورا ن کی املاک تباہ کرنا انتہا پسندی ہے، لیکن ظلم برداشت کرنا اور حق تلفیوں پر خاموش رہنا بھی انتہا پسندی ہے۔اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
جہاں تک فتنہ وفساد اور قتل ناحق کا معاملہ ہے اسلام سے زیادہ کسی بھی مذہب نے اس کی مذمت نہیں کی۔ وہ سراپا امن مذہب ہے اور ہر طرف امن وسلامتی دیکھنا چاہتا ہے۔ جہاں تک افہام وتفہیم کا تعلق ہے اسلام سے زیادہ افہام وتفہیم کا قائل بھی کوئی دوسرا مذہب نہیں ہے، نہ اس میں جبر واکراہ ہے نہ ظلم وزیادتی ہے، نہ حق تلفی اور ناانصافی ہے، بلکہ ہر معاملے میں اس کا رویہّ مصالحت آمیز اور روادارانہ ہے ۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت بہت ہوچکی ہے ۔
انتہا پسندی کی اصل کتاب وسنت سے انحراف ہے لہٰذا جب تک امت کتاب وسنت کو مضبوطی سے نہیں پکڑے گی اس میںاضافہ ہی ممکن ہے اسی امر کی رسول اللہﷺنے اپنے آخری خطبے میں تاکید کی تھی :

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ (موطا امام مالك)

’’میں تمہارے اندر دو امر چھوڑے جارہاہوں جب تک انہیں تھامے رکھوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ایک اللہ کی کتاب(قرآن) دوسرا نبی کی سنت(حدیث)‘‘۔
اسوۂ صحابہ: صحابہ کرام اس دین کے اولین شارح ہیں ان کی عدالت وصداقت رشدو ہدایت، فہم وبصیرت اوردرایت وروایت کوقرآن مجید کی سند حاصل ہے ۔ دین کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کے سلسلہ میں فیض یافتگان نبوت سے روشنی حاصل نہ کی جاسکتی ہو ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں: وہ کون سی بھلائی ہے جس کی طرف اصحابِ رسول لپکے نہ ہوں اوردانشمندی کی وہ کونسی راہ ہے جس پر ان کے قدم نہ پڑے ہوں ۔ اللہ کی قسم! وہ پانی کے صاف وشفاف چشمہ سے سیرا ب ہوئے تھے ، اسلام کی بنیادوں کوانہوںنے ایسا استوار کیا تھا کہ کسی کے لئے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے ۔(اعلام الموقعین : ۱؍۱۵) لہٰذا ضروری ہے کہ دینی اور دنیوی دونوں امور میں ان کے طریقہ کی پیروی کی جائے صحابہ کرام سے ہمارا رشتہ جتنا کمزور ہوگا ، انتہا پسندی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
فکر اعتدال کی اشاعت: دین کے مزاج کوعام کیا جائے یہ مزاج جس قدر عام ہوگا تشدد میں کمی واقع ہوگی ، ہر چیز کے دو کنارے ہوتے ہیں، اگر ایک کنارے کوپکڑا جائے گا تو دوسرا لازماً متاثر ہوگا اس لئے درمیانی اوربیچ کے حصہ کوپکڑنا چاہئے تا کہ دونوں سروں میں توازن قائم رہ سکے ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے :اسلام ، مسلک اعتدال کی پیروی پر زور دیتا ہے جوافراط وتفریط کی درمیانی راہ ہے ، دین و د نیا کی ساری مصلحتیں اعتدال وتوازن پر موقوف ہیں کہ یہی عدل وانصاف کی شاہراہ ہے ۔‘‘ (اغاثۃ اللھفان :1/131)
جہالت کا خاتمہ: جہالت انتہا پسندی ہی نہیں بلکہ تمام انحرافات کی جڑہے اسی لئے اسلام نے حصول علم کو فرض قرار دیا ہے ۔ ’’طلب العلم فریضۃ ‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اگر انسان سب کچھ جان لے مگر اسے معرفت رب حاصل نہ ہو تو گویا وہ بے علم جاہل ہے ۔ (اغاثۃ اللھفان :68) جب انسان کسی چیزکی حقیقت تک پہنچتا ہے توپھر صحیح معرفت ہوتی ہے۔حقیقت تک پہنچنے کے لیے علم اور دلائل کی ضرورت ہوتی ہےاور سب سے بڑی دلیل قرآن وسنت ہے، لہٰذا ہم انتہا پسندی کےتمام پہلوؤں کوختم کر سکتے ہیں ،جب ہمارے پاس قرآن وسنت کاحقیقی علم ہوگا ۔
مختلف مکاتب فکر کی ممتاز شخصیات کا احترام کیا جائے، ان کے موقف کی ممکنہ غلطی کی بنا پر اُن کی نیت پر حملہ نہ کیا جائے۔پھر معاشرے میں پائے جانے والے موقف دو طرح کے ہیں، ایک تو علمی طور پر کتابوں میں موجودہے، دوسرا وہ جو بعض عوامی خطباء کی زبانوں پر ہے،ان دونوں میں بھی بہت سا فرق ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے علما کو اپنے خطباء اور عوام کی اصلاح کا فریضہ انجام دینا چاہیے مثلاً جملہ بریلوی علما ومفتیان اس بات پر متفق ہیں کہ عورتیں مزاروں پر نہیں جاسکتی تو صرف اسی بات پربریلوی عوام کو عمل کرالینے سے کتنے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ اسی طرح باہمی اختلافات کے خاتمے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مختلف الخیال اہل علم کو باہمی تبادلہ خیال کا موقع دیا جائے، ایک دوسرے کے دلائل تحمل وبرداشت سے پیش کیے جائیں، اس سے بھی اختلافات میں بہت سی کمی آسکتی ہے۔
نص صریح کی موجودگی میں اجتہاد استدلالی قوت نہیں بلکہ استبدالِ دین ہے،نص (قرآن وسنت )کی موجودگی میں جو مکالمہ کرتا ہے دراصل اس کا ایمان قابل مکالمہ ہے، اس لیے ہمیشہ حق کے ساتھ انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے جستجو ہونی چاہیے اورپھر انسان اگراکیلا بھی ہو لیکن اللّٰہ کی تائید اور مدداس کے ساتھ ہو،تو وہ اکیلا بھی جماعت ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ۔

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِلهِ حَنِيْفًا(النحل:120)

’’بے شک ابراہیم اکیلے ہی امت تھے‘‘ ۔ یعنی جتنا کام پوری اُمت مل کر کرتی ہے اتنا کام اکیلےسیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کردیا۔ لہذا اس کے خاتمے کے لیےمسلک کی نہیں بلکہ اللّٰہ اور رسول کی نمائندگی کرنی چاہیے۔مسائل میں اختلاف ہو جاتا ہے لیکن اختلافات کا اصل علاج دلیل سے ہونا چاہیے اور دلیل میں تعصّب نہیں ہونا چاہیے اور یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہےجب کہ ہمارا مزاج تحقیق پسندانہ ہو اور تحقیق ہی کو فروغ دے۔
عصر حاضر میں دینی جامعات اور جدید علوم کی جامعات کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ چند ایک اقدامات کریں: جامعات کو چاہیے کہ وہ جہاد کا صحیح اسلامی تصور واضح کریں کیونکہ دنیا کے سامنے جہاد کا صرف ایک منفی پہلو ہی رکھا جارہا ہے،جبکہ جہاد کے دونوں پہلو ؤں کو عامۃ الناس اور نوجوان نسل میں واضح کرنے کی ضرورت ہے۔مسلم ،غیر مسلم کی جان ومال اور عزت کی حفاظت کے متعلق اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔دین نے تو ایک ہی تصور دیا تھا:

هُوَ سَمّٰكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا (الحج:78)

اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے بھی تمہارا نام’ مسلم ‘ رکھا تھا ،اوراِس میں بھی۔ میڈیا میں جب دین کی اقدار کا مذاق اُڑایا جائے اوروہ چیزیں پیش کی جائیں جو دین کی جڑ کاٹنے والی ہیں تو اس سے نوجوان نسل میں انتہا پسندی کی صورت میں لازمی رد عمل پیدا ہوگا، اس طرح جب غیر اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں، این جی اوز اور بہت سارے عناصر مل کر ہمارے نصابات میں تبدیلیاں کر رہے ہیں ،یہ سب چیزیں رد عمل پیدا کر رہی ہیں، لہٰذا ایسے عناصر کو روکا جائے۔ ایسے حالات میں دینی اور دنیاوی جامعات کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے کہ وہ مکمل ہوم ورک اورتیاری کے ساتھ میڈیا کے نمائندوں؍اینکرزکو اکٹھاکرکے اُن کو دین کےصحیح تصورات اور اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں۔کچھ اساتذہ، علمااور طلبا کا انتخاب کرکے اُنہیں ان موضوعات کےلیے تیار کیا جائے جو معاشرے کی ضرورت ہیں اورلوگ سننا چاہتے ہیں مثلاً دین کا صحیح وجامع تصور، انتہا پسندی وفرقہ واریت کے اسباب، نقصانات اور خاتمے کی تجاویز، مسلم وغیر مسلم کے جان ومال اورعزت کے تحفظ کے حوالے سے

اسلامی تعلیمات۔

انسان میں انتہاپسندی وتشدد لا علمی اور جہالت کی وجہ سے آتی ہے۔اگر انسان کے پاس علم اور دلائل موجود ہوں تو وہ باوقار طریقے سےصرفِ نظر کرتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے والد کو نرمی سے دعوت دی تو باپ غصّے میں رجم کرنے اورگھر چھوڑنے کی دھمکی دینے لگا۔تشدد اور جہالت کا خاتمہ علم اور دلائل ہی سے ممکن ہے،جبکہ دین اسلام علم اور دلائل ہی کا نام ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ (علق:1)

’’پڑھو اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔‘‘ انتہاپسندی،تشدداورغلو ان سب کا اللّٰہ تعالیٰ نے رد کرتے ہوئے فرمایا:

قُلْ يَاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ (المائدۃ:77)

’’کہو ، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور نہ اُن لوگوں کے تخیلات کی پیروی کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اورسَواء السبیل سے بھٹک گئے‘‘۔
انتہا پسندی اورفرقہ واریت کا اصل توڑ نرم گوئی اور نرم مزاجی ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نےسیدنا موسیٰ اور سیدنا ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا: ﴿

فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى (طہ:44)

’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے‘‘۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا (صحیح البخاری:6103)

’’جو اپنےبھائی کوکافر کہے تو دونوں میں سے ایک کافر ہوجاتا ہے‘‘۔امام بخاری باب من کفّرَ أخاه بغیر تاویله کاعنوان قائم کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اس آدمی کے لیے ہے جس نےمسلمان کو حقیقی کافر کہا ، اور اللّٰہ کا منکر بنادیا۔
تقریر، تحریر، تدریس وغیرہ میں ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے جس میں عدم برداشت کا پہلو ہو۔
واعظین وخطبا ءحضرات کا میرٹ طےکیا جائےیعنی تخصص فی الخطابہ کورس کا آغاز ہو ، خطبا ءسلیکشن کمیٹی بنائی جائے۔
حکومت اور علماء کے تعاون سے بورڈ تشکیل دیا جائے جو اس انتہا پسندی کے خاتمہ کے لیے کردار ادا کرے ۔
سوشل میڈیا میں کردار ادا کر نےکے لیے اساتذہ، مبلغین اور طلبا کی ٹیم تیار کی جائے۔
اختلافات کے دائروں میں فرق واضح طور پر سمجھا اور سمجھایا جائے۔
اختلاف کی صورت میں دوسرے کے حقوق کو تلف نہ کیا جائے۔
اختلافی مسائل چھیڑنے سے حتی الامکان باز رہا جائے ۔
باہمی مکالمے کے لیے ماہر علماء کی زیر نگرانی ٹیمیں بنائی جائیں۔
انفرادی عصبیت کی بجائے ملی و اسلامی مفادات کو ملحوظ رکھا جائے۔
بین المسالک حقوق کا تعین مشاورت سے طے کرکے مساویانہ عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز مواد کو روکا جائے اور مثبت مواد عام کیا جائے۔
یہ اور اس طرح کی اوربھی تدابیر اختیار کرکے انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کوکم کیا جاسکتا ہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تشدد وانتہا پسندی سے محفوظ رکھے، راہ اعتدال پر چلنے کی توفیق دے ، اس سلسلہ کے ہر سبب سے بچنے اوراس کے تدارک کی ہر ممکن تدبیراختیار کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے ۔ آمین
اس مضمون کی تیاری میں ماہنامہ محدث لاہور، محدث فورم، واٹس اپ گروپ مجلس التحقیق الاسلامی، مجموعہ علماء اھل الحدیث میں علماء کرام کے مابین ہونے والی بحوث کے قیم نکات بھی شامل ہیں اس کے علاوہ الغزو الفکری پر لکھی ہوئی چند کتب سے بھی استفادہ کیاگیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں الحاد اور اس کی صورتیں

’’الحاد کے معنیٰ ہیں : کسی ایک طرف مائل ہونا ۔ اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتاہے جو قبر کے گھڑے کے اندر ایک طرف بنائی جاتی ہے ۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے‘‘ ۔ ( تفسیر احسن البیان ص ۳۹۰ مطبوعہ دار السلام لاہور)
اسماء ، اسم کی جمع ہے جس سے مراد :اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے نام ہیں جو باری تعالیٰ نے خود اپنے لئے منتخب کئے ہیں اور اپنے رسول ﷺ اور کتابِ عظیم کے ذریعے کچھ ہمیں بھی بتلائے ہیں ۔
اسی طرح صفات صفت کی جمع ہے جس سے مراد : اللہ تعالیٰ کی وہ بلند وبرتر صفات ہیں جن میں اس کا کوئی شریک نہیں جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوریٰ :11)

’’ اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔
اہل سنت والجماعت کا اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کے باب میں یہ عقیدہ ہےکہ ’’ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں اور تمام صفات پر حقیقی معنیٰ میں بغیرتمثیل ‘بغیر تشبیہ ‘بغیر تکييف ‘بغیر تعطیل اور بغیر تحریف کئے ایمان لانا ‘ جونام اللہ نے خود ہمیں بتائے ہیں یا نبی کریم ﷺ نے بتائے ہیںجیسے استواء ‘ نزول ‘ ید وغیرہ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوریٰ :11)

’’اس جیسی کوئی چیز نہیں ‘وہ سننے اور دیکھنے والا ہے‘‘یعنی کائنات میں اللہ جیسی کوئی چیز نہیں‘نہ ذات میں نہ صفات میں۔پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے۔واحد اور بے نیازہے۔
اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی صورتیں ۔
اللہ تعالیٰ کے ناموں اور صفات میں الحاد ( کج روی ) کی جملہ صورتیں ذیل کے سطور میں بیان کی جاتی ہیں ۔
پہلی صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام یا اس سے ثابت ہونے والی صفت کا انکار کرنا ۔ جیسا کہ اہلِ جاہلیت اللہ تعالیٰ کے نام مبارک ’’رحمٰن ‘‘ کا انکار کیا کرتے تھے ۔چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا

’’ ان سے جب بھی کہا جاتا ہے کہ رحمان کو سجدہ کرو تو جواب دیتے ہیں رحمان ہے کیا ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دے رہا ہے اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کر دیا ‘‘۔(الفرقان 60)
یا جیسا کہ بعض مبتدعہ نے اللہ تعالیٰ کا نام تو تسلیم کیا لیکن اس نام پر مشتمل صفت کا انکار کردیا جیسا کہ بعض باطل فرقے کہتے ہیں ’’ اللہ رحیم ہے بغیر رحمت کے اور سمیع ہے بلا سمع کے ۔
دوسری صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں پر اپنی طرف سے اضافے کرلینا ، یعنی اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کے نام گھڑ لینا جس کی اجازت اللہ تعالیٰ نے نہیں دی ۔ یہ الحاد اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائےعالیہ توقیفی ( یعنی اللہ کی طرف سے متعین کردہ ) ہیں ۔ لہذا جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ ناموں جو اس نے اپنے لئے منتخب کئے ہیں انہیں چھوڑ کر اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نام گھڑ لیتاہے وہ اللہ تعالیٰ پر وہ بات کہتاہے جس کا اسے علم نہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسی بات کہنے سے منع فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف 33)

آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں ۔
جیسا کہ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو لفظ ’’خدا ‘‘ ’’ گوڈ ‘‘ یا فلاسفہ نے علہ الفاعلہ اور عیسائیوں نے ’’الاب ‘‘ (والعیاذ باللہ ) کا نام اللہ کیلئے متعین کیا ہے ۔
تیسری صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردینا جیسا کہ مشرکین نے کیا کہ اللہ کے ذاتی نام سے اپنے بت کا نام ’’ لات ‘‘ رکھ لیا اور اس کے صفاتی ناموں عزیز سے ’’عزیٰ ‘‘ اور ’’ المنان ‘‘ سے ’’مناۃ ‘‘ بنالیا ۔
اس کے الحاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رکھے ہوئے نام اسی کی ذات کیلئے خاص ہیں ۔ لہذا انہی معنوں میں اللہ کے وہ نام مخلوق کیلئے استعمال کرنا کہ اس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جانے لگے ۔ یہ الحاد ( کج روی ) ہے ۔
فرمان باریٰ تعالیٰ ہے:

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ۝۰ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِيًّا (مریم:65)

’’ آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟ ‘‘۔
چوتھی صورت : اللہ تعالیٰ کے ناموں میں کمی کردی جائے ۔ مثلاً: اسے کسی ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے ۔
پانچویں صورت : اللہ کے ناموں اور صفات میں الحاد کی ایک صور ت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل ، تعطیل ، یا تشبیہ سے کام لیا جائے ۔
تاویل : اس طرح کہ جیسا کہ بعض مبتدعہ کہتے ہیں کہ ’’یداللہ ‘‘ سے مراد قوت ہے اور ’’ استواء‘‘ کا مطلب غلبہ ہے ۔ اللہ کو ہر جگہ ذات کے اعتبار سے حاضر سمجھتے ہیں ۔
اور تعطیل سے مراد کلی انکار ہے ۔تشبیہ سے مراد مخلوق کی صفات
چھٹی صورت : یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ نام یا صفات ایسی ہی ہیں جیسا کہ مخلوق کی صفات ۔ جیسا کہ بعض مبتدعہ نے یہ کہا کہ اللہ کا ہاتھ مخلوق کے ہاتھ کی طرح ہے ۔ اس کا استواء ونزول مخلوق کے نزول واستواء کی طرح ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
ساتویں صورت : اللہ تعالیٰ کی صفات میں پائے جانے والے معنیٰ ومفہوم کو مخلوق کیلئے بھی استعمال کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ مخلوق بھی اس صفت کی مالک ہے جیسا کہ اللہ ۔ مثال کے طور پر ہمارے معاشرے میں عام طور پر رائج ہے کہ لوگ اپنے پیروں اور بزرگوں کو ان صفات سے متصف کرتے ہیں جو ان معنیٰ میں محض اللہ تعالیٰ کیلئے استعمال ہوتی ہیں ۔
مثلاً: جیسا پیر عبد القادر جیلانی کو غوث اعظم اور دست گیر کہا جاتاہے ۔ علی ہجویری کو داتا ، گنج بخش کہا جاتاہے ، خواجہ معین الدین چشتی کو غریب نواز کہا جاتاہے ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان القابات اور صفات کا جو غیر اللہ کیلئے استعمال کی گئی ہیں حقیقۃ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں ان کا معنیٰ ومفہوم کیا ہے ؟
غوث اعظم سے مراد: سب سے بڑا فریاد سننے والا
اب قرآن کریم کی روشنی میں ملاحظہ کریں کہ سب سے بڑا فریاد سننے والا کون ہے ؟
فرمان باری تعالیٰ ہے :

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَيَكْشِفُ السُّوْۗءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللہِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ (النمل62)

’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ تم لوگ تھوڑا ہی غور کرتے ہو ۔ ‘‘
دست گیر :کا معنیٰ ہے مصیبت کے وقت تھامنے والا ۔
یہ اللہ کی صفت ہے فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًافَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (یونس12 )

’’ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں اپنے پہلو پر یا بیٹھے ہوئے یا کھڑے ہر حالت میں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے وہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ ایسے حد سے بڑھے ہوئے لوگوں کو وہی کام اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
داتا سے مراد : سب کچھ دینے والا
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

مَا يَفْتَحِ اللہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِكَ لَہَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَہُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (فاطر:2)

’’ اللہ اگر لوگوں کے لئے اپنی رحمت (کا دروازہ) کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جسے وہ بند کردے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں ۔ اور وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے‘‘۔
نیز ایک اور آیت میں فرمایا :

لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۝۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۝۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمًا۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۝۵۰ (الشوریٰ)

’’ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالٰی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔
گنج بخش :سے مراد خزانے بخشنے والا ۔
یہ صفت بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے لیکن اسے مخلوق میں چند پیروں کیلئے استعمال کیا جاتاہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَلِلّٰهِ خَزَاۗىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ (المنافقون7)

’’اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ تعالٰی کی ملکیت ہیں لیکن یہ منافق بےسمجھ ہیں ‘‘۔
نیز فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران 37)

’’بلاشبہ اللہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے‘‘۔
غریب نواز سے مراد : غریبوں کو نوازنے والا ۔
غریبوں کو نوازنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
فرمان باریٰ تعالیٰ ہے :

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ (سورہ فاطر 15)

’’ لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور وہ (ہر چیز سے) بے نیاز اور حمد کے لائق ہے۔‘‘
یعنی سب سے بڑا مدد کرنے والا ، مشکل میں ہاتھ تھامنے والا ، دینے والا ، غریبوں کو نوازنے والا یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال ہیں ۔ مخلوق کیلئے ان کا استعمال شرک بھی ہے اور الحاد بھی ۔

آزادیٔ اظہار رائے

اسلام کے فکری عروج کو زوال میں بدلنے کے لیے اہلِ مغرب نے دو سازشیں کیں۔
ایک تو انہوں نے ہمارے ہاں تشکیک کو فروغ دیا ۔ دوسرا اظہار رائے کی آزادی کے ایک مخصوص تصور کو ۔
اول انہوں نے تشکیک کا کام تحقیق کے نام پر کیا ۔ مستشرقین نے اس کے لیے بہت محنتیں کیںآپ اندازہ کیجئے کہ مسند احمد بن حنبل جیسی ضخیم کتاب کی ایک مستشرق نے سطر سطر پڑھ چھوڑی کہ جس کو مسلمان علماء میں بھی شاذ ہی کسی نے یوں پڑھا ہو گا ۔ اس تشکیک کے شکار اول مصری لبرل اسکالر ہوئے اور پھر جدت پسندی کے نام پر عالم اسلام میں ان کا عروج ہوتا گیا ۔ ویسے بھی پون صدی پیشتر عالم عرب میں یہ صورت حال تھی کہ مصر سے ’’علم و فکر‘‘ کے نام پر مٹی بھی آتی تو سونا ہوتی ۔ اسی تشکیک کے پردے سے عالم عرب میں الحاد نے جنم لیا جو اب ہر سو اور ہر دن پھیل رہا ہے ۔
مستشرقین کے تین طرح کے طبقات تھے ان میں ایک طبقے نے اسلام کی تعریف بھی کی اور نبی کریم کی ذات کو بہت سی خوبیوں کا مرقع قرار دیا ۔ جب کہ دوسری قسم کے مستشرقین نے اسلام کے خلاف نفرت کی فضاپیدا کی ، غلو کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مسخ کر کے پیش کیا لیکن حیرت یہ ہے کہ ملحد مستشرقین نے بھی اسلام کے خلاف ہتھیار اٹھائے رکھے اور نفرت و تعصب سے کام لیا ۔ملحد مستشرقین نے اسلام کے خلاف کیوں کام کیا اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے ۔ قرون وسطی میں جب یورپ میں مذہب بیزاری کی تحریک زوروں پر تھی اور ایک طبقہ مذہب کی قید سے آزاد ہونا چاہ رہا تھا دوسری طرف مذہب پسندوں کی گرفت گو کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی لیکن ایسی بھی نہیں کہ الحاد ان پر غلبہ پا لیتا ۔ سو اس الحادی سوچ پر شدید ترین پابندیاں لگائی جا رہی تھیں ۔ ان پابندیوں اور سزاؤں سے بچنے کے لیے اور مذہب کے خلاف کام کرنے کے لیے ملحد مستشرقین نے اسلام کو بطور استعارہ اختیار کیا اور اسلام کے پردے میں مذہب پر شدید تنقید کو جاری رکھا۔ ان ملحد مستشرقین کا ہی دوسرا ہتھیار “آزادی اظہار ” تھا۔
اندازہ کیجئے کہ آزادی اظہار کی تاریخ اور حقیقت کیسی مکروہ صورت لیے ہوئے ہے ۔
مذہب سے آزادی کی یہ یورپین تحریک آخر کامیاب ہوتی ہے اور مغربی معاشرے سے مذہب کو دیس نکالا مل جاتا ہے ۔ اب مذہب ان کی زندگی کا محض ایک ’’پرسنل‘‘ معاملہ ہے اور ریاست کے امور اور قانون سازی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ان کو حق تھا کہ اپنے لیے جو چاہیں پسند کریں لیکن انہوں نےچاہا کہ تمام دنیا بھی ان کی طرح مذہب بیزار ہو جائے لیکن دل چسپ امر یہ ہے کہ اس چاہت نے ہمیشہ حملہ اسلام پر کیا ۔ کبھی بھی ان کی فکری توپوں کا رخ دیگر مذاہب کی طرف نہ ہوا ۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ اسلام جیسا زندہ مذہب اور انسانیت کو مسلسل متاثر کرنے والا کوئی دوسرا مذہب نہیں تھا ۔ دوسرا سبب ممکن ہے ان کا احساس کمتری رہا ہو کہ اہلِ مغرب نے مذہب کو معاشرتی زندگی سے دیس نکالا تو دے دیا ، لیکن ہر قسم کی روحانیت سے دوری نے ان کی زندگی میں شدید ترین خلا پیدا کر دیا ۔ تعمیری رویہ تو یہ تھا کہ وہ اس عملی الحاد کو چھوڑتے اور مذہب کی طرف واپس پلٹتے لیکن انہوں نے سازشیں شروع کر دیں ، اور اپنے احساس کمتری کو اسلام پر حملوں کی صورت میں نمایاں کرنے لگے ۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اسلام کے خلاف نفرت اور سازشیں محض اوپر بیان کردہ واحد وجہ سے نہیں جڑی ہوئیں بلکہ سیاسی اور جغرافیائی جھگڑے بھی اس کی وجہ بنے ہیں ۔ خیبر سے بے دخلی سے لے کر صلیبی جنگوں تک ایک لمبی فہرست ہے واقعات کے تسلسل کی اور اس ٹکراؤ کے تاریخی حقیقت ہونے کی سو عالم کفر ملت واحدہ ہو کر اسلام پر حملہ آور ہے ۔اور اس حملے میں وہ ہر طرح کے ہتھیار برت رہا ہے ۔ بہت سے میدانوں میں یہ جنگ جاری ہے ۔ کمال یہ ہےکہ اسلام باوجود اپنے حاملین کی کمزوری کے مردانہ وار نہ صرف ان حملوں کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ کسی حد تک اس کا دشمن ہزیمت کا شکار ہے ۔ اس کا سبب اسلام کی اندرونی قوت ہے ، نظریے کی بے انتہا مضبوطی ہے ۔ روحانی سبب اس کا یہ ہے کہ اسلام اللہ کو طرف سے بنی نوع انسانی کی طرف اتارا گیا آخری مذہب ہے سو اس کی حفاظت اللہ کو منظور ہے ۔
اسلام پر حملوں کے مختلف میدانوں میں ایک فکری محاذ بھی ہے ، جہاں آزادی اظہار کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ہدف اسلام کو بنایا جا رہا ہے ۔ آزادی اظہار بظاہر بہت خوش کن الفاظ ہیں ۔ انسان کی فطرت میں آزاد رہنا لکھا ہے سو اپنی آزادی پر کوئی قدغن برداشت کرنا اس کے لیے مشکل امر ہے ۔ اسی فطری خواہش کی بقاء کے جذبے کو استعمال کر کے اہلِ مغرب نے آزادی اظہار کو ’’عقیدہ‘‘ بنا دیا ۔
اہلِ یورپ کہ جو اپنی دانست میں عالم انسانی کی فکری قیادت کر رہے تھے خود ان کا آزادی اظہار کے باب میں کیا رویہ تھا ، یہ بہت دلچسپ کہانی ہے ۔
آزادی اظہار کے اس نام نہاد یورپی معاشرے میں آپ کو مذہب پر تنقید کی مکمل آزادی ہے ، تاریخ کے پرخچے آپ جیسے چاہیں ویسے اڑا کے رکھ دیں ، لیکن آپ کو ’’ہولو کاسٹ ‘‘ پر بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ گو تمام مغربی ممالک میں ایسی صورت نہیں ہے لیکن جہاں ہے وہاں عجیب ہی صورت میں ہے ۔ فرانس ، آسٹریا اور جرمنی میں ہولو کاسٹ کا انکار قانونا جرم ہے مگر نبی کریم کی ذات اور آپ کے کارٹون بنانا آزادی اظہار ہے ۔ ان کو تمام مسلم امہ کا احتجاج بھی یہ نہیں سمجھا سکا کہ نبی کریم کی ذات ہمارے لیے اس سے بدرجہا افضل ہے جتنا یہودیوں کے لیے محض پچھلی صدی میں ہونے والا ایک قتل عام ۔ اس میں اس بات کا بہت امکان ہے کہ اہلِ مغرب اس بات کو سمجھنے کے باوجود نہ سمجھنا چاہ رہے ہوں ۔
ان کے ہاں اظہار آزادی بہت ہی متضاد صورت لیے ہوئے ہے ، کسی بھی خاتون کو سر بازار برہنہ ہونے کی آزادی تو ہے لیکن یہاں اظہار کا پیمانہ بدل جاتا ہے ، اب آپ اگر اعتراض کرتے ہیں تو یہ آزادی اظہار نہیں کسی کے حقوق میں کھلی مداخلت ہے لیکن ٹھہریے جاتے کہاں ہیں ، ابھی “عشق ” کے امتحان اور بھی ہیں اگر کوئی خاتون برہنہ ہونے کی بجائے سر ڈھانپ لیتی ہے ، خود کو ملفوف اور با حجاب بنا لیتی ہے تو اس کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ، اور نہ یہ اس کی شخصی آزادی کا معاملہ رہ جاتا ہے اور ایسے میں اگر آپ اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں ، اس پر فقرے کستے ہیں تو اس اظہار کی آپ کو آزادی ہے اور اس اظہار سے جو اس کی دل شکنی ہو گی ، توہین ہو گی اس کی فکر نہ کیجئے کہ آج آپ کو اظہار رائے کا حق حاصل ہے ۔
اور ہاں اگر آپ کسی کو گالی دیتے ہیں اور اس گالی سے اس کا دماغ گھوم جاتا ہے اور اس گھومنے کے نتیجے میں وہ آپ کو تھپڑ رسید کر دیتا ہے تو مجرم آپ ہیں کہ گالی دینا جرم ہے ، آزادی اظہار نہیں ۔بظاہر بات درست ہے ، لیکن وہ جو اوپر خاتوں بازار میں سے گزر رہی تھی ، باحجاب تھی اس کو گالی دینا کیوں روا اور جائز ٹھہرا ؟
قصہ مختصر آزادی اظہار کا یہ مغربی عقیدہ چوں چوں کا ایسا مربہ ہے کہ بندہ حیرت زدہ رہ جائے ۔
خود ان کی دوعملی کی یہ صورت حال ہے کہ الجزیرہ ٹیلی وزن نے امریکی فوجیوں کی لاشیں کیا دکھا دیں کہ امریکی ادارے تمام اخلاقیات بھول گئے ، تب ان کے نزدیک یہ آزادئ اظہار نہ رہا بلکہ لاشوں کی بے حرمتی ہو گئی ۔ جب کہ اصل صورت یہ تھی کہ امریکہ کی ناک کٹ سی گئی تھی ، سو اس شرمندگی کو انسانی حقوق تلے دبا رہا تھا اور تب تک چین نہ لیا جب تک الجزیرہ ٹی وی کے دفتر پر بمباری نہ کر لی اسے تباہ نہ کر لیا ۔ اسی طرح وہ مشھور کارٹون کا قصہ کس کو بھولا ہو گا جب ان کی وزیر خارجہ کے ایک عرب اخبار نے کارٹون بنا کے چھاپ دئیے جس میں موصوفہ کے پیٹ سے نیا مشرق وسطی برآمد ہوتا دکھایا گیا تھا۔کارٹون چھپنے کی دیر تھی کہ آزادی اظہار کے نام لیواؤں کی چیخیں آسمان تک بلند ہونے لگیں لیکن جب نبی کریم کے خاکے شائع ہوئے تو یہ بنیادی انسانی حق یانی اظہار آزادی کا مظہر ٹھہرے ۔
تضادات کا یہ شاہکار نظریہ اپنے مخصوص “مفادات ” کے لیے عالم اسلام میں درآمد کر دیا گیا ۔
اور اس اظہار کو مسلم معاشرے میں مذہب پر تنقید کے لیے برتا جانے لگا ۔ بات یہاں تک بڑھی کہ اسلام کے مسلمات تک کو ہدف تنقید بنایا جانے لگا ۔ یہ معاملہ کچھ ایسی چابک دستی سے انجام دیا گیا کہ جانے انجانے میں بہت سے مسلمان ہی اس فکری لڑائی میں ان کے پیادے بن گئے اور ان پیادوں نے اتنی محنت کی کہ بہت جلد اس ایجنڈے کا ہراول دستہ بن گئے۔ستم ظریفی ہے نا کہ ہراول دستہ بھی خود مسلمان ہی ٹھہرے ، بھلے وہ نام کے مسلمان ہوں یا نسبا ۔
اپنی بات کو سیمٹتے ہوے میں پاکستان میں چلا آتا ہوں ، ہمارے ہاں کے اس ہراول دستے میں میڈیا کے افراد اور “این جی اوز ” کے ذمے داران خوب خوب کام کر رہے ہیں ۔ اور کفر کے ایجنڈے کے یہ سہولت کار بسا اوقات ایسے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ “شیطان ” بھی مسکرا اٹھتا ہو گا کہ ایسا تو میں نے بھی نہ کہا تھا ۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کو مولوی کی توہین کے مترادف بنا لیا گیا ، مولوی کی توہین ، استہزاء ، ٹھٹھا دراصل ایک حفاظتی دیوار تھی کہ مقصود مذہب کا مذاق اور انکار تھا ، لیکن حالات اس کے لیے سازگار نہ تھے سو مولوی کا سہارا لیا گیا ۔ آہستہ آہستہ ماحول کو “سازگار ” پا کر بلی تھیلے سے باہر آنے لگی ۔ سوشل میڈیا نے ان کے لیے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور جعلی ناموں سے ، فرضی پیج بنا کر کھلم کھلا مذہب کا مذاق اڑایا جانے لگا اور اس قبیح عمل کو آزادی اظہار کا نام دیا گیا ۔ آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک ازادی اظہار اصل میں توہین مذہب بلکہ توہین اسلام کا نام ہے ۔ جب پچھلے دنوں بدترین گستاخ بلاگر پکڑے گئے تو ان کے مربی اس گرفت کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دے رہے تھے ۔ ان لوگوں نے شعائر اسلام کی توہین کا نام ہی اظہار کی آزادی کو قرار دے رکھا ہے ۔
حالانکہ معروف اخلاقیات بھی اس طرز عمل کی نفی کرتے ہیں ۔ اہل یورپ کا محاورہ ہے کہ آپ کی آزادی آپ کی ناک تک ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے وہاں آپ کی آزادی ختم ہو جاتی لیکن جب اسلام اور مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے محاورے الٹ ہو جاتے ہیں ، معانی بدل جاتے ہیں ۔ مسلمان اپنے مذہب کا دفاع کریں یا احتجاج کریں تو آزادی اظہار کے منکر قرار دئیے جاتے ہیں ۔ ان کو تنگ نظری کا طعنہ دیا جاتا ہے ، حالانکہ صورت اس کے برعکس ہے ۔ جتنی اظہار کی آزادی اسلام میں ہے کسی اور مذہب میں نہیں ۔ عورتوں کے حقوق کا جیسا اسلام محافظ ہے کوئی اور مذہب نہیں ۔
عورتوں کے حقوق کی بات سن لیجئے ۔ زمانہ نبوت کا واقعہ ہے کہ ایک عورت اپنے خاوند سے الگ ہونا چاہتی تھی ، اس کو اپنے خاوند سے کوئی لگاؤ نہ تھا ،دوسری طرف خاوند کو اس سے بے تحاشا پیار تھا ، لیکن عورت کیا کرتی کہ دل پر کس کا اختیار ، الگ ہونے پر بضد تھی ..خاوند آنسوں کی برسات لیے نبی کریم ﷺکے پاس چلا آیا ۔آپ نے اس کی حالت دیکھی تو اس کی اہلیہ کو بلا بھیجا ۔ خاتون آئی تو آپ نے اس کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا کہا ۔ اس نے سر جھکا کے پوچھا کہ حضرت یہ آپ کا حکم ہے کہ مشورہ ۔ آپ نے فرمایا کہ مشورہ ، اس نے انکار کر دیا ۔ معاملہ ایسا سادہ نہیں ۔ اہل اسلام میں نبی کی بات کا انکار کرنا کفر سمجھا جاتا ہے اور یہ کفر ابدی جہنمی بنا دیتا ہے ۔ لیکن یہاں اختیار عورت کا تھا جس میں نبی بھی مداخلت نہیں کر سکتے ، سو اس عورت نے انکار کر دیا ۔ آپ نے اس کے انکار کو تسلیم کیا کہ اس نکاح میں رہنا یا نہ رہنا اس عورت کا شخصی حق تھا ، سو اس حق کی تعظیم کی گئی ۔
اسی طرح ایک عورت آپ کے پاس آئی اور زمانہ بلوغت سے پہلے کے کیے گئے اپنے نکاح پر تحفظات کا اظہار کیا اس کے باپ نے بچپن میں اس کا نکاح کر دیا تھا ۔ اب جب وہ بالغ ہوئی اور رخصتی کا وقت قریب آیا تو اس کو اپنا خاوند پسند نہ آیا ۔وہ نبی کریم ﷺکی طرف چلی آئی ۔ آپ نے اسے مکمل اختیار دے دیا کہ چاہے تو اس نکاح کو باقی رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے ۔ اندازہ کیجئے کہ عورت کی کیسی تکریم کی گئی کہ آج کی آپ کی نام نہاد روشن خیال سوسایٹی بھی اتنی آسانی سے ایسا نہ کر سکے ۔ اس طرح کے بہت سے واقعات آپ کو زمانہ نبوت و خلفا راشدین میں مل جائیں گے ۔ اسی طرح دنیاوی معاملات میں مسلمانوں کو اختیار دیا گیا کہ جو بہتر سمجھیں اختیار کریں ۔ جیسے کہ کھجوروں کی کاشت میں نبی کریم کی رائے تھی اور آپ نے اپنی رائے کی پابندی کی بجائے مسلمانوں کو اختیار دیا کہ جو چاہیں سو کریں ۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ آپ ایک روز مدینے کے باغات کی طرف نکل دئیے ۔ جہاں لوگ کھجوروں کی پیوند کاری کر رہے تھے ، آپ نے ان کو ایساکرنے سے روک دیا ۔ وہ لوگ اطاعت کے سبب رک گئے ۔اسی برس فصل بہت کم ہوئی ۔ جب سبب پوچھا گیا تو مذکورہ امر سامنے آیا اس پر آپ نے فرمایا کہ میں بھی انسان ہوں جب دین کی بات بتاؤں تو اس پر عمل کرو ، لیکن جب کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں اس طرح آپ نے لوگوں کو اختیار دیا کہ دنیاوی معاملات میں جو بہتر ہو وہ لر لیا کریں۔
اور بتائیے انسانیت کے حق میں ، انسان کی آزادی کے حق میں ایسا عظیم الشان جملہ کس طبقہ فکر کے دامن میں ہو گا کہ:’’انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ، تم ان کو غلام بنانے والے کون ہو ‘‘۔
جی ہاں ! یہ جملہ ہمارے خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کا ہے جس پر انسانیت کے بڑے سے بڑے چارٹر قربان کیے جا سکتے ہیں ۔لیکن کبھی پڑھئے ، کبھی کتابوں کو اٹھایے کہ یہ جملہ کب اور کس موقعے پر انہوں نے کہا تھا ۔ مصر کے گورنر کے بیٹے نے گھوڑ دوڑ میں ایک غریب کے بچے کو آگے نکلنے پر چھڑی دے ماری ۔ اس غریب نے حج کے موقعے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حضور شکایات کا پلندہ کھول دیا ۔ آپ کا حکم تھا کہ حج کے موقعے پر تمام بلاد اسلامیہ کے گورنر مکہ میں جمع ہوں۔ آپ خود بھی وہاں موجود ہوتے تھے اور یوں عوامی احتساب کا شان دار موقع مل جاتا ۔ آپ نے گورنر اور ان کے بیٹے دونوں کو طلب کر لیا ۔ مقدمہ پیش ہوا اور واقعہ ثابت ہو گیا ۔ آپ نے اس پر یہ مشہور جملہ بولا تھا ۔
لیکن جھوٹ اور پراپیگنڈے کے زور سے سفید کو سیاہ کر دیاکہ جس مذہب نے آزادی اظہار کے حقیقی معنوں سے انسانیت کو روشناس کرایا اسی کو اس کا دشمن گردانا جانے لگا ۔ فیصلہ اسی بات پر آ ٹھہرا ہے کہ کسی کے دامن میں کوئی ایسا جملہ ہے تو لائے کہ :’’انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنم دیا ، تم ان کو غلام بنانے والے کون ہو‘‘
آزادی اظہار کو اسلام کے خلاف ایک سازش کے تحت استعمال کیا گیا ، مسلمانوں کی توہین کی گئی ، ان کو تنگ نظر گردانا گیا ، اسلام کو ایک پسماندہ مذہب قرار دیا گیا ۔ گو ہم یہاں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ کی یہ تنقید ، توہین کیا بذات خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟
لیکن ہم ان کی اس بدتہذیبی کو نظر انداز کر کے ان سے ایک سوال کرتے ہیں :
سوال یہ ہے اس “مبینہ ” آزادی اظہار کا حق استعمال کرتے ہوے کیا مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ بائبل کے ساتھ وہی سلوک کریں جو اظہار کے نام پر آپ کرتے ہیں اور کبھی آپ کے فکری رہنما “ٹیری جونز ” جیسے افراد کرتے ہیں ؟
چلیے چھوڑئیے ! آپ کے پاس جواب کہاں ہم ایک اور سوال کرتے ہیں کہ کبھی کسی مسلمان نے آپ کے مقدسات کی توہین کی،بائبل کو جلایا ، مقدسہ مریم کے بارے میں بدزبانی کی ؟ آپ تمام عالم اسلام ڈھونڈ لیں آپ کوئی کہیں ایسا نہیں ملے گا ۔ سبب کیا ہے ؟
صاف بات کہوں ؟مسلمان آپ سے ہزار گنا زیادہ مہذب قوم ہیں ، ممکن ہے کوئی صاحب کہہ اٹھیں کہ مذہب اسلام میں عیسیٰ علیہ سلام بھی ایسے ہی معزز ہیں جیسے تمام انبیاء ، لیکن ہم تب سوال کریں گے کہ پاکستان کی ہندستان سے تین جنگوں میں ، نفرت کی شدید ترین فضا میں بھی ہمارے ہاں کوئی ” ٹیری جونز ” کیوں نہ پیدا ہوا؟
جناب سبب وہی کہ ہم آپ سے بحمد اللہ ہزار گنا زیادہ مہذب ہیں ، با شعور ہیں اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں ۔ دیکھئے ہمارے ہاں آزادی اظہار کا یہ تصور ہے کہ :
’’وہ کہیے جو آپ کا من چاہے ، لیکن وہ نہ کہیے جو دوسرے کے مذہب کی ، ذات کی ، اسلاف کی اور عقیدے کی توھین ہو۔رہا اختلاف سو کیجئے لیکن تھذیب کے ساتھ ۔
آزادی اظہار کے ضمن میں “عورت کی آزادی ” بھی بہت اہمیت کا حامل موضوع ہے اور اس آزادی کی نمائندہ خواتین کا رویہ بہت ہی جارحانہ ہوتاہے ۔ آزادی اور اظہار کی آزادی کے نام پر توہین مذہب اور توہین اسلام ان کا روزمرہ کا شغل ہے ۔ ان کی سوچ کا یہ عالم ہے ایک خاتون ٹی وی پروگرام میں کہنے لگی کہ “میں اس ترجمہ قران کو نہیں مانتی جو کسی مرد نے کیا ہو” ۔
عورت کی یہ نام نہاد آزادی کا شوشہ بھی انہی اہلِ مغرب کا پھینکا ہوا ایک جال ہے ۔ گو ہمارے اس مضمون کے موضوع سے کچھ باہر نکلتا عنوان ہے لیکن چلتے چلتے لکھتا چلوں کہ ہمارے ہاں عورت کی آزادی کو بھی مبینہ طور توہین مذہب کے لیے برتا گیا ۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں حدود آرڈیننس کا صرف لفظی نفاذ ہوا تھا ، اس پر عمل درآمد بہت دور کی بات تھی ، لیکن عورت کی آزادی کے ان علم برداروں نے وہ گرد اڑائی کہ الامان ۔ کوئی “میں نہیں مانتی” کا شور کر رہی ہے اور ایک خاتون کتاب لکھ رہی ہے “آدھی عورت ” ۔ نفاق کی حد ہے، یہی عورت کے حقوق کی پرچارک خواتین اسی عورت کو بازار کی جنس بننے پر معترض نہیں ہوتیں ۔ وہی معصوم عورت جب “بازار حسن ” کی پروڈکٹ بن کر “استعمال” کی شے بن جاتی ہے تب ان کو اس کی توہین دکھائی نہیں دیتی ، جب اس بازار میں اس کے سودے کیے جاتے ہیں تب یہ اس “بیوپار ” کو روشن خیالی قرار دے کر آنکھیں موند لیتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی مذہب کا سہارا لے کر ان کے حقوق کی بحالی کی بات کرے تو

یہ اسے اس کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں اپنی عیاشی کے لیے ان کے دانشور ، انسانی حقوق کے نام لیوا… عورت کی آزادی کے نام پر روشن خیال بن جاتے ہیں..دوسروں کی بیٹیاں ان کو ننگی دیکھنا پسند ہوتی ہے…اس کی ننگی تصاویر کو یہ آزادی کی “برکات” جانتے ہیں …لیکن جب گھر کی باری آتی ہے تو اندر سے یہ بھی وہی “تنگ نظر پاکستانی” نکلتے ہیں۔
پنجابی کا محاورہ ہے جو ان کی منافقت کی صحیح تصویر کشی کرتا ہے’’اپنا بچہ ..اور دوسرے کی بیوی ہمیشہ خوبصورت لگتی ہے‘‘
….اب ان سے سوال ہے…
ظالمو!قوانین تم بناؤ ، حکومت تم کرو ، اسمبلیاں تمھاری ، اختیار تمہارا ، اقتدار تمہارا ، میڈیا تمھارے قبضے میں ، اخبارات پر تمہارا قبضہ ، ملکی انتظامیہ پر تم براجمان ، عدلیہ مکمل تمھاری ….. مولوی دور دور تک نہیں پھٹکتا…
تو کیوں نہ بناے قوانین ؟…کس نے روکا؟
بناؤ قانون کہ جو عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکے اس کے چہرے پر بھی ویسے ہی تیزاب پھینکا جائے ، تب تمہیں مجرم کے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں
بناؤ قانون کہ جو عورت کو غیرت کے نام پر قتل کرے اسے قتل کیا جائے ۔
زنا بالجبر اور گروہ بنا کر عزت لوٹنا فساد میں آتا ہے بناؤ قانون کہ جو عورت کے ساتھ ایسا کرے اسے قتل کیا جائے گا۔
تب کہتے ہو کہ یہ سزائیں وحشیانہ ہیں
تو بتاؤ ! عورت کے مجرم کون ہیں؟
لیکن آزادی اظہار کا سہارا لے کر ان تمام جرائم کی سزاؤں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے ۔ تمام تر تنقید مذہب پر کی جاتی ہے ۔پاکستان میں آزادی اظہار کو بلا شبہ ایک طبقہ مذہب کی توہین کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور ہمیں ان کی اس منافقت کو ہر صورت آشکار کرنے کی ضرورت ہے ۔ وما علینا إلا البلاغ المبین
۔۔۔

معنوی الحاد کی مختلف شکلیں

قابل احترام قارئین کرام :

الحاد : یہ ایک عربی زبا ن کا لفظ ہے جس کا مادہ( ل ح د) ہے جس کا معنی مڑ جانا اور چلتے چلتے کسی مخالف سمت رخ کرلینا اور اصطلاحی طو رپر المیل عن الحق حق سے مڑ جانا حق سے انحراف اختیا ر کرلینا الحاد کہلاتاہے ۔جس طرح ایک مخصوص قبر لحد کہلاتی ہے یعنی قبر کھود تے جائیں پھر دائیں یا بائیں جانب اسے کھودنا شروع کردیں تو قبر لحد والی کہلاتی ہیں تو اس میں بھی ایک طرح کا مڑ نا اور پھر جانا پایاجا تا ہے اسی طرح حق سے پھرنا اورحق سے مڑنا اور حق سے مڑ کر دوسرا راستہ اختیا ر کرلینا یہ الحاد کہلا تا ہے۔
الحاد استقامت کے مقابل اور اس کا مخالف ہے۔کیونکہ استقامت اپنے آپ کو سیدھا رکھنااور سیدھا کرلینے کا نا م ہے اور استقامت میں مستقل اطاعت کی طرف اشارہ ہے یعنی استقامت ایسی شی ٔ ہے جس میں بندہ اپنے آپ کو سیدھا رکھتا ہے اوراستقامت میں اطاعت کا تسلسل دوام اور لگاتار ہونا پایا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں الحاد یہ ہے کہ بندہ استقامت کی راہ سے پھر اور مڑ جائے اور انحراف اختیار کرلے جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پرایک سیدھا خط کھینچا اور دائیں بائیں بہت سے خطوط کھینچے تھے اور جو سیدھا خط آپ ﷺ نے کھینچا تھا اسی کے بارہ میں فرمایا تھا ھذا سبیل اللہیہ اللہ کا راستہ ہے جو کہ بالکل سیدھا ہے اور جو دائیں بائیں خطوط ہیں انکے بارہ میں فرمایا کہ یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور جو سیدھے راستے سے پھر جاتا ہے اور مڑ جاتا ہے انحراف اختیار کرلیتا ہے وہ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتاہے اور پھر وہ جو سبیل شیطان اختیار کرلیتا ہے یہ الحاد کی شرعی حقیقت ہے شرعی اعتبار سے ایک بندہ اللہ کی وحی کا راستہ منتخب کرلے اور اس پر چلنا شروع کردے تو یہ استقامت اور حق کا راستہ ہے اور اگر دائیں بائیں جاتاہے تو گویا وہ الحاد کا راستہ اختیار کر بیٹھتا ہے ، انحراف کا راستہ اختیا ر کر بیٹھتا ہے جو کہ استقامت اوراطاعت وحق کے خلاف ہے اللہ رب العزت صرف دین اسلام ہی قبول فرماتا ہے

وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:153)

اور یہ کہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راہ پر چلو دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو ۔
حق کا راستہ دکھانے کے لیے وحی موجود ہے نبی کریم ﷺکی تعلیمات موجود ہیں اور کتاب وسنت کی صورت میں اللہ تعالی کی وحی موجود ہے جس کے ساتھ چمٹے رہنا استقامت ، ہدایت ، صراط مستقیم ہے اور ان کو چھوڑ کر دائیں بائیں جانب جانا الحاد ہے ۔
الحاد چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی ہو تا ہے کچھ الحاد وہ ہے جن کا تعلق عقیدے سے ہے اور کچھ وہ ہے جن کا تعلق عمل سے ہے۔چاہے جس سے بھی متعلقہ ہو حق سے روگردانی کرنا الحاد ہے ۔
الحاد کی سب سے قبیح شکل وہ یہ کہ ایک بندہ اپنی عقل کو نقل پر مقد م کرےاپنی عقل کی حکمرانی اس طرح قائم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ حکمرانی اللہ کی وحی کی نہ ہو یعنی قرآن وسنت کے مقابلے میں اپنی عقل کی بات کرنا اپنی عقل کو پیش کرنا یہ الحاد کی بد ترین شکل ہے کیونکہ اللہ تعالی کی وحی سے دوری اور عقل کی ترجمانی سراسر گمراہی کا راستہ ہے وحی الٰہی کا راستہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کا راستہ ہے خیرو برکت ہے، اللہ کا نور ہے جب کہ اس کے مقابلے میں انسان کی ذاتی خواہش ،ذاتی عقل ،ذاتی رائے یہ ظلمات ہیں ،تاریکیاں ہیں ،انسان ان تاریکیوں میں بھٹکتا ہے اور کبھی اسے حق دکھائی نہیں دیتا لہٰذا ایک انسان کے لیے یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی وحی کے راستے کا انتخاب کرےاور اسی پر گامزن رہے اور اسی پر جیتا رہے یہ خیر وبرکت اور ہدایت کا راستہ ہے ۔

الحاد کی کچھ صورتیں :

قرآن کریم نے تین چیزوں کو الحاد کہا ہے ایک الحاد وہ ہے جس کا تعلق اللہ تعالی کی آیات سے ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي آيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرٌ أَمْ مَنْ يَأْتِي آمِنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (فصلت:40)

بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات بینات میں کتاب وسنت میں الحاد کا شکار ہیں ،وہ ہم سے مخفی نہیں ہے ہم ایک ایک سے نمٹ لیں گے اسے کیے دھرے کی سزا دیں گے نہ ہم سے پوشیدہ ہیں نہ ہم سے کہیں بھاگ سکتے ہیں اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا

وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (الصافات:24)

روک لو ان سب کو ان سب سے باتیں ہوں گی ان سب سے پوچھ گچھ ہوگی، سوال ہوںگے ۔
آیات مبارکہ میں الحاد کیا ہے آیات کو ناماننا اسکی تاویلیں کرنا اور جو اللہ کی اصل مراد ہے اس مراد سے غفلت برتنا،ان فتنوں کے ذریعے لوگوں کو بھی اللہ تعالی کی آیات سے دور کرنے کی کوشش کرنا عمل نہ کرنا آیات کے مقابلے میں عقل اور رائے کو مقدم کرنا ایسے قوانین تراشنا،جن قواعد سے اللہ تعالی کی آیات کو ٹالنا مقصود ہو اور ایسی ایسی تاویلیں کرناجو نہ قواعد کے مطابق ہوں اور نہ اصولوں کے مطابق ہو ۔
مجھے یادآرہا ہے کہ کراچی میں ایک صاحب تھے آجکل وہ کسی ہال میں تسبیح کی نماز کی جماعت کرواتے ہیں کسی دور میں جماعتیں لیکر نکلا کرتے تھے انہوں نے خواتین کے حقوق سے متعلق ایک رسالہ لکھا ان کا موقف تھا کہ شوہر اپنی بیوی کو مار نہیں سکتا جبکہ قرآن میں ہے ’’واضربوھن‘‘ آپ ہلکی مارپیٹ کر سکتے ہو تو اس آیت کا کیا کرو گے یہاں اللہ تعالیٰ نے کچھ مرحلے رکھے ہیں وہ شقاق (جھگڑے) کی شکل بن جائے ، میاں بیوی میں تو حکم کھڑے کرو، صلح کی بات کرو ، ہلکی پھلکی سرزنش کرسکتے ہو بستر جدا کرسکتے ہو ، ان کا موقف تھا کہ مار نہیں سکتا تو ’’واضربوھن‘‘ کی کیا تاویل کروگے بڑی مضحکہ خیز بات کی، قرآن میں یہ ’’فاضربوا یا اضربوا‘‘ وغیرہ چلنے کے معنی میں بھی آتا ہے ’’فاضربوا فی الارض ‘‘ زمین میں چلو پھرو اس میں چلنے پھرنے کا معنی ہے اگر کوئی غصہ ہوجائے شقاق ہوجائے تو ان کو الگ کر دیں ان کو دوربھیج دو۔
اس قسم کی تاویلیں الحاد ہے۔ علماء کرام جانتےہیں کیا یہ معنی درست ہے؟ ضرب یضرب اگر اپنے معمول کی طرف صلہ کے بغیر منسوب ہو تو کس معنی میں ہوگا اور فی کے صلہ کے ساتھ ہو تو کس معنی میں ہوگا؟ یہ قاعدے کے موقع کی بات ہے اس میں کسی بحث وتمحیص کی ضرورت نہیں ، ایک ہے ضرب اور ایک ضربہ فیہ،ضرب فی.  کا معنی چلنا اور ضربہ کا معنی مارنا تو وہاں ’’واضربوھن‘‘ ہے یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز تاویل ایک بالکل خلاف قواعد فطرت واصول ہے جیسا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتے ہیں قرآن میں تو صاف ہے۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22۔23)

اس دن بہت سے چہرے اللہ تعالیٰ کے چہرہ کا دیدار کریں گے لیکن کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرتے ہیں ۔ یہ اہل بدعت ہیں یہ الگ کہانی ہے یہ کون لوگ ہیں یہ کیوں کرتے ہیں مگر وہ قیامت کے روز اللہ کی زیارت اور چہرے کے دیدار کا انکار کرتے ہیں جو قرآن میں ہے

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22۔23)

کہ اس دن چہرے تروتازہ ہوں گے اپنے رب کا دیدار کریں گے نص صریح موجود ہے لیکن پھر بھی وہ تاویل باطل کرتے ہیں کہ یہاں ناظرہ بمعنی منتظرہ ہے ناظرہ دیکھنے کے معنی میں نہیں بلکہ انتظار کے معنی میں ہے اپنے رب کا انتظار کریں گے یہاں بھی وہی بات ہے ایک ہے نظرہ اور ایک نظر إلیہ ، نظر إلیہ ہمیشہ دیکھنے کے معنی میں آتا ہے اور نظرہ انتظار کے معنی میں آسکتاہے لیکن نظر إلیہ ہمیشہ دیکھنے کے معنی میں آتا ہے تو یہاں ’’إلی ربھاناظرۃ‘‘ ہے إلی کا صلہ موجود ہے لہٰذا دوسرا معنی بن ہی نہیں سکتا تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم قرآن حدیث کی بات کرتے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے الحاد کا شکار ہیں جو کہ الحاد ہے۔ کتاب و سنت پاس ہوتے ہوئے بھی الحاد کی باتیں کرتے ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد ہے۔ امام شافعی کا یہ قول ہے:

نومن باللہ وما جاء من اللہ علی مراد اللہ ونومن برسول اللہ وما جاء رسول اللہ علی مراد رسول اللہ ﷺ

ہم اللہ پر اورجو کچھ بھی اس کی جانب سے آیا ہے، اللہ تعالیٰ کی مراد کے مطابق ایمان لاتے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور جو کچھ رسول اللہ لے کرآئے ہیں اس پر بھی ایسے ایمان لاتے ہیں جیسے ان کی مراد تھی۔ یعنی قرآن پر ایمان اسی طرح لائیںگے جیسے اللہ کی مراد ہے۔ اسی طرح حدیث پر ایمان لائیں گے جیسے رسول اللہﷺ کی مراد ہے۔
یہ صحیح ایمان اور اسقامت کا راستہ ہے اور اگر آپ قرآن و حدیث کی بات تو کریں لیکن اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کی مراد کو نہ لیں تو یہ الحاد کا راستہ ہے۔ جیسے ایک مثال: قرآنی آیت ہے: وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْیعنی وضو میں اپنے سر کی مسح کریں۔ اب رسول اللہ ﷺ کی سنت بلکہ پوری زندگی وضو میں آپ ﷺ نے مسح جس طرح کیا وہ طریقہ موجود ہے۔ حدیث ہے کہ بَدَأَ

بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ حَتَّى ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا إِلَى المَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ(صحیح بخاری)

اپنے سر کے اگلے حصے سے مسح شروع کیا اور ہاتھ پھیرتے پھیرتے گردن تک لے گیا ، پھر وہاں سے لوٹایااور جہاں سے شروع کیا وہاں تک لے آیا۔ یہ اللہ کے پیغمبر کا عمل اور اس آیت سے ان کی مراد ہے۔ یہ استقامت ہے۔ بعض فقہاءنے اس میں تاویلیں کی ہیں جیسےکہ وضو کے دوران آپ نے دیکھا کہ سامنے دیوار گیلی ہے، دیوار سے سر چھوا تو گویا مسح ہوگیا۔اب اس تکلف اور لا یعنی بات سنت اور مسنون طریقہ کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے؟جب مرادِ رسول اللہ ﷺ سامنے ہے تو پھر اس قسم کی تاویلیں در اصل هاستقامت سے ہٹ کے الحاد کی شکلیں ہیں۔ ایک ایسا الحاد ہے جو آیاتِ قرآنی سے بغاوت اور انحراف کی نشانی ہے۔
الحاد کی ایک اور صورت: حرم میں الحاد

وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الحج:25)

بیت اللہ، حدود حرم میں جو شخص الحاد کا ارادہ کرےگا، اسے ہم عذاب الیم چکھائیں گے۔
اس کی کئی صورتیں علما نے بیان کی ہیں ، جیسے شرک، کفر، بدعت، قتل کی سازش، تکلیف دینے کی سوچ،حدود حرم میں کسی قسم کی غلط سوچ و ارادہ،معصیت کا ارادہ کرنا، حرم کے کبوتروں کا شکار، یہ بھی الحاد کی شکل ہے۔ حدود حرم میں اس قسم کی سوچ اور ارادہ کرنا بھی گویا الحاد کے زمرے میں آتا ہے اور یہ عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
تیسری قسم الحاد:اسماء اللہ میں الحاد، وصفات میں الحاد

وَلِلهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف:180)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نام میں الحاد کا شکار ہیں انہیں چھوڑدو، ان سے کنارہ کشی اختیار کرو، ان کے عمل کابدلہ انہیں دیا جائےگا۔
اللہ کے نام میں الحاد کی شکل ہے کہ اللہ کا نام کسی مخلوق کو دینا، جیسے مشرکین مکہ نے اللات، اپنے ایک معبود کا نام رکھا تھا، جو کہ اللہ تعالیٰ کے نام ’’اللہ‘‘ سے ماخوذ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔ عزیٰ، عزیز سے۔
بعض اوقات ہم بھی اس قسم کے الحاد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بعض نام اللہ کے نام سے خاص ہیں جیسے الرحمن: ہم اپنے کسی ساتھی کو کہتے ہیں کہ رحمان بھائی آرہے ہیں۔یہ رحمان اللہ کی صفت ہے۔ ہم لاشعوری طور پر الحاد کا شکار ہوجاتے ہیں۔جیسے فلاں رحمان ہے، فلاں صمد ہے۔
جو صفات اور جو نام اللہ کے ساتھ خاص ہیں وہ اسی کے لئے رکھیں اور اگر کسی بندےکے لئے رکھیں تو اس کی عبدیت کے ساتھ خاص کریں جیسے عبد الرحمن۔
یا پھر اللہ کے لئے ایسے نام رکھنا جسے اللہ نے اپنے لئے نہیں رکھا۔ جیسے عیسائی اللہ تعالیٰ کو فادر کہتے ہیں۔ یہ خالقِ کائنات کے حق میں گستاخی ہے، اسی طرح بھگوان ، خدا کو خاص اللہ ہی کا نام لیکر کہنا۔ ہاں صرف اس صورت میں جائز ہے۔ کہ خدا کو آپ بمعنیٰ مالک کہیں۔ خدا فارسی میں یہ بمعنیٰ مالک کے ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ خدا میں اللہ کا مترادف ہے یعنی جو معنیٰ اللہ کا ہے، وہی خدا کا ہے، یہ درست نہیں۔ اللہ: لفظ جلالہ کائناب کا سب سے بڑا نام ہے، ایسا نام کہ کائنات پوری جمع ہوجائے تو بھی لفظ اللہ کا کماحقہ ترجمہ نہیں کرسکتی۔اس کے محاسن، فضائل، کمالات، گنوا نہیں سکتی۔
ایک صورت یہ بھی ہے کہ سرے سے اللہ کے ناموں کا انکار کردے۔ یہ بدترین الحاد ہے۔ جہمیہ ایک فرقہ گذرا ہے، آج بھی اس کی کچھ ذریت باقی ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ رحمان نہیں، رحیم نہیں ، صفات کا انکار کرتے تھے ایک قسم یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کو مانتے تو تھے مگر صفات کے معانی نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ رحمان تو ہے ، مگر اس کے معنیٰ ہمیں معلوم نہیں۔ ان صفات کو وہ حروف مقطعات کے طور پر لیتے تھے، معانی میں اشکال یہ لیتے تھے کہ معانی میں تشبیہ لیتے تھے، اس میں وہ الحاد کرتے تھے۔ جیسے السمیع، اللہ تعالیٰ سنتا ہے۔ سنتے تو ہم بھی ہیں۔ یہاں وہ تشبیہ لاتے تھے، دیکھئے شیطان انہیں کیسے الحاد میںمبتلا کر رہا ہے۔تشبیہ اس وقت ہوتی جب یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جیسا سنتا ہے۔ یہاں تو عقیدہ ہےکہ اللہ تعالیٰ ایسے سنتا ہے جیسے اس کی ذات کے لئے شایانِ شان ہے۔وہ تو ایسا سنتا ہے کہ زمین پر چلنے والی چیونٹی کی آواز کو اپنے عرش معلی پر سنتا ہے۔
ایک بدترین الحاد اسماء اللہ میں تاویلیں کرنا ہے جیسے آج کل ہمارےہاں رائج ہے۔وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں تاویلوں کے مرتکب ہیں، 8 ناموں کے علاوہ باقی تمام ناموں کو من مانی تاویلوں کے شکنجے میں کسا ہے۔ صحابہ کرام نے کبھی ان ناموں کے بارے میں نہ تاویلوں سے کام لیا، نہ ہی اللہ کے نبی ﷺ سے پوچھا بلکہ صرف سنا اور اس پر ایمان لے آئے۔
تاویلوں کا یہ راستہ جو اشعریت کے نام پر کی جارہی ہیں۔یہ بھی بدترین الحاد کے مرتکب ہیں۔

وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ

استقامت کا راستہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے جتنے نام قرآن کریم اور احادیث میں بیان ہوئے ہیں ان کے الفاظ پر، ان کے معانی کے ساتھ ایمان لایا جائے۔
اگر اسما اور صفات کے پر ایمان نہ لایا جائے تو بےشمار مسائل بڑھیں گے جیسے:
التواب: توبہ کی توفیق دینے والا، اور توبہ قبول کرنے والا،
اگر یہ معنیٰ نہ کیا جائے تو پھر مجھے کیسے معرفت حاصل ہوگی کہ میں توبہ کروں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتا ہےاور وہی توبہ کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
یہ اسماء توحید کی اساس ہیں انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اگر اسما کو معانی سے خالی کردیں تو اللہ کی معرفت کا باب بند ہوجائےگا
ہمارے ملک میں اس قسم کے ملحدین بھی پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں اپنی مرضی کی تاویلیں کرتے ہیں اوران کی روح کو بگاڑ دیتے ہیں ۔
الحاد چونکہ حق سے پھرنے کا راستہ ہے،
قاعدہ:الحاد میں عام طور پر عقل کو نقل (وحی الہٰی )پر مقدم کیا جاتا ہے، الحاد میں عام پر طور نصوص کا معنیٰ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف کیا جاتا ہے،
معصیتِ الحاد (حرم میں )عملی الحاد، اعتقادی الحاد،
ان سب کا علاج تمسلک بکتاب اللہ وسنت رسولہ،
جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول گزر چکا ہے۔
عقلی موشگافیوں سے بہت بہتر ہے کہ نصوص کو لازم پکڑیں، جتنا بھی عقل کے گھوڑے دوڑائیں گے اس میں الحاد کے راستے پیدا ہونے کے امکان زیادہ ہیں۔ اس لئے ان چیزوں سے اجتناب برتتے ہوئے وحی الہٰی کو لازم پکڑا جائے، یہ حقیقی استقامت کا راستہ ہے

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ (النازعات:40)

جس کے دل میں مقام رب کا خوف آئے ۔
کلام اللہ کو پڑھیں اور اور اگر آپ ترجمہ سے واقف ہوں تو آپ کو اندازہ ہوگا اور آپ کو یقین ہوجائےگا کہ اللہ تعالیٰ بادشاہوں کا بادشاہ، اس کی شان کا تعارف ہوگا، اس کے مقام کا اندازہ ہوجائے گا ،پھر

وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (النازعات:40)

جب یہ مقام حاصل ہوجائےگا تو پھر وہ نفس کےھوی سے اپنے آپ کو روکےگا۔کئی مقام پر آپ ﷺ سے سوال کیا گیا اس پر آپ ﷺ نے وحی کی آمد تک خاموشی اختیار کی، وحی آنے کے بعد ہی اس کا جواب دیا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنی ذاتی رائے سے دین میں دخل دینا ہرگز گوارہ نہ کیا۔ الحاد کا راستہ وہاں کھلتا ہے جہاں انسان اپنی خواہشات کو احترام دے۔صراطِ مستقیم پر سے ہٹ جانے والا ملحد اور بدعتی اپنے اعمال میں جتنا آگے جاتا جائےگا اتنا ہی وہ صراطِ مستقیم سے دور ہوتا جائے گااگر وحی الہٰی سے آپ کو واقفیت نہیں ہے تو فتنوں کے دور میں علماء کے ساتھ التزام اختیار کریں۔فتنوں میں سب سے بڑا اوڑھنا بچھونا ہے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے۔جب فتنہ آتا ہے تو اسے علماء پہچان لیتے ہے اور جب جاتا ہے تب باقی پہچان لیتے ہیں۔
لہٰذا علماء کی رفاقت میں آپ روزِ اول میں ہی فتنے کو پہچان لیں گے ورنہ فتنہ آپ کو پیس کے رکھ دےگا۔
۔۔۔

معاشرے میں بڑھتا ہوا الحاد اور اس کا سد باب

الحاد کا مفہوم :

دین اسلام کی تعلیمات سے نفرت ،قرآن وسنت کی تعلیمات سے بیزاری اور اس کے اندر قرآن وسنت کے لیے شکوک وشبہات پیدا ہوجائیں اس کے اندر یہ چیزیں داخل ہونا شروع ہوجائیں کہ قرآن مجید تو اللہ کی کتاب اور وحی ہے لیکن جو حدیث وسنت کے نام سے ہمارے علماء نے اس کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ شاید کسی دور میں یہ لکھی ہوئی کتاب جس کا نام ’’دو اسلام‘‘ تھا وہ اسی نظریے پر لکھی گئی تھی کہ ایک اسلام تو قرآن ہے تو اس اسلام کے مقابلے میں حدیث اور سنت کا اسلام کہاں سے آگیا۔
محدثین کی عظیم محنتوں سے قائم کردہ اصولوں پر صحیح ثابت ہونے ہونے والی احادیث کو کوئی شخص محض یہ کہہ کر رد کردے کہ میری عقل اس کو نہیں مانتی، یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے یہ تین سو سال بعد میں لکھی گئی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اس شخص کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے اندر الحاد پر زور طریقے سے آچکاہے ۔
اسی طرح اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قرآن نے صرف ہماری آخرت کی کامیابی کیلئے کچھ اصول بتائے ہیںلیکن دنیا کے اندر اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کو چھوڑنا پڑے گا، قرآن کی تعلیمات سے ہمیں آزادی حاصل کرنی پڑے گی، قرآن ہمارے لیے ترقی کی راہ میںبندش اور رکاوٹ ہے،جس طرح یورپ نے اپنے مذہب کو چھوڑا تو انہوں نے ترقی کی جب تک ہمارے سامنے یہ قرآن اور اس کے حقوق اور پابندیاں رہیں گی، رسول اللہﷺ کی سیرت اور احادیث کو ہم اپنے لیے بندش بنا کر رکھیں گے اتنی دیر تک ہم دنیا میں ترقی نہیں کرسکتے۔
گویا قرآنی تعلیمات، سنت رسول ﷺ، دینی احکامات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے وہ شخص بھی بری طرح الحاد کی بیماری کا شکار ہوچکا ہے۔
الحاد کی یہ ایک بہت واضح صورت ہے کہ انسان کو اللہ کی ذات کے بارہ میں شکوک وشبہات پیدا ہوجائیں اللہ کیا ہے؟ وہ کس سے پیدا ہوا ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں ؟کیا وہ بول سکتا ہے؟ جب اس کی ذات کے بارہ سوچنا شروع ہوجائیں اور قرآنی انداز کو چھوڑ کر صرف اپنا عقلی انداز اختیار کیا جائے تو اتنا بڑا الحاد انسان کے اندر آتا ہے پھر وہ یہ سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ بھی نہیں سکتا کیونکہ دیکھنے کے لیے آنکھ بمعہ بصارت چاہیے اللہ تعالیٰ سن بھی نہیں سکتا اس کے لیے کانوں کے اندر سماعت کے پردے ہونے چاہیے جس کو اللہ کی ذات کے بارہ میں یہ شک وشبہ شروع ہوجائے کہ اللہ ذو الجلال بول نہیں سکتا ، بولنے کے لیے زبان اور دانت،حروف کے مخارج کی ضرورت ہے یہ سب صفات اللہ ذو الجلال کی نہیںہوسکتیںاس لیے اللہ تعالیٰ بول نہیں سکتےیہ الحاد کی ایسی شکل ہے کہ جس خالق نے ہمیں پیدا کیا تھا جس نے یہ ساری صفات ہمیں عطا فرمائیں تھی اور جس نے بولنے کی طاقت ہمیں عطا فرمائی اور ہم کمزور مخلوق اللہ کے بارہ میں فیصلہ کرنا شروع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ بول سکتا ہے یا نہیں ،کہ رحمان ہے رحمت کرتا ہے یا نہیں ، اللہ تعالیٰ اعمال کو تول سکتاہے یا نہیں ، دیکھ سکتا ہے یا نہیں ،یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ (يس:77-78)

اللہ تعالیٰ اپنے بارہ میں فرماتا ہے کہ میں رحمان،رحیم، سمیع،بصیربھی ہوں ، بولتا بھی ہوں اور عرش پر ہوںاللہ کی صفات کا انکار اس سے بڑا الحاد اور کیا ہوسکتا ہے۔ بعض لوگ اس الحاد کا شکار ہوئے ،عقل پرستی کی بنیاد پر یہ سوچ بیٹھے کہ ہر چیز ہی اللہ ہے یہ جو صوفیہ کا عقیدہ ہےجو ہمارے معاشرے میں بڑی کثرت سے پھیلا۔ امام ذہبی سیر اعلام النبلاءمیں ابن عربی کےعقیدہ کے بارہ میں فرماتے ہیں ’’اگر وحدۃ الوجود کا عقیدہ کفریہ اور الحادیہ عقیدہ نہیں تو میں نہیں جانتاکہ دنیا میں کوئی کفر یا الحاد ہو۔ ‘‘
اسی طرح اللہ کے بارہ میں کلمہ پڑھنے والےیہ سوچنا شروع کر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی مرضی سے پیدا فرمایا اورہمارے اندر خواہشات،علم،سمع وبصرپیدا کیں اور ان سب پر پابندیاں لگا کرکے اپنا پابند بنانا چاہتے ہیںالحاد صرف اللہ تعالیٰ کے بارہ میں ہی نہیں آیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بارہ میں بھی ایسا ایسا الحاد کلمہ پڑھنے والوں کے اندرآیاکہ آپ کے نکاح اور شادیوں سے متعلق موضوع بحث بنایا جاتاہے میں اس بات سے حیران ہوں کہ آج کل جتنے اعتراضات محمد ﷺ کی ناموس پرکلمہ پڑھنے والوں نے کیے اور کر رہے ہیں ایسے اعتراضات اس دور کے مشرکین نے بھی نہیں کیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح اللہ کے حکم سے ہوا ،خواب کے اندر ان کی شکل دکھائی گئی جیسا کہ یہ واقعہ صحیح بخاری کے اندر ہےاب نکاح ہوا کسی کافر،منافق، مشرک نے یہ اعتراض نہیں کیا تھاکہ ایک بڑی عمر، چھوٹی عمر ایسے نازیبا الفاظ اور اعتراضات جس کو ہماری زبان بیان کرنے سے قاصر ہے،آج ریسرچ کے نام پر کلمہ پڑھنے والےجن کی زندگی کا مشن یہ تھا کہ وہ آپ کے ہر حکم کے سامنے کہتے رہیں سمعنا وأطعنا، اگر عمل کا وقت نہ بھی آیا ہو تو کہتے تھے ہم نے سن بھی لیا اور مان بھی لیا اللہ کے رسول ﷺ کی ذات گرامی کو علم کے نام پر تنقید کا نشانہ بنایا جاررہا ہے علم کے نام پرصحابہ کرام اور آپ کی ازواج مطہرات پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں ان کے کردار اور سیرت کو موضوع بحث بنایا جارہا ہے کیوں ؟ اس لیے کہ یہودیوں کو یہ بغض و عداوت تھی کہ آخری پیغمبر بنو اسحاق سے آنا چاہیے اور یہ بنواسماعیل سے آیا اب ان کی پوری کوشش ہے کہ ہم ان کی تعلیمات کو،کوششوں کو اور غلبہ اسلام کی اس تحریک کو ہرطریقے سے اس کو بدنام کرنے کی کوشش کریںیہ دراصل وہ یہودی بغض ہے اسلام کے خلاف ،رسول اللہ ﷺ کے خلاف،اسلام کے گواہ آپ کے پہلے شاگرد اور جن کے ہاتھ پر اللہ ذو الجلال نے عدل فرمایا تھا ان پر طعن وتشنیع دراصل یہ اللہ کے رسول پہ طعن ہے کہ جو شخص اپنی پوری زندگی میں چار کے علاوہ کسی کو مسلمان نہ بنا سکاجو مسلمان خواتین اپنے گھر نہ رکھ سکا اور یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جن خواتین کے ساتھ رات بسر کرتے رہے جب تک آپ کی شرمگاہ کو جہنم کی آگ سے پاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک جنت میں داخلہ ممکن نہیں؟ (نعوذ باللہ من ذلك)
ہم پھر بھی بڑے پیار ومحبت سے ان کو اسلام کا سرٹیفکیٹ بھی دینا چاہتے ہیں، ہم ایسے ملحدین کے ساتھ شامل ہوکر شاید نظریہ پاکستان کا تحفظ بھی کرنا چاہتے ہیں۔الحاد، شکوک وشبہات سے بھی پیدا ہوتا ہے اللہ کے بارہ میں نازیباں گفتگو سے بھی پیدا ہوتاہے رسول اللہ کی ذات گرامی کو موضوع بحث بنانے سے بھی پیدا ہوتاہے اور ان کی احادیث سے انکار سے بھی پیدا ہوتاہے اور الحاد کی بہت شکلیں ہیں اس سے بڑا الحاد کیا ہوسکتاہے کہ قرآن کریم جوصرف ایک اللہ کی بندگی اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ہم اس سے بدعات، خرافات اور شرکیہ افعال اور غلط عقائد کو ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، پورے انبیاء کی تعلیم صرف لا الہ الا اللہ یعنی کلمہ توحید ہے ۔
اخلاص للہ : لوگ اس کا معنی کرتے ہیںکہ اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں۔ اس لیے سلف صالحین نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ لا معبود بحق الا اللہ
اس لیے معبود تو دنیا میں لوگوں نے بہت بنائے پتھر، شرمگاہ،عورت،ستارہ وآگ کو بھی معبود بنایا لیکن سچا معبود صرف ایک ہی ہے جو اللہ رب العزت کی ذات ہے ۔
اس سے بڑا الحاد کیا ہوسکتاہے کہ ہم نے ہر ایک کو معبود بنادیا اور ہر باطل کو معبود حق بنالیا انسان کو نماز سے نفرت ہوجائے اورکہے یہ وقت کا ضیاع ہے اگر اتنا وقت ہم کاروبار میں لگائیں تو ہم اسے دگنا کماسکتے ہیں۔ داڑھی نہ رکھنا گناہِ کبیرہ ہے، اور اس سے نفرت کرنا، نیز حلال ذرائع کو عمداً چھوڑ کر جھوٹ کے سہارے کو اپنایا جائے مجھے تو بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی تو سنت العادۃ ہے سنت العبادۃ نہیں جو صاحبان قرآن وسنت کی دعوت دینے والے ہیں آج وہی اس چیز کی دعوت دے رہے ہیں کہ آزادی چاہیے، پردہ خواتین کی ترقی میں رکاوٹ ہے تو آپ سمجھ لیں اس شخص کے اندر الحاد آیا ہے اور یہ الحاد درجہ بدرجہ بھی ہوسکتاہے بعض صورتوں میں انسان مرتد ہوجاتا ہے ،مسلمانوں کے اندرجو الحادی فکر آرہی ہے یعنی دین سے انحراف، دین سے بغاوت،  دین سے نفرت اس کے اسباب مختصراً ذیل میں مذکور ہیں :
1۔ہم نے کلمہ پڑھا اسلام قبول کیا لیکن بغیر شعور کے کہ اسلام کا معنی ومفہوم کیاہے؟ کلمہ توحید کے اقرار کرنے کے بعد مجھے اپنے عقائد ونظریات میں کیا تبدیلی کرنی ہے؟ آپ ﷺ کی گواہی کے بعد مجھے اپنے عمل اور دنیا کے تمام شعبوں میں کیا انقلاب پیدا کرنا ہے؟ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ارد گرد سارےمسلمان ہیں چلو میں بھی مسلمان ہوجاتا ہو ۔پروفیسر حافظ عبد اللہ بہاولپوری رحمہ اللہ کے پاس کچھ دوستوںنے ایک عیسائی شخص کو پیش کیااور حافظ صاحب سے عرض کی کہ اس کو کلمہ پڑھاؤ یہ مسلمان بننا چاہتا ہے حافظ صاحب نے اس سے کچھ سوال پوچھے کہ آپ اپنا دین چھوڑ کر دوسرا دین کیوں اختیار کر رہے ہو تمہارے دین میںکیا کمی ہے اس نے جواباً عرض کیا کہ مجھے ان چیزوں کا پتا نہیں۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اسے لے جاؤ اور سمجھاؤ کہ اسلام کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں ؟ سمجھانے کے بعد اگلے جمعہ دوبارہ لے آئے حافظ صاحب نے تغیر دین کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا مجھے نہیں پتا، تیسرے جمعہ میں لے آئے تو دریافت کرنے پر اس نے کہا سیدھی سی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں سارے مسلمان ہیں ، سارا دن محنت مزدوری کرتے ہیں اور شام کے بعد گاؤں کے بازاروں کے چوارہوں پر سارے ساتھی جاتے تازہ حقہ وہاں میسر ہوتا ہے سارے مسلمان دن کی تھکاوٹ دور کرتے ہیں باتیں کرتے ہیںاور ہنسی مذاق کرتے اور حقہ پیتے ہیں اور جب میں جاتا ہوں تو مجھے کہتے ہیں کہ یہ عیسائی ہے اسے حقہ نہیں پینے دینا تو میں چاہتا ہوں کہ مسلمان ہو کر ان کے ساتھ شامل ہوجاؤں تاکہ مجھے حقہ پینے سے نہ روکیں تو حافظ صاحب کہنے لگے اسے لے جاؤ حقہ پینے والے مسلمان تو پہلے بھی کافی ہیں ۔اس کی فکرفکرِ اسلامی بنا کر لاؤ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اس کائنات میں کتنے فیصد مسلمان ہیں جو لا الہ الا اللہ کا مفہوم اور محمد رسول اللہ ﷺکی گواہی کے تقاضے پورے کرتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ نامہ لکھا جا رہا تھا تو اس میں لکھا گیا کہ:

ھذا ما تقاضا علیہ محمد رسول اللہ

سہیل بن عمرو اسی وقت چیخ اٹھا اس نے کہا کہ محمد الرسول اللہ ﷺ نہیں لکھوبلکہ محمد بن عبد اللہ لکھو کیونکہ

لو نقول أنك رسول اللہ لاتبعناك

اگر آپ کے ساتھ جھگڑا ہے تو وہ ہے ہی محمد کے بعد رسول اللہ کا ،اگر ہم کہیں کے آپ محمد کے ساتھ رسول اللہ بھی ہیں تو پھر ہمیں آپ کے پیچھے چلنا پڑے گا۔آج ہم رسول اللہ ﷺکے نام کی تسبیحیں بھی نکال رہے ہیں اور کہتے ہیں ٹھیک ہے رسول اللہ کی حدیث ہوگی لیکن میں پہلے اپنےآپ سے پوچھوں گا میں تو فلاں امام سے پوچھوں گا سب سے پہلا جو سبب مسلمانوں کے اندر الحاد کا آیا،وہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو سمجھ کر نہیں پڑھا ہے۔
دوسرا سبب کہ کلمہ پڑھنے ،اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہم نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقاعدہ حاصل نہیں کیا کتنے فیصد مسلمان ہیںجوکہتے ہیں ہم سنی ہیںاور سنی کا معنی سن سنا کر مسلمان ہونا۔ لفظ کا معنی ہی بگاڑ دیا ۔ کتنے فیصد ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہے، ناظرہ پڑھا ، صحیح بخاری پڑھی ہے۔
علامہ شبلی نعمانی رقمطراز ہیں :سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنےدور میں قراء اور اکابر صحابہ کو بڑے بڑے شہروں میں بھیجا کہ جو بھی اسلام قبول کرتا ہے اسے قرآن اور سنت رسولﷺ کی تعلیم دو، ان کو قرآن کا ایک حصہ حفظ ہونا چاہیے جو کہ ان کی ضرورت ہے انہوں نے ایک کمیٹی بنائی تھی جو سارے شہروں ،گاؤں میں ان کا امتحان لیتی تھی کہ اگر کسی کو قرآن یاد نہیں ہوتا تھا، رسول اللہ ﷺ کی حدیث یاد نہیں ہوتی تھی نماز کا صحیح طریقہ نہیں آتا تھا تو وہ ان کوتعزیری سزا دیتے۔ ہمارے اس معاشرے میں الحاد بڑے زور وقوت سے پھیل رہا ہے کیونکہ علم وتربیت تو ہوتی نہیں ، اب جہاں قرآن وسنت کا نور اورروح نہیں ہوگی اس کے اندر شکوک وشبہات، وسوسے ڈالنا اور اس کو گمراہ کرنا بہت آسان ہوگا۔
تیسرا سبب الحاد کا یہ ہےکہ ہمارا میزان تعلیم ، پاکستان کا نظام تعلیم کالجوں اور یونیورسٹیوں میںجو رائج ہے معذرت کے ساتھ اگر یہ بات عرض کرو کہ ہمارے دین مدارس جو کہ دین کے قلعے ہیں، اس میں ہم سال میں کتنے نوجوان سندِ فراغت دیکر معاشرے کے سپرد کرتے ہیں؟صرف 5 فیصد، باقی 95 فیصدنوجوان کہاں جاتے ہیں؟
فیصل آباد کے تمام دینی مدارس کے اندر میں نےایک دفعہ تعداد کا اندازہ لگایا تو 1200 یا 1500 تھی صرف ہمارے پورے مدارس میں تو باقی نوجوانوںکو کون پڑھا رہا ہے اور ان کو کیا پڑھایا جارہا ہے ان کو مخلوط تعلیم کون دے رہا ہے؟ الحاد کا سبب دنیاوی شعبے بھی ہیںکہ ہم سب مال ،شہرت، زندگی کا اسٹیٹس اونچا کرنے کے لیے ان شعبوں میں مگن ہوجائیں اور دینی تعلیم ہی حاصل نہ کریں کتنے ایسے لوگ دیکھے جنہوں نے صرف اس لیے رسول اللہ کے بارہ میں زبان کھولی کہ یورپ ان کو اقامہ دے دے گا اور باہر جاکر ان کو برطانیہ، امریکہ، یورپ کی شہریت مل جائے گی انکا روزگار بلند ہوجائےگا۔
الحاد کا آج کے دور میں بہت بڑا سبب میڈیا ہے اور یہودیوں کا یہ نظریہ ہے کہ ہر چیز علم کے ذریعے اپنے عقل پر پرکھیں کہ وہ علم کی اساس پر اترتا ہے یا نہیں قرآن وسنت کے مسلمہ عقائدکو بھی عقل کی کسوٹی پر پرکھا جارہا ہے۔
یہ جو اظہار رائے کی آزادی ہے در اصل عقل پرستی ہے عقل کا غلبہ ہی رائے کا غلبہ ہے اپنےآپ کو وحی کے تابع نہ رکھنا اپنے عقل سے قرآن کو ٹھکرانا، حدیث رسول رد کرنا، اور اپنی عقل سے الحاد کے تمام دروازے کھولے۔
یہ نہ سمجھنا کہ عقل کمزور ہے ، عقل خطرناک چیز ہے۔
یاد رکھو اللہ کی بغاوت اسی رائے کی وجہ سے ہے اسی عقل پرستی کی وجہ سے ہےجیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو تو عقل نے کہا میں اس کو کیسے سجدہ کروں یہ تو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں تو آگ سے بنایا گیا ہوں اللہ کے حکم کے سامنے قیاس ، رائے اور عقل کو آگے کیا۔
عقل پرستی کی وجہ سے ہی ہمارے معاشرے میں الحاد آیا
الحاد کاایک بہت بڑا سبب علماء،مساجد اور دینی مدارس کو بدنام کرنا بھی ہے کہ ان لوگوں کا کام سوائے لوگوں پرکفر کے فتوےاور جہنمی قرار دینے اور کیا ہےپاکستان کو فتنوں کی آماجگاہ بنانے والے یہی علماء کرام ہیں۔اس قسم کی بدنامی کا ماحول بنا کر لوگوں کو دین اور علما سے متنفر کیا جائے جب دین سے دور ہونگے، علماء سے دور ہونگے تو ان کے پاس الحاد اور ارتداد ہی واحد راستہ بچتا ہے۔
ہمارے ساتھی نے پچھلے دنوں سروے پیش کیا اس کا نتیجہ یہ تھا کہ 98 فیصد پاکستان میں جو دھماکے کرنے والے پکڑے گئے ہیں ان کا تعلق کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہے۔لیکن یہ لوگ ذرائع اور میڈیا کو استعمال کرکے اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
یہ موٹے موٹے اسباب ہیں جس کی وجہ سے اس معاشرے میں الحاد پھیلا ۔

الحاد کا سد باب:

کچھ لوگ الحاد ، بے دینی ،دین سے بغض ونفرت اختیار کرنےوالےمنافقین ہیں انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھا ہے لیکن اسلام کو بدنام کرنے کیلئے

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا

لیکن جو عمومی مسلمان ہیں ان کو کیسے الحادی فکر سے بچائیں گے سب سے پہلی بات وہ یہ ہے کہ جب تک ہم اسلام ، قرآن اور سنت کی تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم الحاد اور بے دینی کا سدباب نہیں کرسکتے الحاد یا تو بغض ونفاق کی وجہ سے آتاہے یا چاہت کی وجہ سے آتا ہے کہ انہیں حقیقت کا پتا نہیں ہوتا تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھرپور طریقے سے تحریک چلائیں صرف مدارس میں ہی نہیں بلکہ مساجد میں دوران تعطیلات کالج اوریونیورسٹیوں کے طلبہ کو چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھائیں کوئی مسجد اور فیکٹری ایسی نہیں ہونی چاہیےجس میں قرآن کا ترجمہ، صحیح بخاری کی ایک حدیث کا ترجمہ نہ پڑھایا جائے اگرچہ ان کے پاس میڈیا کا پلیٹ فارم ہےاحساس کمتری کا شکار نہ ہوں بلکہ ہمارے ہاں مساجد کی صورت میں پلیٹ فارم موجود ہےاگر خطبۂ جمعہ کو صحیح تیاری کے ساتھ پڑھایا جائےتو ہم صرف ایک دن میں لاکھوں لوگوں کو دین کی دعوت پہنچا سکتے ہیں ۔سلف صالحین کے دروس اور حلقات مساجد میں ہی ہوا کرتے تھے۔ اور نبی کریم ﷺ کی تعلیم ودعوت کیا ہوا کرتی تھی فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ

کوئی صحابی عقیدہ سے منحرف نہیں ہوا کوئی جہمی ہوا ہو،قدریہ کا شکار ہوا ہو کیوں ایسی بدعت کے شکنجے میں نہیں آئے کیونکہ انہیں خالص کتاب اللہ وسنت رسول اللہ ﷺکی تعلیم سے بہرہ ور کیا گیا تھا۔تو ہمیں ایسے اسکول اور مراکزتعمیر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث وتوحید کےمضامین کی تعلیم دی جائے ۔ کچھ ساتھیوں نے ایسے مراکز قائم کیے وہ الحمد للہ بصورت احسن ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔
ہم اپنے آپ کو اسوئہ بنا کرکے لوگوں کے سامنے پیش کریںنبی کریم ﷺ کا چالیس سالہ دورہ یہی تھا

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس:16)
إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ (صحيح البخاري:3)

اللہ رب العزت خالص اسلام پر استقامت عطا فرمائے اور دعوت دینے کی توفیق عطا فرمائے اپنے آپ کو اسوئہ اور نمونہ بنائیں۔

دورِ حاضرکاالحادی منظر نامہ

مغربی الحادی فکر نے ہماری عوام بلکہ پوری اقوام دنیا پر یلغار کی ۔ ہمارے نوجوانوں کے سینوں کو ان کے خالق کے خلاف آلودہ اور پراگندہ کیا ۔ دین ِ اسلام کے مخالف ان کے دلوں کو کینہ سے بھر دیا ۔ انہیں ان کی نرم و ملائم فطرت سے بیگانہ کردیا۔
اسلام ، مسلمان اور قرآن کریم کے ساتھ ملحدوں کی شدید عداوت کی وجہ سے تمام مادہ پرست گروہوں اور ان کے ہم نوا دوستوں نے ہمارے عقیدہ کو عبث اور بیکار قرار دینا شروع کردیا ۔ اس سب کے پیچھے ان کا اصل ہدف اس دین ِ حنیف کے ارکان میں ارتعاش و ضعف پیدا کرنا ، اسے بد نما و بد شکل قرار دینا اور اس کے نشانات ِ راہ کو مسخ کرنا ‘ہے ۔
یہ ملحدین اور بے دین اپنے مقصد و ہدف کو پانے کے لیے مختلف طریقوں کو بطور منہج اپناتے ہیں ۔ کبھی مکر و فریب کے لبادہ میں ، کبھی دھوکہ و تدلیس کے پردہ میں اور بیشتر تو یہ لالچ اور دھمکی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ان ملحدوں کے تابع بن جاتے ہیں ۔ دراصل یہی لوگ مغربی تہذیب اور اس کی بے حقیقت اور دھوکہ بازچمک دمک سے حیران و ششدر ہوجاتے ہیں ۔
کیونکہ الحاد زندگی میں امر ِ واقع بن گیا ہے جسے ٹی وی چینلز پھیلاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے صفحات فروغ دیتے ہیں ‘ اسی لیے براہِ راست اس کی حقیقت کو عیاں کرنا ، اس سے برتاؤ اور علاج کے طریقوں پر خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔ کم از کم بحث کے پہلو سے ہی سہی ۔

الحاد کا مطلب

درا صل الحاد (Atheism)درست راستے سے ہٹ کر ظلم ، جور اور جدال کی جانب میلان کا نام ہے ۔مثلا عربی میں لَحَدَ ، أَلْحَدَ إِلْحَادًا کے الفاظ اس شخص کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو ظلم ، زیادتی اور جدال کے جانب جائے ۔
ملحدین (Atheists)سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کائنات کے خالق اور ربّ کا انکار کیا ۔ جو اس کائنات میں تصرف کرنے والا ہے ؛جس کے علم اور حکمت سے اس کائنات کا نظام چل رہاہے ؛ جس کے ارادہ و قدرت کے ساتھ اس کائنات کے واقعات و حادثات پیش آتے ہیں ۔ ملحدین سمجھتے ہیں :کہ کائنات یا اس کامادہ ازلی ہے ؛ کائنات کے تغیرات امر ِاتفاقی کے تحت طے پاتے ہیں یا مادہ کی طبیعت اوراس کے قوانین کے تقاضوں کے تحت پورے ہوتے ہیں ؛ زندگی اور زندگی کے تابع فکر وشعور ایسی سب چیزیں مادہ کی ذاتی ترقی کا نتیجہ ہیں ۔ (۱)
معاصر الحاد کی تاریخ ،ابتداء و ارتقاء
در حقیقت کوئی متعین تاریخ نہیں ملتی جس سے الحاد و بے دینی کی اساس کے بارے میں معلوم ہوسکے کہ اس کی ابتدا ء فلاں تاریخ سے ہو ئی۔ یہ تاریخ میں دیگر امورکے روبرو اپنے طورپر نمودار ہوجانے والا ایک طفیلی فتنہ ہے ۔ جس کی کوئی پائیدارجڑیں اور اساسیات نہیں پائی جاتیں حتی کہ نہ قدیم یونانی سوفسطائیوں کے ہاں؛ نہ ابیقورکے ہاں اور نہ والٹیر کے ہاں ۔
گویا الحاد ایک مستقل فلسفہ کی طرح ہے ۔ جس کی پوری تاریخ میں کوئی بنیاد نہیں ملتی ۔ اس لیے یونانی مؤرّخ کہتا ہے : ’’تاریخ میں قلعے، محلات اور درس گاہوں کے بغیر شہر وں کے وجود پائے گئے ہیں مگر تاریخ میں عبادت گاہوں سے خالی شہرکبھی نہیں پائے گئے ۔‘‘
ہمارے جدید زمانہ میں معاصر الحاد کے ظہور کے لیے متعین تاریخ مکمل ضبط کے ساتھ بتانا ‘ مشکل ہے ۔ لیکن مغربی مؤرخین میں سے اغلب بتاتے ہیں کہ معاصر الحاد کی ابتداء 1789ء میں باسٹل قلعہ کی قید ڈھانے کے بعد انقلابِ فرانس کے آغاز کے ساتھ ہوئی ۔ البتہ یہ الحاد عالمی سطح پر بالفعل1917ء کے انقلاب کے پیچھے پیچھے نمودار ہوا‘جب روس میںقانون سازی کے لیے بلاشفہ (اکثریت ) کوپہنچ حاصل ہوگئی ۔ لیکن معمولی انصاف کے ساتھ ہی یہ بات ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ بلاشفہ (اکثریت ) بھی عملًا ملحدین ہی تھے جنہوں نے دین سے چومکھی لڑائی لڑی ۔ یکم جنوری 1956ء کو ٹائم اخبار کے نشر کردہ پرچہ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ سویت یونین میں 1917ء میں گرجا گھروں کی تعداد 46ہزار تھی ۔ جبکہ یہ تعداد 1956ء تک کم ہو کر 4ہزار رہ گئی ۔ ہاں البتہ کمیونسٹ بلاشفہ (اکثریت )کا الحاد جتنا سیاسی تھا اتنا علمی ، فلسفیانہ اور فکری نہ تھا ۔ کیونکہ مارکس کے نظریہ کے مطابق دین ایک بالائی عمارت کا نام ہے ۔ جس میں فکر ، معاشرت ، سیاست ، رسوم و رواج اور اخلاقی اقدار موجود ہوتے ہیں ۔ جبکہ مارکسی معاشرہ کے لیے معیشت و اقتصاد ایک نچلی عمارت ہوتی ہے ۔تمام بالائی عمارتیں دراصل اس نچلی عمارت کا عکس ہوتی ہیں۔ نچلی عمارت کے بغیر اکیلی بالائی عمارت کبھی وجود نہیں رکھتی۔ مارکس کی مراد یہ ہے کہ دین ایک عارضی عامل اور باعث ہے ۔ جو آئندہ مرحلہ میں مکمل طور پر زائل ہو جائے گا ۔حتی کہ مارکس کے لوگوں کی ادارت میں اقتصادی عامل باقی رہ جائیگا ۔ اس لیے پوری دنیا میں ملحدین کی تعداد کے اکثر اعداد و شمار بالکل بکواس اور سطحی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی مملکت جب اشتراکی حکومت ہونے کا اعلان کرتی ہے ‘ تو گراف کے جداول میں اس مملکت کے شہریوں کی تعداد دین کے خانہ سے بے دینی اور الحاد کی طرف خود بخودتبدیل ہوجاتی ہےیہی چیز ہے جس کی جانب صامویل نے اشارہ کیا ہے۔وہ اپنی کتاب (صدام الحضارات)’’تہذیوں کا ٹکرائو‘‘ کے صفحہ 108پر لکھتاہے :’’ پوری دنیا کے ملحدین میں سے تقریبا 92فیصد چینی بنتے ہیں ۔ کیونکہ جب کمیونزم چین میں آیا تو پوری دنیا میں اہل ِ دین کے لیے کیے گیے اعداد و شمار کے سروے میں تمام غیرسامی اصحاب ِ ادیان ملحدوںاور لادینوں کی جانب خود بخود منتقل ہو گئے۔‘‘ یہ ایک جبری اور نامناسب تبدیلی و منتقلی ہے ۔ (۲)
حالیہ الحاد و بے دینی کے اسباب
1۔یورپی گرجا اور تحریف شدہ عیسائیت کی دینداری : جس نے خرافات کو پھیلایا اور تجرباتی علم اور سائنسی ایجادات سے جنگ مول لی۔
2۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی یلغار :جس نے اخلاق ِ حسنہ کا جنازہ نکالا اورحرص ،طمع ، مفاد پرستی اور استعمار کو رواج دیا۔
3۔ اشتراکی فکر کی ترویج : جو بزعم ِ خویش فقراء ، محروموں اور مظلوموں کے دفاع کی دعویدار ہے لیکن اس نے اِن پسے ہوئے طبقہ کو مزید محرومی اور فقر میں مبتلا کردیا۔ (۳)
۴۔دور ِ جدید کی زندگی اور تہذیب ِنو کے چکا چوند مظاہر: مادی سائنس نے انسان کے لیے پرتعیش اور آسائشات سے لبریز زندگی کے دروازے کھول دیے ۔ کار، ہوائی جہاز اور ریلوے ایسی لگژری سواریاں ؛ مواصلات، راحت و سکون کے وسائل ؛پُرفخر مشروبات اور کھانے ؛ بیش قیمت ملبوسات؛زندگی میں لذات کے حصول کے لیے عجیب و غریب تنوع اور شہوات اور اشتیاق انگیز اشیاء کے لیے دوڑ ودھوپ۔ایسی تمام چیزوں نے انسان پر زندگی سے تمتع کے کچھ ایسے رنگ عیاں کیے جن سے انسان نا آشنا تھا ۔ شہوات اور لذات میں انسان کا انہماک بڑھ گیا ۔ جبکہ دین انسان کو بالعموم اسراف سے روکتاہے اور اسے اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے ۔ دین ‘شراب ، زنا اور عریانی ایسی اشیاء کو حرام قرار دیتا ہے کیونکہ جو لوگ دین کے اس راز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ دین کی جانب سے یہ پابندیاں ان کی آزادی پر قدغن ہیں اور ان شہوات و لذات کی راہ کا پتھر۔یہ چیز لوگوں کے لیے دین سے مزید دوری کا باعث ہے اور آخرت کی یاد دھانی کرانے والوں ، آگ سے ڈرانے والوں اور جنت کا شوق دلانے والوں سے کراہت کا سبب ہے ۔ نتیجۃً دینی عقائد سے اجنبیت و غرابت بڑھ گئی ہے اور الحاد و زندقہ کے افکار فروغ پاگئے ہیں ۔
5۔الحادکو مادی قوت کا تعاون:جس چیز نے انسان کو اللہ عزّ وجلّ کے ساتھ کامل الحاد کی جانب بڑھنے پر دلیر اور بہادر کر دیا ‘ وہ ہے الحاد کو مادی قوت کا تعاون حاصل ہونا اس کا باعث یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یورپ ‘گرجا کے افکار اور عقائد کو ترک کرنے کے بعد ہی مادی قوتوں کی جانب پیش قدمی کر سکا اور اسرار ِ زندگی کو عیاں کر سکا ۔ روس جیسی ریاست الحادی مملکت ہونے کے اعلان کے بعد ہی مملکت عظمی بن سکی ۔ مزید لوگوں نے یہ غور کیا کہ جب تک مملکتیں دین سے جڑی رہتی ہیں ‘ وہ قوت ،صنعت اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ رہتی ہیں ۔ لہذا لوگ یہ گمان کربیٹھے کہ کہ الحاد‘ قوت اور علم کا ذریعہ ہے ۔
6۔یورپی یلغار کے مقابل عالم اسلامی کی ہزیمت: یورپ کے لیے مادی قوت پر قدرت ، آلاتِ صنعت کا استعمال اور فیکٹریوں کی تعمیر و ترقی ممکن نہ تھی ۔ حتی کہ اس نے اپنی فیکٹری کی مصنوعات کو فروخت کرنے اور صنعت و حرفت کے لیے ضروری خام مواد کے حصول کی خاطر اپنی منڈیوں سے ماوراء دیگر ممالک کا رخ کیا ۔ فیکٹریوں کے لیے خام مال کے متلاشی یہ ممالک اپنی مطلوبہ چیزوں کو کم ترین بلکہ درحقیقت بلاقیمت پانے کے خواہاں تھے اسی لیے ان ممالک نے اپنی زائد عسکری قوت کو استعمال کیا ۔ جبکہ اِدھر عالم ِ اسلام پسماندگی ، فقر عسکری ضعف اور سیاسی کمزوری میں انتھاء کو پہنچ چکا تھا۔ اسی وجہ سے عالم ِ اسلام یورپی استعماری یلغار کے سامنے زیادہ دیر تاب نہ لا سکا ۔ اس عسکری ہزیمت کا _جس میں یورپی معرکہ کے مقابل مسلمان مبتلا تھے _مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے میں بہت بڑا اثرہے اور یورپی استعمار کے لائے ہوئے الحادی ریلے اور بہائو کے سامنے عقائد ِ اسلامیہ کا بند نہ باندھ سکنے میں بے حد بڑا کردار ہے ۔ مسلمان عوام یورپی استعمار کی تقلید کرنے ، اس کے اخلاق و عادات کی مشابہت کرنے اور اس کے الحادی عقیدہ میں شامل ہونے لگے یہ گمان کرکے کہ اہل یورپ دین کا انکار کرکے ہی قوت کو پہنچ پائے ہیں ۔ یہ ایک نئی غلطی تھی اور عالمی الحادی فنامنا و فتنہ میں حصہ دار ایک دوسرا سبب تھا۔(۴)
حالیہ الحاد و بے دینی کی علامات
۱۔الحاد کی دعوت کے لیے شدید حرص اورمضبوط تحفظ
اس کام کے لیے کئی شکلیں اور صورتیں اختیار کی گئیں ۔ چنداہم ترین صورتیں یہ ہیں :
1۔تالیفات و کتب
مثلاً:وھم الإلٰہ(معبود کا وہم )مصنف :رچرڈ ڈیوکنز، نھایۃ الإیمان(ایمان کا اختتام )مصنف:سام ہارس اللّٰہ لیس عظیمًا (اللہ عظیم نہیں) مصنف: کریستوفرہیتشنزوغیرہ وغیرہ
2۔ٹی وی اور ریڈیو کے پروگرامز
مثلاً :رچرڈ ڈیوکنز کا ڈاکومنٹری فلموں کا سلسلہ جوکہ ’’شر کی کلی اساسیات ‘‘ کے عنوان سے نشر ہوا۔کچھ تکنیکی و فنی طریقہ سے بھی ملحدین ان فلموں میں داخل ہوئے اور بہت سے الحادی و لادینی پیغامات کو پاس کرانے کے ذمہ دار بنے ۔ جس کی مثالیں ویڈیواور گانوں کے کلپس ہیں ۔ مشہور ترین گانوں میں سے جان لینن کا ’’تخیّل _خیال ‘‘ والا گانا،’’ عزیزی الرب _پیارے خدا‘‘والا گانا اور ’’ أنا لست خائفًامیں خائف نہیں ‘‘ والا گانا۔
3۔عالمی الحادی ادارے
مثلاً :ملحدین کا بین الاقوامی باہمی تعاون و اتحاد
(Atheist Alliance International)
ملحدین کی کمیٹی(Atheist Nexus)
ادارۂ رچرڈڈیوکنزبرائے فروغ ِ عقل و سائنس
(Richard Dawkins Foundation for Reason and Science)
بین الاقوامی اتحاد انسانی و اخلاقی توجہ کے لیے
بین الاقوامی کمیٹی برائے بے دین و ملحدین
4۔انٹر نیٹ پر الحادی ویب سائٹس
مثلاً:
Friendlyatheit.com – Ffrf.org
Reddit.com/r/atheism
شبکۃ الملحدین العرب(عرب بے دینوں کانیٹ ورک)
قناۃ الملحدین بالعربی(عربی میں ملحدین کا چینل)
شبکۃ الإلحاد العربی(عربی الحاد کا نیٹ ورک)
مزید یہ کہ فیس بک اور ٹویٹرپر عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ملحدین کے بعض صفحات پر فعّال ممبر موجود ہیں۔
۲۔ادیان کی جنگ میں دہشت گردی کا بطور ِ آلہ استعمال
۳۔دین ِ اسلام پر تند وتیزیلغار
۴۔تجربی و طبیعی علوم کی بابت شدید ترین غلو(۵)
۵۔ تمام شعائر ِ دینی کا مذاق ۔ ملحدین کا ان اصحاب ِ شعائر کو پسماندگی،رجعیّت اور قدامت پرستی کا طعنہ دینا۔ دینداری یا مظاہر ِ دین کے ساتھ زندگی کو آراستہ کی جانب بلانے والی کسی دعوت سے ملحدین کی جنگ
۶۔صیہونیت (Zionism)اور فری میسن (Freemasonry) تحریک کے ساتھ ملحدین کا بے حد مضبوط تعاون اور یہود یوں اور صیہونیوں کے لیے ان کی بے انتہاء مدح و ستائش(۶)
معاصر الحاد کے منفی اور برے اثرات
موجودہ الحادنے انسان کے رویوں اور مختلف اقوام کے اخلاق پر بہت واضح اثرات چھوڑے ہیں ۔ ہم ذیل میں انہیں اجمالی طور پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۱۔بے چینی اور ذہنی خلفشاری:
الحاد سب سے پہلا اثر جو لوگوں کے نفوس میں چھوڑتا ہے ‘ وہ ہے قلق ، حیرانی ، اضطراب، نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور مستقبل کا خوف۔
۲۔ انانیت اور خودغرضی:
ذہنی قلق اور خوف کا حتمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ انسان کی توجہ فقط اپنے آپ پرمرکوز ہوکر رہ جاتی ہے ۔ دوسروں کی فکر چھوڑ کر انسان فقط اپنی مخصوص مصالح کے حصول تک محدود ہوکررہ جائے ‘ یہی انانیت اور خودغرضی ہے ۔ جبکہ دین انسان کو اپنی ذات سے ہٹ کر رضائے الٰہی کی خاطر دوسروں سے نیکی اور احسان کرنے کی ترغیب دیتاہے ۔ اس کی بجائے فقط اپنی ذات کی فکر کا رویہ پروان چڑھ چکا ہے ۔ اسی لیے الحاد اور بے دینی کے ظلمت سے اٹّے ہوئے زمانوں میں لوگوں نے دوسروںکی پرواہ کرنا ‘ چھوڑ دیا ۔ آہستہ آہستہ فقراء و مساکین سے توجہ کم ہوئی پھر اہل ِ خانہ و اقراء سے توجہ کم ہوئی پھر والدین سے توجہ کم ہوئی اوربالآخربیوی بچوں سے بھی توجہ جاتی رہی ۔
۳۔ مجرم بننے پر دبائو:
کیونکہ الحاد ضمیر ِ انسانی کی تربیت نہیں کرتا اور نہ اسے اس زمین میں اپنے تصرفات و اعمال پر نگہبان کسی قادر و قوی معبود کا خوف دلاتا ہے ‘ اسی لیے ملحد سخت دل اور احساس سے عاری ہوکر نشوونما پاتاہے ۔ ڈانٹنے اور منع کرنے والی کوئی ہستی تو ہے نہیں ‘جو اسے ظلم سے روکے اور اسے احسان و شفقت کا حکم دے ۔
۴۔ خاندانی نظام کا انہدام :
الحاد میں انسان کی اجتماعی زندگی کو توڑ پھوڑ دینے والے اثرات بھی موجود ہیں ۔ اللہ عزّ وجلّ سے دوری کا فقط یہی نتیجہ نہیں کہ نفس ِ انسانی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتاہےبلکہ اس کے لازمی نتائج میںسے انسانی معاشرے کااجڑ جانا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا‘بھی ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ انسانی معاشرہ اس وقت تک صالح اور سلیم نہیں ہوسکتا جب تک اس معاشرے کی اکائیاں صالح اور سلیم نہ ہوجائیں ۔ جب یہ اکائیاں ہی بگڑ جائیں ‘ تو اس کے تابع خاندانوں کی وجہ سے اجتماعی نظام بھی بگڑ جاتاہے ۔ اس لیے الحاد کے نتائج میں سے ایک خطر ناک نتیجہ خاندانی نظام کا انہدام واختتام بھی ہے ۔
۵۔ معاشروںکا فساداوراجاڑ:
خاندان ‘معاشرتی عمارت کی پہلی اکائی یا خلیہ ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے فساد کی وجہ سے مکمل نظام ہی فساد زدہ ہوجائے ۔ کیونکہ خاندان انسان کے لیے نگہداشت کا پہلا مرکز ہے ۔ جب انسان فساد کا شکار ہو جائے ‘ تو اس عمارت کی تعمیر میں کام آنے والی اینٹیںہی فساد زدہ ہوگئیں ۔
۶۔سیاسی سطح پر مجرم بننا:
شاید الحاد کے سب سے بڑے آثار عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے نظام میں نمودار ہوتے ہیں ۔ وہ اس طرح سے کہ مادیت پرست الحادی اخلاق ‘ انسان کے دل کو سخت اور انانیت پسند بنادیتے ہیں ۔ جو انسان کو اس جانب دھکیلتاہے کہ وہ عالمی سیاسی تعلقات میں بھی اسی انانیت کا مظاہرہ کرے ۔ اسی خاطر ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے استعماری ممالک کمزور اقوام کو غلامی میں جکڑنے، ان کے مصالح و فوائد کو ہتھیانے اور ان کے انقلابات کو دبانے _ایسے گٹھیاترین وسائل کی جانب بے بس اور مجبور ہو جاتے ہیں ۔ (۷)
حواشی و حوالہ جات
ویب ایڈریس
http://www.alukah.net/library/0/103101/
(۱)دیکھیے:کواشف زیوف المذاھب المعاصرۃ مصنف : عبدالرحمن المیدانی ص۴۳۳
(۲) العودۃ الیٰ الایمان مصنف : ھیثم طلعت ص ۱۱:۱۲
(۳) دیکھیے :الالحاد اسبابہ وعلاجہ مصنف:ابو سعید الجزائری
(۴)دیکھیے : الالحاد اسباب ھٰذہ الظاھرۃ وطرق علاجھا مصنف: عبد الرحمن عبد الخالق
(۵)دیکھیے: ملیشیا الإلحاد مصنف:عبد اللہ العجیری، خلاصہ (۲۱-۸۳)
(۶)دیکھیے :ظاھرۃ الالحاد ماحقیقتھا فی مجتمعاتنا العربیۃ و الاسلامیۃ
۔۔۔

پاکستان کی منزل نفاذِ اسلام نہ کہ اشاعت الحاد

اس وقت الحاد پہ خصوصی اشاعت نذر قارئین ہے الحاد کیا ہے اور اس وقت کیوں خصوصی نمبر شائع کیا جارہا ہے ؟ وقت کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہمارے دین کا تقاضا ہے ۔الحاد سے عموماً لادینیت اور رب واحد پر عدم یقین مرادلیا جاتاہے لغوی اعتبار سے الحاد کے معنی پھر جانے اور مڑنے کے کیے گئےہیں اس کے مقابلے میں استقامت ہے جس کا مطلب دین سے اعراض اور پھر جانے کی بجائے اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام نے مکمل دین اسلام چند لفظوں میں سمیٹتے ہوئے جو نصیحت ارشاد فرمائی وہ یہ استقامت ہی تھی ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

قُلْ: آمَنْتُ بِاللَّهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ (مسند احمد : 19431۔ مسند أبی داؤد الطیالسی : 1327)

’’کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘ زمانۂ قدیم میں تاریخ عالم پہ اگر نگاہ ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی بھی غالب نہیں رہا یا تو انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کو غلبہ حاصل ہوا یا پھر اہل شرک غالب رہے البتہ الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے میں ہی حاصل ہوا جس کی بڑی وجہ پندرھویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ کا اپنے ممالک سے نکل کر مشرق ومغرب میں فتوحات کے ذریعے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت قائم کرنا اور وہاں اپنے سیاسی اقتدار کے ساتھ ساتھ اپنے الحادی نظریات کو بھی عام کرنا تھا۔ ان کی نو آبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی ۔ عیسائیت اپنے تضادات کی وجہ سے مغربی ملحدین کے سامنے بہت جلد شکست کھا گئی یہی ملحدین پھر اسلام کی اساس پر بھی حملہ آور ہوئے جن کے خلاف مسلم ممالک میں چار قسم کے رد عمل سامنے آئے ۔مغربی الحاد کی مکمل پیروی : یہ ایک انتہا تھی فیشن ایبل ، دولتمند اشرافیہ کا طبقہ اکثر اس کا شکار ہوا جو دین سے پہلے ہی دور تھے اب مغرب کی پیروی ترقی پسند ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ۔ سو یہ لوگ نام کے مسلمان رہ گئے باقی سب طور طریقے مغرب کے اپنالیے۔ دین اسلام کے مخالف ان کی اجتماعی زندگی الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھی ۔ عوام الناس کے معاشی مفادات چونکہ اسی طبقہ اشرافیہ سے جڑے ہوئے تھے لہٰذا یہ عملی الحاد عوام میں بھی پھیلتا چلا گیا ۔

دوسرا رد عمل دوسری انتہا تھی کہ مغرب سے آنے والی ہر اچھی اور بری چیز کو رد کردو۔
تیسرا ردعمل ان لوگوں کا تھا جو دین کی پیروی کے ساتھ ساتھ مغرب سے مرعوب بھی تھے لہٰذا انہوں نے دین میں تبدیلیاں کرکے مغرب کا قر ب حاصل کرنے کی کوشش کی۔
چوتھا رد عمل ان اہل علم کا تھا کہ جنہوں نے مغرب کے مثبت پہلوؤں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی۔
ان چار قسم کے رد عمل سے معاشرے میں ایسے چار طبقات وجود میں آئے اور یہ سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا حتی کہ موجودہ دور میں الحاد ایک فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مسلم معاشرے کی وجہ سے کلی الحاد تو شاذونادر ہی دیکھنے میں آتا ہے نمائشی اور فیشنی کا مریڈ اور اشتراکیت کے پرچار کرنے والے بھی روس کی شکست وریخت کے بعد تقریباً تائب ہوچکے ہیں اور مفادات کی خاطر اب ان کی دوستی یورپ سے ہے۔ سو ان کی خوشنودی کے لیے دین مخالف نظریات اور اعتراضات کا اظہاراکثر کرتے رہتے ہیں یا پھر تحریفات اور من مانی تفسیر وتشریحات کے ذریعے الحاد کی اشاعت الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہوتی رہتی ہے مگر مایوسی والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا جواب دینے والے جدید تعلیم سے آراستہ علماء کرام بھی موجود ہیں اور تحریفات وتأویلات کا جواب دینے کے لیے پختہ کار باعمل علماء کرام کا گروہ مدارس دینیہ میں بھی مصروف عمل ہے چونکہ ذرائع ابلاغ بہت زیادہ ترقی کرگئے ہیں اور الحادی نظریات کا انتشار بھی بڑھ گیا ہے سو اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جولائی واگست کے شمارے کو اس موضوع سے خاص کیا گیا ہے ۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم آزادی کے ستر سال مکمل کر رہی ہے مگر پاکستان اپنی اساس میں لا الہ الا اللہ کا خمیر سمونے کے باوجود بھی اس کی عملی تعبیر سے محروم ہے اس کی وجہ اشرافیہ کی ملحدانہ روش ہے اس لیے موقع کی مناسبت سے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
28 جولائی کا دن میاں نواز شریف کے لیے کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آیا اور وہ تیسری بار وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نااہل ہوگئے ان کے دور میں بلوچستان میں حالات بہتر ہوئے کراچی کی رونقیں بحال ہوئیں ٹارگٹ کلنگ کا تقریباً خاتمہ ہوا پیٹرول سستا ہوا ، سی پیک کا تحفہ قوم کو ملا ، آٹھ ہزار میل سڑکوں کا جال بچھایا جاں بلب ریلوے کو دوبارہ زندگی ملی اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوا کچھ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم ہوئی مگر ہم اس لیے ان کے جانے سے افسردہ نہیں ہمارے افسوس کی وجہ کچھ اور ہے ہمیں افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم لیگ عموماً دوسری خالص سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں دین اور دینداروں سے نسبتاً ہمدردی رکھنے والی جماعت سمجھی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں عموماً اس کی تائید کرنا بہتر سمجھتی ہیں مگر میاں صاحب کی حکومت کا یہ دور اس تہمت کو ختم کرنے میں گزراکبھی سابقہ وزیر اطلاعات مدارس دینیہ کو جہالت کے مراکز کے استعارے دیتے رہے کبھی حرمت رسول ﷺ کے معاملے میں حکومت توہین رسالت کے مرتکبین کو سزا دلانے کی بجائے ممتاز قادری کو پھانسی لگانے میں پھرتیاں دکھاتے نظر آئی کبھی شریعت سے متصادم حقوق نسواں بل کے پیچھے حکومت ہلکان نظر آئی اور آخر اہل کشمیر کے ساتھ یہ ہمدردی کی کہ ان کی بات کرنےوالوں کو نظر بند کیا اور گھر کی خبریں دشمن بتانے لگا ۔ اقتدار تو ڈھلتا سایہ ہے ۔

تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ (آل عمران : 26)

تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے ۔

فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ (الحشر : 2)

پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو ۔
اس ملک کا مقدر اسلامی نظام ہی ہے اور جو اسے الحاد کی طرف ڈھالنے کی کوشش کرے گا وہ ان شاء اللہ کامیاب نہیں ہو گا ۔
کاش یہی اقتدار کے متلاشی اور اسے پالنے والے اس حقیقت کو سمجھیں اور اسلام کو بطور نظام قبول کرکے ملک میں اس کی تنفیذ کی کوشش کریں تاکہ اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہو اور جانے کے بعد اچھے لفظوں سے یاد کیے جائیں۔

القرآن معجز ہ جاود ا ں اور عالمگیر ہد ایت نامہ

قرآن کاچیلنج ! عیسائیو! یہودیو! کیمونسٹو! ہند ؤو! سکھوں! بدھو! اورجو کہتے ہیں کہ قرآن پیغمبرِاسلام ﷺ نے خود لکھا،اس کی ترتیب انسانی یا قرآن نامکمل ہے۔
قرآن تمہیں چیلنج کرتا ہے اگر تم ا پنے دعوے میں سچے ہو!توقرآن کا چیلنج قبول کرو:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

اے نبیﷺ ان کو چیلنج کر دیںکہ تمام دنیا کے جن اور انسان مل کرآپس کی مدد سے بھی اس قرآن کی مثل تیار نہیں کرسکتے ۔(الاسراء:88)
قرآنکی باقی تمام خوبیوںچھوڑ دو :اس کی ہیئت ترکیبی کی طرز پر حسابی ترتیب جیسی کسی بھی زبان میں چند صفحات کی کہانی لکھ کر دکھا د و!
پیغمبرِاسلام ﷺ مکمل طور پرناخواندہ تھے: تم پڑھے لکھے ہو۔
پیغمبرِاسلام ﷺ ریاضی نہیں جانتے تھے: تم میں ریاضی کے ماہر بھی ہیں۔
پیغمبرِاسلام ﷺکے پاس فالتو وقت نہ تھا ،تمہارے پاس لا محدود وقت ہے:
پیغمبرِاسلام ﷺ کے پاس کمپیوٹر اور کیلکولیٹر نہ تھے تمہارے پاس یہ سہولتیںموجود ہیں۔
پیغمبرِاسلام ﷺ اکیلے تھے تم ساری دنیا ادیب ، سائنسدان اور ریاضی دان سب اکھٹے ہو جاؤ:
پیغمبرِاسلام ﷺ  نے ایک مرتبہ لکھوانے کے بعد کبھی ترمیم نہیں کروائی تم ہزار بارترمیم کا بھی اختیارہے:
یاد رکھو!تم ایساہرگز نہ کر سکوگے کیونکہ قرآن کاحقیقی مصنّف تمہارا خالق ہے وہ تمہاری کمزریوں سے بیخبر نہیں تھا اسلئے امتحان سے پہلے ہی رزلت آؤٹ کر دیا گیا :جسے تم محمد الرسو ل اللہ ﷺ کی تصنیف قرار دیتے ہواسی قرآن کی زبانی اپنی ناکامی کا اعلان سنو :ہوش کے ناخن لوکیا کوئی انسان ایسا اعلان کرسکتاہے؟

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (القرآن2/24)

 اگر تم نے ایسا نہ کیا(یعنی قرآن کی مثل نہ لاسکو) اور ایسا ہر گز نہ کر سکو گے:تو(قرآن پر ایمان لاکر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
(اس سے انکار کرنیوالے) اور پتھر(بت جن کی پوجا ہوتی ہے) ہونگے۔
قرآن عالمگیر ہدایت اور قیامت تک کیلئے زند وجاوید معجزہ ہے
ابتدائے آفرینش سے ہی بنی نوع انسان کی یہ عام عادت رہی ہے کہ جب بھی انسانوں کو دوبارہ اُس راہ پر ڈالنے کیلئے جو اس کے خالق کی رضا اور منصوبے سے مُنطبق ہے، اللہ کی طرف سے کوئی ہادی بھیجا گیا تو اُس کے پیغام کو اُسکی اپنی خوبیوں کی بنا پر ماننے کی بجائے انہوں نے اللہ کے ان بندوں سے مافوق الفطرت شہادتوں کا مطالبہ کیا:
علیم وخبیر خالق انسانیتِ اپنے بندوں کی فطرت سے بے خبر نہیں تھا: لہٰذا اُسنے موجودہ لوگوں کے ماحول اوروقتی ضرورت کے مطابق اپنے ہر پیغمبر کو معجزات دیکر بھیجا : موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے نبی بنکر آئے چونکہ آپ کے زمانے میں جادو عروج کی انتہاپر تھا: لہٰذا آپ کو جادو سے متعلقہ ( ہاتھ کا چمکنا اور اعصاء کا سانپ بننا)معجزات عطاہوئے :انکے اثرات وقتی تھے :اسلئے آپ  کے بعد ختم ہوگئے:اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے دور نبوت میں حکمت نقطئہ عروج کو چھو رہی تھی اسلئے آپ  کو بیماروں کو شفایاب کرنے اور مردوں کو زندہ کرنے جیسے حکمت سے متعلقہ معجزات عطاہوئے:یہ بھی اپنے زمانے تک محدودتھے جو عیسیٰ علیہ السلام کے عروج آسمانی کے ساتھ ہی ختم ہوگئے:
بعینہ پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے میں فصاحت و بلاغت کا عروج تھاعرب شعراء غیر عرب کو عجمی (گونگے) کہاکرتے تھے: لہٰذا آپ ﷺ کو فصاحت وبلاغت سے متعلقہ معجزہ(قرآن)عطا ہوا:چونکہ آپ ﷺ کی نبوت اقوام عالم کیلئے قیامت تک باقی رہنے والی تھی:اسلئے آپ ﷺ کوعالم گیر ہدائت نامہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ (القرآن) عطا ہوا:
انسانی فطرت کے مطابق کفار مکہّ نے بھی معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا جسے قرآن نے یوںبیان فرمایا ہے:

وَقَالُوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَاتٌ مِّنْ رِّبِّہِ (القرآن29/50)

 اور کہا انہوں نے کہ ان کے رب کی طرف سے ان (محمد ﷺ) پر کوئی نشانیاں(معجزات) کیوں نہیں اتریں؟
کفار کے اس مطالبہ پر پیغمبر اسلام ﷺ کوکوئی اورمعجزہ دکھانے کی بجائے قرآن کو بطور معجزہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا:

اَوَلَمْ یَکْفِہِم اَنَّا اَنْزَلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِم(القرآن29/51)

کیا ان کیلئے کافی نہیں کہ ہم نے تم (محمدﷺ) پریہ کتاب (قرآن)اُتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے؟
خالق وحی نے قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل پیش کرکے کفار مکہ کو یاد دلایا کہ

وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبطِلُوْنَ (القرآن29/48)

اورتم (اے محمدﷺ) اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے (یعنی آپ بالکل ناخواندہ ہیں)اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے : اگر ایسا ہوتا (یعنی اگر آپ  ﷺ خواندہ ہوتے ) تو باطل والے ضرور شک کرتے:
یہ یادہانی کروائی گئی کہ نبی کریمﷺ تو ناخواندہ ہیں: ایسا کلام کیسے لکھ سکتے ہیں ؟ کفار کو قرآن پرغور کرنے کی دعوت دی گئی۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْراً (القرآن29/48)

کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے کہ اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے (محمد ﷺ کا لکھا ہوا) ہوتا تو اس میںبہت سا اختلاف پاتے ۔
فصاحت و بلاغت کے امامو ں کودعوت فکر دینے کے بعدچیلنج کیا گیا کہ اگر ان حقائق کے بعد بھی تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور ابھی تک تمہارے دل میں یہ شک ہے کہ اسے محمد ﷺ نے اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے تو سنو!

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (القرآن2/23)

  جو کچھ ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر اتاراہے (قرآن)اگر تمہیں اس میںشک ہے ( کہ یہ محمدﷺ نے خود گھڑلیا ہے) تو تم بھی اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھادو : اور اس کام میں تمہیں اجازت ہے(ہمارے نبیﷺ تواکیلے اور ناخواندہ ہیں) کہ تم جس جس کو چاہو( دنیا کے مفکرین کو) اپنی مدد کیلئے بھی بلالو۔
کفار کو احساس دلانے کیلئے کہ اس کلام کے سامنے تم کوتاہ قدبونے ہو، چیلنج کے ساتھ ہی نتیجہ آؤٹ کردیاگیا اور فرمایاگیا:

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (القرآن2/24)

اگر تم نے ایسا نہ کیا(یعنی قرآن جیسی سورۃنہ بنا سکے) اور ایسا ہر گز نہ کر سکو گے:تو(قرآن پر ایمان لاکر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن(اس سے انکار کرنیوالے) اور پتھر(بت جن کی پوجا ہوتی ہے) ہونگے:
ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ خالق انسانیت اپنے بندوں کی کمزوریوں اور استعدادسے واقف تھا:لہٰذا فصاحت و بلاغت کے امام بھی چیلنج کا جواب نہ دے سکے تو اُن پر واضح ہوگیا کہ قرآن محمد ﷺ کا نہیںبلکہ اللہ کا کلام ہے تو پورا عرب بت پرستی سے تائب ہوکر پیغمبر السلامﷺ کواللہ کاسچا نبی اور قرآن کو اللہ کاکلام تسلیم کر لیا : قرآن نے اونٹوں کے سابانوںکو مہذب دنیا کا استاد بنادیا۔
آج کا منکر کہے گا کہ یہ چیلنج تو عربوں کیلئے تھا:جب قرآن کو عالمگیر ہدایت اور قیامت تک کے لوگوں کیلئے معجزہ کہا جاتا ہے تو آج ہمارے کیلئے کیاہے؟ ہم تو عربی نہیں جانتے :کس دلیل پر قرآن کو معجزہ ثابت کیا جاسکتا ہے ؟
اسی سوال کے جواب کیلئے گذشتہ تمہید کی ضرورت پڑی کہ کس طرح قرآن کو عربوں پر معجزہ ثابت کیا گیا اور انہوں نے قرآن اور صاحب قرآن ﷺکی صداقت پر سرتسلیم خم کردیا اورکسطرح قرآن عجمیوں کیلئے بھی معجزہ ہے،خالق انسانی فطرت سے بے خبر نہ تھا: اُس نے پوری دنیا میںموجود قیامت تک کیلئے ہرسیاہ و سفید کو بھی ایک چیلنج کیا ہے:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا(القرآن17/88)

آپﷺ چیلنج کر دیجئے کہ گر تمام جن وانس متفق ہوکر بھی قرآن کی مثل لانا چاہیں تو نہ لا سکیں گے، خواہ سب ایک دوسے کے مدد گار بھی بن جائیں:
قرآن غیر عربوں اور قیامت تک کے لوگوں کیلئے کس طرح معجزہ ہے؟ زیر نظر کتابچے کا مطالعہ شروع کریں آپکو اس کا جواب مل جائیگا:اگر آپ صاحب شعور اور غیر جانبدارہیں توقرآن کے متعلق آپکا کوئی شک باقی نہیں رہیگا۔ان شاء اللّٰہ
قرآن قیامت تک کیلئے ایک زندہ و جاوید معجزہ ہے

الحمد للّہ وحدہ والصلٰوۃ والسلام علٰی من لا نبیّ بعدہ اما بعد فاعوذ  باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن  الرحیم
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا(النساء:82)

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی غیر کا لکھا ہوا ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔
صاحبِ قرآن سید الاولین والآخرین محمدمصطفیٰ ﷺ نے فرمایا:

لَاتَنْقَضِیْ عَجَائبَہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ

یعنی اہل علم قرآن میں غور و تدبّر کر کے نئے نئے انکشافات کرتے رہیںگے مگر اسکے عجائبات قیامت تک ختم نہیں ہونگے : خالقِ وحی جس زمانے میں جو عجو بہ جب چاہے گاانسانوں پرظاہر فرماتا رہیگا : انہی عجائبات میں سے قرآن کی ’’ہیئت ِ ترکیبی‘‘ ایک چونکادینے والا عجوبہ ہے :جواسکو عملی طور پر عصر حاضر کا زندہ و جاوید معجزہ ثابت کرتا ہے:معنی و مطالب اور فصاحت و بلاغت سے ہٹ کر قرآن مجید کی ہیئت ترکیبی یعنی اسکی سورتوںکی تعداد ، ان میں آیات ، آیات میںالفاظ اور الفاظ میںاستعمال ہونیوالے حروف کی مخصوص تعداد اور ان کی ترتیب ایک عظیم ترین معجزہ ہے: جسے دیکھنے اور جانچنے کیلئے قرآن کی زبان عربی کا جاننابھی ضروری نہیں : عربی ہویا عجمی ،عالم ہو یا جاہل قرآن کے اس عجیب وغریب معجزے کو دیکھ اور جانچ سکتا ہے: بنیا دی ضرورت صرف یہ ہے کہ آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو ں اور انسان کے پا س 19 گننے کی صلاحیت ہو۔ یہ معجزہ قرآن کے عالمگیری ہدائیت ہونے کی دلیل ہے: قرآن کے اس عجیب و غریب معجزہ کو پو رے طور پر سمجھنے کیلئے ہمیں قرآنی نزول کے آغاز سے ابتداء کر نی پڑے گی :
ہم جا نتے ہیں کہ قرآن جس شکل میں آج ہمارے پا س موجو د ہے اس میں سورتوں اور آیا ت میں و ہ روایتی ترتیب کا ر فرما ہے جس کا انتظام محمد ﷺ کی بلا وا سطہ ہدایت کے تحت آپﷺ کے انتقال سے قبل کیا گیا تھا:حالانکہ قرآن اس تر تیب سے نا زل نہیں ہوا : اسکے نزول کی تر تیب مختلف ہے : آپ ﷺ پر پو را قرآن وقتی ضرور ت کے تحت تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف اوقات میں نا زل ہوتارہا :آپ مسلمان ہیں یاعیسائی ، یہودی ہیں یا پارسی ، ہندو ہیں یا سکھ، بدھ مت ہیں یا کیمونسٹ غرض جو بھی ہیں دوران مطالعہ چند منٹ کیلئے ہر طرح ہٹ دھرمی اور تعصب کو دل سے نکال کر کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیجئے اوردل کو تھام لیجئے اور حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے کیلئے تیار ہو جایئے:
نزول روح القدّس، وحی کا آغاز  ا ور بائبل  کی تین پیشگوئیوں کی تکمیل:
ہمیں آپ ﷺ پر پہلی وحی کانزول یاد ہے آپ ﷺ مکہ سے تین میل شمال میں بائبل کی کتاب استثناہ 33/2
وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا”کے مطابق فاران کی چوٹی پر(حرا) نامی غار میں موجو د تھے :آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال اور یہ رمضان کی ستائس تاریخ تھی آپ ﷺنے ایک شبیہ دیکھی جس میں بائبل کی کتاب یسعیاہ 20/12 میںدی گئی بشارت ’’وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اسکو پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا‘‘کے مطابق رئیس الملائکہ حضرت جبرائیل  نے آپ ﷺ کی مادر ی زبان میں کہا اِقْرَأ (پڑھئے)آپ ﷺنے فرمایامَااَنَا بَقَارِئ(میں تو پڑھنا نہیں جانتا ) اس مکالمے کی تین بار تکرار کے بعد جبرائیلؑ نے ہما رے پیا رے نبی کریمﷺ کو(سورہ علق)کی پہلی پا نچ آیا ت سکھائیں:اسطرح خالق وحی نے ہزاروں برس قبل اپنے عظیم پیغمبر سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے بائبل کی کتاب استثناہ 18/18 میںدی گئی بشارت۔
’’میں اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالونگا‘‘کے عین مطابق خالق وحی نے اپنا کلام اپنے نبی ﷺ کے منہ میں ڈالا۔

کفار کی الزام تراشیاں:

جب آپﷺنے اﷲ کی توحید اور ایک اَرفع واشرف زندگی کے متعلق انکشافات شروع کئے تو زبانو ںنے بھونڈی مخالفت شروع کردی : بد خو اوربدگو لوگوں نے الزام تراشی کا آغاز کیا کہ آپ ﷺ نعوذ باﷲ پاگل یا جن بھو ت کے زیر اثر ہیں:
دوسری وحی ا ور الزام تراشیوں کا جواب:
اس الزام کا جواب دینے کیلئے آپ ﷺ کوسورۃ قلم کی پہلی نو آیات عطا کی گئی :اس وحی کی آیت نمبر ..2۔

مَااَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنِ

’’ آپ ﷺاپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔‘‘
کے تحت اﷲ رب العزت مشرکوں کے اس الزام کو سختی سے ردّفرماتے ہیںکہ محمد ﷺ انتہائی صحیح الدماغ اور دانا ترین انسان ہیں:
تیسری وحی ا ور تیّار رہنے کی تاکید:

جبرائیل علیہ السلام تیسری مربتہ تشریف لاتے ہیں اور ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺ کوسورۃ مزمل کی پہلی دس آیات سکھاتے ہیں : اس تیسری وحی کی آیت نمبر 5 ملاحظہ فرمائیںـ:

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً

’’بے شک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری کلا م ڈالنے کو ہیں۔‘‘
محمد ﷺ اپنے رب کے عاجز بندے جو کچھ موصول کر رہے تھے بہت اچھا، خوبصورت، اہم اور وزن دار تھا لیکن خالق ِوحی کے پا س اپنے پیغمبر ﷺ کو دینے کیلئے حقیقتاً کوئی غیر معمولی چیز تھی :

چوتھی وحی ا ور ا نیس کی د ھمکی:

اپنی چو تھی ملا قات میں جبرائیل ِامین نے رسول ِعالم ﷺ کو نصف سے زیا دہ سورۂ مد ثرکی تعلیم دی : وحی کا اختتام آیت نمبر 30 عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَپرہوتا ہے: اگر یہ نزول اس سورۃ کی بقیہ26 آیا ت تک جا ری رہتا تو یہ سورۃ مکمل ہو جا تی: لیکن جبرائیل آیت نمبر30پررک جاتے ہیں ۔اس آیت کے متن پر ایک سرسری نظر ہی یہ ظاہر کر دیگی کہ یہ آیت بھی ایک الزام کا جواب ہے : پہلے کافروں نے پاگل پن کا الزام لگایا اور اب یہ دیکھتے ہوئے کہ لو گ گوآہستہ لیکن یقینا آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہہ رہے ہیں تو انہو ں نے پاگل پن کی بجائے (ساحری )کا الزام لگادیا :

فَقَالَ اِ نْ ہٰذَا اِلاَّسِحْرُیُّوثَرُ

’’پھر کہا اس نے!یہ تو نرا منقول جادو ہے۔‘‘
عیسائی مصنّف تھا مس کا رلائل بت پر ستو ں کے اس الزام کو بڑی خوبصورتی سے رد ّکر تاہے: لکھتا ہے :
’’جعلساز اور شعبدہ باز ۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔یہ عظیم آتشیں دل ۔۔۔کھولتا ہوا خیالا ت کی عظیم بھٹی کی طرح۔۔۔ شعبدہ باز نہیں تھا ۔‘‘
لیکن چوتھی وحی کی تیس آیات میں سے آیت نمبر 25 میں الزام بہت سنگین ہے: منکر رسالت قرآن پر الزام لگاتا ہے:

اِ نْ ہٰذَا اِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ

’’ یہ تو محض انسان کا کلام ہے۔‘‘
اس بے بنیاد الزام اور جھوٹے مفروضے کے جواب میں قرآن کا حقیقی مصنّف ایک سخت تنبیہ کر تا ہے ۔

 اِنْ ہٰذَا اِلاَّ قَوْلُ الْبَشرِ o

’’یہ تو مخص انسان کا کلا م ہے۔‘‘

 سَاُصْلِیْہِ سَقَر

’’ میں اسے جلد ہی دوزخ میں ڈالو ں گا۔‘‘

 وَمَا اَدْرٰکَ مَاسَقَرo

’’اور آپ کو معلوم ہے دوزخ کیا ہے؟۔‘‘

 لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُo

’’جو نہ توباقی رہنے دے گی اور نہ ہی چھو ڑے گی۔‘‘

 لَوَّا حَۃٌلِّلْبَشَر

’’ جو جلد کی حیثیت کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔‘‘

 عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر

’’اس پر انیس ہو نگے۔‘‘
محمد ﷺ دعویٰ کر تے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے: لیکن منکرکہتا ہے یہ ا نسان کا کلا م ہے : دوسرے لفظوں میں اگر کو ئی شخص محمدالرسول اللہ ﷺ پر جھو ٹا الزام تراشے کہ وہ اﷲ کی کتا ب کے مصنّف ہیںتووہ یعنی الزام لگانے والا سقر (دوزخ ) میں آگ کے عذاب کے علاوہ اپنے پر(انیس) پائیگا:یہ انیس کیا ہے؟
’’انیس‘‘ (19)کیا ہے؟  :
ہما رے ماضی کے مفسّرین نے اس انیس کی حقیقت کے مطلق بڑے خوبصورت انداز ے لگائے ہیں :کچھ نے کہا ۔
یہ ان فرشتو ں کا حوالہ ہے جو اہل دوزخ پر نگران ہو نگےکچھ نے کہا کہ یہ انسانی ذ ہنی صلاحتیو ں کے انیس درجا ت ہیں اور بعض نے انہیں ۔
اسلا م کے احکا م وقوانین گردانا ہےچونکہ یہ عددایک الزام کہ محمد ﷺ نے یہ کتاب خو د تحریر کی ہے، کے جواب میںد یا گیا ہے : اسلئے اس کا مصنف جانتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے:
نبی کریمﷺ کا دعویٰ ، قرآن کی توثیق اور بائبل کی تائید و تصدیق:
مسلمانو ں کو اس حقیقت کا یقین ہے کہ قرآن ہی وہ کلا م ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کے منہ میں ڈالا: یہ بائبل کی اس پیشگوئی کا مصداق ہے جو عہد عتیق کی کتا ب استثناء18/18میں صدیوں قبل دید گئی تھی:خالق کائنات نے مانند موسیٰ نبی کی بشارت دیکرفرمایا:
’’اور اپناکلا م اسکے منہ میں ڈالو نگا: جو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہے گا۔‘‘
اسی حقیقت کی عیسٰی علیہ السلام نے انجیل یوحنّا 16/13 میں پیشگوئی فرما دی ۔
لیکن جب وہ روح ِ حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی خبر دے کا اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔
اسی با ت کا محمد ﷺ نے دعویٰ کیا کہ قرآن اﷲ کا کلا م ہے اور اسی بات کی قرآن توثیق کر تا ہے۔

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰ ی اِنْ ھُوَ اِلاَّوَحْیٌ یُّوْ حٰی

’’اور وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے: یہ تو محض وحی ہے جو انکی طر ف کی جا تی ہے۔‘‘
اس کے علا وہ آپﷺ کی زبان مبا ر ک سے با ر بار کہلوایا گیا :

قُل ا ِنَّمَا اَ نَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ

 ’’آپﷺ فرما دیجئے کہ میں تو تم جیسا بشرہی ہو ں مگر میری طر ف وحی کی جا تی ہے۔‘‘
ہم مسلمانو ں کا ایمان ہے کہ قرآن کا ایک بھی لفظ نہ تو محمد ﷺ نے خو د لکھا اور نہ ہی اختراع کیا : میں اﷲ کی مدد اور توفیق سے عملی طورپریہ ثابت کرونگا کہ قرآن خالق انسانیت کا حتمی معجزہ ہے جو انسانی ذہن کی رسائی سے یکسربالاہے:
پہلی وحی ا ور19:
قرآنی آیا ت کے نزول کا تاریخ وار مطالعہ کر تے ہو ئے ہمیںپتہ چلتا ہے کہ چوتھی وحی میں سورۃ مدثرکی آیت 30   عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر’’ اس پر انیس ہونگے‘‘آخری آیت تھی جو رئیس الملائکہ نے ہما رے نبی ﷺ کو سکھائی: اگر یہ نزول اسکی بقیہ 26آیات تک جاری رہتا تو یہ صورۃ مکمل ہوجاتی :مگریہا ں وقفہ دیتے ہو ئے اس سورۃ کی بقیہ آیا ت بتا نے کی بجائے جبریل امین  نے آپ ﷺ کو پہلی وحی سورۃ علق کی بقیہ آیا ت پڑھا نا شروع کر دیں: آپ ﷺ کو اس سورۃ کی مزید چودہ آیا ت عطا کی گئیں : پہلی وحی کے موقعہ پر آپ ﷺ کواس سورہ کی صرف پہلی پانچ آیا ت سکھائی گئی تھیں: ا ن میں مزید چودہ آیا ت کا اضا فہ کر دیا گیا ، اسطرح کل کتنی آیات ہو گئیں ؟ جواب19ہے :
قارئین محترم!یہ کیسے ہو گیا کہ مذکو رہ بالا وحیعَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر  ’’اس پر انیس ہیں‘‘ یہ کیسے ہوگیا کہ’’ا نیس‘‘ کا لفظ منہ سے نکلتے ہی “انیس آیا ت”کی سورۃ مکمل کردی گئی؟
غالب ہے متشکک کہے گا کہ یہ اتفا ق تھا : اتفاقات ضرور ظہو ر پذیر ہوتے ہیں:ہم بھی اس سے اتفاق کر تے ہیں: مگر
{1}اس وحی میں نا ز ل ہو نیوالی [14] آیا ت[209] حروف پر مشتمل ہیں جو پھر سے19 پر قابل تقسیم عدد ہے
اپنے متشکک دوست کے اتفاق قرار دینےسے قبل اتفاق پر اتفاق ہونے پر ہم بھی اتفاق کرتے ہیں: مگرمزید سنیے:
{2} کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ اس 19 آیا ت کی سورۃ کے کل285 حروف ہیں جو[19] پر پو را پورا تقسیم ہو نیوالا عدد ہے ؟چلئے اسے بھی اتفاق مان لیا :کیونکہ یک بعد دیگر تین مرتبہ اتفاق کو عرف عام میں ہیٹرک کہا جاتا ہے:جو کبھی کھبار ہو جاتی ہے :مان لیا ہیٹرک ہوگئی: اب سوچئے اسے کیا نام دیں گے ؟کیونکہ اتفاق کا چانس تو ختم ہوچکا:اب کے بعد بھی ایسا ہوا تو ماننا پڑیگاکہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک غیر معمولی اور مافوا لفظرت دماغ کا فرما ہے :تو سنئے
{3}یادرہے پہلی وحی کے موقعہ پر نا زل ہونیوالی اس سورۃ کی پہلی پانچ آیا ت کے19 الفاظ تھے ؟آگے چلیں۔
{4}یہ انیس الفاظ فی الحقیقت76 حروف پرمشتمل ہیں جو انیس پر قابل تقسیم عدد ہے: ایک قدم مزیدآگے۔
{5}قرآنی ترتیب میں اس سورۃ کا 96 واںنمبر ہے :  اگر آپ معکو س گنتی گنیں یعنی 114 (ایک)، 113 (دو)، 112(تین)اسی طرح گنتے ہوئے جب آپ اس سورۃ کے نمبر [96] پر پہنچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ 19آیا ت کی۔ [19]پرقابل تقسیم285 حروف پر مشتمل یہ سورۃ اختتام سے انیسویں نمبر پر ہے : ایک قدم مزیدآگے بڑھئے ۔
{6}ان انیس سورتوں96تا114  کے نمبروں کا مجموعہ 1995 ہے جوپھر سے [19]پر قابل تقسیم ہے : اسکے بعد
{7} ان 19 سورتوں96تا114سے پہلے قرآن مجید کی95 سورتوں کی تعداد بھی انیس پر قابل تقسیم ہے ۔
محترم قارئین !اب ذرا اپنے ضمیر کا فیصلہ دریافت کریں: جو وہ کہے وہی سچ ہے :لیکن اگرکسی کا ضمیر مردہ یاگہری نیند سویاہواہو اور اس کا جواب ابھی تک اتفا ق ہی ہے تو پھر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہو ں کہ یہ انسانی مرض ہے:جب وہ کسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتا تو وہ کو ئی ایسالفظ ایجا د کر کے اس کی اوٹ میںپناہ لے لیتا ہے جس سے وہ خود کو اس خوش فہمی میں مبتلارکھ سکے کہ میں نے اس مسئلہ کا حل تلاش کر لیاہے :لیکن چشم پوشی سے حقائق کو بدلاجا سکتا ہے نہ کبورتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے نہ بلی ٹل جاتی ہے اور نہ سبز چشمہ لگانے سے سورج کی تمازت ختم یا کم ہوتی ہے: حقائق اپنی جگہ اٹل اورناکام نہیںہوا کرتے ہمیشہ ان سے چشم پوشی کرنیوالے ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔ یہ توقرآنی حقائق کی شروعات ہے :آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
قرآن کے ابواب’’سورتیں‘‘ا ور19 :
اگر کسی نے کوئی کتاب لکھنی ہو تو اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اسے اپنے ذہن میں ترتیب دے: کوئی شخص محض تُک بندی سے اسے کتاب کی صورت میں تر تیب نہیںدیتااگرمحمدﷺنے بھی قرآن لکھنا ہو تا تو آپ ﷺ کو بھی دوسرے لوگوں کی طرح کوئی منصوبہ تیار کرنا پڑتا:پس آپ ﷺسوچتے اوراعلان فرماتے کہ میںایک ضخیم کتاب لکھنے والاہوں:اسکی تکمیل میں میری زندگی کے تئیس برس صرف ہونگے:مجھے اپنے ماننے والوں کے مطالعہ اور آسان حوالہ جات کیلئے اپنی یہ کتاب مختلف ابوا ب میں تقسیم کر نا ہو گی:آئیے،فرض کریں!کہ محمدﷺنے اپنی کتا ب کو [114] ابواب سورتوںمیں تقسیم کر نے کا فیصلہ کر لیا۔114ہی کیوں ؟ 113یا115کیوںنہیں؟کیونکہ [114]بھی انیس پر قابل تقسیم عدد ہے ۔
میرے متشکک دوست کے پاس ان حقائق کو اتفاق قراردینے کا کوئی جواز نہیں بچا:مگراس کے ضمیر سے ایک نحیف سی آواز کو اب بھی سُن رہا ہوں: جو کہہ رہی ہے کہ اﷲ کی طر ف نا زل ہو نیوالی کتا ب کی صداقت کا کوئی ثبوت ہونا چاہئے جیسے ہر مصدقہ دستاویزات پر اسے جاری کر نے والی اتھا رٹی کی مہر ہو تی ہے: قرآن کو بھی اسی طر ح کی کسی مہر کا حامل ہو نا چاہیے،اپنے متشکک دوست سے متفق ہوںکہ وہ کتا ب اﷲ کی طر ف سے نہیں ہو سکتی جو انسانوںکے ہر مسئلے کا بہتر ین حل ،انکے ذہن میںاٹھنے والے ہر سوال کا جواب اور شیطان کی طر ف سے پیدا کئے گئے شکوک و شبہات کو دور کر کے دلی تسکین نہ پہنچا سکے:اگرمحمدﷺ نے ہی قرآن لکھا ہوا ہوتا تو یقیناا اس سوال کا جواب نہ مل سکتا:مگر اس کامصنف علیم وخبیر قادر مطلق رب تعالیٰہےجو اسطرح کی شقی ذہنیت سے واقف تھا: اسلئے اس نے اپنی کتاب قرآن کی سورۃکہف کی پہلی آیت میں فرمادیا:

الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا

’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ور اس میں کوئی کمی باقی نہ چھوڑی۔‘‘
جب اس قرآن میں کوئی کمی نہیں تو پھر اس میں میرے متشکک دوست کے ہر سوال کاجواب کیونکر نہ ملے گا۔؟
’’ انیس‘‘ بطور پر نٹڈ مہر:
بیشک قرآن کا بھی اﷲ کی طر ف سے نا زل ہو نے کے دعویٰ کی صداقت کا ثبو ت ہونا چاہئے : اور یہ ثبو ت موجود ہے جو اس کے اصل مصنّف قادر مطلقاللہ تعالیٰ کی واحدانیت کی و ہ مہرہے جسے قرآن کی ہر سورۃ کے آغاز میں ایک بچہ بھی پہچان سکتا ہے اوروہ مہرہے بِسْمِ ﷲِ الرّٰحْمٰنِ الرَّحِیْممیرے متشکک دوست کی نحیف ترین آواز آتی ہے کہ تمہارے پاس اسے اﷲ کی واحدانیت کی مہر قرار دینے کی کیا دلیل ہے ؟
دلیل حاضرہے کہ اس مہر کے حروف بھی19 ہیں اگر آپ خود گن لیں تویقینا آپ کو روحانی خو شی ہو گی :اسکے بعد میری طرف سے اجازت ہے کہ جتنے چاہے سوال کریں مگر حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے کیلئے بھی خود کو تیار رکھیں: اب دیکھیں اس مہر کے انیس حروف پر مشتمل ہونے میں میرے مصنّف نے کیا حکمت پوشیدہ کر رکھی ہے؟میرا مصنّف بھولتا ہے نہ چوکتا ہے:نہ کسی کام میں غلطی کرتا ہے۔ اس کی قادر مطلق ذات ہر طرح کی کمزروری سے پاک ہے۔
19حروف کی مہر کے 4الفاظ ا ور19کے پہاڑے کا استعمال :
میرے مصنف نے اپنی اس انیس حروف کی مہر کے الفاظ کی تعداد کو بھی اپنی کتا ب (قرآن)میں19کے نظام کے تحت استعمال کیا ہے : اﷲ کی اس مہر کے چا ر الفاظ ہیں :اسم-اﷲ- رحمن اوررحیم:
اللہ کی واحدانیّت کی مہر(تسمیہ)کے ان چار الفاط کی تعداد قرآن مجید میں اتنی بار آئی ہے کہ ہر لفظ (تسمیہ) کے حروف کی تعداد 19  پر پور ی پوری تقسیم ہو سکے:
اسم کا لفظ تسمیہ کے حروف کی تعداد کے برابر19با رآیا ہے۔ 19/19  = 1
]اﷲ[   مصنّف کا ذاتی نام] [2699  با روارد ہوا ہے۔   2699/19  142 -1 =
]رحمٰن [ صفاتی نام  ] [57مر تبہ اور۔ 57/19  =  3
]رحیم[ قرآن میں] [114  مر تبہ وارد ہوا ہے۔ 114/19    =      6
اس کے بعد ان تمام الفاظ کا حاصل تقسیم کا مجموعہ 152/19 = 8بھی انیس پر قابل تقسیم ہے:
لیکن خالق کائنات کا ذاتی نام(اﷲ)کی تعداد 2699/19=142-1
19 پر تقسیم کرنے سے ایک با قی بچ گیامصنّف بھول گیا یااس انتہائی مشکل اور پیچیدہ نظام میںاپنے ذاتی نام کی تعدا د کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گیا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ میرا مصنّف کوئی عام ہستی نہیں:وہ دانا وبینا ہی نہیں عقل کا منبہ اور علیم و خبیر قادر مطلق ذات ہے: میرا مصنّف بھولتا ہے نہ چوکتا ہے اپنے کسی منصوبے میں ناکام ہوتا ہے یہاں وہ انسانیت کو درس دینا چاہتا ہے۔درس کیا ہے۔؟
{1}تقسیم ہونے کامطلب تھا کہ اسکی ذات قابل تقسیم ہے اور اللہ تین میں کاایک ہو سکتا ہے:یعنی تثلیث کا پہلا اقنوم:
{2}دوسرادرس یہ ہے یہ کہ اللہ کی ذات کسی حساب کی تابع نہیں :حساب کتاب سے اس کی ذات وصفات کو ناپا جا سکتا ہے نہ ضبط تحریر میں لا کر اسکا احاطہ ممکن ہے:  اسکی ذات ہر چیز سے بالا اورہر طرح کی کمی کمزوری سے پاک ہے:
{3}پورا پورا تقسیم ہونے کا مطلب تھا کہ آخر حساب برابر اوراسکی ذات سمیت سب کچھ ختم :لیکن وہ حَیُّ الْقَیُّوْمہے:
{4} ایک باقی بچنے میں درس ہے کہ اللہ اَحَدُ الصَّمَد ہے۔سب کچھ فناہ مگربقا صرف اسکی واحد ذات کوہے۔
ھُوَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَ کَ شَيئٌ
’’وہ سب سے آخر ہے اس کے بعد کچھ نہیں‘‘
{5}اگر ایک سے زیادہ بچتے تو کثرت کا احتمال تھا جس میں توحید کی نفی ہے : وہ چاہتا ہے اسے ایک مانا جائے:
{6}اگرایک کم ہو تا تو اسکی ذات کی نفی کا احتمال تھااور اللہ چاہتا ہے کہ اسکی ذات وصفات کی نفی نہ کی جائے :
یہ محض توضیح نہیں بلکہ دعویٰ ہے: ایک ٹھوس دعویٰ :جس کی بنیادچٹان جیسی مضبوط دلیل پر ہےاس دلیل کی صداقت کا ثبو ت یہ ہے کہ قرآن کی جن جن آیا ت میںمصنف کا ذاتی نام(اﷲ)آیا ہے ان آیا ت کے نمبرو ں کو جمع کریں تو مجمو عہ118124آتا ہے اگر اس مجمو عہ کو19 پر تقسیم کریں تومصنّف کے ذاتی نام (اﷲ)کی طرح ایک ہی باقی بچتا ہے:اس سے مصنف انسان کو یہ باورکر وا رہاہے کہ لفظ(اﷲ)کی تعدا دمیں سے ایک با قی بچ جا نا محض اتفا ق نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مافوق الفطرت ذہن کار فرما ہے اور یہ مصنّف کے منصوبے کا حصہ ہے ۔
نوٹ! قرآن پاک میں ان الفاظ کی گنتی کرنے کے سلسلہ میں صرف دو تسمیہ کو شامل کیا گیا جن کو آیات کا نمبر دیا گیا ہے: پہلی سورۃ فاتحہ والی بسم اللہ اور دوسری سورۃ توبہ کی آئت نمبر 30والی تسمیہ : جس تسمیہ کو آیت کا نمبر نہیں دیا گیا ان کو گنتی میں شامل نہیں کیا گیا:
[114] سورتوں کیلئے [114] مہریں:
میرا متشکک دوست پھر سوال کریگا کہ اگر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اللہ کی واحدانیّت مہر ہے توپھریہ مہر ہر سورۃ پر ہو نی چاہیے تھی: سورۃ نمبر 9 پر سے یہ مہر کیو ں غائب ہے ؟ کیا یہ سورۃ اﷲ کی طر ف سے نا زل کر دہ نہیں؟
معقول سوال ہے: مگر یہ مسئلہ کیسے پیدا ہو ا ؟ آپ جانتے ہیں کہ اس سورۃ کا نام(سورۃ توبہ)ہے اور یہ سورۃ مشرکوں کوالٹی میٹم ہے: جنہو ں نے مسلمانو ں سے حلفاً کیا ہوا معاہد ہ ابھی ابھی توڑا ہےاس سورۃ کی پہلی آیت پر غور کریں ۔
بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (التوبۃ:1)
’’ بیزاری کا حکم سناتا ہے اﷲاوراسکے رسول کی طر ف سے مشرکوں میں سے جن سے تمہارا معایدہ تھا۔‘‘
آیت نمبر3 کے آخر میں اﷲتعالیٰ فرما تے ہیں۔

وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (التوبۃ:3)

 ’’اور کافروں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔‘‘
جب پرورگار اتنی سخت تنبیہ کر تا ہے تو پھر مناسب معلوم نہیں ہو تا کہ اس سورۃ کا آغاز اﷲ کی مہر بانی اور اسکے رحم کے حصول کی خوبصورت اور نیک حال دعا سے ہو:انسانی تعلقات میں بھی یہ عام طریقہ ہے کہ جب کوئی فریق یکطرفہ طور پر کوئی عہد یا معاہدہ توڑتا ہے تو دوسرا فریق جس کو نقصان پہنچا ہو الٹی مٹیم دیتے ہوئے اتنی نفاستوں کا خیال نہیں رکھےگا کوئی اسطر ح ابتداء نہیں کر تا کہ  ’’میں بہت رحمدل۔عالی ظرف اورخدا ترس انسان ہوں۔ اگر تم نے میرابٹوہ واپس نہ کیا۔۔ تو میںتمہاری گردن توڑ دونگا ‘‘ یہ ایک معقول اور منطقی توضیح ہے: رہا مسئلہ ایک مہر کم ہونے کاتو قرآ ن کا مصنف اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں تھا: دیکھیں وہ اپنا پیدا کیا ہوا مسئلہ کیسے حل کرتا ہے(سورۃ نمل)کی آیت نمبر29  , 30 دیکھیں۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ

’’ اس (بلقیس)نے کہا اے میرے وزیر و! میرے پاس ایک مقدس خط بھیجا گیا ہے۔‘‘

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

’’ وہ سلیمان  کی طر ف سے ہے :اور وہ ہے بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔‘‘
آگے خط کا مضمون بیان ہوا ہے:یہاں صرف تسمیہ کی تعداد پوری کرنا مقصود تھا جو پورا ہوچکا۔
مہروں کی تعداد اور (انیس )
اسطر ح ایک انتہائی دانشمند انہ جنش قلم کے سا تھ قرآن کامصنف اس سورۃ کے درمیان میں پو ری بسم اﷲ سمو کراپنا [114] مہرو ں کو پورا کر نے کاکام پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے اپنی 114 ویںمہر بھی لگا دیتا ہے : تا کہ قرآن کی ہر سورۃ کیلئے ایک ایک مہر برابر تقسیم ہو جانے کے سا تھ ساتھ مہرو ں کی تعداد بھی 19  پر قابل تقسیم ہو جائے: قرآن کی سورتوںکی تعدادکے برابرمہروں کو پو را کر نے کے سلسلے میں بھی علیم و بصیرمصنف نے19کے نظام کوکیسے قائم کیا : ملاحظہ کریں۔
{1}بغیر بسم اﷲ کےسورۃ تو بہ نمبر 9کو شما ر کر کے دوبا رہ بسم اﷲ والی سورۃ نمل کے نمبر27تک گنیں تو آپکو معلوم ہو گا کہ یہـ 19 ویںسورۃ ہے: جس میں دوبا رہ بسم اﷲ آئی ہے۔
{2}ان انیس سورتو ں کے نمبر وں کو جمع کر یں تو مجموعہ 342  آتا ہے جو 19 پر قابل تقسیم عدد ہے۔
{3}دو بار بسم اﷲ والی سورہ نمل کا نمبر 27 اور بسم اﷲ والی آیت کا نمبر 30 کا مجمو عہ 57 ( 19) پر قابل تقسیم ہے:
{4}پہلی(بسم اﷲ) اور دوسری(بسم اﷲ)  کے درمیان 342 الفاظ پھر سے 19پرپورا تقسیم ہوجاتے ہیں ۔
اے باشعور انسانوں تم کلی عجزو حیرت کے سا تھ اپنے مصنف کے سامنے اپنا سر کیسے نہیں جھکاؤ گے ؟جو قادر مطلق ، علیم و بصیر، کائنا ت کا واحد رب ہے :جو اپنی پہچان کروانے کیلئے ہمیں اپنی بے شما ر نشانیو ں سے نو از رہا ہے: جہاد کے تذکرہ کرنیوالی صورتوں کو قرآن میںسے نکال دینے کا مطالبہ کرنیوالے لوگ کتنے لاعلم ہیں:یہاں تو ایک لفط کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں:اگرایک لفظ کی کمی بیشی کر کر دی جائے تو یہ سارا نطام درہم برہم ہو جائیگا :یقینا اللہ نے اپنا وعدہ پو را کر دیا ۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّ لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo

’’ بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘

لَایَأَتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہَ

’’ یعنی (قرآن )میں باطل نہ آگے سے داخل ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔‘‘
غیر مسلم بہن بھائیو ں سے سوال ؟
معزز قارئین کرام! کیا ہزارو ں عالم و ادیب اور ریا ضی دان مل کر کمپیو ٹر اور کیلکو لیٹر جیسی جدید ترین سہولیا ت کے با وجو دکسی بھی زبان میں قرآن کی ہیئت ترکیبی کی طرز پرچند صفحات کی کہانی یا افسانہ لکھ کر دکھا سکتے ہیں؟جس کی کوئی آیت حتی کہ ایک لفظ بھی اتنے عظیم اور انتہائی دقیق ریا ضیا تی نظام کو قائم کر نے کی وجہ سے بے مقصد یا بے ربط نظر نہیں آتا :کیا ساڑھے چو دہ سو سال قبل صحرا کا ایک ناخواندہ شخص یہ حقائق اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتا تھا ؟ کیا ایک اُمّی شخص کیلئے ایسے بے لکھے الفاظ زبانی یا د رکھنا ممکن تھے جو اس نے کبھی دیکھے یا سنے بھی نہ ہو ں ؟ کیا پوری انسانیت لامحدود وقت کے ہوتے ہوئے بھی ایسا معجزہ سرانجام دے سکتی ہے؟چہ جائیکہ ایک امّی نبی پر اس کے مصنّف ہونے کا الزام دھرا جائے جس کی نبوت والی زندگی زبردست ہنگامی تھی :آپ ﷺ تاریخ کی مصروف ترین شخصیت تھے: آپ ﷺ کے مختلف النو ع کے کر داروں کی بابت عیسائی مصنف “لامارٹائن” کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’آپ ﷺ کے تاریک خیا ل ہم قوم آپ ﷺ کی اصلا حا ت کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے : مدینہ کے منافق ، یہو دی اور عیسائی آپ کو اور آپ ﷺ  کے دین کو ختم کر نے پر کمر بستہ تھے آپﷺ  کا کوئی ہا تھ بھی زرا سا خالی نہ تھا ۔‘‘
کیا محمد ﷺ کے پا س اب بھی ان اعداد و شما ر کی فرصت تھی ؟ یا یہ سب اتفا ق تھا ؟ یہ با ت بطو ر خا ص یا د رہے کہ آپ ﷺ اپنے کاتب وحی کو لکھواتے وقت وحی کے ذریعے اﷲ کے حکم کے تحت فرما تے کہ فلاں آیا ت کو فلا ں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد یا پہلے رکھ دو : پورے 23 سالہ دور نبوت میں ایک مرتبہ لکھوا نے کے بعد آپ ﷺ نے کبھی اپنے پہلے حکم کے برعکس ردّوبدل یا ترمیم نہیں کروائی تھی اگر ان تمام حقائق کے با وجو د بھی ابھی تک آپ کے دل و دما غ میں کوئی شک با قی ہے کہ قرآن محمدﷺ کی تصنیف ہے تو سنئے !  اگر آپ صاحب عقل و شعور ہیں تو انشاء اﷲ آپ کایہ شک بھی دور ہو جائیگا ۔
حروف مقطعات یا مصنّف کے مخفّف د ستخط
قرآن مجید فرقان حمید روئے زمین کی واحد کتا ب ہے جو اپنی کچھ سورتوں سے پہلے مخفّف دستخطوں جنہیں عربی میں حروف مقطعات کہتے ہیں کی حامل ہے: ان دستخطوں کا بظاہر کوئی مطلب نظر نہیں آتا : کسی مترجم میں ان حروف کے معانی بیان کر نے کی صلاحیت یا طاقت نہیں: کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے انکی وضاحت طلب کی نہ ہی آپ ﷺ نے انکی تشریح بیان فرمائی:گمان ہے کہ شاید اس زمانے میں ایسے الفاظ استعمال کر نے کا عام رواج تھا: اس لئے ترجمہ نہیں! صرف توضیح ،کہ آج ہم اﷲ کی مہر بانی سے ان کا مطلب سمجھ سکتے ہیں :  یہ حروف اﷲ کے کلا م کو ہر طرح کی افراط وتفریط سے محفو ظ رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں: ایسا نظام جوقائم کرنے میں انتہائی زبردست پیچیدہ مگر تصدیق کیلئے اتناسادہ اور آسان کہ جسے ایک بچہ بھی سمجھ سکتاہے: لیکن یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے قدیم اور جدید مفسرین اتنے واضح اور ناقابل تردید حقائق کو نہ جان سکے؟
جواب آسان ہے کہ ابھی وقت نہیں ہوا تھاتب مناسب موقعہ نہ تھا :
حروف مقطعات اور انیس کا نظام :
عربی حروف تہجی کے کل(28) حروف میں سے ٹھیک نصف یعنی[14]حروف[14] عدد مرکبات(الٓم: الٓمّٓص: یٰس) وغیرہ کی صورت میںقرآن کی29 سورتوں سے پہلے استعمال ہو ئے ہیں :
{1} اسطر ح حروف+[14 ]مرکبا ت +[14 ]سورتیں 29  کا مجمو عہ57بھی [19] پر تقسیم ہو تا ہے :
{2} ان14 مرکبا ت میں یہ14  مکرّرحروف38 مر تبہ دہرائے گئے ہیں : یعنی الٓمٓ=تین الٓمّٓص= چار یہ سات ہوئے :اس طرح پو رے چو دہ مرکبا ت کے حروف کا مجموعہ 38بنتاہے :جو [19]پر قابل تقسیم عدد ہے :
{3}ان مرکبا ت سے شروع ہو نے والی29 سورتوں کے نمبرو ں کا مجموعہ 14+[822]مرکبا ت: مجموعہ] 836  بھی انیس پر پورا پورا تقسیم ہو جانے والا عدد ہے :
{4} پہلی مرکبا تی2 -سورۃالبقرہ اور آخری سورۃ 68القلم کے درمیان غیر مرکبا تی سورتوں کی تعداد38 ہے جو پھرسے  [19] پر قابل تقسیم ہیں:
یا د رہے ! ہم یہا ں خالصتاً طبعی حقائق کے سا تھ با ت کر رہے ہیں جنہیں دیکھنے اور گننے کی صلاحیت رکھنے والا ہر شخص پرکھ سکتا ہے : وہ ذاتی طو ر پر اس معجزہ کی تصدیق یاجانچ پڑتال کر سکتا ہے کہ مقدس قرآن کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب نہیں اور آپ کیلئے اس عظیم الشان حقیقت کو دیکھنے کیلئے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری نہیں : اور اس کا م کیلئے کسی قسم کے اندا زے، قیا س یا تصریح کی ضرورت بھی نہیں :
مصنّف اپنی انگلیوں کے نشان چھوڑتا ہے:
آگے چلنے سے پہلے آپ کی توجّہ ایک اہم نقطے کی طرف کروانا چاہتا ہو ں : مندرجہ بالا سورتوں میںآل عمران آیت نمبر [96]میں مقّدس شہر مکہ کا نام(میم)کی بجائے(ب)کے(بِبکّۃ)لکھا گیا ہے:جو اس صورت میں(میم )کی تعداد کو موثر طور پر کنٹرول کرتا ہے:یہاں مصنّف قاری کو یہ باور کروا رہا ہے کہ حروف کی یہ تعداد اتفاقی نہیں ہے بلکہ یہ مصفنّف کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے  اگریہاں مکہ(میم )سے لکھا جاتا تو(میم)کی تعداد  19 پر پوری تقسیم نہ ہوتی:ہمارے پاس ایک(میم ) فالتو بچ جاتااور ریاضی کا یہ عجوبہ غلط ہو جاتا: اس کے علاوہ بائبل میںبھی مکہ کی بجائے بکاکا لفظ آیا ہے: اسلئے اہل کتاب اسے کوئی اور شہر نہ سمجھ لیں:
[40]مومن [41] حٰم سجدہ [43] شوری [43] زخرف [44] د خان[45]  جاشیہ  [46] احقاف
ان سا ت سورتوں میں(حٰم ) دونو ں حروف کی تعداد : 2147/19 = 113  بھی انیس پر پورا پورا تقسیم ہو جاتی ہے:
سورہ ( شوریٰ)میں تین حروف عسق[زائد ہیں: اس سورہ میں انکی تعداد 209/19  = 11   بھی [19( پر قابلِ تقسیم ہے:
(سورۃ مریم) کے شروع میں (کھیعص)پانچ حرفی دستخط ہیں : اس سورۃ میں ان پانچ حروف کی تعداد درج ذیل ہے:
(ک137- +) (ھ +)175- (ی+ )343- (ع+ )117- (ص 798/19 =)26- = 42
(سورۃمریم) میں ان پانچوں حروف مقطعات کا مجموعہ بھی 19پر پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے:
(سورۃ الاعراف) کے سر پر (المص) کے دستخط ہیں : اس سورۃ میں ان چاروں حروف کی تعداد 5320/19 = 280 بھی انیس پر تقسیم ہونے والا عدد ہے : اسی طرح (سورۃ الرعد) پر (ا لمر) کے دستخط ہیں اور اس سورت میں ان حروف کی تعداد 1482/10 = 78 بھی) 19(کے ہندسے پر پوری پوری تقسیم ہو جانے والی ہے :
(سورۃ یونس) اور( سورۃ ھود )کے شروع میں (الر) دستخط ہیں: ان سورتوں میں ان کے واقعہ ہونے کی تعداد بھی برابر ہے یعنی ہر حرف 2489/19 = 131 (19)پر پوری پوری تقسیم ہو جانے والی ہے:
(سورۃ یوسف)(سورۃابرھیم )اور(سورۃالحجر)پر بھی (الر) کے دستخط ہیں ان تینوں سورتوں میں ان تیں حرفوں کی تعدادبالترتیب2375/19 = 125، 1197/19 = 63 اور 912/19 = 48ہر حرف کی تعدا د)19(پر قابلِ تقسیم ہے:
(سورۃ مریم) میں(ھـ)اور (سورۃطٰہٰ) کے شروع میں(طٰہ)  (سورۃ الشعراء)  پر(طسم)  (سورۃ نمل) پر(طٰس)
(سورۃ ا لقصص) پر(طسم)کے دستخط ہیں : ان پانچ سورتوں کے اندر ان حروف کا ایک مربوط تعلق ہے: ان سورتوں میں ان حروف کی تعداد1767/19 = 93 بھی)19( پر قابلِ تقسیم ہے :
(سورۃ  ق) میں اور(سورۃ شورٰی) میں(ق) مشترک ہے:ان دونوں سورتوں میں(ق)کی تعداد با لترتیب 57 ،57بار آئی ہے: (سورۃ ق)کی پہلی آیت (ق:وَالْقُرْآن الْمَجِیْد) ہے جس میں(ق)قرآن کیلئے آیا ہے: یعنی(ق)کا قرآن سے وہی رشتہ ہے جو (الف) کا( انار) سے ہے : لہٰذا قرآن کو سورتوں کی تعداد کے مطابق(ق)بھی ( )114مرتبہ آیا ہے: جس کی تعدا دبھی انیس پر قابلِ تقسیم ہے:  مصنّف یہ بتانا چاہتاہے کہ( )114سورتیں سب کی سب قرآن ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں:لہٰذا قرآن کی صورتوںمیں کمی پیشی تو بہت ہی بعیدہے اسکے الفاظ ہی نہیں بلکہ نہ کوئی حرف داخل کی جاسکتا ہے اورنہ نکالاجاسکتا ہے نہ یہ کسی انسان کے اختیار میں ہے : کیونکہ اس کا محافظ کا ذمّہ خود اسکا مصنّف ہے:
قرآن کے حقیقی مصنّف کی انگلیوں کے نشان:
یہاں آپ کی توجہ ایک اور دلچسپ امر کی طرف کروانا چاہتاہو ں : جہاں مصنّف نے اپنی انگلیوں کے نقش نشانی کے طور پر چھوڑے ہیں : (سورۃ ق )کی آیت 13 (وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوْطٍ) میں دیکھیں یہاں( قوم لوط )ہونا چاہئے کیونکہ مصنّف اس مکروہ قوم کو قرآن میں اسی اسم صفت قوم کے ساتھ ایک درجن مرتبہ دہرایا ہے:پھر یہاں قوم کی بجائے (اخوان) (بھائی)کیوں استعمال کیا گیاہے؟ مطلب واضح ہے کہ اگر یہاں بھی قوم کا لفظ ہوتا تو ہمارے پاس ایک(ق)فالتو بچ جاتا اور(ق)کی تعداد بھی انیس پر ِ تقسیم نہیں ہوسکتی تھی:مصنّف نے قاری کو باور کروانے کے لئے اپنی عام روش سے ہٹ گیا تاکہ قاری اس عمیق نظام کو محض اتفاق کا نام نہ دے سکے :
( سورۃ ن و ا لقلم)   میں  133  (ن)ہیںاور یہ تعدادبھی 133/19 =7 (19) پر پورا پورا تقسیم ہونے والی ہے۔
(سورۃ یٰسین) میں (ی) 237  +  (س) 48 کا مجموعہ 286/19 = 15  دونوں حروف کا مجموعہ بھی)19 (پرقابل تقسیم ہے:
(سورۃ ص)(سورۃمریم)(سورۃ الاعراف) میں (ص)  مشترک ہے : ان تینو ںسورتو ں میں(ص) کی تعداد بالترتیب 97،26 اور 29ہے جن کس مجموعہ /19  152 = 8ہے جو 19پر قابل تقسیم ہے :
ایک بار پھر مصنّف کا عملِ احساس:
(سورۃ اعراف) کی آیت69کے آخر میں (وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً)ملاحظہ فرمائیں:یہاں (سورۃآل عمران)کی آیت247میں(بَسْطَةً)کو (س)کی بجائے(ص)سے لکھا گیا ہے : جس کے اوپر ایک چھوٹا سا سین بھی لکھا ہوا ہے تاکہ پتہ چلے کہ اگرچہ(ص)سے لکھا گیا ہے لیکن ہمیں اسے (س) سے ہی پڑھنا ہے: لاکھوں عربوں کی زبان اور ان گنت لہجوں میں کہیں بھی لفظ(بَسْطَةً) (ص) سے لکھا ہوا نہیں ملتا: یہ لفظ (ص)سے لکھا جائے یا(س) سے اسکے معنی میں فرق نہیں پڑتا :ایک روایت ہے کہ جب ہمارے پیارے نبی ﷺ مندرجہ بالا آیت لکھوا رہے تھے تو اپنے کاتبِ وحی سے فرمایا !جبریل کہہ رہے ہیں کہ اس لفظ کو(س) کی بجائے(ص)سے لکھیں:
سوال یہ ہے کہ یہاں پر(س)کی بجائے یہ لفظ (ص) سے کیوں لکھا گیاجبکہ اسے ہمیں پڑھنا (س)سے ہی ہے؟
صاف ظاہر ہے کہ اگر اسے (س) سے لکھا جاتا تو ہمارے پاس ایک(ص)کم ہو جاتا اور اس کی تعداد 19ناقابلِ تقسیم ہو جاتی اورانیس کی یہ دقیق نظام درہم برہم ہو جاتا:
آخر(19)ہی کیوں؟ ؟؟ :
ایک سوال ذہن میں آنا فطری بات ہے کہ آخر میرے مصنّف نے 19 ہی کا ہندسہ کیوں چنا؟ 18یا 20 کیوں نہیں؟ میرے دل میں بھی یہ خلش موجود تھی کہ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ؟ کیا 19 استعمال میں آسان ہندسہ ہے؟ ٰاس سوال کی تلاش میں طویل عرصہ لگا جیسا کہ

لَیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلّامَاسَعَی

’’یعنی اگر انسان کسی کام کے لائق کوشش کرتا ہے اسے پالیتا ہے ۔‘‘کے مصداق انتہائی مایوسی کی حالت میں کافی دن گزر گئے :کئی دنوں بعداللہ تعالیٰ نے راستہ دکھایااور 19کا ایک دھندلا سا ڈھانچہ ذہن میں آیا : غور کرتا گیا تو رفتہ رفتہ ایک خوبصورت تصویر نظروں کے سامنے واضح ہوتی گئی : تصویر مکمل ہوئی تو19کوایک لاثانی ہندسہ پایا اوراسطرح قلبی اطمنان ملا جیسے ابراہیم کو پرندے زندہ ہوتے دیکھ کر ہواتھا: عدد انیس میں جو خوبیاں اور انفرادیت ہے وہ کسی اور ہندے کے مقدّر میں نہیں پائی جاتیں؛ لیجئے ! آپ بھی وہ تصویر ملاحظہ فرمائیں :
{1} انیس کے قریبی ہندسے18یا20قابل تقسیم ہندسے ہیں ہر ہندسہ بالترتیب چار ، پانچ اعداد پر تقسیم ہوتا ہے : مگر 19ناقابل تقسیم ہندسہ اور استعمال میں بہت مشکل ہے :  اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح مصنّف کا استعمال کردہ ہندسہ ناقابل تقسیم ہے اسی طرح اس کی اپنی ذات بھی ناقابل تقسیم ہے :اللہ تعالیٰ کی ذات تثلیت میں کا ایک نہیں : وہ احدالصمّد ہے:
{2}19کے اعداد1اور9کو جمع کریں 1+9=10 تو مجموعہ 10آتا ہے اور10کے اعداد1+0کامجموعہ
1ہے: یعنی19کے عدد میں اللہ واحدانیت پوشیدہ ہے دوسرے الفاظ میں19خالق کائنات کی واحدانیت کی علامت ہے:
{3}اسی طرح10+9کا مجموعہ19بنتا ہے لیکن اگر10-9کی طاقت 2کردی جائے مثلاً: 100-18=19  توبھی
جواب 19ہی آتا ہے: جس طرف دیکھو ، جہاں جاؤ ہر جگہ اللہ ہی کی ذات موجود ہے:
{4}19 ہمارے ریاضی کے نظام کا اوّل وآخر ہیں : اسی طرح انیس کوقرآن میں بنیادی ہندسے کے طور پر استعمال کرنے والی ذات (ھُو الْاوَّلُ وَآخِرُ)”وہی ذات اوّل و آخر ہے” جسطرح1 سے پہلے کچھ نہیں : اسی طرح (ھُو الْاوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَكَ شَیْء)”وہ سب سے پہلے ہے اس سے پہلے کچھ نہیں”اسی طرح9کے بعد کوئی عدد نہیں:جیسا کہ فرمایا گیا ہے (ھُو الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْء)” وہی سب سے آخر ہے اس کے بعد کچھ نہیں” اگر یہ خصوصیات کسی اور ہندسے میں ہیں تو بتائیے؟

 اعجاز قرآن کا ایک اور پہلو:

قرآن خالق کا حتمی معجز ہ ہے : اس میں ایک توازن اور ایک عدد ی موضوعاتی مماثلت پائی جا تی ہے:
حتیٰ کہ ترتیب تنافس اور مرابط میں بھی ہم آہنگی ہے: قرآن کے اعجا ز کا ایک یہ پہلو بھی ہے: مندرجہ ذیل الفاظ پر غور کریں:
{1}یہ الفاظ اپنے مقابل کے الفاظ کے عین مطابق وارد ہوئے ہیں : اتنی بڑی کتا ب میں الفاظ کے جوڑوں کا یہ اعجا ز قائم رکھنا ایک بہت غیر معمولی ہے : جو کسی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں :
دنیا : 115          آخرت : 115
نفع: 50           فساد : 50
شیاطین: 88        ملائکہ: 88
اجر:108            فصل:108
موت :145      حیات :145
کفر : 25                   ایمان:25
قرآن کے حیران کن اتفاقات :
{1}قرآن کریم (سورۃالکہف )میں ذکر ہے کہ وہ تین سو سال سوئے اس میں نو جمع کر دیں اس لطیف فرق کی تفصیل آپ جانیں گے تو حیران ہو نگے کہ۔
300  شمسی سال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2422 ء    300×365  66= ء 109572 ۔۔۔۔۔۔۔دن
309 قمری سال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔550329 ء  309x12x29 66= ء  109572 ۔۔۔۔دن
یعنی خداوند کریم نے صرف ایک آیت کریمہ میں انسان کو شمسی اور قمری سال کی نسبت 1435 سال پہلے بتادی گئی:
{2}(سورۃ انشقاق)کا نمبر( 84 )ہےاور انشقاق کا معنی  (پھٹنا)ہیںآپ حیران ہو نگے کہ پلو نیم (Poloniym)  کا عنصر نمبر بھی ( 84 )ہے اور یہ عنصر پھٹنے پر بے شما ر انر جی پیدا کر تا ہے :
{3}(سورۃ الحد ید)کا قرآنی ترتیب میں نمبر57ہے : (حدید)لو ہے کو کہتے ہیں ; لوہے کا    Isotop (Stable  بھی 57ہے :
{4}اسی طر ح قرآن میں زمین کا ذکر 13مر تبہ اور سمند ر کا ذکر32 مر تبہ ہوا ہے : زمین پر پا نی اور خشکی کا تناسب کسی خوب صورت اندا ز میں ظاہر کیا گیا ہے :
زمین:45 / 100 x 13   888888 ء 28  (خشکی)
پا نی: 45 / 100 x 32 111111 ء  71    (سمندر)
کو ن نہیںجانتا ہے ہے کہ زمین پر خشکی اور سمند ر کا تنا سب  71:29 ہے :
{5}قرآن مجید میں لفظ انسان65  با ر آیا ہے: آئیے دیکھیں!  قرآن مجید میںاس سے متعلقہ اشیا ء کا ذکر کتنی مر تبہ ہوا  :
مٹی:نطفے کا قطرہ،غیر مکمل حالت میں بچہ
گوشت کا لوتھڑا ، ہڈی،گوشت
17 + 12+6  +3+15 +12     65=
یعنی بالکل5 با ر ہی مکمل انسان کا ذکر ہے : کیا یہ سب اتفاقات ہیں یا ان کے پیچھے ایک فوق الفطر ت ہستی کا ر فرما ہے:
قرآن کے منجانب اللہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتاہے کہ کوئی نہ صرف فرد واحد بلکہ پوری دنیا کے مفکّرین ، مصنّفین ، ادیب اور ریاضی دان مل کر بھی دورِحاضر کی کیلکولیٹر اور کمپیوٹر جیسی سہولیات کے باوجود اپنی ہی زبان میں اس جیسی حسابی ترتیب والی چند صفحات کی کہانی نہیں لکھ سکتے : حالانکہ اس کے معنی اور مطالب کے اعتبار سے بھی بے شمار شواہد ہیں جو اس کو اللہ تعالیٰ کی کتاب ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں:  اور جن سے کوئی ذی ہوش انسان انکار کی جرأت نہیں کر سکتا :

قرآن کے برعکس بائبل کی حالت:

قرآن کے برعکس بائبل کا یہ حال ہے کہ نہ صرف سامری ، یونانی اور عبرانی نسخے ایک دوسرے سے مختلف ہیں: ہر سوسائٹی کی بائبل دوسری سے مختلف ہے : ہر سوسائٹی کا دوسرا ایڈیشن پہلے سے مختلف ہے اورہر بائبل اپنے ہی اندر بے شمار تضادات رکھتی ہے:  اس کے علاوہ ہر ایڈیشن میں عہد عتیق کے آپس کے اختلافات کے بعد عہد جدید کے عہد عتیق سے تعداد اختلافات موجود ہیں :  ہر انجیل نہ صرف دوسری انجیل کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے بلکہ بعض حالات میں اپنی بھی نفی کرتی پائی جاتی ہے:  جس کے راقم کے پاس سینکڑوں ثبوت موجود ہیں : مگر یہاں صرف اناجیل کی ان آیات کی نشاندہی کی جاتی ہے جو بعض نسخوں میںتوہیں اور بعض میں موجود نہیں :جن کا اعتراف انگریزی ترجمے ’’دی گڈ نیوز ‘‘کے حاشئے پر بھی کیا گیا ہے:
انجیل متّی:
باب12آیت47، باب17آیت20، باب18آیت11، باب21آیت44، باب23آیت14
انجیل مرقس:
باب7آیت 16،باب9کی آیت 44اور آیت 46،باب11آیت 68، باب15آیت نمبر28
مذکورہ بالا آیات بعض تراجم میں تو پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں: اسی طرح ؛
انجیل لوقا:
باب22آیت20، باب23آیت 17، باب23آیت34، باب24آیت 12،
انجیل یوحنّا:
باب5آیت 4، باب8کی ایک سے لے کر 11 تک پوری گیارہ آیات بعض تراجم میں موجود نہیں:
بائبل کے ہزاروں تضادات ، اغلات روزِ روشن کی طرح بائبل میں کئی گئی تحریف کی نشاندہی کر رہے ہیں:
شیخ احمد دیداتؒنے برطانیہ میں50000 Errors in the Bibleکے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا :عیسائی علماء کی طرف سے جواب کی بجائے مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے : اہل علم و دانش عیسائی بھائیوں سے التماس ہے کہ وہ خود تحقیق کرکے حق کی تلاش کی کوشش کریں :تاکہ آتش ِ جہنّم سے بچ سکیں: یہ خدائی قانون ہے کہ جو شخص خود کوشش نہیں کرتا اسے عطا نہیں کیا جاتا:
عیسائی مصنّفین ، مفکّرین اور سیاستدانوں کا قرآن ا ور صاحب قرآن کی صداقت کا اعتراف
{1}شاہ فرانس نپولین کا خراج عقیدت:
وہ دن دور نہیں جب میں دنیا کے صاحبان ِ علم و دانش کو متحد کر کے ایک ایسا دور قائم کر دونگا جو یک رنگ و ہم آہنگ ہو اور اصول ِقرآن اس کی بنیاد ہو نہ کہ بائبل : کیونکہ وہ آج کے دَور کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
{2}مسٹر آر،وی ،سی بوڈلے:ہمارے پاس معاصرانہ کتاب ہے جو کہ اپنی حقیقت اور اپنی حفاظت کی وجہ سے بالکل منفرد ہے :اور جسکی سچائی پر کسی کو بھی سنجیدگی سے شک کرنے کی ہمت نہیں: کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے آج بھی اسی صورت میں دستیاب ہے جیسے جب یہ حضرت محمد ﷺ کی نگرانی میں لکھی گئی تھی۔
{3}تاریخ دان ایچ ۔ ڈی جیکسن:کوئی مقدّس کتاب قرآن کا کسی طور پر بھی مقابلہ نہیں کر سکتی :  انقلابی انداز میں لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا اعجاز کسی دوسری کتاب کے پاس نہیں۔
{4}ریونڈآر ۔بکسوئل کنگ:
کہا جاتا ہے کہ قرآن محمد ﷺ کی تصنیف ہے اور سب تورات اورانجیل سے لیا گیا ہے : مگر میر ا ایمان ہے کہ اگر الہامی دنیا میں الہام کوئی شئے ہے اور الہام کا وجود مکمل ہے تو قرآن مجید ضرورالہامی کتاب ہے:بلحاظ اصولِ اسلام مسلمانوں کو عیسائیوں پر فوقیت حاصل ہے۔
{5}موسیوں گاسٹن کار:اسلام حقیقت میں ایک طرح کا اجتماعی مذہب ہے اس عاقلانہ مذہب کے قوانین بڑے جدید اور حقیقت پسندانہ ہیں۔
مصنف یہاں خود ہی سوال کرتا ہے کہ روئے زمین پر روئے زمین سے اگر اسلام مٹ گیا ،مسلمان نیست ونابود ہوگئے ، قرآن کی حکومت جاتی رہی تو کیا دنیامیں امن قائم رہ سکے گا ؟پھرخود ہی جواب دیتا ہے کہ ہرگز نہیں۔
{6}جان جان ولیک:تھوڑ ی عربی جاننے والے قرآن کا تمسخر اُڑاتے ہیں؛ اگر وہ خوش نصیبی سے کبھی حضرت محمدﷺ کی معجزہ نما قوّتِ بیان سے تشریح سنتے تو یقینا یہ لوگ بے ساختہ سجدہ میں گر پڑتے اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے یہ نکلتی کہ پیارے نبی ،پیارے رسول ﷺ خُدارا ہمار ا ہاتھ پکڑلیجئے اور ہمیںاپنے پیرؤوں میں شامل کر کے عزت اور شرف دینے میں دریغ نہ فرمایئے۔
{7}کونٹ ہنری دی کاسٹری:عقل بالکل حیر ت زدہ ہے کہ اس قسم کا کلام اس شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہو سکتا ہے جو بالکل کم پڑھالکھا ہے :حضرت محمد ﷺقرآن کو اپنی رسالت  کی دلیل کے طور پر لائے :جو تاحال ایک ایساعظیم راز چلا آتا ہے کہ اس طلسم کو توڑنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔
ٓ{8}ایڈیٹر ’’لائف انٹر نیشنل ‘نیویارک:اسلام کے داعی حضرت محمدﷺ نہ تو مسیحا تھے اورنہ ہی فقط نجات دہندہ بلکہ ایک ایسے انسان تھے جنہیں خُدا نے اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کیلئے ایک زریعہ کی حیثیت سے منتخب کیاتھا۔
{9}برناڈشا: آنے والے سوسال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا :مگر یہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہوگا بلکہ وہ اسلام ہوگا جو محمد الرسول اللہ ﷺ کے زمانے میںد ل و دماغ  اور روحوں میں جاگزیں تھا۔
{10} باسورتھ اسمتھ: مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن سچی عیسائیت کو بھی سرجھکا نا پڑیگا اور انہیں (حضرت محمدﷺ)کو سچا پیغمبر تسلیم کرنا پڑے۔
{11}ڈاکٹر ڈاڈسن:پہلے سوالیہ انداز میں لکھا حضرت محمد ﷺ پیغمبر تھے ؟ ۔۔پھر خود ہی جواب دیتا ہے بے شک وہ اللہ کے سچے پیغمبر تھے۔
{12}ریورنڈ آر میکوئیل :اگر حضرت محمدﷺ کی تعلیم پر انصاف و ایمانداری سے تنقیدی نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ وہ سچے نبی اور اللہ کی طرفسے انسانوں کی بھلائی کیلئے بھیجے گئے تھے۔
{13}ایڈ منڈیرک:حضرت محمد ﷺ کالایا ہوا قانوں(قرآن)صاحب تاج بادشاہوں کیلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا غریب سے غریب بے سہارا انسانوں کیلئے اس کی ضرورت واہمیت ہے۔
{14}جوزف جے نوتن:حضرت محمدﷺ کالایا ہوا مذہب مطلق العناروس کیلئے بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا جمہوریت پسند امریکہ کیلئے وہ مناسب ومفید ہے : اسلام ایک عالمگیر حکومت کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
{15}کانڈی ہسٹری:حضرت محمد ﷺ اپنی تعلیم کی سچائی سے اپنے مقصد میں ہمیشہ کامیاب رہے۔
{16}جے ڈبلیو لوگراف: اسلام ایک ایسا فطری اور سادہ مذہب ہے جو اوہام وخرافات سے پاک ہے : قرآن نے اس مذہب کی تفصیل پیش کی اور حضرت محمدﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا ۔ قول وعمل کا یہ حسیں امتزاج کہیںاور نظر نہیں آتا۔
{17}جان ڈیون پورٹ:
میں سوال کرتاہوں کہ کیا یہ خیال کرنا بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی ذات جس نے ایسے ملک کو وحدانیت کی تعلیم دیکر اصلاح کی ہو جو صدیوں سے بت پرستی کی ہولناک حماقت میں مبتلا رہاہو: جس نے بچیوں کو قتل کر ڈالنے کی رسم بد کو مٹایا ہو :کیا ایسی ذات جو اِن اصلاحات کیلئے انتہائی کوشاں رہی ہو ؛مکّار اور دھوکہ باز (نعوذباللہ) خیال کی جاسکتی ہے؟نہیں ہر گزنہیں: حضرت محمد ﷺ میں سوائے سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے جوش کے اور کچھ نہ تھا(پھرتعجب کرتا ہے کہ)  پھر آخر لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہ سچائی اورحقانیت کی تعلیم کیلئے بھیجے گئے تھے۔
عیسائیو!بہن بھائیوں کو دعوت غور:
عیسائی بہن بھائیو! آپ لوگ اہل کتاب اور دنیاکی باقی قوموں کی نسبت اسلام کے سب سے زیادہ قریب ہو:بائبل کے مذکورہ بالا حوالے صرف وہ نقل کئے ہیں جن کا بائبل نے خود اقرار کیاہے: اگربائبل کے تضادات واغلات جاننا ہیں تو ہزاروں کی نشاندہ یہ ناچیز کرواسکتا ہے:یہ نشاندہی محض دعوت فکر کی کی گئی ہے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان بائبل کے تقدس اور سچائی سے انکار کرکے مسلمان نہیںرہ سکتا:مگر حقائق توحقائق ہوا کرتے ہیںان کی موجودگی میں آپ ان کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں؟ قرآن کے معجزہ ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی ہے ؟کیا اس سائنسی اور علمی ترقی نے بھی بائبل کی کمزریوں اور قرآن کی حقانیت کو ثابت نہیں کردیا؟ کیا اس علمی عروج کے دور میں بھی آپ حق سے آنکھیں بند کئے رکھیں گے؟ کیا حق کو جاننے کے اسے قبول کرنے کا وقت نہیں آیا؟خدارا غور کیجئے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے:
قرآن نے فرمایا:

لَیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلّامَاسَعَی

’’انسان کیلئے کچھ نہیں مگر جتنی اس نے کوشش کی۔‘‘
یہی تاکید عیسٰی علیہ السلام نے بھی فرمایاگئے ۔
مانگو تو تم کو دیا جائیگا ۔۔ڈھونڈو تو پائو گے۔۔۔دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولا جائیگا۔۔کیونکہ جو کوئی مانگتاہے اسے ملتاہے۔
جو ڈھونڈتاہے وہ پاتاہےاور جو کھٹکھٹاتا ہے اسی کے واسطے کھولا جائیگا”  (ا نجیل متّی6/7)
کیمونسٹ برادری کو دعوت فکر؟
کیا اتنا کامل نظام محض اتفاق سے وجود میں آ گیاہے؟  کیاکوئی انسان یہ کارنامہ سرانجام دے سکتا تھا؟کیا قرآن کے حقیقی مصنّف نے پوری انسانیّت کو اس جیسی کتاب لانے کا چیلنج نہیں کیا ہے؟ کیا انسانی تاریخ میں کوئی انسان اسطرح کا چیلنج دے سکایا دے سکتا ہے؟ اگراسی طرز کی چند صفحات کی کہانی ہی لکھ کر دکھاسکتے ہو تو بے شک قرآن کو پیغمبر ِالسلام ﷺکی تصنیف اور خدا کے وجود سے انکار کرتے رہو:اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے جیسا کہ قرآن کے حقیقی مصنّف نے چیلنج کے ساتھ ہی پوری انسانیت کی ناکامی کا اعلان کر دیاہے جس کی صداقت کیلئے کہ کم ہے کہ قرآن کے کروڑوںمخالفین اس کی مثل نہیں لاسکے : تو یاد رکھو ایک قادر مطلق ہستی کاوجود ہے جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیکر چیلنج کیا اس کے وجود کو تسلیم کر جہنّم سے بچ جاؤ:سوچو اگر تم سچے ہو کہ سب کچھ اتفاقی ہے:مرنے کے بعد سب کچھ مٹی میںمل جائیگاتو مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا : لیکن اگر مسلمان سچے ہوئے جو بیشک سچے ہیں تو سوچو تمہار کیا بنے گاـ؟ یادرکھنا دنیا کی آگ جہنّم کی آگ کو ستّر بار ٹھنڈی کر خالق نے بھیجا:اس کے بغیر تم زند ہ نہیں رہ سکتے:جب یہ برداشت نہیں کر سکتے تو دوزخ کی آگ سے ڈر جاؤ :قادر مطلق ہستی جس نے کروڑوں انسانوں کے انگوٹھے کے نشان کو نہیںملنے دیا اس کے وجود کو تسلیم کر اس کے آخری نبی پر ایمان لے آؤ:ورنہ بہت دیر ہو جائیگی
ہندو،سکھ ،بدھ اور کودعوت غور:
دنیا کے تما م مفکر ، سائنسدان ، ریاضی دان ، ادیب و مصنّف مل کر بھی کمپیوٹر اور کیکولیڑ جیسی سہولیات کے باوجود بھی اپنی زبان میں ہی سہی، چند صفحات ہی سہی ، اپنی آب بیتی ہی سہی لکھ کر نہیں دکھا سکتے :جس کے عنوان کے 19 حروف ہوںاور چار الفاظ :ان کی اپنی تحریر میں ان چار الفاظ کی تعداد قرآن کی طرح19پر پوری پوری تقسیم ہوجائے:ایک باریا دو بار کی بھی کوئی قید نہیں: ایک ایک بار ہو یا زیادہ:اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر قرآن کو نازل کرنے والی ذات کے بھیجے ہوئے اُمّی رسول ﷺ کی صداقت کو تسلیم کر ایما ن لے آؤ : ورنہ یارکھو جو ذات اتنا دقیق نظام قائم کر کے اپنے پیغمبر ﷺ کی صداقت کو ثابت کر سکتی ہے : اسکی دی ہوئی جہنّم کی خبر بھی اس کے قرآن رسول ﷺ کی طرح سچی ہے: ایسانہ ہوکہ بہت دیر ہوجائے۔
جو کہتے ہیں کہ قرآن نامکمل ا ور اسکی ترتیب انسانی ہے! سے سوال؟
قرآن نامکمل ہے یا اس کو ترتیب صحابہ کرام نے خود دیا ہے اس کے رسول اللہ ﷺ اوروحی کا کوئی تعلق نہیں : جیساکہ بعض لوگوں کااعتقاد ہے :اگر یہ سب کچھ جو قرآن کے متعلق آپ جان چکے ہیں اگریہ کارنامہ کسی انسان کے بس کی بات ہے تو آپ سچے ہیں:ورنہ یادرکھیں نامکمل قرآن میں اتنا عمیق نظام مکمل نہیں ہوسکتا: جو چند لوگ تو کیا پوری انسانیت بھی سرانجام نہیں دے سکتی : کیا یہ سب کچھ جان لینے کے بعد بھی کوئی باشعور انسان قرآن کے نامکمل ہونے پر یقین و اعتقاد رکھ سکتا ہے ؟

 تمام طبقۂ فکر کے مسلمانوں سے التاس:

ہم مسلمانوں کا حق و اسحقاق ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ توبو ںاورگولہ بارودکی بجائے ذہنی ہتھیا روںکے ساتھ جنگ کر یں ،عقلی طور پر اﷲتعالیٰ نے ہمیں بر تری عطا کی ہے :  اس نے ہمیں ایک ضابطہ حیا ت دیا ہے:ہمیں اسکی کسی شق کیلئے نادم نہیں ہو نا پڑتا : ہما رے پا س قرآن میں بنی نو ع انسان کے ہر مسئلے کا حل موجو د ہے:  اپنے حریف پر ثابت کریں کہ قرآن واقعی اﷲکا کلا م ہے :  اسکی معجزانہ ہیئت ترکیبی کی وضا حت کریں:  جو صرف ایک قادر مطلق علم و بصیر ذات ہی کا کار نامہ ہو سکتی ہے: ہما را فرض ہے کہ ایک ہا تھ میں قرآن اور دوسرے میں دلائل و براہین لے کر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں : آئیے!

اُد عُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بالحِکْمَۃِ

’’ اپنے رب کی راہ کی طر ف بلاؤ حکمت کے ساتھ۔‘‘
پالیسی کے تحت بنی نو ع انسان کے اذہان وقلوب کو مسخر کر نے کیلئے پیش قدمی کریں : عقل و دانش کابھی تقاضہ ہے کہ ہم غیر مسلموں سے ان کی ذہنی استعداد اور مشاہدات کے مطابق خطاب کریں : کرہ ارض کی مہذب اقوام سے اس زبان میں بات کریں جو وہ با آسانی سمجھ سکتی ہیں : قطعی سائنس اور زبان کی ریا ضی کی زبان میںانہیں قرآن کا ریا ضیا تی تالہ بندی عجو بہ دکھا ئیں جسکے ذریعے اس کے مصنف ا نے اپنی کتا ب انسانی دستبرد سے محفوظ بنائی ہے :  انہیںقرآن میںغورکرنے کی دعوت دیں:  اوراس طر ح مقابلہ کاچیلنج دیں جس طر ح خودمصنف نے دیا ہے :

 قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

آپﷺ فرمادیجئےتمام آدمی اور جن سب اس با ت پر متفق ہو جائیں کہ لے آئیں اس قرآن کی مانند تو اس مثل نہ لا سکیں گے : اگر ان میں ایک دوسرے کے مدد گا ر بھی بن جائیں۔

روداد تقریب تکمیل صحیح بخاری

دین اسلام باری تعالیٰ کی عظیم الشان نعمت ہے اس کی ترویج واشاعت میں مصروف عمل افراد بارگاہ الٰہی میں خصوصی مقام ومرتبہ کے حامل ہیں۔ مدارس اسلامیہ معاشرے کی اصلاح میں مقدور بھر کوششوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے نمایاں خدو خال نظر آرہے ہیں۔ مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعہ ہیں ہر دور میں معاشرے کی اصلاح و بہبود کے لیے ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے ۔مدارس اسلامیہ سے فراغت پانے والے علماءکرام عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے لیل و نہار مصروف عملہیں اس کرہ ارض پر کئی ممتاز جامعات موجود ہیں جن میں سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے جس کی شہرت دنیا کے اطراف واکناف پھیلی ہوئی ہے ۔
دینی مدارس تاریخ اسلام کے پہلے مدرسہ صفہ کی سدا بہار شاخیں ہیں جہاں تشنگان علم اپنے سینوں کو نور علم سے منور کرتے ہیں اور ان گئے گزرے حالات میں بھی اسلام کے یہ قلعے امت اسلامیہ کے سپوتوں کی تربیت منہج نبوت کے مطابق کرنے کے لیے دن رات مصروف عمل اور کوشاں ہیں اسی لیے اسلام دشمن عناصر ان مدارس کو اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ختم کرنا چاہتے ہیں ان جامعات کے خلاف سازشیں کرنے والوں کی مثال تو ان جاہلوں کی سی ہے جن کا نقشہ قرآن نے یوں کھینچا ہے ارشاد باری ہے:

يُرِيدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ (الصف: 8)

یہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ اس کو مکمل کر کے رہے گا چاہے کافر نا خوش ہی کیوں نہ ہوں۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ:
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
اور علامہ اقبال رحمہ اللہ کے الفاظ میں:
نہیں اقبال نا امید اپنی اس کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
انہی جامعات میں سے ایک جامعہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی بھی ہے کہ جس سے جاری ہونے والے چشموں کا پھیلاؤ دنیا بھر کے اکثر ممالک تک جا چکا ہے اور اس مادر علمی سے اپنی پیاس بجھانے والے اب اپنے اپنے ملکوں اور علاقوں میں مستقل چشموں کی صورت اختیار کرچکے ہیں اس پر ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور ساتھ ہی اس حدیث کے مطابق جس میں نبی آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ، لَمْ يَشْكُرِ اللهَ

جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔
اسی لیے ہم مشکور ہیں اس مادر علمی کے بانی و مؤسس محترم جناب پروفیسر محمد ظفراللہ رحمہ اللہ کے کہ جن کی سعی سے ان کا لگایا ہوا یہ پودا آج تناور درخت بن چکا ہے جس کی جڑ مضبوط اور شاخیں عالم میں پھیلی ہوئی ہیں اللہ ان کو جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے علاوہ ان اساتذہ کہ جن کی رات دن کی محنتوں سے اس چمن میں بہار آئی اور ان محسنین کے بھی مشکور ہیں جن کے تعاون سے اس کا نظام چل رہا ہے۔
ہر سال کی طرح امسال بھی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے فارغ التحصیل علماء کرام کے اعزاز میں تقریباً 33سال سے ’’الحفل الختامی ‘‘ تقریب کا اہتمام کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ 30 اپریل 2017ء بروز اتوارکو جامعہ میں منعقد ہونے والی عدیم النظر اور فقید المثال تقریب تکمیل صحیح بخاری بھی تھی۔
اس پروقار تقریب کا باقاعدہ آغاز بعد از نماز عصر ہوا اس تقریب کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

پہلی نشست نماز عصر کے بعد سے مغرب تک اور دوسری نشست مغرب کے بعد سے نماز عشاء تک جاری رہی۔
پہلی نشست کا آغازجامعہ کے وسیع وعریض صحن میں کیا گیا۔
اسٹیج کے فرائض حسب روایت فضیلۃ الشیخ الاستاذ محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ نے اپنے مخصوص انداز میں انجام دیئے۔ انہوں نے روایتی نرم گوئی اور شیریں بیانی سے پوری تقریب میں سماں باندھے رکھا۔ (کثر اللہ امثالہ)
تقریب کا آغاز جامعہ کے ہونہار طالبعلم صدیق الرحمن کی خوبصورت تلاوت سے ہوا تلاوت کلام پاک کے بعد معمر اقبال(مرکز اول ’ب‘) نے نظم پیش کی ،اس کے بعد کراچی شہر کے معروف خطیب فضیلۃ الشیخ قاری محمد ابراہیم جونا گڑھی حفظہ اللہ نے بعنوان’’توبہ واستغفار‘‘ لب کشائی کی ۔
گناہ ایک سنگین ومہلک ترین روحانی بیماری ہے، الله کی نافرمانی اورگناہ وہ مضر شے ہے جس سے انسان کے قلب میں زنگ لگ جاتا ہے اوردل سیاہ ہو جاتا ہے، لیکن اس کا بہترین علاج اور تریاق توبہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان خطا ونسیان کا پتلا ہے، غلطی اور گناہ کرنا اس کی فطر ت میں شاملہے، مگر بہترین گناہ گار وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے او راپنے کیے پر الله تعالیٰ سے رجوع کرے ، معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
توبہ کیا ہے ؟ دراصل تین چیزوں کے مجموعہ کا نام توبہ ہے، ایک یہ کہ جو گناہ سر زد ہو جائے اس پر دل سے ندامت وشرمندگی اور پشیمانی ہو ۔
دوسرے یہ کہ جو گناہ ہو اس کو فوراً چھوڑ دے۔
تیسرے یہ کہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم ( پکا ارادہ) ہو ، ان ہی تین چیزوں کے مکمل ہونے پر توبہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔
قرآن وحدیث میں توبہ کرنے والوں کے لیے خوش خبری اوربشارت دی گئی ہے اور الله توبہ کرنے والوں کو پسندیدگی اور محبوبیت کی نظر سے دیکھتے ہیں ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”بے شک الله کو پسند آتے ہیں توبہ کرنے والے اور پسند آتے ہیں گندگی سے بچنے والے۔“ (بقرہ:222)
حدیث شریف میں آیا ہے :
”ہر انسان خطا کار او رگناہ گار ہے، مگر بہترین خطا کار وہ ہے جو الله سے توبہ اوراس کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔“(سنن ابن ماجہ:4251، سنن ترمذی:2499)
انسان اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہی اپنے دل کو زنگ آلود کرتاہے اب اس کے ازالہ کا کیا طریقہ ہونا چاہیے اس بارہ میں فرامین رسول ﷺ بکثرت موجود ہیں بطور مثال موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرناوغیرہ
بحیثیت مسلمان مومن بندوں کو کثرت توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے دلوں سے معصیت کے زنگ کو زائل کرتے رہنا چاہیے او راحتساب کی کیفیت کے ساتھ اخلاق وکردار کا برابر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے، تاکہ وہ دنیا وآخرت کی فلاح وکام یابی سے ہم کنار ہو سکیں، کیوں کہ توبہ کا دروازہ ابھی کھلا ہوا ہے اورالله تعالیٰ کا ہاتھ بخشش کے لیے پھیلا ہوا ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
”اے ایمان والو! الله کی طرف سب مل کر توبہ کرو، شاید کہ تم فلاح پاؤ“۔ (سورہ نور آیت:31)
دوسری جگہ ارشاد ہے ” جو کوئی گناہ کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے اور الله سے بخشش چاہے تو وہ الله کو بخشنے والا، مہربان پائے گا“ ۔ (سورہٴ نساء آیت:110)
سیدناابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ الله تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کو پھیلاتا ہے، تاکہ دن کا گناہ گار توبہ کرے او راپنا ہاتھ دن کو پھیلاتا ہے ،تاکہ رات کا گناہ گار توبہ کر لے، یہاں تک کہ سورج اپنے ڈوبنے کی جگہ سے نکلے ( یعنی قیامت کا دن آجائے) ۔( مسلم)
یہ چند نمونے ان کے درس میں موضوع بحث رہےاور اسی پر پہلی نشست کا اختتام آذان مغرب پرہوا۔

دوسری نشست :

بعد از نماز مغرب تقریب کی دوسری نشست کا آغاز ہوا جس میں اسٹیج کی ذمہ داری فضیلۃ الشیخ محمد طاہر آصف حفظہ الله رئیس مجلس ادارت مجلہ اسوئہ حسنہ نے انتہائی احسن اور دلچسپ انداز سے سرانجام دی دوسری نشست کا آغاز بھی جامعہ کے ہونہار طالب علم حبیب عمر(مرکز ثانی ’ج‘)کی تلاوت سے کیا گیا تلاوت کے بعد جامعہ کے طالب علموں نے مجموعی صورت میں نظم پیش کی۔اس کے بعد کلمۃ الطالب کے لیے اس سال سند فراغت حاصل کرنے والے طالبعلم عبد العلیم کو دعوت دی گئی کہ جس میں انہوں نے حمد و ثنا ء کے بعد علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہا کہ علوم بہت ہیں مگر حقیقی علم وہی ہے جو قرآن وسنت سے ماخوذ ہو اور اس علم کے لیے تعلیمی وسائل کا ہونا ضروری ہے اور حقیقی وسائل تعلیم یہ جامعات ہیں اور انہی میں سے یہ جامعہ بھی ہےکہ جس سے ہزاروںکی تعداد میں تشنگان علم سیراب ہوچکے ہیں اور جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی علمی ، تعلیمی اور تربیتی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں اس کے بعد انہوں نے جامعہ کے تمام اساتذہ ، جامعہ کی انتظامیہ کا  شکریہ ادا کیا ۔ان کے بعد کلمۃ ابناء الجامعہ پیش کرنے کیلئے ڈاکٹر حافظ قدرت اللہ حفظہ اللہ لاہور سے تشریف لائےانہوں نے جامعہ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کے بعد کیا سرگرمیاں اختیار کی اور حالیہ کارناموں کو ذکرکرنے کے بعد مستقبل کے پلان کے بارہ لب کشائی کی۔
ان کے بعد درس بخاری کا آغاز ہواجس کی ذمہ داری فضیلۃ الشیخ علامہ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کو سونپی گئی ۔
حافظ مسعود عالم نے درس حدیث کا آغازکیاحمد وثناء کے بعد انہوںنے جو درس بخاری ارشاد فرمایا اس میں سے چند باتیں آپ قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔
اس جامعہ کے طلبہ مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں ،
یہ دین جو ہمیں ملا یہ دراصل ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کبری کہ جس سے معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔
متخرجین کے اعزاز میں فرمایا کہ جو طالب علم یہاں بیٹھے ہیں ، جنہوں نے دین سیکھا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو خاص مبارک باد کے مستحق ہیں دین کے لیے آپ ان علماء کی زندگی کوسامنے رکھیں کہ جنہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا دین کو ہی سمجھا جیسےامام بخاری رحمہ اللہ کہ جن کے بارہ میں آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا داری کو پسند نہیں کرتےتھے انہوں نے تقریبا 1080اساتذہ سے علم کا اکتساب کیا اور ایک ایک استاد سےدس دس ہزار حدیثیں پڑھیںاور اپنے دل میں محفوظ کیا وہ ہر وقت علم کی تلاش میں رہتے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ احادیث حفظ کر لیتے ہیں اور جو کچھ بھی سنتے ہیں فوراً یاد ہوجاتا ہےکوئی قوت حافظہ کیلئے دوائی وغیرہ استعمال کرتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میں تو جب عزیز واقارب کے خطوط کے جواب دینے بیٹھتا ہوں تو نام تک بھول جاتا ہوں مگر جب حدیث لکھنے بیٹھتا ہوں تو وہ مالک میرا دماغ کھول دیتا ہے اور احادیث ذہن میں استحضار ہونے لگتی ہیں۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کو لازم پکڑو وہ کونسی جماعت ہے ؟ علماء کی جماعت ، صحابہ کرام کی جماعت ، اللہ کے نبی کی جماعت ہے ، خبر کی صحت آپ کو اس مقام اور مرتبہ کا حساس کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا چاہیے ویسے ہی جیسے امام بخاری نے کیا اس دین کا حق ادا کیا یہ آپ کے لیے نمونہ ہیں قرآن کریم کے بعد سب سے مقبول اور معتبر کتاب ’’ الجامع الصحیح للبخاری‘‘ ہی ہے ۔یہ وہ کتاب ہے کہ جسے بغیر پڑھے کوئی اپنے آپ کو عالم نہیں کہلوا سکتا علماء کرام کے لیے اس کو پڑھنا اور اس پرعمل کرنا لازمی ہے۔ امام بخاری سے متعلق حافظ صاحب نے بتایا کہ وہ اپنا ذکر احادیث میں نہیں کرتے مگر بہت کم کرتے ہیں یہ ان کی خوبی ہے آپ کتب سے جڑیے اصل علم ان کتابوں میں مضمر ہے۔ اپنے اساتذہ سے متصل رہیں اور ان سے گاہے بگاہے مشاورت کرتے رہیں۔
امام بخاری نے اس کتاب میں تقریباً 3882 ابواب قائم کیے ان سب احادیث کو ریاض الجنۃ جیسی مبارک ٹکڑامیں بیٹھ کر لکھیںاور زیر بحث کتاب کی تکمیل کے بعد محدثین کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے آپ کی اس سعی کو قابل قبول کیا۔
کتاب کی ابتدائیات کے بعد اصلی موضوع پر گفتگو کی کہ’’ہم قیامت کے دن ان کے اعمال کا وزن کریں گے‘‘ اسی وجہ سے وزن والا باب امام بخاری آخر میں اور نیت والا باب پہلے لائے ہیں۔ یہ دین تمام لوگوں کے لیے ہے یہ دین ہمیں عدل سکھاتا ہے ۔
حافظ صاحب نے اس کتاب کی آخری حدیث کی سند پر سیر حاصل گفتگو کی کو اس کتاب کا ایک منفرد امتیاز اور خاصا ہے ،امام بخاری اپنی سند بتاتے ہیں اس کے بغیر کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی ، کہا گیا ہے ، نقل کیاگیاہے ، یا سنا گیا ہےیہ سب قابل قبول نہیں ان سب کی دلیل سند سے ہونا لازمی ہے کیونکہ عقل ناقص ہے یہ حق ہے ، یہ عدل ہے اور یہی ہمیں ہمارا دین ہمیں عدل سکھاتا ہے ۔
پانچ ہزار حدیثوں کا راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ صحابی ہیں جو اس دین کی برکت سے گورنر بنے اور احادیث کے حافظ بھی بنے۔
اس کے بعد انہوں نے متن الحدیث پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی تسبیح کا اس حدیث میں ذکر ہے کہ وہ اللہ ذات وصفات میں ہر عیب ونقص سے پاک اور منزہ ہے اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں وہ ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا ۔(سبحان اللہ) اللہ پاک ہے ، اس کی تعریف ظاہر ہورہی ہے اور وہ اس تعریف کا مستحق ہے اور یہ کلمہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور یہ وہ کلام ہے جس کے بارہ میں سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا یہ وہ کلمہ ہے جس کی وجہ سے تمام کائنات کو رزق ملتاہے۔
اور آخر میں یہ حدیث لائے ہیں کہ اس کتاب کا اختتام بھی اللہ کی تعریف سے کیا اور اس کتاب میں تمام معاملات کے مکمل راہنمائی ، آپ کے مسائل کا حل موجود ہے۔
اور آخر میںحافظ صاحب نے ترغیباً فرمایا کہ علماء سے متصل رہنا صدقہ جاریہ ہے ۔اور دعائیہ انداز میں اپنے درس کا اختتام کیا کہ اللہ تعالیٰ طلبہ کرام کو ہدایت کی راہ پر گامزن فرمائے اور دین سکھانے والا بنائے اور اس پرفتن دور میں لوگوں کو دین پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔ انہی کلمات پر حافظ صاحب نے اپنے درس کا اختتام کیا۔ کلمہ استقبالیہ حسب سابق فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ نے پیش کیا۔
حافظ صاحب کے درس بخاری کے بعد فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ افتخاراحمد شاہد حفظہ اللہ (مدیر الامتحانات) کو مدعو کیاگیا  نتائج کا اعلان عربی زبان میں کیا گیا اور انہوں نے اپنی بات کا آغاز اس آیت مبارکہ سے کیا کہ:

وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم: 39)

’’اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی‘‘۔
جامعہ کا مجموعی رزلٹ 90 فیصد رہا،جامعہ کے طالب علم ابو بکر افتخارنے جامعہ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے، اور طالب مثالی کا اعزاز سند فراغت حاصل کرنے والوں میں سے صلاح الدین نے حاـصل کیا ، ان طلبہ میں اور ان کے علاوہ مختلف کلاسوں میں اول، دوئم ، سوئم آنے والوں میں انعامات تقسیم کیے گئے، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انعامات کی تیاری اور تقسیم کی ترتیب کی ذمہ داری مدیر مجلۃ الجامعہ ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ اور الشیخ خالد حسین گورایہ نے نبھائی طلبہ میں تقسیم انعامات کا آغازفضیلۃ الشیخ حافظ مسعود عالم نے سند فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی دستار بندی اور ان میں کتب صحاح ستہ کے سیٹ اور نقد ی کی صورت میں کیا ان کے علاوہ  مولانا محمدعائش حفظہ اللہ ، مفتی الجامعہ علامہ نور محمدحفظہ اللہ ، مدیر مالیات انس محمد صاحب اورالشیخ داؤدشاکر حفظہ اللہ ،فضیلۃ الشیخ ابراہیم طارق اور جامعہ کے مدیرالتعلیم ڈاکٹر محمد حسین لکھوی حفظہ اللہ کے دست مبارک سےتقسیم کروائے گئے، اس کے بعد تمام حاضرین کے لیے عشائیہ کا انتظام تھا اس طرح یہ پر وقار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔

رمضان کے تذکرے میں دعا کا ذکر کیوں

اللہ رب العالمین نے اس امت کی ہدایت وراہنمائی کے لیے قرآن کریم میں بہت سے احکامات نازل فرمائے اور ان میں سے کچھ ایسے جو ارکان خمسہ کے نام سے ہے اور ان پانچ میں سے ایک رمضان المبارک کے روزے رکھنا ہے ۔اللہ رب العالمین نے اپنے کلام حمید میں رمضان کے روزوں کو فرض قرار دیا اور فرمایا

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ

اے مؤمنو!تم پر رمضان کے روزے اس طرح فرض کیے جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے تھے روزوں کی فرضیت کے تذکرے کے بعد رمضان کے احکام ومسائل بیان فرمائے اور پھر اسی رکوع کو رمضان کےمسائل کے لیےوقف کردیا پھر اس رمضان کے تذکرے میں اللہ رب العزت قرآن مجید کے نزول کی خبر سنا رہے ہیں یہ بات ہمیں سمجھ آتی ہے کہ رمضان کے تذکرے میں قرآن کاذکر کیوں ہوا کیو نکہ یہ قرآن اسی رمضان کے مہینے میں نازل ہوااور اس رمضان کو جو تقدس اور شرف حاصل ہوااس قرآن کی وجہ سے لیکن انسان ان آیات کی تلاوت کرتے کرتے اس آیت پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ رب العالمین ایک ایسی بات کا تذکرہ فرماتے ہیں جس کابظاہر رمضان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس پورے رکوع کے اندر اللہ رب العالمین رمضان کا تذکرہ کر رہے ہیں پہلے بھی رمضان کا تذکرہ بعد میں بھی رمضان کا تذکرہ پہلے بھی روزوں کے مسائل بعد میں بھی روزوں کے مسائل لیکن درمیان میں کہا

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   (البقرۃ:186)

؁جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں کہ اللہ کہاں ہیں تو ان کو کہیے کہ وہ تمہارے بالکل قریب ہیں اور جب کوئی پکارنےوالا مجھے پکارتا ہے ابھی اس کی پکار زبان سے جدانہیں ہوتی میں اس کی پکار قبول کر لیتا ہوں لیکن اے میرے نبیﷺ ان کو کہیں کہ مجھے پکا ر کر دیکھیں تو سہی مجھ پر یقین تو کرے لیکن جو بات واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ رمضان کے تذکرے میں دعا کا ذکر کہاں سے آگیا پہلے بھی رمضان کا تذکرہ بعد میں بھی رمضان کے تذکرے کیا جوڑہے آپس میں کیا تعلق ہے۔
اللہ رب العالمین نے یہ دعا کا ذکر رمضان کے تذکرے میں اس لیے کیاہے کہ بندہ مصیبتوں میں گرا ہو، پریشانیوں میں مبتلا ہو،بیماریوں میں الجھا ہوا ہو،مقدما ت میں پھنسا ہوا ہو،اپنے مسائل میں گرفتارہو تو اپنے رب سے مانگتا ہے کبھی یہاں بیٹھ کر مانگتا ہے کبھی وہاں بیٹھ کر مانگتا ہے لیکن نہ بیمار کو شفاملے نہ بے روزگارکو روزگار ملے نہ بے اولاد کو اولاد ملے نہ فقیر کو رزق ملے نہ محتاج کو مال ملے نہ پریشان حال کی پریشانیاں دور ہوں کہاں جائے اپنے رب کی بارگاہ میں آتا ہے مانگتاہے لیکن اس کی ما نگ میں کوئی اثرپیدا نہیں ہوتا نہ اس کی مانگ پوری ہوتی ہے سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ دل کے اندر کھوٹ ہے زبان میلی ہے گناہوں سےلتھـڑا ہواہے اور زبان کے اندر وہ تاثیرنہیں جو اس کی دعا کو عرش معلی تک پہنچاسکے لیکن رمضان کے مقدس مہینے میں جب آدمی روزہ رکھتا ہے اپنے نفس کو روکتا ہے حرام سے نہیں بلکہ حلال سے بھی اپنے آپ کو بچاتا ہے اور روزے کا معنی کیا ہے حرام کے قریب نہیں جانابلکہ حلال کے قریب بھی نہیں جانا کھانا حلال کا پانی حلال کا لیکن اللہ کے حکم پر حلال چیزوں کو بھی ترک کردیا حلال کمائی سے بنی ہوئی روٹی کو بھی نہیں کھاتا پاک پانی نہیں پیتا اس قدر اللہ کی حکم کی تابعداری کرتا ہےکہ اللہ اس کے نتیجے میں اسکی برائیوںاور سیئات کو دور کردیتا ہے اس کی زبان میں تاثیر پیدا کردیتا ہے اور یہ انسان روزے رکھ کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ ادھر اسکی زبان سے بات نکلتی ہے ادھر رب پورا فرمادیتا ہے اس لیے اللہ پاک نے رمضان کے تذکرے میں دعا کے ذکر کو بطور خاص رکھ دیا ہے اور اللہ تعالی فرماتے ہیں آؤمومنوں اس بات کا شکو ہ کرنےوالوں کہ اللہ ہماری نہیںسنتالیکن اللہ فرماتے ہیں آجاؤ رمضان کے روزے رکھ کر اب تم نےاپنے نفسوں کو پاک کرلیا اپنی بے تاثیر زبانوں میں تاثیر پیدا کرلی اب ہاتھ اٹھا کر رب سے مانگھ کر دیکھو ابھی تمھارے الفاظ جدا نہیں ہونگے کہ اللہ تعالی اسے پورا فرمادیں گے اور میں قربان جاؤں عرش معلی کے مالک ہونے پر کہ دنیامیں کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا جومنگتوں کو خود کہے کہ آجاؤ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گابلکہ اللہ رب العالمین یہ کہتے ہیں کہ آج مانگ کر دیکھو تمھا رے لبوں سے جدا نہیں ہوگی میںتمھاری پکار کو پورا کر دوںگا اس میں شرط کیا ہے ؟شرط ایک ہے کہ دعاہے کہ ساتھ ایمان اور یقین کے ساتھ اللہ پر توکل کرکے اور اس یقین کے ساتھ مانگے کہ اللہ کے سواکوئی نہیں عطا کرسکتا اور اس امید سے مانگے کہ آج اللہ رب العالمین سے لے کر جانا ہے سرور کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بندہ اسطرح اپنے رب سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی اپنے فرشتوں کو بلا تا ہے کہ اے فرشتوں دیکھو میرا بندہ مجھ سے خلوص نیت کےساتھ مانگ رہا ہے اور میں اس کی دعا کو اس کے ہاتھ نیچے جانے سے پہلے ہی پورا کردوں گا اور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں مجھے اپنے منگتوں کو خالی لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے دنیا کیا کہے گی کہ سب سے بڑی بارگاہ سب سے بڑی درگاہ اور منگتا آیا خالی ہاتھ لوٹ گیا مجھ کو شرم آتی ہے کہ میرے جناب میں آئے اورخالی ہاتھ لوٹ جائے نہیں فرشتوں گواہ رہو میں نے اپنے اس بندے کی ہر مانگ کو پورا کردیا اس لیے اللہ رب العزت نے رمضان کے تذکرہے میں دعاکا ذکربطور خاص کورکھ دیا ہے۔اور سرور کائنات ﷺنے ارشاد فرمایادعاکی قبولیت کے تین طریقے ہیں اللہ رب العالمین دعاکو قبول فرماکر انسان کو تین راستے دیے ہیں ۔
-1یاتو اسکی دعاکو اسی وقت قبول فرما کر اس کا بدلہ عطا کر دیتے ہیں ۔
-2یااسکی دعا کی وجہ سے اس پر آنے والی مصیبت ٹال دی جاتی ہے ۔
-3یا اس کی دعا کو اللہ رب العالمین محفوظ کر لیتے ہیں۔ انسان جب قیامت کے دن اپنا نامہ اعمال دیکھے گا تو اس میں ایک ڈھیر نیکیوں کا وہ نظر آئے گا جو اس نے کی نہیں ہونگی اللہ تعالی سے بندہ پوچھے گا اللہ میںنے تو یہ نیکیاں نہیں کی پھر یہ کہاں سے آئی تو اللہ فرمائےگا اےبندے تونےدنیا میں دعا کی تھی بندہ کہے گا جی اللہ تواللہ پوچھے گا کیا وہ پوری ہوئی تھی کہے گا نہیں اللہ فرمائے گا یہ وہی دعائیں ہیں جو تو دنیا میں کرتا رہا اور پوری نہ ہوئی آج قیامت کے دن تمہیں اس کا ثمرہ مل رہا ہے۔لیکن اللہ تو دعا کو سنتا بھی ہے یہ کہیں مانگ کو پورا کرتا بھی ہے یا نہیں اسکے لیے میں دو سے تین مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
1۔اللہ کی نا فرمانی کی وجہ سے آدم علیہ السلام اور حوا دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا کئی سال تک زمین میں بھٹکے رہےآخر اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کیا اور کہا اللہ غلطیاں ہم کرتے ہیں معاف تو کرتا ہے ہماری غلطی کو معاف فرما ۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:23)

’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔‘‘
یہاں آدم علیہ السلام ہمیں معافی مانگنے کا طریقہ بتلا رہے ہیں لیکن ہمارا دعا مانگتے ہوئے رد عمل کیا ہوتاہے دل کہیں اور دماغ کہیں اور اس نیت سے مانگتے ہیں کہ اگر یہاں سے نہ ملی تو کہیں اور سے لے لیں گے نہیں بلکہ خلوص نیت اور پوری یکسوئی کے ساتھ دعا مانگو تو پھر اللہ قبول فرمالے گا۔
2۔ اسی طرح سیدنا زکریا علیہ السلام بوڑھے ہوچکے ہیں مگر گھر بچے کی آواز سے خالی ہے اور یہ تمنا اور آرزو بھی ہے کہ اللہ اولاد عطا کردے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہیں کیا کہتے ہیں قرآن کریم کے الفاظ

 اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَاۗءً خَفِيًّا  قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّيْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْۢ بِدُعَاۗىِٕكَ رَبِّ شَقِيًّا  وَاِنِّىْ خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَّرَاۗءِيْ وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا فَهَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا (مریم :3۔5)

جب سیدنا زکریا علیہ السلام نے اپنے رب کو بہت ہلکی آواز میں پکارا اور کہا کہ اللہ میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں میرے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں اور سب سے بڑی بات ڈاکٹروں اور طبیبوں نے میری بیوی کو بانجھ قراردے دیا ہے لیکن پھر بھی دنیا سے مایوس ہوں تیری بارگاہ سے مایوس نہیں ہوں میں بیٹے کی خواہش کرتا ہوں مجھے بیٹا عطا فرما اور بیٹا بھی عام نہیں بلکہ وہ جس کے سر پر تاج نبوت ہو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی وارث بنے۔
کتنی بڑی دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما کر کیا کہا

يٰزَكَرِيآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِۨ اسْمُهٗ يَحْــيٰى ۙ لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا (مریم:7)

’’اے زکریا! ہم تجھے ایک بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا ۔‘‘
ذرا دیکھو اللہ تعالیٰ ہلکی سے ہلکی آواز میں مانگی ہوئی دعا کو بھی قبول فرمالیتے ہیں اور ہر مایوس شخص کی مایوسی کو ختم کردیتے ہیں اور یہ بھی مت سوچنا کہ یہ تو پیغمبر تھے جن کی دعا کو اللہ نے قبول کیا ،نہیں بلکہ اللہ دعا کو قبول کرنے میں کوئی فرق نہیں رکھتا سب کی دعا کو قبول فرماتا ہے اس کی سب سے بڑی مثال اس صحابیہ عورت کی جن کا نام خولہ رضی اللہ عنہا تھا ان کے خاوند نے ان کو ماں کہہ دیا اور عرب کا دستور تھا جو اپنی بیوی کو سزا دینا چاہتا وہ اس کو ماںکہہ دیتا ’’أنت علی کظھر امی ‘‘اور وحی نازل ہونے سے پہلے یہ تھا کہ وہ عورت اپنے خاوند پر حرام ہوجاتی ان کے شوہر نے بھی ان کو ماں کہہ دیا یہ پریشان بچے چھوٹے چھوٹے کیا کرے گی کہاں جائے گی ؟ بھاگتی ہوئی مسجد نبوی میں تشریف لائی صحابہ مسجد میں موجود تھے صحابہ سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے جواب دیا اب تو اپنے خاوند پر حرام ہوچکی ہے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے پریشان حال اس حالت میں حجرئہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتی ہے دروازہ کھٹکھٹاتی ہے اللہ کے نبی ﷺ باہر تشریف لاتے ہیں انہوں نے مسئلہ بتایا تو نبی کریم ﷺ نے بھی وہی جواب دیاکہ تو اپنے خاوند پر حرام ہوچکی ہےاس پر صحابیہ نے کہا آپ کوئی حل نکالیں آپ ﷺ نے فرمایا بی بی میں وحی کے بغیر نہیں بول سکتا اس نے کہا آقا آپ تو ایسا نہ کہیں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں کہاں جائیں گے ان کا کوئی والی وارث نہیں آپ ﷺ نے فرمایا میں کوئی حل نہیں پیش کر سکتا جب تک وحی نازل نہیں ہوتی اس صحابیہ کے دل پر چوٹ لگی وہی مسجد نبوی میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے دنیا والوں نے تو مایوس کردیا ہے اے اللہ تیری بارگاہ سے مایوس نہیں ہوئی اس عورت کی دعا عرش معلی تک پہنچی ادھر سے اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ جاؤ میرے نبی ﷺ کے ذریعے سے ساری کائنات اور اس عورت کو بتلا دو کہ اللہ نے تیری پکار کو سن کر اس مسئلے کو تبدیل کردیاہے ۔

قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَتَشْـتَكِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ڰ وَاللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ    (المجادلۃ:1)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال جواب سن رہا تھا بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے۔‘‘
مثالیں تو بہت ہیں مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ سے مانگو سچے دل اور خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر دعا کو سنتا بھی ہے اور شرف قبولیت سے بھی نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی نیک خواہشات نیک تمناؤں اور نیک مقاصد کو پورا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

زکوٰۃ ادا کرنے کے احکام و مسائل

زکوٰۃ کے لغوی معنیٰ: الزیادۃ والتزکیۃ یعنی بڑھنے اور پاک ہونے کے ہے۔
زکوٰۃ کے شرعی معنیٰ: حق واجب فی مال خاصٍ لطائفۃ مخصوصۃٍ لوقت مخصوصٍ۔
(معونۃ اولی النھی شرح المنتھی ،لابن نجار 551/2)
مخصوص افراد کے لئے خاص اوقات میں جو خاص مال  خرچ کیا جاتا ہے اسے شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔

وضاحت:

یعنی ایک سال مکمل ہونے پر سونا، چاندی، نقدی،مویشی اور مالِ تجارت پر زکاۃ ہے جب کہ غلہ اورپھل تیار ہوجانے پر اور معین مقدار شہد یا معدنیات کا حصول ہو تو ان میں زکاۃ فرض ہے۔اسی طرح عیدالفطر کی رات سورج غروب ہوجانے پر صدقۃ الفطر فرض ہے۔
فرضیتِ زکوٰۃ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (البقرہ:43)

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ تم بھی رکوع کیا کرو۔
مزید ارشاد ِفرمایا:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا(التوبة103)

اے نبی (ﷺ)! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرکے انہیں پاک و صاف کردو۔
رسول اکرم ﷺنے جب معاذبن جبل رضی اللہ کو یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو ارشاد ہے:

اَخْبِرْھُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

کہ لوگوں کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان ہی کے نادار لوگوں کو دیا جائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ …)
زکوٰۃ، نماز کے بعد اسلام کا انتہائی اہم ترین رکن ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں82   مقامات پر ہوا ہے۔
جس سے زکوٰۃ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور زکاۃ ادا کرنے والے کا مال حلال اور پاک بنتا ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور زکوٰۃ کوئی تاوان یا ٹیکس نہیں جس سے مال کم ہوتا ہو اور دینے والے کو نقصان اٹھانا پڑے بلکہ اس کے برعکس زکوٰۃ سے مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، (صحیح مسلم)

صدقہ (زکوٰۃ) دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔
زکوٰۃ کی حکمت:
زکوٰۃ کے فرض ہونےمیں مندرجہ ذیل حکمتیں پنہاں ہیں:
1۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسانی نفوس بخل و کنجوسی، لالچ، حرص، خودغرضی اور سنگدلی جیسے اخلاق رذیلہ سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔
2۔ مال کی بے جا محبت کم ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ سے اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار مثلاً ایثار  و قربانی، احسان ، جود و سخا اور خیر خواہی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
3۔فقراء،مساکین،تنگدست،محتاجوںاورضرورتمندوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
4۔ مصالح عامہ جن پر امت کی زندگی اور سعادت موقوف ہے ، زکوٰۃ سے وہ پورے ہوتے ہیں۔
5۔زکوٰۃ ادا کرنے سے مسلمانوں کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی حدود و قیود سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
6۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مال و دولت کا اصل مالک اللہ ربّ العزت ہے۔
7۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روپیہ ،پیسہ گردش میںرہتا ہے۔
8۔ زکوٰۃ عام آدمی کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔
9۔ زکوٰۃایک ایسا عمل ہے جو دین کی تکمیل اور تقرب الی اللہ حاصل ہونے کےعلاوہ ایک عام آدمی سے لیکر پورے معاشرے کی اجتماعی خوشحالی کا ضامن ہے۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا:
فرمانِ الٰہی ہے:

وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ  ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ o يَوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ (التوبۃ34تا35)

’’دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیںلیکن اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لیے سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے، اب اپنے خزانے کا مزہ چکھو۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

مَنْ اٰتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ- يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے هیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس نے اس کی زکوۃ نہ دی تو قیامت کے روز اس کا مال اس کے لئے سانپ بن جائے گا اس کے سر پر بال اور آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے اور پھر یہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اپنی زبان سے کہتا ہوگا کہ میں تیرا مال ہو میں تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب التفاسیر، بَابُ :وَلَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ ۔۔۔)
اس اخروی عذاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوٰۃ کی دائیگی سے منہ موڑتی ہے، قحط سالی اور مشاکل میں مبتلا کردیتا ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
جو قوم بھی زکوٰۃ سے انکار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (صحیح الترغیب، لالبانی467/1)
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے وہ بارانِ رحمت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات)
زکوۃ فرض ہونے کی شرائط :

زکوٰۃ فرض ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں :

۱۔ مسلمان ہونا  : کافر پر زکوۃ فرض نہیں کیونکہ وہ اسلامی احکامات کا مکلف نہیں ہے اس میں بچہ اور عورت عاقل اور غیر عاقل بھی شامل ہے ان کی طرف سے ان کاولی زکوٰۃ اداکرے گا ۔
۲۔ آزاد مرد اور عورت : کیونکہ غلام کا اپنا کوئی مال نہیںہوتا بلکہ وہ تو خود کسی کی ملکیت ہوتاہے۔
۳۔ نصاب کا مالک ہونا :یعنی ساڑھے سات تولے سونا(87گرام) یا ساڑھے باون تولے چاندی (612گرام)یا اس نصاب کے برابر نقدی ہو یا جانوروں کا نصاب یا زرعی پیداوار گندم ،جو،کشمش اور دیگر پھل وغیرہ یعنی تقریباً 19 من (750کلوگرام)تک پیداوار حاصل ہو۔
۴۔مذکورہ بالا نصاب پر پورا سال گزر جائے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مال میں زکوۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزر جائے۔ ( ابن ماجہ ، کتاب الزکاۃ ، باب استفاد مالا )
البتہ زمین کی پیداوار میں ایک سال کاگزرناشرط نہیں بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اگر نصاب پورا ہو (یعنی تقریباً 19من 750کلوگرام)ہو تو زکوۃ ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ  (الانعام:141)

اور اجناس کی کٹائی کے دن اس کا حق (زکاۃ)ادا کرو۔

وضاحت:

٭ مقررہ نصاب کو پہنچے ہوئے جانوروں کے دوران سال پیدا ہونے والے بچے اور مال تجارت سے دوران سال حاصل ہونے والا منافع بھی اسی سال کی آمدن تصور ہوگا۔زکوٰۃ ادا کرنے میں سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
مگر استعمال کی عام چیزوں میں زکوٰۃ نہیں مثلاً : رہائشی گھر اور اس کا سامان، گاڑیاں، مشینری اور سواری کیلئے جانور وغیرہ۔
٭ جن چیزوں سے کرایہ حاصل ہوتاہو ان پر زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن پر زکاۃ ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچے اور سال بھی گزر جائے۔
٭ اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہو اور وہ ادا کرنے سے  پہلے فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ’’فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضٰى‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الصوم ، باب من مات وعلیہ صوم)
’’اللہ تعالیٰ کاقرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسے ادا کیا جائے۔‘‘
وہ اموال جن پر زکوٰۃ فرض ہے:
حدیث میں جن چیزوں کی زکوٰۃ کا ذکر ہے، ان کا پانچ قسمیںہیں:
۱۔  سونا اور چاندی یا اس سے مساوی نقدی
۲۔  مال تجارت
۳۔  زرعی پیداوار
۴۔  مویشی
۵۔ کان اور دبے ہوئے خزانے
چاندی کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
اس بارے میںامت کا اجماع ہے کہ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ (علمائے حدیث و فقہ اور علمائے لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک اوقیہ کا وزن چالیس درہم اور دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔(شرح مسلم، للنووی) مثقال کا وزن ہمارے ہاں کے لحاظ سے ساڑھے باون ماشہ ہے۔ لہٰذا ۲۰۰ درہم کا وزن ساڑھے ۵۲ تولہ ہوا۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرمﷺ نے  فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(مسلم)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لیکن چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو، ہر چالیس درہموں پر ایک ایک درہم زکوٰۃ ہے۔ ایک سو نوے درہموں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، لیکن جب وہ دو سو درہم ہوجائیں، تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔(ترمذی)
شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے۔
سونے کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
جمہورعلماء کرام(اکثر سلف) کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار(۲۰ مثقال، ساڑھے ۷ تولہ) ہے اور شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے یعنی اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے ۷ تولہ سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پر سونے میں اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک وہ بیس دینار(۲۰ مثقال) نہ ہوجائے، اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے تو اس کی نصف دینار(یعنی چالیسواں حصہ)زکوٰۃ ادا کرو۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الزکوٰۃ ،   باب:بَابٌ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ)
دھات اور کاغذی سکوں کی زکوٰۃ:
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں نقدی کے طور پر سونا اور چاندی(بشکل دینار ودرہم) استعمال ہوتے تھے۔ موجودہ دزمانہ میں دھات اور کاغذ کے سکے سونے اور چاندی کے قائم مقام ہوگئے ہیں اور انہیں ہر وقت سونے اور چاندی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کے پاس دھات یا کاغذ کے سکوں کی اتنی مقدار ہوجائے جس سے سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا ہو اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔موجودہ دور میںایک تولہ سونے کی قیمت50250 روپے ہے جبکہ سونے کا نصاب 7.5تولہ کی کل قیمت 376875.50/ روپے بنتی ہے اس پر 2.50 فیصد زکاۃ کی رقم 9422روپے بنے گی اگر کسی کے پاس اس مقدار میں سونا نہیں بلکہ نقدی ہوتو اس پر بھی زکاۃ فرض ہے۔
اسی طرح موجودہ دور میںایک تولہ چاندی کی قیمت 730روپے ہے جبکہ50.52 تولہ کی قیمت 38325روپے بنتی ہے اور 2.50فیصد کے حساب 959 روپے زکاۃ بنتی ہے اور ان دونوں نصاب میں سے کوئی ایک بھی پورا ہورہا ہوتو زکوۃ فرض ہے مگر اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں جوکرنسی رائج ہو اسی کو نصاب بنایا جائے مگر بعض علماء کے ہاں جس کرنسی سے فقراء اور مساکین کو زیادہ فائدہ ہو اس کو نصاب بنایا جائے تو دوسرے قول کا لحاظ کرتے ہوئے چاندی کا نصاب مقرر کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کسی پاس ساڑھے 52 تولے چاندی38325 روپے نقدی ہوتو وہ صاحب نصاب ہے،اس پر زکاۃ فرض ہوگی۔
عورت کے زیور پر زکوٰۃ:
موتی، یاقوت اور دوسرے تمام جواہرات، کپڑوں اور دوسرے سامان(جیسے گھرکے برتن) پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جبکہ وہ محض استعمال اور زینت کے لئے ہوں، لیکن اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان پر زکوٰۃ سب کے نزدیک ضروری ہے۔(نیل الاوطار، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
عورت کے سونے اور چاندی کے زیور پر زکوٰۃ ضروری ہے، جبکہ اس کا وزن بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر ایک سال گزرچکا ہو۔
سیدناعمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ذریعے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی، جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ قیامت کے روز تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟(ابوداوٗد، ترمذی، نسائی)
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کےکنگن پہنے ہوئے تھی، میں نے آپﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنگن کنز(جمع کیا ہوا خزانہ جس کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعید فرمائی ہے) کی تعریف میں آتے ہیں؟۔ آپﷺ نے فرمایا اگر تم نے ان کی زکوٰۃ دیدی تو یہ کنز نہیں ہیں۔(ابوداوٗد، دارقطنی)
وضاحت:اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیور جس کی ملکیت ہو وہی اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ:
زرعی پیداوا رمیں بعض اجناس پر زکوٰۃ فرض ہے :
إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ: الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ
آپ ﷺ نے درج ذیل چار چیزوں میں زکوٰۃ مقرر فرمائی، گندم، جو، کشمش، کھجور
(الدارقطنی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ لالبانی ۲/۸۷۹)
زمین کی پیداوار کے لئے زکوٰۃ کا نصاب:
زرعی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تک غلہ اور کھجور کی مقدار پانچ وسق(تقریباً 19 من، یا 750کلوگرام)تک نہ ہوجائے، زکوٰۃ نہیں ہے۔(صحیح سنن النسائی لالبانی2330/2)
قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کے لئے شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور مصنوعی ذرائع (مثلاً کنواں، ٹیوب ویل، نہر)سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کی شرح زکوٰۃ بیسواں حصہ(نصف عشر)ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
\

فِيمَا سَقَتِ السَّمَآءُ وَالعُيُوْنُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ(بخاری، الزکوٰۃ، بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي…)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس زمین کو بارش یا چشمے پانی پلائیں یا زمین ترو تازہ ہو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکوٰۃ ہے، جس زمین کو کنویں کے ذریعے پانی دیا جائے اس میں سے نصف عشر(بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔
حرام کمائی سے حاصل شدہ مال پر زکوٰۃ :
حرام طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال مثلاً ڈاکہ ،چوری، فریب، رشوت، سود ، دھوکہ،شراب ، ہیرون، بھنگ، چرس وغیرہ سے حاصل شدہ مال پر زکوٰ ۃ نہیں  ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ خود پاک ہیں اورپاک مال ہی کو قبول کرتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللهe نے فرمایا جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ صرف پاک کمائی کو قبول کرتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لئے پالتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالتا ہے،یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب  الصدقۃ من کسب طیب.)
عورت کے حق مہر سے زکوٰۃ:
عورت کا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ یہ شوہر پر قرض ہوتا ہے جس طرح قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے ا لاّ یہ کہ عورت معاف کردے۔عورت کے حق مہر کی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو تو اڑھائی فیصد(2.5%)کی شرح سے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ:
اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔

فیکٹری پر زکوٰۃ :

فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلات تجارت ہیں۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر اڑھائی فیصد (2.5%)کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، 864/2)
خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا:
چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔ جیسا کہ سيدنا عبداﷲ بن مسعود t کی بیوی سیدہ زینب rنے آپ e سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپe نے فرمایا:۔ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(۱)قرابت (صلہ رحمی) کا (۲) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ،  باب:بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي ..)
مصارفِ زکوٰۃ:
شریعتِ اسلامیہ نے زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ اللهِ  ۭوَاللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ

 صدقات تو دراصل فقیروںمسکینوں اور ان افرادکے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب، غلام آزاد کرانے، قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروںپر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مصارفِ زکوٰۃ کی کل تعداد آٹھ ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
[1-2]  فقراء و مساکین :
فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ tکہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔

(بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ لَا يَسْــئَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی )

گویا محتاجی کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو حاجت کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔

[3] زکوٰۃ وصول کرنے والے لوگ:

زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺمجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی )

[4] تالیف کے حقدار :

اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کر دیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا بوقتِ ضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
[5] غلاموں کی آزادی کے لئے:
اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کر دیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہو گئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔

رمضان اور روزہ فضائل ومسائل

شان رمضان :

رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس میں ہر مسلمان (صبغۃ اللہ) کی تفسیر بنتے ہوئے اللہ کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں مساجد ومدارس میں بہار کا سماں ہوتا ہے ویسے تو اسلامی مہینے سب فضیلت کے حامل ہیں مگر رب تعالیٰ نے قرآن مجید اس ماہ مبارک میں نازل کرکے اس کی فضیلت کو زیادہ عیاں کر دیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
یہ روزے) چند دن ہیں گنتی کے، پس جوہو تم میں سے بیمار یاسفر پر تو(وہ) گنتی پورے کرے دوسرے دنوں سے اوران  لوگوں پر جو طاقت رکھتے ہوں اس کی(اور نہ رکھیں) فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا  پس جو خوشی سے کرے(زیادہ) بھلائی تو وہ بہتر ہے اس کے لیے اوریہ کہ تم روزہ رکھو (تو) زیادہ بہترہے تمہارے لیے اگر ہوتم جانتے۔ یہ روزے) چند دن ہیں گنتی کے، پس جوہو تم میں سے بیمار یاسفر پر تو(وہ) گنتی پورے کرے دوسرے دنوں سے اوران  لوگوں پر جو طاقت رکھتے ہوں اس کی(اور نہ رکھیں) فدیہ ہے ایک مسکین کا کھانا  پس جو خوشی سے کرے(زیادہ) بھلائی تو وہ بہتر ہے اس کے لیے اوریہ کہ تم روزہ رکھو (تو) زیادہ بہترہے تمہارے لیے اگر ہوتم جانتے۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ:185)

رمضان وہ ماہ مبارک ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لیے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دیکھانے والی اور حق وباطل میں فرق کھول کے رکھ دینے والی ہے لہٰذا جو شخص اس مہینہ کو پائے اس پر لازم ہے کہ پورے ماہ مقدس کے روزے رکھے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو پابند سلاسل کر دیاجاتاہے۔‘‘ (صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، باب فضل شہر رمضان )
انہی فضائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان مبارک ہی وہ مہینہ ہے جس میں رحمتوں وبرکتوں کا نزول ہوتاہے اور اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے گنہگار بندوں کو قرآن کے ذریعے ہدایت دیتاہے حق کے طالبین اور حصول جنت کے متلاشیوں کے لیے موسم بہارہے۔

شان صیام :

رسول اللہ ﷺ شان صیام کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔(صحیح بخاری ، کتاب الصوم، باب من صام رمضان)
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’ ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے سوائے روزے کے ، روزہ میرے لیے ہے اور اس کا اجر وثواب بھی میں ہی دوں گا۔ اور روزہ آگ سے بچاؤ کی ڈھال ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، باب ھل یقول إنی صائم إذا شتم)
روزے کی فضیلت ہم اس حدیث مبارک سے بھی بخوبی لگاسکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے بندے کے اخلاص کی تصدیق کرتے ہوئے اس کو براہ راست خود اجر دینے کا فیصلہ کیا ہے ظاہر ہے جس کا اجر وثواب خود رب تعالیٰ دے اس کا کیا اجر وثواب ہوگا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

صوم کے لفظی معنیٰ :

روزہ کو عربی زبان میں صوم کہاجاتاہے جس کا مطلب ومفہوم رک جانا ہے،
شرعی اصطلاح میں یہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں ہر مسلمان اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک تمام ممنوعات ومحرمات سے رک جاتاہے۔
روزے کا مقصد کیا ہے ؟
روزہ پوری زندگی کا ضابطہ حیات بتاتا ہے جس طرح ایک روزے دار کو روزے کی حالت میں حلال کردہ چیزوں سے بھی اپنے نفس کو روک کر لا تعداد اجر وثواب کماتاہے اسی طرح آدمی اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چل کر جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کا مستحق بن سکتاہے اسی مقصد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ’’لعلکم تتقون‘‘ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے جس کا نام تقوی ہے تقوی درحقیقت دل کی گہرائیوں سے ڈرتے ہوئے گناہوں اور محرمات سے بچنے کا نام ہے ۔

روزوں کی فرضیت :

روزہ ہر مسلم، عاقل ،بالغ، صحت مند وتندرست پر فرض ہے اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ  (البقرۃ:183)

’’اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے
’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ شہادت ورسول کی رسالت کا اقرار ، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اوررمضان کے روزے رکھنا۔‘‘(صحیح البخاری)
مذکورہ نصوص سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت برحق ہے اور جان بوجھ کر کوئی ایک روزہ چھوڑنا فسق(گناہ کبیرہ) اور اس کا انکار کرنا یا مذاق اڑانا یا غریبوں کا فاقہ قرار دینا کفر ہے ۔
البتہ مندرجہ ذیل افراد بروقت ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں :
1۔نابالغ : وہ بچے اور بچیاں جو ابھی تک سن بلوغت تک ناپہنچے ہوں ان پر روزہ واجب نہیں ہے البتہ تربیت اور عادت ڈالنے کی غرض سے ان سے روزے رکھوایا جائے تو بہتر ہے ۔
2۔حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین: شریعت اسلامیہ نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بروقت روزہ کی ادائیگی سے یہ رخصت دی ہے کہ اگر اپنے اندر جسمانی کمزوری یا بچے کی خوراک پوری نہ ہونے کا اندیشہ رکھتی ہوں تو بعد میں روزوں کی قضا دے جاسکتی ہے۔
3۔وقتی مریض : اگر کوئی شخص کو مرض لاحق ہوجائے تو روزے کی صورت میں کمزوری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ کر اس کی قضا دے سکتاہے۔
4۔حیض ونفاس : روزے سے مستثنیٰ چوتھی حالت حیض ونفاس ہے جس میں مبتلا خواتین کو روزہ رکھنے سے مانع کیاگیا ہے ان خواتین پر واجب ہے کہ اپنے مخصوص ایام سے فارغ ہونے کے بعد رمضان کے بقیہ روزوں کی گنتی پوری کریں اور چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء بعد میں دے دیں اگر ان میں سے کوئی عورت طلوع فجر سے پہلے ایام سے فارغ ہوگئی ہو تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا فرض ہے ۔
5۔مسافر : حالت سفر میں پیش آنے والی مشقت ومصیبت کے احتمال کی وجہ سے مسافر کے لیے روزہ چھوڑنا مستحب ہے اسی طرح ایسے مسافر جو مستقل سفر میں رہتے ہوں ان کے مستقل سفر سے روزں کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی جیسے جہازوں کے پائیلٹس ، سمندری جہازوں کے کپتان وغیرہ
نوٹ : ایمرجنسی ، اضطرابی حالت : اچانک اضطرابی کیفیت لاحق ہوجانے کی صورت میں انسان روزہ قبل از وقت افطار کر سکتاہے البتہ بعد میں اس کی قضا دیں مثلاً : ٹریفک حادثہ، اچانک شوگر یا بلڈ پریشر کا لوہوجانا، آگ لگنا ، پانی میں ڈوبنا وغیرہ
پوانٹ نمبر 2 سے 5 تک کے افراد کے لیے قرآن حکیم کا یہ حکم کافی ہوتا ہے :

وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  (البقرۃ:185)

’’ ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ۔‘‘
6۔ دائمی مرض: دائمی مرض میں مبتلا افراد کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت دی ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے اپنی استطاعت کے مطابق ایک مسکین کو کھانا کھلائیں یہی ان کا کفارہ ہے

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ

’’اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں۔‘‘(البقرۃ:184)
اور وہ لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے ان کا کفارہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے ۔
7۔ مجنون : مجنون یا وہ شخص جس کی عقل زائل ہوگئی ہو خواہ بڑھاپے کی وجہ سے ہو یا کسی حادثے کی وجہ سے ہو تو ایسے افراد پر نہ تو کوئی کفارہ ہے اور نہ ہی کوئی قضا۔

روزے کا وقت :

روزے کا دورانیہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے جیسا کہ رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتایا :

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ ۚ (البقرۃ : 187)

’’تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے پھر رات تک روزے کو پورا کرو ۔‘‘
کیا سحری کرنا ضروری ہے ؟
جی ہاں ! سحری کرنا انتہائی ضروری ہے اوراسلام میں سحری کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے سحری رات کے آخری تہائی وقت کو سحر کہتے جو آذان فجر تک جاری رہتا ہے اس وقت میں کھانا کھانے کو سحری کہا جاتاہے یہ وقت قبولیت کا وقت بھی اس وقت میں زیادہ سے زیادہ نوافل اور استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :’’ سحری ضرور کھاؤ اس لیے کہ اس میں برکت ہے ۔(صحیح بخاری کتاب الصوم برکۃ السحور)
دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ ہمارے اور اہل کتاب کے روزں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے ( صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، باب فضل السحور)
وہ اعمال جن سے روزہ ضائع ہوجاتاہے :
1۔ ترک نماز (نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنا)
نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے خصوصاً جو آدمی روزے کی حالت میں نماز نہ پڑھے اس کے روزے کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی یہ دین سے دوری اورجہالت ہے ۔ حدیث مبارک میں آتا ہے ’’جان بوجھ کر نماز چھوڑنا کفر ہے ۔‘‘ (سنن ابی داؤد ، کتاب السنۃ ، باب فی رد الرجاء )
2۔ فحش گفتگو اور بے ہودہ حرکتیں :
حدیث مبارک میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ روزہ اس بات کا نام نہیں ہے کہ کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے بلکہ روزہ تو بے ہودہ اور جنسی خواہشات پر ابھارنے والی فحش گفتگو سے بچنے کا نام ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصیام ، باب النہی عن

اللغو فی الصیام )

روزہ کی حالت میں تمام لغو امور سے منع کیاگیاہے لغو ہر بیکار ،بے فائدہ اور وقت کی بربادی والے کام کو کہتے ہیں جیسے کھیل کھود آجکل سوشل میڈیا کا فضول استعمال ، گالی دینا، ٹی وی دیکھنا، فضول محفلیں سجانا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

3۔ روزہ کی حالت میں جھوٹ بولنا :

فرمان نبوی ﷺ ہے ’’جس نے جھوٹا بول، اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا اللہ عزوجل کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسا شخص بھوکا رہے یا پیاسا رہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، باب من لم یدع قول الزور )
جھوٹ کبیرہ گنا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک روزے دار جس نے اللہ کی رضا کے حصول کیلئے حلال چیزوں سے اپنے نفس کو روکے رکھا اور وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرے۔

روزے کی حالت میں جائز کام :

1۔ آنکھوں میں سرمہ، سر میں تیل اور کان یا آنکھ میں دوائی ڈالنا اور نہانا جائز ہے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصوم، باب اغتسال للصائم)
2۔ رات کو اگر غسل جنابت واجب ہوجائے تو انتہائی سحر قریب ہو پہلے سحری کرے اور پھر غسل کرکے نماز پڑھے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، باب الصائم یصبح جنب)
3۔ روزے کی حالت میں حجامہ لگانا اور لگوانا جائز ہے ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصوم باب الحجامۃ)
4۔ روزے کی حالت میں مسواک کرنابھی جائز ہے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الجمعۃ ، باب السواک )
روزہ کی حالت میں ناجائز کام :
1۔ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے رروزہ ٹوٹ جاتاہے ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، باب الصائم إذا جامع)
2۔ جان بوجھ کر قے کرنا( صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، باب الصائم یستقی عامداً )
3۔ جان بوجھ کر کھانا پینا۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصائم ، باب الصائم اذا اکل وشرب ناسیا)
4۔ حالت بیداری میںکسی بھی طریقےسے انزال ہوجانا۔ البتہ احتلام نیند کی حالت میں ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر غسل واجب ہوجاتاہے۔
5۔ حیض ونفاس آنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے البتہ حیض ونفاس آنے کی صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہوگا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور بعد میں اس کی قضا واجب ہے۔
6۔ کسی بھی غذا یا دوائی کو ڈراپ یا سرنج کے ذریعے بطور طاقت جسم میں داخل کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے البتہ نکسیر پھوٹنے یا جسم کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
نوٹ : اپنی بیوی سے جان بوجھ تعلق قائم کرنے پر قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہے اور کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کا آزاد کرنا، یادو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ، یا 60 مسکینوں کو کھانا کھلانا۔
افطاری :
جب بندہ اخلاص نیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے سارا دن بھوکا پیاسا اور شہوات نسوانی سے دو ر رہا تو اب اللہ تعالیٰ نے اس وقت بندے لیے دو عظیم خوشیاں رکھی ہیں ۔ 1) ایک افطار کے وقت کی خوشی ، 2) رب سے ملاقات کے وقت کی خوشی۔
افطاری میں جلدی کرنا
غروب آفتاب کے فوراً بعد بغیر کسی احتیاطی اضافی منٹس کےروزہ افطار کر لینا سنت نبوی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’ لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک کہ افطاری میں جلدی کرتے رہے گے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الصوم ، باب تعجیل الافطار)
روزہ کیسے افطار کریں ؟
رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ تھی کہ آپ روزہ تازہ کھجوروں سے افطارفرماتے تھے اور اگر تازہ کھجوریں میسر نہ ہوتی تو چھواروں سے افطار کرتے اور اگر چھوارے بھی دستیاب نہ ہوتے تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے تھے۔ ( سنن ابی داؤد ، کتاب الصوم ، باب ما یفطر علیہ)
افطار میں دعا کی قبولیت :
فرمان رسول ﷺ ہے ’’ افطار کے وقت اللہ تعالیٰ روزے دار کی دعا کو رد نہیں فرماتا ۔ ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الصیام ، باب فی الصائم لا ترد دعوۃ )
افطاری کی دعا :
محمد رسول اللہ ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے ۔

ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ(سنن ابی داؤد ، کتاب الصوم ، باب القول عند الافطار)

’’پیاس بجھ گئی رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر وثواب ثابت ہوگیا۔‘‘روزہ افطار کرتے وقت یہ کلمات بھی ثابت ہیں اللہم لک صمت وعلی رزقک افطرت(سنن ابی داؤد)
روزہ افطار کروانے کا اجر :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے کسی روزے دار کو افطار کروایا اس(کروانے والے) کے لیے بھی اتنا ہی اجر وثواب ہے جتنا روزہ رکھنے والے کا اجر وثواب ہے بغیر روزہ دار کے اجر میں سے کچھ بھی کمی کے۔ (سنن الترمذی ، ابواب الصوم ، باب ما جاء فی فضل من فطر الصائم)
جس کو افطاری کرائی گئی وہ کیا کہے ؟
افطاری کروانے والے کو بندہ ان مسنون الفاظ سے دعا دے۔

أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ (سنن ابی داؤد ، کتاب الاطعمۃ ، باب ماجاء فی الدعاء لرب الطعام إذا أكل عنده)

|’|’ تمہارے ہاں روزے دار افطار کرتے ہیں اور نیک لوگ تمہارا کھانے کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے رہیں۔‘‘
رمضان المبارک میں خصوصی کام :
1۔ تلاوت : رمضان اور قرآن کا تعلق بہت گہرا ہے کیونکہ یہی وہ ماہ مبارک ہے جس میں اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام کو بندوں کی ہدایت کے لیے آسمان سے نازل فرمایا قرآن مجید میں تصدیق ہے کہ

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ (البقرة:185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ۔‘‘
قرآن پاک اوامر ، نواہی،قصص الانبیاء ، توحید باری تعالیٰ ، رد شرک وکفر، اصول کامیابی وکامرانی، ضابطۂ حیات زندگی، ناکامی کے اسباب ، نصیحتوں،حکمتوں اور اصلاح معاشرہ جیسے مؤثر موضوعات کو تفصیل سے بیان کرتا ہے جس کے پاس بھی قلب سلیم ہوگا ضرور اس کی زندگی مثبت انقلاب لائے گا اور جس کے پاس بھی قلب سقیم ہوگا وہ اس سے فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ظلم تو یہ ہے کہ اس دور میں لوگوں نے فقط رسومات وروایات تک محدود کردیا ہے۔
کہیں قسم اٹھانے کے لیے قرآن مجید کا استعمال کیا جاتا ہے کہیں دولہن کو قرآن مجید کے سایہ میں رخصت کیا جارہا ہے اور ان جیسی مزید باطل رسومات جو ہمارے معاشرے میں عام ہیں قرآن مجید کو ان کاموں اور امور میں استعمال کیا جارہا ہے جن کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں قرآن پاک تو رب تعالیٰ سے براہ راست تعلق بنانے کا نام ہے جس کے لیے ضروری ہے جس کے معانی ومفاہیم کو سمجھا جائے اور اس پر غور وتدبر کیا جائے کہاں صحابہ کا قرآن پڑھنا جن کی تلاوت سے فرشتوں کے آسمان سے نازل ہونا اور قرآن پڑھنا ۔
پیارے حبیب ﷺ کا فرمان ہے ’’ کثرت سے قرآن پڑھا کرو اس لیے کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کرے گا ۔ ( صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل قراءۃ القرآن )
ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مبارک میں کثرت سے تلاوت کلام پاک سے اپنے دلوں کو منور کریں۔
قیام اللیل / صلاۃ تراویح
قیام اللیل یعنی تہجد جیسے ہم خصوصاً رمضان میں تراویح کہتے ہیں پورا سال ہی اس کی اہمیت وفضیلت میں کمی نہیں ہوتی لیکن رمضان المبارک میں اس کی اہمیت زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے ساقی کوثر ﷺ کا فرمان ہے ’’ جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں کا قیام کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔‘‘ ( صحیح بخاری )
رکعات تراویح : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ رمضان ہو یا غیر رمضان گیارہ رکعات سے زیادہ(قیام اللیل) نہیں کیا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی ﷺ باللیل)
اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں صحابہ کے شوق ورغبت کو دیکھتے ہوئے رمضان المبارک میں قیام اللیل کی تین مرتبہ جماعت بھی کرائی مگر پھر فرضیت کے خطرے کے پیش نظر جماعت ترک کر دی آپ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابو حفص عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر سے باجماعت اپنا معمول بنالیا الحمد للہ آج تک جاری وساری ہے (صحیح بخاری ، کتاب الصلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان )
وضاحت : اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ صلاۃ تراویح بدعت نہیں بلکہ آپ ﷺ سے ثابت شدہ سنت ہے اور مزید یہ معلوم ہوتاہے کہ تراویح کی اصل اور مسنون تعداد وتر کے علاوہ آٹھ رکعات ہی ہیں اگر کوئی شخص بغیر سنت سمجھے نوافل کے طور پر مزید پڑھنا چاہیے تو پڑھ سکتاہے مگر وتر سمیت گیارہ رکعت کے علاوہ کسی مخصوص تعداد مثلاً بیس کو مقرر کر لینا اور اسے سنت سمجھنا خلاف حقیقت بات ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ (صدقہ وخیرات)
رسول اکرم ﷺ باقی دنوں میں کثرت انفاق(صدقہ  وخیرات) کرنے کے باوجود اس ماہ رمضان المبارک میں انفاق فی سبیل اللہ کرنے میں تیز آندھی سے بھی زیادہ کیا کرتے تھے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی )
لہٰذا صاحب حیثیت افراد پر واجب ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں اپنے رشتہ داروں،علاقہ والوں اور شہر والوں اور ملک کے غرباء ومساکین کو بھی شریک کریں یعنی اپنے مال سے ان کی دل کھول کر مدد کریں۔
اعتکاف :
اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتاہے اور شوال کا چاند نظر آتے ہی اختتام پذیر ہوجاتاہے رمضان المبارک کی 21 ویں شب شروع ہوتے ہی اعتکاف شروع ہوجاتاہے لیکن معتکف کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعتکاف کے خیمے میں صبح یعنی فجر کی نماز پڑھ کے داخل ہوکیونکہ یہی سنت ہے۔ ( صحیح مسلم ، کتاب الاعتکاف، باب متی یدخل من أراد الاعتکاف)

اعتکاف کی غرض وغایت :

اعتکاف کامطلب اور مقصد دنیا وما فیہا سے بیگانہ ہوکر اپنے آپ کو مسجد کے ایک کونے میں صرف اور صرف اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر دینا ہے اعتکاف کرنے والے کےلیے اعتکاف کی حالت میں ہر وہ کام جو اللہ کے قریب کرے اور گناہوں سے دور کرے اختیار کرنا لازم ہےوگرنہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجائے گا اور بجائے ثواب واجر کے انسان گناہ کا حقدار ٹھہرے گا ان امور میں بکثرت تلاوت قرآن ، قیام اللیل، بالخصوص لیلۃ القدر کا حصول، کثرت نوافل، کثرت دعا ، ذکر واذکار، توبہ واستغفار اور وہ تمام عبادات شامل ہیں جو اللہ کی رضا اور بخشش کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کل ناسمجھ لوگوں نے اعتکاف جیسی عظیم عبادت اور سنت رسول اللہ ﷺ کو بھی وقت پاس ،بیکار محفلوں اور تفریح کا ذریعہ بنا لیا ہے جس میں مساجد کا تقدس بھی پامال کیا جاتاہے یقیناً ایسا اعتکاف باعث وبال ہی ہوگا۔
اعتکاف کی حالت میں ناجائز امور :
1۔ بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلنا ۔
2۔ مریض کی عیادت کرنا
3۔ جنازہ میں شریک ہونا( البتہ جنازہ اگر مسجد میں آجائے تو نماز جنازہ پڑھ سکتاہے)۔
4۔ بیوی سےتعلق قائم کرنا
5۔ کسی بھی قسم کے معاشرتی معاملے میں دخل دینا وغیرہ ناجائز امور میں سے ہیں۔ ( سنن ابی داؤد ، کتاب النکاح، باب المعتکف یعود المریض)
اعتکاف کی حالت میں جائز امور :
اگر مسجد میں انتظام نہ ہو تو قضائے حاجت کیلئے باہر جانا ، غسل کرنا، کپڑے تبدیل کرنا، کنگھی کرنا، ناخن تراشنا، تیل لگانا اور بیوی سے رسمی ملاقات کرنا جائز امور میں سے ہیں۔ ( سنن ابی داؤد ، کتاب النکاح ، باب المعتکف یدخل البیت لحاجۃ)
نوٹ : اعتکاف صرف مسجد میں ہی کرنا مسنون ہے گھر میں اعتکاف کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کو مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے ۔

وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرۃ:187)

’’اور تم مسجد میں ہو حالت اعتکاف میں۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : روزہ اور جامع مسجد کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔(سنن ابی داؤد ، کتاب النکاح ، باب المعتکف یعود المریض)
عورتوں کا اعتکاف بھی مساجد میں ہی ہے اگر مساجد میں محفوظ جگہ نہ ہو تو ان کے لیے اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے گھر پر ہی رہ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہیں۔

لیلۃ القدر :

لیلۃ القدر وہ بابرکت اورمبارک رات ہے جس میں رحمتوں اور برکتوں کے نزول کے ساتھ ساتھ فرشتوں کا بھی نزول ہوتاہے یہ ایک رات ہزار رات(یعنی 83 سال ) مہینوں سے بہتر رات ہے اللہ تعالیٰ نے اسی کے بارے میں مکمل سورت سورت القدر کے نام سے نازل فرمائی جس سے اس رات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
اسے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں21،23،25،27،29 میں تلاش کرنے کا حکم دیاگیاہے۔  ( صحیح مسلم ، کتاب الاعتکاف، باب فضل لیلۃ القدر والحث علی طلبھا)
لیلۃ القدر کی دعا :
لیلۃ القدر میں باقی دیگر عبادات اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ اس دعا کا بھی خصوصی اہتمام کیا جائے ۔

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي(سنن ترمذی،أبواب الدعوات ، حدیث نمبر :3513)

رمضان المبارک کا آخری عشرہ :

اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے بارہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خبر دیتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ راتوں کا اکثر حصہ بیدار رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے اور عبادات میں خوب محنت کیلئے کمر بستہ ہوجاتے۔(صحیح بخاری ، فضل لیلۃ القدر، باب العمل فی عشر الآواخر من رمضان)

توبہ واستغفار اور کثرت دعا :

رمضان المبارک میں قبولیت کی گھڑیوں کومزید بڑھا دیاجاتاہے تاکہ بندہ اپنےرب کے سامنے اپنے گناہوں پر ندامت کرتے ہوئے توبہ واستغفار کرے اور اپنے رب تعالیٰ کو راضی کرکے جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کی منزلوں کا راہی بن جائے قبولیت دعا کے لیے بندہ ان چیزوں سے آراستہ ہو جس میں توحید ، اتباع سنت نبوی، اخلاص نیت، رزق حلال، حضور قلب ، عاجزی وانکساری اور قبولیت کا یقین ہونا شامل ہے ۔ ورنہ دعا رد کر دی جائے گی۔

صدقۃالفطر:

صدقۃ الفطر ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کو زکاۃ الفطر بھی کہاجاتاہے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ الفطر کو فرض قرار دیا ہے ایک صاع کھجور، جوکہ ہر مرد غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت ، بچہ ہو یا بوڑھا یہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور آپ ﷺ نے اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اسے نماز عید کے لیے نکلنے سے قبل ادا کیاجائے۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب فرض صدقۃ الفطر )
ایک صاع حجازی تقریباً ڈھائی کلو موجودہ وزن کے برابر ہے۔
شوال کے چاند نظر آنے کے فوراً بعد صدقۃ الفطر ادا کرنا بہتر ہے البتہ عید سے ایک دو دن قبل بھی دیا جاسکتاہے ۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الزکاۃ ، باب صدقۃ الفطر علی الحر)
صدقۃ الفطر جنس کی صورت میں ہی دینا مسنون ہے اس کے مستحقین وہی ہیں جو زکاۃ کے مستحقین ہیں اسے دینی اداروں کے مستحق طلبہ کو بھی دیا جاسکتاہے مگر تعمیراتی کاموں کے لیے نہیں۔
گھر کے سرپرست کا تمام کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کردینا باقی تمام افراد کے لیے کفایت کر جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما دے جو رمضان المبارک کی برکتوں اور مبارک ساعتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور تلاوت قرآن مجید اور شب بیداری سے اپنے رب کو راضی کرکے جہنم کی آگ سے بچ کر جنتوں کے حقدار بنتے ہیں۔ آمین

عقیدہ اور عقیدت میں فرق

انسان اُنس سے ہے اس لیے لوگ درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں اور کرنی چاہیئے۔ دینِ اسلام انسانی فطرت کا ترجمان ہے اس نے کسی سے جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ کسی کی محبّت میں حد سے نہیں بڑھنا۔ محبت میں جو درجہ بندی کی گئی ہے، اس کا ہر صورت خیال رکھنا ہے اور دنیا وما فیھا سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرنی ہے بلکہ تمام محبتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہونی چاہئیں۔

﴿ قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ا۟قْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۰۰ ﴾ (التوبہ: 24)

’’فرمادیںاگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں، وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو۔اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توانتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اس مقام پر سرورِ دو عالم e کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ واشگاف الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! اگر تمہارے والدین، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہارے رشتے دار،جو مال تم کماتے ہو، تجارت جس کے نقصان سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جو تمہیں بہت پسند ہیں اگر اللہ ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر اللہ کے حکم کا انتظار کرو۔ اللہ کے ہاں ایسے مسلمان نافرمان ہیں جنکی وہ رہنمائی نہیں کرتا ۔
مفسرین نے یہاں حکم سے مراد اللہ کا عذاب لیا ہے یعنی پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں دنیا کی آٹھ بڑی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں پر انسان کی زندگی کا انحصار اور دارومدار ہے ان میں سے کوئی ایک چیز انسان کے پاس نہ ہو توزندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ یاد رہے کہ والدین سلسلۂ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہیں، بیویاں تخلیق انسانی کا وسیلہ ہیں،بیٹے، بھائی اور رشتہ دار درجہ بدرجہ انسان کے لیے معاون اور اس کی قوت کا باعث ہیں، مال  اور کاروبار زندگی کے لیے  استحکام کا ذریعہ ہے۔ مکان صرف سر چھپانے کی جگہ ہی نہیں بلکہ  انسان کی حقیقی دنیا ہی اس کا مکان ہوا کرتا ہے ۔ باقی جہان چلنے ، پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور کاروبار کے لیے ہے۔ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی رہائش گاہ بہتر سے بہتر اور آرام دہ ہو۔ گھر کی محبت انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے یہاں تک کہ پرندے اپنے گھونسلوں اور کیڑے مکوڑے اپنی بلوں سے پیار کرتے ہیں اور رات کے وقت اپنے ٹھکانوں کی طرف پلٹتے ہیں ۔ یہ تمام چیزیں چاہت اور محبّت کا تقاضا کرتی ہیں لیکن حکم ہے کہ ان سب سے زیادہ ’’اللہ‘‘ کی محبّت ہونی چاہیے۔ نبی اکرم e کو جو مقام اور احترام حاصل ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور اس کے کرم کا صلہ ہے۔ اس لیے آپ نے محبّت کا مرکز اور معیار اپنی ذات نہیں بلکہ ’’اللہ‘‘ کی محبّت کو ٹھہرایا۔
عَنْ أَبِی ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللهِ، وَالْبُغْضُ فِی اللهِ (سنن ابی داود: باب مجانبۃ اھل الاھواء)
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے کسی سے ناراض ہونا سب سے افضل عمل ہے۔‘‘

عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ یَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی وَأَهْلِی، وَمِنَ المَاءِ البَارِدِ  قَالَ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ إِذَا ذَكَرَ دَاوُدَ یُحَدِّثُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَعْبَدَ البَشَرِ (سنن الترمذی: ابواب الدعوات)

سیدناابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: داودعلیہ السلام کی دعاؤں میں ایک دعا یہ تھی : ’’اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں اور اس کی محبت کا بھی تجھ سے سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتاہے، اور ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جس سے مجھے تیری محبت حاصل ہو جائے۔ اے اللہ ! میرے لیے اپنی محبت کو میری جان، میرے اہلِ خانہ اور ٹھنڈے پانی کی رغبت سے زیادہ کر دے۔‘‘ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’داؤد علیہ السلام تمام لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ ‘‘

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یَقُولُ:  قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: المُتَحَابُّونَ فِی جَلَالِی لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ یَغْبِطُهُمُ النَّبِیُّونَ وَالشُّهَدَاءُ(سنن الترمذی: باب ما جاء فی الحب فی الله)

سیدنامعاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’میرے جلال کی خاطر آپس میں محبت کرنے والوں کے لیے نوری منبر ہوں گے، جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔‘‘

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ۔۔ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ۔۔(رواہ البخاری: باب الصدقۃ بالیمین)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوںکو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہیں ہو گی۔ ان میں دو آدمی وہ ہونگے  جو آپس میں اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے ملتے اور الگ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید کے ارشاد اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ سچی اور حقیقی محبّت کا معیار اور مدار ’’اللہ‘‘ کی محبت ہے۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دوسروں بالخصوص اپنے معبودوں اور بزرگوں سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے۔

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلهِ وَلَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْیَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِیْعًا وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ﴾ (البقرۃ: 165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ بات دیکھ لیتے جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلی آیت میں اپنی ربوبیت کے آٹھ ایسے دلائل دیئے ہیں۔ جن سے دیہاتی ہو یا شہری، جاہل ہو یا تعلیم یافتہ، عام عقل والا ہو یا انتہائی دانشور، سیاست دان ہو یا سائنس دان۔ سب ان سے اپنی اپنی لیاقت اورصلاحیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اوروہ ان سے استفادہ کرتاہے ۔ ان آیات میں یہ بھی بتلایاگیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں ۔ جب تمام آفاقی عناصر کی تخلیق اورانہیں مسخر اور مقید رکھنے میں زندہ اورمردہ باطل خدائوں،نیک اور بُرے حکمرانوں اور سائنس دانوںکا عمل دخل نہیں اور پورے کا پورا نظا م ایک ہی ہستی کے زیرِ اقتدار ہے تو پھر اسی مالک کو الٰہ ماننا اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑنا چاہیے جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے ۔لیکن مشرک حقیقی عقل سے عاری ہوتا ہے بے شک وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ وہ کائنات کے خالق ومالک سے محبت اور تعلق قائم کرنے کی بجائے اپنے رب سے بڑھ کر دوسروں سے محبت اور تعلق رکھتا ہے، حالانکہ سب سے زیادہ  حقیقی اوردائمی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے۔باقی تمام محبتیں اسی محبت کے تابع ہوناضروری ہیں۔ لیکن مشرک ایسی محبت کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کی ذات اور اس کی محبت کے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس موحّد کادل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد اورجان سے بڑھ کر اپنے رب کی محبت کو عزیز سمجھتا ہے۔ اس کی ہر سوچ اورکام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی محبت اوراس کا حکم ہی کار فرما ہوتاہے۔ رسولِ محترم e اسی بات کی راہنمائی اور اس کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔
یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اور ہر جاندار میں پایا جاتاہے۔ تاہم محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں۔ جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو ۔
اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ eکے ساتھ ساری مخلوق سے بڑھ کر محبت ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ ثَلٰثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَان مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاھُمَا وَمَنْ اَحَبَّ عَبْدًا لَّا یُحِبُّہُ اِلَّا  لِلہِ وَمَنْ یَّکْرَہُ اَنْ یَّعُوْدَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُّلْقٰی فِی النَّارِ (رواہ البخاری: باب حلاوۃ الایمان)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کا فرمان ذکر کرتے ہیں جس شخص میں یہ تین خوبیاں موجو د ہوں اس نے ایمان کی لذت کو پالیا ( ۱)جس کے لیے اللہ اور اس کا رسول e ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو جائیں۔ (۲) جس نے صرف اللہ ہی کے لیے کسی سے محبت کی۔ (۳) جو کفر میں پلٹنا اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ اپنے آپ کو آگ میں ڈالاجانا ناپسند کرتا ہے جس سے اللہ نے اس کوبچا لیا ہے۔

عَنْ أَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ ﷺ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (رواہ البخاری:  باب حب الرسول من الإیمان)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اس کے والدین، اُسکی اولا د اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔ ‘‘

عَنْ عَبْدَ اللهِ بْنَ هِشَامٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِیِّ ﷺ وَهُوَ آخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ یَا رَسُولَ اللهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ لاَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَیْكَ مِنْ نَفْسِكَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ فَإِنَّهُ الآنَ وَاللهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ الآنَ یَا عُمَرُ (رواہ البخاری: باب کیف کانت یمین النبی ﷺ)

سیدنا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ نے عمر بن خطاب ؄ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا سیدناعمر ؄ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ آپ مجھے میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک تم مجھے اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ سمجھو گے، حضرت عمر ؄ نے عرض کیا اب اللہ کی قسم آپ مجھ کو میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمر اب تیرا ایمان مکمل ہو گیا۔‘‘
نبیﷺ کے فرمان کی لطافت اور ذہانت پر غور فرمائیں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ سے زیادہ یا اس کی محبّت جیسی محبّت کرو۔ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میرے ساتھ اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کریہاں تک کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبّت کرو۔ بالفاظِ دیگر خالق سے زیادہ نہیں بلکہ پوری مخلوق سے بڑھ کرمیرے ساتھ محبت کرو۔ لیکن لوگوں نے بالخصوص مذہب کے دعوے داروں کی غالب اکثریت نے انبیاء اور بزرگوں کی محبّت میں اس حد تک غلو کیا کہ انبیاء کرام کو خدا کا درجہ دیا اور بزرگوں کو انبیاء کے برابر کر دیا۔

﴿ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَا  اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اِلٰهًا وَّاحِدًا لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ﴾ (التوبہ: 31)

’’ انہوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں اورمسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے، حالانکہ انہیں حکم تھا کہ صرف ایک الٰہ کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اس سے پاک ہے جنہیں وہ شریک بناتے ہیں۔ ‘‘
یہودیوں نے جہالت اور عقیدت کی بناء پر یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر علیہ السلام ’’اللہ‘‘ کے بیٹے ہیں جس کے مفسرین نے دو سبب بیان کیے ہیں ایک یہ کہ جب موسیٰ uکی موت کے بعد یہودیوں پر بخت نصر نے حملہ کیا اوراس نے تورات کوکلی طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔جس سے ایک وقت آیا کہ تورات دنیا میں ناپیدہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے دین موسوی کی تجدید کے لیے حضرت عزیر علیہ السلام کو مبعوث فرمایاجنھوں نے وحی الہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام سو سال تک فوت رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیںپھر زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا گیا۔ لیکن کھانا جو حضرت عزیر کے ساتھ تھا وہ اتنی مدّت گزرنے کے باوجود اسی طرح ترو تازہ رہا۔ اس کی تفصیل سورۃ البقرۃ: آیت ۲۶۰ میں بیان ہوئی ہے۔ اس معجزہ کی بنا ء پر یہودیوں نے عقیدت میں آ کرحضرت عزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا، ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید سورۃ المائدۃ کی آیت ۷۵ میں کی گئی ہے۔

﴿ مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَ اُمُّهٗ صِدِّیْقَةٌ كَانَا یَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَیْفَ نُبَیِّنُ لَهُمُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ ﴾ (المائدة:75)

’’مسیح ابن مریم ایک رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھاناکھایاکرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح کھول کر آیات بیان کرتے ہیں ،پھروہ کیسے بہکے جاتے ہیں۔ ‘‘
یا د رہے! جب انسان گمراہی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اس کی گمراہی کی کوئی انتہا نہیں رہتی، یہی کیفیت یہود و نصاریٰ کی تھی اور ہے۔ انھوں نے اپنے انبیاء، علماء ، درویشوں اور بزرگوں کو رب کا درجہ دے دیا تھا بالخصوص عیسائیوں نے مسیح ابن مریم uکو خدائی مقام پر پہنچا یا حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ خالص ایک اللہ کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ،جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور ہر قسم کی شراکت سے مبرا اور پاک ہے۔
عدی بن حاتم طائی مسلمان ہوئے تو اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے عرض کی: اللہ کے رسول! اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے علماء اور صلحاء کو اپنا رب بنا لیا ہے ہم نے تو کبھی انھیں رب نہیں بنایا؟ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا :

أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوہُ

 ’’بلاشبہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب انکے علما اور پیر کسی چیز کو ان کے لیے حلال کہتے تو وہ اس کو حلال گردانتے اور جب وہ کسی چیز کو حرام کرتے تو وہ اس کو حرام سمجھتے تھے ۔‘‘(رواہ الترمذی:  باب من سورۃ التوبۃ)

عَنْ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ  وَرَسُوْلُہٗ (رواہ البخاری: کتاب احادیث الانبیاء)

سیدناعمررضی اللہ عنہ ذکر کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میری تعریف میں مبالغہ آرائی نہ کرنا‘ جس طرح عیسائیوں نے عیسٰی بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا۔میں  ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اوراس کا رسول کہو۔ ‘‘

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا أَنَّ أُمَّ حَبِیبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِیسَةً رَأَیْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِیهَا تَصَاوِیرُ، فَذَكَرَتَا للنَّبِیِّ ﷺ فَقَالَ إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِیهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِیهِ تِیكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ القِیَامَةِ (رواہ البخاری: باب ھجرۃ الحبشۃ)

سیدہ عائشہ r بیان کرتی ہیںکہ ام سلمہ r اورام حبیبہ r نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا اوراس میں موجود تصاویر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں میںسے جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پرعبادت گاہ تعمیر کرتے اور پھراس میں تصویریں بنا دیتے تھے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ قیامت کے دن بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

﴿یٰاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَا اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ اِنْتَهُوْا خَیْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا﴾ (النساء:171)

’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے ذمہ سچی بات کے سواکچھ نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ بن مریم اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے مریم کو القا کیا اور ا للہ کی طرف سے ایک روح ہیں پس اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائو اور یہ نہ کہو کہ الٰہ تین ہیں ، اس سے باز آجائو یہ تمہارے لیے بہترہے اللہ ہی معبودبر حق ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور اللہ ہی کارساز ہے ۔‘‘
یہاں عیسائیوں کو دین میں ’’غلو‘‘ کرنے سے روکا گیا ہے جو اراہی کا اصل سبب ہے۔ غلو کا معنیٰ ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے عیسیٰ uکے بارے میں تعصب کیا اور وہ اس میں اتنا آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ uاور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے۔ جناب عیسیٰ u اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ uنے بار ہا دفعہ فرمایاتھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ تورات کی تعلیمات کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن غلو کا ستیاناس ہو جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرایا۔ ان کے برعکس عیسائیوں نے دوسری انتہا کو اختیار کرتے ہوئے سیدناعیسیٰ uکو خدا کا بیٹا اورمریم کو خدا کی بیوی قرار دیا اور گمراہ ہوئے۔ عیسائیوں کو اس سے روکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰu کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں، خداکی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ غَدَاةَ الْعَقَبَةِ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقُطْ لِی حَصًى فَلَقَطْتُ لَهُ سَبْعَ حَصَیَاتٍ هُنَّ حَصَى الْخَذْفِ فَجَعَلَ یَنْفُضُهُنَّ فِی كَفِّهِ وَیَقُولُ أَمْثَالَ هَؤُلَاءِ فَارْمُوا ثُمَّ قَالَ یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِیَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّینِ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّینِ (سنن ابن ماجہ: باب قدر حصی الرمی)(حسن)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے جمرئہ عقبہ کی صبح کے وقت فرمایا، آپ اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، میں نے آپ کو سات کنکریاں دیں۔ آپ نے انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلا تے ہوئے فرمایا: ان جیسی کنکریاں مارو، پھر فرمایا: ’’لوگو ! دین میں غلو سے بچو کیو نکہ تم سے پہلے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلا ک ہوئے۔‘‘

عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَیْتُ الْحِیرَةَ فَرَأَیْتُهُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَقُلْتُ رَسُولُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ یُسْجَدَ لَهُ، قَالَ: فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ فَقُلْتُ إِنِّی أَتَیْتُ الْحِیرَةَ فَرَأَیْتُهُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَهُمْ فَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللهِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَكَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِی أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ:فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللهُ لَهُمْ عَلَیْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ (سنن ابی داؤد: باب فی حق الزوج علی المرأۃ)

سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا وہاں  دیکھا کہ وہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں سوچا: اللہ کے رسول ﷺ زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے۔ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں حیرہ شہر گیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنے سردار کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ نے فرمایا: بتاؤ کہ تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرو اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کیا کریں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے  شوہروں کا حق مقرر کیا ہے ۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِیِّ ﷺ مَا شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ ﷺ أَجَعَلْتَنِی وَاللهَ عَدْلًا بَلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ (مسند احمد: مسند ابن عباس) (صحیح)

سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے کہا: وہ ہوگا جو اللہ اور آپ چاہیں گے۔ آپ نے فرمایا: تو نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا ہے؟ بس اتنا کہو ’’وہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ چاہے گا۔‘‘
سیدہ ربیع رضی اللہ عنہ بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں میری رخصتی ہوئی تو نبی کریم میرے ہاں تشریف لائے اور تمہاری طرح میرے بستر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہماری بچیوں نے دف بجانا شروع کی اور جو میرے باپ دادا بدر میں شہید ہوئے تھے ان کے اوصاف بیان کرنا شروع کیے۔ اس دوران ایک لڑکی نے کہا ’’ہم میں اللہ کا نبی ہے جو کل کی باتیں جانتا ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بات نہ کہو۔ وہی بات کہو جو تم پہلے کہہ رہی ہو۔ (رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ: کتاب المغازی)

ماہ رمضان نیکیوں کی بہار

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں اس نے رمضان میں قرآن نازل فرمایا جو : تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے نیز اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل بھی ہیں [البقرة: 185] اللہ تعالی نے ماہ رمضان کو تمام مہینوں اور اوقات پر فضیلت والا بنایا، میں حق سچ اور ایمان پر مبنی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ اولاد عدنان کے سربراہ اور سب جہان والوں کیلئے اس دن شفاعت کریں گے جس دن کی ہولناکی سے بچے بھی بوڑھے ہو جائیں گے، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں پر رحمت نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:اللہ کے بندو میں آپ سب کو خلوت و جلوت میں تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ تعالی نے پہلے گزر جانے اور بعد میں آنے والے سب لوگوں کو اسی کی نصیحت فرمائی ہے: اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے کتاب دیئے جانے والے لوگوں کو اور تمہیں یہی نصیحت کی ہے کہ تقوی الہی اختیار کرو۔[النساء: 131]
اللہ کے بندو! اللہ تعالی نے اپنی عنایتوں ،مہربانیوں اور بندگی کیلئے خصوصی بہاریں بنائی ہیں، ان میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور سب کو برکتیں ملتی ہیں، ان پاکیزہ بہاروں اور اوقات میں ایک ایسا مہینہ بھی ہے جس میں جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دئیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے چوپٹ کھول دئیے جاتے ہیں، یہ مہینہ انتہائی قریب آ گیا ہے اس کے شروع ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں۔
اللہ کے بندو!اس لیے اب کمر کس لو! سستی اور کاہلی سے اپنے آپ کو بچاؤ، یہ گنتی کے دن ہیں، یہ کوئی لمبا چوڑا وقت نہیں ہے، اس معمولی وقت میں لہو و لعب میں پڑنے کی گنجائش نہیں ، اس میں سستی اور کاہلی کا کوئی موقع نہیں، یہ ماہ گناہوں اور برائیوں کیلئے نہیں ؛ کیونکہ اس میں کسی بھی عمل کا بدلہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔
اب کوئی بخل سے کام لے گا تو وہ اپنے آپ سے بخیلی کرے گا۔[محمد: 38]
اور گناہ کا ارتکاب کرنے والا اپنا ہی نقصان کرے گا۔
[النساء: 111]
اب خود ہی اللہ تعالی کو اپنا مثبت کردار دکھاؤ، کیونکہ اس ماہ میں رحمت الہٰی سے محروم کر دیا جانے والا شخص بد بخت ہے!!
اس ماہ کیلئے تیاری انتہائی ضروری ہے اور تیاری کیلئے سچی توبہ کے ساتھ تقوی مل جائے تو یہ بہترین زادِ راہ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 183]
اللہ کے بندو!اللہ تعالی نے تم پر روزے اس لیے فرض نہیں کیے کہ تم بھوکے ، پیاسے اور نقاہت سے چور ہو جاؤ، فرضیت کا مقصد تقوی ہے، لہذا روزوں کے فرض کرنے کا ہدف متقی بنانا ہے، تو بہت سے روزے دار ایسے بھی ہیں جنہیں روزے سے بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا!! اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں جنہیں قیام کی وجہ سے تھکاوٹ اور بے خوابی ہی میسر آتی ہے!!
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے’’جو شخص خلاف شریعت بات کہنے اور بولنے سے احتراز نہ کرے تو اللہ تعالی کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
’’روزہ ڈھال ہے، چنانچہ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو بیہودہ باتیں کرنے اور چیخنے چلانے سے گریز کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی کرے تو اسے بتلا دے: میں روزے سے ہوں۔‘‘
لہٰذا روزے کی حالت میں محض [کھانے پینے جیسے]جائز امور چھوڑ کر مکمل قربِ الہی حاصل نہیں ہوگا، بلکہ اس کیلئے ان تمام گناہوں کو چھوڑنا بھی ضروری ہے جو ہر حال میں حرام ہیں جیسے کہ جھوٹ بولنا، ظلم کرنا، لوگوں پر زیادتی کرنا، چاہے ان کا تعلق خون، مال اور عزت آبرو کسی بھی چیز سے ہو۔
لہٰذا رمضان کے روزے رکھو تو روزوں کا خیال بھی کرو: اللہ تعالی سے ڈرو اور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔[البقرة: 223]
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے رکھے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، جو شخص رمضان میں قیام ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، اور جو شخص لیلۃ القدر کا قیام ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
اللہ کے بندو!روزہ افضل ترین عبادت اور اطاعت ہے، اس کا ثواب بھی سب سے عظیم ہے۔
روزہ صبر کرنے والوں کی عبادت، متقی لوگوں کا زادِ راہ، کامیاب لوگوں کیلئے ذخیرۂ آخرت ہے۔
روزے کا ثواب بہت بڑا ہے، اس سے ملنے والی بھلائی بہت زیادہ ہے، ثواب میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
روزہ بیماریوں سے شفا کا باعث ہے، روح اور جسم کی صحت، طاقت اور علاج کا ذریعہ ہے، نیز جسمانی تربیت بھی ہے، پھر ان سب سے بڑھ کر پروردگار کی اطاعت اور گناہوں کی مغفرت کا باعث بھی ہے۔
روزے کی فضیلت میں اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے ابن آدم کے اعمال دو قسموں میں تقسیم کئے ہیں، اور روزوں کو مستقل الگ قسم قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ، جبکہ ابن آدم کے دیگر تمام اعمال کو دوسری قسم میں شامل فرمایا، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ابن آدم کی تمام نیکیاں دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں، لیکن اللہ تعالی کا فرمان ہے: سوائے روزے کے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا، روزے دار میری وجہ سے اپنی خواہشات اور کھانا پینا چھوڑتا ہے، روزے دار کیلئے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی روزہ افطار کرتے ہوئے اور دوسری خوشی اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت۔
روزے دار کے منہ کی مہک اللہ تعالی کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔
جنت میں اللہ تعالی نے روزے داروں کیلئے ایک دروازہ مختص کر دیا ہے، وہاں سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا، اسی طرح روزے داروں کیلئے خصوصی مہمان نوازی بھی تیار کی ہوئی ہے جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوگا، چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، یہاں سے قیامت کے دن روزے دار داخل ہوں گے، ان کے ساتھ کوئی اور داخل نہیں ہو گا، کہا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ تو روزے دار اس میں سے داخل ہو جائیں گے ، جب آخری روزے دار داخل ہو جائے گا تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور روزے داروں کے علاوہ کوئی بھی وہاں سے داخل نہیں ہو سکے گا، اس دروازے سے داخل ہونے والا پانی پیے گا اور جو پانی پی لے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
اللہ کے بندو!رمضان مغفرت کا مہینہ ہے، اس میں گردنوں کو آزاد کیا جاتا ہے، اس لیے رمضان میں اللہ تعالی کی رحمتیں لوٹ لو ، حصولِ رحمت کے اسباب اور ذرائع اپناؤ؛ بیشک وہ بہت ہی سخی، کرم کرنے والا اور عطا کرنے والا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺ منبر پر چڑھے اور فرمایا: (آمین) پھر دوسری سیڑھی چڑھے اور فرمایا: (آمین) پھر تیسری سیڑھی چڑھے اور فرمایا: (آمین)، پھر آپ منبر پر بیٹھ گئے، تو صحابہ کرام نے پوچھا: آپ نے کس چیز پر آمین کہا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میرے پاس جبریل نے آ کر کہا:
اس شخص کا ستیاناس ہو جس کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو میں نے کہا: آمین۔
پھر جبریل نے کہا: اس شخص کا ستیاناس ہو جو اپنے والدین کو پا کر بھی جنت میں نہ جا سکے، تو میں نے کہا: آمین پھر جبریل نے کہا: اس شخص کا ستیاناس ہو جو رمضان تو پائے لیکن اس کی مغفرت نہ ہو سکے، تو میں نے کہا: آمین
اس محرومی ،رسوائی ، برے فیصلے اور ناکامی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
گزشتہ رمضان میں کوتاہی برتنے والے! اب سابقہ رمضان تو گزر چکا ، لیکن اللہ تعالی نے ایک بار پھر زندگی میں رمضان کا موقع دیا ہے، اللہ کی اس نعمت پر شکرانہ ادا کرو، اچانک موت آنے سے پہلے اپنے رب سے ناتا جوڑ لو، مبادا عمر ضائع ہو جائے، تو اس وقت واویلہ کرتے ہوئے ہائے افسوس! ہائے بربادی! ہائے مر گئے! ہائے تباہ ہو گئے! کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
پروردگار! کاش توں مجھے تھوڑی سی مہلت دے دیتا تو میں صدقہ خیرات کر کے نیک لوگوں میں شامل ہو جاتا۔ [المنافقون: 10]
اسی طرح فرمان باری تعالی ہے: پروردگار! مجھے واپس لوٹا دیںامید ہے کہ میں چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک عمل کر لوں۔ ہر گز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو ایک بات ہے جو اس نے کہہ دی ہے، اور ان کے دوبارہ جی اٹھنے تک ایک رکاوٹ حائل ہو چکی ہے۔[المؤمنون: 99، 100]
اور اللہ تعالی کسی نفس کا وقت آنے پر ہرگز تاخیر نہیں فرماتا۔ [المنافقون: 11] آہ !! افسوس در افسوس ہے ایسے شخص پر!!!
اللہ کے بندو!نیکی کی تھکاوٹ ، مشقت، اور تکان ختم ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کی لذت اور اجر اخروی زندگی کیلئے ذخیرہ اور خزانہ بن جاتی ہے۔
جبکہ گناہ کی لذت وقتی ہوتی ہے لیکن اس کے بد اثرات ہمیشہ اور پوری زندگی رہتے ہیں، نیز آخرت میں عذاب اور عقاب کا باعث بھی بنتے ہیں۔

تَفْنَى اللَّذَاذَةُ مِمَّنْ نَالَ صَفْوَتَهَا مِنَ الْحَرَامِ وَيَبْقَى الوِزْرُ وَالْعَارُ

حرام کام سے لذت حاصل کرنے والے کی لذت ختم ہو جاتی ہے جبکہ حرام کام کا گناہ اور اس کی عار باقی رہتی ہے

تَبْقَى عَوَاقِبُ سُوْءٍ فِيْ مَغَبَّتِهَا لَا خَيْرَ فِيْ لَذَّةٍ مِنْ بَعْدِهَا النَّارُ

حرام کام کے برے نتائج باقی رہتے ہیں، اور ایسی لذت میں کوئی خیر نہیں جس کے بعد آگ ملے۔
کوئی مرد ہو یا عورت ایمان کی حالت میں وہ نیک عمل کرے تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا فرمائیں گے، اور ہم اسے اس کے اعمال کا اعلی ترین اجر لازمی نوازیں گے۔[النحل: 97]
اللہ تعالی میرے اور آپ کیلئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، ہمیں اپنے نبی کریم کی سنت اور آپ کی رہنمائی کے مطابق چلنے کی توفیق دے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلئے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اللہ تعالی نے امن کو ایمان کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے فرمایا: جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم [شرک] سے داغ دار نہیں کیا تو انہی لوگوں کیلئے امن ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام: 82]
اللہ کے بندو!عبادت میں اطمینان، سکون اور امن کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ اگر دلوں میں دہشت ، رعب، خوف و ہراس گھر کر جائے تو عبادت میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا، بلکہ رکوع و سجود میں لذت ہی نہیں رہتی۔
اللہ تعالی نے ہم پر ڈھیروں نعمتیں برسائیں، ہمیں امن و امان کی دولت سے نوازا، اس وقت جن فتنوں سے دیگر لوگ نبرد آزما ہیں ہمیں ان سے محفوظ رکھا ، ان فتنوں کی وجہ سے ان کے مال و جان، املاک اور اتفاق و اتحاد سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔
امن و امان بہت بڑی اور انمول نعمت ہے اس کی قدر اسی کو معلوم ہے جن کا امن و امان چھن گیا؛ اس لیے ہم پر ہر وقت اور ہر لمحے اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے، امن و امان اور نعمتِ ایمان پر یا اللہ ! تیری ہی شکر کرتے ہیں، اللہ! تو نے ہمیں رمضان ایک بار پھر نصیب فرمایا ، اس پر بھی ہم تیرا شکر کرتے ہیں۔
ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ جو بھی ہمارے امن و امان سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کرے تو ہم اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، جو ہمارے اتفاق و اتحاد میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرے یا ہمیں کمزور کرنے کی سازش کرے ہم اس کے خلاف متحد ہو جائیں۔
بھائیو! اغیار کا ہدف ہمارا عقیدہ اور دین ہے، جب بھی مسلمان اپنے کسی مذہبی تہوار کیلئے تیاری کرتے ہیں تو اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے مکاریاں کی جاتی ہیں، مسلمانوں کے خلاف فتنہ پروری کی کوشش کی جاتی ہے۔
ارکان اسلام کی اجتماعی ادائیگی، ماہِ رمضان کی رونق اور حج عمرے کی پر امن ادائیگی یہ سب امور [اس ملک کے حق میں]شاہد عدل ہیں۔
اللہ تعالی پر مکمل اعتماد کے بعد ہم اپنی ملکی قیادت اور عقیدے پر بھروسا کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ دھوکا باز کبھی کامیاب نہیں ہو ں گے، ان کے حصے میں ہمیشہ ناکامی ہی آئے گی، ان کی مکاری انہی کی تباہی کا باعث بنے گی۔
اپنے نفس کے دھوکے میں آنے والا! شیطان کے دھوکے میں آ کر اس ملک کے امن و امان اور استحکام کے خلاف مکاریاں کرنے والا ہمیشہ اپنے کھودے ہوئے گڑھے میں گرے گا؛ کیونکہ: مکاری کی تباہی مکار کو ہی لے ڈوبتی ہے۔[فاطر: 43]
اللہ کے حکم سے ہمارا ملک اپنے عقیدے اور اتحاد پر ذرہ برابر بھی لچک نہیں دکھائے گا، اور اللہ تعالی ہمارے ملک کے امن و امان اور دین کو تحفظ عطا کرے گا۔
وہ اس گھر کے پروردگار کی عبادت کریںجس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور دہشت سے امن عطا کیا۔ [قريش: 3، 4]
اللہ تعالی اس ملک کی شدت پسند بیوقوفوں، دغا بازوں اور شیطان مردود سے حفاظت فرمائے، اکھڑ مزاج اور بد نام زمانہ لوگوں سے اس کی حفاظت فرمائے جو ہمیشہ اس ملک کے خلاف مکاری کرتے ہیں، ان کی یہ مکاری انہی کی تباہی کا باعث ہوگی، اللہ تعالی ان کی عیاری انہی کی بربادی کا باعث بنائے، ان کی نسلیں تباہ و برباد فرمائے اور انہیں دوسروں کیلئے عبرت بنا دے۔
آمین

فتاویٰ

فتاویٰ

سوال :اگر کوئی شخص روزہ دار سورج غروب ہونے سےایک گھنٹہ قبل یا اس سے پہلے ہوائی جہاز میںسفر کرتا ہے اور وہ شہر سے دور بھی ہوجاتا ہے تو اس صورت میں روزہ کس وقت افطار کیا جائے گا؟
جواب :اگر کوئی روزہ دار جہاز میں سورج غروب ہونے سے قبل سوار ہوا ہے تووہ جہاز میں اس وقت تک افطار نہیں کرے گا جب تک وہ سورج کو غروب ہوتا نہ دیکھ لے یاسورج غروب ہوجائے یا وہ کسی ایسے شہر میں اترے جہاں سورج غروب ہوچکا ہے اس کی دلیل میں سیدناعمربن خطاب رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا

إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ (بخاری 1954)

جب رات اس سمت میں آئے اوردن اس سمت سے چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تواس وقت روزہ دار روزہ افطار کرے گا  ۔
صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں نبی کریمﷺ نے فرمایا :
جب تم رات کو اس سمت سے آتا دیکھو تو اس وقت روزہ دار روزہ افطار کرے (بخاری )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی مشرق کی سمت سے دن آجا تا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کا اندھیرا محسوس ہونے لگے (فتح الباری جلد 4ص250)
حاصل کلام یہ ہے کہ غروب شمس سےر ات کا آنا اور دن کا چلے جانا ثابت ہوجاتا ہے اورا س وقت ہی روزہ دار افطار کرتا ہے اس لیے جب سورج ایسے مقام پر غائب ہو جہاں سے روزہ دار اسے دیکھ سکتا ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بغیرکسی تردد کہ روزہ افطار کرے ۔

سوال :آج کل جدید اور آرام دہ سواریوں (لگژری گاڑیوں اور ہوائی جہاز )کی وجہ سے سفر کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے جس میں روزہ رکھنے کے باوجود بھی کوئی تکلیف اور مشقت نہیں ہوتی توکیا ایسی حالت میں روزہ چھوڑنا درست ہے؟
جواب:جی ہاں ایسے شخص کے لیے روزہ ترک کرنا حالت سفر مین درست و جائز ہے چاہے کتنی ہی جدید اور لگژری گاڑیوں میں سفر ہورہا ہے اور اگر تکلیف ومشقت کااحساس ذرہ برابر بھی ہوتا ہے
قرآن مجیدکی سورۃ البقرۃآیت نمبر 184میں رب تعالی نے مسافروں کو واضح چھٹی دی ہے

وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۔

پس تم میں جو مریض ہو یا مسافر ہو وہ اگلے ایام میں اپنی گنتی مکمل کرلے۔
اس آیت مبارکہ میں سفر میں روزہ چھوڑنے کا جواز ملتا ہے جس میں تکلیف ومشقت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
اور حدیث مبارکہ میں محمد بن کعب فرماتےہیں کہ

 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَيْتُ أَنَسَ بْنِ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ سَفَرًا، وَقَدْ رُحِلَتْ لَهُ رَاحِلَتُهُ، وَلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ لَهُ: سُنَّةٌ؟ قَالَ: سُنَّةٌ ثُمَّ رَكِبَ.(ترمذی 799)

 میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ پاس رمضان میں آیا تو وہ سفر کی تیا ری کر رہے تھے اور انکی سواری اور سفر کا سامان تیار ہوچکا تھا اسی دوران انھوں نے کھانا منگوایا اور کھا لیا تو میںنے پوچھا کیا یہ عمل سنت ہے ؟تو انھوں نے کہاجی ہاں سنت ہے پھر انس بن مالک سواری پرسوار ہوگئے۔
سوال:روزے کی نیت کے بارےمیںقرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں؟نیز ہمارے ہاں ایک مخصوص دعاکہلوائی جاتی ہے نیت روزہ کے اعتبار سے اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟
جواب:جی ہاں روزے کے لیے نیت کرناواجب ہے بغیر نیت کے کوئی بھی روزہ قابل قبول نہیں ہوگاجیساکہ
ابو داؤد  کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا

من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلا صيام له.

جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہیںکی اس کا روزہ نہیں ہے اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر نیت کہ کوئی روزہ قابل قبول نہیں ہے اگر کوئی شخص بغیر نیت کے روزہ رکھتاہے اور پورے دن میں بھوکاپیاسا رہتاہے تواس کا بھوکا وپیاسارہنا فاقہ کہلائے گا مگر یہ بھی یاد رہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے کسی بھی حدیث سے لفظ بہ لفظ نیت کے الفاظ ثابت نہیں ہے  البتہ معاشرے میں جو آجکل ایک مخصوص دعاکہلوائی جاتی ہے

(وبصوم غد نویت من شھر رمضان)

’’میں نے ماہ رمضان کے روزے کی نیت کی ‘‘
یہ الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے دلچسپ بات یہ کہ اگر مذکورہ دعاکے معانی ہے غور وفکر کیاجائے تو لغت کے لحاظ سے نیت بھی آئندہ آنے والے دن کے بارے میں کی جارہی ہے جیسا کہ
اصل الغد وھو الیوم الذی یا تی بعد یومک
(حوالہ لسان العرب )
لفظ غد ک اصل یہ ہے کہ وہ دن جو تیرے آج کے دن کے بعد ہوگا اور مصباح الغات میں بھی لفظ غد کے معنی آئندہ کل ،اور وہ دن جس کا انتظار کیا جا ئے۔

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں قسط 17

انتیسواں اصول:

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)

’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے۔‘‘
اس قرآنی اصول کا لوگوں کی ز ندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘ اور اِس زمانے میں جبکہ خبریں نقل کرنے کے وسائل بہت ترقی کر گئے ہیں‘اس اصول کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ ظاہری اور پوشیدہ ہر دو قسم کے دشمنوں کے آپس میں گٹھ جوڑ بھی گہرے ہو گئے ہیں۔
یہ قاعدہ بنیادی طور پراہل کتاب اور بالخصوص یہودیوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے‘ جن کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے اور اپنے بندوں کو ان کے راستے پر چلنے سے خبردار کیا ہے۔ اہلِ کتاب میں سے گمراہ علماء کو ہی دیکھ لیجئے‘ یہ دشمنوں کی ایک قسم ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہی ہمیں یہ سچی خبر اس قرآنی اصول میں دے رہا ہے:

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)’

’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے‘‘ تو ہمیں خود سے ان لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جن کو اللہ ہمارے دشمن قرار دے رہا ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات کہنے والا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر دینے والاکوئی نہیں۔
سب سے بڑے دشمن یہ ہیں:
1اللہ کا دشمن ابلیس۔ کسی دوسرے دشمن  کے بارے میں اِس قدر نہیں ڈرایا گیا جس قدر شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ قرآن میں کتنی ہی بار اس کو کھلا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کی حقیقت کو واضح کرنے اور ہمارا اس کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے‘ اس سلسلے میں درجِ ذیل آیت انتہائی واضح ہے‘ فرمایا:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (فاطر:6)

’’یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے‘ پس تم اُسے دشمن جانو۔ وہ تو اپنے گروہ کو صرف اسی لیے  بلاتا ہے کہ وہ سب واصل جہنم ہو جائیں۔‘‘
2ہمارے خلاف جنگ کرنے والے کافر‘ اور انہی کا کردار ادا کرنے والے‘ جن کی ساری محنت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دین کو ہی بدل دیں یا اس کی ساری شکل ہی بگاڑ دیں۔ سورۃ النساء میں خوف کی نماز کے حوالے سے فرمایا:

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَــکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا (النساء:101)

’’جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ یقینا ً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘
شریعت کا کمال یہ ہے کہ اس نے دشمنوں کی قسموں میں بھی فرق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میںہمیں ان کافروں سے دوستی کرنے سے منع کیا ہے جو ہم سے جنگ کر رہے ہوں۔ فرمایا:

لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الممتحنۃ:8۔9)

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا اُن کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی۔ جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ قطعا ًظالم ہیں۔‘‘
3تیسری قسم کے لوگ جن کی دشمنی کو قرآ ن نے بیان کیا‘ بلکہ ان کی دشمنی کو شدید قرار دیا‘ وہ منافق ہیں جو ایمان کا دکھاوا کرتے ہیں اور دل میں کفر رکھے ہوئے ہیں۔ اُن لوگوں کی دشمنی کی شدت درجِ ذیل باتوں سے واضح ہوتی ہے :

بقیہ: قرآن کریم کی اصولی باتیں
اوّل: سورۃ الفاتحہ سے لے کر آخر قرآن تک منافقوں کے علاوہ کسی دوسرے گروہ کے بارے میں ’’العَدُوّ‘‘ (پکے کافر‘ معرفہ جس پر ال لگا ہو) نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے بارے میں فرمایا :

ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ قٰــتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ

’’یہی دشمن ہیں اِن سے بچو! اللہ انہیں غارت کرے‘ کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔‘‘(المنٰفقون :4)
قرآنِ کریم اور سنت ِ نبویﷺ میں کسی بھی گروہ یا مذہب کی صفات کی ایسی تفصیل بیان نہیں ہوئی جیسی کہ منافقوں کے گروہ کی بیان ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ان کی کثرت تھی اور اُن سے واسطہ بھی زیادہ رہتا تھا‘ اور ان کا اسلام اور مسلمانوں کے لیے فتنہ بھی زیادہ تھا۔
جب یہ سب حقائق واضح ہو کر سامنے آگئے تو اس قرآنی قاعدے پرغور کرنے کی اہمیت بھی واضح ہو گئی: وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے‘‘۔ استثنائی حقائق کی موجودگی یامخصوص حالات ہمیں دشمن کے بارے میں حقائق جاننے سے دھوکے میں نہ ڈال د یں‘کیونکہ جس ذات نے ہمیں ان دشمنوں کے بارے میں خبر دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے ہمیں بھی پیدا کیا ہے اور ان دشمنوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اور سارے جہان والوں کے سینوں میں کیا چھپا ہوا ہے‘ وہ اسے بھی جانتا ہے:

اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ

’’کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ خوب واقف نہیں ہے!‘‘(العنکبوت10)
نیز فرمایا:

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ

’’کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ؟ پھر وہ باریک بیں اور باخبر بھی ہے!‘‘(المُلك:14)
اے اللہ ! حق کو ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح کردے اور ہمیں اس کی پیروی کی توفیق بھی عطا کر دے۔ اور باطل کو بھی ہمارے سامنے پوری طرح واضح کر دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔آمین!

پیغامِ قرآن ورمضان

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ  ( البقرۃ: ۱۸۳)

’’اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیاہے جس طرح سے ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں شاید کہ تم متقی بنو۔
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رحمتوں، بخششوں ، عظمتوں اور مغفرتوں والا ماہ مقدس سایہ فگن ہورہاہے ۔مساجد کی رونق بڑھ جائے گی فرزندانِ توحید تقوی کے حصول کیلئے دنیاوی ناز ونعم کو ترک کرکے اپنے رب رحیم وکریم کا حکم بجا لانے میں مستعد ہوجائیںگے سارا سال کاہلی اور سستی کرنے والا مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر کوشش کرے گا کہ برے کاموں سے بچا رہے ۔ درحقیقت روزہ اسی کا ہے جو کھانے ، پینے ، شہوت ، غیبت ، بدزبانی ، بداندیشی اور بدعملی سے مکمل اجتناب کرے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے کا نام ہے جو روزے دار روزہ رکھ کر بھی غیبت ، گالی گلوچ، مکروفریب ، رشوت ،قماربازی ،سود خوری ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدنظری سے نہیں رکتے وہ روزے کی روح سے نابلد ہیں ۔کیونکہ رسول اللہ  ﷺ کا فرمان ہے :

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ (صحیح البخای ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۱۹۰۳)

’’ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بدعملی سے نہیں رکتا(اس سے کہہ دو) کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشادفرمایا:

’’اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلاَ یَرْفُثْ وَلاَ یَجْہَلْ وَاِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَہُ أَوْ شَاتَمَہُ فَلْیَقُلْ إِنِّیْ صَائِمٌ مَرَّتَیْنِ ‘‘(صحیح البخاری ،کتاب الصوم، حدیث نمبر :۱۸۹۱)

’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بدزبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو اسے دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔
اسلام کا مقصد بھی ایسے ہی رجال کارکی تیاری ہے جو خواہشات ، جذبات اور اعمال میں متوازن ہو، جو خواب وخور،گفت وشنید، خندہ وگِریہ، جسم وروح اور دنیا وآخرت میں توازن قائم رکھتے ہوں۔تمام بد اعمال لوگ مثلاً : راشی اہل کار، انصاف فروش حکّام ، عیاش سرمایہ دار، لامذہب اساتذہ وطلباء اور گراں فروش تجار اس ماہ مقدس میں بھی اس توازن کوروزے کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت ہے اس روزے سے نہ صرف تزکیہ نفس ہوتاہے بلکہ اس کی بدولت انسان مادی خواہشات ، لالچ اور طمع جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرتاہے اور روزے سے روحانی تربیت ہوتی ہے اس سے ذہنی اور جسمانی نظم وضبط پیداہوتاہے انسانیت سے محبت کا شعور اجاگر ہوتاہے رمضان میں عبادت کے ذریعے انسان انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت بھی حاصل کرتاہے جس کے نتیجے میں مساوات پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
رمضان المبارک حقوق اللہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص محروم طبقات کی جانب متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ بنتاہے کیونکہ انسان خود بھوکا پیاسا رہ کر دوسروں کی فاقہ کشی کابخوبی احساس کرسکتاہے۔
اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے رمضان و قرآن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس ماہ مقدس میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے دل کی اجڑی بستی کو آباد کیا جائے تاکہ وہ دل کے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بن سکے اور اللہ تعالی کا بھی ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ (فاطر: (۲۹۔۳۰)

’’ وہ جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی ان کو پورا پورا اجر عطا فرمائے گا اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور قدرت والا ہے۔ ـ‘‘
اور قرآن پاک کی تلاوت سے انسان کے خیالات ، احساسات اور فکر پاک ہوتی ہے جب اس کےباطن میںپاکیزگی آجاتی ہے تو ظاہر بھی صاف ہوتا چلا جاتاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ قرآن مجیدکو کثرت کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھا جائے جس سے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور تعلق باللہ بڑھتاہے ۔
قرآن پاک ایک بات بہت زور دے کر کہتاہے اس پر بھی غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
روزہ مسلمانوں کو نظم و ضبط ، صبر و استقامت ، ایثارو قربانی، اتحادویگانگت، باہمی اخوت، محبت ، مساوات ، ضرورتمندوں سے حسن سلوک ، انفاق ، مؤثر پلاننگ اور اپنے دشمن کو پہنچانے کا اور اس سے فی سبیل اللہ نبرد آزما ہونے کا بھی درس دیتا ہے۔
رمضان المبارک تقوی و صبر کا مہینہ ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے طاقت اور جذبہ ایمانی کے عملی مظاہرے کا مہینہ ہے اسی ماہ میں غزوہ بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں نے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دی یہ ماہ رحمت مسلمانوں کو دنیا کے فرعون کے خلاف مقابلہ اور طاغوت کے خلاف کھڑا ہو جانے کا پیغام دیتا ہے۔
ماہ ِ رمضان مسلمانوں کو درس دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! بلا شبہ روزہ تمہیں صبرو عظمت سکھاتا ہے لیکن صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی مدر پدر آزاد، پلید  رحمت دو جہاں ، محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کسی طرح بھی گستاخی کرے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو نہیں بلکہ غازی عبد القیوم شہید ، غازی علم الدین شہید ، عامر عبدالرحمن چیمہ شہیداور شہیدۃ الحجاب کی طرح اپنی جان سے آگے گزر جاؤ۔
الغرض روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی عملی تربیت کا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت میں کا میابی و کامرانی حاصل ہو سکے اور یہی رمضان المبارک کا پیغام ہے۔
اپنے جذبات ،اعمال اور حرکات سے درہم وبرہم کررہے ہوتے ہیں جبکہ روزہ تو اس توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہے جس طرح فوج کو جفاکش بنانے کیلئے ہر سال ایک دوماہ کیلئے جنگلوں اور پہاڑوں میں رکھا جاتاہے جہاں سپاہی ہر روز میلوں پیدل چلتے اور پہروں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اِسے کیمپ لائف کہا جاتاہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے کیمپ لائف ہے خود ہی غور فرمائیے کہ جولوگ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی فطری محبت کے باوجود چھوڑ کررب کریم کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر روز کم از کم پندرہگھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں ، سحری کے بعد دیر تک تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ تمام گناہوں سے بچتے ہیں ، پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے تصور میں ڈوبے رہتے ہیں غرباء ، مساکین ، ایتام اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرتے ہیں اپنی کمائی کا خاصہ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو تقدس اور توازن کی مطلوبہ منزل کو پہنچ سکتے ہیں۔

آپریشن ردّ الفساد

آ پریشن ’’ردّ الفساد‘‘ شروع ہوئے ابھی چند گھنٹے بھی نہ گزرپائے تھے کہ لاہور کے پوش علاقے میں دھماکہ ہوگیا جس میں کم از کم آٹھ(8)لوگ جاں بحق ہوگئے۔اس واقعے کے فوراََ بعد شرم و حیا سے عاری بےلگام میڈیا نے یہ خبرچلادی کہ لاہورمیں ایک مشہور رسٹوران کے قریب خودکش دھماکہ ہوگیا یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گئی یا پھیلا دی گئی۔مقابلے اور مسابقت کی دوڑ میں دیگر چینلز نے اندھی تقلید کرتے ہوئے اس جھوٹی خبر کو زور و شور سے نشر کیا  اور اپنے غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت فراہم کیا جبکہ قرآنی اصول تو یہ ہے

:يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ   (الحجرات: 6)

اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔

جبکہ ہمارا میڈیا اسلامی ملکی نمائندگی سے زیادہ اغیار کی وکالت کرنے میں پیش پیش اوربے حیائی پھیلانے میں بےباک ہے۔قرآن اسلام اور اسلام کا صرف نام لینے والوں سے اللہ واسطے کابیر ہے۔مذکورہ بالا آیت سے یہ بات واضح ہورہی کہ جب کوئی خبر سنو تو دو اعتبار سے ا س کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔ خبرکی سچائی کی تحقیق اوراس خبر کی حقیقت تک رسائی۔کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خبر بذات خود تو صحیح ہوتی ہے لیکن اس کی تحقیق کے بارے میں خبر نہیں ہوتی۔لاہور دھماکہ والی خبرمیں بھی ایسی ہی مجرمانہ کوتاہی کا ارتکاب کیا گیا ہے،خبر سب سے پہلے کے چکرمیں کتنےماںباپ کو پریشان کیا ،مائیں اپنے بچو ں کی خیریت کے لیے سکولوں اور کالجوں کی طرف دیوانہ وار دوڑ پڑیں۔اب میڈا والوں سے کون پوچھے یہ کس کی خدمت کی جارہی ہے؟اتنے لوگوں کو جو اذیت اور زحمت اٹھانا پڑی ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟جھوٹی خبروں کے ذریعے سنسنی اور ہیجان پیدا کیا جاناکونسی اور کیسی صحافت ہے؟اس سے صاف واضح ہے کہ جانتے اوربوجھتےکسی اور کےاشارے پر ملک میں بدامنی پیدا کی جارہی ہے ۔میڈیا کے علاوہ زخم پر نمک چھڑکنے کا کام سوشل میڈیا نے بھی کیا۔گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیاپر واٹس ایپ کے ذریعے ایسے پیغامات پھیلا ئے جارہے ہیںجن سے بے یقینی اور خوف وہراس کی کیفیت میں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔واٹس ایپ پر ایک صوتی پیغام کے ذریعے ایک نام نہاد انٹیلی جنس فرد یہ فرماتےہیں کہ وہ موٹر وے سےبول رہے ہیں لاہور اس وقت دہشت گردوں کے نرغے میں ہے۔اسی طرح ایک اورپیغام کے ذریعے یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ پولیس ناکے پرنہ رکنے والوں کوگولی مارنےکا حکم جاری کردیا گیا ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ باشعور پڑھے لکھے لوگ بھی ایسے پیغاما ت کو دوسروں کو  Forwardکرتے نظر آتے ہیں جس سے یہ پتہ چلتاہے کہ میڈیا کی بدنیتی کی وجہ سے دہشت گردوں نے گولی چلائے بغیر اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔اگر میڈیا کودین اسلام اور رسول رحمت کے فرامین کا ادراک ہوتا تو ملک دشمنوں کو نفسیاتی محا ذ پر کامیاب نہ ہونے دیتا ،ایسی خبروں سے قوم کامورال متاثر نہ ہوتا ۔رسول اللہ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں خبر کی حقیقت جاننے کی مثالیں ملتی ہیں۔ ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حیی آپ سے ملنے آئیں۔ آپ رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے رات کو کچھ دیر آپ سے بات چیت کی پھر اٹھ کر واپس جانے لگیں تو رسول اللہ بھی انہیں چھوڑنے کے لئے اس دروازہ تک تشریف لائے جو ان کے مکان کو لگتا تھا آپ دونوں کے پاس سے دو انصاری مرد گزرے انہوں نے رسول اللہ کو سلام کیا اور آگے بڑھ گئے۔ رسول اللہ نے ان سے فرمایا ٹھہرو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول سُبْحَانَ اللَّهِ (یعنی کیا ہم آپ پر شبہ کرسکتے ہیں) آپ کا یہ فرمانا ان پر گراں گزرا۔ تو رسول اللہ نے فرمایا شیطان انسان میں خون کی طرف دوڑتا ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دل میں وسوسہ نہ ڈالے۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب  الصیام ،باب في المعتكف يزوره أهله في المسجد:حدیث نمبر:1779)یہ اس لیے کہ روایت بیا ن کرنے والا کہہ سکتا تھا کہ میں نے دیکھا کہ رات کی تاریکی میں رسول اللہ ایک عورت کے ساتھ جارہے تھے تو اس کی بات صحیح تھی لیکن اسے حقیقت حال کا پتہ نہیں تھااسی کو تحقیق کہتے ہیں ۔شاید جس کا ہمارا میڈیا دعویٰ کرتا توہے مگر عملی طرپر سب لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔بلکہ بھیڑ چال چل رہےہوتے ہیں ،ایک بھیڑ اگر اندھے کنویں گرِرہی ہوتی ہے تو بعد میں آنے والیں بھی آنکھیں بند کر کے اسی کے پیچھے پیچھے گر رہی ہوتی ہیں۔

 

اور یوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔پاکستان میں نائن الیون کے بعد سے لیکر اب تک ملک بھر میں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات میں پچاس ہزار سے زائدعام شہری لقمہ اجل بن

چکے ہیں،دہشت گردوں کی گھناؤنی کارروائیوں میں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز کے بھی سات ہزار سے زائد جوان اور افسران جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں کے خلاف کئی بڑے آپریشن کئے جن میں ہزاروں غیر ملکی ایجنٹ ، ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار اور کالعدم تنظیموں کے شدت پسندوں کو ٹھکانے لگا دیا گیا ۔بد امنی اور فساد خاندانوں، معاشروں اور ملکوں کو تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ فساد کی وجہ سے معاشرتی، معاشی اور سیاسی امن ختم ہو جاتا ہے۔ بد امنی کی فضا میں علوم وفنون کی ترقی رک جاتی ہےاور صنعتی ترقی کے لیےماحول سازگار نہیں رہتا۔ معاشرے کا ہر فرد مستقل طور پر خوف وہراس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر افراد زیادہ دیر تک خوف وہراس کی کیفیت میں مبتلا رہیں تو ان کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ عوام نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں ۔ اسلام ایک فطری دین ہے۔ وہ ہر شعبہ حیات میں تعمیر ترقی چاہتا ہے۔ اسلام یہ بات پسند نہیں کرتا کہ انسانی زندگی اور اعلیٰ اقدار کے فروغ میں کسی بھی طرح تعطل پیدا ہو۔ اس لیے اس نے فتنے فساد کے خاتمے کے لیے مؤثر اور مثبت لائحہ عمل دیا ہے۔ قرآن مجید فتنے فساد کی مَذمت بھی کرتا ہے اور اس کے انسداد کے لیے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرت کے لیے حدود وتعزیرات کی صورت میں سزائیں بھی نافذ کرتا ہے تاکہ جن پر کوئی وعظ و نصیحت اثر نہ کرے، اُنہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ کر لاقانونیت سے روکا جاسکے۔رسول اکرم ہمیشہ لڑائی سے بچنے کا حکم دیاکرتے جو شخص لڑائی سے بچتا ہے، آپ اس کی مدح اور حوصلہ افزائی فرماتے۔ رسول اللہ جب کسی گورنر کو تعینات فرماتے تو اسے ہدایت کرتے کہ ’’بشّروا ولا تنفروا، يسّروا ولا تعسّروا‘‘(صحيح مسلم: 4525)’’خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا ۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسی فضا پیدا کرنا جس میں لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا نہ ہو،لوگ آپس میں ایک دوسرے کےلیے سہولتیں پیدا کرنے والے ہوں جھگڑالو نہ ہوں ۔دوسری جگہ آپ نے فرمایا

:مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا (جامع ترمذی:

1993)’’جس نے باطل چیز (جس پر اس کا حق نہیں تھا) کے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا ،اللّٰہ اس کے لیے جنّت کے کنارے پر محل تیار کرے گا اورجس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللّٰہ جنّت کے وسط میں اس کے لیے محل تیار کرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل تیار کردیا جائےگا ‘‘۔ سیدنا سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ میں رسول اللّٰہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ میرا ذکر اور تعریف کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہاری نسبت اس سے زیادہ واقف ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ سچ فرماتے ہیں۔ آپ میرے شراکت دار تھے،اور بہت ہی خوب شراکت دار تھے۔ نہ آپ لڑائی کرتے نہ جھگڑا کرتے۔ ( سنن ابو داؤد: 4836نبی کریم نے اس بات سے منع فرمایا کہ لوگ اتحاد کی بجائے تفرقے میں پڑ جائیں۔ ظاہر ہے جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو فتنہ فساد ہی برپا ہو گا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ معاشرے میں بد امنی ، فساد اوربے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ان کا استیصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں۔ اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا:’’

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا‘ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ:2؍ 611)’’

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ نے فرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے۔‘‘اورفرماتے ہیں ’’جن مقاصد کے لیے انبیاے کرام کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مظالم کو روکنے اور ان کے تدارک کے لیے تدابیر عمل میں لائیں۔ کیونکہ اگر ظلم وزیادتی کا سد باب نہ کیا جائے تو نظامِ زندگی میں ابتری واقع ہو جائے۔(حجۃ اللّٰہ البالغۃ:2؍ 158)’’شریعت نے بعض جرائم پر حدود مقرر کی ہیں۔ یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کا امن وسکون غارت ہو جاتا ہے۔ دوسرے ان جرائم کے بار بار ارتکاب سے نفس انسانی کو ان جرائم کی عادت پڑ جاتی ہے۔ پھر اس جرم سے باز رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات بے چارے مظلوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان مجرموں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کر سکے۔ اگر ان جرائم کی روک تھام نہ کی جائے تو پھر ان جرائم کے خاتمے کیلئے محض آخرت کے خوف اور وعظ وتلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ مجرم کا انجام سب کے سامنے ہو جسے دیکھ کر دوسرے لوگ جرم سے باز رہیں۔ ‘(جرم و سزا كا اسلامی تصور: از جسٹس تنزیل الرحمٰن:۱۲۰) مگر دیکھا جارہا ہے کہ ردالفساد آپریشن کے دوران سادہ لوح ،داڑھی پگڑی والےلوگوں کو بلاوجہ تنگ کرنے سے نفرتوں وتعصب میں اضافہ ہوگا حکومت آپریشن کے نام پر اسلامی لباس ، شکل وصورت کو نشانہ نہ بنائیں ، یہ مذہبی طبقات ،اسلام سے محبت کرنے والوں کیساتھ زیادتی ہوگی دہشت گردی ختم کرنے کے بجائے نفرتوں وتعصب پیداکرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائیں۔ ہر زیادتی وظلم کے خلاف ہر فورم پرآوازاُٹھائی جانی چاہیے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے مگر اس کو کسی خاص قوم ،طبقہ وعلاقے تک محدود نہ کیا جائے بلکہ حقیقی دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق آپریشن کیا جائے مالی دہشت گرد اور کرپشن کرنے والے رشوت خور، بنکوں کے قرضے معاف کروانے والے چوروں،ذخیرہ اندوزوںاور بڑے بڑے مگرمچھوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے معاشرے میں عدم توازن کےاصل ذمہ دار تو یہی لوگ ہیں ۔ہماری حکومت وقت سے اپیل ہے کہ اس آپریشن ردّالفساد کو انشاء فتنہ بننے سے روکاجائے۔

انسانیت کے تین دشمن۔۔۔ تحفظ اور تدابیر

پہلا خطبہ:
تمام تعریف

یں اللہ کیلئے ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ سب کے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے اور وہ سب کو اعمال کا پورا بدلہ دے گا وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا

وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا [النساء: 40]

اور اگر کوئی نیکی ہوئی تو وہ اسے بڑھا دیتا ہے اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔
میں اپنے رب کے فضلِ عظیم پر اسی کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی جاننے اور خبر رکھنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر اور سراج منیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول جناب محمدﷺ جنہیں روشن کتاب دے کر بھیجا گیا ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما جن کے ذریعے اللہ تعالی نے دین کو غالب فرمایا اور شرک کو ذلیل و رسوا کیا۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اپناؤ ؛ اس کیلئے بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرو اور حرام کاموں سے بچو، تو تم اعلی درجات پا لو گے نیز تباہ کن نتائج سے بچ جاؤ گے۔
مسلمانو!بیشک اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا ہے، وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوںسے دنیا میں اچھی زندگی کا وعدہ فرمایا اور آخرت میں اچھے نتائج کا وعدہ دیا، اللہ تعالی ان پر راضی ہو گا اور انہیں سرمدی جنتوں میں دائمی نعمتوں سے نوازے گا، انہیں انبیائے کرام اور نیک لوگوں کی رفاقت بھی ملے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے ضرور کھول دیتے۔ [الأعراف: 96]
ایسےہی فرمایا

:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [المائدة: 65۔ 66]

اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لیتے تو ہم ان سے ان کے گناہ زائل کر کے انہیں نعمتوں والے باغات میں داخل کرتے اور اگر یہ لوگ تورات ،انجیل اور جو دوسری کتابیں ان پر انکے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ان پر عمل پیرا رہتے تو انکے اوپر سے بھی کھانے کو رزق برستا، اور پاؤں کے نیچے سے بھی ابلتا۔
یعنی اگر وہ قرآن پر ایمان لے آتے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ساتھ میں اپنی کتابوں پر بھی بغیر کسی تحریف کے ایمان رکھتے تو اللہ تعالی انہیں دنیا میں خوشحال زندگی سے نوازتا اور آخرت میں ا نہیں نعمتوں والی جنت میں داخل فرماتا۔
اسی طرح نوح علیہ السلام نےجب اپنی قوم کو ترغیب دی تو اسے اللہ تعالی نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا

تو میں[نوح] نے کہا: اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو؛ بیشک وہی بخشنے والا ہے وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا نیز تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بہا دے گا۔[نوح: 11۔12]

میرے قرب کی تلاش میں لگا رہتا ہے یہاں تک میں ہی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور دوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دے دوں، مجھے اپنے کسی بھی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مجھے موت سے ڈرنے والے مؤمن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے، مجھے مؤمن کی ناگواری پسند نہیں۔( بخاری)
اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ : اللہ تعالی اپنے لطف و کرم اور رحمت و قدرت کے ساتھ اپنے فرمانبردار بندوں کے امور چلاتا ہے، اور دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہترین منصوبہ بندی فرماتا ہے۔
ہمارے پروردگار کا وعدہ سچا ہے، اس میں ذرہ برابر بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ [آل عمران: 9]

اےہمارے پروردگار! بیشک تو ہی اس دن کیلئے لوگوں کو جمع کرنے والا جس میں کوئی شک نہیں ہے، بیشک اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔
اسی طرح فرمایا:

رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ

اےہمارے رب ! تو نے اپنے رسولوں (کی زبان) پر ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، بیشک تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔[آل عمران: 194]
مومنوں سے آخرت کے متعلق بھی اللہ تعالی کے وعدے سچے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبہ: 72]

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغات کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچےنہریں بہہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز سدا بہار باغات میں پاکیزہ قیام گاہوں کا بھی (وعدہ کر رکھا ہے) اور اللہ کی خوشنودی تو ان سب نعمتوںسے بڑھ کر ہوگی۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
مومنین اپنی دنیاوی زندگی میں بھی اللہ تعالی کے وعدوں کی تکمیل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی کی جانب سے مسلسل نعمتیں اور رحمتیں موصول ہوتی رہتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَآتَاهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

تو اللہ نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی خوب ہے۔ اور ایسے ہی نیک عمل کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے ۔[آل عمران: 148]
انہیں آخرت میں بھی وعدہ شدہ اجر و ثواب اور ابدی نعمتیں ملیں گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ

بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا سامان دے رکھا ہو پھر وہ قیامت کے دن پیش کیا جانے والا ہو ؟ [القصص: 61]
جس طرح اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوں سے نعمتوں کا وعدہ کیا ہے بالکل اسی طرح نافرمان کافروں اور سرکش گناہگاروں کو وعید بھی سنائی ، انہیں عذاب اور عقاب سے ڈرایا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ

اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ [محمد: 12]
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔[الجن: 23]
ان کی دنیا کی زندگی بھی بد ترین زندگی ہے، اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى

اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ [طہ: 124] اور اگر انہیں دنیا مل بھی جائے تو بھی وہ بد ترین زندگی میں ہوتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا:

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں۔ [التوبہ: 55]
اور یہ ممکن ہے کہ انسان کسی ایسی آزمائش میں پھنس جائے جو انسان کو مفید چیزوں سے موڑ کر نقصان دہ چیزوں میں مبتلا کر دے، آزمائش اور امتحان کے طور پر اسے نیکیوں سے موڑے، گناہوں کو خوبصورت بنا کر دکھائے؛ تا کہ اللہ تعالی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والوں اور نفس پرستی سے بچنے والوں کو ان لوگوں سے الگ کر دے جو نفس پرستی میں پڑ جائیں اور شیطان کے پیچھے چل پڑیں؛ تا کہ اللہ تعالی ہدایت یافتہ لوگوں کو درجات سے نوازے اور ہوس پرستوں کو کھائیوں میں گرا دے،

سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی روا رکھے تو اس کے خلاف میں اعلانِ جنگ کرتا ہوں، فرائض سے بڑھ کر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ تسلسل کے ساتھ نوافل کے ذریعے

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ

ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ یہ معلوم کر لیں کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور صابر کون ؟اور تمہارے احوال کی جانچ پڑتال کریں گے ۔[محمد: 31]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ

اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں۔ [العنكبوت: 69]
اس لیے انسان کا نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور شیطان اسی کے ذریعے ہی انسان پر حملہ آور ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي

نفس تو اکثر برائی پر اکساتا رہتا ہے مگر جس پر میرے پروردگار کی رحمت ہو۔ [يوسف: 53]
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 9]
نفس جس قدر جہالت اور ظلم سے متصف ہو گا انسان اسی قدر اللہ تعالی کے وعدوں کی تصدیق سے دور ہو گا، انسان کو استقامت اور راہِ اعتدال سے منحرف کر دے گا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص اپنی حقیقت اور فطرت سے آشنا ہو جائے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا نفس ہر قسم کی برائی اور بدی کا منبع ہے، جبکہ اس میں ہر قسم کی خیر محض فضلِ الہی اور احسان کی وجہ سے ہے، اس میں نفس کا اپنا کوئی کمال نہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا

اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ رہ سکتا تھا۔ [النور: 21]انتہی
شریعت کے لائے ہوئے علمِ نافع سے جہالت کا خاتمہ ہوتا ہے، مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالی کی جانب راغب رہے، اپنے نفس کی اصلاح کیلئے اللہ تعالی سے دعا مانگتا رہے، چنانچہ سیدنازید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اَللّٰهُمَّ إني أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا

یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما، اور اس کا تزکیہ فرما تو ہی اس کا بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی تزکیہ کر سکتا ہے اور میرے نفس کا مولی ہے، یا اللہ! میں غیر مفید علم، خشوع سے عاری دل، سیر نہ ہونے والے نفس، اور مسترد ہو جانے والی دعا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔( مسلم)
اسی طرح ترمذی میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے والد کو دو جملے دعا کیلئے سکھائے تھے:

اَللَّهُمَّ أَلْهِمْنِيْ رُشْدِيْ وَأَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ

یا اللہ! میری رہنمائی میرے دل میں ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما دے۔
لہذا اگر نفس شرعی علم اور عمل صالح کے ذریعے پاکیزہ نہ بنے تو انسان پر جہالت اور ظلم کا راج ہوتا ہے، نفس ہوس کے ساتھ مل کر انسان سے اللہ تعالی کے وعدوں کی تکذیب کرواتا ہے، جس کی بنا پر نفس شہوت پرست بن جاتا ہے اور خسارہ، عذاب، ذلت اور رسوائی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے، اور دونوں جہانوں میں نامراد ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالی ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ [القصص: 50]
اس کے بر عکس اگر نفس کا تزکیہ ہو ، علمِ نافع اور عملِ صالح کے ذریعے نفس پاکیزہ ہو جائے تو انسان اللہ تعالی کے وعدوں کو سچا مانتا ہے اور مطمئن ہو کر اپنے پروردگار سے تعلق بناتا ہے، اسے موت کے وقت بھی عزت افزائی کی خوشخبری دی جاتی ہے، اسی کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي [الفجر: 27 – 30]

اے اطمینان پانے والی روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
بھلائی کے تمام راستے بند کرنے والا، برائیوں کی طرف دعوت دینے والاانسان کا ازلی دشمن -اللہ کی پناہ- شیطان مردود اور پلید ہے اللہ تعالی نے شیطان کو مکلف لوگوں کیلئے آزمائش بنایا ؛ لہذا شیطان کے پیچھے چلنے والا شخص بد ترین مقام پر ہو گا اور شیطان کی نافرمانی کرنے والا بلند ترین مقام پر فائز ہو گا۔
شیطان انسان کو گمراہ کر کے لذت اور سرور محسوس کرتا ہے، اسے اللہ تعالی کے وعدوں اور وعیدوں کو جھٹلانے کی دعوت دیتا ہے، وہ اس کے سامنے حرام چیزوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، فرائض اور مستحبات سے روکنا شیطان کا مشغلہ ہے، وہ انسان کو سبز باغ دکھا کر دھوکا دیتا ہے اور وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ

شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرو کاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ دوزخی بن جائیں ۔[فاطر: 6]

َخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ

شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرو کاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ دوزخی بن جائیں ۔[فاطر: 6]
اللہ تعالی نے جہنم میں شیطان کا اپنے چیلوں سے خطاب ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اور جب (تمام امور کا) فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا : “اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے ایک وعدہ کیا تھا جس کی میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ اور میرا تم پر کچھ زور نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تمہیں (اپنی طرف) بلایا تو تم نے میری بات مان لی۔ لہذا (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو کرو۔ (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ ایسے ظالموں کے لئے یقیناً درد ناک عذاب ہے۔ [ابراہیم: 22]
شیطان اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کیلئے سات انداز اپناتا ہے:[1]سب سے پہلے شیطان -اللہ کی پناہ-کفر کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان پہلے داؤ پر ہی اس کی دعوت قبول کر لے تو شیطان کا ہدف پورا ہو جاتا ہے اور شیطان اسے اپنی رذیل جماعت میں شامل کر لیتا ہے، [2]لیکن اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو پھر اسے بدعت کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان سنت نبوی اور کتاب و سنت پر کار بند رہتے ہوئے بدعات سے بچ جائے [3]تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور اس کیلئے کبیرہ گناہ خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، پھر اسے توبہ نہیں کرنے دیتا ، اس پر انسان کبیرہ گناہوں کا دلدادہ بن جاتا ہے اور وہ مکمل طور پر گناہوں کی جکڑ میں آ کر ہلاک ہو جاتا ہے، [4]اگر انسان کبیرہ گناہوں کی دعوت بھی قبول نہ کرے تو شیطان صغیرہ گناہوں کی دعوت دیتے ہوئے صغیرہ گناہوں کو معمولی بنا کر پیش کرتا ہے؛ چنانچہ انسان کے صغیرہ گناہوں پر اصرار اور تکرار کے باعث صغیرہ بھی کبیرہ کے برابر ہو جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے؛ کیونکہ انسان ان گناہوں سے توبہ نہیں کرتا۔ [5]انسان اگر صغیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے تو شیطان مباح چیزوں میں مگن رکھ کر دیگر نیکیوں سے دور رکھتا ، اسے مباح چیزوں میں اتنا مشغول کر دیتا ہے کہ آخرت اور نیکیوں کیلئے جد و جہد کا وقت ہی نہیں ملتا، [6]اگر اس داؤ سے بھی انسان بچ نکلے تو انسان سے افضل کام چھڑوا کر غیر افضل کام کرواتا ہے تا کہ انسان کے اخروی اجر و ثواب میں کمی واقع ہو؛ کیونکہ نیکیوں کا ثواب یکساں نہیں ہوتا ، اور [7]اگر انسان اس مکاری سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جائے تو شیطان اپنا لاؤ لشکر تکلیف دینے کیلئے مومن کے پیچھے لگا دیتا ہے ، جو کہ مومن کو انواع و اقسام کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔
انسان ہمیشہ شیطان کے شر سے تحفظ اور نجات کیلئے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، دائمی طور پر اللہ تعالی کا ذکر کرے، نماز با جماعت کا اہتمام کرے؛ یہ اعمال شیطان سے تحفظ کیلئے قلعہ، جائے پناہ اور حرزِ جان کا مقام رکھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی پر توکل اور شیطان کے خلاف دائمی جد و جہد، اسی طرح ظلم سے اجتناب بھی باعث نجات اعمال ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [فصلت: 36]

پھر اگر کسی وقت تمہیں کوئی شیطانی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
راہِ حق،استقامت اور نیکی کے راستے میں یہ عمل بھی رکاوٹ بن سکتا ہے کہ دنیا سے محبت اور آخرت کے مقابلے میں دنیا پر راضی ہو جائیں، دنیا داری میں حلال و حرام کا فرق مٹا دیں، دنیا میں اتنے مگن ہو جائیں کہ آخرت بھول جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [يونس: 7۔8]

جو لوگ ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانیوںسے غافل ہیں یہی لوگ ہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کا ٹھکانا آگ ہے۔
اسی طرح فرمایا:

أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ

کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر راضی ہو گئے ہو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں معمولی ترین ہے۔[التوبہ: 38]
حقیقت میں دنیا بھی انسان کی دشمن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے دل پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے تو انسان دنیا داری میں مشغول ہو جاتا ہے اور آخرت کیلئے کوئی کام نہیں کرتا اور تباہ ہو جاتا ہے، اس دھرتی کے اکثر لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى

بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔[الأعلى: 16۔17]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں

لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں۔ [ابراہیم: 2، 3]
دنیا کے شر و ضرر سے نجات اور بچاؤ ایسے طریقے سے دنیا کمانے پر ملے گا جو کہ شرعی طور پر جائز ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے حلال کردہ چیزوں کو بغیر اسراف اور فضول خرچی کے استعمال کریں، اللہ تعالی کی مخلوق پر تکبر اور گھمنڈ مت کریں، ان پر نخوت اور غرور نہ جمائیں، اپنی قوت کے بل بوتے پر حقوق العباد پامال مت کریں۔
یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ دنیا فانی اور دھوکے والی ہے، یہاں حالات تہ و بالا ہوتے رہتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہمیشہ یاد رہے تو اس کی وجہ سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
جیسے کہ سیدنامستورد فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: آخرت کے مقابلے میں دنیا صرف اتنی سی ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے اور دیکھے کہ انگلی پر کتنا پانی ساتھ آتا ہے۔( احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے)
انسان کو ہمیشہ دنیا کے شر اور انجام بد سے چوکنا رہنا چاہیے، اور یہ بات کبھی ذہن میں نہ آئے کہ تمہیں یہ دنیا تمہارے علم یا کسی خوبی کی وجہ سے ملی ہے! جیسے قارون نے اسی طرح کا دھوکا کھایا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ آپ کو معلوم ہے۔
دنیا کے بارے میں ایک اہم بات جسے پورا کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، وہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و متاع میں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کریں جیسے کہ : زکاۃ کی ادائیگی، اہل خانہ اور اولاد کے اخراجات، مہمان نوازی، کمزوروں کی مدد، رفاہِ عامہ کے کاموں میں تعاون،ان سب کیلئے اخلاص ہونا اور ریاکاری سے دوری لازمی امر ہے، ان کاموں کے بدلے میں شہرت، ناموری، کلمات تشکر کچھ بھی مطلوب نہ ہو؛ کیونکہ ریا کاری سے عمل برباد ہو جاتا ہے۔
بڑے بڑے صحابہ کرام بھی دولت مند تھے، لیکن اس کے با وجود وہ دنیا سے انتہائی بے رغبت تھے، ابو سلیمان کے مطابق: عثمان اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کی اس دھرتی پر اللہ تعالی کے خزانچیوں میں سے خزانچی تھے، وہ اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ، ان کا اللہ تعالی کے ساتھ گہرا دلی معاملہ تھا۔
ایک حدیث ہے کہ : دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ تو لوگ تم سے محبت کریں گے۔( ابن ماجہ نے اسے سیدناسہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
لوگوں کے مال سے بے نیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر لوٹ مار نہ کرے اور نہ ہی ان کے حقوق غصب کر کے ان پر ظلم ڈھائے، ان کو حاصل نعمتوں کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرے، لوگوں کی دولت پر لالچ بھری آنکھوں سے مت دیکھے،اور اس کیلئے دست درازی مت کرے۔
سب سے زیادہ قابل ستائش زُہد یہ ہے کہ دنیا میں تکبر نہ کرے، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
یہ آخرت کا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دیا ہے جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیز گاروں کیلئے ہے۔ [القصص: 83]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دےاور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں وہی میرا پروردگار ہے، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں اسی کیلئے تعریفیں ہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس کی بلند و بالا صفات کے ذریعے اسی کی ثنا خوانی کرتے ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ انکی آل اور متقی صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

کما حقُّہ تقوی اختیار کرو ، اور مضبوط دین کو اچھی طرح تھام لو۔
اللہ کے بندو!اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ

لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکا باز (شیطان) تمہیں دھوکا دینے پائے۔ [فاطر: 5]
اور ایک حدیث میں ہے کہ:عقل مند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کی تیاری کرے، عاجز وہ ہے جو ہوس پرستی میں ڈوبا رہے اور اللہ تعالی سے امید لگائے رکھے۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا منقول ہے کہ : فرشتہ دل میں احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تصدیق پرمشتمل ہوتاہے اور بسا اوقات شیطان دل میں منفی احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تکذیب پر مشتمل ہوتا ہے۔
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے نفس کا مسلسل محاسبہ کرے اور اسے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، نفس کو شیطانی مکاریوں اور ہتھکنڈوں سے بچاتے ہوئے ہوس پرستی سے بھی دور رکھے، نیز دنیا کے دھوکے میں نہ آنے دے؛ کیونکہ دنیاوی فائدے سب عارضی ہیں

یوم کشمیر اور مسلم نسل کشی کی عالمی سازش

کشمیر پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے یہ الفاظ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہیں اور اس بات کو ستر سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ہماری شہ رگ ہندو کے قبضہ میں ہے۔ اہل کشمیر نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ایک ماہ پہلے 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس کے ذریعے سرینگر میں قرارداد الحاق پاکستان منظور کی مگر اہل کشمیر کی رائے کے خلاف جب ہندو نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تو سب سے پہلے کشمیریوں کی آواز پہ جس بطل حریت نے لبیک کہتے ہوئے نہ صرف ان کے کندھے سے کندھا ملایا بلکہ اس جدوجہد میں ان کی قیادت سنبھال لی وہ تھے جماعت مجاہدین کے اس دور کے امیر مولانا فضل الٰہی وزیر آبادی رحمہ اللہ۔ ستر سال سے وادی کشمیر کے چنارسلگ رہے ہیں ہندو بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اب تک 4 لاکھ کشمیری آزادی کشمیر پہ قربان ہوچکے ہیں وہ پاکستان کا جھنڈا لہراتے ہیں خود کو پاکستانی کہلاتے ہیں اور آزادی کا مطلب لا إلہ إلا اللہ بتلاتے ہیں وادیٔ کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتاہے لہو لہو ہے اقوام متحدہ کی استصواب رائے دہی کی قرار داد اب مذاق بن کر رہ گئی ہے کیونکہ ہندو مسلسل کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے گذشتہ پانچ ماہ سے بھارت کا ستم زوروں پہ ہے تو آزادی کی تحریک بھی شہید حریت وانی کے خون سے نئی قوت پکڑ چکی ہے نو ہزار کے قریب نوجوان وبچے پیلٹ گنوں کا شکار ہوکر بینائی کھو چکے ہیں ۔ 5 فروری یوم کشمیر سے لیکر پورا ماہ کشمیریوں سے یک جہتی کا اظہار کیا جائے گا اور پھر آئندہ سال کے یوم کشمیر کا انتظار ہوگا ہم بھی عجیب ستم رسیدہ قوم ہیں جن کی شہ رگ پہ ہندو پاؤں رکھے ہوئے ہے اور ہم اس سے دوستی کا دم بھرنے کے لیے بیتاب ہیں ۔ جسد واحد مسلم امت کے دست وبازو شمال وجنوب ، مشرق ومغرب میں اپنوں اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے لہو لہو ہیں اور ہم آرام کی نیند لیتے ہیں۔ افغانستان سے لیکر صومالیہ تک عراق ،شام،فلسطین،لیبیا ، برما ہر جگہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اور اب تو یورپ میں مساجد پر حملے شروع ہوچکے ہیں لیکن یہ سب دہشت گردی نہیں جبکہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے ہر مسلمان کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان چند حملوں کا ذکر کیا جاتاہے جو یورپ میں ہوئے مگر مسلم امہ نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا عجیب دورنگی ہے ہندو گائے کو ذبح کرنا پاپ سمجھتا ہے ،گوشت کھانے سے دھرم بھرشٹ ہوتاہے مگر مسلمانوں کا خون بہانا کارثو اب ہے بودھ چیونٹی تک کو مارنا بھی گناہ سمجھتے ہیں مگر میانمار میں مسلمانوں پر اذیتوں کے پہاڑ توڑنے اور ان کو زندہ تک جلانے میں سکون پاتے ہیں شاید مسلمانوں کی حیثیت ان کے ہاں چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔ وہ مسلمان جس کی عزت وآبرو اور خون دیوار کعبہ سے بھی زیادہ مقام رکھتے ہیں اس کی یہ تحقیر اس نبی کے امتی کہ جس نے چیونٹیوںتک کو جلانے سے منع فرمایا جس نے چڑیا تک کو خوفزدہ کرنے پہ سرزنش فرمائی جس نے اونٹ تک کو کم چارہ دینے پہ مالک کو بلا کر نصیحت فرمائی آج اس کے امتی جلائے جارہے ہیں ۔ شامی بچے بھوکوں بلک رہے ہیں ، آگ وآہن ان پہ برس رہے ہیں اب تو مذہبی تعصب کے شعلے نئے امریکی صدر کے منہ سے بھی نکل رہے ہیں ۔

مودی اور ٹرمپ ایک ہی سیاست کر رہے ہیں یہ تو ظاہری خونریزی ہے جس کا سلسلہ پوری دنیا میں جاری ہے مگر ایک خاموش تباہی بھی ہے جسے یورپ وسیع پیمانے پر مسلمانوں پر مسلط کر رہا ہے اسے حیاتیاتی جنگ کہا جاسکتاہے۔ مسلم اکثریتی آبادی والے ملک یورپ کا ہدف ہیں بطور خاص اس کا پہلا ہدف پاکستان ہے کیونکہ طاقت کے اعتبار سے پہلا ایٹمی قوت رکھنے والا ملک ہے اور آبادی کے اعتبار سے انڈونیشیا کے بعد دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس کا اظہار معروف کالم نگار اوریامقبول جان نے اپنے ایک کالم ’’ایڈز اور قادیانیت‘‘ کے تحت کیا ہے۔ انتہائی خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ ایک تجزیہ کے مطابق یورپ میں اباحیت کی بنیاد پہ جو فری سیکس معاشرہ وجود میں آیا ہے وہ اب شادی بیاہ اور بچوں کے جھنجھٹ سے بالکل آزاد رہنا چاہتاہے جنسی تسکین کی آزادی کے ساتھ اجتماعی خودکشی کا ایک طوفان ہے جو مغرب کو آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور 2050 تک یورپ سے 10 کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نسل پیدا نہیں ہوگی۔ اس صورت حال کی وجہ سے مغربی حکومتیں عوام کو افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہوگئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے کوئی بڑے سے بڑا انعام اور لالچ اب ان کو بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بناسکتا اگر یہی صورت حال رہی تو آئندہ پچاس سال بعد دنیا میں عیسائی اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور کرئہ ارض پر 60 سے 65 فی صد آبادی کے ساتھ مسلمان اکثریت میں ہوجائیں گے لہٰذا اپنے ہاں افزائش نسل سے مایوس یورپ نے توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پہ مرکوز کر دی ہے اس مقصد کے لیے یہودی لابی متحرک ہوگئی ہےاور پاکستان میں قادیانی ان کے آلہ کار بن کر اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں آزاد خیال دین سے دور نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھانس کر ایڈز کو منظم شکل میں پاکستان میں پھیلانے کا مکروہ عمل سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں نیزہیپاٹائٹس کا مرض بھی آلودہ سرنجوں کو ہسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کے ذریعے استعمال میں لاکر پھیلایا جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ دینی مذہبی اور جہادی پس منظر رکھنے والا پاکستان خاکم بدہن اپنی پہچان کھو کر لق ودق صحرا بن جائے۔ ایک طرف یہ خفیہ سازشیں ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ان امراض میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب کھلم کھلا مسلم ممالک میں فیملی پلاننگ کے لیے یورپ فنڈز مہیا کرتا ہےذرائع کے مطابق15۔2014ءمیں 11ارب روپےجبکہ 2016 ء کی ابتداء میں 3ارب5 کروڑ80لاکھ اور 2016 کے وسط میں7 ارب 62 کروڑ اورماہ دسمبر میں 2 ارب19 کروڑ مختص کیے اور ہمدردی کے پردے میں مسلم نسل کشی میں مصروف عمل ہے حد تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں رسول کریم ﷺ کا فرمان پڑھ کر سنانے والے کہ (فإنی مکاثربکم الامم) ’’ قیامت کے روز میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا‘‘۔ کچھ نام نہاد علماء،اسکالرز اور سماجی کارکن خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کی زینت بن کر عوام کو فیملی پلاننگ کا درس دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔خدارا کچھ غور کریں کہ آپ کتنی بڑی سازش کے شریک کار بن رہے ہیں ۔ فروری کے مہینہ میں ایک طرف کشمیر پر سیمینار ہوں گے دوسری طرف عیسائی پادری ویلنٹائن کو یاد کرکےویلنٹائن ڈے منایا جائے گا پھر زندہ دلی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے بال ٹھاکرے کو راضی کرنے کے لیے بسنت بھی منائی جائے گی یہ سب ہوگا اور نصیحت کرنے والے خوشیوں کے دشمن قدامت پسند تنگ نظر اور پتہ نہیں کیا کیا کہلائیں گے یا پھر ممکن ہے طالبان کی صف ہی میں کھڑے کر دیئے جائیں مگر ذرا سا سوچیے گا ضرور کہ اگر ہم اپنی تباہی کا انتظام اپنے ہاتھوں سے کریں اور امید کامیابی اور ترقی کی لگائیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟ جو لوگ مادروطن کی حفاظت اور کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پہ احتجاج کرتے ہیں ان کے لیے ہمارا رویہ کیا ہے اس کے لیے سیرت رسول ﷺ سے ایک واقعہ پڑھیے ۔
اس کے تناظر میں ملک عزیز کی موجودہ صورت حال بہتر طور پہ سمجھی جاسکتی ہے جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب مہاجرین مدینہ منورہ ہجرت کرکے چلے آئے تو قریش نے عبد اللہ بن اُبی اور اس کے مشرکین رفقاء کو ایک دھمکی امیز خط لکھا خط کا متن یہ تھا۔
’’ آپ لوگوں نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجیےیا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کر دیں گے اور آپ کی عورتوں کی حرمت پامال کرڈالیں گے۔‘‘ اس خط کے پہنچتے ہی عبد اللہ بن اُبی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لیے اُٹھ پڑا اس لیے کہ وہ پہلے ہی سے نبی ﷺ کے خلاف رنج اور کینہ لیے بیٹھا تھا کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ ہی نے اس سے بادشاہت چھینی ہے چنانچہ جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقاء کو موصول ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے جب نبی ﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ’’ قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچا دینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ ‘‘ نبی ﷺ کی یہ بات سُن کر لوگ بکھر گئے۔‘‘ (الرحیق المختوم ، مسلح کشاکش،صفحہ نمبر :265۔266)

عدل کے رکھوالے

سعودیہ میں ایک شہزادہ پر جرم ثابت ہونے کے بعد اس پر حد نافذ ہونا پوری دنیا کے لئے پیغام ہے کہ مملکت کے خلاف صبح شام مختلف قسم کی سازشوں میں مست لوگوں کو اصل تکلیف وہاں عدل سے ہے جو اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے ۔ شاہ سلمان کے اس عدل کے بہترین نمونہ کو دیکھ کر مجھے وہ منظر یاد آیا ہے۔
کہ کائنات کےامام ایک چوری کرنے والی اونچے قبیلے کی عورت پر حد نافذ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ اس پر حد نافذ ہونے سے ہماری بڑی بدنامی ہوگی۔ اور حتی کہ کائنات کے امام کے سامنے سفارشیں اور گزارشیں کی جارہی ہیں کہ خدارا اس عورت پر حد جاری نہ کیجئے ہماری عزت کا مسئلہ ہے لیکن میں قربان جاؤں رحمت عالمﷺ نے فرمایا: اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا جو محمدﷺ کا لخت جگر ہے ، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اس نے محمدﷺ کو تکلیف پہنچائی۔(صحیح بخاری: 3714)
لیکن یہاں عدل کے نفاذ کی فکر ایسی کہ فرمارہے ہیں ۔ کہ اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔(صحیح بخاری: 3475)
گویا کہ صحابہ سمجھ گئے کہ اس میں سفارشوں ، گزارشوں ، اور استثناؤں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دیکھیں یہاں رسول اکرم ﷺ کی بیٹی کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا فرمان  اور دوسری طرف کتنے ہی عمدہ جذبات عدل کے حوالے سے شاہ سلمان کے ہیں انہوں نے بھی اپنے بھتیجے پر عدل نافذ کرکے بڑی عمدہ مثال قائم کی۔ رسول اکرم ﷺ کے فیصلوں کے روشن تذکروں کے حوالے سے عربی میں اقضیۃ رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ کیا جائے ، اسی طرح خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کے مطالعہ کے لئے اقضیۃ خلفاء رسول اللہ ﷺ بہترین کتاب ہے۔
اردو میں مولانا عبدالمالک مجاہد حفظہ اللہ کی کتاب سنہرے فیصلے بڑی دلچسپ کتاب ہے۔ اسی کتاب سے ماخوذ ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔
عتبی کہتے ہیں کہ میں اموی خلفہ ہشام بن عبدالملک (105ھ تا 125ھ) کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں قاضی کی عدالت میں دو آدمی حاضر ہوئے۔ ایک ابراہیم بن محمد بن بن طلحہ اور دوسرا خلیفہ ہشام کا درباری سپاہی ۔ دونوں عدالت میں پہنچ کر قاضی صاحب کے سامنے بیٹھ گئے۔
درباری سپاہی گویا ہوا : قاضی صاحب ! امیر المؤمنین اور ابراہیم کے درمیان ایک تنازع ہے۔ امیر المؤمنین نے مجھے اپنی جانب سے نیابت کے لئے بھیجا ہے۔
قاضی : تمہاری نیابت پر دو گواہ مطلوب ہیں۔
درباری سپاہی: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں امیر المؤمنین کی طرف سے کچھ جھوٹ بولوں گا ، حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دور کا فاصلہ نہیں ہے، میں ان کا قریبی سپاہی ہوں۔
قاضی : بغیر شہادت کے نہ تمہارے حق میں مقدمہ ثابت ہوسکتا ہے اور نہ تمہارے خلاف۔
قاضی کا دو ٹوک کلام سن کر درباری سپاہی عدالت سے نکل کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور اسے پوری داستان کہہ سنائی ۔ خلیفہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوااور تھوڑی ہی دیر بعد وہ عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور گویا ہوا : قاضی صاحب ! یہ دیکھیں امیر المؤمنین حاضر ہوگئے ۔
خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہیں قاضی صاحب استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئےمگر خلیفہ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر قاضی نے ایک مصلی بچھایا، اس پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد ایک ساتھ بیٹھ گئے۔
عتبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین ا س قضیے سے متعلق ان کے درمیان ہونے والی گفتگو صاف صاف نہیں سن رہے تھے ، البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ میں آرہی تھیں ۔ دونوں  مدعیوں نے اپنے اپنے دلائل بیان کیے۔ قاضی نے دونوں کی مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام کے خلاف فیصلہ دیا۔ ابراہیم بن محمد نے اپنے حق میں فیصلہ سن کر خلیفہ کی شان میں چند گستاخی آمیز کلمات کہہ دیے، مزید یہ بھی کہا:
’’ الحمدللہ الذی ابان للناس ظلمك ‘‘
’’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہے جس نے لوگوں کے روبرو آپ کا ظلم ظاہر کردیا!‘‘
یہ سن کر خلیفہ طیش میں آگیا اور کہنے لگا:
’’ لقد ھممت ان اضرب عنقك ضربۃ ینتثر منھا لحمك عن عظمك ‘‘
’’ جی چاہتا ہے کہ تیری گردن پر ایسی ضرب لگاؤں جس سے تیری ہڈی سے تیرا گوشت الگ ہوجائے ۔ ‘‘
ابراہیم بن محمد نے کہا: اللہ کی قسم! اگر آپ نے ایسا کیا تو ایک عمر دراز اور حقِ قرابت رکھنے والے کے ساتھ یہ غیر مناسب سلوک ہوگا۔
خلیفہ ہشام نے کہا: ابراہیم ! اس قضیہ کو صیغۂ راز ہی میں رہنے دو۔

ابراہیم نے جواب دیا:

’’ لاستراللہ علی ذنبی یوم القیامۃ ان سترتھا‘‘

’’ اگر میں نے اس مقدمہ کو صیغہ ٔ راز میں رکھا تو اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو قیامت کے دن پوشیدہ نہ رکھے ۔ (یعنی میں لوگوں کو ضرور بتاؤں گا)
خلیفہ کہنے لگا: میں اس مقدمے کو چھپانے کے لیے تمہیں ایک لاکھ درہم عنایت کروںگا۔
جب خلیفہ کی وفات ہوگئی تو ابراہیم بن محمد کی زبان سے لوگ یہ کلمات سنا کرتے تھے:

’’ فسرتھا علیہ طول حیاتہ ثمنا لما اخذت منہ ، و أذعتھا بعد مماتہ تزیینا لہ ‘‘

’’ چنانچہ میں نے خلیفہ کی حیات میں اس مقدمے کو اس کی عطا کردہ قیمت کے عوض چھپائے رکھا اور جب اس کی وفات ہوگئی تو اس کی خوبی کے اظہار کے لیے اس راز کو فاش کردیا۔‘‘  (سنہرے فیصلے: 22 تا24)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عدل کی مثالیں قائم کیں جو تاریخ کے روشن اوراق کا حصہ بن گئیں۔
ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کی گفتگو میں حائل ہوتا ہے اور پہنے ہوئے لباس کے بارے میں پوچھتا ہے کہ جو تقسیم ہمیں ملی ہے اس سے ہمارا تو پورا لباس تیار نہ ہوسکا آپ کا کیسے ہوگیا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود خاموش ہیں اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہی بتلاؤ۔ خلیفہ کے بیٹے کا جواب ہے کہ ان کے مکمل لباس میں میرا حصہ شامل ہے۔
تاریخ اسلام کا قاری جب تاریخ کی ورق گردانی کرے گا تو اسے یہ منظر بھی نظر آئے گا کہ وقت کا خلیفہ وقت کے قاضی کی عدالت میں موجود ہے اور مقابل میں یہودی ہے خلیفہ کا دعوی ہے کہ میری گمشدہ ذرع اس کے پاس ہے لیکن ذمی کہتا ہے یہ میری ہے،میں نے اسے خریدا ہے۔ قاضی نے وقت کے خلیفہ سے گواہ کا مطالبہ کیا ہے مگر گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شرعی تعلیم کے مطابق فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا گیا ہے۔ اللہ اکبر کیا وہ منظر ہوگا کہ وقت کا خلیفہ عدالت سے اپنے خلاف فیصلہ لے کر لوٹ رہا ہے ، اس منظر نے اس یہودی کے دل پر ایسا اثر کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ غلط میں ہوں فوراً اسلام قبول کر لیتا ہے۔ اور کہتا ہے امیر المومنین اپنی ذرع واپس لیجئے یہ آپ ہی کی ہے۔ جی ہاں یہ واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہے اور یہ عظیم فیصلہ صادر کرنے والے جج قاضی شریح ہیں۔
اسلامی تاریخ کا ہر قاری اس دور سے بھی واقف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر بکری کے پاس سے بھیڑیا گزر جائے تو وہ بکری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وقت کا خلیفہ بڑا عادل ہے۔ جی ہاں پانچویں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور ہے۔
بہرحال شاہ سلمان نے ایک مرتبہ پھر تاریخ اسلام کو تازہ کیا ہے اور اسلام دشمن عناصرکو دکھا دیا ہے، عدل ابھی زندہ ہے۔

یسُوع علیہ السلام۔ابن ِخدا۔?

یسُوع علیہ السلام۔ابن ِخدا۔
ا ناجیل کا تضاد اور اصل حقائق

عیسائی مذہب میں یسوُع علیہ السلام کو ’’ابن خُدا ‘‘ (خدا کا بیٹا) سمجھا جاتا ہے اور تثلیث ’’باپ ، بیٹا اور روح القدّس‘‘ کا دوسرا اقنوم(شخصّت ) قرار دیا جاتا ہے مگر اناجیل سمیت پورے عہدجدیدحتّٰی کہ پوری بائبل میں تثلیث کا نام ونشان تک نہیںملتا۔ یہ عقیدہ کس نے اور کب ایجاد کیا ؟ہمارا موضوع نہیں۔ یہاں قارئین کرام کو تثلیث کے دوسرے اقنوم ’’بیٹا‘‘کی حقیقت سے آگاہ کرنا مقصد ہے۔
پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ انا جیل میں سے کسی مخصوص موضوع پر تحقیق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ بعض واقعات کو صرف ایک انجیل نے بیان کیا ہے بعض کو دو، بعض کو تین اور بعض واقعات کو چاروں انجیلوں میں بیان کیا گیا ہے اورپھر ایک ہی واقع میںہر انجیل دوسر ی سے مختلف ہے۔جب ہر انجیل برابر معتبر سمجھی جائے تو کس کے حوالے کو فوقیّت دی جائے؟ لہٰذا اس مشکل سے نپٹنے کیلئے پہلے چاروں اناجیل کا حوالہ درج کیا جائیگا ۔ اورمذکورہ واقعہ میں تضاد کی نشاندہی کر نے کے بعد اس پر مزید بات کی جائے گی تاکہ قارئین کومذکورہ موضوع کے ساتھ ساتھ انجیلوں کے تضاد کا علم بھی ہوتا جائے۔ اس سے قارئین کو یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ یسوع علیہ السلام کو زبردستی کس طرح خُدا کا بیٹا قرار دیا گیا؟۔یا درہے طوالت کے اندیشہ کے پیشِ نظر فرداً فرداًبیان کئے گئے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف معروف اور بڑے واقعات کو درج کیا گیا ہے جسے کم ازکم دو انجیلوں میں بیان کیا گیاہے۔

پیدائش کی بشارت :

1۔انجئل متّی
خداوند کے فرشتہ نے ا سے خواب میں د کھائی دیکر کہا: اے یوسف ا بن دا ؤد ا پنی بیوی مریم کو ا پنے ہاں لے آنے سے نہ ڈ ر کیونکہ جو کچھ اسکے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قد رت سے ہے:اسکے بیٹا ہوگا اور تو ا س کا نام یسوع رکھنا ۔کیونکہ وہی ا پنے لوگوں کو گناہوں سے پاک کریگا۔(جلدنمبر1/صفحہ نمبر:20)
انجیل لوقا فرشتہ نے اس سے کہا:اے مریم خوف نہ کر کیونکہ خداوند کا تجھ پر فضل ہو اہے:د یکھ تو حاملہ ہو گی اور تیر ے بیٹا ہوگا:ا سکا نام یسوع رکھنا:وہ بزرگ ہوگا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگاا ور خدا وند اسے اس کے باپ دا ؤد کا تخت اسے دیگا۔
تضاد: متّی کی انجیل کیمطابق فرشتے نے بیٹے کی پیدائش کی بشارت یوسف علیہ السلام کو دی جبکہ لوقاکے مطابق سیدہ مریم علیہا السلام کو بشارت دی گئی۔
متّی کیمطابق تو بیٹے کی پیدائش روح القدس کی قدرت سے تھی اور لوقا کیمطابق خدا کا فضل تھا۔
اسی طرح متّی کیمطابق بچے کا نام رکھنے کا یوسف علیہ السلام کو کہا گیا جبکہ لوقا کیمطابق بچے کا نام رکھنے کے لئے سیدہ مریم علیہا السلام کو کہا گیا۔
متّی نے کہا کہ وہ بزرگ ہوگا اور اپنی قوم کو گناہوں سے پاک کریگا۔
لوقانے بتا یا ہے کہ وہ خدا وند کا بیٹا کہلائے گا اور دائود  علیہ السلام  کے تخت پر بھی بیٹھے گا۔
دو متضاد رائے میں سے یقینا ایک ہی درست ہو سکتی ہے
مگر یہاں پر دونوں ہی جھوٹے قرار پاتے ہیں۔
تجزیہ:عیسائی علماء کیمطابق اگر ہر انجیل الہام کے ذریعے لکھی گئی ہے تو دونوں کو ایک سا الہام ہوتا چاھئے تھا۔جیسا کہ عیسائی علماء ان تضادات سے جان چھڑانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ الہام واقعات کا ہو ا تھا مگر الفاظ ہر مصّنف کے اپنے ہیں۔اس دلیل کے مطابق اگر تمام واقعات الہامی ہوتے تو الفاظ بیشک مختلف ہوتے مگر مفہوم ایک ہونا چاہئے تھا ۔لیکن یہاںتومعاملہ ہی الٹ ہے۔یعنی شخصیت بھی جدا اور بشارت بھی مختلف ۔ دونوں بشارتوں کا نتیجہ کیا نکلا؟
لوقا کے کہنے کے مطابق سیدنایسوع علیہ السلام کو دائود علیہ السلام  کے تخت پر بیٹھنے کا موقعہ ملا اور نہ متّی کے مطابق انہوں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو گناہوں سے پاک کیا ۔ بلکہ الٹا انہی کی شازشوں کا شکار ہو کر انہیں جہنم کی بشارت سنا گئے۔ دو ہزار سال گزر جانے کے باوجو د ان کی اپنی قوم اہل یہود نے آپ کو نبی ہی تسلیم نہیں کیا ۔اسی طرح متّی کے مطابق تو ’’ وہ بزرگ ہوگا‘‘ مگر لوقا نے لکھا ہے کہ ’’وہ خُدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائیگا‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ خُدا کا بیٹا ہونا الگ بات ہے اور کہلانا دوسری بات ہے کیونکہ ہونے اور کہلانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بہرحال اگر لوقا کے مطابق خُدا کا بیٹا کہلانے کی بشارت الہامی ہوتی تو متّی کو بھی یہی الہام ہوتا اور وہ بھی لوقا کے مطابق ہی بیان کرتا۔ جس سے ثابت ہوا کہ دونوں ہی نے سنی سنائی روایات بیان کی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ دونوں ہی کی بیان کی ہوئی بشارتیں پوری نہیں ہوئیں۔ بفرض محال لوقا کی بشارت کو مان بھی لیا جائے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ بشارت کا ایک حصّہ جھوٹا ثابت ہو اور دوسرے کو الہامی اورسچا سمجھاجائے؟ اس کے مطابق جب یسوع علیہ السلام کو اپنے باپ داؤد علیہ السلام کا تخت نہیں ملا تو خُدا کا بیٹا ہونا کس طرح الہامی اور درست ہو سکتاہے؟

آسمان سے آوا ز :

2۔انجیل متّی(ج3/ص:16-7 )’’د یکھو آسمان اس کے لئے کھل گیا اور ا س نے خدا وند کے روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر ا ٓتے ا ور ٹھہرتے د یکھا اور د یکھو آسمان سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں۔‘‘
تضاد: اس واقعہ کو مرقس نے اپنی انجیل (1/9) لوقا نے (3/22)اور یوحنا نے (1/32)میں بیان کیا ہے۔مرقس اور لوقا کے الفاظ ذرا مختلف ہیں مگر مفہوم ایک ہی ہے متّی کے مطابق “یہ میرا بیٹا پیارا بیٹا ” اور لوقا نے “تو میرا پیارا بیٹا ” لکھا جو اسلام کے مطابق تو بہت بڑا فرق ہے مگر  عیسائیت میںاکثر واقعات میں زمین و آسمان کے فرق کی وجہ سے اس فرق کو بھی معمولی کہا جاتا ہے اسلئے اتنے فرق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ متّی کے الفاظ کے مطابق تو آواز بلا واسطہ سیدنا عیسٰی علیہ السلام سے مخاطب ہے جبکہ مرقس اور لوقا کے مطابق عیسٰی علیہ السلام کی بجائے لوگوں سے مخاطب ہے۔ جبکہ یوحنا ان تینوں سے ہی مختلف ہے اسلئے اس پر بعد میں گفتگو ہوگی۔پہلے ان تینوں اناجیل کے حوالے کا جائزہ پیش ِ خدمت ہے۔
تجزیہ:اس امر میں مسلمانوں اور اہل کتا ب عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی اختلاف نہیں کہ خالق کائنات نے بنی نوع انسان تک اپنے احکامات پہنچانے کے لئے انبیاء ورسل معبوث فرمائے۔اگر گنہگار انسانوں میں اپنے خالق کی آواز سننے اور اسے برداشت کرنے کی طاقت ہوتی تو انبیاء کرام کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی ۔خالق انسانیت نے کبھی بلاواسطہ آسمان سے نہ تو کوئی حکم دیا اور نہ آواز دے کر اپنے کسی نبی کی تصدیق فرمائی۔ بلکہ آسمان سے کھبی کسی آوازنے انسان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی تو وہ شیطان ہے۔اس طرح کے کئی واقعات ملتے ہیں کہ کسی نیک اور عابد اور زاہد کو اس کا خالق بن کر بہکانے کی کوشش کی ۔
اب ذرا اس واقعے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں۔مذکورہ واقعے میں روح القدّس تو کبوتر کی شکل میں یسوع علیہ السلام کے کندھے پرہے۔ انجیل کے الفاظ  ’’یہ میرا‘‘یا تومیرا‘‘ سے ظاہر ہے کہ یہ آواز روح القدّس کی نہیں خود اللہ تعالیٰ کی اپنی ذاتی آواز ہے۔ آدم علیہ السلام سے لیکر یسوع علیہ السلام تک لاتعداد انبیاء کرام معبوث ہوئے ۔ اگر عام انسانوں کو اسطرح حکم صادر فرمانا اللہ تعالیٰ کی سنّت ہوتی اورانسانوں میں اپنے خالق کی ہیبت و جلال کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی تو اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر معبوث فرمانے کی بجائے آسمان سے ہر حکم صادر فرما دیا جاتا۔عام انسان تو دور کی بات ہے سیّدناموسیٰ علیہ السلام کے علاوہ اللہ نے اپنے نبیوں سے بھی بلاواسطہ گفتگو نہیںفرمائی بلکہ روح القدّس کی وساطت سے اپنے احکامات پہنچائے۔ اللہ کے بے شمار انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا گیا بعض پر انتہائی ظلم کیا گیا اور بعض کو شہید کر دیا گیا۔ چلو عام انسانوں کو نہ سہی اپنے پیغمبر ہی کی صداقت کی گواہی دے دی جایا کرتی ۔ مگر ایسا کرنا نہ خالق کائنات کی شان ہے نہ گنہگار مخلوق میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنے خالق کی آواز ان گنہگار کانوں سے سننے کی طاقت رکھتی ہو ۔بفرض محال اگر اللہ تعالیٰ اس طرح عام لوگوں کو حکم صادر فرماتے تو انکار کرنے والوں کو فوراً سزا کے طور پر نابود کردیا جاتا۔لہٰذا اناجیل کا یہ واقعہ خلاف عقل ، خلاف حقائق اور خلاف سنّت اور من گھڑٹ ہے ۔
تاہم اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ آواز سنی گئی تھی اور سب کچھ ممکن اور درست ہے ۔ تو پھر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کہ آواز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ بولنے والاکون ہے۔ یعنی نہ بولنے والے نے اپنا تعارف کروایا نہ یسوع علیہ السلام کا نام لیا گیا ہے۔توپھر سننے والوں کو کیسے پتہ چلا کہ کون کس کا بیٹا ہے؟ آواز اور مخاطب دونوں ہی گمنام ہیں۔ فرض کریں یہی آواز آج آپ سنتے ہیں تو کیا کہیں گے ؟ اگر اس طرح کی آواز پر کوئی حتمی فیصلہ لیا جاسکتا تو بتایئے؟واضح ہو کہ ایسی بے سروپا روایات پر اتنا بڑا عقیدہ اپنا لینا کسی باہوش انسان کا کام نہیں جو جانتا ہے کہ ایک دن اپنے خالق کے سامنے پیش ہونا ہے ۔اور یہ کوئی معمولی لغزش نہیںکہ توبہ کیئے بغیر اور اللہ کے آخری نبی پر ایمان لائے بغیر معاف کردی جائے ۔جس کی ہزاروں احادیث مبارکہ میں کوئی تعارض ہے نہ اس کے لائے ہوئے قرآن میں معمولی سا بھی اختلاف ہے ۔ اس پر بھی بے سرو پا اعتراض کرنے والے کو ڈرنا چاہئے ۔ کیونکہ کافر کیلئے دوزخ کوئی دور نہیں ۔ مرتے ہی عذاب شروع ہو جاتا ہے ۔ہر انسان سے سوال ہوگا اور ہر انسان اپنی عقل اور علم کے مطابق اپنے عقائد کا ذمّہ دار ہوگا۔
اب دیکھئے اسی واقعہ کایوحنّا کو کیا الہام ہوا؟
انجیل یوحنا1/32: اور یوحنا نے یہ گوا ہی دی ہے کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح ا ترتے د یکھا ہے اور وہ اس پر ٹھہر گیا ا ور میں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ د ینے کو بھیجا ا سی نے مجھ کو کہا کہ جس پر تو روح کو ا ترتے اورٹھہرتے د یکھے وہی روح ا لقد س سے بپتسمہ د ینے والا ہے:چنانچہ میں نے د یکھا اور گوا ہی دی ہے کہ یہ خدا کا بیٹا ہے‘‘
نوٹ :انجیل لکھنے والا یوحنا حضرت یوحنّا اصطباغی یا یوحنّا بپتسمہ دینے والے یعنی حضرت یحیٰ علیہ السلام کی گواہی درج کر رہا ہے۔
یوحنا کے مطابق حضرت یحیٰ علیہ السلام سے تو فرمایا گیاکہ جس پر تو رو ح کو اترتے دیکھے وہ روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہوگا۔ اب انہیں گواہی بھی یہ دینی چاہیئے تھی کہ یہ روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے ۔ مگر ان سے اس کی بجائے خدا کا بیٹا ہونے کی گواہی دلوائی جارہی ہے۔اب اگر صاحب انجیل کی بات کو سچ مان لیا جائے تو ایک پیغمبر پر بہتان لازم آتاہے جوکہ کسی صورت میں بھی ممکن نہیںکہ ایک نبی اللہ کے بتائے ہوئے احکام کے خلاف اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کرے ۔ مگر انجیل کے مصنّف نے اپنی بات کو تقویّت دینے کیلئے اللہ کے پیغمبر سیدنا یحی علیہ السلام کی زبان مبارک سے گواہی دلوائی ہے اس کی نہ صرف کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایک پیغمبر پربہتان ہے کہ اس نے خیانت کرتے ہوئے اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے خلاف گواہی دی۔جو کسی بھی صاحب عقل انسان کو چونکادینے کیلئے بہت بڑی بات ہے ۔ چہ جائیکہ اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا جائے ۔
اللّٰہ کے پیغمبر کی بلامقصد آزمائش اورابلیس کایسوع علیہ السلام کو خُدا کابیٹا قرار دینا:
3۔انجیل متّٰی4/2: چالیس د ن اور چالیس را ت فاقہ کرکے آخر کو ا سے بھوک لگی:آزمانے وا لے (ا بلیس) نے پاس آکر ا س سے کہاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔۔پھر ا بلیس اسے مقد س شہر میں لے گیا اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اس سے کہا :ا گر تو خدا کا بیٹا ہے تو ا پنے تئیں نیچے گرا دے ۔
موازنہ: یہی واقعہ مرقس (1/12)اور لوقا میں (4/1) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ لوقا کے الفاظ ہیں؛
’’روح القد س نے ا سے بیابا ن میں بھیج د یا ،وہ جنگلی  جانوروں کے سا تھ رہا ا ور فرشتے اس کی خدمت کرتے تھے۔
تجزیہ: ’’اگر‘‘ کالفظ یعنی ا گر تو خدا کا بیٹا ہے ؟کے الفاظ سے ظاہرہوتا ہے جیسے عیسٰی علیہ السلام نے خدا کا بیٹا ہونے کا دعوٰی کر رکھا تھایا عہد عقیق میں آپ کے خُدا کا بیٹا ہونے کی بشارتیںموجود ہیں۔ ورنہ اسطرح استفہامیہ انداز میں پوچھنے کا کوئی جواز نہیںبلکہ خواہ مخواہ کا ایک تکلف محسوس ہوتاہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کہ عہد عتیق میں مسیح کے بارے میں ہے کہ وہ خُدا کا بیٹا ہوگا نہ خود یسوع علیہ السلام نے دعویٰ کیا ۔ بلکہ آپ علیہ السلام نے اپنے لئے ابنِ آدم کا لقب اختیار فرمایا۔تاہم مذکورہ واقعہ سچ ہے یا جھوٹ الفاظ شیطان کے ہیں نہ کہ روح القدس کے ۔پھر یہ جانتے ہوئے بھی کہ شیطان کا مشن ہی احکام خدا وندی کو بگاڑ کر انسان کو گمراہ کرنا ہے۔تعجب تو اس بات پر ہے کہ میرے عیسائی بھائی کے اناجیل کے اس طرح کے متضاد بیانات اور شیطان کی زبان سے کہلوائے گئے الفاظ پر ہی اتنا بڑا عقیدہ اپنائے ہوئے ہیںجو عہد عتیق کی بشارتوں اور تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے بھی منافی ہے اور انسانی ذہن کو بھی مطمعن نہیں کر پاتا۔ اس کے علاوہ  مذکورواقعہ کے ضمن میںہر صاحب عقل و شعورانسان کے ذہن میں اور بھی بہت سے سوال گردش کرتے دکھائی دیتے ہیں جن کے جواب کسی کے پاس نہیں۔مثلاً یہ کہ؛
1۔اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر کو دنیا میں ملاز مت کے امیدوار کی طرح آزمانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
2۔ اگر کوئی ایوبعلیہ السلام کی مثا ل دے تو ان کے بارے میں تو شیطان نے چیلنج کیا تھا ۔یسوع علیہ السلام کی آزمائش کی کیا وجہ تھی؟
3۔کیا شیطان جیسے دشمن کی آزمائش محض سوال و جواب تک ہی محدود تھی جبکہ ایوب علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کی مال و اولاد کی تباہی کے بعد ان کے بدن میںکیڑے تک پڑ گئے تھے؟
اس کے علاوہ موجودہ صورت حال کے بارے میں بھی کئی سوال ہیں ۔ مثلاًیہ کہ کسی انسان کا چالیس دن تک بغیر کھائے پیئے چلنے پھرنے کے قابل رہنا؟اور ایک انسان کا بطور خاص کسی پیغمبر کا ناپاک اور وحشی درندوں کے ساتھ دن رات گزارنااور پھر پاک رہنا ناممکن ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔لیکن ایسے سوالات سے مسلمانوں کو کوئی دلچسپی یا سرو کار نہیں ۔ غرض ہے تو بس اس بات سے کہ یہاں سیدنا یسوع علیہ السلام کو خدا کا بیٹا روح القدس نے نہیںبلکہ شیطان نے کہا ہے ۔ جس کے کہنے کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اس کے الٹ مطلب لینے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عیسیٰ روح اللہ کے شیطان کو دئے گئے جوابات جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگاخود کو انسان قرار دیا۔دوسرے سوال کا جواب کہ خداوند ا پنے خدا کی آزما ئش نہ کر عام بحیثیّت انسان خُدا کو آزمانے سے انکار کردیا۔اسی طرح تیسرا سوال جس میںشیطان نے خود کو سجدہ کرنے پر بادشاہت دینے کا لالچ دیا تو یسوع علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ’’اے شیطان د و ر ہو کیونکہ لکھا ہے کہ خدا و ند ا پنے خدا ہی کو سجد ہ کر ا و ر صرف ا سی کی عباد ت کر” انسان اور پیغمبرکے جواب ہیں یا بیٹے کے؟ مگر اناجیل میںتو یسوع علیہ السلام کے اس فرمان کے برعکسخود یسوع علیہ السلام کوبعض جگہ خودکو سجدہ کرواتے دکھایا گیا ہے۔افسوس ایسے لوگوں پر جوبلا دلیل روایات پر فانی دنیا کے فوائد کی خاطر نہ صرف خود کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے پیروکاروں کا بوجھ بھی اٹھانے والے ہیں۔ جبکہ ان کے ماننے والوں کے عذاب میں بھی کمی نہ ہوگی۔
4۔بدروحوں کا یسوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹا قرار دینا:
اجیل متّٰی8/28:جب وہ اس پار گدرینیوں کے ملک میں پہنچا تو دو آدمی جن میں بدروحیں تھیں قبروں سے نکل کر اسے ملیں۔ انہوں نے چلا کر کہا ؛اے خدا کے بیٹے ہمیں تجھ سے کیا کام؟
انجیل لوقا8/27:پھر وہ گرا سینیوں کے علاقہ میں پہنچے ۔ توا یک مرد ا سے ملا جس میں بدروحیں تھیں:وہ چلایا اور اس کے سامنے بلند آوا ز سے کہنے لگا:اے خدا تعالیٰ کے بیٹے مجھے تجھ سے کیا کام؟
تضاد:متّی کےمطابق ’’گد رینیوںکے ملک میںپہنچا لیکن لوقا کیمطابق’’ گرا سینیوںکے علاقہ میںپہنچے‘‘ اس طرح متّی نے بتایا ہے کہ دو آدمی تھے جبکہ لوقا نے کہا ایک مرد تھا۔متّی کے مطابق ’’قبروںسے نکلے‘‘ اور لوقا کے مطابق’’ شہر کا آدمی‘‘ تھا۔اب کون چشم دید گواہ ہے یا کس کا راوی چشم دید گواہ ہے یا کس کو درست الہام ہوا ؟ اس کا جواب تو علماء بائبل ہی دے سکتے ہیں۔
تجزیہ: یاد رہے کہ بدروح محض ایک افسانوی اصطلاح ہے ۔جو فلموں اور کہانیوں میں صرف بچوں کے ذہنوں میں سنسنی پیدا کرنے کے استعمال کی جاتی ہے۔جس کا عملی زندگی میں کوئی وجود یاکردار نہیں۔ معنوی اعتبار سے بد روح اس کو کہتے ہیں جو رحمٰن کا راستہ چھوڑ کر شیطان کی پیروبن جائے۔بائبل کے مطابق اسطرح کی گنہگار روحوں کو قیامت تک کے لئے تنگ و تاریک غار میں قید کر دیا جاتا ہے۔اگر چوراس دنیا میں قید یاحوالات میں بند ہو تو باہر چوری یا ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔تو کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قید کی ہوئی روح آزاد بھی پھرے اور انسانوں کو ستاتی بھی پھرے ؟کیا یہ ممکن ہے ؟یقینا نہیں۔
اس سارے تضاد کو ایک طرف رکھ دیں۔اب دیکھیں کہ یسوع علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کس نے کہا؟ فرض کریں بدروح ایک حقیقت ہے سوال یہ ہے کہ ایک بدروح کے الفاظ حجت ہو سکتےہیں؟اگر حوالے کے متن کو مدِنظر رکھ کر غور کریں تو اس طرح ممکن ہی نہیں کہ نہ یسوع علیہ السلام نےخُدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا نہ کتاب مقدّس میں اسطرح کی کوئی پیشگوئی ہے کہ مسیح خُدا کا بیٹا ہوگا۔ پھر بدروح خواہ مخواہ کس طرح بلاوجہ و بلامقصد یہ کہہ سکتی ہیں کہ ہمیںمعلوم ہیں تو خُدا کا بیٹا ہے؟یہ توایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی مجرم جانتے ہوئے بھی تھانیدار سے کہے کہ مجھے پتہ ہے تو تھانیدار ہے؟دراصل یہ خواہ مخواہ یسوع علیہ السلام کو خُدا کا بیٹاثابت کرنے کی کوشش ہے ۔ مگرکسی نے یہ نہ سوچا کہ ہماری دلیل معتبر بھی ہے یا بھونڈی ؟
قادرمطلق خُدا جھوٹ کو معتبر بننے ہی نہیں دیتا ۔ تاکہ غیر جانبدار اورصاحب عقل انسان کیلئے حق کو پہچاننے میں رکاوٹ نہ بن سکے ۔ اگر میرے عیسائی بھائی میری اس رائے کو جانبداری سمجھیں تو سوال ہے کہ کیا دنیا کے معاملات میںبھی اسطرح کی متضاد اور بھونڈی دلیل کو قبول کرتے ہیں؟ یقینا نہیں ۔ تو پھر کیا دین ہی اتنی عام اور معمولی چیز ہے کہ دنیا کے معاملے میں تو آٹے سے بال نکالیں اور جس پر ہمیشہ سز ا یا جزا کا دارومدار ہے اس کے بارے میں آنکھیں بند کر کے ساری زندگی برباد کردی جائے ؟ کیا آپ کا بوجھ آپ کے فادر اُٹھائینگے ؟یقینا ہر انسان اپنے اعمال کا ذمّہ دار ہے ۔ اگر اللہ کا ڈر اور جہنّم کی آگ کی برداشت ہے تو بے شک سوتے رہیئے۔ورنہ یا رکھیں آنکھیں بند ہوئیں تو سارا چانس ختم اور ہمیشہ کی جہنّم ۔ کیونکہ زندگی صرف ایک بار ہی ملتی ہے دوبارہ موقعہ نہیںدیا جاتا۔
5۔نورانی بادل سے آواز :
انجیل متٰی17/5: اور د یکھو ایک نورا نی بادل نے ان پر سایہ کر لیا اور ا س بادل سے آوا زآ ئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں ؛ ا س کی سنو‘‘
موا زنہ:یہ واقعہ ا نجیل مرقس (9/8)اور لوقا(9/36) میں بیان کیا گیا ہے ۔ ان کا ا نجیل متّی سے اتنا فرق ہے کہ انہوںنے “جس سے میں خوش ہوں” نہیں لکھا ۔’’ اس کی سنو‘‘ پر سب متفق ہیں ۔
تجزیہ: مذکورہ واقعہ بھی آسمان سے آنے والی آوازکی طرح (جو روح کے کبوتر کی ماننداترتے وقت آئی تھی) ذرا فرق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس کا تجزیہ بھی وہی ہے جو نمبر 3کے تحت گزر چکا ہے:لیکن اس واقعہ کی جزئیات کے ضمن میں چند سوالات جواب طلب ہیں: مثلاًیہ کہ اس حوالہ کے متن کے مطابق جب یہ آواز آئی تو اس وقت یسوع علیہ السلام کے ساتھ ان کے تین جانثار شاگرد موجود حضرت پطرس تھے جن کا رتبہ یسوع علیہ السلام کے بعد سب سے بلند تھاجس طرح اسلام میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام ہے: باقی دو حضرات یعقوب علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت یوحنا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا یسوع علیہ السلام نے باقی ماندہ گیارہ میںسے صرف ان دو کو اپنے ساتھ لیا:پہلے واقعہ کی طرح یہ آواز کس نے دی ؟ اس کے ایک طرف رکھیں اور موجودہ صورت حال کے مطابق سوالوں کے جواب تلاش کریں۔مثلاً یہ کہ
1۔ اس کی سنو: کا حکم وہاں موجود لوگوں کے لئے تھا ؟ یا تمام لوگوں کے لئے؟ اور کیا یہ آواز موجود لوگوں نے سنی یا ساری دنیا میں سنائی دی ؟
اگر کوئی کہے کہ یہ آواز صرف وہاں پر موجود لوگوں نے سنی اور یہ حکم موجود لوگوںکے لئے تھا:تو سوال ہے کہ یسوع علیہ السلام کے ساتھ تو پہلے ہی نہ صرف آپ علیہ السلام  کی سننے اور ماننے والے تھے بلکہ انہوں نے توآپ علیہ السلام کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کرساتھ ہو گئے تھے : اور آپ علیہ السلام کا ہر حکم سرآنکھوں پر سمجھتے تھے :پھر انہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی زبان سے اس کی سنوکا حکم دینے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟
اور اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ حکم ان کو نہیں بلکہ باقی تمام لوگوں کو تھا تو ظاہر ہے کہ یہ آواز پوری دنیا میںیاکم از کم پورے ملک میںسنی گئی ہوگی؟
تو سوال ہے کہ جو لوگ موقعہ پر موجود نہ تھے ان کو کیسے پتہ چلا کہ کون کس کا بیٹا ہے ؟کیونکہ نہ تو آواز دینے والے نے اپنا تعارف کروایا اور نہ یسوع علیہ السلام کا نام ہی لیا۔ ان سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں جو ااس بات کی گواہی ہے کہ ان واقعات میں کوئی حقیقت نہیں۔ ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان واقعات کا نہ کوئی چشم دید گواہ ہے نہ یہ واقعات چشم دید گواہوں کی روایات پر مبنی ہیں۔ چہ جائیکہ ان کو حواری کی تحریر قراردیا جائے ۔ اگر حقائق کا غیرجانبدراانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سید نا یسوع علیہ السلام کے بارے میں جو روایات مشہور تھیں سب سینہ بسینہ تھیں ایک مدّت کے بعد ہر ایک نے انہیںجس طرح سنااسے اپنے انداز اور مرضی کے مطابق بیان کر کے کتابی صورت میں جمع کر کے انہی کو انجیل کا نام دے دیا گیا۔ وہ بھی ایک نہیں بلکہ ستر ہے جن میں چار کا انتخاب کر کے اسے بائبل کا حصّہ بنا دیا گیا۔ بہرحال اگریہ بات سچ مان لی جائے کہ آسمان سے اللہ تعالیٰ نے ہی یسوع علیہ السلام کے بیٹا ہونے اور ان کی سننے کا حکم دیا تھا تو پھر انبیاء علیہم السلام کو اپنی نبوت کی صداقت کے لئے معجزات عطا کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہر پیغمبر کو بھیج کر اللہ تعالیٰ آسمان سے آواز دے دیتے کہ اس کو میں نے بھیجا ہے اس کی سنو ۔ کسی بھی صاحب عقل کے لئے فطرت اور حقائق دونوںکے خلاف روایات سے انکار کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

امت محمدیہ” علی صاحبھا افضلُ الصلاۃ والسلام “کے بوڑھے قسط 2

بوڑھوں کی بڑھتی تعداد:

جنگ عظیم اول ، دوم کے علاوہ بھی گذشہ کئی دہائیوں سے دنیا بھر کے انسانوں کو بہت سی جنگوں کا سامنا رہا جس میں بطور ایندھن استعمال ہونے والے انسانوں میں سب سے زیادہ نوجوان تھے،جسکے باعث بہت سے انسانی معاشرے نوجوانوں کی قلت کا شکار ہوچکے ہیں، جبکہ بوڑھوں اور خواتین کی کثرت ہے،جرمنی میں ”لیڈیز فرسٹ“کا نعرہ بھی اسی تناظر میں لگایا گیا تھا کہ وہاں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے،اسکا اندازہ ذیل میں دیئے گئے جائزے سے بھی ہوتا ہے:
1982 میں 142 ممالک کے مندوبی اجتماع میں اقوام متحدہ نے ”عمر رسیدہ“افراد کے متعلق خصوصی اعلان کیا،اور صحت کی عالمی تنظیم ”ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن“نے 1983 میں ”بوڑھوں کو زندگی دیں“کو اپنا ”موٹو“ قرار دیا اور اپنی تمام شاخوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس موٹو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوئی عملی منصوبہ پیش کریں،نیز اقوام متحدہ کی جانب سے کئے جانے والے جائزے کہتے ہیں کہ: 1950 میں بوڑھوں کی تعداد250 ملین (25کروڑ)تھی، جو 1975 میں :350 ملین(35 کروڑ) تک ،اور 1995 میں: 590 ملین(59 کروڑ) تک جا پہنچی، اور جلد ہی ایک ارب دس کروڑ سے بڑھ جائے گی ،اور 2025 تک یہ اضافہ 224 فیصد تک بڑھ جائے گا،جبکہ اُسوقت انسانی آبادی  1975 کے مقابلے میں 102 فیصد بڑھ چکی ہوگی،یعنی جس قدر آبادی میں اضافہ ہوگا اسی قدر بوڑھوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا، اس طرح 1995 تک ہر گیارہواں فرد 60 سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا، جبکہ 2025 تک ہر ساتواںفرد اس عمر تک پہنچ چکا ہوگا۔(مجلۃ المسنین،4/30)
یاد رہے! یہ اندازہ ”کل انسانی آبادی“ جس میں بچے ، جوان ،بوڑھے ، مرد و خواتین سبھی شامل ہیںکے مطابق لگایا گیا ہے،اگر بچوں کو الگ کردیا جائے اور صرف جوانوں(مذکر و مؤنث)اوربوڑھوں (مذکر و مؤنث) کی آبادی کا تقابل کیا جائے تو یقیناً بوڑھے مرد و خواتین کی مجموعی تعدادجوان مرد و خواتین کی مجموعی تعداد کے برابر نہیں تو قریب ضرور ہوگی،جبکہ دور حاضر میں بھی جنگوں کے شعلے بھڑک رہےہیں اور انسانوں کا قیمتی ترین سرمایہ ”نوجوان“اس بھڑکتی آگ کی نذر ہورہا ہے۔
یہ صورت حال مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو ”نوجوانوں“کا قحط ہوجائے گا،پھر بوڑھے مردوں کو جنگوں کی بھینٹ چڑھانا شروع کیا جائے گا ،پھر بڑے بچوں کو حتی کہ دنیا میں صرف عورتیں اور کچھ چھوٹے بچے رہ جائیں گے،جبکہ جوان اور بوڑھے مرد خال خال ہی ہوں گے۔
٭نبی آخر الزماں محمد ﷺ نے اسی جانب اشارہ کیا ہے ،جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ، وَيَظْهَرَ الْجَهْلُ، وَيَفْشُوَ الزِّنَا، وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ، وَيَذْهَبَ الرِّجَالُ، وَتَبْقَى النِّسَاءُ حَتَّى يَكُونَ لِخَمْسِينَ امْرَأَةً قَيِّمٌ وَاحِدٌ

قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ،علم اٹھ جائے گا،جہالت بڑھ جائے گی،زنا عام ہوگا،اور شراب نوشی بکثرت ہوگی،مرد جاتے رہیں گے جبکہ عورتیں رہ جائیں
گی،آخر کار پچاس خواتین کا ایک مردسرپرست ہوگا۔
(صحیح مسلم:2671)
اگرچہ یہ مستقبل کا منظر نامہ ہے لیکن یہ دور حاضر سے زیادہ دور نہیں ،ایسا ہونے سے پہلے ہی اگر معاشرہ اپنے بوڑھے افراد کو بوجھ سمجھنے لگے اور انکے حقوق کو فراموش کرنے لگے تو اس تاریک دور کو بہت جلد آنے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔

بوڑھوں اور بزرگوں کا احترام اور انکے معاشرتی و شرعی حقوق:

آجکل کے مادّہ پرست معاشرے میں بوڑھوں اور بزرگوں کو” عضو فاضل“ بلکہ معاشرے پر ”بوجھ“ سمجھا جاتا ہے،خصوصاً مغربی معاشرے میں بوڑھوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے انہیں اولڈ ہوم میں پھینک دیا جاتا ہے ،حتی کہ انہیں بعض بنیادی حقوق تک سے محروم کردیا جاتا ہے ۔
جب اولاد جوان اور خود کفیل ہو جائے اور بوڑھے تجربہ کار والدین انہیں اچھے برے کی تمیز سکھانا چاہیں ،یا روک ٹوک کریں تو انہیں بری طرح جھڑک دیا جاتا ہے اور اسے” ذاتیات میں دخل اندازی“ قرار دیا جاتا ہے، بلکہ بذریعہ عدالت اسطرح کی دخل اندازی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔
جو ماں باپ تکالیف سہہ کر، خون پسینے کی محنت سے پال کر، اولاد کو کسی قابل بناتے ہیں، بوڑھا اور محتاج ہونے پر یہی اولاد انہیں یا تو گھر کے کسی کونے میں پھینک کر انہیں فراموش کردیتی ہے یا گھر سے بے دخل کرکے اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتی ہے۔
مغربی معاشرے کی بالعموم یہی حالت زار ہے ،اور مسلم معاشرے بھی اب اسی روش کا شکار بنتے جارہے ہیں، آئے روز ساس بہو کا جھگڑا اور بیٹے کا بیوی کی بے جا حمایت کرنا،بیوی بچوں کی تفریح طبع کی خاطر دل کھول کر خرچ کرنا لیکن بوڑھے والدین کی دوائی وغیرہ ضروری اخراجات کے لئے ٹال مٹول سے کام لینا،بیمار ہونے پر انکی مناسب دیکھ بھال نہ کرنا ،انکی خدمت نہ کرنا ،زیادہ روک ٹوک کرنے پر ان سے بدتمیزی کرنا،گھریلو و کاروباری امور میں ان سے مشاورت نہ کرنا،گھر میں ہونے کے باوجود ان سے بات چیت نہ کرنا بلکہ انکی خیرت تک دریافت نہ کرنا، اسطرح کی بہت سی خرابیاں ہمارے معاشرے میں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔
٭اسلام میں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں کہ بوڑھوں اور بزرگوں کے ساتھ اسطرح کا سلوک کیا جائے ، بالخصوص بوڑھے والدین کے ساتھ اسطرح کی بد سلوکی تو کجا ،والدین کی طرف سے زیادتی کی صورت میں بھی انہیں ”اُف“ تک کہنے کی اجازت نہیں،اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا  (الاسراء:23-24)

آپکے رب نے فیصلہ کیا کہ تم اسکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو،اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو،جبکہ ان میں سے ایک یا دونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں،تو ان کے سامنے ”اف“تک نہ کہو،نہ ہی انہیں جھڑکو،اور ان سے ادب والی بات کہو،اور شفقت و مہربانی کا بازوانکے لئے جھکادو،اور کہتے رہو:اے میرے پروردگار،ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے حقوق کو ملادیا کیونکہ حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق اللہ کی عبادت ہے،جبکہ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
نیز اس آیت میں مذکور ” شفقت و مہربانی کا بازوانکے لئے جھکادو“کی تفسیر میں عروہ بن زبیر؆نے کہا:

لاَ تَمْتَنِعْ مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّاهُ

جس شے کو وہ دونوں پسند کریں انہیں اس سے روکو مت۔(الادب المفرد:9)
٭ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ

میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا اور میری جانب ہی لوٹ آنا ہے۔(لقمان:14)
اس آیت میں اللہ تعالی نے ”شکر“میں والدین کو بھی شریک کردیا،لیکن یہ شراکت عبادت کے معنی میں نہیں بلکہ لغوی معنی کے اعتبار سے ہے،یعنی اللہ تعالی نے وجود عطا کیا اور اسکی نشوونما اور افزائش کے لئے رزق مہیا کیا،اور والدین کو اس سلسلے میں ذریعہ بنایا،لہذا اللہ کا شکر اسے خالق اور معبود مانتے ہوئے ادا کرنا ہے جبکہ والدین کا شکر انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آکر کرنا ہے،نیز والدین کا شکر ادا کرنا دراصل اللہ کاشکر ادا کرنا ہے،جیسا کہ نبی ﷺ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللهَ

جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ (ترمذی:1955،الصحیحۃ:667)
٭والدین کا شکر ادا کرنے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ انکی قدر کی جائے،کیونکہ وہ تعلیم و تربیت کے علاوہ اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا بھی ذریعہ ہیں،جیسا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الوَالِدِ، وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ

اللہ کی رضا والد کی خوشی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔(ترمذی:1899،الصحیحۃ:516)
امام زین العراقی نے اس حدیث کی شرح میں کہا:

 أخذ من عمومه أنه تعالى يرضى عنه وإن لم يؤد حقوق ربه أو بعضها إذا كان الوالد مسلما

اس حدیث کے عموم سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی ایسے(والدین کے خدمتگار) شخص سے راضی ہوجائے گا اگرچہ اس نے رب تعالیٰ کے بعض حقوق میں کوتاہی برتی ہو،بشرطیکہ اسکا والد مسلمان ہو۔(التنویر شرح الجامع الصغیر: 6/257)
٭نیز بوڑھے والدین یا ان میں سے کسی ایک کا سایہ سر پر سلامت ہونے کے باوجود انکی خدمت نہ کرنے کو دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب قرار دیتے ہوئےنبی کریم ﷺ نے فرمایا:

رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ . قِيلَ مَنْ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ :مَنْ أَدْرَكَ أَبَوَيْهِ عِنْدَ الْكِبَرِ أَحَدَهُمَا أَوْ كِلَيْهِمَا فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ  (صحیح مسلم:2551)

اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،(یعنی وہ ذلیل و رسوا ہو)عرض کی اے اللہ کے رسولﷺ !وہ کون ہے تو فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو پالیا،پھر جنت حاصل نہ کرسکا۔
٭نیز والدین کا ایک خاص حق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلَ الرَّجُلُ مِنْ كَسْبِهِ، وَإِنَّ وَلَدَهُ مِنْ كَسْبِه(سنن ابن ماجہ:2137،ارواء الغلیل:838)

سب سے پاکیزہ رزق جو انسان کھاتا ہے وہ ہے جو اس نے خود کمایا ہو ،اوراسکی اولاد بھی اسکی ”کمائی “ہی ہے۔
٭جب اسکی اولاد اسکی کمائی ہے تو اولاد کی کمائی بھی دراصل اسی کی کمائی ہوئی اور اولاد کی کمائی کھانا گویا اپنی کمائی کھانا ہی ہے،جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا جابربن عبد اللہ ؆نے کہا:

أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ , إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا  وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي , فَقَالَ:  أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ

ایک شخص نے کہا:اللہ کے رسولﷺ میرے پاس مال ہے اور میری اولاد بھی ہے،اور میرے والد میرا مال لینا چاہتے ہیں ؟ آپ ﷺنے

ارشاد فرمایا:تو اور تیرا مال دونوں تیرے والد کا ہی ہے۔(سنن ابن ماجہ: 2291، ارواء الغلیل:838)
اس حدیث کی وضاحت ایک اور حدیث میں ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَوْلَادَكُمْ هِبَةُ اللهِ لَكُمْ{يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا، وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ}  فَهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ لَكُمْ إِذَا احْتَجْتُمْ إِلَيْهَا

تمہاری اولاد تمہارے لئے اللہ کی عطا ہے،”وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے،جسے چاہتا ہے لڑکے عطا فرماتا ہے“،پس وہ اور انکے اموال تمہارے ہیںجبکہ تمہیں انکی ضرورت پڑے۔ (المستدرک:3123،الصحیحۃ: 2564)
اس حدیث کے ذیل میں علامہ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
وفي الحديث فائدة فقهية هامة , قد لَا تجدها في غيره، وهي أنه يُبَيِّنُ أن الحديث المشهور: ” أنت ومالك لأبيك ” ليس على إطلاقه، بحيث أن الأب يأخذ من مال ابنه ما يشاء، كلا، وإنما يأخذ ما هو بحاجة إليه
اس حدیث میں ایک اہم فقہی مسئلہ بیان ہوا ہے جو آپکو اور کہیں نہیں ملے گا،وہ یہ کہ،مشہور حدیث،”تو اور تیرا مال دونوں تیرے والد کا ہی ہے“عام نہیں ہے کہ والد جو چاہے اپنے بیٹے کے مال سے لےلے،ہرگز نہیں، دراصل وہ صرف اتنا لے سکتا ہے جسکی اسے ضرورت ہو۔ الصحیحۃ:2564)
امام غزالی نے کہا:
وآداب الولد مع والده: أن يسمع كلامه ويقوم بقيامه ويمتثل أمره ولا يمشي أمامه ولا يرفع صوته فوق صوته ويلبي دعوته ويحرص على طلب مرضاته ويخفض له جناحه بالصبر ولا يمتن بالبر له ولا بالقيام بأمره ولا ينظر إليه شزرًا ولا يقطب وجهه في وجهه
اولاد پر والدین کا ادب یہ ہے کہ،وہ انکی بات سنیں، انکے کھڑا کرنے پر کھڑے ہوجائیں،انکے حکم کی تعمیل کریں،ان سے آگے نہ بڑھیں،ان پر آواز اونچی نہ کریں،انکے بلاوے پر حاضر ہوں،انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں،برداشت سے کام لیتے ہوئے انکے آگے جھک جائیں،ان پر حسن سلوک کا احسان نہ جتائیں،نہ ہی فرمانبرداری کا،نہ ہی انہیں گھور کر دیکھیں،اور نہ ہی انکے سامنےناک بھوں چڑھائیں۔(التنویر شرح الجامع الصغیر:6/257)
٭دین اسلام میں والدین کی نافرمانی کو” حرام“ اور” کبیرہ گناہ“ اور اخروی خسارے کا سبب بتایا گیا ہے چنانچہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؆ نے کہا:

جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الكَبَائِرُ؟ قَالَ: الإِشْرَاكُ بِاللهِ قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ عُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: اليَمِينُ الغَمُوسُ

ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا:کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟آپ نے فرمایا:اللہ کے ساتھ شرک کرنا،اس نے پوچھا:پھر کونسا؟آپ نے فرمایا:والدین کی نافرمانی کرنا،اس نے پوچھا:پھر کونسا؟آپ نے فرمایا:جھوٹی قسم ۔(صحیح بخاری:6522)
٭جس کے والدین اس سے خوش ہوں وہ جنت کے سب سے بہتر دروازے سے جنت میں داخل ہوگا،جیسا کہ عبدالرحمن السلمی  نے کہا:

كَانَ فِينَا رَجُلٌ لَمْ تَزَلْ بِهِ أُمُّهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ حَتَّى تَزَوَّجَ ثُمَّ أَمَرَتْهُ أَنْ يُفَارِقَهَا فَرَحَلَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ بِالشَّامِ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي لَمْ تَزَلْ بِي حَتَّى تَزَوَّجْتُ , ثُمَّ أَمَرَتْنِي أَنْ أُفَارِقَ , قَالَ: مَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُفَارِقَ وَمَا أَنَا بِالَّذِي آمُرُكَ أَنْ تُمْسِكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ  صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ  فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوْ احْفَظْها قَالَ: فَرَجَعَ وَقَدْ فَارَقَهَا

ہم میں ایک شخص کے پیچھے اسکی ماں لگی رہتی کہ وہ شادی کرلے ،جب اس نے شادی کرلی تو اسکی ماں اسے طلاق کا کہنے لگی،چنانچہ وہ سفر کرکے شام گیا وہاں سیدناابو الدرداء ؄ سے ملا اور پوچھاکہ میری ماں میری شادی کے لئے میرے پیچھے پڑی رہی پھر جب میں نے شادی کرلی تو وہ کہنے لگی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں؟
سیدناابوالدرداء ؄ نے جواب دیا:
نہ میں تجھے یہ کہتا ہوں کہ طلاق دے نہ ہی یہ کہتا  ہوں کہ طلاق نہ دے،البتہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:والد جنت کے دروازوں میں ”اوسط“دروازہ ہے-ایک روایت میں ہے-اگر تو چاہے تو یہ دروازہ چھوڑ دے چاہے تو اسکی حفاظت کر۔
ابو عبد الرحمن نے کہا:وہ شخص واپس آیا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی۔(سنن ترمذی:1900،مسند احمد:27511،الصحیحۃ:914)
عربی زبان میں”اوسط“درمیانے کو بھی کہتے ہیں اور بہترین کو بھی۔
ضروری تنبیہ: والدین یا ان میں سے کسی ایک کے کہنے پر بیوی کو طلاق دینے کا مسئلہ نہایت ہی نازک مسائل میں سے ہے،اس سلسلے میں والدین اور اولاداور انکی ازواج سبھی کو اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیئے،کیونکہ کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی قابل مؤاخذہ ہوگی،البتہ اس سلسلے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ:
٭اسباب کو دیکھا جائے گاکہ والدین جس سبب سے یہ مطالبہ کررہے ہیں شریعت میں وہ طلاق دینے کا سبب ہے یا نہیں،اگر ہے تو سبب جواز ہے یا سبب وجوب۔
٭نیز والدین کی خیر خواہانہ حیثیت اور دور اندیشی و دینی مرتبت کو بھی دیکھا جائے گا۔
پھر اگر وہ اسباب ایسے ہوں جن کی موجودگی میں طلاق دینا شرعاًواجب ہو تو والدین کی اطاعت واجب ہو گی جیسا کہ سیدنا ابن عمر ؆ نے اپنی بیوی کو اپنے والد کے کہنے پر طلاق دی تھی ،کیونکہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی شخصیت سیدناعمرفاروق؄تھےایسے ہی سیدنا اسماعیل ؈نے اپنے والد سیدنا ابراہیم؈ کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دی تھی،یہاں بھی ایک تو شخصیت سیدنا ابراہیم؈ تھے، دوم، ان کا مطالبہ طلاق  شرعی وجوہ کی بناء پر تھا،ایسی صورت میں والدین کی اطاعت کی جائے،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي المَعْرُوفِ (صحیح بخاری:7145)

اطاعت صرف معروف(جو شرعاً جائزہو)میں ہے۔
اور اگر والدین کا مطالبہ ایسے اسباب کی بنا پر ہو جن میں طلاق دینا شرعاً جائز ہو ،واجب نہیں ،تو اس صورت میں مصلحت راجحہ کو دیکھا جائے گا اگروالدین کی اطاعت میں مصلحت ہو تو والدین کی اطاعت کی جائے اور اگر طلاق دینے سے غالب فساد کا اندیشہ ہو ،مثلاً: بدکاری میں پڑنے کا خوف ہو،تو طلاق دینے سے گریز اولیٰ ہے،جیسا کہ ابو بکر صدیق ؄نے اپنے بیٹے محمد؄کو طلاق کا حکم دیا لیکن جب بیٹے کی حالت دیکھی تو اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا۔
اور اگر والدین کا مطالبہ طلاق ،اسبابِ طلاقِ شرعیہ کے موافق نہ ہو ،مثلاً:وہ غیرت یا غصہ یا حسد یا ناپسندیدگی وغیرہ منفی جذبات کے زیر اثراس نوع کا مطالبہ کررہے ہوںتو خواہ وہ کتنے ہی خیر خواہ ہوں اس معاملے میں انکی اطاعت خالق کی نافرمانی تصور ہوگی اور مخلوق کی اطاعت سے اگر خالق کی نافرمانی ہو تو مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جیسا کہ نبی معظمﷺ نے فرمایا:

لا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الخَالِقِ

||’’خالق کی نافرمانی ہو تو مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘
(طبرانی کبیر:ج: 18،ص:170،ح:381،صحیح الجامع 7520 ، المشکاۃ: 3696،مسئلہ کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:مجموع الفتاویٰ:33/ 112،الآداب الشرعیۃ لابن مفلح:1/447، فتاوی جات کی دائمی کمیٹی، فتوی نمبر: 17332،دارلعلوم دیوبند: فتوی: 788=911/ ب)
٭نیز والدین کی خدمت کا کوئی متبادل نہیں،حتی کہ یہ جھاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل عمل ہے،اور حصول جنت کا بہت ہی آسان راستہ ہے، جیسا کہ معاویہ بن جاہمہ السلمی ؄نے کہا کہ:

جَاءَ جَاهِمَةُ – رضي الله عنه – إِلَى النَّبِيِّ – صلى الله عليه وسلم – فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ , أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَجِئْتُكَ أَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم :  هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا-وفی روایۃ-فَارْجِعْ إِلَيْهَا فَبَرَّهَا

سیدناجاہمہ ؄نبی اکرمﷺ کے پاس آکر کہنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ میں غزوہ میں شریک ہونا چاہتا ہوںاور آپکے پاس مشورہ لینے آیا ہوں؟نبی کریمﷺ نے اس سےپوچھا:کیا تیری ماں ہے؟اس نے کہا:جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا:اسکے پاس جا،بے شک جنت اسکے قدموں تلے ہے-ایک روایت کے الفاظ ہیں- اسکے پاس جااسکی خدمت کر۔(سنن نسائی:3104، سنن ابن ماجہ:2781،صحیح الجامع:1248،الارواء:1199)
٭ایک اور حدیث میں والدین کی خدمت کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

 نِمْتُ  فَرَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَسَمِعْتُ صَوْتَ قَارِئٍ يَقْرَأُ فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا حَارِثَةُ بْنُ النُّعْمَانِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : كَذَلِكَ الْبِرُّ كَذَلِكَ الْبِرُّ وَكَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّهِ (مسند احمد:25337،الصحیحۃ:913)

میں سویا ہوا تھا کہ میں نے جنت میں کسی کو قرآن پڑھتے سنا،میں نے پوچھا:یہ کون ہے؟انہوں(فرشتوں)نے کہا:یہ حارثہ بن نعمان؄ ہیں،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نیکی ایسی ہوتی ہے،نیکی ایسی ہوتی ہے۔اس حدیث کی راویہ سیدہ عائشہ ؅نے کہا:حارثہ ؄ اپنی ماں کی سب لوگوں سے بڑھ کر خدمت کیا کرتا تھا۔
٭نیزوالدین کی خدمت کرنے سےاللہ تعالی کا انتہائی قرب حاصل ہوتاہے اور اس سےبڑے بڑے گناہ مٹ جاتے ہے، جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا عبد اللہ بن عمر؆ نے کہا:

أَتَى رَجُلٌ إلَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا كَبِيرًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٌ؟ فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: أَلَكَ وَالِدَانِ؟قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَكَ خَالَةٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِرَّهَا إِذًا

ایک شخص نبی کریمﷺ کے پاس آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ میں نے کبیرہ گناہ کیا ہے،کیا میری توبہ کا کوئی راستہ ہے؟آپ ﷺنے اس سے پوچھا: کیا تیرےوالدین ہیں؟اس نے کہا:نہیں،آپﷺ نے پوچھا:کیا تیری خالہ ہے؟اس نے کہا :جی ہاںآپ ﷺنےفرمایا : پھر اسکی خدمت کر۔(مسند احمد:4624، صحیح الترغیب:2504)
٭نیزعطاء بن یسار نے کہا کہ:

 أَتَى رَجُلٌ لابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فَقَالَ: إِنِّي خَطَبْتُ امْرَأَةً، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَنِي، وَخَطَبَهَا غَيْرِي، فَأَحَبَّتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَغِرْتُ عَلَيْهَا فَقَتَلْتُهَا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: أُمُّكَ حَيَّةٌ؟ قَالَ: لاَ، قَالَ: تُبْ إِلَى اللهِ – عز وجل – وَتَقَرَّبْ إِلَيْهِ مَا اسْتَطَعْتَ , قَالَ عَطَاءٌ: فَذَهَبْتُ فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: لِمَ سَأَلْتَهُ عَنْ حَيَاةِ أُمِّهِ؟ فَقَالَ: إِنِّي لاَ أَعْلَمُ عَمَلاً أَقْرَبَ إِلَى اللهِ – عز وجل – مِنْ بِرِّ الْوَالِدَةِ

سیدناعبد اللہ بن عباس؆ کے پاس ایک شخص آکر کہنے لگا:میں نے ایک خاتون کو نکاح کی پیشکش کی ،اس نے انکار کردیا،پھر کسی اور نے اسے نکاح کی پیشکش کی تو وہ مان گئی،مجھے اس پر بڑی غیرت آئی،میں نے اسے قتل کردیا،کیا میری توبہ کا کوئی راستہ ہے؟ابن عباس ؆نے اس سے پوچھا:کیا تیری ماں زندہ ہے؟اس نے کہا :نہیں،ابن عباس ؆نے کہا:اللہ سے توبہ کر،اسکا قرب حاصل کرجسقدر کرسکے۔
عطاء نے کہا:میں ابن عباس ؆کے پاس آیا،میں نے کہا:آپ نے اس سے اسکی ماں کا کیوں پوچھا؟انہوں نے جواب دیا:مجھے ایسے کسی عمل کا علم نہیں جو والدین کی خدمت سے زیادہ اللہ کے قریب ہو۔ (الادب المفرد:04،الصحیحۃ:2799)
٭بلکہ والدین کی خدمت سے گناہ مٹنے اور جنت ملنے کے ساتھ جنت میں بلند درجے بھی ملتے ہیں اگرجنت میں اولاد کادرجہ والدین کے درجے سے کم ہوتو اللہ تعالی والدین کی بدولت اولاد کو بھی اونچا درجہ عطا فرمائے گا ، جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله ليرفع ذرية المؤمن إليه في درجته و إن كانوا دونه في العمل ، لتقربهم عينه ثم قرأ : والذين آمنوا و اتبعتهم ذريتهم بإيمان الآية ثم قال: و ما نقصنا الآباء بما أعطينا البنين

اللہ تعالی مومن کی اولاد کو اس تک بلند فرماتا ہے،اگرچہ وہ عمل کے اس سے نیچے درجے میں ہوں،تاکہ انکے ذریعے اسکی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے،پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِئٍ بِما كَسَبَ رَهِينٌ

”جو لوگ ایمان لائے اور انکی اولادایمان میں انکے نقش قدم پر چلی،ہم انکی اولاد کو انکے ساتھ ملادیں گے،اور ہم انکے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے،ہر شخص اپنے اعمال کے عوض مرہون ہوگا “
پھر آپ ﷺ نے فرمایا:یعنی ہم اولاد کو جو کچھ (زائد)عطاکریں گے اسکی وجہ سے آباء کے اجور میں کچھ کمی نہ کریں گے۔(القضاء والقدر للبیہقی :637، مشکل الآثار للطحاوی:911،کشف الاستار عن زوائد البزار:2260،الصحیحۃ:2490)
٭نیز والدین کے ساتھ حسن سلوک کا رد عمل دنیا میں ہی سامنے آجاتا ہے،جو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے وہی اپنے لئے بھی اپنی اولاد سے اسی حسن سلوک کی امید کرسکتا ہے،جیسا کہ درج ذیل فرمان الٰہی میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے،ارشاد فرمایا:

وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا تاکیدی حکم دیا،اسکی ماں نے اسے تکالیف کے باوجود اٹھائے رکھا،اسے جنا،اور اسکی مدت حمل و رضاعت 30 ماہ ہے،پھر جبکہ وہ اپنی قوت کو پہنچا اور 40 سال کا ہوگیا،تو کہنے لگا:میرے مالک،مجھے ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق دے جو تونے مجھ پر اور میرے والدین پر کیں،اور اس بات کی توفیق کی میں نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو،اور میری اولاد کی اصلاح کرتے رہنا،میں تیری جانب توبہ کرتا ہوں،اور میں فرمانبردار ہوں۔(الاحقاف:15)
یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے جو شخص خود بڑھاپے کے آغاز 40 سالہ عمر کو پہنچا ہے تو وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے لئے اپنے والدین کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے دعاگو ہوجاتا ہے۔
نیز ایک ضعیف روایت میں واضح الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ :”اپنے والدین کی خدمت کرو تمہاری اولاد تمہاری خدمت کریگی،اور خود پاک دامن رہو تمہاری بیویاں بھی پاک دامن رہیں گی“۔(طبرانی اوسط،المستدرک)
٭نیز نبی کریمﷺ والدین کی وفات کے بعد بھی انکے حقوق بیان فرماتے ،جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا ابو اسید مالک بن ربیعہ ؄نے کہا:

 بينما نحن جلوس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ جاء رجل من بني سلمة فقال : يا رسول الله هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال :  نعم الصلاة عليهما  والاستغفار لهما وإنفاذ عهدهما من بعدهما وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما وإكرام صديقهما

ہم اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ کاایک شخص آکر کہنے لگا:اللہ کے رسول ﷺ کیا میرے والدین کا کوئی حق باقی ہے،جو میں انکی موت کے بعد ادا کروں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں، انکے لئے رحمت کی دعا کرنا،اور انکے لئے مغفرت کی دعا کرنا،اورانکے کئے ہوئے وعدوں کو انکے بعد بھی پورا کرنا،اور وہ رشتہ جو انکے ہونے سے جڑتا تھا انکے بعد بھی اسے جوڑے رکھنا،اور انکے دوستوں کا احترام کرنا۔
(سنن ابوداؤد:5144۔اس حدیث کی سند کے متعلق فضیلۃ الشیخ عبد المحسن بن حمد آل بدرنے کہا:

فالحديث وإن كان في إسناده رجل مقبول، إلا أن له شواهد تدل عليه،یعنی اس حدیث کے شواھد ہیں۔شرح سنن ابی داؤد)

٭حق تو یہ ہے کہ والدین کے اولاد پر اسقدر حقوق ہیں جنہیں کبھی ادا نہیں کیا جاسکتا،جیسا کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 لَا يَجْزِي  وَلَدٌ وَالِدَهُ إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا, فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ (صحیح مسلم:1510)

اولاد کبھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کرسکتی،ا لاّیہ کہ وہ اسے کسی کا مملوک”غلام“پائے پھر اسے خرید کر آزاد کر دے۔
نیزسیدناابو بردہ؄ نے کہا:میں سیدناابن عمر؆ کے پاس آیا،دیکھا کہ ایک یمنی شخص بیت اللہ کا طواف کررہا ہے،اس نے اپنی ماں کو اپنی پشت پر اٹھا رکھا ہے،اور کہہ رہا ہے:

 إِنِّي لَهَا بَعِيرُهَا الْمُذَلَّل
إِنْ أُذْعِرَتْ رِكَابُهَا  لَمْ أُذْعَرْ

 اگر میری ماں کا اونٹ اسے لے کر چلنےسے تھک گیا تو کیا؟میں اسکا فرمانبردار اونٹ ہوں میں نہیں تھکا۔
پھر وہ کہنے لگا:اے ابن عمر؆ آپکا کیا خیال ہے ،کیا میں نے اسکا حق ادا کردیا؟ابن عمر؆ نے اسے جواب دیا:

لاَ، وَلاَ بِزَفْرَةٍ  وَاحِدَةٍ

نہیں،وضع حمل کے وقت اسے ہونے والی تکلیف کی ایک سانس کا بھی نہیں۔(صحیح الادب المفرد:11)
٭والدین کے علاوہ بھی خاندان و جان پہچان اور انجان بوڑھوں اور بزرگوں کے احترام کادین اسلام حکم دیتا ہے بلکہ انکے احترام کو اللہ سبحانہ و تعالی کا احترام قرار دیتا ہے چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ (سنن ابوداؤد:4845،حسنہ الالبانی فی الضعیفۃ تحت حدیث ، رقم:3249)

ہر مسلمان بوڑھے کا احترام کرنا اللہ کو تعظیم دینا ہے۔
علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے کہا:

بتوقيره في المجالس والرفق به والشفقة عليه ونحو ذلك، كل هذا من كمال تعظيم الله لحرمته عند الله (عون المعبود:13/132)

یعنی مجالس میں انہیں عزت دینا،انکے ساتھ نرمی برتنا،ان پر مہربانی کرنا،وغیرہ،یہ سب اللہ کی کمال تعظیم ہے کیونکہ اللہ کے ہاں اس بوڑھے کی عزت ہے۔
٭خود رسول اکرمﷺ بھی بوڑھوں بزرگوں کا احترام کرتے تھے :

أَرَانِي أَتَسَوَّكُ بِسِوَاكٍ، فَجَاءَنِي رَجُلاَنِ، أَحَدُهُمَا أَكْبَرُ مِنَ الآخَرِ، فَنَاوَلْتُ السِّوَاكَ الأَصْغَرَ مِنْهُمَا، فَقِيلَ لِي: كَبِّرْ، فَدَفَعْتُهُ إِلَى الأَكْبَرِ مِنْهُمَا (بخاری:246)

میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسواک کررہا ہوں،کہ میرے پاس دو آدمی آئے،ان میں سے ایک دوسرے سےبڑا تھا،میں نے مسواک چھوٹے کو دی تو مجھ سے کہا گیا:بڑے کو دو،میں نے مسواک بڑے کو دے دی۔
٭اور اگر کبھی بزرگوں اور بوڑھوں کو جوانوں اور بچوں پر مقدم کرنے میں کوئی مانع شرعی حائل ہوتا تو آپ ﷺاسے دور کرنے کے لئے شرعی راستہ اپنانے کی کوشش کی کرتے ،جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے،سیدنا سھل بن سعد ؄نے کہا کہ:

 أنَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم أُتِيَ بِشَرابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِينِهِ غُلاَمٌ ، وَعَنْ يَسَارِهِ الأشْيَاخُ ، فَقَالَ لِلغُلاَمِ :  أتَأذَنُ لِي أنْ أُعْطِيَ هؤُلاء؟  فَقَالَ الغُلامُ : لاَ وَاللهِ يَا رسولَ الله ، لا أُوْثِرُ بِنَصِيبي مِنْكَ أحَداً . فَتَلَّهُ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم  في يَدِهِ

رسول اللہ ﷺ کے پاس پینے کی کوئی شے لائی گئی، آپ ﷺنے اس میں سے پیا،آپکی دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں جانب کچھ بوڑھے،آپﷺ نے بچے سے پوچھا:کیا آپ اجازت دیتے ہو کہ میں یہ ان بزرگوںکو دوں؟بچے نے جواب دیا:نہیں، اللہ کی قسم، اللہ کے رسول ﷺ آپکے جھوٹے پر میں اپنے سوا کسی کو ترجیح نہ دوں گا،پھر آپ ﷺ نے وہ مشروب اس بچے کو تھمادیا۔(بخاری:2451)
٭نہ صرف خود احترام کرتے بلکہ لوگوں کو بھی اسکا حکم دیتے اور اسکے فضائل بیان کرتے ،اور مسلمان بوڑھوں اور بزرگوں کو سب کے لئے برکت کا باعث قرار دیتے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا (سنن ابوداؤد:4945،الصحیحۃ:2196)

جو ہمارے بچوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بوڑھوں کی عزت نہ کرے وہ ہم سےنہیں۔
نیز فرمایا:

الْبَرَكَةُ مَعَ أَكَابِرِكُمْ (صحیح ابن حبان:559، الصحیحۃ:1778)

برکت تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے۔
نیز ایک ضعیف روایت میں کہا گیا ہے کہ:جو نوجوان کسی بوڑھے کی اسکے بڑھاپے کے باعث تکریم کرتا ہے تو اللہ تعالی اسکے بڑھاپے میں اسے ایسا شخص عطا فرماتا ہے جو اسکی تکریم کرے۔(ترمذی)
٭نیز عمر رسیدہ مسلمانوں کو معاشرے کے بہترین افراد قرار دیتے ،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

 أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخِيَارِكُمْ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: خِيَارُكُمْ أَطْوَلُكُمْ أَعْمَارًا وَأَحْسَنُكُمْ أَخْلَاقًا۔وفي روايۃ۔ وَأَحْسَنُكُمْ أَعْمَالًا

کیا میں تمہیں تمہارے بہترین افراد کا بتاؤں؟صحابہ نے کہا:ضرور ،آپ ﷺ نے فرمایا:تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جنکی عمر تم سے زیادہ ہو اور اخلاق تم سے اچھے ہوں۔دوسری روایت میں۔اعمال تم سے اچھے ہوں۔ (مسند احمد:9235،صحیح ابن حبان:2981،الصحیحۃ:1298-2498)
٭نیز عمر رسیدگی اور بڑھاپے کو ”سعادت“قراردیتے ، جیسا کہ ارشاد فرمایا:

لَا تَمَنَّوْا الْمَوْتَ، فَإِنَّ هَوْلَ الْمَطْلَعِ شَدِيدٌ، وَإِنَّ مِنَ السَّعَادَةِ أَنْ يَطُولَ عُمْرُ الْعَبْدِ، وَيَرْزُقَهُ اللهُ الْإِنَابَةَ (حسنہ الارناؤط،مسنداحمد:14604،14564)

موت کی تمنا نہ کرو،کیونکہ ابتدائی ہولناکی شدید ہے،جبکہ سعادت یہ ہے کہ بندے کی عمر دراز ہو اور اللہ تعالی اسے ”انابت“کی توفیق دے۔
”انابت“کا معنی ہے رجوع کرنا،یعنی دل کو شبہات کے اندھیروں سے پاک کرلینا،اپنے تمام امور میں اللہ سبحانہ و تعالی کی جانب رجوع کرنا،غفلت کے بجائے ذکر اور وحشت کے بجائے انسیت میں مشغول رہنا۔ (التعریفات)
٭نیزبزرگوں کےادب کی تعلیم دیتے:

يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الكَبِيرِ، وَالمَارُّ عَلَى القَاعِدِ، وَالقَلِيلُ عَلَى الكَثِيرِ

چھوٹا ،بڑے کو سلام کرے،پیدل بیٹھے ہوئے کو سلام کرے اور کم زیادہ کو سلام کریں۔(صحیح بخاری:6231)
٭نیز بزرگوں کے احترام کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تعظیم قرار دیتے:

إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ اللهِ إِكْرَامَ ذِى الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِى فِيهِ وَالْجَافِى عَنْهُ وَإِكْرَامَ ذِى السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ

بوڑھے مسلمان کی تکریم کرنا،حامل قرآن جو اس میں غلو نہ کرے(یعنی متشابہات کے پیچھے نہ پڑے) نہ ہی اسے ترک کرے، (یعنی جاننے کے باوجود عمل نہ کرے) اور عادل حاکم کی تکریم کرنا اللہ کی تعظیم کرنا ہے۔(سنن ابوداؤد:4845،صحیح الجامع:2199)
٭نیزانکی بے ادبی سے منع کرتے:

لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا , وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا , وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ

وہ میری امت کا فرد نہیں ہوسکتا جو ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے اور ہمارے بچوں پر شفقت نہ کرےاور ہمارے عالم کا حق نہ جانے۔(مسند احمد:22755،الصحیحۃ: 2196-6753،صحیح الجامع:5443)
٭بلکہ نماز جیسے فریضے کی ادائیگی میں بھی بوڑھوں کا خیال کرنے کا حکم دیتے چنانچہ ایک روزسیدنا عثمان بن ابو العاص؄ نے کہا :

يَا رَسُولَ اللهِ اجْعَلْنِي إِمَامَ قَوْمِي , فَقَالَ: أَنْتَ إِمَامُهُمْ , وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ، وَاتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لَا يَأخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا

اللہ کے رسول ﷺ مجھے میری قوم کا امام بنادیں،آپ ﷺ نے فرمایا:تو انکا امام ہے اور ان میں جو کمزور ہوں انکی رعایت کرنا،اور مؤذن اسے بنانا جو آذان کی اجرت نہ لے۔(سنن ابو داؤد:531،ارواء الغلیل:1492)
٭نیز نماز میں بوڑھوں اور بیماروں کا خیال؛ نہ کرنے والوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے،جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہےسیدنا ابو مسعود انصاری ؄نے کہا:

وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ

ایک شخص نے کہا :اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں فلاں شخص کی وجہ سے نماز فجر میں لیٹ جاتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں لمبی نماز پڑھاتا ہے،راوی نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی وعظ میں اتنا غصہ نہیں دیکھاجو اس دن تھا، آپ نے فرمایا:تم میں کچھ لوگ متنفر کرنے والے ہیں،تم میں سے جو بھی لوگوں کو نماز پڑھائے وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ مقدیوں میں کمزور ،بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہوتے ہیں۔(صحیح بخاری:702)
٭نیز امامت کا حق کن لوگوں کو حاصل ہے انکی ترتیب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللهِ، فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً، فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ، فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً، فَأَقْدَمُهُمْ سِنّاً، وَلَا يَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ

لوگوں کی امامت وہ کروائے جو اُن میں کتاب اللہ کا بڑا قاری ہو،اگر وہ قراءت میں برابر ہوں توجو اُن میں سنت کا بڑا عالم ہو،اگر وہ سنت کے علم میں برابر ہوں تو جو ان میں ہجرت میں مقدم ہو،اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو،جو عمر میں بڑا ہو،اور کوئی شخص کسی امیر کی موجودگی میں امامت نہ کروائے نہ ہی اسکی نشت پر بیٹھے مگر اسکی اجازت سے۔ (صحیح مسلم،بروایۃ الاشج:673)
٭اور جو بزرگوں کا حترام نہ کرے یا انکا خیال نہ کرےاسکی مذمت کرتے اور اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے،جیسا کہ انس بن مالک؄ نے کہا:

جَاءَ شَيْخٌ يُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبْطَأَ القَوْمُ عَنْهُ أَنْ يُوَسِّعُوا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا-وفی روایۃ- وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا

ایک بوڑھا شخص آیا جو نبی کریمﷺ تک پہنچنا چاہتا تھا،لوگوں نے اسے جگہ دینے میں تاخیر کی تو آپ ﷺ نےفرمایا:جو ہمارےچھوٹوں پرشفقت نہ کریں اور ہمارے بڑوں پر مہربانی نہ کریں -ایک روایت میں ہے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانیںوہ ہم میں سے نہیں۔ (سنن ترمذی:1919،سنن ابو داؤد:4945،الصحیحۃ:2196)
٭نیز ہر اہم موقع پر بزرگوں کو مقدم کرنے کی ترغیب دیتے جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے، سیدناجابر بن عبد اللہ ؆نے کہا:

قَدِمَ وَفْدُ جُهَيْنَةَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ غُلَامٌ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَهْ، فَأَيْنَ الْكِبَرُ

قبیلہ جہینہ کا وفد نبی کریمﷺ سے ملاقات کے لئے آیا،تو ایک بچہ بات کرنے کے لئے اٹھا تو نبی کریم ﷺنے فرمایا:ٹھہرجاؤبڑا کہاں ہے؟(بیہقی،شعب الایمان:10486)
ایسے ہی ایک موقع پر عبدالرحمن بن سھل؄ نامی ایک لڑکے نے بولنے میں پہل کی تو نبی ﷺ نے فرمایا:

كَبِّرْ كَبِّرْ

بڑے کو لاؤ،بڑے کو موقع دو۔(صحیح بخاری:3173)
نیزقیس بن عاصم السعدی؄ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ”هَذَا سَيِّدُ أَهْلِ الْوَبَرِ“یعنی اہل بادیہ کا سردار قرار دیا،جب وہ فوت ہونے لگے تو انہوں نے اپنی اولاد کو جمع کرکے چند نصیحتیں کیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ:

اتقوا الله وسودُوا أكبركم؛ فإن القوم إذا سودوا أكبرهم خلفوا أباهم، وإذا سودوا أصغرهم أزرى بهم ذلك في أكفائهم

اللہ سے ڈرتے رہنا،اور اپنے بڑوں کو اپنا سردار بنانا،کیونکہ جب لوگ اپنے بڑوں کو سردار بناتے ہیں تو وہ اپنے آباء کے جانشین بنتے ہیں،لیکن جب وہ اپنے چھوٹوں کو سردار بنالیں تو وہ انہیں ذلیل کرکے یہ منصب اپنے ہم عمروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔(صحیح الادب المفرد:277)
٭نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے کسی بھی فرد یا قوم کا مذاق اڑانے سے منع کیا ہے ،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْراً مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْراً مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

اے ایمان والو کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہو وہ ان سے بہتر ہوں ، نہ ہی خواتین دیگر خواتین کا مذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں،اور اپنے ہی نفوس کے عیب نہ ٹٹولو،نہ ہی ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارو کیونکہ ایمان کے بعد سب سے برا نام ”فاسق“ہے اور جو لوگ باز نہ آئیں گے تو وہ ظالم ہوں گے۔(الحجرات)
اگرچہ یہ آیت عام ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خاص طور پر بوڑھوں کے ساتھ یہ بدسلوکی اختیار کی جاتی ہے جبکہ بوڑھوں کا دین اسلام میں کسقدر ادب و احترام ہے یہ گذشتہ سطور سے واضح ہے،لہذا بوڑھوں کے ساتھ سلوک میں یہ آیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہنی چاہیئے۔

آہ۔۔ محمد رمضان یوسف سلفی بھی رُخصت ہوگئے

سب کہاں کچھ لالہ وگُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں پنہاں ہوگئیں
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور ایک کُھنہ مشق، سوانح نگار، درد مند دل کے مالک ،مثال مورخ ہونے کے ساتھ اہم مخلص ، محبت کرنے والے ، بےلوث اور محبوب علمی دوست بھی تھے یہ ان کا بڑا پن تھا کہ ان سے اختلاف رکھنے والے بھی ان سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے فن’’ یادرفتگان‘‘ درحقیقت ادبی نوحہ خوانی ہے جس میں بلاشبہ سلفی مرحوم نے اپنی جانی پہچانی شخصیات کے ہو بہو |||’’نقوش زندگی‘‘ ادبی رنگوں کے ساتھ اُبھار کر اپنے قارئین کرام تک پہنچائے، اس کے علاوہ سلفی صاحب نے توحید باری تعالیٰ ، سنت نبویﷺ ، سیرت رسولﷺ ، ختم نبوت، اخلاق حمیدہ، تاریخ اسلام،سفرنامے اور حالات حاضرہ پر بھی ناقابل فراموش علمی وادبی خدمات جلیلہ سرانجام دیں مگر
آں قدح بشکست وآں ساقیآنہ ھاند
اللہ تعالیٰ نے سلفی صاحب کو علم دوست اور خوبصورت خاکہ نگاری سے بڑی فیاضی سے نوازا تھا نہ صرف اتنا بلکہ آپ ایک بہترین کتب کے تبصرہ نگار بھی تھے۔ جو مصنفین کی تصانیفات لطیف پر جاندار تبصرہ نگاری میں بڑی محنت،عرق ریزی سے مطالعہ دیدہ ریزی اور دیانتداری سے کام لیتے تھے کتاب کے حسن وقبح مندرجات کا پورا جائزہ لے کر رائے دیتے تھے،خصوصاً سیرت وسوانح نگاری میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اس لئے لوگ اُن کے خاکوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔
ورنہ کسی کے حالات زندگی کو سلیقے اور قرینے سے لکھنا کوئی آسان کام نہیں اس موضوع پر جو دسترس مولانا سلفی کو حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے مختصر وقت میں وہ اپنے حصہ کا بڑا کام کرگئے۔
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم
خوبصورت تحریر کے ساتھ آپ ایک اچھے ناصح،واعظ اور خطیب بھی تھے آپ بہت خلیق اور ملنسار آدمی تھے ان کے دوستوں اور جاننے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا بالخصوص پنجاب اور باب الاسلام سندھ کے علماء عظام سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے وہ جہاں کراچی میں مولانا عبید اللہ سلفی ا ور مولانا عبد العظیم حسن زئی سے باقاعدہ رابطہ رکھتے جماعت غرباء اہل حدیث کے زعماء کو یاد رکھتے وہاں پر اندرون سندھ فضیلۃ الشیخ افتخار احمد الازہری، عبد الحمید گوندل موالنا محمد خان محمد اور ناچیز راقم الحروف کو بھی ہمیشہ یاد کرتے رہتے تھے ۔
یاد نہیں ہم کو بھی رنگارنگ نرم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
آئے دل برصغیر کے بلند پایہ جماعتی جرائد میں ان کے رشحات قلم مستقل زینت بن گر بُوئے گُل کی طرح دولت شہرت سے ادب وصحافت کا دُبستان آباد کئے نظر آتے تھےوہ مختصر وقت میں سات سے زائد سوانحی علمی اور تاریخی کتب کے مصنف ومؤلف بن چکے تھے سیکڑوں کی تعداد میں ان کےباوقار مضامین معیاری جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں بقول ملک عبد الرشید عراقی حفظہ اللہ تعالیٰ مولانا سلفی تحریر ونگارش میں مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت سے بہت متأثر تھے اور ان کے عمل وفضل، اخلاص وللہیت ، اخلاق وکردار اور اُن کی علمی خدمات کے معترف اور اُن سے گہرے دوستانہ مراسم کئے اور مولانا بھٹی نے اپنی کتب، کاروان سلفی، حیات صوفی عبد اللہ ، قافلہ حدیث اور چمنستان حدیث میں تفصیل سے مرحوم کا تذکرہ فرمایا ہے۔
دراصل اُن کی باوقار تحریر کی خوشبو ہر سوپھیل چکی تھی چونکہ
عطر آں است کہ خود بیوید نہ کہ عطّار بگوید
نام ونسب : مولانا محمد رمضان یوسف سلفی رحمہ اللہ 4دسمبر 1967ء پیر کے روز بمقام فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں ’’پکی پنڈوری‘‘ چک نمبر RB267آلابی میں مرحوم محمد یوسف جیسے صُوفی منش، سادہ دل ، شریف النفس کے گھر میں پیدا ہوئے ان کے دادا مرحوم کا اسم گرامی ’’منشی‘‘ تھا ، مولانا سلفی چھ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ سلفی صاحب کے آباء واجداد ماضی کے لحاظ سے مشرقی پنجاب، ضلع ہوشیار پور بھارت کے گاؤں’’میانی پٹھانوں‘‘ والی کے مکین تھے ان کے والد ماجد کا 1979ء میں ایسے وقت پر انتقال ہوا جب مولانا سلفی صرف بارہ برس کے تھے اور وہ ابتدائی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کرچکے تھے اب آپ کے نازک کاندھوں پر پورے گھر کی ذمہ داریاں آن پڑیں۔ اُن کے خاندان نے 1978ء کو نقل مکانی کرکے فیصل آباد میں آکر مستقل سکونت اختیار کی ، جہاں آپ نے ایم۔ سی ہائی سکول سمن آباد میں داخلہ لے کر آگے پڑھنے کی کوشش کی مگر مختصر وقت کے بعد خاندان کی ذمہ داریوں کے باعث آپ آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے جس کا انہیں ہمیشہ ملال رہا، آپ نے ابتدائی اسلامی تعلیمات اپنے گاؤں کے پیش امام مولانا عماد الدین سے حاصل کی جس کے بعد پھر فیصل آباد میں آکر محمدی مسجد اہل حدیث نثار کالونی کے قاری منیر احمد سعید اور قاری احمد نواز صابر سے ناظرہ قرآن عظیم پڑھاجس کے بعد اسی مسجد کے خطیب مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب سے قرآن عظیم کا ترجمۃ القرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی جس کے ساتھ آپ نے ان کے فاضلانہ دروس بخاری سے خوب استفادہ کیا اس کے ساتھ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ المصابیح سے بھی آپ نے بے حد علمی استفادہ کیا۔

جماعت اہل حدیث سے وابستگی :

مولانا سلفی کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی میں ان کے ماموں جان مرحوم مولوی محمد شریف(متوفی 2005ء)کی خصوصی توجہ ،انہماک، تعلیم وتربیت کا بڑا حصہ تھا اس کے علاوہ ان کے اپنے وسیع مطالعہ، مشاہدہ کے اشتیاق میں مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب، مولانا عبد الجبار سلفی ، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا ارشاد الحق اثری اور قاری احمد نواز صابر جیسے اصحاب علم وعمل کی بابرکت مجالس اورتحریروں، تقریروں نے بھی سونے پے سھاگے کا کام کیا، جس کے نتیجہ میں آپ نے باقاعدہ مسلک اہلحدیث اختیار کیا۔ ان کی کم عمری ہی میں والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ نے معاشی لحاظ سے شدید مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے، فٹ بُلٹ بنانے کے کارخانے اور پھر اُونی مفلر بنانے کی فیکٹری میں اٹھارہ برس تک محنت ومزدوری کی غربت کا اس قدر مردانہ وار مقابلہ کیا کہ فیصل آباد میں بجلیکا میٹر تک خریدنے کی طاقت نہ ہونے کے باعث آپ نے دن کو محنت ومزدوری کے بعد رات کو لالٹین پر اپنی تعلیمی مصروفیات جاری رکھیںایسے پُر آشوب حالات میں آپ نے 1988ء میں قرآن عظیم کے ناظرہ امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل اور حسن اتفاق سے انہیں انعام میں بھی’’صلوۃ الرسول‘‘ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی نادر روزگار کتاب تحفہ میں ملی جس کے مطالعہ سے ان کے ذہن میں اتباع الرسول ﷺ کی اہمیت مزید واضح ہوگئی اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے آپ نے پہلا جامعہ اور جاندار مضمون بعنوان ’’فرضیت الصلوٰۃ‘‘ تحریر کیا جو ان کے پہلے مضمون کی حیثیت میں مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی میں 1991ء کو شائع ہوا جس کے بعد آپ میں لکھنے پڑھنے کی دلچسپی مزید بڑھ گئی پھر ایسا وقت بھی تاکہ آپ ایک بہترین مصنف اورمؤلف ٹھہرے ان کی تحریریں تمام جماعتی جرائد کی زینت بنتی گئیں۔

تصنیفی خدمات :

آپ نے مختلف موضوعات پر سیکٹروں مضامین لکھے جو باقاعدہ مؤقر’’صحیفہ اہل حدیث کراچی۔ الاعتصام لاہور۔ ترجمان السنۃ لاہور۔ صدائے ہوش فیصل آباد۔ ترجمان الحدیث فیصل آباد۔ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور۔تنظیم اہل حدیث لاہور ۔ الاخوۃ لاہور۔ دعوت اہل حدیث حیدرآباد سندھ۔ المنبر فیصل آباد۔ الواقعہ کراچی ۔الحرمین جہلم۔حدیبیہ کراچی۔ماہنامہ اسوئہ حسنہ کراچی۔تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ۔ترجمان دہلی۔ نوائے اسلام دہلی۔صراط مستقیم برمنگہم کے علاوہ روز نامہ پاکستان اور روزنامہ ایکسپریس میں بھی ان کے رشحات قلم باقاعدہ شائع ہوتے رہے۔ ان کے علاوہ ان کی حسب ذیل کتب باقاعدہ شائع ہوکر قارئین کرام سے داد تحسین حاصل کرکے مقبول عام بن گئیں۔
1۔ مولانا عبد الوہاب دہلوی اور ان کا خاندان
2۔ اللہ تعالیٰ کے چار اولیاء
3۔ مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی۔حیات وخدمات
4۔ پیکر اخلاص مولانا محمد ادریس ہاشمی رحمہ اللہ
5۔ عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ میں علماء اہل حدیث کی خدمات
6۔ منشی رام عبد الواحد کیسے بنے؟
7۔ فاتح قادیان مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری حیات وخدمات
ان کے علاوہ ان کی چند کتب ابھی اشاعت کی منتظر تھیں مزید یہ کہ ان کے متعدد مضامین ومقالات کثیر تعداد میں اپنے پیچھے یادگار چھوڑے ہیں ۔
اولاد:
آپ نے 2 اپریل 2001ء میں شادی کی مولانا محمد رمضان سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیںبڑے بیٹے کا نام ابو بکر چھوٹے بیٹے کا نام عبد اللہ ہے ان کی سب سے بڑی دختر کا نام حِراء ہے اللہ تعالیٰ ان کے پس ماندگان کی حفاظت کرے اور صبرجمیل کی توفیق بخشے۔ آمین
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل علم واہل قلم کی نظر میں :
ذہبی دوران مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ (متوفی ۲۰۱۵) مولانا محمد رمضان سلفی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں، کہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی میانہ قد، مناسب خدوخال ، خوش اخلاق، خوش اطوار مہمان نواز ، اہل علم کے قدر دان ہم ذوق لو گو|ں سے میل ملاقات رکھنے والے سادہ مگر صاف ستھرا پہناوا، پڑھنے لکھنے کے شائق انہوں نے مختلف عنوانات پر کم وبیش ڈیڑھ سو مضامین لکھے جن میں سیرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چند پہلو، شان ابو بکر صدیق،جمال مصطفیٰ ﷺ،فضائل عشرہ ذی الحج، سیرت النبی ﷺ کے چند پہلو، لباس خضر میں رہزق(سفرنامہ حرمین شریفین، فتاوی علماء اہل حدیث کی تاریخ) وغیرہ شامل ہیں ان کے علاوہ ایک سو کے قریب علماء کرام کے تراجم سپرد قلم کیئے۔آگے مولانا بھٹی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ
الله تعالیٰ کے رنگ دیکھئے! ایک غریب گھرانہ سے غربت کی حالت میں محمد رمضان سلفی کی زندگی کا آغاز ہوا ایک کارخانے میں (اٹھارہ برس) تک آتش وآہن سے تعلق رہا نٹ بُلٹ بناتے رہے ہورزی میں اُونی مفلر تیار کرنے کاکام کے دوران میں رفتہ رفتہ کچھ تعلیم حاصل کی اور قلم وقرطاس سے رابطہ قائم کرلیا اور مقالہ نگار ومصنف کے طور پر شہرت پائی اللہ انہیں خوش رکھے اور دین اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے مواقع فراہم کرے آپ کا تعلق (تنظیمی لحاظ سے) جماعت غرباء اہل حدیث سے ہے۔ ( 20اپریل 2013ء چمنستان حدیث ، ص:765)
جناب سلفی صاحب کے متعلق پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’محترم مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ تعالیٰ ایک معروف نوجوان ، عالم دین، مقبول قلم کار، اعلیٰ اخلاق کے مجسمہ ہیں اصحاب علم وقرطاس ان سے بخوبی واقف ہیں آں محترم مختلف علمی، تحقیقی اور اصلاحی موضوعات پر خاکہ فرسائی کرتے رہتے ہیں بالخصوص بزرگ علمی شخصیات کی سیرت وسوانح لکھتے ہیں انہیں قدرت کی طرف سے ملکہ ودیعت کیاگیا ہے۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 9)
جناب پروفیسر مسعود الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ
الحمد للہ میرے پیارے دوست ہم پیالہ وہم نوالہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری (متوفی 15 مارچ 1948ء) کی باغ وبہار شخصیت پر قلم اٹھایا اور عقیدت کے پھول نچھاور کردیئے آج سے بہت عرصہ پہلے جب میری پہلی ملاقات (جولائی 1990ء) مولانا سلفی سے ہوئی تو وہ پہلے ہی مولانا ثناء اللہ امرتسری کی محبت وعقیدت سے سرشار تھے ۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 12)
محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا سلفی کے ماہنامہ ترجمان الحدیث میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سیرت وخدمات پر خوبصورت مربوط، رواں تحریر شائع ہوئی بلاشبہ یہ مضمون افادیت کے لحاظ سے کتابی صورت میں منظر عام پر لانے کے لائق ہے۔
(ابتدائیہ مولانا ثناء اللہ امرتسری )
فاضل نوجوان مولانا عبد العظیم صاحب حسن زئی مدیر مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی تحریر کرتے ہیں کہ
رمضان یوسف سلفی نے کم عرصہ میں جتنا تحریری اور تصنیفی کام کیا ہے یہ ہر لحاظ سے دادتحسین وتعریف کے لائق ہے(ان کے حق میں) ان کی والدہ محترمہ کی دعائیں (جو کہ کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں) مولانا عبد الرحمن سلفی مدظلہ العالی کا دست شفقت اور حوصلہ افزائی، اپنی ذات میں لگن ، محنت مطالع کے شوق نے انہیں تحریر کی ایسی صلاحیت مہیا کردی ہے کہ آج بحمد للہ جماعت اہل حدیث کے معتبر مؤلفین اور ملک کے نامور اہل قلم میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( مولانا محمد ادریس ہاشمی ص 13)
مولانا محمد زاہد الہاشمی الازہری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان سلفی اپنے مخصوص اسلوب نگارش کی بناء پر علمی،دینی اور تعلیمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ انتہائی مخلص ،مشفق اور محنتی انسان ہیں کام کی لگن اور دلچسپی آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔(مولانا محمد ادریس ہاشمی ص:12)
محترم عبد الرشید صاحب عراقی ختم نبوت اور علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی جماعت اہل حدیث پاکستان کے معروف قلمکار ہیں ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں اُ ن مضامین ومقالات سے سلفی صاحب کے بتحر علمی، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتاہے۔ محترم مولانا عراقی صاحب ، مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی اور اُن کا خاندان کے صفحہ 15 پر مزید تحریر فرماتے ہیں کہ سلفی صاحب بڑے با ادب ، با اخلاق ، مہمان نواز، منکسر المزاج اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں علمائے اہل حدیث سے بے پناہ عقیدت ولگاؤ رکھتے ہیں ۔ مولانا عبد الرحمن سلفی حفظہ اللہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی ہماری جماعت کے مشہور اور معروف لکھنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر وتصنیف کی صلاحیتوں سے خوب نوازا ہے ، اُن کے علمی ، ادبی اور اصلاحی مضامین پاک وہند کے اکثر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 16)
محترم مولانا بشیر احمد انصاری تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے فاضل دوست مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل حدیث کے ممتاز اہل قلم، سنجیدہ، فکر صحافی،صاحب مطالعہ اچھے مقالہ نویس اور معروف شخصیت نگار ہیں ایک عرصہ سے ان کے مضامین ملک وبیرون ملک مؤقر رسائل وجرائد کی زینت بن رہے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 20)
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اُن سے اس قدر محبت، یگانگت تھی کہ جس وقت ان کو اپنی مطبوعہ کتاب قصوی خاندان بطور تحفہ عنایت کی تو مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ابتدائی سادہ صفحہ پر ان کو ان الفاظ سے یادفرمایا ’’عزیز القدر محمد رمضان سلفی کا شوق مطالعہ ، اسلوب نگار اور بزرگان دین سے پُر خلوص محبت ان کے اوصاف حمیدہ ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے آئینہ دار ہیں ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔ ( محمد اسحاق بھٹی 6۔4۔1999)
آہ ۔۔۔
ایک ایک کرکے سب تنکے
ہوئے منتشر آشیانے کے
بلاشبہ برصغیر کے علمائے اہل حدیث کی خدمات جلیلہ کے حوالے سے ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی خدمات اپنی مثال آپ تھیں لیکن ان کے معتمد قابل فخر تلمیذ رشید مولانا سلفی نے انہی کے اسلوب نگارش کو آگے بڑھاتے ہوئے جو خدمات جلیلہ سرانجام دیں وہ بھی ناقابل فراموش تھیں، لیکن ان کے اس قدر جلد بچھڑ جانے سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہےآپ عرصہ سے شوگر،گردہ اور دیگر امراض کے مریض تھے مگر بظاہر چہرے سے مریض نہ لگتے تھے وہ بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے بچوں کی روزی کماتے تھے۔ باقی جو بھی وقت ملتا تھا بالخصوص صلوٰۃ الفجر سے آٹھ بجے تک اس میں لکھنا ،پڑھنا ان کی زندگی کا جز بن گیا تھا آپ انتہائی متواضع، سلجھا ہوا ذہن رکھتے تھے ان کو ویسے تو جملہ علماء سلف مگر خصوصاً جماعت غرباء اہل حدیث کے سلفی علماء کرام، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا عبد اللہ گورداس پوری اور ان کے خانوادہ کو ہمیشہ اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔
فکر معاش،عشق بتاں ، یادرفتگان
اتنی سی عمر میں کوئی کیا کیا کیا کرے
جب اچانک مولانا سلفی کے سانحہ ارتحال کی خبر برادم مکرم مولانا محمد خان محمدی صاحب نے فون پر دی تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،احساسات وجذبات پر ایک سکتہ طاری ہوگیا دراصل گزشتہ ایام ہمارے لیے ایام الحزن کی حیثیت میں گزرے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد ادریس سلفی، مولاناعبد المجید ازہر،مولانا عبد العزیز حنیف، مولانا بشیر احمد سیالکوٹی اور اب تازہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
میں نے سلفی صاحب کو دیرینہ اخوۃ اسلامی کے گھر سے تعلقات کے تحت ان کی بلند ظرفی،بے غرضی،وسیع القلبی، معاملہ فہمی، خودداری، نیک نیتی جیسے اوصاف کریمہ سے متصف پایا بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
علالت کے آخری ایام میں ان سے وقفے،وقفے سے فون پر رابطہ ہوا کرتا تھا ، ان کی گفتگو کا محور میری زیر طبع کتاب تذکرہ مشاہیر سندھ ہوا کرتی تھی جو ان کو بہت پسند تھی چونکہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اور مولانا سلفی نے ابتداء میں اپنے تاثرات بھی تحریر فرمائے تھےلیکن افسوس یہ دونوں بزرگ یہ کتاب دیکھ نہ پائے انسان کتنا کمزور ہے
یہ زندگی زندگی نہ سمجھ کہ زندگی سے مراد ہیں
وہ عمر رفتہ کی چند گھڑیاں جو ان کی محبت میں کٹ گئیں
بلاشبہ مرحوم کی شخصیت مادی وسائل کی کمی کے باوجود،عزم ہمت،مقصد سے لگن کے جذبے سے سرشار تھی آپ خوش اخلاق، خوش گفتار ، اعلی کردار، شگفتہ مزاج اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے بلاشبہ علمائے کرام مشاہیر عظام کی روزانہ داغ مفارقت کی خبریں سن کر بھی کوئی ہم جیسا غافل انسان عبرت نہ پکڑے اور اپنی عاقبت کا فکر نہ کرے تو ایسے عقل ودانش پر اللہ تعالیٰ ہزار بار استغفار
ہم نے دنیا کی ہر چیز کو بدلتے دیکھا
پر مقدر کے نوشتہ کو نہ ٹلتے دیکھا
بہر حال مولانا سلفی بات چیت میں انتہائی سادہ دل اور سنجیدہ ، فہمیدہ قول وعمل کے اعتبار سے دیندار، حقوق اللہ وحقوق العباد ادا کرنے میں مخلص ومستعد، زبان میں بَلا کی مٹھاس لیکن موت قدرت کا اٹل قانون ہے ۔ جہاں عقل وخرد، فہم وبصیرت کی کوئی گنجائش نہیں اس آب وگل سے ایک دن سب کی جدائی یقینی ہے مگر مرحوم سلفی صاحب کی جدائی ہم ایک مخلص ساتھی سے ہمیشہ محروم ہوگئے۔ فیصل آباد کا مکتبہ رحمانیہ امین پور مارکیٹ کی رنگینی اور رونق جاتی رہی ، دوستی،ملنساری، تواضع ومیزبانی کی روشن روایات کا باب ہمیشہ بند ہوگیا۔

وكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمةَ حِقْبَةً
مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا

اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنی رحمت کی شبنم سے پُر بہار رکھے اور ان کی اولاد کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اس گھر پر اپنی عنایات بے پایاں کا نزول کرے تاکہ ان کی تعلیم وتربیت اعمال صالحہ میں کوئی کمی نہ آسکے آخرت کی منازل مرحوم پر آسان کرے ۔
آدمی بُلبُلا ہے پانی کا     کیا بھروسہ زندگانی کا
یہ شہر تیں ، ناموریاں،سیم وزر اسی جہاںفانی میں رہ جائے گا ساتھ جو چیز جاتی ہے وہ ہے اخلاص اور عمل صالحہ یہ زاد راہ اور توشۂ منزل ہے آؤ اس یقینی منزل کے لیے ہم بھی کچھ کرکے جائیں ۔ والعاقبۃ للمتقین
اللہ تعالیٰ مرحوم سلفی پر اپنی رحمتیں نازل کرے ان کی مغفرت کرے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حاصل یہ زندگانی کا ہم کو ملا شميم
دنیا سے چل بسے غم عقبیٰ لیے ہوئے

اصحاب تدریس وشارحین حدیث

برصغیر پاک وہند میں جماعت اہلحدیث کے جو علمائے ذی وقار اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ، وسعت معلومات، درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور وعظ وتبلیغ کے ذریعہ اور علوم اسلامیہ(تفسیر،حدیث،فقہ خاص کر علم حدیث نبوی ﷺ اور اس کے متعلقہ علوم اسماء الرجال، جرح وتعدیل،اصول حدیث اور فقہ الحدیث میں دسترس رکھتے تھے اور ان علوم میں صاحب امتیاز ہونے کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ اُن کا مختصر تذکرہ مع اُن کی تصانیف متعلقہ حدیث نبویﷺ پیش خدمت ہے۔ (عبد الرشید عراقی)
مُحَدِّث
علمائے اسلام محدث کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ
’’ جو عالم دین علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، حدیث ، فقہ، اصول فقہ اور حدیث نبوی ﷺ کے متعلقہ تمام علوم یعنی اسماء الرجال، لغت، جرح وتعدیل اور فقہ الحدیث پر کامل عبور رکھتا ہو اُس کو محدث کہا جاتاہے۔
برصغیر(پاک وہند) کے جو علمائے کرام ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ان کے اسمائے گرامی مع سن وفات حسب ذیل ہیں۔
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی 1320ھ
2۔ علامہ حسین بن محسن انصاری محدث الیمانی 1327ھ
3۔ مولانا محمد سعید محدث بنارسی 1322ھ
4۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی 1339ھ
5۔ حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی 1334ھ
6۔ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری 1337ھ
7۔ مولانا عبد الوہاب محدث صدری دہلوی 1351ھ
8۔ مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارکپوری 1353ھ
9۔ مولانا عبد التواث محدث ملتانی 1366ھ
10۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (گوجرانوالہ) 1387ھ
11۔ مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی 1381ھ
12۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی 1384ھ
13۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی 1408ھ
14۔ حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی 1405ھ
15۔ مولانا محمدعلی جانباز محدث سیالکوٹی 1429ھ
16۔ مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی1363ھ
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (1220۔1320ھ/1805۔1902ء)
شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ امام حدیث تھے۔ حدیث کی مہارت ان پر ختم تھی۔ آپ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے 1258ء میں مکہ مکرمہ ہجرت کرنے کے بعد دہلی کی سند تحدیث پر فائز ہوئے اور 62 سال تک حدیث نبوی ﷺ کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م1996ء) لکھتے ہیں کہ
’’شاہ اسمعیل شہید کی اس مسابقت الی الجہاد وفوزبہ شہادت کے بعد دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق کا فیضان جاری ہوگیا تھا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید محمد نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20۔21)
جس عالم دین نے 62 سال تک قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کی ہوں اس کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں ۔
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت،کتاب وسنت کی ترقی وترویج ، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ اور ادیان باطلہ اور کتاب وسنت کے مخالف افکار ونظریات کی تردید کے لیے جو ذرائع استعمال کئے۔ وہ درج ذیل ہیں :
1۔ درس وتدریس
2۔ دعوت وتبلیغ
3۔ تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4۔ تصنیف وتالیف
5۔ باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید ۔
6۔ تحریک جہاد

تلامذہ :

تبرکاً حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے چند معروف ومشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ)
حافظ عبد المنان وزیر آبادی (م1334ھ)
حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ)
عارف باللہ سید اللہ غزنوی ( م 1298)
حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م 1311ھ)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ)
مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م 1348ھ)
مولانا عبد الحمید سوہدروی ( م 1330ھ)
مولانامحمد عبدالرحمان مبارک پوری ( م 1353ھ)
مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ)
مولانا عبد الحق حقانی ( م1335ھ)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ)
مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی ( م 1341ھ)
مولانا سید عبد الجبار غزنوی ( م 1331ھ)
مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی ( م 1351ھ)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ( م 1375ھ) رحمہم اللہ اجمعین ۔(الحیاۃ بعد المماۃ )
تصنیف :
حضرت میاں صاحب کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی ۔
اس لئے تصنیف وتالیف کے لیے فراغت نہیں ملی لیکن ان کی ایک بہت مفید کتاب ہے جس کا موضوع تردید تقلید ہے ۔
دوسری تصنیف ’’فتاوی نذیریہ‘‘ ہے جو دو جلدوں میں دہلی سے شائع ہوا۔
بعد میں اہلحدیث اکیڈمی لاہور نے تین جلدوں میں شائع کیا یہ فتاوی حضرت میاں صاحب کے دو تلامذہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی(م 1329ھ) اور مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (م 1352ھ) نے حضرت میاں صاحب کی وفات کے بعد شائع کیا۔
حل صحیح بخاری یعنی نسخہ عتیقۃ صحیحۃ مع حل مشکلات وحواشی وجمیع نسخ من خزانۃ الکتب العلامۃ شمس العلماء مولانا السید نذیر حسین المحدیث الدہلوی ( م 1320ھ)
حضرت میاں صاحب صحیح بخاری کا درس جس نسخہ کو اپنے سامنے رکھ کر ارشاد فرمایا کرتے تھے اس کے بارے میں آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ) فرماتے ہیں کہ
’’ یہ نسخہ بہت عتیق نہایت واضح خوش خط ہے ، مع جمیع نسخ وحل مشکلات وحواشی ورق کلاں پر تیس(30) ضخیم جلدوں میں ختم ہوا ہے اس نسخہ کی صورت اس کی قدامت کی دلیل روشن ہے یہ وہ نسخہ ہے جو بڑے بڑے اساتذہ اور شیوخ کے درس وتدریس میں رہا اور ہر زمانہ میں بڑے بڑے افاضل نے اس پر حواشی نکات چڑھائے مختلف اوقات میں حواشی چڑھانے کی وجہ سے حاشیہ لکھنے کا کوئی نظم نہیں رہا جس نے جس طرف جگہ پائی ۔ لکھ دیا
حضرت شیخ الکل کے خاص ہاتھ کے حواشی لکھے ہوئے بھی اس پر موجود ہیں اس طرح مدت کے بعد یہ نسخہ اس کمال کو پہنچا حضرت شیخ الکل اس نسخہ کی بڑی حفاظت فرماتے او ر اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے الحمد للہ کہ اس نسخہ کے دیدار سے ہماری آنکھیں بہی منور ہوئیں اور اس کی جلدیں اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں اور تیسوں جلدیں الگ الگ ہیں محشی میں ذیل کے علامات لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ (سیرت البخارین صدی ایڈیشن (مطبوعہ 2009) ص : 285)
پروفیسر عبد الجبار شاکر ( م 2009ء) لکھتے ہیں کہ |
شیخ الکل کا ذاتی کتب خانہ ’’ہمدرد لائبریری دہلی‘‘ میں ہزاروں کتب اور مخطوطات میں موجود ہے مجھے 2005ء میں ان کی زیارت نصیب ہوئی کاش کوئی ان کے حواشی مدون کرے۔ (ایضاً)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10رجب1320ھ/13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی اور شیوی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (تراجم علمائے اہلحدیث ہند ص 1501)
2۔علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ
برصغیر پاک وہند میں علوم اسلامیہ کی تدریس میں علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ) کا اسم گرامی سنہری حروف میں لکھا گیا ہے آپ جلیل القدر محدث، محقق اور حافظ حدیث تھے۔ برصغیر کے ممتاز علمائے حدیث نے آپ سے حدیث میں استفادہ کیا ہے اور ان کی شاگردی کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا ہے اور ان کے علمی تبحر،ذوق مطالعہ، قوت حافظہ اور وسعت ِ معلومات کا اعتراف کیا ہے ۔
مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
میں نے علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کو علم اور عمل کا جامع پایا، شیخ قوی وجوہ، عظیم الشان اور بلند مرتبے کے حامل ایسے سمندر تھے جس کا کوئی ساحل نہ ہو آپ محدث، محقق اور کتاب اللہ کے معانی کی وضاحت کرنے والے ، اصول حدیث ،علل حدیث ، رجال حدیث کے عالم ، علم اصول حدیث اور لغت کے ماہرتھے۔ سنن ابی داؤد اور دیگر کتب حدیث پر ان کی مختلف تعلیقات ہیں اور بہت سے مفید رسائل علم حدیث کے مباحث پر ہیں۔ ( غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ص 71’’مقدمہ‘‘)
علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات کے بارے میں مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م1999ء) رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درس حدیث ایک نعمت خداوندی تھا جس سے ہندوستان اس وقت بلاد مغرب ویمن کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے جلیل اقدر شیوخ حدیث کی یادتازہ کر دی تھی جو اپنے خداداد اور حافظہ،علو سند اور کتب حدیث ورجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتاب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ شیخ حسین بیک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور ان کی سند بہت عالی اور قلیل اوسائط سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے جلیل القدر اساتذہ حدیث کے تلمذ وصحبت ، غیر معمولی حافظہ ، جو اہل عرب کی خصوصیت چلی آرہی تھی سالہا سال تک درس حدیث کے مشغلے طویل مزاولت اور ان یمنی خصوصیات کی بنا پر جن کی ایمان وحکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے حدیث کا فن گویا ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر گیا تھا اور اس کے دفتر ان کے سینے میں سماگئے۔ (بقول میر … استاد حدیث مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمہ اللہ شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو ۔ جو شیخ کے شاگرد تھے فتح الباری( جس کی 13 ضخیم جلدیں اور ایک مقدمہ علیحدہ جلد ہے) شیخ صاحب کو تقریباً حفظ تھی) وہ ہندوستان آئے تو علماء وفضلاء نے( جن میں بہت سے صاحب درس وصاحب تصنیف بھی تھے)پروانہ وارد ہجوم کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی تلامذہ میں نواب صدیق حسن خان، مولانا محمد بشیر سہیوانی، مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا عبد اللہ غازی پژری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ، مولانا سلامت اللہ جیراج پوری نواب وقار نواز جنگ مولوی وحید الزماں، علامہ محمد طیب مکی، شیخ اسحاق بن عبد الرحمان نجدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(حیات عبد الحی ص 79۔80)
علاوہ ازیں ان علمائے کرام کے اور بھی بہت سے علمائے حدیث نے علامہ حسین بن محسن سے کتب حدیث پڑھیں اور سند واجازت حاصل کی، مثلاً :
’’ سعید شریف حسین بن شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہولی ، مولانا عبد الحمید سوہدروی(والد محترم مولانا عبد المجید خادم سوہدروی) حافظ عبد الوہاب نابینا دہلوی، مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی، مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی، مولانا سید عبد الباقی سہیوانی، مولانا عبد السلام مبارک پوری، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری، مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی، رحمہم اللہ اجمعین ۔
( تراجم علمائے حدیث ہند)
تصانیف :
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنیرحمہ اللہ (م1341ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ تالیف سے مناسبت نہ تھی ورنہ حدیث اور متعلقات حدیث پر بہتر لکھ سکتے تھے تاہم حدیث پر لکھا خوب لکھا۔
1۔ تعلیقات علی سنن ابی داؤد(عربی)
2۔ تعلیقات علی سنن نسائی ( عربی)
3۔البیان المکمل فی تحقیق الشاذ والمعلل ( عربی)
(اس کتاب میں شاذ اور معلل کی تعریف میں جو علمائے معللین کے اختلافات ہیں اُن کی نقل کرکے لکھ دیاگیا ہے نیز ایسی احادیث کے حجت وعدم حجت ہونے پر بحث ہے۔
4۔ التحفۃ المرضیۃ فی حل بعض المشکلات المرضیۃ( عربی)
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:68۔69)
3۔مولانا محمد سعید محدث بنارسی رحمہ اللہ
مولانا سعید بنارسی رحمہ اللہ کا شمار اُن علمائے حدیث میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوؤں کے شہر بنارس میں دین اسلام کی نشر واشاعت،توحید وسنت کی ترقی وترویج، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مولانا محمد سعید کا تعلق ایک غیر مسلم گھرانے سے تھا۔ مولانا شیخ عبید اللہ نو مسلم صاحب(م 1310ھ) تحفۃ الہند کی تحریک پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پہلے دار العلوم دیوبند میں مختلف اساتذہ سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا بعد ازاں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م1320ھ) اور مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری(م 1337ھ) سے تفسیر،حدیث،فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں پڑھیںجب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجازتشریف لے گئے تومکہ مکرمہ میں شیخ عباس بن عبد الرحمان تلمیذ قاضی شوکانی سے سند واجازت حاصل کی۔
حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے اور مولانا حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ) کے مدرسہ احمدیہ آرہ(مدراس) میں تدریس پر مامور ہوئے کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات دینے کے بعد اپنے استاد محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری( م 1337ھ) کی تحریک پر بنارس کو اپنا مسکن بنایا اور بنارس تشریف لانے کے بعد ایک دینی درسگاہ بنام’’مدرسہ سعیدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور ساتھ کتب توحید وحدیث نبوی ﷺ کی تائید، نصرت، حفاظت، مدافعت کے لیے ایک پریس بنام ’’سعید المطابع‘‘ قائم کیا اور توحید وسنت کی حمایت میں لاکھوں ورق شائع کئے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی فن مناظرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے آپ نے کئی ایک مناظرے اہل بدع اور اہل تشیع سے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر مناظرہ میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ مولانا محمد سعید صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد (38) ہے جو مختلف موضوعات سے متعلق ہیں۔ مولانا محمد سعید صاحبِ علم وفضل تھے۔ بنارس شہر میں اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور تھے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی نے 18 رمضان 1322ھ/ 37 نومبر 1904ء کو بنارس میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ( تراجم علمائے حدیث ہند ص 353۔354 ، نزھۃ الخواطر جلد 8)
4۔مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ
وكان حليماً متواضعاً، كريماً عفيفاً، صاحب صلاح وطريقة ظاهرة، محباً لأهل العلم(نزھۃ الخواطر 8/180)
’’وہ بہت بڑے حلیم،متواضع،شریف پاک دامن، نیک اور عمدہ طریقہ کے مالک اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے۔
حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں جن علمائے ذی وقار نے حدیث نبویﷺ کی اشاعت،حفاظت،نصرت اور مدافعت میں نمایاں خدمات انجام دیں ان میں مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ سرفہرست تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی(م 1373ھ) نے مولانا عظیم آبادی کی خدمت حدیث کا اعتراف کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’(درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی)کے نامور مولانا شمس الحق مرحوم صاحب عون المعبود ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ ( مقدمہ تراجم علمائے حدیث ہند ، ص 37)
حدیث نبوی ﷺ سے مولانا عظیم آبادی کو بہت زیادہ شغف تھا حدیث کی کئی کتابیں اپنے خرچ پر طبع کرکے علمائے کرام میں مفت تقسیم کیں مثلاً امام عبد العظیم منذری(م656ھ) کی مختصر السنن ، حافظ ابن القیم الجوزی کی تہذیب السنن ، حافظ جلال الدین سیوطی ( م911ھ) اسعاف المبطأ برجال الموطأ وغیرہ
حدیث نبوی ﷺ کی حفاظت،نصرت اور مدافعت میں مولانا عظیم آبادی رحمہ اللہ کی جو نمایاں خدمات ہیں وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سفیر کا باب ہے اس سلسلہ میں آپ نے جو خدمات انجام دیں اس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
1۔ مولانا شبلی نعمانی( م 1914ء) نے حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے سوانح حیات بنام’’سیرۃ النعمان‘‘ لکھی اور اس کو شائع کیا اس کتاب میں مولانا شبلی مرحوم نے حدیث نبویﷺ پر بے جا قسم کی تنقید کی مولانا شمس الحق مرحوم نے سیرت النعمان کا جواب نامور اہلحدیث عالم اور مجاہد مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ) تلمیذ حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حسن البیان کے نام سے لکھوایا۔
2۔ پٹنہ کے ایک غالی مولوی ڈاکٹر عمر کریم نے امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسمعیل بخاری ( م 256ھ) کی عدیم المثال اور بے نظیر تصنیف الجامع الصحیح البخاری اور امام صاحب پر بے جا قسم کے اعتراضات پر مشتمل ایک کتاب ’’الجرح علی البخاری‘‘ تین جلدوں میں شائع کی اور اس کے ساتھ کئی ایک اشتہارات بھی شائع کیے جن میں حدیث نبوی کے خلاف امام صاحب کی ذات پر ناروا قسم کے اعتراضات کئے۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی مدافعت میں مولاناعبد السلام مبارک پوری (م1342ھ) سے ’’سیرت البخاری‘‘ لکھوائی یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔
پہلی جلد میں امام صاحب کی مکمل سوانح عمری ہے یعنی دلادت سے زمانہ طفولیت،طالب علمی کے استاد، بعد فراغت تعلیم درس وتدریس ،اخلاق وعادات وغیرہ اور وفات تک کے حالات مذکور ہیں دوسرے حصہ میں عملی زندگی کے کارنامے،اسلامی خدمات ،فقایت واجتہادات وفنون حدیثیہ وتاریخ وغیرہ پر مفصل بحث ہے ان کے علاوہ آپ کی تصانیف کا تذکرہ اور الجامع الصحیح البخاری کی شروح کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔
3۔ ڈاکٹر عمر کریم نے جو اشتہار امام بخاری اور صحیح بخاری پر کئے اُن کے جوابات اپنے شاگرد خاص مولانا ابو القاسم سیف بنارسی(م 1369ھ)سے لکھوائے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ حل مشکلات بخاری مسمی بہ ’’الکوثر الجاری فی جواب الجرح علی البخاری(3جلد)
2۔ الامر المبرم لابطال الکلام المحکم
3۔ ماء حمیم للمولوی عمر کریم
4۔صراط مستقیم لہدایۃ عمر کریم
5۔الریح العقیم بحسم بناء عمر کریم
6۔ العرجون القدیم فی افشاء عمر کریم
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ،ص:368۔369)
درس وتدریس :
مولانا شمس الحق ڈیانوی نے ہندوستان میں جلیل القدر علمائے کرام اور اساطین فن سے استفادہ کیا ان میں چند ایک معروف اساتذہ یہ ہیں۔
مولانا فضل اللہ لکھنوی ( م 1311ھ) مولانا بشیر الدین قنوجی ( م 1296ھ) شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ) علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ)
رجب 1311ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین کا سفر کیا حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہاں کے اہل کمال اور اساطین فن سے تفسیر،حدیث، فقہ وغیرہ علوم میں استفادہ کیا اور اُ ن سے سند واجازت حاصل کی۔
حج سے واپس آکر اپنے وطن میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ سے بے شمار علمائے کرام نے اکتساب فیض کیا مشہور ومعروف تلامذہ یہ ہیں :
مولانا عبد الحمید سوہدروی(م1330ھ) مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی(م1381ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی(م 1363ھ) مولانا ابو القاسم سیف بنارسی( م 1369ھ) حکیم مولانا محمد ادریس ڈیانوی(م 1962ء)(صاحبزادہ)
(مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(حیات وخدمات) ص : 56)

کتب خا نہ :

مولانا عظیم آبادی کا کتب خانہ نایاب ونادر کتابوں پر مشتمل تھا اور برصغیر پاک وہند میں ایک مثالی کتب خانہ تھا۔ اپریل 1906ء میں مولانا شبلی نعمانی نے بنارس کے ٹاؤن ہال میں ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام نایاب ونادر کتابوں کی نمائش لگوائی۔ اس نمائش میں بیشتر کتابیں مولانا عظیم آبادی نے اپنے کتب خانہ سے بھیجوائی تھیں لیکن یہ کتب خانہ دو حادثوں میں ضائع ہوگیا۔
پہلا حادثہ 1946ء میں آیا جب بہاد میں مسلم کش فسادات ہوئے تو مولانا عظیم آبادی کے صاحبزداہ حکیم مولوی محمد ادریس ڈیانوی نے مسلمانوں کے لیے وہ مکان کھول دیاجس میں کتب خانہ تھا تو اُن مسلمانوں نے جنہوں نے مکان میں پناہ لی انہوں نے بے شمار کتابیں کھانا پکانے کے لیے چولہوں کی نذر کر دیں جب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے بقیہ کتابوں میں بے شمار کتابیں خدا بخش لائبریری پٹنہ کو دے دیں اور کچھ کتابیں اپنے پاس رکھ لیں قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد ادریس صاحب نقل مکانی کرے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) لے گئے اور حکیم صاحب کی یہ کتابیں 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریک میں ضائع ہوگئیں۔

فضل وکمال :

مولانا شمس الحق عظیم آبادی علم وفضل کے اعتبار سے جامع العلوم تھے تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ حدیث اور اسماء الرجال میں دسترس حاصل تھی فقہی مذاہب اور ائمہ کرام کے اختلافات ودلائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔مطالعہ کا عمدہ ذوق تھا تحقیق وتدقیق میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی ذہانت اور قوت فہم سے نوازا تھا۔
تصانیف :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ ایک کامیاب مصنف تھے آپ نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اُٹھایا آپ نے عربی، فارسی اور اُردو میں (33) کتابیں لکھیں۔
عربی : 19
فارسی : 7
اُردو : 7
کل : 33
حدیث نبوی ﷺ پر آپ کی (9) تصانیف ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ( عربی)
یہ کتاب سنن ابی داؤد تالیف امام ابو داؤد سجستانی (م275ھ) کی مبسوط شرح ہے اور 32 مجلدات میں اس کی تکمیل ہونی تھی لیکن شارح کی عمر نے وفا نہ کی اس کی پہلی جلد 1305ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی جو باب ترک الوضوء مما مست النار تک کی شرح ہے۔ (صفحات : 194)
2۔ عون المعبود شر ح سنن ابی داؤد ( عربی)
اس شرح میں اسناد ومتن سے متعلق اشکالات کے حل وایضاح کی طرف پوری توجہ کی گئی ہے اور الفاظ کی مختصر وضاحت کرتے ہوئے جابجا ترکیب کر دی گئی ہے ( مطبع انصاری دہلی 1318تا 1322) (4مجلدات صفحات مجموعی 1341)
3۔سنن میں ضعیف، صحیح ،منکر،موضوع ہر قسم کی روایتیں ہیں شارح نے روایت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے الفاظ کی مختصر وضاحت اور تشریح کردی ہے۔ (مطبع انصاری دہلی 1310ھ) (2 مجلد مجموعی صفحات : 554)
4۔تعلیقات علی اسعاف المبطأ برجال الموطأ (عربی)
اس کتاب میں مولانا عظیم آبادی نے تعلیقات کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی (م911ھ) کی لغزشوں کی نشاندہی کی ہے ۔(اسعاف علامہ سیوطی کی تالیف ہے ) (مطبع انصاری دہلی 1320ھ (صفحات : 50)
5۔ تعلیقات علی سنن نسائی (عربی)
یہ کتاب طبع نہ ہوسکی مولانا عظیم آبادی کی وفات کے بعد اس کا مسودہ گم ہوگیا اس کتاب کا ذکر مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنی کتاب سیرۃ البخاری (صفحہ 437 طبع دوم 1367 مطبع کریمی الہ آباد میں کیا ہے ۔
6۔ رفع الالباس عن بعض الناس ( عربی)
’’بعض الناس فی دفع الوسواس‘‘ یہ کتاب احناف کی طرف سے شائع ہوئی (مصنف کا نام کتاب پر درج نہیں ہے) جس میں امام بخاری کے وقال بعض الناس کا جواب دیا تھا یہ کتاب اسی کے جواب میں ہے ۔ ( مطبع شمسیہ ملتان 1358ھ صفحات :32)
7۔ غنیۃ الامعی(عربی)
یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث سے متعلق چند سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے ۔ (مطبع انصاری دہلی 1311ھ صفحات : 15)
8۔ فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری(عربی)
اس کتاب میں ثلاثیات بخاری (جن کی تعداد23ہیں) اُ ن کی شرح کی گئی ہے مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ) نے اپنی کتاب’’سیرۃ البخاری‘‘ میں کیا ہے۔
9۔ ہدایۃ اللوذعی بنکات الترمذی(عربی)
یہ کتاب چند فصلوں پر مشتمل ہے اس میں امام ترمذی(م 279ھ) اور جامع ترمذی پر بحث کرتے ہوئے امام ترمذی کے اساتذہ اور شراح اور محشین کے حالات بیان کئے گئے ہیں ( صفحات 12 بڑی تقطیع فی صفحہ 21 سطر) (جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات صفحہ : 50تا 52)
وفات :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ نے 19 ربیع الاول 1329ھ بمطابق 21 مارچ 1911ء 56 سال کی عمر میں بعارضہ طاعون ڈیانواں میں وفات پائی بقول اُن کے تلمیذ رشید مولانا ابو القاسم بنارسی جس وقت دینا کا آفتاب طلوع ہورہا تھا عین اسی وقت دین اسلام کا آفتاب(شمس الحق) غروب ہورہا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

ہوا کی سرسراہٹ اور بارش کے قطرات

ہوا کی سرسراہٹ اور بارش کے قطرات
توحید باری تعالیٰ کی شہادت اور موت کے بعد جی اُٹھنے کا ثبوت ہیں

ارشاد باری تعالی ہے :

اَللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْأَنْہَارَ (ابراہیم:32)

’’اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ساتھ تمہا رے لیے پھلوں میں سے رزق نکالا او ر تمہارے لیے کشتیو ں کو مسخر کیاتا کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور اس نے تمہارے لیے دریائو ں کو مسخر کردیا ہے۔‘‘
مزید فرمایا :

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہُ ثُمَّ یَجْعَلُہُ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِیہَا مِنْ بَرَدٍ فَیُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَیَصْرِفُہُ عَنْ مَنْ یَشَاءُ یَکَادُ سَنَا بَرْقِہِ یَذْہَبُ بِالْأَبْصَارِ(النور:43)

’’کیاتم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادلوں کوآہستہ آہستہ چلاتا ہے پھران کوباہم جوڑتا ہے پھرانہیں سمیٹ کر گھنے بادل بنادیتا ہے ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اوراللہ آسمان سے پہاڑوں کی مانند دکھنے والے اولے بھی نازل کرتاہے پھرجسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اورجسے چاہتا ہے ان سے بچالیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔‘‘
کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادلوں کو بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد ان کو ایک دوسرے پر تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے ۔پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو دور سے دیکھنے والے کو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے۔ کبھی اس میں اولے برستے ہیں۔اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے بادل یوں ہی گزر جاتے ہیں اور بسااوقات بادلوں میں بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کی بینائی کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت نشانیاں ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں قدیم اورجدید فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدانوں نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے کہ پانی سورج کی گرمی سے بخارات کی صورت میں اُوپر جاتا ہے اور ہوائیں بخارات کو اٹھا کر فضا کے ایسے حصے میں لے جاتی ہیں کہ جہاں بخارات بادل کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر ہوا بادلوں کو دھکیل کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے جب بخارات ایک خاص حصے اور نقطہ انجماد پر پہنچتے ہیں تو وہ بارش بن کر زمین پر برستے ہیں۔ سائنسدانوں میں بے دین طبقہ اس سے آگے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا جس بناء پر وہ بارش کے سارے عمل کو تکوینی اور فطری نظام سمجھ کر صرفِ نظر کر دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے عمل میں گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ کیا بارش کو فطری عمل قرار دینے والے اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہوا میں اتنی قوت اور کشش کس نے پیدا کی ہے؟ جوبخارات کی
صورت میں لاکھوں ٹن پانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور سورج
اس پانی کو اپنی حرارت سے ختم کیوں نہیں کرسکتا ؟ پھر غور فرمائیں کہ فضا میں وہ خطے کس نے پیدا کیے ہیں جہاں پہنچ کر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور ہوائوں کا رخ موڑنے والی کونسی قوت ہے جو انہیں اِدھر اُدھر جانے کاحکم دیتی ہے۔ ایک بار پھر سوچیے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو کھربوں من پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایک دوسرے کے اوپر ایک مناسب فاصلہ پر رکھتے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے پھر یہ بادل کہیں موسلادھار بارش کی صورت میں برستے ہیں اور کہیں بونداباندی کی صورت میں ٹپکتے ہیں ۔
آخر یہ نظام کس نے قائم کیا ہے؟ اس بات پر بھی غور کریں کہ دنیا میں کہیں بھی بادل یکدم نیچے نہیں گرتا۔ وہ قطرات کی شکل میں برستا اور اپنے وجود کو ختم کر دیتا ہے۔ اب ان سے برسنے والے اولوں پر توجہ فرمائیں کہ ایک بادل سے اس قدر اولے برستے ہیں کہ زمین کئی کئی فٹ برف سے ڈھک جاتی ہے اور اسی علاقے سے چند میٹر دور بادل سے ایک اولہ بھی نہیں پڑتا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک فصل کو اولوں سے تباہ کردیتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی فصل کو بارش سے نہلا تا ہے اور اسے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اب اس کے درمیان چمکنے اور گرجنے والی بجلی پر غور کریں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ گرجتی اور چمکتی ہے ۔تو نہ صرف ڈر کے مارے لوگ سہم جاتے ہیں بلکہ بجلی کی چکاچوند روشنی میں ان کی بصارت بھی کام نہیں دیتی۔ اگر اس موقع پر انسان کی نظر آسمانی بجلی کی شعاعوں سے ٹکرا جائے تو آنکھوں کی بینائی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس بجلی کی کڑک سے لوگ خوف کھاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے:۔
’’او ر بجلی ا س کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی ا س کے خوف سے ۔ وہی کڑکنے والی بجلیاں بھیجتا ہے پھر انہیں جن پر چاہتا ہے گراتا ہے ،اور وہ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں جبکہ وہ بہت سخت قوت والا ہے ۔‘‘(الرعد: ۱۴)
’’سیدناابن عباسw  بیان کرتے ہیں کہ نبی كکریمe کے پاس یہودی آئے ۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! ہمیں آسمانی بجلی کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے ۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہو تے ہیں وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ جہاں اُسے اللہ تعالیٰ لے جانے کا حکم دیتا ہے ۔انہوں نے کہا ان میں جو ہم آواز سنتے ہیں وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ آواز فرشتے کے بادلوں کو ہانکنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا :آپ نے سچ فرمایا۔‘‘ [رواہ الترمذی: کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح]

اللہُ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہُ فِی السَّمَاءِ کَیْفَ یَشَاءُ وَیَجْعَلُہُ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِہِ فَإِذَا أَصَابَ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ إِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ وَإِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ یُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمُبْلِسِینَ (الروم: 48۔49)

’’اللہ ‘‘ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بھاری بادل اُٹھاتی ہیں، اللہ جس طرح چاہتا ہے بادلوں کو فضا میں پھیلاتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تو دیکھتاہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے بارش برساتا ہے تو وہ یکایک خوش ہو جاتے ہیں۔ بارش برسنے سے پہلے وہ مایوس ہو چکے تھے۔‘‘
بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔ انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے ۔جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں کہ سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔سمندر کا پانی سور ج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اُٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا ہے اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر پانی نیچے گرتا ہے۔ ہوائیں بادلوں کی شکل میں لاکھوں ،کروڑوں ٹن پانی اِدھر اُدھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل کہیں جوں کا توںگر پڑے۔ بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے ۔
اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پرغور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگرایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقآب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی۔ کیا بخارات کا بنانا ، ہوائوں کا اٹھانا اور فضا میںبادلوں کو اِدھر اُدھر لیے پھرنا پھرقطروں کی صورت میںپانی برسنا اورساری فضا کو کثافت سے پاک کرنا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر درند پرند تک پانی پہنچاناکسی حکومت کے بس میں ہے؟ہرگز نہیں۔
’’سیدنا انس t بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک دن اللہ کے رسولeکے ساتھ تھے ۔ بارش ہوئی تو اللہ کے رسولeنے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا ۔بارش کا پانی آپ کے جسم مبارک پر پڑا ۔ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسولe!آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے یہ اس لیے کیاہے کیونکہ بارش اپنے رب کی طرف سے آئی ہے۔‘‘[رواہ مسلم:باب الدُّعَاء ِ فِی الاِسْتِسْقَاء]
’’سیدنا عمرو بن شعیب t بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسولِ معظم e بارش کے لیے دعا کرتے اور کہتے: اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کی برکھا برسااور مردہ زمین کو زندہ فرما دے‘‘
’’اوروہی ہے جوبارش سے پہلے ہوائوں کو خوشخبری بناکر بھیجتا ہے پھرآسمان سے پاکیزہ پانی نازل کرتا ہے ۔‘‘ (الفرقان:۴۸)
حضرات! اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ہوائوں پر اختیا رنہیں وہی ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جس سے لوگ بار ش کی آمد آمد محسوس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش کی صورت میں پاک پانی نازل کرتا ہے ،اور پھر بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان گنت چوپائے، درند،پرند، حشرات الارض اور انسان پید ا کیے ہیں وہی بارش کے ذریعے انھیں پانی پلاتا ہے ۔ اس آیت میں ’’ اَلرِّیَا حٌ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اس کا واحدرِیْحٌہے جس کا معنیٰ ہے ہواہے۔ یہاں ہوا کی بجائے ہوائوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اسی وجہ سے موسمیات کا علم رکھنے والے سائنس دانوں نے ہوائوں کے مختلف نام رکھے ہیں اور ان کی خصوصیات کا الگ الگ ذکر کرتے ہیں۔
ہوا ایسی نعمت ہے کہ جس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ ہوا کے بغیر کوئی جاندار زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہوا ہی نباتات کے بیج ایک سے دوسرے تک منتقل کر تی ہے ۔ ہوا کے ذریعے ہی پودوں میں نر اور مادہ کا ملاپ ہوتا ہے۔ ہوا ہی پانی کو بخارات کی شکل میں آسمان کی طرف لے جاتی ہے جو بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں ۔ ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے ۔ہوا کے ذریعے ہی بارش کا نظام چلتا ہے اور ایک خاص مقدار اور رفتار میں آسمان سے پانی زمین پر برستا ہے ۔ ہوا تیز آندھی کی شکل اختیار کر لے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ ہوا کو رنگ دار بنا دے تو روشنی کے باوجود انسان اندھوں جیسے ہو جائیں ۔ بارش کے پانی کو پاک پانی قرار دیا گیا ہے۔ زمین سے اُٹھنے والے پانی کے بخارات میں بے شک کتنی ہی کثاقت اور غلاظت کیوں نہ ہو۔ ہوا بخارات کو ہر قسم کی غلاظت اور بدبو سے پاک صاف کر دیتی ہے ۔ ہوا کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم اُٹھائی ہے۔

وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا وَ النَّاشِرَاتِ نَشْرًا فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا فَالْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا عُذْرًا أَوْ نُذْرًا (المرسلات:1۔3)

’’قسم ہے ان ہواؤں کی جو پے در پے بھیجی جاتی ہیں۔ پھر طوفانی رفتار اختیار کرتی ہیں۔ اور بادلوں کو پھیلاتی ہیں۔ پھر ان کو پھاڑ کر الگ ، الگ کرتی ہیں۔ پھر دلوں کو ’’اللہ‘‘ کی یاد دلاتی ہیں۔ عذرختم کرنے یا ڈرانے کے لیے۔‘‘
اب بارش پر غور فرمائیں کہ ان میں کتنے فوائد رکھ دیئے گئے ہیں اور زمین میں پانی کو کس طرح ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی آسمان سے پانی برساتا پھر اس کو سوتوں ، چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر اس پانی کے ذریعے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں پھر کھیتیاں پک کر سُوکھ جاتی ہیں پھر دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ جاتی ہیں آخر کار اللہ ان کو بھُس بنا دیتا ہے ۔درحقیقت اس میں عقل رکھنے والوں کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘ (الزمر:۲۱)
اس مقام پر ارشاد ہے کہ ’’اللہ ‘‘ آسمان سے پانی نازل کرتاہے جسے زمین کے سوتوں میں پہنچاتا اور اس سے چشمے جاری کرتاہے ۔پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں اُگاتا ہے ۔ان میں ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیںجو صرف بارش سے اگتی ہیں اور کچھ مدّت کے لیے لہلاتی ہیں اور پھر گل سڑ جاتی ہیں ۔بارش کے نزول اور اس کے ذریعے اُگنے والی مختلف قسم کی نباتات میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں۔
’’اور اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی مردگی کے بعد زندہ کر دیا ۔بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو توجہ سے سنتے ہیں ۔‘‘
(النحل:۶۵)
’’اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی، کیا پھر بھی وہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔ ‘‘ [الانبیاء:۳۰]
’’آبی چکر‘‘(واٹر سائیکل)کا تصوّر سب سے پہلے ۱۵۸۰ء میں برنارڈ پیلیسی نامی ایک سائنسدان نے پیش کیا۔اس نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی تبخیر (Evaporation)ہوتا ہے اور کس طرح وہ ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیارکرتا ہے ۔اس نے لکھا کہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں اور بلند ہوتے جاتے ہیں،ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ بارش کا پانی جھیلوں ، جھرنوں،ندیوں اور دریائوں کی شکل میںچلتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتاہے اس طرح پانی ایک چکر کاٹتاہے ۔ ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلز نامی ایک یونانی فلسفی کا کہنا ہے کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار پیدا ہوتی ہے ۔ اس پھوار کو ہوا اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کربارش کی صورت میں برسا تی ہے۔پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین پانی کا ذریعہ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوا کے دباؤ اور بوجھ کی وجہ سے سمندر کا پانی زمین کے اندرونی حصوں میں داخل ہو تا رہتا ہے۔
ارسطو کانظریہ تھا کہپہاڑوں کی سرد غاروں میں پانی کی تکثیف(Condensation)ہوتی ہے۔ پانی زیرِ زمین جھیلیں بناتا ہے جس سے چشمے پھوٹتے ہیں۔لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ بارش کا پانی زمین میں موجود دراڑوں کے راستے رِس رِ س کر زمین کے نیچے جاتا ہے اور اس سے چشمے بنتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید نے یوں بتلائی ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَکَہُ یَنَابِیعَ فِی الْأَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُہُ (الزمر:21)

’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے ،پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریائوں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کرتا ہے، پھر وہ اس پانی سے طرح طرح کی کھیتیاں نکالتاہے جن کے مختلف رنگ ہیں۔‘‘

 وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ

’’ اس نے زمین میں ہر طرح کے جانور پھیلا دئیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسما قسم کی چیزیں اُگائیں۔‘‘ (لقمان:۱۰)
اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے یہاں ’’زَوْجٌ کَرِیْمٌ‘‘کے الفاظ استعمال فرما کر بتلایا ہے کہ جس طرح جاندار چیزوں میں نراورمادہ کی شکل میں جوڑے ہیں اسی طرح نباتات میں بھی نراورمادہوتے ہیں۔
’’اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔‘‘[ا لمؤمنون:۱۸]
’’اورہم ہی ہوائوں کو بارآور بناکر بھیجتے ہیں،پھرآسمان سے پانی برساتے اور تمہیں اس سے سیراب کرتے ہیں۔‘‘[الحجر:۲۲]
بارش کے نازل کرنے، نباتات کو اُگانے اور باغات کو لہلہانے سے ’’اللہ‘‘ کے خالق اور ’’الہ‘‘ ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
’’بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیااور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایاپھراس نے اس کے ذریعے سبز وشاداب باغ اُگائے جن کواُگانا تمہارے بس میں نہیں تھا۔کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ بلکہ یہ لوگ حق بات سے پھرنے والے ہیں۔ ‘‘ (النمل:۶۰)
بتائو زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ؟ کون آسمان سے بارش برساتا ہے؟ اور کون اس کے ساتھ سبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کرتا ہے؟ کیا ’’اللہ ‘‘ کے ساتھ کوئی اور بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ ہر دور کے مشرک اس حقیقت کو مانتے ہیں اور مانتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں نہ کوئی بارش برساسکتا ہے اور نہ ہی باغات اُگا سکتا ہے ۔لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کو ’’اللہ ‘‘ کے شریک ٹھہراتے ہیں ۔’’ یَعْدِلُوْنَ‘‘کا لفظ عدل سے نکلا ہے عدل کا معنی ہے انصاف کرنا ،کسی کو کسی کے برابر ٹھہرانا اور ظلم کرنا۔ عدل ایسا لفظ ہے جس کا معنٰی اس کے سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے۔ یہاں عدل کا معنٰی زیادتی کرنا اور کسی کو ’’اللہ ‘‘ کے برابر ٹھہرانا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کراتے ہیں۔ تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آ جائے۔ گویا کہ ربوبیت کے دلائل دینے کا مقصد اس سے الوہیت ثابت کرنا ہے ۔ ’’اللہ‘‘ کی الوہیت کو بلاشرکتِ غیر ے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کر سکتا ہے؟غور فرمائیں کہ ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی پائی جائے، جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے پھر ہوا کی ضرورت ہے نہ معلوم ایک بیج کو پودا اور درخت بننےتک کس کس چیز کی ضرورت ہے ۔بیج جب زمین میں ہوتا ہے تو ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کے سوا اسے کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی اس کی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے۔
بارش سے قیامت کے دن زندہ کرنے کا ثبوت:

وَاللّٰهُ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ فَتُـثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰهُ اِلٰى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَحْيَيْنَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ كَذٰلِكَ النُّشُوْرُ

’’ اور اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادل اُٹھاتی ہیں پھر ہم اسے ایک اُجاڑ علاقے کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس سے زمین کو شاداب کرتے ہیں جو پہلے ویران تھی اسی طرح لوگوں کو اٹھایا جائے گا۔‘‘ (فاطر۹)
دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں اور ہوں گے جو اعتقاداً یا عملاً آخرت کا انکار کرتے ہیں ۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہو جائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جا ئے گا۔انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ سوچو اور دیکھو! کہ جب بارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور لوگ بارش کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ فصلیں ویران اورجڑی بوٹیاں گل سڑ جاتی ہیں ۔جس سے نہ صرف صحراء اوربیاباں بھیانک منظر پیش کرتے ہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے لوگ کئی ریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ شہروں کی چہل پہل پر مردگی چھا جاتی ہے۔ ایسی صورت ِحال میں اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے جو’’اللہ ‘ کے حکم سے سینکڑوں مِیلوں سے بادلوں کو اٹھا کر ایسے مقامات پر بارش برساتی ہیں جہاں کی زمین مردہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ بارش کے بعد وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ جہاں صحراء نظر آتا تھا وہاں ہریالی اور سبزہ دکھائی دیتا ہے ۔ جو ’’رب‘‘ مردہ زمین سے نباتات پیدا کرتاہے وہی قیامت کے دن اس زمین سے لوگوں کو زندہ کرے گا۔

وَہُوَ الَّذِی یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ حَتَّی إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاہُ لِبَلَدٍ مَیِّتٍ فَأَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِہِ مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ کَذَلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتَی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (الاعراف:57)

’’اور وہی ہے جو اپنی رحمت سے پہلے خوش خبر ی دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے یہاں تک کہ جب بھاری بادل اٹھالاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں ،پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے پھل پیداکرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
صرف وہی ذات کبریا ہے جو کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے اسی کے حکم سے ہوائوں اور فضائوں میں تبدیلی آتی ہے یہ اسی کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہو جائیں اور بارش آنے سے قبل اپنا سازوسامان سنبھال لیں۔گھٹا ٹوپ ہوائیں نہ معلوم بادلوں کو کہاں سے کہاں اٹھائے ہوئے ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں ۔جہاں اللہ تعالیٰ انہیں حکم صادر فرما تا ہے وہاں برستی ہے۔ اس سے اُجڑی ہوئی بستیاں تروتازہ، ویران کھیتیاں شاداب اور نہ صرف مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے بلکہ فضا مہلک جراثیم سے پاک اور درختوں کا پتہ پتہ گردوغبار سے صاف ہو جاتا ہے۔ ہر سُو سُہانا موسم ہوتا ہے جس سے روحانی اور جسمانی طور پر تسکین پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ میوہ جات سے اپنے بندوں کو لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کر تا ہے۔ پھلوں کا ذکر کرنے اور بارش سے استدلال پیش کرتے ہوئے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ سمجھایاگیا ہے کہ لوگو!غور کروکہ اگر مردہ زمین کو زندہ کیا جاسکتاہے اوراس میں مدتوں پڑے ہوئے بیج باغ وبہار کا منظر پیش کر سکتے ہیں توکیا خالقِ کل کے لیے انسان کو پید ا کرنا مشکل ہے؟ہرگز نہیں۔ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا فرمائے گا۔ اس لیے حدیثِ مبارکہ میں ذکرہے کہ قیامت سے پہلے بارش ہوگی۔
’’سیدنا ابوہریرہ  بیان کرتے ہیںکہ رسولِ محترم e نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہو گا ۔ سیدنا ابوہریرہ t سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ سیدنا ابوہریرہt نے فرمایا کہ میںیہ نہیں کہتا۔ طلبہ نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ سیدنا ابوہریرہ نے جواب دیا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ t فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیںکہتا ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا ۔ لوگ یوں اُگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپe نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہو جائے گی ۔قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)دوسری روایت میں ہے۔ آپ e نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کومٹی کھا جاتی ہے۔ لیکن دمچی کو نہیں کھاتی۔ انسان اسی سے جوڑا اور پیدا کیا جائے گا ۔‘‘ [متفق علیہ]

وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ
(العنکبوت:63)

’’اے پیغمبرe اگر آپ ان سے سوال کریں کہ آسمان سے کون بارش برساتا ہے اور اس بارش کے ساتھ مردہ زمین کو کون زندگی عطا کرتا ہے؟ لا محالہ ان کا جواب ہو گا کہ بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ نباتات اگانے والا صرف ایک ’’اللہ ‘‘ہے۔انہیں فرمائیں کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں۔‘‘

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ    ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ  (البقرہ:164)

’’بیشک زمین و آسمانوں کا پیدا کرنا، رات دن کا بدلنا ، کشتیوں کا لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیزوں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی نازل کرنا اور زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر نا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلانا، ہوائوں اورآسمان و زمین کے درمیان مسخر بادلوں کا رخ بدلنا یقینا اس میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘
یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ بر حق کا شریک وسہیم نہیں اور نہ ہو گا۔اگر تم عقل ودانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے بغیر نہ رہ سکو۔لیکن اتنے ٹھوس دلائل کے باوجود لوگوں کی غالب اکثریت کا عالم یہ ہے :

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللہِ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِیعًا وَأَنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ الْعَذَابِ (البقرۃ:165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے محبت ہونی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ دیکھ لیتے وہ بات جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اپنی قدرت کے آٹھ ایسے دلائل دیئے ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی ،شہری، جاہل اورتعلیم یافتہ ،عام عقل والا یا انتہائی دانشور، سیاست دان یا سائنس دان سب کے سب اپنی اپنی لیاقت اورصلاحیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر اورٹھوس دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اوروہ ان سے استفادہ کرتاہے ۔اس میںیہ بھی بتلایاگیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں ۔ جب ان آفاقی عناصر کی پیدائش اورانہیں مسخر اورمقید رکھنے میں زندہ اورمردہ باطل خدائوں،نیک و بد، حکمرانوں اورسائنس دانوںکا عمل دخل نہیں تو پھر اسی مالک کو الٰہ مانو اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑو جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے ۔
سیدنا ابو درداء  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا: ’’داؤدu دعاء مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری محبت اور تجھے چاہنے والوں کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق مانگتا ہوں جو تیری محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہوں۔ اے اللہ میرے دل میں اپنی محبت میرے نفس ،اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب کر دے۔‘‘(سنن ترمذی:باب جامع الدعوات)
محبت وہ فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اورحیوان میں پایا جاتا ہے۔ محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں، جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا ۔مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرو ۔اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا سب سے بڑا محسن ہے۔تم کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے،اگر تم جمال وکمال کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔اگر تم کسی کے اقتدار اور اختیار کی بناپر اس سے الفت کرتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اوراقتدار نہیں ہے۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک’’ اللہ تعالیٰ‘‘ہے پھراس کی خالص عبادت اور اسی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟
٭٭٭٭٭

اور جو شخص دہشت زدہ ہو وہ کس طرح اللہ تعالی کے اس فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ  فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوء

جن کو لوگوں نے کہا کہ: لوگوں نے تمہارے مقابلے کیلئے ایک بڑا لشکر جمع کر لیا ہے لہذا ان سے ڈر جاؤ تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ  ہو گیا اور کہنے لگے:ہمیں تو اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے تو وہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت حاصل کر کے واپس آئے، انہیں کوئی تکلیف بھی  نہ پہنچی ۔[آل عمران:173،  174]
ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالی کی تاکیدی نصیحت ہر وقت تمہاری زندگی میں شامل حال ہو:

إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

یقین مانو کہ اللہ تعالی پرہیز گاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے۔ [النحل: 128]
بلاؤں کو ٹالنے اور مشکل کشائی کے اسباب میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں، اسی میں صدقہ اور محتاج لوگوں کی مدد بھی شامل ہے، خصوصاً شورش  زدہ علاقوں میںپھنسے ہوئے مسلمانوں کی مدد کریں، جیسے کہ حلب، موصل، یمن، برما، فلسطین اور دیگر علاقوں کے مکینوں کی مدد کریں۔
مسلمان تاجرو! تمہاری بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے ، اس ذمہ داری کو ادا کرنے پر تمہارا دینی اور دنیاوی ہر طرح کا فائدہ ہو گا، تم اپنے لیے توشۂ آخرت بناؤ، اپنے بھائیوں کی مدد کرو، تمام غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرو اللہ تعالی کی جانب سے تمہارےاموال محفوظ ہوں گے تمہاری تجارت میں برکت ہو گی اسی طرح تمہاری اور تمہارے ممالک کی ہر قسم کے نقصانات سے حفاظت کی جائے گی:

إِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ

بیشک اللہ کی رحمت نیک کاروں کے قریب ہے۔ [الاعراف: 56]

حالات سنوارنے کیلئے حکام اور عوام کی ذمہ داریاں

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہ قوت والا اور مضبوط ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بہت بڑا انتقام لینے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہی اپنانے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی گزشتہ اور پیوستہ سب لوگوں کیلئے تاکیدی نصیحت ہے۔
مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے، جو تکلیفیں انہیں پہنچ رہی ہیں، عذاب کی جتنی بھی صورتیں ان کے آنگن میں رونما ہیں، یہ تمام امور ان سے محاسبہ نفس کرنے کا تقاضا کرتے ہیں، حالات انہیں مقامِ استفسار پر لا کھڑا کر رہے ہیں کہ پروردگار کے ساتھ ان کا تعلق کیسا ہے؟ وہ اپنے دین پر اور نبی کریمﷺ کی سیرت پر کس قدر عمل پیرا ہیں؟
کوئی بھی انسان ان حالات کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے ان حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سمت اور منہج کو سمجھیں، خوابِ غفلت سے بیدار ہوں اور شریعتِ الہی و سنتِ نبوی پر عمل پیرا ہونے میں کی جانے والی کوتاہی کا خاتمہ کریں۔
مسلمانوں پر اجتماعی ،انفرادی ، علاقائی اور عالمی مصیبتیں آن پڑی ہیں، جن سے ایسے اسباب کی تلاش مزید دو چند ہو گئی ہے جو انہیں مشکلات سے نکالیں اور نقصانات سے بچائیں، ان تمام اسباب کی جڑ اور بنیاد جو کہ بہت سے لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کامل بندگی کریں، ہم اللہ تعالی کی شریعت پر عمل پیرا ہوں اور دکھ سکھ، خلوت و جلوت ہر حالت میں اللہ تعالی کو اپنا نگران و نگہبان سمجھیں، پروردگار کا فرمان ہے:

وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا[الطلاق: 2]

اور جو اللہ سے ڈرے اللہ تعالی اس کیلئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یعنی:اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت کی تمام مشکلات سے نجات دیتا ہے۔
چنانچہ جس وقت بھی مسلمان اس بنیادی نکتے پر انفرادی اور اجتماعی عمل کریں گے تو ان کیلئے تمام تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بن جائے گا، جس وقت بھی مسلم معاشرے  اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں اسی طرح عمل پیرا نہیں ہو جاتے جیسے کہ ہمارےنبی کریم ﷺ اور اس امت کے سلف صالحین رحمہم اللہ عمل پیرا تھے، وہ جب بھی اسے عملی جامہ پہنا دے گیں تو ان کے حالات سدھر جائیں گے، زندگی خوشحال ہو جائے گی، ان کے امور سنور جائیں گے، اور امن و امان قائم ہو گا، بلکہ ان کا دشمن بھی شکست خوردہ ہو جائے گا۔
جب بھی مسلمانوں کا کوئی حکمران یا ذمہ دار شخص تقوی الہی اپنائے تو اس کی عزت، رفعت اور سلطنت میں اضافہ ہوتا ہے اور زندگی میں اس کی شان بلند ہوتی ہے اور اس کا انجام بھی بہت اچھا ہوتا ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [يونس: 62]

 خبردار! بیشک اللہ کے اولیاء پر نہ خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
انہیں جتنی بھی تکلیفیں آن پہنچیں اللہ تعالی کی خصوصی معیت اور حمایت ان کے ساتھ ہوتی ہے جو ان کی حفاظت فرماتی ہے اور ان کا خیال رکھتی ہے۔
جب یہ قطعی اصول معلوم ہو گیا تو مسلمانوں کو آج  اپنے دین، جان، مال، عزت آبرو، معیشت اور روزی روٹی کیلئے مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہے، ان کی وجہ سے زندگی اچھی نہیں گزر رہی ، انہیں خوشحالی میسر نہیں ہے، ان کے راستے پر امن نہیں ہیں، حالات میں استحکام مفقود ہے، تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوں، عقل کے ناخن لیں، ان کٹھن حالات سے سبق سیکھ کر اپنے پروردگار سے رجوع کریں، اور یہ یقین رکھیں کہ حالات جتنے بھی سنگین ہو جائیں تب بھی اللہ کے دین اور شریعت سے رو گردانی اسی طرح گناہوں اور ممنوعہ کام کرنےپر ملنے والی اخروی سزاؤں سے یہ حالات کہیں کم تر ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَهُمْ لَا يُنْصَرُونَ

اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد نہیں کی جائے گی۔[فصلت: 16]
اسی طرح فرمایا:

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ  [السجدة: 21]

 ہم انھیں بڑے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا مزا بھی ضرور چکھائیں گے تا کہ وہ باز آ جائیں۔
مسلم اقوام!اللہ تعالی نے فضل و کرم اور سخاوت و رحمت فرماتے ہوئے ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہمیں ایک حقیقت سے بہرہ ور فرمایا حالانکہ دنیاوی نقطۂ نظر کو سامنے رکھ کر سیاسی تجزیے بہت کیے جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت بے اعتنائی کا شکار ہی رہتی ہے ، اس کے بارے میں ہمارا پروردگار فرماتا ہے:

وَبَلَوْنَاهُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

اور ہم انہیں اچھے اور برے حالات سے آزماتے رہے تاکہ وہ [اللہ کی طرف] پلٹ آئیں۔[الأعراف: 168]
اسی طرح فرمایا:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

بر وبحرمیں فساد پھیل گیا ہے جس کی وجہ لوگوں کے اپنے کمائے  ہوئے اعمال ہیں تا کہ اللہ تعالی لوگوں کو ان کے کچھ اعمال کا مزا چکھا دے؛ امید ہے کہ وہ ایسے کاموں سے باز آ جائیں ۔[الروم: 41]
مسلمانوں کو مختلف انواع و اقسام کی مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ہے ، اس صورت میں ان کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمان اپنے رب سے رجوع کریں، اسی کے سامنے گڑ گڑائیں، تمام گناہوں اور ہلاک کرنے والے اعمال سے سچی اور پکی توبہ مانگیں، ہر قسم کے گناہوں اور برائیوں سے پہلو تہی کا اللہ تعالی سے معاہدہ کر کے اسی کی جانب متوجہ ہوں، انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے بدی اور مہلک گناہوں کے راستے چھوڑ دیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

آپ سے پہلے ہم بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیج چکے ہیں۔ پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ عاجزی سے دعا کریں ۔[الانعام: 42]
اسلامی بھائیو!ان مصیبتوں کو اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کر سکتا، اللہ کی طرف ہی دوڑو، اےامت مسلمہ! گناہوں کی وجہ سے جو خرابیاںپیدا ہوئیں ہیں انہیں نیکی سے درست کرو، تمہاری زندگی میں معصیت اور مہلک گناہوں کا اندھیراہے اسے تقوی کے نور اور آسمان و زمین کے پروردگار کی بندگی سے بدل دو اور افضل المخلوقات ﷺ کی سنت پر کار بند ہو جاؤ، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [النور: 31]

اور سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرو اے مومنو، تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ

اگر وہ توبہ کریں تو ان کیلئے بہتر ہو گا۔[التوبة: 74]
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ

کیا یونس کی قوم کے سوا کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر) ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے فائدہ دے ؟ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے رسوائی کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک انہیں سامان زیست سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ [يونس: 98]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:جس وقت یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کے اسباب دیکھے جن سے یونس علیہ السلام ڈراتے تھے تو سب کے سب اللہ تعالی سے پناہ اور مدد مانگنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے، وہ سب کے سب اپنے بال بچوں، ڈھور ڈنگروں کے ساتھ باہر نکل آئے اور اللہ تعالی سے عذاب ٹالنے کی التجا کرنے لگے تو اللہ تعالی نے ان پر رحم فرمایا اور ان سے عذاب ٹال دیا انہوں نے اپنی زبان سے مانگا اور زبانِ حال سے اپنی بات کی تصدیق بھی پیش کی۔
اور اے امتِ سید الانبیاء و افضل المرسلین! تم سب سے بہترین امت ہو، اللہ تعالی نے تم سے یقینی وعدے فرمائے ہیں، اللہ تعالی کا فضل کبھی مؤخر نہیں ہو گا بشرطیکہ تم مصیبت کے وقت اپنے رب کی جانب رجوع کرو، مشکل کے وقت تم اسی سے تعلق بناؤ، تم پر آنے والی مصیبت باقی نہیں رہے گی، اور آئندہ تم پر عذاب نازل نہیں ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

اور اللہ تعالی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں عذاب دینے والا نہیں ۔[الأنفال: 33]
نبوی درسگاہ کے تربیت یافتہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:تم اپنی کثرتِ تعداد کی وجہ سے غالب نہیں آتے، بلکہ تمہاری فتح آسمان سے آتی ہے۔
حدودِ الہی کی پاسداری کرو، تمہیں اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ملے گی جس سے تمہاری زندگی سنور جائے گی، بد حالی ختم ہو جائے گی اور تمہارا دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

تم اللہ تعالی سے استغفار کیوں نہیں کرتے تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔[النمل: 46]
مسلم حکمرانو!امت مسلمہ کے علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے کسی سے مخفی نہیں ہے، پوری امت کو خطرات اور خوف و ہراس نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے یہ اللہ کی رحمت کے بغیر ختم ہونے والے نہیں ہیں، یہ حالات تمہیں اللہ تعالی کے سامنے ایک فریضہ اور واجب ادا کرنے کیلئے کھڑا کرتے ہیں کہ تم اپنا محاسبہ کرو، تم امت کے حالات کو شریعت کے ترازو میں تولو، تم سنجیدگی ، اخلاص اور سچے دل کے ساتھ بہتری کیلئے کوششیں کرو اور صرف وہی اقدامات کرو جن سے اللہ تعالی راضی ہو، یہ امت امانت ہے ، یہ امت تمہاری گردنوں پر امانت ہے اللہ تعالی کے سامنے اس دن تم سے پوچھا جائے گا جب مال اور اولاد کچھ بھی فائدہ نہیں دیں گے، جب الجبار عزوجل فرمائے گا: آج بادشاہی کس کیلئے ہے ؟ اور پھر خود ہی فرمائے گا: صرف زبردست اور تنہا اللہ کیلئے !
سیاست صرف شریعت الہی کے مطابق کرو، ان کی رہنمائی رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق کرو، اپنے معاشروں میں شریعتِ الہی کا نفاذ کرو، شریعت کا نفاذ ساری مخلوق پر واجب ہے، تمہارے معاشروں میں جو کچھ بھی رضائے الہی کے منافی امور ہیں ان کا مقابلہ کرو اور ایسے بن جاؤ جیسے کہ اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے:

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ [الحج: 41]

اگر ہم انہیں زمین کا اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
خلیفہ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “بیشک اللہ تعالی حکمران کے ذریعے ان چیزوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں ہوتا۔
تمہارے ذریعے ہی اللہ تعالی امت کے حالات درست فرمائے گا بشرطیکہ تم امت کو مرادِ الہی کے مطابق ڈھال دو، لہذا اپنے اپنے ممالک کے امور اسلام کے مطابق سدھارو، اس طرح امت شر سے محفوظ ہو جائے گی اور تمام خدشات اور خطرات سے نجات پا جائے گی، امت کو حقارت، رسوائی اور عار سے خلاصی ملے گی، ساری امت کے دستور کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا اصول ہو: تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا اور تم اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے۔
اس لیے مسلم حکمرانو! مسلم معاشروں کے متعلق اللہ تعالی سے ڈرو ، دین اسلام کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور یہ جان لو کہ تم پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کی دینی اور دنیاوی ضرورتوں کو تحفظ دو، نیکی کا حکم دو برائی سے روکو، کھلے عام گناہ کرنے والوں اور ہلڑ بازی کرنے والوں کو پکڑو، تمام مسلم معاشروں میں ہر صاحب منصب کی یہ ذمہ داری ہے، اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہونے سے پہلے ذرا رسول اللہ ﷺ کا فرمان کان کھول کر سنو:کسی بھی بندے کو اللہ تعالی رعایا پر حکمران بنائے اور اسے جب موت آئے تو وہ اپنی رعایا کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔( متفق علیہ)
سب سے بڑا ظلم لوگوں کو ان کے دین سے پھیرنا اور پھر اس کے بعد ان کے ذریعہ معاش کو تباہ کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔اسلام کو تحفظ دو، مسلم حکمرانو! تمام دشمنوں کے سامنے ایک صف میں کھڑے ہو جاؤ، دشمن تمہارے بارے میں کسی قرابت اور معاہدے کا پاس نہیں رکھتے، خطرات موڑنے کیلئے سب متحد ہو جاؤ، شریر لوگوں کے شر کی روک تھام کیلئے اٹھ کھڑے ہوں، کینہ رکھنے والے دشمنوں کی چالوں اور لالچی حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاری کرو،اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ

 اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کے مقابلے کیلئے قوت تیار رکھو۔[الأنفال: 60]
اور قوت میں توبہ اور شریعتِ الہی کے مطابق اپنے امور سنوارنا بھی شامل ہے۔میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اپنے اور تمام سامعین کے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے بخشش طلب کریں، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں صرف ایک اللہ کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کےعلاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

لوگو!تقوی الہی اپناؤ، اللہ تعالی تمہارے لیے ہر قسم کی تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور ہر پریشانی سے تمہیں نکال دے گا اور تمہیں وہاں سے روزی عطا فرمائے گا جہاں سے تمہیں وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔
امت اسلامیہ!تمام مسلمانوں کو حلب اور موصل میں رونما ہونے والے سفاکانہ قتل عام نے انتہائی رنجیدہ کر دیا ہے، اس ستم گری اور خون ریزی میں سفاکیت کی انتہا کر دی گئی ہے، لیکن اگر مصیبتیں بڑھتی جائیں تو ہمیں چاہیے کہ غالب اور عطا کرنے والے سے گڑگڑا کر مانگیں، امید اور خوف دونوں کے ساتھ اسی کو پکاریں، اسی کی بندگی اخلاص کے ساتھ کریں۔سلف صالحین میں سے کسی نے کہا ہے: ” مجھے چار لوگوں کے بارے میں تعجب ہے کہ وہ چار آیتوں سے کیسے غافل ہو جاتے ہیں: جسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اس آیت سے کس طرح غافل ہو جاتا ہے:

وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ [الأنبياء: 83، 84]

 اور ہم نے ایوب کو بھی نوازا جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا: ” مجھے بیماری لگ گئی  ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہےچنانچہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور جو بیماری انہیں لگی تھی اسے دور کر دیا۔اور جس شخص کو دکھ اور غم ہو تو وہ کس طرح اللہ تعالی کے یونس علیہ السلام کے بارے میں فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ [الأنبياء: 87، 88]

تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا تو ہم نے ان کی دعا کو قبول کیا اور انہیں اس غم سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان رکھنے والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔
جس شخص کے بارے میں لوگ مکاریاں کر رہے ہوں تو وہ کیسے  اللہ تعالی کے اس فرمان سے غافل ہو جاتا ہے:

وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللهِ إِنَّ اللهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ فَوَقَاهُ اللهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا [غافر: 44، 45]

 اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ تو ان لوگوں نے جو چالیں اس کے خلاف چلی تھیں اللہ نے ان سے اسے بچا لیا ۔

دین خیر خواہی کا نام ہے!

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری۔ قسط 9
بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ

9-58- حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِاللہِ يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللہِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الْآنَ ثُمَّ قَالَ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ .

ابوالنعمان، ابوعوانہ، زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ جس دن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا، اس دن میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا (پہلے) وہ کھڑے ہو گئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی، پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) کہا، کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے خوف اور وقار اور آہستگی کو اپنے اوپر لازم رکھو، یہاں تک کہ امیر تمہاے پاس آجائے اس لئے کہ امیر تمہارے پاس ابھی آتا ہے، پھر کہا کہ تم لوگ اپنے امیر (متوفی) کے لئے (خدا سے) معافی مانگو، کیونکہ وہ (خود بھی اپنے مجرموں کے قصور) معاف کر دینے کو پسند کرتے تھے، پھر کہا کہ اما بعد! میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں، تو آپ نے مجھ سے مسلمان رہنے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے کی شرط لگائی، پس میں نے اسی پر آپ ﷺسے بیعت کی، قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی، بے شک میں تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں اس کے بعد انہوں نے استغفار کیا اور (منبر سے) اتر آئے۔
Narrated Ziyad bin’Ilaqa: I heard Jarir bin ‘Abdullah (Praising Allah). On the day when Al-Mughira bin Shu’ba died, he (Jarir) got up (on the pulpit) and thanked and praised Allah and said, “Be afraid of Allah Alone Who has none along with Him to be worshipped.(You should) be calm and quiet till the (new) chief comes to you and he will come to you soon. Ask Allah’s forgiveness for your (late) chief because he himself loved to forgive others.” Jarir added, “Amma badu (now then), I went to the Prophet and said, ‘I give my pledge of allegiance to you for Islam.” The Prophet conditioned (my pledge) for me to be sincere and true to every Muslim so I gave my pledge to him for this. By the Lord of this mosque! I am sincere and true to you (Muslims). Then Jarir asked for Allah’s forgiveness and came down (from the pulpit).
معانی الکلمات :
الْوَقَارِ: سنجیدگی اور بردباری
السَّكِينَةِ: اطمینان
اسْتَعْفُوا من الاستعفاء ۔ اللہ تعالیٰ سے عفو ودرگزر طلب کرنا
أُبَايِعُكَ: میں بیعت کرتا ہوں
النُّصْحِ: نصیحت یعنی خیرخواہی
تراجم الرواۃ :
1۔ نام ونسب : محمد بن الفضل السدوسی البصری
کنیت : ابو النعمان
ولادت ووفات: ابو النعمان رحمہ اللہ کی ولادت 140 ہجری اور وفات ماہ صفر 224 ہجری میں ہوئی۔
محدثین کے ہاں رتبہ: امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ہاں ثقہ ثبت تھے مگر آخری عمر میں حافظہ کمزور ہوگیا تھا۔
اورامام الذہبی رحمہ اللہ کے ہاں الحافظ
امام بخاری رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے تھے۔
2۔ نام ونسب : الوضاح بن عبد اللہ الیشکری الواسطی البزار محدث البصرہ
کنیت : ابو عوانۃ
وفات : ابو عوانہ رحمہ اللہ کی وفات 175 ہجری میں ہوئی۔
محدثین کے ہاں رتبہ: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابوعوانہ کے بارے فرماتے ہیں کہ ’ـھو صحیح الکتاب إذا حدث من حفظہ‘امام دارقطنی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے ۔
3۔ نام ونسب : زیاد بن علاقہ بن مالك الثعلبی الکوفی
کنیت : ابو مالک
محدثین کے ہاں رتبہ: امام نسائی رحمہ اللہ کے ہاں ’’ثقہ‘‘ تھے۔ اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے ہاں صدوق تھے ۔
وفات : ابو مالک رحمہ اللہ نے 225 ہجری میں وفات پائی۔
4۔ نام ونسب : جریر بن عبد اللہ بن جابر بن مالک البجلی القسری صحابی جلیل
کنیت : ابو عمرو
فضائل : سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی بہت خوبصورت اور حسین وجمیل شخصیت کے مالک تھے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جریر اس امت کے یوسف ہیں۔
سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

مَا رَآنِي رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إِلاَّ تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي، وَقَالَ: يَطْلُعُ عَلَيْكُمْ مِنْ هَذَا البَابِ رَجُلٌ مِنْ خَيْرِ ذِي يَمَنٍ، عَلَى وَجْهِهِ مِسْحَةُ مَلَكٍ

’’ جب بھی رسول اللہ ﷺ مجھے دیکھتے تو میرے چہرے کی (خوبصورتی )سے مسکراتے مزید ایک دن فرمایا کہ ابھی اس دروازہ سے ایک شخصجویمن کا خوبصورت آدمی ہےداخل ہوگا اور اس کے چہرے پر فرشتے جیسا جمال نمودار ہوگا۔
مرویات : سیدناجریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے 101 احادیث مروی ہیں۔
وفات : سیدنا جریر بن عبد اللہ کی وفات 54 ہجری میں ہوئی۔
تشریح :
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر مقرر تھے۔ انھوں نے انتقال کے وقت سیدناجریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے سیدنا جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اورلوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک بردباری اور اطمینان سے کام لیںکوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شروفساد ،لڑائی جھگڑا کوفہ والوں کی فطرت میں شامل تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ نے سیدنامغیرہ کے بعد زیادکوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کاگورنر تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ سیدناجریر کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھاہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اوربھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور بغضنہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اورآج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیاہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ غفراللہ لہ آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر اعتراضات کیےہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اورنہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔‘‘  (ایضاح البخاری، ص:۴۲۸)
امام قسطلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’إرشاد الساری شرح صحیح البخاری‘‘ میں فرماتے ہیں:
والنصیحۃ من نصحۃ العسل اذا صفیتہ او من النصح وھو الخیاطۃ بالنصیحۃ
یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کرلیاگیا ہو یانصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑجوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔
خیر خواہی کا فریضہ ہر مسلمان کو حسب استطاعت ادا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ اور رسول مکرم ﷺ کی خیر خواہی بھی یہ ہے کہ زندگی بھر اُ ن کی تعظیم کی جائے ان کے احکامات پر عمل پیر ہوا جائے اور انہیں کی اطاعت اور فرمانبرداری بجا لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر خواہی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اک او رسقوط ! حلب

سنو ذرا اک چھوٹی سی بات تو سنو! کسی وقت کی کہانی تھی کہ دینی غیرت و حمیت ہوا کرتی تھی
اک یہودی نے ایک مسلمان عورت کا حجاب کھینچا تھا تو اس یہودی کو نشان عبرت بنا دیا گیا تھا
پھر کسی غیرت مند کی سماعت سے اک صوت دل خراش ٹکرائی تھی تو وقت کے غیرت مند حاکم نے اپنے بھتیجے کو بھیجا اور اس دیوث ہندو حاکم کو نشان عبرت بنا دیا گیا، پھر وقت کے اک حاکم تک وامعتصماہ کی پکار پہنچی تو پھر ایسا ہی ہوا کہ عیسائیوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا، لیکن یہ سب پرانی باتیں ہیں اور ماضی پرست لوگوں کے لیے یہی پرانا وقت سب کچھ ہوتا ہے، ہمارا شاندار ماضی جس پر ہمارا فخر ہی ختم نہیں ہو رہا ، ’’پدرم بود‘‘ کے دل فریب و خوش کن شعارات سے جانے کب جان چھوٹے گی۔
رسالت، راشدون، بنو امیہ، بنو عباس، عثمانی اور پھر ردایے خلافت چاک چاک، کنتم خیر أمۃ  کو بانٹ دیا گیا اور تقسیم در تقسیم در تقسیم کا عمل ایسا شروع ہوا کہ دن بدن عدد بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ہر عدد اپنی ذات کے تحفظ میں ایسا مگن کہ نگاہ اٹھانےکی فرصت نہیں ،کان سننے کے متحمل نہیں اور دل بے حسی کی تمام حدیں تجاوز کر چکے ہیں اور صم ، بکم ، عمی کی مکمل تصویر شاید ہی چشم فلک نے دیکھی ہو اور وہ بھی ان کی جو دعویدار تھے اور ہیں اور جو محض گفتار کے غازی۔
الکفر ملۃ واحدۃکے مصداق یہود، مجوس، نصاری ، ہنود، الحاد، تجددیت اور ان کے مظاہر حیوانیت، وحشیت ، درندگی، سفاکیت۔سنا ہے تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے قبلہ اول کی خوبصورت گلیوں میں مسلمانوں کا لہو بہا تھا، منگول یلغار نے مسلمانوں کو وسطی ایشیا میں عبرت کا نشان بنا دیا جی ہاں عبرت کا نشانہ جب دنیا کے اک حصے میں کلمہ گو مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں، عزتیں لوٹیں جا رہی ہوں معصوم بچوں کو دہشت گرد سمجھ کر مارا جا رہا ہوں اور عالم اسلام کے ایک اور حصے میں میلاد النبی کے رد اور جواز پر لفظی اور اجتماعی جنگ جاری و ساری ہو تو پھر ایسا ہی ہوا کرتا ہےاور ایک دوسرے کو سال نو کی مبارکباد وں سے ہی فرصت نہیں اور غیر اسلامی تہواروں میں پر جوش شرکت اور اہتمام۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
بارکنا حولہکی سرزمین ایک مرتبہ پھر کلمہ اخلاص کے ساتھ وابستگی کا خراج ادا کر رہی ہےاور اگر وہ مبارک اور نبوی بشارتوں کی سرزمین اگر خراج ادا نہ کرتی تو یقین کر لو قیامت ہی آ جاتی ہاں قیامت ہی آ جاتی۔گزرے سالوں میں اسی سرزمین سے اک فتوی طلب کیا گیا تھا کہ مفتی صاحب سحری اور افطاری کی بہت برکات اور فضائل ہیں لیکن اگر کھانے اور پینے کے لیے ہی کچھ نہ ہو تو کیا ہم ان برکات سے محروم رہیں گے ؟
تو گزرے ہوئے کل میں یہ فتوی طلب کیا گیا کہ مفتی صاحب ہمیں اجازت دیں کہ ہم اپنی عزتوں کو اپنے ہاتھوں قتل کر دیں تاکہ وحشی یہودی ، مجوسی درندے ہماری عزتوں کے ساتھ نہ کھیلیں؟مفتی صاحب کل بھی چپ تھے اور آج تو زبان پر قفل ہی لگ چکا ہے۔
اور آؤ !اب میں بتاتا ہوں کہ کیا ہوا یہی سرزمین جو نبوی بشارتوں کی مصداق ہے، آسمانی برکات کی حامل ہے، انبیا کے مقدس و معظم وجودوں کی شاہد ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین جیسے خوبصورت انفاس کی امین ہے، جس کا کونا کونا عظمتوں اور رفعتوں کی علامت ہے۔
سنو اسے پامال کر دیا گیا ہے 57بھاری بھرکم ممالک کے باوجود اسے روندا گیا اس کی عزت لوٹی گئی، عصمت دری کی گئی، ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی جا رہی ہیں کہ الفاظ نہیں ہیں اسے بیان کرنے کے لیے ۔
اور عالم اسلام گنگ ہے تجارتی معاہدات کی پاسداری ہے یا اغیار سے کاسہ گدائی  رسم سی بن گئی ہے اسی لیے ابھی بھی تجاہل عارفانہ کا یہ عالم ہے یا حماقتوں کی انتہا کہ  درندگی و سفاکیت کی اس داستاں کو رکوانے کے لیے بھی انہی کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھا جا رہا ہے کہ جو اس قتل عام میں ملوث ہیں کل تک ہم برما کے’’ پرامن ‘‘ بھکشوؤں کی دہشت گردی کے مظاہر دیکھ دیکھ کر لیکن آج تو زبانیں گنگ ہیں اپنے آپ پر ہی شرم آ رہی ہے اور شرم بھی سوچتی ہو گی کہ اس جگہ نہیں جہاں اس کی قدر نہیں۔
اور ایک طرف سے بیانات آ رہے ہیں کہ شام میں جنگ جہاد نہیں بلکہ مقامی جماعتوں کے مفادات کا باہمی ٹکراؤ ہے ،جہاد تو صرف کشمیر میں ہی ہے کیونکہ اسے غزوہ ہند کی سند دی گئی ہے باقی سب تو۔۔۔۔
اسرائیل ، فلسطین، عراق، مصر، یمن ، شام چاروں طرف سے گھیرا شایدالملحمۃ العظمی  کے مقدمات ہیں کہ حتمی معرکہ کی سرزمین یہی عظمتوں کی سرزمین ہی ہو گی ۔
بشار الاسد جیسا شیطان جو اپنے ہی تین لاکھ سے زائد شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہے اپنے ہی ملک کے علاقے اس طرح فتح کر رہا ہے اور اس کے دست و بازو یہود و مجوس ۔ سرزمین شام کے خوبصورت علاقے حلب اور اس کے گردو نواح کے مکینوں  کے پیغامات پڑھیں اور تباہی و بربادی کے مناظر دیکھیں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیر ، ایک ایک قبر میں کئی کئی معصوم وجود ، وہ وجود جنہیں کبھی چشم فلک نے ننگے سر نہ دیکھا ہو ان کی عصمت دری ، ہسپتال مٹی کے ڈھیر ، معالج ندارد، کھانے پینے کی اشیا ختم ، لیکن پھر بھی ۔۔۔۔۔
اور یہ سلسلہ 2011 سے شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔ پانچ سالوں میں تین لاکھ لوگ قتل ۔ ہزاروں کی تعداد میں شہری مصر،لبنان، عراق،اردن ،ترکی اور سعودی عرب میں پناہ گزین ہیں۔درعا، رستن،جسرالثغور،ادلب اورحمص وغیرہ میں توپوں،بموں ،ٹینکوں اور میزائلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی گئی۔ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور اس وقت شام کا شہر حلب مسلمانوں کے خون سے بالکل شرابور ہے ۔ بچہ بچہ بلک رہاہے ، عورتیں چیخ رہی ہیں، مردوجوان آہ وبکا لگارہے ہیں۔ حلب ہی نہیں پورے شام میں ہرجانب سے یامسلمون المدد ،یا عرب المدد کی لرزتی ،کپکپاتی صدائیں بلند ہورہی  ہیں۔ بشار الاسدنصیری ظالم حاکم اور اس کی ظالم فوج نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑاہے ۔عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی،جلتے سگریٹ سے داغنا،آگ سے جلانا،جسم میں سوراخ کرنا، ہاتھ اور پیر کاٹنا،زندہ انسان کے جسم سے چمڑی چھیلنا،کھولتا پانی جسم پر اور حلق میں ڈالنا،جسم میں کیل وکانٹے ٹھوکنا، ستانے کے لئے جسم کے مختلف حصوں پر گولی داغنا ،جسم کی ہڈیا ں توڑنا، عضو تناسل کاٹنا،گدی سے زبان کھیچناوغیرہ وغیرہ حیوانیت سوز سزائیں دی جارہی ہیں ۔ اس طرح سے ایک جانور کے ساتھ بھی کرنا درندگی شمار ہوگا۔ الحفیظ والامان
اور اس پر عالمی سیاسی جتھے بندیاں جو اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے درمیان طے پا رہی ہیں سابقہ مخالف اتحادی بن کر آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں اور ایک طرف عظیم ترین اسرائیل کاہدف ہے تو دوسری طرف عظیم ترین فارس کی حدود کا حصول اور ان دونوں مقاصد کا خراج ایک طرف شام کے سنی مسلمان ادا کر رہے ہیں تو دوسری طرف میانمار برما کے سنی مسلمان تو تیسری طرف ارض مقدسہ فلسطین کے مسلمان ،چوتھی طرف ارض فتن کے سنی باسی ، پانچویں طرف وسطی افریقہ کے سنی مسلمان ، سوڈان اور لیبیا و الجزائر کے مسلمان اور ہماری شہ رگ کشمیر لہو لہان ہے عالم کفر اس وقت ’’جارحیت بہترین دفاع ہے ‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر عالم اسلام پر چہار اطراف سے یلغار کیے ہوئے ہے ۔ خارج سے اور داخل سے ویسے بھی غداروں سے ہماری تاریخ مالامال ہے ہماری سابقہ بربادیوں میں ہمارے اپنے ہی تو تھے جو ’’بروٹس تم بھی ‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ۔
اہل حلب ! تمہاری عظمتوں اور حوصلوں کو سلام ، وقت کے درندہ صفت حکمران اور اس کے اتحادیوں کی سفاکیت کا سامنا صرف اس لیے کہ یہ کہنا کہ میرا رب اللہ ہے۔بازار , عمارتیں , فلیٹ , مساجد سب تہہ تیغ ہو گئے , سڑکیں خون سے بھر گئیں۔
ارے ہاں میں بھی خامخواہ لفظوں کی جنگ لڑ رہا ہوں ویسے بھی ہم تو سقوط کی ایک طویل داستاں کے حامل ہیں کبھی اپنوں کے ہاتھوں تو کبھی اغیار کے ہاتھوںسقوط دمشق، سقوط بغداد، سقوط غرناطہ، سقوط وسط ایشائی ریاستیں، سقوط  ڈھاکہ، سقوط کابل، سقوط عراق، سقوط سقوط  تو ایک اور حلب بھی اس صف میں آ گیا تو کیا ہوا ۔
آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ شام کیا ہے، حالیہ سیریا، فلسطین، لبنان اور اردن پر مشتمل خطۂ شام صرف قدیم نبوتوں اور صحیفوں کے حوالے سے نہیں، احادیث نبوی کے اندر بھی ایک قابل تعظیم خطہ کے طور پر مذکور ہوتا ہے اور محدثین نے رسول اللہ ﷺ سے ثبوت کے ساتھ ’شام‘ کے لاتعداد مناقب روایت کیے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی اہل علم نے آیات اور مستند احادیث پر مشتمل، سرزمین شام کی فضیلت پر باقاعدہ تصانیف چھوڑی ہیں۔
اے اللہ! ہمارے شام میں برکت فرما،شام کی جہت والے لوگ بالاتر رہیں گے، حق پر رہتے ہوئے، یہاں تک کہ قیامت آجائے، جب اہل شام فساد کا شکار ہوجائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار ومددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت

امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں ایک شبہ اور اس کی حقیقت

امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں ایک شبہ اور اس کی حقیقت

دوسروں کی گمراہی کا ہم پر کوئی گناہ نہ ہونا

بعض لوگوں کے نزدیک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہم پر اس لیے واجب نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نفس کی فکر کرنے کا حکم دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ دوسروں کی گمراہی ہمارے لیے نقصان دہ نہیں یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہیں ۔

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚلَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ  (المائدہ : 105)

’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ‘‘

شبہ کی حقیقت :

ہم بتوفیق الٰہی سے اس شبہ کی حقیقت سے نقاب کشائی درج ذیل دوجوانب سے کریں گے۔
1 پیش کردہ آیت کریمہ کی روشنی میں
2 دیگر نصوص کی روشنی میں
1 پیش کردہ آیت کریمہ کی روشنی میں :
اگر اس شبہ کو پیش کرنے والے اس آیت کریمہ پر غوروفکر وتدبر کرتے تو ہرگز ایسی بات نہ کرتے یا کہتے ۔ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کی گمراہی سے گناہ نہ پہنچنے کی شرط یہ رکھی ہے کہ انسان خود ہدایت یافتہ ہو ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ
’’جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔‘‘
اور جیسا کہ معلوم ہے کہ انسان اس وقت تک ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کئے گئےواجبات پوری طرح ادا نہ کرے اورانہی عائد کردہ واجبات میں یہ واجب بھی شامل ہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے لہٰذا جو اس واجب کو ادا نہیں کرتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا کیونکہ شرط کی عدم موجودگی مشروط کے وجود کو ختم کر دیتی ہے ۔ اسی بات کو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور بہت سے مفسرین رحمہم اللہ نے واضح کیا ہے ، مثال کے طور پر امام جریر الطبری رحمہ اللہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا

إِذَا أَمَرْتُمْ وَنَهَيْتُمْ (تفسير الطبري)

’’ تم ہدایت اسی وقت پاؤ گے جب (نیکی کا) حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔
اسی طرح امام الطبری رحمہ اللہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

إِذَا أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَرِ، لَا يَضُرُّكَ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتَ (تفسير الطبري)

’’جب تو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اس وقت تو ہدایت یافتہ ہو گا اور گمراہوں کی گمراہی تجھے نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔‘‘
امام ابو بکر الجصاص رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں یوں تحریر فرماتے ہیں :

وَمِنْ الِاهْتِدَاءِ اتِّبَاعُ أَمْرِ اللَّهِ فِي أَنْفُسِنَا وَفِي غَيْرِنَا فَلَا دَلَالَةَ فِيهَا إذًا عَلَى سُقُوطِ فَرْضِ الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ (احکام القرآن 2/486)

’’ہدایت یافتہ ہونے کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے نفس اور دوسروں کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام کی تابعداری کریں اسی لیے اس آیت میں نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے ساقط ہونے پر کوئی دلالت(کرنے والی بات) نہیں۔‘‘
اسی بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والاهتداء إنما يتم بأداء الواجب، فإذا قام المسلم بما يجب عليه من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر كما قام بغيره من الواجبات لم يضره ضلال الضلال (الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من الدين ص17)
’’ اور ہدایت تو واجب ادا کرنے سے ہی مکمل ہوتی ہے پس اگر مسلمان (امر بالمعروف ونہی عن المنکر) کے فریضہ کو اسی طرح ادا کرے جس طرح کہ وہ دیگر واجبات کو ادا کرتاہے تو (ایسی صورت میں) اسے گمراہ لوگوں کی گمراہی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔‘‘

2دیگر نصوص کی روشنی میں :

قرآن وسنت میں متعدد آیا ت اور احادیث اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ دیگر واجبات کے ساتھ صالحین پر دوسرے لوگوں کے سلسلے میں یہ فرض بھی عائد ہوتاہے کہ وہ انہیں اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو قریب ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہو پھر دعائیں مانگیں اور ان کی دعائیں قبول نہ کی جائیں گی ان ہی نصوص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖ وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ وَمَا عَلَي الَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّلٰكِنْ ذِكْرٰي لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ  (سورۃ الأنعام : 68۔69)

’’اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیںاور جو لوگ پرہیزگار ہیں ان پر ان کی باز پرس کا کوئی اثر نہ پہنچے گا اور لیکن ان کے ذمہ نصیحت کر دینا ہے شاید وہ بھی تقویٰ اختیار کریں ۔‘‘
مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے آیات میں میخ نکالنے والوں کے متعلق فرمایا کہ متقی لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انہیں اس کام کو ترک کرنے کی یقین دہانی کروائیں۔

قاضی بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’اور متقی لوگوں پر قبیح اقوال وافعال والے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنے پر کوئی محاسبہ نہیں مگر یہ کہ وہ انہیں یاد دہانی کروائیں اور انہیں آیات قرآنی میں میں میخ نکالنے اور دوسری قبیح باتوں سے منع کریں اور ( ان لوگوں کی باتوں سے ) اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کریں اور جب ان شریر لوگوں کو یاد دہائی کرانا متقی لوگوں پر واجب ہے تو اس واجب کے ترک کرنے والے کو ہدایت یافتہ کیسے تصور کیا جائے گا ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ہی فرمان سے ان لوگوں کی غلطی کو واضح کیا جنہوں نے اس آیت سے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے ساقط ہونے پر دلیل پکڑی۔
چنانچہ امام ابو داؤد سیدنا قیس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَئُونَ هَذِهِ الْآيَةَ وَتَضَعُونَهَا عَلَی غَيْرِ مَوَاضِعِهَا عَلَيْکُمْ أَنْفُسَکُمْ لَا يَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ قَالَ عَنْ خَالِدٍ وَإِنَّا سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَی يَدَيْهِ أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ (سنن ابی داؤدکتاب الملاحم باب الامر والنہی رقم الحدیث : 4338)

اے لوگو! تم قرآن کریم کی یہ آیت پڑھتے ہو (عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ )  اور اس کو بےمحل جگہ پر رکھتے ہو (اس کا غلط مطلب اخذ کرتے ہو اور جہاں اس کا استعمال نہیں ہے وہاں بھی چسپاں کرتے ہو) خالد کہتے ہیں کہ ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ بیشک جو لوگ ظالم کو (ظلم کرتا) دیکھیں اور اس کے ہاتھ کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلاکر ڈالے گا۔
لوگوں کو نیکی کا حکم نہ دینااور برائیوں سے منع نہ کرنانہ صرف عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے بلکہ اس عذاب کے ٹلنے کے لیے بھی جو دعائیں کی جائیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول بھی نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے اور ان کا حق کما حقہ ادا کرنے کی توفیق فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

عورتوں کی زیب وزینت

اسلام زیب وزینت اختیار کرنے کے قطعاً خلاف نہیں
ہے اسلام خوبصورتی، صفائی ستھرائی،پاکیزگی ، طہارت ونفاست کو ناصرف پسند کرتا ہے بلکہ ان کی طرف رغبت بھی دلاتا ہے البتہ زیب وزینت اختیار کرنے میں اسلام نے کچھ حدود متعین کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
1۔ زیب وزینت اختیار کرنے میں کوئی ایسی وضع قطع اختیار نہ کی جائے جو کسی غیر مسلم قوم کا شعار ہو جیسے ہندو عورتوں کی طرح ماتھے پر بندیا لگانا یا سوگ کے موقع پر سفید لباس زیب تن کرنا وغیرہ۔
2۔ زیب وزینت کے معاملے میں کسی غیر مسلم کو اپنا آئیڈیل نہ بنایا جائے کیونکہ رسول اکرمﷺ نے کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔
3۔ زیب وزینت اختیار کرنے میں جن اعمال سے منع کر دیا گیا ہے اسے بغیر کسی بحث ومباحثے کے چھوڑ دیا جائے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گودنے والی اور خوبصورتی کے لیے ابرؤوں کے بال اتارنے والی، دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو ایک عورت نے کہا کہ آپ ان عورتوں پر لعنت کیوں کرتے ہیں؟ تو آپ نےفرمایا کہ میں ان عورتوں پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ  اور اللہ کی کتاب نے لعنت کی ہو ۔ (بخاری)
4۔ زیب وزینت اختیار کرنے کے لیے جو سامان استعمال کیا جائے اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ ہو جو شرعاً حرام ہو۔
سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو حجاب وپردہ کا حکم دیا اور اسے مؤمنہ عورت کا شعار قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے چنانچہ جب کوئی عورت اپنے پردہ سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لیے موقع تلاش کرتاہے۔ (ترمذی)
عورت کا لفظی معنیٰ تو چھپی ہوئی چیز ہے اور پردے میں ہی عورت کی عزت،عظمت، زینت، وقار اور پہچان رکھی گئی ہے ہر زمانے میں شیطان اور اس کے آلۂ کاروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح باحیا وباپردہ مسلمان عورت کے جسم سے حیا وعصمت اور پردہ کی چادر کو اتار کھینچیں۔
اور آج وہ اپنی اس گھٹیا حرکت میں ایک حد تک کامیاب بھی ہوگئے ہیں آج ہمارے معاشرے میں حیا وعصمت کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ آزادیٔ نسواں کے نام پر حیا وعصمت سے آزاد،فحاشی وعریانیت پھیلانے کی تحریک کے اثرات کے زیر اثر ہماری مسلمان خواتین بھی شرم وحیا سے عاری، مغربی اور ہندوانہ تہذیب ورسومات کو اپنانے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ آج سے چند سال پہلے تک جو لباس وکردار بدچلن عورتوں کے سمجھے جاتے تھے وہ ہماری نوجوان نسل آزادی اور فیشن کے نام پر اپنانے لگی ہے۔ اور کسی حد تک اسے معاشرے نے قبولیت بھی دے دی ہے۔ ہم اسلامی اقدار کو کہیں بہت پیچھے دھکیل رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت بڑھتی جارہی ہے۔ آجکل کی مسلمان عورت کو اپنے آپ سے چند سوال کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
سوال 1 : کیا وہ مغرب کی اندھی تقلید کرنے کو تیار ہے لیکن قرآن وسنت کی تقلید کو دقیانوسی خیالات تصور کرتی ہے؟
سوال 2: اگر صرف دل کا پردہ قابل قبول ہے تو آپ ﷺ کی ازواج سے بڑھ کر پاکدامن، با حیا، روشن خیال اور اتباع کرنے والا کوئی نہیں جن کی نظروں میں بھی حیا تھی اور دل میں بھی لیکن ان کے سرہمیشہ اوڑھنیوں اور جسم ہمیشہ پردہ سے ڈھکے رہتے تھے۔ ان کو بھی اللہ نے قرآن میں پردہ کا حکم دیا اور ہمیں بھی ۔ کیا ہم ان سے زیادہ پاکباز خود کو تصور کرتے ہیں کہ ہمیں پردے کی ضرورت نہیں۔ ذرا سوچیے؟
سوال3 : ہمیں اللہ کا غلام بننا پسند ہے یا اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بننا؟
سوال 4: یہ جسم جسے ہم سنوارنے میں لگے رہتے ہیں آخر اس کا انجام کیا ہے ؟ کیا اس نے مٹی میں مل کر خاک نہیں ہو جانا یہ خوبصورتی خاک آلود نہیں ہوجائے گی؟
سوال 5: کیا ہماری خوبصورتی اتنی گئی گزری ہے کہ اس کا اظہار ہر (ایرے غیرے یا راہ چلتے) کے سامنے کیا جائے بجائے یہ کہ خوبصورتی اور زینت کا اظہار صرف اپنے شوہروں کے سامنے ہو؟
اصل خوبصورتی تو کردار کی خوبصورتی ہے۔ پردہ عورت کو قید نہیں کرتا بلکہ جس طرح ہمارے معاشرے میں بے راہ روی، عریانیت وفحاشی عام ہوگئی ہے ، نیتوں کے فطور کے ساتھ ساتھ نظروں میں بھی بے حیائی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں یہ پردہ ایک پاکدامن اور باپردہ عورت کو بُری نظروں اور بُرے ارادوں سے تحفظ فراہم کرتاہے۔ عورت کو اللہ نے قیمتی اور معزز ذات بنایا ہے اس کی خوبصورتی پر راہ چلتے انسان کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کی نظروں کو تسکین پہنچانے کا سامان بنائی گئی ہے۔ ہم اپنےقیمتی زیور اشیاء کو تو بہت احتیاط سے بند کرکے رکھتے ہیں تاکہ کوئی انہیں چُرا نہ لے جائے لیکن سب سے قیمتی چیز یعنی عورت کو بغیر کسی حفاظت کے گھر سے باہر نکالتے ہیں۔ آجکل کی عورت خود کو رسوا کرنے پر تُلی ہوئی ہے اور اپنی قدر ومنزلت کھو چکی ہے ۔ اس قدرومنزلت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے خود کو show piece بنانے کے بجائے اللہ کی دی گئی خوبصورتی کو حفاظت کے ساتھ پردے میں رکھا جائے۔ عورت ایک قیمتی متاع ہے اسے بھر پور حفاظت میں رکھنا ضروری ہے تاکہ کوئی چور اسے چُرا نہ لے جائے۔
معاشرے میں پھیلتی ہوئی اغوا کی وارداتوں کی روک تھام بھی پردہ سے ہوسکتی ہے کیونکہ پردہ نہ ہو تو انسان کے خدوخال نظر آتے ہیں جب چہرہ ہی نہ دکھے گا تو ہم ایسے گندے خیال رکھنے والے لوگوں کے آلۂ کار نہ بن سکیں گے۔ اسلام عورت کو تحفظ فراہم کرتاہے۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم اپنی بہتری کو جلد جان لیں ورنہ معاشرے کے بڑھتے بگاڑ اور خراب ماحول کے ہم خود بھی ذمہ دار ہوں گےاور آنے والے سالوں میں ہماری نسلوں کو ایک محفوظ اور پاک معاشرہ وماحول مہیا نہ کر سکیں گے۔

عورت کا لباس :

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لباس پہننے کا حکم دیا ہے :

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ

’’اے آدم کی اولا! بلاشبہ ہم نے اتارا تم پر لباس جو چھپاتا ہے تمہارے ستر کو اور زینت بنادیا اور تقوی کا لباس وہ سب سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف : 26)
رسول اللہ ﷺ نے بھی لباس پہننے کا حکم دیا ہے ارشاد نبوی ﷺ ہے :

كُلُوا، وَاشْرَبُوا، وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا، غَيْرَ مَخِيلَةٍ، وَلَا سَرَفٍ

’’کھاؤ، پیو، پہنو اور خیرات کرو لیکن اسراف اور بڑائی کے بغیر۔‘‘ ( مسند احمد )
مسلمان عورتوں پر لازم ہے کہ اتنا لمبا لباس استعمال کریں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور اوڑھنی ایسی ہو کہ سر،گردن اور سینہ کو چھپا دے۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: ” يَرْحَمُ اللَّهُ نِسَاءَ المُهَاجِرَاتِ الأُوَلَ، لَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ}[النور: 31] شَقَّقْنَ مُرُوطَهُنَّ فَاخْتَمَرْنَ بِهَا

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ  اللہ تعالیٰ انصار کی عورتوں پر حم فرمائے جب آیت وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ (النور:31) نازل ہوئی تو انہوں نے اپنی موٹی چادریں پھاڑ کران سے اپنے آپ کو ڈھانپ لیا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
مسلمان عورت کا پورابدن پردہ ہے ایک مسلمان عورت کا لباس کامل ہونا ضروری ہے جو نامحرم مردوں سے اس کے جسم کو مکمل پردے میں چھپا کر رکھے اور وہ محرم رشتوں کے سامنے بھی جسم کے ان حصوں کو ظاہر کر سکتی ہے جن کے ظاہر ہونےکا عمومی رواج پایا جاتاہے جیسے چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور پاؤں۔

خواتین کے لباس کے چند شرعی اصول :

1 عورت کا لباس جو وہ اپنی زیب وآرائش کے لیے استعمال کرے وہ پورے جسم کو ڈھاپنے والا ہو۔
2 لباس اس طرح ساتر ہو کہ جسم نظر نہ آئے اور نہ اتنا باریک کہ عورت کی جلد کا رنگ ظاہر ہو یعنی جسم چھلکے۔
3لباس اتنا چست اور تنگ نہ ہو کہ اس سے عورت کے اعضاء کی ساخت نمایاں ہو رہی ہو۔
4مردوں کی مشابہت لباس زیب تن نہ کیا جائے۔
5 ایسا لباس بھی زیب تن نہ کیا جائے جو مشرکوں سے مشابہ ہو۔
6نام ونمود اور شہرت کے لیے استعمال نہ کیا ہو۔
7لباس میں ایسی زیب وزینت نہ ہو کہ نامحرم اس کی طرف متوجہ ہوں ۔
8چادر یا برقعہ ایسا ہو جو سر سے پاؤں تک جسم کو ڈھانپ لے ، چہرہ بھی نظر نہ آئے۔
9 چادر یا برقعہ جاذب نظر نہ ہو جیسے کڑھائی یا رنگوں کا کام نہ کیا گیا ہو اتنا خوب صورت اور نفیس نہ ہو کہ مردوں کی توجہ حاصل کرے ورنہ پردے کی افادیت ختم ہوجاتی ہے ۔
0 حجاب ایسے باریک اور شفاف کپڑے کا نہ ہو جس سے جسم چھلکے گویا چادر یا برقعہ کا کپڑا سادہ اور موٹا ہو ۔
K حجاب ڈھیلا ڈھالا ہو ۔
تمام مذکورہ بالا باتوں کا خیال رکھ کر ہم مثالی مسلمان عورتیں بن سکتیںہیں۔ ان پر عمل کرکے ہم دین و دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی کامیابی وفلاح حاصل کرسکتے ہیں ۔

غیرت کے نام پر قتل

دین اسلام کے ضابطوں پر عمل کرنے کی وجہ سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جب ہم ان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تو معاشرہ اخلاقی لحاظ سے زوال پذیر ہوجاتاہے۔ معاشرہ میں شتر بے مہار آزادی کی وجہ سے اگر کوئی لڑکی آشنا سے ناجائز تعلقات قائم کر لیتی ہے یا گھر سے بھاگ کر اُس سے نکاح کر لیتی ہے تو بعض اوقات اس کے خاندان کا کوئی فرد غیرت کے جذبہ سے مشتعل ہوکر لڑکی کوقتل کر دیتاہے جب مقدمہ کی عدالتی کارروائی شروع ہوتی ہے تو مدعی عام طور پر قاتل کو معاف کر دیتاہے۔
کچھ عرصہ قبل اداکارہ قندیل بلوچ کو ایک واقعہ کی آڑ میں میڈیا میں پذیرائی دی گئی اتفاقاً اس کے بھائی نے غیرت کے نام پر اُسے قتل کر دیا ان ہی دنوں دو تین لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ عوام کے ایک حلقہ کی طرف سے سخت قانون کا مطالبہ کیا گیا چنانچہ پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے لیے ورثاء کو معافی دینے یا دیت وصول کرنے کے حق سے محروم کر دیا۔
معاشرہ میں حرص،عداوت یا اشتعال کی وجہ سے قتل وغارت کے واقعات رونما ہوتے ہیں اگر ہر شہری انتقام لیناخود شروع کر دے تو ریاستی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے دین اسلام غیرت کے نام پر خاندان کے کسی فرد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ عدالت کو اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ مجرم کو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شرعی سزا دے ۔ جناب! اسی طرح مسلم ریاست میں پارلیمنٹ کو اللہ کے قائم کر دہ حکم میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں کہ وہ ورثاء کو معافی دینے یا دیت کے حق سے محروم کر دے چنانچہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل وغارت کی روک تھام کے لیے اعتدال کی راہ اختیار کرے۔
مسلم ریاست کا کوئی فرد یا عورت مرجائے تو اُس کی وراثت کسی ایک وارث کے نام منتقل نہیں ہوتی بلکہ تمام شرعی وارثوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ اسی طرح قتل غیرت میں معافی دینے کا اختیار مقتولہ کے ایک مدعی کو نہ دیا جائے بلکہ جائیداد کی تقسیم کی طرح اس کے تمام شرعی ورثاء کو اختیار دیا جائے تاکہ اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
اختلاف فطر ی امر ہے چونکہ مقتولہ کے بھائی بہن ماں باپ سب کا معاف کر دینے پر اتفاق مشکل امر ہے اس بنا پر غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اگر ورثاء بھائی بہن والدین حالات وواقعات کی مناسبت سے اتفاق رائے سے قاتل کو معاف کر یں یا دیت وصول کر لیں تو حکومت کو اللہ کی طرف سے معافی کا اختیار سلب کرنے کا کوئی حق نہیں۔
غیرت کا قتل اخلاقی خیانت کے جرم کا رد عمل ہے اس کو فروغ دینے والے فحاشی،عریان وبے حیائی کے ذرائع کا سد باب بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
دیہاتی ماحول میں چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کی نگہداشت کرتاہے کہ کوئی بھیڑیا آکر اس کی بکریوں کو اٹھا نہ لے یا اُس کی بکری کسی کی فصل کو تباہ نہ کرے اسی طرح والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش کے دوران نگہداشت کرے کہ وہ غیر محرم رشتوں سے تنہائی میں ملنے سے اجتناب کرے اور وہ بیہودہ کلچر ماحول میں مبتلا نہ ہوں اولاد بالغ ہوجائے تو اُن کے نکاح میں تاخیر کرنا سماجی برائیوں کا سبب بنتا ہے چنانچہ اس فرض کی انجام دہی کا جلد اہتمام کرنا چاہیے۔
افزائش نسل کے لیے مرد عورت کا بندھن فطری امر ہے۔
ہندوثقافت میں ولی خود مختار ہے جس سے چاہے بیٹی کا عقد کرے بیٹی کی مرضی کو دخل نہیں۔
مغربی معاشرہ میں لڑکی کا والد یا سرپرست بے اختیار ہے لڑکی اپنی ازدواجی زندگی گزارنے میں آزاد ہے جس سے چاہے بندھن کا رشتہ قانونی طور پر پیوست کرے یا بغیر عقد کے کسی سے تعلقات قائم کرے اس پر قانونی طور پرکوئی گرفت نہیں۔
اسلام کے اصول وضوابط میانہ روی پر مبنی ہیں ولی کو لڑکی پر جبر کا اختیار نہیں نہ ہی کنواری لڑکی بغیر ولی کے نکاح کر سکتی ہے البتہ ولی نکاح کا معاملہ طے کرنے کے لیے لڑکی کی رضامندی حاصل کرنے کا پابند ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ولی کو نسبت طے کرنے سے قبل لڑکا کی سیرت صورت تعلیم رہائش اور روزگار کو مدنظر رکھ کر اہل خانہ سے مشورہ کرے اور لڑکی سے براہ راست یا بالواسطہ رضامندی حاصل کرے باہمی اتفاق رائے سے نکاح کا معاملہ طے کرنے میں کسی قسم کی ندامت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا البتہ زبردستی فیصلہ ٹھونسنے سے بعض اوقات لڑکی راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے پھر خاندانی غیرت جوش میں آجاتی ہے لڑکی قتل ہوکر قبر کے تاریک گڑھے میں پہنچ جاتی ہے جبکہ غیرت مند جیل کی کوٹھری میں معافی کا منتظر بن جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اسلامی اصول اپنانے کی توفیق دے تاکہ غیرت کا اظہار کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ آمین
۔۔۔

شراب تمام جرائم کی جڑ مگر ۔۔۔۔۔!!

سندھ ہائی کورٹ نے شراب پر پابندی لگائی اور اس کے مثبت اثرات نظر آنے لگے ، لیکن پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا تھا کہ شراب پر پابندی زیادہ دیر رہنے والی نہیں، ہم نے اس خدشے کا اظہار اپنے ایک کالم میں کیا، جو روزنامہ جسارت میں شائع ہوا،لیکن یہ تو قطعا ً توقع نہ تھی کہ اتنی جلدی سپریم کورٹ کی طرف سے اس پابندی کو ہٹا دیاجائے گا۔ ہائے اس ترقی یافتہ دور میں شراب !! جبکہ شراب نوشی تو اس دور کا حصہ تھی جسے دور جاہلیت کہا جاتا ہے،اس دور میں لوگ شراب کے عادی تھے، اسلام نے آکر اسے ختم کیا، اور ایسا ختم کیا کہ لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دئیے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کُنْتُ سَاقِيَ الْقَوْمِ فِي مَنْزِلِ أَبِي طَلْحَةَ وَکَانَ خَمْرُهُمْ يَوْمَئِذٍ الْفَضِيخَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي أَلَا إِنَّ الْخَمْرَ قَدْ حُرِّمَتْ قَالَ فَقَالَ لِي أَبُو طَلْحَةَ اخْرُجْ فَأَهْرِقْھَا فَخَرَجْتُ فَھَرَقْتُھَا فَجَرَتْ فِي سِکَکِ الْمَدِينَةِ (صحیح بخاری: 2464، صحیح مسلم: 1980)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ابوطلحہ کے مکان میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا، اس زمانہ میں لوگ فضیخ شراب استعمال کرتے تھے، رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اعلان کردے ،سن لو !شراب حرام کر دی گئی ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  مجھ سے ابوطلحہ نے کہا :باہر جا ؤاور اس شراب کو بہا دوچنانچہ میں باہر نکلا اور اس کو بہا دیا۔ اس دن مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی۔
اندازہ لگائیں کہ ادھر رسول اکرم ﷺ کا حکم ہے اور ادھر اس پر عمل ہے اور عمل کا منظر دیدنی ہے کہ شراب گلیوں میں بہہ رہی ہے۔بلکہ جو زندہ ہیں انہیں گزرے ہوئے لوگوں کی فکر لاحق ہوگئی کہ وہ جو شراب نوش تھے ان کا کیا بنے گا؟؟ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 93 کے ذریعے ان کی برأت کا حکم نازل ہوا۔
یقیناً شراب کئی ایک مفاسد والی چیز تھی (جیسا کہ آگے آرہا ہے )اسی لئے اسلام میں حرام ٹھہری اور اور صحابہ نے حکم نبوی ﷺ سنتے ہی شراب کو گلیوں میں بہا دیا ۔
شراب جرائم کی جڑ:
شراب دراصل جرائم کی جڑ ہے۔ اس کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:
۱۔احادیث میںحرمتِ شراب سے قبل شراب نوشی کے مفاسد کا تذکرہ ملتا ہے، مثلاً : ایک صحابی نے شراب پی کر اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے اور مزید ان کو زخمی کیا اور نبی اکرم ﷺ جب اس ماجرے کے مطلع ہونے پر وہاں دیکھنے گئے تو وہ صحابی ہوش میں نہ تھے ، ان کی آنکھیں سرخ تھیں ، بلکہ زبان سے بھی کچھ کلمات کہہ دئیے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ابھی یہ ہوش میں نہیں ہے۔ اور واپس چلے گئے۔ (صحیح بخاری: 4003)
اس صحابی نے شراب نوشی کی وجہ سے نہ کہ صرف دو اونٹنیوں کو زخمی بلکہ ہلاک ہی کردیا۔معلوم ہواکہ شراب نوشی کی وجہ سے انسان اس حد تک مخمور ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کی جان لے سکتا ہے۔
۲۔ شبِ معراج کے موقع پر نبی اکرم ﷺ کو دو پیالے دئیے گئے، ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی، جبرائیل علیہ السلام نے کہا، دونوں میں سے جو چاہیں پی لیجئے، نبی اکرمﷺ نے دودھ لے کر پی لیا، تو نبی اکرمﷺ سے کہا گیا، کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، اگر آپ ﷺ شراب پی لیتے، تو آپﷺ کی امت گمراہ ہو جاتی۔(صحیح بخاری: 3394، صحیح مسلم:168)
اس حدیث میں شراب کو گمراہی کے طور پر تعبیر کیا گیا۔
۳۔ نبی اکرمﷺ نے قربِ قیامت ہونے والے امور کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی اور شراب کو پیا جائےگا اور زنا کی کثرت ہوگی ۔ (صحیح بخاری: 80)
اس حدیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ
قربِ قیامت ظاہر ہونے والے فتن اور برائیوں کے اسباب میں سے کچھ یہاں بیان ہوئے مثال کے طور پر جہالت۔  ظاہر سی بات ہے کہ جس کے پاس علم نہ ہو اور جاہل ہو ، وہ شعور کے کس درجے پر کھڑا ہوگا اور ایسے احمق قسم کے لوگوں کی حماقتیں ان کو فتنوں اور برائیوں میں مبتلا کردیں گی کیونکہ ان کے پاس علم نہیں۔
اسی طرح شراب نوشی جو ان کے عقل پر پردے ڈال دے گی، جب عقل مخمور ہوجائے تو پھر انسان کوئی بھی جرم کرسکتا ہے۔ ایک گناہ کا تو ساتھ ہی ذکر ہے کہ زنا عام ہوجائے گا۔ مے نوشی اور حسن پرستی دونوں آج یکجا جمع نظر آتے ہیں ۔ اور باقی جرائم کی اپنی داستان۔
۴۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: شراب نہ پیو یہ ہرشر کی چابی ہے۔ (سلسلۃ الصحیحہ : 2798 )
۵۔ ایک حدیث میں اسے ام الخبائث قرار دیا گیا ۔ (سلسلہ الصحیحۃ: 1854)
۶۔ ایک حدیث میں راس کل فاحشۃ قرار دیا گیا۔ (ارواء الغلیل: 2026)
۷۔ بنی اسرائیل کے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑ کرچار میں سے ایک برائی کے کرنے کا حکم دیا، نہ کرنے پر قتل کی دھمکی دی۔ کہ وہ شراب پئیے یا کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرے، یا کسی کو قتل کرےیا خنزیر کا گوشت کھالے ۔ اس نے شراب کو سب سے ہلکا جانتے ہوئے اس کے پینے کو اختیار کرلیا۔ جب اس نے شراب پی لی تو بد مست ہو کر اس نے بدکاری بھی کی، قتل بھی کیا، اور خنزیر کا گوشت بھی کھایا۔ (سلسلۃ الصحیحۃ : 2695)
اسی مفہوم کا ایک واقعہ ایک نیک شخص اور عورت کے بارے میں بھی ہے کہ ایک عورت ایک شخص پر فریفتہ ہوگئی اور بہانے سے گھر بلوالیا، اور اسے بدکاری، بچے کے قتل، اور شراب میں سے ایک کام کو اختیار کرنے کا کہا اور نہ کرنے پر دھمکی دی کہ وہ وایلا کرکے اس پر الزام لگائےگی ۔ اس شخص نے عزت بچانے کے لیے سب سے ہلکا جانتے ہوئے شراب کو اختیار کیا، اور شراب پی لی۔نتیجتاً وہ بد مست ہوکر بقیہ گناہوں کا بھی مرتکب ہوگیا۔ (سنن النسائی : 5666)
مشت از خروارے کے طور پر پیش کردہ ان ادلہ کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ شراب کئی ایک جرائم کا بڑا سبب ہے۔
اب حالتِ واقعی بھی پیش کئے دیتے ہیں کہ شراب نوشی کی وجہ سے کس قسم کے جرائم رونما ہورہے ہیں۔
۱۔بیوی نے بچوں کے سامنے شراب پینے سے منع کیا تو شوہر نے گولی مار دی۔ (http://urdu.pradesh18
.com/news/north-india/wife-protested-against-drink-in-
front-of-the-children-husband-shot-him-145113.html
۲۔شراب پی کر لوگوں کو گالیاں دینے والا گرفتار۔
(http://www.nawaiwaqt.com.pk/crime-court/10
-Feb-2015)
۳۔ شراب انسان تو انسان جانور پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور جانور بھی اسے پی کر وہی کرتا ہے جو انسان کرتا ہے۔ (http://www.express.pk/story/376450)
۴۔ شراب پی کر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اورقتل ۔
(http://m.dw.com/ur/a-18596441)
۵۔ نشہ کے عادی باپ نے پیٹ پیٹ کر بیٹی کو قتل کردیا۔
(http://dailyaag.com/phase2/)
۶۔شراب نوشی کے دوران چچا نے بھتیجے کو قتل کر دیا۔
(http://dunyanews.tv/print_news_urdu.php?nid
=101998&catid=8&flag=d)
۷۔کم سن بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والا شخص اس طرح کے جرم سے قبل شراب ضرور پیتا تھا۔
(http://www.fikrokhabar.com/index.php/enlightenment
-news-article/item/10868-kya-is-jisni-darinde-ko-kabhi
-phansi-milegi)
یہ تو چند ایک نمونے ہیں جن سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اگر ہم جرائم کی روک تھام میں سنجیدہ ہیں تو ان اسباب کا بھی تعین کرنا ہوگا جو جرائم کی کثرت سبب بن رہے ہیں۔ ان میں سے ایک شراب نوشی ہے۔
شراب کی شناعت پر ایک طائرانہ نظر
رسول اللہ ﷺ گناہوں کی شناعت کو بیان کرتے تو اس میں شراب کا تذکرہ فرماتے مثال کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ زانی مومن ہونے کی حالت میں زنا نہیں کرتا ہے اور نہ مومن ہونے کی حالت میں شراب پیتا ہے اور شراب پینے والا مومن ہونے کی حالت میں شراب نہیں پیتا اور ڈاکو جب ڈاکہ زنی کرتا ہے اور لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں اس ڈاکہ زنی کے موقع پر بھی وہ مومن نہیں ہوتا‘‘۔ (صحیح بخاری: 2475)
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے ،اور جن گناہوں کا یہاں رسول اللہ ﷺ نے تذکرہ فرمایااس میں ایک شراب بھی ہے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی ایسا کیس آجاتا کہ کسی نے شراب پی ہے تو رسول اللہ ﷺ صحابہ کو حکم فرماتےکہ اس کو ماریں اور اسے جوتیوں چھڑیوں وغیرہ سے مارا جاتا۔ (صحیح بخاری: 2316)
بلکہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی کوڑوںسے سزا دی گئی۔ (صحیح بخاری: 6780) بلکہ اس کی حد بھی مقرر ہے جوکہ چالیس کوڑے ہے۔
شراب پینے والے،پلانے والے، بیچنے والے، خریدنے والے، نچوڑنے والے اسے تیار کروانے والے، منتقل کرنے والے اور جس کی طرف منتقل کی جارہی ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ملعون ہیں۔ (سنن ابی داؤد: 3674)
مسلمان کے لیے اس دسترخوان پر بیٹھنا بھی حرام ہے ، جس پر شراب پی جاتی ہو۔ (جامع ترمذی: 2801، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا۔ )
شراب پینے والے کی چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔(سنن ابی داؤد: 3680 )
قرآن مجید میں شراب کےلیے متعددالفاظ یکے بعد دیگرے استعمال ہوئے جو اس کی حرمت کو مؤکد در مؤکد بنادیتے ہیں۔

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ   ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ     (المائدہ: 90،91)

’’اے ایمان والو! یہ شراب اور یہ جوا یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاسکو ۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے تو کیا تم باز آتے ہو؟‘‘۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کے لیے جو الفاظ استعمال فرمائے ، ان میں سے ہر لفظ انفرادی طور پر اس کی حرمت کے بیان کے لیے کافی ہے ، لیکن ان تمام الفاظ کا اجتماع اس کی حرمت کی تاکید میں بہت اضافہ کردیتاہے۔
(1)’’ رِجْسٌ‘‘ یعنی گندے کام کا لفظ استعمال کیا۔ ہر ناپاک حرام ہوتا ہے۔
(2)’’مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ‘‘ یعنی شیطانی اعمال سے ہیں۔اور ہر شیطانی کام حرام ہے۔
(3)’’ فَاجْتَنِبُوْهُ ‘‘ یعنی ان سے بچو۔ شریعت جس کام سے روک دے ، بچنے کا حکم دے وہ حرام ہوتا ہے۔
(4) ’’  لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘ یعنی تا کہ تم فلاح پاؤ۔ شریعت نے جس کام کے ترک کے ساتھ فلاح کو معلق کیا اس کا کرنا حرام اور خسارہ والا عمل ہے۔
ّ(5)’’ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ ‘‘ یعنی  شیطان چاہتا ہےکہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ ہر مضر چیز شریعت نے حرام قرار دی ہے اور مضر بھی ایسی کہ جو باہمی دشمنی کا سبب بن رہی ہو جوکہ اسلام کو کسی طور گوارا نہیں ۔
(6)’’وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ   ِۚ‘‘ یعنی اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ جو کام دین سے دور ی کا سبب بنے وہ حرام ہوتا ہے۔
(7)’’فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ‘‘ یعنی : پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟۔ اتنے نقصانات بتلا کر استفہامیہ انداز جوکہ استفہام تقریر کے لئے ہے کہ تمہیں باز رہنا ہے۔
بیک وقت ان متعدد الفاظ کے ذریعے سے شراب کی حرمت کو بیان کیا۔ اس کے بعد بھی اس کی حرمت کو اور اس کی شرعی سزا کو محل خلاف سمجھنا عجب تر ہے۔
شراب کے طبی نقصانات:
شراب اس قدر بری چیز ہے کہ جب ایک شخص شراب پیتا ہے تو اسے برائی سے روکنے والا نظام خود ہی رک جاتا ہے۔ پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے جسے ہوش و حواس میں کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔یہی وجہ ہےکہ 1996 ء میں ایک سروے کے مطابق امریکہ میں روزانہ زنا بالجبر کے ہونے والے واقعات کی تعداد 2713 تھی۔ جن میں سے اکثر نشے میں مدہوش ہوتے تھے۔ بلکہ اعداد و شمار کے مطابق 8 فیصد امریکی محرمات سے مباشرت کرتے ہیں یقیناً ایسے واقعات کی وجہ شراب ہی ہے۔
شراب کی وجہ سے لاحق ہونے والی بیماریوں کی اگر فہرست بنائی جائے تو اس میں سرفہرست جگر کا سرطان، معدے کی نالی کا سرطان،بڑی آنت کا سرطان، معدے  کی نالی، معدے ، لبلبے، جگر کی سوزش، بلڈ پریشر، دل کے عضلات کا تباہ ہونا، دل کی شریان کے خراب ہونے سمیت دیگر دلی امراض،دماغی فالج اور دیگر نفسیاتی بیماریاں، بیری بیری ، ڈیلیریم ٹریمنس، اینڈو کرائن، خون سے متعلقہ بیماریاں، پھیپھڑوں کی بیماریاں، جلدی بیماریاں ہیں۔ الغرض جسم کاکون سا حصہ ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہا جاسکےکہ وہ شراب کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا۔
ایک جرمن طبیب کا کہنا ہے:
’’اقفلوا لی نصف الحانات اضمن لکم الاستغناء عن نصف المستشفیات والملاجی والسجون‘‘
تم شراب کی دوکانوں میں سے آدھی دوکانیں بند کردو میں تم کو آدھے شفاخانوں ، پنا گاہوں اور جیل خانوں سے مستغنی کرنے کی ضمانت لیتا ہوں۔ (شراب و نشہ آور اشیاء کی حرمت و مضرت: 92)
اسی کتاب سے ماخوذ و ملخص بعض مغربی اطباء کی شہادتیں پیشِ خدمت ہیں:
انگلینڈ کے طبی بورڈ کی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف ہےکہ شراب سے بدنی حرکات ، قوت عقلیہ کا نظام خراب ہوجاتاہے۔
سنوڈن جو کہتا ہے کہ میں جنگ عظیم میں اس بورڈ کا رکن تھا جو شراب کے حوالے سے ریسرچ کررہا تھا۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ شراب کی کوئی قسم نقصان سے خالی نہیںبلکہ ایک لکھنے والےنے تو یہاں تک لکھ دیا کہ وہ تیز ہتھیار جو اہل مشرق اور مسلمانوں کا صفایا کرسکتا ہے وہ شراب ہے۔
ایک امریکی ڈاکٹر نے تو شراب کو بطور علاج کے استعمال سے بھی روک دیا۔
کچھ انگریز ڈاکٹروں نے تو لکھ ڈالا کہ ’’دماغی امراض کے ہسپتالوں یعنی پاگل خانوں میں داخلے کی سب سے بڑی وجہ شراب نوشی ہے ۔ بہت سے حادثے اور خودکشی کی وارداتیں شراب نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ شراب نوشی مسلسل جسمانی اور دماغی تنزل کا باعث ہے۔ ‘‘
ذاتی طوپر تو یہ نقصانات ہیں ہی!! معاشرے پر بھی اس کے برے اثرات منتج ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک مصنفہ لکھتی ہیں:’’ڈیلی نیوز کراچی کی 19 جنوری 1970ء کی اشاعت میں اے پی پی خبر رساں کے حوالے سے ہےکہ نیشنل کونسل آف الکوہل ازم کی آخری رپورٹ کے مطابق انگلستان میں دو سو پچاس ملین پونڈ سالانہ کا نقصان شراب نوشی کی وجہ سے کام کرنے والوں کی غیر حاضریوں اور دوسرے مضر اثرات کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہر پیر کو اڑھائی لاکھ آدمی اتوار کی شراب خوری کی وجہ سے غیر حاضر رہتے ہیں ۔ شراب نوشی کےعادی مزدور سال میں چالیس سے ساٹھ دن تک کا کام ضائع کردیتے ہیں۔ ‘‘
اس قدر نقصانات اور مفاسد کی جڑ شراب پر اگر پابندی لگی بھی تو صرف چند دن کی ۔ اور پھر وہی سلسلہ شروع ہوجائے گا کہ ’’ کوئی پلا رہا ہے پیئے جا رہا ہوں میں‘‘۔

فرقہ آرائی اور گروہ بندی کے نقصانات

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول  ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو! کما حقہ اللہ سے ڈرو اور تقوی الہی راہِ ہدایت اور اس سے تصادم کا راستہ بدبختی ہے۔
مسلمانو!اللہ تعالی نے آدم کو پیدا کیا اور اپنی عبادت کیلئے زمین پر انہیں خلیفہ بنایا، تو اولاد آدم دس صدیوں تک اللہ تعالی کی وحدانیت اور محبت پر متحد رہی، پھر شیطان نے انہیں پھسلا کر دینِ الہی اور اللہ کی ا طاعت سے منحرف کر دیا، ایک امت رہنے کے بعد بکھرنے لگے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو پیدا کیا، لیکن شیاطین  نے ان کے پاس آ کر انہیں دین سے گمراہ کر دیا ۔ (مسلم)
تو اللہ تعالی نے ان کے بکھرنے پر مذمت فرمائی اور رسولوں کو مبعوث فرمایا تا کہ ان میں اتحاد اور حق بات پر ان کے دل متحد ہو جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ

لوگ ایک ہی امت تھے، تو اللہ تعالی نے نبیوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجا [البقرة: 213] یعنی: ان کے بکھرنے کے بعد۔
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو چنا اور ان میں انبیائے کرام اور رسولوں کو بھیجا؛ لیکن انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور کتابِ الہی کو پس پشت ڈال کر گروہوں اور فرقوں میں بٹ گئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے، عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے، اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی۔(ابن حبان)
اور آپ ﷺ نے اس امت میں تفرقہ بازی رونما ہونے کی خبر دی ، عہدِ نبوت سے جس قدر دور ہوتے جائیں گے گروہ بندیاں اور

اختلافات بڑھتے جائیں گے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

بیشک تم میں سے جو بھی میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا۔ (احمد)
نبی ﷺ نے فرقہ آرائی سے خبردار فرمایا تا کہ مشیئتِ الہی میں جس کیلئے سلامتی لکھی ہوئی ہے وہ فرقہ واریت سے بچ جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’اپنے آپ کو فرقوں میں بٹنے سے بچاؤ۔‘‘(ترمذی)
اللہ تعالی نے بھی اپنے بندوں کو گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]
نیز اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا دیا کہ اس کا راستہ ایک ہی ہے، لہذا جو بھی کتاب و سنت سے متصادم راستہ ہو گا وہ شیطان کا راستہ ہے، جو کہ مخلوق کو رحمن سے دور کرتا ہے، اللہ تعالی نے اقامت ِ دین اور گروہ بندی سے دوری کی تاکیدی نصیحت تمام اقوامِ عالم کو اسی طرح فرمائی جیسے انبیائے کرام کو فرمائی، فرمانِ باری تعالی ہے:

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي
أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جسے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیجا ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں گروہ بندیاں مت کرنا۔[الشورى: 13]
اللہ تعالی نے گروہ بندی اور تفرقہ پردازوں کی مذمت فرمائی :

وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

اور بیشک جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کی بد بختی میں پڑ گئے۔[البقرة: 176]
تفرقہ پردازوں کی کیفیت بیان کرنے کیلئے فرمایا:

 كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [المؤمنون: 53]

 جس گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی پر اترا رہا ہے ۔
گروہ بندی کیلئے تگ و دو منافقوں کی صفات میں سے ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ [التوبہ: 107]

اور کچھ لوگوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کیلئے ، کفر کیلئے اور مومنوں میں پھوٹ ڈالنے کیلئے۔
اور مزید یہ بھی فرمایا کہ منافقین اسی پر پروان چڑھتے ہیں:

تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى [الحشر: 14]

تم انہیں متحد سمجھتے ہو حالانکہ ان کے دل جدا جدا ہیں۔
فرقہ واریت جاہلوں کی خصوصی صفات میں سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جو شخص بھی اطاعت سے رو گردانی کرے اور اجتماعیت سے نکل جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسلم)
اللہ تعالی نے فرقہ آرائی میں ملوث لوگوں سے مشابہت اور ان کی ڈگر پر چلنے سے منع فرمایا اور کہا:

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ  [آل عمران: 105]

اور ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جنہوں نے نشانیاں آنے کے بعد بھی اختلاف کیا اور بٹ گئے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو گروہ بندیاں کرنے والوں سے لا تعلق قرار دیا اور فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ [الأنعام: 159]

بیشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ بندیوں میں بٹ گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فرقہ واریت میں ملوث لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخالف اور مومنوں کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

 جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ  کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ رہنے کے اعتباربہت ہی بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
سب سے بڑا اختلاف رب العالمین کی وحدانیت سے انحراف ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ

اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقیناً ظالموں سے ہو جائیں گے۔ [يونس: 106]
بالکل اسی طرح بدعات ایجاد کرنا خیر المرسلین ﷺ کی اتباع سے دوری ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے۔(متفق علیہ )
حکمرانوں اور حکومتی قائدین کے خلاف بغاوت، ملکی قیادت سے قیادت چھیننے کیلئے اختلاف بہت بڑی خرابی کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے اللہ تعالی کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا تو وہ قیامت کے دن آئے گا تو اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا، اور جو شخص اجتماعیت کو چھوڑنے کی حالت میں مرے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔(احمد)
تمام معاشروں میں اہل علم افراد ہی قابل اتباع ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں الفت ڈالنے اور ان میں باہمی اتحاد قائم کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں پر عائد ہوتی ہے، اگر وہی آپس میں چپقلش رکھیں تو یہ ان کی باتوں کو مسترد کرنے کا باعث بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ  نے سیدنا معاذ اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا تھا: آسانی کرنا تنگی میں مت ڈالنا، خوشخبریاں سنانا، متنفر مت کرنا، ایک دوسرے کی بات ماننا اختلاف مت کرنا۔ (متفق علیہ)
اسی طرح حق بات میں اختلاف سے منع کرتے ہوئے فرمایا:قرآن مجید کی اس وقت تک تلاوت کرو جب تک تمہارے دل مانوس رہیں اور جب [قراءت میں اختلاف کی وجہ سے ] اختلاف ہونے لگے تو اٹھ جاؤ۔ (متفق علیہ )
نماز کیلئے الگ الگ دھڑے بنانا اور اکٹھے با جماعت نماز ادا نہ کرنا  شیطان کے غلبہ پانے کی صورت ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
کسی بھی بستی یا بادیہ میں تین افراد نماز با جماعت کا اہتمام نہ کریں تو شیطان ان پر غالب ہے، اپنے آپ کو اجتماعیت سے جوڑے رکھو؛ کیونکہ بھیڑیا دور نکلنے والی بکری کو کھا جاتا ہے۔ (ابو داود)
بلکہ نبی اکرمﷺ نے بکھر کر نماز کے انتظار کو بھی اچھا نہیں سمجھا، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ [نماز پڑھانے کیلئے]داخل ہوئے تو ہمیں ٹولیوں کی شکل میں [نماز کا انتظار کرتے ہوئے]دیکھ کر فرمایا: کیا ہے کہ میں تمہیں ٹولیوں میں دیکھ رہا ہوں!؟۔‘‘ (مسلم)
نبی معظم ﷺ نے صف بندی کرتے ہوئے نمازیوں کو اختلاف سے روکا اور اختلاف کرنے والوں کو چہروں میں بگاڑ اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کی وعید سنائی؛ کیونکہ ظاہری طور پر بگاڑ کا پیدا ہونا اندرونی بگاڑ کا باعث ہے، نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
تم ضرور صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تعالی تمہارے چہروں میں بگاڑ پیدا کر دے گا۔ (مسلم)
نماز میں امام کی مخالفت بھی اختلاف کے ان مظاہر سے  ہے جن سے اسلام نے منع فرمایا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک امام اقتدا کیلئے مقرر کیا گیا ہے؛ لہذا امام کی مخالفت مت کرو۔ (بخاری)
اسلام نے جس طرح دینی امور میں اختلاف سے روکا ہے اسی طرح دنیاوی امور میں بھی اختلافات سے روکا ہے؛ چنانچہ کھانے کیلئے اکٹھے ہونے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور الگ الگ کھانے سے برکت ختم ہو جاتی ہے، جیسے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ: ہم کھاتے تو ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: (لگتا ہے تم کھانا اکٹھے نہیں کھاتے) انہوں نے کہا: “بالکل ایسے ہی ہے” تو آپ ﷺ نے فرمایا: کھانے کیلئے اکٹھے بیٹھو اور اس پر بسم اللہ پڑھو، تمہارے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی۔ (ابو داود)
دورانِ سفر رفقائے سفر سے بکھر جانے کو شیطانی راستہ قرار دیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا:
ان گھاٹیوں اور وادیوں میں تمہارا بکھر جانا شیطان کی طرف سے ہے۔ (ابو داود)
معاشرے کے افراد کی باہمی قطع تعلقی اور بے رخی سے منع فرمایا اور بتلایا کہ:
جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کے دن کھولے جاتے ہیں، تو ہر اس شخص کو معاف کر دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا، سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی کے ساتھ چپقلش ہو، تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے: ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو، ان دونوں کو آپس میں صلح کرنے تک مہلت دو۔ (مسلم)
نبی کریمﷺ نے تعصب اور جاہلانہ نعروں سے بھی منع فرمایا: ایک انصاری شخص نے آواز لگائی: “اے انصاریو!” تو دوسرے نے صدا لگا دی: “اے مہاجرو!” تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: جاہلانہ نعرے کیوں لگا رہے ہو؛ انہیں ترک کر دو یہ بد بو دار ہیں۔(متفق علیہ )
اللہ تعالی کو اپنے بندوں کے درمیان اختلاف پسند نہیں ہے ، لہذا لوگوں میں اختلافات غیر اللہ کی جانب سے ہوتے ہیں، شرعی اصولوں نے یہ واضح طور پر کسی بھی ایسی چیز کو حرام قرار دے دیا ہے جو گروہ بندی اور اختلاف کا باعث بنے، بلکہ ادیانِ سماویہ میں ممنوعہ چیزوں کی ممانعت کا مقصد بھی یہی ہے، چنانچہ ہر اس چیز کو منع کر دیا گیا جو مسلمانوں میں اختلافات کا باعث بنے، مثلاً: بد ظنی، حسد، جاسوسی، چغلی، سود، کسی کی بیع پر بیع کرنا، کسی کی منگنی پر منگنی کا پیغام بھیجنا، عیب جوئی کرنا، ملاوٹ کرنا وغیرہ، نیز اللہ تعالی نے باہمی اتحاد قائم کرنے اور اختلافات سے بچانے کیلئے اچھی سے اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیا  اور بری گفتگو سے روکا، فرمان باری تعالی ہے:

وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ [الإسراء: 53]

اور میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہی بات کیا کریں جو بہترین ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈلواتا ہے۔
اختلاف کا سب سے بڑا موجب شرک ہے، شرک اختلاف پرور اور معبودانِ باطلہ  میں اضافے کا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا [الروم: 31، 32]

 اور مشرکوں کی طرح مت ہو جاناجنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور دھڑوں میں بٹ گئے۔
کتاب و سنت سے مکمل رو گردانی یا کچھ حصے کو مان لینا اور باقی مسترد کر دینا تنازعات اور تصادم کا راستہ ہے

وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ [المائدة: 14]

جو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں ہم نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا، انہوں نے بھی اس کا بڑا حصہ فراموش کر دیا جو انہیں نصیحت کی گئی تھی، تو ہم نے بھی ان کے آپس میں بغض اور عداوت ڈال دی جو تا قیامت رہے گی۔
متَشابہ نصوص کی ٹوہ لگانا گمراہی اور سب کیلئے آزمائش ہے:

فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ

جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متَشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے۔ [آل عمران: 7]
شبہات اور شہوات کے دروازے میں قدم رکھنے کی وجہ سے کئی اقوام تباہ ہو گئیں اور نسلوں میں اختلافات ڈال دئے۔
شیطانی راستوں پر چلنے کا نتیجہ اختلاف ہی ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ

اور مختلف راستوں پر مت چلو یہ تمہیں اللہ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔[الأنعام: 153]
کوئی بھی قوم سرکشی کرے تو وہ گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ [آل عمران: 19]

جن لوگوں کو کتاب دی گئی انہوں نے علم آ جانے کے بعد ہی اختلاف کیا صرف آپس میں سرکشی کی وجہ سے۔
جس اختلاف کی بنیاد بھی ہوس پرستی، تعصب، سرکشی اور تقلید، حمیت، گروہی تعصب ہو تو وہ فرقہ آرائی کا راستہ ہے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “فرقہ آرائی اور اختلاف عام طور پر بد ظنی اور ہوس پرستی سے جنم لیتے ہیں”
حصولِ دنیا کیلئے بڑھ چڑھ کر دوڑ دھوپ کرنا عداوت اور بغض کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا اندیشہ نہیں ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں دنیا ایسے ہی فراوانی کے ساتھ دے دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دی گئی، پھر تم بھی انہیں کی طرح بڑھ چڑھ کر دنیا کیلئے آگے بڑھو گے، اور یہی دنیا تمہیں بھی تباہ کر دے گی جیسے سابقہ اقوام کو دنیا نے تباہ کیا۔(متفق علیہ)
جب لوگ گروہوں میں بٹ جائیں تو شیطان ان پر غالب آ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
اپنے آپ کو ملت سے پیوستہ رکھو، اور الگ ہونے سے بچاؤ؛ کیونکہ شیطان  تنہا کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دو افراد سے دور رہتا ہے۔ ( ترمذی)
ابلیس کا چہیتا چیلا بھی وہی ہے جو امت میں سب سے زیادہ تفریق پیدا کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر لگا کر اور اپنے چیلوں کو بھیجتا ہے، ان میں سے شیطان کا قریبی وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ پرور ہو، ان چیلوں میں سے ایک آ کر کہتا ہے: “میں نے یہ کیا ، میں نے وہ کیا” تو ابلیس اسے کہتا ہے: توں نے کچھ نہیں کیا! پھر ایک اور آ کر کہتا ہے: “میں نے اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میاں بیوی میں تفریق نہیں ڈال دی” آپ نے فرمایا: ابلیس اس کے قریب ہو کر کہتا ہے: “توں سب سے اچھا ہے”۔(مسلم)
دینی امور میں اختلاف، ہوس پرستی اور گمراہ نظریات  اللہ کے راستے اور دینِ الہی سے روکتے ہیں، اسی کی وجہ سے انبیائے کرام کے راستے اور منہج سے انحراف پیدا ہوتا ہے؛ کیونکہ سب انبیائے کرام نے دینِ الہی کے قیام اور حق بات پر باہمی اتحاد کا حکم دیا نیز تفرقہ سے روکا، اور جب اختلاف پیدا ہو جائےتو متخاصم لوگوں کا دین خطرے میں پڑ جاتاہے، انہیں کتاب و سنت سے تعلیمات لینے کی برکت سے محروم کر دیا جاتا ہے، ان پر ہوس غالب آ جاتی ہے، علم و ہدایت کا تسلط ختم ہو جاتا ہے، گروہ بندی سے دلوں میں کدورت اور رابطہِ اخوت  منقطع ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: تم اختلاف میں مت پڑو وگرنہ تمہارے دل گدلے ہو جائیں گے۔ ( مسلم)
گروہ بندی دشمنی اور بغض کا باعث بنتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ [آل عمران: 103]

اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ۔
کوئی بھی قوم بٹ جائے تو کمزور اور ناتواں بن جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

تنازعات میں مت پڑو وگرنہ تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔[الأنفال: 46]
اور اگر کسی قوم میں گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ اللہ تعالی کے ان سے ناراض ہونے کی علامت ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ [الأنعام: 65]

آپ کہہ دیں کہ وہ قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے لئے بھیج دے یا تو تمہارے پاؤں تلے سے  یا کہ تم کو گروہ گروہ کر کے سب کو بھڑا دے اور تمہارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھا دے ۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “یعنی: تمہیں خواہشات اور اختلافات کا مزہ چکھا دے”
اختلافات کی فوری سزا دشمنوں کے مسلط ہونے کی صورت میں ملتی ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی کو وعدہ دیا ہوا ہے کہ ان کے اپنے نفسوں کے علاوہ بیرونی کوئی دشمن مسلط نہیں کیا جائے گا جو انہیں تہس نہس کر دے، چاہے ساری دھرتی کے دشمن ان کے خلاف متحد ہو جائیں، یہاں تک یہ خود ایک دوسرے کو ہلاک کرنے لگے گیں اور ایک دوسرے کو قیدی بنانے لگے گیں۔ (مسلم)
تنازعات، اختلافات اور تفرقہ بازی سے حق تباہ ہوتا ہے، دینی اقدار منہدم ہوتی ہیںاور یہ مشرکین کی مشابہت بھی ہے، یہ گمراہی پھیلنے اور جہالت پر مبنی باتیں پھیلنے کا ذریعہ ہیں، ان میں ملوث ہو کر دینی احکام پر عمل، دین کی تعلیم اور دعوت شدید متاثر ہوتی ہیں، بلکہ دینی شعائر معطل ہو جاتے ہیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور دیگر نیک سرگرمیاں معدوم ہو جاتی ہیں، اختلافات کے باعث نعمتیں زائل ہوتی ہیں، نبی کریمﷺ کو لیلۃ القدر دکھائی گئی تو آپ ﷺ نے لیلۃ القدر کے متعلق بتلانے کیلئے نکلے، [باہر] دو آدمی جھگڑ رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں لیلۃ القدر کے بارے میں بتلانے کیلئے نکلا تھا، لیکن فلاں اور فلاں جھگڑ رہے تھے تو اس کی تعیین اٹھا لی گئی۔ (بخاری)
اگر گروہ بندی پیدا ہو جائے تو یہ بڑے سنگین جرائم کا پیشہ خیمہ ہو سکتی ہے، جن کی وجہ سے قتل و غارت اور خون بہہ سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَكِنِ اخْتَلَفُوا

اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔
[البقرة: 253]
اختلافات کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:اختلافات مت کرو؛ کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلافات کئے تو تباہ ہو گئے۔ (بخاری)
آخرت میں اختلافات کرنے والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

اس دن جب کہ کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ سیاہ ہو رہے ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے (انہیں کہا جائے گا) کیا تم ہی وہ لوگ ہو جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کیا تھا ؟ سو جو تم کفر کرتے رہے اس کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو ۔[آل عمران: 106]
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: “اہل سنت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و فرقہ واریت والوں کے چہرے سیاہ ہوں گے” اللہ تعالی کا ہاتھ ملت اور اجتماعیت کے ساتھ  ہوتا ہے، اور جو کوئی ملت سے بیزار ہو کر تنہا ہو گا اسے جہنم میں بھی تنہا ہی ڈالا جائے گا۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!گروہ بندی  ذلت اورخفت ہے، تنازعات بدی اوربلاہیں، اختلافات کمزوری اور دیوانگی ہیں، انتشار دین و دنیا دونوں کیلئے تباہی ہے، اس کی وجہ سے دشمن خوش ہوتا ہے اور امت کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں، علم کی نشر و اشاعت  بند ہوتی ہے، سینے میں کینہ اور دلوں میں ظلمت چھا جاتی ہے، معیشت کمزور اور وقت رائیگاں ہو جاتا ہے، انسان کو نیک کاموں سے موڑ دیتی ہے ۔
عقلمند انسان اختلافات سے رو گردانی کر کے کتاب و سنت پر کار بند رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اپنی بھی اصلاح کرتا ہے، یہی نبی کریمﷺ کی امت کو انتشار اور اختلاف سے خلاصی کیلئے نصیحت  ہے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

 اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔ [النساء: 59]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!جو شخص بھی کتاب و سنت اور آثار صحابہ کا جس قدر تابعدار ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ کامل ہو گا، وہ شخص اتحاد، ہدایت، اللہ کی رسی کو تھامنے والا اور فرقہ واریت ، اختلافات سمیت فتنوں سے بھی اتنا ہی دور ہوگا۔
اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو یک زبان بنا دے، ان کے دلوں  میں الفت ڈال دے، ناراض لوگوں کی آپس میں صلح کروا دے، مخلوق کیلئے بہتری دین اور حق بات پر متحد ہونے کی صورت میں ہی حاصل ہو گی، اللہ تعالی نے تمام مومنوں کو بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ

 بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔[الحجرات: 10]
اور اسی طرح نبی آخر الزماںﷺ کے ہاں مومنوں کی (باہمی محبت، شفقت اور پیار ) مثال ایک جسم جیسی ہے، ایک عضو بھی تکلیف میں ہو تو اس کا سارا جسم بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں رہتا ہے۔ (مسلم)
ایک اور جگہ فرمایا: ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کیلئے دیوار کی طرح ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط بناتا ہے۔ (متفق علیہ )
باہمی اتحاد و اتفاق اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں ، جو کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خاص فضل و کرم کے ساتھ عنایت فرماتا ہے:

وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ [الأنفال: 63]

ان کے دلوں میں باہمی الفت بھی اسی نے ڈالی ہے، زمین میں جو کچھ ہے تو اگر سارا کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔
مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نعمت کی حفاظت کیلئے اپنا سینہ صاف رکھے، دوسروں سے محبت کرے اور ان کی خیر خواہی چاہے۔

رفعتِ آسمان’’ اللہ ‘‘کی عظمت کا نشان

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات، صفات ، اختیارات کے ثبوت اور اپنی عبادت کے استحقاق کیلئے درجنوں الہامی، عقلی اور مشاہداتی دلائل دیئے اور انسان کو اپنے انعامات یاد دلا کر بار بار متوجہ کیا ہے کہ ’’ اے انسان میری قدرت کے نشانات اور میرے احسانات پر غور کر‘‘ تاکہ تجھے علم سے بڑھ کر عین الیقین ہو جائے کہ ’’اللہ‘‘ ہی تجھے اور زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والا  ہے۔ اس نے انسان کی فہم اور صلاحیت کا خیا ل رکھتے ہوئے اپنی قدرت کی اُن نشانیوں اور مظاہرات کی طرف توجہ دلائی ہے جنہیں ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے اور ان سے اپنی استعداد اور قوّت کار کے مطابق استفادہ کرتا ہے ۔ قدرت کاملہ کی بڑی نشانیوں میں سات آسمانوں کا کسی ستون اور سہارے کے بغیر اوپر نیچے تنے رہنا، لاتعداد سال گزرنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہ ہلنا اور نہ جھکنا ہے۔
اَن گنت مدّت بیت جانے کے باوجود آسمان کی رنگت میں فرق واقع نہ ہونا ، دن کے وقت سورج کا چمکنا اور رات کے وقت چاند ستاروں کا جگمگانا، یہ خالق کائنات کی ایسی نشانیاں ہیں جن کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں لہٰذا ان کے خالق کا حکم مانا جائے اور صرف اسی کی بندگی کی جائے۔ ان حقائق کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ایسے دلائل دیئے کہ ایک ان پڑھ بھی بات کو پوری طرح سمجھتا ہے اور علم و آگہی رکھنے والا یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اور پیدا کیا ہے وہ اپنے جمال و کمال کی انتہاء تک پہنچا ہوا ہے۔ اس لیے ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے :’’ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ‘‘ اسی خالق نے ہی زمین و آسمانوں کو بغیر پہلے سے موجود نمونے کے پیدا کیا ہے۔

بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ(البقرۃ: ۱۱۷) (انعام:۱۰۱)

 ’’ اللہ ‘‘ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نمونے کے پید اکیا، جب وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے حکم دیتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ وہ کام  اس کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
’’بدیع ‘‘کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے، اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کیے ہیں ۔جبکہ اس سے پہلے زمین وآسمان آپس میں ملے ہوئے تھے۔

أَوَ لَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (الانبیاء:۳۰)

’’کیا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات صفات اور بات کا انکار کرتے ہیں انہوں نے غور نہیں کیاکہ آسمان اور زمین آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی سے پیدا کی۔ کیا پھربھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟‘‘
’’رَتْقًا‘‘کا معنی ہے آپس میں خلط ملط اور جڑے ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو حکم دیا کہ تم اوپر نیچے سات آسمان بن جائو اور زمین کو حکم ہوا کہ تو تہہ بہ تہہ سات زمینوں کی شکل اختیا رکر لے چنانچہ ایسا ہو گیا۔
قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بظاہر عمل بڑا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک اس کی جو جزئیات سامنے آئی ہیں اُن پر غور کیا جائے تو آدمی کی عقل نہ صرف دنگ رہ جاتی ہے بلکہ اس عمل کا احاطہ کرنے سے پہلے ہی سوچ کی حد ختم ہو جاتی ہے ۔

ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء ِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ (حم السجدہ:۱۱)

’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمانوں اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم تابع فرمان ہو کر
حاضر ہوگئے۔
آسمان بنانے کے بعد انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس میں مسلسل توسیع کی جارہی ہے ۔آسمانوں کو دو دن میں بنایا اور پھر ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کے بارے میں احکام صادر فرمائے پھر پہلے آسمان کو چاند ستاروں سے مزیّن کیا اور شیاطین سے اسکی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔

وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [سورۃ الذاریات:47]

’’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اس کو وسعت دیئے جا رہے ہیں ۔ ‘‘
’’اَیْدِیَ‘‘ ’’ید ‘‘کی جمع ہے جس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بارے میں ید کا لفظ بولتا ہے تو اس کا مطلب ا س کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں قیاس آرائی اورکوئی تاویل کرنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے لیے  ’’اَیْدِیْ ‘‘کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس کا معنٰی قوت اورطاقت ہوتاہے۔ یہاں ’’اَیْدِیْ‘‘ کا معنٰی یہ ہوگا کہ ہم نے آسمانوں کو بنایا اورہمیں اس پر پوری قوت اور اختیار حاصل تھا اور ہے اور ہم اسے وسعت دئیے جا رہے ہیں۔

اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ  (الرعد:2)

’’اللہ وہ ہے جس نے آسما نوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھتے ہو ،پھر وہ عرش پرجلوہ افروز ہوا۔‘‘

وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاء ِ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا(ھود:7)

’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاء ٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاء َ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ
(حم السجدہ:12)

’’ اُس نے دو دن میں سات آسمان بنا ئے اور ہر آسمان کے لیے اس سے متعلقہ قانون جاری کیا، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے خوبصورت بنایا اور اسے محفوظ کر دیا۔ یہ سب کچھ جاننے والی زبردست ہستی کا بنایا ہوا ہے۔‘‘

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ وَالْفُلْکَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَیُمْسِکُ السَّمَائَ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِہِ إِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُفٌ رَحِیمٌ} (الحج:65)

’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو پابند کیا ہے جو اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی ذات آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے اور مہربانی فرمانے والاہے۔ ‘‘
آسمان کی طرف دیکھیں نہ معلوم کتنی مدّت سے بغیر سہارے کے کھڑا ہے ۔ نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ وہ کسی طرف سے جھکا ہے ۔ یہ اللہ کے حکم کے مطابق تنا ہوا ہے اور نیچے گرنے کا نام نہیں لیتا ۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آسمان زمین پر دھڑان آگرے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہے کہ وہ لوگوں کے کفرو شرک اور ہر قسم کی نافرمانی دیکھ کر بھی آسمانوں کو تھامے ہوئے ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگائے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجودانسان اس کو معبودِ برحق ماننے کے لیے تیار نہیں،غور کریں کہ انسان کس قدر ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کس قدرمہربان ہے ۔

إِنَّ اللہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِہِ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا(فاطر:41)

’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ سوا کوئی اُنہیں تھامنے والا نہیں ہے، بے شک اللہ بڑے حوصلے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔‘‘
یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کوپیدا فرمایا اور وہی انہیںتھامے ہوئے ہے ۔تاکہ اپنے مقام سے ہلنے نہ پائیں اگر وہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو کون ہے جو اُسے اصل جگہ پر لے آئے؟ آسمان کو تھامنا تو درکنار ،پوری دنیا کے حکمران اورعوام مِل کرزمین کوہلنے یعنی زلزلہ سے نہیں بچا سکتے ۔زلزلہ سے بچانا تو دور کی بات، ارضیات کے سائنسدان اب تک یہ پتہ نہیں چلا سکے کہ زمین میں کہاں اورکب زلزلہ واقع ہوگا ۔تاریخِ انسانی میںکتنی بار زلزلہ آیا جس نے چند لمحوں کے اندر نہ صرف ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اس علاقے کا نقشہ بدل کررکھ دیا۔اب تک نہ ہوا ہے او ر نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی زلزلوں کوروک سکے اس کی قوت و قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے۔ جس وجہ سے انسان زمین و آسمانوں کے خالق اورمالک کو بھول کراس کی مخلوق میں دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتاہے ۔

أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ (الاحقاف:33)

’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور ان کو بنانے میں اسے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی، وہ پوری قدرت رکھتا ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے ،کیوں نہیں؟ یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ‘‘
جو لوگ ’’اللہ تعالیٰ ‘‘کی ذات پر اس کے حکم کے مطابق ایمان نہیں لاتے، کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ’’اللہ ‘‘وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اوران کے پیدا کرنے میں اسے کوئی تھکان محسوس نہ ہوئی ۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے ۔کیوں نہیں ! بلاشبہ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر اقتدار اور پورا اختیار رکھنے والا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود لوگ اللہ کی ذات ،صفات ،اس کے احکام اور اس کی بات پر یقین نہیں رکھتے ،وہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ’’اللہ‘‘ مردوں کو زندہ نہیں کرسکتا۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ

’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جوکچھ ان کے درمیان ہے اُسے چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔‘‘(ق:38)
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان پیدا کر نے کے بعد تھکان نہ ہونے کا مسئلہ ہے اس بارے میں یہودیوں اوران سے متاثرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانو ں اورہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد تھکان محسوس کی۔ اس لیے ہفتہ کے دن آرام فرمایا جس وجہ سے ہم بھی ہفتہ کے دن کام کاج سے چھٹی کرتے ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح نفی فرمائی ہے کہ زمین وآسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اسے کوئی تھکان نہیں ہوئی تھی۔ اس نے زمین وآسمانوں اور مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہر وقت پوری مخلوق کی نگرانی اور حفاظت بھی فرما رہا ہے اور اسے کوئی تھکان نہیں ہوتی۔

وَلَا یَؤُدُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ

’’وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتاہے وہ بہت ہی بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔‘‘(البقرہ:255)

الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَی فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَی مِنْ فُطُورٍ٭ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ

’’اُسی نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم الرّحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کرپلٹ آئے گی لیکن تم آسمان میں کوئی شگاف نہیں پاؤ گے۔‘‘ (الملك:3۔4)

أَفَلَمْ یَنْظُرُواإِلَی السَّمَائِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَاوَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (ق: 6)

’’کیا پھر انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھاکہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزیّن کیا اور اس میں کہیں شگاف نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر زمین و آسمان پر غور کرنے کی دعوت دی ہے ۔ہرمقام پر چند الفاظ کے تکرار کے سوا نئے الفاظ کے ساتھ نیا استدلال پیش کیا ہے اسی اصول کے تحت قیامت کے دن جی اٹھنے کاانکار کرنے والوں کو توجہ دلائی ہے کہ کیا وہ اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کی طرف غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح بنایا اور سجایا ہے اور اس میں کسی قسم کا شگاف نہیں پایا جاتا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: هَذَا العَنَانُ هَذِهِ رَوَايَا الأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَهُ وَلَا يَدْعُونَهُ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ، سَقْفٌ مَحْفُوظٌ، وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ. ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَيْنِ، مَا بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ(رواہ الترمذی:بَابٌ وَمِنْ سُورَۃِ الحَدِیدِ قال الترمذی ھذا حدیث غریب من ھذا الوجہ)

’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبیؐ اکرم اور آپ کے صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اچانک موسم ابرآلود ہوگیا۔آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ اوراس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہیں،اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو ان لوگوں سے دور لے جاتا ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے دعا کرتے ہیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا تمہارے اوپر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اوراس کا رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہے یہ محفوظ اورمضبوط چھت اور بند موج ہے۔ آپ نے پھر پوچھا: تمہارے اورآسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔صحابہ نے عرض کی: اللہ اوراس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارے اورآسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہوکہ اس کے اوپر کیاہے ؟ صحابہ نے پھر کہا اللہ اوراس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اورہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان بتلائے اورہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی ہی مسافت بیان فرمائی۔‘‘

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاء بُرُوجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ وَحَفِظْنَاہَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ (الحجر:16۔18)

’’او ریقینا ہم نے آسمان میں برج بنائے او راسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے اور اس کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کی ہے جو کوئی سُنی ہوئی بات چرا لے تو ایک بھٹکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔‘‘
خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے آسمان کو خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے اسے محفوظ کر دیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والوں نے آسمان ِدنیا کے بارہ برج متعین کیے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ بُرج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں۔ جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے ہیں اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بروج سے مرادوہ مقام ہوں جہاں  ملائکہ شیاطین پر شہابِ ثاقب پھینکتے ہیں۔اکثر اہلِ علم نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ کیا گیا ہے۔
’’شہاب مبین ‘‘ کے لغوی معنی ’’ روشن شعلہ‘‘ ہے ۔ دوسرے  مقام پر قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، یعنی ’’اندھیرے کو چیرنے والا شعلہ ۔ ‘‘ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ِثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوں ، یعنی کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو اب تک سائنس دانوں کے علم میں نہ آئی ہو۔ ممکن ہے کہ یہ شہاب ثاقب وہ ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ِثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب یومیہ ہے جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں بمشکل ایک آدھ زمین تک پہنچتا ہے ۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ کئی دفعہ ایساہواہے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ٹوٹنے والے ستاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ِثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ) ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف سے شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ – قَالَ عَلِيٌّ: وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ – فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ، قَالُوا لِلَّذِي قَالَ: الحَقَّ، وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ – وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ، وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ اليُمْنَى، نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ – فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ المُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ، إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ، حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الأَرْضِ – وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الأَرْضِ – فَتُلْقَى عَلَى فَمِ السَّاحِرِ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُصَدَّقُ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا؟ لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ  [رواہ البخاری باب قَوْلِہِ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ  ]

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں نبی ﷺکی یہ حدیث پہنچی کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح چٹان پر کوئی چیز گھسٹنے سے آواز نکلتی ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بارے میں یوں فرماتے ہیں ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب اُن کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ جو فرمایا حق فرمایا وہ سب سے بلند و بالا ہے۔ شیاطین اس سے چوری چھپے کچھ سُن لیتے ہیں۔ اُن کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بیان کرنے والے راوی سفیانؒ نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے یہ ذکر کیا۔ کئی مرتبہ سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب پڑتا ہے اس سے پہلے کہ وہ اُس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسااوقات شہاب ثاقب اُسے نہیں لگتا۔اس وقت تک وہ شیطان اُسے نیچے والوں تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تابعی حضرت ابو سفیانؒ کہتے ہیں اُسے شیاطین جادو گر کے دماغ میں القاء کرتے ہیں ۔ وہ اُس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے، اُس کی ایک سچی بات کی وجہ سے اُس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی؟ جو سچ ثابت ہوئی تھی اس لیے کہ وہ بات اسے شیاطین کے ذریعے آسمان سے پہنچی تھی ۔ ‘‘

 وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَائَ فَوَجَدْنَاہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیدًا وَشُہُبًا وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِہَابًا رَصَدًا

’’اور بے شک ہم نے آسمان کو ٹٹولا ، دیکھا کہ وہ پہرے داروں اور شہابوں سے بھرا پڑا ہے۔اس سے پہلے ہم کچھ سننے کے لیے آسمان کے قریب بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے مگر اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے شہابِ ثاقب پاتا ہے۔‘‘(الجن8۔9)
نبیؐ کی بعثت سے پہلے جِنّات آسمان کے دروازوں کے قریب جاکر کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے پھر وہ باتیں کسی کاہن کے دل میں ڈالتے تھے۔اس بنا پر کاہن غیب دانی کا دعویٰ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب نبی علیہ السلام کونبوت عطا فرمائی تو آسمان کی حفاظت کا خصوصی بندوبست فرمادیا تاکہ جِنّات کسی طرح بھی آسمان کی باتیں نہ سن سکیں۔ اس بنا پر مسلمان ہونے والے جِنّات نے اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اب آسمان کی حفاظت کے لیے پہرے دار بٹھادیئے گئے ہیں اورشہابِ ثاقب ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کوزمین میں حکمرانی عطا فرمائی اورزمین و آسمانوں کی ہر چیز کواس کی خدمت پر لگایا۔ (الجاثیۃ:۳۱)
اوراسے حکم دیا کہ میرے سوا تونے کسی کے سامنے نہ جھکنا ہے اورنہ ہی کسی کواپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا ۔مگر بے شمار لوگوں نے ’’ اللہ تعالیٰ‘‘پر ایمان لانے اورصرف اُس کی عبادت کرنے کی بجائے اس کے شریک بنائے اوراس کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے اپنی فریادیں، رکوع وسجود اورنذر ونیاز پیش کرتے ہیں۔

قُلْ أَرَأَیْتُمْ شُرَکَاء َکُمُ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَیْنَاہُمْ کِتَابًا فَہُمْ عَلَی بَیِّنَتٍ مِنْہُ بَلْ إِنْ یَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا (فاطر:40)

’’اے نبی ان سے فرمائیں کہ کبھی تم نے اپنے اُن شریکوں کے بارے میںغور کیا ہے جنہیں تم ’’ اللہ‘‘ کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے یا آسمانوں میں ان کی کیا شراکت ہے یاہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ دی ہے ؟جس بنا پر یہ واضح ثبوت رکھتے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ ظالم ایک دوسرے کو دھوکہ دیئے جا رہے ہیں۔‘‘
ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں مخاطب کیا گیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سواپکارتے ہو،دکھائو انہوںنے پور ی دھرتی میںکونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں کی بناوٹ اوران کے درمیان بسنے والی مخلوق میں سے کس کی تخلیق میں وہ شامل تھے اور ہیں ؟ یا ان کے پاس کوئی ایسی آسمانی کتاب ہے جس میں ان کے عقیدہ اور طریقہ کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ دلیل ہو ؟اگر کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کرو۔ ظاہرہے کہ ان کے شریکوں نے زمین وآسمانوں اور پوری مخلوق میں سے نہ کسی چیز کو پیدا کیا ہے اورنہ ہی یہ آسمانوں کی ساخت اور پرداخت میں شریک تھے اور نہ ہی ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کی کوئی دلیل ہے۔
ان کے شرکیہ عقائد اوراعمال کااس کے علاوہ کوئی وجودنہیں کہ یہ جھوٹی داستانوں ،من گھڑت کہانیوں اور بناوٹی کرامات کے ساتھ ایک دوسرے کودھوکادیتے ہیں۔ چنانچہ بتوں کے پجاری اپنے اپنے بتوں اور قبروں کے مجاور مزارات کے بارے میںجھوٹی کرامات اور مشکل کشائی کے من گھڑت واقعات بیان کرتے ہیں۔ تاکہ بتوں کے پوجنے والوں اور قبروں کے پرستاروں سےاپنے اپنے انداز میںنذر و نیاز وصول کرتے  رہیں۔یہاں تک کہ آخرت کے بارے میںبھی دھوکا دیتے ہیںکہ یہ بزرگ ’’ اللہ ‘‘ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ باربار یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک نہیں۔ چاہیے تو یہ کہ لوگ اپنے خالق اور مالک کی بندگی کریں اور اس کا حکم مانیں لیکن بے شمار لوگ ’’اللہ‘‘ کو خالق اور مالک ماننے کے با وجود دوسروں کی بندگی اورغلامی کرتے ہیں ۔ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے مزید فرمایا :

قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ ائْتُونِی بِکِتَابٍ مِنْ قَبْلِ ہَذَا أَوْ أَثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ (الاحقاف:4)

’’اے نبیﷺ! ان سے فرمائیںکبھی تم نے غور کیا ہے کہ جنہیں تم ’’اللہ‘‘کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے ؟اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا تمہارے پاس کوئی علمی دلیل ہے اگر تم سچے ہو تو اُسے پیش کرو ۔‘‘
ظاہر بات ہے کہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کا حوالہ اور کوئی عقلی اور علمی ثبوت نہیں۔ مگر پھر بھی ذاتِ کبریا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکتے اور انہیں پکارتے ہیں۔ان کے باطل عقیدہ کی کلی کھولتے ہوئے یہاں یہ بات سمجھائی ہے کہ دین اللہ کی کتاب ،نبی کی سنت اور ٹھوس علمی ثبوت پر مبنی ہے۔ اس کے سوا کسی کی رائے دین کی تشریح میں معاون تو ہوسکتی ہے مگر دین کہلوانے کی حقدار نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک کفّار سے اس سوال کا تعلق ہے کہ جن کی وہ عبادت اورغلامی کرتے ہیں انہوں نے زمین و آسمان میں کیا پیدا کیا ہے تو ہر مشرک اورکافر اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جسے دماغ کی حاضری اور دل کی حضوری کے ساتھ سنا جائے تو انسان کا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ” سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي المَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الخَالِقُونَ، أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لاَ يُوقِنُونَ، أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ المُسَيْطِرُونَ} ” قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ (رواہ البخاری:باب و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب)

’’ محمدرحمہ اللہ اپنے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے  مغرب کی نماز میں اللہ کے رسول ﷺ سے سورۃ طور سنی جب آپ اس آیت پر پہنچے۔ ’’کیا وہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوگئے ہیں؟ یا وہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے ۔کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا اُن پر ان کا کنٹرول ہے؟‘‘ یہ آیات سنتے ہوئے قریب تھا کہ میرا کلیجہ پھٹ جاتا۔‘‘

وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیزُ الْعَلِیمُ  (الزخرف:9)

’’اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ کہیں گے کہ انہیں زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔‘‘

قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ سَیَقُولُونَ لِلہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (المؤمنون:86۔87)

’’ان سے پوچھیں ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے وہ ضرور کہیں گے اللہ ہی مالک ہے فرمائیں پھر تم شرک کرتے ہوئے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟‘‘
اہلِ مکہ رسمی طور پر مانتے تھے کہ انہیں اورزمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے لیکن حقیقی طور پر ان کااللہ تعالیٰ کی ذات اور فرمان پر ایمان نہیں تھا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ُاسے بلا شرکتِ غیر مانا جائے اور خالص اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کے حضور ہاتھ پھیلائے جائیں اور اسے تمام اختیارات کا مالک سمجھتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کے اثبات اور وضاحت کے لیے شمس وقمر، لیل و نہار اور آفاق و افلاک کو ثبوت کے طور پر پیش فرما کر انسان کو سمجھایا اور مطالبہ کیا ہے کہ شمس وقمر اور کائنات کے خالق و مالک کی خالص عبادت کی جائے ۔کسی اور کی عبادت کرنا شرک اور جرم ہے اس سے ہر صورت بچنا ہو گا۔

فَادْعُوااللّٰہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ (المؤمن:14)

 اے لوگو! صرف ایک اللہ ہی کو پکارو اپنی اطاعت اس کے لیے خالص کر تے ہوئے ۔بے شک یہ کام کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘

إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِنْ شَفِیعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِہِ ذَلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (یونس:3)

’’یقینا تمھارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر بلند ہواوہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیرکوئی سفارش کرنے والا نہیں ، اللہ ہی تمھارا رب ہے ، بس اس کی عبادت کرو ، کیا تم نصیحت حاصل نہیںکرتے ؟‘‘

إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ اُدْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ (الاعراف:54۔55)

’’بے شک تمہارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیداکیا، پھرعرش پرجلوہ افروز ہوا ،وہ رات کو دن پراوڑھاتا ہے جو تیز چلتاہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے ۔سورج ، چاند اور ستارے پیداکیے ، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں۔ سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ،اللہ بہت برکت والا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ انداز میں پکارو ،بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

کامیاب ترین پیغمبر ﷺ

فرمان الٰہی ہے :

هُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ (الانفال:62)

’’ اللہ نے اپنی مدد سے تیری تائید کی۔‘‘
علامہ سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ وہی ہے جس نے آسمانی مدد کے ذریعے آپ کی اعانت فرمائی اور یہ اس کی طرف سے ایسی مدد ہے جس کا کوی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ ‘‘ ( تفسیر سعدی 1/1002)
دوسرا فرمان الٰہی :

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا(الاحزاب:45)

’’اے نبی! یقیناً ہم نے ہی آپ کو (رسول بنا کر ) گواہیاں دینے والا خوشخبری سنانے والا بھیجا ہے۔‘‘
وَدَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا
’’اور اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ ‘‘۔(الاحزاب:46)

وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا (الاحزاب:47)

’’آپ مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے۔‘‘
ان آیات مقدسہ میں آپ ﷺ کی پانچ اہم صفات کا ذکر فرمایا :
1 شاہد         2 مبشر       3 نذیر
4داعی الی اللہ     5 سراج منیر
شاہد :
اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو صفت شاہد سے مخاطب فرمایا ہے :
’’بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کی تحریفمعنوی ہے۔ نبی کریمﷺاپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ ﷺ قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ ﷺ دیگر انبیاء علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔‘‘(احسن البیان ص 118)
مبشر ونذیر :
مبشراً ونذیراً کے بارے میں علامہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’تمام قرآن پر نظر ڈال لیجیے کہ کسی نبی کی نسبت علیہم وعلی نبینا الصلوٰۃ والسلام بشیر ونذیر ، دونوں لفظ وارد نہیں ہوئے نبی اکرمﷺ کی شان میں مبشر ومنذر کے لفظ بھی ہیں اور بشیراً ونذیراً بھی اور چونکہ یہ فضیلت جامعیت نبی کریم ﷺ ہی کی ذات مبارک میں پائی گئی ہے اس لیے یہ اوصفات رسول اکرمﷺ کے علو مرتبت کا اظہار کرنے میں خاص ہیں۔(رحمۃ للعالمین 6/307)
داعی الی اللہ :
آپ ﷺ امت کو اللہ تعالیٰ کےوجود اور توحید واطاعت کی طرف دعوت دینے والے ہیں ۔ داعیاً الی اللہ کو بِاِذْنِهٖ کے ساتھ مشروط فرمایا کہ آپ ﷺ کو اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور بلانے والے اللہ ہی کے اذن واجازت سے ہیں۔
دعوت الی اللہ تو ہر مبلغ دیتاہے اور دے سکتاہے مگر وہ اللہ کی طرف سے اس کام پر مامور نہیں ہوتا اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن سے دعوت دینے کو اُٹھتا ہے اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے رب العالمین کی فرمانروائی کا رموز ہوتا ہے۔
علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ ’’دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ‘‘ کے تحت اپنی بے نظیر کتاب ’’رحمۃللعالمین‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’ نبی ﷺ نے دعوت الی اللہ کو جس سرگرمی سے شروع کیا اور جس کامیابی تک پہنچایا وہ آپ ﷺ کا حصہ ہے۔
1  اس پہاڑی کے وعظ کو دیکھو جس پر سے یا آل فہر ویا آل غالب کی آواز سے عرب کو رسول اللہﷺ نے بلایا تھا۔
2 اس خلوت کدہ کا خیال کرو، جہاں مکہ سے دور اور دامن کوہ کے سایہ میں ارقم بن ابو ارقم کے گھر کے اندر خفیہ خفیہ تعلیم دی جاتی تھی۔
3 کوہ طائف کے واقعہ کو یاد کرو جہاں رسول اکرم ﷺ کا خون جسم سے بہہ کر جوتے میں جم رہا تھا اور زبان پر دعوت الی اللہ کا وعظ جاری تھا۔
4عکاظ کے میلوں پر نظر ڈالو  جہاں نبی اکرم ﷺ  يَاأَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، تُفْلِحُواکا نعرہ لگارہے ہیں۔
5 کوہ تنعیم کے دامن تک نظر کو بڑھاؤ چالاک دشمن نے رسول معظمﷺ کو بے یارومددگار اور آرام میں دیکھ کر تلوار پر قبضہ کر لیا ۔رسول محترم ﷺ اس وقت بھی اللہ کے فرض کو فراموش نہیں کرتے۔
6 راہ ہجرت کی سیر کرو سینکڑوںمیل کا سفر درپیش ہے۔
7 آخری سانس ہے دیدہ حق بین کو آسمان کی جانب بلند کیا ہے اس پاک نام کا اعلان فرماتے ہوئے جس کی دعوت عمر بھر دیتے رہے ۔ ہم کو تاریخ بشر ایسا نمونہ دکھانے سے قاصر ہے جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دعوت الی اللہ ہی میں پورا ہوا ہو۔
اس لیے’’داعیاً الی اللہ باذنہ‘‘ کا خطاب نبی ﷺ ہی کی ذات مبارک سے خاص معلوم ہوتا ہے اور اسی لیے رب العالمین نے رسول اکرمﷺ کو اس صفت سے معرف فرمایا ہے ۔ ( رحمۃ للعالمین 2/308۔310)
سراج منیر :
یہ پانچویں صفت ہے یہ ایسے الفاظ ہیں جن کا استعمال ذات پاک نبوی ﷺ کے سوا اور کسی کے لیے نہیں فرمائے گئے فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں، اسی طرح آپ ﷺکے ذریعے سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہوجائیں ۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کر کے جو کمال و سعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے۔‘‘(احسن البیان  ص 1183)
علامہ قاضی محمد سلیمان صاحب سلمان منصورپوری رحمہ اللہ ’’سراجاً منیرا‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’ آفتاب ایک وقت میں کرہ ارض کے ایک ہی پہلو کو روشن کر سکتاہے لیکن اس سراج منیر نے وقت واحد میں جاہلیت کی ظلمت وجہالت کی تاریکی ، کفر وشرک کی سیاہی، رسوم کے اندھیرے، رواج کی گھٹا، تقلید کی تیرگی کو اپنی نورانی شعاہوں سے اُٹھا کر دلوں کو نورِ ایمان سے دماغوں کو عقائد صحیحہ کے لمحات سے آنکھوں کو کتاب مبین کے مطالعہ سے ، دھندلے تذبذب کو دلائل ساطعہ سے تاریک ظنون کو براہین مبینہ سے روشن فرمادیا۔ ( رحمۃ للعالمین 2/311)
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ آیت قرآنی (سورۃ احزاب آیات نمبر 45۔46) خطبات مدراس (خطبہ نمبر 2) میں فرماتے ہیں کہ
|’’آپ (ﷺ) عالم میں خدا کی تعلیم وہدایت کے شاہد ہیں نیکو کاروں کو فلاح وسعادت کی بشارت سنانے والے مبشر ہیں ، اُن کو جو ابھی تک بے خبر ہیں ہوشیار اور بیدار کرنے والے نذیر ہیں ۔ بھٹکنے والے مسافروں کو خدا کی طرف پکارنے والے داعی ہیں اور خود ہمہ تن نور اور چراغ ہیں یعنی آپ ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کی زندگی راستہ کی روشنی ہے جو راہ کی تاریکیوں کو کافور کر رہی ہے یوں تو ہر پیغمبر خدا کا شاہد، داعی ، مبشر اور نذیر  وغیرہ بن کر اس دنیا میں آیا ہے مگر یہ صفتیں سب کی زندگیوں میں عملاً یکساں نمایاں ہوکر ظاہر نہیں ہوئیں بہت سے انبیاء تھے جو خصوصیت سے شاہد ہوئے ، جیسے حضرت یعقوب،حضرت اسحاق،حضرت اسمعیل وغیرہ علیہم السلام بہت سے تھے جو نمایاں طور پر مبشر بنے جیسے حضرت ابراہیم، حضرت عیسیٰ علیہم السلام بہت سے تھے جن کا خاص وصفت نذیر تھا جیسے حضرت نوح، حضرت موسیٰ ، حضرت ہود، حضرت شعیب علیہم السلام بہت سے تھے جو امتیازی حیثیت سے داعی حق تھے جیسے حضرت یوسف حضرت یونس علیہم السلام لیکن وہ جو شاہد ، مبشر، نذیر، داعی، سراج منیر سب کچھ بیک وقت تھا اور جس کے مرقع حیات میں یہ ساز،نقش ونگار عملاً نمایاں تھے وہ صرف حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تھے اور یہ اس لیے ہوا کہ آپ ﷺ دنیا کے آخری پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے جس کے بعد کوئی دوسرا نہ تھا آپ ﷺ  ایسی شریعت دے کر بھیجے گئے جو کامل تھی جس کی تکمیل کے لیے پھر کسی دوسرے کو آنا نہ تھا۔ ( خطبات مدراس ص 21۔22 مطبوعہ اعظم گڑھ 1947ء/1366ھ)
اللہ تعالیٰ نے ان پانچ صفات جلیلہ سے رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے متصف فرمایا اور ان صفات حمیدہ کا عملی مظاہرہ ہمیں آپ ﷺ کے اسوئہ حسنہ میں قدم قدم پر دکھائی دیتاہے اور آپ ﷺ کے فیضان سے 23 سال کے مختصر عرصے میں ایک مؤثر اور تحیر انگیز اسلامی انقلاب برپا ہوا جس نے عرب وعجم کو اپنی آغوش میں سمیٹا۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔‘‘(الاحزاب:21)
کامیاب ترین پیغمبر :
حسنِ یوسف دم عیسیٰ ید بیضاداری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
انسائیکلوپیڈیا برٹنیکا’’باب(قرآن) میں ہے کہ
’’ پیغمبر اسلام (ﷺ) تمام پیغمبروں اور دینی رہنماؤں میں سب سے زیادہ کامیاب رہے۔‘‘ ( مقالات سیرت ص 200 مطبوعہ لکھنؤ 1960ء)
نبوت کا فریضہ دنیا کا سب سے مشکل فریضہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس مشکل کام میں سب سے زیادہ کامیابی اپنے اس بندے کو عطا کی جس کے بظاہر کامیابی کے وسائل سب سے کم تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام عیش وعشرت کے گہوارہ میں پلے تھے ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھی لیکن رسول اکرمﷺ کے حالات برعکس تھے آپ ﷺ نے جب اس دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت آپ ﷺ کے والد محترم اس دنیا سے رحلت فرما چکے تھے جب جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تو فکر معاش ایسی دامن گیر ہوئی کہ ایک دن بھی اطمینان سے بیٹھنے کو نہ ملا قوم ایسی ملی جو بہت کم لکھنا پڑھنا جانتی تھی، جاہل رسومات کی دلدادہ تھی اور سراسر گمراہی وجہالت میں مبتلا تھی مگر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں وہ شاندار کامیابی حاصل کی جو آج تک اپنی مثال آپ ہے۔
کوئی نبی بھی اپنی زندگی میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کرسکا ماسوائے محمدمصطفیٰ ﷺ کے کہ انہوں نے پوری طرح کامیابی وکامرانی حاصل کی اور یہ مژدہ جانفزا صرف رسول اکرم ﷺ کے مقدر میں تھا اور یہ چیز صرف رسول معظمﷺ کو حاصل ہوئی۔

اِذَا جَاۗءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا  فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ    اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا   (سورة النصر )

’’ جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے۔اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے ۔‘‘
ان آیا ت کی تفسیر میں محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’ اللہ کی مدد کا مطلب، اسلام اور مسلمانوں کا کفر اور کافروں پر غلبہ ہے، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے، جو نبی کریم ﷺ کا مولد و مسکن تھا، لیکن کافروں نے آپ ﷺکواور صحابہ کرام کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چنانچہ جب 8 ہجری میں یہ مکہ فتح ہوگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جب کہ اس سے قبل ایک ایک دو دو فرد مسلمان ہوتے تھے فتح مکہ سو لوگوں پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ آپ ﷺاللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور دین اسلام دین حق ہے، جس کے بغیر اب نجات اخروی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسا ہو تو ۔یعنی یہ سمجھ لے کہ تبلیغ رسالت اور احقاق حق کا فرض، جو تیرے ذمہ تھا، پورا ہوگیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا ہے، اس لئے حمد و تسبیح الٰہی اور استفغار کا خوب اہتمام کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہئے۔(احسن البیان ص 1751)
اسلامی سلطنت کا قیام :
1 ہجری میں مدینہ منورہ کے چند محلے اسلامی مملکت کہلانے لگے اور دس(10) تک مسلمانوں کی تعداد میں سرعت کے ساتھ اضافہ ہونے لگا اور جب 11ہجری میں رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا تو مسلمانوں کے قبضہ میں دس لاکھ مربع میل علاقہ آچکا تھا اور اس کے بعد ابھی رسول اکرمﷺ کی وفات کو 15 سال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ مسلمان ایشا،یورپ اور افریقہ کے تین براعظموں پر چھا گئے اور خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مسلمانوں نے اسپین میں قدم جمائے اور قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔

مسلمان ترقی کی منزل کی طرف :

عرب جیسی جاہل اور اجڈ قوم یکایک دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی عرب کے لوگ جو خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزارتےتھے بھیڑیں اور بکریاں اور اونٹ چراتے تھے گمنامی کی حالت میں ریگستانوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے ایسا عالی شان اور بے نظیر پیغمبر مبعوث فرمایا جس نے ان بدوؤں کی کایا پلٹ دی جن لوگوں کو حقیر سمجھا جاتا تھا وہ دنیا کی نظر میں معزز اور ممتاز بن گئے اور یہ تبدیلی اتنی جلدی اور سرعت کے ساتھ کیسے وجود میں آئی ڈاکٹر محمد آصف قروائی مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’ اس بے مثال اور محیر العقول عروج کا سرچشمہ رسول اکرم ﷺ کی دلکش ودلنواز شخصیت تھی آپ کی حیرت انگیز شخصی کشش اور آپ کے اصولوں کی ہمہ گیر صداقت نے ہر گوشہ اور ہر طبقہ کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا اور چاروں طرف عقیدت کے بے مثال جذبات پیدا کر دیئے تھے یہ آپ کے اعلیٰ شخصی صفات عزم کی صلابت اور پُر خلوص شفقت کا اثر تھا کہ آپ کی قوم آپ کے ابرو کی جنبش پر نثار ہونے کو ہر وقت تیار رہتی تھی۔ ( مقالات سیرت ص 204 مطبوعہ لکھنؤ 1960ء)

رسول اکرمﷺ کی شخصیت :

رسول اکرمﷺ کی ذات ہمیں ایک معیاری شخصیت کی حامل نظر آتی ہے جو دس برس کے مختصر عرصہ میں ایک نئے مذہب، ایک نئے تمدن، ایک نئے فلسفہ حیات اور ایک نئی شریعت کی بنیاد رکھ کر ایک نئی قوم پیدا کرتی ہے اور سلف پرستی، توہم پرستی ،ضد اور مخالفت کے باوجود گویا کہ اس (قوم) کی خواہش اور ارادہ کے خلاف اس کو روحانی ومادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیتی ہے ۔
پیغمبر ﷺ کی شخصیت کی جامعیت، آپ کے ارادہ کی پختگی ، آپ کی دعوت کی تاثیر، آپ کے پیغام کی صداقت، آپ کے نیت کے اخلاص، آپ کے اخلاق کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت سے افق عرب سے رفتہ رفتہ تمام تاریکیاں رفع ہوگئیں اور ایک نئی صبح کا پرچم لہرانے لگا ایک ممتدہ قومیت، ایک متحدہ حکومت اور ایک متمدہ تمدن ، ایک منضبط قانون ، ایک مکمل شریعت اور ایک ابدی مذہب کا درخشندہ دور وجود میں آگیا۔
علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) فرماتے ہیں کہ
’’ اسلام کی نگاہ میں آپ کی حیات ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے اس لیے اس نمونہ کے تمام پہلو سب کے سامنے ہونے چائیں اور وہ سب کے سامنے ہیں۔ اسی سے ثابت ہوگا کہ آپ کی زندگی کے سلسلہ کی کوئی کڑی گم نہیں ہے کوئی واقعہ زیر پردہ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ تاریخ کے صفحات میں آئینہ ہے اور یہی ایک ذریعہ کسی زندگی کے کامل معصوم اور بے گناہ یقین کرنے کا ہے نیز ایسی ہی زندگی جس کے ہر پہلو اس طرح روشن ہوں انسان کے لیے نمونہ کا کام دے سکتی ہے۔ دنیا میں بابل واسیریا،ہندوستان وچین، مصر وشام ، یونان وروم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوئے۔ اخلاق کے بڑے بڑے نظریئے قائم کئے گئے تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بنائے گئے ، اُٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، ملنے جلنے، پہننے اوڑھنے ، رہنے سہنے، سونے جاگنے، شادی بیاہ، مرنے جینے، غم ومسرت، دعوت وملاقات، مصافحہ وسلام ، غسل وطہارت، عیادت وتعزیت ، تبریک وتہنیت، دفن وکفن کے بہت سے رسوم وآداب ، شرائط اور ہدایات مرتب ہوئے اور ان سے قوموں کی تہذیب، تمدن اور معاشرت کے اصول بنائے گئے یہ اصول صدہا سال میں بنے، پھر بھی بگڑ گئے۔ صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے لیکن اسلام کا یہ تمدن چند برسوں میں بنا اور تعمیر ہوا اور 14 سو برس سے کل روئے زمین کی سینکڑوں مختلف اقوام میں یکسانی کے ساتھ قائم ہے کیونکہ اس کا ماخذ ایک ہے اور وہ جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہے۔ اس زندگی کے آئینہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیاں سجائیں اور ان کا عکس تابعین نے اُتارا اور اسی طرح وہ تمام دنیائے اسلام کا عمل اور رسم بن گئی وہ مقدس مرکزی نقطہ تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس خط کو اور بعد کی نسلوں نے اس کو دائرہ بنا دیا وہ تمدن آج گو کامل نہیں مگر اس کے نقش قدم اب بھی ہیں اور اسی پر تمام مسلمان چل رہے ہیں ایک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی تھی جو تمام صحابہ کرام کی زندگی بن گئی اور وہی کبھی دنیائے اسلام کی زندگی بن گئی تھی اور وہ کامل تصویر آج بھی ہم میں موجود ہے۔ افریقہ، ہندوستان کا کوئی قبیلہ جب آج عیسائی ہوتاہے تو اس کو مذہب گو انجیل سے لیکن تمدن وتہذیب اور عملی زندگی کا سبق یورپ کے ساختہ تمدن سے سکھایا جاتاہے لیکن وحشی سے وحشی قبیلہ جو مسلمان ہوتاہے اس کو جہاں سے مذہب ملتا ہے وہیں سے تمدن وتہذیب وشائستگی کا سبق بھی ملتاہے مسلمان ہونے کے ساتھ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی انسانی ضروریات اور حالات کے ساتھ اس کے سامنے آجاتی ہے اور یہ بولتی چالتی، جیتی جاگتی تصویر ہر مسلمان کی زندگی کی حالت اور کیفیت کا آئینہ بن جاتی ہے۔ ( خطبات مدراس ، ص 85، 86 مطبوعہ اعظم گڑھ 1947ء / 1366ھ)
دعوتِ اسلام کی بنیاد توحید پر ہے :
دعوت اسلام کی بنیاد توحید پر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ نوع انسانی کی وحدت کا اعتراف ہے دنیا کی تمام قوموں میں صرف مسلمان ہی اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور بے مثالی پر مکمل عقیدہ رکھتے ہیں باقی تمام مذہبی جماعتیں وحدت کے قائل نظر نہیں آتیں کہیں تثلیث کا چرچا ہے اکثر مذاہب اپنے بانیوں کے نام سے منسوب ہوئے لیکن محمد عربی ﷺ کا دین صرف اسی نام سے مشہور ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے تجویز فرمایا تھا ۔

 اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ (آل عمران : 19)

بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہے ۔‘‘
یہ بھی آپ ﷺ کی فریضۂ نبوت کی کامیاب ادائیگی کی ایک روشن دلیل ہے۔

رسول اللہ ﷺ کا نامۂ مبارک اور خسروپرویز کا رد عمل

رسول اللہ ﷺ کا نامۂ مبارک اور خسروپرویز کے رد عمل پر ایک تحقیقی جائزہ

ابتدائیہ :

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی دعوت وتبلیغ کی عملی تصویر ہے آپ ﷺ کے حسنِ عمل سے دعوت کے قدرتی طریق کی وسعت کا پتہ چلتا ہے آپ ﷺ کو ابتداء میں اپنے گھر اور خاندان کو سمجھانے کا حکم ہوا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء:214)

’’اور اپنے اہل خاندان کو آگاہ وہوشیار کرو۔‘‘
آپ ﷺ نے دعوت وتبلیغ کے ذریعے اولین طور پر عرب معاشرے کو برابری اورمساوات کی سطح پر لاکھڑا کیا اس کے بعد آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو یکساں طور پر پوری دنیا کی اقوام وقبائل تک پہنچایا،  آپ ﷺ نے اپنی تبلیغ ودعوت کیلئے قریش، حجاز ویمن، عرب وعجم اور فارس تک پہنچایا آپ ﷺ نے اپنی حد بندی نہیں کی بلکہ دنیا کی ہر قوم، ہر زبان اور ہر علاقے میں پیغام الٰہی کو پہنچانا فرض قرار دیا ۔ آپ کی تبلیغی مشن کیلئے قرآن نے مختلف الفاظ استعمال کیئے ہیں مثلاً تبلیغ، ابلاغ، تبشیر، انذار اور تذکر وغیرہ آپ ﷺ نے دعوت کے تمام مراحل میں پرامن تبلیغ کو اپنا مقصد بنائے رکھا۔ ڈاکٹر خالد علوی لکھتے ہیں کہ ہجرت کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں مسلم معاشرے کو مستحکم کیا شہری دفاع کیلئے معاہدہ کیا اور مسلمانوں کی تعمیر سیرت اور ان کے معاشی مفادات کو محفوظ کرنے کا انتظام کیا۔ (علوی ، ڈاکٹر خالد، رسول اکرم ﷺ کا منہاج دعوت، دعوۃ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد صفحہ:57)
6 ہجری کوصلح حدیبیہ کے بعد کسی قدر اطمینان نصیب ہوا تو آپ ﷺ نے اسلام کا عالمی پیغام تمام دنیا کے کانوں تک پہنچانے کیلئے خطوط وخطبات کا سلسلہ شروع کیا اور بیرون ملک تبلیغی ودعوتی وفود بھیجے۔ قیصر روم، شہنشاہ عجم، مصر کے حاکم اور رؤسائے عرب کے نام دعوت اسلام کے خطوط ارسال کیئے۔ اس زمانے میں روم، یونان اور ایران ایسی عالمی طاقتیں تھیں جیسے آج کل امریکہ برطانیہ اور فرانس ہیں۔ آپ ﷺ نے عالمی طاقتوں کے سربراہوں کو دعوت دین کے لیے خطوط لکھے اُن میں سے ایک خط ایران کے بدنصیب بادشاہ ملکہ شیریں کے شوہر خسروپرویز کو بھی لکھا ، فارسی لفظ پرویز کے معنی فاتح اور خوش نصیب کے ہیں اور فارسی لفظ خسرو کے معنی بادشاہ کے ہیں یہ اپنے باپ ہرمز کی وفات کے بعد 590ء تا 628ء تک برسراقتدار رہا، خسرو پرویز کسریٰ ۔(فیروز اللغات ، فیروزسنز لاہور 1977، صفحہ :165)
دوم ہے اس کا اصل نام مظفر تھا یہ اپنے باپ کو قتل کرکے برسراقتدار آیا تھا۔(شبلی نعمانی،سیرت النبی ﷺ ادارہ اسلامیات لاہور جلد 4، صفحہ :216)
یہ ایک ظالم اور متکبر المزاج بادشاہ تھا اس کے دور میں ایران اور روم کا جنگی سلسلہ شروع ہوا ، پرویز نے ہزاروں افراد قتل کرائے اور کافی تباہی وبربادی کے بعد عرب کے وسیع علاقہ پر قابض ہوگیا اس نے سکندریہ ، مصر،شام ، اُردن اور بیت المقدس کو بھی فتح کیا اس نے 37 سال حکومت کی بالآخر مارچ 628 میں ایران کے بادشاہ کی رہاش گاہ پر رومی فوج قابض ہونے میں کامیاب ہوگی۔ (غضنفر،تبسم محمود، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور ، صفحہ:62)
نبی کریم ﷺ نے سیدناعبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو کسری روم خسرو پرویز کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ماہ محرم 7 ہجری کو نبی کریم ﷺ کی طرف سے شاہ ایران کسریٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کےہمراہ نبی کریم ﷺ کا خط بھی تھا جو آپ ﷺ نے کسریٰ کے نام لکھا اور اسے
اسلام قبول کرنے کی دعوت دی امام بخاری رحمہ اللہ کی
روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خط سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے یہ تاکید کی تھی کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائیں اور اسے کہیں کہ اسے شہنشاہِ ایران تک پہنچا دے۔ صحیح بخاری میں اس طرح مذکور ہے ۔

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَى كِسْرَى، مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ ” فَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ البَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ البَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى (صحيح البخاري، كتاب المغازي باب كتاب النبي صلى الله عليه وسلم إلى كسرى وقيصرجلد 5،صفحه:136)

’’رسول اکرم ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کو خط دے کر کسریٰ کے پاس بھیجا آپ ﷺ نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا یہ خط بحرین کے رئیس کو دے دینا۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا اورخط حاکم بحرین کے پاس پہنچادیا۔ حاکم بحرین نےسیدناعبد اللہ کو اپنے ایک معتمد کے ساتھ خسرو پرویز کے پاس روانہ کردیا جب بارگاہِ رسالت کے سفیر سیدنا عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ فارس پہنچے تو خسرو نینوا میں مقیم تھا۔ فارس کے معمول کے مطابق بڑے جاہ وجلال اور شان وشوکت کے ساتھ تختِ سلطنت پر متمکن تھا کہ نقیب کی آواز پر ایک شخص دربار میں حاضر ہوا اس نے بڑی حیرت اور استعجاب کے ساتھ اسے دیکھا اتنے معمولی لباس اور اس قدر سادگی اور بے باکی سے آج تک خسرو کے دربار میں کوئی نہ آیا تھا۔ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کا خط شہنشاہ فارس کے سامنے پیش کر دیا۔ جس کی عبارت یہ ہے۔ (تاریخ الامم والملوک ، جلد2 صفحہ 254)

بِسْمِ الله الرحمن الرحيم من محمد رسول الله إلى كسرى عظيم فارس، سلام على من اتَّبَعَ الْهُدَى، وَآمَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَشَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَأَدْعُوكَ بِدُعَاءِ اللَّهِ، فَإِنِّي أَنَا رَسُولُ اللَّهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً لأُنْذِرَ مَنْ كانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكافِرِينَ، فَأَسْلَمَ تَسْلَمْ، فَإِنْ أَبَيْتَ، فَإِنَّ إِثْمَ الْمَجُوسِ عَلَيْكَ

’’محمد رسول اللہ کی طرف سے شاہ ایران کی طرف!
سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں میں تجھے اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تاکہ ہر اس شخص کو ڈراوں جو زندہ ہے اور جو منکر ہیں ان پر حق بات ثابت ہوجائے اسلام قبول کر لو سلامتی حاصل ہوگی اگر انکار کیا تو مجوسیوں کا گناہ بھی تمہارے سر ہوگا۔‘‘ (الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 213 حمید اللہ دکتور، مجووہ الوثائق اساسیۃ، القاھرۃ 1376ھ)
فارس کے بادشاہ خود کو اللہ کے برابر سمجھتے تھے اور ان کی اس حیثیت کو قائم وبلند رکھنے کےلیے ہر شخص ان کے دربار میں آتے وقت سجدہ کرنا پڑتا تھا کسریٰ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا جب اس نے نبی کریم ﷺ کے خط کو سنا تو آزادانہ طرزِ تخاطب ،بے گانہ انداز دیکھ کر حیران رہ گیا وہ شخص جس کے سامنے کروڑوں انسان سجدہ ریز ہوجاتے تھے حیران تھا کہ اس سرزمین میں کوئی ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اس کے نام سے پہلے اوپر اپنا نام لکھے کیونکہ فارس(ایران) کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ان میں سب سے اوپر بادشاہ کا نام ہوتا لیکن اس خط کو اللہ کے نام سے شروع کیا گیا تھا پھر نبی کریم ﷺ کا نام تھا۔(تاریخ الامم والملوک جلد2 صفحہ:254)
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب شاہِ ایران کو خط پڑھ کر سنایا گیا تو خط سنتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ شیطان نے اس کو آگ بگولا کر دیا اس کے تکبر نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیں ، شیطانی قوتوں نے اُکسایا وہ سخت سیخ پا ہوا ،غصے سے تلملایا اور نہایت غرور سے بولا کہ اس کی جرأت (نعوذ باللہ) کہ مجھے اسلام کی دعوت دے غرض شدید غصے اور طیش کے عالم میں اس نے آپ ﷺ کا خط مبارک ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور نہایت تحمل سے متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اہل دربار سے مخاطب ہوکر کہا ’’اے اہل فارس! عرصۂ دراز سے تمہاری زندگی ایسی جہالت سے گزر رہی ہے کہ نہ تمہارے پاس اللہ کی کوئی کتاب ہے اور نہ کوئی اللہ کا پیغمبر تمہارے ہاں مبعوث ہوا ہے جس سلطنت پر تمہیں ناز اورغرور ہے وہ اس کی زمین کا بہت ہی مختصر ٹکڑا ہے دنیا میں اس سے زیادہ کہیں بڑی بڑی حکومتیں ہیں اس کے بعد آپ بادشاہ سے مخاطب ہوئے اور کہا :
’’ آپ سے پہلے بہت سے بادشاہ گزر ےہیں ان میں سے جس نے آخرت کو اپنا منتہائے مقصود سمجھا وہ دنیا سے اپنا حصہ لے کر بامراد گیا اور جس نے دنیا کو مقصود بنایا اس نے آخرت کے اجر کو ضائع کر دیا افسوس کہ میں فلاح ونجات کے جس پیغام کو لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ نے اسے حقارت سے دیکھا حالانکہ آپ کو علم ہے کہ یہ پیغام ایسی جگہ سے آیا ہے جس کا خوف آپ کے دل میں موجود ہے یادرہے کہ حق کی آواز آپ کی تحقیر سے دب نہیں سکتی۔ ‘‘ (السہیلی ، روض الانف جلد 2، صفحہ : 253 ، مطبوعہ مصر 1912)
سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اہل فارس کو یہ تنبیہ کرکے دربار سے چلے آئے اور نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر تمام واقعہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا
اللهم مزق ملكه (الاصابۃ، جلد2 صفحہ:256)
’’اے اللہ اس کی حکومت کو پارہ پارہ کردے۔‘‘
سفارتی مشن کے نتائج :
بظاہر تو یہ سفارتی مشن اس حوالے سے ناکام نظر آتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر شاہِ ایران اور اس کی عوام نے اس دعوت کو قبول نہ کیا لیکن اس کے اثرات بہت دوررس تھے اور نتائج نہایت حیران کن نکلے اس دور میں یمن کا علاقہ ایران کے ماتحت تھا شاہ ایران نے یمن کے گورنر باذان کی طرف خط لکھا اور حکم دیا کہ اپنے پاس سےدو مضبوط آدمی حجاز بھیجیں اور وہاں نبوت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو گرفتار کرکے میرے پاس لے آئیں ۔ باذان نے بابویہ اورخرخسرہ نامی دو اشخاص کو مدینہ منورہ روانہ کیا ان دونوں نمائندوں نے مدینہ منورہ پہنچ کر یمن کے گورنر باذان کا خط نبی کریم ﷺ کو دیا رسول اللہ ﷺ خط دیکھ کر مسکرائے۔ (اسد الغابہ جلد1،صفحہ:63)
اور آپ ﷺ نے دونوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی آپ ﷺ کے سامنے وہ دونوں کھڑے اتنے مرعوب دکھائی دے رہے تھے کہ وہ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اُ ن کی حالتِ زار دیکھ کر فرمایا تم دونوں آج آرام کرو کل آنا تو میں اپنے ارادے سے آگاہ کروں گا جب وہ دوسرے دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ

أَبْلِغَا صَاحِبَكُمَا أَنَّ رَبِّي قَدْ قَتَلَ رَبَّهُ كِسْرَى فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ لِسَبْعِ سَاعَاتٍ مَضَتْ مِنْهَا. وَهِيَ لَيْلَةُ الثُّلاثَاءِ لِعَشْرِ لَيَالٍ مَضَيْنَ مِنْ جُمَادَى الأُولَى سَنَةَ سَبْعٍ. وَأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى. سَلَّطَ عَلَيْهِ ابْنَهُ شِيرَوَيْهِ فَقَتَلَهُ (طبقات ابن سعد جلد1، صفحہ :220)

’’اپنے صاحب کو بتا دو کہ میرے رب نے اس کے رب کسریٰ کو اس رات سات بجے قتل کر دیا ہے اور یہ 7 ہجری 10 جمادی الاول پیر کی رات کا واقعہ ہے ، اللہ رب العزت نے اس پر اس کے بیٹے شیرویہ کو مسلط کر دیا اور اس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی زبان سے یہ باتیں سن کر دونوں قاصدوں نے کہا کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں اس کی پوری ذمہ داری آپ کے اوپر ہے کیا یہ بات ہم باذان سے جاکر کہہ دیں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہاں والیٔ یمن سے جاکر یہ کہہ دو اور ساتھ یہ بھی بتا دینا کہ میرا دین میری حکومت بہت جلد کسریٰ کے پایۂ تخت تک پہنچ جائے گی۔‘‘ (تاریخ الامم والملوک جلد 2 ، صفحہ:256)
چنانچہ وہ دونوں باشندے یمن کے گورنر باذان کی طرف روانہ ہوئے اور نبی کریم ﷺ کا پیغام دیا۔ باذان نبی کریم ﷺ کا پیغام سن کر بہت حیران ہوا اور کہا اس شخص کی باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی دنیوی بادشاہ نہیں بہر حال ہمیں اس واقعہ کی تصدیق کیلئے انتظار کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ بعد ایران کے دار السلطنت مدائن سے شیرویہ کا حکم باذان کو ملا :
’’ میں نے خسرو کو اس کے بے پناہ مظالم کے سبب سے قتل کر دیا ہے اس کی جگہ میں اب ایران کے تخت کا مالک ہوا ہوں اس لیے میرا یہ فرمان پہنچتے ہی لوگوں سے میری اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار لو۔‘‘ شرویہ کا حکم پاکر باذان کو بڑی حیرانی ہوئی اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ ’’محمد ﷺ کی بات سچی نکلی‘‘ گورنر باذان نے اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھ ہی یمن کے باشندے بھی مسلمان ہوگئے۔

 فَأَسْلَمَ هُوَ وَالأَبْنَاءُ الَّذِينَ بِالْيَمَنِ

’’وہ اور اہل یمن مسلمان ہوگئے۔‘‘ (طبقات ابن سعد جلد 1، صفحہ نمبر : 260|)
کسریٰ کے قتل ہوجانے سے نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوگئی کیونکہ آپ نے کہا تھا ۔

إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ (تاريخ الامم والملوك جلد 2، صفحه:90)

’’ جب کسریٰ ہلاک ہوجائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا ‘‘۔
چنانچہ اس کی موت کے بعد ملک کا شیرازہ منتشر ہوگیا اس کا بیٹا شیرویہ بھی 6 ماہ سے زیادہ حکومت نہ کر سکا اور اس کے تخت پر 4 سال کے اندر یکے بعد دیگرے دس بادشاہ متمکن ہوئے آخری بادشاہ یزدگرد تھا اس کے بعد اس ملک پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور شاہِ ایران کسریٰ کی وہ سلطنت پارہ پارہ ہوگئی جس پر اسے حد درجہ غرور تھا۔
(غضنفر، تبسم محمود ، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور صفحہ :133)
شاہ ایران کسریٰ کے نام مکتوبِ نبوی ﷺ کی دریافت :
مؤرخین عام طور پر یہ لکھتے ہیں کہ کسریٰ پرویز نے نبی کریم ﷺ کے مکتوب کو پھاڑ کر پھینک دیا تھا مگر اس کے بعد اس خط کا کیا ہوا؟ اس بارے میں تاریخ خاموش ہے اس وقت کسی کو علم نہ تھا کہ جس پُر شکوہ دربار میں بیٹھ کر اور اپنی شہنشاہیت پر فخر کرتے ہوئے کسریٰ پرویز نے مکتوب نبوی ﷺ کو درخورِ اعتنانہ سمجھا اور پھاڑ دیا تھا وہ دربار عنقریب ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے گا۔ اس کی شہنشاہیت اور سلطنت پارہ پارہ ہوجائے گی اور مکتوبِ نبوی امتدادِ زمانہ اور لیل ونہار کی لاکھوں گردشوں کے باوجود پندرہ سو سال بعد بھی اپنے وجود کو باقی رکھ کر تاریخی صفحات میں ایک حیرت انگیز باب کے اضافے کا موجب ہوگا۔
اس خط کی دریافت کی مکمل تفصیل’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ‘‘ نے اپنے مقالہ’’آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک کسریٰ کے نام‘‘ میں شائع کی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے’’مئی 1963 کی دس تاریخ کو بیروت کے اخبارات نے یہ خبر شائع کرکے دنیا کوورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ لبنان کے سابق وزیر خارجہ ہنری فرعون کے آبائی ذخیرے میں مکتوب نبوی بنام کسری دریافت ہوا ہے۔‘‘ ہنری فرعون نے جو مذہبا عیسائی ہیں تحقیق کیلئے یہ مکتوبِ نبوی ﷺ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کو دیا انہوں نے بیروت کے اخبار’’الحیٰوۃ‘‘ مؤرخہ 22 مئی 1923ء میں مکتوب نبوی ﷺ بنام کسری پرویز ایک مفصل تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے اور اس نامۂ مبارک کا فوٹو بھی چھاپا۔ ڈاکٹر صلاح الدین المنجد لکھتے ہیں : ’’ہنری فرعون کے والدنے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر یہ دستاویز دمشق میں ڈیڑھ سو اشرفی میں خریدی، یا تو اسے خود معلوم نہ تھا یا یہ کہ اس نے اپنے اہل خاندان کو نہ بتایا کہ یہ کیا چیز ہے ؟ بہر حال 1962ء کے آخر تک اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مکتوبِ نبوی ہے۔ ‘‘  (غضنفر، تبسم محمود ، سلطنت مدینہ کے سفیر صحابہ ، نعمانی کتب خانہ لاہور صفحہ :133)
ڈاکٹر المنجد روزنامہ’’الحیوۃ‘‘ کے صفحہ اول پر لکھتے ہیں |:
’’ گزشتہ نومبر 1962ء کے اواخر میں ہنری فرعون نے میرے پاس کھال کا ایک ٹکڑا بھیجا اس پر کوفی رسم الخط سے ملتی جلتی تحریر تھی ۔کھال کی حفاظت کے لیے اس کے نیچے کپڑا چسپاں کر دیا گیا تھا اور اس کو ایک فریم میں لگایا تھا لیکن مرورِ زمانہ کی وجہ سے کپڑا بالکل گل چکا تھا۔صرف فریم کے سہارے وہ کھال باقی رہ گئی تھی۔ جب میں نے اس خط کے الفاظ دقتِ نظر سے حل کرنے اور پڑھنے شروع کیے تو یہ عظیم انکشاف ہوا کہ یہ وہی خط ہے جور سول اللہ ﷺ نے بادشاہ فارس کسریٰ کے نام تحریر فرمایا تھا جس میں اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی اور میری زندگی کے وہ لمحات بڑے مبارک تھے جب کہ میں نے نامۂ مبارک پڑھا گزشتہ چند مہینے اس مکتوب کے حروف والفاظ کے حل وتحقیق پر میں نے صرف کیے۔ میںنے اس سلسلے میں تاریخ وصبر کے تمام ماخذ کا مطالعہ کیا اور اب اپنی اس کوشش کا نتیجہ شائع کرتے ہوئے مجھے مسرت محسوس ہوتی ہے۔(المنجد،ڈاکٹر صلاح الدین ،اخبار الحیوۃ بیروت، مورخہ 22 مئی 1963 تحقیقی مقالہ)
ڈاکٹر صلاح الدین المنجد نے اس مکتوب پر یہ تحقیق کی کہ یہ ایک رق(جھلی) ہے اور گہرے خاکی رنگی کی ہے۔ اس کے کنارے کالے پڑگئے ہیں ۔ یہ 28 سینٹی میٹر لمبی اور ساڑھے اکیس سینٹی میٹر چوڑی ہے۔ یہ جھلی مستطیل سی ہے مگر چوڑائی یکساں نہیں اوپر زیادہ چوڑائی ہے اور نیچے سے کم۔ اس پر عبارت 15 سطروں پر مشتمل ہے مگر کوئی سطر ڈھائی سینٹی میٹر تو کوئی ساڑھے اکیس سینٹی میٹر۔ عبارت کے نیچے ایک گول مہر ہے جس کا قطر(3) سم ہے۔ جھلی کے نچلے حصے پر پانی بہا ہے جس کی وجہ سے بعض جگہ( حروف یا ) الفاظ مٹ گئے ہیں اور بعض جگہ مدہم ہوگئے ہیں۔ مہر کی عبارت مٹی گئی ہے بجز حرف’’ر‘‘ کے جو مہر کے وسط میں ہے جو غالباً رسول کی بقایا ہے۔
اس جھلی کو کسی نے پھاڑنے کی کوشش کی ہے چنانچہ وہ تیسری سطر دائیں طرف سے وسط تک چیری گئی ہے پھر طولاً دسویں تک پھٹی ہے اس پھٹن کی شکل 7 ہے اس پھٹن کے بعد میں کسی نے مہین جھلی سے ٹانکے لگا کراسے سی دیا ہے۔ (حمید اللہ ،ڈاکٹر ، رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی، مکتبہ اسلامیہ لاہور، صفحہ:234)
نبی اعظم ﷺ نے دیگر حکمرانوں کو بھی دعوتی خطوط لکھے تھے مثلاً حاکم بحرین منذر بن ساوی، قیصر روم ہرقل رئیس شام امیر یمامہ روم ہرقل ،مصر کے شاہ مقوقس اور حبش کے شاہ نجاشی کو خطوط لکھے مگر ان سب نے نہایت حکمت وفراست اور دانشمندی سے ان کے جوابات دیئے لیکن شاہ ایران خسروپرویز وہ واحد بدنصیب حکمران ہے جس نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کا نہ صرف انکار کیا بلکہ نامہ مبارک کو پھاڑ کر اپنے لیے دنیا وآخرت کی رسوائی مول لی۔
نوٹ : ہمارے ہاں نادانی اور جہالت کی وجہ سے پرویز نام رکھنے کا رواج عام ہے یادرہے کہ اولیاء اللہ اور بزرگان دین مسلمانوں کو پرویز نام رکھنے سے منع کرتے ہیں اور یہ ممنوعیت کئی وجہ سے ہے جس میں سب سے بڑی وجہ مشابہت کا پایا جانا ہے یہ نام چونکہ رسول اللہ ﷺ کے گستاخ،بے ادب اور دشمن کے ساتھ منسوب ہے لہٰذا اس نام سے پرہیز کرنا چاہیے اس طرح زندگی گزارنے کے اطوار،رہن سہن کے طریقوں میں بھی غیر مسلموں کی مشابہت سے پرہیز کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہم روشن خیالی کے زعم میں رسول اللہ ﷺ کی وعید کے مصداق بن جائیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :

من تشبه بقوم فهو منه

’’جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی قوم میں شمارہے۔‘‘

دین پر ثابت قدمی کے وسائل 2

قسط:2

دہم:جو وسائل ثابت قدمی کا ذریعہ بن سکتے ہوں ان کے قریب رہنا :
نبی اکرم ﷺ نے کچھ عناصر کے بارے میں راہنمائی دیتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ مِنَ النَّاسِ نَاسَاً مَفَاتِیْحٌ لِلْخَیْرِ مَغَالِیْقٌ لِلشَّرِ

کچھ ایسے بابرکت انسان ہو تے ہیں جوخیرو برکت کی چابی بن جاتے ہیں اور شر کے راستوں کو بند کرنے والے ہو تے ہیں ۔(سنن ابن ماجہ حدیث ۲۳۷ حسن ہے نیز السلسلۃ الصحیحۃ حدیث ۱۳۳۲)
اہلِ علم ، نیک لوگ ،دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے اور نیک سیرت اہلِ ایمان کو تلاش کریں، کیونکہ ان کے ارگرد رہنا ثابت قدمی کا بہت بڑا سہارا ہے ۔تاریخ اسلامی میں اندوہناک حادثات گزرے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اِن حالات میں بعض شخصیا ت کے ذریعے مسلمانوں کو ثابت قدم رکھا ہے ۔جناب علی بن المدینی رحمہ اللہ نے فرمایا : فتنہ ارتداد میںا للہ تعالیٰ نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے ذریعے دین کو عزت بخشی اور خلق قرآن کے فتنے میں جناب احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ذریعے عزت بخشی۔
امام ا بن القیم رحمہ اللہ نے ثابت قدم رکھنے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دور کے بارے میں جو کہا ہے اس پر غور کرو ، فرمایا:جب ہمیں شدید خوف لاحق ہو جاتا اور ہمیں اپنے بارے میں برے برے خیالات ستانے لگتے اور ہمیں زمین تنگ ہوتی نظر آتی تو ہم آپ کے پاس حاضر ہو جاتے ،بس انہیں دیکھنے اور سننے کی دیر ہوتی کہ مشکلات کے سارے اثرات دل سے ختم ہو جاتے اور وسوسے شرح صدر ، قوت ،یقین واطمینان میں بدل جاتے ۔اللہ کی ذات پاک ہے جس نے اپنے بندوں کو قیامت سے پہلے ہی جنت دکھا دی ،اور اسی دارالعمل(دنیوی زندگی )میں ہی اُن کے سامنے جنت کے دروازے کھول دئیے ۔ان کے پاس جنت کی ہوا بھی آرہی ہوتی ہے اور خوشبو بھی ۔ ان لوگوں نےاس جنت کو پانے کے لئے کس قدر محنت کی اور اس کی طرف دوڑ لگائی۔(الوابل الصیب ص۹۷)
یہاں پر اسلامی بھائی چارے کی اہمیت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ ثابت قدی کے لئے کس قدر بنیادی ضرورت ہے۔ چنانچہ تمہارے نیک بھائی اور تربیت کرنے والے استاد تمہارے راستے کے سب سے بڑے مددگار ہیں۔اور یہی وہ مضبوظ پناہ گاہ ہیں جہاں جا کر تم اپنے آپ کو محفوظ بنا سکتے ہو ۔تو جو بھی ان کے پاس کتاب اللہ اورحکمت کا علم ہو گا اس کے ذریعے وہ تم کو ثابت قدم رکھیں گے۔ان کے ساتھ ساتھ رہو اور ہمیشہ ان کے ساتھ رابطے میں رہو اکیلا رہنے سے پرہیز کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اچک لے اور یاد رکھو کہ تنہا رہنے والی بکری کو ہی بھیڑیا کھاتاہے۔
گیارھواں : اللہ کی مدد پر یقین اور اس بات پر یقین کہ مستقبل اسلام کا ہے:
جب کامیابی میں دیر نظر آتی ہے تو ہمیں قدموں پر زور دینے کی ضرورت پڑتی ہے ۔تاکہ قدم جم جانے کے بعد کہیں اکھڑ نہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَکَاَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَھَنُوْا لِمَآ اَصَابَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَااسْتَکَانُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ وَمَا کَانَ قَوْلَھُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ فَآتَا ھُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَۃِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

’’بہت سے نبیوں کے ہم رکاب ہو کر بہت سے اللہ
والے جہاد کرچکے ہیں انہیں بھی اللہ کی راہ میں تکلیفیں پہنچیں لیکن نہ تو انہوں نے ہمت ہاری نہ سست رہے اور نہ دبے اور اللہ صبر کرنے والوں کو ہی چاہتا ہے۔وہ یہی کہتے رہے اے پروردگار !ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے ہمارے کاموں میں جو بے جا زیادتی ہوئی ہے اسے بھی معاف فرما،اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور ہمیں کافروں کی قوم پر فتح دے ۔اللہ نے انہیں دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کے ثواب کی خوبی بھی عطا فرمائی اور اللہ نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘ (آلِ عمران146۔148)
جب صحابہ کرام کوتکلیفوں کی بھٹی میں ڈالا جا رہا تھا  تو نبی اکرم ﷺ نے جب انہیں ثابت قدمی کا درس دینا چاہا تو انہیں بتایا کہ اسلام کا مستقبل روشن اور تابناک ہے ۔ اور یہ بات آپ نے تکلیفوں اور پریشانیوں کے زمانے میں فرمائی ۔تو آپ ﷺ نے کیا فرمایا:

وَلَیُتِمَّنّ اللہُ ھٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی یَسِیْرُ الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ اِلیٰ حَضْرَ مَوْتَ مَا یَخَافُ اِلاَّ اللّٰہَ وَالذِّئْبَ عَلَیٰ غَنَمِہِ (صحیح البخاری بحوالہ فتح الباری 165بروایت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ )

’’اللہ تعالیٰ لازما اس کام (اسلام)کو مکمل کرکے رہے گا، حتیٰ کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک کا سفر کرے گا، اُسے اللہ کے علاوہ کسی کا خوف نہ ہوگا یااور نہ ہی بکریوں کے حوالے سے بھیڑیے کاڈر ہوگا۔‘‘
نوجوان نسل پر اسلام کے مستقبل پر مشتمل احادیث پیش کرنا اُن کی ثابت قدمی پر تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔
بارہواں:باطل کی حقیقت کو پہچاننا اوراس سے دھوکہ نہ کھانا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ الْبِلَادِ

’’تجھے کافروں کا شہروں میں چلناپھرنا فریب میں نہ ڈال دے۔‘‘(آلِ عمران196)
یہ بات اہلِ ایمان کے لئے خوشی اورثابت قدمی کا ذریعہ ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَائً (الرعد17)

’’اَ ب جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے۔‘‘
یہ بات عقل مندوں کے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ باطل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اس کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے۔
قرآنِ کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ باطل پرستوں کو رسواکرتا ہے ان کے مقاصد کو ننگا کر دیتا ہے اور ان کے وسائل کی کلی کھول دیتا ہے ۔فرمایا:

وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الآیَاتِ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ (الانعام55)

’’اسی طرح ہم آیات کی تفصیل کرتے رہتے ہیں اور تاکہ مجرموں کا طریقہ ظاہر ہو جائے ۔‘‘
تاکہ مسلمان کسی دھوکے میں نہ مارے جائیں۔ اوریہ بھی جان لیں کہ اسلام کو کہاں کہاں سے نقصان کا خطرہ ہے۔
کتنے ہی ایسے واقعات ہیں کہ جماعتیں یا دعوت کاکام کرنے والوں کے قدم اپنے راستے سے پھسل گئے نتیجہ وہ ثابت قدم نہ رہ سکے ، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے اپنے دشمن کے بارے میں لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے سوچا ہی نہیں کہ اُن پر وار کہاں سے ہو سکتا ہے؟
تیرھواں:ثابت قدمی پر مددگار اخلاق پر کار بند رہنا۔
ان اخلاق فاضلہ میں سب سے اہم صبر کامقام ہے۔آپ  ﷺ نے فرمایا:

مَا أُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَاءً خَیْرَاً وَاَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ

’’صبر سے بہتر اور وسیع ترین کسی کو بھی کوئی خوبی عطا نہیں ہوئی ۔‘‘(صحیح البخاری الزکاۃ الاستعفاف عن المسألۃ وصحیح مسلم؍الزکاۃ؍فضل التعفف والصبر)
اور سب سے زیادہ مشکل صبر، ابتدائی تکلیف کے وقت ہوا کرتا ہے ۔اگر کسی کے پاس صبر نہ ہو تو غیر متوقع تکلیف کے ملتے ہی جھٹ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور ثابت قدمی ختم ہو جاتی ہے۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے اس پر غور کرو :’’میں نے ایک بوڑھا آدمی دیکھا جو اَسی(80) سال کا ہو گا۔ اہتمام سے باجماعت نماز پڑھتا تھا، اُس کا نواسہ فوت ہو گیا تو اس نے کہا :’’دعائیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ،اللہ نہیں سنتا، پھر کہا یقینا اللہ کو ہم سے دشمنی ہو گئی ہے اس نے ہمارا بچہ بھی زندہ نہیں چھوڑا ۔‘‘(الثبات عند الممات لابن الجوزی ص ۳۴ )
اللہ تعالیٰ اس نادان کی بات سے بہت بڑا اوربلند ہے۔
جب مسلمانوں کو غزوہ احد میں پریشانی لاحق ہوئی جس کی انہیں توقع نہ تھی اس لئے کہ ا للہ نے اُن سے فتح کا وعدہ کر رکھا تھا چنانچہ اللہ نے انہیں بڑا سخت سبق سکھایاجو زخمیوں اور شہداء سے عبارت تھا۔فرمایا:

أَوَلَمَّاأَصَابَتْکُمْ مُصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِثْلَیْھَا قُلْتُمْ اَنّیٰ ھٰذَا قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ

’’( کیا بات ہے )کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند(دگنی)پہنچاچکے تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آگئی ؟آپ کہہ دیجئے یہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔‘‘(آلِ عمران 165)
ان کی طرف سے کیا غلطی ہوئی تھی ؟
تم نے آپس میں اختلاف کیا نتیجتاً تم ناکام ہو گئے ۔
جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ چیز دکھادی جو تمہیں محبوب تھی تو تم نے نافرمانی کی ۔
تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طلبگار تھے ۔
چودھواں:اللہ کے نیک بندے کی طرف سے اچھی بات:
جب کسی مسلمان کو مشکل آتی ہے اور اسے اس کا رب اس لئے مشکل میں ڈالتا ہے کہ اُسے گناہوں سے پاک کر دے ۔ توایسے شخص کی ثابت قدمی کا ذریعہ یہ ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ کسی نیک بندے کو لگا دیتا ہے جو اُسے سمجھاتا رہتا ہے اور اُسے ثابت قدم رکھتا ہے ۔اس طرح چند نصیحتی کلمات کے ذریعے اللہ اُسے فائدہ دے دیتا ہے ۔اور اس کے قدم صحیح راستے کی طرف اٹھتے ہیں یہ کلمات ذکر الٰہی سے بھر پور ہوتے ہیں ان میں اللہ کی ملاقات ،جنت اور دوزخ کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ میرے بھائی ! امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی سیرت سے چند واقعات پیش خدمتِ ہیں آپ کو شدید ترین آزمائش سے واسطہ پڑا تاکہ آپ خالص سونا بن کر باہر نکلیں۔
آپ کو بیڑیوں میںجکڑ کر مامون کے دربار میں لایا گیا ۔ آپ کے دربار میں پہنچنے سے پہلے ہی بادشاہ مامون کی طرف سے شدید دھمکیاں آپ کو مل چکی تھیں ۔حتیٰ کہ ایک خادم نے امام احمد بن حنبل کو مخاطب ہو کر کہا :’’اے ابوعبداللہ آج مجھے حالات بہت مشکل معلوم ہو رہے ہیں آج مامون نے خود تلوار نکالی ہوئی ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور وہ رسول اکرم ﷺ سے اپنے رشتے کی قسم کھا کر کہہ رہا ہے اگر آپ نے قرآن کے مخلوق ہو نے کو قبول نہ کیا تو وہ آپ کو اسی تلوار سے ضرور بضرورشہید کر دے گا ۔‘‘(البدایہ والنھایہ۱؍۳۳۲)
ایسے موقع پر دوراندیش اور ذہین و فطین لوگوں نے فائدہ اُٹھا یااور اپنے امام کے سامنے ثابت قدمی پر مشتمل کلمات رکھے:
سیر اعلام النبلاء للامام الذھبی (۱۱؍۲۳۸)میں ہے کہ ابو جعفر الانباری بیان کرتے ہیں کہ:’’جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بادشاہ مامون کی طرف لے جایاگیا تو مجھے اطلاع ہو گئی تو میں نے دریائے فرات پا رکیا ، امام احمد مقام’’خان‘‘ پر تشریف فرما تھے ،میں نے آپ کو سلام کیا ۔تو آپ نے فرمایا:اے ابو جعفر تکلیف کرکے آئے ہو۔
میں نے کہا :جناب ! آج آپ امت کے راہنما ہیں اور لوگ آپ کی پیروی کر رہے ہیں، اللہ کی قسم! اگر آج آپ نے خلق ِ قرآن  کے مسئلے میں بادشاہ کی بات مان لی تو بہت سارے لوگ یہی بات مان جائیں گے اور اگر آپ نے نہ مانی تو بہت ساری مخلوق ِ خدا باز رہے گی ۔ اور یہ بات بھی یاد رکھیں اگر بادشاہ آپ کو قتل نہ بھی کرے تب بھی آپ کو مرنا ہی مرنا ہے ۔ موت سے تو بھاگ نہیں سکتے، اللہ سے ڈرو اور بادشاہ کی بات مت مانو۔
امام احمد رونے لگے اور فرمایا:’’ماشاء اللہ ‘‘۔پھر فرمایا: اے ابو جعفر !اپنی بات کو دہراؤ ۔تو میں نے اپنی بات دہرادی اور آپ نے فرمایا:’’ماشاء اللہ‘‘۔
امام احمد بن حنبل مامون کی طرف سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ہم مقام رحبہ تک پہنچے ،اور وہاں سے آدھی رات کو ہی چل پڑے، ایک آدمی ملا تو اس نے پوچھا : تم میں سے احمد بن حنبل کون ہے ؟بتایا گیا کہ یہ آدمی ہے ۔تو اونٹ والے سے کہا ذرا رکو۔پھر اس نے کہا:’’اے جناب ! تمہارا کیا جاتا ہے، ادھر تم قتل ہوئے ادھر جنت میں پہنچ گئے ۔‘‘پھر اس نے کہا میں تمہیں اللہ کے حوالے کرتا ہوں یہ کہہ کر چل دیا ۔
امام احمد کہتے ہیں میں نے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا توبتایا گیا یہ ایک عربی ہے جس کا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے ، صحراء میں رہ کر اُون وغیرہ کی تجارت کرتا ہے ۔اسے جابر بن عبد اللہ کہا جاتا ہے ۔بہت نیک آدمی ہے۔(سیر اعلام النبلاء ۱۱؍۲۴۱)
البدایہ والنھایۃ میں ہے کہ ایک اعرابی (صحراء نشین ) نے امام احمد بن حنبل سے کہا : (اے جناب! تم لوگوں کے راہنما ہو لہذا تم ان کا نقصان کرنے والے نہ بن جانا۔آ ج تم سب لوگوں کے سربراہ ہو جس چیز کی حکومت تم سے ہاں کروانا چاہتی ہے، خبر دار !کہ تم نے اِن کی بات مانی ۔تو تمہاری ہاں کی وجہ سے عام لوگ بھی ہاں کر دیں گے، اس طرح قیامت کے روز تم اِن سب کے بوجھ اُٹھاؤ گے ۔اور اگر واقعۃ تمہیں اللہ سے محبت ہے تو حالات پر صبر کرو ۔امر واقعہ یہ ہے ادھر تم قتل ہوئے اور اُدھر جنت میں پہنچ گئے ۔امام احمد فرماتے ہیں :اس آدمی کی گفتگو نے میرے ارادے کو مضبوط کردیا کہ جو بات حکومت مجھ سے منوانا چاہتی ہے وہ میں نہ مانو اور اپنی بات پر ڈٹا رہوں۔
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے کہا :’’جب سے میں اس آزمائش میں پڑا ہوں، اس اعرابی کی گفتگو سے زیادہ قوی بات میں نے نہیں سنی ،جس نے میرے ساتھ ’’رحبۃ طوق‘‘ میں بات کی تھی ۔اس نے کہا :اے احمد ! اگر تو راہِ حق میں مارا گیا تو شہید ہو گا اور تو زندہ رہا تو عزت واحترام کے ساتھ زندہ رہے گا ۔اس کی بات نے میرے دل کو بہت مضبوط کر دیا ۔‘‘(سیر اعلام النبلاء ۱۱؍۲۴۱)
امام احمد نوجوان ساتھی(محمد بن نوح) کے بارے میں کہتے ہیں ،جس نے اس آزمائش میں بہت جوانمردی کا ثبوت دیا:’’ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ اتنی چھوٹی عمر اور معمولی علم کے با وجود اللہ کے حکم پر اس طرح جم کے کھڑا ہو جائے جیسا کہ محمد بن نوح تھا ۔میں امید رکھتا ہوں کہ یقینا اس کا خاتمہ خیر پر ہوا ہو گا ۔اس نے مجھے ایک دن کہا :’’اے ابا عبد اللہ ! اللہ سے ڈرو !تیرا مرتبہ میرے جیسا نہیں ہے، لوگ تیرے پیچھے چلتے ہیں،اور لوگ گردنیں اُٹھا اٹھا کر تیری طرف دیکھتے ہیں کہ تم اس مسئلے میں کیا کہتے ہو ؟ لہذا اللہ سے ڈرو ،اور اللہ کے حکم پر ڈٹ جاؤ۔ یہ جوان مر گیا اور میں نے خود اس پر نماز پڑھی اور اسے دفن کیا ۔
حتیٰ کہ جیل کے ساتھی جن کو امام احمد نماز پڑھایا کرتے تھے اور آپ ان کے ساتھ قید میں تھے انہوں نے بھی آپ کو ثابت قدم رہنے میں بڑا کردار ادا کیا ۔ ایک دفعہ امام احمد نے جیل میں کہا ؛’’مجھے قید کی کوئی پرواہ نہیں میرا گھر اور یہ جیل ایک جیسا ہے اور نہ ہی مجھے تلوار کے ذریعے قتل ہونے سے ڈر لگتا ہے ۔بس مجھے کوڑوں کا خوف ہے ۔‘‘آپ کی یہ بات ایک قیدی نے سن لی تو اس نے کہا :’’اے ابو عبد اللہ ! تمہیں زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے بس دو ہی کوڑوں کی تکلیف ہوا کرتی ہے پھر تمہیں پتا ہی نہیں چلے گا کہ کہاں لگ رہے ہیں ۔ گویا کہ آپ کو اس بات سے خوشی ہوئی ۔(سیر اعلا م النبلاء ۱۱؍۲۴۰)
اے میرے پیارے بھائی !نیک لوگو ںسے اچھی بات سننے کی کوشش کیا کرو ۔اور اگر کوئی بتا دے تو اسے اچھی طرح ذہن میں بٹھا لو
٭سفر پر جانے سے پہلے نصیحت لے لو جب تمہیں کسی مشکل کا اندیشہ ہو ۔
٭مشکل پیش آنے کے بعد یا کسی متوقع مشکل کی صورت میں ۔
٭جب تمہیں کسی منصب پر فائز کردیا جائے یا بہت سارا مال مل جائے تو نصیحت لے لو اور ثابت قدم رہو ۔اور دوسروں کو بھی ثابت قدم رہنے میں مدد کرو ۔اور اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کا کار ساز ہے ۔
پندرھواں:جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب پر غور کرتے رہو اور قبر کو یاد رکھو ۔جنت خوشیوںکا مرکز ہے ، غموں کا مرہم ہے اور اہلِ ایمان کا آخری پڑاؤ ہے۔ نفس کی تخلیق ہی اس بات پر ہوئی ہے کہ قربانی ، عمل کی مشقت اور ثابت قدمی تبھی ہو سکتی ہے جب اس کا ایسا فائدہ نظر آئے جس کے بل بوتے پر مشکلات برداشت کرنی آسان ہو جائیں اور پریشانیوں بھرا راستہ آسان اور نرم ہو جائے ۔چنانچہ جس شخص کو اجر کا علم ہوتا ہے اُس کے لئے مشکلات برداشت کر نی ا ٓسان ہو جاتی ہیں ۔ اور وہ اپنی راہ چل رہا ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر اس نے ثابت قدمی نہ دکھائی تو وہ اس جنت سے محروم ہو جائے گا جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ۔پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نفس کو ضرورت رہتی ہے جو اسے اس زمین سے اُٹھا کر عالم بالا کی بلندیوں تک پہنچا دے ۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کو ثابت قدم رکھنے کے لئے جنت کا تذکرہ اکثر کیا کرتے تھے چنانچہ ایک حسن و صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ کاگزر سیدنا عمار ، یاسراور ا م عمار رضی اللہ عنھم پر سے ہوا اور انہیں شدید تکلیف پہنچائی جا رہی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

صَبْرَاً آلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃَ

اے خاندانِ یاسر ! صبر سے کام لو تمہارے ساتھ جنت کا وعدہ ہے ۔‘‘ (المستدرک للحاکم۳؍۳۸۳ نیز فقہ السیرۃ بتحقیق الالبانی ص۱۰۳)
اسی طرح آپ انصار صحابہ سے کہا کرتے تھے:

اِنَّکُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ اَثَرَۃً فَاصْبِرُوْا حَتَّیٰ تَلْقَوْنِیْ عَلَیٰ الْحَوْضِ (صحیح البخاری وصحیح مسلم)

’’میرے بعد تم لوگ بے انصافی پاؤ گے چنانچہ صبر کرو حتی کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملو۔‘‘
اسی طرح جو آدمی قبر ،حشر ،حساب،میزان ،پل صراط اور آخرت کے سارے مراحل میں نیک وبدکے انجام پر غور  کرے گااس کے لئے دین پرثابت قدم رہنا آسان ہو جائے گا نیز کثرت کے ساتھ موت کو یاد کرنا مسلمان کو غلط کاموں میں گرنے سے بچاتا ہے ۔اور اُسے اللہ کی مقررکردہ حدود پر روک کررکھتا ہے ۔پھر وہ انہیں پار نہیں کرتا ۔اس لئے کہ جب اُسے معلوم ہو کہ موت جوتے کے تسموں سے بھی زیادہ قریب ہے اور یہ موقع چند لمحوں بعد بھی آسکتا ہے، پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کا دل گناہوں میں گرنے کے بارے میں سوچے بھی ۔یا وہ صحیح راہ سے دور بھٹک جائے، اسی لئے تو آپ  ﷺ نے فرمایاتھا :

اَکْثِرُوْا مِنْ ذِکْرِ ھَادِمِ اللَّذَّاتِ

(سنن الترمذی ۲؍۵۰امام الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ملاحظہ ہو ارواء الغلیل۳؍۱۴۵)
لذتوں کو توڑ پھوڑ کر دینے والی کا کثرت سے تذکرہ کیا کرو(موت کا)۔‘‘

خمس کا ادا کرنا ایمان میں داخل ہے

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری. 8

بَاب أَدَاءُ الْخُمُسِ مِنَ الْإِيمَانِ

8-53- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ كُنْتُ أَقْعُدُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ يُجْلِسُنِي عَلَى سَرِيرِهِ فَقَالَ أَقِمْ عِنْدِي حَتَّى أَجْعَلَ لَكَ سَهْمًا مِنْ مَالِي فَأَقَمْتُ مَعَهُ شَهْرَيْنِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ وَفْدَ عَبْدِالْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنِ الْقَوْمُ أَوْ مَنِ الْوَفْدُ قَالُوا رَبِيعَةُ قَالَ مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَا نَسْتَطِيعُ أَنْ نَأْتِيكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرْ بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلْ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الْأَشْرِبَةِ فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَصِيَامُ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَرُبَّمَا قَالَ الْمُقَيَّرِ وَقَالَ احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ

علی بن جعد، شعبہ، ابوجمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ بیٹھا تھا تو وہ مجھے اپنے تخت پر بٹھا لیتے تھے (ایک مرتبہ) انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم میرے پاس رہو، میں تمہیں اپنے مال سے کچھ حصہ دوں گا، لہذا میں دو مہینے ان کے پاس رہا، بعد ازاں انہوں نے (ایک روز مجھ سے) کہا کہ (قبیلہ) عبدالقیس کے لوگ جب نبی ﷺ  کے پاس آئے، تو آپ نے ان سے کہا کہ تم کس قوم سے ہو؟ یا (یہ پوچھا کہ تم) کس جماعت سے ہو؟ وہ بولے کہ (ہم) ربیعہ (کے خاندان) سے ہیں آپ نے فرمایا کہ مرحبابا القوم یا (بجائے باالقوم کے) بالوفد (فرمایا) غیر خزایا ولاندامیٰ، پھر ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺہم سوائے ماہ حرام کے (کسی اور زمانے) میں آپ کے پاس نہیں آسکتے (اس لئے کہ) ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ رہتا ہے (ان سے ہمیں اندیشہ ہے) لہذا آپ ہم کو کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو اس کی اطلاع کردیں اور ہم سب اس پر عمل کرکے جنت میں داخل ہو جائیں اور ان لوگوں نے آپ سے پینے کی چیزوں کے بابت بھی پوچھا کہ کون سی حلال ہیں اور کون سی حرام؟ تو آپ نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا، صرف اللہ پر ایمان لانے کا ان کو حکم دیا، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لا نا (کس طرح ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب واقف ہے، آپ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ سوا اللہ کے کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کو نماز پڑھنے، زکوۃ دینے اور رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا اور اس بات کا حکم دیا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال میں) دے دیا کرو اور چار چیزوں (میں پانی یا اور کوئی چیز پینے) سے ان کو منع کیا، حنتم سے اور دبا اور نقیر سے اور مزفت سے (اور کبھی ابن عباس مزفت کی جگہ مقیر کہا کرتے تھے اور آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یاد کرلو اور باقی لوگوں کو (جو اپنی جگہ رہ گئے ہیں ان کی تعلیم دو ۔
نوٹ : اس حدیث کے بہت سے توابع وشواہد ہیں وہ بھی رباعی الاسناد ہیں۔

وروى بسند آخرحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِالْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  به       ( رقمه  : 523  )
وروى بسند آخرحَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِالْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ   به    (  رقمه  :    1398)
وروى بسند آخر حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهمَا يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِالْقَيْسِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ فَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ نَأْخُذُ بِهِ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا قَالَ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَقَدَ بِيَدِهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُؤَدُّوا لِلَّهِ خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ   ( رقمه  : 3095 )

ابو نعمان حماد حمزہ ضبعی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ عبدالقیس کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم لوگ ربیعہ کے قبیلہ میں رہتے ہیں اور ہمارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کفار مضر سکونت پذیر ہیں اور ہم لوگ ماہ حرام کے سوائے آپ ﷺ کے پاس حاضر نہیں ہو سکتے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو کوئی ایسا عمل بتائیے کہ جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ کر اپنے پیچھے والوں کو اس کی طرف بلائیں تو آپﷺ نے فرمایا میں تم کو چار باتوں کے کرنے اور چار باتوں سے بچنے کا حکم دیتا ہوں (کرنے کے احکام یہ ہیں) اللہ پر ایمان لانا اور اس چیز کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے دوسرا معبود نہیں ہے اور آپﷺ نے عقد انامل فرمایا (یعنی ایک تو یہ ہوئی اور باقی یہ ہیں) نماز پڑھنا زکوۃ دینا ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا (اور ممانعتی امور یہ ہیں) جن کے کرنے سے میں تم کو روکتا ہوں کہ لکڑی کاٹو کہ (کٹھلا) چینی کی ٹھلیاں اور پالش کیا ہوا روغنی برتن (یہ ظرف شراب نوشی کے لئے مستعمل ہوتے تھے)۔

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِي الله عَنْهمَا يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِالْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ    به     ( رقمه   :  3510  )
وروى بسند آخر حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِالْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    به    ( رقمه  :  4369  )
تراجم الرواۃ :

1نام ونسب : علی بن الجعد بن عبید الجوہری الہاشمی البغدادی
کنیت: ابو الحسن
ولادت ووفات : امام ابو الحسن کی ولادت 136 ہجری  جبکہ وفات 230ہجری بغداد میں ہوئی اور وہی دفن کیاگیا۔
محدثین کے ہاں رتبہ: امام موسی بن داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ما رأیت أحفظ منہ ‘‘ امام یحی بن معین فرماتے ہیں ’’ ھو ربانی العلم ثقۃ ‘‘ ابو الحسن ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔
2شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
3 ابو جمرۃ
نام ونسب : نصر بن عمران بن عصام الضبعی البصری ابو جمرہ سے ہی مشہور تھے ۔
کنیت: ابو جمرہ بعض کے ہاں ابو حمزہ ہے۔
ولادت ووفات : ولادت کا ذکر نہیں ملتا البتہ وفات 128 ہجری سرخس کے مقام پر ہوئی۔
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے اور امام ذہبی رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے ۔
4 نام ونسب : عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف الہاشمی المکی ثم المدنی ثم الطائفی حبر الامہ وترجمان القرآن رسول اللہ ﷺ کے چچا کے بیٹھے فقہاء صحابہ میں شمار ہوتاہے۔ 1660 احادیث کے راوی ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خصوصی دعا فرمائی ۔

اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَعَلِّمْهُ التَّأْوِيلَ(المستدرك على الصحيحين للحاكم 3/615)

’’ اے اللہ اسے دین میں فقاہت اور تفسیر کا علم عطا فرما۔‘‘
ولادت ووفات: ہجرت سے تین سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور 68 ہجری کو طائف میں وفات پائی۔
آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام لبابہ بنت الحارث الہلالیہ جو کہ سیدہ ام المؤمنین میمونہ بنت الحارث کی بہن تھی جن کی کنیت ام الفضل تھی۔
تشریح :
اسلام سے پہلے لوگ جن برتنوں میں شراب بنایا کرتے تھے رسول اللہ ﷺ نے ان میں نبیذ(پھلوں، کھجور، کشمش اور دیگر خشک یا تر پھلوں کا پانی کے ذریعے بنایا ہوا آمیزہ) جو بطور مشروب استعمال ہوتا تھا بناکر پینے سے منع فرما دیا ا س غرض سے عموماً چار قسم کے برتن استعمال کیے جاتے تھے ۔
الْحَنْتَمِ :شراب بنانے کی غرض سے مٹی کے بڑے بڑے برتنوں کو اس طرح بنایا جاتا تھا کہ ان کی مٹی گوندھتے وقت اس میں خون اور بال ملا دیے جاتے۔ اس سے ان برتنوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوجاتا تھا۔ غرض یہ ہوتی کہ اس کی سطح سے ہوا کا گزر بند ہوجائے اور تخمیر کا عمل تیز اور شدید ہوجائے۔ دیکھیے( فتح الباری، کتاب الاشربۃ ، باب ترخیص النبی ﷺ فی الاوعیۃ) ایسے برتنوں کے اندر ہوا کی بندش کو یقینی بنانے کے لیے کوئی روغن وغیرہ بھی لگادیا جاتا تھا۔ یہ برتن اپنی ساخت میں گندے اور غلیظ ہونے کے علاوہ اندرونی سطح پر شراب کے خامروں کو چھپائے رکھتے تھے جن کی وجہ سے اس میں بھی تیزی سے تخمیر کا عمل شروع ہوجاتا تھا۔
الدُّبَّاءِ : بڑے سائز کے کدو جب خشک ہوجاتے تو ان کے اندر کا گودا وغیرہ نکال کر سخت خول کو برتن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ افریقہ کے ملکوں میں آج بھی اس کا رواج ہے۔ وہاں ایسے کدو بھی پائے جاتے ہیں جو نیچے سے گول ہوتے ہیں اور اوپر کی طرف ان کی بہت لمبی گردن ہوتی ہے ان کو بھی اندر سے خالی کرکے مشروب وغیرہ کے برتن کے طور پر استعمال کیا جاتاہے یہ بالکل صراحی کی شکل کا ہوتاہے۔ فارسی شاعری میں اسی لیے کدو کا لفظ شراب کےبرتن یا صراحی کے لیے استعمال ہوتاہے۔ اس کے باہر کی سطح سخت اور نم پروف جبکہ اندر کی سطح اسفنجی ہوتی ہے اور اگر اس کو شراب کے لیے استعمال کیا جائے تو دھونے کے باوجود اس کی اندورونی اسفنجی سطح میں خامرہ یعنی وہ مادہ جو نبیذ کے رس وغیرہ میں خمیر اٹھانے کا سبب بن جاتاہے موجود ہوتاہے۔ اس لیے ایسے برتن میں پھلوں کا رس تیار کرنے یا رکھنے سے منع کر دیا گیاہے۔
النَّقِيرِ : کھجور کے تنے کو اندر سے کھوکھلا کرکے بنایا جاتا تھا اور اس میں شراب بنائی جاتی تھی۔ بعض لوگ تو درخت کے تنے کا اوپر کا کافی حصہ کاٹ کر اسے کھوکھلا کرتے لیکن اس کی جڑیں اسی طرح زمین میں رہنے دیتے۔ ظاہر ہے کہ اس کا صحیح طور پر دھوناممکن نہ تھا نیز اس کی اندرونی سطح پر شراب کے خامرے اور دوسری گندگی بھی موجود رہتی تھی اس میں پھلوں وغیرہ کا مشروب( نبیذ) بنایا جاتا تو وہ جلد شراب میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ اس کا استعمال بھی ممنوع قرار دیاگیا۔
الْمُزَفَّتِ: وہ برتن جس کے اندر روغن’’زفت‘‘ ملایا گیا ہو۔ یہ تارکول سے ملتا جلتا معدنی روغن ہے۔ (لسان العرب)
’’زفت‘‘ ملنے کا مقصد بھی وہی تھا کہ ہوا کا گزر نہ ہو اور شراب سازی کے لیے عمل تخمیر جلد اور شدت سے شروع ہوجائے۔ یہ بھی دوسرے برتنوں کی طرح شراب کے خامروں کا حامل ہوتاتھا۔ اس کے علاوہ روغن ملنے کی وجہ سے چپچپااور ناصاف بھی ہوتا تھا۔
عرب ان برتنوں میں شراب کے علاوہ نبیذ بھی بناتے تھے اور اس میں بہت جلد ترشی آجاتی تھی چونکہ یہ لوگ پہلے ان برتنوں کے مشروبات اور شراب کے عادی تھے تو انہیں معمولی نشے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا اس لیے حرمت شراب کی ابتداء میں ان برتنوں کے استعمال سے بھی منع فرمادیاگیا مگر بعد ازاں اجازت دے دی گئی تھی۔
(ماخوذ : سنن ابو داؤد (اردو) ترجمہ وفوائد فضیلۃ الشیخ عمر فاروق السعیدی حفظہ اللہ ج3 ص : 877)

11 قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں

بائیسواں اصول:

اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ (يوسف:90)

 ’’جوبھی پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکو کار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
کسی انسان کا اپنے خالق کے ساتھ معاملہ کرنے اور مخلوقِ خدا کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے یہ اصول بہت مفید ہے۔ جس شخص کی محنت کا دنیا میں اعتراف نہ ہوتا ہو اس کے لیے بھی یہ بہت بڑا سہارا ہے۔ سیدنایوسف علیہ السلام کے واقعے کے پس منظر میں یہ اصول بیان ہوا ہے‘ جب ان کے بھا ئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا:

یٰٓاَیُّہَا الْعَزِیْزُ مَسَّنَا وَاَہْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزْجٰۃٍ فَاَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا اِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ قَالَ ہَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوْسُفَ وَاَخِیْہِ اِذْ اَنْتُمْ جٰہِلُوْنَ قَالُوْا ئَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَہٰذَآ اَخِیْز قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَیَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ
(یوسف 88-90)

’’اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے‘ ہم حقیر سی پونجی لائے ہیں‘ پس آپ ہم کو پورے غلے کا ناپ دیجئے اور ہم پر خیرات کیجئے‘ یقینا اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔ یوسف نے کہا :تم جانتے بھی ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنی نادانی کی حالت میں کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا :کیا واقعی تو ہی یوسف ہے؟ جواب دیا کہ ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے‘ اللہ نے ہم پر فضل وکرم کیا۔ بات یہ ہے کہ جوبھی پرہیزگاری اور صبر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ کسی نیکو کار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
ہم میں سے بہت سارے لوگوں کو تقویٰ کی تعریف آتی ہے‘ بلکہ ہم میں سے کوئی ایسا بھی ہوگا جسے تقویٰ اورصبر کی بہت ساری تعریفیں آتی ہوں گی اور وہ صبر کی بہت ساری قسموں کو بھی جانتا ہو گا‘ پھر بھی وہ صبر کے پہلے ہی امتحان میں فیل ہو جاتا ہے‘ اور جہاں کہیں صبر کرنے کا موقع ہوتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ گناہ سے بالکل ہی محفوظ ہوگا۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب صبر کرنے اورتقویٰ کا موقع آتا ہے یا اس کی ضرورت ہوتی ہے تو اِلاّ ماشاء اللہ ہم میں سے اکثر اس پر عمل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ تقویٰ کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا اور ممنوعہ کاموں سے بچنا۔ اور ہم سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کام میں خود بھی صبر کرنا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق اپنے نفس کو روک کر رکھنا ہوتا ہے۔ بے شک ان دونوں عظیم کاموں پر ضرورت کے موقع پر عمل کرنا ہی اونچے مقام کی بات ہے۔

تیئسواں اصول:

وَاْتُوا الْـبُـیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا

’’اور گھروں کو ان کے دروازوں سے آؤ۔‘‘
یہ قرآنی اصول اہل جاہلیت کی ایک عادت کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اُن کی عادت تھی کہ جب احرام باندھ لیتے (اور اس کے بعد کوئی ضرورت پیش آجاتی) تو گھروں میں دروازوں کے ذریعے نہ آتے اور اس کو بھی عبادت کا حصہ سمجھتے ‘اور اُن کا گمان تھا کہ یہ بھی ایک نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا یہ نیکی نہیں ہے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اِسے مقرر نہیں کیا ہے ‘جیسا کہ آیت کے شانِ نزول میں بیان ہوا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْـبُـیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ  (البقرۃ189)

’’(اے نبیﷺ!) لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کی عبادت کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے۔ اور (احرام کی حالت میں) گھروں کے پیچھے سے تمہارا آنا کچھ نیکی نہیں‘ بلکہ نیکی والا وہ ہے جو متقی ہو۔ اور گھروں میں تو دروازوں سے آیا کرو‘ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘
جس خطا کی اصلاح کی خاطر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی اُس کی تو اس قرآنی اصول نے بہت شاندار طریقے سے اصلاح کردی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری صورتوں میں یہ عظیم قرآنی اصول لاگو ہوتا ہے‘ جس میں فرمایا گیا: وَاْتُوا الْـبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا ’’اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو‘‘۔ جو شخص اس ضمن میں علماء کرام کے فرمودات کو تلاش کرے ‘ یااس اصول کو عملاً نافذ کرنے کی صورتوں پر غور کرے تو اُسے بہت ساری صورتیں نظر آئیں گی۔ مثلاً:
(۱) اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا صحیح را ستہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتا ہو‘ اُسے وہی راستہ اپنانا چاہیے جو اُسے منزل تک پہنچا سکے‘ اور یہ کام اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اُس راستے کو نہ اختیار کرے جسے رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔ چنانچہ جو کوئی اللہ کی کسی ایسی شکل میں عبادت کرے جسے اللہ تعالیٰ یا اللہ کے رسولﷺ نے مقرر نہیں کیا تو وہ اپنی منزل پر دروازے کے ذریعے نہیں آیا‘ بلکہ اس نے دین میں بدعت کا راستہ اختیار کیا اور اس کی ساری محنت مردود قرار پائی۔
(۲)لفظ اور معنی ٰکے عموم سے یہ بات لی جاسکتی ہے کہ ہر اہم کام کے لیے ضروری ہے کہ اس کے صحیح دروازے سے آیا جائے‘ اور اس تک پہنچنے کا یہی سب سے قریبی راستہ اور طریقہ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اسباب و وسائل کے بارے میں اچھی طرح علم ہو‘ تاکہ طالب ِ  منزل اچھے ‘ قریب ترین ‘ آسان ترین اور جلد کامیابی تک پہنچانے والے راستے کا انتخاب کرے۔ اور اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ معاملہ علمی ہے یا عملی‘ دینی ہے یا دنیاوی‘ اُس کا اپناذاتی معاملہ ہے یا دوسرے بھی اس میں شریک ہیں۔ اور یہی حکمت کا تقاضا ہے۔
(۳)علم ِ شرعی حاصل کرنا مقصود ہویا دنیوی علم حاصل کرنا ہو۔ اور یہی معاملہ رزق کمانے کا ہے۔ چنانچہ جو کوئی صحیح راہ پر چلا‘ محنت سے کام کیا‘ صحیح دروازے سے داخل ہوا اور منزل تک پہنچانے والے راستے کو اختیار کیا‘ یقیناوہ کامیاب وکامران ہو گا اور اپنی منزل پالے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِہَا ’’

اور گھروں کو ان کے دروازوں سے آؤ‘‘۔ اور جس قدر مطلوبہ کام اہم ہو گا اسی قدر اس اصول کی ضرورت زیادہ ہو گی‘ اور ضروری ہو گا کہ منزلِ مقصود کو پانے کے لیے سب سے زیادہ صحیح اور سیدھے راستے کو اپنایا جائے۔
(۴)اس قرآنی اصول پر عمل کرنے کی ایک شکل لوگوں سے بات کرنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ آیت کریمہ ہماری راہنمائی کر رہی ہے کہ مؤمن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات کرنے میں مناسب طریقہ اختیار کرے ‘مناسب موضوع کا انتخاب کرے جس کا بیان کرنا اچھا ہو ‘ مناسب وقت کا انتخاب کرے‘ جس شخص یا جن لوگوں کے سامنے بات کرنی ہے ان کے مرتبے کا دھیان رہے۔ کیونکہ ہر جگہ کے لحاظ سے بات کا انداز اپنا ہوتا ہے‘ ہر موقع کے لحاظ سے گفتگو ہوتی ہے ‘ اور ہرکام کا ایک مقام ہوتا ہے۔لہٰذا جو شخص علم یا مقام کے اعتبار سے کسی بڑی شخصیت سے گفتگوکرے تو اُس سے اِس طرح بات نہ کرے جس طرح عام آدمیوں سے بات کرتا ہے۔اس سلسلے میں فیصلہ کن چیز حکمت ودانائی ہے اور جس کو حکمت ودانائی عطا ہو گئی اُسے بہت بڑی خیر مل گئی۔
(۵)اس قرآنی قاعدے پر عمل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ معاشرتی اور خاندانی مشکلات ومسائل حل کرنے کے لیے مناسب طریقے اپنائے جائیں۔ جانچ پڑتال اور غور وفکر کے بعد مشکلات کا مناسب حل نکالا جائے ‘ اس آیت کریمہ نے ان تمام باتوں کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے۔جس کسی نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی اس کی مشکلات بڑھ گئیں اور ان کا حل بھی مشکل ہو گیا۔
ہر حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہر قسم کی مشکلات اورپریشانیوں میں قرآنِ حکیم اور سنت ِرسول اللہ ﷺ سے راہنمائی حاصل کریں اور اس بات پر مکمل یقین رکھیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا ہے:

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ(الاسراء: ۹)

’’بلاشبہ یہ قرآن سب سے زیادہ سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے‘‘۔اور یہ راہنمائی ہر کام میں ملتی ہے۔ عقائد میں ‘ حلال وحرام کے احکام میں ‘معاشرتی‘ اقتصادی اورسیاسی مسائل میں۔ لیکن اصل کوتاہی ہمارے اپنے اندر ہے کہ ہم مشکلات میں اپنے رب کی کتاب سے راہنمائی حاصل کرنے میں سستی وکوتاہی کا شکار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں اپنی کتاب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے‘ اس کی راہنمائی پر عمل کرنے کی تو فیق دے ‘اور اس کے نور سے روشنی حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!
۔۔۔

باب الاسلام میں قبول اسلام جرم کیوں ؟

اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ نہیں پایا جاتاجواحترام انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی بنیادامورِدین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

 لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( البقرة:256)

’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جوکوئی معبودانِ باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا :  لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے۔‘‘(الکافرون6)
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ رسول اکرم ﷺکے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے

:أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَهُ، أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ، أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ، فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (سنن ابی داؤد كتاب الخراج والإمارة والفيء باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات صححہ الشیخ الألباني رحمہ اللہ)

’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
ایک دفعہ سیدناعمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا

:متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا’’

تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔ (حسام الدين، کنز العمال2/455)
اسلام رب واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا

:اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ( النحل: 125)

’’(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔‘‘
پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا ملک ہےجس کی تحریک آزادی میں زور وشور سے لگنے والا نعرہ پاکستان کا مطلب کیا ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ تھا اور آج 69 سال بعد بھی اس نعرے کی تازگی برقرار ہے ۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ شق موجود ہے کہ اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا اس کے باوجود ایسا قانون لانے کی کوشش کی جاری ہے جو کہ اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہےجس کو بظاہرتو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا نام دیاگیا ہے لیکن پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں دراصل ہمارے حکمران مغرب کی نظر میں پسندیدہ بننے کے لیے اور سندھ کے برہمنوں کوخوش کرنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔مغرب کے ایجنڈے کے تحت مادرپدر ںآزاد اقدار کو پاکستانی معاشرے میں فروغ دینے کے لیے دن رات ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے اور اب اسلام قبول کرنے کے لیے شرائط عائد کی جارہی ہیں ۔ اٹھارہ برس سے کم عمر کے افراد اپنی مرضی سے مذہب تبدیل نہیں کرسکیں گے بالغ افراد بھی مذہب تبدیل کرنے کے بعد اکیس روز تک سرکاری تحویل(سیف ہاؤس) میں رہیں گے اور اس کے بعد ہی اعلان کر سکیں گے اس دوران انہیں اپنی رائے پر نظر ثانی کا موقع دیا جائے گا۔ جبکہ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی پابندی ثابت نہیں بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسی ایسی مثالیں جا بجا ملتی ہیں کہ نو عمر بچے بھی اسلام قبول کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس میں سرفہرست سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہے جنہوں نے آٹھ سال کی عمر میں اسلام کیا تھااس کے علاوہ ایک اور یہودی بچے کے اسلام قبول کرنے کی مثال بھی ملتی

ہے ۔

عَنْ أَنَسٍ ـ رضى الله عنه ـ قَالَ كَانَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ ‏”‏ أَسْلِمْ ‏”‏‏.‏ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهْوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وسلم‏.‏ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم وَهْوَ يَقُولُ ‏”‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ ‏”‏‏(صحيح البخاري كتاب الجنائز باب إذا اسلم الصبي فمات هل يصلى عليه … رقم الحديث:1356)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا ، ایک دن وہ بیمار ہو گیا ۔ آپﷺ اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا ، باپ وہیں موجود تھا ۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسمﷺ جو کچھ کہتے ہیں مان لے ۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا ۔ جب رسول اکرمﷺ باہر نکلے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا ۔
بعض سینئر وکلا اور قانون دانوں نے اس بل کو غیر آئینی اور مضحکہ خیر قرار دیتے ہوئے عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بل انتہائی پیچیدہ،غیر جمہوری اور آئین سے متصادم ہے۔ قبول اسلام پر پابندیاں لگانے والوں نے اس نکتے پر غور ہی نہیں کیا کہ اگر کسی خاندان نے اسلام قبول کیا تو ان بچوں کا کیا بنے گا جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہوں گی؟ کیا مسلم والدین کے بچے اٹھارہ برس ہونے تک غیر مسلم ہی شمار ہوں گے۔ اس دوران اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اس کی آخری رسومات کس طرح ادا کی جائیں گی؟ اگر والدین کا انتقال ہوجائے تو کیا غیر مسلم بچے مسلم ماں باپ کی میراث میں حصہ پائیں گے یا انہیں محروم قرار دے کر جائیداد دور کے رشتہ داروں میں تقسیم کی جائے گی؟ پھر بعض بچے طبی بنیادوں پر اٹھارہ برس میں بھی بالغ قرار نہیں پاتے تو کیا وہ ساری زندگی اسلام قبول کرنے کے حق سے محروم رہیں گے؟ عجیب بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو خود کو سیکولر جماعت کہلاتی ہے اور سیکولر عناصر کی تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ مذہب فرد کا خالص نجی اور ذاتی معاملہ ہے پھر تو اس پر ریاست اور حکومت کو کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے مگر اس کے باوجود پی پی کی صوبائی حکومت اسے پابندیوں میں کیوں جکڑ رہی ہے۔برصغیر میں سندھ کو باب الاسلام (اسلام کا دروزاہ) ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہاں پہلی صدی ہجری میں ہی محمد بن قاسم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی پہنچی تھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی عمر سترہ سال تھی پھر تحریک آزادی کے دوران بھی سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے دو قومی نظریئے کے تحت پاکستان کی قرار داد پاس کی تھی۔اب اسی سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دو قومی نظریئے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قبول اسلام پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ہندوارکان اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ اس بل کے خلاف کسی مسلمان رکن کو بھی آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ سب نے متفقہ طور پر اسے منظور کر لیا اسلام کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کولبرل اور سکولر بنانے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ ہماری نظرمیں جن اسمبلی ممبران نے یہ قانون منظور کیا ہے انہوں نے اپنی عاقبت کی بربادی کا سامان کیا ہے ان پر لازم ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں اور اپنی غلطی کا ازالہ کریں۔ گورنر سندھ جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قانون کی توثیق نہ کریں اور اسے نظر ثانی اور قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے واپس اسمبلی کو بھیجیں، کیونکہ یہ ایکٹ آزادیٔ مذہب اور حقوق انسانی کے بھی منافی ہے اپنے مذہب کے اظہار کے لیے کسی پر قانونی پابندی عائد کرنا شریعت اسلامی اور پاکستان کے آئین کے خلاف ہے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک جبراً مسلمان بنانے پر تعزیری سزا مقرر کرنے کا تعلق ہے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن رہا یہ سوال کہ آیا کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے طے کرناعدالت کا کام ہے یہ کسی انتظامی افسر کادائرۂ اختیار نہیں ہے عدالت میں کسی بھی الزام کے ثبوت کے لیے اقرار یا شہادت یا عدالت کے نزدیک قابل قبول قرائن وشواہد کا پیش کرنا ضروری ہوتا یہ بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔
مرحباً جنرل قمر جاوید باجوہ :
پاکستان فوج کے نئے سپہ سالار پاک آرمی کے 16ویں آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف آف جنرل اسٹاف جناب جنرل زبیر محمود حیات کو اپنی اور ادارہ کی طرف سےدل کی گہرائیوں سے مبارک مباد اور نیک خواہشات کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔
جس طرح جنرل راحیل شریف نے بھارت کی لاکھ سازشوں اور پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی تمام کاوشوں کو جس شجاعت اور اعلیٰ ترین حکمت عملی کے نتیجہ میں بھارتی اور دیگر دشمنوں کی تمام تر کاوشوں کو خاک میں ملاکر اپریشن ضرب عضب اور سی پیک(پاک چائنہ اکنامک کو ریڈور) آپریشنل بنانے میں کامیابی حاصل کی اوراب ہم جنرل قمر باجوہ سے بھی امید رکھتے ہیں کہ وہ تمام آپریشنز کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریںگے ویسے بھی ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ بھی جنگی تربیت ومہارت کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں اور لائن آف کنٹرول سمیت کشمیر کے بارے مکمل آگاہی رکھتے ہیں دشمن پر ان کی دھاک کے علاوہ پاکستان کے اندر بھی باخبر حلقے اندرونی اور بیرونی ایجنٹوں کے لیے جنرل قمر جاوید باجوہ کو سخت گیر فوجی کمانڈر تصور کرتے ہیں ہم ان کی کامیابی کے لیے اللہ رب العالمین سے دعا گو ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اسلام ، ملک وقوم کا حقیقی محافظ بنائے۔ آمین یا رب العالمین

قانون کو پھانسی

عدلیہ ریاست کا اہم ترین ستون ہے کیونکر عدالت ہی وہ حقیقت ہے جس پر کائنات کا نظام حیات قائم ودائم ہے عدل کے بغیر نظام زندگی قائم رکھنا نا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے دنیا میں زمین وآسمان کے بعدتمام چھوٹے بڑے ستارےاور سیارےحتی کہ تمام ذرات میںعدالت کا ر فرما ہے اگر یہ عدل وتوازن ذرا سا بھی بگڑجائے تو نظام کائنات تہہ وبالا ہوجائے گا ۔ بل الانسان علی نفسہ بصیرہ کے تحت انسانی جسم اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کے نظام توازن وعدل کی بہترین مثال ہے۔
بدنِ انسان کے نظام توازن میں خلل پیدا ہونے سے انسان بے شمار مہلک امراض کا شکار ہوجاتاہے ایسے ہی کانئات کا نظام قمری اور شمسی توازن اور عدالت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو پورا نظام حیات،معاشرتی،سماجی اور سیاسی نظام عدالت وتوازن کے بغیر کیسے کامیاب ہوسکتاہےلہٰذا پُر امن معاشرے کے قیام کے لیے پُر سکون انسانی زندگی کے لیے دنیا وآخرت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نظام زندگی بھی عدالت وتوازن کے مستحکم ستونوں پر قائم ہو، تاکہ بدامنی،بے سکونی اور تباہی وبربادی سے محفوظ رہ سکے اسی ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام ورسل علیہم السلام کو مبعوث فرما کر اپنی مخصوص راہنمائی اور ہدایت کا انتظام کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کی بعثت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَرُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ ۭاِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ (الحدید:25)

یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (ترازو) نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت اور قوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں اور اس لئے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بےدیکھے کون کرتا ہے بیشک اللہ قوت والا زبردست ہے۔
مزید فرمایا :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلّٰهِ شُهَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ ۡ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدۃ : 8)

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
جبکہ ہم تو مسلمان ہیں ہمارا اللہ کی عدالت پر پختہ یقین بلکہ اس کے بغیر ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہوسکتا اور ہمیں حکم بھی ہے ۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ (البقرۃ : 48)

اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ شفاعت اور نہ سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کیے جائیں گے۔
ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمے دار اور جوابدہ ہوگا اس کا کوئی وزیر،مشیر اور وکیل نہیں ہوگا اللہ چاہے تو اپنے حقوق معاف کر دے گا مگر حقوق العباد میں کوتاہی کبھی معاف نہیں کرے گا۔اسلام تو پوری دنیا میں عدل وانصاف کا نظام قائم کرنے کے لیے آیا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پرحاصل کیاگیاہے اس میں عدل وانصاف کا بول بالا ہونا چاہیے تھا مگر یہاں پر غیروں کا قانون نافذ ہے اور وہ بھی زبوحالی کا شکار ہے جس کی واضح مثالیں پاکستانی نظام عدل میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہ اتنا مہنگا اور پیچیدہ ہے کہ اس نظام کو بیلنے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ہمارا عدالتی نظام بیلنا ہے اس کے دروازے پر قدم رکھنے والے ہر شخص کا وہ حال کرتا ہے جو بیلنا گنے کے ساتھ کرتاہے یہ مظلوموںکا پھوک تک نچوڑلیتاہے گھر بار جاندار سب کچھ بِک جاتاہے کیونکہ مقدمہ کے اخراجات،وکیلوں کی فیسیں ، عدالتی عملے کی بخشش وغیرہ اور انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔پاکستانی نظام عدل کی زبوں حالی کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی مثال پیش کرتے ہیں جوکہ ڈاکٹر توصیف احمد خان کے کالم سے ماخوذ ہے۔

قانونی نظام کی زبوں حالی کا ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ سپریم کورٹ سے بری 2 بھائیوں کو ایک سال پہلے پھانسی ہوچکی تھانہ صدر صادق آباد رحیم یار خان کی حدود میں گاؤں رانجھے میں عبد القادر اور اس کے بیٹے کے قتل کے بعد بیٹی سلمیٰ کو بھی قتل کردیاگیا تھا۔ ملزمان غلام فرید کو دوبار قید،غلام قادر اور غلام سرور کو ٹرائل کورٹ سے 3، 3 بار سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ کے جسٹس راجہ فیاض اور جسٹس فیاض پرویز نے 10 جون 2010 کو عبد القادر اور اکمل کی حد تک سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا جب کہ سلمیٰ کے معاملے پر اپیل باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی نقول ہائی کورٹ ، وزارت داخلہ اور محکمہ داخلہ پنجاب کو ارسال کر دی گئی تھیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں فل بینچ نے 6 اکتوبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں کے بیانات میں تضادات کی بنا پر غلام قادر اور غلام سرور کو بری کر دیا مگر پتہ چلا کہ ان دو افراد کو 13 اکتوبر 2015ء کو ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان میں پھانسی دیدی گئی تھی۔ غلام قادر اور غلام سرور اپنی رہائی کا فیصلہ سننے کے لیے اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ان کے لواحقین انصاف کے حصول کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔
گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے قتل کے ایک ملزم جمیل کی رہائی کا حکم دیاتھا۔ جمیل 19 سال جیل میں رہنے کے بعد دو سال قبل جہلم جیل میں انتقال کرگیا تھا جمیل کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے والے اس کے والد اور چچا بھی یہ خوش خبری سننے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے۔ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ صرف غلام قادر، غلام سرور اور جمیل ہی اس نظام کا شکار نہیں ہوئے بلکہ کئی اور غریب بھی بے گناہ ہونے کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیے گئے یا جیلوں کی سزائے موت کی کھولی میں مرگئے۔ وکلاء اس پورے معاملے کو عدالتی نظام اور سزائے موت پر جلدی عملدرآمد کو قرار دیتے ہیں۔ کراچی میں طویل عرصہ سے سرکاری وکیل کے فرائض انجام دینے والے شاہد علی ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان دو افراد کی سزائے موت کو غیر سنجیدگی،نااہلی اور انسانی جان کو اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال قرار دیاجاسکتاہے۔
تعزیراتِ پاکستان کے تحت قتل کی دفعات کے ملزمان کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں چلتاہے پھر ملزمان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوتاہے اگر کوئی ملزم اپیل کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا تو جیل سپرنٹنڈنٹ ملزمان کی عرض داشت متعلقہ ہائی کورٹ میں بھجواتا ہے ہائی کورٹ کے فیصلے تک سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوتا اگر ہائی کورٹ میں سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا جائے تو ملزم کو سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہوتاہے اگر سپریم کورٹ بھی ملزم کی اپیل مسترد کر دے تو مجرم صدر پاکستان کو اپیل کرنے کا حق ہوتاہے۔جب صدر پاکستان مجرم کی اپیل مسترد کردیتے ہیں تو وزارتِ قانون اس کی اطلاع صوبائی محکمہ داخلہ اور ٹرائل کورٹ کو دیتاہے پھر ٹرائل کورٹ کا جج ملازم کو ریڈ وارنٹ جاری کرتاہے اور متعلقہ جیل کے سپریٹنڈنٹ کو خط لکھتا ہے کہ مجرم کو سزائے موت دینے کی تاریخ طے کی جائے اور قریبی رشتے داروں سے آخری ملاقات کا اہتمام کیاجائے۔ جیل سپریٹنڈنٹ مجرم کو اپنی وصیت لکھنے کا مشورہ دیتا ہے اور مجرم کی آخری خواہش معلوم کی جاتی ہے پھر مجرم کو رات کے آخری پہر تختہ دار پر لٹکا کر پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچا جاتاہے مجرم کے گلے میں پھندا ڈالنے اور پھانسی گہاٹ کا لیور کھینچنے کے لیے ایک علیحدہ شخص کو ملازم رکھا جاتاہے۔ شاہد علی کا کہنا ہے کہ ان بدقسمت ملزمان کو سزائے موت دینے کے لیے اس طریقہ کار پر عملدرآمد نہیں ہوا۔شاید سپریم کورٹ کا پھانسی کی سزا معطل کرنے کا حکم متعلقہ دفاتر تک نہیں پہنچایا متعلقہ افسران نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں پڑھا۔ پھر اس بات کا بھی امکان ہے کہ ملزمان کے وکلاء اور جیل سپریٹنڈنٹ نے ان بدقسمت افراد کو صدرسے رحم کی اپیل بھیجنے کا مشورہ نہیں دیا اگرچہ دونوں افراد ناخواندہ تھے تو ان کے وکیل اور جیل سپریٹنڈنٹ کو یہ اپیل صدر کو بھجوانی چاہیے تھی۔ پھر ہر ڈسٹرکٹ جج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ضلع کی جیلوں کا معائنہ کرے۔ ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ متعلقہ مجسٹرینوں کی بھی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ جیل کے دورے کے دوران قیدوں کی مشکلات کا جائزہ لیں اور جیل حکام کو مسائل کے حل کا پابند کریں پھر جن ملزموں کے مقدمات طویل عرصے سے زیر التواء ہوتے ہیں ان کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے جن کی وجہ سے یہ مقدمات طویل عرصے سے زیر التواء ہیں۔ اسی طرح پھانسی پانے والے مجرموں کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو عرض داشتیں بھجوانے کو یقینی بنانے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر کو رحم کی اپیل بھیجنے کے لیے متعلقہ عملے کو پابند کیا جائے ۔ڈسٹرکٹ جج صاحبان جیلوں کی صورتحال کے بارے میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو رپورٹ دینے کے پابند ہوتے ہیں۔
غلام قادر،غلام سروراور جمیل کے مقدمات میں ثابت ہوگیا کہ سزائے موت پر عملدرآمد کے بعد باعزت بری ہونے کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے سے فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ ان بےگناہ افراد کی پھانسی کے بعد سپریم کورٹ کو پورے عدالتی نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو سزائے موت پر عملدرآمد کے بارے میں خود حقائق کا جائزہ لیناچاہیے۔ غلام قادر اور غلام سرور کے سزائے موت کے ذمے دار افراد کا محاسبہ ہونا چاہیے اورانصاف کے حصول میں رکاوٹوں کا خاتمہ ہونا بھی بہت ضروری ہے ہے۔

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں 10

اکیسواں اصول:

یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ:119)

’’اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
یہ اصول اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ کرنے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں بہت مضبوط اصول ہے ‘ زندگی کی کامیا بیوں کا راز ہے اورمعاشرتی زندگی کاایک بڑا حصہ ہےاور جو کوئی اس سچائی کے راستے پر چل نکلے ‘اس کے لیے خیروبرکت کی نشانی ‘ بلندہمتی کی دلیل اور کمالِ عقل کی پہچان ہے۔
جب نبی اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ کرام لمبے عرصے تک جہاد کر چکے اور دین کی خدمت اور اس کے تحفظ کی خاطر بڑی بڑی آزمائشوں سے گزر چکے ‘توآخر میں یہ محکم اصول بیان ہوا۔ یہ اصول سورۃ التوبہ کے آخر میں نازل ہوا ہے جو کہ تقریبا ًآخری زمانے کی وحی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْم بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہٗ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ وَّعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاحَتّٰیٓ اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلآَّ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْااِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (التوبۃ117۔119)

’’اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین وانصار کے حال پر بھی ‘ جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا‘ پھر اللہ نے ان کے حال پرتوجہ فرمائی بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔ اور (اللہ نے توجہ فرمائی) تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا‘ یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اُسی سے رجوع کیا جائے۔ پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی ‘ تاکہ وہ آئندہ بھی توجہ کر سکیں۔بے شک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا‘ بڑا رحم والا ہے۔اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
جس پس منظر میں یہ اصول بیان ہوا ہے اور جو پیغام یہ لے کر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ ‘آپ کے صحابہ کرام yاور بالخصوص ان تین حضرات( جن کے فیصلے کو مؤخر کر دیا گیا تھا) پر نظر رحمت فرمائی ہے‘ یہی حضرات سچے لوگوں کے امام ہیں‘ لہٰذا تم ان کی پیروی کرو۔ان آیات کے بعد اس قرآنی اصول: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْن’’اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ کے آنے کے معاملے پر جب تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ’’سچائی‘‘ کا معنیٰ ومفہوم صرف زبانی اقوال کی سچائی ہی نہیں ہوا کرتا‘ بلکہ اس کا معنیٰ زیادہ وسیع ہے‘ اور اقوال ‘افعال اور کردار کی سچائی کو شامل ہے ‘ جس کو ہمارے نبی کریمﷺ نے اپنی ساری زندگی میں اپنا کر دکھایا ہے‘ نبی بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔
نبی اکرمﷺ کا کردار یہ تھا کہ آپ سچے‘ زبان کی حفاظت کرنے والے‘ معاملات میں امین‘ وعدہ وفا کرنے والے‘ اور معاہدے کی پاسداری کرنے والے تھے۔ اسی لیے نبوت ملنے سے پہلے بھی آپ کا لقب صادق وامین تھا اور آپﷺ کا یہی کردار بہت سارے عقلمند مشرکوں کے ایمان کا سبب بنا گویا وہ زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ :’’ جو آدمی کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا‘ کیسے ممکن
ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے گا!‘‘
بہت سارے لوگ جب اس قرآنی اصول کو سنتے ہیں:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرواور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ تو ان کا ذہن گفتگو میں سچائی کی طرف جاتا ہے۔ درحقیقت یہ اس اصول کو سمجھنے میں کوتاہی ہے اگر انسان اس اصول کا سیاق وسباق سمجھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ قاعدہ زندگی کے ہر کردار کو شامل ہے ‘اس (صداقت) میں اقوال ‘افعال اور عام کردارسب شامل ہیں۔
سچ بولنے کے بہت سارے فائدے اور اچھے نتائج ہیں۔یہ عقلمندی کی دلیل ہے ‘نیزحسن ِ سیرت اور دل کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ سچائی کے یہی فوائد بہت کافی ہیں کہ انسان جھوٹ کی ناپاکی‘ خودداری کی کمی اور منافقوں کی مشابہت سے بچا رہتا ہے۔ نیز سچائی کے ذریعے عزت ‘بہادری‘ معاشرے میں مقام‘ عزتِ نفس اوروقار کی زندگی گزارتا ہے۔
جن تین صحابہ کرامyکے فیصلے کو ایک وقت تک مؤخر کردیا گیا تھا‘ جو آدمی ان کے انجام پر غور کرتا ہے اسے سچائی کی مٹھاس اور جھوٹ کی کڑواہٹ کا علم ہو جاتا ہے‘ خواہ یہ نتیجہ ایک وقت کے بعد ہی ظاہر ہو۔ اور جو آدمی ان آیات پر غور کرتا ہے جن میں سچائی کی تعریف کی گئی ہے اور سچوں کی مدح کی گئی ہے ‘اسے انتہائی دل پسند نتائج ملتے ہیں۔چنانچہ سچا آدمی انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کے راستے پر چل رہا ہوتا ہے ‘ جن کی اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں تعریف فرمائی ہے‘ کہ وہ اپنے وعدے اور گفتگو میں سچے تھے۔
سچے آدمی کے ساتھ ہمیشہ تعاون ہواہے اور اُس کی مدد کی گئی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس کی خاطر ایسی جگہ سے ایسے اسباب پیداکردیے ہیں جن کا اس کوگمان نہ تھا ‘بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا مخالف ہی اس کی طرف سے دفاع کرنے والابن جائے۔ جیسا کہ مصر کے بادشاہ کی بیوی نے سیدنایوسف علیہ السلام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا: { اَلْئٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا

رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ} (یوسف) ’

’اب تو سچی بات نتھر آئی ہے‘ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا اس کے جی سے اور یقینا وہ سچوں میں سے ہے۔‘‘
اور سچا انسان اس راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو اسے جنت تک پہنچا دیتا ہے۔ کیا یہ بات اللہ کے رسولﷺ نے نہیں فرمائی :

((عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ، فَاِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِیْ اِلَی الْبِرِّ، وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ، وَمَا یَزَالَ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا)) (صحیح البخاری ؍5743 وصحیح مسلم ؍2407 )

’’سچائی کو اپنا شیوہ بنا لو‘ بلاشبہ سچائی انسان کو نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ انسان مستقل سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ‘ بالآخر اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’صدیق‘‘ (بہت زیادہ سچا) لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑی حاضری کے دن صرف سچے لوگ ہی نجات پا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قَالَ اللّٰہُ ہٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُہُمْ لَـہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (المائدۃ 119)

’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گاکہ یہ وہ دن ہے کہ جو لوگ سچے تھے ان کا سچا ہونا ان کے کام آئے گا۔ اُن کو باغ ملیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘ جن میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور خوش اور یہ اللہ سے راضی اور خوش ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور سچے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کے حقدار ہوں گے اور اُس اجر وثواب کے حقدار ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے تیار کیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب35)

’’بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ‘ مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں‘ فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں ‘راست باز مرد اور راست باز عورتیں‘صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں‘ خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ‘ روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں ‘اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں‘ بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘ ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا حقائق کے باوجود ‘ انتہائی افسوسناک اور دردناک بات یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں اس قرآنی اصول: یٰاَیُّہَا

الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ

’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو‘‘ کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں۔ لوگ اپنی گفتگو میں کس قدر جھوٹ بولتے ہیں‘ کس قدر وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں ‘ اور کتنے ہی لوگ معاہدے کو توڑ دیتے ہیںاور مسلمانوں میں ہی وہ لوگ ہیں جو رشوت کا لین دین کرتے ہیں ‘ اور اس طرح جو منصب دے کر انہیں امین بنایا گیا تھا اس میں خیانت کرتے ہیں ‘اور وہ بھی مسلمان ہی ہیں جومعاہدوں اور سرکاری دستاویزات کے اندر ردّ وبدل کردیتے ہیں۔ اور بھی ہیر پھیر کی بہت سی شکلیں موجود ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے کردار نے اسلام کے چمکدار چہرے کو دھندلا دیا ہے ‘جبکہ اسلام کا تو سارا نظام ہی سچائی کی بنیاد پر قائم ہے۔
اے کاش !یہ لوگ اس واقعے پر ہی غور کر لیتے جو اسلام قبول کرنے سے پہلے ابو سفیان کے ساتھ پیش آیا جبکہ وہ شام کی سرزمین میں تھے۔ ہوا یوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہرقل کے نام خط آیا تو ہرقل نے پوچھا: ’’کیا یہاں اُس شخص کی قوم کا کوئی آدمی موجود ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہے؟‘‘ حاضرین نے کہا کہ ہاں موجود ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں:مجھے دوسرے قریشیوں کے ہمراہ دربار میں طلب کیا گیا‘ چنانچہ ہم ہرقل کے پاس آگئے‘ اور ہمیں اس کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ ہرقل نے پوچھا: ’’تم میں سے کون آدمی نسب کے لحاظ سے اُس شخص کا قریبی رشتہ دار ہے جونبوت کا دعویدار ہے؟‘‘ ابو سفیان نے کہا: ’’میں‘‘ تو انہوں نے مجھے ہرقل کے بالکل سامنے لا بٹھایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ پھر اُس نے مترجم کو بلا لیا۔ ہرقل نے مترجم سے کہا: ’’ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اُس شخص کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو نبوت کا دعویدار ہے‘ اگر یہ (ابوسفیان) میرے سامنے جھوٹ بولے تو تم لوگ اس کی تردید کرنا ابو سفیان نے کہا: ’’قسم بخدا! اگر مجھے اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ جھوٹ بولنا میرے شخصی وقار کے خلاف ہے تو میں جھوٹ بول دیتا۔‘‘
اے میرے مسلمان بھائی! ذرا غور تو کرو ‘وہ آدمی جو اُس وقت تک مشرک تھا‘ کس طرح جھوٹ سے دور بھاگ رہا ہے‘اس لیے کہ وہ جھوٹ بولنے کو برائی اورگالی سمجھتا ہے جوکسی ایسے شخص کے لیے مناسب نہیں جسے سچائی کی عظمت اور جھوٹ کی برائی کا علم ہو۔ یہ عربی جوان کی شرافت تھی جو جھوٹ کو انتہائی برے اخلاق میں شمار کر رہا تھا۔
کہاں یہ اخلاقی عظمت اور کہاں وہ لوگ جو مسلسل جھوٹ بولتے رہتے ہیں؟ بلکہ جھوٹ بولنے کو عام سی بات سمجھتے ہیں۔پھر اسی پر بس نہیں‘ بلکہ جھوٹ بولنے میں کفار کی عادات کورواج دیا ہے۔ جیسا کہ یکم اپریل کا جھوٹ ہے ‘ اور اسے سفید جھوٹ کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ہر قسم کا جھوٹ سیاہ ہی ہوتا ہے۔ ہاں جس جھوٹ کی شریعت نے اجازت دی ہے اس کا حکم دوسرا ہے۔
اے والدین اورمربی حضرات!کیا ہی اچھی بات ہو کہ ہم آئندہ آنے والی نسلوں کی تربیت سچ جیسے عظیم اخلاق پر کریں اورجھوٹ سے انہیں نفرت ہو اور ہم خود بھی اس کی بہترین زندہ مثال بنیں جسے ہماری آنے والی نسلیں کھلی آنکھ سے دیکھیں۔
۔۔۔۔

صفر المظفراور نحوست کا مسئلہ

خرافات میں کھو گئی!

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیںاور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے ‘صفر المظفر کہا جاتا ہے۔
صفر کے متعلق قدیم خیالات
قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا تھا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینہ شروع ہو جاتا، جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ ماہ صفر کے بارے عجیب عجیب خیالات رکھتے تھے۔
شیخ علیم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشهور في أسماء الأیام والشهورمیں لکھا ہے:
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً اُن کے (اہل عرب) گھر خالی رہتے تھے اور وہ لڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے، جب مکان خالی ہوجاتے تو عرب کہتے تھے: صَفَرَ المَکَانُمکان خالی ہوگیا۔
الغرض آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی عوام الناس ماہِ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ اسی قدیم جاہلیت وجہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانۂ جاہلیت جیسی خرافات موجود ہیں۔

صفر کے متعلق جدید خیالات

برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتاہے۔ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ اس مہینے سے بدشگونی لیتے ہیں اور اس کو خیر و برکت سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے۔ اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔
ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرمﷺ نے اس حدیث میں فرمائی:

لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ

” (اللہ کی مشیت کے بغیر) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست (یا روح کی پکار) اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔”(صحیح بخاری:8707)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں نفی اورنہی دونوں معانی صحیح ہوسکتے ہیں لیکن نفی کے معنی اپنے اندر زیادہ بلاغت رکھتے ہیں کیوں کہ نفی “طیرہ” (نحوست) اور اس کی اثر انگیزی دونوں کا بطلان کرتی ہے، اس کے برعکس نہی صرف ممانعت دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث سے ان تمام اُمور کا بطلان مقصود ہے جو اہل جاہلیت قبل از اسلام کیا کرتے تھے۔ (قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اس حدیث میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیّر(بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں۔(قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
امام ابوداؤدرحمہ اللہ محمد بن راشد سے نقل کرتے ہیں:
اہل جاہلیت یعنی مشرکین ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، لہٰذا اس”لَا صَفَرَ”حدیث میں ان کے اس عقیدہ اور قول کی تردید کی گئی ہے۔ (قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ نے اُن کے اس نظریے کو باطل قرار دیا۔(لطائف المعارف: ص147)
ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ مثلاً ہندؤوں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعین کرنے کے لیے پنڈتوں سے پوچھا جاتا ہے۔ وہ اگر رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کردے تو اُسی وقت شادی کی جاتی ہے، اس سے آگے پیچھے شادی کرنا بدفالی سمجھا جاتاہے ۔ آج یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں دَر آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تاریخوں کو جو منحوس سمجھا جاتا ہے تو یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں۔ کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے اور اس چیز سے نبی نے ان الفاظ میں روک دیا ہے:

قَالَ الله تَعَالىٰ: یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّهر وَأنَا الدَّهْرُ، بَیِدِيَ الْأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو گالی دینا ہے حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں۔‘‘(سنن ابوداود:5274)
معلوم یہ ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی کو عیب دار ٹھہرانا خالق و مالک کی کاری گری میں در حقیقت عیب نکالنا ہے۔
نحوست کی نفی کرنے والے، بغیر حساب جنت میں
اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے لوگوں کے بارے میں رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
مجھے میری اُمت کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے، ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو پہلے جنت میں جائیں گے، ان پر کوئی حساب اور عذاب نہیں ہوگا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ یہ کس وجہ سے بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے؟ تو جبریل نے جواب دیا:

کَانُوْا لَا یَکْتَوُوْنَ وَلَا یَسَتَرَقُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (صحیح بخاری:6175)

(ان کی صفت یہ ہے کہ) وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں، نہ ہی دم کرواتے ہیں، نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے تھے۔
مندرجہ بالا حادیث میں بلا حساب جنت میں جانے والے لوگوں کے اوصاف کا ذکر ہے، ان میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور ان میں توکل کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمانِ اقدس ہے:

الطِّیَرَةُ ِشركٌ، الطِّیَرَةُ شِرْكٌ(مسند احمد: 4؍410)

کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے۔
قرآن میں ہے:
ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَر‌ضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَ‌أَها (سورة الحديد22)
’’ کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے توکل کے بارے فرمایا:

وَاعْلَمْ اَنَّ الْأمَّةَ اجْتَمَعَتْ عَلىٰ أَن یَّنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَإنِ اجْتَمَعُوْكَ عَلىٰ أَن یَّضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ عَلَیْكَ

’’ جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمھیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔‘‘
بدشگونی شرکِ اصغر ہے!
بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ

’’ بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔‘‘ (سنن ابوداوٴد:3910)
جامع ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آپ کا فرمان’’بدشگونی شرک ہے‘‘ یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا) نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی نفع یا نقصان کی مالک ہے تو اسنے شرکِ اکبر کا ارتکاب کیا۔
نبی کریمﷺ نے دوسری جگہ فرمایا:

مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَةُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكَ(مسند احمد: 2؍220)

’’ جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا۔‘‘
لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چُوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ ان احادیث کے مطابق مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔

آخری بدھ کی خرافات

بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرمﷺ اس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی رقم طراز ہیں:
’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن جناب رسول اللہﷺ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی۔ یہودیوں نے خوشی منائی تھی، وہ اب جاہل ہندوٴوں میں رائج ہوگئی ہے۔‘‘(تالیفات رشیدیہ: 154)
فاضل بریلوی احمد رضا خان چہار شنبہ کے بارے لکھتے ہیں:
’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفاتِ مبارک ہوئی اسکی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔‘‘
(احکام شریعت:2؍189)
صفر المظفر اور تیرہ تیزی
مغربی دنیا تیرہ (۱۳) کے عدد کو منحوس سمجھتی ہے، یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں در آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس گمان کیا جاتا ہے۔ ان ابتدائی تیرہ دنوں کو تیرہ تیزہ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی نحوست کو زائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ دین اسلام کے سنہری اوراق ایسے توہمات سے پاک ہیں اور ان دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کر شادی سے رک جانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان تیرہ دنوں میں کثرت سے بلاوٴں، آفتوں اور مصائب کا نزول ہوتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘میں لکھتے ہیں:
’’صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے، یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو۔‘‘(بہشتی زیور، چھٹا حصہ: 59)

علامہ وحید الزمان رقم طراز ہیں:

’’افسوس کہ اب تک ہندوستان کے مسلمان ایسے واہی خیالات میں مبتلا ہیں کسی تاریخ کو منحوس کہتے ہیں، کسی دن کو نامبارک جانتے ہیں، تیرہ تیزی کے صدقے نحوست کو دفع کرنے کے لیے نکالتے ہیں، اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں، سب دن اللہ کے ہیں اور جو اُس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ہونے والا ہے، نجومی اور پنڈت سب جھوٹے ہیں۔‘‘(لغات الحدیث: 2؍605)

صفر المظفر کے چند واقعات

واقعات
سن ہجری
سن عیسوی
غزوہ ابواء،ودان
۲ھ
اگست ۶۲۳ء
واقعہ رجیع
۴ھ
جولائی ۶۲۵ء
واقعہ بئر معونہ
۴ھ
جولائی ۶۲۵ء
سیدنا خالد بن ولید، عمرو بن عاص اورعثمان بن طلحہ کا قبولِ اسلام
۸ھ
جون ۶۲۹ء
سریہ سیدنا قطبہ بن عامر
۸ھ
مئی ۶۳۰ء
وفد بنو عزرہ کا قبول اسلام
۹ھ
مئی ۶۳۰ء
لشکرِسیدنا اُسامہ بن زید کی تیاری
۱۱ھ
مئی ۶۳۲ء
فتح مدائن
۱۶ھ
مارچ ۶۳۷ء
ولادتِ امام ابو القاسم سلمان بن احمد طبرانی
۲۶۰ھ
دسمبر ۸۷۳ھ
ولادتِ امام ابو حفص بن شاہین
۲۹۷ھ
اکتوبر ۹۰۹ء
پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ
۱۳۳۷ھ
نومبر ۱۹۱۸ء
قراردادِ پاکستان
۱۳۵۹ھ
مارچ ۱۹۴۰ء
بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل
۱۴۰۵ھ
اکتوبر ۱۹۸۴ء
یومِ تکبیر، پاکستان کا ایٹمی تجربہ
۱۴۱۹ھ
مئی ۱۹۹۸ء

شمس وقمر کا نظام ’’اللہ‘‘ کی توحیدکا ترجمان

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللہُ ذَلِکَ إِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (یونس:5)

’’وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی والا اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ، تاکہ تم سالوںکی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ اللہ نے ان چیزوںکوبامقصد پیداکیا ہے ۔ وہ اپنی آیات کو ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں۔‘‘
وہی ایک ذات ہے جس نے شمس و قمر اور لیل و نہار بنائے اسی نے سورج کو روشنی دی اورچاند کو چاندنی عطا فرمائی۔ سورج کی روشنی سرخ ، تیز اور گرم ہوتی ہے۔ چاند کی روشنی سفید ٹھنڈی اور پرُ کشش ہوتی ہے۔ جس بنا پر کچھ فصلیں سورج کی تیز روشنی میں اور کچھ فصلیں چاند کی پر کشش روشنی میں پکتی اور تیار ہوتی ہیں۔ دنیا کو دونوں قسم کی روشنی کی ضرورت تھی اور ہے جس کا دائمی انتظام کردیا گیا ہے۔چاند اور سورج دو ہیںلیکن خبر واحد لائی گئی۔ جس میں اشارہ ہے کہ تم چاند کے حساب سے اپنے معاملات طے کرو۔ اسی لیے مسلمانوں کی تقویم(Calendar) کی بنیاد چاند پر رکھی گئی ہے۔ سورج اور چاند کی منازل متعین کیں جن پروہ دن رات سفر کرتے ہیں۔ مسلمان چاند کے آنے جانے کے مطابق اپنی زندگی کا حساب و کتاب اور دینی معاملات چلاتے ہیں جس طرح رمضان کے روزے، حج کی ادائیگی، عیدین کا تعیّن یہ تمام امور شمسی حساب کی بجائے قمری حساب کی بنیاد پر مقرر اور ادا کیے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

’’بے شک اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے جس دن سے ا س نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہی قائم رہنے والا دین ہے‘‘ (التوبہ:۳۶)
جن کے ناموں کی تصریح کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ ذوالقعدہ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب کامہینہ ہے گویا کہ اسلامی سال کا گیارہواں ، بارہواں ، پہلا مہینہ محرم اور ساتواں مہینہ رجب حرمت والے ہیں ۔ یاد رہے کہ اسلامی جنتری اور کیلنڈر قمری حساب پر مرتب ہوتا ہے اور اسلامی عبادات کے شمار اور حساب کا دارومدار بھی چاند کے حساب پر رکھا گیا ہے جب مسلمان سیاسی اعتبار سے دنیا میں غالب تھے تو ان کے حساب و کتاب کا معیار قمری مہینہ ہوا کرتا تھا ۔ لیکن جب سے یہ سیاسی اعتبار سے پسپا ہوئے تو ان کا تہذیب و تمدن اور حساب و کتاب کا شمار اورمعیار بھی پسپائی اختیار کرتا چلا گیا ۔ یہاں تک کہ آج عام مسلمان ہی نہیں بلکہ دینی طبقہ بھی اپنی تقویم کو فراموش کر چکا ہے۔ حالانکہ ہماری زندگی کے لمحات اور ایام شمسی حساب سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قمری حساب پر مشتمل ہیں۔
ایک معمولی عقل رکھنے والا انسان غور کرے تواسے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس نظام کو بنانے اور چلانے والا کوئی نہیںجب چاند اور سورج جیسے عظیم سیارے ،رات اوردن کا تسلسل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قبضہ میں ہے اور وہی رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لاتا ہے ۔کبھی رات طویل تر ہوجاتی ہے اور کبھی دن رات کے وجود کو چھوٹا کردیتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وقت کے اعتبار سے رات اوردن برابر ہوجاتے ہیں۔ اسی
نظام کے مطابق ہی انسان کی زندگی ہے۔ پہلے چھوٹا
ہوتاہے پھرجوان ہو کر بھرپور صلاحیتوں کا پیکر بن جاتا ہے۔ آخر عمر میں بچوں کی طرح کمزور اوردوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی تندرستی اور کبھی بیماری، کبھی خوشحالی اور تنگدستی ہے یہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔ گویا کہ شمس و قمر کا غروب اور طلوع ہونا زندگی اور موت اور مر کر جی اٹھنے کی واضح دلیل ہے۔ یہ اس بات کی بھی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے بعد انہیں زندہ کرنے پر قادرہے اور ان سے حساب لے گا۔

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (نوح:15-16)

’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح تہہ بہ تہہ سات آسمان بنائے ہیں اور ان میں چاند کو روشن اور سورج کو چمکتا ہوا چراغ بنایا ہے۔‘‘
مزید فرمایا :

فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

’’اللہ ہی صبح کو پھاڑ کر نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام کے لیے، سورج اورچاند کو حساب لگانے کاذریعہ بنایا۔ یہ نہایت غالب، سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ ہے۔‘‘(الانعام:۹۶)
جو ذات ’’فالق الاصباح ‘‘ ہے وہی غم اور خوف کے پردے چاک کرتا اور ہرقسم کی مشکلات دور فرما کر اپنے بندے کی حفاظت کرتا ہے۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ انسان اورچوپائے کا بچہ رحمِ مادر اور جانور کا بچہ انڈے کو پھاڑ کر نکلتا ہے، نباتات زمین کے سینے کو چیر کر نکلتی ہیں ،بارش بادلوں کو پھاڑ کر نازل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بھی ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کیا ہے۔ (الانبیاء:۳۰) اور قیامت کے دن مُردے بھی زمین کے پھٹنے سے باہر نکلیں گے۔

وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ} (الانعام:97)

’’اور وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تا کہ تم ان سے بحر و بر کی تاریکیوں میں راستہ پا ئو ہم نے جاننے والوں کے لیے آیات کو کھو ل کر بیان کر دیا ہے ۔‘‘
چاہے انسان پر کائنات کے راز کس قدر منکشف ہو جائیں مگر یہ حقیقت ہر دور میں اپنا آپ منواتی رہے گی کہ انسان کے تیار کردہ آلات جس مقام پر ناکام ہو جائیں وہاں وقت کا پتہ چلانا ، موسموں کا حال معلوم کرنا ،بارش اور آندھی کا اندازہ لگانا بالخصوص رات کے وقت راستے کا تعین کرنا ستاروں سے راہنمائی لیے بغیر ممکن نہیں۔ ستاروں کا علم بہت وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ ہر غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کارخانہ حیات کے پیچھے ایک علیم و بصیرہستی کی قدرت اور حکم کار فرما ہے۔ جو تمام کرّوں کی رفتار اور گردش کا انتظام کرتا ہے اور انھیں آپس کے تصادم سے بچاتا ہے۔ یہ کسی اتفاق کا نتیجہ نہیںبلکہ اس کے پیچھے قادر مطلق کی قدرت کام کر رہی ہے ۔ اسی لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جاننے والوں کے لیے ہم نے آیات کی تفصیل بیان کردی ہے ۔
علم نجوم کے بارے میں صرف ان پڑھ ہی نہیں بلکہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اس بیماری کا اس قدر شکار ہیں کہ پامسٹوں اور علم نجوم جاننے والوں کے پاس جا کر انگوٹھی کا نگینہ ‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ‘ شادی یا کسی تقریب کا دن مقرر کرنے کیلئے مارے مارے پھر تے ہیں‘ تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ان کیلئے کون سے دن اورکس چیز میں برکت رکھی گئی ہے۔ حالانکہ رحمت اور زحمت ‘ برکت اور نحوست صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ انہیں وہی نازل کرتا ہے اور انکے نازل ہونے کے اوقات جانتا ہے۔کوئی چیز اپنی ذات میں نہ منحوس ہو سکتی ہے اور نہ ہی برکت کا سرچشمہ۔ اسلام نے ان توہّمات سے بچنے کے لیے علم نجوم پر اعتقاد رکھنے کو کفر کے مترادف قرار دیا ہے جس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔
’’سیدنا زید بن خالد جہنی tسے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر رات کے وقت بارش ہوئی تو نبی کریم ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد فرمایا : آج کچھ لوگ ابرباراں کی وجہ سے ہدایت یافتہ ٹھہرے اور کچھ لوگ اسی بارش کی وجہ سے گمراہی کے گھاٹ اتر گئے۔ صحابہؓ کے استفسار پر وضاحت فرمائی کہ جن لوگوں نے یہ عقیدہ ٹھہرایا کہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے وہ گمراہ ہو گئے اور جنہوںنے بارش کو اللہ کی رحمت اور فضل قرار دیا وہ ہدایت پر قائم رہے۔‘‘ (صحیح مسلم:بَابُ بَیَانِ کُفْرِ مَنْ قَالَ

مُطِرْنَا بِالنَّوءِ)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم أَنَّہُ قَالَ إِنْ یَکُنْ مِنَ الشُّؤْمِ شَیْئٌ حَقٌّ فَفِی الْفَرَسِ وَالْمَرْأَۃِ وَالدَّارِ (صحیح مسلم: بَابُ الطِّیَرَۃِ وَالْفَأْلِ وَمَا یَکُونُ فِیہِ مِنَ الشُّؤْمِ)

سیدناعبداللہ بن عمر  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے فرمایا :’’ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے ، عورت اور گھر میں ہوتی ۔‘‘ یعنی حقیقی طور پر کسی چیز میں نحوست نہیں ہے۔
ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا پروپیگنڈا ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ ان پڑھ اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ انکی مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کادعوے کرنے والی اقوام نہ صرف جاہلانہ تصورات رکھتی ہیں بلکہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو ان بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے اور ہفتہ کے ایام کے نام بھی ستاروں اور سیاروں پر رکھے ہوئے ہیں :۔
۱۔Sun-day(سورج کا دن)
۲۔Mon-day(چاند کادن ) Moon کا مخفّف ہے۔
۳ ۔Tues-day(مریخ کادن)۔ یہ (Tues) فرانسیسی زبان کے لفظ (Mars)کاترجمہ ہے۔
۴۔Wednes-day(عطارد کا دن) کیونکہ Wednesکا لفظ فرانسیسی لفظMercuryکا ترجمہ ہے۔ اور فرانسیسی زبان میں Mercuaryسیارہ عطارد کو کہا جاتا ہے۔
۵۔Thurs-dayمغربی لغت میں “Thurs” مشتری سیارے کو کہتے ہیں۔ یعنی ’’مشتری کادن‘‘
۶۔Fri-day(زہرہ کا دن)
۷۔Satur-day(زحل کادن) زحل کو انگریزی زبان میں Saturnکہتے ہیں۔
قرآن مجید نے لوگوں کو ان باطل تصورات اور توہّمات سے بچانے کے لیے یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں اور سیاروں کو تمہاری خدمت ، آسمان کی حفاظت اور اس کے حسن و جمال کے لیے پیدا کیا ہے ان کا تمہاری تقدیر اور نفع و نقصان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
’’سیدناابو ہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح چٹان پر کوئی چیز گھسٹنے سے آواز نکلتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بارے میں یوں فرماتے ہیں ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب اُن کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ جو فرمایا حق فرمایا وہ سب سے بلند و بالا ہے۔ شیاطین اس سے چوری چھپے کچھ سُن لیتے ہیں۔ اُن کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بیان کرنے والے راوی سفیانؒ نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے یہ ذکر کیا۔ کئی مرتبہ سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب پڑتا ہے اس سے پہلے کہ وہ اُس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسااوقات شہاب ثاقب اُسے نہیں لگتا۔اس وقت تک وہ شیطان اُسے نیچے والوں تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تابعی ابو سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں اُسے شیاطین جادو گر کے دماغ میں القاء کرتے ہیں ۔ وہ اُس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے، اُس کی ایک سچی بات کی وجہ سے اُس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی؟ جو سچ ثابت ہوئی تھی اس لیے کہ وہ بات اسے شیاطین کے ذریعے آسمان سے پہنچی تھی ۔ ‘‘(رواہ البخاری باب قَوْلِہِ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِينٌ )

وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَا بِیْحَ وَجَعَلْنٰـھَا رُجُوْ مًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ[الملک:3۔5]

’’بے شک ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے خوبصورت بنایا اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے ہم نے شیطانوں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔‘‘

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ مَارِدٍ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ

’’وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور ان چیزوں کا بھی جوان دونوں کے درمیان ہیں اور مشرقوں کا بھی رب ہے۔ بلاشبہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزیّن کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا ۔ وہ عالم بالا کی باتیں نہیں سن سکتے کیوں کہ ان پر ہر طرف سے شہاب پڑتے ہیں تاکہ وہ بھاگ جائیں اور ان کے لیے دائمی سزا ہے۔‘‘
[الصافات: 5۔9]
دوسرے مقام پر قرآن مجید میں یوں ارشاد ہوا:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ

’’او ریقینا ہم نے آسمان میں برج بنائے او راسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے اور اس کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کی ہے جو کوئی سُنی ہوئی بات چرا لے تو ایک بھٹکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔ (الحجر:۱۶-۱۸)
خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے آسمان کو خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے اسے محفوظ کر دیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والوں نے آسمان ِدنیا کے بارہ برج متعین کیے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ بُرج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے ہیں اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بروج سے مراد وہ مقام ہوں جہاں ملائکہ شیاطین پر شہابِ ثاقب پھینکتے ہیں۔اکثر اہلِ علم نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ کیا گیا ہے۔
’’شہاب مبین ‘‘ کے لغوی معنی ’’ روشن شعلہ‘‘ ہے ۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، یعنی ’’اندھیرے کو چیرنے والا شعلہ ۔ ‘‘ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ِثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوںیعنی کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو اب تک سائنس دانوں کے علم میں نہ آئی ہو۔ ممکن ہے کہ یہ شہاب ثاقب وہ ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ِثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب یومیہ ہے جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں بمشکل ایک آدھ زمین تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ کئی دفعہ ایساہواہے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ٹوٹنے والے ستاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ِثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ۔
(انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا )
نزولِ قرآن کے وقت مسلمان جِنّات نے اس حقیقت کا یوں اعتراف کیا:

وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا

’’اور یقینا انسان بھی ایسا ہی خیال کر تے تھے جیسے تم کرتے ہو کہ اللہ کسی کو دوبارہ نہیں اٹھائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے داراور شہابوں سے بھرا ہوا پایا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کے لئے کان لگاتا ہے تو وہ شہاب کو اپنا پیچھا کرتے ہوئے پاتا ہے۔‘‘[الجن۷ تا ۹]

وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِہِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (النحل:۱۲)

’’اور اس نے تمہارے لیے رات ، دن ، سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینابہت سی نشانیاںہیں جو عقل رکھتے ہیں ۔‘‘
انسان ہی نہیں دنیا میں بسنے والی ہر چیز کی زندگی ،رات اور دن کے حساب سے شمار کی جاتی ہے۔ ہر ذی روح اور ہر چیز پر رات اور دن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی روشنی اور اس کی تپش کے اپنے اثرات اور فوائد ہیں ۔رات کی تاریکی اور اس کے سکون کے اپنے نتائج ہیں۔ جو ہر جاندار اورغیر جاندار چیز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رات اوردن میںسب سے بڑی ’’ اللہ ‘‘ کی قدرت کی نشانی یہ ہے کہ رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے ،ہر ذی روح نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے ۔ صبح طلوع ہونے پر تازہ دم ہو کراپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتاہے۔ یہی انسان کی موت وحیات کا معاملہ ہے۔ جس طرح نیند کے بعد ہر ذی روح اپنے آپ بیدار ہو جاتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن صور پھونکنے پر ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا۔اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سورج اور چاند ایسی نشانیاں ہیں جس کی کائنات میں کوئی نظیر موجود نہیں ۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر پچیسکروڑ سال میں پورا ہوتا ہے ۔
سورج کا وزن دس کھرب 19889xکھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ اس میں 40لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5اَرب سال کے لیے کافی ہے ۔
سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے ، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہو جائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ’’ کائناتی انگیٹھی ‘‘ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے ۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہو جائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہو جائیں گے ۔
چاند ہم سے تقریباً 384,400کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرہ ٔ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہو جاتے ۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مدار قائم کررکھے ہیں جو اپنی اپنی منازل طے کرتے ہوئے طلوع اورغروب کے عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔یہ نہیں ہو سکتا کہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوجائے یا چاند سورج کوتنی صدیاں بیت چکیں لیکن چاند اور سورج ، رات اوردن ایک دوسرے سے سبقت نہیں کرسکے اور کبھی ایسا نہیں ہو گا۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یٰس:37۔40)

’’ اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا حساب ہے اور ہم نے چاند کے لیے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ اُن سے گزرتا ہوا وہ کھجور کی سوکھی ٹہنی کی مانند ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پا لے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے سب اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔ ‘‘
یہاں سورج کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ چاند کو نہیں پاسکتا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ چاند سورج کے آگے آگے چلتاہے کیونکہ رات پہلے ہوتی ہے اور دن رات کے بعد نمودار ہوتاہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کا مقر ر کیا ہوا تقویمی حساب ہے جوقیامت تک اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کاحکم صادر ہوگا تو چاند بے نور ہوکر گر پڑے گا اورسورج اپنی جگہ پر تھم جائے گا۔ چانداور سورج کے آنے جانے ، رات اور دن کی آمدروفت میںانسان کے لیے ایک ایسا سبق ہے جس سے انسان اپنی موت اورزندگی کے بارے میں سوچ سکتاہے کہ اسی طرح ہی ایک وقت آئے گا کہ جب میری زندگی کے سورج نے غروب ہوناہے اور قیامت کے دن مجھے زندہ کیا جانا ہے۔
یہاں سورج کے لیے’’ مُسْتَقَرٌّ‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اہل علم نے اس کے دو مفہوم اخذکیے ہیں ۔ایک جماعت کا خیال ہے کہ مستقرسے مراد وہ جائے استقرار ہے جہاں پہنچ کر سورج دنیا کے ایک حصہ سے اوجھل ہوجاتاہے ۔دوسری جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ مقام ہے جہاں قیامت کے دن سورج کو رُک جانے کا حکم ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے شمس و قمر کا نظام اس طرح ترتیب دیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وقت کے مطابق آتے جاتے ہیں کبھی اس نظام میں خلل واقع نہیں ہوا۔
’’سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس دن نبی کریم ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی اس دن سورج کو گرہن لگ گیا ، لوگ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے ، اس موقع پر آپؐ نے فرمایا:سورج اور چاند کو کسی کی موت و زیست سے گر ہن نہیں لگتا یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ۔ ‘‘[ رواہ البخاری:کتاب الصلٰوۃ ، باب الدعاء فی الخسوف)
’’سیدناابو ذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسولِ مکرم ﷺ نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے کہ جب سورج غروب ہو تا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا ‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے ۔ آپ نے فرمایا سورج جاکرعرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا مگر اسے اجازت نہ ملے ۔ اسے حکم ہو گاجدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہو جا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلاجاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔‘ ‘ (رواہ البخاری: باب صفۃ الشمس والقمر)
’’ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ ہمیںسیدنا ابو ہریرہ tنے اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث سنائی۔ آپ ؐ نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حسن نے پوچھا: ان کا کیا جرم ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبیؐ کی حدیث سنا رہا ہوں۔ ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے ۔‘‘ (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاء ت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ)

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ

’’اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیںکہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا ہے ؟وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر وہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔‘‘(العنکبوت:۶۱)
قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا یا ہے؟قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والو!بتاؤ زمین وآسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور شمس و قمر کو تمہارے لیے کس نے مسخر کر رکھا ہے ؟ توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بے ساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہی نے پیدا کیاہے ۔ اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر ایک اللہ کو چھوڑ کر کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو؟

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی وَأَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ذَلِکَ بِأَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللہَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ (لقمان:۲۹،۳۰)

’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے ۔اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے، سب ایک وقت مقرر تک چلے جا رہے ہیں اور جوکچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔یہ اس لیے ہے کیونکہ اللہ ہی حق ہے اور اُسے چھوڑ کر جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یقینا اللہ ہی بلند وبالا بڑا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو باربار اپنی قدرتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اے انسان دیکھ اور غور کر کہ جس زمین پر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرہ ہے۔ جس لیل ونہار پر تیری حیات کا انحصارہے اور جس شمس و قمر کے آنے جانے پر تیری زندگی کے رات دن بنتے ہیں۔غور کر کہ کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں ضم ہو جاتا ہے اور کبھی دن رات میں کئی کئی گھنٹے گم ہوجاتی ہے ۔سورج کو دیکھ کہاں سے نکلتا ہے اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ اب چاند پر توجہ کر کہ وہ پندرہ راتیں کہاں غائب رہتا ہے جب نکلتا ہے تو کس قدر باریک ہوتا ہے ۔ غائب ہونے سے پہلے چودھویں رات کو کس طرح تاباں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں یہ اسی طرح اپنی ڈیوٹی دیتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گا جو دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے وہی ’’اللہ ‘‘تمہارا خالق اور حقیقی معبود ہے اور وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور اپنے حضور پیش کرے گا۔بس ہرحال میں اسی کو پکارو ،اسی کی بندگی کرو اوراس کی غلامی میں آجاؤ ۔اس کے سوا جن کو تم پکارتے اور جن کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے اور جن کے حضور سجدے کرتے ہو، وہ نہ معبود ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے شرکیہ تصورّات اور اعمال سے بلندوبالا ہے۔ ہاں یہ بھی یاد رکھو جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ وَمَنْ يُهِنِ اللهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ إِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

’’کیا تم غور نہیںکرتے کہ اللہ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہے اورجو زمین میں ہے ۔سورج ،چاند ، ستارے ، پہاڑ، درخت ، جانور بہت سے انسان اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اور جسے اللہ ذلیل کر ے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں جو کچھ اللہ چاہتا ہے وہ کرتا ہے ۔‘‘ (الحج:۱۸)
’’ اللہ ‘‘ کی بندگی کا انکار اور اس کے حکم سے سرتابی کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کائنات میں جو چیز پیدا کی گئی ہے ،وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ان میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو اپنے رب کی حکم عدولی کرتی ہو۔ ہر چیز اپنے خالق کا حکم مانتی اور اس کے سامنے سربسجود ہوتی ہے اے انسان تجھے بھی صرف اپنے خالق کے سامنے جھکنا چاہیے۔

وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ

’’رات اور دن اور سورج اور چاند، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں چاند اور سورج کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے والے ہو۔‘‘(حٰم السجدہ:۳۷)
اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ رات اوردن سورج اورچاند اسی کے تابع فرمان ہیں۔ کیامجال کہ ان میں سے کوئی بھی اپنے رب کی سرِمو حکم عدولی کرے ۔جب رات اوردن ،سورج اورچاند اس کے حکم کے تابع ہیں تو پھر چاند اور سورج کو سجدہ کرنا چہ معنٰی دارد؟سجدہ تو اس ذات کو کرنا چاہیے جس نے سورج اورچاند کو پیدا کیا،رات اوردن بنائے۔جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اسے سب کی بندگی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک رب کی عبادت کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔

مسلم ممالک میں امن اور ہماری ذمہ داریاں

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے ہمیں بہت اعلی اور بلند شریعت دی ہے، آسانی اور سہولت اس کا شعار ہے، رحمت و شفقت اس کا عنوان ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، یہ گواہی توحید پرستوں کے دلوں میں بہت عظیم گواہی ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ،اللہ تعالی نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ایسی شریعت کے ساتھ بھیجا جو کہ دین حنیف ہے اور اپنے ماننے والوں کی ضروریات کا اسے اچھی طرح ادراک ہے، آپ ہمیشہ اسی شریعت کی دعوت دیتے رہے، نیز اسی شریعت کے دلائل سے اس کا خوب دفاع بھی کیا، اس شریعت کے قطعی اصولوں کے ذریعے اس کا تحفظ بھی یقینی بنایا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اےمسلمانو!اللہ تعالی سےڈرو، اللہ کا ڈر سب سے بڑی نیکی ہے اور اسی کی اطاعت سے شان بلند ہوتی ہے۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

اے ایمان والو! اللہ سے کما حقُہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
مسلمانو!اللہ کا شکر ادا کرونعمتوں اور عنایات پر، اسی کی حمد بیان کرو کہ اس نے تم سے مصیبتیں اور آزمائشیں ٹال رکھی ہیں، اپنے اردگرد لوگوں سے عبرت حاصل کرو کہ کتنے ملکوں میں اختلافات بپا ہوئے اور حکومتی گرفت کمزور ہوگئی جس کی وجہ سے قانون کی ہیبت جاتی رہی، حکومت اور قومیت کچھ بھی باقی نہ رہا، آخر کار خانہ جنگی شروع ہو گئی اور یکجہتی کے تار پور بکھر گئے، امن سبوتاژ ہو گیا۔ جب امن تباہ ہو جائے تو یہ بہت گراں گزرتا ہے، پھر دوبارہ امن قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے، بجھے ہوئے فتنوں کو خبیث ہی ہوا دیتا ہے، فتنوں کی قیادت غدار کرتے ہیں اور ظالم ہی فتنے پیدا کرتے ہیں۔
فتنوں میں ملوّث ہونے سے فتنے مزید بار آور ہوتے ہیں، دوسروں کو ساتھ ملانے پر فتنوں کی افزائش ہوتی ہے اور تشہیر پر مزید پروان چڑھتے ہیں۔
بےکار شخص کا کیا ہدف ہو سکتا ہے ؟ صرف یہی کہ لوگوں کو انقلاب، مظاہروں، دھرنوں، بغاوت اور حکمرانوں کے خلاف اکسایا جائے؟ حالانکہ حالات و واقعات یہ چیز ثابت کر چکے ہیں کہ ملکی قیادت اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت تمام فتنوں، مشکلات اور بلاؤں کی جڑ ہے، چنانچہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میرے بعد خود غرضی دیکھو گے، تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھے حوض پر ملو۔( متفق علیہ)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: خود غرضی کا مطلب یہ ہے کہ: دنیاوی امور میں صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھا جائے گا، تم پھر بھی ان کی بات سننا اور اطاعت کرنا چاہے حکمران خود غرض ہی کیوں نہ ہو اور تمہارا حق تمہیں نہ دے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرے تو اس بغاوت سے پیدا ہونے والی خرابی فائدے سے کہیں بڑی ہوتی ہے۔
اسی طرح سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: بیٹا! منصف حکمران تو
موسلا دھار بارش سے بھی بہتر ہے، جبکہ دائمی ہنگاموں
سے ظالم حکمران بہتر ہے۔
فتنے عقل کو امتحان میں ڈال دیتے ہیں اور انسانی جہالت عیاں کر دیتے ہیں۔
جس وقت فتنوں کی وجہ سے خانہ جنگی شروع ہو جائے اور لوگ ہنگامہ آرائی پر اتر آئیں تو خواب بھی چکنا چور ہو جاتے ہیں، قدم پھسل جاتے ہیں، علم و حلم سے مزین اور گناہ و زیادتی سے بچنے والوں کے علاوہ سب کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
زبان پر لگام اور ہتھیار کی زبان بیوقوفوں کو خاموش کروا دیتی ہے جبکہ علم جہالت مٹاتا ہے، اور دانشمندی فتنوں کا سد باب کرتی ہے۔

حُلُومُكُمْ يَا قَوْمُ لَا تَعْزِبُنَّهَا
وَلَا تَقْطَعُوْا أَرْحَامَكُمْ بِالتَّدَابُرِ

لوگو! بردباری مت چھوڑنا اور نہ ہی بے رخی کرتے ہوئے رشتے توڑنا۔
مسلمانو! جب چیخ و پکار شروع ہو، خوب دنگے اور فساد ہونے لگیں، کہرام مچ جائے، مظاہرے اور انقلاب برپا ہوں تو ان حالات کو سب سے پہلے اسلام دشمن قوتیں ہی اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں ، ان کی سیاست ہی اس بنیاد پر کھڑی ہے کہ مسلمانوںکے حقوق پامال کئے جائیں، مسلمانوں کی املاک ہڑپ کی جائیں، مسلم ممالک پر مسلح چڑھائی کر کے ان کی معیشت تباہ کر دی جائے، مسلمانوں کی دولت لوٹ لی جائے، اور مسلم علاقوں میں افراتفری پھیلا ئی جائے، صرف اس لیے کہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو سکیںاور اہداف حاصل کر سکیں۔
عدل اور مبنی بر عدل قوانین و احکام کوئی بھی ایسی قوت قائم نہیں کر سکتی جو ظلم و استبداد کے گڑھے میں گری ہوئی ہو جو اپنی قوت پر گھمنڈ کی وجہ سے دھوکے میں پڑی ہوئی ہو۔
حقیقی طور پر عدل و رحمت سے کام لینے والوں اور جابر و ظالم حکمرانوں کے دعوے یکساں نہیں ہو سکتے جنہوں نے اپنے آپ کو پوری دنیا کے ٹھیکے دار ، حقوق کے محافظ، امن و سلامتی کے نقیب بنایا ہوا ہے۔
امن و سلامتی کا پاسبان وہ کیسے ہو سکتے ہیں جو انقلاب اور بغاوت کے ہمنوا ہوں، جو جنگیں اور ہنگامے برپا کرنے میں ملوث ہوں، غداروں کی پشت پناہی کریں، جن کا ماضی قوت، مال و دولت اور استحکام سے مالا مال شاندار حکومتوں کے خلاف جنگوں سے بھر پور ہو ۔
موجودہ تمام اقوام اور سلامتی کونسل نے اس بات پر زور تو دیا ہے کہ امن و سلامتی یقینی بنائی جائے لیکن لگتا ایسے ہے کہ انہوں نے امن و سلامتی کو زندہ درگور کرنے اور اس کے خاتمے کا عزم کیا ہے!!
سلامتی کے قیام کیلئے لکھی جانے والی دستاویزات پانی پر تحریر کی طرح ہیں اور شجرِ دھوکا و فراڈ کے پتوں پر لکھا نوشتہ ہے۔

كَـمْ لِـلـسَّلَامِ مَوَاثِقاً عَبَثَتْ بِهَا
رِيْـحُ الـسِّـيَاسَةِ شَمْأَلًا وَجُنُوْبًا

سلامتی کے کتنےہی معاہدوں کے ساتھ سیاست کی اندھیری نے کھلواڑ کیا کبھی اسے شمال تو کبھی جنوب کی جانب گرا دیا۔

إِنْ تَـكْـتُبُوْا لِلسِّلْمِ عَهْداً فَاجْعَلُوْا
مَـعَ الـثَـكَـالَى بِالْمِدَادِ مَشُوْبًا

اگر تم سلامتی کا کوئی معاہدہ تحریر کرنے لگو تو اس کی روشنائی میں اجڑی ہوئی گود والی ماؤں کے آنسو بھی شامل کر لینا۔

أَوْ فَـانْـقُشُوْا بِدَمِ الضَّحَايَا خَطَّهُ
وَتَـذَكَّـرُوْا يَـوْماً قَضَوْهُ عَصِيْبًا

یا جان کی قربانی دینے والوں کے خون سے اسے تحریر کرنا اور وہ دن یاد رکھنا جو انہوں نے سخت کرب اور تکلیف میں گزارا تھا۔

صُوْغُوْا عَدْلًا لِلْبَرِيَّةِ شَامِلًا
لَا مَرْتَعًا لِلْأَقْوِيَاءِ خَصِيْبًا

ایسا عادلانہ معاہدہ تحریر کرو جو سب کیلئے ہو محض طاقتور کیلئے زر خیز میدان مت تیار کرنا!!
امن و سلامتی کے جھوٹے پاسبانوں! سلامتی مفاد پرستی میں گم ہو چکی ہے، تمہاری پاسبانی میں سلامتی معدوم اور جھوٹ بن چکی ہے۔
اپنی عیش پرستی کی آوازیں دھیمی رکھو مبادا بھوکے ، بے گھر اور جلاوطن افراد خواب سے بیدار ہو جائیں!!
جس عیاشی میں تم مست ہو اس کی جھنکارپست رکھو مبادا مکانوں، گھروں اور ہسپتالوں کے ملبے تلے گمشدہ بچوں کے خواب ٹوٹ جائیں!!
سنیوں کو ہدف بناکر ان کی حکومت، قیادت، بااثر شخصیات، علمائے کرام، ان کی دولت، معیشت تباہ کرنا، سنی علاقوں کا محاصرہ کر کے مساجد، جامع مساجد اور اسکولوں کو نشانہ بنانا تمام مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی ہے، بلکہ یہ جنگی جرائم کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے اپنے علاقے اور وطن میں انسانی حقوق کی پامالی اور ان کا استحصال بھی ہے۔
مسلمانوں کی صفوں میں واضح دراڑیں ، شگاف اور رخنے موجود ہیں، ہر شخص کی الگ رائے اور فکر ہے، مسلمان فرقوں اور گروہوں میںبٹے ہوئے ہیں، ہر فرقے کی الگ نیت ہے، ہر گروہ اپنے مقاصد کیلئے کام کرتا ہے اور ہر جماعت کا اپنا مسلک ہے، سب ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے اور باہمی نفرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں ہمیں مسلمانوں میں صرف سخت دھمکیاں ہی سنائی دیتی ہیں نیز تشدد اور سختی دیکھائی دیتی ہے، ہر کوئی اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا رہا ہے، اور اپنا غصہ مسلمان بھائی پر نکال رہا ہے۔
امت کو کبھی بھی ایسا شخص اتحاد اور یگانگت نہیں دے سکتا جو جاہل ہو، اختلافات کو ہوا دے اور انہیں بھڑکائے، تشدد اور سختی کے ذریعے دین سے متنفر کرے، فحش گوئی کے ذریعے لوگوںسے زیادتی کرے، انہیں گالیاں نکالے، یا دشمنی پیدا کرے ، دلوں میں نفرت اور صفوں میں شگاف ڈالے، یا خود باتیں گھڑ کر دین کی صورت میں پیش کرے اور سمجھ بوجھ اور حدیث کے بغیر ہی فتوی جھاڑےاور بدعات و خرافات میں مبتلا ہو کر گمراہ رہے ۔
فروعی اور فقہی مسائل میں اختلاف عداوت کا باعث نہیں بننا چاہیے، فروعی اختلاف کی وجہ سے باہمی اتحاد، اتفاق میں رخنے نہ پڑیں اور نہ ہی مخالف کو بدعتی، فاسق، یا کافر قرار دیں، تاہم مسلمان پر یہ واجب ہے کہ حق کی جستجو میں لگا رہے اور صرف اسی بات کو تسلیم کرے جس پر قرآن کریم یا حدیث نبوی سے دلیل ملے چاہے وہ اس کے استاد یا اس کے اپنے فقہی مذہب سے متصادم ہو، لہذا اس بات کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس قسم کے مسائل میں اختلاف کو تنازعات، جھگڑے ، ناچاقی اور گروہ بندی کا ذریعہ بنائیں، سلف صالحین میں بہت سے مسائل کے اندر اختلاف تھا لیکن اجتہادی مسائل میں کوئی بھی ایک دوسرے پر قدغن نہیں لگاتا تھا، بلکہ ان کے دل فراخ تھے، امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہم بھائی بھائی رہیں اگرچہ متنازعہ مسئلہ میں ہمارا اتفاق نہ بھی ہو!؟
کوئی بھی قول یا عمل سنت سے متصادم ہو یا اجماع سے ٹکراتا ہو تو اس سے روکنا واجب ہے، جبکہ کسی بھی مسئلے میں واضح سنت یا اجماع نہ ہو لیکن اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو پھر اس سے نہیں روکا جائے گا چاہے وہ شخص اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس پر عمل کر رہا ہوں یا کسی کے مسئلہ بتلانے کی بنیاد پر۔
قرآن و سنت کی نصوص سے متصادم فتوی دینا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی دے تو اس مجتہد کی رائے کالعدم ہو جائے گی اور اس کی بات ماننا حرام ہو گا اس لیے کہ اس سے مجتہد کی بات کو شریعت پر مقدم کرنا لازم آتا ہے، جو کہ حرام ہے ۔
یہ کوئی عقل و دانش والی بات نہیں ہے کہ سنی مذاہب کے درمیان اختلافات کو ہوا دی جائے، اور [دوسری جانب] سنیوں کے دشمن امت کو نقصان پہنچانے کے در پے ہوں حالانکہ دشمن اور ظالم قوتیں بلا واسطہ یا بالواسطہ باہمی تعاون پر متحد و متفق ہیں، قرآن کریم میں ہے کہ:

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

تنازعات میں مت پڑو ، وگرنہ پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی۔ [الانفال: 46]
تنازعات سے ناکامی اور نا مرادی ملتی ہے نیز دشمن غالب آتا ہے۔
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب کا خون مسلمانوں [دیت اور قصاص میں] برابر ہے، کوئی ادنی مسلمان بھی کسی کو امان دے دے تو اسے تسلیم کیا جائے گا، دور افتادہ علاقے میں رہنے والا مسلمان کسی کو پناہ دے دے تو وہ بھی ماننی ہو گی، اور مسلمان غیروں کے خلاف یک جان ہیں۔( ابو داود)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی جانب رخ کرے، ہمارا ذبیحہ کھائے تو یہی وہ مسلمان ہے جس کیلئے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے امان ہے، خیال کرنا اللہ کی جانب سے ملی ہوئی امان کو توڑ مت دینا۔(بخاری)
جبکہ عقیدے پر تمام صحابہ کرام کا اتفاق تھا، صحابہ کرام کے مابین عقیدے سے متعلق کوئی اختلاف یا تنازعہ نہیں تھا، سب اس بات کے قائل تھے کہ جو کچھ بھی کتاب و سنت میں ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں ۔
صحابہ کرام کی یہ عادت تھی کہ وہ بدعات اور نت نئے غیر شرعی طریقوں کے ذریعے عبادت کرنے سے منع فرماتے تھے، جن بدعات سے بچنا ضروری ہے ان میں: قبروں کا طواف کرنا، قبروں پر جانور ذبح کرنا، مردے کیلئے نذر ماننا، مردوں سے مدد طلب کرنا، اسی طرح اولیا اور صالحین کی شان میں غلو کرتے ہوئے ان کے سامنے رکوع کرنا، انہیں سجدے کرنا، ان کے تھوک یا جسم سے برکت حاصل کرنا شامل ہے، حالانکہ ان کے جسم سے برکت لینے کو حبیب و محبوب رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں آپ کے جسم سے تبرک لینے پر قیاس کرنا ہر اعتبار سے باطل ہے، کس عقل یا نص کی بنا پر کسی بھی عالم یا ولی کو چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزار کیوں نہ ہو سید البشر نبی ﷺ پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے؟!
انہی بدعات میں مسجد وغیرہ میں ذکر کرتے ہوئے ناچنا، اچھلنا، کودنا، گھومنا اور ہیجان انگیز حرکتیں کرنا بھی شامل ہے، یہ ایسی بدعات ہیں جس میں کچھ مسلمان جہالت یا کسی کے پیچھے لگنے کی وجہ سے مبتلا ہیں، ان تمام چیزوں سے روکنا ضروری ہے لیکن روکنے کیلئے حکمت، اچھا انداز گفتگو اور ایسا طریقہ اپنائیں جس سے آپ ہدف پا لیں، اور کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہو۔
جو شخص کسی بدعت یا باطل کام میں ملوث ہو تو اس پر حق کی جانب رجوع واجب ہے، کیونکہ حق کی جانب رجوع باطل پر اڑے رہنے سے بہتر ہے۔
امت میں اتحاد و اتفاق سلف صالحین کے فہم کے مطابق کتاب و سنت سمجھنے سے ہی پیدا ہو گا۔
قول عمل کے بغیر درست نہیں ہو سکتا، قول و عمل نیت کے بغیر درست نہیں ہو سکتے اور قول و عمل سمیت نیت صرف سنت پر عمل کرنے سے ہی درست ہو گی۔
یا اللہ ! ہماری راہنمائی فرما اور ہمیں ہمارے نفس کے شر سے محفوظ فرما، میں اپنے گناہوں کی بخشش اللہ تعالی سے چاہتا ہوں تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
ہمہ قسم کی حمد اللہ کیلئے ہے جو پناہ طلب کرنے والوں کو پناہ دیتا ہے، میں اس اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہ ہونے کی گواہی دیتا ہوں جو بیماریوں سے مایوس ہونے والوں کو شفا دیتا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اتباعِ سنت نبوی کرنے والا ہی کامیاب و کامران اور ہدایت یافتہ ہو گااور نافرمانی کرنے والےکیلئے گمراہی و تباہی اس کا مقدر بن جائے گی اللہ تعالی اُن پر، ان کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ،سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اور اسے اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ [التوبہ : 119]

اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔
مسلمانو!سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرنے والے ایسے لوگوں سے بچو جن کی تحریروں سے پاگل پن، جن کے ویڈیو کلپس کے ذریعے بیوقوفی چھلکتی ہے، انہوں نے کتنا ہی دنگا اور فساد بپا کیا، جھوٹ اور الزامات کا بازار گرم کیا، غلط اور سراسیمگی سے بھر پور باتیں کیں، ویسے سوشل میڈیا پر الا ما شاء اللہ عقلمند کم ہی ہیں ہے۔
سوشل میڈیا اس وقت ہر کس و نا کس کا میدان ہے، شہرت پسندی انہیں یہاں تک کھینچ لائی ہے، ناموری کی چاہت انہیں مزید شوق دلاتی ہے، فالورز کی کثیر تعداد انہیں دھوکے میں ڈال چکی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کوئی بھی ان سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی کوئی ان کا قائم مقام بن سکتا ہے، لیکن اگر انسان گم سم ہو، کوئی اسے تلاش کرنے والا نہ ہو ، ایسا مفلوس الحال ہو جسے دروازے سے بھی دھتکار دیا جائے تو یہ اس کیلئے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ باطل اور برائی میں مشہور ہو۔
ذرائع ابلاغ میں کام اور ٹویٹ کرنے والو!اپنے دین اور ملک مملکت سعودی عرب کا دفاع کرو، اپنی قلموں کو امن، استحکام، اتحاد، یگانگت مستحکم بنانے کیلئے استعمال کرو، اور ایسے تمام امور سے باز رہو جو فتنے ، فساد، افراتفری، ہنگامے اور بیوقوفانہ اقدامات کا باعث بنے، کسی بات کو کہنے یا کرنے سے پہلے اس کی تصدیق لازمی کر لو۔
۔۔۔۔

علامہ عبد العزیز حنیف مشاہدایت وتاثرات

راقم کو سن یاد نہیں رہتا تاہم میرے یقین کے مطابق
1996ء/1997ء کی بات ہے کہ مجھے اپنے ایک قریبی عزیز کی بیٹی کے نکاح کی تقریب میں اسلام آباد جانا پڑا۔ نکاح کی تقریب ایک میرج ہال میں ہوئی اور وقت تین بجے دوپہر تھا راقم اپنے دیگر عزیزان کے ساتھ میرج ہال پہنچا کچھ مہمان تشریف لے آئے تھے اور کچھ آرہے تھے تھوری دیر بعد ایک بزرگ تشریف لائے۔ صاف ستھرا لباس واسکٹ پہنے ہوئے سر پر جناح کیپ خوبصورت داڑھی ، آنکھوں پر نظر کی عینک لگائے ہوئے پہلی لائن میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ راقم نے اندازہ لگایا کہ کوئی عالم دین ہوں گے۔ وقت مقررہ پر لڑکے والے چند مہمانوں کے ساتھ ہال میں داخل ہوئےدولہا اور اس کے ساتھ تین آدمی اسٹیج پر بیٹھ گئے نکاح رجسٹرار بھی تشریف لے آئے اور نکاح فارم پُر کرنے لگے تو لڑکی کے والد نے آواز دے کر کہا
مولانا اسٹیج پر تشریف لایئے
تو وہ بزرگ میرے قریب ہی کرسی پر تشریف فرما تھے اسٹیج پر تشریف لے گئے نکاح فارم مکمل ہوا تو لڑکی کے والد محترم نے مجھے آواز دی ۔
عراقی صاحب تشریف لائیں اور نکاح فارم پر بطور گواہ دستخط کریں۔
راقم اسٹیج پر پہنچا پہلے مولانا سے مصافحہ کیا اور بعد میں دوسرے لوگوں سے جو اسٹیج پر تشریف فرما تھے مولانا نے نکاح کا خطبہ ارشاد فرمایا اور ایجاب وقبول کے بعد دعائے خیر فرمائی۔
دعا کے بعد راقم سے فرمایا آپ کے مضامین الاعتصام ، اہلحدیث اور دوسرے رسائل وغیرہ میں نظر سے گزرتے ہیں ماشاء اللہ شخصیات پر خوب لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے علم اور عمر میں برکت عطافرمائے۔ مجھے عبد العزیز حنیف کہتے ہیں یہاں مرکزی مسجد اہلحدیث میں خطیب ہوں۔
راقم نے کہا آپ کا نام سُنا ہوا تھا اب آپ سے ملاقات کرکے بڑی خوشی ہوئی ہے اس کے بعد مولانا حنیف کے ساتھ ایک میز پر کھانا کھایا اور کھانے کے بعد مولانا حنیف صاحب رخصت ہوگئے اور رخصت کے وقت مصافحہ کیا اور بغلگیر ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو پیدا فرمایا ا ور پھر ان کو مختلف صفات سے نوازا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوقات بے شمار ہیں اور ان پر تقسیم کردہ صفات بھی بے شمار ہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں صفت علم بھی تمام صفات میں سے اشرف الصفات ہے اللہ تعالیٰ نے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کو بے شمار صفات سے نوازا تھا۔
اسلام کے بعد دور اول ہی سے اللہ تعالیٰ کا امت پر یہ احسان عظیم رہا ہے کہ اس نے ہر دور میں دین اسلام کی سربلندی،حفاظت اور اشاعت کے لیے ایسے نامور علماء اور رجال پیدا کیئے جنہوں نے اپنے علم وفضل،اعلیٰ اخلاق اور مجاہدانہ کاوشوں سے اسلام کے پرچم کو ہمیشہ سربلند رکھا اور مخالفت کے سخت طوفانوں میں بھی اسے سرنگوں نہ ہونے دیا انہی یگانہ روزگار شخصیات میں ایک عہد ساز شخصیت علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کی تھی جو 9 ستمبر 2016ء کو اچانک سب کو داغ مفارقت دے کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے ۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ
آخری دور میں دنیا سے علم کو اُٹھا لیا جائے گا۔
اور علم والوں کے لیے فقدان کا باعث ہوگا اور دنیا علماء سے خالی ہوجائے گی آج کے دور میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی جیسا محدث نظر نہیں آتا مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری جیسا مدرس باقی نہ رہا مولانا شمس الحق ڈیانوی جیسا شارح حدیث نظر نہیں آتا محدث پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبد المنان وزیر آبادی جیسے نامور معلم رخصت ہوگئے مولانا سید عبد اللہ غزنوی اور حضرت
الامام مولانا سید عبد الجبار غزنوی جیسے اساطین علم وفن
نظروں سے اوجھل ہوگئے امام حدیث مولانا محمد عبد الرحمن مبارک پوری جیسا فقیہ ، مجتہد، مدرس اور شارح حدیث نظر نہیں آتا شیخ الاسلام مولانا ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری جیسا جید عالم دین ،مفسر، محدث،مورخ،مناظر، مفکر،مدبر،دانشور، خطیب، مبلغ ،مقرر نظرنہیں آتاہے۔
جو امت کے مسائل کو خوبی سمجھ کر اس کا بہترین حل بتا دے امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جیسا بے باک نڈر شخص باقی نہ رہا شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی، اور مولانا محمد علی جانباز جیسے مدرس،مبلغ،مصنف اور صاحب علم وفضل اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر چلے گئے۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی،مولانا عبد العزیز رحیم آبادی جیسے مجاہد، مولانا سید محمد داؤد غزنوی جیسا خطیب، مقرر اور مبلغ باقی نہ رہا ۔
مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا محمد حنیف ندوی ، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا عبد المجید خادم سوہدروی، مولانا محمد حسین شیخوپوری، حافظ عبد المنان نورپوری اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید جیسا بے باک نڈر مجاہد اور عربی ادب کے نامور ادیب اور عالم اسلام کے شہرہ آفاق عالم دین اس دنیائے فانی سے چلے گئے مولانا محمد اسحاق بھٹی جیسا مورخ، ادیب ، صحافی اور اسلامی تاریخ پر عبور رکھنے والا اس دنیا سے رخصت ہوگئے انہی علماء میں علامہ عبد العزیز حنیف بھی تھے جو ہم سے جدا ہوگئے۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ (الرحمن : 26۔27)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔
علامہ عبد العزیز حنیف اپنی ذات میں ایک انجمن تھے

آفتاب علم وعمل قافلہ حق کے سالار، اور آسمان عظیمت کے ستارے تھے بہت زیادہ راست گو اور صاف گو انسان تھے اگر کسی سے اختلاف رائے کرتے تو بڑی سنجیدگی اور متانت اور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کرتے آپ کی گفتگو ادب واحترام پر مبنی ہوتی، جس کا مخاطب اچھا اثر لیتا اللہ تعالیٰ نے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ کواختلاف رائے کا صائب سلیقہ عطا فرمایا تھا وہ حق بات کا اظہار بھی نیت اصلاح اور حق طریقے سے کرتے تھے۔
خصائل وشمائل کے اعتبار سے علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ سلیم الطبع، عمدہ فہم ، قابل تعریف عادات واخلاق کے حامل تھے ان کا شمار ممتاز ومقتدر علمائے اہلحدیث میں ہوتا تھا۔ جامعیت،متانت،سنجیدگی،وقار، شرافت، عدالت،ثقاہت،فطانت، ذکاوت، شجاعت، مروّت ، ہمدردی،ایثار، خلوص، ملنساری، محبت والفت، رواداری، تقویٰ وطہارت، زہد وورع،وفا، علم اور حلم اور قربانی میں مشہور تھے۔
علامہ عبد العزیز حنیف رحمہ اللہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے ناظم اعلیٰ بھی رہے مرکزی جامع مسجد اہلحدیث اسلام آباد کے خطیب بھی تھے علاوہ ازیں رؤیت ہلال کمیٹی اسلام آباد کے صدر اور اسلامی نظریاتی کونسل آزاد کشمیر کے رکن بھی تھے اس وقت حنیف صاحب مرکزی جمعیۃ اہلحدیث پاکستان کے سفیر نائب امیر کے منصب پر فائز تھے آپ صرف عالم ہی نہ تھے بلکہ عالم باعمل ، مخلص،متقی، پرہیزگار عالم دین تھے۔ کسی انسان کی عظمت اور نیک نامی اس کی ذات نہیں بلکہ اس کے اوصاف و اخلاق،کردارواعمال اور علمی وعملی کمالات ہوتے ہیں جو انسانیت کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ علامہ عبد العزیز حنیف اپنے اسلاف کے صحیح جانشین تھے علم وعمل کی پختگی کے ساتھ صلابت وحمیت دینی مسلکی غیرت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ مسلک حق کے دفاع کو فرض سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کا مقام علیین میں کرے۔ آمین

 

وجود مادّ ی سے معرفت الہٰیہ تک

انسانی زندگی اپنی موجودہ شکل میں نا مکمل اور تشنہ ہے۔
مادی دنیا کے حصار میں مقید یہ زندگی نامرادیوں، محرومیوں اور ناپائید اریوں کی زد میں ہے۔اور محض اپنے وجود میں سمٹی ہونے کے باعث یہ قطعی بے مقصد اور بے معنی ہے۔انسان کا یہ مادی وجود غیر تشفی بخش صورت حال میں غیر شعوری طور پر ہمیشہ اس حیثیت کے لیے آرزومند رہتا ہے جو مکمل ہو،بے عیب اور لازوال ہو۔مادی جسم کے ساتھ بھٹکتی روح ہمیشہ اپنے اصل مسکن اور مرکز تک پہنچنے کے لیے مضطرب و بے قرار رہتی ہے۔
انسان کی یہ بنیادی آرزو دنیا میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے۔وہ تمام آرزوئیں ، خواہشات، آدرش، مقاصد اور امیدیں جو انسان اپنی اس حیا ت دنیوی میں مختلف اشیاء سے وابستہ کر لیتا ہے، وہ دراصل اسی مکمل اور بے عیب ذات کی طلب ہے جو کہ انسانی روح کا اصل منبع و محور ہے۔چنانچہ انسان اپنے وجود کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے اپنی فکر و نظر میں سینکڑوں بت تراش لیتا ہے۔ اور لا علمی اور لا شعوری طور پر ان بتانِ آزری سے تسکین قلب حاصل کر تا ہے۔لیکن روح کی تشنگی پھر بھی نہیں جاتی۔وطن پرستی، نسل پرستی، علاقائیت اور انا نیت۔ یہ سب ان ہی معبودان ِ باطلہ کے رنگ ہیں۔یہ دنیا کی اکثریت کا خود ساختہ فکری محور ہے جس کے گرد وہ برسہا برس سے طوافِ آرزو کر رہا ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اپنی تصنیف ’’ فلسفہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے ۔اسے حیوانی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت ِ اعلیٰ کے درجے تک پہنچنے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے لیکن مشکل یہ ہےکہ مطلق کا تصور سامنے آ نہیں سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانچہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعے جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا۔ یہ کبھی بھاری ہوا ، کبھی ہلکا، کبھی پر خوف رہا، کبھی دل آویز ، مگر اترا کبھی نہیں۔
انسان کو قلیل علم دیا گیا ہے ، بس اتنا ہی کہ اس عارضی و فانی دنیا میںوہ ایک بہتر زندگی گزار سکے، خیر و شر کی تمیز کر سکے۔ یہ دونوں صفات اس کے خالق و مالک نے اس کے جسمانی وجود میں از خود رکھ دی ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا

’’اور نفس انسانی اور اس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس میں بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی‘‘۔ (الشمس : 7۔8)
اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ:

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (البلد 10 )

’’اور (نیکی اور بدی کے) دونوں نما یاں راستے اسے (نہیں) دکھادیے؟‘‘۔
ان سب کے ساتھ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی بھی دے دی، اس لیے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے،جس میں ہر متنفس حالت امتحان میں رکھا گیا ہے۔ارادہ و اختیار کی آزادی کے بغیر کسی امتحان کا تصور بھی محال ہے۔ہاتھ پیر باندھ کر کسی سے مقابلہ نہیں کرایا جاسکتا اگر ایسا ہونے لگے تو یہ مقابلہ اور امتحان نہیں ظلم و جبر ہوگا۔اور یہ فطرت کے اٹل قانون کے صریح خلاف ہے۔
جب انسان عقل قلیل کی بنا پر اپنی زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے تو اس میں بہت سے جھول اور نقائض پیدا ہوجاتے ہیں۔کیونکہ الہامی ہدایت اور رہنمائی کے بغیر محض عقل کی بنیا د پر بنائے ہوئے سارے نقشے ریت پر
لکھی تحریر ثابت ہوتے ہیں۔اور ریت تیز و تند ہواؤں
کے سامنے بے بس ہوتی ہے۔یہی سبب ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی جاتی ہے کہ:

اھد نا الصراط المستقیم

بارِ الٰہا! ہمیں ھدایت دے سیدھے راستے کی طرف۔
انگریز مفکر تھامس ہابز (1588-1669 ) کہتا ہے: ’’ ہمارا قائم کیا ہوا ہر تصور محدود ہوتا ہے، اس لیے لا محدود کا علم نہیں ہو سکتا۔لا محدود کا لفظ صرف ایک سلبی حد ہے۔اور یہ لفظ اس کے لیے بولا جاتا ہے جس کی ہم کوئی حد قائم نہ کریں۔یہ لفظ کسی وجود کی صفت نہیں بلکہ ہمارے عجز کا اظہارہے۔ کائنات کا بحیثیت مجموعی بھی کوئی علم نہیں ہوسکتا، اس کے آغاز اور زمانۂ قیام اور حجم کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ علم دینیات کے لیے وقف ہے۔‘‘
اب چونکہ جسم مادی اس دنیا کا اسیر اور حصول دولت ، حشمت و وجاہت کے سبب فریب خوردہ ہے، اس لیے اس کے خالق کی طرف سے خصوصی فضل و کرم اور تو فیق کی ضرورت ہے تاکہ روح کا یہ جذبہ اور طلب ، اللہ کی طرف مر کوز ہوجائے، جب دنیا کی تما م چیزوں سے ہٹ کر روح انسانی کی یہ طلب محض ایک نکتہ یعنی معبود حقیقی پر مرکوز ہوجاتی ہے تو روح اپنے اصل مقصود کو پہچان لیتی ہے تو اس کا جذبہ وفا داری، درد اور شوق بھی قوی تر ہوجاتا ہے۔
سلف صالحین کے نزدیک بھی سلوک الی اللہ میں محبت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔قرآن و حدیث میں نہ صرف اللہ تعالیٰ کے بندے کے لیے محبت اور بندے کی اللہ کے لیے محبت کے شواہد موجود ہیں، بلکہ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی تلقین کی گئی ہے اور اسے ایمان کی علامت بنا یا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّہِ أَندَاداً یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِلّہِ

’’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اور ان سے اللہ کی سی محبت کر تے ہیںلیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ ہی کو سب سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ ‘‘(البقرہ165)
اسی بات کو سورۃ آلِ عمران میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا:

قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ

’’کہہ دو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گااور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے۔‘‘(آل عمران : 21)
امام قشیری نے اپنے ’ رسالہ قشیریہ‘ میں نقل کیا ہے:
انسان کے نفسانی تقاضوں سے ابھر ے یہ سب میلانات عارضی طور سے یا کچھ عرصے کے لیے جھوٹی تسلی دے سکتے ہیں یا عمر بھر کا فریب بھی ثابت ہو سکتے ہیں ، بقول میر ؎
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ’’ جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‘‘۔کیونکہ زندگی کے ان مشاغل اور خودساختہ نظریات کی زد میں آکر اصل روح انسانی اپنی گہرائیوں میں مضطرب اور بیمار رہتی ہے۔مولانا رومؒ اپنے ملفو ظات میں لکھتے ہیں:
’’ آدمی میں ایک ایسی جان، درد، کسک اور طلب ہے کہ اگر اس کو لاکھ جہانوں کی حکومت مل جائے،تب بھی اس کی تسلی نہیں ہوگی اور اس کو آرام نہیں آئے گا۔لوگ نہایت محنت سے مختلف پیشوں ،صنعتوں ، اور عہدوں کے لیے کوشاں رہتے ہیں، علم نجو م اور طب وغیرہ کی تحصیل کرتے ہیںاورذرا دم نہیں لیتے کیوںکہ جو چیز مقصود ہے وہ نہیں حاصل ہوسکی ہے۔ آخر محبوب کو دل آرام کہا جاتا ہے، یعنی دل کو اس سے آرام ملتا ہے، تو بھلا پھر کسی غیر سے اس کوکیونکر آرام اور قرا رحاصل ہو۔‘‘
’’ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند کر تا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا نہیں چاہتا ، تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا پسند نہیں فرماتے‘‘
اسی طرح ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں ربّ کائنات نے فرما یا:
’’ جب میرا کوئی بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا تقرب چاہتا ہے تو میں بھی اس کو محبوب رکھتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کر نے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ،جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں لازماً دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے کوئی پناہ چاہتا ہے تو اسے پناہ بھی لازماً دیتاہوں‘‘(بخاری)
اللہ کی معرفت اور اس کی بندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کواللہ کے مقام و مرتبے کا صحیح علم حاصل ہو۔اللہ کے بارے میں ناقص علم بسا اوقات انسان کو گمراہی کے راستے پر بھی ڈال دیتا ہے، یہ کوتاہ علمی کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے اپنے کلام کے بارے میں فرما یا ہے:

یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِیْ بِہِ کَثِیْراً (البقرة:26)

’’ اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کا گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔‘‘
صحیح علم کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ:
’’ علم کثرت روایت اور طول و عرض کا نام نہیں بلکہ وہ ایک نور ہے جس کے بعد دماغ رٹنے کا محتاج نہیں رہتا، اس کی روشنی میں حقائق ِ اشیاء اسی طرح نظر آنے لگتی ہیں جیسا کہ آفتاب کی روشنی میں سیا ہ و سفید‘‘علم درحقیقت اسی نور کا نام ہے جب تک یہ نور پیدا نہ ہو اس وقت تک مسائل غامضہ تو در کناربدیہیات بھی اپنی پوری حقیقت کے ساتھ منکشف نہیں ہوتے۔ پھر بھلا اس شکستہ علم کی بنا پر انسان اپنے ربّ کی معرفت کیونکر حاصل کر سکتا ہے۔
حق کا علم ہی اصل علم ہے، اور اس کی روشنی میں جوافکار و نظریات انسان کے قلب پر مرتب ہوں گے ،وہی انسان کے اندر وہ تقویٰ پیدا کریں گے جو اس کو معرفت ربّ سے قریب تر کر تا جائے گا۔حق اللہ کی پہچان ہی ا س کی معرفت ہے۔علم کی ابتدا حقائق ہی کے ادراک سے ہوتی ہے، یہی حقائق اور آیات بینات ہیں جن سے ہمیںربّ کائنات کا سراغ ملتا ہے اور جن کا عمیق مطا لعہ معرفت الٰہی کے لیے ناگزیر ہے۔ فرمان الٰہی ہے:

إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّہُ مِنَ السَّمَاء ِ مِن مَّاء فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَاب و الْمُسَخِّرِ بَیْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (البقرۃ:164)

’’بے شک آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے بر ساتا ہے، پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش ،اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا رکھے ہیں ، اس میں عقل مندوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں ۔‘‘
یہ آیات بینات فا طر السمٰوٰت و الا رض کے علم و قدرت کے مظاہر ہیں جن کے مطالعہ سے ہمیں معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ ان سب کی گہرائیوں میں اس کی مشیت کا رفرما ہے۔جب تک کسی کو علم حقیقی کا یہ مقام حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک معرفت ربّ کا حصول محض جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔اگرچہ مجرد علم و عقل ہی اشیاء کو پہچاننے کے ذرائع ہیں ، تاہم معرفت ربّ کے لیے مجرد علم کفایت نہیں کر سکتا کیونکہ کسبی علم اور عقل معرفت کی علت نہیں ہوتے ، معرفت کی علت ربّ کائنات کی خاص عطا اور عنایت ہے جووہ اپنے چیدہ چیدہ بندوں کو ہی دیا کر تا ہے۔اور اس علت معرفت کے ساتھ تقویٰ کو مشروط کیا گیا ہے۔
ارسطو کے نزدیک اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ’’ وہ علت ِ اولیٰ یا محرک اول ہے۔ہر شے کی کوئی علت ہوتی ہے اور اس علت کی پھر کوئی علت ہے۔
اس طرح علتوں کا یہ سلسلہ چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ ایک ایسی علت پر ختم ہوجاتا ہے جس کا کوئی معلول تو ہوسکتا ہے لیکن اس کی علت نہیںہوسکتی۔ آخری علت لازمی طور پر ازلی و ابدی ہے، نہ اس کی ابتدا ہے اور نہ انتہا،وہ ہر قسم کی ترکیب و تعدد سے مبرا ہے اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہے۔‘‘
امیر المؤمین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرما یا:
’’ہم نے اللہ عز و جل کو اسی کی عنا یت سے پہچانااور جو کچھ اس کے ما سوا ہے اسے اس کے نور سے پہچانا‘‘۔
عقل و استدلال دلائل کی بنیاد پر اپنے ما فی الضمیر کے آئینہ میں تدبر کر تے ہیں ،جبکہ معرفت ربّ تمام دلائل و استدلال اور امثال و تشبیہات سے قطعی ما وراء ہے۔امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ معرفت یہ ہے کہ تمہیں کسی شے کو بھی دیکھ کر یا جان کر تعجب نہ ہو۔‘‘مطلب یہ ہے کہ اللہ کی معرفت کے لیے کسی دلیل، سوچ بچار اور استدلال کی کسی پہلو سے بھی گنجائش نہیں ہوتی۔اسی چیز کو مزید واضح کر تے ہوئے ایک بزرگ ابو یزیدؒ فر ماتے ہیں:’’ معرفت تو یہ ہے کہ تو جان لے کہ مخلوق کی تمام حرکات و سکنات اللہ کی طرف سے ہیں اور کسی شخص کو اس کے اذن کے سوا اس کے مِلک میں کوئی تصرف حاصل نہیں ہے۔ اور ہر شے میں بھلا اور برا جو اثر ہے اسی کی طرف سے ہے۔یہ جان لینے کے بعد انسان میں کامل تفویض الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔‘‘
اللہ کی معرفت اور اس پر ایمان کامل نہ حسی ہے اور نہ انانیتی، بلکہ یہ انسان کی فطرت میں اخلاقی قانون کی موجودگی کا اظہار ہے۔ اس کا منبع فطرت انسانی کی ایک عمومی اور کلی حقیقت ہے،تاہم شرط یہ ہے کہ انسان کی فطرت مرور زما نہ سے مسخ نہ ہو گئی ہو۔امام غزالی رحمہ اللہ ’’ احیا ء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ دل میں ایک قوت ہے جس کو نور الٰہی کہتے ہیں، جس کے باب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

أَفَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ (الزمر:22)

’’ بھلا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہواور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے(اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس نے ان باتوں سے کوئی سبق نہ لیا ہو؟)‘‘
اس کیفیت کو عقل ،بصیرت ِ باطنی، نورِ ایمان اور نورِ یقین بھی کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے دل ان باتوں کی دریا فت کر تا ہےجو متخیل ہیں نہ محسوس۔آگے فرماتے ہیںکہ: ’’ موت محل معرفت الٰہی کوفنا نہیںکرتی اور محل معرفت روح ہے جو امر ربانی اور آسمانی ہے، موت صرف روح کے حالات اور اس کے کاموں اور عوائق کو تبدیل کرتی ہے۔اور اس کو حبس سے رہا کر دیتی ہے،نیست ہر گز نہیں کر تی
چنانچہ اللہ تعا لیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُواْ بِہِم مِّنْ خَل َسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّہَ لاَ یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ

’’جو لوگ لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں مردہ نہ سمجھو،وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں، ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پرشاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مؤمنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (آل عمران:169-171)
معرفت الہیہ تک پہنچنے کا راز اللہ عزّ وجلّ کے کلام میں عمیق تدبر کرنے سے انسان پر کھلتا ہے۔کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔اللہ کے اسماء و صفات کے معنی و مفہوم کا گہرا فہم اور کلام الٰہی کی آیات میں استغراق اور غوطہ زنی غیر محسوس طور پر بندے کو اللہ کے قریب کر نے کا سبب بنتے ہیں۔
حدیث جبرائیل میں ذات الہٰیہ کے شعوری ادراک کی کیفیت کو واضح کیا گیا ہے۔:
’’ تو اللہ کی اس طرح عبادت کر گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو یہ استحضار رہے کہ اللہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے‘‘۔(مسلم)
چنانچہ یہ مقام ہر شخص کو اپنے ذاتی تجربے اور جذب و آہنگ میں مستغرق ہوکر حاصل ہوسکتا ہے۔اور یہ حق الیقین تک رسائی کا مؤثر ترین راستہ ہے۔اور معرفت الہٰیہ کے لیے تمام پیچیدہ راہوں کو اس طرح کھولتا ہے جیسے علی الصبح مشرق سے ابھر تا سورج ہر سو اجالے بکھیر دیتا ہے۔اور گل رنگ سویرا چہار سو پھیل جاتا ہے۔
خرد سے آدمی روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغِ رہگذر ہے
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگذر کو کیا خبر ہے
٭…٭…٭

تالی

دلوں کے بھید تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے وہ ماضی،حال اور مستقبل کے حالات وواقعات کو اسی طرح جانتا ہے جس طرح کسی نے سعی کی ہے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ دل ودماغ میں پلنے والے شکوک وشبہات دور کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر دینی تعلیمات حاصل کرنے کی کوشش جاری وساری رکھے حدیث میں ایک مومن کی مثال نکیل والے اونٹ سے دی گئی ہے مطلب واضح ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ اور اس کے دین کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے لہٰذا کسی غیر مسلم کے عمل کو فقط عادت اور رسم ورواج کے نام پر اختیار کر لینا ایک مسلمان کو ہرگز زیب نہیں دیتا غیر مسلم کی نقالی میں آج مسلمان معاشرہ بہت سے اعمال اختیار کر چکا ہے ۔
دنیا میں آنے کا نام زندگی ہےاور جانے کا نام موت ہے آنے اور جانے کے بیچ کا وقت ہر چیز سے قیمتی ہے اس وقت کا صحیح حق وہی ایمان والا مسلمان ادا کرسکتا جو اپنے آغاز اور انجام سے باخبر ہو۔
دینِ اسلام میں قدیم وجدید کا کوئی اعتبار نہیں ہے نہ اچھائی میں اور نہ ہی برائی میں دین اسلام میں صرف وہی اچھائی ہے جسے اسلام خود اچھائی قرار دے اور صرف وہی برائی ہے جسے اسلام خود برائی قرار دے کسی بھی کام کا کثرت سے ہونا یا کسی کام کا پرانے زمانے سے ہوتے چلے آنا اس کے اچھے یا برے ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس طرح کے مسائل ومعاملات ہیں جن کو آدمی نہیں جانتا ان میں سے ایک تالی بجانا اور سیٹی بجانا ہے اس موضوع میں سیٹی اور تالی کی حرمت کے بارے میں بیان کیاگیا ہے ۔
سورت انفال کی آیت نمبر 35 کے جزء کا ترجمہ ہے

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَاۗءً وَّتَصْدِيَةً (انفال :35)

’’اور ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس صرف یہ تھی سیٹیاں اور تالیاں بجانا۔‘‘
افسوس ہے کہ امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد انہی گناہوں میں مبتلا ہے سیٹی اور تالی لہو ولعب کی طرح ہے جس دین میں لغو اور بے مقصد کام کرنے کی اجازت نہیں وہ تالی اور سیٹی کا تصور بھلا کس طرح پیش کر سکتاہے؟
مسلمان والدین اپنے چھوٹے بچوں کو تالیاںبجانا سکھاتے ہیں اور ان کی دلجوئی کے لیے خود بھی بجاتے ہیں اس کے علاوہ مختلف تقریبات میں کسی کی حوصلہ افزائی کے لیے یا انعام دیتے وقت تالیں بجوائی جاتی ہیں یہ عمل غیر مسلموں سے لیا گیا ہے اور اسلام میں تالی بجانا ممنوع وناپسندیدہ ہے مسلمان کو جب کوئی بات اچھی لگے تو اسےچاہیے کہ دل میں ماشاء اللہ اور سبحان اللہ پڑھے۔
مشرکین مکہ بیت اللہ کے پاس جمع ہوکر سیٹیاں اور تالیں بجاتے تھے تاکہ مسلمان خشوع وخضوع کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکیں اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اغاثۃ اللہفان‘‘ میں لکھا ہے کہ تالیاں اور سیٹیاں بجا کر نمازیوں،ذکرکرنے والوں اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو تشویش میں مبتلا کرنے والے انہی مشرکین مکہ کے مانند ہیں ۔
جب حالتِ نماز میں مردوں کے لیے تالی بجانے کی اجازت نہیں تو خارج الصلاۃ بغیر کسی حاجت کے یہ عمل کیسا ہوگا اس میں اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تشبیہ پائی جاتی ہے کفار مکہ نے معراج کا سن کر تالیں بجائی تھیں تعجب اور کذب کے طور پر ۔ (احمد 1/309)
تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ قوم لوط اپنے دس بُرے اعمال کی وجہ سے ہلاک کی گئی جس میں سے ایک عمل تالی بجانا بھی تھا ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تالی بجانا تاشے پیٹنا اللہ کے دین کا حصہ نہیں اور دین اسلام سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں۔سیٹیاں اور تالیاں بیہودگی اور بے حیائی کی طرف دعوت دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور نماز سے اس طرح روکتی ہیں جیسے شراب روکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دیا ہے اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا جائز نہیں اور جوشخص کسی ایسی چیز کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرتاہے جسے اس نے حرام قرار دیا ہے تو وہ سزا کا حقدار ہے نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں کوئی مرد نہ دف بجاتا تھا نہ تالیں اس عمل کے مرتکب کو سلف صالحین’’مخنث‘‘ کہا کرتے تھے۔ ( مجموع الفتاوی 11/631)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس ‘‘ صفحہ نمبر 402 میں لکھتے ہیں ’’اہل تصوف راگ سن کر سرور میں آتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں تالیاں بجانا بُرا اور منکر ہے جو طرب میں لاتا ہے اور اعتدال سے باہر کر دیتاہے اہل عقل ایسی باتوں سے دُور رہے ہیں اور ایسا کرنے والا مشرکین کے مشابہ ہے۔
محفلوں میں سیٹیاں تالیاں بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے اس بارے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ جلد چہارم میں فرماتے ہیں ’’محفلوں میں تالی بجانا اعمال جاہلیت میں سے ہے اس کے باے میں کم سے کم یہ کہا جا سکتاہے کہ یہ مکروہ ہے ورنہ دلیل کے ظاہر سے تو یہ حرام معلوم ہوتاہے کیونکہ مسلمانوں کو کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیاگیاہے اور کفار مکہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ (انفال : 32)
علماءفرماتے ہیں کہ ’’مُکّاء‘‘ کے معنی سیٹی بجانا اور ’’تصدیہ‘‘ کے معنی تالی بجانا ہے۔ مرد مومن کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ جب کوئی پسندیدہ یا ناپسندیدہ بات دیکھے یا سنے تو سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے مروی بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔ تالی بجانے کا حکم تو خاص عورتوں کے لیے ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ مردوں کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کر رہی ہوں اور امام سے نماز میں کوئی سہو ہوجائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے وہ تالی بجا سکتی ہیں جیسا کہ مرد ایسی صورت میں سبحان اللہ کہہ کر امام کو متنبہ کرتے ہیں جیسا کہ سنت سے یہ امر ثابت ہے اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مردوں کے تالی بجانے میں کافروں اور عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مشابہت ممنوع ہے ۔ ( فتاوی 4/356)

شیخ عبد الستار حماد حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’ہمارے ہاں خوشی کے موقعہ پر سیٹیاں بجانا اور تالی پیٹنا بھی مغربی تہذیب سے اخذ کردہ عادات ہیں لہٰذا ایک مسلمان کے شایانِ شان نہیں کہ وہ ایسے موقعہ پر کفار کی عادت کو اختیار کرے اگر کوئی چیز پسند آئے تو اللہ یا سبحان اللہ کہا جائے بہر حال تالی پیٹنا اور سیٹی بجانا مسلمانوں کا کام نہیں۔ واللہ اعلم ( فتاوی اصحاب الحدیث 4/405)

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْهَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ (السجدۃ : 22)

’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گار سے انتقام لینے والے ہیں ۔‘‘
معاشرے میں ایک اچھا انسان اور صحیح مسلمان وہی ہوسکتاہے جس کی زندگی قرآن وحدیث کے مطابق بسر ہو رہی ہو مسلمانوں کے اعمال جس قدر قرآن وحدیث کی روشنی سے منور ہوں گے اتنا اس کا ظاہر اورباطن نورانی اور پاکیزہ ہوگا اور دنیاوی واخروی بھلائی نصیب ہوگی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا وآخرت کی بھلائی نصب فرمائے ۔ آمین

دین پر ثابت قدمی کے وسائل

مقدمہ
ان الحمد للہ ، نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ، ونعوذ باللہ من شرور انفسناوسیئات اعمالنا، من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ،ومن یضلل فلاھادی لہ ،واشھد ان لا الٰہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ ، واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ ۔
امابعد:

جو مسلمان سچے دل سے صراط مستقیم اورراہِ ہدایت پر چلنے کا پختہ اردہ رکھتا ہو اس کے لئے دین پر ثابت قدم رہنا انتہائی بنیادی مقصد ہوا کرتا ہے ۔
اس موضوع کی اہمیت درج ِ ذیل حالات کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے :
اس موضوع کی اہمیت مندرجہ ذیل امور کو سمجھنے میں پنہاں ہے :
٭ دورِ حاضرمیں معاشروں کے حالات ،جن میں مسلمان زندگی گذار رہے ہیں۔
اور مختلف قسم کے فتنوں اور بہکانے والے حالات کی آگ میں جل رہے ہیں۔شہوات وشبہات کی مختلف شکلیں ہیں جن کی وجہ سے دین بیگانہ ہو کے رہ گیا ہے،چنانچہ دین کو سینے سے لگا کر جینے والوں کی عجب حالت ہے:

اَلْقَابِضُ عَلیٰ دِیْنِہٖ کَالقَابِضِ عَلیٰ الْجَمَرِ

دین کو پکڑنے والے کی حالت ایسی ہے جیسے دہکتے کوئلے کو ہاتھ سے پکڑنے والے کی ہوتی ہے ۔‘‘
کسی سمجھ دار آدمی کو اس بات میں شک نہیں ہے کہ پہلے زمانے کے لوگوں کے مقابلے میں آج کے مسلمان کو وسائلِ ثبات کی اشد ضرورت ہے ۔اور اس مقصد کو پانے کے لئے محنت کی بھی شدید ضرورت ہے ۔اس لئے کہ حالاتِ زمانہ بہت بگڑ چکے ہیں ، خیر خواہ دوست نادر ہیں ، مددگار کمزور ہیں اور ساتھ دینے والے تھوڑے ہیں ۔
٭دین کو چھوڑ کر جانے والوں اور ا لٹے پاؤں گھوم جانے والوں کے واقعات بہت بڑھ گئے ہیں :
اسلام کی خدمت کرنے والوں نے بیان کیا ہے کہ ایک مسلمان اس قسم کے انجام کے خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ، اور ثابت قدمی کے وسائل کا متلاشی رہتا ہے ۔ تاکہ خیر و عافیت سے زندگی پوری کر سکے ۔
اس موضوع کا تعلق دل سے ہے ،جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’لَقَلْبُ ابْنِ آدَمَ اَشَدُّ اِنْقِلَابَاً مِنَ الْقِدْرِ اِذَا اِجْتَمَعَتْ غَلْیَاً۔‘‘(مسند احمد 6؍4 والمستدرک للحاکم ۲؍۲۸۹اور االسلسلۃ الصحیحۃ للالبانی۱۷۷۲)

’’جب ہنڈیا پورے جوش سے اُبل رہی ہو تو جس طرح وہ اُلٹ پلٹ ہوتی ہے ، بنی آدم کا دل اس سے زیادہ بھی اُلٹ پلٹ ہوتا رہتاہے ۔اور آپ ﷺ نے دل کے بارے میں ایک اور مثال میں فرمایا:

’’اِنَّمَا سُمِّیَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلُّبِہٖ اِنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ کَمَثَلِ رِیْشَۃٍ فِیْ اَصْلِ شَجَرَۃٍ یُقَلِّبُھَا الرِیْحُ ظَھْرَاً لِبَطْنٍ۔‘‘( مسند احمد 4؍408و صحیح الجامع 2361للالبانی)

’’الٹ پلٹ ہونے کی وجہ سے ہی قلب(دل) کو قلب کہا جاتا ہے ۔دل تو اس پر کی مانند ہے جو کسی درخت میں اٹکا ہوا ہو اور ہوا اس کو الٹ پلٹ کرتی رہتی ہو۔‘‘
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

وَمَا سُمِّیَ الِانْسَانُ اِلاَّ لِنَسْیِہٖ
وَلَاالْقَلْبُ اِلاَّ اَنَّہُ یَتَقَلَّبُ

انسان کو اسی لئے انسان کا نام دیا گیا ہے کہ وہ بھولتا رہتا ہے اور قلب(دل) کو اسی لئے قلب کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل الٹ پلٹ ہوتا رہتا ہے۔
شبہات وشہوات کے جھکڑوں میں مسلسل اُلٹ پلٹ ہونے والے اس دل کا معاملہ بہت ہی خطرناک ہے ، اسے
انتہائی مضبوط وسائلِ ثبات کی ضرورت ہے جو ان مشکل
اور سخت حالات کا مقابلہ کرنے میں دل کی مدد کریں ۔
وسائلِ ثُبات
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا حصہ ہے کہ اس نے اپنی کتا ب قرآن حکیم میں اور نبی اکرم ﷺ کی سنت وسیرت میں بہت سارے وسائلِ ثبات کو محفوظ کردیا ہے میں اپنے قارئین ِکرم کی خدمت میں چند ایک وسائلِ ثبات پیش کررہا ہوں ، ملاحظہ ہوں:
اول:قرآنِ کریم پر ڈیرہ ڈالنا:
سب سے پہلا وسیلہ ثبات خود قرآنِ کریم ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے ۔واضح روشنی ہے ، جس نے اس کو تھام لیا اللہ تعالیٰ نے اس کی (ہر شر سے ) حفاظت فرمادی اور جس نے اس کی پیروی کی اللہ نے اس کو نجات دے دی ،اور جس نے اس کی طرف دعوت دی ، اسے صراط مستقیم کی ہدایت مل گئی ۔اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ قرآن حکیم کو تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کا مقصد ہی یہ تھاکہ یہ ثابت قدمی میں مدد دے اللہ تعالیٰ نے کا فروں کے اعتراض کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادُکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً وَلَا یَأتُوْنَکَ بِمَثَل اِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنُ تَفْسِیْراً (الفرقان۳۲-۳۳)

’’اورکافروں نے کہا اس پرقرآن سار ے کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا ( اسی طرح ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے ) اتارا تا کہ اس سے آپ کا دل قوی رکھیں ہم نے اسے ٹہر ٹہر کر ہی پڑھ سنایا ہے۔یہ آپ کے پاس جو کوئی مثال لائیں گے ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ توجیہ آپ کو بتا دیں گے ۔‘‘
قرآن ہی تثبیتِ قلب کا ذریعہ کیوں؟؟
٭اس لئے کہ قرآن دل میں ایمان کو پیدا کرتا ہے ، اوراللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ کر نفس کو پاک کرتا ہے ۔
٭اس لئے کہ قرآنی آیات مؤمن بندے کے دل پر سلامتی اور سکون نازل کرتی ہیںچنانچہ فتنوں بھری آندھیاںاس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔اور اللہ کے ذکر سے بندے کا دل مطمئن ہو جاتا ہے ۔
٭اس لئے کہ قرآن مسلمان کو صحیح تصورات اور عقائد سے مسلح کرتا ہے اس طرح مسلمان اپنے ارد گرد پھیلے حالات کو صحیح سمجھ سکتا ہے ۔اسی طرح اس کے پاس ایسے مستحکم اصول ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا فیصلہ ڈگمگاتا نہیں ہے۔اورنہ ہی واقعات اور اشخاص کے تبدیل ہونے سے اس کے اقوال میںتناقض آتا ہے۔
٭دشمنانِ اسلام (خواہ کافر ہوں یا منافق )جو شبہات پھیلاتے ہیں قرآن اُن کا صحیح توڑ کرتا ہے ۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں چند واقعات پیش آئے ، لہذا ان مثالوں پر غور کرلیں:
٭جب مشرکوں نے کہا :’’وُدِّعَ مُحَمَّد‘‘(صحیح مسلم بشرح النووی۱۲؍۱۵۶)(کہ محمدکو چھوڑ دیا گیا)تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا بنی اکرم ﷺ کی ذات گرامی پرکس قدر اچھا اثر ہوا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلَیٰ (الضحي:3)
’’نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہو گیا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس فرما ن کا بھی کتناخوبصورت اثر ہوا ہو گا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لِسَانُ الذِّیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ أَعْجَمِیٌّ وَھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِیْنٌ (النحل103)

اُس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے ۔
کفارِ قریش کا دعویٰ تھا کہ محمد ﷺ کو کوئی انسا ن سکھاتا ہے اور آپ قرآن بڑھئی سے پڑھتے ہیں یہ ایک رومی شخص تھا جو مکہ میں رہتا تھا ۔
٭جب ایک منافق نے کہا :

اِئْذِنْ لِیْ وَلاَتَفْتَنِّیْ

مجھے اجازت بخشواورکسی مصیبت میں نہ ڈالو۔
تواللہ تعالیٰ نے فرمایا:

أَلاَ فِیْ الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا (التوبۃ 49)

(آگاہ رہو وہ تو فتنے میں پڑ چکے ہیں) تو اس جواب سے اہلِ ایمان کے دل میں کتنا اچھا اثر ہوا ہو گا ۔
کیا یہ موجوہ د ثباتِ دل پراضافی تثبیت کا ذریعہ نہیں ہے؟ اور مؤمن دلوں کے لئے بہت بڑا سہارا نہیں ہے ؟ کیا یہ شبہات کی تردید نہیں ہے ؟اور اہلِ باطل کا منہ بند کرنا نہیں ہے؟ قسم بخدا ،ایسا ہی ہے۔
بہت خوبصورت واقعہ ہے کہ جب مسلمان صلح حدیبیہ کے بعد واپس آرہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان سے بہت زیادہ غنیمتوںکا وعدہ فرمایاجسے مسلمان عنقریب پانے والے ہیں(مرادتھیں خیبر سے ملنے والی غنیمتیں) اور یہ کہ یہ سارامال مسلمانوں کا ہوگا اور کسی دوسرے کا نہیں ہوگا ۔منافقین بھی ساتھ دینے کے خواہش مند ہوں گے لیکن مسلمان صاف کہہ دیں گے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جا سکتے ، منافقوں کا شدیداصرار ہو گا اور اللہ کے فیصلے کو بدلنے کی کوشش کریں گے اور منافق اہلِ ایمان کو طعنہ دیں گے کہ درحقیقت تمہیں ہم سے حسد ہے اوراللہ تعالیٰ ان کو کرارہ ساجواب دیں گے:

لَا یَکَادُوْنَ یَفَقَھُوْنَ حَدِیْثَاً(النسائ: 78)

انہیں کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات بھی سمجھنے کے قریب نہیں۔
پھر یہ سارے واقعات اہلِ ایمان کی نظروں کے سامنے مرحلہ درمرحلہ اور لفظ بلفظ سچ ثابت ہوئے ۔
یہاں سے ہم دو جماعتوں کا فرق معلوم کر سکتے ہیں۔ پہلی جماعت نے اپنی زندگی کوقرآن کریم کے ساتھ باندھ رکھا ہے اور اُن کی ساری توجہ قرآن کی تلاوت ،حفظ ، تفسیراور اُس پر غورفکر پر مرکوز ہے۔یہیں سے اُن کا سفر شروع ہوتا ہے اور یہاں پر آکر ختم ہو جاتا ہے ۔
اور ایک دوسری جماعت ہے جن کی ساری محنت ،سارا اہتمام اورساری مصروفیت انسانوں کے کلام پر خرچ ہو جاتی ہے۔اے کاش علم کے سچے طلبگار صرف قرآن اور اس کی تفسیر کو اپنا اوڑھنابچھونا بنالیں اور ساری محنت اسی پر کھپا دیں۔
دوم: اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی اور نیک کاموں کا اہتمام:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآئُ (ابراہیم:27)

’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتاہے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میںہاں نا انصاف لوگوں کو اللہ بہکا دیتا ہے اور اللہ جو چاہے کر گزرے ۔‘‘
مفسرِ قرآن جناب ِ قتادہ فرماتے ہیں :’’دنیاوی زندگی میں بھلائی اور عملِ صالح کے ذریعے اورقبر (دارِآخرت) میں اللہ تعالیٰ اُن کو ثابت قدمی عطا کرتا ہے ۔‘‘یہی بات متعدد سلف صالحین سے بھی مروی ہے ۔(تفسیرابنِ کثیر۴؍۴۲۱)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلَوْ اَنَّھُمْ فَعَلُوْامَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْرَاً لَھُمْ وَاَشَدُّ تَثْبِیْتَاً (النساء:44)

’’اوراگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقینا یہی ان کے لئے بہتر اوربہت زیادہ مضبوطی والا ہو یعنی حق پر قائم رہنے کے لئے۔‘‘
یہ نتیجہ بالکل واضح ہے ۔کیا عملِ صالح کو چھوڑ کر سست اور زمین پر ڈھیر ہونے والوں سے ہم یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ جب فتنے سر اُٹھائیں اور بڑے بڑے معاملات در پیش ہوں تو ایسے لوگ ثابت قدم رہ سکیں گے ؟۔لیکن جو لوگ ایمان لائیں اور عملِ صالح کریں ، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے ایمان کی بدولت صراط مستقیم کی ہدایت ضرور دے گا ۔ اسی لئے آپ ﷺ اعمالِ صالحہ پر ہمیشگی فرماتے تھے ،بھلے تھوڑا ہی ہو، آپ کو محبوب تھا کہ عمل پر ہمیشگی کی جائےاور آپ ﷺ کے صحابہء کرام بھی جب کوئی کام شروع کرتے تو اس کو ثابت قدمی کے ساتھ نبھاتےاور سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنھا کا بھی طریقہ یہی تھا کہ جب کوئی کام شروع کر لیتیں تو اسے مسلسل کرتی رہتیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ ثَابَرَعَلیٰ اثْنَتَیْ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ

(سنن الترمذی ۲؍۲۷۳وسنن النسائی ۱؍۳۸۸امام البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے )
’’جس شخص نے پابندی کے ساتھ بارہ رکعت نماز ادا کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ۔‘‘یعنی سنن مؤکدہ کی بارہ رکعات ۔
اور حدیث قدسی میں آیا ہے :

’’وَلَایَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالْنَوَافِلِ حَتّٰی اُ حِبُّہُ۔‘‘

’’بندہ مسلسل نفل عبادات کے ذریعے میرا قرب پانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ،بالآخر میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری بواسطہ فتح الباری ۱۱؍۳۴۰)
سوم: سیرت کواپنانے اور عمل کرنے کی خاطر انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام کے حالات واقعات کا مطالعہ کرنا اور اُن پر غور کرنا:
اور اس بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :

وَکُلاًّ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُوأدَکَ وَ جَائَ کَ فِی ھٰذِہٖ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرَیٰ لِلْمُؤمِنِیْنَ ( ھود:120)

’’رسولوں کے سب احوال ہم آپ کے سامنے آپ کے دل کی تسکین کے لئے بیان فرما رہے ہیں ۔آپ کے پاس اس صورت میں بھی حق پہنچ چکا جو نصیحت ووعظ ہے مؤمنوں کے لئے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں یہ آیات خوش طبعی یا دل لگی کے لئے نہیں نازل ہوئیں ،بلکہ اِن کا بہت بڑا مقصد تھا اور وہ تھاآپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دلوں کو مضبوط کرنا ۔
٭اے میرے بھائی اگر تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور فرمالے :

قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کَنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَا نَارُکُوْنِیْ بَرْدَاً وَسَلَامَاًعَلَیٰ اِبْرَاہِیْمَ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدَاً فَجَعَلْنَاھُمُ الاَخْسَرِیْنَ (الانبیاء 68۔70)

’’کہنے لگے کہ اسے-ابرہیم کو-جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے ۔ہم نے کہہ دیا اے آگ تو ٹھنڈی پڑ جا اور ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی اور آرام کی چیز بن جا گو انہوں نے ابراہیم کا برا چاہالیکن ہم نے انہیں ناکام بنا دیا ۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے :’’سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا:’’حسبی اللہ ونعم الوکیل ‘‘میرے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کاساز ہے ۔‘‘
اور جب تم اس واقعے پر غور کرو گے تو بہت بڑے ظلم وعذاب کے سامنے استقامت کی بہت بڑی مثال کا احساس تمہارے دل میں اتر جائے گا ؟۔
٭سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعے پر اگر تم غور کرو :

فَلَمَّا تَرٰٓئَ االْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسَیٰ اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ (الشعراء 61)

’’پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو یقیناپکڑ لئے گئے ۔‘‘
جب تم اس واقعے پر غور کرو گے تو تمہیں محسوس ہو گا کہ ایسے لحظات میں ثابت قدمی کی عالی شان مثال موجود ہے جب کہ ظالم پیچھے پہنچ چکے ہوں اور ساتھی مایوسی اور ڈر سے چیخ وپکار کررہے ہوں ۔ ایسے حالات کو سامنے رکھ کر واقعے پر غور کرو ۔
٭ اگر تم نے تفصیل کے ساتھ فرعون کی طرف سے لائے ہوئے جادوگروں کے واقعے پر غور کیا ہو وہ ایک حیرتناک واقعہ ہے۔جب اس گروہ کے سامنے حق واضح ہو گیا تو وہ حق پر ڈٹ گئے ۔
ظالم کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود جب حق دل میں گھر کر گیا تو تم اس کی ایک عظیم شان اور مقام دیکھ سکتے ہو ۔ظالم کہہ رہا تھا :

أَ أَمَنْتُمْ لَہُ قَبْلَ اَنْ آذَنَ لَکُمْ اِنَّہُ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلأُقَطِّعَنَّ اَیْدَیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِنْ خِلَاف وَلَاُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابَا وَأَبْقَیٰ (طہ : 71)

’’فرعون کہنے لگا کہ کیا میری اجازت سے پہلے ہی تم اس پر ایمان لے آئے ؟یقینا یہی تمہارا وہ بڑا بزرگ ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے (سن لو )میں تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر تم سب کو کھجور کے تنوں میں سولی لٹکوا دوں گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی مار زیادہ سخت اور دیرپا ہے ۔‘‘
اہلِ ایمان کی ایک چھوٹی سی جماعت اس طرح اپنے موقف پرڈٹ گئی کہ واپسی کی ذرا بھی گنجائش نہ چھوڑی اور وہ ببانگ دھل اعلان کر دیا

لَنْ نُؤْثِرَکَ عَلیٰ مَا جَائَ نَا مِنَ البَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (طہ 72)

’’ انہوں نے جواب دیا کہ نا ممکن ہے کہ ہم تجھے تر جیح دیں اُن دلیلوں پر جو ہمارے سامنے آچکیں اور اس اللہ پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے اب تو توُ جو کچھ کرنے والا ہے کر گذر تو جو کچھ بھی حکم چلا سکتا ہے وہ اسی دنیوی زندگی میں ہی ہے ۔‘‘
٭سورت یٰسین میں ایک مؤمن کا واقعہ ہے اور آلِ فرعون میں سے ایک مؤمن کا تذکرہ بھی ہے کھائیوں والوں کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں اور قرآن ِ حکیم میں اور بھی بہت سارے واقعات ہیں سب کے سب کا ایک ہی سبق ہے اور وہ ہے حق کی خاطر ڈٹ جانا۔
چہارم ۔دعا :
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے بندوں کی خوبی یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ ثابت قدمی کی خاطر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں ۔
وہ اس طرح دعا مانگتے ہیں :

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا

’’اے ہمارے رب !جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے تو اب ہمارے دلوں کو نہ پھیرنا۔‘‘

رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرَاًوَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا

’’اے ہمارے رب !ہمیں بہت زیادہ صبر کرنے کی توفیق عطا فرمااور ہمارے قدموں کو(حق پر)مضبوط کردے۔‘‘
جیساکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

قُلُوْبُ بَنِیْ آدَمَ کُلُّھَا بَیْنَ اِصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یَصْرِفُہُ حَیْثُ یَشَآءُ (مسند احمد وصحیح مسلم بروایت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنھما)

’’تمام بنی آدم کے دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا کہ وہ ایک ہی دل ہو جیسے چاہتا ہے اسے پھیر دیتا ہے‘‘
آپ ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے :

یاَ مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلَیٰ دِیْنِکَ (صحیح الجامع الصغیر7864)

’’اے دلوں کو پھیرنے والے !میرے دل کو اپنے دین پر پکا کردے۔‘‘
پنجم: اللہ کا ذکر کرنا:
ذکر استقامت کے اسباب میں سے عظیم سبب ہے ۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ذرا غور کروکہ کس طرح اُس نے دو باتوں کو ملا کر بیان کیا ہے فر مایا :

یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْااِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْرَاً(الانفال65)

’’اے ایمان والو !جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤتو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو ۔‘‘
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کو جہاد میں ثابت قدم رہنے کے لئے سب سے زیادہ مددگار بنایاہے۔ایران اور روم کے کڑیل جسموں پر غور کرو جب اِن لوگوں کو ان جسموں کی ضرورت تھی تو انہوں نے ساتھ نہ دیا حالانکہ مقابلے میں لشکر کی تعداد تھوڑی تھی اوراُن کے پاس سامانِ جنگ بھی کمزور تھا ،اس لئے کہ وہ اللہ کو بہت زیادہ یا د کرنے والے تھے ۔
جب اختیار ات رکھنے والی اورپیکرِجمال عورت نے سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کو دعوت ِ گناہ دی تو اس فتنے سے بچنے کے لئے آپ نے کس چیز کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ کیا ؟کیا یہ بات حق نہیںکہ آپ ’’معاذاللہ‘‘ (اللہ کی پناہ ) کے قلعے میں محفوظ ہو گئے ۔اس طرح شہوت کا بپھرا ہوا طوفان اس قلعے کی دیواروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔
اہلِ ایمان کی ثابت قدمی میں ذکر الٰہی اسی طرح کے نتائج دکھایا کرتاہے۔
ششم۔اس بات کی بھر پور کوشش کرنا کہ ایک مسلمان صحیح راہ پر چلے:
صرف ایک ہی صحیح راستہ ہے جس پر چلنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور وہ ہے اہل السنت والجماعۃ کا راستہ اور یہی طائفہ منصورہ یعنی فرقہ ناجیہ کا راستہ ہے جن کا عقیدہ بہت صاف ستھرا اور منہج بہت صحیح ہے یہ سنت اور دلیل کی پیروی کرتے ہیں ۔اللہ کے دشمنوں سے بالکل الگ ہیں اور اہلِ باطل سے فاصلہ رکھتے ہیں ۔
ثابت قدمی میں جب تم اس بات کی قیمت واہمیت جاننا چاہو تو تو اپنے آپ سے پوچھو :کہ اگلے پچھلے بہت سارے لوگ آخر کیوں گمراہ ہو گئے اور سیدھے راستے پر اُن کے قدم جم نہ پائے اور نہ ہی اِس پر اُن کی موت آئی؟یا یہ لوگ حق تک پہنچے تو صحیح، لیکن عمر کا بڑا حصہ ضائع کرنے کے بعد اور اپنی زندگی کا بہت سارا وقت برباد کرنے کے بعد؟
تم ان کے حال پر غور کرو کہ ایک آدمی فلسفہ کی گمراہیوں اوربدعتوں کو عبور کرتا ہوا علمِ کلام تک جا پہنچتا ہے اعتزال سے چلتا ہے تو تحریف تک چلا جاتا ہے اور تاویل کی وادی سے چلتا ہے تفویض وارجاء تک چلا جاتاہے اور کبھی تصوف کے ایک راستے پر ہوتا اور کبھی دوسرے راستے پر۔
اہلِ بدعت ہمیشہ اسی طرح حیران وپریشان رہتے ہیں ذرا اس نتیجہ پر بھی غور کرو کہ اہلِ کلام موت کے وقت ثابت قدمی سے محروم رہتے ہیں سلف صالحین نے فرمایا ہے ’’موت کے وقت سب سے زیادہ شک کا شکار اہلِ کلام ہی ہوا کرتے ہیں۔‘‘
لیکن غور وفکر کرو کہ اہلِ سنت والجماعہ کے کسی شخص نے جب حق کو جا ن لیا ، سمجھ لیا اور اس پر چل لیا تو اس سے ناراض ہو کر کبھی اسے چھوڑا ہو ؟البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ اپنی کمزور سمجھ کی وجہ سے شہوات وشبھات میں پڑ کر اُسے چھوڑ دیا ہو ۔لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ اُس کو اِس سے زیادہ بہتر راستہ نظر آگیا ہویا اُس نے اس راستے کو باطل سمجھ کر چھوڑ دیا ہو ۔
اس کی ایک سنہری مثال تاریخ میں موجود ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے محمد ﷺ کے ماننے والوں کے بارے میں دریافت کیا :’’کیا کوئی شخص مسلمان ہونے کے بعد ناراض ہو کر واپس ہوا ہے ؟‘‘
ابوسفیان نے جواب دیا : ’’نہیں ‘‘
اس کے بعد ہرقل نے کہا :’’جب ایمان دل میں گھر کر جاتا ہے تو یہی اس کی پہچان ہو تی ہے ۔‘‘(صحیح البخاری مع الفتح۱؍۳۲)
کئی ایک بڑے لوگوں کے بارے میں ہم نے سنا ہے کہ وہ بدعت کی منازل میں ادھر سے ادھر بھٹکتے رہے ۔اور کچھ لوگوں کو اللہ نے ہدایت بھی دی تو وہ باطل کو چھوڑ کر اہلِ سنت والجماعۃ کے مذہب میں آگئے اور اپنے سابقہ مذاہب سے سخت ناراض تھے ۔کیا کسی نے یہ بھی سنا ہے کہ کوئی اہلِ سنت والجماعۃ کا آدمی مذہب سے ناراض ہو کر دوسرے مذہب میں گیا ہو ؟چنانچہ اگر تم ثابت قدمی کے طلبگار ہو تو اہلِ ایمان کے راستے پر ڈٹ جاؤ۔
ہفتم:علم اور سمجھ سوچ پر مبنی ایمانی تربیت ثابت قدمی کا سب سے اہم ذریعہ ہے ۔
ایمانی تربیت :یہ دل اور ضمیر کو زندہ کرتی ہے ۔ انسان کے دل میں اللہ کا خوف اور امید اور صرف اسی کی محبت پیدا کرتی ہے ۔ اور یہ خوبی کتاب وسنت کے نصوص سے دوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی خشکی وسختی کے برعکس ہے اور انسانوں کے اقوال و آراء پر مغز ماری سے بہتر ہے ۔
علمی تربیت:جو کہ صحیح علمی دلیل پر قائم ہونہ ہی اندھی تقلید ہو اور نہ ہی معاشرے کی بے دلیل پیروی ۔
ذہنی تربیت :جس کا جرم سے کوئی سروکار نہ ہو ۔اسلام کے دشمنوں کے پروگرام کو گہرائی سے سمجھتا ہو اور حالات کا حقیقی علم بھی رکھتا ہو ،ارگرد کے واقعات کو سمجھتا ہو اور نتائج سے بھی باخبر ہو ۔
قدم قدم اٹھانے کی تربیت:جس کی وجہ سے مسلمان دھیرے دھیرے آگے بڑھتا ہے اور ایک مناسب طریق کار کے ساتھ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہے ناتو بے تکے طریقے سے چلتا ہے اور نہ ہی کمر توڑ چھلانگیں لگاتا ہے ۔
ضروری ہے کہ ہم ثابت قدمی کی راہ میں اس نکتے کی اہمیت کو سمجھ لیں ۔چاہیے کہ از سرِ نو سیرت النبی ﷺ کا مطالعہ کر یں اور خود اپنے آپ سے درجِ ذیل سوال کریںکہ شدید تکالیف کے زمانے میںنبی اکرم ﷺ کے صحابہ کو کس چیز نے ثابت قدم رکھا ؟
سیدنا بلال وخباب ومصعب وآلِ یاسر جو کے معاشرے کے کمزور لوگ تھے حتیٰ کہ بڑے صحابہ کرام شعبِ ابی طالب اورامتحان کے دوسرے مواقع پر کیونکر اپنے ایمان پر جمے رہے ؟
کیا ساری مشکلات کا مقابلہ اُس تربیت کے بغیر ہو سکتا تھا جو اُنہیں دربارِ نبوت سے ملی تھی، جس نے اُن کی شخصیت کو چودھویں کے چاند کی طرح چمکا دیا تھا؟
ہم صرف ایک صحابی کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں اور وہ ہیں سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ ،جن کی مالکن لوہے کی سیخوں کو اس قدر آگ پر گرم کرتی تھیں کہ وہ سرخ ہو جاتیں، پھر انہیں سیدنا خباب کی ننگی کمر پر رکھتی بالآخرکمر کی چربی جب پگھلتی تو سیخیں ٹھنڈی ہو جاتیں آخروہ کیا وجہ تھی کہ آپ اتنی بڑی سزا کو برداشت کرلیتے ؟
سیدنا بلال کو شدید گرمی میں گرم پتھروں کے نیچے رکھا جاتا۔سیدہ سمیۃ کو بیڑیاں اور طوق پہنائے جاتے۔
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے، ایک اہم موقعہ آپ ﷺ کی زندگی میں پیش آیا، جب غزوہ حنین میں اکثر مسلمان شکست سے دو چار ہو گئے تو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کون کھڑا تھا ؟
کیا یہ نئے نئے اسلام لانے والے تھے ؟
یا فتح مکہ کے مسلمانوں میں سے تھے جنہیں مدرسہ نبوت میں تربیت کا کافی وقت نہیں ملا تھا اور جو غنیمتیں سمیٹنے کے لئے نکلے تھے ؟نہیں نہیں اصل بات یہ ہے جو لوگ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے یہ وہی تربیت یا فتہ اہلِ ایمان تھے جنہوں نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر تربیت پائی تھی ۔
اگر ان کے پاس تربیت نہ ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ یہ لوگ ثابت قدم رہ سکتے ؟
ہشتم :اپنے راستے پر یقین محکم
اے میرے بھائی ! اس بات کا پختہ یقین ہو کہ یہ سیدھا راستہ جس پر میں چل رہا ہوں نہ ہی نیا ہے اور نہ ہی اس زمانے میں ایجاد ہوا ہے ۔ بلکہ یہ بہت پرانا راستہ ہے ۔ جس پر ہم سے پہلے انبیاء کرام ، صدیق زمانہ ، شھداء علماء اور دوسرے نیک لوگ چلتے آئے ہیں ۔اس طرح تیری حیرانی ختم ہو جائے گی اور تیری پریشانی اطمینان میں بدل جائے گی اور تیری جھنجھلاہٹ فرح وسرور کا رنگ اختیار کر لے گی ۔اس لئے کہ تیرے اندر یہ احساس پیدا ہو گا کہ یہ سب لوگ اسی راستے میں میرے ہم سفر اور بھائی ہیں ۔
رب کی طرف سے انتخاب کا احساس اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفَیٰ

’’تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ (منتخب و پسندیدہ)بندوں پر سلام ہے ۔‘‘ (النمل59)

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا (فاطر32)

’’پھر ہم نے ان لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایاجن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند کیا۔‘‘

وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الاَحَادِیْثَ (یوسف 6)

’’اور اسی طرح تجھے تیرا پرور دگار تجھے منتخب کرے گا اور تجھے معاملہ فہمی بھی سکھائے گا۔‘‘
جس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو پسند فرمایا۔اسی طرح نیک لوگوں کو بھی انتخاب میں سے حصہ ملا اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انبیاء کے علم کو سنبھال کر رکھا ہے ۔
اگر اللہ تعالیٰ تجھے بے جان ،جانور ،کافر ،ملحد ، بدعت کی طرف دعوت دینے والا ،فاسق یا ایسا مسلمان جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا نہ ہوتا یا مختلف اور غلط راستوں کی طرف دعوت دینے والا بنادیتا پھر تمہارا احساس کیا ہوتا؟
تمہاری کیا رائے ہے کہ صرف تمہارا یہ احساس کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے منتخب کر لیا ہے اور تجھے اہلِ سنت والجماعت کا داعی بنایا ہے ، کیا یہ بات اپنے طریقے اور منہج پر ثابت قدم رہنے میںفائدہ مند نہیں ؟
نہم : مسلسل اللہ کی طرف دعوت دینے میں جٹے رہنا
نفسِ انسانی اگر حرکت میں نہ رہے تواُس میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور اگر اپنی جگہ سے نہ ہلے تو سڑ گل جاتا ہے ۔ نفس کو چالو رکھنے کا سب سے بڑا میدان دعوت الیٰ اللہ کا کام کرنا ہے یہ انبیاء ورسل والا کام ہے اور نفس کو عذاب سے بچانے والا ہے اسی کے ذریعے طاقتوںکے چشمے پھوٹتے ہیںاور بڑے بڑے منصوبے مکمل ہوتے ہیں اسی لئے اللہ نے فرمایا:

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ(الشوری:15)

’’پس تو اس بات کی طرف دعوت دیتا رہ اور ڈٹ کے کھڑا ہو جا جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اور یہ جملہ قطعا ً صحیح نہیں ہے کہ فلاں نہ آگے بڑھتا اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ نفس کو اگر تو اطاعت اور نیکی میں مصروف نہیں کرو گے تو وہ تجھے برائی میں مصروف کر دے گا ۔اور ایمان تو گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔
وقت خرچ کر کے ،سوچ بچار کی محنت کرکے ،جسم کو تھکا کے، زبان کو متحرک رکھ کے اس طرح کہ دعوت ہی مسلمان کا اورھنا بچھونا بن جائے صحیح راستے کی دعوت دینا گمراہی اور فتنے کے تمام شیطانی راستوں کا سد باب ہے۔
اسی بات پر اس چیز کا بھی اضافہ کر لو کہ یہ کام انسانی سوچ میں چیلنج کا مزاج پیدا کرتا ہے کہ اُسے کس طرح مشکلات کا حل نکالنا ہے؟، مخالفین اور اہلِ باطل کا کیسے مقابلہ کرنا ہے؟جب وہ دعوت کے راستے پر چل پڑے گا تو اس کے ایمان میں ترقی ہو گی اور ارکانِ ایمان مضبوط ہو ں گے۔
دعوت کے کام میں اجرِعظیم تو ہے ہی ، یہ کام ثابت قدمی کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔اس طرح داعی اپنے عقیدے میں نہ کمزور پڑھتا ہے اور نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ اس لئے کہ جو آدمی خود حملہ آور ہو اسے اپنے دفاع کی ضرورت نہیں ہو تی ۔اللہ کی مدد ہمیشہ دعوت کا کام کرنے والوں کے ساتھ ہو تی ہے۔ اللہ خود اُن کے قدم مضبوط کرتا ہے اور ان کی کوتاہیوں کی تلافی کرتا ہے۔ داعی کا حال طبیب جیسا ہوتا ہے اپنے علم اور تجربے کے ذریعے لوگوں کا علاج کرتا ہے چونکہ وہ لوگوں کو بیماریوں سے بچاتا ہے، لہذا وہ خود بھی بیماری پیدا کرنے والے اسباب سے دور رہتا ہے۔
۔جاری ہے۔

لے کر رہیں گے کشمیر۔ بن کر رہے گا پاکستان

کشمیر پاکستان کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔آجکل کشمیر کافی بڑے علاقے کو
سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ ریاست کشمیر میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے علاقے پونچھ، مظفرآباد، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے بھی شامل ہیں۔گلگت اور بلتستان کو 1848 میں کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے فتح کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے۔
اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ)، اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہیں۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ بھارت سارے کشمیر کے وسائل لوٹنا چاہتا ہے دھوکہ دہی سے الحافظ شدہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ ونگ سمجھتا ہے۔
اسی لیے تو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان27 اکتوبر 1947 سے اب تک بھارت کےخلاف یوم احتجاج مناتے چلے آرہے ہیں کیونکہ اس دن مہاراجہ کشمیر نے ساز باز کے ذریعے مقبوضہ ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا تھا حالانکہ اس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہ تھا۔ ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی اور مسلم اکثریتی ریاست کی حیثیت سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ڈوگرہ حکمرانوں نے سازش کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو بھارت کا غلام بنا دیا۔ 14 اگست1947ء کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کشمیری یہی سمجھتے رہے کہ وہ پاکستان کا حصہ ہیں۔ کیونکہ کشمیر میں 90 فیصد مسلمان ہیں کیا ہوا اگر ان کا راجہ ہندو ہے لیکن عوام تو مسلمان ہے مگر جب 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا تو کشمیری مسلمانوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بھارت کو تقسیم ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے مگر مہا راجہ نے ابھی تک کوئی فیصلہ نہ کیا تھا۔ جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی، قومی اور اصولی طور پرکشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا اور یہ ضابطہ آزادی تاج برطانیہ نے برصغیر سے رخصتی کے وقت خود طے کیا تھا۔ دو قومی نظریے کی صداقت پر اصرار مسلمانان ہند اور انکے لیڈر محمد علی جناح کا تھا لیکن ہندوؤں کی جماعت کانگریس کو بھی یہ نظریہ تسلیم کرنا پڑا یوں باؤنڈری کمیشن کی ضرورت پڑی اور بھارت میں دو آزاد ملکوں کی تشکیل اور فطری ضرورت کو انگریزوں نے بھی سند قبولیت بخشی۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 27 اکتوبر کو ماؤنٹ بیٹن نے کشمیری راجہ کو خط لکھا اور 27 اکتوبر کو ہی بھارتی فوج کشمیرمیں داخل ہوگئی۔اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ بھارتی فوج ایک منصوبے کے تحت کشمیر میں داخل ہونے کیلئے پہلے سے تیار تھی۔ اس کے بعد نومولود پاکستان کیلئے کس طرح ممکن تھا کہ وہ کشمیر کی صورتحال سے لا تعلق رہ سکے۔ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے پاس افرادی قوت، اسلحہ گولہ بارود، ذرائع آمدورفت کی بھی کمی تھی اور بھارت نے پاکستان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔ اسے یقین تھا کہ بھارتی افواج باآسانی پورے کشمیر کو اپنے قبضے میں کر لیں گی۔ تنازعہ کشمیر دراصل تقسیم ہند کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جس طرح پاکستان شمالی ہند میں مسلم اکثریت کی بنیاد پر وجود میں آیا، اسی اصول کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو 1947 پاکستان میں شامل ہو نا چاہیے تھا۔ لیکن ہندو اور انگریزوں کی سازش کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے میں رکاوٹ ڈالی گئی اور جموں و کشمیر کا سازش کے ذریعے بھارت سے الحاق کیا گیا۔ 1947 میں مہاراجہ کشمیر اور بھارتی حکمرانوں نے ناپاک گٹھ جوڑ کر لیا اور بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے اسکے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ تاہم کشمیریوں کی بھر پور جدو جہد کے نتیجے میں جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا تو بھارت نے اقوام متحدہ میں کشمیرکا مسئلہ اٹھایا۔اقوام متحدہ نے تنارعہ کشمیر کے حل کے لئے دو قراردادیں منظور کیں۔ جن میں نہ صرف کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا بلکہ یہ طے ہوا کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا موقع فراہم کیا جائیگا۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے فراہم کریں گے۔ لیکن اس کے بعد بھارتی حکمرانوں نے کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت دینے سے انکار کر دیا بلکہ یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔حالانکہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے ساری ریاست کشمیر

کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ کشمیری لیڈروں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ 1947 سے اپنے لیڈروں کی طرف سے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔بھارت نے کشمیر کو اپنی نو آبادی بنا لیا ہے۔ بھارتی سپاہی شناختی کارڈ دیکھتا ہے، تلاشیاں لیتا ہے، مار پیٹ کرتاہے۔ حتی کہ کشمیری خواتین کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آتا ہےان کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ یہ 1947ء کی لیڈر شپ کا غلط فیصلہ تھا جس کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ شیخ محمد عبداللہ نے کہا تھا کہ بھارت پر اعتماد کرنا میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو دائمی بنانے کیلئے کئی منصوبوں پر عمل کر رہا ہے۔ لیکن بھارتی حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کشمیر بھارت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے وہ چاہے مقبوضہ کشمیر میں جتنا پیسہ خرچ کرے وہ کسی طرح کشمیریوں کے دل جیت نہیں سکتا کیونکہ وہ بھارت کی غلامی سے ہر صورت نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی بھی لالچ آزادی کی جدوجہد سے باز نہیں رکھ سکتا۔بھارت نے اقوام متحدہ کے فیصلے کو پس پشت ڈال کر ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے اور کشمیر کے اس بڑے حصے پر قابض ہے۔ جسے دنیا مقبوضہ کشمیر کے نام سے جانتی ہے۔ بھارت اب اس مسئلہ میں اتنا الجھ چکا ہے کہ ہر قسم کے ہتھکنڈوں کے باوجود اسے کوئی رستہ نہیں مل رہا۔ یہاں تک کہ اب ریاستی دہشت گردی بھی حالات کو قابو میں نہیں لا سکتی۔ کشمیری بے چارے 69سال کے انتظار کے بعد مایوس ہو کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جس پر بھارت مزید سیخ پا ہے۔ بھارتی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس تحریک آزادی کو دہشت گردی کے زمرے میں لا کر عالمی سطح پر بد نام کر سکے۔ اس سلسلے میں وہ اسے سرحد پار دہشت گردی کا نام بھی دیتا ہے۔ حالانکہ بھارت خود اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ، نہتے کمشیریوں کے ساتھ دہشت گردی میں ملوث ہے۔بھارتی حکومت نے کشمیر کےڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ 27 اکتوبر1947ء میں جو غیر قانونی اور نام نہاد معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوتا رہا لیکن ایک بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پوری دنیا ، اقوام متحدہ اور کشمیری خود، اس قبضہ کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں اورسمجھتے رہیں گے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے استصواب رائے۔
کشمیر 79 برسوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ بھارت کے ظلم وستم کےبرداشت کر رہا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم یقین دہانی کرواتے ہیں کہ جیسے ہی امن کی فضاءقائم ہوگی۔ ہم اپنی تمام فوجیں کشمیر سے نکال لیں گے۔ پھر یہ فیصلہ کشمیر کی عوام پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کا حصہ بننا چاہے گے۔ یہ بات وزیراعظم کہہ کر یکسر فراموش کرگئے اور بھارتی عوام بھی اگر کشمیر کو رائے شماری کا حق دیا جائے تو بلاشبہ کشمیری عوام کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہی ہو گا۔
بھارت کے 8 لا کھ سپاہی کشمیری عوام پر مسلسل جبر و ظلم کررہے ہیں۔ہر ہر طرح کا سخت رویہ اور جارحانہ انداز روا رکھا ہواہے۔ کوئی بھی کشمیریوں کا پرستان حال نہیں۔ کشمیریوں کی بہن بیٹی کی عصمت محفوظ نہیں۔ بلاناغہ نجانے کتنے جوان۔بچے۔بوڑھے آزادی کے حصول کے لیے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش فرمالیتے ہیں۔
کشمیری عوام تو جہدوجہد کرتے آرہے ہیں گزشتہ 79سالوں سے ظلم، جبر ،زیادتی،تشدد،کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی قیمتی انمول جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آرہے ہیں۔ بے گناہوں کا بے وجہ خون بہایا جاتا ہے۔بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کی انتہا کی ہوئی ہے جتنے بھی کشمیری آزادی کی جدوجہد حاصل کرنے کی لگن میں شہید ہوچکے ہیں ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
روزانہ شہید ہوتے کشمیری ہمت نہیں ہارتے روزانہ اپنے بھائی، بیٹے،کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹتے ہوئے کشمیریوں میں آزادی کا جذبہ شدت سے سر اٹھاتا ہے۔ یہی جذبہ آزادی کشمیریوں میں نئی امنگ و ترنگ بھر دیتا ہے۔
ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوالات آتے ہیں۔ کشمیری عوام کب تک نہ حق شہید ہوتی رہے گی۔ کیا کوئی کشمیر کو بھارت کے شکنجے سے آزاد نہ کرا پائے گا۔کشمیر کی زمین کب تک اپنے باسیوں کا خون جذب کرتی رہے گی۔ کشمیر کی فضاؤں میں کب تک ماؤں۔بہنوں۔بچوں۔کی سسکیاں اور آہیں گونجتی رہیں گئیں۔
پاکستان کے آواز بلند کرنے پر نہ صرف پاکستان کو بھارت کی جانب سے آنکھیں دکھائی گئیں الٹا بھارت نے پاکستان کو سرجیکل اسٹرائیک کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ غنڈا گردی اور جھو ٹ کا پلند تیار کرنے والے بھارت نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کر کے اپنی ہی عوام کو مامو بنا ڈالا کہ پاکستان میں سرجیکل اسٹرئیک کر ڈالا۔ جس پر نہ صرف مودی سرکاری کو اپنی اپوزیشن کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا الٹا عوام نے بھی اسے آڑے ہاتھوں لیا۔عالمی سطح پر بھی اس کو کوئی ماننے ک ےلیے تیار نہیں۔
کہتے ہیں گیدڑ کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ اب مودی سرکاری کی موت قریب آگئی جبھی وہ عجیب و غریب حرکتیں کر رہا ہے۔ پاکستان پر بھارتی دراندازی کا سیدھا سیدھا مطلب کہ اب کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے رب العزت پر قوی یقین و اعتماد ہے کہ کشمیر کی سر زمیں پر ان شاء اللہ بہت جلد آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔ اللہ پاک پاکستان کی پاک فوج، پاک فضائیہ، پاک بحریہ کی حفاظت فرمائے۔ دشمنوں سے ہمارے ملک کو محفوظ رکھے۔ ان شاءاللہ بہت جلد اس مکالمے پر عمل درآمد ہوگا۔ وہ وقت دور نہیں۔ لے کر رہیں گے کشمیر۔ بن کر رہے گا پاکستان۔

دس محرم الحرام کا روزہ فرامین محمدیہﷺ کی روشنی میں

نیا اسلامی ہجری سال ۱۴۳۸ھ شروع ہورہا ہے اور اس کا ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیادتو نبی کریم ﷺ کے واقعہ ٔ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ باقاعدہ طور پر ۱۷ھ میں سیدناعمر فاروق  کے عہد حکومت میں ہوا۔
محرم کا مہینہ ادلہ شرعیہ کی روشنی میں عزت واحترام والا مہینہ قرار دیا ہے، خصوصا محرم کی دسویں تاریخ جس کو عام طور پر ”عاشوراء“ کہاجاتا ہے جس کے معنی ہیں ”دسواں دن“یہ دن اللہ تعالی کی رحمت وبرکت کا خصوصی طور پر حامل ہے۔
یومِ عاشوراءکی فضیلت
عاشوراء کے دن کی فضیلت خود فرامین محمدیہ میں عیاں اور واضح ہے ذیل میں دو تین احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا اليَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهَذَا الشَّهْرَ يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ (صحيح البخاري کتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء الحديث 2006)

میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشوراء کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے اس حدیث میں مذکورہ دن کی فضیلت اظہر من الشمس ہوئی۔
عاشوراء کے دن کی فضیلت میں دوسری روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ لِيَوْمٍ فَضْلٌ عَلَى يَوْمٍ فِي الصِّيَامِ إِلَّا شَهْرَ رَمَضَانَ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ (شرح معانی الآثار کتاب الصیام باب صوم يوم عاشوراء الحدیث : 3286۔ المعجم الکبیر للطبرانی ، رقم الحدیث : 11253 )

روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشوراء کو ۔
مذکورہ دن کی فضیلت میں تیسری دلیل جو کہ آئندہ سطور میں آئےگی کہ اس دن کے روزہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ گذشتہ سال کے گناہ معاف فرمادیتاہے۔
ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی فضیلت اور عظمت کا حامل ہےلہٰذا ہمیں اس دن کی فیوض وبرکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے دس محرم (عاشوراء) کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض تھا ،جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ (صحيح البخاري کتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء الحديث 2004)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے یہود عاشورا ءکے دن کا روزہ رکھتے تھے۔ تو آپ ﷺ  نےوہاں کے لوگوں سے اس روزہ سے متعلق پوچھا توان (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن سے نجات دی تھی اس کے شکر میں سیدناموسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں سیدناموسیٰ علیہ السلام کا (بھائی ہونے کے ناطے) ان
سے زیادہ مستحق ہوںچنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی
اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس دن کے روزہ کا حکم دیا۔
بعد میں جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس وقت عاشوراء(دس محرم) کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی لیکننبی کریم ﷺ نے عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قرار دیا بلکہ مذکورہ روزہ ایک سال کے کفارہ کا سبب ہےاس کی دلیل صحیح مسلم میں سیدناابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺیوم عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے

روزہ سے متعلق سوال کیا گیاتو آپ ﷺنے فرمایا:

وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ (رواہ مسلم کتاب الصیام باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس الحدیث:1162)

یوم عاشوراء کا روزہ رکھنے میں مجھےاللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے شمار فضل و احسان ہے کہ وہ ایک دن کے روزہ کے عوض پورے ایک سال کے گناہ معاف کردیتا ہے ۔
محرم میں مسنون عمل صرف روزے ہیں۔ حدیث میں رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔

أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ح: 1163)

رمضان کے بعد ، سب سے افضل روزے ، اللہ کے مہینے ، محرم کے ہیں۔
بالخصوص دس محرم کے روزے کی حدیث میں یہ فضیلت آئی ہے کہ ایک سال گزشتہ کا کفارہ ہے۔
یہ ماہ مبارک حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اس پر بے شمار ادلہ فرامین محمدیہ ﷺ کی صورت میں موجود ہیں ان میں چند ذیلی سطور میں ذکر ہیں۔

عَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ (صحیح البخاری کتاب الصوم ، باب صیام یوم عاشوراء ، الحدیث : 2001)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے لیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے تو آپ نےاپنی امت کی مرضی پر چھوڑ دیا کہ شاہے تو روزہ رکھ لے اگر شاہے تو چھوڑدے۔

عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَكَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ

سیدہ عائشہرضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ جاہلیت میں قریش اور رسول اللہ ﷺ رکھتے تھے جب مدینہ تشریف لے آئے تو خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیالیکن جب رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے عاشوراء کے دن کاروزہ امت کی منشا پر چھوڑ دیاگیا۔
اس روز آنحضر ت ﷺ بھی خصوصی روز ہ رکھتے تھے(ترغیب) پھر نبی کریمﷺ کے علم میں یہ بات آئی کہ یہودی بھی اس امر کی خوشی میں کہ دس محرم کے دن حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی تھی ، روزہ رکھتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ عاشورہ (دس محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس کے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملا لیا کرو۔ ۹، ۱۰ محرم یا ۱۰، ۱۱ محرم کا روزہ رکھا کروجیسا کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے :

صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا(مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ح: 2154 و مجمع الزوائد: 3/434

ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ(صحیح مسلم، الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، ح؛ 1134)
\”اگرمیں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔
لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپﷺ اللہ کو پیارے ہوگئے۔یہاںایک قابل غور بات یہ ہے کہ نبی کریم _ﷺنے غیر مسلموںکی مشابہت عام زندگی میںتو کجا عبادات میںبھی آپ نے احتراز فرمایا اور صحابہ کو ان کی مخالف کرنے کا حکم دیا۔اللہ رب العزت کما حقہ شریعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
۔۔۔

اہل مغرب میں آزادی نسواں کا ماٹو

معاشرہ میں عورت کا مرد سے نکاح خاندانی نظام کے استحکام کی بنیاد ہے جبکہ مغرب میں آزادی نسواں کے علمبردار عورتیں برملا اظہار کرتی ہیں کہ نکاح کا بندھن قانونی فحاشی کے مترادف ہے اور اس نے عورت کو جنسی غلام بنا دیا ہے جو آزادانہ اختلاج اور صنفی آزادی میں رکاوٹ ہے نکاح کے بغیر جنسی تعلقات کو بدکاری نہیں سمجھا جاتا البتہ عورت کی مرضی کے بغیر کوئی مرد خواہ اس کا خاوند اس سے جنسی تعلقات قائم کرے تو اسے زنا بالجبر تصور کیا جاتاہے۔
اقوام متحدہ نے آزادی نسواں کے مطالبات کو اپنے منشور میں داخل کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی بنک اور آئی ایم او نے مسلم دنیا کو قرضہ دیتے وقت کڑی شرائط عائد کرتے ہیں کہ
\\عورتوں کو مردوں کے مساوی سیاسی،معاشی،سماجی اور صنفی آزادی کے حقوق دیئے جائیں ۔
\\عورتوں کو پردہ کی بے جا پابندی سے آزاد کیا جائے۔
\\نکاح کی حوصلہ شکنی اور جنسی آزادی کو فروغ دینے والے اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
ترقی پذیرممالک سیاسی واقتصادی دباؤ میں آکر عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دے رہے ہیں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں عورتوں کے لیے مخصوص نشستیں مقرر ہیں مزید برآں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بھی الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں۔سرکار ی ونجی اداروں میں ملازمت کے مواقع میسر ہیں۔ خواتین کو فنی تربیت دینے کا سلسلہ جاری ہے، ورکر خواتین کے لیے خواتین ہاسٹلز قائم کئے جارہے ہیں جس کا پس منظر یہی ہے کہ عورت معاشی طور پر والدین یا خاوند کی دست نگر نہ رہے وہ جو چاہے کرے کوئی بازپرس کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
اگر میاں بیوی دونوں ورک ڈیوٹی پر جائیں تو دودھ پیتے بچوں کی نگہداشت کون کرے ہمراہ لے جائیں تو ڈیوٹی دیں یا بچوں کا دل بہلائیں رفتہ رفتہ ملازمت پیشہ عورتوں میں نکاح کا رجحان دھیما پڑجائے گا بصورت دیگر خاندانی منصوبہ بندی پر عمل اُن کی مجبوری بن جائے گا۔
اسلام نے عورت کے نان ونفقہ کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے باپ اور خاوند کی وراثتی جائیداد میں عورت کا حصہ مخصوص کیا ہے مرد صاحبان اس حق کی ادائیگی میں عموماً کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بہبود خواتین این جی اوز کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ آزادی نسواں کی بجائے حقوق نسواں کے حصول کے لیے مناسب لائحہ عمل وضع کریں محروم عورتوں کی طرف سے شکایت کی صورت میں مرد کو نان ونفقہ اور وراثت دینے کا پابند کیاجائے۔
الزام تراشی کیوں ؟
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اخبارات میں کالم شروع ہوا کہ پاکستان کی عورتیں کبھی جہیز کم ہونے کے جرم میں جلا دی جاتی ہیں کبھی بیٹے کی ماں نہ بننے کے جرم میں تیزاب میں داغ دی جاتی ہیں کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے اور کبھی جائیداد کے مٹ جانے کے خوف سے قرآن سے شادی کروا کر بابل کی دہلیز پر بٹھا دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں اس قسم کے اکا دکاواقعات رونما ہوتے ہیں جن سے قطعاً انکار نہیں مغرب میں مذکورہ قسم کے بے شمار سانحات ہوتے ہیں لیکن میڈیا پر ان کی تشہیر نہیں ہوتی۔
اوریا مقبول خان نے فیس بک پر اظہار خیال کیا ہے:
امریکہ میں اس سال 523 عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا جس کا ہمیں شاید علم ہی نہیںاس کی بنیادی وجہ یہ
ہے کہ وہاں کوئی شرمین عبید چنائے نہیں ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب وتمدن سے دل بردرشتہ عورتوں کی اکثریت اسلام کے عفت وحیاء کے زیور آراستہ کر رہی ہیں پاکستان میں جرائم کے انسداد کے لیے سزاؤں کا تصور عدل وانصاف کے تقاضے پورا نہیں کرتا۔ مجرم جس قسم کی اذیت سے عورت کو دوچار کرتاہے اُس کو بھی اسی نوعیت سے فوری سزا دی جائے پھر اس کی میڈیا پر تشہیر کروائی جائے تو دیکھنا کسی کی جرأت نہ ہوگی کہ وہ کسی کے چہرہ پر تیزاب پھینکے یا وہ کسی کو جلائے۔ بالغ ہونے پر اولاد کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جائے توغیرت کے نام قتل کی نوبت نہ آئے۔ رخصتی پر وراثت کا جائز حق دیا جائے تو جہیز کی رسم تدریجی انداز میں دم توڑ جائے۔ بیٹا یا بیٹی کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی سے ہے اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں عقیدئہ توحید کا شعور پیداکرنے کی ضرورت ہے۔
مذاہب عالم میں سے اسلام کو ہی امتیازی مقام حاصل ہے جس نے عورت کو عزت ومرتبہ کے مقام سے نوازا۔ محسن انسانیت محمد ﷺ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے فرمایا تین دفعہ ماں سے اور چوتھی دفعہ باپ سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا اپنی بیٹیوں کی عمدہ تربیت کرنے پر جنت میں قربت کا وعدہ کیا آپ ﷺ نے مردوں کو فرمایا تم میں سے اچھا وہ ہے جو بیوی سے اچھا برتاؤ کرے۔
دین اسلام نے مرد اور خواتین کے حقوق وفرائض متعین کردیئے ہیں جن پر عمل کرنے سے خاندانی ماحول خوشگوار بن سکتاہے۔ مرشد کامل محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کا بحیثیت خاوند اور بحیثیت والد سنہری کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے معاشرہ کی اصلاح کے لیے میڈیا پر تشہیر کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔

حصول علم کے ضروری آداب ،خوبیاں وخامیاں

الحمد لله علم الإنسان والصلاة والسلام على رسول الله صلي الله عليه وسلم الذي بلغ الرسالة وأدى الأمانة ونصح الامة وتركها على محجة البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها إلا هالك أما بعد

ذیلی سطور میں ہم حصول علم کے ضروری آداب ،خوبیاں اور خامیاں سے متعلق بات کریں گے۔ ان شاء اللہ
1 اخلاص وللہیت
طالب علم پر سب سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس مقدس پیشے سے منسلک ہونے کے بعد، ریاکاری یا دنیوی مقاصد کے حصول کے بجائے خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول کو پیش نظر رکھے لیکن بہت ہی کم طلبہ ایسے ہوتے ہیں جو حصولِ علم سے عارضی مفادات کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی چاہتے ہیں (إلا من رحم ربی ) (السیر 11/316)
اپنی طاقت کے مطابق اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ نیت میں حصول رضائے الٰہی کے سوا کسی اور امر کا شائبہ نہ ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ اس کی سوچ کے مطابق ہی معاملہ فرماتا ہے اگر سوچ ہی بری ہو تو پھرنتائج بھی برے برآمد ہوتے ہیں جب طالب علم میں صدقِ نیت ہو تو اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ(العنكبوت:69)

اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انھیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گےیقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے ۔
2مدارس وشیوخ سے استفادہ کیا جائے
علم دین کا یہ کمال ہے کہ اس کی اشاعت وابلاغ کے لیے ہر شہر میں علمی مراکز قائم ہیں ہمیں دور دور کی سفری مشکلات نہیں اٹھانا پڑتیں یہ علم دین ہی کا خاصہ ہے کہ اس کی تعلیم بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان مدارس وجامعات میں شیوخ واساتذہ کا وجود بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے جو صرف اسلامی تعلیمات کی تدریس واشاعت میں مگن رہتے ہیں لہٰذا ہمیں ان مدارس واساتذہ کرام کو غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ان کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اگر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر شہروں میں جانا پڑے توحصول علم کے متلاشی کو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ مدارس وجامعات ہی ایسے علمی مراکز ہیں جو انسان کو ضلالت وجہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا کرتے ہیں لہٰذا ان علمی مراکز ومدارس کی طرف رختِ سفر باندھنا بھی باعث حصول جنت ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (مسلم:2699)

’’جو شخص حصول علم کے لیے رختِ سفر باندھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتاہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ علم کے نور سے خود کو منور کرنے کی خاطر سفر کرنا گویا جنت کی جانب سفر کرنا ہے اسی طرح علماء واساتذہ کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر کرنا چاہیے ان کے علم سے استفادہ کرنا چاہیے اور ان کے علمی تجربات اور اخلاقیات سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ علم کی بقا انہی کے وجود سے ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلَکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمٌ اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُهَّالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا (صحيح البخاري كتاب العلم باب كيف يقبض العلم ، حديث :100)

’’بیشک اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں
(کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ‘‘
اس لیے دین کے حقیقی علماء کی رحلت سے پہلے ان کی حیات ووجود کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان سے علوم وفنون میں استفادہ کرنا چاہیے کیونکہ انہی کے ذریعے سے علم کا ابلاغ ہوتا ہے اور ان کے چلے جانے سے علم بھی اُٹھ جاتاہے۔
3 علمی مجالس میں شرکت کی جائے
علم محض پڑھنے سے ہی نہیں آتا بلکہ سننا بھی حصول علم کا ایک بڑا ذریعہ ہے علمی مجالس میں شرکت کرنے سے احاطۂ علم میں بہت اضافہ ہوتاہے لہٰذا یسی مجالس جن میں علمی موضوعات زیر بحث ہوں اُن میں شرکت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اختلافی مسائل پر ہونے والے مباحثے ومناظرے میں بھی شرکت کرنی چاہیے اس سے فریقین کے دلائل کا علم حاصل ہوتا ہے اور پھر ان دلائل کے پیش نظر صحیح اور راجح موقف متعین کرنے میں کوئی دقت لاحق نہیں ہوتی طرفین سے پیش ہونے والی احادیث وآثار ان کی صحت وضعف ، وجوہ ترجیح وتعلیل اور ان کےمآخذ کا علم حاصل ہوتاہے ان کے علاوہ بھی دیگر بہت سے علمی فوائد کے حصول کے لیے ایسی علمی مجالس میں شرکت کا اہتمام نہایت ضروری ہے ۔
4 محنت اور کوشش سے کام لیا جائے
صرف ذوق وشوق رکھنا یا مسلسل حاضر رہنا حصول علم کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے لیے انتہائی محنت اور جدوجہد بھی ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی مقصد بغیر کدوکاوش کے حاصل کرنا ناممکن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى (النجم:39)

’’اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔‘‘
یعنی اگر کسی کام کے لیے محنت وکوشش سے کام نہ لیا جائے تو اس میں قطعاً کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی اور جس کام کے لیے جدوجہد کی جائے وہ کام ضرور ہوکر رہتاہے۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إنما العلم مواهب، يُؤتيه الله من أحب من خلقه، وليس يَناله أحد بالحسَب، ولو كان لعلة الحسب لكان أولى الناس به أهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم (الحث على طلب العلم ص 78)

’’علم ایک وہبی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے اپنے محبوب بندے کو ہی عطا فرماتا ہے یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ کوئی اسے حسب ونسب کی بنیاد پر حاصل کر سکے کیونکہ اگر علم حسب ونسب کی بدولت حاصل ہوتا تو تمام لوگوں کی نسبت نبی کریم ﷺ کے اہل بیت اس کے زیادہ حق دار ہوتے۔‘‘
یعنی اگر علم حسب ونسب کی بنا پر حاصل ہوتا تو آپ  ﷺ کے چچا اور دادا اس سے کیوں محروم رہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل خاص ہوتا ہے لیکن وہ بھی اس شخص کے لیے ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب وپسندیدہ بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کے ساتھ حصول علم کا ذوق وشوق، خلوص نیت اور محنت وکوشش سے بھی کام لیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس عطا کے حق دار بن سکو۔
امام اسماعیل الجرجانی رحمہ اللہ ہر رات میں مختلف علوم وفنون پر محیط 90 اوراق لکھا کرتے تھے۔
ان لوگوں کے عزائم اور ہمتیں پہاڑ کی مانند مضبوط ہوا کرتی تھیں نہ تو انہیں عیش وآرام کی چاہت ہوتی، نہ مال ودولت کی حرص ہوتی، اور نہ ہی دنیوی خواہشات ان پر غالب آتی تھیں بلکہ انہوں نے تمام تر امور سے قطع نظر ہوکر خود کو فقط تعلیم وتعلّم کے لیے وقف کر رکھا تھا اور لیل ونہار کے تمام اوقات اسی کام میں مشغول رہتے۔
ہر طالب علم جب حصول علم کے لیے صدقِ نیت کے ساتھ محنت کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پیش آنے والی تمام مشکلات آسان فرما دیتاہے تمام رکاوٹیں دور کر دیتا ہے اور منازل علم کی طرف راہنمائی فرماتاہے ۔
موجودہ دور میں حصول علم کے لیے بہت زیادہ وسائل وسہولیات میسر ہیں ہم اگر چاہیں تو اسلاف کے طرزِ عمل کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے بلند ہمتی، عزم صمیم، خلوص نیت، محنت،جدوجہد اورشوق ورغبت جیسی صفات کا ہونا ضروری ہے۔
بقول شاعر ؎
شوق ہو راہنما تو کوئی چیز نہیں مشکل
مگر شوق بڑی مشکل سے راہنما بنتا ہے
5 مکمل انہماک ودلچسپی سے پڑھا جائے
سبق کا وقت شروع ہوجائے تو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس میں متوجہ رہنا چاہیے ، ذہن کو دوسرے معاملات وامور میں الجھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ شیطان چونکہ علومِ دینیہ اور طلبائے دین کا دشمن ہے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ طلباء کے ذہنوں کو دیگر معاملات میں الجھائے رکھے لیکن اُس کے شر سے بچنے کے لیے ذہن کو اپنے مقصد میں محو ومگن رکھنا چاہیے۔
امام شعبی رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کیسے علم حاصل کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا ۔
بنفي الاعتماد، والسير في البلاد، وصبر كصبر الحمار وبكور كبكور الغراب (الرحلة في طلب الحديث ص 196)
’’خود پر اعتماد نہ کرنے،مختلف شہروں کا سفر کرنے، گدھے کے صبر کی طرح صبر کرنےاور کوے کی طرح صبح سویرے جاگنے سے۔‘‘
امام فرعانی رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم عبد بن الفصل رحمہ اللہ کی مجلس حدیث میں شریک تھے اور وہ ہمیں پڑھا رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ہم میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہ دی جب اس نے مسلسل دستک دینا شروع کر دی تو امام صاحب نے ایک شاگرد سے فرمایا کہ دیکھ کون ہے؟ اگر کوئی اصحاب رائے میں سے ہو تو دروازہ کھول دینا لیکن اگر اصحاب حدیث میں سے کوئی ہوتو دروازہ مت کھولنا۔
حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا کہ کیا صاحب حدیث اس کے زیادہ لائق نہیں کہ اس کے لیے دروازہ کھولا جائے؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں ، اس لیے کہ اصحاب الحدیث کو بخوبی علم ہے کہ درسِ حدیث کے دوران حدیث پڑھنے اور سننے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہوسکتا تو پھر بھی وہ دروازہ کھٹکھٹائیں تو ان کی سزا یہی ہے کہ ان کے لیے دروازہ کھولا ہی نہ جائے لیکن اصحاب رائے اس بارے میں معذور ہیں انہیں احادیث کا ہی صحیح طور پر علم نہیں ہوتا تو پھر آداب حدیث سے وہ کیسے واقف ہوں گے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جب عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ حدیث کا سبق پڑھا رہے ہوتے تو ان کے طلباء اور شاگرد ایسے بیٹھے ہوتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوںیا جیسے وہ نماز میں مشغول ہوں۔
اسی طرح احمد بن سنان رحمہ اللہ انہی کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ ان کی مجلس میں لوگ اس قدر انہماک سے بیٹھے ہوتے کہ نہ کوئی مسکراتا، نہ کوئی کھڑا ہوتا حتی کہ کوئی قلم کی بھی آواز پیدا نہ ہونے دیتا اور اس طرح سبق کی طرف متوجہ ہوتے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور اگر آپ کسی کو مسکراتا یا بات کرتا دیکھ لیتے تو جوتا پہنتے اور مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے۔ ( السیر 9/201۔202)
اس لیے کہ ایسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت ان پر سایہ فگن رہتی ہے اور اس میں سنجیدگی اور متانت کے خلاف کوئی بھی فعل آداب مجلس کے خلاف ہےامام مہدی رحمہ اللہ کسی بھی بے ادبی ہونے پر مجلس سے تشریف لے جایا کرتے تاکہ علم کا ادب واحترام برقرار رہ سکے اور رحمت وسکینت سے محرومی نہ ہوجائے انسان جب کسی بھی کام میں سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مکمل انہماک ودلچسپی سے کام لیتا ہے تو وہ ضرور اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اگر وہ مال ودولت کے حصول میں دلچسپی لے تو وہ ضرور دولت مند بن جائے گا اگر اخروی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے عبادت وریاضت کا اہتمام کرنے لگے تو ضرور نجات سے ہمکنار ہوگا اور اسی طرح اگر وہ حصول علم میں انہماک ودلچسپی اختیار کرلے تو علم کے اس مقام پر فائز ہوگا جہاں اسے سب لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھیں۔
6 مایوس ونااُمید نہ ہوا جائے
بہت سے طلبہ جب کئی کئی ماہ یا سالہا سال محنت کرنے کے باوجود علوم وفنون میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے تو مایوس ونااُمید ہوجاتے ہیں اور محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ جب کوئی طالب علم خلوص نیت اور شوق ومحنت سے اپنے کام میں مگن ہو تو اسے قطعاً نااُمید نہیں ہونا چاہیے کیونکہ محنتی شخص کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے ایسے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول قابل توجہ ہے وہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں :

مكثت في كتاب الحيض تسع سنين، حتى فهمته (طبقات الحنابلة 1/268)

’’ میں نے کتاب الحیض کو سمجھنے میں نو برس صرف کیے۔‘‘
لہٰذا ایسے طلبہ کو پریشان ہوکر نا اُمیدی نہیں اختیار کر لینی چاہیے اللہ تعالیٰ نے عام طور پر تمام انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے کوئی شخص معمولی محنت سے کام لیتا ہے اور کامیاب ہوجاتاہے اور بعض نہ ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی محنت کی زحمت گوارہ کرتے ہیں تو وہ ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض طلبہ شدید محنت کے باوجود بھی کوئی سبق یا بحث جلد سمجھ نہیں پاتے تو ایسے طلبہ کو نا اُمید ہوکر اس سبق کو ادھورا نہیں چھو|ڑ دینا چاہیے بلکہ اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے کہ خلوص ومحنت ہی کی بدولت اللہ تعالیٰ تمام مشکلات آسان فرما دیتاہے۔
امام شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک مسئلہ کی وضاحت نہیں ہورہی تھی بہت کوشش کے باوجود میں ناکام رہا لیکن میں عزم کیے ہوئے تھا کہ اس مسئلہ کو ضرور سمجھ کر رہوں گا، چنانچہ میں مسلسل اسی میں مشغول رہا اور میرا خادم شمع لے کر میرے سر پر کھڑا رہا حتی کہ ساری رات بیت گئی اور فجر طلوع ہوگئی تب کہیں میرا اشکال زائل ہوا اور میں اُس مسئلے کو سمجھ گیا۔
7 اساتذہ کا ادب واحترام کیا جائے ۔
طالب علم پر اساتذہ کا ادب واحترام واجب ہے کیونکہ اساتذہ کے ادب واحترام سے وہ کچھ حاصل ہوتاہے جو کتب سے حاصل نہیں ہوپاتا طالبعلم کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اساتذہ کے ادب کا لحاظ نہ رکھے اسی طرح استاد کے کلام کو اپنے فہم ناقص کی وجہ سے غیر مفید سمجھنا یا اپنا علم جتلانے کے لیے ان سے بحث ومباحثہ کرنا شقاوت وبدبختی کا باعث بلکہ جہالت سے نکال کر علم وہدایت کی راہ دکھلانے والوں کا خود کو ہمیشہ احسان مند اور ان کے احسانات وعنایات کا قرض دار سمجھتے رہنا چاہیے اور ہر دم ان کی تعریف وتحسین میں لب کشار رہنا چاہیے ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا میں اس کا غلام ہوں اگر وہ مجھے بیچ بھی ڈالے تو میں برانہ مانوں۔
محمد بن محمد الخادی استاد کے ادب واحترام کے متعلق کہتے ہیں کہ
رأيــت أحــق الحــق حــق المعلـم
وأوجبــه حفظـا علـى كـل مسـلم
’’میری رائے میں استاد کا حق تمام حقوق سے بڑھ کر ہے اور اس کا پاس ولحاظ رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔‘‘
شیوخ واساتذہ کی تکریم وتعظیم کی تعلیم نبی مکرم ﷺ نے بھی دی ہےبلکہ ان کی بے ادبی کرنے والوں کو اپنوں میں شمار ہی نہیں فرمایا :

ليس من أُمتي من لم يُجِلَّ كبيرَنا، ويَرحَمْ صغيرَنا، ويعرِفْ لعالمِنا (صحیح الترغیب 1/24 ، حدیث:101)

’’وہ شخص میرا امتی ہی نہیں جو بڑوں کی عزت نہ کرے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور عالم کا حق نہ پہنچانے۔‘‘
عالم کا حق پہچاننے سے مراد یہ ہے کہ ان سے پیش آتے وقت ان کی عزت وتوقیر کی جائے ان سے بات کرتے وقت ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے اور ان کی عدم موجودگی میں اگر ان کا تذکرہ ہو تو اچھے الفاظ سے ان کا ذکر کیاجائے۔
استاد کی خدمت کرنا بھی آداب وتعظیم میں شامل ہے طالب علم کو استاد کے حکم کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے کہے بغیر ان کے کام نمٹا دینے چاہئیں کیونکہ جو تمہیں علم کی دولت سے مالا مال کرتاہے ان کی خدمت کرنا ان کے احسان کے شکریے کی ایک ادنیٰ سی صورت اور فلاح دارین کا ذریعہ بھی ہے اس لیے خدمتِ اساتذہ کو اپنا شعار بناناچاہیے۔
خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کو امام اصمعی رحمہ اللہ کی خدمت میں حصول علم کے لیے بھیجا وہ اپنے استاد کا بہت خدمت گزار ثابت ہوا ایک دن خلیفہ امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ وہ وضو فرما رہے ہیں اور ان کا بیٹا برتن ہاتھ میں لیے پانی ڈال رہا ہے تو خلیفہ کہنے لگا امام صاحب! کیا آپ اسے یہ ادب سکھلا رہے ہیں اپنے استاد کا ؟ اسے تویہ چاہیے تھا کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوتا۔اساتذہ کی خدمت کے ذریعے ان کی دعائیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ان کی دعائیں کامیابی وکامرانی کے دروازے کھولتی ہیں۔ اسی طرح اساتذہ کی بددعا سے بھی بچنا چاہیے کہ وہ کامیابیوں میں رکاوٹ بنتی ہے علوم وفنون میں مہارت ، اساتذہ کی نظر میں وقار اور ان کی دعاؤں سے عمل زندگی میں کامیابی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ان کا ادب کیا جائے۔
کتنی محبتوں سے پہلے سبق پرا یہ
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
8 تعلیم میں دلچسپی نہ لینا
تعلیم کا مقصد واضح اور متعین نہ ہو تو حصول علم میں دلچسپی اور شوق پیدا نہیں ہوتا۔ نصاب ونظام تعلیم کی یہ سب سے بڑی خامی ہے یہ سبب اور خامی موجود ہو تو حصول علم میں رغبت ختم ہوجاتی ہے یعنی کلاس میں حاضر نہ ہونا ،یا حاضر تو ہونا مگر اسباق میں دلچسپی نہ لینا یا اسباق کو سننا اور یاد نہ رکھنا، یا آج کا کام کل پر ٹالے رکھنا، یا نصابی کتب کے بجائے غیر نصابی کتب ورسائل کے مطالعے کا غیر معمولی شوق رکھنا۔ یہ تمام عوامل عمل تعلیم کو شدید متأثر کرتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اس کا احساس نہیں ہوپاتا اس کا احساس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت ہوتاہےجب ہم عصر لوگ تعلیم سے فراغت پاکر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی اور اس طرف پیش قدمی کر چکے ہوتے ہیں ۔ ایک شاعر کہتا ہے

إِذَا أَنْتَ لَمْ تَزْرَعْ وَأَبْصَرْتَ حَاصِدًا
نَدِمْتَ عَلَى التَّفْرِيطِ فِي زَمَنِ الْبَذْرِ

’’جب آپ نے بیچ نہیں بویا تو کٹائی کے دنوں میں فصل کے پکنے اور کاٹنے کی امید لگانا، اپنی سستی پر شرمندہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘
9 علم پر عمل نہ کرنا
علم پر عمل نہ کرنا علم کی برکات کے زائل ہونے کا سبب ہے اور روزِ قیامت یہ عمل اس شخص کے خلاف حجت ہوگا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے عمل سے متنبہ فرمایا ہے:

كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُون

’’اللہ کے ہاں یہ بہت بڑا جرم ہے کہ تم لوگوں کو جو بات کہہ خود اس پر عمل نہ کرو۔‘‘(الصف:3)
اسلاف رحمہم اللہ جس شوق ورغبت اور محنت سے علم حاصل کرتے، اس پر عمل کرنے کے لیے اس سے بھی کہیں بڑھ کر حریص رہتے تھے۔سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سے کوئی شخص جب دس آیات سیکھ لیتا تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتا جب تک ان دس آیات کے معانی ومفاہیم کو خوب سمجھ نہ لیتا اور ان میں بیان گئے گئے احکامات پر عمل نہ کرلیتا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ علم انسان کی عملی کیفیت دیکھتا ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کرتا ہو توعلم اس سے رخصت ہوجاتاہے۔

العلم بلا عمل كالسحاب بلا مطر

معلوم ہوا کہ علم اور عمل دونوں لازم وملزوم ہیں اگر دونوں کا وجود ہو تو حصول برکات، رفعت ونجات کا باعث بنتا ہے اور اگر علم تو ہو لیکن اس پر عمل نہ ہو تو یہی علم انسان کے لیے وبال بن جاتاہے دین کا علم ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت اور لازوال دولت ہے اس دولت کی بھی مال کی طرح زکاۃ ادا کرنا واجب ہے اور اس کی زکوٰۃ اس پر عمل کرنا اور دوسروں کو اس کی تعلیم دینا ہے جیسا کہ شیخ الدعوۃ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اعْلمْ رَحِمَكَ اللهُ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَيْنَا تَعَلُّمُ أَرْبَع مَسَائِلَ:المسألة الأُولَى: الْعِلْمُ: وَهُوَ مَعْرِفَةُ اللهِ، وَمَعْرِفَةُ نَبِيِّهِ ـ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ـ، وَمَعْرِفَةُ دِينِ الإِسْلامِ بالأَدِلَّةِ.المسألة الثَّانِيَةُ: الْعَمَلُ بِهِ المسألة الثَّالِثَةُ: الدَّعْوَةُ إِلَيْهِ.المسألة الرَّابِعَةُ: الصَّبْرُ عَلَى الأَذَى فِيهِ(الاصول الثلاثة للشيخ محمد بن عبد الوهاب )

’’ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے جان رکھو کہ چار مسائل کو اچھی طرح جاننا ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے ،پہلا مسئلہ: علم حاصل کرنا ، دوسرا اس علم پر عمل کرنا ، تیسرا : اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا، چوتھا مسئلہ : اس دعوت میں پیش آنے والی تکالیف پر صبر کرنا۔ ‘‘
قارئین کرام !مذکورہ بالا نقاط حصول علم کی خوبیوں سے متصف ہوکر اور خامیوں سے بچ کر انبیاء کے وارث بننے میں کوئی چیز مانع نہیں۔
اللہ رب العزت سے استدعا ہے کہ وہ ہمارے سینوں کو علم نافع اور عمل صالح سے آراستہ فرمادے۔

إنہ ولی ذلك والقادر علیہ
۔۔۔۔۔

حلت وحرمت کی توضیح کے مابین مشتبہ امور

بَاب فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ

اس شخص کی فضیلت ( کا بیان) جو اپنے دین کے قائم رکھنے کے لئے گناہوں سے بچے

7-52- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْم حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ عَنْ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْحَلَالُ بَيِّن وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلَا إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ .

ابو نعیم، زکریا، عامرکہتے ہیں کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے،اچھی طرح جان لو کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ صحیح ہوجاتا ہے تو سارا بدن صحیح ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
Narrated An-Nu\’man bin Bashir: I heard Allah\’s Apostle saying, \’Both legal and illegal things are evident but in between them there are doubtful (suspicious) things and most of the people have no knowledge about them. So whoever saves himself from these suspicious things saves his religion and his honor. And whoever indulges in these suspicious things is like a shepherd who grazes (his animals) near the Hima (private pasture) of someone else and at any moment he is liable to get in it. (O people!) Beware! Every king has a Hima and the Hima of Allah on the earth is His illegal (forbidden) things. Beware! There is a piece of flesh in the body if it becomes good (reformed) the whole body becomes good but if it gets spoilt the whole body gets spoilt and that is the heart.
معانی الکلمات :
بَيِّنٌ : ظاہر ، واضح مراد وہ چیز جسے اللہ اور رسول ﷺ نے حلال یا حرام فرمایا ہو یا جس کے حلال وحرام ہونے پر مسلمان کا اجماع ہو ۔
مُشَبَّهَاتٌ : مشکوک، مشتبہ وہ چیز جس کا حلال وحرام ہونا واضح نہ ہو ۔
اتَّقَى : اجتناب کیا، دور رہا، بچ گیا۔
اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ : بَرِیٌ سے مراد شرعی مذمت سے اپنے دین کو بچایا اور لوگوں کے طعنوں سے اپنی عزت کی حفاظت کی۔
وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ : یعنی جرأت اور دلیری سے کسی مشکوک اور مشتبہ چیز کو استعمال کر لیا۔
الْحِمَى : محفوظ ، مالک کے علاوہ غیر کے لیے ممنوع ، مراد وہ گھاس (چراگاہ) جس کو حاکم نے اپنے لیے محفوظ کیا ہو اور لوگوں کو اس میں چرانے پر عتاب کی دھمکی دی ہو۔
مَحَارِمُهُ : معاصی ، وہ جرائم جن کے ارتکاب اللہ نے روکا ہو ، خواہ وہ نفس،عزت یا مال کے بارے میں ہوں جیسے قتل ،چوری، زنا وغیرہ ۔
مُضْغَةً : گوشت کا لوتھڑا ، ٹکڑا۔
تراجم الرواۃ :
1 نا م ونسب :
الفضل بن دُکین یہ ان کا لقب تھا اصل نام الفضل بن عمرو بن حماد بن زھیر القرشی التیمی الطلحی تھا۔
کنیت: ابو نعیم الملائی الکوفی کنیت سے ہی مشہور ہوئے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : ابو نعیم رحمہ اللہ کا شمار امام البخاری ، امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن راہویہ اور امام یحییٰ بن معین رحمہم اللہ جمیعاً کے اساتذہ میں سے شمارہوتا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ ثبت تھے اور امام الذہبی رحمہ اللہ کے ہاں الحافظ تھے۔
ولادت ووفات : امام ابو نعیم رحمہ اللہ کی ولادت 130 ہجری کوفہ میں اور وفات 219 ہجری کو ہوئی۔
2 نام ونسب :
زکریا بن ابی زائدہ (ابو زائدہ کا نام خالد بن میمون بن فیروز الہمدانی الوادعی تھا۔
کنیت : ابو یحییٰ الہمداني
محدثین کے ہاں رتبہ : کوفہ کے قاضی تھے ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے امام ابن حجر کے ہاں صدوق اور فرماتے ہیں کہ امام الدارقطنی نے شیوخ البخاری میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب)
وفات : ابو یحییٰ رحمہ اللہ نے 149 ہجری میں وفات پائی۔
3 نام ونسب :
عامر بن شراحیل بن عبد بن ذی کباز او ذو کبار
کنیت: ابو عمرو الہمدانی ثم الشعبی الکوفی
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ مشہور فقیہ فاضل تھے۔ عامر بن شراحیل نے پانچ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات کی۔
ولادت : عامر بن شراحیل کی ولادت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عصر خلافت 20 ہجری میں ہوئی۔
وفات : 103 ہجری
4 نام ونسب :
النعمان بن بشیر بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری الخزرجی اور ان کی والدہ کا نام عمرۃ بنت رواحہ تھا والد محترم بھی صحابی تھے رضی اللہ عنہم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفہ کے گورنر مقرر ہوئے اور دمشق کے قاضی بھی رہے آخر میں حمص کے گورنر بھی مقرر ہوئے ۔
کنیت: ابو عبد اللہ المدنی
ولادت : 2 ہجری میں مدینۃ الرسول ﷺ میں پیدا ہوئے اور حمص میں 64 ہجری میں وفات پائی ۔
مرویات : سیدنا النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کی تعداد114 تھی۔
تشریح الحدیث :
قرآن مجید میں بالکل واضح الفاظ میں کچھ چیزوں کو حلال اور کچھ کو حرام قراردیاگیاہے لیکن بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جن کی حلت وحرمت کی وضاحت موجود نہیں اور وہ انسان کو متردد نظر آنے لگتی ہیں ایسی صورت میں نبی کریم ﷺ نے ایک بڑا جامع اصول امت کے سامنے رکھ دیا جس سے انسان اپنی عزت وآبرو اور آخرت کو محفوظ رکھنے کے قابل ہوجاتاہے وہ اصول یہ ہے کہ ’’جس چیز کے بارہ میں انسان کو حلال وحرام ہونے کا تردد ہو تو اس چیز کے استعمال سے پرہیز کرے‘‘ کیونکہ خالصتاً حلال چیز کو کھانے میں قباحت نہیں اور جب آدمی شک میں مبتلا ہوگیا تو اپنے دین ا ور نفس وعزت کو بچانے کی ایک ہی صورت تھی کہ اسنان اسے ترک کردے خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے بھی ایسے واقع پر اسی طرح عمل کیا جس طرح امت کو متشبہ اور مشکوک چیز سے اجتناب کا حکم دیا۔
حدیث میں ہے کہ ایک رات نبی کریم ﷺ کو سخت بھوک لگی آپ ﷺ گھر میں کھانے کی شے ڈھونڈ رہے تھے کہ ایک کھجور پڑی ہوئی ملی آپ ﷺ نے اسے تناول کرنے کے لیے اٹھالیا لیکن فوراً ہی پھینک دیا اور فرمایا

إِنِّي لَأَنْقَلِبُ إِلَى أَهْلِي، فَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً عَلَى فِرَاشِي، فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا، ثُمَّ أَخْشَى أَنْ تَكُونَ صَدَقَةً، فَأُلْقِيهَا

’’ میں اپنے گھر جاکر کھانے کی چیز ڈھونڈتا ہوں کہ مجھے ایک کھجور پڑی ہوئی ملی میں نے اسے اٹھا کر کھانا چاہا لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں یہ کھجور صدقے کی نہ ہو اسے پھینک دیا۔ ‘‘
صدقہ چونکہ رسول معظم ﷺ کی ذات پر حرام تھا اسی لیے آپ ﷺ نے اس کھجور کو مشتبہ جان کر چھوڑ دیا حالانکہ امکان تھا کہ کھجور ہدیہ کی ہو جو آپ ﷺ کے لیے عین جائز اور حلال تھا۔
حدیث میں جس چیز کی طرف اشارہ ملتا ہے وہ یہ کہ مشتبہ چیز سے پرہیز دراصل اپنے دین اور آبرو کی حفاظت کا نام ہے اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک اور کسوٹی کی طرف اشارہ کیا کہ اگر انسان رفتہ رفتہ مشکوک اور مشتبہ چیزوں کو کھانے لگ جائے اور یوں سوچے کہ چلو کیا فرق پڑتا ہے یہ تو کھانے والی شے ہی ہے اسی طرح انسان آخر کار حرام کھانے کی عادت میں پڑ جاتاہے اور پھر اس کا دل مشتبہ اشیاء سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اس بات کی توضیح کے لیے ایسے بدنیت چرواہے کی مثال دی ہے جو اپنی بکریوں کو کسی چراگاہ کے اردگرد چراتا ہے اور قوی امکان یہی ہے کہ بکریاں اس کی آنکھ کو غافل پاکر چراگاہ میں داخل ہوجائیں گی اور وہاں سے کچھ نہ کچھ کھالیں گی یا یوں سمجھیے کہ ہمارے دیہات کے چرواہوں کی مانند اگر مالک کھیت میں موجود نہ ہو تو چرواہا خود چاہے گا کہ اس کی بکریاں کھیت سے کچھ تناول کرلیں۔
یہ مقولہ بالکل صحیح ثابت ہوتا کہ چھوٹے چھوٹے گناہ بڑے گناہوں کی طرف ترغیب دیتے ہیں اسی طرح اگر انسان دل کے لوتھڑے کو شکوک وشبہات سے پاک نہ رکھے تو آخر کار یہ اس کے تمام اعمال کی تباہی وبربادی کا باعث بن جاتاہے۔
عصر حاضر میں اس بات کو سمجھنا بالکل آسان ہے ،فطری اعتبار سے بھی کہ دل اعضاء رئیسہ میں سے ایک ہے اور اس کاکام سارے بدن کو صاف اور پاکیزہ خون مہیا کرنا ہے اور خون کو جسم وجان کے ہر رگ وریشے میں پمپ کرکے پہچانا ہوتا ہے جہاں کسی انسان کو دل کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے توسارا جسم اپنے اعمال کے اعتبار سے تباہ وبرباد ہوجاتاہے نہ آنکھ میں حیا باقی رہتی ہے اور نہ ہاتھوں اور پاؤں پر کنٹرول رہتاہے اگر انسان کا دل کینہ،بغض اور حسد جیسی بیماریوںسے متاثر ہو جائے تو باقی تمام اعضاء اسی دل کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں اور اس کے برعکس اگر دل محبت، اُلفت، رحمت کا منبع بن جائے تو انسان ایثار وقربانی اور الفت کا پیکر بن جاتاہے۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جب تک انسان کا دل سلامت رہتا ہےتو اس وقت تک اس کا ایمان بھی سلامت رہتاہے‘‘ رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا فرمایا کرتے تھے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا
’’اے اللہ میں تجھ سے قلب سلیم کی بھیک مانگتا ہوں۔‘‘
اور قلب سلیم کا مطلب اس حدیث سے سمجھا جاسکتاہے۔
’’قلب سلیم دراصل وہ ہے جو ہر قسم کی آفات اور ناپسندیدہ باتوں سے محفوظ ومامون ہو۔ قلب سلیم دراصل وہ ہے جس میں اللہ کی خشیت کے علاوہ کچھ نہ ہو اور ایسی خشیت نہ ہو جو اسے اللہ سے دور کر دے۔‘‘
اے اللہ ہم سب کو قلب سلیم عطا فرما ۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔

ہر عروج کو زوال ہے

قانونِ قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے،ہر اندھیری شب کے بعد روشنی کا اجالا ہے، ہر چڑھتا سورج ڈھلتے ڈھلتے غروب ہوجاتاہےاٹھتی جوانی آہستہ آہستہ بڑھاپے کی گزرگاہوں سے ہوکر موت اور فنا کا شکار ہوجاتی ہے ۔کائنات میں کوئی بھی حادثہ بغیر کسی مُحدث کے وجود میں نہیں آسکتا ،کوئی بھی معلول بغیر علت کے اپنا سفر حیات شروع نہیں کر سکتا،اسی طرح امتوں کا عروج و زوال بھی بعض عوامل کی بنا پرہی پیش آتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم کاعروج وزوال اسباب وعلل کا مرہون منّت ہے ۔اگر بنی اسرائیل کبھی اللہ تعالیٰ کیلئے ایک پسندیدہ قوم تھے تو صرف اس لئے کہ انہوں نے ان اسباب کوفراہم کیا جو عروج و کامیابی کا باعث تھے لیکن بعد میں یہی قوم ذلت و خواری کا شکار بھی ہوئی۔
اگر قرآن نے ان کے اچھے اعمال کی بنا پر انہیں

أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

کا لقب دیا توان کی بد اعمالیوں کے سبب ان کی گردن میں

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ

کا طوق بھی ڈال دیا تا کہ یہ بات تاریخ میں محفوظ ہو جا ئے کہ اللہ کے نزدیک کوئی بھی قوم حسب ونسب کی بنا پر با عظمت نہیں بنتی بلکہ اس کے اعمال اس کو بلندیوں کی طرف لے جاتے ہیں جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے :

وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (مسلم ، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر، رقم الحديث : 2699)

رب العالمین نے قرآن کریم میں متعدد اقوام کا تذکرہ ان کے عروج وزوال کے حوالے سے کیا ہے جس کا واضح نمونہ بنی اسرائیل ،عاد اور ثمود کی قومیں ہیں ۔کاش مسلمانوں نے انہی قوموں کے انجام سے سبق لیا ہوتا تو آج وہ اس انحطاط کا شکار نہ ہوتے ۔
ماہرینِ دینیات اس بات کو یوں واضح کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل اور ترقی یافتہ دین ہے جو دنیا کے تمام معاملات میں درست سمت میں رہنمائی فراہم کر نے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ۔ لہٰذا مسلمان جب تک اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہے، دنیا میں کامیاب و کامران رہے ۔ اس کے برعکس عیسائیت سمیت دیگر تمام مذاہب نامکمل اور ناقص ہونے کے سبب بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصرہیں ۔ لہٰذا مغرب جب تک اپنے فرسودہ مذہبی روایات سے جڑا رہا، ترقی سے دور رہا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے اس ناقص مذہب سے چھٹکارا حاصل کر لیا تو وہ ترقی کرتے چلے گئے ۔ مسلمانوں کے بعض نادان دوست، مسلمانوں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے دُنیوی معاملات کو اپنے دین سے جدا کرنے کے اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں ، جس پر چل کر مغرب نے ترقی کی ہے ۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے، ہم جوں جوں اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں، تنزلی کے گڑھے میں گرتے چلے جا رہے ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنے جملہ معاملات کو اپنے دین کے اصل ماخذ یعنی قرآن و حدیث سے جوڑنے کی کوشش کریں ۔ ’ پیغامِ قرآن و حدیث‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ مسلمان ہونے کے دعویدار خواہ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، قرآن و حدیث کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں ۔ وہ ان سے قلبی لگاؤ تورکھتے ہیں مگر بوجوہ انہیں پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کو بحیثیت مجموعی پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں میں ہمار ی کامیابی کا دارومدارکتاب و سنت پر عمل کرنے ہی میں ہے ۔
قیام پاکستان سے قبل کئی مسلمان نواب جو بڑی بڑی جاگیروں کے مالک تھے ، پاکستان ہجرت کرنے کی بناءپر اپنی تمام جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پاکستان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ پاکستان میں ریاستوں کے نواب بھی آج تقریباً اپنی شناخت کھو چکے ہیں اور صرف اپنے نام کے ساتھ خان نواب یا پرنس لکھ کر کسی حد تک اپنی پرانی شناخت قائم کئے ہوئے ہیں۔ مثلاً چترال کے پرنس محی الدین ، اَ م اسٹیٹ (الائی) کے پرنس صلاح الدین ، والی آف سوات پرنس اورنگزیب، بہاولپور کے نواب صلاح الدین عباسی اورخان آف قلات جناب میر سلیمان داود جان احمدزئی وغیرہ وغیرہ ۔ نواب آف کالا باغ کے وارث کا تقریباً نام ہی ختم ہو چکا ہے ۔ بھارت میں قائم مسلمان ریاستوں میں دو اہم ریاستیں تھیں جن میں ایک حیدرآباد دکن اور دوسری جونا گڑھ تھی ۔ جونا گڑھ کے نواب جن کو خانجی کہا جاتا تھا اب سرکاری پنشن کے ساتھ اسلام آباد کے ہو کر رہ گئے ہیں اور کوئی انہیں جانتا تک نہیں۔ حیدرآباد دکن کے نواب کی اولادیں بھارتی فلم انڈسٹری کی زینت بن گئی ہیں۔

پاکستان کے سیاسی گھرانےیا تو زوال کا شکار ہیں یا زوال پذیر ہیںجیسا کہ نواب لیاقت علی خان کے بعد کچھ عرصہ تک ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ان کی پہچان کو قائم رکھا مگران کے بعد اس خاندان کا نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ سماجی طور پر بھی نام و نشان باقی نہ رہا ۔اسی طرح گجرات کے چوہدری برادران ، چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے بعد شاید ہی کوئی ہو جو سیاسی طور پر اپنی ساکھ قائم رکھ سکے۔ ڈی جی خان کا کھوسہ خاندان اپنے اندرونی اور مسلم لیگ ن کی قیادت سے اختلافات کی بناءپر زوال پذیر ہے۔70 کی دہائی میںاپنے آپ کو پنجاب کا شیر کہوانے والے ملک غلام مصطفی کھر ،تقریباً 40سالہ عروج کے بعد خاندانی اختلافات اور سیاسی پارٹیاں بدلنے کی بدولت ایک عام کارکن جمشید دستی کے ہاتھوں بری طرح پٹ گئے۔سندھ میں بھٹو خاندان سیاست میں سب سے زیادہ اثرورسوخ رکھنے والا خاندان تھا مگر اب صرف بھٹو کا نام استعمال کیا جا تا ہے۔ سیاست کا محور بھٹو خاندان سے زداری خاندان میں منتقل ہو گیاہے۔ بھٹو خاندان کی فاطمہ بھٹو اور ان کے بھائی ذوالفقار جونیئر باقی رہ گئے ہیں ۔دوسرے ہیں محمد خان جونیجو ! جو پہلی مرتبہ 1979ءمیں جنرل ضیاءالحق کی کابینہ میں وزیر ریلوے بنے۔ 1985ءمیں جنرل ضیاءنے انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھا دیا مگر وہ آپے سے باہر ہو گئے، اور جنرل ضیاءالحق کی مخالفت کے باوجود جنیوا معاہدہ پر دستخط کر کے ہیرو بنتے بنتے زیرو ہو گئے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ےہ خاندان سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گیا ۔ بلوچستان میں خان آف قلات اور نواب اکبر بگٹی کا خاندان فی الحال سیاست سے بالکل آؤٹ لگتا ہے۔ لورا لائی کے جو گیزئی بھی زوال پذیر ہیں اور بمشکل کبھی کبھار سیاسی منظر نامے پر نظر آتے ہیں۔ خیبرپی کے میں ایوب خان کا خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے۔ مردان کے نواب، ہوتی خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے اور ان کی جگہ اعظم ہوتی کے بیٹے اور اسفندیارولی کے داماد نے لے لی ہے۔ شیرپاؤ خاندان پیپلزپارٹی چھوڑنے کے باوجود خیبرپی کے کی سیاست میں ایک مقام رکھتا ہے۔ لکی مروت سے سیف اللہ برادران کو بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں ملتی۔ وہ اپنی سیاسی حیثیت بچانے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر وقت ایک سا نہیں رہتا۔ چترال کا پرنس خاندان بھی سیاسی زوال کا شکار ہے اور پرنس محی الدین کے بعد تو شاید ہی کوئی ہو جو ان کی جگہ لے سکے۔ اسلام آباد میں کھوکھر خاندان تھا جو سیاست میں ایک مقام رکھتا تھا مگر اپنے ذاتی کردار اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے کی بنا پر برُی طرح سیاسی زوال کا شکار ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اس دھرتی پر سدا (ہمیشہ) ایک قوم کا اقتدار نہیں رہتا۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حکومت واقتدار کو ہمیشہ ایک رنگ، نسل، گروہ، خاندان یا قوم کے لیے مختص کردیا ہو۔ہرخطۂ ارض پر مختلف قومیں اور ملتیں آباد رہی ہیں جن میں قوت و حشمت کے لحاظ سے فرق رہا ہے۔ بعض قومیں اپنے معاصرین سے قوت و اقتدار میں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اپنے قرب وجوار میں رہنے والی اقوام پر غلبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ان کا یہ غلبہ اس قدر بڑھتا ہے کہ موجودہ دور کی اصطلاح کے مطابق وہ اپنے وقت کی سپر پاور بن جاتی ہیں۔ کسی کو ان کے سامنے دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی اوراقوام عالم ان سے جان کی امان پاکر ہی اپنے معاملات چلاتی ہیں۔ تاہم ایک وقت کے بعد اس قوم کو زوال آتا ہےایسے ہی جیسے کراچی کی ایک جماعت پر آیا ہوا ہے۔
پاکستان میں بعض جماعتوں نے نفرت پر مبنی سیاست کا آغاز پاکستان کا پرچم جلانے سے کیا،پاکستان کے خلاف نعرے لگا کر اس کو منطقی انجام تک بھی خود ہی لے آئیں۔
نفرت کے شجر کی تشدد سے آبیاری کی گئی تو یہ جماعتیں پروان چڑھیں جس میں ظلم کے کسیلے پھل نمودار ہوئے۔ یہ سب کچھ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ اس سے سب واقف ہیں اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہرقوم کی نفسیات ہوتی ہیں اور ان کی بھی نفسیات تھیں جس میں علم دوستی، نفاست، حب الوطنی نمایاں تھے۔ جنگ و جدل، تشدد، اسلحہ جیسے الفاظ تو کبھی ان کی لغت کا حصہ نہ تھے۔
سچ یہ ہے کہ اذانوں اور نمازوں کے دیس پاکستان کو تا قیامت قائم رہنا ہے۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ پاکستان سیدناصالح علیہ السلام کی اونٹنی کی طرح اللہ کی نشانی ہے، جس نے اس اونٹنی کونقصان پہنچایا، اس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اور جس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، وہ ذلت کا حقدار ٹھہرا۔
قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، ہر ظلم کو خاتمہ ہے، ہر جاندار کو فنا ہے، ہر تشدد کوموت ہے، ہر شب کی سحر ہے لیکن اس کے لیے انصاف کو پروان چڑھانا ہوگا، عصبیت کا خاتمہ کرنا ہوگا، محبت کے نغمے گانے ہوں گے، عدل کو فروغ دینا ہوگا۔
خدا کرے کہ مری ارض پا ک پر اترے        وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے   حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں(قسط9)

انیسواں اصول

وَلَـکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـکُمْ تَـتَّقُوْنَ (البقرة : 179)

’’عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے تاکہ تم (قتل ناحق سے) رکے رہو۔‘‘
لوگو ںکے درمیان معاملات کے حوالے سے یہ ایک بہت ہی اہم اصول ہے۔ جن کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں دشمنی اور زیادتی کا شکار ہوئی ہے خواہ یہ زیادتی جان پر ہوئی ہو یا مال پر۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد یہ عظیم اصول بیان ہوا ہے ‘ فرمایا:

یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَـیْہِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (البقرة : 178)

’’اے ایمان والو ! تم پر مقتولوں کاقصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے‘ غلام غلا م کے بدلے اور عورت عورت کے بدلے۔ ہاں کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اُسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اورآسانی کے ساتھ دیت اداکردینی چاہیے۔ تمہارے ربّ کی طرف سے یہ نرمی اور رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی جوسرکشی کرے اُسے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
پھر اسی عظیم اصول کو دوسروں پر زیادتی کرنے کے باب میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَـکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـکُمْ تَـتَّقُوْنَ (البقرة : 179)

’’عقلمندو! قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے تاکہ تم (قتل ناحق سے) رکے رہو۔‘‘
ہمارے لیے اس عظیم قرآنی قاعدے پر رک کرغور کرنے کے مقامات ہیں:
مقامِ اوّل: جو شخص دنیا بھر کے ملکوں (خواہ وہ مسلمان ممالکہیں یا کافر) کے حالات پرغور کرے گا تواُسے یہ نتیجہ ضرورملے گا کہ جوملک قاتل کوقتل کردیتے ہیں وہاں پر قتل کی شرح کم رہتی ہے۔ اس بات کا اعتراف کئی اہل علم نے کیا ہے ‘ اور اس کا سبب بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ قصاص قتل کے جرم کو کم کرنے کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہےاوریہی بات اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت میں بیان فرمائی ہے۔ جبکہ دشمنانِ اسلام کا خیال ہے کہ قصاص کی سزا حکمت کے خلاف ہے ‘ اس لیے کہ پہلے انسان کے قتل کے بعد دوسرے انسان کے قتل سے آبادی میں کمی واقع ہوگی ‘ لہٰذا قاتل کو قتل کرنے کے بجائے کو ئی دوسری سزادے دی جائے‘ چنانچہ اُسے قید کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح دورانِ قید اگر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو آبادی میں اضافہ ہو جائے گا۔ یہ سب بے فائدہ باتیں ہیں‘ جن کا حکمت ودانش سے دور دور تک کا بھی واسطہ نہیں ‘ اس لیے کہ قیدوبند کی سزا کسی کوقتل کے جرم سے نہیں روک سکتی۔ جب تک سزا صحیح معنی میں دل کو دہلادینے والی نہ ہو‘تو ناسمجھ لوگوں کی طرف سے قتل کی واردات ہوتی رہے گی۔ نتیجتاً قتل کی کثرت کی وجہ سے آبادی تیزی سے کم ہوتی رہے گی۔
دوسرامقام: اس محکم قرآنی اصول میں بیان کیا گیا ہے: وَلَـکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ ’’اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘۔ فطرۃً ہرانسان کو زندگی سب سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ چنانچہ قتل کی سزاسے زیادہ کوئی سزابھی ڈرانے ‘دھمکانے اورجرم سے بازرکھنے
کے لیے کارگر نہیں ہوسکتی۔
اس میں دوسری حکمت یہ ہے کہ مقتول کے ورثاء کو
اطمینان رہے گا کہ نظامِ قضاء اس شخص سے خود بدلہ لے گا جس نے ان کے مقتول پر زیادتی کی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَ لِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلاَ یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا (الاسراء 33)

’’اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مارڈالا جائے‘ ہم نے اُس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے ‘پس اُسے چاہیے کہ مارڈالنے میں زیادتی نہ کرے بے شک وہ مدد کیا گیا ہے۔‘‘
یعنی یہ نظام ہم نے اس لیے بنایاہے تاکہ مقتول کے وارث خود ہی اپنے رشتہ دار کے قاتل سے بدلہ لینا نہ شروع کردیں ‘ اس طرح تو دوقبیلوں میں جنگ کی شکل بن جائے گی اوربہت ساری جانوں کاضیاع ہوگا۔
تیسرا مقام: اس قرآنی قاعدے میں ’’حیاۃ‘‘یعنی زندگی کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ فرمایا: وَلَـکُمْ فِـی الْقِصَاصِ حَـیٰوۃٌ ’’اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے‘‘۔ معنیٰ یہ کہ قصاص لینے میں تمہاری جانوں کا بچاؤ اور تحفظ ہے۔ یقیناحکمِ قصاص نافذ کرنے کی صورت میں یہ دوسری جانوں کے قتل ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر قصاص کا حکم نافذ نہ کیا جائے تو لوگوں کو کسی قسم کا خوف نہیں رہے گا۔ اس لیے کہ موت کا ڈر ہی وہ شے ہے جس کی وجہ سے لوگ حادثات سے گھبراتے ہیں۔ جب قاتل کو معلوم ہو کہ وہ موت سے بچ جائے گا تو دوسری سزاؤں کی پروا کیے بغیر وہ قتل کرتا رہے گا۔
جیسا کہ زمانہ ٔجاہلیت میں ہوا کرتا تھا‘ اگر لوگوں کو خودسے بدلہ لینے کا موقع دے دیا جائے تو لوگ حد سے آگے بڑھ جائیں گے اور پھر ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا ‘

جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہے حکم قصاص کے نافذ کرنے میں ہی دونوں گروہوں کی زندگی ہے۔
چوتھا مقام: اس اصول کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ہو رہا ہے: یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ ’’اے عقل ودانش والو!‘‘ ان الفاظ کے ساتھ قصاص کی حکمت پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ عقل والوں کو مخاطب کرنے کا معنی یہ ہے کہ یہ بات صرف عقل والے ہی سمجھ سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ظاہر میں تو سزا بھی جرم ہی طرح کی ہے‘ کیونکہ قصاص میں بھی تو ایک دوسری جان کا ضیاع ہے ‘ لیکن اگر گہرائی میں جا کر غور کیا جائے تو قصاص زندگی کی ضمانت ہے‘ نہ کہ جان کا ضیاع ہے‘ جس کے دلائل گزر چکے ہیں۔
پھر فرمایا: لَعَلَّـکُمْ تَـتَّقُوْنَ ’’تاکہ تم (جرم کرنے سے)بچے رہو‘‘۔ ایسی سزا مقرر کرنے کا فائدہ بیان فرمادیا‘ تاکہ تم جرم سے بچے رہو اور مقتول کا بدلہ لینے میں عدل و انصاف کی حد سے آگے نہ بڑھو۔

مدار کار ظاہری وضع قطع اور تونگری پر نہیں بلکہ اخلاص پر ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ
تخریج:صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم ظلم المسلم حدیث نمبر 6543 ، مسند أحمد 2/285

راوی کا تعارف: حدیث نمبر 15کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں۔
معانی الکلمات:
لَا يَنْظُرُ نہیں دیکھتا
Does not see
صُوَرِكُمْ تمہاری صورتیں
Your faces
أَمْوَالِكُمْ تمہاری دولت
Your wealth
لَكِنْ لیکن
But
قُلُوبِكُمْ تمہارے دل
Your Hearts
أَعْمَالِكُمْ  تمہارے اعمال
Your deeds
ترجمہ :
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہاری شکل وصورت اور مال ودولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال(صالحہ) کو دیکھتا ہے۔ ‘‘
تشریح :
بلاشبہ شریعت اسلامیہ حدود وقیود میں رہتے ہوئے اچھی وضع قطع اور شکل وصورت کے بناؤ سنگھار کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ پسند بھی کرتی ہے چنانچہ غسل ،صفائی ،خوشبو کا استعمال (مردوں کیلئے) ،سُرمہ، تیل اور بالوں میں کنگھی کرنے کی ترغیب موجودہے اسی طرح حلال ذرائع سے جتنا زیادہ سے زیادہ مال حاصل ہوسکے اسے انسان کا حق قرار دیا ہے مگر دِل کی اصلاح انتہائی مقدم ولازم ہے کہ اس گوشہ میں عقیدہ وہی پنہاں ہو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مطلوب ہے ، فرسودہ خیالات وخواہشات سے پاک ہو،بغض،کینہ،حسد،نفرت ، منافقت وغیرہ جیسی موذی امراض کو دِل سے نکال باہر کیا جائے۔دل کی اس کیفیت کو اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ علیم بذات الصدور ہے اور متعدد استثنائی مقامات پر ظاہری غلطی کے باوجود انسان اپنے دل کی پاکیزگی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو بھی ہوجاتاہے تاہم عام معمول میں انسان پابند ہے کہ اپنے شب وروز قانونِ الٰہی کی پاسداری ہی میں صرف کرے۔
مذکورہ حدیث میں واضح طور پر یہ پیغام بھی دیاگیا ہے کہ ظاہری ٹیپ ٹاپ سے شاید لوگوں کے ہاں تو مقام مل جائے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام ومرتبہ اسی شخص کا ہے جس کے دل کی دنیا خیر سے آباد اور شر کی آلودگیوں سے پا ک ہو چنانچہ ظاہری شکل وصورت،وضع قطع، لباس اور چال ڈھال اسلامی بنانے کے ساتھ ساتھ دِل میں اسلام وایمان کو جاگزیں کیا جائے تو یہ اصل کامیابی ہوگی۔ واللہ أعلم بالصواب

حج وعمرہ کے آدا ب ا ور حج کے مقاصد

حج وعمرہ کےآداب

توحید: تمام عبادات کی بنیاد توحید ہی ہے،نیت کرنے سے وطن واپس لوٹنے تک سارے کا سارا حج توحید ہی کا سبق دیتا ہے۔ اس لیے اپنے آپ کو شرک و بدعت سے پاک رکھیں کیونکہ شرک کرنے سے عمل ضائع ہو جاتا ہے، قرآن میں رسول اللہﷺ سے بھی فرما دیا گیا:

لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر:65)

کہ بلا شبہ اگر تونے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور توں ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کتنے ہی عمرہ کرنے والے اور حاجی شرک و بدعت والے کام کر رہے ہوتے ہیں، جیسے : اللہ کے علاوہ کسی سے دعا کرنا،مصیبت اور پریشانی دور کرنے کے لیے فوت شدگان سے مدد مانگنا،اور یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ نیک لوگ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے اور ہماری ضرورتیں اللہ کے سامنے پیش کرتے ہیں،اسی لیے وہ قبروں اور مزاروں پر نذریں مانتے ہیں اور چڑھاوے چڑھاتے ہیں،یہ ان مشرکین کا عقیدہ ہے جن کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے لڑائی کی۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ (یونس:18)

اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انہیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
کچھ لوگ حج و عمرہ پہ آکر بھی جادو،نجومی کے پاس جانا،کسی بھی ذریعے سے غیب کی خبریں دینے والے کے پاس جانا،جیسے: لکیریں لگا کر،ہاتھ دیکھ کر،جانور اڑا کر،گنتی کے الفاظ لکھ کر،ماں کا نام پوچھ کر، نقصان یا تکلیف سے بچاؤ کے لیے تعویذ لٹکانا،یا دھاگہ باندھنا،اللہ کے علاوہ کسی کے لیے نذر ماننا،لڑائی جھگڑے کے وقت دین کوبرا بھلا کہنا اور اس کا مذاق اڑانا،صحابہ کرام اور امہات المومنین پر لعن طعن کرنا،نبی ،ولی،کعبہ ،ایمانداری ،عزت اور حسب و نسب کی قسم اٹھانا، جب کہ اللہ کے علاوہ کسی کی قسم اٹھانا شرک ہے۔نبی مکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللهِ فَقَدْ أَشْرَكَ (ابو داود:3251)
فَقَدْ كَفَرَ وَ أَشْرَكَ(احمد:6072)

اخلاص: تمام اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے کریں۔ (بخاری:1) ذرہ برابر بھی کوئی دکھاوا وغیرہ اور شہرت حاصل کرنے کی نیت نہ ہو، حدیث قدسی میں ہے:اللہ تعالی فرماتا ہے:

أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ (مسلم:1015)

اتباع سنت: کسی بھی عبادت کے قبول ہونے کے لیے اسے نبی کریمﷺ کے طریقے کے مطابق ہونا شرط ہے۔
کوئی بھی عمل اگر ان دو بنیادی چیزوںسے خالی ہے،تو اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہو گا ۔(مسلم :2985)
تقوی:دین کے ہر معاملے کے ساتھ تقوی ہی کا تعلق ہے،یہ پورے دین کا محور اور اس کی بنیاد ہے، قرآن میں اس کاذکر اکثر بڑی بڑی عبادات اور ارکان اسلام کے ساتھ کیاگیا ہے۔ اسی لیے سفر میں زیادہ سے زیادہ نیک
اعمال کریں اور گناہ کے کام کرنے اور لوگوں سے مانگنے
سے بچیں، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:

كَانَ أَهْلُ اليَمَنِ يَحُجُّونَ وَلاَ يَتَزَوَّدُونَ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ المُتَوَكِّلُونَ، فَإِذَا قَدِمُوا مَكَّةَ سَأَلُوا النَّاسَ

اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما دی:

وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى(بخاری:1523)

اپنے گھر والوں کو تقوی کی نصیحت کرے اور حج سے
واپس آنے تک کی مدت کے کھانے پینے اور دیگر
ضروریات زندگی کا انتظام کر کے جائے۔
حلال کمائی:حج و عمرہ کے اس مبارک عمل کے لیے حلال کمائی سے ہی خرچ کریں،ورنہ ساری محنت ضائع ہو جائے گی ، حرام کمائی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کر لے تاکہ اس کی دعا قبول ہو سکے،کیوں کہ حج و عمرہ کے سارے سفر میں دعاؤں کا بہت زیادہ اہتمام ہے،نبی ﷺ کا فرمان

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ} ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ؟ (مسلم :1015)

توبہ : گناہوں اور اللہ اس کے رسول کی نا فرمانیوں سے توبہ کرے تاکہ اس کا حج و عمرہ قبول ہو جائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے

: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدہ:27)

پیارے رسولﷺ نے فرمایا:

مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ(بخاری:1521)

سچی توبہ یہ ہے کہ جس کسی پر بھی کسی طرح کی ظلم و زیادتی کی ہے کسی کا حق چھینا ہے اسے واپس کیا جائے اور اس سے معافی مانگی جائے، کیں کہ پتہ نہیں کی اس سفر سے واپسی ہو گی کہ نہیں۔ہر سال کتنے ہی حاجی اور عمرہ کرنے والے جاتے ہیں اور واپس نہیں لوٹتے۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کرے،اور حرام چیزوں کر ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دے،جیسے:سگریٹ نوشی، گانے سننا،غیبت کرنا،ملاوٹ کرنا وغیرہ
اچھا ساتھی: کوشش کریں کہ کسی نیک آدمی کے ساتھ سفر کریں جو سنت رسولﷺ سے محبت کرنے والا ہو۔ جمعرات کے دن صبح کے وقت سفر کرنا مستحب ہے کیوںکہ آپﷺ اکثر ایسے ہی کرتے تھے۔(بخاری:2950)
احکام سیکھنا: حج و عمرہ اور سفرکے احکام و مسائل سیکھے، اور اگر کہیں کوئی مسئلہ سمجھ میں نہ آئے تو اہل علم سے ضرور پوچھیں۔
صبرکرنا: اس مبارک سفر میں کہیں کوئی پریشانی یا مشکل پیش آئے تو صبر کریں اللہ تعالی بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔
اللہ کے شعائر کی تعظیم: قرآن میں ہے :

وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوب

اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقیننا یہ دلوں کے تقوی سے ہے۔( الحج:32)
اچھا اخلاق :ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں،اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان کچھ نہیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہر کسی سے ملیں۔

تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ (ترمذی:1956)

نئی زندگی کا عزم: حج و عمرہ میں اللہ تعالی کے ساتھ یہ پکا وعدہ کریں کہ باقی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے کی بھر پور کوشش کروں گا۔
حقوق العباد کی ادائیگی :ایک شخص کے ذمے دوسرے شخص کا جو حق ہے اگر اسے ادا نہ کیا جائے تو وہ اللہ کے ہاں اس کا جواب دہ ہوتا ہے۔اس لیے اس مبارک سفرکی روانگی سے پہلے ،بندوں کے حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔(مسلم :2581)
فحش گو کلام،لڑائی جھگڑا اور کوئی بھی گناہ کا کام کرنے سے ہر وقت ہی اجتناب کریں۔

فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرۃ:197)

محرم اور عدت:عورت خاوند یا محرم (عاقل ،بالغ) کے ساتھ ہو اور عدت کے ایام میں نہ ہونا شرط ہے۔ (الطلاق:1)(بخاری:1862)
حج کے مقاصد
رضائے الہی کا حصول:آپﷺ حج میں یہ دعا کر رہے تھے: اللہم حجۃ لا ریاء فیھا ولا سمعۃ اے اللہ! اس حج کو دکھاوے اور شہرت سے پاک کر دے (ترمذی:327)
توحید کا درس:حج کے تمام امور احرام، نیت ِحج،تلبیہ، طواف،سعی کے اعمال،عرفات کے میدان میں دعا، کنکریاں مارتے وقت تکبیر پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اول تا آخر توحید کا درس اور اس کی تربیت ہے،جیسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا تھا

{ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي }

(انعام:79) اور اللہ تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ و السلام سے فرمایا

{ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي }

(انعام:162) لہذا اگراس میں خرابی ہوئی تو بڑے سے بڑا عمل بھی ضائع ہو جائے گا۔چناں چہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا

{لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُك}

(الزمر:65) رسول اللہﷺ نے اپنے صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

لَا تُشْرِكْ بِاللهِ شَيْئًا وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ
(مسنداحمد:22075)

اللہ پر توکل کرنا :حجاج کرام اپنا گھر بار اور کاروبار تجارت وغیرہ سب کچھ اللہ کے بھروسے پر چھوڑ کر اور اسی ذات پر توکل کرتے ہوئے اس مبارک عمل کے لیے نکل پڑتے ہیں۔
تزکیہ نفس:اس سفر میں ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی برداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ دوسروں کی تکلیف سے اپنے ہاتھ اور زبان کو روکنا پڑتا ہے۔پھر ہر قسم کی لغو اور فضول گفتگو سے باز رہنا بھی ضروری ہے ان سب پابندیوں سے تزکیہ نفس یعنی نفس کی پاکیزگی ہوتی ہے۔
مساوات و اتحادکا نمونہ: قوم وطن اور رنگ ونسل وغیرہ ہر قسم کے فرق کو چھوڑ کر ایک ہی لباس پہننا،ایک ترانہ{لبیک اللھم لبیک}پکارنا،پھر ایک وقت میں ایک ہی رخ پر جانا اتفاق و اتحاد اور مساوات کا عملی ثبوت ہے۔
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
احترام باہمی:احرام کی پابندیوں میں سے زبان اور جذبات پر کنٹرول بہت اہم اور ضروری ہے،جس سے ہمیں احترام و عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس ملتا ہے۔
اتباع سنت پر عمل:حج کے بارے میں نبی مکرم ﷺ نے فرمایا تھاکہ خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ جس سے حج سمیت ہر معاملہ زندگی میںاتباع سنت کی اہمیت واضح ہو گئی۔آپ ﷺکی فرمانبرداری حقیقت میں اللہ تعالی کی فرمانبرداری ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میںکچھ اس طرح بیان کیا ہے

{مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْل فَقَدْ اَطَاعَ اللّہَ}

(النساء:80 ) جو رسول کی فرمانبرداری کرے تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور آپ علیہ السلام نے بھی فرمایا:

مَنْ اَطَاعَنِی فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ۔۔۔(بخاری:7137)

اوریاد رکھیں اتباع سنت سے رو گردانی گمراہی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

{وَ مَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنَا}(احزاب:36)

اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہو گیا،واضح گمراہ ہونا۔
نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ
(بخاری:5063)

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْپر عمل کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں منیٰ ٹھہرنا ،عرفات پہنچنا،مزدلفہ کی رات سو کر گزارنا،تہجد کی نماز ادا نہ کرنا،اور 10ذوالحجہ کو پہلے اور دوسرے جمرے(پہلی اور دوسری دیوار)کوچھوڑ کر صرف بڑے جمرے عقبہ(تیسری دیوار)کو سات کنکریاںایک ایک کر کے مارنا، حقیقت میں یہ سب اتباع سنت ہی ہے اور یہی چیز دین کی اصل روح ہے۔ نیز حج کے اس سفر میں ایثار و یکجہتی،نبی ﷺکاحقیقی امتی بننا،نظم و ضبط،اخوت،امن وسلامتی،دعوت و جہاد پوشیدہ ہیں۔
۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کسی انداز اورصورت میں اپنے ساتھ شرک گوارا نہیں کرتا

شراکت کا لفظ شرک سے نکلا ہے۔ جس کا عمومی مفہوم ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہونا ہے ،بے شک یہ شراکت تھوڑی ہو یا زیادہ، نام میں ہو یا کام میں، اخلاقی ہو یا نسبی، معاملات میں ہو یا اختیارات میں ،اللہ تعالیٰ ہر قسم کی شراکت سے پاک اور مبّرا ہے۔اس کے ساتھ کسی انداز اور صورت میں شرک کرنا پرلے درجے کا ظلم اور جرم ہے۔

وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَائِہِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

’’اورسب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں سو اُسے انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں انہیں جلد ہی اس کی سزا دی جائے گی جو وہ کیاکرتے تھے۔(الاعراف:۸۰)
ہر دور کے مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء، ذات، عبادت اور احکام میں غلو اور شرک کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ لوگ دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے شریک بنا کر نہ صرف اس کی صفات کو اپنے معبودوں میں تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر رکھتے ہیں جو بدترین گناہ اور سنگین جرم ہے ۔ سمجھانے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں تو بلآخر انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے یعنی ان سے قلبیدوری ہونی چاہیے ۔ یہاں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکار ا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں ۔ انھیں بہت جلد اپنے قول و فعل کی سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ’’اللہ‘‘ ہے یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرعّب اسم عالی اور گرامی ہے جو صرف اور صرف خالقِ کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے ۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر ، مشرک اور بدترین باغی انسان ہوئے ہیں اور ہوں گے ۔ جن میں اپنے آپ کو داتا ، مشکل کشا اورموت و حیات کا مالک ہونے کا دعویٰ کرنے والے یہاں تک کہ

’’اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی

‘‘کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں ۔ مگر ذاتِ کبریاء کے نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو’’ اللہ‘‘ کہلوانے کی جرأت نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا ۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو’’ اللہ‘‘ کہنے کی جرأت نہیں کر سکے تھے۔ اللہ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطرت کی آواز ہے جس بنا پر ہر کام بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خالقیت، الوہیت ، جلالت و صمدیت ، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی عقیدہ لیے ہوئے ہے ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کاذاتی اسم عالی ۲۶۹۷ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا تعلق ہے ان کی دو اقسام ہیں ۔ ایک نام وہ ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں دوسرے وہ ہیں جن میں سے کوئی نام کسی آدمی کا بھی رکھا جا سکتا ہے ۔ مثلاً کریم ہے بہتر تو یہ ہے کہ یہ نام بھی عبدالکریم ہونا چاہیے تاہم کوئی صرف کریم نام رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے کیونکہ کریم کا معنیٰ درگزرکرنے والا اور سخی ہے جو کسی آدمی کی صفت اور نام بھی ہو سکتا ہے لیکن انسان کی کریمی اور اللہ تعالیٰ کی کریمی میں زمین و آسمانوں سے زیادہ فرق ہے ۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنہ کے ساتھ پکارنے کا حکم دے کر یہ تلقین فرمائی ہے کہ :

وَذَرُوْاالَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِیْٓ أَسْمَآئِہٖ

’’ اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں‘‘
اس کے نام میں الحاد کی ایک صورت یہ ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں وہ کسی زندہ یا مردہ کا نام رکھا جائے جس طرح آج کل بعض مسلمان جہالت کی بناء پرکسی جنرل سٹور کا نام الرحیم یا الرحمن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشکل کشا ہے اور کوئی کسی دوسرے کو بھی مشکل کشااور حاجت روا سمجھتے ہوئے اس کو اس نام سے پکارے جیسا کہ ان پڑھ لوگ پیر عبدالقادر جیلانی aکو پیر دستگیر کہتے ہیں اور ان کے نام کا وظیفہ بھی کرتے ہیں یعنی ڈوبتے ہوئے یا گرنے والے کا ہاتھ تھامنے والا ۔

یَا عَبْدَ الْقَادِرِ شَیْئا للّٰہِ

’’اے عبدالقادر اللہ کے لیے کچھ دیجیے ‘‘
ایسا عقیدہ رکھنے والے لوگ حضرت علی ہجویری aکو داتا گنج بخش کہتے ہیں جس کا مطلب ہے خزانے بخشنے والا۔ غوث اعظم بڑا فریادیں سننے والا ۔

((عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ t رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مِائَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ))[رواہ

البخاری: کتاب الدعوات ،باب للہ مائۃ اسم غیر واحد]
’’حضر ت ابو ہریرہ tبیان کرتے ہیں کہ نبی eنے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کر لے گا جنت میں داخل ہو گا اللہ ایک ہے اور وہ اکائی کو پسند کرتا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ کے نام یاد کرنے سے مراد صرف حفظ کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق انسان کا عقیدہ اور عقیدے کے مطابق اس کا عمل بھی ہونا چاہیے۔

ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ

’’وہ اللہ ہی ہے ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورتیں بنانے والا ہے ، اس کے بہترین نام ہیں جوبھی چیز آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس کی تسبیح کر رہی ہے ،وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } (آل عمران:۶)

’’ وہی ماں کے پیٹ میں جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔‘‘
اَلْمُصَوِّرُ: شکل وصورت بنانے والا۔یاد رہے کہ دنیا میں جو لوگ مصوری کے پیشے سے منسلک ہیں اوروہ اپنے ہاتھ سے مختلف چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں چاہے (Painting) کے ذریعے تصویر بنانے سے پہلے تصویر کشی کرتے ہیں ان کے ذہن میں ضرور کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوتا ہے۔ جس میں آگا پیچھا کر کے اس جیسی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں المصّور نہیں کہا جا سکتا کیونکہ المصوّر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کیونکہ اس نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے اربوں اور کھربوں صورتیں بنائیں ہیں وہ قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی بناتا رہے گا جو آپس میں مختلف ہیں اور ہوں گی۔
انسان خود اپنے آپ پر غور کرے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو دوسرے کے ساتھ سو فیصد مماثلت رکھتا ہو لہٰذا صرف ایک ہی ذات ہے جو حقیقی الخالق ، الباری اور المصوّر ہے۔ کیونکہ وہی عدم کو وجود دیتا ہے وہی جسم میں روح ڈالتا ہے اور وہی شکل وصورت میں امتیاز اور انفرادیّت پیدا کرتا ہے۔اس کے نام بہت ہی اچھے ہیں اس کو اس کے اچھے ناموں کے ساتھ ہی پکارنا چاہیے۔

قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاء ُ الْحُسْنَی} (الاسراء:۱۱۰)

’’فرما دیں اللہ کو پکارو یا رحمان کو ، جس نام سے پکارو اس کے سب نام اچھے ہیں۔‘‘
مکہ کے لو گ اپنی دعائوں میں ’’ اللہ ‘‘کانام استعمال کرتے تھے اور مدینہ کے یہودی عام طور پر ’’اللہ ‘‘کی بجائے ’’الرحمن ‘‘کے نام سے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے او ر اپنی دعائو ں میں الرحمن کا لفظ استعمال کرتے تھے ۔ رسول کریم ﷺنے جب اپنی دعا اورذکر میں اسمِ ’’اللہ‘‘کے ساتھ ’’الرحمن‘‘کا لفظ بولنا شروع کیا تومکہ کے مشرکوں نے الزام لگایا کہ ہمارے ساتھ صبح وشام ایک الٰہ پرتکرار کرتا ہے ۔ لیکن اس کا اپنا یہ حال ہے کہ’’ اللہ ‘‘ کے ساتھ’’ الرحمن‘‘کو شریک بنا تا ہے ۔اس پرمکہ والوں کو سمجھایاگیاکہ اپنے رب کو’’ اللہ ‘‘کے نام سے پکارو یا اس کو ’’الرحمن‘‘کے نام سے یاد کرو ۔اسے جس نام سے پکارو اس کے تمام نام ہی بہترین ہیں ۔وہ ایسی لازوال اور بے مثال ہستی ہے کہ جس کا ہمسر ہونا تو درکنار اس کاتو کوئی ہم نام ہی نہیں۔

رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہِ ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا

’’وہ رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمانوں وزمین کے درمیان ہیں پس تم اس کی بندگی کرو اور اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو ۔کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم نام ہے ؟‘‘
اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے بھی زیادہ اسمائے گرامی ہیں۔ اس کا ہر نام اس کی خاص صفت کا ترجمان ہے لیکن قرآن مجید میں تین اسماء گرامی ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، وہ اسماء گرامی یہ ہیں اللہ ،الٰہ،رب، ان میں اسمِ اعظم ’’اللہ ‘‘ ہے۔ باقی دو نام صفاتی ہیں ۔قرآن مجید میں انہیں ناموں کے ساتھ ان تمام صفات کا ذکر پایا جاتا ہے جو’’ اللہ‘‘ کے نام کے ساتھ ذکر کئی گئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات اور صفات میں شرک گوارہ نہیں
ذاتِ کبریاء کا فرمان ہے :

اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ

’’اللہ بے نیاز ہے ،نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے‘‘
اس فرمان کے باوجود یہودیوں اور عیسائیوں کی یاوہ گوئی کرتے ہیں:

وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ} (التوبہ:۳۰)

’’یہودیوں نے کہاعزیراللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہامسیح اللہ کابیٹا ہے یہ ان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا ’’اللہ‘‘ انہیںغارت کرے کہ یہ کدھربہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودی حضرت عزیرعلیہ السلام کو’’ اللہ‘‘کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے بیٹے عزیرؑکو دے رکھے ہیں۔
یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عیسائی کہتے ہیں کہ’’ اللہ ‘‘ کی خدائی کی تکمیل مریم اورعیسیٰuکوملا کر ہوتی ہے جسے وہ تثلیث کا نام دیتے ہیں، ان کے عقیدے کی یوں تردید کی گئی ہے:

لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدۃ:۷۲)

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ مسیح اللہ ہے جومریم کابیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا یقینا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیںہو گا۔‘‘
اہلِ مکہ کی کذب بیانی:

أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ أَلَا إِنَّهُمْ مِنْ إِفْكِهِمْ لَيَقُولُونَ وَلَدَ اللهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ أَصْطَفَى الْبَنَاتِ عَلَى الْبَنِينَ(صافات: ۱۵۰تا۱۵۲)

کیاہم نے ملائکہ کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس وقت موجود تھے۔سُن لوحقیقت یہ ہے لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ کہ ’’اللہ‘‘ کی اولاد ہے یقینا یہ لوگ جھوٹے ہیں،کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پسند کر لیں ہیں؟‘‘
دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کروڑوں کی تعداد میں کلمہ پڑھنے والے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی کریم u اپنی ذات کے اعتبار سے ’’اللہ‘‘ کے نور کا حصہ ہیں یہاں تک کہ صوفیائے کرام نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا عقیدہ اپنا رکھا ہے، وحدت الوجود کا معنٰی ہے کہ کائنات کی شکلیں مختلف ہیں مگر حقیقت میں وہ سب ’’اللہ‘‘ ہیں۔ بے دین صوفی اس کے لیے ہمہ اوست کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا الگ وجود ہے مگر کائنات اس ذات کا پرتو ہے وہ اس کے لیے ہمہ از اوست کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی سب کچھ اسی سے نکلا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کو کفر قرار دیا ہے ، اس کا فرمان ہے کہ یہ اس قدر سنگین گناہ اور جرم ہے کہ قریب ہے کہ اس سے آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین پھٹ جائے۔

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (زخرف:15)

’’اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔ ‘‘

وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ

’’اور ان میں سے اکثر اللہکو ماننے کے باوجود شرک کرنے والے ہیں۔‘‘(یوسف: ۱۰۶)

تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا

’’قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔اس بات پر کہ انہو ں نے رحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘(مریم:۹۰،۹۱)

بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّی یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُنْ لَہُ صَاحِبَۃٌ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْء ٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیمٌ} (الانعام:۱۰۱)

’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟اور اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ زمین وآسمانوں اور ہر چیز کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے وہ اپنی بادشاہی میں کسی کی کسی اعتبار سے شرکت گوارہ نہیں کرتا

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا

’’اورفرما دیجیے تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ عاجز ہو جانے کی وجہ سے کوئی اس کا کوئی حمایتی ہے اور اس کی بڑائی بیان کر ، خوب بڑائی بیان کیاکرو۔ ‘‘

تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَہُوَ الْعَزِیزُ الْغَفُورُ

’’بڑی با برکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس نے موت اور زندگی کوپیدا کیا تاکہ تمہیں آزما ئے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے، وہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔‘‘(الملک :۱،۲)

الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیرًا (الفرقان:۲)

’’ اللہ ‘‘ ہی کے لیے زمین وآسمانوں کی بادشاہی ہے اس نے کسی کواپنی اولاد نہیں بنایا ۔ بادشاہی میںاس کے ساتھ کوئی شریک نہیں، اس نے ہرچیز کوپیدا کیا پھراس کی تقدیر مقررکی فرمائی ۔‘‘

إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُون فَسُبْحَانَ الَّذِی بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْء ٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ} (یٰس:۸۲،۸۳)

’’وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جاوہ اسی طرح ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا کلی اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔‘‘
ملک سے مراد ساری کائنات اوراس کی بادشاہی ہے۔ اس فرمان میں بیک وقت مادہ پرست سائنسدانوںاور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کی تردید کی گئی ہے۔ کئی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات بِگ بینگ کے ذریعے خود بخود معرضِ وجود میں آئی اوراسے کوئی بنانے اورچلانے والا نہیں ہے۔مشرک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کچھ اختیارات دوسر ی ہستیوں کو بھی سونپ رکھے ہیں۔ ان کی تردید کے لیے فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ کائنات کا نظام چلانے کے لیے نہ اس کا کوئی معاون ہے اورنہ مدد گار، اسے کسی کی معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہرچیز پر کلی اقتدار اورپورا اختیار رکھتا ہے۔ اسی نے موت اورزندگی پیدا فرمائی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔وہ ظالموں پر غلبہ پانے والااور نیک بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ کوئی چیزنہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ’’اللہ‘‘ کے حکم کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ اس نے عدم کے بعد زندگی اورزندگی کے بعد موت کا سلسلہ اس لیے جاری کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتاہے۔

لَوْ کَانَ فِیہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُون}(الانبیاء :۲۲)

’’اگر زمین و آسمانوں میں اللہ کے سوا اور بھی الٰہ ہوتے تو دونوں کانظام بگڑ جاتا ۔بس عرش کا مالک’’ اللہ‘‘ہے وہ ان باتوں سے مبرّا ہے جو لوگ بناتے ہیں ۔‘‘
اگر زمین و آسمان میں ایک کی بجائے دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور تصادم ہوتا جس سے زمین و آسمانوں کا نظام درہم برہم ہوجاتا ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے عقائد اور بے ہودہ باتوں سے مبّرا اور پاک ہے ۔ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پرجلوہ افروزہے ۔

وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا ہُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ } (النحل: ۵۱)

’’لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ دو الٰہنہ بناؤ الٰہ صرف ایک ہی ہے بس اُسی سے ڈرتے رہو ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے حکم اور قانون میں بھی کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتا

مَا لَہُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ أَحَدًا (الکہف: ۲۶)

’’ اللہ تعالیٰ کے سوا مجرموں کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے اسی طرح کائنات کا خالق ومالک ہونے کے ساتھ واحد حاکم ہے۔ اس سے بہتر کوئی حاکم نہیں اور نہ ہی اس کے قانون جیسا کوئی قانون بنا سکتا ہے اس کیں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں ۔ اس لیے اس کا ارشاد ہے کہ اس کے بندوں پر اسی کا حکم چلنا چاہیے ۔

أَلَیْسَ اللہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ (التین:۸)

’’ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ؟ ‘‘

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ [المائدۃ:۴۴]

’’جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں ۔‘‘

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ [المائدۃ:۴۵]

جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہیںکرتے وہ ظالم ہیں۔

وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ [المائدۃ:۴۷]

جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اپنی عبادت میں بھی شرک گوارہ نہیں کرتا

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوحَی إِلَیَّ أَنَّمَا إِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَاء َ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَدًا (الکہف:۱۱۰)

’’اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے ۔اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ۔‘‘

وَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ

’’اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے حکمرانی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جانے والے ہو۔ ‘‘ (القصص:۸۸)
اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، صفات میں منفرد اور یکتااور اختیارات میں خودمختارہے وہ کسی کے تعاون کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حاجت روا مشکل کشا ہے ۔ جو شخص اپنے رب کی ملاقات پر یقین اور اس کی امید رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ صالحِ اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو کسی حوالے سے بھی شریک سمجھے اور نہ بنائے ۔یہی انبیاء کرام کی دعوت اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون

’’میں نے جنوںاور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

’’ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔‘‘

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّۃٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُمْ مَنْ ہَدَی اللہُ وَمِنْہُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلَالَۃُ فَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِینَ

’’اوریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی ۔پس زمین میں چل ، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوںکا کیسا انجام ہوا۔‘‘
٭٭٭

انتہا پسندی یا رواداری

عراق میں اہل تشیع کی اکثریت تھی لیکن صدر صدام حسین کا تعلق اہل سنت سے تھا امریکہ نے عراق پر حملہ کرکے صدام کا تختہ الٹ دیا۔ اہل سنت کی طرف سے مزاحمت کا معاملہ جاری تھا کہ امریکی فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوئے اہل سنت نے بائیکاٹ کیا جبکہ اہل تشیع نے بھر پور حصہ لیا اور انہیں انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی جنہوں نے حکومت ملنے پر صدام کے حامیوں کا جینا دوبھر کردیا اس طرح مذہبی خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ فرقہ وارانہ عداوت نے طاغوتی قوتوں کو موقع فراہم کیا اچانک داعش نمودار ہوئی جس کی دہشت گرد کارروائیوں سے عراق اور شام جنگ کی لپیٹ میں آگیا بمباری اور خودکش حملوں میں لاکھوں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے۔ موجودہ عراق حکومت نے خانہ جنگی کے شعلوں کو بجھانے کے لیے مزاحمت کاروں سے مذاکرات کئے اور اُن کو حکومت میں شامل ہونے پر آمادہ کیا لیکن ایران نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
بغداد (این این آئی)عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی نے اپنی کابینہ میں اہم تبدیلیاں لاتے ہوئے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے سابق شاہی خاندان کے ایک سرکردہ سیاست دان الشریف علی بن الحسین کو وزارت خارجہ کا عہدہ سونپنے پرایران نے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان اور سنی مسلک کا وزیرخارجہ عراق کو ایران سے دور اور عرب ممالک کے قریب کرنے کا موجب بنے گا۔ (روزنامہ ایکسپریس 2016۔04۔06)
ایرانی انقلاب کی پالیسی ہے کہ مسلم دنیا میں اُن کے ہم نوا ممکنہ ذرائع بروئے کار لاکر اقتدار پر قابض ہوں اور ایران کی طرح مخالفین کو مذہبی وسیاسی حقوق سے محروم کر دیں۔ عراقی وزیر اعظم نے امن وامان کی خاطر سنی مسلک کا وزیر مقرر کیا لیکن اس پر ایران کا ناراض ہونا انتہا پسندی ہے یا رواداری؟
اللہ کرے کہ وزیر اعظم حیدر العبادی کے اعتدال پسندانہ رویہ سے عراق میں امن وسلامتی کی فضا بحال ہوجائے۔ آمین

سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ کی تحریکی سرگرمیاں

اسلامی دین فطرت ہے ، اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ، اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند منتخب لوگوں کا اس پر عمل کرنا کافی نہیں۔ اسی طرح اسلام عیسائیت کی طرح چند عقائد ورسوم کا نام نہیںبلکہ وہ نظام ہے جو عقائد کی اصلاح چاہتاہے اور عقائد کے ساتھ اخلاق ومعاشرت، زندگی کے مقصد ومعیار ،زاویۂ نظر اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتاہے اور یہ صرف اسی وقت ہوسکتاہے کہ
اس کو مادی وسیاسی اقتدار حاصل ہو،صرف اسی کو قانون سازی اور تنقید کا حق ہو، اس کے صحیح نمائدے دنیا کے لیے نمونہ ہو،اسلام کے مادی اقتدار کا لازمی نتیجہ اس کا روحانی اقتدار اور صاحب اقتدار جماعت کے اخلاق واعمال کی اشاعت ہے۔
اسی حقیقت کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔
صاحب احسن البیان الشیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
’’ اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی ۔ ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوںسے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔‘‘ (احسن البیان ص 926۔927)
یہ بات بہت ضروری ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکتا۔

جہاد :

ابتدائے آفرنیش سے حق وباطل کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی چلی آرہی ہے شاعر مشرق فرماتے ہیں ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اعلائے کلمۃ الحق کی خاطر جہاد ایک بہت بڑا عمل ہے ایک مجاہد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے ابنا تن دھن، مال ودولت اور اپنی جان اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دینے سے دریغ نہیں کرتا بلکہ انشراح قلب وصدر سے کہتا ہے
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے جانبازوں اور مجاہدین کے لیے کامیابیوں اور کامرانیوں کا مژدہ سنایا جاتاہے۔

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (التوبۃ:111)

’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمادی اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن مجید میں بھی کیا ہے۔ مسلمانوں کو یہ کہا جارہا ہے یہ خوشی اس وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمانوں کو یہ سودا منظور ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان ومال کی قربانی سے دریغ نہ ہو۔
اور جہاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (الصف:10۔11)
’’

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے۔اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو ۔‘‘
الشیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں رقمطراز ہیں :
’’اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا

\”اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ\” (التوبہ :111)

اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔‘‘(احسن البیان ص 1574)
حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ بریلوی :
13 ویں صدی کا آغاز تھا کہ رائے بریلی کے سادات خاندان میں 14ویں کا چاند طلوع ہوا یعنی صفر 1301ھ/نومبر 1786ء میں حضرت سید احمد بن سید محمد عرفان کی ولادت ہوئی یہ پورا خاندان زہد وورع، تقویٰ وطہارت،علم وفضل،صبر وتوکل،ایثار وقربانی، ریاضت وعبادت، فضائل ومحاسن، جہاد وغزا وغیرہ میں دیگر خاندانوں کے مقابلہ میں خاص شہرت رکھتا تھا۔
خاندان رسم ورواج کے مطابق ساڑھے چال سال کی عمر میں مکتب میں بٹھائے گئے لیکن تین سال کی مسلسل کوشش کے باوجود حصول علم کی طرف توجہ مبذول نہ ہوئی مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی لکھتے ہیں کہ
’’علم متداولہ کا ان کو شوق نہ تھا قرآن مجید میں سے اس کی چند سورتیں ان کو زبانی یاد تھیں اور ان کی یہ حالت ابتدائی تین سال تک رہی ، ان کے بڑے بھائی سید اسحاق بن سید عرفان اس صورت حال سے بہت پریشان تھے وہ ان کی تعلیم میں کوشاں رہتے لیکن والد نے فرمایا کہ اس(سید احمد) کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرو چنانچہ انہوں نے اس طرف سے توجہ ہٹا لی۔ ( نزہۃ الخواطر 7/28)
اس کے بعد سلسۂ تعلیم منقطع ہوگیا حضرت سید صاحب کو بچپن سے کھیلوں کا بہت شوق تھا ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’آپ کو بچین میں کھیلوں کا بڑا شوق تھا خصوصاً مردانہ اور سپاہیانہ کھیلوں کا ،کبڈی بڑے شوق سے کھیلتے اور اکثر لڑکوں کو دوگروہوں میں تقسیم کردیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ پر حملہ کرتا۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید1/89)

جذبۂ جہاد :

سید احمد کو بچپن ہی سے شوق جہاد کا جذبہ ان کی طبیعت میں راسخ ہوچکا تھا مولانا غلام رسول مہر (م1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’سیّد صاحب خود فرماتے کہ عہد طفلی میں ہی میرے دل میں یہ بات جم گئی تھی کہ میں کافروں سے جہاد کروں گا۔ اور اکثر اس کا اظہار ہوتا رہتا تمام اقرباء میرے ان الفاظ پر متعجب ہوئے بعض سمجھتے کہ یہ بچپن کی اٹکھیلیاں ہیں بعض نے باربار یہی سنا تو خیال ہوا کہ ممکن ہے یہ سچ کہتا ہوصرف والدہ ماجدہ میرے اس دعویٰ کو حرفاً حرفاً سچ سمجھتی تھیں۔‘‘(سید احمد شہید،ص:59)

سفر لکھنؤ ودہلی :

1219ھ میں جب کہ آپ کی عمر 18 سال کی تھی ذریعۂ معاش کے لیے لکھنؤ کا سفر کیا پانچ سال قبل 1314ھ میں ان کے والد محترم سید محمد عرفان رحلت فرما گئے تھے چنانچہ آپ اپنے سات عزیزوں کے ساتھ لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ اس وقت نواب سعادت علی خان خلف نواب شجاع الدولہ کا عہد حکومت تھا لکھنؤ پہنچ کر روزگار کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگے مگر روزگار عنقا تھا چار ماہ بے کاری میں گزر گئے آخر آپ نے لکھنؤ سے دہلی جانے کا ارادہ ظاہر کیا چنانچہ آپ پیادہ دہلی کے سفر پر روانہ ہوئے دہلی کا سفر حقیقتاً حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (م1239ھ/ 1822ء) کی خدمت میں حاضری تھی جب آپ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت شاہ صاحب نے مصافحہ اور معانقہ کے بعد آپ سے جو گفتگو فرمائی اس کو محترمہ ثریاڈار صاحبہ مرحومہ کے الفاظ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
’’حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے فرمایا کہ کہاں سے تشریف لائے ہیں آپ نے فرمایا کہ رائے بریلی کے سادات خاندان سے تعلق رکھتا ہوں…پھر حضرت شاہ صاحب نے استفسار فرمایا کہ سید ابو سعید اور سید ابو نعمان بے واقف ہو سید احمد نے کہا سید ابو سعید میرے نانا اور سید ابو نعمان میرے حقیقی چچا تھے ، حضرت شاہ عبد العزیز نے یہ بات سنتے ہی دوبارہ گرم جوشی سے مصافحہ ومعانقہ کیا اور پھر پوچھا کہ اتنے لمبے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کی کیا غرض تھی، سید احمد نے جواب دیا کہ آپ کی ذات مقدس کو غنیمت سمجھ کر اللہ جل شانہ کی طلب میں یہاں پہنچا ہوں ، حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تمہارے پاک باز خاندان میں منصب ولایت موروثی ہے اور تم امین پدری اور مادری وراثت حاصل کر لو گے.. اس کے بعد حضرت شاہ عبد العزیز نے ایک خادم کے ساتھ حضرت سید احمد کو اپنے برادر خورد شاہ عبد القادر دہلوی (م1815ء) کے پاس اکبر آبادی میں بھیج دیا۔ ( شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور اُن کی علمی خدمات ، ص213)

اکبر آبادی مسجد میں مصروفیات :

اکبر آبادی مسجد حضرت سید احمد نے حضرت شاہ عبد القادر دہلوی سے ترجمہ قرآن مجید اور صرف ونحو کی عربی وفارسی کتابیں پڑھیں علاوہ ازیں عربی وفارسی لکھنے ، پڑھنے اور بولنے میں مہارت حاصل کر لی حضرت شاہ اسمعیل شہید دہلوی سے بھی استفادہ کیا اور اسی دوران حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے دست حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا ، مسجد اکبر آبادی کے قیام کے دوران آپ زیادہ وقت ذکر واشغال اور ریاضت وعبادت میں مصروف رہتے تھے۔

رائے بریلی کو واپسی :

حضرت شاہ عبد العزیز اور حضرت شاہ عبد القادر سے حصول علم اور باطنی وروحانی دولت حاصل کرنے کے بعد سید صاحب پیادہ اپنے وطن رائے بریلی واپس تشریف لے گئے اور مسجد شاہ علم اللہ میں قیام فرمایا ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (م1999ء) لکھتے ہیں کہ :
’’سید صاحب اپنے وطن واپس تشریف لائے آپ اچانک پہنچے اور مسجد میں مسافرانہ بیٹھ گئےآپ جس وقت گھر سے نکلے تھے اس وقت داڑھی اور مونچھ بھی نہیں نکلی تھی اب تشریف لائے تو گھنی داڑھی اور مونچھیں تھیں لوگوں نے پہنچانا نہیں اور سمجھے شاید کوئی مسافر یا درویش ہو ، جب آپ کو پہچان لیا گیا تو ان کے گھر خبر کی ، اعزّا ملنے آئے اور ہاتھوں ہاتھ گھر لے گئے۔‘‘ (سیر سید احمد شہید 1/103)

شادی :

رائے بریلی کے قیام میں حضرت سید صاحب نے نہایت عمدگی اور خوبی سے شب وروز قرآن وحدیث کا درس دیتے رہے اسی دوران خاندان کی ایک لڑکی سیّدہ زہرہ سے آپ کی شادی کر دی گئی ۔ مولانا غلام رسول مہر (م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
’’سیدہ زہرہ سید علم اللہ شاہ کے حقیقی چچا سید اسحاق کی اولاد میں سے تھیں شجرہ نسب یہ ہے :
سیدہ زہرہ بنت سیدمحمد روشن بن سید محمد شافع بن سید عبد الغفار بن سید تاج الدین بن سید محمد اسحاق عم سید علم اللہ (طینی برادر سید محمد فضیل بن سید محمد معظم) (سید احمد شہید 1/80)
دہلی واپسی اور نواب امیر خان والئ ٹونک کی فوج میں شمولیت
رائے بریلی میں دو سال قیام کے بعد سید صاحب دوبارہ دہلی تشریف لائے اور مسجد اکبر آبادی میں فروکش ہوئے۔ اس وقت حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی اس فانی دنیا سے رخصت ہوچکے تھے ، روحانی اور باطنی فیوض کے بعد اب دوسرے مقصد کی تکمیل ایک بہت ضروری مرحلہ تھا اس مقصد اعلیٰ یعنی اسلامیت کے احیاء کے لیے جہاد کی تربیت کے عملی پہلوؤں سے واقفیت حاصل کرنا چاہی چنانچہ اس غرض کے لیے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی اجازت سے نواب امیر خان والی ریاست ٹونک کی فوج میں شامل ہوگئے۔
نواب امیر خان کی فوج میں شمولیت کے مقاصد کیا تھے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بیان کرتے ہیں کہ
’’ سید صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جس عظیم مقصد کے لیے تیار کیا تھا اور آپ نے جن بلند مقاصد کو اپنے پیش نظر رکھا تھا، ان کی سربراہی میں مزید تکمیل وپختگی اور عملی مشق وتربیت کی متقاضی تھی اگرچہ سید صاحب نے شروع سے سپہ گری اور سپاہیانہ اعمال واشغال اپنے فطری ذوق ورجحان سے سیکھے تھے لیکن آپ کو عملی معرکہ آرائی اور میدان جنگ اور اس کے نشیب وفراز سے گزرنے کا اس سے پیشتر موقع نہیں آیا تھا اس کے لیے کسی محاذ جنگ کی ضرورت تھی جہاں رہ کر آپ فوجوں کی قیادت اور دست بدست جنگ کا عملی تجربہ حاصل کریں۔ (سیرت سید احمد شہید 1/105)
نواب امیر خان کی فوج میں شمولیت اقامت جہاد کے ماتحت اور اشارہ غیبی سے تھا ، سید صاحب اپنی عبادات وریاضات اور فوج کی سپاہیانہ زندگی کے ساتھ اصلاح وارشاد میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے فوج جس کی تعداد ایک ایک وقت میں 40۔50 ہزار مسلمان سپاہی موجود ہوتے تھے دعوت وتبلیغ کا ایک وسیع میدان تھا اس لیے آپ کو اصلاح وتربیت کے بہترین مواقع حاصل تھے، فوجی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے آپ سنت یوسفی کے مطابق اُن کی دلجوئی کرتے، عقیدئہ صحیحہ کی تعلیم دیتے خلاف شرع امور سے بچنے کی تلقین کرتے فرائض کی پابندی کا اقرار لیتے۔

ہندوستان کی سیاسی حالت :

اس وقت پورا ملک زبون حالی کا شکار تھا اور مسلمانوں کی قوت مضمحل ہوچکی تھی مسلمان جن کی عظیمت کا ڈنکا کابل وقندہار سے آسام واراکان اور قراقرم سے سے راس کماری تک 250 سال بجتا رہا تما م صوبے مرکز سے علیحدہ ہوکر خود مختار بن گئے تہے تمام نظام درہم برہم ہوچکا تھا بدنظمی کا دور دورہ تھا خانہ جنگی کی فضا عام تہی مسلمانوں کی سیاسی حالت قریب الختم تھی۔
سید صاحب کی نواب امیر خان سے علیحدگی :
سید صاحب نواب امیر خان کی فوج میں سات سال رہے جب نواب صاحب نے انگریزوں سے صلح کر لی تو سید صاحب نے نواب صاحب سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا استعفیٰ نواب امیر خان کو پیش کردیا ، علیحدگی کے بعد سید صاحب نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں خط لکھا کہ
’’خاکسار (سید احمد بن سید عرفان) قدم پوسی کو حاضر ہوتا ہے یہاں سارا نظام درہم برہم ہوگیا ، نواب صاحب انگیریزوں سے مل گئے ہیں اب یہاں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (سیرت سید احمد شہید 1/117)

سفر حج اور مراجعت :

1236ھ / 1820کو حضرت سید احمد نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین کے لیے 400 رفقاء کے ساتھ رائے بریلی سے روانہ ہوئے ،  آپ کے ہمراہ مولانا عبد الحی بڈھیالوی اور مولانا شاہ اسمعیل شاہ رحمہم اللہ بھی تھے یہ دونوں بزرگ علماء اپنے علمی تبحر،رشد وصلاحیت اور تقویٰ وللہٰیت اور زہد وورع، عدالت وثقاہت، شجاعت وبسالت اور ذکاوت وامانت ودیانت میں اپنے ہم عمروں اور اقران وامثال میں ممتاز تھے۔(یہ دونوں علماء حضرت سید احمد کی بیعت میں تھے)
حضرت مولانا عبد الحی اور حضرت مولانا شاہ اسمعیل شہید رحمہم اللہ کی علمی عظمت وقدرومنزلت کا اندازہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کے اس خط سے ہوگا جو انہوں نے منشی خیر الدین لکھنؤ حج کے متعلق لکھا تھا۔
’’اس خط میں حضرت شاہ عبد العزیز نے مولانا عبد الحی کو شیخ الاسلام اور مولانا اسمعیل کو حجۃ الاسلام کے لقب سے یاد کیا ہے اور دونوں کو تاج المفسرین، فخر المحدثین، سرآمد علمائے محققین کا خطاب دیاہے اور لکھا ہے کہ یہ دونوں حضرات تفسیر وحدیث، فقہ واصول، منطق وغیرہ میں اس فقیر سے کم نہیں ،جناب باری تعالیٰ کی جو عنایت ان دونوں بزرگوں کے شامل حال ہے اس کا شکر مجھ سے ادا نہیں ہوسکتا ان دونوں کو علمائے ربانی میں شمار کرو، اور جو اشکال حل نہ ہوں ان کےسامنے پیش کرو بظاہر ان کلمات سے اپنی تعریف نکلتی ہے لیکن امر حق کا اظہار واقفوں پر واجب ہے۔ ( سیرت سید احمد شہید 1/120۔121)
اصل خط بزبان فارسی مع ترجمہ صفحہ 201 تا 203 (سیرت سید احمد شہید مؤلفہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ، مطبوعہ 1405ھ/1985ء درج ہے )۔
مولانا عبد الحی اور مولانا اسمعیل خاندان ولی اللہ ہی کے چشم وچراغ تھے اور شاہ عبد القادر اور شاہ رفیع الدین کے بعد ہندوستان کے ممتاز ترین علماء میں ان کاشمار تھا۔ (عراقی)
جب حضرت سید احمد نے اپنے رفقاء مولانا سید عبد الحی بڈھانوی اور مولانا محمد اسمعیل دہلوی کے ہمراہ عظیم آباد پٹنہ پہنچے اور وہاں ان کا قیام کچھ دن رہا اپنے قیام کے دوران مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل صاحبان وعظ وتبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا سامعین میں مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (جو اُن دنوں اپنے ایک رفیق محمد مراد کے ساتھ وہاں مقیم تھے) ان کے وعظ سے مستفیض ہوئے۔
عظیم آباد سے کلکتہ کا سفر کیا دور کلکتہ سے بذریعہ بحری جہاز سے جدہ تشریف لے گئے، اور 28 شعبان 1237 ھ سید صاحب کا قافلہ مکہ پہنچ گیا رمضان المبارک کا مہینہ مکہ معظمہ میں گزرا قیام مکہ کے دوران آپ کے معمولات کے بارے میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ
’’روزانہ دن کو مکے کے علماء،فضلاء ومشائخ کی آپ کے پاس عصر تک نشست رہتی عصر کی اذان آپ نماز پڑھنے کو حرم شریف جاتے ، عصر سے مغرب تک آپ حرم میں تشریف رکھتے وہاں آپ کے پاس لوگوں کا مجمع رہتا افطار کے وقت طواف کرکے قیام گاہ پر واپس تشریف لاتے۔ (سیرت سید احمد شہید 1/283)
حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 2 صفر 1238ھ کو مدینہ منورہ کے لئے رخت سفر باندھا مدینہ میں آپ کا قیام 25 دن رہا اس اثناء میں عبادت وریاضت وذکر الٰہی میں مصروف رہے علاوہ ازیں متبرک اور تاریخی مقامات کی زیارت کی ۔ 29 ربیع الاول کو سید صاحب مع اپنے قافلہ کے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ کرعمرہ وطواف کیا ، مکہ معظمہ کے قیام میں دوسرا ماہ مبارک(رمضان) آگیا، 15 شوال کو واپس ہندوستان آنے کی تیاری شروع ہوئی آخر آپ دو سال گیارہ ماہ بعد 29 شعبان 1239ھ بخیریت وعافیت اپنے وطن رائے بریلی پہنچ گئے۔

دعوتِ جہاد :

حرمین شریفین سے واپسی کے بعد حضرت سید احمد ہمہ تن جہاد کے سروسامان کے لیے مشغول ہوگئے جس کے لیے وہ اپنی حیاتِ گراں مایہ وقف فرما چکے تھے جیسا کہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ
’’ہم محض رضائے الٰہی کے آرزو مند ہیں ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو غیر اللہ کی طرف سے بند کر چکے ہیں اور دنیا و مافیہا سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں ۔ ہم نے محض اللہ کے لیے علم جہاد بلند کیا ہے ۔ ہم مال و منال، جاہ و جلال ، امارت و ریاست ، حکومت و سیاست کی طلب و آرزو سے آگے نکل گئے ہیں ۔ خدا کے سوا ہمارا کوئی مطلوب نہیں ۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید 1/308)
مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ
’’حرمین شریفین سے مراجعت کے بعد سید صاحب ہمہ تن جہاد کے لیے سروسامان میں مشغول ہوگئے جس کے لیے وہ اپنی حیات گراںمایہ وقف فرما چکے تھےاس دور کی مشغولیتوں کا کوئی موقع مجھے نہیں مل سکا لیکن یقین ہے کہ ان کےداعی شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ دورے کرتے رہے ان کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جو غازی ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے سرفروشانہ میدان عمل میں آئے وہ سینکڑوں مقامات کے مختلف باشندے تھے پھر سید صاحب سرحد چلے گئے، تو اس کے بعد بھی جگہ جگہ کے لوگ تیار ہوکر پہنچتے رہے روپیہ بھی فراہم ہوتارہا یہ سب کچھ وسیع ترتیبات کے بغیر کیونکر عمل میں آسکتا تھا۔ (سید احمد شہید 1/244)
مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل قافلہ حج میں شامل تھے یہ دونوں بزرگ حضرت سید صاحب کے دست وبازو تھے سفر حج کے بعد ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے اور پنجاب وسرحد کے مسلمانوں کو سکھوں کے ظلم وستم سے بچانے ک ےلیے جہاد کے لیے سروسامان کی تیاری میں مصروف ہوگئے ۔ 1241ھ میں اقامت جہاد کے لیے اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ وطن سے ہجرت کی راجپوتانہ، رواڈ،سندھ،بلوچستان،افغانستان اور صوبہ سرحد کے کھلے ریگستانوں، وسیع میدانوں،بلند پہاڑوں پُر خطر جنگلوں اور طوفانی دریاؤں کا سفر طے کیا اور ہر جگہ توحید وسنت اور عقائد صحیحہ کی اشاعت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔

سکھوں سے جنگیں :

حضرت سید احمد اور اُن کے رفقاء مولانا عبد الحی اور مولانا محمد اسمعیل نے سکھوں سے جنگ کرنے کا آغاز کیا پہلی لڑائی سکھوں سے اکوڑہ کے مقام پر ہوئی سکھوں کی تعداد سات سے دس ہزار تک تھی اور مجاہدین کل ڈیڑھ ہزار تھے جنگ کرنے سے پہلے سید صاحب نے اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کہ جنگ کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے آخر باہم مشورہ سے فیصلہ ہوا کہ شبخون مارا جائے ۔
شبخون کا مدعا یہ ہوتا ہےکہ اپنی قوت کو کم سے کم گزند پہنچے، دشمن کی قوت پر اچانک قوی ضرب لگا کر اسے ہراس زدہ بنا دیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اندازہ بھی کر لیا جائے کہ منظم جنگ کے لیے اس میں کتنی صلاحیت موجود ہے۔
سید صاحب کا یہ فیصلہ شبخون انہیں مقاصد پر مبنی تھا۔
چنانچہ مجاہدین اسلام نے شبخون مارا کئی مجاہدین شہادت سے سرفراز ہوئے اور سکھوں کا کافی نقصان ہوا ایک ہزار کے قریب سکھ واصل جہنم ہوئے، مجروحین کی تعداد مقتولوں سے زیادہ تھی۔
مولانا غلام رسول مہر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’اکوڑے کا حملہ محض سبخون تھا مگر بعض غازی جوش شجاعت میں شبخون کی حدود سے تجاوز نہ کرتے تو یقین ہے کہ ان کا نقصان بہت کم ہوتا ، سکھوں کے نقصان کی بہت ر وایات مختلف تھیں، ابتداء میں یہ افواہ تھی کہ کم وبیش ایک ہزار مارے گئے سید صاحب نے اپنے مکتوب میں یہی تعداد درج کی پھر امیر خان خٹک نے اکوڑے جاکر پوری تحقیقات کی اور بتایا کہ مقتولین کی تعداد سات سو سے کم نہ ہوگی مجروحین اس سے کہیں زیادہ تھے۔ ( سید احمد شہید 1/362۔363)
اس جنگ کا اثر مسلمانوں اور مخالفین پر خاطر خواہ ہوا مسلمانوں کے دل بڑھ گئے اور حوصلے بلند ہوئے سکھوں سے دوسری جنگ ’’شیدو‘‘ کے مقام پر ہوئی یہ شیدو صوبہ سرحد کا مشہور قصبہ ہےاور اکوڑے سے چار میل جنوب میں ہے اس جنگ سے پہلے سرداران پشاور(خاری خان، اشرف خان، فتح خان، سعادت خان ، سردار یار محمد خان اور سلطان محمد خان) نے سید صاحب کی بیعت امامت کر چکے تھے سکھوں کی طرف سے جب لڑائی کا آغاز ہوا اور اُن کی توپوں کے گولے اسلامی لشکر پر برسنے لگے تو سردار سلطان محمد خان، پیر محمد خان، فتح محمد خان پنجتاری اور دوسرے مجاہدوں نے جو گھوڑوں پر سوار تھے باگیں اُٹھائیں اور بجلی کی سرعت سے سکھوں کے مورچوں پر حملہ آور ہوئے اس جنگ میں مجاہدین اسلام کا پلہ بھاری تھا اور سکھ فوج کا کافی نقصان ہو رہا تھا لیکن چند منافقین نے غداری کرکے جنگ کا پانسہ بدل دیا جیسا کہ سید صاحب اپنے ایک مکتوب میں ذکر کرتے ہیں کہ
’’مجاہدین اخیار ایک سے زیادہ مرتبہ سکھوں پر مظفر ومنصور ہوئے لیکن چند منافقوں کی مداخلت کے باعث انہیں گزند پہنچا… الحمد للہ ! کہ مومنوں کی ہمت عالیہ میں قصور وفتورکو راہ نہ ملی ۔ ( سید احمد شہید 1/396)
اس جنگ میں دو سرداروں یار محمد خان اور سلطان محمد خان ( جو دونوں سگے بھائی تھے) سید صاحب سے غداری کی اور مجاہدین اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ، سید صاحب کو زہر دیا گیا جس کے سبب آپ جانبر نہ ہو سکے لیکن شدید علیل ہوگئے سید صاحب کی زہر خورانی کا واقعہ ’’عمدۃ التاریخ‘‘ میں مرقوم ہے :
’’ اٹک پار کے لوگوں کا بیان ہے کہ جب جنگ کی آگ بھڑکی تو یار محمد خان نے رنجیت سنگھ کے ساتھ ربط واتحاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے سید صاحب کو زہر دے دیا اور بھاگ نکلنے کی ٹھان لی اس کا لشکر بھی ساتھ ہی فرار ہوگیا۔
جنگ شیدو میں اسلامی افواج کی فتح یقینی تھی کیونکہ اسلامی افواج کی تعداد ایک لاکھ بتائی جاتی ہے اور اس کے علاوہ مجاہدین اسلام جذبۂ شہادت سے سرشار تھے لیکن سردار یار محمد خان کے طرز عمل سے جنگ کا پانسہ بدل گیا۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
جنگ شید و کے موقع پر اسلامی افواج کی اتنی بڑی جمعیت فراہم ہوگئی تھی کہ جو نہ صرف سردار بدھ سنگھ کی فوج کو شکست دینے کے لیے بلکہ پورے صوبہ سرحد کو سکھوں سے آزاد کرانے کے لیے بھی کافی تھی۔ مسلمان تقریباً ایک لاکھ تھے جن میں اسلامی ہند کا جہاں نثار اور شوق شہادت میں سرشار عنصر بھی تھا جو کئی ہزار میل کا ہفت خواں سرکرکے اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے آیا تھا ان میں یوسف زئی سرداروں کی فوج بھی تھی جو ستر اسی ہزار افراد پر مشتمل تھی اور ان اسب کے علاوہ سرداران پشاور کی کار آزمودہ فوج بھی تھی اگر سرداران پشاور اس موقع پر اخلاص اور تعاون سے کام لیتے اور کچھ بھی ثابت قدمی اور استقامت دکھاتے تو نہ صرف میدان جنگ کا بلکہ ہندوستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا لیکن عین اُس وقت جبکہ معرکہ کارزار گرم تھا اور سکھ فوجیں پسپار ہورہی تھیں انہوں نے میدان جنگ سے علیحدگی اختیار کی اور نہ صرف خود میدان سے فرار اختیار کیا بلکہ سید صاحب کے ساتھ (جو جماعت مسلمین کے امام اور عساکر اسلامیہ کے قائد عام اور اس پورے سلسلے کے روح رواں تھے) ایسا معاملہ کیا کہ نہ صرف اس معرکے میں تزلزل وانتشار پیدا ہوا بلکہ قریب تھا کہ پورا سلسلہ دعوت وجہاد جو صدیوں کے بعد اپنی صحیح شکل میں ہندوستان میں پیدا ہوا تھا درہم برہم ہوجائے۔
یار محمد خان کا کردار :
یار محمدخان نے ایسا کیوں کیا اس کے اسباب ومحرکات کیا تھے اس قدر جلد اس کی طبیعت میں برتشگی کیوں پیدا ہوئی ، اس کے حالات ومزاج سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کو ابتداء سے سید صاحب اور اُن کے مقاصد سے خلوص نہ تھا ، سید صاحب تو یار محمد خان کے لیے محض اجنبی اورپردیسی تھے اور اُن کی رفاقت کے لیے سوائے خلوص اور دینی جذبے کے کوئی اور محرک نہ تھا، اس کا یار محمد خان کے یہاں فقدان تھا اس نے اپنے ذاتی اقتدار اور مصلحتوں کے مقابلے میں اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی وفاداری اور رفاقت کا معاملہ نہ کیا اور ہمیشہ لاہور کی حکومت سے اظہار وفاداری اور اپنی کاربرادی کرتا رہا۔
اس نے اپنے سیاسی وملکی مصالح کی بنا پر سید صاحب کی رفاقت کا فیصلہ کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ شیدو کی جنگ سے پہلے سردار بدھ سنگھ نے اس کو بلا لیا، اور یہ منصوبہ تیار ہوگیا کہ وہ عین معرکے میں میدانِ جنگ سے اپنی فوجوں کو لے کر علیحدہ ہوجائے گا سردار بدھ سنگھ کے لیے ایک مذذب، موقع پرست، دنیا دار رئیس کو دنیوی منافع کا لالچ دے کر اور اس جنگ کے عواقب سے ڈرا کر توڑ لینا کچھ مشکل نہ تھا، زہر خورانی کا واقعہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے شیدو اور اس کے گردونواح میں اس کی عام شہرت ہے۔ (سیرت سید احمد شہید 2/10۔11)
آخری معرکہ … جنگ بالاکوٹ..
سچوں سے 5 ذی قعدہ 1246ھ سید صاحب نے مع لشکربالاکوٹ کے لیے سفر شروع کیا مولانا محمد اسمعیل دہلوی بھی ہمراہ تھے لیکن کچھ علیل تھے جب چلتے چلتے تھک جاتے تو آرام کے لیے بیٹھ جاتے اور وعظ فرمانے لگتے جب کچھ آرام ہوجاتا طبیعت سنبھل جاتی تو سفر کرنا شروع کردیتے یہاں خدا بخش رام پور ی جو مولانا اسمعیل دہلوی کے شریک سفر تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک جگہ مولانا اسمعیل نے پڑاؤ کیا تو لشکر کے سامنے تقریر کی اور فرمایا کہ
بھائیو! اس بات کا خیال کرو کہ اگر ہم کسی امیر یا رئیس کے نوکر چاکر ہوتے اور وہ ایسے سخت راستے میں اپنے کسی کام کو بھیجتا تو بلا عذر جانا پڑتا اور راستے کی یہ ساری تکلیف اُٹھانی پڑتی وہ نوکری بھی صرف دنیا کے گزران کے واسطے ہوتی آج الحمد للہ کسی کے نہ نوکر ہیں نہ چاکر صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی ورضا مندی کے لیے یہاں آئے ہیں اور یخ محنتیں اور مشقتیں اُٹھاتے ہیں اگر ہماری نیتیں خالص ہیں تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس کے بڑے بڑے درجے دے گا ۔ (سیرت سید احمد شہید ، ص:407)
17 یا 18 رمضان سید احمد سچوں پہنچے وہاں سے آپ نے بالا کوٹ جانے کا پروگرام بنایا۔
بالا کوٹ وادی کاغان کے جنوبی دہانے پر واقع ہے ، بالا کوٹ کے مشرق میں کالو خان کا بلند ٹیلہ واقع ہے ، جس کی چوٹی پہ کالو خان نام کا گاؤں ہے ، مغرب میں مٹی کوٹ کا ٹیلہ ہے ، جو بہت بلند ہے ٹیلے کے شمالی حصے میں چوٹی پر مٹی کوٹ گاؤں ہے جس کے بارے میں مثل مشہور تھی کہ
جس کا مٹی کوٹ اس کا بالا کوٹ
جب سید صاحب کے بالا کوٹ میں داخلے کی اطلاع مولانا محمد اسمعیل صاحب کو پہنچی تو آپ لوگوں کو لے کر استقبال کے لیے آئے ۔ سید صاحب مولانا اسمعیل اور اُن کے ہمراہ آئے ہوئے لوگوں سے بڑی محبت اور گرم جوشی سے ملے اور آپ شہر میں داخل ہوئے سردار شیر سنگھ بالا کوٹ سے دوڈھائی کوس دور اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا آخر سید صاحب نے سکھ فوج سے جنگ کا آغاز کیا بڑے معرکہ کی جنگ ہوئی دونوں طرف کشتیوںکے پشتے لگ گئے۔
حضرت سید احمد نے مع اپنے رفیق خاص مولانا محمد اسمعیل دہلوی کے ہمراہ 24 ذی قعدہ 1246ھ مطابق 5 مئی 1831ء کو میدان جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
سید احمد شہید رحمہ اللہ کی شخصیت :
سید احمد شہید بہت بڑے روحانی پیشوا اور شریں بیان مقرر تھے ہزاروں لوگ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے وہ بدستور زندگی کے آخری مرحلے تک جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف رہے ، ان کی زبان برابر دین حق کی سربلندی کے لیے متحرک رہی ، اُنہوں نے لاکھوں گمراہوں کو شریعت محمدی کا پابند بنایااور ان کے سینوں میں عشق حق کے چراغ روشن کیے ، وہ ہر مسلمان کے سینے میں دین حق کے لیے ایثار وقربانی کی روح پیدا کرنا چاہتے تھے اور ہر کلمہ گو کو حقیقی معنوں میں مجاہد فی سبیل اللہ بنا دینے کے آرزو مند تھے۔
رفقاء اور دین حق کے راستے میں ساتھ دینے والوں کے ساتھ آپ کا معاملہ اس کلمہ الٰہی کی تعمیل اور اس آیت کی تفسیر تھی
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
’’اس کے ساتھ نرمی سے پیش آ، جو بھی ایمان لانے والا ہو کہ تیری تابعداری کرے۔‘‘(الشعراء:215)
شرعی معاملات میں انتہائی غیور اور حسّاس تھے ، ان کی ساری جدوجہد کا محرک اور سبب اصلی یعنی اسلامی حمیّت وغیرت تھی اور ان کی زندگی سب سے بڑا جوہر اور امتیاز اتباع سنت نبوی ﷺ تھا۔
حضرت سید احمد شہید اپنے بارے میں فرماتے ہیں :
میں نے مدت العمر آنے جانے، لینے دینے، اُٹھنے بیٹھنے، حرکت وسکون، غصہ وبردباری، قہر ومہر کھانے پینے اور سوار ہونے کا کوئی کام نہیں کیا جس میں رضائے الٰہی کی نیت نہ ہو اور کوئی کام میں نے نفس کے تقاضے اور خواہش سے نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ نے سید احمد شہید کو جن کمالات اور جن کرامات سے شرف بخشا تھا ان کو حافظے میں محفوظ رکھنے کی مقدرت ہم میں سے کسی کو حاصل نہیں ۔

انسان کامقصد حیات(قسط 2)

اصلی مقصد حیات:

اس حصے کو پڑھنے سے قبل گذشتہ تمام سطور کو ایک بار پھر پڑھیں،تو آپکو انسان کا اصلی مقصد حیات معلوم کرنے میں دشواری نہیں ہوگی،آپ از خود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ اس عارضی زندگی کا مقصدایک ایسی زندگی کی تیاری ہے جو لافانی ہے ،جو اصلی وطن ”جنت“میں بسر ہو، اس لافانی زندگی اور اسکے مَحَلّ”جنت“کا پتہ دنیا کے کسی علم سے حاصل نہیں کیا جاسکتا،اسکا واحد ذریعہ ربانی ہدایات ہیں،جو قرآن مقدس اور حدیث صحیح کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہیں،ان دونوں میں اس موضوع پر تفصیلی مباحث موجود ہیں جو انہی کا خاصہ ہیں،قرآن مقدس میںغور و فکر کرنے پر تخلیق انسانی کے چند مقاصد سامنے آتے ہیںجو کہ درج ذیل ہیں:
1 انسان کو اس بات کا علم دیناکہ وہ اکیلا معبود برحق ہے:
قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں یہ مضمون جابجا بیان کیا گیا ہےکہ معبود حقیقی صرف ایک ہے اور وہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک ہے یعنی اللہ سبحانہ و تعالی،تمام انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ و السلام نے سب سے پہلے اسی نکتے کو اٹھایااور اس پر سب سے زیادہ زور دیا،اسی نکتے کو نجات کی اصل بنیاد قرار دیا،اللہ تعالی فرمایا:

وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرة : 163)

’’اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے،اسکے سوا کوئی معبود نہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔‘‘
نیز محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ

جسکی موت ہو اس حال میں ہوکہ اسے علم ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جنت میں داخل ہوا۔
نیز فرمایا:

مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ

’جسکی موت ہو اس حال میں ہوکہ وہ اللہ کے ساتھ (کسی اور کو بھی معبود مان کر)شریک کرتا تھا وہ جہنم میں داخل ہوا۔‘‘
نیز فرمایا:

أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَأَخْبَرَنِي – أَوْ قَالَ: بَشَّرَنِي – أَنَّهُ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ \” قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ

ـ’’میرے پاس فرشتہ آیا،جس نے مجھے بشارت دی کہ:میری امت کا جو فرد اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا ہو،وہ جنت میں ضرور داخل ہوگا،میں نے کہا :اگرچہ وہ زنا کرے،چوری کرے،اس نے جواب دیا:اگرچہ وہ زنا کرے ،چوری کرے۔‘‘
ان آیات و احادیث سے صاف ظاہرہوا کہ نجات کی اساس عقیدہ توحید کےاہتمام اور شرک سے اجتناب میں ہے،کم ازکم بوقت موت ایسا ضروری ہے،جبکہ دیگر جرائم خواہ کتنے ہی بڑے ہوں انکی معافی کی گنجائش ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ(النساء : 48 و 116)

’’اللہ نہیں معاف کرے گا اس بات کو کہ اسکے ساتھ شرک کیا جائے،اور اس کے سوا جو چاہے گا جس کے لئے چاہے گا معاف کردے گا۔‘‘
اور جسکی موت شرکیہ عقیدے پر ہوئی اسکی بڑی سے بڑی نیکی بھی اسکے کسی کام نہ آئے گی ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ (الزمر : 65)

آپکی جانب اور آپ سے پہلے نبیوں کی جانب وحی کی گئی کہ اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرےعمل برباد ہوجائیں گےاور تو خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوجائے گا،بلکہ صرف اللہ ہی کو معبود مان اور اسکا شکر گذار بن۔
2 انسان کو اس بات کاعلم دیناکہ وہ قادر مطلق ہے:
اس مضمون سے بھی قرآن مجید کی آیات اور احادیث رسول ﷺ بھری پڑی ہیں،کہ اللہ تعالی ایک ایک ذرے پر قادر ہے،اور تمام اشیاء اسکے حکم کے تابع ہیں، اور وہ ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (الطلاق: 12)

اللہ ہی ہے جس نے سات آسمانوں اور انہی کی مثل زمینوں اور ان میں جو بھی ہیں سب کو پیدا کیا،اسکا حکم انکے درمیان اترتا ہے،تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے،اور اللہ نے ہر شے کا علمی احاطہ کررکھا ہے۔
نیز فرمایا:

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ( يس : 77ــ83)

کیا انسان نے غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا، پھر وہ جھگڑا کرنے لگا،اور ہماری مثال بیان کرنے لگا،جبکہ خود اپنی تخلیق کو فراموش کردیا،اس نے کہا:ہڈیوں کو انکے بوسیدہ ہونے کے بعد کون جِلا سکتا ہے؟آپ کہیں:انہیں وہی جی اٹھائے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا،اور وہ ہر طرح پیدا کرنا جانتا ہے،وہی تو ہے جس نے تازہ شاخ سے تمہارے لئے آگ پیدا کی،جسےتم سلگاتے ہو،بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ ان جیسے (انسان)نہیں بناسکتا؟کیوں نہیں،وہ بہت پیدا کرنے والا جاننے والا ہے،بس جب وہ کچھ چاہے تو اسکا کام ہے یہ کہنا کہ :ہوجا،تو وہ ہوجاتا ہے،پس پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر شے کا اختیار ہے،اور تم اسی کی جانب لوٹائے جاؤ گے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی قدرت و تخلیق کے لامتناہی سلسلے کو بیان کیا،کہ کچھ بھی اسکی قدرت و اختیار سے باہر نہیں،تو انسان جیسی کمزور اور چھوٹی سی مخلوق کو مارکر پھر سے بنادینا اس کے لئے کیا مشکل ہوسکتا ہے۔
نیز محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا،کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي، فَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً أَوْ لِيَخْلُقُوا حَبَّةً أَوْ شَعِيرَة

ایک روایت میں ہے:

فَلْيَخْلُقُوا بَعُوضَةً

ان سے بڑھ کر ناحق کون ہوگا،جو میری مخلوق کی نقل(تصویر،شبیہ)بنانے کی کوشش کرتے ہیں،تو پھروہ ایک ذرہ(حقیقی)یا ایک گندم کا یا جو کا دانہ پیدا کرکے دکھائیں-ایک روایت میں ہے:ایک مچھر بنا کر دکھائیں؟
یعنی اللہ تعالی نے ان اشیاء کو عدم سے وجود بخشا،کلمہ کن سے پیدا کیا،جبکہ ہر زندہ شے کو پانی سے پیدا کیا،پھران میں افزائش،طعم،حرکت، سمع و بصروغیرہ صلاحیتیں پیدا کیں،کیا اسکے سوا اور کوئی ایسا کرنے پر قادر ہے؟
نیز فرمایا:

قَالَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ: فَإِذَا مَاتَ فَحَرِّقُوهُ وَاذْرُوا نِصْفَهُ فِي البَرِّ، وَنِصْفَهُ فِي البَحْرِ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ لَيُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا لاَ يُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ العَالَمِينَ، فَأَمَرَ اللَّهُ البَحْرَ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، وَأَمَرَ البَرَّ فَجَمَعَ مَا فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: لِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: مِنْ خَشْيَتِكَ وَأَنْتَ أَعْلَمُ، فَغَفَرَ لَهُ

ایک شخص جس نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا ،جب مرنے لگا تو اس نے کہا،:جب وہ مرجائے تو اسے جلا کر اسکی آدھی راکھ خشکی اور باقی سمند میں بہا دینا،کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ اس پر (اسے دوبارہ زندہ کرنے پر)قادر ہے تو وہ اسے ایسا عذاب دیگا جو اس نے کسی کو نہ دیا ہو،پھر اللہ تعالی نے بحر و بر کو حکم دیا،تو انہوں نے اسکے ذرات کو جمع کردیا،پھر اللہ نے اس سے پوچھا:تو نے ایسا کیوں کیا؟اس نے کہا:تو جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے، چنانچہ اللہ نے اسے بخش دیا۔
ان دونوں نکات میں بیان کردہ آیات و احادیث میں یہ بتایا گیا کہ:
الوہیت کا منصب صرف اور صرف اللہ تعالی کے لئے خاص ہے،جو کہ اسکی ذات کے تفرّدووحدانیت پر دلالت کرتا ہے،کہ کسی کی بھی ذات اسکے مثل نہیں۔
اللہ تعالی قادر مطلق،عالِم مطلق اور حاکم مطلق ہے اور کوئی بھی شے اسکے علم وقدرت اور تصرف سے خارج نہیں، اور یہ چیز اسکی صفات وافعال و تصرفات میں تفرد و وحدانیت پر دلالت کرتی ہے،کہ کسی کی بھی صفات ، افعال و تصرفات اسکی صفات ،افعال و تصرفات جیسے نہیں،نیز ان تمام امور کا تعلق نظریے و عقیدے سے ہے،گویا اللہ سبحانہ وتعالی کو اسکی ذات و صفات ،افعال و تصرفات میں وحدہ لاشریک ماننا انسان کا ”نظریاتی مقصد حیات“ ہے۔
نیز اللہ تعالی کا علم اوراسکی قدرت ایک ایک ذرے ،ایک ایک قطرے پر ہے،اور اسقدر ہے کہ وہ ہر ذرے کو دوسرے ذرےاورہر قطرے کودوسرے قطرے سے ممتاز کرکے جمع کرنے پر قادر ہے۔
مذکورہ بالا امور میں ذرہ برابر شک بھی انسان کے لئے اخروی نجات میں مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔
3انسان کو عملِ عبادت کے لئے پیدا کیا:
گذشتہ دو نکات میں مقصد حیات کا نظریاتی پہلو اجاگر کیا گیا تھا،اب” عملی پہلو “بیان کیا جارہا ہے،جو کہ عبادت ہے،صرف یہ ایک عمل ہے جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56)

’’میں نے جن و انس کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں جو انداز بیان ہے وہ حصر پر مبنی ہے،جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی عبادت میں بسر کردے، اسکی زندگی کا ہر لمحہ اسی عمل میں صرف ہو اسکے سوا وہ اور کوئی عمل نہ کرے،حتی کہ اسے موت آجائے۔
جیسا کہ دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر: 99)

’’اپنے رب کی عبادت کرتا رہ حتی کہ تجھے موت آجائے۔‘‘
نیز فرمایا:

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ: 31)

ان سب کواس کے سوا اور کوئی حکم نہیںدیا گیا کہ وہ ایک معبود کی عبادت کرتے رہیں،جس کے سوا کوئی معبود نہیں،جو ان کے شرکاء سے پاک ہے۔
بظاہر یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے ،حالانکہ اس میں کچھ بھی باعث تعجب نہیں،دراصل اکثریت”عبادت“ کے حقیقی معنی و مفہوم سے نابلد ہے ،وہ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف مخصوص اعمال مثلاً:نماز،روزہ،تلاوت،ذکر، طواف، سعی وغیرہ کی ادائیگی کانام ہے،حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں،عبادت کا معنی ہے،”بندگی“،”غلامی“اور عبادت کا اصل مفھوم ہے،خالق و مالک کی اطاعت دل و جان سےاسکے رسولوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتے رہنا،عبادت کی دو قسمیں ہیں:
ایک :عبادات شعار،ان سے عبادت کے مخصوص طریقے مراد ہیں،جیسا کہ نماز روزہ وغیرہ۔
عبادت کی دوسری قسم پوری انسانی زندگی کو محیط ہے،یعنی اگر وہ اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں حسب طاقت خالق و مالک کی پسند و ناپسند کا خیال رکھے اور اسکی ہدایات پر کاربند رہے ،اسکی نافرمانی سے بچےتو اسکا ہر عمل عبادت سے تعبیر ہوگا،جیسا کہ نبی ﷺ نے بہت سی احادیث میں اس کی صراحت فرمائی ہے،ارشاد فرمایا:
ہر انسان کو 360 جوڑوں پر پیدا کیا گیا،اس پر لازم ہے کہ ہر جوڑ کی جانب سے روزصدقہ کرے،
مسلمانوں پر یہ بات گراں گذری لہذا انہوں نے پوچھا:
اللہ کے رسول ﷺہم صدقہ کرنے کا اسقدر سامان کہاں سے لائیں؟
آپ نے فرمایا:نیکی کے بہت سے راستے ہیں،ہر تسبیح(سبحان اللہ ،کہنا) صدقہ ہے،ہر تحمید(الحمد للہ ،کہنا) صدقہ ہے،ہر تہلیل (لاالہ الا اللہ،کہنا)صدقہ ہے،ہر تکبیر(اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے،میں اللہ سے استغفار کرتا ہوں،(یعنی یہ بھی صدقہ ہے)،ہر نماز،روزہ،حج صدقہ ہے،اپنے مسلمان بھائی کے چہرے کو دیکھ کر تیرا مسکرانا صدقہ ہے،اللہ کے بندوں کو تیرا سلام کرنا صدقہ ہے،تو دو افراد کے مابین فیصلہ کردے ،یہ صدقہ ہے،کسی آدمی کو اسکی سواری پر سوار کروانے میں مدد کردے ،یہ صدقہ ہے،یا تو اس پر اسکا سامان لدوادے،یہ صدقہ ہے،ہر اچھی بات صدقہ ہے،نماز کی طرف تیرا اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے،تیرا اچھے کام کا حکم دینا صدقہ ہے،برائی سے تیرا روکنا صدقہ ہے،توتکلیف دہ شے،پتھر،کانٹے،ہڈی کو لوگوں کے راستے سے ہٹادے ،یہ صدقہ ہے،مسجد میں لگا ،پڑا تھوک کو زائل کردے ،اور اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی انڈیل دے،یہ صدقہ ہے،پانی کا گھونٹ پلادے صدقہ ہے،گونگے ،بہرے کو مطلب سمجھادے یہ صدقہ ہے،کمزور نگاہ والے کو دکھا دے،نابینا کو راستہ بتادے،کسی کو بھی راستہ سمجھا دینا، صدقہ ہے،کسی حاجت مند کو اسکی ضرورت پوری کرنے کا مقام بتادے،مظلوم مدد کے طالب کی جانب اپنی پوری قوت کے ساتھ دوڑ کر تیرا جانا،اپنی قوت بازو کے ساتھ کسی کمزور کا بوجھ اٹھادینا،یہ سب تیری جانب سے تیری اپنی جان پر صدقہ ہے،تیرا اپنی بیوی سے ہمبستر ہونا بھی صدقہ ہے،اللہ کی رضا کی خاطر تو جو بھی خرچ کرے،حتی کہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے ،تو اس پر بھی تجھے اجر دیا جائیگا۔
(بخاری،مسلم،ابوداؤد،ترمذی،احمد،ابن حبان،الادب المفرد)
اس نکتے میں بیان کردہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا مقصد حیات ”عبادت“ہے،اورعبادت کی گذشتہ تشریح سے واضح ہے کہ عبادت دراصل خالق کی مرضی پر اسکے رسولوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق چلنے کا نام ہے،اور دنیا میں اس سے اچھا کوئی عمل نہیں،بلکہ صرف یہی ایک عمل اچھا ہے،اسی لئے صرف اسی ایک عمل کا مطالبہ کیا،یعنی عبادت کا،جو پوری زندگی کرنی ہے،اگرچہ خالق و مالک کو اسکی حاجت نہیں،نہ ہی اس سے اسکی شان و شوکت اور سلطنت میں کچھ فرق پڑتا ہے،اسکی عبادت کے لئے معصوم و مطیع فرشتوں کی کمی نہیں،لیکن!
/ وہ عبادت کو پسند کرتا ہے:
وہ عبادت جسکے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو ،اور جس کی ادائیگی میں بہت سی رکاوٹیں بھی ہوں،جسے ”تکلیف شرعی“کہا جاتا ہے،اس نوع کی عبادت کی پیشکش خالق و مالک نے آسمان و زمین کو بھی کی لیکن انہوں نے اسے بہت مشکل جانا،وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے ڈر گئے اورانکار کردیا،چنانچہ انہیں اس مخلوق کے سامنے مسخر کردیا گیا جس نے اس بوجھ کو اٹھانے کی حامی بھری یعنی حضرت انسان،اور پھر اس نوع کی عبادت کے امتحان کے لئے انسان کو آسمان و زمین پر مبنی اس کائنات میں بسا دیا،جیسا کہ اللہ تعالی کے درج ذیل فرامین سے عیاں ہوتا ہے،ارشاد فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (ھود: 7)

’’وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،جبکہ اسکا عرش پانی پر تھا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے؟‘‘
اسی کی خاطر اس دنیا میں عارضی موت و حیات کا سلسلہ شروع کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك : 2)

’’جس نے موت و حیات کو پیدا کیا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے ۔‘‘
اور اسی کی خاطر زمین کو اسقدر خوبصورت بنایا،تاکہ وہ انسان کو آزما سکے کہ وہ اس دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنے مقصد حیات کو فراموش کردیتا ہے،یا دنیا کی رونق کو فراموش کرکے مقصد حیات کی تکمیل میں لگا رہتا ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الكهف: 7)

’’زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے اسکی زینت بنادیا، تاکہ ہم انکا امتحان لیں کہ ان میں کون اچھا عمل لاتا ہے۔‘‘
/ وہ عبادت گذاروں کو جزااور بغاوت کرنے والوں کو سزا دینا چاہتا ہے:
عدل کا یہی تقاضا ہے،کیونکہ دنیا کی عارضی زندگی ہر ایک کے ساتھ عدل نہیں کرتی،کتنے ہی مجرم سزا کے بغیر مرجاتے ہیں، جبکہ کتنے ہی بے قصور ظلم کی چکی میں پِستے، پِستے مرجاتے ہیں،پس ضروری ہے کہ سب کے ساتھ عدل ہو،زندگی میں جو اچھا یا برا کیا اسکا حقیقی بدلہ ملے،اسی لیے ”یوم الدین“بدلے کادن مقرر کیا گیا،جس دن سب انسان فطری حالت میں اور خالی ہاتھ ہوں گے،لیکن جنہیں انکا اعمال نامہ انکے داہنے ہاتھ میں دیا گیا وہ کامیاب جبکہ جنکا اعمال نامہ انکے بائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ ناکام قرار پائیں گے،یہ بدلہ ہوگا اس سب کا جو دنیا میں کیا۔
4امتحان کی جزاء کے لئے:
گذشتہ نکتے میں یہ بتایا گیا کہ انسان کا مقصد حیات ”عبادت“ہے اور یہ ایک امتحان ہے،کہ کون بندگی و عبادت کرتا اور کون سرکشی و بغاوت کو اختیار کرتا ہے،اور اس امتحان کا نتیجہ بھی برآمد ہوگا،کامیاب ہونے والوں کو جزا جبکہ ناکام ہونے والوں کو سزا دی جائے گی،جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ (يونس : 4)

وہ تخلیق کا آغاز کرتا ہے پھر وہ اسے دوبارہ کرے گا،تاکہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو انصاف کا بدلہ دے، جبکہ جن لوگوں نے کفر کیاانکے لئے پینے کا کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے کیونکہ وہ کفر کرتے ہیں۔
نیز فرمایا:

وَلِلهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى (النجم: 31)

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی ملکیت ہے، تاکہ برائی کرنے والوں کو انکے عمل کی سزا دے،اور اچھائی کرنے والوں کو ”حُسنی“دے۔
ان تمام آیات سے واضح ہے کہ انسان کو عارضی زندگی بمعہ محدوداختیارات دینے کا مقصد یہ ہے کہ اسکا امتحان ہو کہ دائمی زندگی میں اسے مکمل اختیارات دے کر جنت میں داخل کیا جائے یا اسکے اختیارات کو بالکل ہی سلب کرکے اسے جہنم میں بھیج دیا جائے،باالفاظ دیگر انسان کو عارضی زندگی دی گئی تاکہ وہ خودکو دائمی زندگی میںجنت کا اہل ثابت کردے یا جہنم کا،جیسا کہ درج ذیل آیات سے واضح ہے، ارشاد فرمایا:

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( ھود : 118-119)

اگر تیرا مالک چاہتا،لوگوں کو ایک جماعت بنادیتا،اور وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گےمگر جن پر تیرا رب رحم فرمائے،اور اسی لئے انہیں پیدا کیا،اور تیرے رب کی بات پوری ہوگی،میں جہنم کو سبھی جنّوںاور انسانوں سے ضرور بھروں گا۔
اس آیت میں جرم اور سزا دونوں کو واضح کیا گیا ،جرم ”اختلاف“ہے،یعنی اللہ تعالی کی وحدانیت سے اختلاف رسولوں کی تعلیمات سے اختلاف،جبکہ سزا جہنم ہے، البتہ اللہ تعالی اپنے ازلی علم کی بنیاد پر یہ پہلے سے جانتا تھا کہ اختیار دینے کے باوجود بہت سے انسان اس حقیقت سے اختلاف کریں گے،چنانچہ اس علم کی بنیاد پر اس نے فرمایا:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الأعراف: 179)

ہم نےبہت سے جنّوں اور انسانوں کو جہنم کے لئے بنایا،کیونکہ وہ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں،اپنی نگاہوں سے دیکھتے نہیں، اپنے کانوں سے سنتے نہیں،یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر۔
یعنی عقل و فہم،سماعت و بصارت رکھنے کے باوجود آیات الہیہ پر غور و فکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے علم ازلی کا اظہار کیا ہے کہ بہت سے جن و انس کی تخلیق سے قبل ہی وہ انکے انجام کو جانتا تھا،بلکہ وہ اپنی جمیع خلق کا مکمل علم رکھتا تھا،ساتھ ہی انکے اس انجام بد کی وجوہات بھی بیان کردیں،تاکہ اسکے علم ازلی کی تصدیق بھی ہوجائے اور انسان کا بااختیار ہو کر مذکورہ جرائم کا ارتکاب کرنا بھی ثابت ہوجائے،اور جبر محض کا الزام بھی نہ رہے،یہاں سے تقدیر پر ایمان کا مسئلہ بھی واضح ہوتا ہے،کہ تقدیر کسی قسم کا ”جبر“ یا ”اکراہ“ نہیں بلکہ اللہ تعالی کے پیشگی علم کا نام تقدیر ہے جس میں خطا کا امکان صفر ہے،جبکہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نیک یا بد وہ اپنی مرضی سے کرتا ہے،اسی لئے اس سے اسکے اعمال کا مؤاخذہ ہوگا،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا أُولَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا (الكهف: 29۔31)

آپ کہہ دیں کہ :حق تمہارے رب کی جانب سے (آچکا)تو اب جو چاہے ایمان لے آئے جو چاہے انکار کردے،ہم نے انکار کرنے والے ظالموں کے لئے آگ تیار کی ہے جسکی لپٹیں انہیں گھیر لیں گی،اور اگر وہ مدد چاہیں گے تو تو انہیں کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو انکے چہرے پگھلا دے گا،پینے کی بڑی بری شے ہے،اور رہنے کی بدترین جگہ،جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے تو ہم اچھائی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کریں گے،ان کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں،جن میں انہیں سونے کے کڑے اور سندس و استبرق ریشم کے سبزلباس پہنائے جائیں گے،ان میں وہ تکیوں پر ٹیک لگائے ہوں گے ، بہت اچھا بدلہ ہے اور بہت ہی اچھا ٹھکانہ۔
نیز اللہ تعالی اپنے بندوں کو بلاوجہ عذاب میں مبتلا نہیں کرتا،اسی لئے اس نے انبیاء کی بعثت،کتب کے نزول اور شرائع کے تقرر کا سلسلہ شروع کیا تاکہ بنی نوع انسان کو جہنم کے عذاب سے بچایا جاسکے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا مَا يَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء:145۔147)

منافقین آگ کے سب سے نچلےحصے میں ہوں گے،اور آپ انکا کوئی مددگار نہ پائیں گے،البتہ جو ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے،اور اللہ سے تعلق مضبوط کیا اور اپنی عبادت اللہ کے لئے خالص رکھی،تو یہ مومنوں کے ساتھ شامل ہوں گے،اور مومنو کو اللہ بہت جلد اجر عظیم سے نوازے گا،اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر کرتے رہو اور ایمان رکھو؟،اللہ بڑا قدردان اور علم والا ہے۔
اس مضمون میں درج شدہ گذشتہ آیات میں انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر ہوا،مومن اور کافر،اس آیت میں ایک اور گروہ کا ذکر ہے یعنی منافقین کا،یہ گروہ اہل ایمان میں شامل ہوکردر پردہ اہل کفر کا ہمنوا ہوتا ہے،یعنی دل سے تو کفر پر قائم ہوتا ہے لیکن زبان سے خود کو مسلمان کہتا ہے،اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اہل ایمان میں شامل ہی نہیں کیا،بلکہ انہیں کفار سے بھی بدتر قرار دیا جیسا کہ اس آیت میں انکی بیان کردہ سزا سے عیاں ہے،البتہ انکے لئے توبہ کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے کیونکہ یہ اہل ایمان سے قریب ہوتے ہیں، انکے عقائد و اعمال و اخلاق کو پرکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے انکے تائب ہونے کے امکانات اصلی کفار کی نسبت زیادہ روشن ہوتے ہیں،جبکہ توبہ کا دروازہ سبھی کے لئے کھلا ہے ، خواہ وہ کفار ہوں یا منافقین یا فاسقین وغیرہ ،یہ اسکے فضل کی جانب اشارہ ہے،اورتوبہ کرکے اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہوجانے والوں کی جزاء اور ان پر اپنے خصوصی انعام کا ذکر بھی کیا ہے۔
ساتھ ہی اللہ تعالی نے بندوں پر اپنی شفقت کو بھی بیان کیا کہ وہ بلاوجہ کسی کو عذاب سے دوچار نہیں کرتا،یہ اسکے عدل کی جانب اشارہ ہے، بلکہ روز جزا وہ اپنے بندوں پر پہلے ہرطرح سے حجت قائم کرے گا ،انکے تمام اعذار ، حیلے بہانے ختم کرے گا،جب وہ پوری طرح لاجواب ہوجائیں گے اور انکے پاس سوائے اعتراف جرم کے اور کوئی راستہ نہیں بچے گا ،نیز انکے لئے معافی کی بھی گنجائش نہ ہوگی ،پھر اللہ تعالی انہیں سزا سے دوچار کرے گا،جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے ظاہر ہے،ارشاد فرمایا:

وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًااقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (الإسراء: 13۔15)

ہم نے ہر انسان کا اعمال نامہ اسکے گلے میں لٹکادیا ہے اور روز قیامت ہم انکے سامنے ایک کتاب لائیں گے جسے وہ کھلا ہو ا پائے گا،پڑھ لے اپنی کتاب آج تیرے حساب کے لئے یہی کافی ہے،جس نے ہدایت کا راستہ چنا اپنے لئے ہی چنا اور جو اس سے ہٹ گیا وہ اپنے نقصان میں ہٹا،اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،نہ ہی ہم کسی کو عذاب دیں گے جب تک ہم رسول نہ بھیج دیں۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے روز جزا میں قیام حجت کی ہلکی سی منظر کشی کی ہے،ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ دنیا میں انسان ہدایت و گمراہی اختیار کرنے کے سلسلے میں بااختیار تھا اس پر کسی قسم کا جبر نہیں تھا،اور اسی اختیار کی بنا پر جزا و سزا کا سلسلہ ہے،وگرنہ جبر و اکراہ کی صورت میں جزا و سزا کا کوئی جواز نہیں بنتا،نیز اللہ تعالی نے یہ بھی واضح کیا کہ ہدایت و گمراہی میں سے ہر ایک کی تفصیل اور انجام بیان کرنے کے لئے اس نے رسول بھی مبعوث کئے تاکہ انسان کے لئے دونوں راستے واضح ہوجائیں،اور وہ اپنی مرضی سے ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلے،نیز بعثت انبیاء و رسل کا سلسلہ کسی ایک یا چند اقوام تک محدود نہ رکھا بلکہ ہر قوم میں اپنے نمائندے بھیجے،جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 24)

ہم نے آپکو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بناکر بھیجا ہے،اور ہر امت میں ڈرانے والا ہوا ہے۔
اس آیت میں لفظ ”امت“پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی قوم کی ایک نسل میں تو نبی یا رسول کی بعثت ہوئی مگر آئندہ نسل میں نہ ہوئی تب بھی اس رسول کی تعلیمات اور ان تعلیمات کی جانب بلانے والے دعاۃ و مبشرین و منذرین کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوا تاآنکہ کوئی نیا نبی یا رسول آجائے،جیسا کہ ”سورۃ یس“میں بیان کردہ تین انبیاء کی یکے بعد دیگرے بعثت کے تذکرے سے معلوم ہوتا ہے،گویا وقفہ وحی کے زمانہ میں بھی ہدایت و رہنمائی کا سلسلہ کلیۃً موقوف نہیں ہوابلکہ جاری رہا،اس میں اللہ تعالی کے عدل اور بندوں کے ساتھ اسکی شفقت و رحمت کی جانب اشارہ ہے۔
نیز فرمایا:

فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ وَإِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُكَذِّبُونَ وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (الإنشقاق:20۔25)

انہیں کیا ہے ؟وہ ایمان نہیں لارہے،اورجب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے،وہ جھکتے نہیں،بلکہ بات یہ ہے کہ انکار کرنے والے جھٹلارہے ہیں،اور جو وہ دلوں میں چھپارہے ہیں اللہ خوب جانتا ہے،توآپ انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنائیں،سوائے ان کے جو ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے انکے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے تعجب کا اظہار کیا کہ اللہ تعالی کی آیات اور رسول ﷺ کی تعلیمات پر ایمان نہ لانے کی آخرکیا وجہ ہوسکتی ہے؟ ، جبکہ ہر طرح کے عقلی ، نقلی ،فطری،اعجازی،اخباری،تشریعی،کلامی وغیرھا دلائل کے ذریعے اتمام حجت کے تمام تقاضے پورے ہوچکے ہیں، اور انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ باقی نہ رہی،اسکے باوجود انکار پر اصرار اور تکذیب پر استمرار کا سوائےبغض و عناد ،ضد و ہٹ دھرمی کے اور کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
سو اسکی سزا بھی مستقل دردناک عذاب ہے،لیکن حق و ہدایت کی راہیں واضح ہوجانے کے بعد ان پر چل پڑنے والے اور اس سفر میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنے والےیقیناً انعام و اکرام کے مستحق ہیں،چنانچہ اللہ تعالی نے ان کے لئے مستقل اور غیر منقطع انعامات کا وعدہ کیا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ (التين : 4۔6)

ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھالا،پھر ہم نے اسے پستیوں میں لاپھینکا،سوائےان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے،ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ فطری اور تخلیقی طور پراس نےا نسان کوبلند مرتبےپر فائز کیا،لیکن وہ اپنے اس اعزاز کو برقرار نہ رکھ سکا،اورشیطان کے خوبصورت شکنجے میں پھنس کر شرک و بدعت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا، جب خالق و مالک کے نمائندوں نے انہیں اس دلدل سے نکالنا چاہا تو اس نعمت غیر مترقبہ کے میسر ہونے کے باوجود صرف حسد،بغض،عناد ،اندھی تقلیداور عصبیت ،مادی مفادات کی بنیاد پر اس سہارے کو تھامنے سے انکار کردیا اور پستیوں میں گرنا گوارا کیا،جبکہ جن لوگوں نے ان منفی جذبات اور سوچوں کا گلا گھونٹا اور خود کو اس دلدل سے نکالنے والے مضبوط سہاروں ایمان و عمل صالح کو تھام لیا وہ اپنے فطری اعزاز کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہےاور جنت کے بالا خانوں کے حقدار بن گئے۔
اب تک بیان کردہ آیات و احادیث میں ،انسان کا مقصد حیات بھی بتایا گیا،اور ضمناً، خالق و مالک،انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ والسلام ، دعاۃ و ناصحین ، آغاز و انجام، ایمان و کفر، عبادت و بغاوت،نیکی و بدی،جزا و سزا، راحت و عذاب، جنت و جہنم،کا مختصر تعارف بھی کروایا گیا تاکہ مقصد کی معرفت کے ساتھ مقصد کی تکمیل کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے،اور ان دونوں کا مبنی بر حق ہونا بھی ثابت ہو جائے، تاکہ اس راہ پر چلنے والا دل و جان سے اس پر گامزن رہے،اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کرے، نہ ہی اسکے قدم لغزش کھائیں،نہ ہی وہ تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا شکار ہو،بلکہ اسکی بصیرت اسے ہر لمحہ بیدار وتازہ دم رکھے،جنت کا حصول اور جنت میں دیدار الہی کا شوق اسے منزل پالینے تک بے چین و مضطرب رکھے، اور جنت کے مراتب عالیہ کا حصول اسکی سبک رفتار کو برق رفتار میں بدل دے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ جب تک زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھے اور جب موت دے تو ایمان پر موت دے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

حیاء حصول علم میں رکاوٹ نہیں

سیدہ ام المؤمنین ام عبد اللہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’انصار عورتیں اچھی عورتیں ہیں کہ شرم انہیں دین میں سمجھ پیدا کرنے سے نہیں روکتی۔‘‘
علم سیکھنے کے معاملے میں سستی اور حیاء سے کام لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ علم سیکھنا دنیا کا عظیم کا م ہے، آج کل کی عورتیں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے تو گھروں سے نکل سکتی ہیں اور اس میں کوئی حیاء محسوس نہیں کرتیں لیکن جہاں دین کی راہ میں نکلنے کی بات ہو یا دینی تعلیم حاصل کرنا ہوتو وہاں شرم وحیاء کو عار بنالیتی ہیں اگر کوئی ذاتی اور حساس نوعیت کا مسئلہ درپیش ہو تو وہاں کسی معتبر ومتقی عالم دین سے رجوع نہیں کرتیں صرف اور صرف حیاء کی وجہ سے لیکن صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایسا رویہ علم سیکھنے یا جاننے کے معاملے میں قطعاً شرعی نہیں ہے۔

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحِي مِنَ الحَقِّ، هَلْ عَلَى المَرْأَةِ غُسْلٌ إِذَا احْتَلَمَتْ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِذَا رَأَتِ المَاءَ فَضَحِكَتْ أُمُّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: أَتَحْتَلِمُ المَرْأَةُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَبِمَ شَبَهُ الوَلَدِ (رواه البخاري كتاب الأدب، باب التبسم والضحك رقم الحديث:6091)

’’سیدہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا(اس لیے پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جی ہاں جب عورت پانی دیکھ لے تو (یہ سن کر) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا (شرم کی وجہ سے ) اپنا چہرہ چھپا لیا اور کہا’’ یا رسول اللہﷺ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتاہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہاں‘‘، تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کی مشابہ ہوتاہے(یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اچھے کام کے لیے یا علم کے حصول میں شرم وحیاء کا دخل ہرگز نہیں ہونا چاہیے اگر ام سلیم حیاء کو درمیان رکھتے ہوئے آپ ﷺ سے ایسا سوال نہ کرتیں تو امت کو اس معاملے میں راہنمائی کیونکر ممکن ہو سکتی تھی۔ انصار کی عورتیں ان مخصوص مسائل کے دریافت کرنے میں کسی قسم کی شرم سے کام نہ لیتی تھیں ، جن کا تعلق صرف عورتوں سے ہے ، ام سلیم کے اس طرح کے سوال سے علم کی منتقلی ممکن ہوئی ہے اور آج کل کی عورتوں کے لیے آسانی پیدا ہوئی ہے۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اس مذکورہ حدیث میںسب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفت خاص بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے ۔ ’’فاستحیا‘‘(شرمانا)اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے یہ صفات مماثلہ ہیں کہ بندہ جیسا عمل کرتاہے اللہ ویسی ہی جزا دیتا ہے یعنی اللہ ایسے بندے کو عذاب دینے سے شرماتا ہے جو اللہ سے دینی شرم محسوس کرے کہ بندہ اللہ کی شرم دل میں قائم کرے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جو اللہ کے حکم کے خلاف ہو اس خاص صفت کے اظہار کے بعد ام سلیم نے اپنا مسئلہ آپ ﷺ کے سامنے رکھا۔
اس مذکورہ حدیث سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ اس قسم کے حساس اور شرم وحیاء سے تعلق رکھنے والے معاملات کے متعلق سوالات کے لیے عورت خاص پردہ کا اہتمام کرکے از خود یا بالواسطہ اپنا مسئلہ کسی عالم
دین سے دریافت کر سکتی ہے اور عالم دین بھی ایسے
معاملات میں کسی شرم وعار سے کام نہ لیں بلکہ لوگوں کے سامنے ایسے معاملات کو واضح کریں اور درست سمت میں قرآن وسنت کے مطابق راہنمائی فرمائیں تاکہ لوگ صرف حیاء کو رکاوٹ بناتے ہوئے خود کو جاہل نہ رکھیں بلکہ علم سے مستفید ہوں۔
دین کے معاملے میں عار دلانا یا مذاق اڑانا جائز نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی وجہ سے انصار عورتوں کی تعریف فرمائی کہ وہ علم سیکھنے میں حیاء نہیں کرتی تھیں ایسے معاملات میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے تاکہ وہ قرآن وسنت کے مطابق صحیح راہنمائی حاصل کر سکیں۔ دین اسلام حق بیان کرنے میں کوئی شرم نہیں کرتا۔ آپ ﷺ کے پاس عورتیں مسائل لے کر آتیں اور سوال کرتیں تھیں تو آپ ﷺ ان کے سوالات کے جواب دیتے تھے۔ پوری امت پر رسول اللہ ﷺ کا احسان ہے کہ آپ ﷺ نے ذاتی زندگی سے متعلق وہ باتیں بھی کھول کھول کر بیان فرمائیں جنہیں عام طور پر لوگ شرم وحیاء کے سہارے بیان نہیں کرتے اور دوسری طرف صحابیات نے آپ ﷺ سے ہر اس معاملے میں راہنمائی طلب کی جن معاملات کا علم ہونا ہر عورت کی ضرورت ہے۔ ان ہی احادیث مبارکہ سے ہم آج مستفید ہورہے ہیں اگر یہ عورتیں حیاء کو رکاوٹ بناتیں اور آپ ﷺ سے سوال کرنے سے کتراتیں تو آج ہمیں ان تمام معاملات میں جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں راہنمائی نہ مل پاتی۔

شروم حیاء کے متعلق صحیح بخاری کی ایک اور حدیث ہے :

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ يَسْقُطُ وَرَقُهَا، وَهِيَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ البَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ (صحیح بخاری کتاب العلم باب الحیاء فی العلم الحدیث:131)

|’’سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے، مجھے بتلاؤ وہ کیا درخت ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑگئے اور میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور ہے ، عبد اللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آگئی(اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہی اس کے بارے میں بتلائیے آپ ﷺ نے فرمایا ’’وہ کھجور ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت ان کو حاصل ہوجاتی ، ایسے موقع پر کہ جب آپ کو جواب معلوم ہو شرم سے کام لینا نہیں چاہیے۔ علم کے حصول میں یا علم کو دوسروں تک منتقل کرنے میں حیاء کو رکاوٹ بنانا کیسے صحیح ہوسکتاہے جبکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حیاء معاملات کو نکھارتی ہے اور اس میں سراسر خیر ہی خیر ہے علم حاصل کرنے سے انسان میں نکھار پیدا ہوتاہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حیاء کو رکاوٹ بنالیں اور علم سے دور ہوجائیں البتہ بعض لوگ اپنی سستی اور غلط منطق کی بنا پر اسے نقصان دہ بنا لیتے ہیں ۔
حیاء ایک ایسی خصلت ہے کہ جو انسان کو بُرے کاموں کے چھوڑنے اور حقداروں کو ان کا حق ادا کرنے پر اُکساتی ہے یہ ضروری ہے کہ حیاء سے مراد وہ بے جا شرم نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کی جرأت عمل ہی مفقود ہوجائے اور وہ اپنے ضروری فرائض کی ادائیگی میں بھی شرم وحیاء کا بہانہ تلاش کرنے لگے یا اس کے پردے کے پیچھے چھپ کر خود کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم محسوس نہ کرتے تو ان کے علم سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے تھے کیونکہ اس سوال کا فہم اللہ نے آپ کو دے دیا تھا۔
امام مجاہد کہتے ہیں کہ ’’ متکبر اور شرمانے والا آدمی علم حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘
متکبر اپنے تکبر کی حماقت میں مبتلا ہے جو کسی سے علم حاصل کرنے کو اپنی شان میں کمی محسوس کرتاہے اور شرم کرنے والا اپنی کم عقلی سے ایسی جگہ حیادار بنتا ہے جہاں شرم وحیاء کا کوئی جواز نہیں۔
ہم اگر آج کل کی عورتوں پر تبصرہ کریں تو عورتیں دین کا علم تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن پھر حق کی دعوت دینے میں حیاء کرنے لگتی ہیں جبکہ حق کو دوسروں تک پہنچانے میں کیسی حیا ؟
لہٰذا حق کی دعوت دینا جیسے فریضے کو ترک کرنا صرف اور صرف حیاء کو آڑ بنا کر کسی طور پر صحیح نہیں ہے کسی کے سامنے نیکی کرنے سے شرمانا یا نیکی کی ترغیب دینے میں لوگوں کی وجہ سے حیاء کرنا اور دین کو پھیلانے کے اہم کام سے رک جانا، یہ سب فاسد اُمور ہیں اور ایسے معاملات میں حیاء کرنے سے بچنا چاہیے۔
دینی تعلیم حاصل کرنے والی عورتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حق کو بیان کرنے میں کوئی عا ریا شرم وحیاء محسوس نہ کریں بلکہ حق کو کھل کر اور بلا جھجھک دوسروں تک پہنچائیں لیکن حکمت کے دامن کو نہ چھوڑتے ہوئے ۔
عورتوں کے خاص مسائل سے متعلق سوال نہ کرنے سے نہ صرف دنیا میں نقصان ہے بلکہ آخرت میں بھی خرابی ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ہمارا عمل ان معاملات میں قرآن وسنت کے مطابق نہ ہوگا تو اس کی قبولیت کیسے ممکن ہوگی؟ چاہے معاملہ علم حاصل کرنے کا ہو یا اسے دوسروں تک پہنچانے کا اس میں بے جا شرم وحیاء کی رکاوٹ کو دور کرنا ہی عقلمندی کا ثبوت ہے۔
۔۔۔۔۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں قربانی کا مفہوم ،فضیلت ،احکام ومسائل

اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اوروہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ نارِ جہنم کا ایندھن بنے، اِسی لئے اس نے اپنے انبیائے کرام کے ذریعے اپنے بندوں کے لئے جنت کے راستے ہموار کئے اور ایسے ایسے عظیم اور آسان طریقے اور ذرائع مقرر کئے کہ جنہیں اپناکر انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوجاتاہے اور جنت الفردوس اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اُن طریقہ جات اور ذرائع میں سے قربانی کرنا بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔

لفظ ’’قربانی\’’ کامعنی و مفہوم

لفظ قُرْبَانِيّ قَرَبَ یَقْرُبُ سے مصدر بر وزن فُعْلان ہے جبکہ بعض اقوال کے مطابق یہ لفظ صیغہ اسم فاعل بروزن ضُربان ہے اور بعد میں اس کے آخر میں یاے نسبتی لگا دینے سے لفظ قُربانی بن گیا۔
اب یہ لفظ اُن جانوروں کے لئے عَلم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جو عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے قُربانی کا معنی یہ ہوا کہ قریب کردینے والی کیونکہ یہ عمل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتا ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں ۔

قربانی کی ابتداء

قرآنِ حکیم کی اس آیت ِمبارکہ

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکًا لِّيَذْکُرُ‌واٱسْمَ ٱللہِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَہُم مِّنۢ بَہِيمَۃِ ٱلْأَنْعَـٰمِ (سورۃ الحج 34)

’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انھیں دے رکھے ہیں ۔‘‘
سے معلوم ہواکہ قربانی شروع ہی سے ہر اُمت یعنی ہر قوم پر مقرر کی گئی تھی جبکہ قربانی دینے کے طریقے مختلف تھے۔ قرآنِ مجید میں یہ مذکور ہے کہ سب سے پہلے ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ دوسرے کی ردّ کردی گئی۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے لخت ِ جگر سیدنااسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے ان کے بیٹے کی جگہ جنت سے بھیجے گئے دُنبے کو ذبح کروا دیا۔
قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب محمد ﷺکو بھی بذریعہ وحی قربانی دینے کا حکم فرمایا:

إِنَّآ أَعْطَيْنَـٰکَ ٱلْکَوْثَرَ‌ فَصَلِّ لِرَ‌بِّکَ وَٱنْحَرْ‌ (سورۃ الکوثر)

اے محمدﷺ ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی، لہٰذا آپ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی بھی دیں ۔
قربانی کی فضیلت:
قربانی خلیل الرحمن ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، ہمارے نبی مکرمﷺ بھی اس سنت کا بہت اہتمام فرماتے اور امت کو بھی اس کا اہتمام کرنے کی تاکید فرماتے تھے ۔ذیل میں مذکور احادیث قربانی کی فضیلت پر دلالت کناں ہیںجیسا کہ اس عمل کی محبوبیت اور فضیلت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :

مَا عَمِلَ اٰدَمِيٌّ مِّنْ عَمَلِ يَوْمِ النَّحْرِ أَحَبُّ إِلَي اللہِ مِنْ إِھْرَاقِ الدَّمِ (ترمذي : 1493)

’’قربانی کے دن کوئی عمل، اللہ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں۔‘‘
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

مَنْ کَانَ لہ سعۃ فلم یضح ، فلا یقربن مصلانا (رواہ ابن ماجۃ ، رقم الحدیث :۳۱۲۳، حسن)

’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘
ایک اور حدیث نبی مکر م ﷺنے یوںفرمایا:

يَأَ يُّہَا النَّاسُ ، إِنَّ عَلٰى کُلِّ أَہْلِ بَيْتٍ فِي کُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّۃً (مسند احمد 215/4 وابوداؤد:2785)

’’اے لوگوں ہر گھر والوں پر ہر سال ایک قربانی کرنا لازم ہے ۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ ۲/۲۰۰)

فلسفہ قربانی:

/اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اجتماعی طور پرمنظر پیدا ہوجاتاہے۔
/مسلمانوں کی اجتماعی قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے۔
/جن لوگوں کو سال بھر گوشت دیکھنا نصیب نہیں ہوتا، انہیں بھی قربانی کے روز وافر مقدار میں گوشت مل جاتاہے۔
/قربانی کی کھالوں سے غرباء، فقرا اور مساکین وغیرہ کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔
/مختلف مصنوعات جو کہ چمڑے اور ہڈیوں سے بنائی جاتی ہیں، ان کے لئے وافر مقدار میں میٹریل مہیا ہوجاتاہے۔
قربانی سے اللہ تعالیٰ کو کیامطلوب ہے؟
اگر دیکھا جائے تو قربانی کے جانور کا گوشت پوست ہمارے کام آتا ہے بلکہ اس کے کھالوں اور بالوں وغیرہ سے ہم ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کو قربانی سے کیامطلوب ہے؟ وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟تو جواب میں یہ آیت ِمبارکہ سامنے آجاتی ہے کہ

لَن يَنَالَ ٱللہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلَـٰکِن يَنَالُہُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنکُمْ (سورۃ الحج37)

’’ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کو تو صرف اور صرف اخلاص و تقویٰ مطلوب ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ قربانی جیسے عظیم عمل میں ہر قسم کے دکھاوے سے بچنا چاہئے اور صرف رضائے الٰہی کے لئے قربانی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تو سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے۔

بہترین قربانی:

اس میں شک نہیں کہ موٹی اور عمدہ قربانی کو آپ ﷺ پسند کرتے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے:

أَحَبُّ الضَّحَايَا إِلَى اللہِ أَعْلَاھَا وَأَسْمَنُھَا

’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب قربانی موٹی تازہ اور بلند قامت یا عمدہ قسم کی ہے۔‘‘
اور بعض علماء نے تو آیت وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’قربانی موٹی اور عمدہ ہو‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’البدن‘‘ کی تفسیر میں ایسا ہی ایک قولِ مجاہد رحمہ اللہ سےنقل کیا ہے۔ اور سنن ترمذی اورابو داود میں بھی حدیث ہے کہ:

خَيْرُ الْأضْحِيَّۃِ الْکَبْشُ

بہترین قربانی دنبہ ہے۔
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن آپﷺ کا عمل یہی رہا جیسا کہ اکثر سنن نےسیدنا انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:

ضَحّٰى رَسُوْلُ اللہِ ﷺ بِکَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ ذَبَحَھُمَا بِيَدِہ وَسَمّٰي وَکَبَّرَ

آپ ﷺ نے دو دنبوں کی قربانی کی جو دو سینگ والے او چتکبرے تھے۔ دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا)
بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قربانی کرنے کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

کُنَّا نُسمِّن الأضحیۃ بالمدینۃ وکان المسلمون یسمِّنون۔ (رواہ البخاری :۵۵۵۳)

’’ہم مدینہ طیبہ میں اپنی قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال پوس کر موٹا کرتے تھے۔‘‘
امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی شخص کو قربانی کیلئے قرض بھی لینا پڑے تو لے لےبشرطیکہ وہ اسکی ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو۔ واللہ أعلم
اور سيدنا علی رضی اللہ عنہ سے ترمذی میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ ہمیشہ دو دنبوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک اپنے لئے۔ کسی کے سوال کے جواب میں آپ نے کہا مجھ کو نبی کریمﷺ نے یہ حکم دیا ہے، میں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ سيدنا ابراہیم علیہ السلام نے جس جانور کی قربانی دی تھی وہ دنبہ ہی تھا۔ اس لئے اکثر علماء نے کہا ہے کہ بہترین قربانی دنبہ ہے۔

قربانی کے جانور:

رسول اللہ ﷺ نے قربانی، عقیقہ ہمیشہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں میں سے کیا جن کی تفصیل سورۂ انعام میں موجود ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ استنباط پیش کیا ہے جو انہوں نے مندرجہ ذیل آیات سے کیا ہے۔ سورۂ حج میں ایک جگہ فرمایا ہے:

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلنا مَنسَکًا لِيَذکُرُ‌وا اسمَ اللہِ عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ (سورۃ الحج34)

کہ امت کے لئے ہم نے قربانی قرار دی ہے تاکہ اللہ نے جو ان کو مویشی (چار پائے) دے رکھے ہیں، قربانی کرتے وقت ان پر اللہ کا نام لیں۔
اس آیت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کے لئے’’بھیمۃ الانعام‘‘ بولا گیا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے سورۂ حج میںبھی فرمایا:

عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ ۖ فَکُلوا مِنہا وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ‌ (سورۃ الحج 34)

کہ اللہ کا نام لیں ان چار پاؤں مویشیوں پر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھے ہیں۔ لوگو! قربانی کے گوشت سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔
اس آیت سے بکمال وضوح یہ ثابت ہوا کہ قربانی کے جانور وہی ہیں جن کے لئے قرآن میں ’’بَھِیْمَۃُ الانعام‘‘ لفظ بولا جاتا ہے۔
اب قرآن مجید ہی سے اس لفظ کی تشریح تلاش کرتے ہیں تو سورۂ انعام سے اس کی تشریح یہ معلوم ہوتی ہے۔

وَمِنَ الأَنعـٰمِ حَمولَۃً وَفَر‌شًا ۚ کُلوا مِمّا رَ‌زَقَکُمُ اللَّہُ وقال: ثَمـٰنِيَۃَ أَزو‌ٰجٍ مِنَ الضَّأنِ اثنَينِ وَمِنَ المَعزِ اثنَينِ وقال : وَمِنَ الإِبِلِ اثنَينِ وَمِنَ البَقَرِ‌ اثنَينِ (سورۃ الانعام142۔143)

اللہ نے یہ چار پائے نرو مادہ آٹھ قسم کے پیدا کیے ہیں۔ (بعض اونٹ کی طرح) بوجھ اُٹھانے والے اور (بھیڑ بکری کی طرح) زمین سے لگے ہوئے۔ لوگو! اللہ نے تمہیں جو روزی دی ہے اس میں سے بے تامل کھاؤ۔مزید فرمایا:یہ چار پائے آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں اور بھیڑوں میں سے نر اور مادہ دوبکریوں میں سے نر اور مادہ، پھر فرمایا دو اونٹوں میں سے نر اور مادہ۔ دو گائے کی قسم میں سے نراور مادہ۔
لفظ’’بھیمۃ الأنعام‘‘ کی اس قرآنی تشریح کے بعد یہ مسئلہ واضح ہو گیا کہ قربانی انہی آٹھ قسم کے جانوروں سے دینی چاہئے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے اس استنباط اور اسی تفسیر کی بنا پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (زاد المعاد) اور دوسرے محدثین نے یہ لکھا ہے کہ:

وھي مختصۃ بالأزواج الثمانيۃ المذکورۃ في الأنعام

کہ قربانی وغیرہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں کے ساتھ مخصوص ہے۔
اور رسول اللہ ﷺ سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ، گائے، بکری، دنبہ کی قربانی دی ہے۔ گائے کی قربانی اپنی ازواجِ مطہرات کی طرف سے دی تھی اور اونٹ بکری اور دنبہ کی قربانی آپ نے اپنی طرف سے مختلف اوقات میں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی انہی جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔
ذیل میں قربانی سے متعلق احکام ومسائل پر مختصر اور مدلل بحث کریں گے۔ ان شاء اللہ
قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو قربانی کرنے تک نہ چھیڑے:
جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں کو کاـٹنے سے رُكا رہے۔ کیونکہ نبی اکرمﷺکاارشاد گرامی ہے :

اذا رأیتم ہلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحِّی فلیمسک عن شعر ہ وأظفارہ۔

’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کو کاٹنے اور تراشنے) سے بچو۔‘‘( مسلم :۴۱)
اور ایک روایت میں ہے کہ :

فَلاَ یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ وَلاَ مِنْ أَظْفَارِہِ شَیْئاً حَتَّی یُضَحِّیْ۔(ابوداود)

’’ اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی ذبح نہ کرلے ۔ ‘‘
پہلی وضاحت:
ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑے اور بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے کہ وہ بال مونڈھے ، نہ ہلکے کرے ، اور نہ ہی نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے اور وہ بال کے کسی بھی حصے ،سر مونچھوں،بغلوں ، زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوانہیں چھیڑنا نہیں چاہیے۔ (دیکھئے شرح صحیح مسلم [۱۳/ص:۱۳۸)

دوسری وضاحت :

ناخنوں اور بالوں سے قربانی کرنے تک بچنا ہے اسی طرح صحابہ کرام کاعمل تھا ، جیساکہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المحلی میں ذکر کیا ہے ۔ (رقم المسالۃ :۹۸۶)

تیسری وضاحت:

اگر قربانی کرنے والا شخص ان دس دنوں میں اپنے بالوں یا ناخنوں کو کاٹ لے تو اس پر فدیہ یاکفارہ نہیں ہے۔ ہاںاگر یہ عمل عمداً سرزد ہوا ہے تو اس نے نبی معظم صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرکے گناہ کاارتکاب کیاہے۔ تو اسے چاہیے کہ وہ استغفار اور توبہ کرے۔(دیکھئے : المغنی لابن قدامۃ)

چوتھی وضاحت:

بال اور ناخنوں کو کاٹنے کا حکم صرف قربانی کرنے والے کیلئے ہے نہ کہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یعنی گھر والے اس حکم میں داخل نہیں ہیں جیسا کہ حدیث کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں ۔(دیکھئے : شرح الممتع لشیخ صالح العثیمین)

 سنت مطہرہ سے حج کرنے والے اور مسافر کا قربانی کرنا ثابت ہے:

سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا :

ذبح رسول اللہ ﷺ أضحیَّتہ ثم قال : یا ثوبان اصلح لحم ہذہ فلم أزل أطعمہ منہا حتی قدم المدینۃ

’’رسول اللہe نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا ،پھر فرمایا: اے ثوبان ! اس کاگوشت بنادو۔ میںآپ کے مدینہ تشریف لانے تک اس (گوشت) سے آپ کو کھلاتا رہا۔‘‘(رواہ مسلم ،رقم الحدیث :۱۹۷۵)
اور دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :

کنّا مع رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی سفرٍ فحضر الأضحی ، فاشرکنا فی البقر سبعۃ وفی البعیرِ عشرۃ (ترمذی، رقم الحدیث : ۱۵۳۷، صحیح)

’’ہم رسول اللہ  کے ساتھ سفر میںتھے تو عید الأضحی آگئی ، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میںاس طرح باب قائم کرتے ہیں:
[باب الأضحیۃ للمسافر والنساء]
’’مسافر اور عورت کیلئے قربانی کے متعلق باب ‘‘
پھر اس باب کے تحت سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث لے کر آتے ہیں کہ جس میںنبی رحمت  سے اپنی بیویوں کی طرف سے منی میں قربانی کرنے کا ثبوت ملتاہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ رسول اللہe کا گائے کو ذبح کرنا عید الاضحی کی قربانی کیلئے تھا۔ (دیکھئے : فتح الباری ، ۱۰/۵)
قربانی کے جانور کی عمر:
مستحب یہ ہے کہ جانو ردو دانت کا ہونا چاہیے لیکن اگر بھیڑ ،دونبہ مینڈھا کھیرا ہو اور اس کی عمر کم از کم ایک سال کی ہوتوبھی جائز ہے۔ نبی مکرمe نے فرمایا:’’صرف دودانت جانور کی ہی قربانی دو ۔ہاں ! اگر دشواری پیش آجائے تودودانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔‘‘(رواہ مسلم ، رقم الحدیث :۱۹۶۳)
کھیرا دنبہ بھیڑ یا مینڈھا کی قربانی عام حالات میں بھی جائز ہے یعنی اگرچہ دشواری نہ بھی ہو تب بھی کھیرا دنبہ کی قربانی جائز ہے۔ ام بلال رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا : بھیڑ کے دودانت سے کم عمر بچے کی قربانی کرو کیونکہ وہ (یعنی اس کی قربانی) جائز ہے۔ (رواہ الامام أحمد [۶/۳۶۸] ، رقم الحدیث : ۲۷۰۷۲)
امام ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔( دیکھئے : مجمع الزوائد19/4)
اورامام مناوی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر کی شرح میں اس حدیث کی سندکو صحیح قرار دیاہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرمe نے فرمایا: ’’جہاں دودانت والا جانور کافی ہے وہاں دودانت سے کم عمر والا بھیڑ کا بچہ بھی کافی ہے۔‘‘ (رواہ ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۷۹۶ ، صحیح)
وضاحت:
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ (یہ معاملہ تو دنبے اور چھترے کا ہے ورنہ) اس بات پر تو پوری امت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ بکری کا کھیرابچہ قربانی کرنا جائز نہیں بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ دو دانت ہو۔ (دیکھئے سوئے حرم محمد منیر قمر ص/۴۲۱)
سب اہل خانہ کی طرف سے ایک بکری کاکافی ہونا اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو:
جلیل القدر عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے میزبان رسول اللہe ابوایوبtسے پوچھا نبی کریم e کے عہد مسعود میں تم قربانیاں کیسے کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ نبی مکرم  کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کیا کرتاتھا۔ ‘‘
(رواہ الترمذی، رقم الحدیث: ۱۵۰۵، صحیح)
ایک دوسری حدیث میں آتاہے :
علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ
’’ہر گھر والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی ہے۔‘‘
(ابوداؤد رقم الحدیث :۲۷۸۸، ترمذی :۱۵۱۸، حسن)
وضاحت :
یہ اس صورت میں ہوگا کہ سب گھر والے ایک ہی گھر میں رہتے ہو ںاگر چہ وہ شادی شدہ کیوں نہ ہوں اور خرچ بھی ایک ساتھ ہی ہوتاہو۔ اگرچہ زیادہ قربانیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔(دیکھئے: فتاویٰ اللجنہ الدائمہ (۱۱/۴۰۸)
اگر شادی شدہ بیٹا علیحدہ گھر میں رہتا ہو تو وہ اپنی قربانی علیحدہ کرے گا۔ والد کی قربانی اسے کفایت نہیں کرے گی اور نہ بیٹے کی قربانی والد کو کفایت کرے گی ۔
(علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا یہی فتویٰ ہے)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سنت نبوی نے فیصلہ کردیا ہے کہ ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرجاتی ہے چاہے گھر والوں کی تعداد ایک سو یا اس سے بھی زیادہ ہو۔(دیکھئے : نیل الاوطار)
وضاحت :
یہ معاملہ گھر کے ان افراد سے متعلق ہےجو والد کی زیر کفالت ہوں یعنی والد ہی ان پر خرچہ کرتاہو اگرچہ وہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں۔
دودھ والا جانور ذبح کرنا جائز ہے :
چونکہ جو حدیث اس بارے میں وارد ہوئی ہے وہ ضیعف ہے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

نَہٰى رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللہ عَليْہِ وسَلَّمَ عَنِ السَّوْمِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ، وَعَنْ ذَبْحِ ذَوَاتِ الدَّرِّ
(رواہ ابن ماجہ :2206وابو یعلی الموصلی :541والحاکم فی المستدرک 234/4وایضاً فی الاحادیث المختارۃ :758 واسنادہ ضعیف کلھم من طریق عبید اللہ بن موسی )

’رسول مکرم ﷺ طلوع فجر سے پہلے جانور کو ذبح کرنے سے روکا ہے اور دودھ والے‘‘
Fکن جانوروں کی قربانی جائز ہے ؟
قرآن اور حدیث کی روشنی میں صرف بـھیمۃ الانعام کی قربانی جائز ہے اور بـھیمۃ الانعام کا اطلاق اونٹ ، گائے ، بکرا بھیڑ، دنبہ اور مینڈھا پر ہوتاہے۔
جیساکہ گذشتہ سطور میں یہ مسئلہ گزر چکا ہے۔
مفسر قرآن امام مجاہد بن جبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں انعام سے مراد اونٹ ،گائے اور بکرا (بھیڑ، دنبہ، مینڈھا)ہے ۔ (دیکھئے : تفسیر قرطبی سورۃ الحج آیت نمبر :34)
بلکہ بعض علماء نے تو اس بات پر اجماع ذکرکیاہے ۔
(دیکھئے: المجموع للنووی 394/8وبدایۃ المجتھد 417/1)
فائدہ:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بکرا اور ہرن کے ملاپ سے جو جانور پیدا ہوتاہے وہ جائز نہیں ہے یہ حکم تو حلال جانور کے ملاپ کا ہے اور اگر حرام جانور سے ملاپ ہوکر جو جانور پیدا ہوا ہو وہ تو بالاولی جائز نہ ہوگا۔
گائے اور اونٹ میں شراکت داری :
مسألۃ: گائے یا اونٹ میں دو ، تین، چار، پانچ، چھ اور سات تک بھی شراکت کرسکتے ہیں۔(دیکھئے: فتاوی الدین الخالص جلد6 صفحہ :398)چاہے ایک گھر کے افراد ہوں یا مختلف گھروں کے۔
اگر کسی میں قربانی کیلئے مستقل ایک جانور خریدنے کی طاقت نہ ہو توایک گائے کو سات آدمی مل کر خرید لیں ، وہ ان سات آدمیوں اور ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے بھی کفایت کرجائے گی۔ ہاں اونٹ کی قربانی میں دس آدمی بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ جس کی دلیل سنن الترمذی، رقم الحدیث:۹۰۵، ابن ماجۃ ، رقم الحدیث: ۳۱۳۱، ابن خزیمۃ :۲۹۰۸ میںسیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہe کے ساتھ سفر میںتھے تو عید الاضحی آگئی، تو ہم سات آدمی گائے کی قربانی میں اور دس آدمی اونٹ کی قربانی میں شریک ہوئے۔‘‘(حدیث صحیح ہے۔ البانی)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اونٹ کے متعلق دونوں حدیثیں ذکر کی ہیں۔ لیکن سات والی کو ترجیح دی ہے۔ ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے جوگذشتہ سطور میں گزر چکی ہے۔ دوسری حدیث جابر رضی اللہ عنہ کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ اور گائے کی سات آدمیوں کی طرف سے قربانی دی۔ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن اور صحیح کہا یعنی اعلیٰ پائے کی حدیث ہے اس حدیث کی تائید اور بھی بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ مثلاً مسلم میں ہے:

اِشْتَرَکْنَا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِيْ الْحَجِّ وَالعمْرَۃِ کُلُّ سَبْعَۃٍ مِّنَّا فِيْ بَدَنَۃٍ فَقَالَ رَجُلٌ لِّجَابِرٍ أيُشْتَرَکُ فِي الْبَقَرِ مَا يُشْتَرَکُ فِي الْجَزُوْرِ فَقَالَ مَا ھِيَ إِلَّا مِنَ الْبُدْنِ

کہ حج کے موقع پر ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ تھے اور ہم فی اونٹ سات آدمی شامل ہوئے ایک شخص نے جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیا گائے میں بھی سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں؟ تو جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گائے بھی اسی کے حکم میں ہے۔
تو صحیح یہی ہے کہ گائے اور اونٹ میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور یہی مسلک جمہور محدثین کا ہے امام ترمذی نے بھی یہی لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا بالعموم اور ائمہ دین مثلاً سفیان الثوری، ابن المبارک ، احمداور اسحاق رحمہم اللہ کا اسی پر عمل رہا اور اسی کی تائید مسلم شریف کی روایات سے ہوتی ہے۔
بکری کی قربانی میں ایک سے زائد شریک ہو سکتے ہیں یا ایک سے زیادہ کی طرف سے بکری کی قربانی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں حنفیہ اور محدثین کا اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک بکری صرف ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے جس کے لئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بہترین دلیل ہو سکتی ہے۔
اور سنن ابوداؤد میں ہے کہ آپ نے ایک دنبہ ذبح کیا اور لٹاتے ہوئے یہ کہا:۔

اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُّحَمَّدٍ

یا اللہ تو اس کو محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی طرف سے قبول فرما اور حافظ ذیلعی نے نصب الرایہ میں مستدرک حاکم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ:

کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُضَحِّيْ بِالشَّاۃِ الْوَاحِدَۃِ عَنْ جَمِيْعِ أَھْلِہ

کہ نبی اکرم ﷺ ایک بکری کی تمام گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتے۔
اور دوسری روایت ابن ابی شیبہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دو دنبے ذبح کیے:

فَقَالَ عِنْدَ الْاَوَّلِ عَنْ مُّحَمَّدٍوَّاٰلِ مُّحَمَّدٍ وَّعِنْدَ الثَّانِيْ عَمَّنْ اٰمَنَ بِيْ فَصَدَّقَنِيْ عَنْ أُمَّتِيْ

پہلے پر آپ ﷺ نے کہا یہ محمد ﷺ اور آلِ محمد ﷺ کی طرف سے ہے دوسرے پر کہا کہ یہ ہر اس شخص کی طرف سے ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی میری امت سے۔
مسنداحمد میں ایک روایت ہے کہ ایک صحابی نے کہا کہ ہم سات آدمیوں کی ایک پارٹی تھی۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم سب ایک ایک درہم ملا کر ایک بکری خرید لیں۔ چنانچہ اس طرح ہم نے سات درہم جمع کر کے ایک بکری خرید لی۔ پھر آپ کے فرمانے کے مطابق ایک شخص نے ایک پاؤں اور دوسرے شخص نے دوسرا پاؤں، ایک نے ایک ہاتھ اور دوسرے نے دوسرا ہاتھ، ایک نے ایک سینگ دوسرے نے دوسرا سینگ بکری کا پکڑ لیا اور ساتویں نے ذبح کیا اور ہم سب نے تکبیر پڑھی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

اَبُو الْاَسَدِ الْاَسْلَمِيِّ عَنْ اَبِيْہِ عَنْ جَدِّہ قَالَ کُنْتُ سَابِعَ سَبْعَۃٍ مَّعَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ قَالَ فَأَمَرَنَا نَجْمَعُ لِکُلِّ رَجُلٍ مِّنَّا دِرْھَمًا فَاشْتَرَيْنَا أُضْخِيَّۃً بِسَبْعِ الدَّرَاھِم وَأَمَرَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِرَجُلٍ إِلٰي قَوْلِہ وَذَبَحَھَا السَّابِعُ وَکَبَّرْنَا عَلَيْھَا جَمِيْعًا )مجمع الزوائد جلد 4 ص21)

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اعلام الموقعین کے آخر میں اس حدیث کو ذکر فرمایا اور لکھا ہے:
\’\’نزل ھٰؤلاء النفر منزلۃ أھل البيت الواحد في أجزاء الشاۃ عنھم لأنھم کانوا رفقۃ واحدۃ\’\’
اس جماعت کو آپ نے ایک گھر والوں کی طرح سمجھ کر فتویٰ دیا کہ ایک بکری ان سب کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ سب رفیق اور ایک ساتھ رہنے والے ہیں۔
ایک اور حدیث سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی ہے کہ:

کَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّيْ بِالشَّاۃِ عَنْہُ وَعَنْ أَھْلِ بَيْتِہ

کہ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے بکری قربانی کرتا۔
ان روايات کے ذکر کرنےسے مطلب یہ ہے کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے معین مذہب کی حمایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’یہ نبی کریمﷺ کا خاصا تھا یا منسوخ ہو گیا ہے۔‘‘ کسی طرح بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ کے سوا اور صحابہ نے بھی ایسا کیا اور سیدنا ابو ایوب انصاری کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیر تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک قربانی کرتا حَتّٰي تَبَاھَي النَّاسُ پھر ایک یہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس میں فخر شروع کر دیا صحابہ سے ثابت ہے اور آپ کے بعد بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہے، پھر یہ کہنا کہ یہ خاصہ نبی کریم ﷺ کا ہے یا یہ منسوخ ہو چکا ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ۔بہرحال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کا یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں۔
قربانی کا وقت:
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ قربانی کا وقت نماز عید کے بعد شروع ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص نماز سے پہلے ذبح کر لے تو وہ قربانی شمار نہ ہو گی۔ سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَإِنَّمَا يَذْبَحُ لِنَفْسِہ وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہ وَأَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِيْنَ

کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا اس نے اپنے (کھانے پینے کے) لئے ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا۔ اس نے اپنی قربانی پورے طور پر ادا کی اور مسلمانوں کے طریقے کے مطابق عمل پیرا ہوا۔
لیکن قربانی کے آخری وقت کے متعلق بہت سا اختلاف ہے۔ جمہور کے نزدیک عید کا روز اور تین روز اس کے بعد یعنی چار دن۔ امام مالک اور امام ابو حنیفہ اور امام احمد کے ایک قول میں قربانی کے تین دن ہیں۔ بعض کے نزدیک صرف ایک دن اور بعض کے نزدیک عید کے دن سے آخر مہینہ ذوالحجہ تک۔ ان چاروں اقوال میں سے تیسرا قول تو صریح آیت

يَذکُرُ‌وا اسمَ اللہِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ عَلىٰ ما رَ‌زَقَہُم مِن بَہيمَۃِ الأَنعـٰمِ )سورۃ الحج)

کے خلاف ہے اور کوئی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ صرف عید کا دن قربانی کا دن ہے یا یہ کہ قربانی کا دن ایک ہی ہے چوتھا قول بھی صحیح ہے کیونکہ کوئی مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ہے۔ مراسیل ابی داؤد میں ایک مرسل روایت ہے لیکن مرسل روایت محدثین کے نزدیک حجت نہیں ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ مرفوع احادیث کے خلاف ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ابو امامہ کی روایت امام احمد کے واسطے سے ذِکر کرتے ہیں۔

کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ يَشْتَرِيْ أَحَدُھُمُ الْأُضْحِيَّۃَ فَيَسْمَنُھَا وَيَذْبَحَھُا فِيْ اٰخِرِ ذِيْ الْحَجَّۃِ قَالَ أَحْمَدُ ھٰذَا الْحَدِيْثُ عَجِيْبٌ

مسلمان قربانی کے جانور خرید لیتے اور اس کو خوب موٹا تازہ کرتے اور ذی الحجہ کے آخر میں اس کو ذبح کرتے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عجیب قسم کی ہے۔
بہرحال اس روایت سے بھی مرسل ابی داؤد کی تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو مرسل بھی نہیں ہے بلکہ یحییٰ بن سعید کا قول ہے۔
دوسرا قول صحیح حدیث کے مطابق ہے یعنی عید کے بعد تین دن قربانی کی جا سکتی ہے۔ یہی قول جمہور اہلِ علم کا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:

وَحُجَّۃُ الْجُمْھُوْرِ حَدِيْثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَّفَعَہ حَجَّاجٌ وَفِيْ کُلِّ أَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ أَخْرَجَہ أَحْمَدُ لٰکِنْ فِيْ سَنَدِہ انْقِطَاعٌ وَّ وَصَلَہ الدَّارَ قُطْنِيُّ وَرِجَالُہ ثِقَاتٌ)فتح الباری)

جمہور کی دلیل سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے کہ تمام ایام تشریق میں ذبح ہو سکا ہے۔ امام احمد نے اس کو روایت کیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔ دار قطنی نے اس کو متصل بیان کیا ہے اور اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔
ایام تشریق کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ عید کے دِن تین دن تک ہیں۔ یعنی ۱۳ ذوالحجہ تک دار قطنی نے اس کو دو طریقوں سے متصلاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے دار قطنی کے راویوں کو ثقہ کہا ہے۔ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں جبیر بن مطعم کی حدیث کے علاوہ جابر سے بھی یہی حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نقل کی ہے جو ثقہ اور قابلِ اعتماد راوی ہیں اور اس کے علاوہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایامِ تشریق کو ایام ’’اکل وشرب‘‘ یعنی کھانے پینے کے دن فرمایا ہے اور اسی لئے ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جب عید کے بعد تین دن ان سب احکام میں ایک حیثیت رکھتے ہیں، یعنی یہی تین دِن ایامِ منیٰ، ایامِ رمی اور ایامِ تشریق ہیں۔ ان میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ذبح قربانی کے لئے ایک دن (تیرہویں تاریخ) کو مستثنیٰ کر دیا جائے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اسی قول کو ترجیح دی ہے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے:

أَیَّامُ النَّحْرِ یَوْمُ الْأَضْحٰی وَثَلَاثَۃُ أَيَّامٍ بَعْدَہ

قربانی کے دن عید کے روز سے تین دن بعد تک ہیں۔
اس کے بعد فرماتے ہیں، یہی قول بصرہ کے امام حسن بصری رحمہ اللہ کا اور امامِ اہلِ مکہ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اور امام اہلِ شام اوزاعی رحمہ اللہ امام فقہاء اہلِ حدیث شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الاختیارات میں فرماتے ہیں:

وآخر وقت ذبح الأضحيۃ آخر أیام التشریق وھو مذھب شافعي وأحمد القولين في مذھب أحمد

قربانی کا آخری وقت ایام تشریق کا آخری دن ہے اور یہی مذہب امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار ص ۳۵۹ جلد ۴ میں اور حافظ ابن کثیر نے تفسیر کی دوسری جلد ص ۵۳ میں اسی مسلک کی تائید کی ہے اور اس کو تمام اقوال میں ارجح بتایا ہے۔ پہلا قول یعنی صرف تین دن قربانی جائز رکھنے والوں کی دلیل مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کی روایت عبد اللہ بن عمر سے ہے، فرماتے ہیں:
الأضحی یومان بعد یوم الأضحیٰ
کہ عید کے دن کے سوا دو دن اور قربانی کے ہیں۔
چونکہ یہ مرفوع حدیث نہیں۔ اس لئے پہلی مرفوع اور صحیح حدیثوں کے مقابلے میں اس کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
رات کے وقت ذبح کرنا:
بعض اہل علم نے قرآن کے لفظ ’’في أیام معلومات‘‘ (معلوم و معین دنوں میں) سے یہ استدلال کیا ہے کہ رات کے وقت قربانی کرنا جائز نہیں لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآنِ حکیم نے ’’ایام‘‘کا لفظ دن اور رات دونوں کے لئے آیا ہے جیسا کہ فرمایا

فَتَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِکُمْ ثَلٰثَۃَ أَيَّامٍ

اس لئے سوائے امام مالک رحمہ اللہ کے اور اکثر ائمہ دین کے نزدیک رات کے وقت قربانی کرنا جائز ہے۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت طبرانی میں ہے کہ رات کے وقت آپ نے ذبح کرنے سے منع فرمایا۔ لیکن یہ حدیث بہت ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں بیہقی کی ایک روایت نقل کی ہے کہ:۔

نَھٰي عَنْ جُذَاذِ اللَّيْلِ وَحَصَادِ اللَّيْلِ وَالْأَضْحٰي بِاللَّيْلِ

رات کے وقت کھیت کاٹنے اور کھجور کا درخت کاٹنے اور قربانی کرنے سے منع فرمایا۔
لیکن اس کا کچھ حال معلوم نہیں اور اگر صحیح بھی ہو تو حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہی تحریمی نہیں کیونکہ رات کے وقت کھیت کاٹنے سے اس لئے اغلباً منع کیا ہے کہ کہیں موذی جانور ایذا نہ دے اور کھجور رات کے وقت کاٹنے سے مساکین اور فقراء کے محروم رہ جانے کا خطرہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اسباب محرمات نہیں ہو سکتے۔ زیادہ سے زیادہ نہی تنزیہی ہو گی۔واللہ اعلم بالصواب
I بہتر ومستحب یہ ہے کہ آدمی قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے خود ذبح کرے :
کیونکہ نبی رحمت اپنا جانور اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مینڈھے کو پکڑ کر لٹایا پھر ذبح کیا۔
J اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا:
نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ میں عام طور پر اپنے دست مبارک سے قربانی کے جانور خود ذبح کرتے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر آپ نے 63 اونٹ خودنحرکئے اور 37 اونٹ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نحرکیے کیونکہ آپ نے 100 اونٹ کی قربانی دی تھی، تو معلوم ہوا کہ قربانی دینے والوں کو اپنے ہاتھ سے نحریاذبح کرنا چاہئے اور یہی افضل ہے اور کسی کی طرف سے وکالتاً ذبح کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنی عورتوں کی طرف سے گائے کی قربانی حجۃ الوداع کے موقعہ پر دی تھی۔ اگر کوئی شخص خود اپنے ہاتھ سے ذبح نہیں کر سکتا تو اسے اس وقت حاضر رہنا چاہئے اور یہ مستحب ہے جیسا کہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رقمطراز ہیںکہ اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے بھی ایک روایت ہے کہ آپ اپنی بیویوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ اپنی قربانی کے جانوروں کے ذبح کے وقت حاضر رہیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ہاں! سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذِکر کیا ہے:

اَمَرَ أَبُوْ مُوْسٰي بَنَاتِہ أَنْ يُضَحِّيْنَ بِأَيْدِيْھِنَّ

’’ابو موسیٰ نے اپنی لڑکیوں کو حکم دیا کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔‘‘
مسندِ حاکم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی حکم دیا تھا:

قُوْمِيْ يَا فَاطِمَۃُ إِلٰى أُضْحِيَّكِ فَاشْھَدِيْھَا

اے فاطمہ! اپنی قربانی کی طرف جا کر کھڑی ہو جا اور اس کے پاس حاضر رہو۔
امام ذیلعی نے تخریجِ ہدایہ میں اس روایت کو تین سندوں سے ذکر کیا ہے۔ مسندِ بزار کی حدیث کو سب پر ترجیح دی ہے۔ بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہتر تو یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر اور افضل ہے کہ خود پاس کھڑا ہو۔ ابو موسیٰ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی ذبح کر سکتی ہیں اور کوئی نص شرعی اس کے خلاف نہیں۔
اگر قربانی کا جانور خریدنے یا متعین کر لینے کے بعد بچہ جنے تو اس کو بھی ذبح کرنا ہو گا۔ تلخیص میں سيدناعلی رضي اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذِکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کی اونٹنی اور اس کا ایک بچہ لیے جا رہا ہے تو آپ نے فرمایا:

لَا تَشْرَبْ مِنْ لَّبَنِھَا إِلَّا مَا فَضَل عَنْ وَّلَدِھَا

’’اس کا دودھ صرف اتنا ہی پی سکتے ہو جس قدر اس بچہ سے بچ جائے۔‘‘
اور مسند ابن ابی حاتم میں یہ لفظ بھی ہیں:

فَإِذَا کَانَ يَوْمُ النَّحَرِ فَانْحَرْھَا ھِيَ وَوَلَدَھَا عَنْ سَبْعَۃٍ

’’قربانی کے دن اس کو اور اس کے بچہ کو سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرو۔‘‘
مگر ذبح کرنے کے بعد مردہ بچہ بر امد ہو، تب تو سوائے امام ابو حنیفہ کے اکثر صحابہ، تابعین اور ائمہ دین کے نزدیک بغیر ذبح کیے ہوئے حلال اور جائز ہے۔ کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم بعض دفعہ گائے، اونٹنی یا بکری ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے کیا ہم اسے کھا لیا کریں یا پھینک دیں؟ آپ نے فرمایا:

کُلُوْہُ اِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَکَاتَہ ذَکَاۃُ أُمِّہ

’’اگر جی چاہے تو بیشک کھاؤ، اس کی ماں کا ذبح کر لینا اس کے لئے بھی کافی ہے۔‘‘
امام ذیلعی نے تخریجِ ہدایہ جلد ۲ ص ۲۶۵ میں آٹھ دس کے قریب اسی مضمون کی حدیثیں نقل کی ہیں اور ان میں سے اگرچہ بعض پر جرح کی ہے، لیکن بعض صحیح بھی ہیں اور انہوں نے بھی اس مشکل کو محسوس کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول اس مسئلہ میں صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اس لئے تمام احادیث کے آخر میں ابن المنذر کا قول نقل کر دیا ہے۔ کسی صحابی نہ کسی تابعی نہ کسی عالم کا یہ قول ہے کہ ذبح کے بعد پیٹ سے نکلا ہوا بچہ ذبح کیا جائے، سوائے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اور اُمید نہیں کہ ان کے شاگردوں نے ان سے اتفاق کیا ہو۔واللہ اعلم
قربانی کے جانور میں سے بطور اجرت قصاب (قصائی ) کو کچھ نہ دیا جائے :
نبی کریمﷺ نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصائی کو دینے سے منع فرمایا ہے۔ہاں اگر پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظردیگر مسکینوں کی طرح کچھ دے دیا جائے تو کچھ حرج نہیں ۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس بنا پر قصائی اپنی اجرت میں کمی نہ کرے،اگر ایسا خدشہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ اس کو قربانی میں سے کچھ بھی نہ دیں۔ جیسا کہ نبی اکرمe نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ آپ کی قربانی کے اونٹوں کے نحر کرنے اور ان کے گوشت کی تقسیم کی نگرانی کریں ، اور ان کاگوشت، کھالیں اور جھولیں (پالان) سب کچھ تقسیم کردیں اورقصابوں کو ذبح کرنے کے عوض اس میں سے کچھ نہ دیں۔اس حدیث کو روایت کرنے کے بعدسیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم قصابوںکو اجرت اپنے پاس سے دیا کرتے تھے۔ (رواہ البخاری – ۱۶۱۶)
L قربانی کے گوشت اور کھال کو بیچ کر اسکی اجرت کھانا جائز نہیں:
ہاں البتہ خود استعمال کرسکتے ہیں ، مسند امام احمد میں ہے کہ نبی کریمe نے فرمایا : حج کے موقع پر منیٰ میں دی جانے والی اور عام قربانی کا گوشت مت بیچوبلکہ خود کھاؤ یا صدقہ کرو ، اور قربانی کے جانوروںکی کھالیں بھی مت بیچو۔ (بلکہ وہ بھی صدقہ کر دیا کرو یا پھر ) اس سے خود فائدہ اٹھاؤ۔ (مسند احمد -۴/ ۱۵)
بلکہ ایک حدیث میں آتاہے کہ

’’من باع جلد أضحیۃ فلا أضحیۃ لہ ۔‘‘
(رواہ الحاکم وحسنہ الشیخ الألبانی فی الترغیب والترہیب ، رقم الحدیث :۱۶۶۵)

’’جس شخص نے اپنی قربانی کی کھال بیچ دی تو اس کی قربانی نہیں ہوگی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چمڑے یا کھال کو بیچ کر اس کی قیمت اپنے استعمال میں لانا تو منع ہے البتہ اس چمڑے کو دباغت دیکر (رنگ کر) پکا لے اور اپنے بیٹھنے یا کسی دوسرے استعمال میں لائے تو اس کی اجازت ہے۔
M ذبح کرنے کا مسنون طریقہ :
جانور کو ذبح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جانور کی نظروںسے دور جہاں وہ دیکھ نہ سکے اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لے ، تا کہ وہ چھری کو تیز ہوتا دیکھ کرتکلیف محسوس نہ کرے، اور چھری کو تیز اس لئے کرے تاکہ جلد ذبح ہو جانے کی صورت میں جانو ر کو دیر تک چھری کے کاٹنے کی تکلیف نہ ہوتی رہے۔ اس سلسلہ میں امام طبرانی نے اپنی کتاب معجم الکبیر (۱۱/۳۳۳) میں سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکرکی ہے کہ نبی اکرمe کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بکری کو لٹا کر ، اس کی گردن پر پاؤں رکھے اپنی چھری تیز کر رہا تھا اور بکری یہ سب دیکھ رہی تھی ، اس پر نبی رحمتe نے فرمایا:

افلا قبل ھذا؟ اترید ان تمیتھا مرّتین

کیا یہ کا م اس سے پہلے نہیںہو سکتا تھا َ ؟ کیا تو اس بیچاری کی دو مرتبہ جان لینا چاہتا ہے۔‘‘( اس حدیث کی سند صحیح ہے)
اور مستدرک حاکم میں ہے (۴/۲۳۱) کیا تو اسے کئی موتیں مار کر اس کی جان لینا چاہتا ہے؟ تم نے اسے لٹانے سے پہلے ہی چھری تیز کیوں نہ کرلی؟ (امام حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے اورعلامہ ذہبی رحمہ اللہ نے انکی موافقت کی ہے اور یہ حدیث صحیح ہے) بلکہ نبی آخر زمانe کا طریقہ بھی یہی تھا ۔ (دیکھئے ابو داؤد ۲۷۹۲)

 اونٹ کو نحر کرنیکا طریقہ:

اونٹ کو نحر کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ اسے قبلہ رخ کھڑا کرکے اس کی اگلی بائیں ٹانگ ٹیڑ ھی کرکے باندھ دی جائے او ر اسے تین ٹانگوں پر کھڑاہونے کی حالت میں تکبیر پڑھ کر اس کے سینے اور گردن کی جڑ کے درمیان والی گڑھا نما جگہ میں نیزہ یا کوئی تیز دھار آلہ مار ا جائے جس سے اس کی رگ کٹ جائے ، اسکی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:

فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہَا صَوَافَّ (الحج :۳۶)’

تم ان پر کھڑے ہونے کی حالت میں ہی اللہ کا نام لو۔
صواف :
صواف کی تفسیر ترجمان القرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کھڑا کرنے سے کی ہے ۔اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے۔
اور ابو داؤد کی حدیث میںسیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام اونٹ کو اس حالت میں ذبح کرتے تھے کہ اس کا بایاں پاؤں بندھا ہوتا اور وہ باقی ماندہ تین پاؤں پر کھڑا ہوتا۔ (دیکھئے: سنن أبی داؤد ، رقم الحدیث :۱۷۶۴، اس حدیث کو امام نووی اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)
اونٹ بٹھا کر نحر کرنا سنت نبوی کے خلاف ہے چنانچہ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اونٹ کو ذبح کرنے کیلئے بٹھا دیا تھا تو آپ ﷺ نے اس کو ایسے کرنے سے منع فرمایا اور سنت کے مطابق ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا :

ابعثہا قیاماً مقیّدۃ سنۃ محمدا (رواہ البخاری الحدیث :۱۷۱۳)

’’اسے کھڑا کرکے باندھ لو یہی سنت محمدی ﷺہے۔ ‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس حدیث میں مذکورہ بالا طریقے کے مطابق ذبح کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے ۔ (دیکھئے فتح الباری ۳/۶۹۸)
O ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی اہمیت:
علماء کرام کا اس بات میں اختلاف ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا سنت واجب یا شرط ہے چونکہ اگر بسم اللہ پڑھنا سنت یا واجب مان لیا جائے تو اگر کوئی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو وہ جانور کھایا جاسکتاہے اور اگر بسم اللہ پڑھنا شرط مان لیا جائے تو اس جانور کا کھانا ناجائز ہوجائے گا۔ اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ صحیح بات یہی لگتی ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں ذکر کیا ہے اورالشیخ محمد بن صالح العثیمین نے شرح الممتع میں تفصیل سے ذکر کیاہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے

وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ (الأنعام:۱۲۱)

’’اورنہ کھاؤ جس چیز پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہواور یہ کام نافرمانی کا ہے۔‘‘
اور نبی کریمﷺ کا یہ فرمانا:’’جو چیز خون بہادے اور اس پر اللہ تعالیٰ کانام لے لیا گیا ہوتو وہ کھالو۔‘‘
(متفق علیہ ۔بخاری، رقم الحدیث:۲۴۸۸، مسلم، رقم الحدیث:۱۹۶۸) یہ آیت اور حدیث بسم اللہ کے شرط ہونے کی دلیل ہے ۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
جانور ذبح کرنے کی کیفیت:
جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا مسنون ہے ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جانور کو قبلہ رخ کھڑا کرکے ذبح یا نحر کرنے کو مستحب سمجھتے تھے بلکہ اگر کسی جانور کو غیر قبلہ کی طرف منہ کرکے ذبح کیا گیا ہوتا تو وہ اس کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتے تھے۔(اسے امام عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں بسند صحیح ذکر کیاہے)
جانور کو قبلہ رخ لٹاکر اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر اپنا دایاں پاؤں رکھ لیں ، اور بسم اللہ اور دعا پڑھ کر ذبح کریں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر لٹایا جائے اور اس کے اوپر والے دائیں پہلو پر پاؤں رکھا جائے تاکہ ذبح کرنے والے کیلئے دائیں ہاتھ میں چھری اور بائیں ہاتھ میں جانور کا سر پکڑنے میں آسانی رہے۔(فتح الباری، ۱۰ ص ۱۸ )
Q قربانی کے جانوروں میں مطلوبہ اوصاف:
نبی کریم ﷺ نے ایسا مینڈھا خرید کر لانیکا حکم فرمایا جو سینگوں والا ہو جس کی ٹانگیں ، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں۔( صحیح مسلم ، ۱۳/۱۲۱)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺایسا مینڈھا قربانی کیا کرتے تھے جو فربہ اور موٹا تازہ ہوتا تھا۔ جس کی آنکھوں ، منہ اور (پاؤںکے قریب سے ) ٹانگیں سیاہ اون والی ہوتی تھیں۔ (ابو داؤد ، ۲۷۹۶ ۔ اس حدیث کو ترمذی ،حاکم ، بغوی اورامام ذہبی نے صحیح کہا ہے)
Rقربانی والے جانوروں کے عیوب ونقائص:
وہ عیوب و نقائص جو قربانی والے جانوروں میں نہیں ہونے چاہئیں ان میں سے کانوں اور آنکھوں میں پائے جانے والے عیوب کو بطور خاص دیکھ لینے کا حکم ہے، چنانچہ سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم (قربانی کا جانور خریدتے وقت) اس کی آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیا کریں ( کہ ان میں کوئی عیب نہ ہو)
اس حدیث کو ترمذی ، نسائی ، ابوداؤد، ابن ماجہ ، مسند احمد اور دارمی نے روایت کیا ہے، اور یہ حدیث صحیح ہے۔
S قربانی کا جانور خریدنے کے بعد جانور کا زخمی ہوجانا یا عیب دار ہوجانا:
اگر قربانی کا جانورخریدنے کے بعد زخمی یا عیب دار ہوجاتاہے تو اس جانور کی قربانی صحیح ہوگی۔ (شیخ محمد بن صالح العثیمین کی بھی یہی رائے ہے ۔ دیکھئے: شرح الممتع(۵۱۵/۷)
T جانور کا اندھا ، کانا ، بیمار یا لاغر ہونا:
نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ قربانی والے جانوروں میں کن عیوب سے بچنا ضرور ی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایاچار عیوب سے
۱ ۔ لنگڑاپن ظاہر ہو،
۲۔ کانا کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو،
۳۔ بیمار کہ جسکی بیماری نمایاں ہو،
۴۔ اور لاغر کمزور کہ جس میں چربی اور ہڈی میں گودا نہ رہا ہو۔ (اس حدیث کو اہل سنن الاربعۃ نے روایت کیا اور شیخ الالبانی نے ارواء الغلیل میں صحیح قرار دیا ہے) دیکھئے ارواء الغلیل ، ۱۱۴۸۔
Uکٹے ہوئے کان ، ٹوٹے ہوئے سینگ اور اندھے جانور :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم آنکھو ں اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ لیا کریں اور کوئی ایسا جانور قربانی کیلئے نہ لیں جس کا کان سامنے یا پیچھے کی جانب سے کٹا ہو ا ہو، (اور اسے لٹکتا ہی چھوڑدیا گیا ہو) اور نہ ایسا جانور جس کے کان لمبائی میں چیرے ہوئے ہوں، یا جس کے کان میں گول سوراخ ہوں۔ (یہ حدیث شاذ ہے دیکھئے ارواء الغلیل )
اور دوسری روایت میںسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں ایسے جانور کی قربانی دینے سے منع فرمایا جس کا آدھا یا آدھے سے زیاد ہ سینگ ٹوٹا ہو ا ہو، اور کا ن کٹا ہوا ہو۔ (ان دونوں حدیثوں کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے اور حدیث صحیح ہے )
V مشین لگے جانور کی قربانی:
خصی اور غیر خصی دونوں قسم کے جانوروں کی قربانی سنت سے ثابت ہے۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ کے پا س دو سینگوں والے ، چتکبرے، بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپﷺ نے ان دونوںمیں ایک کو پچھاڑاا ور فرمایا:
بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَرُ
محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے تیری توحید کی اورتیرے پیغام (الٰہی) کو پہنچانے کی شہادت دی ۔
(رواہ ابو یعلی اور امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے، اسی طرح شیخ الالبانی نے بھی حسن قراردیا ہے ) دیکھئے ارواء الغلیل (۴/۲۵۱)، مجمع الزوائد (۴/۲۷)
دوسری حدیث میں سیدناابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب قربانی کرنا چاہتے تو دو ایسے مینڈھے خریدتے جو بڑے قد آور ، موٹے تازے ، سینگوں والے ، سیاہ و سفید رنگ کے اورخصی ہوتے تھے۔
(اس حدیث کو امام احمد نے ۶/۳۹۱، بیہقی نے ۹/۳۱۸ اپنی سنن میں اور امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا اور اس کی سند حسن درجہ کی ہے ، حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۴/۲۴ میں اور علامہ شوکانی نے الدراری المضیہ ۲/۱۲۴ میں اس کو حسن کہا ہے)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا خصی ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
غیر خصی جانور قربانی کرنے کی دلیل : ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺسینگوں والے غیر خصی جانور کی قربانی کیا کرتے تھے اور اس کی آنکھیں، منہ اور ہاتھ پاؤں سیاہ ہوتے تھے۔ (ابو داؤد ، ۲۷۹۳، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)
W حاملہ جانورکا ذبح اور اسکے بچے کو کھانا:
سیدناابو سعید خدر ی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! ہم اونٹنی ، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں کیا ہم اس کو پھینک دیں یا کھا لیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر پسند کرو تو اس کو کھا لو کیونکہ اس کا ذبح اس کی ماں کا ذبح کرنا ہے۔ (ابو داؤد : ۲۸۴۲، اس حدیث کو شیخ الالبانی نے صحیح قرار دیا ہے)

وضاحت:

اس حدیث میں ماں کے ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے نکلنے والے بچے کو ذبح کئے بغیرکھانے کے جواز کا بیان ہے۔
۲۔ مذکورہ بالا حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والے مردہ بچے کاکھانا ضروری نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (کلوہ ان شئتم) اگر تم چاہو تو اس کو کھا لو۔
۳۔ اگر ذبح شدہ ماں کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک مستقل جان ہے ، یہی اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے ۔ (المغنی ، ۱۳/۳۱۰)۔
اس بچے کی قربانی کو دوسری قربانی شمار نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ مغیرہ بن حذف العیس سے مروی ہے کہ ہم رحبہ کے مقام پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ ہمدان سے ایک آدمی آیا جو ایک گائے اور اس کا بچہ لیے جارہا تھا۔ اس نے کہا: میں نے یہ گائے قربانی کے لئے خریدی تھی اور بعد میں اس نے بچہ دے دیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کا دودھ مت پیو سوائے اس کے کہ جو اس کے بچے سے زائد بچ جائے اور ساتھ ہی یہ فرمایا ’’

فإذا کان یوم النحر فانحرھا ھی وولدھا عن سبعۃ……‘‘

(العلل لابن ابی حاتم حدیث نمبر (۱۶۱۹) ابن ابی حاتم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی تلخیص الحبیر میں ان کی تصحیح کو نقل کیا ہے (۲/۴/۱۴۶)۔)
’’جب قربانی کا دن آئے تو جانور اور اس کے بچے کو بھی ساتھ ہی ذبح کر دینا۔‘‘
قربانی کے گوشت کی تقسیم :
قرآن و سنت سے قربانی کا گوشت کھانا، کھلانا ، غریبوں کو دینا اور ذخیرہ کرنا سب ثابت ہے۔
علماء کرام کے اقوال میں سے صحیح ترین قول کے مطابق گوشت کی تقسیم میں کوئی پابندی نہیں چاہے تو تین حصوں میں تقسیم کرے یا دو حصوں میں تقسیم کرے اور اگر پورا گوشت ذخیرہ کرنا چاہتا ہے تو پورا گوشت بھی ذخیرہ کرسکتا ہے(اگرچہ یہ اچھا عمل نہیں ہے)۔
اس کی دلیل نبیﷺ کا یہ قول ہے:

نہیتکم عن لحوم الاضاحی فوق ثلاث ، فأمسکو ما بدا لکم
(صحیح مسلم رقم الحدیث ۔ ۱۹۷۷)

میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانیوںکے گوشت جمع کرنے سے روکا تھا ، پس اب تم جتنا چاہو (اس میں سے اپنے )کھانے کیلئے روک (یعنی ذخیرہ کر) لو۔
قربانی کےجانور کو بغیر کسی عذر کے تبدیل کرنا:
اس بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتاہے کہ کیا کسی قربانی کے جانور کو معین کرنے کے بعد تبدیل کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟جن علماء نے تبدیل کرنے کو ناجائز کہا ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں ایک صحابی نے یہ چاہاتھا کہ اپنا قربانی کا جانور بیچ کر اس کی قیمت سے کوئی دوسرا جانور خرید لے تو اسے نبی کریمe نے حکم دیا۔
(لَا ، إِنْحَرْھَا إِیَّاھَا)’’نہیں ، اسی کو ذبح کرو‘‘۔
(اسے ابوداؤدنے حدیث نمبر (1756) اور بیہقی نے (۵/۲۴۱)امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ کبیر میں(۲/۲۳۰) روایت کیاہے لیکن یہ حدیث ضعیف اور قابل حجت نہیں ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی سند غریب ہے یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور شیخ الالبانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ضعیف کہا ہے ۔ )
البتہ دوسرے علماء کی یہ رائے ہے کہ اگر متعین کردہ جانور سے اچھا جانور لیکر قربانی کرنے کا ارادہ ہوتو تبدیل کرنا جائز ہے۔ امام احمد ، امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے اور علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اسی مذہب کو اختیار کیاہے۔
جانور خریدنے کے بعد رونما ہونے والے عیب:
کبھی ایسا ہوتاہے کہ قربانی کا جانور خرید لینے کے بعد کوئی عیب لاحق ہوجاتاہے جیسے سینگ ٹوٹ جانا ، لنگڑا پن آجانا یا بیمار پڑ جانا تو ایسی صورت میں بھی علماء نے اس کی قربانی جائز قرار دی ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے قربانی کیلئے ایک دنبہ خریدا جس پر بعد میںایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی چکی کاٹ ڈالی ۔ اس دنبے کے بارے میں میں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تو فرمایا ’’ضَحِّ بِہٖ‘‘ اس کی قربانی کرو اگرچہ یہ قصہ سخت ضعیف ہے جیسا کہ ابن حجر ، امام شوکانی رحمہما اللہ نے بیان کیا ہے۔
الغرض اگر کوئی شخص صاحب حیثیت ہوتو اس کے لئے ایسا جانور بیچ کر اُسے بدل لینا افضل اور بہتر ہے۔
[ میت کی طرف سے قربانی کرنا
اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں ۔ ایک فریق کا کہناہے کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے۔
ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے دو مینڈھے قربانی کیلئے ذبح کیے ایک اپنے گھر والوں کی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کے لوگوں کی طرف سے۔ (دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۴۹)
تو اس حدیث میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوکہ فوت ہوچکے ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کے خصائص میں سے ہے لہٰذا آپ کا اپنی امت کی طرف سے قربانی دینا فوت شدگان کی طرف سے قربانی کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتا۔(دیکھئے ارواء الغلیل ۴/۳۵۴)
دوسری دلیل :سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں یہ ہے کہ وہ دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے ایک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ہمیشہ آپ کی طرف سے قربانی کرتا رہوں گا۔ (اس روایت کو امام ابوداؤد ،رقم الحدیث ۲۷۸۷، امام ترمذی ، رقم الحدیث :۱۴۹۵)نے روایت کیا ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ شیخ البانی نے سنن ابی داؤد کی تحقیق میں ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم
اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ میت کی طرف سے مستقل قربانی نہیں ہوتی ہاں اگر میت نے وصیت کی ہو یا زندوں کی قربانی میں میت کی طرف سے بھی نیت کرلی جائے تو صحیح ہے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے زیادہ خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سے تھے ان سے یہ چیز ثابت نہیں کہ وہ اپنی میتوں کی طرف سے مستقل قربانی کرتے ہوں اسی رائے کو الشیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔ (دیکھئے : فتاوی الدین الخالص، شیخ امین اللہ البشاوری ۶/۴۲۷) واللہ اعلم بالصواب
اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی دی جا سکتی ہے اور اس میں سے کچھ صدقہ کرنا اور کچھ کھا لینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔

کائنات میں غور وفکر دعوت، اہمیت اور فوائد

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کے بندو! کما حقُّہ اللہ تعالی سے ڈرو اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان و نگران سمجھو۔
مسلمانو!اللہ تعالی کی نشانیوں اور حیرت انگیز مخلوقات میں غور و فکر کرنا سانسوں کا بہترین مصرف ہے، پھر اس مرحلے سے آگے بڑھتے ہوئے ہر چیز کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کریں، اللہ تعالی کی نشانیوں سے مراد اسما و صفات ، الہی کاریگری اور وحدانیت پر مشتمل ایسے دلائل و براہین ہیں جن کے ذریعے بندے اپنے پروردگار کو پہچانتے ہیں۔
اللہ تعالی کی مخلوقات میں فکر و نظر بھی عبادت و ہدایت ہے، بلکہ یہ خیر کی ابتدا اور خیر کیلیے کلید ہے، فکر و نظر کے ذریعے اللہ تعالی کی تعظیم ہوتی ہے نیز انسان کا ایمان اور یقین بھی بڑھتا ہے، اس سے دلی بصیرت پروان چڑھتی ہے ، دل غفلت سے بیدار ہوتا ہے اور دل کو نئی زندگی ، تدبر، محبتِ الہی اور نصیحت حاصل ہوتی ہے۔
اللہ تعالی کی نشانیوں میں غور و فکر قلبی عبادات میں سے افضل اور مفید ترین عبادت ہے، یہ انسان کو عملی عبادات کی دعوت دیتی ہے اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرنے پر مجبور کرتی ہے، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: \”غور و فکر اصل میں حصولِ رحمت کی کنجی ہے؛ آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ انسان جیسے ہی غور و فکر شروع کرے تو توبہ پر آمادہ ہو جاتا ہے\”
لوگوں کو نصیحت کرنے کیلیے غور و فکر کی دعوت بہترین دعوت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا[سبأ: 46]

آپ کہہ دیں: میں تمہیں ایک ہی چیز کی نصیحت کرتا ہوں کہ: اللہ کیلیے تنہا یا دو، دو کھڑے ہو کر غور و فکر تو کرو۔
انسان اگر غور و فکر کا عادی ہو تو ہر چیز سے عبرت حاصل کرتا ہے، قرآن کریم لوگوں کو آیات اور مخلوقات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دینے سے بھرا ہوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَيْءٍ [الأعراف: 185]
کیا وہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی سمیت اللہ تعالی کی تمام مخلوقات میں غور و فکر نہیں کرتے؟!
اللہ تعالی کی مخلوقات میں عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، غور و فکر کرنے والوں کیلیے نشانیاں ہیں ، اللہ تعالی نے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ

آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرو کہ ان میں کیا کچھ ہے![يونس: 101]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: \” عبرت حاصل کرنے کیلیے عُلوی اور سُفلی مخلوقات میں غور و فکر کا حکم دیا گیا اور اس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے\”
کامل عقل و دانش رکھنے والے ہی ہر چیز کی حقیقتوں کا ادراک رکھتے ہیں، اللہ نے مخلوقات میں غور و فکر کرنے والوں کی تعریف فرمائی نیز انہیں عقل مند قرار دیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، دن اور رات کے آنے جانے میں اہل دانش کیلیے نشانیاں ہیںجو لوگ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں کے بل اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، نیز آسمانوں اور زمین کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے ہوئے [پکار اٹھتے ہیں] ہمارے پروردگار! یہ تو نے فضول پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے ، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔[آل عمران: 190-191]
نیز اللہ تعالی نے غور و فکر نہ کرنے والوں کی مذمت فرمائی:

وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ [يوسف: 105]

آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں کہ وہ ان پر سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
متکبرین سے اپنی آیات دور کر دینا اللہ تعالی کی طرف سے سزا ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا

میں ان لوگوں کو اپنے احکام سے دور ہی رکھوں گا جو دنیا میں بلا وجہ تکبر کرتے ہیں اور اگر وہ تمام نشانیاں دیکھ بھی لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں گے۔ [الأعراف: 146]
امام حسن بصری رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں: \”اللہ تعالی انہیں غور و فکر کرنے سے روک دیتا ہے\”
سورج اللہ تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ

شب و روز، سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں۔[فصلت: 37]
اللہ تعالی نے سورج کو کائنات کیلیے روشنی کا ماخذ اور آسمان میں دہکتا ہوا چراغ بنایا، جو کہ بغیر کسی آواز کے اتنے بڑے حجم کے با وجود نہایت دقیق حساب کے ساتھ وسیع خلا میں مقرر وقت تک چلتا رہے گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ مہتاب کو پکڑے اور نہ رات دن پر آگے بڑھ جانے والی ہے اور سب کے سب فلک میں تیرتے پھرتے ہیں ۔[يس: 40]
اللہ تعالی نے سورج کو لوگوں کیلیے بلا معاوضہ مسخر فرمایا، سورج کے طلوع و غروب ہونے سے دن اور رات بنتے ہیں، اگر سورج نہ ہوتا تو اس کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا؛ کیونکہ سورج کے وجود میں اتنی حکمتیں اور فوائد ہیں جن کو شمار کرنے سے مخلوقات عاجز ہیں۔
اللہ تعالی نے سورج کو اپنی وحدانیت اور الوہیت کی دلیل بناتے ہوئے فرمایا:

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللهُ

اور اگر آپ ان سے پوچھیں: کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔[العنكبوت: 61]
سورج اہل عقلمند لوگوں کیلیے نشانی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

اسی نے تمہارے لیے شب و روز، سورج اور چاند مسخر کیے، تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں، بیشک اس میں عقل مند قوم کیلیے نشانیاں ہیں۔[النحل: 12]
لوگوں کو سورج کی حیرت انگیز تسخیر پر غور کرنے کی دعوت دی اور فرمایا:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ

کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، اسی نے سورج اور چاند مسخر کیے ہیں۔[لقمان: 29]
سورج کے ذریعے ہی لوگ اپنے اوقات جانتے ہیں اور علامات پہچانتے ہیں:

وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا

رات سکون کیلیے بنائی اور آفتاب و مہتاب کو حساب کا ذریعہ بنایا۔[الأنعام: 96]
اللہ تعالی نے سایہ پیدا فرمایا اور سورج کو اس کی دلیل بنایا،بغوی رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں: \”دلیل بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر سورج نہ ہوتا تو سایے کا پتا ہی نہ چلتا، اگر روشنی نہ ہوتی تو اندھیرے کا علم ہی نہ ہوتا؛ کیونکہ متضاد چیزوں سے اشیا معلوم ہوتی ہے\”
اللہ تعالی نے سورج کے ساتھ بہت سی عبادات اور احکامات منسلک فرمائے ہیں، جیسے کہ نماز کے بارے میں فرمایا:

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ

آپ زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجئے ۔[الإسراء: 78]
اسی طرح ذکر الہی کے افضل ترین اوقات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ

اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ طلوع آفتاب اور غروب سے پہلے تسبیح کیجئے ۔[ق: 39]
غروب آفتاب پر لوگ روزہ کھولتے ہیں اور لیلۃ القدر کی علامت یہ ہے کہ : (صبح سورج بغیر شعاعوں کے طلوع ہوتا ہے) ایام تشریق میں زوالِ شمس پر حجاج کنکریاں مارتے ہیں۔
قبولیتِ توبہ کا وقت سورج کے مغرب سے طلوع ہونے پر ختم ہو جائے گا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:(یقیناً اللہ تعالی اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے اور دن کے وقت اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کر لے، [یہ عمل اس وقت تک روزانہ ہوتا رہے گا] یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے)۔( مسلم)
طلوع و غروبِ آفتاب سے قبل نماز پڑھنے پر اللہ تعالی نے بہت بڑا اجر رکھا ہے: (یقیناً تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تم اللہ تعالی کو دیکھنے کیلیے ازدحام کا سامنا نہیں کر و گے، چنانچہ [اسے پانے کیلیے]اگر تم سورج طلوع ہونے سے پہلے کی نماز [یعنی: فجر]اور غروب ہونے سے پہلے کی نماز [یعنی: عصر]پر پابندی کر سکو تو لازمی کرو) ۔(بخاری)
سورج گرہن اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو ڈرانے کیلیے ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک سورج اور چاند کو کسی کی زندگی یا موت پر گرہن نہیں لگتا ، یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، اللہ تعالی ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اس لیے گرہن ختم ہونے تک اللہ کا ذکر کرو) ۔(مسلم)
سورج کی عظمت اور کثیر فوائد کے باعث اللہ تعالی نے اس کی قسم بھی اٹھائی اور فرمایا:

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا [الشمس: 1]

سورج اور اس کی دھوپ کی قسم۔
لیکن اتنی بلند شان ہونے کے با وصف اللہ تعالی ہی اسے چلاتا ہے اور سورج اللہ تعالی کی تسبیح بیان کرتا ہے،فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ [الحج: 18]

کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور سورج،چاند،ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور لوگوں کی کثیر تعداد اللہ کیلیے سر بسجود ہے۔
سورج غروب ہونے کے بعد اللہ تعالی کیلیے سجدہ کرتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (ابو ذر! تمہیں معلوم ہے کہ سورج کہاں غروب ہوتا ہے؟) میں نے کہا: \”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں\” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (سورج جا کر عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جاتا ہے:

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا حساب ہے [يس: 38]کا یہی مطلب ہے) بخاری
سورج بھی مخلوق ہے اس کی بندگی نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے سجدہ کرنا شرک ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ

سورج اور چاند کو سجدہ مت کرو۔ [فصلت: 37]
غروبِ شمس کو انبیائے کرام نے اللہ کی طرف دعوت دینے کا ذریعہ بنایا چنانچہ اس سےسیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی کی الوہیت اور سورج کی بندگی باطل ہونے کو کشید کیا، اللہ تعالی کا اس بارے میں فرمان ہے:

فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ [الأنعام: 78-79]

پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے: یہ میرا رب ہے؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اے میری قوم! جن (سیاروں کو) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔
سورج کے فتنے میں پڑ کر کچھ لوگوں نے اسے پوجنا شروع کر دیا جیسے کہ ہدہد نے سیدناسلیمان علیہ السلام سے ملکہِ سبا اور قومِ سبا کے بارے میں بتلاتے ہوئے کہا:

وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ

میں نے ملکہ اور اس کی قوم کو اللہ کو چھوڑ کر سورج کیلیے سجدہ ریز پایا ہے، شیطان نے ان کے اعمال مزین کر کے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا ہے ، اب وہ ہدایت کیلیے تیار ہی نہیں ہیں۔[النمل: 24]
کچھ لوگوں کی جانب سے سورج کو سجدہ کرنے پر طلوع و غروب آفتاب کے وقت شیطان اس کے سامنے آ جاتا ہے، اور یہ تصور کرتا ہے کہ لوگ مجھے سجدہ کر رہے ہیں؛ چنانچہ سورج کی عبادت کی روک تھام کیلیے مسلمان کو سورج طلوع ہونے یا غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے سے منع کر دیا گیا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سورج طلوع یا غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے کی کوشش میں مت رہو؛ کیونکہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے) ۔(مسلم)
زوالِ شمس کا وقت مومن کیلیے روزانہ کی بنیاد پر نصیحت آموز ہوتا ہے؛ کیونکہ اس وقت جہنم بھڑکائی اور سلگائی جاتی ہے، اس لیے اس وقت میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اس وقت میں جہنم بھڑکائی جاتی ہے) ۔(مسلم)
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قربِ قیامت کی علامت اور اللہ تعالی کی طرف سے کائنات تباہ ہونے کا حکم ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مغرب سے طلوعِ آفتاب ہونے سے پہلے قیامت قائم نہیں ہو گی، چنانچہ جیسے ہی مغرب سے سورج طلوع ہوگا تو سب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گےلیکن اس وقت کسی کا ایمان قبول کرنا فائدہ نہیں دے گا) ۔(متفق علیہ)
ابتدائی نشانیوں میں مغرب کی جانب سے طلوعِ آفتاب اور چاشت کے وقت ظہورِ دابّہ شامل ہیں ان میں سے کوئی بھی پہلے ہوئی تو دوسری علامت اس کے بعد قریب ہی وقت میں رونما ہو جائے گی۔
(اللہ تعالی اگلے پچھلے سب لوگوں کو ایسے میدانِ محشر میں یکجا جمع فرمائے گا جہاں ایک شخص اپنی آواز سب کو سنا سکے گا اور سب کو دیکھ سکے گا، سورج مخلوقات کے ایک میل قریب آ جائے گا)، سیدناسلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میل سے کیا مراد ہے، مسافت والا میل یا آنکھ میں سرمہ ڈالنے کیلیے استعمال ہونے والی سلائی مراد ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: (پھر لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ڈوبے ہوں گے ، چنانچہ کچھ ٹخنوں تک اور کچھ گھٹنوں تک اور کچھ کوکھ تک اور بعض پسینے میں غوطہ زن ہوں گے)۔ (مسلم)
سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی سایہ نصیب فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہیں ہو گا، ان سب میں اللہ تعالی کی محبت اور عظمت مشترکہ صفت ہو گی، پھر اللہ تعالی اعلان فرمائے گا: (جو جس چیز کی عبادت کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو لے، تو سورج کے پجاری سورج کے ساتھ ہو جائیں گے اور انہیں جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا، عین اسی وقت سورج کو بھی لپیٹ دیا جائے گا جس سے سورج بے نور ہو جائے گا، پھر سورج کو بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ [التكوير: 1]

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:\”فرمانِ باری تعالی : \”كُوِّرَتْ\” کا معنی یہ ہے کہ سورج کو سمیٹ کر پھینک دیا جائے گا اور پھینکتے ہی سورج بے نور ہو جائے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ دیے جائیں گے)۔ (بخاری)
جنت میں گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہو گا، جنت اللہ تعالی کے نور سے منور ہو گی، اہل جنت کیلیے سب سے بڑی نعمت دیدارِ الہی ہے، جنتی لوگ اللہ تعالی کو ایسے دیکھے گیں جیسے اہل زمین صاف شفاف آسمان میں سورج دیکھتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: \”یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کیا صاف آسمان میں تمہیں سورج دیکھتے ہوئے کوئی دقت ہوتی ہے؟)صحابہ کرام نے کہا: \”نہیں، اللہ کے رسولﷺ!\” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تم اسی طرح اپنے پروردگار کو دیکھو گے) ۔ (متفق علیہ )
اس تفصیل کے بعد مسلمانو!فرش سے عرش تک ہر چیز سمیت پوری کائنات اللہ تعالی کی وحدانیت کی دلیلیں ہیں،مفید فکر و نظر وہی ہوتی ہے جو بصارت کی بجائے بصیرت پر مبنی ہو، مسلمان اپنی عقل و فکر محاسبۂ نفس اور اصلاحِ قلب کیلیے استعمال کرتا ہے۔
ذکرِ الہی کرو، اسی کی تعظیم کرو، اسی کی بندگی اور اطاعت کرو، غفلت و رو گردانی میں مت پڑو نیز ہمیشہ اسی کی تسبیح بیان کرو۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: هَذَا خَلْقُ اللهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

یہ ہے اللہ کی تخلیق، مجھے دکھاؤ کہ دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ واضح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ [لقمان: 11]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
حکمتِ الہی کے تقاضے کے مطابق سورج تہ و بالا اور زیر و زبر ہوتا رہتا ہے، تیز گرمی مومن کیلیے نصیحت کا باعث ہوتی ہے؛ کیونکہ تڑاکے کی گرمی جہنم کی لُو کی وجہ سے ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جہنم نے اپنے پروردگار کو شکایت کی اور کہا: \”پروردگار! میرا وجود ایک دوسرے کو کھا رہا ہے\” تو اللہ تعالی نے جہنم کو دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس سردی میں اور دوسرا سانس گرمی میں، تو جو شدت کی گرمی یا سخت ترین سردی محسوس کرتے ہوئے اسی وجہ سے ہوتی ہے) ۔(متفق علیہ)
دنیا کی زندگی رحمتوں اور زحمتوں کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے،لیکن زحمتیں مومن کو عذابِ جہنم یاد کرواتی ہیں اور رحمتیں جنت کی نعمتیں یاد کرواتی ہے، گرمی سردی اور دن رات کے آنے جانے سے دنیا کے فانی ہونے کا یقین بڑھ جاتا ہے۔
کوئی چیز مومن کا اللہ تعالی سے تعلق نہیں توڑ سکتی، چنانچہ گرمی کی تمازت بھی اسے نماز، روزے اور نیکی کے دیگر کاموں سے نہیں روک پاتی، اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی جنہوں نے کہا:
لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ
گرمی میں [جہاد کیلیے] مت نکلو۔[التوبہ: 81]
پھر انہیں یہ کہتے ہوئے ڈانٹ پلائی کہ:

قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا [التوبہ: 81]

آپ کہہ دیں: جہنم کی آگ اس سے بھی کہیں شدید ہے۔
اس شخص پر تعجب ہے کہ دنیا کی گرمی سے تو بچتا ہے لیکن جہنم کی گرمی سے بچنے کیلیےکچھ نہیں کرتا!؟
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم عظیم و جلیل اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔

کتابُ الحدودمن فقہ السنۃ لسید السابق ادیان سابقہ میں شراب کی حرمت

عیسائیت میں شراب نوشی کی حرمت :

جس طرح شراب اسلام میںحرام ہے ویسے ہی وہ عیسائیت میں بھی حرام ہے ، نشے کی روک تھام سے متعلق جماعت کے سربراہان جو کہ متحدہ عرب جمہوریہ کی جانب سے عیسائیت کے مذہبی پیشوا بھی ہیں انہوں نے ایک فتوی جاری کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’ تمام الہامی کتابوں میں انسان کیلئے یہ فیصلہ سنایا گیا ہے کہ وہ نشہ سے دور رہے، اسی طرح شام کے کیتھولک کنیسہ کے رئیس نشہ کی حرمت سے متعلق کتاب مقدس سے نصوص پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ اجمالی طور پر نشہ ہر کتاب میں حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ انگور سے ہو یا ان تمام چیزوں سے جیسے گندم، کھجور،شہد، سیب وغیرہ
اور اس سے متعلق عہدنامہ جدید کے وہ شواہد جس میں پولس اہل أفس کے نام رسائل میں کہتا ہے کہ (5:8)

ولا تسكروا بالخمر الذي فيه الخلاعة

شراب نوشی مت کرو وہ جو مجنون کردے اور نشہ کی مخالطت سے منع کیا۔ (إکوہ :11)
اور اس کی تاکید کی کہ نشہ آسمانوں کی بادشاہت کا وارث نہ بنائے گا۔ (غلاہ :21) ( إکوہ 6:9:10)

شراب کے مضر اثرات :

ڈاکٹر عبد الوہاب خلیل صاحب کے قلم سے لکھے ہوئے مجلہ التمدن الإسلامی کی تلخیص جس میں انہوں نے شراب کے نفسی،بدنی اور اخلاقی نقصانات ذکر کیے اور ساتھ ہی اس کے انفرادی اور جماعت پر مرتب ہونے والے برے اثرات کا ذکر کیا ، کہتے ہیں : جب ہم نے تمام ماہرین سے سوال کیا ، چاہے ان کا تعلق دینیات،طب، اخلاقیات ، اجتماعیت اور اقتصادیات سے ہو اور ان کی نشہ کے استعمال کی بابت رائے لی تو انہوں نے ایک ہی جوا بدیا : اور وہ کلی طور پر اس کے استعمال کی ممانعت تھی کیونکہ اس کے بہت ہی خطر ناک نقصانات ہیں۔
علماء دین کہتے ہیں: یہ حرام ہےاور یہ حرام صرف اس بنا پر ہے کہ یہ برائیوں کی ماں ہے۔
اور ماہرین طب کہتے ہیں ’’بے شک یہ عظیم خطرات میں ہے جو نوع انسانی کو ڈراتی ہے ، نہ صرف اس سے (کہ اس کا استعمال) فوراً خطرناک نقصانات میں ڈال دیتاہے بلکہ اس کے دور رساں نقصانات سے بھی۔ بے شک اس کا استعمال (ایسی خطر ناک بیماریوں)کیلئے راہ ہموار کر لیتا ہے جس کا ضرر کبھی کم نہیں ہوتا اور وہ بیماری سَل (تب دق) کی ہے۔
اور شراب بدن کو کمزور کر دیتی ہے اور اس کی قوت مدافعت کو گھٹا دیتی ہے اور جلدکو کمزور بنا دیتی ہے جس سے مختلف قسم کے امراض جسمانی اعضاء پر اثر انداز ہوتے ہیں اور خاص طور پر جگر (کیونکہ) یہ اعصاب پر شدید نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ اکثر اعصابی امراض کا اہم سبب یہی ہوتاہے اور اس سے پیدا ہونے والی عظیم بیماریاں جنونیت، دل کی سختی اورجرم کی طرف مائل ہونا ہے۔ اور اس کے استعمال کا صرف یہ ایک ضرر نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کے بھی کئی نقصانات ہیں، جیسے یہ سختی،ناداری اور کمزوری کا سبب ہے اور اسی طرح یہ افلاس، مسکنت اور ذلت کا جرثومہ بھی۔یہ جراثیم جس قوم میں بھی داخل ہوئے انہیں مادی، معنوی،بدنی وروحی، جسمانی اور عقلی طور پر تباہ کردیا۔
اور ماہرین اخلاقیات کہتے ہیں کہ انسان اپنی عفت، شرافت،مروت اور عزت کا محافظ ہے اور ایسی ہر وہ شے جو اسے ان صفات حمیدہ سے محروم کرتی ہوں ان سے گریز لازمی ہے۔
اور ماہرین اجتماعیت کہتے ہیں کہ انسانی معاشرہ ایک نظام وتربیت پر قائم رہے اور ایسی شے کا استعمال جو اس نظام میں خلل واقع کرتی ہو اس کا عدم استعمال ضروری ہے، کیونکہ اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا اور بگاڑ تفرقہ کو جنم دیتاہے اور تفرقہ دشمنی کو پروان چڑھاتاہے۔
اور ماہرین اقتصادیات کہتے ہیں کہ ہر ایک درہم جو ہم اپنے فائدےکیلئے خرچ کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے اور ہماے وطن کیلئے ہے اور ہر وہ درہم جو ہم اپنے نقصان میں خرچ کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے بھی خسارہ ہے اور ہمارے وطن کیلئے بھی تو کیسے یہ ملین روپے جو فضول میں نشہ آور اشیاء کے استعمال پر خرچ ہورہے ہیں اور جو ہمیں مالی طور پر پیچھے کر رہے ہیں اور ہماری مروءت اور شان کو ختم کررہے ہیں۔
اس بنیاد کو اگر ہم مد نظر رکھیں تو ہماری عقل ہمیں شراب نوشی سے روکنے کا حکم صادر کرے اور جب اس زمرے میں حکومت ان ماہرین کی آراء کو قبول کر لے تو اُسے اس مسئلہ کی بابت زیادہ جستجو کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی او رہم نے اُسے بغیر کسی مشقت میں پڑے اور مال خرچ کئے بغیر اس مسئلہ کا حل بتادیا ہے جبکہ تمام ماہرین اس کے مضر ہونے پر متفق ہیں اور حکومت تو عوام سے ہوتی ہے اور عوام حکومت سے ضرر اور تکالیف دور کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور حکومت اپنی رعیت کی بابت جوابدہ ہے۔
اور نشہ آور اشیاء کی ممانعت سے افراد معاشرہ طاقتور اور صحیح وسالم جسم کی مانند ہوجائیں گے جو مضبوط عزیمت اور پختہ عقل رکھتے ہوں گے اور یہ ملک میں مستوی صحت کو بلند کرنے کے اہم وسائل میں سے ایک ہے اور اسی طرح یہ اجتماعی ، اخلاقی اور اقتصادی مستوی کو بلند کرنے کی پہلی اینٹ ہے اگرچہ بہت سی وزارات کا اہتمام ماند پڑ جائے اور خاص کر وزرات عدل کا ، تو عدلیہ اور جیلوں تک پہنچانے والے (راستے) کم پڑجائیں اور اس کے بعد یہ جیلیں خالی ہو جائیںاور اسے مختلف اجتماعی اصلاحات کیلئے استعمال کیا جائے، اور یہی تو تہذیب وتمدن ہے اور یہی قوت وطاقت ہے اور یہ ترقی ورفعت ہے اور یہی قوموں کے بلند ہونے کا معیار ومیزان ہے اور یہی حقیقی اور اصلی تعاونی اشتراکیت ہے یعنی ہم ضرر اور تکالیف کو ختم کرنے کیلئے مشارکت اور تعاون کریں اور عملی جدوجہد کا باب بڑ ا وسیع ہے۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ

اور ان سے کہو کام کرتے رہو پس تمہارے اعمال کو اللہ اور اس کا رسول اور مومنین دیکھیں گے۔ ‘‘اھ
اور یہ بیان کردہ وہ نقصانات ہیں جن کے ثبوت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے جسے بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے شراب نوشی اور دوسری نشہ آور اشیاء سے روکنے کیلئے اپنایا ہے اور ان میں سرفہرست ملک جس نے اس کی روک تھام کیلئے کوششیں کیں وہ امریکہ ہے جسے سید ابو الاعلی مودودی نے اپنی تنقیحات میں ذکر کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے :
’’امریکی حکومت نے شراب کی ممانعت کی اور اسے اپنے ملک میںجاری کیا اور اس کیلئے تمام دور حاضر کے وسائل استعمال کیئے ، جیسے میگزین، محاضرات ، تصاویر اور سینما تاکہ اس کے استعمال سے روکا جائے اور اس کے مفاسد اور نقصانات بتلائیں جائیں اور وہ اس کا اندازہ لگاتے ہیں کہ ملک میںشراب نوشی کی روک تھام پر 60 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کر دی ہے ، اور جو کتابیں اور پمفلٹ نشر کیے وہ 15 بلین صفحات پر مشتمل تھے اور حکومت نے (شراب نوشی) کی تحریم کے قانون کو نافذ کرنے پر چودہ برس میں 250 ملین جنیہ خرچ کر دیئے اور اس دوران 300 لوگوں سے ہاتھ دھونا پڑا، اور 5,32,335 افراد کو جیلوں میں ڈالا گیا اور اس دوران جرمانے 16 ملین جنیہ ہوئے اور ان تمام کاموں پر تقریباً 404 ملین جنیہ خرچ ہوئے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود بھی امریکی قوم کو سوائے چالان بھرنے اور اس نشے میں سرکش ہونے کے کچھ حاصل نہ ہوا یہاں تک 1933ء میں حکومت اس قانون کو معطل کرنے پر مجبور ہوگئی اور اس نے اپنے ملک میں شراب نوشی کی مکمل اجازت دے دی۔ انتہی
بے شک امریکہ ان تمام کوششوں کے باوجود عاجز آگیا اس کے برعکس اسلام جس نے امت کی تربیت کی اساس دین پررکھی اور ان کے نفوس میں ایمانِ حق کی آبیاری کی اور ان کے ضمیر کو اچھی تعلیم اور اسوئہ حسنہ پر زندہ رکھا اور اس کےعلاوہ اور کوئی کام نہ کیا اور نہ ہی اس طرح کی محنت شاقہ کی بلکہ یہ کلمہ اللہ رب العزت کی طرف سے صادر ہوا اور لوگوں نے اُسے مطلق طور پر قبول کیا۔
بخاری ومسلم میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ہمارے لیے شراب اس فضیخ کی ہی مانندتھی جسے تم لوگ فضیخ( انگور کا شربت)  کہتے ہو۔میں اپنے گھر میں کھڑا ابو طلحہ، ابو ایوب (انصاری) اور دوسرے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو شراب پلا رہا تھا، تو ایک شخص آیا پس اس نے کہا کیا تم لوگوں کو خبر پہنچی ہے؟ تو ہم نے کہا :نہیں ، اس نے دوبارہ کہا ، شراب حرام ہوچکی ہے، پس کہا : اے انس ان مٹکوں کو پھینک دو، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا: (کہ کب یہ حکم نازل ہوا) اور نہ ہی اس شخص کی خبر کے بعد اس کی طرف لوٹے اور اس طرح ایمان اس کے ماننے والوں کا ہوتاہے۔

حج اور عمرہ کے مسائل ایک نظر میں

ارکان حج
1 احرام2وقوف عرفہ(میدانِ عرفات میں قیام کرنا) 3طواف زیارت4سعی
واجبات حج
1میقات سے احرام باندھنا
2مغرب تک عرفات میں وقوف کرنا
3سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے تک رات مزدلفہ میں گزارنا
4ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا
5جمرات کو کنکریاں مارنا
6جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حجامت بنوانا
7طواف وداع کرنا۔
وضاحت :
vحج کا کوئی رکن ادا نہ کرنے سے حج نہیں ہوتا۔
vحج کے واجبات میں سے کوئی واجب ادا نہ کرنے پر ایک قربانی لازم آتی ہے۔
vحج کی سنتوں میں سے کوئی سنت ادا نہ کرنے پر کوئی فدیہ یا گناہ نہیں۔
حج کی شرائط
مردوں کے لئے
nمسلمان ہوناnمالدار ہوناnآزاد ہوناnعاقل ہوناn بالغ ہونا nصحتمند ہوناnراستہ کا پر امن ہوناnحکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہونا۔
عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا آٹھ(8) شرائط کے علاوہ مزید دو شرطیں یہ ہیں۔1محرم کا ساتھ ہونا 2حالت عدت میں نہ ہونا۔
میقات
میقاتِ مکانی
1آفاقی : یعنی میقات سے باہر مقیم لوگوں کے لئےحج اور عمرہ دونوں کے لئے میقات درج ذیل ہیں۔
c ذی الحلیفۃ: برائے اہل مدینہ
c یلملم: برائے اہل یمن‘ ہندوستان و پاکستان وغیرہ
c جحفہ : برائے اہل مصر و شام
c قرن المنازل یا سیل کبیر : برائے نجدوطائف
c ذات عرق: برائے اہل عراق۔
2اہل حل: یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والے لوگوں کے لئے‘ عمرہ اور حج دونوں کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
3اہل حرم:یعنی حدود حرم کے اندر مقیم لوگوں کے لئے عمرہ کے لئے حدود حرم سے باہر کوئی جگہ تنعیم یا جعرانہ اور حج کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
میقات زمانی
b عمرہ کے لئے سارا سال ۔
bحج کے لئے شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ۔ تین ماہ۔
احرام: (عمرہ یا حج ادا کرنے کا لباس)
اقسام احرام
1احرام عمرہ(صرف عمرہ کااحرام باندھنا)
2 احرام حج افراد(صرف حج کا احرام باندھنا)
3احرام حج قران (عمرہ اور حج دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھنا)
4احرام حج تمتع (پہلے عمرہ کا احرام باندھنا‘ پھر ایام حج میں مکہ سے ہی حج کا احرام باندھنا)
مسنون امور
1 غسل کرنا
2مردوں کا احرام پہننے سے پہلے جسم پر خوشبو لگانا
3 دو بغیر سلی چادریں پہننا اور ٹخنوں سے نیچے تک جوتے پہننا
4عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کے الفاظ ادا کرنا
5 تلبیہ پکارنا
6ممکن ہو تو نماز ظہر کے بعد احرام باندھنا۔
مباحات احرام
1غسل کرنا 2سر اور بدن کھجلانا 3مرہم پٹی کروانا‘ ادویات کھانا پینا 4آنکھوں میں سرمہ یا دوا ڈالنا
5 موذی جانور کو مارنا6احرام کی چادریں بدلنا 7انگوٹھی‘ گھڑی‘ عینک‘ پیٹی یا چھتری وغیرہ استعمال کرنا
8بغیر خوشبو والا تیل یا صابن استعمال کرنا9سمندری شکار کرنا 0بچوں یا ملازموں کو تعلیم و تربیت کے لئے مارنا۔
ممنوعات احرام مردوں اور عورتوں‘ دونوں کے لئے
mجماع و متعلقات جماعmلڑائی جھگڑاmتمام گناہ اور نافرمانی کے کامmخوشبو لگانا m نکاح کرنا، کرانا یا پیغام بھجوانا mبال یا ناخن کاٹنا۔mخشکی کا شکار کرنا یاشکاری کی مدد کرنا،m شکار کیا ہوا جانور ذبح کرنا ۔
ممنوعات احرام، صرف مردوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل تین امور صرف مردوں کے لئے ممنوع ہیں۔
mسلا ہوا کپڑا پہننا m سر پر ٹوپی یا پگڑی پہننا mموزے یا جرابیں پہننا۔
ممنوعات احرام، صرف عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل دو امور صرف خواتین کے لئے منع ہیں۔
mنقاب استعمال کرنا mدستانے پہننا۔
(تفہیم : غیر محارم سے اختلاط کی صورت میں نقاب کی اجازت ہے۔)
طواف:(بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگانا)
اقسام طواف
mطواف قدومmطواف عمرہmطواف زیارت mطواف وداع mنفلی طواف
حج میں واجب طواف کی تعداد
mحج افراد میں دو عدد (طواف زیارت+طواف وداع)
m حج قران میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
mحج تمتع میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
(تفہیم:طواف وداع ان حاجیوں کے لیے ہےجنہوں نے مکہ سے باہر جانا ہے)
احکام طواف
b حالت احرام میں ہونا۔
bباوضو ہونا۔
bحالت اضطباع میں ہونا۔ (صرف طواف عمرہ کے لئے)
bمردوں کا پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ۔(صرف طواف عمرہ کے لئے)
b حجر اسود سے حجر اسود تک سات چکر لگانا۔
b حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کرنا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا۔
b حجر اسود کے استلام کے وقت’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہنا۔
b رکن یمانی کو چھونا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
b سات چکر پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرنا۔
b دو رکعت ادا کرنے کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پرڈالنا۔
b صفا اور مروہ پر سعی کے لئے جانے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا۔
مباحات طواف
z بوقت ضرورت بات کرنا z بوقت ضرورت سلسلہ طواف منقطع کرنا zسواری پر طواف کرنا۔
سعی:(صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانا)
حج میں سعی کی تعداد
b حج افراد میں ایک عدد bحج قران میں دو عدد
b حج تمتع میں دو عدد
احکام سعی
b صفا سے سعی کی ابتداء کرنا
bصفا پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b مردوں کا سبز ستونوں کے درمیان تیز تیز چلنا(بیماروں اور بوڑھوں کے علاوہ)
b مروہ پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b صفا سے شروع کر کے مروہ پر سات چکر مکمل کرنا۔
مباحات سعی
z بلا وضو سعی کرنا۔z دوران سعی گفتگو کرنا۔
z بوقت ضرورت سعی کا سلسلہ منقطع کرنا
z سواری پر سعی کرنا۔
ایام الحج
8تا13ذی الحجہ
8 ذی الحجہ……یوم الترویہ
1 سورج طلوع ہونے کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنا ۔
2منیٰ میں پانچ نمازیں (ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر) ادا کرنا۔
3منیٰ میں تمام نمازیں قصر ادا کرنا۔
4 بکثرت اوربلند آواز سے تلبیہ کہنا۔
9 ذی الحجہ……یوم عرفہ
1طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سےمیدان عرفات روانہ ہونا۔
2 زوال آفتاب کے بعداگر ممکن ہوتو مسجد نمرہ میں خطبۂ حج سننا‘ ظہر اور عصر کی نماز باجماعت جمعاً وقصراًاداکر نا اگر مسجد نمرہ تک جانا ممکن نہ ہوتو میدان عرفات میں جہاں بھی جگہ ملے دونوں نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرنا-
3 نمازوں کے بعد جبل رحمت کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
4 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا۔
5 دوران سفر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا۔
9 ذی الحجہ……مزدلفہ کی رات
1 نماز مغرب اور عشاء مزدلفہ میں باجماعت جمعاً وقصراً ادا کرنا ۔
2 رات سو کر گزارنا۔
3 نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرنا۔معذور لوگ یا عورتیں نماز فجرسے پہلے یا فوراً بعد مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوسکتے ہیں-
4نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے تک مشعر الحرام کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
5طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے منیٰ روانہ ہونا۔
6 جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں مزدلفہ سے اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔
7دوران سفر تلبیہ کہنا۔
10 ذی الحجہ……یوم نحر
1طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا(یعنی سات کنکریاں مارنا۔
2 رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
3قربانی کرنا۔
4حلق یا تقصیر کرنا۔
5مکہ جا کر طواف زیارت ادا کرنا۔
6 سعی ادا کرنا
7 مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
11تا13 ذی الحجہ……ایام تشریق
1تمام راتیں منیٰ میں گزارنا۔
2جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی زوال آفتاب کے بعد رمی کرنا ۔یعنی سات ‘سات کنکریاں مارنا۔
3بکثرت تکبیر و تہلیل‘ تقدیس و تحمید اور اذکارو وظائف کرنا۔
4 12ذی الحجہ کو واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
5مکہ واپس آکر اپنے شہر یا ملک رخصت ہونے سے قبل طواف وداع کرنا۔
عمرہ کا مسنون طریقہ
z میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا
z احرام سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zاحرام باندھنے سے قبل ’’لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ‘‘ کے الفاظ سے عمرہ کی نیت کرنا
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا۔
z بیت اللہ شریف کا طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z طواف شروع کرنے سے پہلے کندھوں والی چادر کا ایک حصہ دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لینا (یعنی حالت اضطباع اختیار کرنا)
z حجر اسود کے استلام (چھونے)سے طواف کا آغاز کرنااگر ممکن ہو۔
ˆ حجر اسود کے استلام کے لئے حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر ممکن ہو تو اس پر پیشانی بھی رکھنا یا ہاتھ سے چھو کر بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کر کے ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اور اشارہ کرتے وقت رفع یدین کی طرح دونوں ہاتھ بلند نہ کرنا۔
z استلام کے وقت’’ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ کہنا۔
z طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کرنا۔
z طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چال چلنا) کرنا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلنا۔
z رکن یمانی کو چھو کر بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
z رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان
رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
پڑھنا اور باقی طواف میں جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zایک طواف کے لئے سات چکر پورے کرنا۔
zسات چکر پورے کرنے کے بعد
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی
پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم کی طرف آنا اور وہاں (یا جہاں بھی جگہ ملے) دو رکعت نماز ادا کرنا، پہلی رکعت میں قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھنا۔
z نماز کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پر ڈالنا۔
z زمزم پینے کے بعد سعی کے لئے صفا پہاڑی کی طرف جانا۔
z صفا پہاڑی پر چڑھتے ہوئے :
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ ِفَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللہَ شِاکِرٌ عَلِیْمٌ
پڑھنا اور پھر یہ الفاظ کہنا:
اَبْدَئُ بِمَا بَدَئَ اللہُ بِہ
z( صفا پہاڑی کے اوپر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہونا اور تین مرتبہ یہ کلمات کہنا :
اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ
zاور درمیان میں دعائیں مانگنا۔
z صفا سے سعی کا آغاز کر کے مروہ پہاڑی پر جانا قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنا۔
zسبز ستونوں کے درمیان (مردوں کا) تیز تیز چلنا۔
z دوران سعی جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zصفا سے مروہ تک ایک چکر شمار کر کے سات چکر پورے کرنا۔
zسعی کے بعد مردوں کا سارے سر سے بال کٹوانا یا سر منڈوانا اور خواتین کا صرف ایک یا دو پور بال کاٹنا۔ـــــــــــــــــ
zاحرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
حج تمتع کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام اتار دینا۔
z 8ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ مکرمہ میں اپنی قیام گاہ سے حج کے لئے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل لَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا۔
z احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
z بیمار آدمی کا احرام باندھتے وقت:
اَللّٰھُمَّ مَحَلِّی حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ
(اے اللہ! میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے روک لیا) کہنا۔
z احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا ۔
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ
(یا اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے۔)
z 8 ذی الحجہ کو احرام باندھنے کے بعد ظہر سے قبل تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر کی (پانچ) نمازیں قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر باجماعت ادا کرنا۔
z 9ذی الحجہ (یوم عرفہ) کو طلوع آفتاب کے بعد تکبیرو تہلیل اور تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ سے عرفات روانہ ہونا۔
z عرفات کے دن روزہ نہ رکھنا۔
z عرفات میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرنا ظہر کے وقت عرفات میں امام حج کا خطبہ سننا، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں ایک اذان‘ دو اقامت کے ساتھ با جماعت قصر کر کے ادا کرنا۔
وضاحت : ہجوم کے باعث اگر وادی نمرہ میں جگہ نہ ملے اور حاجی سیدھا عرفات چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
z ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد عرفات میں داخل ہونا اور جبل رحمت کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ میسر آئے) وقوف کرنا‘ قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کر کے قرآنی و نبوی دعائیں مانگنا اور درمیان میں تکبیر و تہلیل اور تلبیہ بھی کہنا۔
z غروب آفتاب کے بعد‘ نماز مغرب ادا کئے بغیر سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہونا۔
z مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں‘ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ قصر کر کے اکٹھی ادا کرنا۔
zرات سو کر گزارنا اور10 ذی الحجہ کی نماز فجر معمول کے وقت سے تھوڑا پہلے ادا کرنا۔
zنماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد مشعر الحرام پہاڑی کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ ملے) قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے سورج طلوع ہونے سے قبل خوب روشنی پھیلنے تک تکبیر و تہلیل کہنا‘ توبہ استغفار کرنا اور دعائیں مانگنا۔
z طلوع آفتاب سے قبل سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ روانہ ہونا اور راستہ میں وادی محسر سے تیزی سے گزرنا۔
z منیٰ پہنچ کر طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا اور رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی کرنا اور اس سے کچھ پکا کر کھانا۔
وضاحت : یاد رہےکہ حج افراد والوں پر قربانی کرنا واجب نہیں۔
z قربانی کے بعد حلق یا تقصیر کروانا اور احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
z منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ(طواف زیارت) کرنا‘ زمزم پینا اور کچھ حصہ سر پر بہانا
zصفا و مروہ کی سعی کرنا اور مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
z ایام تشریق (11تا13) ذی الحجہ کی راتیں منیٰ میں گزارنا اور روزانہ زوال آفتاب کے بعد جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی بالترتیب رمی کرنا۔
z جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ کی رمی کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا لیکن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعائیں مانگے بغیر واپس پلٹنا۔
z قیام منیٰ کے دوران ممکن ہو تو روزانہ طواف کرنا‘ مسجد خیف میں با جماعت نمازیں ادا کرنا‘ بکثرت تہلیل و تکبیر‘ حمدوثنا‘ توبہ استغفار اور دعائیں مانگنا۔
z 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
وضاحت : اگر سورج منیٰ میں ہی غروب ہو جائے تو پھر13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کر کے منیٰ سے واپس آنا چاہئے۔
z مکہ معظمہ پہنچ کر گھر رخصت ہونے سے قبل طواف وداع ادا کرنا۔
حج افراد کا مسنون طریقہ
z میقات سے حج کی نیت سے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zلَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا
zممکن ہو تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَّۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ (اے اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے)
zاگر وقت ہو تو مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف تحیہ کرنا اگر وقت نہ ہو تو سیدھے منیٰ چلے جانا۔
z حج افراد کرنے والے شخص (مفرد) کے ذمہ دو طواف واجب ہیں۔
1طواف افاضہ(طواف زیارت) 2طواف وداع۔
z حج افراد ادا کرنے والوں پر صرف ایک سعی واجب ہے جو قربانی کے دن طواف زیارت کے بعد ادا کی جائے گی۔
zسہولت کے لئے حج سعی 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں جانے سے قبل کرنا جائز ہے۔
حج قران کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا۔
وضاحت : احرام باندھنے کی تفصیل حج افراد کے مسنون طریقہ کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
zمکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنا لیکن عمرہ کی سعی کے بعد حجامت نہ بنوانا نہ ہی احرام کھولنا بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کا انتظار کرنا۔
z 8ذی الحجہ کو ظہر کی نماز سے قبل تلبیہ کہتے کہتے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور 9 ذی الحجہ کو نماز فجر قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر با جماعت ادا کرنا۔
وضاحت : اس کے بعد ایام حج کے تمام افعال وہی ہیں جو حج تمتع کے ہیں۔
z حج قران کرنے والوں پر قربانی ادا کرنا واجب ہے۔
z جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو دس دن کے روزے رکھنے چاہئیں۔
z حج قران کا احرام باندھنے کے لئے قربانی کا جانور ساتھ لے جانا مسنون ہے۔
zحج قران ادا کرنے والے شخص (قارن) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں ایک عمرہ کا‘ دوسرا حج کا اور تیسرا طواف وداع۔
zحج قران ادا کرنے والوں پر دو سعی واجب ہیں۔ ایک سعی عمرہ کی اور دوسری حج کی۔
(ملاحظہ:مندرجہ بالا مضمون، فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی، حفظہ اللہ کی کتاب مسائل حج و عمرہ سے ماخوذ ہے، جو کہ قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔مزید مسائل و تفصیلات کے لئےمذکورہ بالا کتاب انتہائی مفید رہے گی۔ادارہ)

اہمیتِ استحکام اور مستحکم معاشرہ بنانے کے ذرائع

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے ہمیں امن و استحکام کی نعمت عطا فرمائی، میں اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور اسی سے نصیحت و عبرت پکڑنے کی توفیق مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اسی نے فرمایا:

وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ

اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے [الرعد: 8]
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب دعوت دیتے ہوئے حکمت و اقتدار کا استعمال کیا، جب تک دن اور رات رہیں اس وقت تک اللہ تعالی آپ پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا[غافر: 64]

اللہ تعالی نے ہی تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا۔
یعنی تمہارے لیے زمین کو ٹھہری ہوئی بنایا جس میں تمہاری زندگی مستحکم ہو ، تم زمین پر زندگی گزارو، اس پر محنت کرو اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آؤ جاؤ۔
زندگی کے تمام امور کا تعلق استحکام کے ساتھ ہے، زندگی استحکام کے بغیر بے مزا ہے، حصولِ استحکام ہر شخص کا ہدف اور ضرورت ہے استحکام کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
جب تک استحکام سایہ فگن نہ ہو انسان کو زندگی کا مزا نہیں آتا اور نہ ہی خوشیاں اچھی لگتی ہیں ، بلکہ زمین کی آباد کاری کیلیے کچھ کرنے کو دل بھی نہیں کرتا ، انسانیت کیلیے استحکام ہی سب سے بڑا ہدف اور اللہ تعالی کی طرف سے عظیم ترین نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ

ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں استحکام اور فائدہ ہے۔ [البقرة: 36]
دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کا لب لباب اور دنیاوی خوشیاں گلے لگانے کا موقع اسبابِ استحکام پائے جانے سے ہی منسلک ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، جسمانی طور پر صحیح سلامت ہو، اس دن کا کھانا پینا اس کے پاس ہو؛ گویا کہ اس کیلیے دنیا [کی نعمتیں]سمیٹ دی گئی)
مومن کو امن و استحکام کی جستجو کیلیے محنت کرنے کا حکم دیا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا [النساء: 97]

اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں کی روح قبض کرتے ہوئے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: تم کن میں شمار ہوتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: کمزور میں ۔ فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم [امن و استحکام کی جستجو میں]ہجرت کر جاتے؟
استحکام کا معاملہ ہی بہت اعلی اور ارفع ہے، اللہ تعالی نے اہل جنت اور جنتوں کی نعمتوں کو بھی استحکام سے متصف فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [الفرقان: 24]

اہل جنت اس دن مستحکم ٹھکانوں اور اچھی آرام گاہوں میں ہوں گے۔
اور فرمایا:

خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ رہنے کیلیے بہترین اور مستحکم جگہ ہے۔[الفرقان: 76]
دھرتی پر استحکام اور بہتری کے بعد شر انگیزی پھیلانے پر اسلام نے شدید ترین وعید دی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ [البقرة: 204 – 206]

اور لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی بات آپ کو دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے حالانکہ وہ کج بحث قسم کا جھگڑالو ہوتا ہے اور جب اسے اقتدار ملتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے ‘ کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا اور جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کیلیے کہا جائے تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے بس جہنم ہی کافی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے ۔
جس نے بھی زمین پر فساد پھیلایا ، بہتری و ترقی کے نام پر استحکام میں رخنے ڈالے اور یہ دعوی کیا کہ وہ حق پر ہے تو وہ حقیقت میں فسادی ہے جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ [البقرة: 11- 12]

اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین پر فساد انگیزی مت کرو ۔ تو وہ کہتے ہیں: ہم تو بہتری کے خواہاں ہیں خبردار! وہی فسادی ہیں لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔
ربانی منہج کی وجہ سے اسلام مستحکم معاشرے کیلیے سر چشمہ اور منبع ہے، اسلامی تعلیمات میں ہی نفسیاتی ، امنی اور معاشرتی استحکام پنہاں ہے، اسلام ہی بے چینی اور پریشانی کیلیے اکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ [الأنعام: 125]

جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ میں اتنی گھٹن پیدا کر دیتا ہے، جیسے وہ بڑی دقت سے بلندی کی طرف چڑھ رہا ہو۔
اللہ تعالی نے زمین میں جتنے بھی خزانے رکھے اور انسانوں کے اختیار میں جو بھی وسائل دئیے ہیں اسلام ان سب کو استحکام پیدا کرنے کیلیے مختص کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے تابع کر رکھا ہے اس کی اطراف میں [تلاش رزق کیلیے]چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ ، اسی کے پاس تمہیں زندہ ہو کر جانا ہے۔ [الملك: 15]
تمام کے تمام شرعی احکامات اور شرعی مقاصد و ضروریات حقیقت میں انسانی زندگی کے اندر استحکام پیدا کرنے کیلیے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکامات صادر ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ معاشرے میں شرعی مقاصد کو تحفظ ملے، دین و دنیا کی کامیابی کیلیے شرعی مقاصد کا حصول از بس ضروری ہے چنانچہ اگر شرعی مقاصد حاصل نہ ہوں تو دنیاوی مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکتے، بلکہ فساد اور باہمی قتل و غارت ہو گا نیز زندگی ختم ہو جائے گی، شرعی مقاصد یہ ہیں: دین، جان، مال، نسل اور عقل کا تحفظ۔
تعمیر و ترقی کے آرزو مند معاشرے سب سے پہلے استحکام کیلیے بنیادی چیزوں کو راسخ کرتے ہیں، یہی کام رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آمد پر کیا؛ چنانچہ محبت اور سلامتی بھرے پیغام میں استحکام کے تمام مفاہیم جمع فرما دیئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کے وقت نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے) اسلام نے استحکام کیلیے ٹھوس منہج دیا ، جس کی بنیاد بھائی چارے پر مبنی برتاؤ پر ہے، جس میں شدت اور انتہا پسندی کی بجائے باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھائی گئی؛ اس منہج کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینے کا معاشرہ سلامتی ، باہمی محبت اور استحکام کیلیے اپنی مثال آپ بن گیا۔
استحکام جن معاشروں سے چھن چکا ہے ان کے حالات پر نظریں دوڑانے والوں کو ایک لمحہ بھی بے چینی اور پریشانی کے بغیر کے نظر نہیں آئے گا، بلکہ وہاں پر لوگوں کو ہر وقت اپنے جان و مال کی فکر لگی رہتی ہے۔
استحکام کی قدر و قیمت انہی کو معلوم ہے جن سے یہ نعمت چھن چکی ہے ، جو اپنے علاقے سے در بدر ہو چکے ہیں ، اپنے اہل و عیال سے دور ہیں، جنہیں بھوک اور پیاس نے ستا رکھا ہے، یا جن کا ملک افراتفری اور بے چینی کے سامنے ڈھیر ہو چکا ہے، جہاں کی مٹی پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، خاک وطن پر کٹے پھٹے اعضا بکھرے پڑے ہیں اور ہر طرف چور اچکوں اور رہزنوں کا راج ہے۔
ان سب زمینی حقائق سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ گھر بار، مال و جان اور عزت آبرو کیلیے مستحکم امن و امان مومنین کیلیے اللہ تعالی کی زمین پر جنت اور رحمت ہے، بلکہ اقوامِ عالم اور معاشروں کو ملی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ [قريش: 3- 4]

پس اس گھر کے پروردگار کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور دہشت سے امن عطا کیا۔
کسی بھی صاحب عقل و دانش کو اس بات پر شک نہیں ہے کہ استحکام ہی خوشحالی کی بنیاد ہے، اور استحکام ہی دھرتی پر تعمیر و ترقی کیلیے پر فضا ماحول کا درجہ رکھتا ہے۔
استحکام کو دگر گوں کرنے کیلیے افواہیں اور جھوٹی خبریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ، انہیں بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے آگے پھیلانے سے فتنے ابلتےہیں نیز اندرونی اختلافات اور گروہ بندی کو فروغ ملتا ہے، بالکل اسی طرح لوگوں کی زندگی میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے بھی تربیت کے مفاہیم میں تصادم پیدا کر دیا ہے ، جن کی وجہ سے نظریات ڈگمگا گئے ہیں، بہت سے مسلمہ امور اور اخلاقی اقدار منہدم ہو چکے ہیں؛ گویا کہ سوشل میڈیا اس وقت دیوارِ استحکام میں دراڑیں ڈالنے کیلیے کامیاب ترین کدال ہے۔
حرام کاموں کے ارتکاب کو معمولی سمجھنا، سودی لین دین میں ملوث ہونے سے اقتصادی استحکام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [البقرة: 276]

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اللہ تعالی کسی بھی گناہ گار نا شکرے کو پسند نہیں فرماتا۔
نعمتوں کے استعمال میں سرکشی کرنا ، اترانا، فضول خرچی اور بخیلی کے ساتھ نا شکری کرنا معاشرتی استحکام کیلیے خطرہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ [القصص: 58]

اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد آباد نہیں ہوئیں اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث ۔
ہمارے آس پاس کے حالات و واقعات ہمیں سکھا اور پڑھا رہے ہیں کہ ملکی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نیز استحکام کو ٹھوس بنانے کیلیے بھر پور جد و جہد کرنا اور ملکی استحکام میں دراڑیں ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں نمٹنا شرعی اور قومی ضرورت ہے۔
استحکام کو تحفظ ان ذرائع سے ملتا ہے: ایمان راسخ کیا جائے، کتاب و سنت پر سختی کے ساتھ پابندی ہو ، باہمی اتحاد کیلیے اختلافات بھلا کر عملی اقدامات کیے جائیں ، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

جو شخص راہ راست واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے خود رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
استحکام کے حصول اور اسے دوام بخشنے کیلیے علم کے ذریعے اندھیروں کو چھٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ جہالت کی گھٹائیں دور کر کے تعمیر و ترقی کی کرن جگائے، افراط و تفریط میں ملوّث ہوئے بغیر غلط نظریات و عقائد سے محفوظ رکھے؛ کیونکہ علم ہی انفرادی خوشی کی بنیاد اور پورے معاشرے کیلیے ترقی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ [الزمر: 9]
آپ کہہ دیں: کیا جاننے والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟
اللہ تعالی کے فضل کو یاد کر کے شکر الہی بجا لانے سے بھی استحکام کو دوام ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ [ابراھیم: 7]

اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے مکمل طور پر درست انداز میں پیدا کیا اور صحیح تخمینہ لگا کر رہنمائی بھی فرمائی، میں اپنے رب کی لا تعداد و بے شمار نعمتوں پر اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمہ قسم کی خیر بھلائی کی جانب امت کی راہنمائی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کے صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

استحکام کے حصول اور تحفظ کیلیےمعاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں، رفاہی اور خیراتی سرگرمیوں کو پروان چڑھائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران: 104]

اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو خیر و سلامتی کی دعوت دیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
اس آیت کریمہ میں امت کیلیے استحکام کا بنیادی عنصر اسی وقت دیا گیا ہے جب امت میں باہمی کفالت، تعلق، محبت اور الفت پائی جائے گی، رفاہی اور خیراتی کام کسی بھی معاشرے کی خوشحالی اور آسودگی کا سبب ہوتے ہیں؛ کیونکہ وہاں پر یتیم، مسکین، بیوہ اور بیماروں سب کی زندگی خوش و خرم ہوتی ہے، رفاہی خدمات طبقاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کے درمیان آڑے آ جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]

جو شخص بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ [مستحکم]زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے ۔
رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]
یا اللہ! محمد -ﷺ- پر ان کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے اور محمدﷺپر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا اور اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقےہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو خوشحال، ترقی یافتہ اور امن کا گہوارہ بنا دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول کا سوال کرتے ہیں اور ہم جہنم یا اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والی خیر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والے شر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ،جامع ترین ، ظاہر ی و باطنی خیر و بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور تجھ سے جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہمارے تمام گناہ بخش دے، یا اللہ! ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ، بیماروں کو شفا یا ب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں رفع فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو حق بات کی توفیق دے اور تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے ، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! جہاں بھی ہمارے سیکورٹی کے جوان موجود ہیں ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی حفاظت کیلیے اپنی خصوصی رحمت فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر ، مدد گار اور پشت پناہ بن جا، یا رب العالمین!
یا اللہ! ان کے اہل خانہ، اہل و عیال، اولاد، مال و دولت ہر چیز کی حفاظت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201]

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90]

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو ۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔
۔۔۔۔

دورِ جدید اور تذلیل انسانیت

زمینی حقائق اور انسانی دعوؤں میں اکثر تضاد پایا جاتا ہے۔سچائی سے چشم پوشی اختیار کر کے اپنے فکری میلانات کو ترجیح اور فوقیت دینا انسانی فطرت کا خاصّہ ہے۔قوموں کے حالات میں مکمل تغیر و تبدل کسی جزوی تبدیلی سے رونما نہیں ہوسکتا۔انسانوں کی فلاح اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ان کے خمیر میں شامل شرکے مادے کے رخ کو نہ موڑا جائے۔کیونکہ یہ تو فطری تقاضے ہیں ان کو نکال کر پھینکا نہیں جاسکتا، البتہ ان کے رخ کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور یہ کسی حد تک انسان کی دسترس میں ہے۔
ہمارے دانشور یہ دعویٰ کر تے ہیں کہ آج انسان تہذیب و تمدن کی تمام نعمتوں سے سر فراز ہورہا ہے، انسانی تاریخ ایک طویل سفر طے کر کے آج اس نظام کو تشکیل دے چکی ہے جو انسانیت کی فوز و فلاح ، ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔کمیونزم کا بت پاش پاش ہوچکا ہے اور جمہوریت امن و آشتی لے کر آچکی ہے۔جس میں ہر انسان کے مساوی حقوق موجو دہیں، مگر اس دعوے کے بر خلاف موجودہ دور کے حالات کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ تو یہ ہے انسانیت ظلم و استحصال وحشت و درندگی، احترام آدمیت سے محروم ، غربت و افلاس کی چکی میں پستی اور حیوانوں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔پھر فلاح کہاں ہے؟ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کیوں عنقا ہیں؟ یہ کیسا طرزِ حکومت ہے جس میں انسان اپنی بنیا دی ضرورتوں کو بھی پورا کرنے سے لا چار ہے۔موجودہ تہذیب میں شر کی قوتوں کو خیر پر غلبہ حاصل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج کی تہذیب انسان کے گمبھیر مسائل کے حل کے لیے سودمند نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تہذیب اور کوئی بھی قوم اللہ سے تعلق توڑ کر ثمر بار نہیں ہو سکتی، سچ یہ ہے کہ اعلیٰ انسانی اقدار کے بغیر ہر تہذیب جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔
سیاسی چالبا زیوں ،طبقاتی نا ہمواریوں اور حقوق و فرائض کی غیر منصفانہ تقسیم نے دنیا میں غربت و افلاس کو جنم دیا۔ عدل و انصاف کے تقاضوں سے مجرمانہ غفلت اور غریبوں کی پسماندگی سے انسانوں کی بھوک، قحط ،مفلوک الحالی اور احساس محرومی میں اضافہ ہوا۔اللہ نے انسانوں کو آزادپیدا کیا ہے جو اپنی بنیادی ضرورتوں کو پور اکرنے اور جہد للبقا کے لیے ہر لحاظ سے اور زندگی کے ہر گوشے میں اس آزادی کے مستحق ہیںجو قدرت نے اس کی مخلوق ہونے کے ناتے انہیں عطا کی ہے۔لیکن حکومت اور قوانین مرتب کر نے والا اور اس پر عمل کروانے والا طبقہ مراعات یافتہ اور سیاہ و سفید کا مالک بنا بیٹھا ہے۔اس لیے وہ عوام سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور اس سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں خواہ اس کے اس استحصالی عمل سے قومی و ملی مفادات کے بخیے ہی کیوں نہ ادھڑ جائیں۔
مفاد پرستی اور خوغرضی نے ہی مجبور اور بے کس انسانوں کی ذلت آمیز خرید و فروخت کی منڈیوں کو جنم دیا۔غربت و افلاس کے مارے معصوم بچے اور عورتوں کی دنیا کے ہر ملک میں اسمگلنگ شروع ہوگئی۔نیشنل جیو گرافک رسالے کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا میں 27ملین سے زیا دہ خواتین اور بچوں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کا بے انتہا جنسی استحصال ہوتاہے۔آج انسانوں کی خرید و فروخت(Human Trafiking)خورد و نوش کی اشیا کی مانند سہل الحصول ہو چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس روشن اور ترقی یافتہ دور میں بھی کوئی بھی شخص ایک بچے کو ساڑھے تین ہزار میں خرید سکتا ہے۔جبکہ تل ابیب میں ایک لڑکی کی قیمت چار ہزار ڈالر سے زیادہ نہیں۔
افریقہ میں بچوں میں ایڈز پھیلنے کی ایک بڑی وجہ بھی غربت ہے۔افریقہ کے دقیانوسی معاشرے میں یہ مفروضہ عام ہے کہ اگر جسمانی مرض میں مبتلاکوئی مرد کم عمر لڑکی سے کوئی جسمانی تعلق پیدا کرے تو اگر اس لڑکی نے پہلے کسی سےیہ تعلق قائم نہ کیاہو تو ایسی صورت میں جسمانی تعلق قائم کرنے والے مرد کو اپنے مرض سے نجات مل سکتی ہے۔غربت کے مارے والدین دولت کے لالچ میں معصوم بچیوں کو موت کی آغوش میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس جسمانی تعلق سے مرد کو جنسی مرض سے تو نجات نہیں ملتی البتہ وہ معصوم لڑکی خود ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ افریقہ میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں ایڈز کا تناسب زیادہ ہے۔ان تمام حقائق کے شعور کے با وجود بھوک ،افلاس اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر والدین اپنی کمسن اور نو خیز بچیوں اور بچوں کو صاحب ثروت لوگوں کی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے ان ایجنڈوں کے حوالے کر دیتے ہیں ، جو انہیں عیاش لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح ان ہوس پرستوں کو سستی عیاشی میسر آجاتی ہے۔ آج یہ گھناؤنا کارو بار دنیا میں سب سے زیا دہ منافع بخش دھندا بنا ہو اہے۔
بچوں کا جنسی استحصال بر صغیر اور دیگر کئی ممالک میں بھی معمول کی بات ہے۔کچھ سال قبل لاہور کے جاوید اقبال کی طرف سے 100بچوں کا پہلے جنسی استحصال اور بعد میں ان کا انتہائی بے دردی سے قتل ایک ایسا واقعہ تھا جس نے لوگوں کی آنکھوں سے پٹیاں کھول دیں۔لیکن اس بھیانک واقعہ سے ہمارے معا شرے نے کوئی سبق نہیں سیکھابلکہ معاشرے میں بچوں کا جنسی استحصال بڑے بھیانک انداز سے آج بھی جاری ہے کیونکہ اس کی بنیادی وجہ اب تک بر قرار ہے جو کہ غربت ہے۔گلیوں میں کچرا چننے والے بچے، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے سامنے بچی ہوئی ہڈیاں چوسنے والے بچے جنسی استحصال کے لیے بڑی سازگار کھیتیاں ہیں۔ہمارے معاشرے کا فرض ہے کہ وہ طبقاتی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد تیز کرے۔جب تک طبقاتی معا شرہ قائم ہے ،امیر غریب کا فرق بر قرا ر اور معصوم بچوں کا استحصال بغیر روک ٹوک کے جاری رہے گا۔
پاکستان میں بھی جہاں مذہب ، سماجی قدغنوں اور مشرقی اقدار کی دم توڑتی زندگی اس معاشرے کا حصہ ہے، وہاں بھی جسم فروشی حصول دولت کاایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔اس کام میں بیشتر گھر یلو عورتیں( se House Wiv) بھی شامل ہیںجو غربت ، مہنگائی اور احساس محرومی کا شکار ہو کر یہ گھنا ؤنا کام کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان میں صرف پاکستا نی خواتین ہی نہیں بلکہ دیگر مما لک سے اسمگل کر کے لائی جانے والی عورتیں بھی شامل ہیں۔ایک رپورٹ کے مطا بق اس وقت کراچی میں 10لاکھ بنگلہ دیشی اور 2لاکھ سے زائد بر می خواتین ہیں۔پاکستان میں فروخت ہونے والی ایک بنگلہ دیشی یا برمی خاتون کی قیمت 15سو امریکی ڈالر سے لے کر ڈھائی ہزار امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔اور اس قیمت کا تعین خاتون کی عمر،شکل و صورت، فرماں برداری اور اس کی پاک دامنی پر ہوتا ہے۔پولیس ہر سودے پر 15سے 20فیصد تک کمیشن وصول کر تی ہے۔اور اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ان خواتین کے علاوہ8سے 15برس کی بچیوں کو بھی جنسی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس گھنا ؤنے کھیل کے پیچھے غربت ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔
امرا اور صاحبِ ثروت طبقات کی یہ عیش پرستیاں ان کے گھروں اور پانچ ستارے والے ہوٹلوں سے ہوتی ہوئی ایوان اقتدار کے بام و در تک جا پہنچی ہیں، جبکہ مصیبت کے مارے لاکھوں انسانوں کو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے چھوٹا سا سائبان بھی میسر نہیں۔نہ سردی گرمی سے بچاؤ کا کوئی وسیلہ حاصل ہے ۔کبھی جھلسا دینے والی گرمی کے تھپیڑے ان کی زندگی کا خاتمہ کر دیتے ہیں تو کبھی سردی کی خون جما دینے والی ہوائیں ان مظلوموں کو ایک اکڑی ہوئی لاش میں تبدیل کر دیتی ہے۔دنیا کے دکھوں ،مصائب اور انسانوں کی بے بسی اور نا گفتہ بہ حالت سے چشم پوشی اختیار کرکے اپنے ہی عیش و عشرت اور دولت و ثروت کے اسیر ہو کر رہنا، محروم انسانوں کے ذہنوں میں تعصب، انتقام اور ظلم کو جنم دیتا ہے اور یہ طرز عمل دنیا میں تباہی، بربادی،خون ریزی، دہشت گردی اور حیوانیت کی راہیں ہموا ر کرتا ہے۔
انسانی معاشرے میں غیر مساوی ترقی کے نقصانات کو واضح کر تے ہوئے عالمی بینک کے ایک ڈائریکٹر پالس اسٹریٹن لکھتے ہیں: ’’آج دنیا میں ترقی کا مطلب معاشرے کے دشمنوں مثلاً بھوک، بیماری، ناخواندگی، بیروزگاری، غیر مساوی دولت کی تقسیم کا خاتمہ ہونا چاہیے۔اگر ہم اقتصادی پیداوار کے حوالے سے دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یقینا اس ضمن میں تو بڑی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔لیکن اگر یہی صورت حال ملازمتوں کی فراہمی ،سماجی انصاف ، غربت کے خاتمے جیسے زاویوں سے دیکھی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہم اپنے ہدائف(Achivements) میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔تیز رفتاری کی ترقی کے باوجود سماجی تفریق کا خاتمہ نہیں لایا جا سکا‘‘۔اسی بات کو عالمی بینک کے ایک سابق صدر لوئس پرسٹن اس طرح کہتے ہیں: ’’ترقی کے تمام نظریات اس وقت تک مکمل طور پر بے معنی ہیں جب تک کے اس کا فائدہ عوام کو نہ پہنچے اور اس کی زندگی کے حالات بہتر نہ ہوں‘‘۔
انسانوں کی با عزت اور خوش حال زندگی کی تمام تر ذمہ داری ریاست کے اوپر عائد ہوتی ہے۔جب ریاست اپنے عوام کے ذریعہ ملک پر حکمرانی کا حق حاصل کرتی ہے تو اس کے بعد ریاست کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود ، امن و سکون اور احترامِ آدمیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا پورا انتظام و انصرام کرے۔ خواتین اپنی پاک دامنی کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک بے خوف و خطر زندگی گزاریں۔اس کے علاوہ معاشرے میں ہر قسم کے انسانی استحصال کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیا جائے تاکہ تمام شہریوں کو اطمینان قلبی کے ساتھ اپنی استعداد و صلاحیتوں کو استعمال میں لانے اور ان سے فیض یاب ہونے کے مواقع حاصل ہوسکیں۔بورژوا ماہر اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ پرو فیسر والٹ پروسٹو کا مشہور زمانہ نظریہ Rostow\’s stages of growth modle of developmentکا حاصل یہ ہے کہ اس بات پر غور نہ کیا جائے کہ پیداوار کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد معاشرے کے کن طبقوں تک پہنچ رہے ہیں بلکہ اصل غور طلب بات یہ ہے کہ اس پیداوار سے با لآخر ملک کی مجموعی اقتصادی حالت بہتر ہوتی ہے اس لیے اس نظریہ ٔ پیداوار کی مکمل حمایت کی جا ئے۔
کرۂ ارض پر آج بھی انسانی معاشرہ طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔یہ تقسیم فطری اور ابتدائی نہیں بلکہ تاریخ انسانی کے مختلف پیداواری ادوار میں استحصالی قوتوں کے غالب آجانے کے باعث ہوئی ہے۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ استحصالی طبقوں کے اقتدار پر قابض ہوجانے کے باعث عام پیداورای قوتوں اور پیداواری عمل ان کے رحم و کرم پر آگیا ہے۔سرمایہ داراور جاگیر دار نے غریب کو دبانے کے لیے ہمیشہ ریاست کی قوت کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ہمارے وطن میں بھی اس کی مثالیں اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں کہ ہمارے حکمران کن کن راستوں سے ملک کے خزانے اور ملکی وسائل کو اپنے ذاتی ضرورتوں ، بے مقصد اسفار اور اپنے پروٹوکول پر پانی کی طرح بہا تے رہتے ہیں۔اول تو مصیبت کے مارے اور نا مسائد حالات کے ہاتھوں کچلے ہوئے عوام صدائے احتجاج بلند کر ہی نہیں سکتے اور اگر کوئی یہ جرأت کر بھی لے تو ریاستی وسائل کو استعمال کر تے ہوئے ا ن کے ساتھ ایسا وحشیا نہ سلوک کیا جاتا ہے کہ ان کی آواز حلق کے اندر ہی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔
سلطنت برطا نیہ نے جب اپنی وسیع ترین حکومت کی طنابیں کھولنا شروع کیں تو اپنی نو آبادیوں کو آزادی دیتے ہوئے حکومتوں کی باگ ڈور ان ہی کے ہاتھوں میں تھمادی جنہیں نوآبادیا ت میں پہلے سے ہی جاگیریں سو نپی ہوئی تھیں۔یہ جاگیر دار عیش پرست اور نااہل تھے ، اس لیے انہوں نے اپنے اختیارات کا فائدہ اٹھانے اور امور مملکت چلا نے کے لیے برطانوی دور کی تربیت یافتہ سول بیورو کریسی کو ہی استعمال کیا۔اس بیورو کریسی کی وفاداریاں کبھی بھی اپنے ملک کے غریب عوام کے لیے نہیں رہیں۔
جدید مشرقی عورت کے مصائب کا سب سے بڑا سبب بھی افلاس ہے۔اگر اس کا خاتمہ ہوجائے تو عورت کے بیشتر مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔اس کے ساتھ ہی اس کی کھوئی ہوئی عزت و احترام بھی حاصل ہو جائے گا۔اور پھر اس کو گھر سے باہر جا کر ملازمتیں تلاش کر نے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ان تمام ذلتوں، آلائیشوں، جنسی استحصال، انسانوں کی خرید و فروخت اور اخلاق باختہ منڈیوں کے خاتمے کا واحد علاج اسلام کا سائبان ہے۔مذہب کا صحیح شعور ہی انسان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔مذہب کے بغیرزندگی میں کوئی معنویت سرے سے باقی ہی نہیں رہتی۔دین کی بنیادی خصوصیت آخرت کا عقیدہ ہے۔اس عقیدے کے بعد کرہ ارض پر انسان کی زندگی نئی وسعتوں کے دامن چھونے لگتی ہے اور انسان کے سامنے امکانات کے نئے نئے افق ابھرنے لگتے ہیں کہ وہ اگر نہ ہوں تو انسان ہیچ میرزی کے اذیت ناک احساس کا شکار ہوجائے۔حیات کے بعد موت کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی مجموعی عمر میں سے ایک معتد بہ حصہ حذف کر دیا جائے اور اسے اپنی اندھی بہری خواہشات اور تو ہمات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔اس کے بعد انسان اپنی خواہشات نفس کی آسودگی میں گم ہوجاتا ہے اور اس کی کوششوں کا ہدف صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ جتنی مسرتیں وہ سمیٹ سکتا ہے سمیٹ لے اور کسی کو ان میں شریک نہ کرے۔ یہیں سے رقابتیں اور وحشیانہ جنگیں جنم لیتی ہیں، کیونکہ خواہشات کے بندوں کی اس دنیا میں ہر کوئی اپنے سامنے پھیلے ہوئے خوانِ یغما پر بڑھ بڑھ کر ہاتھ مارنا چاہتا ہے۔اور زیادہ سے زیادہ فائدے کم سے کم وقت میں خود سمیٹ لینا چاہتا ہے۔اس کے دل میں کسی بالا تر ہستی کا خوف نہیں ہوتا، کیونکہ اس دنیا کا نہ کوئی رب ہوتا ہے اور نہ کوئی نظامِ عدل و انتقام۔
عورت کا مسئلہ ہو یا مرد کا ،اسلام اور اسلام ہی اس کو حل کر سکتا ہے۔اس لیے ہم مردوں ،عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا سب سے پہلا فرض ہے کہ مل جل کر ایک صحیح اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشش کریںاور اپنی زندگیوں کو اسلامی قا نون کے مطابق ڈھالیں اور جب ہم یہ کرلیں گے تو عمل کی دنیا میں اپنے عقائد اور نظریات کو بھی غالب کر سکیں گے۔زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے حصول کی یہی واحد راہ ہے، جو ہر قسم کی بے انصافی، جورو ستم اور جبر و استبداد سے پاک ہے۔
حوالہ جات
1- CATW Fact Book, Citing Gabrel, Diana Mendoza, April 1966.
2- Manila Hails Child Sexcase, \”ECPAT Bulletin, March April 1966.
3- CATW Fact Book, Citing Department of Social Welfare and Development 375000 Filipino Women & Kids are into Prostitution, Philippino Daily Inquirer, 26 July 1997.
4- National Geograpic, Sep 2003.
5۔ افلاس، سماجی نا ہمواریاں اورترقی کا تصور، مؤلف: ریاض احمد شیخ، مطبوعہ: فکشن ھاؤس، 18مزنگ روڈ، لاھور۔
6۔اسلام اور جدید ذہن کے شبہات،مؤلف: محمد قطب، مطبوعہ: البدر پبلی کیشنز، اردو بازار، لاھور۔
٭٭٭

انسان کامقصد حیات(قسط 1)

حکیم و علیم کی اس عظیم الشان صنعت و خلقت،اس کائنات کی ایک ایک شے پر غور کریں تو اسکے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے،جو اسکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ،اور اس شے کے بغیر اس کائنات کا وجود ادھورا معلوم ہوتا،اور اسکے مقصد کے بغیر اس کائنات کا نظام چل نہ پاتا،حتی کہ مکھی ،مچھر،کیڑے مکوڑے بھی اپنے وجود کا مقصد رکھتے ہیں،اگر وہ ایک منٹ کے لئے بھی اپنے مقصد سے غافل ہو جائیں تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے،مثلا:ایک چیونٹی اپنے مقصد حیات کو فراموش کردے تو زمین پر بدبو،کچرا اور تعفن سے زندگی دشوار ہوجائے،یہ تو بہت ہی معمولی مخلوقات ہیں،سوچیں اگر بڑی مخلوقات اپنا کام چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
کیا ہوگا اگر سورج رک جائے،یا چاند طلوع نہ ہو،ستارے بے نور ہوجائیں یا سمندر ہم پر چڑھ دوڑے،یا زمین سبزہ اگانا چھوڑ دے، آسمان برسنا چھوڑ دے یا پانی زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں چلا جائے؟
کیا ہو اگر ہمیشہ دن رہے یا رات کبھی ختم نہ ہو،سردی ہمیشہ رہے یا گرمی کبھی ختم نہ ہو،اگر ہوا ہمیشہ چلتی رہے کبھی رکے نہیں،یا ہمیشہ رکی رہے کبھی چلے نہیں،پانی بہنا چھوڑدے یا کبھی رکے نہیں،چرند و پرند بولنا چھوڑدیں یا ہمیشہ بولتے ہی رہیں،آتش فشاں پھٹنا چھوڑدیں ،یا ہمیشہ لاوا اگلتے رہیں؟
یقیناً ہر چیز بے مقصد ہوکر رہ جائے گی،گویا ہر شے کا کوئی نہ مقصد ضرور ہے،آنکھ کھلنے سے آنکھ بند ہونے تک ہر انسانی فعل شاھد ہے کہ کچھ بھی بے مقصد نہیں،اور کچھ اس کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں،جیسا کہ باری تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

آسمان و زمین کی بناوٹ اور رات دن کے آنے جانے میںیقیناً عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں،جو کھڑے، بیٹھے،اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں، آسمان و زمین کی بناوٹ میں غور و فکر کرتے ہوئے، ہمارے پروردگار تو نےیہ سب بے کار پیدا نہیں کیا،ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں،پس ہمیں آگ کی سزا سے بچالے۔ (آل عمران:190-191)
خالق و مالک کائنات کا یہ فرمان شاہد ہے کہ ہر شے بامقصد ہے اور محض غور و فکر کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے،اور اس تدبر و تفکر کےانسانی حیات و سلوک پر نہایت مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں،لامحالہ وہ سراغ زندگی کی تلاش میں مگن ہوجاتا ہے،اور آخر کا ر مقصد حیات کو پالیتا ہے،جبکہ بہت سے لوگ اس حقیقت سے جان چھڑانے کی کوشش میںبہت سے متعلقہ حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں، جیسا کہ علیم و حکیم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ هَؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ إِنْ هِيَ إِلَّا مَوْتَتُنَا الْأُولَى وَمَا نَحْنُ بِمُنْشَرِينَ

یہ لوگ کہتے ہیں،ہماری پہلی بار کی موت ہی فیصلہ کن ہے،ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جانا۔ (الدخان:34-35)
انکا موت کے بعد دوبارہ زندگی کا انکار کرنا موجودہ زندگی کے مقصدکے انکار کو لازم ہے،حالانکہ خود یہ لوگ بھی کوئی کام بے مقصد نہیں کرتے،اگرچہ وہ مقصد حصول لذت یا وقت گذاری ہی کیوں نہ ہو،اسکے باوجود وہ زبان سے
انسان کی مقصدیت کے منکر ہوتے ہیں ،یا اسکے مقصد
حقیقی سے جاہل ہوتے ہیں۔
توجبکہ ہر شے با مقصد ہے تو کیسے ممکن ہے کہ اس کائنات کی سب سے افضل و اشرف مخلوق،سب سے ذہین و طاقتور مخلوق،سب سے خوبصورت مخلوق،خالق کی صناعی کا سب سےکامل و اعلی نمونہ،اس کائنات میں بے مقصد رہ جائے،اسکا کوئی مقصد ہی نہ ہو؟انسان کی تخلیق کو بے وجہ قرار دینا خالق و مالک کی حکمت و دانش پر قدغن لگانے کے مترادف ہے،جبکہ وہ ہر عیب و نقص سے پاک ہے،چنانچہ اس کائنات میں حضرت انسان کے وجود کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہے،جیسا کہ باری تعالی نے فرمایا:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ

کیا تم نے سمجھا کہ ہم نے تمہیں بےمقصد پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر نہیں آنا؟پس بڑا بلند ہے اللہ جو حقیقی مالک ہے،اسکے سواکوئی معبود نہیں اور وہ عرش کریم کا حاکم ہے۔(المومنون:115-116)
یعنی اسقدر عظمت و مرتبت والا خالق کوئی بھی کام بے مقصد کیسے کرسکتا ہے؟خصوصاً انسان جیسی افضل مخلوق کی زندگی بے مقصد کیسے ہو سکتی ہے؟جبکہ اسکے روز مرہ کے معمولات بلا مقصد نہیں ہوتے،اسکی ہر حرکت کا کوئی نہ کوئی مطلب ضرور ہوتا ہے۔
وہ مقصد کیا ہے؟
مقصد جاننے کے لئے پہلے چند چیزوں کا جاننا ضروری ہے ،کیونکہ انکی معرفت پر مقصد کی معرفت موقوف ہے،چونکہ بات ہورہی ہے انسان کے مقصد حیات کی لہذا پہلے انسان کو سمجھنا ہوگا،انسانی حیات کو سمجھنا ہوگا،اسکے بعد مقصد حیات کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔
انسان کیا چیز ہے؟:
”انسان“ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت،سب سے اشرف مخلوق،سب سے کامل صناعی ہے،خود صانع اس بات کی قسمیں اٹھا کر شھادت دیتا ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ

قسم ہے انجیر و زیتون کی اورطور سیناء اور اس امن والے شہر کی یقیناً ہم نے انسان کو سب سے عمدہ سانچے میں بنایا۔(التین:1-4)
مخلوقات عالَم جسقدر صفات کمال سے متصف ہیںوہ سب انسان میں یکجا ہیں،اور انسان ان سب سے ممتاز ہے،جیسا کہ خالق کائنات نے فرمایا:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا

ہم نے انسان کو عزت عطا کی،اور انہیں بحر و بر پر سوار کیا،اور انہیں عمدہ چیزیں کھانے کو دیںاور انہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری عطا کی۔(الاسراء:70)
ہر شے کی فطرت و جبلّت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شے مختلف صفات کی حامل ہے،لیکن کچھ صفات ایسی ہیں جو ایک مخلوق کو دوسری مخلوق سے ممتاز بناتی ہے، انہیں صفات کمال کہا جاتا ہے،مخلوق کی صفات کمال یہ ہیں:1وجود2 لوازمات وجود(میٹیریل)3 نشوونما 4 احساس | 5 شعور 6 حرکت ارادی 7 نطق 8 عقل 9 فکر و تدبروغیرہ
اور مخلوقات مختلف انواع و اقسام کی ہیں،جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان،وغیرہ
جمادات”وجوداورلوازمات وجود“ کے سوا بقیہ صفات سے محروم،نباتات”وجوداورلوازمات وجود“ اور” نشونما“ کے سوا بقیہ صفات سے محروم، حیوانات”احساس،شعور، حرکت ارادی“کے سوا بقیہ صفات سےمحروم،جبکہ حضرت انسان مذکورہ صفات کے ساتھ ”نطق و عقل و تعقل“ جیسی ا علی صفات سے بھی متصف ہے۔
اس میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خالق و مالک نے ہر مخلوق کو اسکی مقصدیت کے مطابق صفات و کمالات سے نوازا،پہاڑوں کو مضبوط بنایا تاکہ وہ زمین کے لئے میخوں کا کام دیں،آسمانوں کو انسانی پہنچ سے بہت بلند بنایا تاکہ انسان اس کائنات کی وسعت اور خالق کائنات کی قدرت کا اندازہ کرسکے،پانی کو ٹھنڈا اور بہنے والا بنایا تاکہ یہ ہر ایک کی دسترس میں رہے کیونکہ یہ ہر ایک کی بنیادی ضرورت ہے،دنوں کو روشن بنایا تاکہ یہ کاروبار دنیا نمٹانے اور حصول رزق کا وقت ہو،راتوں کو تاریک بنایا تاکہ یہ سکون اور راحت اور آئندہ کی پلاننگ کا وقت ہو،زمین کی سطح کو ہموار بنایا تاکہ اس پر چلنے پھرنے میں دشواری نہ ہو،الغرض آپ غور کرتے جائیں ایک ایک ذرے میں آپکو بڑے اسرار و رموز معلوم ہوتے جائیں گے،سب سے بڑھ کر انسان کا مادی وجود کائنات کی سب سے اعلی انجینئرنگ اور صناعی ہے۔
انسان مقصود اصلی ہے:
انسان کی اہمیت وافضلیت کو اسطرح بھی سمجھیں کہ انسان حقیقت اصلیہ ہے،جبکہ دیگر خلائق حقیقت تبعیہ،باالفاظ دیگر انسان مخدوم ہے جبکہ ساری کائنات خادم،اسطرح کہ غور و فکر کرنے پرہر ہرشے انسان کے تابع اور اسکی خدمتگارمعلوم ہوتی ہے،جبکہ انسان متبوع و مخدوم معلوم ہوتا ہے، شجر و حجر ہوں یاپانی و آگ،چرند و پرند ہوں یادرندے و حشرات الارض،کوئی قدرتی دھات ہو یا مصنوعی میٹریل،ہر چیز انسان کے آگے عاجز و بے بس اور اسکے لئے مسخر ہے۔
مالک کائنات نے اپنے کلام حکیم میں بارہا بار اس حقیقت کو اجاگر کیا،ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
وہی ہے جس نے زمین کا سب کچھ تمہارے لئے بنایا۔ (البقرۃ:29)
نیز فرمایا:

اللهُ الَّذِي سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْكُ فِيهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو تمہارے تابع کردیا،تاکہ اس میں اسکے حکم سے کشتیاں چلیں،اور تاکہ تم اسکا فضل تلاش کرو،اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ،اور آسمان و زمین کی ہر شے اسی نے تمہارے تابع کی،یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔(الجاثیہ:12-13)
نیز فرمایا:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً

کیا تم نے دیکھا نہیں؟کہ اللہ نے آسمان و زمین کا سب کچھ تمہارے تابع کردیااور تم اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کی بھرمار کردی ۔(لقمان:20)
ان آیات کے بمصداق انسان کا مخدوم جبکہ دیگر اشیاء کا خادم ہونادلیل ہے کہ انسان اس کائنات کا مقصود اصلی ہے،اسی کی خاطر اس کائنات کو وجود بخشاگیا،لیکن یہ کائنات انسان کا مقصود نہیں کیونکہ انسان اس سے اعلی و افضل ہے،جبکہ بقیہ مخلوق مفضول علیہ ہےاور معمولی و حقیر شے افضل و اعلی کا مقصود کیسے ہوسکتی ہے؟۔
جب ثابت ہوگیا کہ انسان اس کائنات کی سب سے افضل شے ہے تو لا محالہ اسکی حیات اور مقصد کا افضل ہونا بھی ضروری ہے،وہ مقصد کیا ہے یہ ہم آئندہ سطور میں بیان کریں گے۔
حیات کیا ہے؟:
زندگی کیا ہے؟”حیات “ضد ہے” موت“ کی،اور ان دونوں کا تعلق مخلوق سے ہے،کیونکہ خالق تو ”حي لا يموت“ہے،جس طرح مخلوق کے مراتب ہیں،اسی طرح حیات و موت کے بھی مراتب ہیں،جو مخلوق گذشتہ سطور میں بیان کردہ صفات میں سے جسقدرزیادہ صفات سے متصف ہوگی اسکی حیات بھی اسی قدر کامل ہوگی،مثلا: حیوانات کی حیات نباتات سے،جبکہ نباتات کی حیات جمادات سے بہتر ہے اور انسان کی حیات ان سب سے بہترہے،باالفاظ دیگر،زمین گردش میں ہے،سمندر موجزن ہے،حیوان پروان چڑھ رہے ہیں،شجر لہلہارہے ہیں، حجر قائم و مستقر ہیں،بادل برستے ہیں،زمین اگاتی ہے،انسان کھاتاہے،دن و رات جاری ساری ہیںیہ سب ”حیات“ہے،اس سب کا رک جانا ”موت“ ہے، لیکن انسانی حیات دیگر خلائق کی حیات سے مختلف ہے، اسطرح کہ پوری کائنات انسان کی ضرورت ہے ،یعنی ہر شے کی حیات کا مقصد انسان ہے،لیکن انسان کی حیات کا مقصد نہ تو یہ کائنات ہے ،نہ ہی خود انسان۔
ہر شے کی حیات ”انسانی حیات“ کے لئے ہے:
انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے قدرت نے اس میں اسکی ضروریات کو مہیا کردیا،زمین بود و باش اورخوراک کے لئے،ہوا سانس لینے کے لئے،پانی پیاس بجھانے کے لئے،گرمی، روشنی ،غلہ و میوہ جات کی اگائی و پکائی کے لئےبارش وسورج کا انتظام کیا،بلکہ بقول مولانا شمس الحق افغانی:
قدرت نے اپنی فیاضی کو ضرورت کی حد تک محدود نہیں رکھا،بلکہ انسان کے لئے ضروریات کے علاوہ زیب و زینت اور جمال و تحسین کا سامان بھی فراہم کردیا،اگر قدرت کو صرف انسان کی حاجت اور ضرورت کو پورا کرنا ہوتاتوزمین کی معدنیات میں سے وہ صرف سونا، چاندی، لوہا، تانباپٹرول نمک وغیرہ کو پیدا کرتا،کیونکہ ضروریات انسانی انہی سے وابستہ ہے،لیکن قدرت نے ان اشیاء کے علاوہ پہاڑوں کی جیب کو مختلف جواہرات،یاقوت، لعل،ہیرا،زمرد،فیروزہ سامان تزئین و تحسین سے بھی بھر دیا،اسی طرح نباتات میں انسانی ضرورت کی صرف تین چیزیں ہیں: غلہ،پھل،دوا،غلہ کھایا جاتا ہے،پھل سے تلذذ حاصل کیا جاتا ہے،اور بوٹیوں سے علاج معالجہ کا کام لیا جاتا ہے،لیکن عزیزوقدرت کے نظام ربوبیت کو دیکھو،کہ اس نے ان نباتاتی ضروریات کے علاوہ انسان کو مختلف پھولوں اور خوشنماپودوں کا وہ ذخیرہ بھی بخش دیاجسکی بوقلمونی اور تنوع انسانی نگاہ کے لئے کیف انگیزاور فرحت بخش ہے،اسی طرح حیوانات میں انسان کی ضروریات مویشیوں کے چار قسم کے جوڑوں سے وابستہ ہے،اونٹ،بیل،بکری،دنبہ،لیکن قدرت نے خوبصورت پرندوں کی ایک بڑی تعداد بھی پیدا کردی،جو ذوق انسان کے لئے سامان زیب و زینت ہیں،اس سے معلوم ہوا کہ قدرت کا مقصد صرف حاجت روائی نہیں،بلکہ تحسین و جمال بھی ہے،ان تمام ضروریات کو اور سامان زیب و زینت کو قدرت نے انسان کے لئے اس وقت مہیا کیا،جبکہ انسان اس دنیا میں نہیں آیا تھا، اب پوری دنیا کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کے لئے سامان زینت و ضروریات مہیا کرے،اب رہ گیا یہ سوال کہ جس کو اتنے بڑے کارخانہ جہاں کی سروری بخشی گئی ہے خود اسکی زندگی کا مقصد کیا ہے؟۔
کیا یہ مقصد ہو سکتاہے؟:
گذشہ سطور میں بیان کردہ قدرت کی فیاضیوں کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی حیات کا مقصد قدرت کی نوازشات کو سمیٹنا،ان سے لطف اندوز ہونا ہے،قدیم یونانی اور جدید مغربی فکر کا بھی یہی فیصلہ ہے،دیمقراطس حکیم کے زمانے میں ایتھنز میں یونانی فلاسفہ نے انسانی زندگی کے مقصد کے متعلق یہی فیصلہ دیا تھا کہ وہ لذت کے حصول کی کوشش میں لگا رہے،اسکے بعد حکمائے یورپ نے بھی قریبا یہی فیصلہ دیا کہ انسانی مقصدحیات لذات کے حصول کے سوا کچھ نہیں، سائنسدانوں کے نزدیک جو سیکھا اسے آگے ،منتقل کرنا ہے، اسکے سوا بھی مختلف مقاصد بیان کئے گئے مثلا:خود کو منوانا،جنگ و جدال کرنا،موج مستی کرنا،دنیا کمانا، خدمت کرنا،خدمت کروانا،خوشی تلاش کرنا، وقت گزارنا وغیرہ وغیرہ،حاصل سب کا ایک ہے،یعنی لذت و سرشاری کا حصول۔
دراصل یہ سب مادی اور خالق کے تصور سے خالی افکار کا نتیجہ ہے،حالانکہ بادی النظر میں انکا مقصد ہونا محال ہے،کیونکہ اگر انسانی زندگی کا یہی مقصد ہے تو پھر اس میںاور حیوان میں کیا فرق رہا،بلکہ مادی لذت کے حصول کے اعتبار سے تو حیوان انسان سے برتر ہے، انسان کو لذت کے حصول کے لئے تخم ریزی، سیرابی، رکھوالی،پکائی،کٹائی،چنائی،چھنٹائی،پسائی وغیرہ کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے،جبکہ حیوان خود رو گھاس سے لذت حاصل کرلیتا ہے،انسان کے لئے جو مزہ لذیذ پکوان میں ہےحیون کے لئے وہی مزہ گھاس میں ہے، بلکہ انسان کی اس لذت میں دکھ درد کی آمیزش ہوتی ہے جبکہ حیوان ہر دکھ درد سے بالاتر ہو کر لذت حاصل کرتا ہے،قربانی کا جانور ذبح کئے جانے سے چند لمحے پہلے تک مسرور ہوتا ہے،جبکہ انسان ہر طرح کی آسائش میں بھی مختلف اندیشوں سے گھرا رہتا ہے،اس لئے اسکی لذت کی کبھی بھی تکمیل نہیں ہوپاتی۔
اس بحث میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ بے پناہ اور لا محدود مسائل کا ماہر ہو نے کے باوجود انسان محض اپنی عقل و فکر کی بنا پر خود اپنی ذات کا مقصد معلوم نہیں کرسکا،نہ ماضی کے عبرت انگیز اسباق اور افکار میں، نہ ہی حال کی حیران کن ترقی میں، کیونکہ اس نے محض اپنی عقل پر بھروسہ کیا، اور اپنے خالق و مالک کی رہنمائی کی ضرورت کو محسوس نہ کیا،نتیجہ آج بھی کٹی پتنگ ،اور بے لگام گھوڑےکی طرح اپنی منزل مقصود کی تلاش میں سرگرداں ہے۔

مقصد و ضرورت میں فرق:

انسان کی ایک غلطی مالک کائنات کی رہنمائی سے اعراض ہے اور دوسری غلطی ضرورت اور مقصد میں فرق نہ کرنا ہے،غلطی سے وہ ضرورت کو مقصد سمجھ بیٹھا،سونا،جاگنا، نہانا،دھونا،اوڑھنا،پہننا،بچھونا،کھانا،پینا،محنت،مزدوری، کاروبار، تجارت،صنعت،حرفت،شادی بیاہ، بیوی بچے، میل جول،وغیرہ یہ سب انسانی ضروریات ہیں،کچھ بنیادی ضروریات ہیں جو اسے دیگر حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں،یا جن کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، مثلا: لباس اور خوراک،جبکہ کچھ اضافی ضروریات ہیں، مثلا:عمدہ لباس اور عمدہ خوراک،ان میں سے کچھ بھی مقصد حیات نہیں،کیونکہ ناموں اور طریقہ کار کے اختلاف کے ساتھ یہ سب کام دیگر حیوانات بھی کرتے ہیں، قدرت نے انہیں بالوں یا رنگین کھال کا لباس عطا کیا،وہ بھی خوراک کے لئیے محنت کرتے ،لڑتے ہیں،نسل بڑھاتے،ریوڑ بناتے،افزائش اور اپنی نسل کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اگر انسان کا مقصد حیات بھی اسی طرح کے امور کو مان لیا جائے تو اس میں اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا،چنانچہ ان امور کو مقصد حیات قرار نہیں دیا جاسکتا،یہ محض انسانی عادات اور ضروریات ہیں،انسانی طبیعت و فطرت کے تقاضے ہیں جنہیں پورا کئے بنا اسکی زندگی گذر نہیں سکتی،جبکہ مقصد کے بغیر زندگی گذر سکتی ہے،لیکن وہ زندگی کا ضیاع ہے،اگرچہ کتنی ہی پر آسائش ہو،یاکتنی ہی تکالیف میں بسر ہو،یہ ایسے ہی ہے جیسےگھڑی کامقصد وقت کے سفر کا اندازہ کرنا ہے،لیکن اگر وہ غلط سمت میں حرکت کرے تو اسکا وجود بے مقصد ہوجاتا ہے،حالانکہ اسکا ہر پرزہ متحرک ہے،ایسے ہی اگر شہد کی مکھی اِدھر اُدھر منڈلاتی رہے،کبھی اس ڈال پر ،کبھی اس پھول پر ،پر شہد نہ بنائے تو مکھی کی زندگی عبث اور بیکار ہے،حالانکہ اس نے زندگی کو انجوائے کیا، گویا محض روزمرہ کی روٹین(ضروریات و عادات) کو پورا کرتے ہوئے مرجانا زندگی کا مقصد نہیں،کیونکہ یہ انسان کی زندگی ہے۔
مقصد اور ضرورت یہ دونوں الگ الفاظ ہیں انکے معانی و مفاہیم بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں،ایک خوبصورت اور عالیشان عمارت بناکر اسے مسجد کا نام دیا جائے پر اس میں پنجوقتہ نماز کا اہتمام نہ کیا جائے تو اسکی خوبصورتی و مضبوطی بے کار ہے،کیونکہ در و دیوار مسجد کی ضرورت ہیں ،مقصد نہیں،مقصد پنجوقتہ نماز کا اہتمام ہے اوراہمیت بھی اسی کی ہےکیونکہ یہ مقصد چھپڑے کی مسجد میں بھی حاصل کیا جاسکتا ہے،پیٹ بھرنے کے لئے مرغ مسلّم کھایا جائے یا دال روٹی ،بھوک دونوں سے برابر مٹتی ہے،اور اہمیت بھوک کو مٹانے کی ہے،نہ کہ بھوک مٹانے کےذرائع کی،گویااصل اہمیت مقصد کی ہے نہ کہ ضرورت کی”ضروریات“احوال و ظروف کے مطابق بدل سکتی ہیں لیکن ”مقصد“ کبھی نہیں بدلتا،لہذاضرورت و مقصد کے فرق کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے۔
مقصد کا تعین کون کرے گا؟
سچ تو یہ ہے کہ انسان اس قابل نہیں کہ اپنے خالق و مالک کی رہنمائی کے بغیر اپنی زندگی کا مقصد متعین کرسکے،اگر محض عقل کے ذریعے یہ ممکن ہوتا تو انسان جو ہزاروں سال سے اس دنیا میں آباد ہے اورجس نے اپنی عقل سے حیران کن کارنامے سرانجام دیئے اب تک اسی عقل اور تجربےکے ذریعے اپنی زندگی کا مقصد بھی معلوم کرلیتا،یا کم از کم کسی ایک نکتے پر اتفاق کرلیتا،مگر انسانی گروہوں کا مقصد کے تعین میں اختلاف بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اپنی عقل اور تجربے کی بنیاد پر ایسا کرنے سے قاصر ہے،کہا جاتا ہے ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“اگر سفر درپیش نہ ہوتا تو پہیہ ایجاد نہ ہوتا لیکن ”مقصد“ضرورت اور ایجاد دونوں کا باپ ہے،کیونکہ اگر منزل مقصود نہ ہوتی تو سفر بھی درپیش نہ ہوتا،اور منزل مقصود کے تعین کے لئے اسکا علم ہونا ضروری ہے،کیونکہ جب تک منزل کاعلم نہ ہو سفر کی سمت کا تعین بھی ناممکن ہے،چنانچہ منزل کے علم کے لئے کسی رہنما کی رہنمائی ازحد ضروری ہے،اور وہ رہنما خالق انسان و مالک کائنات کے سوا کون ہوسکتا ہے؟ کیونکہ انسان جمیع مخلوقات میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہے لیکن سب کچھ نہیں جانتا،مثلاً:وہ نہیں جانتا کہ آسمان کے اوپر کیا ہے،کتنے ستارے اور کہکشائیں ہیں،آج تک انسان اپنے مادی وجود کو پوری طرح نہیں جان سکا،روح کے متعلق بالکل کورا ہے،اگر جانتا ہوتا تو محض اپنی ہستی کے بل بوتے پر مقصد حیات کو جان لیتا ،کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم ہو اسکا علم خالق کے علم کے مقابلے میں نہایت قلیل ہے، جیسا کہ علیم و خبیر نے ارشاد فرمایا:

وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا

تمہیں تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔(الاسراء:85)
لیکن خالق رحیم و کریم نے انسان کو اپنے نمائندوں پر نازل کردہ وحی کے ذریعےان تمام علوم سے بہرہ ور کردیا جو اسکی زندگی کے لئے ضروری تھے،جن میں سر فہرست مقصد حیات کا علم ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

انسان کو وہ کچھ سکھایا جسکا اسے علم نہ تھا۔(العلق:5)
(نوٹ)آئندہ سطور میں ہم مقصد حیات پر روشنی ڈالیں گے لیکن اس سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ :
انسان اشرف المخلوقات ہے لہذا اسکے مقصد کابھی اشرف المقاصدہونا ضروری ہے۔
دائمی زندگی کی آرزو ہمیشہ سے انسان میں رہی ہے،اور یہ تمنا تمام انسانوں میں یکساں ہے،انسانی طرززندگی اور اسکا طرز فکر اس بات کی دلیل ہے،وہ ساری زندگی تیاری کرتا ہے ،بہت سی دولت اکھٹی کرتا ہے،عالیشان محل اور ناقابل تسخیر قلعے تعمیر کرتا ہےگویا ہمیشہ زندہ رہے گا۔
قدیم و جدید انسانی عقائد،الہامی کتب ،ان سب کے مطابق انسان کا جسم مرجاتا ہے لیکن اسکی روح زندہ رہتی ہے، حتی کہ جدید سائنسی تحقیقات بھی روح کو حقیقت ماننے پر مجبور نظر آتی ہیں،اسکے سیلز کا کبھی نہ مرنا، خود کو ٹھیک کرلینا،اسکا ڈی این اے،اسکی میموری کا لامحدود ہونا،اسکا شعور،لاشعور،تحت الشعور،مرنے کے بعد اسکی دمچی کا باقی رہنا،اسکی دمچی میں اسکے سارے ڈیٹا کا محفوظ ہوناایسی بہت سی علامات ہیں جو بتاتی ہیں کہ انسان ہمیشہ جینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے،جب ایسا ہے تو زمینی زندگی کا عارضی ہونا اور زمینی زندگی کے بعد دائمی زندگی کا شروع ہونا خودبخود ثابت ہوجاتا ہے،اوریہ ان بہت سے حقائق میں سے ایک ہے جنکی تہہ تک انسان کبھی پہنچ نہیں سکا ،خلاصہ یہ کہ دنیاکی عارضی زندگی اور موت کے بعد کی دائمی زندگی(اُخروی زندگی) کا تصور عقلی و فطری اور عدل کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے ضروری ہے،لہذا اس عارضی حیات کے مقصد کا تعلق دائمی حیات سے ہونا ناگزیر ہے۔
اسلامی عقیدے کے مطابق انسان ہمیشہ جینے کے لئے پیدا کیا گیا ہے،البتہ اسے عارضی زندگی دے کر زمین پر بھیجا گیا تاکہ یہ دائمی زندگی کی تیاری کرسکے،قدیم آفاقی مذاہب(محرفۃ) مثلاً:یہودیت و عیسائیت کا بھی یہی نظریہ ہے۔
مقصدِ حیات انسانی کا حقیقی تصور:
منزل کے علم کے لئے کسی رہنما کی رہنمائی ازحد ضروری ہے،اور وہ رہنما خالق انسان و مالک کائنات کے سوا کون ہوسکتا ہے؟کلام الہی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر انسان کی آبادی کا فیصلہ ازلی تھا،اللہ تعالی کا ازل سے ہی انسان کو زمین پر بسانے کا ارادہ تھا جسکا اظہار اس نے انسان کی تخلیق سے قبل فرشتوں کے سامنے کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین پرخلیفہ( نائب) بنانے والا ہوں،انہوں نے کہا:کیا تو اس میں بنانے والا ہے اسے جو اس میں فساد مچائے گا اور خون بہائے گا،حالانکہ ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں؟اللہ نے فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔(البقرۃ:30)
اس آیت میں لفظ”خلیفۃ“سے مراد انسان ہے،جیسا کہ اگلی آیت میں آدم کا ذکر اس بات کی دلیل ہے،نیز لفظ ”انی جاعل“اور”قالوا اتجعل“ سے واضح ہے کہ یہ واقعہ آدم کی تخلیق سے پہلے کا ہے۔
ایک اور مقام پرارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا:میں انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے بنانے والا ہوں۔ (الحجر:28)
نیز فرمایا:

إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ

یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سےکہا:میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔(ص:71)
یہ آیت دلیل ہے کہ مٹی کا وجود انسان کی تخلیق سے پہلے بھی تھا،جبکہ دیگر آیات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پانی بھی پہلے سے موجود تھا،گویا اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق سے قبل ہی اسکے زمین پر بسانے کے عارضی انتظامات کردیئے تھے۔واللہ اعلم
البتہ اسکی تخلیق کے بعد اسے اسکے دائمی ٹھکانےبہشت کا دورہ کروایا گیاتاکہ دنیا اور دنیاوی زندگی کی ناپائیداری اور بے ثباتی اس پر ثابت ہوجائےاور یہ دنیا میں بھی آخرت کا مشتاق رہے،اسکی تیاری میں لگا رہے،گویا دنیاوی زندگی اور دنیا کی ہر شے ایک عارضی سیٹ اپ ہے،کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہر ہر شے روبزوال ہے، کسی بھی شے کو دوام نہیں،خواہ سر بفلک چوٹیاں ہوں یاپاتال کی گہرائیاں،کتنے ہی جاندار ہیں جنکی نسل معدوم ہوگئی،اور کتنے ہی معدومیت کا شکار بننے جارہے ہیں، صرف انسان کے وہ اعمال اور انکے مثبت یا منفی اثرات اسکی موت کے بعد بھی باقی رہتے ہیںجو اس نے اپنی عارضی زندگی میں کئے ہوں، اور یہ” اعمال“ ہی اسکا مقصد حیات ہیں،دیکھنا صرف یہ ہے کہ وہ اپنے پیچھے اچھائی کو چھوڑتاہے اور” حُسنیٰ“(جنت کا ایک نام،جسکا معنی اچھائی کا انجام ہے)کا مکین بنتا ہے،یا اپنے پیچھے برائی چھوڑکر ”بئس المصیر“ (جہنم کا ایک نام،جسکا معنی برائی کا انجام ہے)کا اسیر بنتا ہے۔
مقصد حیات:
انسانی فطرت سب سے بڑی سائنس ہے،اسکی فطرت میں جو کچھ ودیعت کیا گیا ہے وہ ایک تلاش ہے،ہر انسان متلاشی ہے،اسکی تلاش اسکے شعور سے شروع ہوکر اسکی موت پر اختتام پذیر ہوتی ہے،خالق نے اسے ایسا ہی بنایا ہے،اور اسکی فطری تلاش کی تکمیل کی رہنمائی کے لئےخالق و مالک نےاپنے نمائندوںیعنی انبیاء و رسل کی بعثت،اپنے پیغامات یعنی صحیفوں کے نزول اوراپنے قوانین یعنی شرائع کے تقرر کا سلسلہ شروع کیا،اس سلسلے کا آغاز سب سے پہلے انسان” آدم“ سے کیا،جو انسان کی ارتقاء کا ابتدائی دور تھااور اختتام سب سے افضل انسان” محمد ﷺ “پر کیاجو انسان کی ارتقاء کا عالَم شباب تھا،ان سب نے انسان کو اسکےطرز حیات اور مقصد حیات سے آگاہ کیا،اس مقصد کے حصول میں کامیابی کا طریقہ سمجھایا،لیکن افسوس شروع میں انسان اس رہنمائی پر چلتا رہااور پھر اس سے ہٹتا چلا گیا،یہی اسکی طبیعت ہے،جیسا کہ صانع عَالَم نے ارشاد فرمایا:

كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى

ہرگز نہیں،یقیناً انسان سر کش ہے، کہ خود کو بے پرواہ سمجھتا ہے۔(العلق:6-7)
حتی کہ یہ سلسلہ مبارکہ لاکھوں انبیاء،سینکڑوں رسل، کڑوڑوںدعاۃ ومصلحین سے متجاوز ہوا ،پر انسان اپنی روش کو نہ بدل سکا، نتیجتاً،کتنی ہی اقوام کو خالق و مالک کی پکڑ کا سامنا کرنا پڑا،انہیں عبرت کا نشان بنادیا گیا اور انکے آثار کو بعد والوں کے لئے باقی رکھا گیا،اور جنہوں نے اپنی اصلاح کرلی اور مقر راستے پر چل پڑے،انہیں دنیا میں ہی اکرام سے نوازدیا گیا، اوربعد والوں کے لئے آئیڈیل بنادیا گیااور آخرت میں انہیں بطور انعام بہشت میں داخل کردیا جائے گا،جو اس میں ایک بار داخل ہوا وہ دوبارہ اس سے کبھی بے دخل نہ کیا جائے گا،یہی مقصد حیات کی تکمیل ہے۔
خالق و مالک نے اپنے نمائندوں کے ذریعےجو رہنمائی کی انسان اسکی حفاظت نہ کرسکا ،کیونکہ اسکی حفاظت کا طریقہ اس پر چلنا تھا،جب وہ اس پر چلا نہیں تو وہ رہنمائی بھی محفوظ نہ رہی،اور انسانی خواہشات و مفادات کی نذر ہوگئی،حتی فترات الوحی کے ادوار میں انسان حیران و سرگرداںرہا،چنانچہ خالق و مالک نے اس رہنمائی (ھُدیٰ) کی حفاظت کا ذمہ لیاتاکہ انقطاع وحی کے بعد بھی جو لوگ ہدایات الہیہ پر چلنا چاہیں انکے لئے نصاب اور ہدایات اصل حالت میں موجود ہوں،وہ نصاب اور ہدایات جو گذشتہ ساڑھے چودہ سو سال سے جوں کی توںمحفوظ حالت میں آج بھی دستیاب ہیں، وہ قرآن مقدس اور حدیث صحیح کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا،ان دو کے سوا کوئی بھی تیسری مثال پیش کرنا محض خیال ،جنوں اور محال ہے،انکی تنزیل پھر تدوین کے ادوار میں انکی حفاظت کے لئیے جو اصول بنائے گئے،جو جدوجہد کی گئی وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہےجسکا مطالعہ انکے متعلق ہر طرح کے شکوک و شبہات کو دور کردیتا ہے،اور یقین ہوچلتا ہے کہ واقعی انکی حفاظت کا ذمہ خود خالق و مالک نے لیا تھا، اور اب اور آئندہ جدید ذرائع کی بدولت ان میں تغیر و تبدل کا امکان صفر ہے،لہذا مقصد حیات کی معرفت کا ان سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں، کیونکہ ان سے حاصل شدہ معلومات ہی اصل ہدایات ربانیہ ہیں، جو صحت، صدق،دلالت،حجیت اور قطعیت میںاکمل و اتم اور ادلّ ہیں، قرآن مقدس اور حدیث صحیح پر غور و فکر کرنے سےمقصد حیات کے متعلق درج ذیل

معارف حاصل ہوتے ہیں:

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جب انسان کی تخلیق کا ذکر کیا تو کسی مقام پر اسکے مٹیریل مٹی اور پانی کا ذکر کیا،کہیں اسکے تخلیقی مراحل کا ذکر کیا،کہیںاسے علم و معرفت سے نوازے جانے اور فرشتوں پر سبقت لے جانے کا ذکر کیا،کہیںاسے جنت میں بسائے جانےپھر شیطان کے بہکاوے میں آکر جنت سے بے دخل کردیئے جانےکا ذکر کیا ،کہیں اسکی طبائع منفیہ کا ذکر کیا،کہیں عبادت کا ذکر کیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ

میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔(الذاریات:56)
اورجب انسانی زندگی و موت کا ذکر کیا تودنیاوی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کیا، اسکی دوبارہ زندگی کا ذکر کیا،اسکی ہمیشگی کا ذکر کیا،روز جزا کا ذکر کیا،روح نکالے جانے کی کیفیات کا ذکر کیا،پروردگار کی جانب لوٹ جانے کا ذکر کیا،روز جزا کی ہولناکیوں کا ذکر کیا،روز جزا میں جزا و سزا کا ذکر کیا،اسکی دنیاوی زندگی کے ایک امتحان و آزمائش ہونے کا ذکر کیا،ایک مقام پر فرمایا:

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

آپ سے قبل کسی بشر کے لئے ہم نے ہمیشگی نہیں رکھی،تو اگر آپ فوت ہوجائیں تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے،اور ہم تمہیں برائی و اچھائی کے ذریعے آزمارہےہیں،اورہماری جانب تم لوٹائے جاؤ گے۔(الانبیاء:35)
نیز فرمایا:

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

برکت دی اس نے جسکے ہاتھ میں بادشاہت ہے،اور جو ہر شے پر قادر ہے،جس نے موت و حیات کو پیدا کیا،تاکہ تمہیں آزمائے تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے ، اور غالب اور بخشنے والا ہے۔(الملک:1-2)
نیز فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا

وہی ہے جس نے آسمان وزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،جبکہ اسکا عرش پانی پر تھا،تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون اچھا عمل لاتا ہے؟(ھود:7)
ایسے ہی اس کائنات کی تخلیق کا مقصد بھی یہی بتایا کہ انسان کی جانچ کی جائے،جس طرح جب کسی لیبارٹری یا فیکٹری میں کوئی نئی شے ایجاد کی جاتی ہے تو اسے مارکیٹ میں پیش کرنے سے پہلے اسکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے،اور ٹیسٹ کے لئے درکار ماحول فراہم کیا جاتا ہے،کامیابی کی صورت میں اسے مارکیٹ میں لانچ کردیا جاتا ہے،جبکہ ناکامی اور تباہی کی صورت میں اسے کباڑ میں پھینک دیا جاتا ہے،یہ انسانی فطرت دراصل فطرت الہیہ سے مستعار ہے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

پس تویکسو ہوکر اپنا چہرہ دین کی طرف متوجہ رکھ،یہی اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا،اللہ کی بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا،یہ مضبوط دین ہے،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(الروم:30)
اس نے انسان کو عدم سے وجود بخشا،اسے علم و معرفت،اعزاز و اکرام سے نوازا ،جنت میں بسایا،لیکن پھر فائنل ٹیسٹ کے لئے زمین و آسمان کا عارضی سیٹ اپ قائم کرکے انسان کو اس میں ایک مدت تک کے لئے بطور آزمائش چھوڑ دیا،اور اس حقیقت سے آگاہ بھی کردیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ

تمہارے لئے زمین پر ایک مخصوص مدت تک رہنے کی جگہ اور ساز و سامان ہے۔(البقرۃ:36-الاعراف:24)
ساتھ ہی دنیا اور اسکی ہر شے کی بے ثباتی اور انکے عارضی ہو نے کو بھی بیان کردیا،اور یہ بھی بتادیا کہ عارضی ہونے کے باوجود بڑی دلکش اور جاذب نظر ہے،اور ایسا بطور امتحان کے ہے،کہ کون اس کے دھوکےمیں آتا ہے اور کون بچتا ہے،ارشاد فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

جان لو:درحقیقت دنیاوی زندگی صرف کھیل تماشہ،آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال و اولاد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا نام ہے،جس طرح بارش اور اسکی پیداوار کسان کو اچھی معلوم ہوتی ہے،پھر وہ سوکھ کر زرد ہوجاتی ہے پھر بالکل چورا ہوجاتی ہے،اور آخرت میں شدید عذاب ہے اور اللہ کی جانب سے بخشش اور رضامندی ہے،جبکہ دنیاوی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(الحدید:20)
یہ بھی بتادیا کہ متحان کس چیز کا ہے اور کامیابی کے حصول کا کیا طریقہ ہے نیز کامیابی کا انعام اور ناکامی کی سزا بھی بتادی،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا

کیا انسان پر وہ دور نہیں آیا جب وہ قابل ذکر شے نہ تھا،ہم نے انسان کو مرد و عورت کے ملے جلے نطفے سے بنایا،ہم اسکی آزمائش کریں گے،پھر اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا،ہم نے اسے راستے کی نشاندہی کی،اب شکر کرنے والا ہو یا ناشکری کرنے والا،ہم نے ناشکری کرنے والوں کے لئے زنجیریں ،طوق اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے،نیکو کار لوگ وہ جام پیئیں گے جسکی آمیزش کافور کی ہوگی۔(الانسان:1-5)
اسکی رہنمائی کے لئے فطری،قدرتی،عقلی انتظامات کئے تاکہ امیدوار ٹیسٹ میں ناکامی کی صورت میں کسی بھی طرح کے اعتراض کا مجاز نہ رہے،وہ یہ نہ کہہ سکے کہ:

أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ

کہیں روز قیامت تم بہانہ کرو کہ:ہم اس سے بے خبر تھے،یا کہو کہ:شرک تو ہمارے آباء نے شروع کیا،جبکہ ہم تو انکی بعد کی نسل تھے،پس کیا تم ہمیں ان لوگوں کے کرتوت پر ہلاک کرے گا جو ہمارے بڑوں نے کئے؟۔(الاعراف:172-173)
اورصرف اسی نوع کے انتظامات پر اکتفا نہ کیا بلکہ اسکی ظاہر پرستی کو سامنے رکھتے ہوئےاعجازی اور ابلاغی انتظامات کئے،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

رُسُلًا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا

ہم نے رسول بھیجے،خوشخبریاں سنانے والے،اور ڈرانے والے،تاکہ رسولوں کے آجکانے کے بعدلوگوں کے پاس اللہ پر کوئی بہانہ باقی نہ ہو،اور اللہ غالب ،حکمت والا ہے۔(النساء:165)
پھرجو اس ٹیسٹ میں کامیاب ہوا اسے اسکی فطری اور اصلی ٹھکانے جنت میں بھیج دیا جائے گا،

لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ

جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہوسکتے،جنت والے ہی کامیاب ہیں۔(الحشر:20)
اور ناکام ہونے والوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا جو توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی ہے،یہ سزا ہوگی مقصد حیات (یعنی امتحان الہی میں کامیابی کے حصول کی کوشش)سے غافل ہوکر غیر اہم مشاغل میں مشغول رہنے کی،بلکہ خالق و مالک کی نافرمانی کی سزا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَعَدَّدَهُ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحُطَمَةُ نَارُ اللهِ الْمُوقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ

ہلاکت ہے ہر عیب جو،الزام تراش کے لئے،جس نے مال جمع کیا اور اسے گن کر رکھا،وہ سمجھتا ہے کہ اسے اسکا مال ہمیشہ قائم رکھے گا،ہرگز نہیں اسے توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی آگ میں جھونکا جائے گا،اور آپ کیا جانیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی آگ کیا ہے؟اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے،جو دلوں پر چڑھ جائے گی،جو ان پر سلگا کر بند کردی جائے گی،لمبے دراز ستونوں میں۔ (الھمزۃ:1-8)
نیز فرمایا:

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو اس دن انکے باہمی رشتےناطے ختم ہوجائیں گے،اور وہ ایک دوسرے کو واسطہ بھی نہیں دے سکیں گے،پس جنکی نیکیاں بھاری ہوگئیں تو یہ لوگ کامیاب رہیں گے،لیکن جنکی نیکیاں ہلکی پڑگئیںتو ان لوگوں نے خود کو خسارے میں مبتلا کردیا،وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔(المومنون:102-103)

مقصد اصلی و مقصد تبعی:

بسااوقات انسان اپنی فطری کمزوریوں کی بنا پر مقصد کا تعین نہیں کرپاتا،یا غیر اہم مقاصد میں کھوکر اصلی مقصد سے غافل ہوجاتا ہے،لہذا مقصد کا تعین کرنا،اسکی تکمیل میں لگے رہنا اور اصلی مقصد اور غیر اہم مقصد میں فرق کرنا ضروری ہے،اس سلسلے میں مولانا شمس الحق افغانی نے عمدہ مثال پیش کی ،انہوں نے کہا:
ایک کڑوڑ پتی رئیس کا ایک بیٹا ہو جسکا قتل عمد میں چالان ہوگیا ہو،اور عدالت نے بعد از تفتیش اسکے حق میں سزائے موت کا فیصلہ کردیا ہو،صرف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا موقع باقی اور اس اپیل کی میعاد بھی صرف ایک ہفتہ باقی ہو،اس دوران اسکو اپیل دائر کرنے کی غرض سے لاہور جانا پڑے،لیکن وہاں جاکر اہم مقصد سفر کو بھول کر وہ لاہور کی مختلف دلکش اور جاذب نظر اشیاء میں مصروف ہوا، مختلف ہسپتالوں کی معلومات حاصل کی،کالجوں کا معائنہ کیا،لائبریریاں دیکھیں، لیڈروںکی گفتگومیںمشغول ہوایہاںتک کہ ان مصروفیات میں وہ ایک ہفتے کا عرصہ ختم ہوگیا اور اِدخال اپیل کی نوبت نہ آئی،گویا غیر اہم معلومات پراہم مقصد کو قربان کردیا،جب وہ گھر آیا،تو خویش و اقارب نے دریافت کیا کہ لاہور جانے کے مقصد کو تم نے پورا کیا؟جس پر وہ کہنے لگا،مختلف اداروں کے متعلق کافی معلومات حاصل کیں،صرف ادخال اپیل کا خیال نہ رہا جو اس سفر کا اصلی مقصد تھا۔
یہی حال ان انسانوں کا ہے کہ وہ دنیا میں بحیثیت مسافر کے کسی خاص مقصد کی تکمیل کے آئے ہیں،اب اگر انسان دنیا کی ہر چیز کو جانے لیکن اپنی زندگی اور آمد کا مقصد ہی نہ جانے،تو کتنا بڑا سانحہ ہوگا جسکا تدارک ناممکن ہے،البتہ اہم مقصد کی تکمیل کے ساتھ جسقدر وہ علوم دنیا کو حاصل کرے تو خاص فائدہ مند ہے،مثلاً: لاہور جانے والا رئیس اپیل وقت پر دائر کرتا اور لاہور کے تمام اداروں کی معلومات بھی حاصل کرتا تو کوئی حرج نہ تھا،یہی حال عام انسان کا ہےکہ اگر یہ اپنی جان و جہاں دونوں کو جانے،تو بڑی خوبی ہے،لیکن جہان کو جانے اور اپنی جان کو نہ جانے تو بڑی غلطی ہوگی،آج کل جدید دنیا کا حال یہ ہے کہ غیر اہم اور غیر بنیادی امور میں ایسے غرق ہوئے کہ بنیادی مقصد کو انہوں نے کھودیا،اور مقصد حیات انسانی کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہ کی،اور اگر کوئی توجہ کرانا چاہے تو قوت و دولت کے گھمنڈ میںاسکا مذاق اڑاتے ہیں،گویا خود مقصد حیات سے بھی محروم اور اور اسکی طلب سے بھی،اور مقصد حیات کی خلاف شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہیں۔
ایسے ہی مقصد و ضرورت میں بھی فرق کرنا چاہیئے،جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں لکھ آئے ہیں۔
زندگی کو مقصد دیں:
انسانی طرز زندگی،انسانی فطرت،انسانی عادات،انسانی انداز فکر ،اور جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں بیان کیا کہ خالق نے انسان کو ایک مقصد کے تحت پیدا کیا،اس سب کا تقاضا ہے ،کہ زندگی کو اسکے حقیقی مقصد کی تکمیل میں گذارا جائے،جب زندگی کو مقصد دے دیا جائے تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان معلوم ہوتی ہے،اور بڑی سے بڑی آسائش بھی اس مقصد کے مقابلے میں ہیچ معلوم ہوتی ہے،پھرانسان کے لئے تنگی و کشادگی اور مشکل و آسانی، مال و دولت،حشمت و مرتبت،جائیداد و کاروبار، ازواج و اولاد،کنبہ و قبیلہ وہ تمام اشیاء جو انسانوں میں تفاضل کا معیار مانی جاتی ہیں محض ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہیںجس میں کامیابی کے لئے وہ سرتوڑ اور لگاتار کوشش میں لگا رہتا ہے، پھرانسان قابل فخر کارنامے سر انجام دیتا ہے،اسکی انفرادی و اجتماعی زندگی مثال بن جاتی ہے،اور وہ تقوی کے شعار بے مثال سے متصف ہوکر خالق کا مقرب و محبوب بن جاتا ہے،مثلاً:جب سپاہی کو مقصد(مشن) دے دیا جائے تو وہ اسکے حصول کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتا ہے،وگرنہ بیرکوں میں پڑا سڑتا رہتا ہے،بامقصد زندگی بھی اسی طرح ہے،اور جو زندگی کا مقصد متعین نہ کرے انکی زندگی کھیل تماشے سے زیادہ نہیں،اس دنیا میں دو قسم کے انسان ہیں:
ایک وہ جو بے مقصدزندگی گذاررہے ہیں،جو مقصد کو اہمیت نہیں دیتے،انکے نزدیک اخلاق واقدار،نیکی و بدی، اچھائی و برائی،عدل وظلم،خیر و شر،سچ و جھوٹ،وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتے،انکے نزدیک اصل حیثیت اپنی لامحدود خواہشات کی ہوتی ہے،جنکی تکمیل کے لئے انہیں خواہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنا پڑے،یہ لوگ مفادات کے پجاری،خود غرض،ہوس پرست اور انسان نما درندے ہوتے ہیں ،ہر معاشرے میں اسکی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
دوسرے وہ جو بامقصد زندگی گذارتے ہیں،پھر یہ بھی دو طرح کے ہیں:
ایک وہ جو حقیقی مقصد کو پہچانتے میں غلطی کرتے ہیں،اور ضرورت کو مقصد سمجھ لیتے ہیں،یہ لوگ انسانی اقدار کا پاس رکھتے ہیں،لیکن مقصد حقیقی سے نابلد ہونے کے باعث ان میں بہت سی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں،جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں ایک سپاہی کی مثال بیان کی،وہ مشن مکمل کرنے کی جدوجہد تو کرتا ہے لیکن اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ جس مشن پر وہ ہے وہ حق ہے یا باطل؟اس قسم کے لوگ اپنی زندگی سے کبھی مطمئن نہیں ہوپاتے،اور ضرورت و حالات کے مطابق اپنانظریہ و طرز حیات بدلتے رہتے ہیں،جہاں انہیں کچھ فوائد نظر آئیں اسی سمت چل پڑتے ہیں،یہ لوگ روحانیت سے محروم اور ظاہر پرست ہوتے ہیں،لیے دیے رہتے ہیں،اپنے اردگرد سے غافل ہوکر اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے ہیں،معاشرتی ناہمواریوں کی پرواہ نہیں کرتے،اسلامی اقدار کواہمیت نہیں دیتے۔
دوسرے وہ جو مقصد حیات کے تعین کے ساتھ اسکی حقیقت و اصلیت کی معرفت بھی رکھتے ہیں ،یہ لوگ کردار و اخلاق کے اعلی مقام پر فائز ہوتے ہیں،اپنی زندگی کا ہر اقدام مقصد کو سامنے رکھ کرترتیب دیتے ہیں،صرف ظاہر ہی نہیں باطن کی صفائی کا اہتمام بھی کرتے ہیں،ہر کام میں خالق و مالک کی مرضی پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں،غلطی پر نادم و پریشان ہوتے ہیں،توبہ و استغفار کرتے ہیں،اپنے معاملات کو صاف رکھنے کی تگ و دو کرتے ہیں،انصاف سے کام لیتے ہیں۔
….جاری ہے….

شوال کے چھ روزوں کے متعلق ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ

حال ہی میں حافظ عاطف نامی شخص نے شوال کے چھ روزوں کی تردید میں ’’ضعیف الاقوال فی استحباب صیام ستۃ من شوال‘‘ کے نام سے کتاب شائع کرائی جس میں موصوف نے شوال کے روزوں کے ثبوت میں تمام روایات کو ضعیف ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے ان روزوں کے استحباب پر ایک روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے محترم نے صحیح مسلم ( جس کو علماء کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے) کی روایت پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
موصوف نے اپنے زعم میں ایک علمی کاوش کی ہے لیکن حقیقت میں انہوں نے محدثین کرام کی مخالفت کرکے بہت بڑی ناسمجھی کا اظہارکیاہے۔
کیاوجہ ہے ؟ ائمہ حدیث جنہوں نے خود روایات کے قبول ورد کے قوانین وضع فرمائے اور کمال احتیاط سے راویان حدیث کے مراتب طے کیے۔
وہ اس صحیح حدیث کی علتوں سے واقف نہ ہوسکے اور انہوں نے صحیحین کی صحت پر اجماع بھی کر لیا۔
دورِ حاضر کے وہ لوگ جن کا اس علم سے دور کا بھی تعلق نہیں ان کے سامنے اس حدیث میں موجود علتیں عیاں ہوگیں؟ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے صحیحین کی صحت کا انکار کیا اور علم حدیث ورجال کے جلیل القدر ائمہ ابو داؤد، طیالسی ،عبد الرحمن بن احمد بن یونس المصری رحمہم اللہ کی عدالت پر بھی حملہ کیا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ائمہ حدیث کی نظرمیں:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ

یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ باقی کتب حدیث میں بھی موجو ہے ۔ پوری تخریج کے لیے دیکھیے (تکملۃ صحیح الاقوال ص34 از حافظ محمدیونس اثری حفظہ اللہ )
اس روایت کو کئی علماء حدیث نے صحیح قرار دیا ہے ان میں سے چند کے اسماء بمع حوالہ درج ہے۔
۱۔ امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسی بن سورۃ الترمذی (المتوفی 279)حدیث نمبر 759
2۔ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ (المتوفی 223) صحیح ابن خزیمہ 2114
3۔ امام ابو الحسن مسلم بن حجاج النیشاپوری (المتوفی 261) صحیح مسلم ، حدیث نمبر : 1164
4۔ ابو عوانہ یعقوب اسحاق الفرائنی(المتوفی 316) صحیح ابن عوانہ القسم المفقود ص 95
5ابو حاتم محمد بن حبان البستی (المتوفی 354) صحیح ابن حبان 3634
6 امام اندلس ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر (المتوفی 462) الاستذکار ج3 ، ص379 دار الکتب العلمیہ
7حافظ حسین بن مسعود البغوی (المتوفی 516) شرح السنہ ج3 ص513 رقم الحدیث 1774 دار الکتب العلمیہ
8 شیخ الاسلام ثانی محمد بن ابی بکر بن ایوب ابن القیم (المتوفی 751) تہذیب السنن مع عون المعبود ج7ص 62 دار الکتب العلمیہ
9 علامہ ابو عبد الرحمان محمدناصر الدین بن نوح الالبانی (المتوفی 1421) ارواء الغلیل ج4 ص 106 المکتب الاسلامی
10حافظ زبیر بن مجدد علی زئی (المتوفی 1434) صحیح الاقوال ص22 تلک عشرۃ کاملۃ
اسی طرح عصر حاضر کے ممتاز محقق شیخ شعیب الارنؤوط
حفظہ اللہ کی تحقیق کے مطابق بھی یہ حدیث صحیح ہے دیکھیے۔
(تحقیق مسند احمد بن حنبل ج38 ص 515 مؤسسۃ الرسالۃ)
اتنے ائمہ حدیث وماہرین فن کی تصحیح کے مقابلہ میں اس روایت کا ضعیف ہونا کسی ایک امام سے بھی ثابت نہیں جیسا کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’میرے علم کے مطابق کسی بھی امام سے اس روایت کو ضعیف قرار دینا ثابت نہیں ‘‘۔ (صحیح الاقوال ، ص:22)
شبہات اور ان کا ازالہ :
شبہ نمبر 1۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بیان فرمایا ہے (مسند الحمیدی 330)
معلوم ہوا کہ ابن عیینہ کے نزدیک یہ روایت مرفوعاً ثابت نہیں۔

ازالہ :

کسی محدث کا کسی بھی روایت کو موقوفاً بیان کرنے سے اس روایت کی تضعیف لازم نہیں آتی سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ومرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے۔
امام ابن عیینہ نے صرف موقوفاً بیان کیا تو کیا ہوا؟ ابن عیینہ کے محض ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا موقوف بیان کرنے سے ان کے تئیں اس روایت کو ضعیف گردانتا سراسر کم عقلیہے۔
شبہ نمبر 2۔ حافظ عاطف نامی شخص اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرتے ہیں :

فَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ فِي قُلُوبِنَا لِمَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ عَلَيْهِ فِي الرِّوَايَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمِنْ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُ

’’یہ ان روایات میں سے ہے جو ہمارے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ اس روایت میں سعد بن سعید ہے جن کی صرف اہل الحدیث(محدثین) رغبت نہیں کرتے تھے۔ (ضعیف الاقوال ص18)
ازالہ :
موصوف طحاوی حنفی کی آدھی عبارت لے کر کہ خیانت کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔امام طحاوی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں :

فَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ فِي قُلُوبِنَا لِمَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ عَلَيْهِ فِي الرِّوَايَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَمِنْ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُ، حَتَّى وَجَدْنَاهُ قَدْ أَخَذَهُ عَنْهُ مَنْ قَدْ ذَكَرْنَا أَخْذَهُ إِيَّاهُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْجَلَالَةِ فِي الرِّوَايَةِ وَالثَّبَتِ فِيهَا؛ فَذَكَرْنَا حَدِيثَهُ لِذَلِكَ

’’اور یہ روایت ہمارے نزدیک قوی نہ تھی کیونکہ اس میں سعد بن سعید ہے جس سے محدثین نے اعراض کیا ہے حتی کہ ہم نے ایسے لوگ جو اہل درایت اور ثبت ہیں انہوں نے اس سے اس روایت کو لیا ہے پس اس لیے ہم نے اس کی حدیث کو ذکر کر دیا ۔ (شرح مشکل الآثار ،حدیث : 2340)
معزز قارئین غور فرمائیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ توواضح طور پر فرما رہے ہیں کہ ائمہ حدیث کے اعراض کرنے کی وجہ سے میں نے اس حدیث کو قبول کرنے سے توقف کیا تھا جب دیکھا جہابذۃ العلم ائمہ اس روایت کو لینے لگ گئے ہیں تو میں نے بھی درج کردیا ۔ امام طحاوی کی عبارت کے پہلے ٹکڑے کو لیکر ان کو اس روایت کے مضعفین کی صف میں شامل کرنا خیانت عظمیٰ سے کم نہیں۔
شبہ نمبر 3۔ موصوف ابن المفلح کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے ضعیف قرار دیا ہے۔(ضعیف الاقوال ص 18)
ازالہ :
عاطف صاحب کی یہ بات بے سند ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے محترم سے گزارش ہے کہ امام صاحب سے اس روایت کا ضعیف ہونا باسند صحیح ثابت کریں۔ علمی دنیا میں بے سند باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
شبہ نمبر 4۔ موصوف صاحب نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کے مضعفین کی فہرست بنائی ہے اس میں حافظ ابن رجب،ابن عبد البر اور ابن رشد وغیرہ کے اسماء ذکر کیے ہیں۔ (دیکھیے : ضعیف الاقوال ، ص17 اور 19)
ازالہ :
ان تینوں ائمہ سے اس روایت کا ضعیف ہونا قطعاً ثابت نہیں حالانکہ ابن عبد البر اس روایت کو صحیح قرار دے رکھا ہے ۔کما مر
محترم سے گزارش ہے کہ ان تینوں ائمہ سے بالصراحت اس روایت کا ضعیف ہونا ثابت کریں۔ ابن عبد البر ، ابن رشد کا امام مالک کے متعلق احتمال ذکر کرنے سے ان کے نزدیک اس روایت کی تضعیف کثیر کرنا ظلم عظیم ہے۔
عاطف صاحب کی سینہ روزی :
مدینہ طیبہ کے جلیل القدر امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب’’مؤطا‘‘ میں ان چھ روزوں کا انکار فرمایا ہے ۔ امام صاحب کے محض انکار کرنے سے موصوف سے زبردستی منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک مذکورہ روایت ضعیف تھی اسی بنا پر محترم نے اس روایت کے مضعفین کی جعلی فہرست میں امام صاحب کا نام بھی ذکر کیا ہے۔ (ضعیف الاقوال ، ص18)
موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو امام مالک کو کیونکر اس کی بدعت کا خوف ہوتا اور بے شک بدعت کا خوف تب ہوتا ہے جب کہ وہ روایت رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہ ہو۔ (ضعیف الاقوال ، ص:19)
تبصرہ :
امام مالک رحمہ اللہ کے کلام میں اس روایت کے متعلق ذکر تک نہیں ۔ محدثین وعلماء کی ایک جماعت یہ بیان فرما چکی ہے کہ یہ صحیح حدیث امام صاحب تک نہیں پہنچی ہوگی ورنہ امام صاحب صحیح حدیث کی موجودگی میں یہ فتویٰ ہرگز نہیں دے سکتے ہمارے استاذ حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ نے تقریباً 20 ائمہ وعلماء کے نام ذکر کیئے ہیں جنہوں نے اس روایت کو امام صاحب کے عدم علم پر محمول کیا ہے ۔ (تکملہ صحیح الاقوال ص 66۔67)دراسہ کرنے سے مزید ائمہ کی تصریحات بھی مل سکتی ہیں بس ہم یہاں بھی کہیں گے کہ ائمہ حدیث کی تصریحات وتوجیہات کے مقابلہ میں عاطف صاحب کی بات مردود ہے۔
اگر امام مالک رحمہ اللہ کا کسی ثابت شدہ مسئلے کا انکار کرنے سے ان کے نزدیک اس مسئلے کے متعلق وارد روایات کو ضعیف کہا جاسکے تو کئی مسائل کا انکار کرنا پڑے گا مشہور اہلحدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’انہی بھائیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں ان چھ روزوں کا انکار کیا ہے۔۔۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے تو نماز میں تعوذ وبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا بھی انکار کیا ہے۔ فرماتے ہیں نہ یہ امام پڑھے نہ مقتدی پڑھے نہ ہی منفرد پڑھے اور فرماتے ہیں لوگ جو سبحانک اللھم پڑھتے ہیں میں اسے نہیں مانتا۔ (المدونۃ 1/62)
تو امام مالک کے اس انکار سے ثناء کا انکار بھی درست ہے۔ (مقدمہ صحیح الاقوال وتکملہ ص 12)
عاطف صاحب کا خیال ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ثناء تعوذ اور بسملہ کی روایات کو ضعیف کہا جاسکتاہے۔
حاشا وکلا
قارئین کرام! اصل بات یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں کے متعلق دو مرفوع روایات اور سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا فتوی باسند صحیح ثابت ہے ان صحیح ادلہ کے |پیش نظر کسی کا بھی فتویٰ قابل التفات نہیں ۔
مولاناحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ’’جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلے میں ہر کسیکا فتوی مردود ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا امام ہو ۔‘‘ (صحیح الاقوال ، ص29)
صحیح مسلم کی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ :
قارئین کرام! ہم نے گزشتہ سطور میں صحیح مسلم کی حدیث کی تصحیح ائمہ حدیث سے ثابت کی اور محترم کے شبہات کا جائزہ بھی پیش کیا۔ اب موصوف کے چند ان اعتراضات کی طرف آتے ہیں جو انہوں نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت پر واردکیئے ہیں۔
اعتراض نمبر 1۔ اس روایت کا کلی دارومدار عمر بن ثابت المدنی پر ہے جو کہ منفر ہے اور اس کی توثیق معتبر نہیں۔
تجزیہ :
عمر بن ثابت المدنی (تابعی) اگرچہ اس روایت کو بیان کرنے میں منفر د ہیں لیکن انہیں محدثین کرام نے ثقہ قرار دے رکھا ہے درج ذیل ائمہ نے عمر بن ثابت کی توثیق کی ہے ۔
\\ مؤرخ رجال ابو الحسن احمد بن عبد اللہ العجلی (المتوفی 261) تاریخ الثقات ، ترجمہ :1334
\\ ابو حاتم محمد بن حبان البستی (المتوفی 354 کتاب الثقات ج5 ص 149 طبع حیدرآباد دکن
\\ ابو حفص عمر بن احمد بن شاہین (المتوفی 385) تاریخ اسماء الثقات ترجمہ 6931
\\ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر الاندلسی (المتوفی 462)فرماتے ہیں ’’وھو من ثقات أھل المدینۃ‘‘ (الاستذکار ج3 ص 380 طبع عباس احمد الباز مکہ)
درج ذیل ائمہ نے عمر بن ثابت کی مذکور منفرد روایت کو صحیح کہہ کر توثیق کر دی ہے ۔
\\امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی(المتوفی 279) جامع الترمذی تحت حدیث 759
\\امام الائمہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ (المتوفی 223) صحیح ابن خزیمہ 2114
\\امام ابو الحسن مسلم بن حجاج نیشاپوری (المتوفی 261) صحیح مسلم 1146
\\امام ابو عوانہ یعقوب بن سفیان السفرائینی (المتوفی 316) صحیح ابی عوانہ القسم المفقود ص 95
\\ حافظ حسین بن مسعود البغوی (المتوفی 516)شرح السنۃ ج3 ص 13 دار الکتب العلمیہ
\\ شارح بخاری احمد بن علی ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) فرماتے ہیں ’’ثقہ‘‘ ( تقریب التہذیب ترجمہ 4880)
تنبیہ 1 :
کسی محدث کا کسی بھی راوی کی منفرد روایت کو صحیح قرار دینا اس کی طرف سے اس راوی کی توثیق ہوتی ہے یہ اصول صحیح اور برحق ہے۔
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اس حوالے سے ’’صحیح الاقوال ص23‘‘ میں جامع گفتگو فرما چکے ہیں شیخ رحمہ اللہ نے تائیداً ابن القطان الفاسی اور تقی الدین بن دقیق العید کی عبارات بھی پیش فرمائی ۔ (دیکھیے ص23)
لہٰذا ان کبار محدثین کے بیان کردہ اصول کے مقابلے میں عاطف صاحب کی بات لائق التفات ہی نہیں۔
تنبیہ 2
امام ابو الحسن العجلی اور امام ابن شاہین کا شمار ثقہ وجلیل القدر ائمہ حدیث میں ہوتاہے ان کو معاصرین (امام البانی وامام معلمی رحمہما اللہ) سے قبل کسی نے بھی متساہل نہیں کہا لہٰذا ان کی بیان کردہ توثیق معتبر ہوگی۔
الحاصل : عمر بن ثابت المدنی (تابعی) محدثین کے ہاں ثقہ ہیں ان پر کسی بھی محدث سے جرح ثابت نہیں اگر ثابت بھی ہوجاتی تو وہ جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مضر نہ تھی ۔
اصول حدیث کا مشہور اور مسلّم قاعدہ ہے کہ جب کسی راوی کا ثقہ ہونا ثابت ہوجائے تو اس کا تفرد نقصان دہ نہیں یعنی ثقہ راوی کا تفرد مقبول ہوتاہے۔
اعتراض نمبر 2۔ عاطف صاحب لکھتے ہیں پھرعمر بن ثابت سے روایت نقل کرنے میںسعد بن سعید منفرد ہے جس کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ( ضعیف الاقوال ص 39)
تجزیہ:
1۔ سعد بن سعید اگرچہ مختلف فیہ راوی ہے لیکن جمہور محدثین کے نزدیک موثق حسن الحدیث ہے جیسا کہ امام ابن الملقن فرماتے ہیں:
’’فيه خلف مشهور بل الأكثر على توثيقه‘‘
(خلاصۃ البدر المنبیر 2/99 مکتبۃ الشاملۃ )
یعنی اس کے ثقہ وضعیف ہونے میں علماء کا اختلاف مشہور ہے جب کہ اکثر ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
2۔ محترم کا یہ کہنا کہ عمر بن ثابت سے روایت کرنے میں سعد بن سعید منفرد ہے ، غلط ہے۔ کیونکہ عمر بن ثابت سے یہ روایت بیان کرنے میں سعد بن سعید کی 3 ثقہ رواۃ نے متابعت کر رکھی ہے۔
۱۔ زید بن اسلم (شرح مشکل الآثار رقم 2343 سندہ صحیح)
زید بن اسلم کا ذکرکرنے والے یوسف بن یزید بن کامل ثقہ راوی ہیں ۔ (تقریب التہذیب )
لہٰذا زید بن اسلم کے ذکر کو شاذ کہنا باطل ہے۔
۲۔ صفوان بن سلیم (مسند الحمیدی 383 تحقیق الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ )
تنبیہ : زید بن اسلم اور صفوان بن سلیم سے روایت کرنے والا صحیح مسلم کا ثقہ راوی عبد العزیز دراوردی ہے ۔ عاطف صاحب نے اس ثقہ راوی کو ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے۔(ضعیف الاقوال ص30)
جبکہ عبد العزیز دراوردی کو جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ مولانا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے مفصل مضمون تحریر فرمایا ہے جس میں شیخ رحمہ اللہ نے کئی کبار محدثین سے دراوردی مذکور کی توثیق ثابت کرنے کے ساتھ اس پر وارد شدہ اعتراضات کا علمی رد فرمایا ہے ۔ جزاہ اللہ خیراً (دیکھیے : علمی مقالات 3/328)
3۔ یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری (مسند الحمیدی 382 بتحقیق الشیخ زبیر علی زئی ، شرح مشکل الآثار 2346)
حسب سابق اس سند پر بھی موصوف نے چند بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کا علمی جواب شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ دے چکے ہیں ۔ (صحیح الاقوال ص 26)

الحاصل :

سعد بن سعید بن قیس جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ثقہ وحسن الحدیث ہیں اگر بالفرض ان کو ضعیف بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان کا ضعف مضر نہیں کیونکہ تین ثقہ رواۃ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے ۔ والحمد للہ
اس لیے سعد بن سعید (ثقہ عند الجمہور) کا بہانہ بناکر اس صحیح کو ضعیف کہنا باطل ومردود ہے۔
صحیح مسلم کی روایت کا صحیح شاہد :
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ

’’یعنی رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔‘‘ (سنن الدارمی 1796 سندہ صحیح)
اس روایت کو امام ابن خزیمہ 2115 اور امام ابن حبان 3635 وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے بعض الناس نے اس روایت کی سند میں موجود صحیح مسلم کے ثقہ راوی ابو الاسماء عمرو بن مرشد الرجی کو مجہول الحال کہہ کر اس روایت کی تضعیف کی ہے ۔ تو عرض ہے ابو اسماء کا ثقہ ہونا ائمہ حدیث سے ثابت ہے (تقریب التہذیب 5169) لہٰذا اسے مجہول کہنا مردود ہے۔
خلاصۂ تحقیق :
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ شوال کے چھ روزوں کے استحباب پر صحیح مسلم کی روایت صحیح ہے کیونکہ ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح کہا ہے کسی ایک محدث نے بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا اس روایت کے مرکزی راوی عمر بن ثابت المدنی کا شمار اہل مدینہ کے ثقات میں ہوتاہے اس سے روایت کرنے والے ثقہ رواۃ ہیں لہٰذا یہ روایت اصول محدثین کی روشنی میں صحیح ثابت ہوئی اسے ضعیف کہنا اصول محدثین سے انحراف ہے ۔
آخر میں ہم شارخ بخاری ابو الفضل احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی کا کلام پیش کرتے ہیں :

يَنْبَغِي لكل منصف أَن يعلم أَن تَخْرِيج صَاحب الصَّحِيح لأي راو كَانَ مُقْتَض لعدالته عِنْده وَصِحَّة ضَبطه وَعدم غفلته وَلَا سِيمَا مَا انضاف إِلَى ذَلِك من إطباق جُمْهُور الْأَئِمَّة على تَسْمِيَة الْكِتَابَيْنِ بالصحيحين وَهَذَا معنى لم يحصل لغير من خرج عَنهُ فِي الصَّحِيح فَهُوَ بِمَثَابَة إطباق الْجُمْهُور على تَعْدِيل من ذكر فيهمَا ( فتح الباری شرح صحیح البخاری ج1 ص384 دار المعرفۃ بیروت )

’’ہر مصنف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں ہے خصوصاً جبکہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری ومسلم کی کتابوں کو ’’صحیح‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کی روایت صحیحین میں موجود نہیں گویا جس راوی کا صحیح بخاری ومسلم میں ذکر ہے وہ جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام سے درج ذیل باتیں واضح ہورہی ہیں ۔
1۔ائمہ حدیث نے متفقہ طور پر بخاری ومسلم کو صحیح کہا ہے۔
2۔ صحیح بخاری ومسلم کے تمام رواۃ ثقہ وقابل احتجاج ہیں۔
3۔بخاری ومسلم کے رواۃ ثقہ عند الجمہور ہوتے ہیں۔
4۔بخاری ومسلم کے رواۃ کا مقام باقی رواۃ سے اعلیٰ ہے۔
5۔ جو بھی محدث اپنی کتاب میں صحیح احادیث کا التزام کرتا ہے یا وہ کسی روایت کی سند کو صحیح کہتا ہے تو اس کی طرف سے اس حدیث کے رواۃ کی بھی توثیق ہوتی ہے۔
۔۔۔۔

کتابُ الحدود من فقہ السنۃ لسید السابق(قسط 5)

شراب نوشی :

شراب کی حرمت کے مدارج :
جب آپ ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اس وقت تک لوگ شراب پیا کرتے تھے۔
جب انہوں نے ان کے نقصانات اور مفاسد دیکھے تو آپ سے شراب اور جوئےسے متعلق سوالات کیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ : 219)

’’ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
یعنی ان کے استعمال میں بڑا گناہ ہے اور ان میں مادی اور دینی اضرار ومفاسد ہیں اور ان دونوں میں کچھ لوگوں کیلئے فائدے بھی ہیں اور یہ مادی فوائد ہیں جسےشراب کی تجارت میں نفع اور اسی طرح جوے سے بغیر محنت کے مال کمانا ہے۔
اور ان تمام معاملات کے بعد بھی ان کے استعمال میں گناہ نفع سے زیادہ ہے اور یہاں حرمت ترجیحاًہے اور یہ مکمل قطعی تحریم نہ تھی۔ پھر اس کے بعد اس کی حرمت نماز کے اوقات میں لوگوں پر تدریجاً آئی جو اس سے محبت کرتے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ گردانتے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النسائ:43)

’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔‘‘
اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک شخص نے نشے کی حالت میں نماز پڑھی تو اس طرح قرأت کی

قل يا أيها الكافرون أعبد ما تعبدون

اے نبی ﷺ آپ کہیے اے کافروں ! میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ہو۔ آخر سورت تک بغیر نفی کے ذکر کیا ہے اور یہ اس کی حرمت کی آخری تمہید تھی ۔
تو اس کے بعد حرمت کا آخری حکم آگیا ۔ فرمان الٰہی ہوا :

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ

’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔(المائدۃ : 90۔91)
اور اس آیت سے ظاہر ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خمر(شراب) کا عطف جوئے،انصاب اور الزام پر بھی کیا ہے اور ان تمام چیزوں پر درج ذیل حکم جاری کیا۔
۱۔ ناپاک : یعنی اہل علم وبصیرت کے نزدیک جو خبیث وناپاک ہے۔
۲۔ یہ شیطانی عمل اور اس کی زینت ووساوس ہیں۔
۳۔ اگر سابقہ احکام اسی طرح ہیں تو اس سے اجتناب کرنا اور دور رہنا واجب ہے تاکہ انسان کامیابی کیلئے ہمیشہ مستعد وتیار رہے۔
۴۔ شیطان کی چاہت یہ ہے کہ شراب نوشی اور جوئے کو (لوگوں) کے سامنے مزین کرکے پیش کرے جس کے سبب وہ ان کےمابین بغض وعداوت کو واقع کرسکے اور یہ دنیاوی نقصان ہے۔
۵۔ اور اس کی یہ چاہت بھی ہے کہ اللہ کے ذکر سے روکے اور نماز سے غافل کرے یہ دینی نقصان ہے۔
۶۔ اور یہ تمام چیزیں اس کے لین دین کے تمام معاملات کی انتہا پر موجب ہیں اور یہ آخری آیت ہے جو شراب کے احکام کی بابت نازل ہوئی اور یہ اس کی حرمت کا قطعی فیصلہ ہے۔
عبد بن حمید ، عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا شراب کی حرمت پر پہلی آیت

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْخَــمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرۃ : 219)

’’ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کا مسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے، لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے‘‘۔
تو بعض لوگوں نے کہا ہم اسے اس کے فوائد کی بناء پئیں گے اور دوسروں نے کہا اس میں کوئی بھلائی نہیں(بلکہ) اس میں گناہ ہے پھر یہ آیت نازل ہوئی۔

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النسائ:43)

’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔‘‘
تو بعض لوگوں نے کہا ہم گھروں میں بیٹھ کر پئیں گے اور دوسروں نے کہا اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے یہ ہمارے اور مسلمانوں کے ساتھ نماز کے مابین حائل ہوتی ہے تو پھر یہ آیت نازل ہوئی :

يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ

’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کہ ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تمہیں باز رکھے سو اب بھی باز آجاؤ۔(المائدۃ : 90۔91)
تو انہیں منع کر دیاگیا تو وہ رک گئے اور یہ حرمت غزوئہ احزاب کے بعد نازل ہوئی ، سیدنا قتادہ سے مروی ہے کہ بے شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ المائدۃ غزوئہ احزاب کے بعد نازل کی ہے اور غزوئہ احزاب چار یا پانچ ہجری میں واقع ہوا۔
اور ابن اسحاق نے ذکرکیا ہے کہ (شراب) کی حرمت غزوئہ بنی نضیر میں ہوئی اور راجح قول کے مطابق یہ سن چار ہجری میں واقع ہوا۔
اور دمیاطی سیرت نبوی میں لکھتے ہیں ’’شراب کی حرمت سن چھ ہجری حدیبیہ کے سال ہوئی۔‘‘
شراب کی حرمت پر اسلام کی شدت :
شراب کی حرمت ان اسلامی تعلیمات سے اتفاق رکھتی ہیں جو انسان کی شخصیت کو جسمانی، نفسی اور عقلی طور پر قوت بخشتی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شک شراب شخصیت کو کمزور اور اس کی قوت کو ختم کر دیتی ہے اور خاص کر عقل کو بقول شاعر ؎

شربت الخمر حتى ضل عقلي كذاك الخمر تفعل بالعقول

میںنے شراب نوشی کی یہاں تک میری عقل زائل ہوگئی اور شراب عقل کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے۔
اور جب عقل زائل ہوجاتی ہے توشخص انسان سے شریر حیوان بن جاتاہے اور اس سے دنگے وفساد برپا ہوتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں ہوتی جیسے قتل،دشمنی،فحاشی، رازوں کا افشاء اور ملکی معاملات میں خیانت۔
اور یہ برائی انسان کے اپنے نفس تک ساتھ ساتھ اس کے دوستوں اور پڑوسیوں تک بھی پہنچ جاتی ہے بلکہ ہر اس تک جو اس برائی کو دوسروں تک پہنچانے میں حصہ ڈالتے ہیں۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سےر وایت ہے کہ وہ اپنے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے اور ان کی دو اونٹنیاں تھیں اور انہوں نے اس پر اذخر(جو کہ ایک خوشبودار بوٹی ہے) ایک یہودی سونار کے ہاں جمع کروائی تاکہ وہ اُسے دوسرے سوناروں کو بیچ کراس کی قیمت کے بدولت وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ کیلیے مستعد ہوجائیں ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ بعض انصاریوں کے ہمراہ شراب نوشی کر رہے تھے جہاں ایک لونڈی گیت گارہی تھی تو اس نے ایک ایسا شعر گایا جس سے ان دونوں اونٹنیوں کو نحر کرنے کی ترغیب دلائی گئی اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ (اٹھے اور انہیں نحر کردیا) اور ان کا سب سے بہترین حصہ کھانے کیلئے لیا ان کی کوہان کاٹ دی اور ان کے جگر کو نکال دیا۔
جب یہ منظر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو انہیں بہت درد ہوا اور ان کی آنکھیں پرنم ہوگئی اور انہوں نے نبی کریم ﷺ کے پاس سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شکایت کر دی تو نبی کریم ﷺ سیدنا علی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے ہمراہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان پر غصے ہوئے اور انہیں ملامت کی ، سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں تھے تو ان کی آنکھیں لال ہوگئی اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو اور جو ان کے ہمراہ تھے انہیں دیکھا اور کہا ’’کیا تم لوگ میرے باپ کے غلام ہو نہ‘‘ جب نبی کریم ﷺ کو پتہ چلا کہ وہ نشے میں ہیں تو آپ بمعہ اپنے ساتھیوں کے ایڑیوں کے بل وہاں سے چلے گئے شراب کے یہ آثار منعقد ہوتے ہیں جب وہ پینے والے کے دماغ سے کھیلتی ہے اور اس کے سمجھنے کی طاقت کو ختم کر دیتی ہے اسی لیے شریعت نے اس پر ام الخبائث کا اطلاق کیا ہے۔
سیدناعبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الْخَمْرُ أُمُّ الْخَبَائِثِ

’’شراب برائیوں کی جڑ ہے‘‘۔
سيدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ

الْخَمْرُ أُمُّ الْفَوَاحِشِ وَأَكْبَرُ الْكَبَائِرِ وَمَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ تَرَكَ الصَّلَاةَ وَوَقَعَ عَلَى أُمِّهِ وَخَالَتِهِ وَعَمَّتِهِ

’’شراب برائیوں کی ماں اور بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے جس نے شراب پی تو اس نے نماز کو چھوڑا اور وہ اپنی ماں،خالہ اور پھوپھی سے بدکاری کا مرتکب ہوگیا ۔
طبرانی اسے عبد اللہ بن عمرو سے(کبیر) میں روایت کیا ہے اور اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں :

مَنْ شَرِبَهَا وَقَعَ عَلَى أُمِّهِ

’’جس نے شراب پی اس نے اپنی ماں سے بدکاری کی۔‘‘
اور اسےام الخبائث میں سے گردانا اور اس کی حرمت کی تاکید کی اور اس کے پینے والے ،اس سے تعلق رکھنے والے پر لعنت کی اور اُسے ایمان سے خارج سمجھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول

اللہ ﷺ نے شراب سے جڑے دس افراد پر لعنت دی 1 جو اسے نچوڑتا ہے 2جس کیلئے نچوڑا جاتا ہے3 اس کا پینے والا4 اس کو اٹھانے والا 5 اور وہ جس کیلئے اٹھایا جائے6 اور اس کا پلانے والا7اور اس کو بیچنے والا8 اور اس کی قیمت کھانے والا 9 اور اسے خریدنے والا 0اور جس کیلئے خریدی گئی ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ
’’کوئی شخص جب زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا ۔اسی طرح جب وہ شراب پیتا ہے تو عین شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘ (رواہ احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی)
اور دنیا میں اس کو پینے والے کی جزا یہ مقرر کی کہ اُسے آخرت میں اس سے محروم کر دیا کیونکہ اس نے اس کی جلدی کی تو اسے محرومیت کی جزا دی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا وَلَمْ يَتُبْ لَمْ يَشْرَبْهَا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ

’’جس نے دنیا میں شراب پی لی اور توبہ نہ کر سکا تو آخرت میں وہ اسے نہ پی سکے گا اگرچہ وہ جنت میں داخل ہی کیوں نہ ہوجائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔

حیاء کی فضیلت واہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں

’’حیاء ایمان سے ہے اور ایماندار جنت میں داخل ہوگا بے حیائی بد اخلاقی ہے اور بد اخلاق کا مقام دوزخ ہے۔‘‘ (بخاری)
شریعت میں ’’حیاء‘‘ اس اچھائی کا نام ہے جو انسان کو ان تمام چیزوں کے چھوڑنے پر ابھارے جو شریعت میں قبیح ہیں اور اسی بنا پر ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’ حیاء خیر ہی کی موجب ہوتی ہے۔‘‘ (مشکوۃ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
’’حیاء تمام کی تمام خیر ہے۔‘‘ (مسلم)
ایسی عادت حیاء کہلاتی ہے جو بُری چیز سے اجتناب پر ابھارے اور حق والے کے حق میں کمی سے روکے۔ حیاء کو ایمان کا حصہ قرار دیاگیا ہے اسے دیگر نیک اعمال کی طرح کوشش اور محنت کرکے حاصل کیا جاسکتاہے لیکن بسا اوقات یہ فطرت میں پہلے سے شامل ہوتی ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ
’’ حیاء بھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے : ’’حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک چیز ہوگی تو سمجھو دوسری بھی ہوگی۔‘‘ (مشکوۃ)
’’حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان بہشت میں لے جاتاہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’حیا اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اور اخلاق حسنہ کے تاج میں جگمگاتا ہیرا ہے اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی ہوسکتے ہیں۔
’’بے شک ہر دین کے لیے ایک خلق ہے اور اسلام کا (خلق) حیاء ہے۔‘‘ ( مشکوۃ)
جتنے دین ہم سے پہلے گزرے ہیں ان میں ایک نہ ایک اچھی خصلت نمایاں طور پر موجود رہی ہے سوائے حیاء کے یعنی حیاء کو اسلام کےاندر تمام اخلاق میں بلند مقام اور غالب حیثیت حاصل ہے۔
’’حیاء‘‘ انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے ۔ افعال میں ہو ، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ ہو اس کے لیے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’شرم اُٹھ جانے کے بعد جو جی چاہے کرو۔‘‘ (مشکوۃ)
’’جب تو حیا نہیں کرتا تو پھر جو جی چاہے کر۔‘‘ (بخاری)
انسان میں حیاء تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے :
1 اللہ تعالیٰ سے حیاء :
یہ حیاء دین کی قوت اور یقین کی صحت سے حاصل ہوتی ہے۔
2 لوگوں سے حیاء :
لوگوں سے حیاء کا مفہوم یہ ہے کہ ان کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اور فضول بات پر دشمنی مول نہ لی جائے۔
3 اپنے آپ سے حیاء :
اس کا مفہوم پاک دامنی اور تنہائیوں کی حفاظت سے پورا ہوتاہے یہ نفس کی فضیلت اور اچھی نیت سے حاصل ہوتی ہےاللہ تعالیٰ سے حیا پر رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :

اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَسْتَحْيِي وَالحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ، وَلَكِنَّ الِاسْتِحْيَاءَ مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ أَنْ تَحْفَظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَالبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْتَذْكُرِ المَوْتَ وَالبِلَى، وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَةَ تَرَكَ زِينَةَ الدُّنْيَا، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الحَيَاءِ (ترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث:2458 حكم الالباني حسن)

’’لوگوں اللہ سے حیاء کرو اور حیا کا حق ادا کرو ، کسی نے آپ ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اللہ سے شرماتے تو ہیں ، آپ ﷺ نے جواب دیا یہ حیاء نہیں بلکہ دماغی تخلیات پر پورا قابو رکھا جائے قبر میں ہڈیوں کے گل جانے کا دھیان رہے ، پیٹ کو حرام سے بچایا جائے، موت کو ہمیشہ یادر کھا جائےجو شخص آخرت کا ارادہ رکھتا ہے دنیا کی زینت کو ترک کر دیتاہے جس نے یہ کام کئے اس نے درحقیقت اللہ کی حیاء کا حق ادا کر دیا۔‘‘ (ترمذی)
جب انسان میں تینوں طرح کی حیاء مکمل ہوگی تو اس میں خیر کے اسباب بھی کامل ہوجائیں گے اور برائی کے اسباب کی نفی ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’ حیاء سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (مسلم)
فحشاء حیاء کی ضد ہے ، جس سے فحش اور فحاشی کے الفاظ نکلے ہیں جس کا مطلب ہے : بے شرمی، بے حیائی، انتہا درجے کی بے غیرتی اور سرعام برائی اور نافرمانی کرنا۔
قرآن میں بے حیائی پھیلانے والوں کے بارے میں سخت وعید ہے ، ارشاد ربانی ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘

تقویٰ اور حیاء کا تعلق :

’’تقوی‘‘ دل کے اندر اللہ کے خوف سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر اعمال پر اثر کرتا ہے اور ’’حیاء‘‘ تقوی کے زیر اثر( اللہ کا ، لوگوں کا یا اپنا) لحاظ رکھ کر اس کے سامنے شرمندئہ نفس ہوکر دل کے اندر غلط کا م پر احساسِ ندامت سے بچنے کی خواہش اور کوشش کا نام ہے جو غلط کام سے

روک دیتاہے۔
جتنا زیادہ تقوی ہوگا اتنی حیاء زیادہ ہوگی اس کے بارے میں حدیث رسول ﷺ ملاحظہ فرمائیں :
’’حیاء اور ایمان دونوں ایک ساتھ ہیں اگر ان میں سے ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود اُٹھ جاتاہے۔‘‘ (الحاکم)
حیاء اور ایمان اکھٹے کئے گئے ہیں پھر جب ان میں سے ایک اٹھ جاتاہے تو دوسرا بھی چلا جاتاہے۔ ( مشکوۃ)
قرآن میں مرد وعورت دونوں کو حیاء کا رویہ اپنانے کا حکم دیاگیا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ (النور30۔31)

’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔‘‘
اس آیت میں مرد وعورت دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ مومن بے حیاء نہیں ہوتا اور ایمان والی عورت کا اصل زیور سونا،چاندی نہیں بلکہ حیا اور پردہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
’’ جس میں حیاء ہوگی اس میں ایک خاص قسم کی زینت ہوگی۔ ‘‘ ( ترمذی)
مردوں کے لیے حیاء کی بہترین مثال آپ ﷺ کی ذات مبارک ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مثال بھی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
’’عثمان رضی اللہ عنہ شرم وحیا کے پیکر تھے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
٭٭٭

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری کیا ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے؟ قسط 6

بَاب زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ) ( وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ) وَقَالَ ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ) فَإِذَا تَرَكَ شَيْئًا مِنَ الْكَمَالِ فَهُوَ نَاقِصٌ

ایمان کی کمی زیادتی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ثابت ہے اور ہم نے ان کی ہدایت زیادہ کر دی اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے (یہ بھی فرمایا ہے) کیونکہ کامل چیز میں سے کمی کی جائے گی تو اس کا نام نقصان ہے

6-44- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ قَالَ أَبو عَبْد اللَّهِ قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِيمَانٍ مَكَانَ مِنْ خَيْرٍ .

معانی الکلمات :
وَزْنُ : مقدار
شَعِيرَةٍ : جَو
خَيْرٍ:نیکی ، بھلائی ، مدار ایمان \\
بُرَّةٍ : گندم
ذَرَّةٍ : ذرہ برابر
مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی ﷺسے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔
Narrated Anas: The Prophet said, \”Whoever said \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, \”None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell.\”
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: مسلم بن إبراهيم الأزدي الفراهيدي محدث البصرۃ، البصری
کنیت : ابو عمرو
ولادت : 133ہجری ۔
محدثین کے ہاں رتبہ :
ابو اسمعیل ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن ابراہیم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میںنے 800 مشائخ سے حدیث لکھی ہیں۔ امام یحییٰ بن معین کے ہاں ثقہ مامون ہیں، عبد الرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نےاپنے والد سے مسلم بن ابراہیم کے بارے سوال کیا تو جواب میں عرض کیا کہ وہ ثقہ صدوق تھے۔
وفات : 222 هہجری ۔
2 ھشام بن أبی عبد اللہ الدستوائی البصری الربعی ھو الحافظ الحجۃ الإمام
کنیت : ابو بکر
محدثین کے ہاں رتبہ :
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام ثبت ہیں ، امام العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام بصری حدیث میں ثقہ ثبت ہیں۔
وفات :ہشام بصری رحمہ اللہ کی وفات 152 ہجری یا 153 ہجری میں ہوئی ۔
3 قتادہ بن دعامہ کا تعارف حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
4 سیدناأنس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارف بھی حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
تشریح :
اس حدیث میں واضح طور پر بیان ہوا ہےکہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت الٰہی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا دارومدار ہے مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کو اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ھذا الحدیث للترجمۃ ظاہر واراد بایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہگار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً (الانفال 2)

قرآن مجید کی آیات سن کر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جب قرآنی آیات پڑھنے یا سننے میں آپ کو لطف آرہا ہو ، آیات میں دیے گئے پیغام کی سمجھ آرہی ہو ، عمل کرنے کا عزم پیدا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوا ہے ۔
جب اذان ہورہی ہو ، اور ہم سن کر بھی کروٹ بدل کر سو جائیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے ، جس کی وجہ سے شیطان ہم پر حاوی ہورہا ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایمان کے کم اور زیادہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا ، تو آپ نے درج ذیل موقوف حدیث بیان کی :

حدثنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي جعفر الخطمي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ: الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، فَقِيلَ: وَمَا زِيَادُهُ وَمَا نُقْصَانُهُ؟ فَقَالَ: إِذَا ذَكَرْنَا اللَّهَ فَحَمِدْنَاهُ وَسَبَّحْنَاهُ؛ فَذَلِكَ زِيَادَةٌ، وَإِذَا أَغْفَلْنَا وَضَيَّعْنَا وَنَسِينَا، فَذَلِكَ نُقْصَانُهُ.(حديث السراج 3/ 81)

عمیر بن حبیب نے کہا : ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے ، پوچھا گیا : یہ کمی بیشی کیسے ہوتی ہے ؟ فرمایا : جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں تو یہ ایمان میں اضافہ ہے ، اور جب ہم اللہ کے ذکر سے غافل ، لا پرواہ رہتے ہیں تو یہ ایمان کی کمی کے باعث ہوتا ہے ۔
یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ ، السنۃ للخلال ، الشریعہ للآجری ، الابانۃ لابن بطہ ، شعب الایمان للبیہقی سمیت کئی ایک کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ایمان کا اتار چڑھاؤ۔
ایک مومن کا ایمان کب بڑھتا ہے اور کب گھٹتاہے ۔
ایک مومن مرد وعورت کیلئے انتہائی ضروری ہےکہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کو کتاب و سنت کے ترازو میں تولتا رہے اور یہ دیکھتا رہے کہ اسکا ایمان اس دنیا کی خطرناک مارکیٹ میں کس قدر گراوٹ کا شکار ہورہا ہے ، وہ اپنے ایمان کو کتنے وائرس سے بچا پارہا ہے ، یقینا آج ہماری نظریں دنیاوی کاروبار پر لگی ہوتی ہیں کہ جانے کب اور کس لمحہ ہمارے کاروبار کمزور ہوجائے اور ہمیں یہ فکر تو لاحق ہوتی ہے کہ ہم اپنے گرتے کاروبارکیسے کھڑا کریں ، لیکن عجیب سی بات ہے کہ ہمیں اپنے سب سے قیمتی سرمایہ اپنے ایمان کے کمی و زیادتی کی فکر نہیں ہوتی جبکہ سیرت رسول r کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ خبردار ایمان یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے ایک مرتبہ خرید لیا جائے اور اسے اپنے کھاتے میں خاندان در خاندان فکس کردیا جائے ، بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہےکہ ایک مسلمان ہمیشہ اپنی توجہ اسکی طرف مائل رکھے ، اور اس بات کا علم رکھے کہ کونسی چیزیں اسے نقصان پہنچاتی ہیں اور کن چیزوں سے اسے قوت ملتی ہے اس علم کے ساتھ وہ ان چیزوں کو اختیار کرے جن سے ایمان کو جلا ملتی ہے اور ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے جن سے ایمان پارہ پارہ ہوجاتا ہے ، لہذا اس حدیث مبارک کی روشنی میں اسی بات کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ وہ کونسے اسباب ہیں جو ایمان میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور کونسے ایسے اسباب جو ایمان کیلئے خطرہ اور اس میں کمی کا باعث بنتے ہیں :
ایمان میں زیادتی کے اسباب :
پہلا سبب :
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت ، بلا شک انسان کو اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا اسی لئے آپ اہل علم کو جنہیں اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے انہیں ایمان میں دوسروں سے قوی الایمان پائیں گے۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور وفکر تو انسان جتنا زیادہ جہان کے اندر مخلوقات میں غور وفکر کرے گا اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِ
ينَ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ (الذاریات 20 – 21 )

اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
تیسرا سبب :
کثرت اطاعت : کیونکہ انسان جتنی اطاعت زیادہ کرے گا اس کا اتنا ہی ایمان بھی زیادہ ہو گا چاہے یہ اطاعت قولی ہو یا فعلی تو اللہ کا ذکر ایمان کی کیفیت اور کمیت کو بھی زیادہ کرتا ہے نماز روزہ اور حج بھی ایمان کی کیفیت اور کمیت کو زیادہ کرتا ہے ۔
ایمان میں کمی کے اسباب :

پہلا سبب :

اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے جہالت کی بنا پر ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں انسان کی معرفت کم ہوتی ہے تو اس کا ایمان بھی ناقص ہو جاتا ہے ۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور و فکر اور تدبر سے اعراض کیونکہ یہ نقص ایمان کا سبب بنتا ہے یا پھر کم از کم اسے وہیں ٹھرا دیتا اور اسے بڑھنے نہیں دیتا ۔

تیسرا سبب :

معصیت اور گناہ کا ارتکاب کیونکہ گناہ کا دل اور ایمان پر بہت بڑا اثر ہے اسی لئے نبی ﷺکا فرمان ہے: (زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا)۔
چوتھا سبب :
اتباع واطاعت نہ کرنا ترک اطاعت یقینی طور پر نقص ایمان کا سبب ہے لیکن اگر اطاعت واجب ہو اور اسے بغیر کسی عذر کے ترک کیا جائے تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جو کہ ملامت والا نہیں تو اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ناقص العقل اور دین قرار دیا او اس کے نقص دین کی علت یہ بیان فرمائی کہ جب اسے حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے حالانکہ حالت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑنا ملامت کا کام نہیں بلکہ اسی کا حکم ہے لیکن وہ فعل جو کہ مرد کرتا ہے جب اس سے وہ چھوٹ گیا تو اسی وجہ سے وہ ناقص العقل ہوئی ۔( مجموع فتاوی ورسائل الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ)
اوراللہ تعالی کا ذکر ایمان میں زیادتی اور دل کے اطمینان کا سبب ہے –۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

أَلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد 28)

” خبردار اللہ تعالی کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں
اور نماز اور روزوں اور باقی ارکان اسلام کی پابندی کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی امید اور اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے ایمان قوی اور مضبوط ہوتاہے۔
فرمان باری تعالی ہے :

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سورة الأنفال2۔4)

” ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑے درجے اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے\”
اوراللہ تعالی کی اطاعت سے ایمان زیادہ اور معصیت سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو آپ پر جو اللہ تعالی نے نماز کی ادائیگی بروقت اور مسجد میں واجب کی اس کی حفاظت کرنےاور اسی طرح دلی لگاؤ سے زکوۃ کی ادائیگی آپ کے گناہوں سے پاکی اور فقراء اور مساکین کے لے رحمت کا باعث ہو گی –
آپ اہل خیر اور اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں جو کہ آپ کے لئے شریعت کی تطبیق میں معاون ثابت ہو گی اور وہ دنیا وآخرت کی سعادت کی طرف آپ کی رہنمائی کریں گے –اور برے بدعتی اور گناہ گار لوگوں سے دور رہیں تا کہ وہ آپ کو کہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اور آپ میں خیر و بھلائی کے عزم کو کمزور نہ کر دیں –۔
اور کثرت سے نوافل اور خیر وبھلائی کے کام کرتے رہیں اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس سے توفیق طلب کرتے رہو۔
اگر آپ نے یہ کام سر انجام دئے تو اللہ تعالی آپ کے ایمان کو زیادہ کر دے گا اور جو آپ سے بھلائی کے کام چھوٹ گئے ہیں آپ انہیں حاصل کر سکیں گے اور اللہ تعالی اسلام کی راہ پر آپ کے احسان اور استقامت میں زیادتی فرمائے –۔
آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے

يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِکَ

’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ۔‘‘

نعمت کی قدر کیجیے

اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہدایت اور ایمان ہے جس کا شکر ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اللہ کی نعمت کے شکر اور گناہوں سے توبہ واستغفار کا محتاج رہتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اس کی نعمتوں سے مستفید ہوتا رہتاہے۔ نعمتوں کے شکرپہ جو چیز ابھارتی ہے وہ ہے ان پہ غوروفکر ان کا استحضار اور عدم غفلت بہت سے لوگ راحت وآرام کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اچھا گھر اچھی سواری ،اچھا روزگار سب کچھ ہی میسر ہوتاہے مگر بہت سارے یہ سب نعمتیں پا کر متکبر بن جاتےہیں وہ کبھی منعم حقیقی کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کبھی انہوں نے ان چیزوں کو نعمت سمجھا ہی نہیں حالانکہ اگر یہی نعمتیں خدانخواستہ چھن جائیں تو پھر احساس نعمت ہو ،بے گھر افراد گھر جیسی نعمت کی اہمیت جانتے ہیں ، بے روزگاری کی سختی سے بے روزگار افراد ہی آشنا ہیں، بھوکے پیٹ کو کھانے کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے، بدامنی کے شکار معاشرے کو نعمتِ امن کی اہمیت کا احساس ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ڮ فَاَنّٰى تُـؤْفَكُوْنَ (فاطر:3)

’’لوگو! تم پر جو انعام اللہ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو ۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو ۔‘‘
انہی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت نعمتِ وطن ہے جہاں آزادی کے ساتھ ہم رہ رہے ہیں آزادی کی انہترویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔ 14 اگست 1947ء کو لا إلہ إلا اللہ کی بنیاد پہ وجود میں آنے والا ملک الحمد للہ ایک شان سے ایٹمی پاور کے ساتھ مسلم امت کا فخر بن کر کھڑا ہے اس کو توڑنے کی بہت سی سازشیں دم توڑ چکی ہیں ، ڈرانے والے اب خود ڈر رہے ہیں اگرچہ سازشوں کا سلسلہ رُکا نہیں مگر علاج بھی جاری ہے عرب دنیا کے ساتھ رابطہ مزید مضبوط ہوچکا ہے۔ عربوں پہ امریکہ کی بے وفائی آشکار ہوچکی ہے۔ ورلڈ آرڈر کا علمبردار افغانستان میں بُری طرح ناکام ہوچکا ہے اور اب مرگ برامریکہ کا نعرہ لگا کر آزادی قدس کی ریلیاں نکالنے والوں کا امریکہ واسرائیل کی گود میں کھیلنا سب کے سامنے آچکا ہے ۔ نفاق کی دھول چھٹ رہی ہے ، پاکستان کے اندر بھی الحمد للہ بدامنی کا عفریت کچلا جا چکا ہے، کرپشن کا خاتمہ امن ایکشن پلان کا حصہ قرار د ےکر امن ودفاع کے ذمہ دار ادارے بہت سی کامیابیاں قوم کی جھولی میں ڈال کر سرخرو ہوئے ہیں ، وطن کے سیاسی مہاتما تو اپنے ازلی دشمن کی خوشنودی کے لیے مسئلہ کشمیر تک کو بھُلا کر مودی سے بغل گیر ہورہے تھے مگر گجرات کا قاتل منہ میں رام رام کیے بغل میں چھری چھپائے ہوئے تھا،کشمیر میں جو ستم ڈھایا ہے کشمیری نوجوانوں کا خون بے دردی سے بہا کروادی کو لہو رنگ کر دیا گیا ہے۔ شکاری گنوں سے پولیس اور فوج بے گناہ نہتے کشمیریوں کو شکار کر رہی ہے ، گذشتہ چند ہفتوں میں برہان مظفر وانی سمیت بیسیوں کشمیری نوجوان شہید کیے جاچکے ہیں اور یہت سے متوالے ہندو بربریت کے مقابلے میں شہادت کی قبا پہننے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ جمہوریت وآزائ اظہارِ رائے کے چمپئن خاموش ہیں۔ انسانیت پر بدترین ظلم پر انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ اپنا وزن ظالم کے پلڑےپس یوں کہہ کر ڈال رہا ہے کہ یہ پاکستان اور ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہےلیکن کشمیری حریت پسندوں کی تحریک آزادی عروج پر ہے اگرچہ بنیادی انسانی حقوق بھی غصب کر لیے گئے ہیں۔ ٹیلی فون ، انٹرنیٹ،اخبارات پر پابندی اور مسلسل کرفیو آٹھ لاکھ ہندو فوج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے مگر جتیندر سنگھ کے نزدیک کشمیر پہر بھی کوئی تنازع نہیں اور یہی موقف پوری ہندسرکار کا ہے وہ اسے اٹوٹ انگ قرار دیتے آئے ہیں نیز وقت گزاری کے لیے مذاکرات کا ڈول بھی ڈالتے رہتے ہیں لیکن یہ صرف کا ایک فضول مشغلہ ہے جسے بھارت اپنائے ہوئے ہے۔پاکستان بارہا اس موقف کا اعادہ کر چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیا جائے لیکن یہ بات بھارت سمجھنے کے لیے تیار نہیں اسی وجہ سے یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ کشمیر قرار داد مذمت سے نہیں بالکل ہندو کی مرمت سے آزاد ہوگا اب تو بھارت کے حامی روسی ذرائع ابلاغ بھی اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ تجزیہ کچھ زیادہ بعید از امکان بھی نہیں کہ جس ظلم کو بھارت روارکھے ہوئے ہے اس میں خود پاکستان کی اپنی بقا کا بھی مسئلہ ہےکیونکہ بھارت کشمیر سے پھوٹنے والے آبی سوتوں پر مسلسل بند باندھ کر پاکستان کو بنجر کر دینا چاہتا ہے وہ کشمیری مسلمانوں کی مسلسل نسل کشی سے اکثریتی مسلم آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہا ہے۔روسی نیوز ایجنسی اسپوٹنک نے باوجود بھارتی ہمنوا ہونے کے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ کشمیری آبادی پاکستان میں موجود اپنے بھائیوں سے ملنا چاہتی ہے کشمیر کی تقسیم لارڈماؤنٹ بیٹن اورجواہر لال نہرو کی باہمی سازش تھی کہ ستر فیصد مسلم آبادی کا الحاق اہل کشمیر کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق ایک سنگین غلطی تھی جس کا اب ازالہ ہونا چاہیے مگر یہی بات امریکہ کی سمجھ میں نہیں آرہی امریکہ کے جمہوریت اظہار رائے اور انسانی حقوق کے پیمانے اپنے لیے کچھ اور اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہیں وہ جہاں چاہےانسانی حقوق کی بدترین پامالی کو سند جواز فراہم کرکے اسرائیل کو فلسطینی نہتے مسلمانوں پہ  ظلم ڈھانے کے لیے تھپکی دے اور اور چاہے تو مشرقی تیمور کو آزادی رائے کے نام پر ریاست کے خلاف بغاوت کی تائید کرے بلکہ ریاست میں الگ ناجائز ریاست بنوادے۔امریکہ اپنی اس غیر منصفانہ روش کی وجہ سے پوری دنیا کے اندر نفرت کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ ترکی کی جمہوری حکومت کے خلاف حالیہ بغاوت کے پیچھے بھی امریکی سازش کارفرما ہے۔ فتح اللہ گولن کے حامی بغاوت میں ملوث پائے گئے ہیں ترک حکومت نے امریکہ سے باغی فتح اللہ گولن کی حوالگی کے لیے خط لکھ رکھا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اگر وہ گولن کو حوالے نہیں کرتا تو پھر یہ بات طے شدہ ہے کہ امریکہ اس بغاوت کا سرپرست ہے۔ ترکی عوام نے انتہائی بالغ نظری اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سی جانوں کی قربانی دے کر نہ صرف ترکی بلکہ عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے اس عالمی سازش کو ناکام بنایا یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہوا اس میں صدر طیب اردگان کی محنت واخلاص بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ خدمت عوام نے انہیں عوام کے دلوں میں جگہ دی۔ طیب اردگان اپنے کردار کی وجہ سے نہ صرف ترک عوام بلکہ پورے عالم اسلام میں ایک ہیرو کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کے ظلم کے خلاف سب سے پہلے شدید احتجاج طیب اردگان نے کیا ، برما کے مسلمانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے خود اپنی بیگم کے ساتھ برما کا دورہ کیا۔ اہل غزہ کی مدد کے لیے بحری جہاز روانہ کیا جسے اسرائیل نے نشانہ بنایا تو اردگان نے اسے نہ صرف معافی مانگنے پر مجبور کیا بلکہ اس معافی کو غزہ کا محاصرہ ختم کرنے سے مشروط کیا ، مسلمانوں کی عقیدتوں کی محور سرزمین حرم کے تحفظ کے لیے مملکت سعودی عرب سے اردگان نے تعلقات مضبوط بنائے اور یہی چیز استعمار کو کھٹکتی ہے۔سرزمین حرمین میں ماہ مقدس کے اختتام پہ دھماکے استعماری ایجنٹوں ہی کی کارروائی ہے جو امت مسلمہ کے قلب پہ حملہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے منافقین کو اس ظلم سے باز آنا چاہیے۔ اردگان نے ترکی کے اسلامی تشخص کو بتدریج بحال کرنے کی راہ پر ڈالا یہی وجہ ہے کہ جب وہاں ایک فوجی ٹولے نے بغاوت کا علان کیا تو عوام نے فوجیوں کے اس گروپ کی بغاوت ناکام بنا کر یہ واضح کر دیا کہ اب وہ اسلام کے علاوہ کسی ازم کو قبول نہیں کریں گے ۔2003ء سے لیکر اردگان کا مسلسل تین دفعہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا اسی بات کا غماز ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اردگان نے عوام کی خدمت اپنا نصب العین بنایا ، ملک کی مجموعی پیداوار GDPمیں 64 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا جو ایک معجزے سے کم نہیں۔ طیب اردگان جب اقتدار میں آئے تو ترکی 24 ارب ڈالر کا ائی ایم ایف کا مقروض تھا ۔ اردگان نے دس سال کے عرصہ میں نہ صرف یہ قرضہ اتاردیا بلکہ آئی ایم ایف کوآبرومندانہ انداز میں قرض دینے کی پیشکش بھی کردی ۔ 2002 میں ترکی کے سنٹرل بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر 25.5 ارب ڈالر تھے جو اب تقریباً ڈیڑھ کھرب کے قریب جا پہنچے ہیں۔ طیب اردگان کی حکومت سے پہلے ترکی میں کل 26 ایئر پورٹ تھے مگر اب ان کی تعداد 50 کے قریب ہے۔ اردگان نے 13 ہزار 3 سو کلو میٹر طویل قومی شاہراہیں بنوائی ہیں۔ ہر شہری تک طبی سہولیات پہنچانے کے لیے خصوصی ’’گرین کارڈ‘‘ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ کارڈ ان لوگوں کے لیے ہیں جو مہنگا علاج نہیں کرواسکتے۔ 2002ء میں ترکی میں 88 یونیورسٹیاں تھیں مگر اب ان کی تعداد بڑھ کر 186 ہوچکی ہے۔ آج سے تقریباً 20 سال پہلے 222 ترکی لیرا ایک ڈالر کے برابر تھا آج ایک ڈالر کی قیمت پونے تین لیرا ہے۔طیب اردگان نے تعلیم وصحت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے تعلیم وصحت کا بجٹ بڑھا کر دفاع سے بھی زیادہ کر دیا اور اساتذہ کی تنخواہیں بڑھا کر ڈاکٹروں کے برابر کر دیں اور عام ملازمین کی تنخواہوں میں 300 فیصد اضافہ کردیا تو جن کی تنخواہ 340 لیرہ سے شروع ہورہی تھی اسے بڑھا کر 957 لیرہ کر دیاگیا۔ قرآن کی تعلیم کے لیے بچوں کا 12 سال کی عمر کو پہنچنا ضروری تھا اس قانون کو ختم کیا بچوں میں دینی رجحان بیدار کرنے اور ترغیب کا ایک عجیب انداز اختیار کیا، ترکی میں سات سال کی عمر کو پہنچنے والے دس ہزار بچوں کی ریلی نکای یہ ننھے منے بچے اس عزم کا اظہاکر رہے تھے کہ اب وہ نماز کی ادائیگی کے ساتھ حفظ قر|آن کریم شروع کریں گے۔ اردگان کی بہت سی کامیابیوںمیں یہ چند ایک کامیابیاں ہیں جو اردگان نے خدمت عوام کے جذبہ کے تحت محنت واخلاص کے ذریعے سمیٹیں اور نہ صرف ترکی عوام بلکہ عالم اسلام کے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی سبق ہے جن کی طیب اردگان کے ساتھ بہت گہری ذاتی دوستی ہے جس کا اظہار ترکی حکومت نے میٹرو بس منصوبہ میں سو بسیں تحفہ دے کر کیا طیب اردگان کی بیٹی کی شادی میں وزیر اعظم نواز شریف بطور گواہ موجود تھے سوچنے کی بات ہے کہ اگر یورپ کا مرد بیمار سیکولر ترکی اپنے عظیم الشان ماضی کی طرف لوٹتے ہوئے اسلامی کی راہ پر چل کر مختصر عرصہ میں حیران کن ترقی کر سکتاہے تو لا إلہ إلا اللہ کے نعرہ کے ساتھ حاصل کیا گیا وطن اسلامی نظام کے ساتھ کیوں ترقی نہیں کرسکتا؟عوام محبت کرتی ہے خالی نعروں سے نہیں بلکہ ملکی ترقی دیکھ کر خدمت عوام سے مگر یہاں تو معاملہ برعکس اور تقابل ترکی حکومت سے کیا جارہاہے اس حکومت نے اپنے اس تین سالہ دور میں گذشتہ قرضوں کا ریکارڈ توڑ دیا مہنگائی کا تناسب تمام صوبوں میں بڑھا ہے مگر پنجاب تمام صوبوں سے پہلے نمبر پر ہے مہنگائی میں لوڈ شیڈنگ حد یہ ہے کہ رمضان المبارک میں بھی یہ سلسلہ عروج پر رہا قدرتی وسائل سے مالا مال زرعی ملک میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ یقیناً اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کے مترادف ہے۔ سرزمین پاکستان اپنی انہترویں سالگرہ آزادی پہ پھر سے وعدہ یاد دلا رہی ہے کہ اے ارباب اختیار اے وطن کے باسیو! تمہارے اوپر تمہارے آباء واجداد کا ایک قرض ہے وہ وعدہ جو انہوں نے اپنے رب سے کیا تھا کہ اس ارض پاک پر رب کا قانون نافذ کریں گے ابھی تک شرمندہ ایفاء ہونے کا منتظر ہے کہیں قومی نفاق اس اجتماعی قومی وعدہ خلافی کی وجہ سے تو نہیں ہے کہ رب تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَهٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَبِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ (التوبۃ :77)

’’پس اس کی سزا میں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک، کیونکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کے خلاف کیا اور کیونکہ وہ جھوٹ بولتے رہے۔‘‘
ہم اقتدار کے ایوانوں اور تمام اسٹیک ہولڈرز تک یہ آواز پہنچانا چاہتے ہیں اسلام کا نفاذ آپ حضرات کی ذمہ داری ہے اور یہی وطن کی بقا کی ضامن ہے اور آزادی اسی وعدے کی مرہون منت ہے۔ آزادی کی قدر کیجیے نعمت کی قدر کیجیے۔

لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ اَوَّلُھَا

ماہ رمضان اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص انعام، اور ہماری خوش نصیبی کہ اس ماہ مبارک کی برکات سے اپنے آپ کو منور کرنے کا ایک موقع مزید مل گیا، امت اسلامیہ پر عاید اس عظیم فریضہ کے تین پہلو بے مثال ہیں :
اول یہ کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا اور اس سے وفاداری اور عہد الست کی تجدید کرواتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کے حکم سے ہے۔ جو چیزروشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اللہ کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردوں گا۔ اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا اور اسی کیفیت اور رویے کا نام ہے تقویٰ۔
دوم کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ اور یہ ہدایت انبیا کو روزہ کی حالت میں ہی ملی یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت وہدایت ہے۔
لہذا اس مہینے کا حق ہے کہ ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کا ہم سے کیا تقاضا ہے۔
سوم یہ کہ رمضان کے روزوں کو مکمل کریں نہ صرف مکمل بلکہ اس کے بعد جو ذمہ داری ادا کرنی ہے وہ پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے اور وہ ہے کلمۃ الاخلاص کی عملا حاکمیت یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش اور اس طریقے سے جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھایا۔
ان تینوں نکات کا خلاصہ ہمیں یہ نصیحت عطا کرتا ہے :
اس دنیا کا خالق و مالک و رزاق اللہ تعالی ہے ہرشے پر اس کی حکومت ہے اور ساری نعمتیں اسی کا عطیہ ہیں۔ اس کا اختیارکُلی اور ہمہ گیر ہے۔ جس طرح وہ دنیا کی ہرچیز کا خالق اور مالک ہے، اسی طرح وہ انسان کا بھی خالق ، مالک اور حاکم ہےپھراس کی رہنمائی صراطِ مستقیم کی طرف کی گئی اسے بتایا گیا کہ پورا جہاں اس کے لیے ہے، اس کے تابع ہے، لیکن وہ خود اللہ کے لیے ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی اختیار کرے اس میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے کو مالک کی مرضی کے تابع کردے اور اس کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ لگا دےچونکہ خیر اور شر کی پہچان انسان کو ازل سے ہی ودیعت کر دی گیی اور اسی ضمن میں اسے عقل جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا اور سمجھا دیا گیا کہ عقل شرع کے تابع ہو تو نعمت الہی وگرنہ وسوسہ شیطان بن جاتی ہےہدایت الہی کو خود قرآن اس طرح بیان کرتا ہے :

الف) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(البقرۃ ۲:۲)

یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

ب) اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل ۱۷:۹)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
ج) یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے

: الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرۃ ۲:۱۸۵)

قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔
د) یہ ہدایت کا ایسا مجموعہ ہے جس میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ خیر کا مجموعہ ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدۃ۵:۴۸)

پھر اے نبیؐ، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔
ہ) یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(الحجر۱۵:۹)

بلاشہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔
و) انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (یونس۱۰:۵۷)

لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔
ز) یہی ہدایت ہے جو حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی اور حق کا حقیقی معیار ہے۔ اس لیے اس کو مھیمن کہا گیا ہے اور اسی لیے اس کا نام فرقان (حق و باطل میں تمیز کرنے والی) رکھا گیا ہے۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن کا حقیقی موضوع انسان ہے کہ اس کی فلاح اور خسران کس چیز میں ہے۔
جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے لکھا: قرآن کا اصل مقصد انسانوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور گم کردہ اعمال کی اصلاح اور درستی ہے۔ (الفوز الکبیر)
قرآن نے ہمیں اسلام کا جو تصور دیا اس کے مطابق مسلمان کی زندگی کی تقسیمات موجودہ جعلی اور خود ساختہ ہیں کیوںکہ ان تقسیمات کی رو سے مسلمان کا اسلام زمانی و مکانی قیود کا پابند ہو جاتا ہے اور وہ صرف اس وقت مسلمان ہوتاہےجب وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد آتا ہے اور مسجد سے باہر نکلتے ہی دائرہ اطاعت سے باہر آ جاتا ہے یا پھر سال کا ایک مہینہ وہ مسلمان بنتا ہے اور باقی کے گیارہ مہینے پھر وہی نافرمانیاں اور بغاوتیں اور سرکشیاں یہی وجہ ہے کہ قرآن انسان کی اجتماعی زندگی کے ہرپہلو پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مطالبہ خود مسلمانوں سے یہ ہے کہ:

اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (البقرہ۲:۲۰۸)

داخل ہوجاؤ خدا کے دین میں پورے کے پورے۔
انسان کی انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی سب اللہ کی فرمانبرداری میں گزرنی چاہیے یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر اللہ کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ قرآن نے چودہ سو سال قبل انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھایا اس نے قبیلے، نسل، رنگ، خاک و خون اور جغرافیائی تشخص کے بتوں کو پاش پاش کیا اس نے یہ اعلان کیا کہ پوری انسانیت ایک گروہ ہے اور اس میں جمع تفریق اور نظامِ اجتماعی کی تشکیل کے لیے صرف ایک ہی اصول صحیح ہے، یعنی عقیدہ اور مسلک۔ اسی اصول کے ذریعے اس نے ایک نئی اُمت بنائی اور اس اُمت کو انسانیت کی اصلاح اور تشکیل نو کے عظیم کام پر مامور کردیا:

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (آل عمران ۳:۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
رمضان کے مہینے میں قرآن سے ہمارے ربط نے اگر ہمارے دل و دماغ میں یہ سوال پیدا نہیں کیے کہ
اگر قرآن نے پہلے مردہ زمین سے ایک نیا جہاں پیدا کردیا تھا، تو آج ایسا کیوں نہیں ؟
اگر قرآن کل شفا اور رحمت تھا، تو آج کیوں نہیں ؟
اگر ہم ماضی میں اس کی وجہ سے غالب تھے تو آج مغلوب کیوں ؟
اگر کل اسی قرآن کو ہمارے اسلاف دین کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور انجینئر بھی بنتے تھے تو آج کیوں نہیں؟
اور اس کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:
ایک تو یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت سے رہنمایی لینا بند کر دی ہو اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری و بے التفاتی اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔
دوم یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا احترام اور تقدیس کررہے ہوں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے درست منھج اختیار نہ کر رہے ہوں۔
بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔
امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب کہا : جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہم دم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔ یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا۔ (الموافقات، ۳/324)
سید مودودی نے درست کہا کہ: فہمِ قرآن کی ان ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا، جب تک کہ عملاً وہ کام نہ کرے، جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے، کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے

مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رُموز حاصل کرلیے جائیں…. یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اُٹھوائی اور وقت کے علَم برداران کفروفسق و ضلالت سے اس کو لڑا دیا۔ گھرگھر سے، ایک ایک سعید روح اور پاکیزہ نفس کو کھینچ کھینچ کر لائی اور داعیِ حق کے جھنڈے تلے ان سب کو اکٹھا کیا۔ گوشے گوشے سے، ایک ایک فتنہ جو اور فساد پرور کو بھڑکا کر اُٹھایا اور حامیانِ حق سے ان کی جنگ کرائی۔ ایک فردِ واحد کی پکار سے کام شروع کر کے خلافتِ الٰہیہ کے قیام تک پورے ۲۳سال میں یہ کتاب اس عظیم الشان تحریک کی رہنمائی کرتی رہی۔ اور حق و باطل کی اس طویل و جاں گسل کش مکش کے دوران میں ایک ایک منزل اور ایک ایک مرحلے پر اس نے تخریب کے ڈھنگ اور تعمیر کے نقشے بتائے۔ پھر اس کلیے کے مطابق قرآن کے احکام، اس کی اخلاقی تعلیمات، اس کی معاشی اور تمدنی ہدایات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اس کے بتائے ہوئے اصول و قوانین، آدمی کی سمجھ میں اس وقت تک آ ہی نہیں سکتے، جب تک وہ ان کو برت کر نہ دیکھے۔ نہ وہ فرد اس کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی انفرادی زندگی کو اس کی پیروی سے آزاد رکھا ہو اور نہ وہ قوم اس سے آشنا ہوسکتی ہے، جس کے سارے ہی اجتماعی ادارے اس کی بنائی ہوئی روش کے خلاف چل رہے ہوں۔ (تفہیم القرآن ۱/33)
یہ ہیں قرآن سے تعلق کی صحیح بنیادیں اور اگر ان پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا ہو تو پھر قرآن انفرادی زندگی کا نقشہ بھی بدل دیتا ہے اور اجتماعی زندگی کی شکل بھی تبدیل کرا دیتا ہے۔ انفرادی زندگی اس کی برکتوں سے بھرجاتی ہے اور اجتماعی زندگی نیکی اور خوشی کی بہار سے شادکام ہوتی ہے۔جب ہم قرآن کے ساتھ عملا جڑ جائیں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری زندگی کا کویی گوشہ توحید سے باہر نہیں ہماری سیاست اور اقتصاد بھی اس دایرہ کے اہم اجزا ہیں۔ عصر حاضر کے نوجوان شدید فکری انتشار میں گرفتار ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا ہر معاملہ میں انتہا پسند ہونا ہے اسلام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ غیر مسلم کو مسلمان بنایا جایے اور مسلمان کی اصلاح کی جایے لیکن ہم نے اس بنیاد کو ہی مسخ کر دیا ہے جب تک کسی پر حکم نہ لگا دیں اس وقت تک ہماری کویی بات مکمل نہیں ہوتی رسول اللہ ﷺتو ہمیں اپنی سیرت سے یہ سبق دیں کہ : کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟
اور ہم دلوں کے حال جاننے کا دعوی کرتے ہویے تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں اصلاح کے بجائے انقلاب وتبدیلی کے خوشنما شیطانی راگ رنگ کو ہی ھدف سمجھا ہوا ہے جس کے بعد اخوت ایمانی کے بجائے رنگ و نسل کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں جس میں کہیں تو تقسیم کی بنیاد سیاسی جماعتیں تو کہیں مذہبی جماعتیں تو کہیں قبیلہ تو کہیں لسانیت اور رمضان کے مبارک اور مسعود لمحات تو ہمیں واعتصموا بحبل اللہکا سبق دیں جس میں ان تعصبات کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عالم اسلام کے مظلوم مسلمان جو عالمی صہیونی مجوسی اور ہندوانہ مکر وفریب کے ظلم و ستم کے شکنجے میں گرفتار ہیں ایمانی اخوت کی بنیاد پریہ سب ہماری دعاوں کے شدید محتاج ہیں کیونکہ یہ شیطانی مثلث حتمی معرکہ آرائی کے لیے اب کھل کر سامنے آچکی ہے جس میں ان کا سب سے بڑا ھدف عالم اسلام کا روحانی مرکز سعودی عرب اور دوسری اسلامی نظریاتی عسکری مرکزاسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں اور دونوں کے گرد ایک جیسا ہی جال بنا جا رہا ہے

وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ‏

اور ان شاءاللہ ان کی سب چالیں اور ساری مکاریاں الٹی پڑ جاییں گی جیسا نائن الیون اور ڈبل سیون وغیرہ جیسی سازشوں میں ہوا۔
رمضان کا آخری مبارک عشرہ نزول قرآن کا شاھد تو ہے ہی بلکہ قیام پاکستان کا بھی گواہ ہےتو یہ مہینہ ایک مرتبہ پھر ہمیں یہ سبق دیتا ہوا رخصت ہو گا کہ اگر کامیابی و کامرانی درکار ہے تونام محمد اور پیغام محمد ﷺ کے ساتھ ہماری غیر مشروط وفادری ہو نا چاہیے عالم کفر کی امت اسلامیہ کے خلاف یہ ہمہ جہتی یلغار اور غزو فکری تو ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے قرآن اور صاحب قرآن کی سیاسی و عسکری پالیسیوں کو اختیار کرنا ہو گا جس میں اسلام بلند ہوتا ہے نہ کہ پست جہاں طاقت ہو تو ان عالمی مجرموں کا اقتصادی بائیکاٹ اختیار کیا جائے جو ایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ۔
عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو اصلاح کے حقیقی تصور سے روشناس کروائیں ۔
الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر ﷺ کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ:

لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا ’

اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب قرآن کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔

(قسط نمبر7) قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں

سولھواں اصول:

قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ (المائدۃ:100)

’’آپ فرمادیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘
قرآنِ کریم کا یہ عظیم اصول ہے۔ جہاں بھی انسان کو اقوال ‘افعال‘ سیرت وکردار اور مقالات میں تفریق کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خبیث:جو چیز بری اور بیکار ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہو وہ خبیث کہلاتی ہے ‘چاہے وہ ظاہراً دیکھی جانے والی چیزہو یا معنوی چیز ہو۔ چنانچہ ’’خبیث‘‘ میں ہر غلط گفتگو ‘ برا اعتقاد ‘ جھوٹی بات اور براکام شامل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے برے کام کو ناپسند کرتا ہے اور اُس سے راضی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً وہ کام جہنم میں لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَیَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَہٗ عَلٰی بَعْضٍ فَیَرْکُمَہٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَہٗ فِیْ جَہَنَّمَ (الانفال:۳۷)

’’اور ناپاکوں کو ایک دوسرے سے ملا دے‘ پس ان سب کو ڈھیر کر دے ‘پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دے۔‘‘
جب خبیث کے معانی واضح ہوگئے تو ’’طیب‘‘ (پاکیزہ) اس کا اُلٹ ہوا۔ پس اقوال‘ افعال‘ صحیح اعتقادات میں سے جو بھی واجب ‘مستحب اورمباح ہیں‘ وہ سب اِس میں داخل ہو جائیں گے۔ چنانچہ اس قاعدے میں ہر وہ چیز داخل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہو خواہ اس کا درجہ واجب ہو‘ مستحب ہو یا مباح ہو۔
چنانچہ ایمان وکفر‘ اطاعت ونافرمانی‘ اہل جنت و اہل جہنم اور اچھے اعمال و برے اعمال‘ نیز مالِ حلال ومالِ حرام برابر نہیں ہو سکتے۔ درجِ ذیل آیت کے شروع میں یہ قاعدہ بیان ہوا ہے‘ فرمایا:

قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ (المائدۃ: 100)

’’(اے نبیﷺ!) آپ فرمادیجئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں ‘گو آپ کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو‘ تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔‘‘
اور یہ بات اسی سلسلہ کلام میں بیان ہوئی ہے‘ جس میں کھانے پینے کی اقسام ‘شکار کے احکام اور حرام و حلال کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ آیت اس لیے تو بہر حال نہیں آئی کہ محض یہ بتا دے کہ خبیث و طیب برابر نہیں ہوا کرتے۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے اور فطری طور پرمعلوم ہے‘ بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ اس بات کی ترغیب دلائی جائے کہ قول وعمل‘ اعتقاد اور کمائی میں طیب کو تلاش کیا جائے۔ دوسری طرف قول وعمل‘ اعتقاد اور کمائی میں خبیث سے اجتناب کیا جائے۔
جب صورتِ حال یہ ہے کہ بعض لوگ اقوال‘ افعال اور کمائی میں خبیث کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور بہت سارے لوگ فوری فائدے کو دیر سے ملنے والے فائدے پر اور ختم ہونے والے فائدے کو ہمیشہ باقی رہنے والے فائدے پر ترجیح دیتے ہیں‘ تو خبیث کے بارے میں عجیب انداز میں متنبہ کیا گیا ہے جس سے ہر اُس آدمی کی بات کا جواب ہو گیا جو یہ سمجھ رہا ہے کہ بہت سارے لوگ خبیث سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ فرمایا:

وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ

’’گو آپ کو ناپاک کی کثرت اچھی لگتی ہو!‘‘
یہ حقیقت ہے کہ بعض خبائث میں کچھ نہ کچھ جسمانی یا معنوی لذت ہوا کرتی ہے‘ جیسے حرام طریقے سے بہت سارا مال کما لینا‘ زنا کرنا‘ شراب نوشی کرنا یا دوسرے لذت والے حرا م کاموں کے ذریعے جسمانی لذت
حاصل کرنا۔ بسا اوقات یہ چیزیں انسان کو برائی کی طرف
مائل کرتی ہیں اور اُسے اچھی بھی لگتی ہیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ چیزیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں ‘اِن کے استعمال سے لذت بھی ملتی ہے اور باآسانی مل بھی جاتی ہیں‘ لیکن نتیجہ وہی ہے کہ انسان کو اَبدی اور باقی رہنے والی نعمتوں اور خوشیوں سے محروم کر دیتی ہیں۔
جب معاملہ اسی طرح ہے جیسے کہ بیان ہواتوممکن ہی نہیں کہ ’’خبیث‘‘، ’’طیب‘‘ کے برابر آجائے (اگرچہ اس کی کثرت تمہارے دل کو اچھی لگتی ہو)۔ طیب کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اللہ کی پہچان‘ محبت اوراطاعت کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ کی قسم یہی وہ خوشگوار زندگی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہر اُس انسان سے وعدہ کیا ہے جواِستقامت پر زندگی گزار دے۔ نتیجتاً اُس کی زندگی دنیا میں ‘ برزخ میں ‘اورآخرت میں بہت عمدہ اور خوشگوار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (النحل 97)

’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت لیکن باا یمان ہوہم اُسے یقینا ًنہایت بہتر زندگی عطا فرمائیںگے‘ اور اُن کے نیک اعمال کابہتر بدلہ بھی اُنہیں ضروردیں گے۔‘‘
چونکہ ان لوگوں کے اقوال ‘ افعال اورزندگی عمدہ تھی‘ لہٰذا اللہ کی طرف اُن کی واپسی بھی عمدہ ہی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ(النحل:۳۲)

’’وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں۔‘‘
چونکہ اس اصول کامقام بہت عظیم ہے اور جو باتیں اس میں بیان ہوئی ہیں وہ بھی بہت عظیم ہیں‘ تو بہت ساری شکلوں میں قرآن کریم نے اس کی تاکید فرمائی ہے :
(۱)اس بات کی تاکید کی کہ ہمیشہ پاکیزہ کمائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(البقرۃ 168)

’’لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤپیواور شیطانی راہ پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔‘‘
بالخصوص اپنے رسولوں اور پیغمبروں(o) سے مخاطب ہو کر فرمایا:

یٰٓــاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (المؤمنون51)

’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤاورنیک عمل کرو۔ تم جوکچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔‘‘
اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ اس عظیم مقصد یعنی پاکیزہ کمائی پر دھیان دیا جائے ۔ سلف صالحین اس مسئلے پر بڑی توجہ دیا کرتے تھے‘ حتیٰ کہ ان میں سے کچھ لوگ سینکڑوں میل کا سفر کرتے‘ وطن کی جدائی برداشت کرتے ‘ اور یہ سب کچھ اس لیے کرتے تاکہ لقمہ حلال حاصل کرسکیں۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا فرمان ہے: ’’حلال روزی کمانابہادروں کا کام ہے۔‘‘
(۲) قرآنِ کریم کے اس عظیم قاعدے سے ایک راہنمائی یہ بھی ملتی ہے کہ یہ بات قطعاً صحیح نہیں کہ ہم کسی چیز کی کثرت کوبنیاد بنا کر کہیں کہ یہ چیز ’’طیب‘‘ ہے اور صحیح ہے اور اس پر کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔ یہی حکم اقوال ‘ افعال اور عقائد پر لاگو ہوگا۔ بلکہ اصل فرض تویہ ہے کہ ہم چیزوں کے بارے میں فیصلہ اُن کی کیفیت اور صفت کو سامنے رکھ کر کریں کہ کس حد تک یہ چیز یا کام شریعت ِمطہرہ کے مطابق ہے۔
اِس ایک بات پر غور کر لیں کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ماننے والے کتنے کم ہوا کرتے تھے اور اُن کے دشمن کس قدر زیادہ ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (الانعام:۱۱۶)

’’اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیںکہ اگر آپ اُن کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کردیں۔‘‘
یہی بات ایک عالم ومبلغ کو بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ اس بات کا خیال رکھے کہ منہج اور طریقہ کس کا صحیح ہے؟ یہ نہ دیکھے کہ کس بات کو ماننے والے زیادہ ہیں۔
اے مؤمن بھائی ! یہ بات بالکل پکی ہے کہ جس قدر لذت ومزہ حرام میں ہے اتنا ہی مزہ حلال میں بھی ہے بلکہ اس سے بہتر ہے‘ اور بڑی بات یہ ہے کہ حلال کی برکت سے دنیا اور آخرت میں برے انجام سے حفاظت ہے۔ عقل مند انسان جب اپنے آپ کو خواہشات کی غلامی سے آزاد کر لیتا ہے اور اپنے دل کو تقویٰ اور اللہ کے ڈر سے بھر لیتا ہے تو وہ صرف طیب (پاکیزہ) ہی کا انتخاب کرتا ہے‘ بلکہ اس کا نفس خبیث سے دور بھاگتا ہے‘ بھلے وہ بہت ساری لذتوں سے محروم ہو جائے اور اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل کو اس آیت کے ذریعے تسلی دیتا رہتا ہے:

قُـلْ مَتَاعُ الــدُّنْیَا قَـلِیْلٌ وَالْاٰخِـرَۃُ خَــیْرٌ لِّـمَنِ اتَّقٰی وَلاَ تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً(النساء 77)

’’(اے نبی ﷺ!) آپ کہہ دیجئے کہ دنیا کی سود مندی تو بہت ہی کم ہے‘ اور پرہیز گاروں کے لیے تو آخرت ہی بہتر ہے‘ اور تم پر ایک دھاگے کے برابر بھی ستم روا نہ رکھا جائے گا۔‘‘
سترہواںاصول

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ
(القصص 26)

’’بہتر آدمی جسے آپ ملازمت پر رکھیں وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔‘‘
معاملات اور لوگوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے یہ قرآنِ حکیم کا انتہائی محکم اورمضبوط اصول ہے ۔
سورۃ القصص میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور مدین کے رہائشی بزرگ کے واقعے کے حوالے سے یہ اصول آیا ہے۔ یہ بزرگ پانی کی تلاش میں نکلنے سے عاجز تھے ‘ ان کی دونوں بیٹیاں جانوروں کو پانی پلانے کی خاطرنکلا کرتی تھیں۔ کنویں سے لوگوں کے(اپنے جانوروں کو) پانی پلاکر جانے کے انتظار میں انہیں دیر ہو رہی تھی ۔ موسیٰ علیہ السلام کی مروّت اورمردانگی سے برداشت نہ ہوا اور ان بچیوں کے سوال کرنے سے پہلے ہی اُن کی ضرورت پوری کر دی اوران کے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ آپ کا یہ کام ان دونوں بچیوں کو بہت پسند آیا ‘ تو انہوں نے گھر بیٹھے بوڑھے باپ سے جاکر اس واقعہ کا تذکرہ کیا۔ بوڑھے باپ نے موسیٰ علیہ السلام کو بلالانے کی خاطر بھیجا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے اپنے حالات سنائے‘ اور بچیوں کو بھی خوب معلوم تھا کہ ان کا والد تندرست مردوں والے کام نہیں کرسکتا‘ تو اِن دونوں بچیوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے کہا:

یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ (القصص26)

’’اباجی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجئے‘ کیونکہ آپ جنہیں اُجرت پررکھیں ان میں سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اورامانت دار ہو۔‘‘
لڑکی نے کہا: ’’بہتر آدمی جسے آپ ملازمت پر رکھیں وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو‘‘۔ یہ اس لڑکی کے مطالبے کا سبب اور وجہ ہے۔
قوت (طاقت) ‘کام کی ضرورت ہے اور امانت کام کو اچھے طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت کانام ہے۔
بالخصوص ان دونوں صفات کا بیان کرنااس بچی کے انتہائی سمجھ دار اورذہین ہونے کی دلیل ہے‘ جس نے یہ دونوں خوبیاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام میں محسوس کر لیں۔ تمام قوموں اور شریعتوں میں اہل علم وفراست ان دونوں خوبیوں کی ضرورت واہمیت پر متفق ہیں۔
علمائے کرام رحمہم اللہ نے اس آیت کو اس اصول کی بنیاد قرار دیا ہے کہ جو انسان جس کام کا ذمہ دار بنایا جائے اس میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائیں‘ اور جس آدمی میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائیں وہ اس کام کا زیادہ حق دار ہے۔ جس قدر ذمہ داری بڑی ہو گی اسی اعتبار سے ان دونوں خوبیوں کے حوالے سے سختی زیادہ ہوگی۔
جوآدمی بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے اسے ان دونوں خوبیوں میں گہرا ربط نظرآتا ہے۔ قوت وامانت کو متعددجگہ اکٹھا ملاکر بیان کیا گیا ہے۔

(۱)انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام تک وحی اور پیغامات پہچانے والے فرشتے (جبریل علیہ السلام ) کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ(التکویر19۔21)
’’یقینا یہ ایک بزرگ رسول کا کہا ہوا ہے۔ جو قوت والا ہے ‘عرش والے (اللہ) کے نزدیک بلند مرتبہ ہے ۔جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے اور وہ امین ہے۔‘‘
(۲)سیدنا یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر سے فرمایا:

اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ

’’آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقررکر دیجئے ‘ میں حفاظت کرنے والا‘باخبر ہوں۔‘‘(یوسف55)
یعنی جو ذمہ داری مجھے دی جائے گی ‘ میں اس کی حفاظت کروں گا۔ کوئی چیزبے محل ضائع نہیں ہوگی ‘ہر آنے جانے والی چیز کا ریکارڈ ہوگا۔ میں اس پورے نظام کو خوب جانتا ہوں‘ کس کو دینا ہے کس کو نہیں دینا ‘اور دوسرے معاملات سے بھی واقف ہوں۔
(۳)سیدنا سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں بیان ہوا ہے ‘ وہ اپنے اردگرد موجود افراد سے ملکہ سبا ’’بلقیس‘‘ کے عرش کو لانے کے معاملے پرغور کر رہے تھے۔

قَالَ یٰٓـاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ (النمل 38۔39)

’’آپؑ نے فرمایا: اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو اُس کے مسلمان ہو کرپہنچنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے پاس لے آئے؟ ایک دیو ہیکل جن کہنے لگا: آپ کے اپنی اس مجلس سے اُٹھنے سے پہلے ہی میں اسے آپ کے پاس لے آتا ہوں۔ یقین مانیے کہ میںطاقتور بھی ہوں اور امانت داربھی ۔‘‘
انہی دلائل کی روشنی میں اہل ِ علم نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ ہر منصب اور ہرکام کے لیے بہتر سے بہتر انسان کا انتخاب کیا جائے‘ کیونکہ ذمہ داری کے دو رکن ہوا کرتے ہیں: طاقت اورامانت ‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ

’’آپ جنہیں اُجرت پررکھیں اُن میں سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اورامانت دار ہو۔‘‘(القصص)
ہرذمہ داری کے اعتبار سے طاقت کا معیار مختلف ہوا کرتا ہے۔ جنگ کی ذمہ داری ہو تو معیار: دل کی بہادری‘ جنگوں کاتجربہ ‘دشمن کو دھوکہ دینے کی صلاحیت اورمختلف طریقوں سے جنگ کرنے کی طاقت ہے۔ لوگوں میں فیصلہ کرنے کی ذمہ دا ری ہوتوطاقت کا معیار: کتاب اللہ اور سنت ِ رسول اللہ ﷺ کے مطابق عدل وانصاف پر مبنی علم ہے۔ نیز فیصلوں کو جرأت کے ساتھ نافذ کرنے کی طاقت موجودہو۔
امانت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کاڈراورخوف ہے کہ وہ اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا نہ کمائے اور لوگوں سے نہ ڈرے۔
آخر میں فرمایا:اس موضوع کی اہم بات یہ ہے کہ بہتر سے بہتر انسان کو لایا جائے۔ اور یہ اسی وقت ہو پائے گا جب ذمہ داری کے مقصد کو سمجھا جائے گااور اس ذمہ داری تک پہنچنے کے طریقوں کو جانا جائے گا۔ جب مقاصد اور وسائل سمجھ آجائیں تو معاملہ حل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

اصول تکفیر اور اُس کے ضوابط و شرائط

کسی بھی دنیاوی یا دینی علم کو حاصل کرنے کےلئے پہلے
اُس کے مبادیات اور اصول کا علم حاصل کرتے ہیں جیسے تفسیر میں اصول تفسیر، حدیث میں اصول حدیث اور فقہ میں اصول فقہ وغیرہ۔ تاکہ ہم اُس مضمون کے ساتھ کماحقہ انصاف کرسکیں اور اس کے تقاضے پورے کرسکیں۔ ہر علم میں ہم اُس کی مبادیات کو صرف اس لئے حاصل کرتے ہیں تاکہ ہم اُس کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور اُس میں عملی غلطیوں سے بچ سکیں۔ اور اِسی ضمن میں جب ہم اصول تکفیر اور اُس کے ضوابط کی بات کرتے ہیں تو اُس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم انجانے پن میں کسی ایسے فعل کا ارتکاب نہ کریں کہ خود اُسی کے مجرم بن جائیں۔
مسئلہ تکفیر بھی اسی طرح اصول و ضوابط کا پابند ہے جن کے بارے میں علم حاصل کرنا ہر ذی علم پر فرض ہے کہ اُسی صورت میں وہ اپنے اوپر عائد کردہ فرائض سے عہدہ براہ ہوسکتا ہے۔اور اگر کوئی شخص اس مسئلہ میں اس کے ضوابط اور شروط کو مدنظر نہیں رکھتا تو سب سے پہلے وہ تکفیر اُسی پر لوٹ آتی ہے اور وہ واضح طورپر اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کررہا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار بھی ہوگا کیونکہ فتویٰ یا فیصلہ یا پھر کوئی حکم لگاناکوئی آسان کام نہیں کہ جب چاہے جہاں چاہے جیسے چاہے لگادے۔ اور نہ ہی یہ مقام ایسا ہے کہ ہر شخص تو درکنار ہر عالم دین بھی اس پر فائز ہو۔ اس کی واضح مثالیں ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے عہد مبارکہ میں بھی نظر آتی ہیں۔اور اُس دور میں کتنے صحابہ اس مسند پر فائز تھے باوجود اس امر کے کہ اُن سب کے علم کا منبع نبی کریمﷺ کی ذات مقدسہ تھی۔ اور انہوں نے وحی کو اُترتے دیکھااور اُس پر عمل ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔لیکن اس کے باوجود اُس افضل جماعت میں یہ بات نظر نہیں آتی کہ ہر صحابی اس مسند پر فائز ہوتا۔ اور اگر ایسا مسئلہ کسی عام صحابی کے ساتھ پیش آیاتو نبی کریمﷺ کے تہدیدی کلمات ” کیا تُو نے اُس کا دل چیر کر دیکھا تھا ” اور ناراضگی اُس کے لئے ہدایت نامہ بن گئی۔
یعنی خلاصہ القول اس مسئلہ سے اہل علم ہی عہدہ براہ ہوسکتے ہیں جو کہ تمام امور پر دسترس رکھتے ہوں اور حکم لگانے سے

پہلے چندامور پر بالخصوص غور کریں:

اول: محکوم علیہ کی صورتحال سے مکمل واقفیت
دوم: جس ضمن میں حکم لگایا جارہا ہےاُس کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
سوم: جو حکم لگایا جارہا ہےاُس کے تقاضے پورے کئے جائیں۔
ذیل میں ہم اصول تکفیر کے ضوابط کا جائزہ لیتے ہیں:
ضابطہ نمبر 1: تکفیر شرعی امور میں سے ایک حکم ہے جو کہ صرف ربِّ کریم کا حق ہے اور اس حق میں کوئی جماعت، افراد، عقل، ذوق، تعصب اور حمیت وغیرہ کا عمل دخل نہیں ہے۔
تکفیرکےمنفی نتائج و عواقب سے بچنے کیلئے اس منہج کو اچھی طرح جان لیں کہ تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے جو کہ صرف اور صرف رب کریم کا حق ہے۔ واضح رہے کہ اس میں قران مجید اور احادیث نبویہ دونوں ہی شامل ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ: ” یہ بات اس سوچ کے خلاف ہے جیسا کہ بعض لوگ (ابو اسحاق) کہتے ہیں کہ ہم صرف اس کی تکفیر کریں گے جو ہماری تکفیر کرے گا۔ پس یہ اصول غلط ہے کیونکہ تکفیر اُن کا حق نہیں بلکہ اللہ کا حق ہے اور نہ ہی کسی انسان کےلئے جائز ہے کہ جو اُس کی تکذیب کرے وہ بھی اُس کی تکذیب کرے۔ اور نہ وہ کوئی برائی کرے کسی کے ساتھ کہ جس نے اُس کے
ساتھ برائی کی یعنی کسی کا اُس کے ساتھ برائی پر اُبھارنا
لازم نہیں ہے کیونکہ برائی کے مقابلہ میں برائی حرام ہے۔
مثال کے طور پر اگر یہود و نصاریٰ ہمارے رسول کریم
ﷺ کو گالیاں دیتے تھے تو ہمیں لازم نہیں کہ ہم بھی موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو گالیاں دیں اور اگر روافض ابوبکر و عمر رضوان اللہ اجمعین کی تکفیر کریں تو ہم علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کریں۔” ( منہاج السنۃ ۔ 5/244)
اور ایک جگہ فرمایا کہ:” اس لئے اہل سنت و جماعت اپنے مخالفین کی تکفیر اس وجہ سے نہیں کرتے چاہے اُن کا مخالف ان کی تکفیر کرے۔پس تکفیر حکم شرعی ہے اور انسان کے لئے جائز نہیں کہ اس کا تعاقب بھی تکفیر سے ہی کریں۔ جیسے کوئی کسی کے ہاتھ جھوٹ اور زنا سے برائی کرے تو لازم نہیں کہ وہ بھی جھوٹ اور زنا کے ساتھ یہ برائی کا بدلہ لے کہ جھوٹ اور زنا حرام ہیں۔ لہٰذا ہم کسی کی بھی تکفیر نہ کریں اس وقت تک، اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے اُس کی تکفیر نہ کی ہو۔(الرد علی البکری۔ 257)
اور قرانیؒ فرماتے ہیں : ” تکفیر کا عقلی امور میں کوئی دخل نہیں بلکہ یہ شرعی امور میں ایک اہم امر ہے بس جس چیز کے بارے میں شارع نے کہا کہ یہ کفر ہے تو اُس کا مرتکب کافر ہوگا چاہے اُس کا شمار کسی بھی ضمن میں ہو۔” (تہذیب الفروق۔156، 4)
اور اسی طرح غزالی رم طراز ہیں : ” کفر ایک شرعی حکم ہے جیسے رقّ اور حرّیت کیونکہ کسی کی تکفیر کا مطلب ہے اُس کا کون ہم پر حلال ہوگیا ہے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا پس اس تکفیر کا فیصلہ نص قرانی یا حدیث پر کیا جائے گا۔”
( فیصل التفرقہ بین الاسلام و الزندقہ-128)
اور ابن الوزیر فرماتے ہیں: ” یہ بے شک تکفیر ایک سمعی حکم ہے یعنی شرعی اس میں عقل کا کوئی دخل نہیں اور جب تک دلیل قطعی وارد نہ ہوجائے، تکفیر نہ کی جائے گی۔” (العواصم من القواصم 78، 4)
اور ابن القیم نے اسی بات کو اپنے قصیدہ نونیہ میں نظم کیا:
الكفر حق الله ثم رسوله

بالنص يثبت لا بقول فلان
من كان رب العالمين وعبده قد كفراه فذاك ذو الكفران

کہ تکفیر صرف اور صرف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا حق ہے یعنی نصوص قطعیہ کے ساتھ نہ کہ کسی کے قول کی وجہ سے۔
الشیخ ابن عثیمینؒ ایک سوال ” کیا آپ اہل تاویل کی تکفیر یا تفسیق کرتے ہیں۔” کے جواب میں لکھتے ہیں:” کسی کی تکفیر یا تفسیق ہمارا حق نہیں بلکہ وہ تو اللہ اور رسولﷺ کا حق ہے پس وہ شرعی احکام میں سے ہے جس کا منبع اور ماخذ کتاب و سُنت ہے۔ پس اُسی کو ہی ثابت رکھنا چاہیئے لہٰذا نہ تو کسی کی تکفیر کی جائے اور نہ ہی تفسیق حتیٰ کہ اس کے کفر اور فسق پر واضح دلیل نہ آجائے۔ کیونکہ کسی مسلمان کی بنیاد اس کا اسلام اور اس کی صداقت اور عدالت ہے یہاں تک کہ کسی دلیل قطعی کی مخالفت میں وارد ہونے کے بعد اس کے اسلام کا کمال یا مکمل اسلام ہی زائل ہوجاتا ہے، اس کی صداقت اور عدالت ختم ہوجائے کیونکہ ہم اگر کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو اس کے دو عظیم خطرات ہیں:
اول: اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا حکم اور محکوم کے ضمن میں
دوم: اگر تکفیر غلط کی گئی ہے تو اُس پر لوٹ آئے گی۔
لہٰذا کسی کی تکفیر سے قبل دو امور پر مکمل نظر ڈالنا لازمی ہے:
1۔ کتاب و سنت کی اس بات پر دلالت کہ یہ فعل یا قول کفریہ ہے یا فسق پر مشتمل ہے
2۔ اور اس حکم کا محکوم پر مکمل انداز میں انطباق ہونا کہ تکفیر کی عام شروط پوری ہوں اور اس میں کوئی امر مانع نہ پایا جائے۔”( القواعد المثلی فی صفات اللہ و اسماء الحسنیٰ ۔ ص 87، 88)
ان علماء و فضلاء کے اقوال سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:
تکفیر صرف اور صرف اللہ اور اُس کے رسول کا حق ہے۔
تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے نہ کہ عقلی مسئلہ۔
تکفیر میں کسی قسم کے عقلی دلائل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
تکفیر صرف اور صرف نصوص قطعیہ کے وارد ہونے پر کی جائے گی۔
تکفیر کے نتائج میں: اللہ اور اُس کے رسول پر جھوٹ، اُس کے خون کے حلال ہونے کا بیان، غلط تکفیر مکفّر پر لوٹ آئے گی۔
مخالفت میں تکفیر کرنا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
ضابطہ نمبر 2: قیام حجت اور زائل شبہات
کسی بھی مسلمان کی تکفیر اس کے کسی قول، فعل یا اعتقاد پر نہ کی جائے یہاں تک کہ اس پر حجت نہ قائم کردی جائے اور اس سے متعلقہ امور میں شبہات کو زائل نہ کردیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا( الاسراء15)

” اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔”
اس مفہوم میں بے شمار آیات ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پوچھے گا کہ کیا تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے جس پر وہ اثبات میں جواب دیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کے آمد اور اپنی ہدایت کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کسی قوم یا کسی فرد تک اُس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا۔ وہاں یقیناً کسی کے ساتھ ظلم نہ ہوگا۔ اِسی طرح بہرا، پاگل، فاتر العقل اور زمانہ فطرت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانہ میں فوت ہونے والوں کا مسئلہ ہے تو اُن کی بابت بعض روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ اُنہیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اگر وہ اللہ کے حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو جہنم اُن کے لئے گل و گلزار بن جائے گی بصورت دیگر اُنہیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔( مسند احمد 4/24 ، ابن حبان 9/226، صحیح الجامع الصغیر البانی نمبر 881)
اِسی طرح چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے۔ مسلمانوں کے بچے تو جنّت میں جائیں گے ہی البتہ کفّار اور مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے۔ اِس میں کوئی تؤقف کا قائل ہے اور کوئی جنّت میں جانے قائل اور کوئی جہنم میں۔
ابنِ کثیر لکھتے ہیں: ” میدان حشر میں اُن کا امتحان لیا جائےگا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنّت میں اورجو نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔” ( تفسیر ابن کثیر ، سورۃ بنی اسرائیل آیت 15)
لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنّت میں جائیں گے۔ ( صحیح بخاری-3/251، 12/348، مع لفتح لابن حجر)
خلاصہ القول: جب تک اس پر حجت نہ قائم کی جائے گی اس پر حکم نہ لگایا جائے گا امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری” میں لکھا ہے: ” کتاب استتابۃ المرقدین” اور تبویب باندھی ہے کہ خوارج اور ملحدین سے قتال جائز نہیں یہاں تک کہ اُن پر حجت قائم نہ ہوجائے اور اُن کا باطل ہونا ثابت ہوجائے اور اس پر دلیل یہ آیت ہے کہ اس میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کا مواخذہ نہ کرے گا یہاں تک اُس کیلئے دونوں راستے کھول کر بیان کردے۔” (عمدۃ القاری۔ عینی 369/19)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” تکفیر امور وعیدیہ میں ہے چاہے اس کا قول نبی کریمﷺ کے قول کی تکذیب کرتا ہو لیکن ہوسکتا ہے اُس نے اسلام قبول کیا ہو یا پھر کسی دُور دراز جگہ میں رہائش پذیر ہو جہاں اسلام کی تعلیمات مکمل طور پر نہ پہنچ سکی ہوں تو ایسے شخص کی تکفیر نہ کی جائے گی سوائے حجت قائم کرنے کےبعد اور بعض اوقات ہوتا ہے کسی نہ کسی مسئلہ میں متعلقہ نصوص نہیں ہوتیں یا پھر اس کے نزدیک معارض نصوص بھی ہوتی ہیں تو باوجود اس کے وہ غلطی پر ہوتا ہے لیکن ہم تکفیر نہیں کرسکتے۔” ( مجموع الفتاویٰ۔ 231/3)
اور ایک جگہ لکھا ہے کہ: ” پس کسی کیلئے جائز نہیں کہ مسلمان میں سے کسی کی تکفیر کرے، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو لیکن جب تک اُس پر حجت نہ قائم کی جائے اور تمام شبہات کو زائل نہ کیا جائے۔” ( مجموع الفتاویٰ۔ 465/12)
اور ابن قدامہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ” المغنی” میں رقم طراز ہیں کہ: اگر وہ شخص کسی چیز کے وجوب کا منکر ہے کیونکہ وہ اسلام جدید کا حامل ہوسکتا ہے یا پھر اُس نے کسی ایسی جگہ تربیت پائی ہو جہاں اسلام کی مکمل تعلیمات نہ پہنچ سکی ہوں، اہل علم اُس کی تکفیر نہیں کرتے یہاں تک کہ اُس کو پہلے اس مسئلہ پر وارِد شُدہ نصوص سے متعارف نہ کروایا جائے اور سمجھایا جائے اور پھر بھی انکار کرے تو وہ کافر ہوگا اور اگر وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں اسلام مکمل خدوخال میں موجود ہے تو انکار کرنے والا کافر ہوگا۔” (المغنی ابن قدامہ ۔ 85،86/10)
اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدامہ بن مظعون نے شراب کو حلال جانتے ہوئے استعمال کیا تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے اُن پر حد جاری کی اور اُنکی تکفیر نہ کی اور اِسی طرح ابو جندل اور اُنکے ساتھ ایک جماعت نے شام میں شراب کو حلال جانتے ہوئے پیا اِس آیت کی دلالت کرتے ہوئے (آیت ؟) ” کوئی حرج نہیں مؤمنین پر کہ وہ کچھ کھائیں پئیں” تو اُن کی تکفیر نہ کی گئی تھی بلکہ شراب کی حرمت سے واقف کروایا گیا اور اُنہوں نے توبہ کی اور پھر اُن پر حدّ جاری کی گئی۔
اور اسکی مثالیں حیات طیبہ سے بھی ملتی ہیں۔ جیسا کہ مختلف احادیث میں ملتا ہے کہ:سیّدنا معاذ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبیﷺ کو سجدہ کرنے کی اجازت طلب کی تو نبیﷺ نے اُن کی تکفیر نہ کی بلکہ اُن کو سمجھایا کہ سجدہ صرف اور صرف اللہ کےلئے ہے، غیر اللہ کےلئے سجدہ جائز نہیں ہے۔ لا سجدہ الا اللہ اور ان جیسے اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ازالہ جہالت و شبہات اور موانع سے قبل حکم لگانا مناسب نہیں اور اس ضمن میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین جیسا افضل گروہ ایسی حالت میں گرفتار ہوسکتا ہے اور ایسے ماحول میں جہاں نور اور ہدایت ہے تو موجودہ دور میں کوئی عام آدمی اس رعایت کا اُن سے زیادہ مستحق ہے۔
( الدر النضید ۔ ج9)
اور کیسے وہ لوگ جو جہالت کے غلبہ میں اور عہد نبوی سے دور ہیں ، ہوسکتا ہے صحابہ کرام کی نسبت دینی احکام کےعلم کے پس منظر میں اور سیّدنا معاذ کے نبی کریمﷺ کو سجدہ سے امام شوکانی یہ دلیل اخذ کرتے ہیں کہ جس نے جہالت کا شکار ہوکر غیر اللہ کو سجدہ کیا تو وہ کافر نہ ہوگا۔
( نیل الاوطار ۔ 363/6)
حتیٰ کہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ: ” جو کوئی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت کی بات کرے یا اللہ کے مخلوق میں حلول کے بارے میں کہتا ہے یا کوئی بھی ایسا قول جو صراحتاً اسلام کی مخالفت میں ہوتو قیام حجت سے قبل اُس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔” ( الفصل ۔ 293/3)
خلاصہ القول:
تکفیر صرف اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حقوق میں سے ہے۔
قیام حجت سے قبل تکفیر کرنی درست نہیں ہے۔
ازالہ شبہات سے قبل بھی تکفیر مناسب نہیں ۔
ازالہ جہالت کے بعد تکفیر کرنا بہتر ہے۔
جہالت کا شکار ہو کہ کوئی کتنا بھی جرم کرلے اگر وہ اپنی غلطی ماننے پر توبہ کرلیتا ہے حتیٰ کہ غیر اللہ کو سجدہ بھی تو وہ قابل معافی ہے۔
جہالت کے اسباب میں سے ہوسکتا ہے کہ اس سے اسلام حال ہی میں قبول کیا ہو، اس تک اسلام کی تعلیمات مکمل نہ پہنچی ہوں، اس کے پاس کوئی معارض نصوص ہو، اس تک اسلام کی صحیح صورت نہ پہنچی ہو۔
ضابطہ نمبر 3: تکفیر میں اصول اور فروعی مسائل کی کوئی تخصیص نہیں
مسئلہ تکفیر میں ایک بڑی غلط فہمی کہ تکفیر صرف اصولی مسائل میں ہےاور فروعی مسائل میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے یعنی اصولی مسائل سے مُراد اعتقادی مسائل اور فروعی مسائل سے مُراد عملی مسائل۔
جب کہ نہ تو قران مجید اور نہ ہی احادیث صحیحہ سے بلکہ سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی کوئی ثبوت ملے کہ فروعی معاملات میں تکفیر نہیں ہے۔ اور اس قول کا اسلام اور نہ ہی سلف صالحین سے کوئی تعلق ہے بلکہ یہ اصول کلام اور مبتدعہ کا قول ہے جیسے خوارج، معتزلہ، جہمیہ اور اشاعرہ وغیرہ۔ اور افسوس کی بات ہے کہ یہ عقیدہ ہمارے عامۃ الناس میں تکفیر کے مسائل میں بنیادی حیثیت اختیار کرگیا ہے اور بعض فضلاء حضرات بھی اس جہالت کے شکار دیکھے۔
جبکہ یہ بات کسی امام سے ثابت نہیں کہ ” نصوص ۔۔۔ عن التفکیر” سے مراد تکفیر عین ہے اور یہ کہ ہر مبتدع کافر ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو یہ قول کہے یا فعل کا مرتکب ہو وہ کفر کا مرتکب ضرور ہوا ہے اور اس سے مراد تحذیر و ترتیب ہے نہ کہ مطلقاً تکفیر اور یہ لازم نہیں کہ اگر قول کفریہ ہو تو اس کا قائل بھی کافر ہوگا یا تکفیر کا مستحق ہوگا۔ جبلہ وہ معذور ہو تو لازم ہے کہ مکمل شروط و ضوابط ثابت ہونے کے بعد تکفیر کی جائے گی۔ (ماخوذ ۔ منہاج السنۃ ، ابن تیمیہ 240، 239 / 5)
کیونکہ ممکن ہے کہ کفریہ قول کے قائل تک صحیح نصوص نہی پہنچی ہوں اور بعض اوقت ہوسکتا ہے کہ پہنچی ہوں لیکن اس کے نزدیک ثابت نہ ہوں یا پھر وہ درست طور اُن کو نہ سمجھ سکا ہو یا پھر اس کے پاس شبہات ہوں تو جو شخص حق کی طلب و حرص میں کسی خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو اللہ غفور و رحیم ہے۔
اب وہ مسائل اعتقادی نظری ہوں یا فروعی عملی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ یہی وہ درست مذہب ہے جس پر آئمہ کرام اور سلف صالحین تھے کہ انہوں نے نظری اور عملی مسائل میں کوئی تقسیم نہ کی کہ یہ اصولی مسائل ہیں ان منکر کافر اور فروعی مسائل ہیں ان کا منکر کافر نہ ہوگا۔اور اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ کرام میں اصولی مسائل میں بھی اختلاف موجود تھے جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اختلاف کہ نبیﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا نہیں۔
1۔سیدناابن عباس اور دیگر صحابہ، کعب احبار وغیرہ اس بات کے قائل تھے کہ محمدﷺ نے رب العالمین کو دیکھا ہے۔
2۔جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، ابن مسعود اور ابو ہریرہ اس کی نفی کرتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” تم لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ سیّدنا ابراہیمؑ کے لئے خلّت اور موسیٰؑ کیلئے کلام اور محمدﷺ کیلئے دیدار الٰہی ہے۔” (عبداللہ بن احمد ۔ السنۃ 145، الشریعہ۔آجری 491، تحفہ الاشراف 167/5، شیخ البانی اس کو بخاری کی شرط پر صحیح قرار دیتے ہیں۔) اور اس کے علاوہ بھی احادیث مروی ہیں۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ” کہ تم اللہ کا قول نہیں سُنتے ……

لَّا تُدْرِكُهُ ٱلْأَبْصَٰرُ وَهُوَ يُدْرِكُ ٱلْأَبْصَٰرَ ۖ وَهُوَ ٱللَّطِيفُ ٱلْخَبِيرُ (انعام103)

” اُسکو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہوجاتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے۔” اور یہ کہ

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ ٱللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَآئِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِىَ بِإِذْنِهِۦ مَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ عَلِىٌّ حَكِيمٌ (شوریٰ-51)

“ناممکن ہے کسی بندہ سے اللہ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو چاہے وحی کرے ، بے شک وہ برتر ہے حکمت والا ہے۔” جو شخص یہ گمان رکھے کہ نبیﷺ نے اپنے رب کو دیکھا وہ اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ بولنے والا ہے۔ ( بخاری ۔ کتاب التفسیر سورۃ نجم 8/606، مسلم کتاب الایمان باب 77 معنی قولہ تعالیٰ ولقدرآہ نزلۃ آخری ترمذی۔ تفسیر 5/262) مزید تفصیل کیلئے دیکھئے ( کتاب التوحید، ابن خزیمہ ۔ جلد2 ص 477 تا 563)
اب ان اقوال کی موجودگی میں ہم کیا کرسکتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نماز، روزہ، حج اور تحریم فواحش وغیرہ کا منکر یا اس کی وجوب کا منکر کافر ٹھہرتا ہے باوجود اس کے عملی مسائل ہیں اور پچھلا اصولی مسئلہ تھا لیکن اس میں اختلاف کے باوجود تکفیر نہیں کرتے۔ ( مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہؒ ۔ 3/229 تا 231)
سب سے خوبصورت بات کہ حریص حق کے لئے اجتہاد کرنے والے کےلئے مغفرت کا راستہ ہمیشہ کھلا ہے کہ وہ کس چیز کو عقیدہ بناتا ہے اور اس کی بنیاد قران یا احادیث ہوتی ہے وغیرہ۔
اس ضابطے کیلئے سب سے خوبصورت بات امام محمد بن عبدالوہاب نے کی ہے اور شیخ نے وہ طریقہ اختیار کیا ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے روا رکھا تھاکہ قیام حجت سے قبل کسی کی تکفیر نہیں کرنی چاہیئے وہ مسائل نظری ہوں یا عملی۔ فرماتے ہیں: ” یہ جو ہمارے مخالفین ہم پر بہتان لگاتے ہیں کہ ہم صرف گمان اور تعصب کی بناء پر تکفیر کرتے ہیں تو یہ بہتان عظیم ہے اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس سے مقصد لوگوں میں دین سے نفرت پیدا کرنا ہے۔” (مؤلفات شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ج5، ص25)
بلکہ یہ فرمایا کہ: ” جب ہم اُس بندے کی تکفیر نہیں کرتے جو احمد بدوی کی قبر کی عبادت کرتا ہے کہ وہ جاہل ہے اُس کو بتانے والا نہیں ہے تو ہم غیر مشرک کی تکفیر کیوں کریں۔” ( منہاج اہل الحق و الاتباع ، ص56)
اور سب سے واضح بات یہ فرمائی: ” ہم تو صرف اُس کی تکفیر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک کرتا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب ہم اُس کے سامنے حق کو واضح کردیں، باطل کو باطل ثابت کردیں۔” (مؤلفات شیخ محمد بن عبدالوہاب ۔ ج5،ص60)
خلاصہ القول:
تکفیری مسائل میں عمل اور فرع کی کوئی تخصیص نہیں۔
بعض اصولی مسائل میں واضح اختلاف کے باوجود تکفیر ممکن نہیں جیسا کہ صحابہ کرام میں اختلافات تھے۔
بعض عملی / فروعی مسائل میں اس کے وجوب کا منکر تکفیر کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
یہ سوچ غلط ہے کہ تکفیر صرف اصولی مسائل اور فروعی مسائل میں نہیں ہوتی جیسا کہ سطور سابقہ میں واضح کیا گیا ہے۔
ضابطہ نمبر 4: دقیق اور خفی مسائل میں عُذر کا قبول کرنا
بعض مسائل اتنے دقت طلب اور اتنے وسیع ہوتے ہیں کہ ان پر کماحقہ دسترس حاصل ہونا یا اُن پر مکمل نظر رکھنا بہت مشکل امر ہے۔خاص طور پر علوم کی ترویج و ترقی کے بعد یہ ممکن نہیں ہی نہیں رہا کہ ایک شخص ان تمام علوم پر دسترس حاصل کرلے۔ اور اس میں اصل یہ ہے کہ ایسے مسائل میں فضلاء اور علماء کا عُذر مقبول ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اسی مسئلے پر شافی و کافی گفتگو فرماتے ہیں کہ: ” اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دقیق مسائل میں خطا کے مرتکب کیلئے معافی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں چاہے وہ علمی مسائل ہی کیوں نہ ہوں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو امت محمدیہ کے اکثر فضلاء و علماء ہلاک ہوجاتے۔ اور جہالت میں شراب پینے کا جرم کرنے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں باوجود اس امر کے کہ وہ اس بارے میں علم حاصل نہیں کرتا تو ایک عالم و فاضل جو کہ صرف اور صرف رسولﷺ کی متابعت میں علمی مسائل پر غور و فکر اور تدبر و تعقل کرتا ہے تو وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حسنات کو قبول کرے اور اجتہادات پر اجر دے اور خطاؤں پر مواخذہ نہ کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ ٢٨٥؁(البقرة : 285)

“رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں اور مومنین بھی سب اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم رسولوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے . ہم نے پیغام الٰہی کو سُنا اور اس کی اطاعت کی پروردگار اب تیری مغفرت درکار ہے اور تیری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔”(مجموع الفتاویٰ ۔ ج20 ، ص 165-166)
جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے درمیان فرائض، طلاق وغیرہ کے مسائل میں اختلافات کے واقعات رُونما ہوئے جبکہ وہ براہ راست منبع نور سے مستفید اور مستفیض ہوئے اور اب اتنا طویل وقت گزرنے کےبعد ہمارے بہت سارے مسائل جو واضح تھے، موجودہ زمانے کے احوال کے تحت وقت کے گردابوں کے تحت چھپ گئے اور لوگوں کیلئے دقت طلب بن گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس میں مغفرت فرمائے۔آمین
خلاصہ القول:
علم کی وسعت کی بناء پر مطلقاً کسی پر فوری طورپر حکم لگانا درست نہیں۔
چونکہ اس کا تعلق علماء اور فضلاء سے ہے لہٰذا اس بارے میں ان کے اعذار مقبول ہونگے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین میں بھی اختلافات واقع ہوئے لہٰذا ان اختلافات کی بناء پر کسی عالم دین کو کافر کہنا درست نہیں یہاں تک کہ باقی شروط پوری نہ ہوں۔
ضابطہ نمبر 5: وہ زمانہ اور مکان جہاں جہالت عام اور اہل علم کی قلت ہو وہاں کا عذر تکفیر نہ کرنے پر قبول کیا جائے تو زیادہ بہتر و احسن ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ” لیکن جہالت کے عام ہونے پر اور علم کی قلت واقع ہونے پر تکفیری امور آسان نہیں رہتے جیسے انبیاء اور صالحین سے دعائیں مانگنا یہاں تک کہ آپ اُن لوگوں کو اس ضمن میں تعلیمات اسلام سے روشناس نہ کرائیں۔” ( الرد علی البکری۔ ص 376)
ہمارے پاکستان میں بعض دیہاتوں میں یہ جہالت دیکھنے میں آتی ہے کہ لوگ بیٹیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے اور سندھ کے بعض علاقوں میں بیٹیوں ار بہنوں کی شادیاں قران مجیدسے کرنے کا رواج بھی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات کے بعض علاقوں میں اسلام اپنی مسخ شدہ صورت یعنی اسماعیلی اور شیعی مذہب کی صورت میں پہنچا۔ اُن لوگوں کو اسلام کا علم نہیں اور تو اور یورپ میں بوسنیا میں جو مسلمان ہیں اُنہیں کلمہ توحید سے آگے اسلام کے تقاضوں کا علم نہیں وہ صرف اس لئے مسلمان ہیں کہ مسلمان گھر میں پیداہوئے اور اُنہیں کلمہ یاد کرا دیا گیا اُس کے بعد اُن کے اعمال، لباس، چال ڈھال غرض یہ کہ ہر چیز میں یہودی اور عیسائی ثقافت نظر آتی ہے۔ ایسے وقت میں ایسی جگہوں پر انسانوں کو جتنا کچھ ایمان میں سے اُن کے پاس ہے وہ اتنے ہی عمل کے مکلّف ہیں اور اُس کا ہی اجر ملے گا۔
واضح رہے یہ اُس کیلئے ہے جس حجت کا قیام نہ ہو۔ اور اس جہالت اور قلت علم کا عام مشاہدہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں کیا جاسکتا ہے جہاں امام مسجد کو صرف چند صورتیں یاد ہوتی ہیں۔ نہ تو وہ مکمل قران مجید درست تلفظ کےساتھ پڑھ سکتا ہے اس کے معانی کا علم تو دور کی بات ہے اسی ضمن میں گذشتہ ایام نوائے وقت میں شائع ہونے والا پنجاب کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے جس میں دو سگے بھائیوں کی شادی دو سگی بہنوں سے ہوئی۔ شب زفاف میں دونوں کی بیویاں تبدیل ہوگئیں۔ صبح اس بات کا علم ہونے پر مقامی مولوی صاحب سے رجوع کیا گیا تو انہوں نے فتویٰ دیا کہ جو جس کے پاس چلی گئی وہی اُسکی بیوی ہے۔ اس سے لوگوں کی علمی سطح اور معلومات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ : ” لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ وہ لوگ نماز، روزہ، حج اور عمرہ نہ جانتے ہونگے سوائے بوڑھے لوگوں کے اور کہتے ہوں گے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو یہ کہتے سُنا لا الہ الا اللہ تو خذیفہ الیمان سے کہا گیا کہ یہ لا الہ الا اللہ اُن کےلیے کیا کرسکتا ہے تو فرمایا اُن کو جہنم کی آگ سے آذادی دلوائے گا۔” (ابن ماجہ، 40،49 الحاکم473/3 ، سلسلہ الصحیحہ 87)
“کیونکہ ایمان تو وہ ہی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے اخذ کیا جائے یعنی اُن کی دی ہوئی تعلیمات سے نہ کہ لوگوں کے گمان اور خواہشات نفسانی پر اور جب تک کسی شخص کے حق میں تمام شروط ثابت نہ ہوں اور اُس کے موانع غیر موجود ہوں تو اُس کی تکفیر کی جائے گی۔” ( مجموع الفتاویٰ ج35 ص165،166 مفہوم)
اور ابن القیم فرماتے ہیں: ” بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قیام حجت بھی زمان و مکان کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے یعنی ایک حجت جو ایک شخص پر قائم ہوتی ہے۔ ضروری نہیں وہ ہر شخص پر مکمل ثابت ہوجائے۔” ( طریق الہجرتین ۔ ابن القیم 414)
اس میں ابن القیم نے ایک زرّیں اصول بتایا کہ ضروری نہیں کہ ایک دلیل اور حجت ہر زمان و مکان کیلئے مفید ثابت ہوگی بلکہ اس کا تعین حالات کے اعتبار سے کیا جائے گا۔ جیسے ایک جگہ جہالت اور علم کو روشناس کروانے والا کوئی بھی موجود نہیں ہے، یہاں حجت کی نوعیت اور ہوگی اور دوسری جگہ جہالت کے ساتھ علمی جماعت موجود ہے اور ہر قسم کی سہولت بھی موجود ہے تو دونوں کے حکم کی نوعیت میں فرق ہوگا۔

خلاصہ القول:

جہاں دین کی تبلیغ نہ ہوئی وہاں حکم لگانے سے قبل تبلیغ اتمام حجت کے لئے لازم ہے۔
اسی طرح جہاں دین صحیح شکل میں نہ پہنا ہو وہاں بھی یہی حکم ہے۔
جو جتنا جانتا ہے وہ اُتنا ہی مکلّف ہے۔
تکفیر کیلئے ہر شخص کے احوال کا انفرادی طور پر جائزہ لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
جہالت اور ہٹ دھرمی میں فرق کی بناء پر حکم بھی مختلف ہوگا۔
ضابطہ نمبر 6: ایسا شخص نسبتاً کم علم ہو یا پھر صحیح علم کے اخذ کرنے سے عاجز ہو، متمکن اور صاحب علم کے مقابلے میں اُس کا عُذر قبول ہوگا۔
حجت انسانوں پر دو چیزوں سے قائم ہوتی ہے:
اوّل: جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اُس پر متمکن ہو یا عالم ہو۔
دوم: جو کچھ علم میں ہو اُس پر عمل کی قدرت رکھتا ہو۔
اور علم کے اخذ کرنے سے عاجز یا غیر متمکن یا غیر عالم سے مراد مجنون اور عمل سے عاجز وغیرہ ( مجموع الفتاویٰ 59/20)
ابن تیمیہؒ کے اس قول سے علم ہوا کہ کسی کی تکفیر کرتے ہوئے دو بنیادی امور کو مدنظر رکھنا لازم ہے وہ یہ اوّل علم کی موجودگی، دوم اُس پر عمل کی قدرت ۔ ورنہ حکم تکفیر صحیح نہ ہوگا۔
پس اس کے واضح ہونے کے بعد میں عرض کروں گا کہ ” وہ شخص جس نے ایمان کے بعض واجبات کو ان دونوں وجوہات میں سے کسی ایک کی بنیاد پر چھوڑا تو وہ اس کا مکلّف نہ ہوگا اور اس پر اس ضمن میں حکم عائد نہ کیا جائے گا۔
اس قائدہ کی اصل قران مجید کی ایک آیت ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ ( البقرۃ – 286)

“اللہ کس نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔”
خلاصہ القول:
حکم لگانے سے قبل اس شخص پر مکمل اتمام حجت کیلئے مکمل جائزہ ضروری ہے کہ آیا جس ضمن میں حکم لگایا جارہا ہے اس کے بارے میں اس کو مکمل اور صحیح معلومات بھی ہیں یا نہیں۔
اگر علم کی موجودگی کے باوجود وہ عمل پر قدرت نہیں رکھتا تو اس کا مواخذہ نہ ہوگا کہ وہ اس پر مکلّف ہی نہیں تھا۔
ضابطہ نمبر7: تکفیری مسائل میں ایسا مقلد جو حق کی معرفت رکھتا ہے مگر اُس سے منہ پھیر لیتا ہو اور ایسا مقلد جو حق کی مکمل معرفت نہ رکھتا ہو تو دونوں میں واضح فرق اس حکم میں مدنظر رکھنا لازم ہے۔
حقیقت میں دونوں ہی قسمیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک صاحب تقلید جسے حق کی پہچان بھی ہے ، صرف تعصب میں اس کی پیروی نہیں کرتا جبکہ دوسرے کو حق کی مکمل پہچان ہی نہیں ہے، وہ صرف تقلید پر جاری و ساری ہے تو دوسرے شخص کا عُذر معقول ہوگا کہ جب تک اس کو حق کے مکمل خدوخال نہ دکھائیں جائیں اس پر حکم نہیں لگا سکتے۔ جبکہ پہلی قسم والا مقلد اس کے پاس کوئی عُذر نہ ہوگا۔
اب دوسری قسم جس کے نزدیک حق واضح نہیں ہے، اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
اوّل: ایسا مقلد جو ہدایت کا طالب اور متلاشی ہو لیکن وہ کسی سبب سے اُس پر قدرت نہیں رکھتا تو اس پر دعوت اور تعلیمات کے نہ پہنچنے کا حکم لگایا جائے گا۔
دوم: ایسا مقلد جس نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اس سے بہتر اور صائب راستہ اگر میرے سامنے آجائے تو میں اس کو اختیار کرلوں بلکہ جس راستے پر ہے، اُس سے ہٹنا نہیں چاہتا۔
تو ان دونوں میں بہت فرق ہے اور احوال کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے حکم میں بھی فرق موجود ہوگا۔ پہلا ہدایت کا متلاشی ۔۔۔۔ اور دوسرا موجودہ حالت پر راضی اور قائم و دائم۔ جبکہ دونوں ہی مقلد ہیں۔

خلاصہ القول:

حکم سے قبل مقلد کی مکمل صورتحال سے آگاہی لازم ہے۔
متعصب مقلد اور غیر متعصب مقلد میں فرق کی بناء پر حکم بھی مختلف ہوگا۔
ضابطہ نمبر 8: ایسا مومن جس نے حق کی اتباع کو اپنا مطلوب و مقصود بنا رکھا ہے اگر وہ کسی ایسی خطا کا مرتکب ہوتا ہے جس کا اُسے علم نہیں ہوتا تو عنداللہ معذور تصور ہوگا۔ مقابلتاً ایسا عالم جو کوئی خطا کا مرتکب معرفت کی حالت میں ہو تو اُس کا مواخذہ ہوگا۔
تو ایسی حالت میں پہلا شخص چونکہ اس کا مطمع نظر صرف اور صرف اللہ اور اُسکے رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے کی پیروی ہے اور وہ اُسی کو اپنا مطلوب و مقصود بنائے ہوئے ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے اگر اُس سے کوئی خطا صادر ہوجاتی ہے جس کے بارے میں اس کو کوئی علم نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو اُس کا مواخذہ نہ ہوگا۔
اور اس کی نسبت ایسا عالم جو دین کو بہتر طور پر سمجھتا ہے اور خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو اُس پر اُسکا مواخذہ ہوگا۔ بقولِ

شاعر:

العلم بلا عمل وبال
والعمل بلا علم ضلال

کہ ایسا علم جو عمل کے بغیر ہو وہ وبال جاں ثابت ہوتا ہے اور وہ عمل جو علم کے بغیرہو، گمراہی ہے۔ اور چونکہ اُس کو حق کی معرفت تھی اور اُس کے تقاضوں سے باخبر تھا کہ اگر اُن کو پورا نہ کروں تو مجھ پر کیا عائد ہوگا تو وہ اگر غلطی کرتا ہے تو ( آگے واضح نہیں ہے۔ ماخوذ منہاج السنۃ ، الدین الخالص)
خلاصہ القول:
عالم جو کہ معرفت کے باوجود غلطی کا مرتکب ہو تو وہ قابل گرفت اور مواخذہ ہوگا۔
اور وہ شخص علم نہ رکھتا ہو، غلطی کا مرتکب ہو وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔ اُس کی جہالت دور کی جائیگی پھر حکم لگایا جائے گا۔
ضابطہ نمبر 9: تکفیری مسائل میں حسب احوال شخصیات میں اختلاف واقع ہوتا ہے لہٰذا یہ مخطی، مبتدع، جاہل، گمراہ کافر نہ ہوگا اور نہ ہی فاسق بلکہ گناہ گار ہوگا۔
اسی اصول کو شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ میں بیان فرمایا ہے:
” کسی ایک مسئلہ میں بھی ممکن ہے کہ مختلف اشخاص میں صورتحال مختلف ہو یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک خطا کے مرتکب کو ہم نے تکفیر کا مستحق ٹھہرایا ہے تو اس خطا کا ہر مرتکب تکفیر کا مستحق ہوگا۔ اور وہ ضابطہ اُس پر بھی بعینہ منطبق ہوجائے گا بلکہ ہر شخص کہ احوال کے مطابق فیصلہ اور حکم دیا جائےگا۔ کیونکہ ایک بات تو واضح ہے کہ فرمان ربّی “الست بربکم” کے جواب میں اور رسول کریمﷺ کے فرمان ” کل مولود یولد علی الفطرۃ” کے بعد ہر انسان صاف اور نقی طبیعت اور مزاج لےکر پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد ہر انسان اپنے اپنے ماحول کی آلودگیوں سے متاثر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حکم لگاتے وقت اس شخص نے کس ماحول میں تربیت پائی، اس کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ہوسکتا ہے اس خامی یا عیب کو دور کیا جاسکے۔دینِ اسلام کا بنیادی مقصد سزائیں سنانا اور ان کا نفاذ نہیں بلکہ اصلاح احوال ہے سزا تو بالکل آخری حد ہے جس کے بغیر معاشرے میں پیدا ہوسکتا ہے اور وہ شخص اس سزا کا مکمل مستحق نظر آتا ہے اس اصول کی بنیاد آیت قرانی ” فاتقوا اللہ استعطم” کہ اللہ سے ڈرو جہاں تک تم اس کی استطاعت رکھتے ہو۔ اور ارشادِ ربانی ہے:

لَا يُكَلِّفُ ٱللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ (البقرۃ 286)

“اللہ کس نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا . ہر نفس کے لئے اس کی حاصل کی ہوئی نیکیوں کا فائدہ بھی ہے اور اس کی کمائی ہوئی برائیوں کا مظلمہ بھی۔”
خلاصہ القول:
چونکہ ہر شخص نے مختلف ماحول میں تربیت پائی ہے لہٰذا حکم لگاتے وقت اُس کے ماحول اور اُس کی تربیت کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
تکفیری معین کے لئے انفرادی مطالعہ اور تحقیق لازم ہوتی ہے۔
ضابطہ نمبر 10:کفر کی اصل اور شعب کا وجود
جس طرح ایمان کی اصل لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اُس کی متعدد شاخیں ہیں جیسے نماز ، روزہ، زکوٰۃ، اعمال باطنی جیسے حیاء، توکل اور خشیت الٰہی اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، یہ سب ایمان کے شعبے ہیں۔ اور ان میں ہر شعبہ ایمان کہلاتا ہے اور ان میں سے بعض کے زائل یا متاثر ہونے سے ایمان کامل ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے شہادتیں اور بعض شعبے ایسے ہیں جن کے زائل ہونے سے ایمان کا کمال رخصت ہوتا ہے جیسے تکلیف دہ چیز کو تو دونوں شعبوں میں بہت فرق ہے اور ہر شعبے کی مناسبت سے اس کا حکم عائد کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کفر بھی متعدد شعبہ جات پر مشتمل ہے جیسے حیاء ایمان کا شعبہ ہے اور قلت حیاء کفر کا ایک شعبہ ہے۔ صداقت ایمان کا ایک شعبہ ہے تو تکذیب یا کذب بیانی کفر کا شعبہ ہے اسی طرح نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ یہ سب ایمان کے شعبے ہیں لیکن ان کا چھوڑنا کفر کے شعبے ہیں۔
یعنی تمام طاعات ایمان کے شعبہ جات میں سے ہیں اور معاصی کفر کے شعبہ جات میں سے ہیں۔ اگر ایمان کے شعبہ جات کی تقسیم قولی اور فعلی پر ہے تو کفر کے شعبہ جات کی تقسیم بھی قولی اور فعلی پر ہے۔ اور ایمان کے قولی شعبہ جات میں سے بعض ایسے ہیں کہ جن کے زوال سے ایمان مکمل زائل ہوجاتا ہے اور فعلی شعبہ جات میں بھی ایسا ہے۔ اسی طرح کفر کے شعبہ جات کی صورتحال ہے لہٰذا تکفیری مسئلہ میں اس چیز کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا جائے گا کہ وہ جس قسم کی معاصی کا مرتکب ہورہا ہے کیا اُس کے مرتکب کو ہم کافر کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔

خلاصہ القول:

ایمان کے شعبوں کی طرح کفر کے بھی شعبہ جات ہیں۔
ایمان کے بعض شعبے ایسے ہیں جن کے زائل ہونے سے مکمل ایمان ختم ہوجاتا ہے اور بعض کے زائل ہونے سے صرف کمال ایمان رخصت ہوتا ہے۔
جیسے ایمان کے کمال کیلئے تمام شعبہ جات کو حاصل کرنا لازم ہے اسی طرح کفر کیلئے اس کی تمام شروط اور موانع کا غیر موجود ہونا لازم ہے۔
ضابطہ نمبر11:جیسے کوئی بندہ ایمان کے کسی شعبہ کو قائم کرنے سے مومن یا مسلمان نہیں بن جاتا، اسی طرح کوئی مومن کفر کے کسی شعبے کا مرتکب ہونے کے بعد کافر نہیں بن جاتا۔
یہ ایک زرّیں اصول ہے۔ جیسے کوئی انسان کسی علم کے بعض اجزاء پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس موضوع پر اتھارٹی نہیں بن جاتا اور نہ کوئی انسان طب کی بنیادی معلومات حاصل کرنے کے بعد طبیب بن جاتا ہے۔ ان مثالوں سے ایک بات واضح ہوئی کہ جب تک کوئی انسان ایمان کے تمام تقاضے پورے نہیں کرتا، ہم اس کو دائرہ اسلام میں داخل نہیں سمجھتے تو اسی طرح جب تک کفر کی تمام شرائط و ضوابط کسی مرتکب پر منطبق نہ ہوں تو ہم اُس پر تکفیر کا حکم نہیں لگا سکتے ہیں۔ یا یہ اصول ہمیں اس بات سے نہیں روکتا کہ ایمان کے شعبے کو ایمان کہیں اور نفاق کے شعبے کو نفاق سے موسوم کریں اور کفر کے شعبے کو کفر کی طرف منسوب کریں کیونکہ اس کا ہمیں بعض احادیث سے ثبوت ملتا ہے۔ جیسے: ” جس نے نماز چھوڑی پس اُس نے کفر کیا۔” یا ” جس نے غیر اللہ کیلئے قسم کھائی اُس نے کفر کیا۔”
پس جس کسی سے کفر کا کوئی جزو صادر ہوا تو ہم اُس کو مطلقاً کافر نہیں کہہ سکتے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی فعل حرام کا مرتکب ہوا تو ہم کہیں گے وہ حرام فعل کا مرتکب ہوا نہ کہ ہم اُس کو کافر کہیں گے۔ اس لئے ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
” ایسے شخص کو اُس کا اللہ پر ایمان اور لاالہ الااللہ پر ایمان کوئی فائدہ نہیں دے سکتا جو کہ رسالت محمدیہ کا منکر ہو اور اُس شخص کی نماز اُس کو کوئی فائدہ نہیں دے گی جو بغیر وضو پڑھی جائے۔” ( ماخوذ ۔ الصلاۃ ۔ ابن القیم ص32 تا 35)

خلاصہ القول:

کسی ایک شعبے کو پکڑنے سے انسان مومن نہیں بنتا اسی طرح کسی کفریہ شعبے کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوجاتا۔
ضابطہ نمبر 12:بعض اوقات کسی بندے میں ایمان اور کفر جمع ہوجاتے ہیں، اسی طرح بعض اوقات توحید اور شرک جمع ہوجاتے ہیں، اسی طرح تقویٰ اور فسق و فجور، ایمان اور نفاق بھی اکٹھے ہوجاتے ہیں۔
یہ وہ عظیم ترین اصول ہیں جس میں خوارج ، معتزلہ اور قدریہ وغیرہم نے اہل سُنّت و جماعت کی مخالفت کی ہے۔ کیونکہ اس کی بناء پر اہل کبائر کا جہنم سے نکلنا اور عدم دخول کا انحصار ہے اور اس پر قران و سنت کے واضح دلائل ہیں ۔ اس اصول کی بنیاد درج ذیل قرانی آیت ہے:

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِٱللهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ

“اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ۔”(يوسف 106)
اللہ تعالیٰ نے اُن کے ایمان کے بارے میں کہا باوجود اس کے وہ شرک کے مرتکب ہوئے۔ اور ایک جگہ فرمایا:

قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الحجرات14)

“یہ بدوی کہتے ہیں کہ “ہم ایمان لائے” اِن سے کہو، تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ “ہم مطیع ہو گئے” ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقیناً اللہ بڑا در گزر کرنے والا اور رحیم ہے۔”
اور اُن بدوؤں کے بارے میں بہتر قول یہ ہے کہ وہ لوگ منافقین نہ تھے بلکہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کے باوجود ایمان والے نہ تھے کہ اُن کے پاس ایمان کا ایک جزو تھا جس نے اُن کو عالم کفر سے نکال کر دائرہ اسلام میں داخل کردیا تھا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ” اگر کوئی اللہ کے حکم کے بغیر فیصلہ کرتا ہے یا پھر وہ کام کرتا ہے جسے رسولﷺ نے کفر کہا ہے اور وہ شریعت اسلامیہ کا ملتزم ہے تو اُس میں کفر اور اسلام جمع ہوں گے۔ معتزلہ اور خوارج کی گمراہی کی اصل وجہ بھی یہی اصل تھی۔ بقول اُن لوگوں کے ایمان ایک چیز کا نام ہے اس میں کوئی بھی چیز زائل ہوجائے تو ایمان مکمل زائل ہوجائے گا۔ اسی لئے اُنہوں نے کبائر کے مرتکب کے بارے میں فیصلہ دیا کہ اس میں ایمان بالکل ہی ختم ہوگیا ہے اسلئے اس کو جہنم میں ہمیشگی کا مستحق ٹھہراتے ہیں۔” ( مجموع الفتاویٰ ۔ ج7 ص 312و313 ۔ ماخوذ)
جبکہ رسولﷺ نے فرمایا: ” یخرج من النار من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من الایمان”
” اس شخص کو بھی آخرکار جہنم سے نکال لیا جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔”
تو بعض ایمانی شعبہ جات کے زوال سے ایمان زائل نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ کی مشیّت کے تحت ہوگا۔
خلاصہ القول:
یہ عقیدے کا بنیادی حصہ ہے کہ ایمان بڑھتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ یعنی جو ایمان کے جتنے شعبہ جات اور تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے اُس کے ایمان میں اُسی قدر اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ایمان کے شعبہ جات کو چھوڑنے سے ایمان میں کمی واقع ہوتی ہے۔ بعینہ کفر کے ساتھ یہی صورتحال ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔
ضابطہ نمبر 13:صرف اُسکی تکفیر کی جائے گی جسکی تکفیر پر اہل سنت و جماعت اتفاق کرلیں یا اُسکے کفر پر کوئی ایسی دلیل یا حجت قائم ہوجائے جس کا کوئی معارض نہ ہو۔
ابن عبدالبر فرماتے ہیں: ” واجب ہے کہ کسی کی تکفیر نہ کی جائے سوائے اُس وقت جب سب متفق ہوجائیں یا اُس کی تکفیر پر کوئی ایسی دلیل آجائے جس کا کوئی معارض نہ ہو۔” ( التمہید۔ ج17،ص314)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: ” جس کا اسلام یقین سے ثابت ہو وہ کسی شک کی بنیاد پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اور ابن البطال فرماتے ہیں: ” جیسے ہم کسی کے ایمان کا فیصلہ مکمل یقین کرتے ہیں تو اُسکے کفر کا فیصلہ بھی مکمل یقین سے کریں گے۔” (فتح الباری ۔ ابن الحجر ۔ ج12 ، ص 314)
اورفقہاء حنفیہ میں سے امام زرکشی فرماتے ہیں: ” ہمارے پاس اصل جو ہے وہ ایمان ہے ہم اس کے بغیر یقین کے ختم نہیں کرسکتے۔”( تحفۃ المحتاج ۔ زرکشی ۔ ج2 ، ص 84)
ابو حامد الغزالی لکھتے ہیں کہ: ” سب سے بڑی حیرانگی اس جراءت پر ہے کہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ کردیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو معاف نہ کرے گا بلکہ اس کو جہنم میں مستقل ٹھکانہ دے گا جبکہ یہ فیصلہ اُس کی موت کے بعد کیا جائے گا جو کہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں۔” (الاقتصاد فی الاعتقاد ۔ ص 269)
نواقص اسلام
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا۔
جو مشرکین کی تکفیر نہ کرے یا اُن کے کفر میں شک کرے یا اُن کو صحیح قراد دے۔
جو کوئی یہ گمان کرے کہ رسول اللہﷺ کے راستے کے علاوہ بھی کوئی راستہ ہے جو اس سے زیادہ اکمل اور احسن ہے۔
جو کہ تعلیمات نبویہ سے بغض کا اظہار کرے خواہ اُس پر عمل ہی کیوں نہ کرتا ہو:

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ (محمد/9)

(یہ اسلئے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سے ناخوش ہوئے ، پس اللہ نے (بھی) اُنکے اعمال ضائع کردئیے۔)
جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کے ساتھ یا پھر قران اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے استہزاء کرے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِٱللهِ وَءَايَٰتِهِۦ وَرَسُولِهِۦ كُنتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ لَا تَعْتَذِرُوا۟ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَٰنِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَآئِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ مُجْرِمِينَ

اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ان سے کہو، “کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے” ( التوبۃ /65،66)
جادو کو برحق سمجھنا اور اس کو اپنے لئے استعمال کرنا: ۚ

وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَآ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ (البقرۃ/102)

وہ دونوں بھی کسی شخص کو اُس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تُو کفر نہ کر
مشرکین اور کفار کی قولی اور عملی معاونت کرنا:

وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ إِنَّ ٱللهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظّٰلِمِينَ (المائدۃ/51)

تم میں سے جو بھی اُن میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک اُنہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا)
دین اسلام سے مکمل اعراض کرنا:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِۦ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَآ ۚ إِنَّا مِنَ ٱلْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ (السجدۃ/22 )

اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جسے اللہ کی آیتوں سے وعظ کیا گیا پھر بھی اس نے ان سے منہ پھیر لیا، (یقین مانو) کہ ہم بھی گناہگاروں سے انتقام لینے والے ہیں)
یہ گمان رکھنا کہ بعض لوگوں پر شریعت محمدیہ کا اطلاق نہیں ہوتا:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ ٱلْإِسْلٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِى ٱلْآخِرَةِ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ (آل عمران/85 )

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا)
*** تمت بالخیر ***

سید محب اللہ شاہ راشدی ۔ ایک عہد ساز شخصیت

سر پے سندھی ٹوپی سجائے، سفید شلوار وقمیص میں ملبوس، خوبصورت سفید گھنی داڑھی، آنکھوں میں مروت، لہجہ میں دھیماپن، زبان صاف وشستہ، جیسے کوثر میں دہلی ہو، میانہ قد ،سرخ وسفید رنگت، خوبصورت جھیل سی آنکھیں، نشست وبرخواست میں مسکنت، خندہ جبین یہ تھے محدث العصر علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی برصغیر پاک وہند میں متعدد علمی گھرانے ایسے باوقار ہیں جنہوں نے کتاب وسنت کی ترقی وترویج نشرواشاعت، تعلیم وتعلم میں نسل درنسل کارہائے نمایاں سرانجام دیئے، جس طرح غزنوی، روپڑی، لکھوی اور سلفی خاندانوں نےہمیشہ دینی مذہبی سیاسی سماجی اقدار کے فروغ میں مثالی مقام حاصل کیا، اسی طرح وادی مہران باب الاسلام سندھ میں راشدی خاندان ایک انتہائی معزز ومحترم علمی ادبی سیاسی سماجی روحانی اور تاریخی خاندان شمار ہوتا ہے۔ جس میں فضیلۃ الشیخ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی صاحب العلم السادس (12 اکتوبر 1921ء -1995ء) بن سید احسان اللہ شاہ راشدی (متوفی 13 اکتوبر 1938ء) بن سید رشد اللہ شاہ راشدی (متوفی 1340ھ) اپنے وقت کے ماہرین علوم اسلامیہ شمار ہوتے ہیں۔ علامہ سید احسان اللہ شاہ راشدی بھی اپنے وقت کے بلند پایہ عالم باعمل باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے جنہیں شیخ الاسلام ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسریؒ (متوفی 1948) نے فن حدیث واصول حدیث کا امام قرار دیا تھا۔
جنہوں نے با ب الاسلام سندھ میں پہلا اسلامی دارالعلوم بنام دارالرشاد 1901ء میں پیر جھنڈو میں قائم کیا، جہاں سے علم وفن کے ہزاروں ماہرین پیدا ہوکر پورے سندھ میں مدارس اسلامیہ کا جال پھیلانے کی سعادت حاصل کی، بہرحال علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اپنی طغیانیوں سے کام رکھنے والا دریا دل محدث العصر تھے، سید راشدی جیسا مرد طرحدار کی رحلت کو اتنے سال بیت چکے مگر ان کی یاد کی گرد بیٹھنے نہیں پائی، مجھے ان کی تدفین میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، انسانوں کا ایک سمندر تا حد نگاہ تک پھیلا ہوا تھا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس میں ہر سیاسی، سماجی، اور مذہبی مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بتارہے تھے کہ جانے والا کتنا عزیز تر انسان تھا!!
؎ اس کو ناقدرئ عالم کا صلہ کہتے ہیں، مرگئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا۔
وہ جب تک زندہ رہے جواں ہمت رہے، آخری دن تک ان کے جواں سال اسلوب حیات کا بانگپن قائم ودائم رہا۔ محسوس ہوتا تھا کہ چمن علم وعمل انہی کے نغموں سے معمور ومزین ہے ۔ نہ معلوم کیوں مجھے آج تک وہ بڑی شدت سے یاد آتے رہتے ہیں۔ ؎
دل کی جن سے تھیں بستیاں آباد
اب کہاں ہیں وہ ہستیاں آباد
وہ مجتہدانہ طبع کے بڑے باحوصلہ ، سندھ کے مایہ نا ز سپوت تھے، بیمارئ دل کو بھی انہوں نے کبھی اپنے اوپر حاوی ہونے نہ دیا، میرے مدت مدید سے ان سے عقیدت مندانہ تعلقات رہے، میں نے محسوس کیا کہ وہ ہر وقت فرقہ واریت،عدم رواداری تشدد پسندانہ ذہنیت کی ہولناک آگ پر قابو پانے اور قرآن وسنت کی دل وجان سے خدمت کرنا چاہتے تھے، اور اس قوم کو تفرقہ، تشدد، جذباتیت، سطحیت کے عفریت سے نجات دینے کے خواہاں تھے، وہ ملت مسلمہ میں بڑے مختلف اور منفرد مزاج کے مالک تھے، وہ گھنٹوں بھر لمبی چوڑی دہواں دھار تقریر کے بجائے کم بولتے لیکن درد دل سے اندر کی بات اس طر ح کہتے کہ۔
؎ از دل خیرد بردل ریزد، کی مصداق ہوتی۔
بعض اوقات آپ اشاروں کنایوں کی زباں میں بہت
ساری داستان درد بیاں کردیتے تھے، ؎
خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
ان کی اعتدال پسندی، صلح جوئی سے اختلاف رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں لیکن بلاشبہ وہ بڑے ہمہ جہت تصور کے مالک تھے، ان کی طبیعت میں بلا کا سوز وگداز تھا، دوسرے الفاظ میں وہ موجودہ ماحول میں جنس گراں مایہ تھے، آپ قرآن ، علوم القرآن کے ماہر ہونے کے ساتھ علوم الحدیث، معقولات ومنقولات میں بلند مقام پر فائز تھے، اس کے ساتھ سادگی، سچائی، ہمدردی اور غم خواری، حب رسولﷺ بھی ان کے جسم وجاں میں رچ بس رہی تھیں، میں نے متعدد بار مشاہدہ کیا ان کی ہم نشینی سرد وخوابیدہ جذبات کو بھی گرمادیتی تھی، وہ ایک فرد نہ تھے، ایک انجمن، ایک مکتبہ فکر، ایک دبستان علم وادب تھے، ان کے نحیف ونازک جسم وجاں میں گل ولالہ سب سمائے ہوئے تھے، اتفاق سے ابھی چند ہی ماہ قبل پھر سے ان کے مدرسہ دارالرشاد اور مثالی کتب خانہ میں ان مقامات کو نمناک آنکھوں سے دیکھ آیا ہون جہاں موصوف مجھ سے کوتاہ قد کو عصر سے مغرب تک خصوصیت سے صحیح البخاری، تفسیر بیضاوی، دیوان ابن الفارض، شرح عقائد نسفی اپنے منفرد اور مثالی انداز میں پڑھاتے تھے کیا میری قسمت اور کیا وہ خوبصورت ماضی کے مثالی لمحات۔ اس وقت بھی ان کی مترنم آواز میری سماعت میں رس گہول رہی ہے۔؎
خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کررہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا
دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے، اور بے پایاں نعمتوں سے نوازے۔ آمین۔
مختصراََ آپ جامع المعقولات والمنقولات تھے، متقی اور معتدل مزاج شخصیت کے مالک ، ان کے مقاصد جلیل اور امیدیں قلیل تھیں، آپ موجودہ عہد ستم ہائے روزگار میں بھی قرون اولی کے مسلمانوں کی خوبصورت خوشبوء چھوڑگئے ہیں آپ اپنے عہد کے مرد درویش اجلے ذھن، اجلی سوچ، اجلی یادیں اور اجلی گفتگو کے مالک تھے، آپ شرافت، ونجابت کی زندہ تصویر، صاف دل، صاف گو، صاف فکروذہن، صاحب فکر وفراست شخصیت کے مالک تھے، ان کے ضمیر وخمیر میں نہ منافقت، نہ مصلحت پسندی کی عادت کبھی بھٹکی، آپ صاف کھری باتیں کہنے اور سننے کے عادی تھے، وہ زیادہ سنتے اور غور وفکر کے بعد کم بات کرتے لیکن جو کرتے وہ کام کی بات کرتے، ان کا کٹر سے کٹر مخالف بھی ان کے ردائے زہد وتقوی میں کبھی ایک دھبہ بھی تلاش نہ کرسکا، آپ شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی (متوفی 1996ء) کے برادر اکبر تھے، یہ خاندان علمی لحاظ سے بڑا باوقار اور تاریخ ساز تھا۔ ؎
حاصل عمر نثار ے رہ یار کردم
شادم از زندگی خویش کار ے کردم
آپ ساری زندگی اللہ تعالی کے لیے محبت اور اللہ تعالی کے لیے عداوت کے اصول پر کارفرماتھے، انکے شگفتہ مزاج اور پر نور چہرے کو دیکھ کر کتنے زمانے کے دکھی لوگ اپنا غم بھول جاتے تھے۔؎
کہاں کہاں دل صد چاک اشک خون روئے
دبے ہیں سینکڑوں افلاک ان زمینوں میں
وہ کسی غیر سے بھی نفرت روا نہ رکھتے، علم وفکر کی تلاش میں آئے ہوئے محبت کرنے والوں کو بڑی محبت، مروت اور چاہت سے سینے لگاتے تھے، آپ ساری حیاتی شہرت کی تمنا سے بے نیاز، صلے کے آرزو سے بے پرواہ رہے۔ آج بھی ان کا دارالعلوم مدرسہ دارالرشاد درگاہ شریف عظیم الشان کتب خانہ اور مسجد کی دائیں جانب ان کی آخری آرام گاہ سے ایک خوشبوء فکر وذہن کو معطر کئے دیتی ہے۔ ؎
ہنوز آں ابر رحمت درخشاں است
\خم وخم خانہ با مہر نشاں است
آپ کو اللہ تعالی نے تین فرزندوں 1۔ سید محمد یاسین شاہ راشدی، 2- سید محمد راشد شاہ راشدی اور سید محمد قاسم شاہ راشدی دامت فیوضہم جیسے اصحاب علم وفکر سے سرفراز کیا جو اپنے والد گرامی کا عکس نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس پورے خاندان کو علم پرور باذوق اور بااخلاق بنایا ہے۔ علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی نے 21 جنوری 1995 کو اس جہاں سے الوداع کیا۔ موت العالم موت العالم کے مصداق ایک عالم کی موت ایک عالم کی موت ہوتی ہے آپ ایسے علماء ربانی کے قافلے سے تھے جو نگاہ بلند، سخن دلنواز، اور جان پرسوز سے متصف تھے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
؎ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
————–

جامِ کوثر بدستِ ساقی کوثر ﷺ

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، وہی غالب اور عطا کرنیوالا ہے، گناہ معاف اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہ سخت عذاب اور شدید پکڑ والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف توبہ کرتے ہوئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت بڑا اور بلند ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ جنت کی خوشخبری دینے والے اور عذاب الہی سے ڈرانے والے ہیں، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد پر ، ان کی آل اور نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تمام صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل ، اور ممنوعہ کاموں سے بچتے ہوئے تقوی الہی اختیار کرو۔
اللہ کے بندو!
اپنی آخرت سنوارنے کیلئے نیک کام کرو، اور اپنی نیکیوں کو ضائع مت کرو ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

ان سے کہہ دیں کہ : عمل کرتے جاؤ! اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے [التوبۃ : 105]
ایسے ہی فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔[محمد : 33]
ایک مقام پر فرمایا:

قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

آپ کہہ دیں: خسارہ پانے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اہل خانہ کو روز قیامت خسارے میں ڈال دیا ، یقیناً یہی واضح خسارہ ہے۔[الزمر : 15]
اور اپنی دنیا سنوارنے کیلئے حلال کماؤ اور پھر اسے فرض، مستحب اور مباح امور کیلئے خرچ کرو، اور اس دنیا کو جنت کے سفر کیلئے زادِ راہ بناؤ، دیکھنا تمہیں دنیاوی رونقیں دھوکہ میں نہ ڈال دیں، اور تم آخرت سے غافل ہو جاؤ، اس لیے اے مسلمان! اپنی دنیا بنانے اور آخرت پانے کیلئے نیکیاں کرو۔
ایک اثر ہے کہ: “تم میں سے اپنی دنیا کیلئے آخرت ترک کرنے والا بہتر نہیں ہے، اور نہ ہی وہ شخص بہتر ہے جو اپنی آخرت کیلئے دنیا چھوڑ دے”
مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا اور آخرت کا تذکرہ کر رہے تھے، چنانچہ کچھ لوگوں نے کہا کہ: دنیا آخرت کی دہلیز ہے، اس میں نیکیاں، نمازیں اور زکاۃ ادا کی جاتی ہیں، جبکہ کچھ لوگوں نے کہا: آخرت میں جنت ہے، نیز انہوں نے کچھ اور باتیں بھی کیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے پاس جا کر اپنی انگلی ڈالے تو جو کچھ اس کی انگلی کے ساتھ لگے تو وہ دنیا ہے) “حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح حاکم نے سعد بن طارق سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (دنیا ایسے شخص کیلئے بہترین مقام ہے جو یہاں اپنی آخرت کیلئے اتنا کرے کہ اپنے رب کو راضی کر لے، اور اس شخص کیلئے برا مقام ہے جسے دنیا آخرت سے دور کر دے اور رب کی رضا سے محروم کر دے)
حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: “دنیا مؤمن کیلئے اچھا مقام ہے، وہ اس طرح کہ یہاں مؤمن تھوڑا عمل کر کے جنت کا راہی بن جاتا ہے، اور یہی دنیا کافر اور منافق کیلئے بری ہے کہ وہ اپنی راتیں کالی کر کے جہنم کا راہی بن جاتا ہے” احمد نے اسے “الزہد” میں روایت کیا ہے۔
ہر کسی کو یقین ہے کہ اس نے یہاں سے جانا ہے، اور اللہ کی طرف سے نوازا ہوا سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے، اس کے ساتھ صرف عمل ہی جائے گا، یہ عمل اچھا ہوا تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برا ہوا تو بدلہ بھی برا ملے گا، جب ہر ایک کی آخر کار یہی صورت حال ہوگی ، اور اسے اسی مرحلے سے گزرنا ہے تو سب کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف استطاعت کے مطابق اچھے اسے اچھا عمل لیکر جائے، اور بندے و رب کے درمیان کوئی وسیلہ بھی عمل کے بغیر کار گر نہیں ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ

تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو ، ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا صلہ ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن و چین سے رہیں گے ۔[سبا : 37]
اے مسلم! تمہارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ سید ولد آدم نبی مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیاب ہو جاؤ، یہ ہدف کیسے پا سکتے ہو ؟ اہل جنت سب سے پہلے اسی پانی کو نوش کرینگے۔
چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالی حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیابی عطا فرما دے تو اس کے بعد اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس حوض سے پانی پینے والے شخص پر اللہ تعالی قیامت کی سختیاں پہلے ہی آسان فرما دے گا۔
حوض کوثر پر ایمان رکھنا یوم آخرت پر ایمان کا حصہ ہے، اور جو شخص حوض کوثر پر ایمان نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے، کیونکہ اجزائے ایمان میں تفریق ممکن نہیں ہے، لہذا جو شخص ایمان کے ایک رکن کا انکار کر دے تو وہ سب ارکان سے کفر کرتا ہے۔
حوض کوثر اللہ تعالی کی طرف سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اعزاز و تکریم ہے، اس حوض سے آپ کی امت ارض محشر میں قیامت کے دن حساب کے وقت پانی پیے گی، وہ دن کفار پر پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، لیکن اللہ تعالی مؤمنوں کیلئے اس دن کو مختصر فرما دے گا۔
اس دن لوگوں کے سر چکرا رہے ہونگے، حساب کے دوران ان پر تکلیف و مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہونگے، اگر اللہ تعالی انہیں بدنی طور پر اسے برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت نہ دے تو سب کے سب مر جائیں ۔
دوران حساب لوگوں کو اتنی سخت پیاس لگے گی جس سے کلیجا پھٹنے کو ہوگا، پیٹ پیاس کی وجہ سے آگ بن چکا ہوگا، انہیں اس سے پہلے اتنی سخت پیاس نے کبھی نہیں ستایا ہوگا۔
پھر اللہ تعالی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اعزاز بخشتے ہوئے امت محمدیہ کیلئے حوض کوثر عطا فرمائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حوض کے کنارے کھڑے اپنی امت کو دیکھ کر بہت ہی زیادہ خوش ہونگے، اور سب کو پانی پینے کیلئے دعوت دینگے۔
حوض کوثر کے رقبے اور پانی کی شفافیت بیان کرنے کیلئے متواتر احادیث ہیں بلکہ حوض کوثر کے تذکرے کیلئے مکمل ایک سورت قرآن مجید میں “الکوثر” کے نام سے موجود ہے۔
اور ہر نبی کو الگ سے ایک حوض دیا جائے گا، چنانچہ سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انبیاء اپنے پیروکاروں کی زیادہ تعداد پر ایک دوسرے سے فخر کرینگے ، اور مجھے امید ہے کہ اس دن سب سے زیادہ میرے پاس لوگ پانی پینے آئیں گے، اور ہر نبی اپنے بھرے ہوئے حوض پر کھڑے ہو کر ہاتھ میں عصا لیے اپنی امت کے لوگوں کو پہچان کر بلائے گا، ہر امت کیلئے خاص نشانی ہوگی جس سے ہر نبی اپنی امت کو پہچان لے گا) ترمذی، طبرانی
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض آپ کی شریعت کی طرح سب سے بڑا اور سب سے میٹھا ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے حوض کا رقبہ ایلہ سے عدن کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے، وہ دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور اس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہونگے)مسلم
جبکہ مسلم کے علاوہ دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ: (اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ اچھی ہوگی)
اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! حوض کوثر کے آبخورے اندھیری شفاف رات میں آسمان کے تاروں اور ستاروں سے بھی زیادہ ہیں جنت کے برتنوں میں حوض کوثر کا پانی جو نوش کر لے گا وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا، اس حوض میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں) احمد، مسلم، نسائی
ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرا حوض عدن سے عمان کے فاصلے سے بھی بہت زیادہ بڑا ہے، اس میں دو پرنالے سونے اور چاندی کے ہیں ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، ذائقہ شہد سے میٹھا، خوشبو کستوری سے بھی اچھی ہے، جو اس حوض سے پی لے گا اس کے بعد پیاسا نہیں ہوگا، اور چہرہ کبھی سیاہ نہیں ہوگا) احمد، ابن ماجہ، ابن حبان
اسی طرح زید بن خالد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: (کیا تم جانتے ہو “کوثر” کیا ہے؟ یہ ایک جنت کی نہر ہے جو مجھے میرے رب نے عطا کی ہے، اس میں بہت ہی خیر ہے، میری امت اس سے پانی پیے گی، اس کے آبخورے تاروں کی تعداد میں ہیں، میری امت کے ایک شخص کو وہاں سے دور ہٹا دیا جائے گا! میں کہوں گا: یا الہی! یہ میرا امتی ہے، تو کہا جائے گا: “آپکو نہیں معلوم اس نے آپ کے بعد کیا بدعات ایجاد کیں” ) احمد، مسلم، ابو داود
حوض کی میدان محشر میں بہت بڑی زمین ہے، اللہ تعالی اسے نہر کوثر کے پانی سے بھر دیگا ، اور اس حوض میں نہر کوثر سے گرنے والے سونے چاندی کے دو پرنالے ہیں ، اس کا پانی کبھی کم نہیں ہوگا، نیز ہر مؤمن مرد و زن اس سے پانی ضرور پییں گے، اور پھر کبھی بھی پیاسے نہیں رہیں گے۔
حوض کوثر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے پانی پینے والے خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا

اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے بچو تو ہم تمہارے گناہ مٹا کر عزت کی جگہ میں داخل کر دینگے۔[النساء : 31]
نیز سنت نبوی پر کار بند ہوتے ہوئے علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ ہی دعوت دیتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔[يوسف : 108]
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی طرف لوگوں کو زبانی ، فعلی اور عملی نمونہ بن کر بلاتے ہیں، دین میں بدعات اور خود ساختہ امور سے بچتے ہیں اور شریعت سے متصادم کوئی کام نہیں کرتے، نیز ریا کاری اور شہرت پسندی سے بالکل پاک ہو کر اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں، ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا حوض کوثر سے پانی پینے کیلئے بہترین نسخہ ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ:إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

یقیناً ہم نے آپ کوثر عطا کی ہے چنانچہ آپ اپنے رب کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں بیشک آپ کا دشمن ہی لا وارث ہے۔[الكوثر : 1 – 3]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، جو جلال و اکرام والا ہے، وہ ایسا بادشاہ ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں، اس کے غلبے کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا، میں ڈھیروں نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ بر حق ہے، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ، پاکیزہ اور سلامتی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ پر آپکی آل اور صحابہ کرام پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

اللہ سے ایسے ڈرو، جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو۔
اللہ کے بندو!
اس شخص کی کامیابی کے کیا کہنے جسے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے پانی پینے کی سعادت نصیب کر دے، یہاں سے پانی پینے کے بعد وہ کبھی بھی پیاسا نہیں رہے گا۔
اس کے برعکس وہ کتنا بد نصیب شخص ہے جسے اس سعادت سے محروم رکھا جائے گا ، بلکہ دھتکار دیا جائے گا،

وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا

اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ [الكهف : 49]
مسلمانو!حوض کوثر سے پانی پینے کیلئے رکاوٹوں میں یہ اعمال شامل ہیں کہ بدعات اور دین میں خود ساختہ امور داخل کیے جائیں یا پھر عملاً یا قولاً یا غلط فتوی صادر کر کے اسلام سے روکا جائے، جیسے کہ یہ باتیں حوض کوثر سے دھتکارے جانے سے متعلق احادیث میں موجود ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: (آپکو نہیں معلوم آپ کے بعد انہوں نے کیا بدعات ایجاد کیں)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: (میرے بعد دین تبدیل کرنے والوں کیلئے تباہی ہو)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین میں تبدیلی کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت سے متصادم فتوے صادر کرتے ہیں۔
اسی طرح حوض کوثر سے پانی پینے کیلئے رکاوٹوں میں کبیرہ گناہ بھی شامل ہیں ؛ کیونکہ یہ دلوں کو خبیث بنا دیتے ہیں، اسی طرح ریا کاری، شہرت پسندی بھی رکاوٹ ہے، نیز لوگوں پر ظلم کرنا بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ان اعمال کے رکاوٹ بننے کی وجوہات سوچنے اور سمجھنے والے کیلئے بالکل واضح ہیں کہ جس نے دنیا میں نبوی شریعت کی اطاعت کی اور مرتے دم تک آپ کی عملی سیرت پر کار بند رہا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے پانی پیے گا، جبکہ دین میں تبدیلیاں کرنے والے اور بدعتی کو روک دیا جائے گا، کیونکہ اس نے حق بات سے لوگوں کو روکا۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔
یا اللہ ! خلفائے راشدین سے راضی ہو جا، یا اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آل سے راضی ہو جا، یا اللہ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ اور عدل و انصاف کیساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہمیں تیرے نبی کی سنت پر کار بند رہنے والوں میں شامل فرما، ہمیں اس دنیا میں سنت نبوی کا شیدائی بنا، اور ہمیں اسی پر موت دینا اور اسی پر دوبارہ زندہ کرنا ، یا رب العالمین!
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں جام کوثر نوش کریں، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! ہمیں اپنی رحمت کے صدقے سب سے پہلے جام کوثر نوش کرنے والے لوگوں میں شامل فرما، یا ارحم الراحمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! ہم سب کو گمراہ کن فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہم سب کو بدعات سے محفوظ فرما، اور ہمیں ہر قسم کی ایسی بدعات سے تحفظ عطا فرما جو تیرے نبی کے حوض سے جام کوثر نوش کرنے میں رکاوٹ بن جائیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! یا ذالجلال و الاکرام! ہمارے اگلے ، پچھلے ، خفیہ ، اعلانیہ سارے گناہ معاف فرما دے، وہ بھی معاف فرما جنہیں تو ہم سے زیادہ جانتا ہے، تو ہی ترقی اور تنزلی دینے والا ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
یا اللہ! ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ عطا فرما، یا اللہ! سب معاملات میں ہمارا انجام بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی و آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! جنت میں داخلے تک اس سے پہلے کے تمام مراحل ہمارے لیے خیر و عافیت کیساتھ آسان فرما دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! فوت شدگان کی بخشش فرما، یا اللہ! تمام فوت شدگان کی بخشش فرما، یا اللہ! ان کی قبروں کو اپنی رحمت کے صدقے منور فرما، ان کی قبروں کو کشادہ فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! مصیبت زدہ مسلمانوں کی مشکل کشائی فرما، مسلمان مقروض لوگوں کے قرضے چکا، تمام مسلمان مریضوں کو اپنی رحمت کے صدقے شفا یاب فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیاطین، ابلیس، اور اس کے چیلوں سے اپنی پناہ عطا فرما، یا رب العالمین! انسانی اور جناتی شیاطین سے بھی تحفظ عطا فرما، ہمارے نفوس اور گناہوں کے شر سے بھی پناہ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے تحفظ عطا فرما، یا اللہ! تجھے تیری رحمت کا واسطہ دیتے ہیں یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہمارے ملک کو شریر اور فاجر لوگوں کی مکاریوں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں اپنے اپنے علاقے میں امن و امان عطا فرما، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔
یا اللہ! اپنے بندے خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی تیری مرضی کے مطابق راہنمائی فرما ، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلئے مختص فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں اپنے دین کا حامی و ناصر بنا، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے دونوں ولی عہد کو بھی تیرے پسندیدہ کام اور اسلام و مسلمانوں کیلئے بہتر اقدامات کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! یا ارحم الراحمین! ہم تجھ سے اس بات کے سوالی ہیں کہ مسلمانوں پر ٹوٹنے والی مصیبتوں اور مشکلوں کو رفع فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں پر ٹوٹنے والی مصیبتوں اور مشکلوں کو رفع فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں پر اسلام کی وجہ سے ظلم ڈھانے والوں سے تحفظ عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کو ان کے ذاتی شر اور شریر مسلمانوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! مسلم ممالک میں بھڑکنے والے فتنوں کو ختم فرما ، کہ جس کے بعد اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! بدعات اور اہل بدعت کو روزِ قیامت تک کیلئے ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! بدعات اور اہل بدعت کو روزِ قیامت تک کیلئے ذلیل و رسوا فرما۔
یا اللہ! اپنے دین، سنت نبوی، اور قرآن کو غلبہ عطا فرما، یا قوی! یا متین!
یا اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت پر ثابت قدم فرما۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ [النحل: 90، 91]

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑواور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ تعالی اسے جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

تحفظ نسواں بل-نقد وتجزیہ اور متبادل حل

تحفظ نسواں بل 2016ء پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے جب سے پاس ہوا ہے، اس کی مخالفت اور حمایت نہایت شدومد سے جاری ہے۔
مخالفت کرنے والے بلاتفریق مسلک ومشرب علمائے کرام اور تمام دینی جماعتیں ہیں، کسی بھی مذہبی مکتب فکر کی حمایت اس کوحاصل نہیں ہے۔
حمایت کرنے والے کون ہیں؟ایک تو اس کے بنانے والے، اور وہ ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے امن وامان سے متعلق خصوصی یونٹ،خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکن اور پنجاب اسمبلی کی خواتین رکن۔ (روزنامہ نوائے وقت ۲۱مارچ ۲۰۱۶،مضمون شہزاد خالد)
ان میں دیکھ لیجئے، ایک بھی عالم دین یا ایسی شخصیت نہیں ہے جسے علوم دینیہ میں مہارت یاکم ازکم شناسائی ہی ہو۔
حمایت کرنے والوں کی دوسری قسم وزراء ،ودیگر وابستگان حکومت اور ان اراکین اسمبلی پر مشتمل ہے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں رقص وسرور کی محفلوں کے انعقاد کے خلاف پاس ہونے والے بل کی مخالفت کرکے اس کوختم کروادیاتھا اور ان حیاباختہ پروگراموں اور بے ہودگیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کیا اور اسے ’’حق‘‘ تسلیم کروایا۔ اس سے ان اراکین کی اسلام سے وابستگی کا اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
تیسری قسم ان خواتین کے ہے جنہوں نے این ،جی اوز(غیرسرکاری تنظیمیں) قائم کررکھی ہیں ،جن کا مقصد ہی مسلمان عورت کو بے پردہ کرکے اور بے حیابناکر مردوں کے دوش بدوش کھڑاکرنا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی اسلامی خصوصیات سے محروم ہوکر مغربی تہذیب کو اپنالے۔
اسلامی معاشرے کی اصل خصوصیت کیاہے؟ عورت تعلیم کے ساتھ ساتھ حیاوعفت کےجذبہ وتصور سے آراستہ ہو،اور اپنی فطری خصوصیات اور فطری مقاصد کے مطابق گھر کی چاردیواری کے اندرامورخانہ داری،خاوند کی خدمت و اطاعت ،بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم وتربیت وغیرہ سرانجام دے ۔یاپھر ان کے ساتھ جزوی طور پر ایسے کام کرلے جن میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو، جیسے پرائمری اسکول میں ٹیچنگ، بطور لیڈی ڈاکٹرمریض عورتوں کا علاج وغیرہ۔
مغربی تہذیب کیا ہے جس کے فروغ کےلئے مذکورہ تنظیمیں سرگرم ہیں، اور جس کے لئے ان تنظیموں اور ان کے بانیوں کومغرب کے استعماری اور اسلام دشمن ممالک یاتنظیموں کی طرف سے بھاری مقدار میںفنڈز مہیا کیے جاتے ہیں؟
وہ تہذیب یہ ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کو معاشی مشین کا کل پرزہ بننا چاہئے وہ گھر کی چاردیواری کوخیربادکہہ کرملوں،فیکڑیوں میں کام کرے،دفتروں میں کلرک اختیار کرے یا افسروں کی بانہوں میں جھولے۔ راتوں کوکلبوں میں مردوں کےساتھ ڈانس کرے اور ہر وہ کام کرے جو اسلام میں اس کےلئے ناپسندیدہ ہے،لیکن مغربی تہذیب میں پسندیدہ ہے۔ جیسے بے پردگی ،نامحرم مردوں کے ساتھ بے باکانہ اختلاط، مردوں کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ سیرسپاٹا وغیرہ۔
یہ خواتین اس بل کی حمایت کیوںنہیں کریں گی۔ اس بل نے تو ان کی آرزؤں اورمقاصد کے ہفت خواں کو ایک ہی جست میں طے کرادیا ہے۔ اگرخدانخواستہ ی بل واقعی نافذ ہوگیا تو پاکستان میں بھی مغرب کی طرح خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکاراو ر عورت یکسر غیرمحفوظ ہوجائے گی۔ اس مقصد کی حصول میںمغرب اپنی ایجنٹ خواتین کے ہزار جتن کے باوجود، ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ لیکن حکومت پنجاب مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے جس طرح پہلی جماعت ہی سے انگریزی مسلط کرکے مغرب کے طوق غلامی کو ہر مسلمان بچے کے زیب گلو کردیا ہے۔ اب مسلمان عورت کے لئے وہ نظام بھی تجویز کردیا ہے جس سے چند سالوں میں نہایت تیزی سے وہ خاندانی حصار اور تحفظ ،جو پاکستانی عورت کو بہت حد تک حاصل ہے، ختم ہوجائے گا اور پاکستانی عورت بھی مغرب کی طرح خاندانی حصارسے آزاد ،مرد کی بالادستی ،جو اس کی حفاظت کاضامن ہے ،اسے محفوظ اور کٹی پتنگ کی طرح آوارہ منشوں اور ہوس کاروں کی مرکزنگاہ ہوگی۔ لاقدرہ اللہ ،ثم لاقدرہ اللہ
اس بل کی حمایت کرنے والا چوتھا طبقہ، روزنامہ اخبارات کے ان کالم نگاروں پر مشتمل ہے جو ہر نئے پیش آمدہ مسئلے میں کالم نگاری ضروری سمجھتے ہیں چاہے وہ اس موضوع کی اہمیت،تقاضوں اور اس کی ضروری اہلیت سے کوئی آگاہی نہ رکھتے ہوں ۔کچھ اور نہیں تو وہ متعلقہ مسئلے سے آگاہی رکھنے والوں کو ہی طعن وتشنیع کاہدف بناکر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کالم نویسی کاحق اداکردیا ہے، یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہرمسئلے میں ٹانگ اڑانا، یعنی رائے زنی کرنا ہمار ا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔ اسی لئے وہ اظہار رائے کی آزادی کو جمہوریت کالازمی حصہ سمجھتے اور باور کراتے ہیں۔لیکن جوابِ آں غزل کے طور پر جب آگاہی رکھنے والے اہل علم وتحقیق تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں تو اس کو بالعموم اخبارات میں شائع نہیں کیاجاتا۔ ان کے نزدیک آزادیٔ صحافت یا آزادیٔ اظہاررائے صرف یہ ہے کہ خود ان کو لکھنے اور شائع کرنے کی اجازت ہو وہ جوچاہیں لکھیں اور شائع کریں۔اگر وہ رات کو دن او دن کورات باور کرائیں تو ان کاحق ہے جسے سلب کرناجمہوریت کے خلاف ہے لیکن دوسرے کسی باخبر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ لکھے یہ رات کس طرح ہوسکتی ہے جب کہ سورج کی روشنی ہر سوپھیلی ہوئی ہ اور یہ دن کس طرح ہوسکتا ہے جب کہ تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی ہے؟یہ بھی جمہوریت ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت یا آزادیٔ رائے کا حق صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے کہ قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہے اوروہ اخبارات کےمالک،یا ان کے مستقل تنخواہ دار کالم نگار ،یامشہور قلم کار ہیں!!
رہے اہل علم وتحقیق اور ارباب فکر ونظر ،۔چونکہ بدقسمتی سے نہ وہ اخبارات کے مالک یا مدیر ہیں اور نہ اخبارات کے مستقل تنخواہ دارملازم اور کالم نگار ۔وہ چاہے آسمان علم وتحقیق کے درخشندہ ستارے ہوں، بحرعلوم دینیہ کے غواص اور ماہرہوں، اصابت فکرونظر کے حامل ہوںلیکن ان کی تحقیقی یاوضاحتی بیان ناقابل اشاعت قرارپائے گا، وہ سردخانے کی نذر ہوگا یا ردی کی ٹوکری اس کامقدر ہوگا۔ مالکان ومدیر ان اخبارات کا یہ وہ ’’جمہوری حق یا رویہ‘‘ ہے جو سالہاسال سے راقم کے تجربہ ومشاہد کاحصہ ہے۔ یہ جگ بیتی ہی نہیں، آپ بیتی بھی ہے جس میں ایک فیصد بھی غلط بیانی نہیں۔
بہرحال بات ہورہی تھی اس متنازعہ بلکہ مغربیت میں ڈوبے بل کی کہ اس کی حمایت میں جوچوتھا طبقہ سرگرم ہے وہ اخباری کالم نویسوں کا ہے یہ ظاہر ہے کہ یہ جرعۂ تلخ ان کے لئے کتنا بھی ناخوش گوار ہو،مگر حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ تینوں حمایتوں کی طرح، یہ بھی قرآن وحدیث کے علوم سے بہرحال بہرہ ورنہیں ہے۔
دنیائے علم وتحقیق میں یہ بات مسلمہ ہے کہ سائنس، ریاضی، انجیئرنگ،طب وحکمت، معاشیات، سیاسیات، یا کسی بھی علم وفن میں کوئی کتاب یامضمون لکھنے کاحق صرف اسی کو  حاصل ہے جو اس علم یا فن کاماہر ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو۔ اس کے بغیر کوئی شخص بھی اس فن پر لکھنے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کوئی ایسی جسارت کرلے تو اسے کوئی قبول کرنے کے لئےتیار نہیں ہوگا بلکہ اسے دنیا احمق یا پاگل تصو رکرے گی کہ ذات کی کوڑھ کرلی اور ….
لیکن دین اسلام، وہ دنیا کامظلوم ترین دین ہے کہ اس کی ابجد سے بھی ناآشنالوگ اس میں رائے زنی بلکہ اس میں’’اجتہاد‘‘ کرنا نہ صرف اپناحق سمجھتے ہیں بلکہ جن علماء نے علوم دینیہ کے سیکھنے سکھانے میں اپنی عمر صرف کی ہیں، ان کو دینی معاملات میں رائے دینے کا اہل نہیں سمجھاجاتا۔
اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۝۵ (ص:۵)
دیکھ لیجئے! اس بل کا سارا تعلق خاندانی نظام سے ہے جس میں سب سے زیادہ اہم پہلو، میاں بیوی کاباہمی تعلق ہے۔ اس کے بارے میں اسلام میں اتنی تفصیلی ہدایات ہیں کہ دنیاکے کسی نظام، مذہب یا نظریے میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ بل بناتے وقت اسلام کی ان روشن تعلیمات کو نہ صرف نظرانداز کیا گیا ہے بلکہ سارا بل قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے اور مغربی افکار کاچربہ یا اس کی بھونڈی نقل ہے۔ اسی لئے کسی عالم دین سے قطعاً مشاورت کا اہتمام نہیں کیاگیا۔
اس کے بنانے یابنوانے والے تو کہہ ہی رہےہیں کہ یہ بل اسلام کے عین مطابق ہے اور ان کی تو یہ مجبوری ہے کہ انہوں نے تو یہ ساری کاوش کی ہے، ان کی طرف سے تو یہ دفاع صحیح ہے یاغلط؟ اس سے قطع نظر،سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن اخبارات کے کالم نگار بھی ماشاءاللہ ،چشم بددور،مفتیان دین متین اور قرآن وحدیث کے سکالر بن گئے ہیں اور فتویٰ صادر فرمارہے ہیں کہ بل میں کوئی چیزخلاف اسلام نہیں ہے بلکہ وہ یہاں تک دعوے کررہے ہیں کہ علماء یوںہی شور مچارہے ہیں لیکن وہ اس کی کوئی شق خلاف اسلام ثابت نہیں کرسکے۔
زیرنظر مضمون بل کے اداکاروں اور ہدایت کاروں کے علاوہ، جدید اسلام کے ان ’’مفتیان کرام‘‘ اور ’’محققین عظام‘‘ کی خدمت میں پیش ہے کیونکہ اس میں ان کے دعوؤں کے برعکس اس بل کو مکمل طور پر خلاف اسلام ثابت کیا گیا ہے جس سے ان کے چیلنج کا جواب بھی سامنے آجائے گا کہ علماء اس کوخلاف اسلام ثابت نہیں کرسکے یا نہیں کرسکتے۔ بعون اللہ وتوفیقہ.
بل جائزہ:بل حقیقی بنیادوں سے محروم اور چند مفروضوں پرمبنی ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
بل کاآغاز ان الفاظ سے کیاگیا ہے:
’’چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اصناف کے مابین مساوات کی ضمانت دے کر ریاست کو خواتین کے تحفظ کے لئے خصوصی قانون وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے لہذا ضروری ہوگیا ہے کہ خواتین کو گھریلو تشددسے تحفظ فراہم کیاجائے….(بل کا اردومتن)
تبصرہ: ’’اصناف کے مابین مساوات‘‘ کے الفاظ آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۵ کی ذیلی دفعہ ۲سے ماخوذ یا اس کامفہوم ہے،آئین کے اصل الفاظ(اردومتن) حسب ذیل ہیں:
’’جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیاجائے گا‘‘
اس کامطلب اگر یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ دونوں ایک ہی قسم کی صلاحیتیں لے کر دنیا میں آئے ہیں اور دونوں دنیا کا ہرکام کرسکتے ہیں۔تو یہ بداہۃً غلط ہے۔ گومغرب کے نزدیک مساوات مردوزن کایہی مطلب ہے اور مغرب زدگان بھی اس غیر عقلی اورغیرفطری نظریے پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں  ،لیکن اسلام اس مساوات مردوزن کوتسلیم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان فرق کیا ہے، ان کے مقصد تخلیق میں بھی اور دائرۂ کار میں بھی، اور اسی اعتبار سے دونوں کو صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘ اور زیر طبع کتاب’’حقوق نسواں اور حقوق مرداں‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اور اگر اس دفعہ کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت اگرچہ دوجنس ہیں،لیکن اس بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیاجائے گا، دونوں کے حقوق کاتحفظ اور دونوں کی فلاح وبہبود کے لئے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ تو یہ مطلب بالکل صحیح ہے اور اسلام سے متصادم نہیں، جب کہ پہلا مطلب اسلام سےیکسر متصادم ہے۔
اس دوسرے مفہوم کی رُو سے عورت پرظلم وتشدد کی جو جو صورتیں بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ان کا سد باب نہایت ضروری اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائیگی میں موجودہ قوانین اگرناکافی ہیں تو نئے قوانین بنانا اور مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیونکہ یہ نہ اسلام کے خلاف ہے اور نہ علماء اس میں مزاحم یا اس کے مخالف ہیں۔ اسلام عورت کو ہرقسم کاتحفظ دیتا ہے بلکہ اسلام ہی عورت کوتحفظ دیتا ہے ،علماء اس کے مخالف کس طرح ہوسکتے ہیں؟
ایں خیال است ومحال است وجنون .
لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کے جن ذمے داران یا ان کے پس پردہ دیگر حضرات وخواتین نے آئین کی مذکورہ شق یادفعہ کا مطلب یہ نہیں سمجھا اور اس کو صرف اپنی مطلب برآری کے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کوایک مثال سے اس طرح سمجھاجاسکتا ہےکہ ملک میں آجر اور اجیر (محنت کش اورمالک) دوفریق ہیں،ملک کی ساری آبادی انہی دوفریقوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہےکہ دونوں فریقوں کے حقوق کاتحفظ کرے اور ایسے قوانین بنائے کہ نہ محنت کش مالک پر ظلم کرسکے اور نہ مالک مزدوروں کےساتھ ظلم وزیادتی کامعاملہ کرسکے۔
اب اگر مالکان مزدوروں کے حقوق کاخیال نہیں رکھتے ،ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ کرتے ہو،جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور ہیں جن کو ہرباشعور شخص سمجھتا ہے۔
ریاست کی یقیناً ذمے داری ہےکہ وہ مزدوروں (محنت کشوں ،ملازموں) کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسی قانون سازی کرے کہ مظلومین کی دار رسی ہوسکے، ان کے حقوق کو کوئی پامال نہ کرسکے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جاسکے۔ لیکن حکومت مزدوروں کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین بنائے جن میںمالکان کے حقوق کونظر انداز کردیاجائے تو کیا یہ قانون سازی معقول کہلائے گی؟ یا ایسے قوانین سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ممکن ہوگا؟ یا اس کو اسلام کے مطابق قرار دیاجاسکے گا؟ نہیں ،یقیناً نہیں۔ نہ ایسی قانون سازی میں کوئی معقولیت ہوگی، نہ اس سے مزدوروں کے حقوق کاتحفظ ہی ہوگا اور نہ اسے اسلام کےمطابق ہی کہاجاسکتا ہے۔
اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام مزدوروں پرظلم کوجائز قرار دیتا ہے،یا اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی وضاحت اور ان کے اہتمام کی تاکید نہیں ہے، یا ان کی بابت اسلامی ریاست کو ذمے دار قرار نہیں دیتا۔بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں نہایت اعتدال اور توازن ہے، وہ اللہ کا بنایاہوانظام ہے اور اس میں تمام طبقات کے حقوق کاتحفظ کیاگیا ہے۔ اگر اس میں مزدوروں کی بابت نہایت اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں جن کا خیال رکھنا مالکوں کے لئے ضروری ہے تودوسری طرف مالکوں کی بابت بھی احکام دیےگئے ہیں جن کوملحوظ رکھنا مزدوروں اور ملازمین کے لئے ضروری ہے۔ جب تک دونوں کے حقوق کا تعین اور ان کاتحفظ یکساں طور پر نہیں کیاجائے گا، کسی بھی ملک کانظام چل ہی نہیں سکتا۔
اس لئے علماء کہتےہیں کہ یک طرفہ قانون سازی (ون وے ٹریفک) اسلام کے خلاف ہے، کیوں؟ اس لئے کہ کوئی ریاست اگر صرف مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایسے قانون بنائے جن میں دوسرے فریق(مالکان) کے حقوق نظرانداز کردے، تو اس کانتیجہ کیا ہوگا؟ ہرشخص سمجھ سکتا ہے کہ ملک کی تمام فیکڑیاں،کارخانے،ملیں ،مارکیٹیں بند ہوجائیں گی۔ اور جن کے تحفظ کے لئے یک طرفہ قانون بنائے گئے ہوں گے،وہ سب بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے ۔ملوں، کارخانوں کے مالک تو کارخانے بند کرنے کے بعد بھی ضروریات زندگی فراہم کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے لیکن مزدوروں کےپاس کون سا اندوختہ ہوتا ہے کہ وہ مزدوری اور ملازمت کے بغیر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں ،علاوہ ازیں صنعت کا پہیہ جام ہوجانے سے خود حکومت کو جوٹیکسوں سے محرومی ہوگی، اس کے بعد نظام حکومت کس طرح چل سکے گا؟
ایک ہی فریق کے حقوق کے تحفظ کی یہ یک طرفہ کاروائی کتنی بھیانک اورخطرناک ہے، جس سے اللہ کی ہزاربار پناہ۔ مزدور بھی صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ کیا ہمارے حقوق کاتحفظ ہے کہ ہم بے روزگار ہوگئے اور دووقت کی روٹی کھانی بھی مشکل ہوگئی ہے۔
اس لئے ریاست کی ذمے داری صرف کسی ایک فریق کے حقوق کاتحفظ نہیں ہے بلکہ اس سے متعلقہ دوسرے فریق کے حقوق کاتحفظ بھی ہے۔ اگرایک فریق دوسرے فریق پر ظلم کرتا ہے تو بلاشبہ ریاست کی ذمےداری ہےکہ وہ مظلوم کی داررسی کرے اور ایسے قانون بنائے کہ ظلم کاراستہ بند ہوجائے۔ لیکن اس میں قطعا نہ کوئی معقولیت ہے اور نہ اس کاحق ہے کہ ایک فریق کے تحفظ کے لئے ایسی قانون سازی کرے کہ دوسرے فریق کے حقوق اس سے متأثر ہوں۔
تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یامفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس کے ذمےدار مرد ہیں۔اس لئے عورتوں کے حقوق کاتحفظ ضروری ہے۔
اور تو یہ صرف مفروضہ اور پروپیگنڈہ ہے کہ ہر صورت میں عورت مظلوم اورمردظالم ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میںجہالت اور اسلامی تعلیمات سے بے خبری عام ہے، جس کی وجہ اگر کبھی مردعورت پر ظلم کرتا ہے،تو عورت بھی کم وبیش کےکچھ فرق کے ساتھ اس معاملے میں مرد سے پیچھے نہیں ہے، وہ بھی مختلف انداز سے مرد پرظلم کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت میں صبر اورحوصلے کی -مرد کے مقابلے میں-کمی ہے( عورت مانے یا نہ مانے، یہ چیز فطری ہے) اگر اس پر ظلم ہوتا ہے وہ وہ وایلا کرتی ہے اور مغربی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز بھی اس کو -نمک حلالی کے طور پر-خوب اچھالتی ہیں۔ جب کہ مرد کے اندر عزم وحوصلہ زیاد ہ ہے، وہ عورت کی طرف سے کی گئی زیادتی کوبالعموم نظرانداز کردیتا ہے جیسا کہ اس کوکرناہی چاہئے کہ اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے اور اس کی قوامیت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر گھر کانظام چل ہی نہیں سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں۹۰فی صد گھرانوں میں چھوٹے موٹےتنازعات کے باوجود عورت امن وسکون کی زندگی گزار رہی ہے اور اس کو ان مسائل کاقطعا سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کے لئے بل کی صورت میں پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ صرف۱۰ فیصد گھرانے بمشکل ایسے ہوں گے جہاں ایک دوسرے پرظلم کیاجاتا ہے جو کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اور کبھی اس میں دونوں برابر کے شریک ہوتےہیں۔ ان صورتوں میں صرف مرد ہی کوظالم تصور کرکے قانون سازی کرنا-اور وہ بھی یکطرفہ-قطعا غیر معقول ہے۔
ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ایک کونسلر اورماہرنفسیات لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدات ملاحظہ فرمالیںـ:ان کانام فوزیہ سعید ہے وہ ایک مضمون بعنوان:-کیاصرف مردذمے دار ہے؟ تصویر کادوسرارخ -میں لکھتی ہیں:
’’8مارچ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایاجاتاہے جس میں خواتین کو خراج تحسین پیش کیاجاتاہے، جگہ جگہ سیمینار کیے جاتے ہیں وہاں مردوں کے ظلم کی داستانیں اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ کچھ لوگ رونے لگتے ہیں ۔ 2015ء کو میں نے کافی ورلڈویمن ڈے اٹینڈ کیےتمام کا فوکس مردوں کے ظلم، عورتوں کو جلائے جانے کے واقعات، عورتوں پر پھینکے گئے تیزاب یا تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھنے دینے یا وقت سے پہلے شادی کر کے ان کے حقوق غصب کرنے یا عمرگزرجانے پر بھی شادی نہ ہونے جائیداد میں ان کے حقوق پامال کرنے کونمایاں طور پربیان کیاگیا۔ بطور ماہرنفسیات میں نے نہایت ہی سوچ بچار کےبعد یہ تجزیہ کیا کہ 80فی صد واقعات میں عورتوں کا اپناقصور ہوتا ہے،میں ایک کونسلر ہوں، میں نے دیکھا ہے ہرظلم کے پیچھے اکیلا مرد ذمے دارنہیں، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے ،بلکہ آپ بلاتعصب جائزہ لیں تو جومرد ظلم کرتا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے وہ عورت اس کی ماں بھی ہوسکتی ہے ،بہن بھی،بھابھی بھی، یا جدیددور کی نیورشتے دارگرل فرینڈبھی ہوسکتی ہے۔
پھرالزام مرد پر ہی کیوں؟
اگر آپ بلاتعصب تحقیق کریں تو معلوم ہوگا بے شمار NGOSاس پرکام کررہی ہے اور مردودں کے ساتھ کئے گئے ظلم پر کوئی ایک یا دوNGOSہیں۔عورتوں پر ظلم کی بات کو اچھالا جاتا ہےمگر اس کا کوئی حل یا جڑ سے ختم نہیں کیاجاتا، جڑ میں اصل مجرم کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی روپ میں بیٹھی اپنےبیٹے،بھائی،دیور ،خاوند کو بہکارہی ہوتی ہے۔
عورت پر ظلم کیاجاتا ہے ،میں اتفاق کرتی ہوں، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ مگر مردوں کو پالنے اور پروان چڑھانے والی اور شیر کا جگر دینے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو دوسری شادی پر اکسانے والی بھی کوئی نہ کوئی عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے بھائی یابیٹے کو کہتی ہے،بیوی کو آگ لگادو ،تیزاب پھینک دو،طلاق دے دو، ہم تمہارے لئے نئی بیوی لے کر آئیں گے۔ کسی طرح کوئی گرل فرینڈ یہ جانتے ہوئے کہ مرد شادی شدہ ہے،بچوں کاباپ ہے، اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور کسی عورت کا گھر تباہ کردیتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ مرد کو اپنی عقل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے، یپولین بوناپارٹ نے کہا تھا:’’مجھے اچھی مائیں دومیں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘گویا ذمے داری عورت پر آن پڑی ہے کہ اچھے مردوں کو جنم دینے والی عورت ہی ہے، ذمے داری ماں پر آگئی ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے اوراسے دوسری عورت کے حقوق ادا کرنےکی تعلیم دیتی ہے یا عورت کے حقوق غصب کرنے پر اکساتی ہے، عورت کا دل اس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے،اس کوکمزور کہنا اس کی توہین ہے ۔ آؤ اس دن عہدکریں کہ ہم اپنی حفاظت کا ذمہ خود لیں گے
ایسے رہا کروکہ کریں لوگ آرزو
ایسا چلن چلو، زمانہ مثال دے
(روزنامہ’’نوائےوقت‘‘لاہور خواتین ایڈیشن ،۲۱مارچ ۲۰۱۶)
یہ ایک پڑھی لکھی،تجربہ کار،ماہرنفسیات اور کونسلرخاتون کا ان لوگوں کے مونہوں پر ایک زناٹے دارطمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ ظلم صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتاہے ، اور سنیے صرف ایک ہی دن کے دوواقعات ،جو اخبار میں رپورٹ ہوئے، دونوں میں ظالم مرد نہیں، عورت ہے۔
’’میاں بیوی فوزیہ اور اکرام شاہد کاخرچہ نہ دینے پر گھر میں جھگڑا ہوا جس کے بعد فوزیہ بی بی نے اپنے بھائی کوبلایا اور دونوں بہن بھائیوں نے مل کر کلہاڑی ما رکر35سالہ شوہر کوشدید زخمی کردیا جسے زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کرادیاگیا (یہ گوجرانوالہ کا واقعہ ہے) (روزنامہ آواز، ص:۲،۲اپریل ۲۰۱۶)
اسی تاریخ کا دوسرا واقعہ عورت کے ظلم اور سنگ دلی کا یہ نقل ہوا ہے کہ بچوں کی آپس کی لڑائی میں شفقت بی بی نےد وسالہ بچے محمد حسنین کا گلادبا کر اسے قتل کردیا۔(یہ سرگودھا کا واقعہ ہے) (روزنامہ ’’آواز‘‘ص:۲،۲اپریل ۲۰۱۶)
ایک اور خبر ملاحظہ ہو ،بے اولاد خاتون نے سوتن کا سواماہ کا بیٹا زمین پر پٹخ کر مار ڈالا۔ (روزنامہ ایکسپریس ،ص:۱۰،۴اپریل۲۰۱۶)
اس تفصیل سے یہ واضح ہےکہ زیربحث بل کاپہلا سبب ہی حقائق پرمبنی نہیں کہ عورتوں پر تشدد ہوتا ہے بلکہ مفروضے پرقائم ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم دونوں ہی طرف سے ہوتا ہے۔ ریاست کی ذمےداری ہے کہ وہ ظلم وتشدد کا سد باب کرے ۔کسی ایک فریق کو ظالم باور کرکے یا کراکے یک طرفہ قانون سازی خود ایک ظلم ہے جو آئین پاکستان کے بھی خلاف ہےاور عدل وانصاف کی مسلمہ روایات کے بھی خلاف ہے۔ عدل،آئین اور اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو واقعی ظالم ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے نہ کہ اپنے طور پرکسی ایک فریق یاجنس کوظالم فرض کرکے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
ہمارے ملک میں کون سا طبقہ ایسا ہے جو ظلم وتشدد سے محفوظ ہے؟ عورتیں تو بالعموم پھر بھی گھروں میں رہتی ہیں، سارے بیرونی کام مرد ہی کرتےہیں ۔لیکن ہمارے ملک میں مردوں کو قدم قدم پرظلم کاسامنا کرناپڑتا ہے۔ جتنے بھی سرکاری ادارے ہیں جن سے رات دن عوام کا واسطہ پڑتا ہے،بجلی، سوئی گیس، ایل ڈی اے، واسا، انکم ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس ، کچہری، پٹوارخانہ ،عدالتیں (سول ،فیملی، دیوالی، فوجداری، حتی کہ ہائی کورٹس وغیرہ) سیکرٹریٹ میں سرکاری ادارے، پاسپورٹ آفس، نادراآفس اور دیگر اس قسم کے دیگر ادارے اور سرکاری دفاتر جہاں عوام کو اپنے مسائل ومشکلات کے حل کے لئے سرکاری اہل کاروں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ان اداروں کے چھوٹے بڑے افسران واہل کار ان کی منصبی ذمے داری ہے کہ وہ پوری دیانت داری سےعوام سے تعاون کریں اور متعلقہ کام کرکے دیں، عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی سے ان کو تنخواہ ہیں اور دیگرمراعات دی جاتی ہیں۔ لیکن ہرچھوٹا بڑا افسر ااور اہل کار فرعون بن کر بیٹھا ہوا ہے اور کسی بھی دفتر میں عوام کی شنوائی نہیں ہوتی۔ شنوائی اگر ہوتی ہے تو اس رشوت کی جس کو’’فضل ربی‘‘ کا نام دیا ہوا ہے۔
(نعوذباللہ من ذلک)
جب تک اس لقمۂ حرام سے ان کی مُٹھّی گرم نہیںکی جاتی ،ان سے متعلقہ کام کروانے کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ان تمام سرکاری اداروں میں مردوں کو اپنے ہی ان’’خادموں‘‘ کے ہاتھوں جس ذلت ورسوائی اور ظلم کا سامنا کرناپڑتا ہے اور عوام یہ ’’خادم‘‘ جس طرح ایک ایک مرحلے پر مردوں کی عزت نفس کومجروح کرتے ہیں، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ یہ تو مردوں کاحوصلہ ہے کہ وہ ظلم وتشدد کی ان صورتوں کو برداشت کررہےہیں کیونکہ وہ ان ظالموں کے سامنے بے بس ہیں اور حکومت بے حس ہے، ورنہ ان کی چیرہ دستیاں تو اتنی عام ہیں کہ خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔
کیاحکومت کومردوں کی یہ ذلت ورسوائی نظر نہیں آتی؟ سرکاری اہل کاروں کا یہ ظلم وتشدد اس کے علم میں نہیں ہے؟ کیا ریاست کی یہ ذمےداری نہیں ہے کہ وہ مردوں کے ان حقوق کاتحفظ کرے جن کو تمام سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے فراعنہ نہایت دردی سے پامال کرتے ہیں؟
عورتوں پر ظلم وتشدد کی صورتیں توقطعاً اتنی عام نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈہ کے ذریعےسے باور کرایاجارہاہے لیکن اس کے سدباب کے لئے تو حکومت کی ’’پھرتیاں‘‘ ایک ناقابل فہم معمہ ہے، ہاں ایک پہلو قابل فہم ہے کہ یہ مغربی ایجنڈا ہے۔لیکن ملک سے رشوت کاخاتمہ ہو، کرپشن کا انسداد ہو، عوام کے مسائل کے حل کے لئے کوئی آسان میکنزم تیار ہو، سرکاری اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ کاخاتمہ ہو جس نے عوام کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ مغرب کو چونکہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لئے مردوں کی عزت نفس کا یہ مسئلہ ،جوحکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہوناچاہئے ،حکومت مردوں کے اس اہم ترین مسئلے سے یکسرغافل ہے ۔ان چہ بوالعجبی است
علاوہ ازیں کیا یہ ’’صنفی امتیاز‘‘ نہیں جس کی نفی آئین پاکستان میں کی گئی ہے کہ عورتوں کے مفروضہ ظلم وتشدد کے خلاف توقانون سازی ؟لیکن مردموجودہ نظام میں واقعتاً اور حقیقتاً گوڈے گوڈے ظلم وتشدد میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ان کی داد رسی کا اور ان کو ظلم سے بچانے کا کوئی اہتمام نہیں۔

تِلْكَ اِذًا قِسْمَۃٌ ضِيْزٰى۝۲۲ (النجم:۲۲)

دوسرامفروضہ: بل میں دوسرامفروضہ یہ کارفرما ہے کہ عورتوں پر ناجائز تشدد ہوتا ہے۔ پھر اس تشدد میں بھی مغربیت کی نقالی میں کئی صورتیں بیا ن کی گئی ہیں جس کی تفصیل ممکن ہوتی تو ہم ان شاءاللہ آگے چل کر بیان کریں گے ۔
اول تو جسمانی تشدد کامسئلہ بھی ایسا ہے کہ اسے مغربی ذہن نے، جو اس بل کی ایک ایک شق میں کارفرما ہے، ہوا بنا کر پیش کیا ہے اور مسلسل اس کا پروپیگنڈہ کیا ہے اور کررہا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جس طرح پیش کیاجارہا ہے بلکہ اس کاتعلق اصل میں حاکمیت اور قوامیت سے ہے جو گھر کانظام چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کی ہے۔ اگر گھر کانظام چلانے میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں اختیارات دیے جاتے ہیں تو کبھی بھی گھر کانظام خوش اسلوبی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔جیسے کسی مملکت میں ایک کے بجائے دو سربراہ (چیف ایگزیکٹو) ہوں۔تو اس مملکت کانظام نہیں چل سکتا۔ لازم ہےکہ چیف ایگزیکٹو ایک ہی ہو،اس کی بالادستی کو چیلنج نہ کیاجاسکتا ہو، باقی عہدے دار (گورنر، وزراءاور دیگر افسران اعلیٰ) سب ا س کے ماتحت ہوں۔ یہی اختیارات کی مرکزیت نظام کائنات میں بھی ،جب سے یہ کائنات معرض وجود میںآئی ہے ،کارفرما ہے جس کی وجہ سے اتنی وسیع وعریض کائنات بغیر کسی ادنی خلل کے چل رہی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا ،بلکہ تدبیر کا ئنات میں کسی اور کی بھی شرکت ہوتی تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا۔

لَوْ كَانَ فِيْہِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا

’’اگرآسمان وزمین میں کئی معبود ہوتے تو یہ سارانظام درہم برہم ہوجاتا‘‘
مرد اور عورت کو بنانے والا صرف اللہ ہے اور وہی ان کی فطرت ،جذبات،میلانات کو جاننے اور سمجھنے والا ہے۔جیسے کسی مشین کو موجد ہی سمجھتاہے کہ وہ کس طرح صحیح طریقے سے کام کرے گی، اس کو کسی اور طریقے سے چلایاجائے گا تو وہ کبھی کامیابی سے نہیں چل سکے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مرداور عورت کو دو الگ الگ جنسوں کےطورپر پیدا فرمایا ہے۔ اور وہی جانتا ہےکہ ان دو جنسوں کا جب ملاپ ہوگا تو زندگی کا یہ ملاپ کس طرح کامیاب رہے گا اور انسانی زندگی کی یہ دوسپیوں والی گاڑی شاہراہ زندگی میں کس طرح اپنا سفر زندگی صحیح طریقے سےطے کرسکے گی اس کے لئے اس نے دونوں کے حقوق وفرائض بھی طے کردیے اور تاکید کردی کہ دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کریں تاکہ دونوں کے حقوق ادا ہو جائیں ۔ان احکامات کی پابندی کی صورت میں دونوں کی زندگی نہایت خوش گوارماحول میں گزرتی ہے۔ لیکن اگرعورت کی طرف سے نشوز کااظہار ہو۔ جس کا مطلب ہے کہ مرد کی حاکمیت وبالادستی کو وہ چیلنج کرے اور خودبالادست بننے کی کوشش کرے تو ؟؟؟ یہ فطرت اور احکام الٰہی کے خلاف ہے، اس سے یقینا گھرکانظام خلل اور فساد کا شکار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بطور علاج تین تدبیر اختیار کرنے کاحکم دیا ہے۔
1عورت کو وعظ ونصیحت کےذریعے سے سمجھایاجائے۔(یہ کارگرنہ ہوتو)
2ان سے گھر کے اندربستر الگ کرلو(اس سے بھی وہ نہ سمجھے تو)
3توا ن کی سرزنش کرو(ہلکی سےمار سے ان کوراہ راست پرلاؤ) (النساء:۳۵)
واضربوھن(مارو) یہ اللہ کاحکم ہے ۔کسی مفسر ،عالم یا فقیہ کا اجتہاد یاتوضیح نہیں صاف اور واضح حکم ہےلیکن اس کامطلب تشدد یاظلم ہرگز نہیں ، نہ اس کی اجازت ہی ہےیہ اصلاح کے لئے ایک تادیبی حکم ہے اور تادیب وتنبیہ کاحق ہر سربراہ کو حاصل ہوتا ہے۔لیکن اس تادیبی حکم کاتعلق چونکہ میاں بیوی سے ہے جن کےد رمیان فرمان رسول کی رُو سے ایسی مثالی محبت ہوتی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس لئے حامل قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اس ضرب (سرزنش) کی وضاحت فرمادی کہ یہ غیرمبرح ہو، یعنی ایسی مارکہ جس سے اس کو نہ ایذاء پہنچے اور نہ کوئی زخم ہو۔ اسی طرح چہرے سے اجتناب کیاجائے۔ علاوہ ازیں اس کی مزیدحوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا کہ تادیب کے طور پر بھی ایسا کرنے والے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ مزیدفرمایا کہ یہ کون سی دانش مندی ہے کہ صبح کو مارے اور رات کو پھر اس کی آغوش محبت میں پناہ لے۔
چنانچہ یہ حقیقت ہےکہ شاید ہی چند فی صد گھرانے ایسے ہوں گے کہ جہاں عورت کو اس قسم کی سرزنش سے واسطہ پڑتا ہو۔ ورنہ الحمدللہ بیشتر گھرانوں میں اس کی نوبت نہیں آتی اور جہاں کہیں بھی اس کی نوبت آتی ہے تو اکثر وبیشتر اس کی وجہ عورت ہی کی بدزبانی ،بداخلاقی یانافرمانی ہوتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے اس تادیبی حکم اوراجازت کو ظلم وتشدد سے تعبیر کرنا ہر لحاظ سے غلط بھی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔ یہ وہ تشدد ہرگز نہیں جس کے لئے اتنی لمبی چوڑی قانون سازی کی گئی ہے یہ بلاجواز اور حکم قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے باہمی تعلق، ان کے مابین محبت وقربت اور ان کی پرائیویسی کو[ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ] (البقرۃ:۱۸۷) کے نہایت بلیغ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ’’وہ عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘ اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملات اور باہمی تنازعات ،یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان میں سوائے ناگزیر حالات کےکسی کے دخل دینے کی ضرورت ہو۔ وہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ،دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں۔
ان خانگی معاملات کو،جرائم بناکر، پولیس کو ان میں مداخلت کاحق دینا، یاعورت کو یہ اختیار دینا کہ وہ فون کرکے مرد کو حوالۂ پولیس کردے۔ یہ قرآن کے مذکورہ پرائیویسی حکم کے بھی خلاف ہے اور یہ ایسی غیردانش مندانہ تدبیر ہے کہ جو عورت بھی ایسا کرے گی وہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارے گی۔ جب کوئی عورت مردکی بالادستی کو چیلنج کرے گی تو کوئی بھی مسلمان مرداتنا بے غیرت نہیں ہے کہ وہ اس بےغیرتی کو برداشت کرلے۔ یہ صورت حال ایسی ہے جہاں بھی عورت کی حفاظت کے ٹھیکے داروں اورٹھیکے دارنیوں کی طرف سے بنائے ہوئے اس قانون کو کوئی عورت اختیار کرے گی تو مردآخر مرد ہے ،وہ گھر کامالک ہے، عورت کاکفیل ہے، وہ اللہ کا بنایاہواگھرکاسربراہ ہے۔ وہ اس بے غیرتی اور بے بسی ولاچارگی کو کب برداشت کرے گا، وہ کڑاپہننےکےبجائے اپنا یہ لباس ہی اتارپھینکے گا، یعنی عورت ہی کو طلاق دےکرفارغ کردے گا یعنی جب ان کومُحب اور محبوب کے رشتے سے جدا کرکے ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر قانون ایک ہاتھ میں ہتھیار دے کر دوسرے پر حملہ آور ہونےکا اختیار دے گا تودوسرا بھی محب کے بجائے دشمن بن جائے گا اور اس کے ہاتھ میں خدائی اختیار-حق طلاق-ہے۔ وہ عورت کے وار کرنے سے پہلے ہی اپنا وار کرکے اس کاکام تمام کردے گا،یعنی اس کو طلاق دے دے گا اور پولیس جوہتھکڑی یاکڑا مرد کو لگانے یا پہنانے کے لئے آئے گی، مرداس کو کہے گا اس عورت کو شیلٹرہوم میں پہنچادو، اس سے میرا اب کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت ہی سے خارج کردیا ہے۔ یہ محض افسانہ سازی یا افسانہ سرائی نہیں ہے ،یہ مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس بل کے نفاذ کے بعد سامنے آئے گا۔
اور فرض کرلو کہ کوئی مرد اس بے غیرتی کو برداشت کرتےہوئے اپنے آپ کو حوالۂ پولیس کرکے چند روز کے بعد گھر سے بے گھر ہونا گواراکرے گا تو اس کے پیچھے دوصورتیں ہوں گی۔
اس گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ،مرد کی ماں، اس کی بیٹیاں، بھابھیاں وغیرہ بھی رہائش پذیر ہوں گی توماں سمیت ان عورتوں پر کیاگزرے گی، اور ان عورتوںکے دلوں میں اس خاتون کی کیاعزت باقی رہ جائے گی جس نے اپنے سر کے تاج کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا؟
دوسری صورت ،کہ اس گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہنے والے ہوں گے ،مرد کے گھر سے نکل جانے کے بعد اکیلی عورت کیا محفوظ ہوگی؟ اور اگرعورت بدکردار ہوگی تو اس تنہائی کو کیا وہ اسی طرح ’’یوز‘‘نہیں کرے گی جس طرح مغربی عورت کرتی ہے۔ یہ صورت تو یقیناً اس بل کے خالقوں کےنزدیک ’’آئیڈیل‘‘ ہوگی کہ مسلمان عورت کوپاکستان میں بھی وہ کھل کھیلنے یارنگ رلیاں منانے کاموقع میسر آئے جو مغرب میں عام ہے۔
ماشاءاللہ ،چشم بددور، کیاخوب تحفظ حقوق نسواں ہے؟
یہ ’’خدمت ‘‘اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
4اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے اور ہر طرح سےمکمل ہے جس کی تکمیل کا اعلان بھی اللہ نے سورۂ مائدہ کی آیت میں کیا ہے۔ لیکن بل کی ساری بنیاد اور اس کی ساری شقیں اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اسلام میں مردوعورت کے باہمی تنازعات کا کوئی حل ہی نہیں ہے۔ اب ساڑھے چودہ سوسال کےبعد اس ’’خلا‘‘ کے پر کرنے کی ’’سعادت‘‘ پنجاب حکومت کوحاصل ہورہی ہے۔
کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تونعوذباللہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:

[اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ الآیۃ]

غلط ہے۔ اور اگرمفروضہ غلط اور اللہ کا فرمان صحیح ہے تو پھر یہ ساری قانون سازی-دیں دفتر بے معنی،غرق مئے ناب اولیٰ-کی مصداق ہے۔
فرما ن باری تعالیٰ یقیناً صحیح ہے، جو اس میں شک کرتا ہے وہ اپنے ایمان کی خیرمنائے۔ اللہ تعالیٰ نے خانگی زندگی کی استواری اورخوش گواری کےلئے اتنی ہدایات اور ایسی اعلیٰ تعلیمات ہمیں دی ہیں کہ اگر دونوں میاں بیوی ان کاخیال رکھیں اور ان پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو نہایت خوش گوار زندگی گزرتی ہے اور گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اور اگر بوجوہ عدم موافقت یافریقین میں سے کسی ایک کے غلط رویے کی وجہ سے کچھ اختلافات رونما ہوجائیں تو اس کا بھی بہترین حل قرآن کریم ہی میں بیان فرمادیاگیا ہے، جن میں سے تین تدبیریں تو وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں ۔سمجھ دار عورت توبغیر کسی اورکی مداخلت کے، بالعموم ان تدابیرہی سے اپنا رویہ درست کرلیتی ہے۔ لیکن اگر اس طرح مسئلہ حل نہ ہو تو دوسرا حل-چوتھی تدبیر کی صورت میں-یہ بیان فرمادیا کہ دوحَکم(ثالث) ان کافیصلہ کریں ایک میاں کے خاندان سے ہو، دوسرا بیوی کےخاندان سے ۔ ساتھ ہی اللہ نے بیان فرمادیا کہ دونوں ثالث اگرصلح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا فرمادے گا۔(النساء:۳۵) بصورت دیگر آخری چارۂ کار کے طو ر پر پھر ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی ۔علماء نے اس کو توکیل بالفرقۃ کےنام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ ثالث صلح کرانے میں ناکام رہیں تو پھر یہ بطور وکیل ایک دوسرے کی جدائی کا فیصلہ کردیں۔ یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا۔
5اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کاحق دیا ہے۔ اور یہ حق پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ ہےجس میں وہ رجوع کرسکتا ہے۔ اس حق کو بھی صرف اسی لئے محدود کیاگیا ہے کہ کوئی مرد عورت پرظلم نہ کرسکے۔ورنہ اسلام سے پہلے یہ حق غیرمحدود تھا جس کی وجہ سے ایک شخص اگر چاہتا کہ وہ عورت کو نہ صحیح طریقے سے آباد کرے اور نہ اسے آزاد کرے کہ وہ کسی اور جگہ شادی کرلے، تو وہ یہ کرتا تھا کہ طلاق دیتا اور عدت گزارنے سے پہلے رجوع کرلیتا۔یہ سلسلۂ ظلم وہ جب تک چاہتا، جاری رکھتا تھا، اللہ تعالیٰ نے حق طلاق کی حدبندی کرکے اس ظلم کاانسدا د کردیا۔
دوسراحکم یہ دیا کہ طلاق صرف ایک ہی دی جائے ،وہ بھی اشتعال اورغصے میں نہیں کہ ذرا ساجھگڑا ہوا اور طلاق دے دی۔ بلکہ اول تو طلاق کوسخت ناپسندیدہ عمل قرار دیا، تا ہم بعض حالات میں چونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا، اس لئے اس کی اجازت بھی عنایت فرمائی۔لیکن اس کاطریقہ یہ بتلایا کہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو پھر عورت کے پاک ہونے کاانتظار کرو۔ اس طرح حالتِ طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر صرف ایک طلاق دو۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کو رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا قرار دیا اور اس پر سخت برہمی کااظہارفرمایا۔ اس طریقۂ طلاق میں بڑی حکمت ہے۔ زیادہ طلاقیں جہالت کے علاوہ غصے اور اشتعال میں دی جاتی ہیں۔ اگر فوری طلاق نہ دی جائے بلکہ حیض سے پاک ہونے پر حالت طہر میں بغیر جنسی تعلق قائم کیے طلاق دینے کے وقت کاانتظار کیا جائے ۔توپچاس فی صد طلاق کے واقعات ویسے ہی کم ہوجائیں گے۔کیونکہ طہر کے انتظار تک غصہ اور اشتعال ختم ہوجاتا ہے اورطلاق دینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
تیسراحکم یہ دیا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد، اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد، طلاق کی عدت تین حیض یاتین مہینےہیں، عدت کے ان ایام میں پہلی اور دوسری طلاق میں عورت کو گھر سےنہیں نکالنا۔(سورۃ الطلاق) بلکہ وہ عدت، طلاق یافتہ ہونے کے باوجود بھی، خاوند کے گھر ہی میں گزارے۔ اس کی حکمت یہ بتلائی گئی ہے کہ شاید خاوند کو اپنی غلطی کا احساس ہوجائے، بیوی کے گھر ہی میں ہونے کی وجہ سے بیوی کی محبت اسے دوبارہ ملاپ پر مجبور کرے یابچوں کے بے سہارا ہونے کااحساس اس کو اپنے فیصلے پرنظرثانی کرنے پر مجبور کردے، یا بیوی کی بے چارگی کااحساس اس کے اندر رحم وشفقت کا جذبہ بیدار کرے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
ایسی صورتوں میں پہلی اور دوسری طلاق میں خاوند کو عدت کے اندررجوع کرنے کاحق حاصل ہے اور یہ مرد کا ایسا حق ہے کہ عورت یا عورت کے گھر والوں کو انکار کرنے کاحق نہیں ہے۔
ایک، ایک طلاق کادوسرا فائدہ یہ ہے کہ پہلی دونوں طلاقوں میں اگر عدت گزرنے کے بعد، ان کے درمیان صلح کی صورت بن جائے توبالاتفاق دوبارہ نئے نکاح سے ان کاتعلق بحال ہوسکتا ہے۔
اگر پہلی اور دوسری طلاق میں، جیسا کہ وہ اللہ کاحکم ہے(سورۃ الطلاق) عورت خاوند ہی کے گھر میں رہے تو اس سے بھی طلاقوں کے بعد بھی پچاس فی صدگھراجڑنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور جدائی کے لمحات جلد ہی ملاپ میں بدل سکتے ہیں۔
اس تفصیل سےمقصود یہ بتلانا ہے کہ شریعت میں میاںبیوی کے تعلق کو اتنی اہمیت اور طلاق کے باوجود ان کی قربت کاایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ یہ فراق جلد ہی وصال میں اور نفرت محبت میں تبدیل ہوجائے اورٹوٹا ہوارشتہ دوبارہ بحال ہوجائے۔
اس تفصیل سے ایک دوسرا پہلویہ بھی واضح ہواکہ اس قرآنی حکم کی روح اورخود ساختہ بل کی روح میں کس طرح بعدالمشرقین ہے ۔روح قرآنی یہ ہے کہ اختلاف اور کشیدگی ،حتی کہ طلاق کے باوجود بھی،میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کوختم کیاجائے اور ان کو دوبارہ باہم جڑنے کے مواقع مہیا کیے جائیں۔ اور مغربی روح میں ڈوبے ہوئے بل کی روح یہ ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سےاتنادور کردیاجائے اور ان کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کردی جائے کہ عدم طلاق کے باوجود ان کاملاپ ناممکن ہوجائے۔بل میں اس کا مکمل اہتمام کیاگیا ہے ۔ایک تو مرد کو گھر سے باہرنکال کرشیلٹرہوم میں بھیجنا،اس کی مردانگی اور غیرت کوچیلنج کرنا، پھر ان کوآپس میں بالکل قریب نہ آنے دینا کہ کہیں یہ دونوں باہم مل کر تلافی اور ازالہ کااہتمام نہ کرلیں اور یوں ان کے درمیان صلح ہوجائے ۔
اندازہ کیجئے کہ اس بل کے اندر کس طرح شیطانی روح کومکمل طور پر گھسیڑدیاگیا ہے کہ میاں بیوی کے ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ شیطان اپنے اس چیلے کو اس کی اس ’’حسن کارکردگی‘‘ پر سب سے زیادہ شاباشی دیتا ہے جو آکر اس کو یہ رپورٹ دیتا ہے کہ آج میں نے فلاں میاں بیوی کےدرمیان جدائی کروادی ہے۔
یہ بل نافذ ہوگیا تو مغرب کاشیطان بھی اپنے پاکستانی چیلوں کے اس کارنامے پربڑا خوش ہوگا کہ انہوں نے بھی اس بل کے ذریعے سے پاکستان کےخاندانی نظام کوتباہ کرنے کا پورا ’’سروسامان‘‘ مہیا کردیا ہے۔ع
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کندد
اس کے باوجود ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ کہاجارہا ہے کہ بتلاؤ،اس کی کون سی شق خلاف اسلام ہے۔ سچ ہےع
مستند ہے ان کافرمایا ہوا
واقعی بل بنانے والے جس’’اسلام‘‘ کو جانتے ہیں، اس کی رو سے اس کی ایک ایک شق ’’اسلامی‘‘ ہے،کیونکہ ان کے اسلام میں مرد وعورت کے درمیان حجاب نہیں ہے۔ رقص وسرور تفریح ہے، موسیقی روح کی غذا ہے۔ فلموں،ڈراموں اورٹی وی پروگراموں میں جوحیا باختہ تہذیب رات دن پیش کی جارہی ہے، وہ اسلامی تعلیمات کا’’اعلیٰ نمونہ‘‘ ہیں۔ مخلوط تعلیم ناگزیر ہے، عورتوں کامردوں کے دوش بدوش ملکی ترقی میں اور زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ
جن کا’’اسلام‘‘ یہ ہے تو ان کا بنایا ہوا بل غیر اسلامی کس طرح ہوسکتا ہے؟
علماء بے چارے چونکہ اس’’اسلام‘‘سے ناآشنا ہیں اس لئے وہ اس کے غیر اسلامی ہونے کی دہائی دے رہے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں، کیونکہ دونوں کا اسلام ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
بنابریں پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ حکومت کی سرپرستی میں جوکچھ ہورہا ہے، وہ اسلام ہے یا اسلام وہ ہے جو قرآن مجید کی شکل میں نازل ہوا، اور صاحب وحی ،پیغمبر اسلام ﷺ نے اس کی توضیح وتفسیر-قولی اور عملی صورت میں-فرمائی اور آج وہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔
علماء تو صرف اسی کو اسلام سمجھتے اور جانتے ہیں جو قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔ اور یہ بل سراسر اس کے خلاف ہے جیسا کہ اللہ کی توفیق سے اس کی ضروری تفصیل ہم نے پیش کردی ہے۔ والحمد لله على ذلك
وزرائے کرام،بل کے بانیان عظام، لیڈیاں ذی احترام مل کر پڑھیں
….تو میندیشن زغوغائے رقیباں
کہ آواز ’’علماء‘‘ کم نہ کند رزق’’وزراء‘‘
بطورنمونہ تنازعات کا جوخودساختہ لمباچوڑا حل، بل میں پیش کیاگیا ہے،اس میں لیڈی افسران کاتقرر ہے، عدالتوں کاقیام ہے، شیلٹرہومز کی تعمیرات ہیں، پولیس کی داروگیر ہے اورگھر کے حاکم اعلیٰ کی تذلیل وتوہین ہے، اسے کڑا پہنانا ہے اور پتہ نہیں کیاکچھ ہے۔اور وہ صرف عورت کے کہنے پربغیرثبوت اور بغیر گواہوں کے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا بیان کردہ طریقہ کتنا آسان او رمختصر ہے گویا-ہلدی لگے نہ پھٹکڑی ،رنگ چوکھا آئے- کے مصداق
کیا اس کے باوجود بل بنانے والوں کا یہ کہنا کہ اس بل میں کوئی چیز خلاف شریعت نہیں ہے،صحیح ہے؟ سارا طریق کاراللہ کےبیان کردہ طریقے سے یکسر خلاف ہے، پھر بھی دعویٰ ہے کہ اس میں شریعت کےخلاف کچھ نہیں ہے
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریںخون کا دعویٰ کس پر
بہرحال بل کے یہ چند بنیادی نکات ایسے ہیں جن کے رو سے یہ واضح ہے کہ یہ سارا بل’’ الف ‘‘سے لےکر ’’ی‘‘ تک قرآنی احکام اور نصوص شریعت کے یکسر خلاف ہے۔ اس کے بعد اس کی ایک ایک شق پربحث یکسر غیرضروری ہے۔ تاہم اگرضروری ہوا تو اس کی لغویت کو شق واربھی واضح کردیا جائے گا ۔بعون اللہ وتوفیقہ

وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَـيْــــًٔـا وَّلَوْ كَثُرَتْ (الانفال:19)

عورت کے اصل مسائل اور ان کاحل
حمایت کنندگان ،یابانیان بل کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ علماء اس کی مخالفت توکررہے ہیں لیکن کوئی متبادل حل پیش نہیں کررہے ہیں، توبات دراصل یہ ہے کہ بل میں جومسائل پیش کیے گئے ہیں، وہ عورت کے اصل مسائل ہیں ہی نہیں۔ سارے بل کی عمارت مفروضوں پرکھڑی کی گئی ہے، اس لئے یہ بل
خشت اول چوں نہد معمار کج
تاثریامی رود دیوار کج
کاآئینہ دار اورمصداق ہے ،یا ہمارے اردو محاورے کی رُو سے کہاجاسکتا ہے۔
اونٹ دے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی
اس کی کوئی شق بھی صحیح نہیں۔ البتہ اس میں میاں بیوی کے تنازعے کا ذکر ہے، یہ مسئلہ یقیناً موجود ہے لیکن اس کا جو بقراطی حل بل میں پیش کیا گیا ہے، وہ اتنا غلط ہے کہ اس سے عورت کوقطعاً کوئی تحفظ نہیں ملے گا، بلکہ وہ یکسر غیرمحفوظ ہوجائے گی اور خاندان اورخاوند کی ہمدردیوں سےمحروم ہوکر صرف حکومت کے رحم وکرم کی محتاج ہوکر رہ جائے گی۔ یہ اس کاتحفظ ہے یا اس کی بربادی؟
خرد کا نام جنون رکھ دیا اور جنون کاخرد
جو چاہے آپ کاحسن کرشمہ کرے
بہرحال اگر حکومت عورت کے تحفظ میں مخلص ہے اور یہ واقعتاً اس کی ذمے داری بھی ہے، گو وہ ذمے دار سب ہی طبقوں کے تحفظ کی ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ علمائے اسلام عورت سمیت تمام طبقوں کاتحفظ چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ علماء عورت کے ان حقوق کاتحفظ چاہتے ہیں جو اسلا م نے اسے دیے ہیں کیونکہ وہ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ عورت کاتحفظ اسلام کے عطاکردہ حقوق ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سے ا نحراف کرکے عورت کے حقوق کاتحفظ نہیں، اس کی ہلاکت ہی کاسامان کیا جاسکتا ہے۔
حکومت کو عورت کے ان اسلامی حقوق سے،جو اس کی حفاظت کے اصل ضامن ہیں، کوئی غرض نہیں۔وہ صرف ان نسوانی حقوق کاتحفظ چاہتی ہے جو مغرب کےحیاباختہ معاشرے میں مغربی عورت کو حاصل ہیں۔
وہ اسباب جن کی وجہ سے عورت کو مشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے، یا وہ مردوں کےظلم وستم کاشکار ہوتی ہے،حسب ذیل ہیں:
سب سے اہم سبب اسلامی تعلیم وتربیت کافقدان اور اخلاقیات سے محرومی ہے اور یہ کمی ایسی ہے کہ ہم کسی ایک فریق کو اس کاذمے دار قرار نہیں دےسکتے۔اس فقدان اور محرومی میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں۔ اسی لئے کبھی زیادتی مرد کی طرف سے ہوتی ہے اور عورت کو مشکلات کاسامنا کرناپڑتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اس قسم کا اقدام، جس سے عورت کوناخوشگوار صورت حال سےد وچار ہوناپڑتا ہے،اس کاسبب عورت ہی کی غلطی یا ناسمجھی ہوتا ہے۔ اس لئے ہرحال میں مرد ہی کوظالم یا سزا وارِ سزا سمجھنا غلط اور یکسر خلاف واقعہ ہے اور عدل وانصاف کےمسلمہ اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس بل میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ صرف مرد کوہرصورت میں ظالم فرض کرلیا گیا ہے اور سزا کا اہتمام بھی صرف اسی کے لئے ہے۔ قطع نظر اس سے کہ جرم کی نوعیت کیا اور اس کا سبب کیا ہے؟ اس میں خطاکار مرد ہے یا عورت؟ یا دونوں ہی اس کے ذمے دار ہیں؟ علاوہ ازیں مرد کے خلاف ساری کاروائی صرف متاثرہ (عورت ،بیٹی، بہن، بیوی) کے بیان پر بغیر ثبوت اور بغیرگواہوں کے ہوگی۔ اور’’مدعاعلیہ‘‘ (مرد) میں خاوند کے علاوہ باپ اور بھائی وغیرہ بھی ہوسکتا ہے ۔کیونکہ خاوند کے علاوہ باپ بھی بیٹی سے، بڑابھائی بھی اپنی بہن سے اس کی کسی غلطی یا بے راہ روی پر باز پرس کرسکتا ہے،ڈانٹ ڈپٹ کرسکتا ہے اور بل میں اس تادیبی اوراصلاحی کاروائی کو بھی’’تشدد‘‘ قرار دیا گیا ہے،کیونکہ ایسا کرنا گو اسلام کی رو سے تو جائز ہے،لیکن مغرب میں یہ واقعی ایسا جرم ہے کہ بیٹی یا بیوی فون کے ذریعے سےپولیس کو بلواکر باپ یاشوہر کو گھر سے نکلواکر جیل بھجواسکتی ہے۔
بات پھر بل کی طرف چلی گئی کیونکہ بل ایسی کشش ثقل کاحامل ہے کہ فیصل آباد کے گھنڈ گھر کی طرح، جدھر دیکھو تو ہی تو ہے، والامعاملہ ہے۔
بات تربیتی فقدان ،اسلامی تعلیمات کے عدم شعور اوراخلاق سے محرومی کی ہورہی تھی، اس کی عامۃ الورودمثال طلاق کی ہے۔ بلاشبہ بہت سے مرد جہالت کامظاہرہ کرتے ہو ئے معمولی سے لڑائی جھگڑے پر طلاق دےدیتے ہیں اور طلاق بھی ایک ہی سانس میں تین مرتبہ۔ جن سے علمائے احناف کےنزدیک طلاق بتہ ہوجاتی ہے اور گھراجڑجاتا ہے، میاں بیوی کے خوار ہونے کے علاوہ بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہوجاتا ہے ۔
لیکن یہ سمجھنا خلاف واقعہ ہے کہ اس جہالت اورحماقت کامظاہرہ صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ بلکہ بسا اوقات اس میں عورت کی بدزبانی اور بداخلاقی اور ناسمجھی کادخل ہوتا ہے اور وہ ذرا سی بات پر طلاق کامطالبہ کرتی ہے ۔مردٹالنے اور درگزر کرنےکی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ ناسمجھی میں اتنا اصرار کرتی ہے کہ مرد کو،نہ چاہتے ہوئے بھی، طلاق دینی پڑ جاتی ہے۔اور پھر وہ ایک مرتبہ تین طلاقیں۔اس صورت حال کاحل کئی اقدامات کامتقاضی ہے۔
1حکومت کی طرف سے اسلامی تعلیم وتربیت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ہے۔ نہ مردوں کے لئے اور نہ عورتوں کے لئے۔ تعلیم وتربیت انسان کو حوصلہ مند بناتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مسائل ومشکلات کاسامنا کرنا سکھاتی ہے،بالخصوص جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے۔ اور طلاق کے فیصلے اکثرعجلت، بےصبری،عدم برداشت اور بدا خلاقی کانتیجہ ہوتے ہیں۔ حکومت میاںبیوی کے حقوق اور ذمےداریوں پرمبنی اسلامی تعلیمات کومیٹرک کے بعد نصاب کاحصہ بنائے اوراخبارات اورٹی وی پروگرامزکے ذریعے سے بھی ان کونشر کروائے۔
2بالخصوص اسلامی طریقۂ طلاق کو، جس کی وضاحت، گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے، زیادہ سے زیادہ اس کی نشرواشاعت کی جائے اور اسے نصاب تعلیم میں شامل کیاجائے۔
3ایک ہی مرتبہ تین طلاقوں کو جرم قرار دیاجائے ،جو عرضی نویس یاوکیل طلاق نامہ لکھے، ان کوبھی صرف ایک طلاق لکھنے کا پابند اور ان کے لئے بھی بیک وقت تین طلاقیں لکھنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یہ سفارش اسلامی نظریاتی کونسل بھی کرچکی ہے۔
4اس غلط فہمی کا وسیع پیمانے پر ازالہ کیا جائے کہ طلاق لے لئے تین مرتبہ۔طلاق، طلاق، طلاق۔ کہنا یامیں-طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں-کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی صرف یہ کہتا ہے کہ میں طلاق دیتا ہوں،یاتجھے طلاق ہے۔ تو اس طرح ایک مرتبہ ہی طلاق کے لفظ سے طلاق ہوجاتی ہے اور تین حیض یاتین مہینے تک رجوع نہ کرنے کی صورت میں طلاق بائنہ ہوجاتی ہے ۔ یعنی میاں بیوی والاتعلق ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد عورت آزاد ہے کہ اپنےولی کی اجازت اوررضامندی سےجہاں چاہے نکاح کرے۔
یہ طلاق کا ہی شرعی طریقہ ہے جس میں کسی کااختلاف نہیں۔ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کااحساس ہوجائے تو وہ عدت کے اندر رجوع کرکے دوبارہ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ اور عدت گزرنے کےبعد اگرصلح کی کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں تو نئے نکاح کےذریعے سے یہ دوبارہ تعلق زوجیت میں جڑ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جو اتفاقی ہے۔ اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔
فقہی اختلاف اس وقت سامنے آتا ہے جب طلاق کاغیر شرعی طریقہ-ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں-اختیار کیاجاتاہے۔ اور اس اختلاف کی وجہ سے ان کا دوبارہ باہم ملاپ تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے الا یہ کہ وہ حلالہ مروجہ کیاجائے جس کابعض علماء فتویٰ دے دیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں اس کاقطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی غیرت مند مرد اسے برداشت نہیںکرسکتا۔علاوہ ازیں یہ خودساختہ فتویٰ جس طرح نقل(شرعی دلائل) کے خلاف ہے ،اسی طرح عقل کےبھی خلاف ہے کہ جرم کرنے (بیک وقت دین طلاقیں دینے )والا مرد ہوتا ہے لیکن سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے کہ وہ چند راتوں کے لئے کرائے کے سانڈ کے حوالے کردی جاتی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ ۔یاد رہے کہ ’’کرائے کے سانڈ‘‘ کے الفاظ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہوئےہیں۔حدیث کے اصل عربی الفاظ ہیں:’’التیس المستعار‘‘
5یا اس کادوسراحل ،جوشرعی ہے ،یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق (رجعی) شمار کیاجائے ،اس صورت میں بھی پھر عدت کے اندررجوع کرنا اور عدت گزرجانے کے بعد(بغیرحلالہ مروجہ کے) نکاح کرنا جائز ہے۔ اس کےاہل حدیث کے علاوہ کئی ائمہ اعلام(امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم وغیرہ) اور بعض صحابہ وتابعین اور دیگر متعدد اہل علم قائل ہیں۔شرعی دلائل بھی اس کی تائید میں موجود ہیں۔علاوہ ازیں پاک وہند کے متعدد علمائے احناف(دیوبندی وبریلوی) حالات کے پیش نظر اس کے قائل ہیں، جس کی تفصیل اور ان کے فتاوے اورمضامین راقم کی کتاب میں موجود ہیں، یہ کتاب ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کاشرعی حل‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔
دیگرعلمائے احناف بھی اگر مسئلہ طلاق میں یہی موقف اختیار کرلیں تو عورتوں کی مشکلات کے حل میں،جوبیک وقت تین طلاقوں کی تین ہی شمار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ،کافی مدد مل سکتی ہے۔
اس کی ایک نظیر بھی موجود ہے کہ زوجۂ مفقود الخبر کا کوئی معقول حل فقہ حنفی میںموجود نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ ہند میں عورتوں کے لئے بڑی مشکلات تھیں تومولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے امام مالک کی رائے کو نہ صرف اختیار کیا بلکہ کبار علمائےاحناف سے بھی اس کی تائید میں فتاوے حاصل کیے۔اور یہ سارے فتاوے انہوں نے ایک کتاب-الحیلۃ الناجزہ فی الحلیلۃ العاجزۃ-میں شائع کردیے، یہ پون صدی (80-75سال)قبل کی بات ہے اس کتاب کا نیاایڈیشن -ادارۂ اسلامیات لاہور-نے شائع کیا ہے جس کے دیباچے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اعتراف ہے کہ عورتوں کی بہت سی مشکلات کاحل فقہ حنفی میں نہیں ہے۔
اس اعتراف کی روشنی میںپون صدی قبل کی اپنے اکابر کی نظیر کوسامنے رکھتے ہوئے اور ان کے سے طرز عمل کو اپناتے ہوئے اگر موجودہ علمائے احناف بھی بیک وقت تین طلاقوں کے ایک طلاق ہونے والے مسلک کو اختیار کرلیں، تو جاہلانہ طلاق کانہایت آسان حل نکل آتا ہے اور طلاق کے باوجود 80فی صد گھرانے اجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔
6طلاق کا جوصحیح اور شرعی طریقہ ہے، اسے اخبارات وغیرہ میںاور اسی طرح ایک وقت میں تین طلاقوں کے دینے کو قابل تعزیر جرم ہونے کو، حکومت کی طرف سے اشتہار کےطورپرصفحۂ اول پر شائع کرایاجائے۔
اگرحکومت اور دیگر این، جی ،اوز واقعی عورتوں کی مشکلات کے حل میں مخلص ہیں تو حکومت اپنے کارناموں کی تشہیر میں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرتی ہے۔ تو کیا وہ اس اہم مسئلے پر،جس سے 80فی صد گھرانے اجڑنے سے بچ سکتے ہیں ،چند کروڑروپے سالانہ قومی خزانے سے اس مد کے لئے مخصوص نہیں کرسکتی؟ یہ حکومت کے اخلاص کااور عورتوں کے مسائل کے حل میں حکومتی دلچسپی کا امتحان اور ٹیسٹ کیس ہے۔
عورتوں کی مشکلات کا ایک اور قرآنی حل-محلہ وار پنجائتیں
یہ حل قرآن کریم کی سورۃ النساء ،آیت نمبر۳۵میں بیان کیا گیا ہے جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرآئے ہیں۔ اس کی رُو سے ،محلوں کی سطح پر،پنجائتی نظام کاقیام ہے، اسے کونسلروں اورناظموں کے ذریعے سے بھی بروئے کار لایاجاسکتا ہے۔ یونین کونسلیں پہلے بھی اس سلسلے میں کچھ کام کرتی آرہی ہیں، ان کومزید فعال بھی کیاجائے اور کچھ اختیارات بھی دیے جائیں تاکہ عدالتوں پر بھی بوجھ نہ بڑھے اور عوام بھی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے، جولمبا بھی ہے اورمہنگا بھی، اپنے علاقے ہی میں ان پنچائتوں کی طرف رجوع کریں۔ یہ پنچائتیں پہلی اور دوسری طلاق میں صلح کرانے کی کوشش کریں جس کی گنجائش عدت کے اندر، یعنی تین مہینے تک،موجود ہے۔ نیز عدت گزرنے کے بعد بھی نکاح جدید کے ذریعے سے ٹوٹاہوا تعلق دوبارہ قائم ہوسکتا ہے ،اگر یہ پنچائتیں مخلصانہ کوشش کریں۔
یہ قرآنی حل اورطریقہ اس طریقے سےہزاردرجے بہتر ہے جو بل میں تجویز کیا گیا ہے جو اس قرآنی حل کے برعکس شیطانی حل ہے۔ اس میں کوشش کی گئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی طرح بھی غلط فہمیاں دور نہ ہوں اور دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ رہے۔
cفیملی عدالتوں کو مزید فعال اور ان کو ایک معین مدت تک فیصلے کرنےکاپابند بنایا جائے۔تاکہ جوعائلی تنازعات ، پنچائتوں کے ذریعے سے حل نہ ہوسکیں، عدالتوں سےان کو فوری ریلیف مل جائے۔ جیسے خلع، طلاق کے بعد بچوں کی تحویل، نان ونفقہ، وراثت وغیرہ کے مسائل ہیں۔
cاگرحکومت پنچائتی نظام کو صحیح معنوں میں قائم کردے اور ان کومناسب اختیارات بھی دے دیے جائیں تو یہ سارے مسائل محلوں کی سطح پر ،عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر ہی، حل ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف اخلاص اور عزم وہمت اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ہے۔ اور اگرمغرب ہی کی نقالی یا ان کی خوشنودی یا ان سے فنڈ لینا مقصود ہے تو پھر بات اور ہے ۔لیکن نہ نقالی سے عورت کے مسائل حل ہوں گے اور نہ فنڈز کے حصول سے۔عورت کی مشکلات جوں کی توں رہیں گی بلکہ علم نجوم میں مہارت کے بغیر یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہےکہ ان میں اضافہ ہی ہوگا۔ گوہماری خواہش اور دعاتو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن غلط طریق کار کے غلط نتائج کومحض آرزؤں اور تمناؤں سے نہیں روکاجاسکتا۔
cجہیز کی لعنت کا نہایت سختی سے خاتمہ کیاجائے ،اب تک کی بعض نیم دلانہ کوششوں سے اس رسم بد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں مل سکی۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی حکومت سنجیدگی سےکوشش کرے۔ اس لعنت کی وجہ سے بھی بہت سی عورتوں کو متعدد مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
cعورت کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو بھی عورت کو باپ کی جائیداد سےمحروم کرنے یامحروم رکھنےکی جرأت نہ ہو۔ اگر اس قسم کےکیس عدالتوں میں جائیں تو اس کے لئے بھی عدالتوں کو ایک معین مدت کے اندر فیصلہ کرنے کاپابند کیاجائے۔عدالتی نظام کی متعدد خامیوں کی وجہ سے جوتاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیںاور سالہاسال تک عورتوں کواپناحق لینے کے لئے جن جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،وہ شدید ظلم کی ایک صورت ہے جس سے عورت کونجات دلاناحکومت کی ذمےداری ہے۔
cمیٹرنٹی ہوم(زچےبچے کی سہولتیں) عام کی جائیں اور ہرمحلے میں یہ نہ صرف قائم کیے جائیں بلکہ تربیت یافتہ اسٹاف ان میں متعین ہو اور دیگر سہولتوں کاانتظام ہو۔ یہ عورت کےلئے موت وحیات کی کشمکش کاسنگین مرحلہ ہوتا ہے، اس مرحلے میں عورت کے لئے سہولتیں مہیاکرنا بھی حکومت کی ذمے داری اور اس سے پہلوتہی کرنا عورت پرسخت ظلم ہے جو عورت کیلئے ہمدردی ظاہر کرنے والی حکومت کے لئے ناقابل معافی ہے۔
cمعاشرے میں جو عورتیں مطلقہ یابیوہ ایسی ہوں کہ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، ان کے لئے شیلٹرہوم بنانے کاشوق پوراکرکے ان کی آبرومندانہ کفالت کا انتظام کیا جائے۔
cکاروکاری کاسدباب کیاجائے ۔اس کا ارتکاب بڑے جاگیردار،تمن دار، وڈیرے قسم کے لوگ کرتےہیں۔ اپنی زمینوں ،جاگیروں وغیرہ کوبچانے کے لئے نوجوان بچیوں کی شادیاں قرآن کریم سے کرنے کاڈھونگ رچاتے ہیں۔ بھلا قرآن کریم سے بھی کسی کانکاح ہوسکتا ہے۔ یہ وڈیرے اس ملک میں اس طرح عورت پر ظلم کرتے ہیں ۔کون سا عالم ہے جو اس ظلم کی حمایت کرتا یاحکومت کو اس کے سدباب کے لئے قانون سازی سے روکتا ہے؟
cاس طرح وَنّی کی جاہلانہ اورظالمانہ رسم ہے کہ اپنے ناجائز ظلم کے بدلے میں کم سن بچیوں کی شادیاں بوڑھوں کے ساتھ کرکے اورمعصوم بچیوں پر ظلم کرکے اپنے ظلم کاازالہ کرتے ہیں۔ اس کے خلاف قانون سازی سے کون سا عالم اس ظلم کی حمایت کرتاہے؟
cغیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون بنائیں۔ کوئی عالم غیرت کےنام پر قتل کو جائز قرار نہیں دیتا۔چندروز قبل ہیومن رائٹس آف پاکستان کی رپورـٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں بتلایاگیا ہے کہ2015ء میں 1100 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ جنسی تشدد میں بھی اضافہ ہوا جس میں بچے اور بچیاں اس کاشکار ہوئیں۔
(روزنامہ ’’آواز‘‘ ۲اپریل ۲۰۱۶ء)
اس کے اسباب کابھی خاتمہ فرمائیں جوبالکل واضح ہیں کہ نوجوان نسل ٹی وی کےفحش اور عشقیہ فلمیں اور ڈارمے دیکھ کر نہایت تیزی سے بے راہ روی کاشکارہورہی ہے، اس کے نتیجے میں ہی ایسے واقعات رونماہوتے ہیں کہ بعض لوگ ان کو دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اورغیرت میں آکر اپنی ہی بیٹی ،بہن یابیوی کوقتل کردیتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ اسلامی غیرت ہی کامظہر ہے تاہم نہ اسلام میں، اس قتل غیرت کی اجازت ہے اور نہ کوئی عالم ہی اس کی حمایت کرتا ہے۔
cاسی طرح جنسی تشدد بھی نہایت وحشیانہ حرکت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ بھی ٹی وی پروگرام اورفلمیں وغیرہ ہیں۔
ان کے اسباب کاخاتمہ اور اس قسم کے واقعات کے سد باب کے لئے قانون سازی یا موجودہ قوانین پر عمل داری یہ کس کاکام ہے؟ حکومت کے سوا یہ کام کون کرسکتا ہے؟ حکومت اپنی یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی؟
cعورت کے چہرے پرتیزاب پھینک کر اس کو مردوں کے لئے ناقابل قبول بنانا، نہایت سنگ دلانہ حرکت اور عورت پربڑا ظلم ہے۔ علماءتو کہتے ہیں کہ فوجداری قانون میں اس قسم کے کاموں کی سزائیں موجود ہیں۔ان کونافذ کریں بلکہ اسلام کے قانون قصاص پر عمل کرتے ہوئے ایسے ظالم مردوں کے چہروں کوبھی تیزاب سے جُھلسادیں۔ پھر دیکھیں کہ کوئی مرد اس ظلم کاارتکاب کرتا ہے؟ ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ اس قانون قصاص پر عمل کی برکت سے ان شاء اللہ اس جرم کاسوفی صد سدباب ہوجائے گا۔
cمخلوط تعلیم کاخاتمہ کرکے خواتین کے لئے الگ تعلیمی ادارے (کالجز اوریونیورسٹیاں) قائم کیے جائیں یہ بھی مسلمان عورت کا ایسا حق ہے کہ جس کاپورا کرنا ایک مسلمان مملکت کافرض منصبی ہے۔ اس کے بغیر عورت کو مردوں کی ہوس کاری سے بچانا ناممکن ہے۔
21فروری2016ء کے روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور میں ایک امریکی ادارے کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو بشم ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ کی 27نامور یونیورسٹیوں کے سروے پر مبنی ہے۔ اس میں مخلوط تعلیم کے نتیجے میں طالبات جس کثرت سے جنسی حملوں کا شکار ہوتی ہیں، اس کی تفصیل ہے۔ یہ ان کے لئے نہایت چشم کشارپورٹ ہے جو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کے مطابق مخلوط تعلیم کومسلط کیے ہوئے ہیں ۔یہ رپورٹ الگ منسلک ہے۔
cاسی طرح عورتوں کے لئے نصاب تعلیم بھی مردوں سے الگ مرتب کیاجائے تاکہ مسلمان عورت اپنے مقصد تخلیق اور فطری صلاحیتوں کے مطابق زیادہ بہتر طریقے سے ملک وقوم کی خدمت کرسکیں ۔علاوہ ازیں ان کے لئے چند شعبے بھی مخصوص کیےجاسکتےہیں جن کی وہ تعلیم وتربیت حاصل کریں اور وہاں وہ مردوں سے الگ رہ کر خدمات سرانجام دیں۔ مثلاتعلیم کا شعبہ ہے،طب(ڈاکٹر) کا شعبہ ہے، اسی طرح اور بہت سے شعبے ایسے ہوسکتے ہیں جہاں وہ ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ مفوضہ فرائض انجام دی۔
حرف آخر:
پاکستانی عورت مسلمان ہے، یہاںکامعاشرہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، پاکستانی ریاست کاسرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ ان تمام باتوں کاتقاضا ہےکہ پاکستانی عورت کے بحیثیت مسلمان، جوحقوق ہیں، وہ اسے اس کے مذہب اسلام کی روسے ملنے چاہئیں اور حکومت کابھی فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کی روشنی میں ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس سے انحراف پاکستانی عورت کی بھی حق تلفی بلکہ اس پرظلم ہے اور حکومت بھی اپنے حلف سے انحراف کی مجرم ہوگی۔
وماعلینا الاالبلاغ

مولوی اور معاشرہ

شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔
مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔

قرآن مجید اک نصیحت عدیم المثال

قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے اور اس کے مباحث پر غور کرتے ہوئے ایک بنیادی سوال جس کے حوالے سے قرآن مجید کے طالب علم کا ذہن واضح ہونا چاہیے، یہ ہے کہ قرآن کا اصل موضوع اور قرآن کا اپنے ماننے والے سے اصل تقاضا کیا ہے؟
اس کا جواب ہمیں خود قرآن مجید کی تصریحات سے ملتا ہے کہ یہ کتاب تذکیر ہے۔ قرآن نے اپنے لیے ذکر، تذکرہ اور ذکری کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ تذکیر کا مطلب ہے یاد دہانی کرانا۔ ایسے حقائق جو انسان کے علم میں تو ہیں لیکن ان سے نامانوس نہیں ہےاور کسی وجہ سے ان سے غفلت کا شکار ہو گیا ہے وہ حقائق اسے یاد کرانا، ان کی طرف اس کی توجہ مبذول کرنا اور ان حقائق کی یاد دہانی سے اس کو اپنی زندگی میں ایک خاص طرح کا رویہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا، یہ تذکیر کی اصل روح ہے۔ معروف اور مانوس لیکن بھولی ہوئی باتوں کو یاد کرانا اور ا س یادد ہانی کے ذریعے سے انسان کے فکر کو ، اس کے عمل کو اور اس کے رویے کو ایک خاص رخ پر ڈالنا، یہ تذکیر ہے۔
قرآن مجید اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے ایک کتاب تذکیر ہے۔ اللہ تعالیٰ چند حقائق کی تذکیر انسان کو کروانا چاہتے ہیں تاکہ وہ حقائق انسان کے ذہن میں حاضررہیں اور انسان کا دھیان اور اس کی توجہ ان پر لگی رہے اور ان کی مدد سے وہ زندگی کے ایک ایک قدم پر صحیح راستے پر قائم رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا، اس کی صفات کا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے لیے جو قانون، ضابطے، قاعدے، سنن مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اس دنیاکا نظام چلا رہا ہے، خاص طو ر پر انسانوں کے معاملات وہ جن ضابطوں کے تحت چلاتا ہے، ان کا تعارف انسان کو کروانا، یہ نزول قرآن کی اصل غایت ہے۔
قرآن مجید کے جتنے مضامین ہے، ان کی آپ ذیلی تقسیمات کریں تو وہ بے شمار بن جاتے ہیں او رمختلف اہل علم نے اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے قرآن میں پھیلے ہوئے مضامین ومطالب کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک معروف تقسیم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب الفوز الکبیر میں لکھا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
١۔ تذکیر بآلاء اللہ، یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت وربوبیت کی جو نشانیاں کائنات میں بکھری ہوئی ہیں، ان کی یاد دہانی۔
٢۔ تذکیر بایام اللہ، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے دنیا کی مختلف قوموں کے ساتھ نعمت ونقمت، دونوں پہلووں سے جو معاملہ کیا ہے، ان کی یاد دہانی۔
٣۔ تذکیر بما بعد الموت، یعنی اس بات کی یاد دہانی کہ اس دنیا سے جانے کے بعد جو ایک یوم الجزاء آنے والا ہے، اس دن اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے۔
٤۔ احکام وشرائع، یعنی شریعت کے وہ قوانین جن کی پابندی اس دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو انسانوں سے مطلوب ہے۔
٥۔ علم المخاصمۃ، یعنی قرآن کا مخاطب بننے والے جو گروہ قرآن کے دعاوی اور اس کے پیغام کو تسلیم کرنے اور اس کی دعوت کو قبول کرنے سے گریزاں تھے اور اس پر ان کے ذہن میں کچھ استدلالات اور کچھ شبہات تھے، ان کا جواب دینا اور ان کی تردید کر کے صحیح بات کو واضح کرنا۔
یہ بڑی حد تک ایک جامع تقسیم ہے جس میں قرآن مجید کے کم وبیش سارے نمایاں مطالب اور مضامین آ جاتے ہیں۔ اب ان پانچوں پر اگر آپ غور کریں تو مرکزی نکتہ یہ نکلے گا کہ انسان کو اس بات کی پہچان کرا دی جائے کہ اس کائنات کا خالق ومالک کیسا ہے، اس کی صفات کیا ہیں، اس کی صفات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جو مظاہر وجود میں آتے ہیں، وہ کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے وہ کون کون سے قوانین مقرر کیے ہیں جن کے تحت وہ اپنی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ گویا یہ سب مضامین مختلف پہلووں سے تذکیر ہی کے مقصد کو پورا کرتے ہیں اور مختلف حوالوں سے، مختلف زاویوں سے انسان کے ذہن میں اس بات کے شعور کو راسخ کرتے ہیں کہ وہ اپنے مالک کو پہچانے اور اس کے ذہن میں اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا صحیح تصور قائم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ذہن میں کسی بھی ہستی کے بارے میں جو تصور ہوگا، اسی کے لحاظ سے اس کا اس کے ساتھ تعلق بھی قائم ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات اور اس کے قوانین اور اس کے معاملہ کرنے کے اصولوں اور ضوابط کا جو تصور انسان کے ذہن میں ہوگا، اسی کے لحاظ سے انسان کا تعلق بھی خدا کے ساتھ قائم ہوگا۔ یہ ساری باتیں جس درجے میں انسان کے ذہن میں واضح ہوں گی، اسی کے لحاظ سے خدا کے ساتھ اس کا تعلق بھی ایک خاص رنگ اختیار کر لے گا۔
اللہ نے اس ساری کائنات کے لیے کیا ضابطے بنا رکھے ہیں، وہ تو اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ ہمیں تو ا س نے قرآن میں مخاطب کیا ہے اور صرف اس دائرے کے قوانین اور ضابطے بتائے ہیں جس کا تعلق ہم انسانوں سے ہے۔ سورج چاند اور دوسری مخلوقات کو اس نے کن قوانین کے تحت بنایا ہے، وہ اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ کائنات کے مادی قوانین بھی، جن کو سائنس دریافت کرتی ہے، قرآن کا موضوع نہیں کہ وہ انسان کو یہ بتائے کہ سورج، چاند اور دوسرے مظاہر فطرت کن قوانین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح باقی مخلوقات سے متعلق جو اخلاقی قوانین ہیں، ان کی وضاحت بھی قرآن کا موضوع نہیں۔ مثال کے طور پر ایک انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا خواہش کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے انسان کی جان لے، لیکن آپ جانوروں میں دیکھیں گے کہ بہت سے درندوں کی زندگی ا ور بقا کا دار ومدار ہی اس پر ہے کہ وہ کسی دوسرے جاندار کی، بسا اوقات اپنے ہی کسی ہم جنس جاندار کی جان لیں اور ا س کے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ اب حیوانات کے اور اسی طرح دوسری بے شمار مخلوقات کے معاملات کن اخلاقی قوانین اور ضابطوں پر مبنی ہیں، ان کی وضاحت قرآن کا موضوع نہیں اور نہ اس نے ان کی وضاحت کی ہے۔ قرآن کا موضوع یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا میں اللہ نے ایک خاص مقصد کے تحت بھیجا ہے اور اس کی نقل وحرکت کا اور زندگی کی سرگرمیوں کا ایک محدود دائرہ ہے۔ اللہ نے کائنات کے اربویں کھربویں بلکہ اس سے بھی حقیر ایک چھوٹے سے حصے میں انسان کو بسایا ہے اور اس کو ایک نہایت محدود دائرے میں اختیار دیا ہے۔ انسان کو یہاں بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی آزمایش کی جائے۔ اس آزمایش میں کامیاب ہونے کے لیے انسان کو اپنے خالق ومالک اور اس کے مقرر کردہ قوانین کی پہچان کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے خدا کے ساتھ صحیح طورپر تعلق قائم کر سکے اور اس معرفت صحیحہ کا ظہور اس کے فکر وعمل اور اس کے کردار میں بھی ہو۔ یہ سب باتیں انسان کے علم میں ہونی چاہییں تاکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد خدا کے حضور میں پیش ہو تو اس کی ابدی نعمتوں کا حق دار بن سکے۔
یہ ہے قرآن کی ساری تذکیر اور اس کے تمام تر مطالب ومضامین کا محور۔ دین کے جو تین بنیادی عقیدے ہیں جن پر پورے دین کی بنیاد ہے، وہ بھی یہی ہیں۔ خدا کو ماننا اس کی تمام صفات کے ساتھ اور ان تمام قوانین کے ساتھ جو اس نے اپنے لیے مقرر کیے ہیں، نبوت ورسالت کے اس سلسلے پر ایمان رکھنا جو اللہ نے اپنی صفات اور اپنے قوانین اورضابطوں سے انسانوں کو متعارف کرانے کے لیے دنیا میں جاری کیا اور اس حقیقت پر ایمان رکھنا کہ دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی بھی آنی ہے جس میں انسان اپنے قول وعمل کے لحاظ سے ابدی عذاب یا ابدی نعمتوںکا مستحق قرار پائے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کا ایک اور نہایت اہم پہلو بھی آپ کے سامنے رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ قرآن مجید سے اس کا یہ مطمح نظر بڑے غیر مبہم طریقے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے لوگ اسی چیز کے حصول پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھیں جو اس کے نزول کا اصل مقصد ہے۔ یہ نہ ہو کہ لوگ اپنی اپنی دلچسپیاں لے کر آئیں اور ان میں الجھ کر رہ جائیں۔ قرآن نے بعض پہلووں سے اپنا یہ مطمح نظر واضح کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے اور اپنے انداز سے، اپنے اسلوب سے یہ بات سمجھائی ہے کہ قرآن کو پڑھنے کے لیے آؤ تو کیا ذہن لے کر آؤ اور تمھاری دلچسپی کا مرکزی نکتہ کیا ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ قرآن مجید کا ایک بہت بڑا حصہ واقعات پر مشتمل ہے۔ شاید ایک تہائی یا اس سے زیادہ آپ کو قرآن میں واقعات ہی ملیں گے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اسی لیے اس حصے کو تذکیر بایام اللہ کا ایک مستقل عنوان دے دیا ہے۔ قرآن میں انبیا کے، دنیا کی قوموں کے اور قوموں کی تاریخ کے واقعات ہیں۔ ان واقعات کے ذکر سے قرآن کا مقصود انسان کا دل بہلانا یا اس کی تفریح طبع نہیں۔ گزشتہ زمانے کے واقعات کے بارے میں جستجو اور ان میں دلچسپی محسوس کرنا انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ عام طو رپر انسان جب ایسے واقعات کو سنتے ہیں تو اس کا مقصد جستجو کے جذبے کی تسکین یا محض تفریح طبع ہوتا ہے۔ تاہم قرآن کے، واقعات بیان کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے۔ اس سے اس کا مقصد وہی تذکیر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان واقعات سے انسان روحانی واخلاقی سبق حاصل کرے اور ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کے جن ضابطوں اور قوانین کا ظہور ہوا، ان کی طرف متوجہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی واقعے سے متعلق ایسا لوازمہ جو اس میں کہانی کا مزہ پیدا کرتا ہے اور ایسے پہلو جو اسے تفریح طبع کا سامان بنا سکتے ہیں، قرآن کم وبیش ہر جگہ ایسے عناصر کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے کو محیط سلسلہ واقعات کے بے شمار اجزا کو حذف کر کے اس کے صرف ان اجزا کو بیان کر دیتا ہے جو اس کے مقصد کے لحاظ سے مفید ہیں۔ کئی سالوں پر پھیلے ہوئے سلسلہ واقعات کو قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ اس کا ابتدائی حصہ، کچھ درمیانی حصے اور کچھ اختتامی حصہ معرض بیان میں آ جاتا ہے اور یہ تمام اجزا وہ ہوتے ہیں جو تذکیر کے پہلو سے مفید اور برمحل ہوتے ہیں۔ باقی تمام تفصیلات جن کو اگر قرآن بیان کرنے لگ جائے تو لوگ قصے میں الجھ کر رہ جائیں اور اس سے کہانی کا لطف اٹھانے لگیں، ان سب کو قرآن حذف کر دیتا ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیے:
اس ضمن میں یوسف علیہ السلام کا واقعہ ایک خاص پہلو سے توجہ طلب ہے۔ اس واقعے کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور اگرچہ یہاں بھی قرآن نے واقعے کے وہی حصے منتخب کیے ہیں جن سے کوئی نہ کوئی تذکیری فائدہ حاصل ہوتا ہے، تاہم یہ واقعہ نسبتاً زیادہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے آپ کو محسوس ہوگا کہ یوسف کی کہانی سے متعلق بعض ایسے اہم سوالات سامنے آتے ہیں جن سے قرآن کوئی تعرض نہیں کرتا، جبکہ کہانی کے تسلسل کے اعتبار سے اس میں ایک خلا سا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ انسان اپنے ذہنی قیاسات سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کرتا رہے، لیکن قرآن کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ہی خواب کے ذریعے سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص رحمت اور عنایت ہوگی۔ یہ بھی ان کو معلوم ہے کہ ان کے سوتیلے بھائی ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ پھر جب بھائی ان کو لے جا کر کنویں میں پھینک دیتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب تم یہ سب کچھ اپنے بھائیوں کو بتاؤ گے۔ اس کے بعد یوسف علیہ السلام مصر پہنچ جاتے ہیں۔ قرآن سے یہ واضح ہے کہ یوسف علیہ السلام کو اپنا بچپن، اپنا خاندان اور یہ سارا سلسلہ واقعات اچھی طرح یاد ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ان کے والد کون ہیں، ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے، لیکن مصر میں فروخت ہونے سے لے کر منصب اقتدار پر فائز ہونے تک کے اس سارے عرصے میں وہ کہیں بھی اس بات کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے کہ اپنے والد سے رابطہ کریں۔ ان کے والد ان کی جدائی کے غم میں نڈھال ہیں، رو رو کر بینائی کھو چکے ہیں، ان کی ملاقات کے شوق میں تڑپ رہے ہیں اور کوئی ظاہری امید نہ ہونے کے باوجود پرامید ہیں کہ یوسف زندہ ہے، لیکن ادھر یوسف کے ہاں ایسی کسی تڑپ یا کسی کوشش کا ذکر قرآن میں نہیں ملتا۔ یہ چیز عام انسانی نفسیات کے لحاظ سے بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ معلوم نہیں، یوسف نے اس سلسلے میں کیا کیا ہوگا۔ کچھ کیا بھی ہوگا یا نہیں کیا ہوگا۔ بہرحال یہ ایک سامنے کا سوال ہے جو شاید ہر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہوتا ہوگا کہ جب یوسف کو اپنے والد کے بارے میں معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ وہ ان کی جدائی پر سخت بے چین اور مضطرب ہوں گے تو وہ ان سے رابطہ کر کے انھیں صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ خاص طو رپر بادشاہ کا وزیر بن جانے کے بعد تو کوئی ظاہری رکاوٹ بھی اس میں دکھائی نہیں دیتی، تاہم قرآن اس پہلو سے سرے سے کوئی تعرض نہیں کرتا کہ انھوں نے اس کی کوشش کی یا نہیں کی۔ نہیں کی تو کیوں نہیں کی اور اگر کی تو اس کا کیا بنا اور وہ کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔
اب دیکھیں، قرآن یہاں اپنے انداز سے یہ واضح کر رہا ہے کہ جب وہ یہ واقعہ بیان کر رہا ہے اور بڑی تفصیل سے بیان کر رہا ہے تو واقعے سے متعلق ایک بڑے نمایاں سوال کا جواب دینے سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ قاری کو اس کا جواب ملتا ہے تو ملے، نہیں ملتا تو نہ ملے۔ قرآن کا مقصد کہانی سنانا اور کہانی کا پورا لوازمہ فراہم کرنا نہیں۔ وہ تو حضرت یوسف کے واقعے میں تذکیر کے اور تربیت کے جو پہلو ہیں، بس ان کو سامنے لانا چاہتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ کہ واقعات کے بیان میں قرآن جگہ جگہ اپنے اسلوب سے یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جتنی بات اس نے بیان کی ہے، یقینا اس کی کچھ زائد تفصیلات بھی ہیں جن کو جاننے کی انسان کو جستجو ہو سکتی ہے، لیکن قرآن کو ان سے غرض نہیں۔ قرآن کا مقصد یہ نہیں کہ وہ پورے واقعے کو اس کی جملہ تفصیلات کے ساتھ بیان کرے تاکہ سننے والے کو کسی پہلو سے تشنگی کا احساس نہ ہو۔ وہ قاری کی توجہ کو اپنی نظر میں مقصود معنوی حقائق پر مرکوز رکھنا چاہتا ہے اور اپنے انداز سے قاری کو متنبہ کرتا رہتا ہے کہ واقعات کے بیان سے قرآن کے اصل مقصد کو سمجھے اور اسی کو اپنا مطمح نظر بنائے۔
قرآن کے اصل مقصد کی وضاحت کے ضمن میں، میں نے جو کسی قدر طول بیانی سے کام لیا، شاید وہ آپ کو بے فائدہ دکھائی دیتی ہو۔ اس لیے کہ یہ بات بظاہر ایک سادہ سی اور معلوم ومعروف سی بات لگتی ہے اور ظاہری نظر سے دیکھیں تو علم تفسیر کے طلبہ کے سامنے اس کا ذکر شاید تحصیل حاصل بھی لگتا ہے۔ قرآن مجید نے اپنا یہ تعارف کروایا ہے اور اس کے لفظ لفظ سے اس کا یہ مقصد ٹپکتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن کو پڑھنے والا ہر مسلمان اس سے واقف ہے کہ قرآن اس مقصد کے لیے نازل کیا گیا ہے اور یہ یہ اس کے مطالبات ہیں۔ اس لیے یہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے کہ اس نکتے کو خاص طو رپر موضوع بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ قرآن کا مطالعہ کرنے والے اور خاص طور پر علم تفسیر سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے خاص طو رپر سمجھنے کی بات ہے۔
اصل میں ہوا یہ ہے اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہا ہے کہ اللہ کی کتاب نے اپنا جو اصل موضوع متعین کیا اور اپنے مضامین ومطالب کا جو اصل مقصد بیان کیا، ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد لوگوں کی توجہ اس اصل مقصود سے ہٹ کر کچھ اور باتوں پر مرکوز ہو گئی۔ میں نے توجہ ہٹنے کا لفظ استعمال کیا ہے، لاعلمی یا جہالت کا نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اصل مقصد لوگوں کے دائرئہ معلومات میں نہیں رہتا۔ وہ لوگوں کے علم میں ہوتا ہے، لیکن جس چیز کو مرکز توجہ کہتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ بدل جاتا ہے۔ اس کتاب کو اتارنے سے جو چیز اللہ کو مقصود ہے کہ انسان جب اس کو پڑھیں تو ان کے ذہن کا رخ اس طرف ہو، وہ مرکز توجہ نہیں رہتی اور اس کے ساتھ ملحق، اس کے ارد گرد گھومنے والی کچھ دوسری باتیں، کچھ اضافی معلومات اور کچھ زوائد زیادہ توجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کے لیے ظاہر ہے کہ دلچسپی کی چیزیں بے شمار ہیں۔ یہ چیزیں مادی بھی ہیں اور ذہنی وفکری بھی۔ ایک عام آدمی کی سوچ کا دائرہ محدود ہوتا ہے اور اس کے فکر کی سطح بھی سادہ ہوتی ہے، لیکن جب علم ودانش سے دلچسپی رکھنے والے لوگ کسی چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ انسان کو دیے گئے بہت تھوڑے اور محدود علم کے باوجود، اس دنیا میں علم کے رنگ بے شمار اور اس کے اطراف وجوانب ان گنت ہیں اور علمی وفکری مزاج رکھنے والے افراد قدرتی طو رپر ان میں دلچسپی بھی محسوس کرتے ہیں۔ انسان اپنی بنیادی فطرت کے لحاظ سے علوم وفنون میں اور ان تمام چیزوں میں غیر معمولی کشش محسوس کرتا ہے جنھیں انسان اپنی عقل سے دریافت کر سکتا ہے۔
اب جب اس طرح کے مختلف علوم وفنون کا پس منظر رکھنے والے کلام الٰہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر انسان میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اپنے ذوق پر جس چیز کا غلبہ ہے، وہ کتاب الٰہی کو بھی اسی رنگ میں دیکھے۔ اس کی توجہ کتاب الٰہی میں ان پہلووں پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جو اس کے اپنے ذہنی وفکری پس منظر سے ہم آہنگ ہوتی ہیں اور وہ انھیں زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے غور وفکر اور اس کی دلچسپی کے دائرے سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں، انھیں زیادہ اجاگر کیا جائے۔ چنانچہ آپ دیکھیں، صحابہ وتابعین اور ابتدائی ایک دو صدیوں کے بعد رفتہ رفتہ قرآن مجید کی تفسیر میں کئی انداز سامنے آ گئے۔
یعنی جب مختلف علمی وفکری پس منظر رکھنے والے قرآن کی طرف متوجہ ہوئے تو انھوں نے اپنی اپنی دلچسپی کے لحاظ سے قرآن کو ایک خاص رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ جو کام ہوا، اس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس طرح قرآن کی علمی خدمت اور اس کی شرح ووضاحت کے اتنے متنوع اور گوناگوں پہلو سامنے آ گئے، تاہم اس کے ساتھ اس کا ایک سلبی پہلو بھی ہے۔ آپ جیسے جیسے ابتدائی دور کا تفسیری ذخیرہ دیکھتے ہوئے نیچے آتے جائیں گے، آپ کو ہر دور میں تفسیر کے مباحث میں مزید تنوع اور وسعت پیدا ہوتی نظر آئے گی۔ شروع کے دور کی تفسیریں دیکھیں تو صحابہ وتابعین کے ہاں قرآن کی کسی آیت کی تشریح میں آپ کو بہت سادہ انداز نظر آئے گا۔ کوئی لفظ مشکل ہے تو وہ اس کی وضاحت کر دیں گے۔ آیت کے مفہوم اور عملی مصداق کو واضح کرنے کے لیے کسی واقعے کا حوالہ دے دیں گے۔ اسی کو عام طو رپر شان نزول کہہ دیتے ہیں۔ کسی آیت کے معنی ومفہوم کے حوالے سے کوئی اشکال کسی کے ذہن میں پیدا ہوا ہے تو اس کو وہ حل کر دیں گے۔ یہ ایک سادہ سا انداز ہے۔ لیکن جیسے جیسے آپ نیچے آتے جائیں گے، یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔ آپ تفسیر کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو بے شمار علوم کی بحثیں مل جائیں گی۔ شروع میں لوگ اپنے اپنے مخصوص دائرے میں قرآن کے متن سے نکات ومعارف استنباط کرتے تھے۔ نحویوں نے اپنے انداز میں فوائد جمع کیے اور فقہا نے اپنے انداز میں۔ اس کے بعد جو لوگ آئے، انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ ان سب مباحث کو یکجا کر دیا جائے۔ اس طرح گوناگوں اور رنگا رنگ علوم وفنون کے مباحث تفسیر کے عنوان سے جمع کیے جانے لگے۔
آپ متاخرین میں سے مثال کے طو رپر پانچویں صدی کے امام رازی کی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں۔ اس کے بعد پچھلے دور میں روح المعانی دیکھ لیں۔ آپ کو دنیا جہان کے علوم سے متعلق بحثیں ملیں گی۔ ایک آیت پر غور کرتے ہوئے اہل نحو نے کیا کیا بحثیں اٹھائیں، وہ سب آپ کو مل جائیں گی۔ فقہا نے اس کے تحت کیا کیا مسائل چھیڑے، وہ بھی آپ کو دستیاب ہوں گے۔ اہل تصوف نے اس سے کیا کیا نکات مستنبط کیے، وہ بھی آپ کی ضیافت طبع کے لیے مہیا ہوں گے۔ اب اس طرز تفسیر کا سلبی پہلو یہ ہے کہ قرآن کا مختصر سا متن علوم وفنون کے اتنے بڑے انبار کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے۔ انسانی ذہن کی یہ محدودیت مسلمہ ہے کہ آپ اس کے سامنے بیک وقت جتنی زیادہ چیزیں رکھ دیں گے، اس کی توجہ اتنی ہی تقسیم ہوتی چلی جائے گی، جبکہ توجہ طلب چیزیں جتنی کم سے کم ہوں گی، اتنا ہی انسانی ذہن ان پر اپنی توجہ کو بہتر انداز میں مرکوز کر سکے گا۔ انسان بیک وقت اپنی مکمل توجہ ایک آدھ سے زیادہ چیزوں پر مرکوز نہیں کر سکتا۔ ایک وقت میں آپ کی توجہ جس چیز پر جتنی زیادہ مرکوز ہوگی، اتنی ہی وہ آپ کے سامنے واضح ہوگی، جبکہ باقی چیزیں درجہ بدرجہ توجہ کے دائرے میں تو ہوں گی، لیکن اس طرح سے آپ کے ذہن کے سامنے واضح نہیں ہوں گی۔ چنانچہ متنوع علوم وفنون سے پیدا ہونے والی مختلف بحثوں کو تفسیر کے دائرے میں لے آنے کا بڑا نقصان یہ ہو اہے کہ قرآن کا اصل موضوع اور اس کا اصل مقصد یعنی تذکیر بالکل دب جاتا ہے۔ اب ایک طالب علم جو مختلف علوم وفنون سے واقف ہے اور ان میں دلچسپی رکھتا ہے، وہ جب قرآن کی طرف آتا ہے تو اس کے اصل پیغام اور اس کے اصل فائدے کی طرف جو قرآن چاہتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو حاصل ہو، اس کا دھیان کم جاتا ہے جبکہ زوائد اور ضمنی بحثوں اور نکات کی طرف اس کی توجہ زیادہ مبذول ہو جاتی ہے۔ وہ یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی محسوس کرتا ہے کہ یہاں علم نحو کا نکتہ کیا ہے، آیت کی شان نزول کیا ہے، علم کلام کا کون سا مسئلہ اس آیت سے متعلق ہے، قرآن نے جو بات اور جو واقعہ اجمال میں بیان کیا ہے، اس کی تفصیلات کیا ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ ایک پہلو ہے جس پر قرآن کے طلبہ کو متنبہ رہنا چاہیے اور خاص طو رپر میرے اور آپ جیسے طالب علموں کے لیے یہ بات خاص طو رپر توجہ کی محتاج ہے۔
ہماری علمی روایت میں جب مختلف علوم وفنون کا تفسیر کے ساتھ امتزاج ہوا اور تفسیر کے دائرے میں یہ سب چیزیں آتی چلی گئیں اور تفسیری مواد کا حجم بڑھتا چلا گیا، تفسیر کے نام پر ہر طرح کے علوم وفنون جمع کیے جانے لگے تو لازمی طور پر اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ قرآن کے طلبہ کی اور تفسیر کے عنوان سے قرآن پر غور کرنے والے لوگوں کی توجہات ان زوائد کی طرف زیادہ ہوتی گئیں اور اکابر اہل علم کو اس صورت حال پر بے اطمینانی کا اظہار کرنا پڑا۔
امام شاطبی آٹھویں صدی ہجری کے ایک بڑ ے نامور مالکی عالم اور فقیہ ہیں۔ الموافقات فی اصول الشریعہ کے نام سے ان کی کتاب اصول فقہ اور فلسفہ دین میں ان چند اعلیٰ درجے کی کتابوں میں شمار ہوتی ہے جو اس موضوع پر علماے امت نے لکھیں۔ اس میں بے شمار مباحث ہیں۔ اس کی قسم ثالث کتاب المقاصد کے عنوان سے ہے۔ اس میں انھوں نے ایک مستقل فصل قائم کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن سے فائدہ حاصل کرنے اور اس کے پیغام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک خاص اصول ہے جسے صحابہ ملحوظ رکھتے تھے۔ وہ یہ کہ جب آپ کلام اللہ کو پڑھیں تو آپ کی توجہ اس کے مقصود اعظم کی طرف ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کلام بہت سے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک آیت میں مثال کے طو رپر دس پندرہ الفاظ ہوں گے۔ ہر لفظ کا اپنا ایک معنی ہوگا۔ پھر لفظوں سے جب تراکیب بنتی ہیں تو ان کے ساتھ کچھ مسائل وابستہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کلام کے اجزا میں اور اس کے ایک ایک لفظ میں الجھے رہیں گے تو پورے کلام کا جو اصل نکتہ ہے جس کا متکلم ابلاغ کرنا چاہتا ہے، اس سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی۔ اگر آپ کو اجزاے کلام میں سے کسی جز کا انفرادی فہم نہ حاصل ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پورے کلام کا حاصل اگر آپ تک منتقل ہو گیا ہے تو کلام کا اصل فائدہ آپ کو حاصل ہو گیا ہے۔ شاطبی کا مقصود اس بات سے اجزاے کلام سے کماحقہ واقفیت کی اہمیت کو کم کرنا نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک ایک لفظ پر لغت اور نحو کے اعتبار سے اگر آپ کی گرفت مضبوط ہوگی تو آپ کے فہم کا درجہ اور سطح بہت بلند ہو جائے گی، تاہم قرآن کے اصل مقصد یعنی تذکیر کے پہلو سے شاطبی کا بیان کردہ یہ نکتہ بہت اہم اور مفید ہے کہ آپ کی نظر کلام کے مجموعی مفہوم پر رہنی چاہیے۔ اگر مجموعی طو رپر کلام کا مقصود آپ پر واضح ہو گیا ہے تو اجزا میں سے کسی ایک آدھ جز کا معنی معلوم نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس بات کو واضح کرنے کے لیے امام شاطبی نےسیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ایک مشہور واقعے کا حوالہ دیا ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر سورئہ عبس کی آیت وَفَاکِهةً وَأَبّا (عبس: ٣١) پڑھی اور لوگوں سے پوچھا کہ لفظ اب کا کیا مطلب ہے؟ شاید ا س کا لغوی معنی انھیں معلوم نہیں تھا۔ پھر خود ہی فرمایا کہ ما کلفنا هذا۔ اگر نہیں پتہ تو ہمیں اس مشقت میں نہیں ڈالا گیا کہ ایک ایک لفظ کی پوری لغوی تحقیق ہمارے علم میں ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ سوال کسی دوسرے شخص نے ان سے کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ نهینا التکلف والتعمق ایک لفظ کا معنی اگر ہمیں معلوم نہیں تو ہمیں خواہ مخواہ تکلف کرنے اور تعمق میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے۔
اب یہاں کلام کا جو اصل پیغام ہے، وہ بالکل واضح ہے۔وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورئہ عبس کے اس حصے میں اپنی بہت سے نعمتوں کو گنوا کر انسان کو یاد دلا رہے ہیں کہ دیکھو، اللہ نے تم پر کیا کیا انعامات اور احسانات کیے ہیں اور ان کے اعتراف کے طو رپر تمھارا کیا فرض بنتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی حقیقت پر نظر کرے کہ اسے کس چیز سے اور کیسے پیدا کیا گیا اور پھر یہ سوچے کہ اس جیسی حقیر اور بے حیثیت مخلوق کے لیے اللہ نے کیا کیا نعمتیں مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے مثال کے طور پر پانچ سات نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ اب ان میں سے ایک لفظ کا معنی اگر کسی شخص کو معلوم نہیں تو اسے ایک علمی نقصان تو شمار کیا جا سکتا ہے، لیکن کلام کا مجموعی مفہوم اور اصل مقصود بالکل واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں اللہ کی نعمتوں کے اعتراف اور قدر دانی اور اس کے مقابلے میں اپنی ناشکری کا احساس بیدار ہو۔ اگر ان آیات کو پڑھ کر یہ احساس انسان کے دل میں پیدا ہو گیا ہے تو قرآن کا مقصود حاصل ہو گیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے اصل توجہ اس بات کی طرف ہونی چاہیے کہ قرآن کی آیات کو پڑھ کر دل میں خدا کا قرب حاصل کرنے کی، خدا کی عبادت کی اور خدا کی رضا کے حصول کی تڑپ پیدا ہو۔ اس بنیادی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ جتنے چاہیں، ز وائد بھی حاصل کریں۔ آپ قرآن سے بلاغت کے نکتے بھی مستنبط کریں، نحو کے اسالیب پر بھی غور کریں، احکام وشرائع اور لطیف نکات بھی اخذ کریں، یہ سب کریں، لیکن اصل غرض کی قیمت پر نہیں۔ قرآن سے حاصل کرنے کی اصل چیز یہی تذکیر ہے۔ اگر یہ مجھے اور آپ کوحاصل نہیں ہو رہی تو باقی سب چیزیں درحقیقت ہماری توجہ کو بٹانے اور قرآن کے مقصد سے نظر ہٹانے کا کام کر رہی ہیں۔ کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ اس طرح کی باقی سب چیزوں سے کچھ عرصے کے لیے ایلا کر لیں۔ اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنانے کی کوشش کریں کہ جو غذا آپ کو قرآن دینا چاہتا ہے، آپ کی طبیعت اس سے مانوس ہو جائے۔ جب یہ ہوجائے اور قرآن سے تذکیری غذا حاصل کرنے کا ذوق پختہ ہو جائے تو پھر باقی چیزیں بھی ان شاء اللہ قرآن کے طالب علم کے لیے مفید ہوں گی، لیکن اس کے بغیر یہ جو تفسیری نوعیت کی بحثیں ہیں، یہ آپ کی توجہ کو ہٹاتی رہیں گی۔ آپ کو تفسیری معلومات، نکات اور معارف تو بہت حاصل ہو جائیں گے، لیکن قرآن سے جو روحانی فائدہ آپ کو ملنا چاہیے، وہ ممکن ہے نہ ملے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس ضمن میں اس حد تک اہتمام فرمایا کہ عام دعوت وتبلیغ کے لیے او رمسلمانوں کی عمومی تعلیم کے لیے نصاب صرف قرآن کو قرار دیا اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کو اس طرح مقصوداً واہتماماً تبلیغ اور تعلیم کا موضوع نہیں بننے دیا۔ چنانچہ ایک عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے علاوہ خود اپنے ارشادات واقوال بھی لکھنے کی اجازت صحابہ کو نہیں دی۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو، بلکہ ایک روایت کے مطابق لوگوں نے جو کچھ لکھا ہوا تھا، اس کے متعلق بھی فرمایا کہ اسے مٹا دو۔ مقصد یہ تھا کہ قرآن ہی کو لکھا جائے، اسی کو یاد کیا جائے، اسی کو لوگوں تک پہنچایا جائے، اسی کو پڑھا اور اسی کو پڑھایا جائے۔ اس میں یہ حکمت بھی یقینا ملحوظ تھی کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وفرمودات قرآن کے متن میں شامل نہ ہو جائیں، لیکن اصل مقصد یہ تھا کہ پڑھنے پڑھانے اور تعلیم وتبلیغ کا موضوع قرآن کے متن کے علاوہ اور کوئی چیز نہ بننے پائے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا تعلق زندگی بھر کا تعلق ہے۔ اس تعلق کے قائم ہونے ، اس کے نشوو نما پانے اور مضبوط سے مضبوط تر ہونے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ کوئی مرحلہ ایسا نہیں آتا جس میں انسان یہ کہہ سکے کہ میں نے قرآن سے جو سیکھنا تھا، سیکھ لیا ہے اور اب میرے لیے اس کو پڑھنا محض تکرار ہے۔ قرآن کو روزانہ پڑھنا اور اس کے کسی نہ کسی حصے پر باقاعدہ غور کرنا، دین کے ایک طالب علم کو یہ چیز اپنے معمولات کا حصہ بنا لینی چاہیے۔ تلاوت تو ہر مسلمان کو کرنی چاہیے، وہ دینی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ دین کے ایک طالب علم کو تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن کے کسی ٹکڑے پر روزانہ غور کرنے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ اس غور وفکر کے دوران میں جو سوالات سامنے آئیں، ان کو باقاعدہ طالب علمانہ طریقے پر نوٹ کریں۔ جو خیالات پیدا ہوتے ہیں، ان کو نوٹ کریں۔ کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی، کوئی نکتہ واضح نہیں ہوا تو اس کے لیے تفسیروں کی مراجعت کریں۔ قرآن کے علما اور اس پر غور وفکر کرنے والے محققین سے استفادہ کریں، لیکن اس ساری تگ ودو میں اگر دلچسپی کا محور زوائد بن جائیں تو قرآن کا اصل پیغام، جو وہ چاہتا ہے کہ اس کے پڑھنے والے تک پہنچے اور وہ روحانی اثر جو قرآن چاہتا ہے کہ اس کے قاری کے دل پر پڑے، خدشہ ہے کہ انسان اس سے محروم رہ جائے گا۔ اس لیے کوشش کر کے، تربیت کر کے اپنے اندر اس ذوق کی نشوونما کریں۔ اس کے لیے خاصی ریاضت کی ضرورت ہوگی۔جب تک آپ اپنی تربیت نہیں کریں گے اور ریاضت کر کے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بنائیں گے، قرآن سے کماحقہ فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ قرآن سے حاصل ہونے والا اصل فائدہ عقلی اور فکری نہیں، بلکہ جذباتی، تاثراتی اور روحانی ہے۔ قرآن آپ کو اللہ کے قریب کرتا ہے، اللہ کی پہچان کراتا ہے اور اللہ کے ساتھ تعلق استوار کرنے میں آپ کی مدد کرتا ہے۔ مجھے اور آپ کو اس بات کے لیے کافی ریاضت کرنا ہوگی کہ زوائد سے صرف نظر کرتے ہوئے اصل مقصود پر توجہ دیں اور قرآن کی آیات سے وہ روحانی غذا حاصل کریں جو قرآن چاہتا ہے کہ ہمیں حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کا بہتر سے بہتر فہم حاصل کرنے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔

اللهم اجعل القرآن ربیع قلوبنا ونور صدورنا وجلاء احزاننا وذهاب همومنا۔ آمین

علم اور اس پر عمل کی ترغیب

برادران اسلام! اسلام دین علم ہے ۔ وہ پہلی بات جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیتے ہوئے فرمایا :

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ [العلق:1 – 5]

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔‘‘
امام بخاری نے فرمایا کہ:’’العلم قبل القول والعمل‘‘
’’ قول وعمل سے پہلے علم ہے۔‘‘
کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ [محمد: 19]

’’سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
علم اور اصحاب علم کی فضیلت:
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو طلب علم کی ترغیب دی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ انسان علم کے بغیر اللہ کی کما حقہ عبادت کر ہی نہیں سکتا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [فاطر: 28]

’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
اور فرمایا:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّ رُ أُولُو الْأَلْبَابِ [الزمر: 9]

’’آپ کہہ دیجئے، کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں، فرمایا:

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا [طه: 114]

اور آپ کہیے کہ میرے رب مجھے مزید علم عطا کر ۔
اور فرمایا:

يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ [المجادلة: 11]

’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دےگا۔‘‘
حضرت کثیر بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں دمشق کی مسجد میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ اتنے میں ایک شخص نے ان کے پاس آکر عرض کیا اے ابو درداء ! میں آپ کے پاس مدینہ سے آیا ہوں ۔ میں کسی اور ضرورت کے تحت نہیں۔ بلکہ اس حدیث کے لیے آیا ہوں، جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو طلب علم کے لیے کسی راستہ پر چلے گا تو اللہ اس کی وجہ سے جنت کی راہ پر اسے چلائے گا۔ اور فرشتے طالب علم کی رضا وخوشنودی کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں، اور عالم کےلیے زمین و آسمان کی ساری مخلو قات استغفار کرتی ہیں۔ اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ اور عابد پر عالم کی وہی فضیلت ہے جو چودہویں رات کے چاند کی سارے ستاروں پر ہے۔ اور علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیاء دینارودرہم کے وارث کسی کو نہیں بناتے، وہ علم کے وارث بنا تے ہیں ۔ جس نے علم کو پا لیا ، اس نے پورا حصہ پالیا ۔ (أبوداود)
اس حدیث کے اندر علم اور اصحاب علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے کہ علم جنت کی راہوں میں سے ایک راستہ ہے، فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں ۔ اور اس کی مغفرت کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوقات، حتی کہ سمندر کے اندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔
اے اللہ کے بندو!مذکورہ فضیلت سے بھی بڑھ کر کوئی اور فضیلت ہو سکتی ہے ؟
اے اللہ کے بندو!دین کی سمجھ ملنی، بندے کے ساتھ اللہ کے ارادہ ٔ خیر کی علامت ہے ۔ چنانچہ سیدنامعاویہ t کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

“من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین، واللہ المعطی وأنا القاسم، ولا تزال ھذہ الأمۃ ظاھرین علی من خالفھم، حتی یأتی أمر اللہ وھم ظاھرین” (متفق علیہ)

’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ اللہ دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت ہمیشہ اپنے مخالفین پر بالآخر غالب ہی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور وہ غالب ہی رہیں گے۔‘‘
علم کی فضیلت ومقام ہی کی وجہ سے، علم میں رشک کرنا جائز ہے۔ چنانچہ سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رشک دو ہی باتوں میں موزوں ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال عطا کیا تو وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے اوردوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے علم وحکمت سے نوازا تو وہ اس کی روشنی میں فصیلہ کرتا اور اسے سکھا تا ہے۔‘‘(بخاری)
فضیلت علم کے سلسلے میں علماء کے اقوال :
مطرف بن شخیر نے فرمایا کہ:

“فضل العلم خیر من فضل العمل وخیر دینکم الورع”

’’ فضیلت علم فضلیت عمل سے بہتر ہے اور تمہارابہتر دین ورع ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

“طلب العلم أفضل من صلوۃ النافلۃ”

’’ طلب علم نفل نماز سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
لیکن یہ اس کے بارے میں ہے، جو علم سے استفادہ کرتا ہے۔
اور سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ میں تھے تو ان کے پاس گورنر مکہ نافع بن حارث خزاعی آئے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ نے مکہ میں کسی کو اپنا جانشین بنایا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: میں نے اپنے غلام کو جانشین بنا دیا ہے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غلام کو جانشین بنایا؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ حافظ قرآن اور عالم فرائض ہے۔ اس پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہے:

إن اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین

’’اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ لوگوں کے مقام بلند کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس کتاب پر عمل نہ کرنے کے سبب ذلیل کردیتا ہے۔‘‘

علم نافع کے اصول:

علم کے کچھ آداب واصول ہیں، جو اسے اللہ کی عبادت بنا دیتے ہیں۔ جیسے اخلاص اور سبھی عبادتوں میں یہ مطلوب ومقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ [البينة: 5]

’’اور ان کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے کریں۔‘‘
اور حدیث میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی (دین کا)علم دنیوی غرض کے لیے حاصل کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو نہیں پائےگا۔‘‘(أبوداود)
اور صحیح مسلم میں ہے۔
“القرآن حجۃ لک أو علیک”
’’قرآن تمہارے حق میں ہوگا، یا پھر تمہارے خلاف جائےگا۔‘‘
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: جس کی نیت صحیح ہو، اس کے لیے علم جیسی کوئی چیز نہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیسے؟ فرمایا کہ وہ اپنے اور دوسرے سے جہالت دور کرنے کی نیت سےاسے حاصل کرتا ہے۔
ابن جماعہ کا بیان ہے کہ: علم اور علماء کی جو فضیلت آئی ہے، وہ نیک یعنی عامل علماء کے بارے میں ہے، جن کا مقصد اللہ کریم کی رضا اور جنت میں اس کی قربت ہوتی ہے، نہ کہ وہ جس کی نیت بری ہو یا دنیوی غرض، جیسے جاہ ومنصب یا وہ مال ودولت یا پیروکاروں اور شاگردوں کی کثرت کے لیے اسے طلب کرتا ہو۔ (تذکرۃ السامع: 38)
اسی طرح طالب کی ذمہ داری ہے کہ اہم اور اس سے اہم کا خیال کرتے ہوئے قرآن کریم کے حفظ وتجوید اور قراءت سے آغاز کرے، پھر سنت کی تعلیم حاصل کرے اورآگے بھی اسی طرح۔ اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ جو سیکھا ہے، اس پر حسب استطاعت عمل بھی کرے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

“لیس العلم ما حفظ، العلم ما نفع” ( تذکرۃ السامع )

’’علم وہ نہیں جو محفوظ رہے، بلکہ علم وہ ہے جو نفع پہنچائے ۔‘‘
چنانچہ صحیح علم وہ ہے، جو صاحب علم کے اندر اللہ کے لیے خشیت وسکینت، وقار اور خاکساری وتواضع پیدا کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں کہ:

“تعلموا العلم وتعلموا لہ السکینۃ والوقار” (تذکرۃ السامع: 44)

’’علم حاصل کرو اور اس کے لیے سکینت ووقار بھی سیکھو ۔‘‘

سلف کی علمی زندگی کی چند مثالیں:

برادران اسلام!طلب علم کے سلسلے میں ہمارے سلف صالحین نے بڑی مشقتیں اور پریشانیاں برداشت کیں ہیں، دور دراز کے اسفار کیے ہیں۔
علی بن احمد خوارزمی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے عبد الرحمن بن ابو حاتم سے بیان کرتے ہوئے سنا: جسمانی راحت کے ساتھ علم نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ سات مہینوں تک ہم مصر میں رہے، وہاں ہم نے شوربہ نہیں کھایا، اس لیے کہ ہم کسی شیخ کی مجلس میں صبح صبح ہی جاتے، کسی کی مجلس میں دوپہر کو اور کسی کی مجلس میں عصر کے وقت، پھر رات میں لکھنے اور مذاکرہ کرنے میں رہتے اور کچھ کرنے کا ہمیں موقع ہی نہیں ملتا۔ میرا ایک خراسانی دوست تھا میں اس کی تحریر سنتا اور وہ میری تحریر سنتا ۔ میں جو لکھتا وہ نہیں لکھتا۔ اور وہ جو لکھتا میں نہیں لکھتا۔ ایک دن صبح سویرے ہم لوگ کسی شیخ کی مجلس میں گئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ واپس ہولیے، ہم لوگوں نے راستے میں مصر کی وہ مچھلی دیکھی، جس کے پیٹ کو چاک کرنے کے بعد چھوٹی مچھلی نکلتی ہے۔ ہم کو بڑا تعجب ہوا (اسے خرید کر) ہم لوگ اپنی جگہ پر آئے تو دوسرے شیخ کی مجلس کا وقت ہوگيا، اس لیے مچھلی نہیں بنائی جاسکی اور برابر مشائخ کی مجلسوں میں جاتے آتے رہے یہاں تک کہ اس پر تین دن بیت گئے، جو خراب ہونے کے قریب تھی، اس لیے ہم لوگ اسے کچا ہی کھا گئے۔ کہا گیا کہ کسی کو دے دیتے، وہ پکا دیتا؟ جواب دیا کہ ہمارے پاس اس کے لیے بھی کہاں فرصت تھی ؟
(سیرأعلام النبلاء: 13/266)
اور یہ ہیں شعبہ بن حجاج، جو اپنے شہر بصرہ سے مکہ گئے، پھر مدینہ اور پھر اپنے وطن لوٹے، صرف ایک حدیث کے تعلق سے مطمئن ہونے کے لیے، جس کو انہوں نے سنا تھا، مگر ان کا دل مطمئن نہیں تھا ۔
یہ علماءئے دین کے چند واقعات ہیں، جن سے کوئی نصیحت لینے والا ہے؟ ہم لوگ شرعی علم کے طلبہ ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ سے دھوکہ نہ کھائیں اور ہم وقت سے پہلے ہی جا کر مجلس علم میں بیٹھیں، کیوں کہ شروع کی علمی گفتگو چھوٹے گی توخیر کثیر چھوٹ جائےگا۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اور علم تواضع سکھاتا ہے۔ اس لیے خود کو ہر وقت طالب علم سمجھنے کی کوشش کرو اور یہ کہ کسی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی ہچکاہٹ ہرگز محسوس نہ کرو، خواہ وہ علم میں تم سے کم تر ہو یا تمہارے برابر ہو۔
سیدناسعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آدمی جب تک سیکھتا رہتا ہے عالم ہوتا ہے اور جب سیکھنا چھوڑ دیتا ہے اور خود کو بے نیاز اور اپنے سیکھے ہوئے پر اکتفا کرلیتا ہے تو وہ سب سے بڑا جاہل ہو جاتا ہے۔ (تذکرۃ السامع: 60)
سلف کو جس چیز کا علم نہیں ہوتا اسے اپنے شاگردوں سے سیکھنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد حمیدی کا بیان ہے کہ، میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ رہا، میں ان سے مسائل سیکھتا تھا اور وہ مجھ سے حدیث سیکھتے تھے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : امام شافعی رحمہ اللہ نے ہم سے کہا کہ تم لوگ مجھ سے زیادہ حدیث جاننے والے ہو، جب کوئی حدیث تمہارے نزدیک صحیح ثابت ہو جائے تو ہم سے بھی بیان کردو، تاکہ میں بھی اسے حاصل کروں۔
اے لوگو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور دین کی سمجھ حاصل کرو، تاکہ تم بصیرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو، کیوں کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے کیوں کہ دین کی سمجھ خیر اور عمل صالح کی بنیاد ہے، اسی سے بندہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کیسے کرے؟کیسے وضو بنائے، کیسے غسل کرے، کیسے نماز پڑھے، کیسے روزہ رکھے، زکوۃ اور حج کیسے ادا کرے، عمرہ کیسے کرے، اسی سے واجبات اور سنن میں تمیز وفرق کرتا ہے، جہالت اور فتنوں کے گھٹاٹوپ بادل جب چھاجاتے ہیں تو اسی سے بندہ سمجھتا ہے کہ علم کی روشنی میں وہ اپنے رب تک کیسے جائے، اسی سے جانتا ہے کہ معاملات کیسے ہوں، کیسے نکاح کیا جائے، کیسے خرید وفروخت کی جائے، گناہوں کا کفارہ کیسے ادا ہو؟ اسی سے بندہ اپنی قوم کے لیے مشعل راہ بنتا ہے اور اسے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اسی سے بندہ اپنی زندگی میں اور بعد ازمرگ بھی روشنی حاصل کرتا۔ چنانچہ علم قلب کا بھی نور ہے اور قبر کا بھی۔ حشر کا بھی اور پل صراط کا بھی ۔ عالم آدمی مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور جاہل اپنی زندگی میں بھی مردہ ہوتا ہے ۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ [الزمر: 9]

’’آپ کہہ دیجئے، کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
بندہ جب مر جاتا ہے تو سوائے تین باتوں کے اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے :

صدقہ جاریہ

علم، جس سے اس کی وفات کے بعد بھی فائدہ اٹھایا جاتا ۔
نیک اولاد ، جو اس کے حق میں دعا کرے۔
فرشتے اپنے پر طالب علم کے لیے پھیلا دیتے ہیں۔ عالم کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوقات، حتی کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہےجیسے چودہویں رات کے چاند کی تمام ستا روں پر۔ اور علماء نبیوں کے وارث ہیں، انبیاء دینار ودرہم کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ جس نے وہ پالیا، اس نے بھرپور حصہ پایا۔
آخر میں اپنے دین اور امت کے لیے غیرت رکھنے والے تمام ذمہ دار حضرات سے میری یہ اپیل ہے کہ وہ اپنے علاقے کے تعلیمی منہج کی اصلاح کا کام کریں۔ خصوصاً جس کا تعلق دین سے ہے کیونکہ اس سے علم میں صرف کمزور بچے تیار ہوں گے۔ چنانچہ ان کے اندر صحیح شرعی علم نہیں ہوگا بلکہ وہ علم ہوگا حس سے زیادہ سے زیادہ نقصان ہو گا۔ اور اس میں سب سے خطرناک وہ اشعری عقیدہ ہے جو کتاب وسنت کے ساتھ طریقہ سلف کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے ہر غیور اور ذمہ دارآدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقت گذرنے سے پہلے ہی اس کی اصلاح کا کام کرلیں ۔
اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو اور اپنے دینی امور کو اسی طرح سیکھو، جیسے تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اور جان لوکہ عبادت اسی وقت درست ہوگی جب اخلاص کے ساتھ صحیح علم یعنی کتاب وسنت کی روشی میں کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم صحیح اور عمل صالح کی دولت سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

ایمان ونفاق کامحل اظہار

اللہ تعالی کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت کا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ بندے گناہ درگناہ کرتے رہیں وہ تب بھی انہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالی چاہے تو بندوں کے گناہ پر فورا سزا دے دے مگر اسکا ڈھیل دینا بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتاہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ ۭ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۭ بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ يَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِهٖ مَوْىِٕلًا( الکہف 58 )
’’ تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انھیں جلدی عذاب کردے، بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے‘‘
 یعنی اللہ تعالی عذاب دے نے میں جلدی نہیں کرتابلکہ اپنی رحمت کے معاملے کو جاری رکھتے ہوئے ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَهْرِهَا مِنْ دَاۗبَّةٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِعِبَادِهٖ بَصِيْرًا
 ’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب سخت گیری فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن اللہ تعالیٰ ان کو میعاد معین تک مہلت دے رہا ہے سو جب ان کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا‘‘( فاطر45 )
 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس عرش پر ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ بات بھی لکھی:
ان رحمتی سبقت غضبی(صحیح البخاری:7422)
’’بے شک میری رحمت میرے غصے پر سبقت لے گئی۔‘‘ یعنی اللہ کی رحمت اس کے غصے اور عذاب پر غالب ہے۔ اسی بات کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ( الرعد 11 )
’’ بے شک اللہ تعالی نہیں بدلتا اس (نعمت) کو جوکسی قوم کے پاس ہے یہاں تک وہ خود بدل لیں اس کو جو ان کے دلوں میں ہے‘‘۔
 یعنی ان کے دلوں میں جو ایمان اور فطرت کی نعمت ہے جب تک وہ اسے نہیں بدلتے ‘ اللہ تعالی انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔ یہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے ساتھ سب سے پہلا جو معاملہ ہے وہ رحمت کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی اپنے بندوں پر اتنا رحمان و رحیم ہے تو پھر اس کا عذاب کیوں آتا ہے؟رحمت کے باجود ہم کچھ لو گوں کو عذاب میں مبتلا دیکھتے ہیں؟ اللہ کی پکڑ کب آتی ہے ؟
ارشادباری تعالی ہے:
فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِيْنَ (الرخرف 55 )
’’ پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا‘‘
غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کو غصہ کب آتا ہے؟ رحمت کر نے کے بجائے ‘ وہ غصب سے دو چار کیوں کرتا ہے؟قرآن و حدیث کے مطالعہ کے بعد چند ایسی صورتیں سامنے آتی ہیںجن کی وجہ سے اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔ ذیل میں ہم چند صورتیں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔
 1شرک:
اللہ تعالی کے غصہ اور اس کی پکڑ کا ایک بنیادی سبب ’’شرک ‘‘ ہے۔جب بندہ اللہ کے ساتھ مخلوق میں سے کسی کو شریک ٹہراتا ہے تو اللہ کو اس پر بہت غصہ اور غیرت آتی ہے۔ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھوں تو میں اپنی تلوار کو ادھر ادھر موڑے بغیر سیدھی تلوار کے ساتھ اسے کو مار دوںگا۔ سعد رضی اللہ عنہ کی اس بات کا نبی اکرم ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا : ’’ تم سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم میں اسے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالی مجھ سے زیادہ غیور ہے۔’’اسی لیے اللہ تعالی نے ظاہری اور باطنی تمام منکرات کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم 1499)
یعنی جس طرح ایک شخص کو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر شخص کی شراکت پر غصہ آتا ہے اسی طرح اللہ تعالی کو اپنی الوہیت میں کسی غیر کی شراکت پر بہت غصہ آتا ہے۔ شرک کی نجاست کی بنا پر اللہ تعالی اس آدمی کی تمام نیکیاں ختم کر کے اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کریگا۔ اللہ تعالی نے اسی بارے میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے صاف الفاظ میں ارشاد فرمادیا:
وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ( الزمر 65)
 ’’ یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا ‘‘
شرک ایسا جرم ہے جس پر اللہ تعالی کو بہت غصہ آتا ہے۔ جو قوم اجتماعی طور پر اس کا ارتکاب کر تی ہے ، اللہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔ایسی قوم پر اللہ کی پکڑ آتی ہے اور وہ تباہ و برباد کر دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ، فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ۭ بَلْ ضَلُّوْا عَنْهُمْ ۚ وَذٰلِكَ اِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ(الاحقاف 28,27)
 ’’اور یقیناً ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیاں تباہ کر دیںاور طرح طرح کی ہم نے اپنی نشانیاں بیان کر دیں تاکہ وہ رجوع کرلیں ،پس قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کے سوا جن جن کو اپنا معبود بنا رکھا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے کھوگئے، بلکہ دراصل یہ محض جھوٹ اور بالکل بہتان تھا۔‘‘
درج بالا نصوص سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جو لوگ معبودان باطلہ کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ان پر اللہ کی پکڑ آتی ہے۔ ایسے لوگوں پر دنیا میں بھی مختلف صورتوں مین اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی انھیں ہولناک عذاب کا سامنا کر نا پڑے گا۔
2 اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا:
دین اسلام میں جھوٹ کی بہت زیادہ مزمت بیان کی گئی ہے۔ اور جھوٹ کی جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں وہ بھی بہت سخت قسم کی ہیں۔ مسلمان اگر آپس میں جھوٹ بولیں تو اسکی وعید الگ ہے۔ اگر کسی صحابی پر جھوٹ بولیں تو وعید الگ ہے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کریں تو وعید الگ ہے۔ اور اگر اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے اور اسکی طرف منسوب کریں تو اسکی سزا الگ ہے۔ اور جو اقوام اللہ تعالی پر جھوٹ باندھے وہ قومیں پھر اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ کسی وقت بھی اللہ کا عذاب ان کے پاس آسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے پر تو کثرت سے جھوٹ بولاہی جاتا ہے ۔ اور رسول اکرم ﷺ کی طرف بھی کثرت سے جھوٹی احادیث منسوب کی جا تی ہیں۔ مگر کچھ بد بخت ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ان کو یہ کام کر تے ہوئے ذرا بھی شرم و حیا نہیں آتی۔ جو بات انھیں اچھی لگتی ہے وہ اسے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرکے لوگوں کو بیان کر نا شروع کر دے تے ہیں۔ خصوصا سوشل میڈیا پر اس قسم کا جھوٹ بہت زیادہ بولا جاتا ہے۔ اپنی طرف سے ایک پوسٹ تیار کر کے نیچے قرآن کی کسی سورت کا یا کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ دے دیا جاتا ہے۔ اولا تو کوئی بھی پڑھنے والا حوالہ چیک ہی نہیں کر تا۔اور اگر حوالہ تلاش کر نے لگے تو وہ حوالہ بھی غلط ہوتا ہے۔ حقیقت میں اس بات کا نہ قرآن سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جو دلیل اور حوالے کا کونسیٹ ہے وہ بالکل ختم ہوگیا ہے۔بس مولوی صاحب نے جو بات بول دی ہے اور لکھ نے والے نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ سب ٹھیک ہے کوئی اسے حوالہ معلوم نہیں کرنا۔ اوراگر کوئی غلطی سے پوچھ بھی لے تو بزرگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ فلاں نے یوں کیا فلاں نے یوں کھا فلاں بزرگ کے تجربے اور مشاہدے میں یہ بات آئی ہے فلاں کی یہ کرامات میں سے ہے اورفلاں کے یہ معجزات میں سے ہے۔ اس جاہل مولوی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ معجزات کا تعلق یہ نبیوںاور رسولوں کے ساتھ ہے۔ بزرگوں پر بات ختم ہو جاتی ہے مولوی صاحب اسے آگے نہیں جاتے۔ جب لوگ دین بزرگوں کے اقوال و ارا کوبنالیں اللہ تعالی پر اس قسم کا جھوٹ باندھنا شروع کر دیں تو ان پر اللہ کو بہت غصہ آتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کے حوالے سے اسی بات کو بیان کیا ہے۔مشرکین مکہ نے جب رسول اللہ ﷺ کو شاعر اور کاہن کہا ۔ اور یہ الزام لگایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو اللہ تعالی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ(الحاقة: 44 – 46)
’’اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا تو ہم یقینا پکڑ لیتے ان کو داہنے ہاتھ سے ،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ‘‘
یہ اللہ تعالی کی دھمکی کسی عام شخصیت کو نہیں ہے بلکہ سید الابنیا دونوںجہانوں کے سردار رسول اللہ ﷺ کو مل رہی ہے۔ اگر دنیا کا کوئی عام انسان اللہ پر جھوٹ باندھے اورمنسوب کرے اس کا کیا حال ہوگا؟ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ ایسا جرم ہے کہ اسکا ارتکاب کرنے والوں پر اللہ کا عذاب انکے سروں پر منڈلاتا رہتا ہے۔کبھی نہ کبھی اللہ کی پکڑآسکتی ہے انھیں کسی نہ کسی صورت اللہ کے عذاب کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔
3 فحاشی و عریانی:
ہر معاشرہ پاکیزہ بنیادوں پر قائم ہو ، یہ اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ جس معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیل جائے وہ معاشرہ نیست ونابود کر دیا جاتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو پاکیزہ ماحول فراہم کرتا ہے مگر بعض اسلام دشمن عناصر اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلا نے کے درپے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی فحاشی انتہا درجے کو پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ہاں فحاشی پھیلانے میں الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔اسلامی معاشرے میں فحاشی پھیلانا بھی ایسا فعل ہے جس پر اللہ تعالی کی پکڑ آتی ہے۔فحاشی پھیلانے والے افراد دنیا ہی میں اللہ کے عذاب سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو تنبیہ کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ( النور9 1)
’’ جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘
رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب کسی بھی قوم میں فحاشی علانیہ طور پر ہونے لگتی ہیں تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔‘‘(سنن ابی دائوود 40 )
جس معاشرے میں فحاشی پھیل جاتی ہے وہاں اللہ کی پکڑ کی ایک صورت طاعون جیسی بیماریاں ہیں۔ان نئی نئی بیماریوں کے بارے میں جو رائے قائم کر لی گئی ہے کہ ملاوٹ زدہ خوراک کے استعمال کی وجہ سے بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ اس اندیشے کو رد نہیں کیا جاسکتا ، تاہم اصل سبب کچھ اور ہے ۔اسی سبب کی نشان دہی رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
4 ناپ تول میں کمی:
اللہ تعالی کی پکڑ اور عذاب کو دعوت دینے والے امور میں سے ایک امر ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے۔ جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اللہ تعالی اس قوم کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کسی سے کوئی چیز لیتے وقت پوری پوری لینا اور دیتے وقت کم کرکے دینا ، یہ قبیح فعل شعیب علیہ السلام کی قوم بھی میں پایا جاتا تھا۔شعیب علیہ السلام نے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے۔ان کی اس سرکشی کی بنا پر اللہ تعالی نے ان پر دردناک عذاب نازل کیا۔ایک ہفتہ سخت گرمی پڑنے کے بعد ان پر بادلوں کا سایا کایا گیا۔جب لوگ بادلوں کو دیکھ کر ان کے سائے میں جمع ہوئے تو ان پر پانی کے بجائے آگ کے شعلوں کی بارش برسائی گئی۔یہ ان کے اس فعل کی سزا تھی جس سے وہ باز نہیں آتے تھے۔قرآن کریم نے اسے مختلف جگہ پر بیان کیا ہے۔دیکھیے: (الاعراف85،الشعراء 189)
یہ فعل قبیح مدینہ کے لوگوں میں بھی پایا جاتا تھا جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے توسب نے اس فعل قبیح سے توبہ کرلی۔ اور اس کے متعلق سورۃ المطففین نازل ہوئی۔
وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ، الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ، وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ(سورۃ المطففین: 1،2،3)
’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں،جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں‘‘
یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ناپ تول میںڈنڈی مار کر کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے جس کا نتیجہ دنیا و آخرت کی تباہی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے اس کو قحط سالی ، روزگار میں تنگی اور باد شاہ کے ظلم کے ذریعے سے سزا دی جاتی ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ 4019)
5زکاۃ کی عدم ادائیگی:
اللہ تعالی کے دیے مال میں سے زکاۃ ادا کر نا اہل ایمان پر فرض ہے۔ جو لوگ سال گزر نے کے باوجود اپنے مال میں زکاۃ ادا نہیں کر تے قیامت کے دن تو انھیں عذاب ہو گا ہی البتہ دنیا میں بھی وہ اللہ کے عذاب سے دوچار ہوں گے۔دنیا میں عذاب کی صورت یہ ہے کہ آسمان سے بارش روک دی جائے گی۔رسول اکرم ﷺ کا فرمان گرامی ہے۔ ’’جو لوگ اپنے مال کی زکاۃ ادا نہیں کر تے ان پر آسمان سے بارش روک دی جاتی ہے۔ اگر زمین پر چرند پرند نہ ہوتے تو ان کو کبھی بارش نہ دی جاتی۔‘‘ (سنن ابن ماجہ :4019)
یعنی اپنے مال کی زکاۃ ادا نہ کرنا ایسا جرم ہے جس پر ا للہ کی پکڑ آسکتی ہے۔
خلاصہ کلام: میں نے پانچ اسباب بیان کیے ہیں جو اللہ کے عذاب کو دعوت دے نے والے ہیں۔ ان میں سے پہلا سبب ’’شرک‘‘ ہے ۔ اب آپ غور کریں کیا ہمارا ملک شرک سے پاک ہے؟ میں کسی صوبہ کی بات نہیں کرتا کسی ڈویژن کی بات نہیں کرتا کسی ضلع کی بات نہیں کر تاکسی تحصیل کی بات نہیں کرتا آپ کوئی کالونی کوئی محلہ کوئی سیکٹر اور کوئی گلی دیکھا دیں جہاں پر اللہ کے مقابلہ میں کوئی معبود اور مشکل کشا نہ بنا رکھا ہو۔ دوسرا سبب ’’اللہ پر جھوٹ باندھنا‘‘ ہے۔ یہ جرم بھی ہمارے اندر کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیااس گناہ کبیر سے بھرا پڑا ہے۔ ہر تیسری پوسٹ ایسی ہوتی ہے جو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ تیسرا سبب ’’ فحاشی و عریانی‘‘ہے ۔ہمارے ملک کا کوئی ایساکونا نہیں، جہاں پرفحاشی و عریانی نہیں پائی جاتی۔ ہر شہر میں تو زنا کے اڈے کھولے ہوئیں ہیں۔ چھوتھا سبب ’’ ناپ تول میں کمی کرنا ‘‘ہے۔ ایک چھوٹے سے چھوٹے ٹھیلے والے سے لیکربڑے سے بڑے جنرل اسٹور تک کوئی ایسا ہے جو اس فعل قبیح سے پاک ہو۔ الاما شاء اللہ۔ پانچواں سبب ’’زکاۃ ادا نہ کرنا ‘‘ ہے۔ ہمارے ملک کا کونسا ایسا تاجر ، سرمایادار، اور مال دار ہے جو صحیح معنوں میں اللہ تعالی کا حق (زکاۃ) ادا کرتا ہے۔ جب اس طرح کے گناہ ہمارے اندر پائے جائیں گے توپھر اللہ تعالی کے عذاب تو آئیں گے۔ کبھی زلزلہ کی صورت میں آئیگا کبھی قحط سالی کی صورت میں آئے گا کبھی بارش نہ آنے کی صورت میں آئے گا کبھی بارش زیادہ آنے کی صورت میں آئیگا کبھی سیلاب کی صورت میںآئے گا ،یہ سب اللہ تعالی کے عذاب کی صورتیں ہیں۔
محترم قارئیں کرام : جن گناہوں پر اللہ کی پکڑ آتی ہے ان میں سے صرف پانچ گنا ہوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ اور گناہ بھی ہیں جن پر دنیا ہی میں اللہ کی پکڑ کا ذکر ہے۔بحیثیت مسلمان ہمیں ان تمام گناہوں سے بچ کر زندگی گزارنی چاہیے تاکہ دنیا میں بھی اللہ تعالی کے عذاب سے محفوظ رہیں اور کل قیامت کے دن بھی سرخروہو سکیں۔اللہ تعالی ہمیں ان گناہوں سے بچ نے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

آئینہ

ایرانی انقلاب کے بعد ان کے حامیون نے عالم اسلام میں سعودی حکومت کے خلاف یوم انہدام بقیع منانا شروع کردیا باعث تعجب ہے کہ احتجاج وہ لوگ کرتے ہیںجو خود مفسدہیں اور ان کا اپنا انتہائی بھیانک منصوبہ ہے ۔
ایرانی مجتہد علامہ محمد باقر مجلسی نے بحار الانوار میں تحریر کیا کہ ان کا آنے والاقائد آکر اپنا عمل کہاں سے شروع کرے گا:’’بشیر نبال نے ابو عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے، قال ھل تدری اول مایبدء بہ القائم علیہ السلام؟
قلت: لا
قال:یخرج ھٰذین رطبین غضین فیحرقہما ویدریہما فی الریح ویکسر المسجد، ثم قال، ان رسول اللہ ﷺ قال، عریش کعریش موسیٰ علیہ السلام وذکران مقدم مسجد رسول اللہ کان طیناً وجانبہ جرید النخل‘‘(روایت200)
’’کہا کیا تم جانتے ہوکہ القائم سب سے پہلے کیا کرے گا، میں نے کہا نہیں، انہوں نے کہا ان دونوں (ابو بکر و عمر) کوتروتازہ نکالے گا ، پس ان کو جلائےگا اور پھر انہیں ہوا میں بکھیر دے گا ، پھر کہا کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے اس کو جھونپڑا موسی علیہ السلام کے جھونپڑے کا سا ہوگااور مسجد کا اگلا حصہ مٹی کا تھا اور ایک طرف کھجور کے تنوں کی تھی‘‘
چہار دیواری سے متعلق اسحاق بن عمار نےسیدنا ابو عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہےکہ ۔
قال: اذاقدم القائم علیہ السلام وثب ان یکسر الحائط الذی علی القبرفیبعث اللہ ریحاً شدۃً وصواعق ورعوداً حتی یقول الناس: انما ذالذا فیتفرق اصحابہ عنہ حتی لایبقی معہ احد فیاخذ المعول بیدہ فیکون اول من یضرب بالمعول ثم یرجع الیہ اصحابہ اذارأوہ یضری المعول بیدہ، فیکون ذلک الیوم فضل بعضہم علی بعض ویصلبہما ثم ینزلہما ویحرقہماثم یذیہما فی الریح(روایت:201)
(بحار الانوارجلد 12 باب 27 روایات200اور201 )
’’کہا جب القائم آئے گا تو(روضے کی) دیوار کو توڑدے گاپش اللہ شدید ترین ہوا چلائےگاجس میں کڑک ہوگی یہاں تک کہ لوگ کہیں گے کہ یہ اس (دیوار توڑنے کی وجہ سے ہوا ہے)پس اس کے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ جائیں گے یہاں تک کہ کوئی بھی اس کے ساتھ نہ رہے گا ، پس وہ کھدال اپنے ہاتھ میں اٹھائے گا اور سب سے پہلا مارنے والا وہ ہوگاپھر اس کے ساتھ لوٹ آئیںگے اس کی طرف جب وہ اسے دیکھیں گے کہ اس کے ہاتھ میں کھدال ہے اور وہ توڑ رہا ہے ، وہ دہ ایسا ہوگا جب لوگ ایک دوسرے پر فضیلت لے جائیں گے، اور وہ ان دونوں (ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی لاشوں) کو پھانسی دے گا اور پھر اتار کر جلا دے گا پھر(اس کی راکھ) ہوا میں بکھیر دے گا‘‘
ایرانیوں اور ان کے حامیوں کا اپنے خبث باطن کو چھپانے کے لیے یوم انہدام منانامنافقانہ فعل ہے اور سعودی حکومت کو بدنام کرنا عربوں سے دیرینہ کینہ و عداوت کا بین ثبوت ہے دراصل افسوس ان صاحبان پر ہے جو ایک طرف گنبد خضری سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں ریاض الجنہ میں محو استراحت ہستیوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں لیکن عداوت ان سے رکھتے ہیںجو گنبد خضری کی خدمت پر معمور ہیں، مگر عملی طور پر ساتھ ان کا دیتے ہیںجو ریاض الجنہ اور اس میں مدفون شیخین کے بارے میں مذموم ارادہ رکھتے ہیںان کی خدمت میں یہ آئینہ ہے۔
الٰہی روضہ اطہر میں مدفون کائنات کے امام رحمت للعالمین ﷺ اور سیدنا ابو بکر الصدیق ، اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھنے والوں کے دلوں میں الفت ومحبت کا رشتہ پیوست کردے۔

امیربننے کا ایک کامیاب نسخہ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
ہر انسان کی چاہت ہوتی ہےکہ اس کے پاس مال ہی مال ہواور دولت مند بنےلیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ انسان سوچتا نہیں ہے کہ مال کو کس طریقہ سے محفوظ رکھے اور مال میں اضافہ کس طریقے سے ہو،الا ماشاء اللہ جو سمجھتے ہیں وہ عمل بھی کرکے دکھاتے ہیں، اللہ انہیں مزید توفیق دے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتاہے کہ میری راہ میں خرچ کروصدقہ کرو ،غریبوں کا خیال رکھو،میں اس کے بدلے تمھیں اور زیادہ دوں گا ،بظاہر تو مال گھٹتا نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس مال میں برکت ڈال کر اضافہ فرماتا ہے جس کا تصور انسان نہیں کرسکتا،سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ مجھے اپنی زندگی میں دولوگ تلاش کر نے سے بھی نہیں ملے ایک وہ جو صدقہ کرنے کے باوجود مفلس نہیں ہوا دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور سزا نہ ملی ہو،یعنی صدقہ کرنے سے کبھی بھی، کوئی شخص مفلس، ناکارہ،بے سہارا نہیں ہوتا بلکہ وہ امیر ہوتا چلا جاتا ہے، بساوقات انسان اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہے تو اللہ اس کے بقیہ مال میں برکت ڈالتا ہے اور آ نے والی آفات، بیماری،تنگدستی دور کردیتا ہےاور انسان خوشگوار زندگی گزارتا ہے۔ذیل میں کچھ ایسے واقعات درج کئے ہیں جنہیں آپ غور سے سے پڑھیں اور اپنی زندگی کو تبدیل کریں دراصل یہ واقعات حقیقت پر مبنی ہیںاگر کوئی توجہ دے اور لوگوں کی اصلاح کرے۔
واقعہ نمبر 1
بھائی جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دُکان خرید لی ہے،جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟کراچی میں” میں نے جواب دیا ۔ دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔
بولا ” لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا” میں نے حامی بھر لی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔دس سال قبل شرجیل نے ” ایم ایس سی” کر لی تو خاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی، شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائی جان کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤںمیں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعد میں اسلام آباد جا رہا ہوں میرے ساتھ چلنااور پھر ہم بزرگ دوست “قاضی صاحب” کے پاس گئے۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں۔
قاضی صاحب کو مسئلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسئلہ سنتے رہے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائی دیتے ہیں۔آپ دو کام کریں کوئی چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالیٰ کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف حیرت سے دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ” یہ کام مردوں کا ہے ، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کر سکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالیٰ کا شیئر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازما ًآپ کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا”مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا،اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایااسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انار کلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیےدو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہوا تھا۔ تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے،پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہو گئی ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے ، تین سال بعد روزانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہو گئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دوکان لے لی تھی۔ جب فون آیا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل آتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کر دیتا ہوں ۔ گویا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے۔
یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالی کے ساتھ ” بزنس” میں اس نے آج تک بےایمانی نہیں کی قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمیشہ پھلتا پھولتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کے اندر تکبر نہ ہو ” عاجزی ہو” انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بندہ سوچتا ہے ، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا ماشاء اللہ
ہماری زبان میں اصطلاح ہے ” دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا”آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین افراد کا کیا وطیرہ ہے۔
واقعہ نمبر 2
51 سالہ ٹی وی میزبان ” اوہراہ دنفرے ” ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی مالک ہے وہ سالانہ ایک لاکھ ڈالر بے سہارا بچوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کرتی ہےدولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اٹلی کے سابق وزیراعظم “سلویابرلسکونی” اپنے ملک کے سب سے امیر اور دنیا کے دس امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔ مشہور زمانہ فٹبال کلب ” اے سی میلان” انہی کی ملکیت ہے۔ وہ دس ارب ڈالر کے مالک ہیں ، سالانہ تقریبا پانچ کروڑ ڈالر غریب ملکوں کو بھیجتے ہیں دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔کمپیوٹر پرسنیلٹی ” بل گیٹس” اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص ہیں ان کی دولت کا اندازہ 96 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، وہ اپنی آرگنائزیشن “بل اینڈ اگیٹس فاونڈیشن” کے پلیٹ فارم سے سالانہ 27 کروڑ ڈالر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتے ہیںدولت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔
مشہورومعروف یہودی’’جارج ساروز‘‘  دس ارب ڈالر سے زائد کے مالک ہیں ہر سال دس کروڑ ڈالر انسانی فلاحی اداروں کو دیتے ہیںدولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور جہاں تذکرہ دولت وثروت کا ہوتو اس وقت مکمل نہیں ہوتا جب تک یہودی قوم کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
قارئین کرام کےلئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ صرف ایک کروڑ یہودی دنیا کی 60 پرسنٹ دولت کے مالک ہیں جب کہ چھ ارب انسان 40 پرسنٹ دولت پر تصرف رکھتے ہیں۔ نیز انٹرنیشنل پرنٹ اور میڈیا کے اہم ترین 90 پرسینٹ ادارے ان کے ہیں مثلاآئی ایم ایف،نیویارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، ریڈرزڈائجسٹ، سی این این، فاکس ٹی وی، وال سڑیٹ جرنل، اے ایف پی، اے پی پی،ا سٹار ٹی وی کے چاروں سٹیشن یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ شاید ہم میں سے چند ایک نے ہی اس بات پر غور کیا ہوکہ یہودیوں کی دن دوگنی رات چوگنی دولت بڑھنے کا راز کیا ہے؟
عقدہ یہ کھلا کہ ہزاروں سال سے یہ قوم اس بات پر سختی سے قائم ہے کہ ہر یہودی اپنی آمدنی کا 20 پرسنٹ لازمی طور پر انسانی فلاحی کاموں پر خرچ کرتاہے۔
واقعہ نمبر 3
پاکستان میں ایک مثال منشی محمد کی بھی ہےآپ بہت غریب تھے، بڑی مشکل سے گزربسر ہوتی تھی ایک دن آپ نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی آمدنی کا 4 پرسینٹ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کروں گاآپ بازار میں کھڑے ہوکر کپڑا بیچنے لگے اور باقاعدگی سے اپنے منافع کا 4 پرسینٹ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنا شروع کردیاکچھ عرصہ بعدآپ نے ایک پاور لوم لگالی اور تھوڑے ہی عرصہ میں ترقی کرتے ہوئے فیکٹری کے مالک بن گئے۔ آپ نے اپنے منافع کے 4 پرسنٹ کو مستحق مریضوں پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور ایک دن ایسا بھی آیاکہ منشی محمد نے چار کروڑ روپے کی لاگت سے منشی محمد ہسپتال لاہور بناکرحکومت کے حوالے کر دیا، اس ہسپتال کا افتتاح جرنل محمد ضیاالحق نے کیا تھا۔
واقعہ نمبر 4
کتابوں میں لکھا ہے کہ سیدناموسیٰ علیہ اسلام کے زمانے میں دو بھائی تھے جنہیں ایک وقت کا کھانا میسرآتا تھاتو دوسرے وقت فاقہ کرنا پڑتا تھا۔ ایک دن انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ اسلام کی خدمت میں عرض کیاآپ جب کوہ طور پر تشریف لے جائیں تو اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کہ ہماری قسمت میں جو رزق ہے وہ ایک ہی مرتبہ عطا کر دیا جائے تاکہ ہم پیٹ بھر کر کھالیں” چنانچہ بارگاہ الٰہی میں دعا قبول ہوئی اور دوسرے دن انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعے تمام رزق دونوں بھائیوں کو پہنچا دیا گیا،انہوں نے پیٹ بھر کر تو کھایا لیکن رزق خراب ہونے کے ڈر سےانہوں نےتمام رزق اللہ تعالیٰ کے نام پر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا۔ اگلے دن پھر ملائکہ کے ذریعے انہیں رزق مہیا کر دیا گیاجو کہ شام کو پھر مخلوق خدا میں تقسیم کر دیا گیا اور روزانہ ہی خیرات ہونے لگی۔
سیدنا موسیٰ uنے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا یا باری تعالی ان دونوں بھائیوں کی قسمت میں تو تھوڑاسا رزق تھا۔ پھر یہ روزانہ انہیں بہت سا رزق کیسے ملنے لگ گیا؟
ندا آئی موسیٰ جو شخص میرے نام پر رزق تقسیم کر رہا ہے اسے میں وعدے کے مطابق دس گنا رزق عطا کرتا ہوں۔ یہ روزانہ میرے نام پر خیرات کرتے ہیں اور میں روزانہ انہیں عطا کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
“جو شخص میرے نام پر ایک درہم خیرات کرتا ہے اس میں دس درہم عطا کرتا ہوں۔ جو ایک بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے ، اسے دس کا کھانا ملتا ہے۔ اپنے رزق کو بڑھاؤ۔ گھٹاؤنہیں‘‘
یہ شنید نہیںدید ہے کہ اصل منافع میں سے پانچ فیصد ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا بہت جلد دولت مند بن جاتا ہے۔
حرف آخر : آج ہمارے پاس مواقع بہت ہیں لیکن ہم اپنے ہاتھوں سے نکال دیتے ہیں ۔ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی کمائی میں سے 2، 3، 4، 5یا10 فیصد اللہ کے لئے مقرر کریں،پھر آپ خود اپنی کامیاب زندگی دیکھیں گے۔

درست ترجیحات کا تعین ہماری اہم ترین ذمہ داری

ترجیحات ہماری دنیاوی اور اخروی دونوں زندگیوں کی کامیابی اور ناکامی میں اہم ترین کردار ادا کر تی ہیں،اس لیے درست ترجیحات کا تعین ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے۔میرے خیال میں ہر شخص اپنی اور اپنے متعلقین کی ترجیحات کے تعین کا ذمہ دار ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ:
” کُلُّکُم رَاعٍ وَ کُلُّکُم مسئول عن رعیتہ”
’’تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے جس سے اس کے ریوڑ کے بارے میں پرسش کی جائے گی‘‘
گویا ترجیحات کا تعین دراصل تربیت کا دوسرا نام ہے اور یہ تو طے ہے کہ تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہیں،تربیت کے بغیر تعلیم اس طرح ہے جیسے خوشبو کے بغیر پھول۔ بطور استاد میں طالب علموں سے اکثر ان کی ترجیحات کے بارے میں پوچھتی رہتی ہوں تاکہ ان کے جوابات کی روشنی میں باتوںباتوں میں ان کی درست ترتیب کرسکوں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثر والدین اور اساتذہ کرام اپنی اس اہم ترین ذمہ داری سے غافل ہیں۔
میں ہر سال نئی آنے والی طالبات سے کہتی ہوں کہ وہ اپنی ترجیحات کو ترتیب سے بتائیں کہ وہ محبت کے اعتبار سے پہلے تین نمبروں پر کسے رکھتی ہیں؟تو ان کی ترتیب میں عموماً تین رشتے ہوتے ہیں
(۱)ماں،باپ،بہن بھائی
(۲)باپ،ماں،بہن بھائی
(۳)ماںباپ،بہن بھائی، استاد،دوست وغیرہ وغیرہ۔
یعنی محبت میں ان کی ترجیحات کی ترتیب میں ماں، باپ، بہن،بھائی یا زیادہ سے زیادہ استاد اور دوست شامل ہوتے ہیں تو میں انہیں پیار سے سمجھاتی ہوں کہ محبت میں ہماری ترتیب یوں ہونی چاہئیے ۔
1-آپ نے جن رشتوں کا ذکر کیا ہے،یہ سب رشتے تخلیق کرنے والی ،ہمارے دلوں میں ان رشتوں سے محبت پیدا کرنے والی پاک ذات خالق کائنات ،رب کائنات کی ہے اس لئے محبت کی فہرست میںہماری پہلی ترجیح انعامات کی بارش کرنے والے خالق وباری تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیئے ۔
2-اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر،رسول،انبیائے کرام علیہم السلام سے محبت کا ہماری ترجیحات میں دوسرا نمبر ہونا اس لئے ضروری ہے کہ انہی ہستیوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی پہچان سکھائی،ان کی تعلیمات نے ہی ہمیں جینا سکھایا۔انہوں نے ہی ہمیں بتایا کہ محبت کیا ہے اور کس سے کتنی محبت کرنی ہے؟سارے انبیائے کرام علیہم السلام پر بالعموم اور خاتم الانبیاء رسول اکرمﷺ جیسے مشفق ومہربان نبی جو امّت کی خاطر راتوں کو آہ وزاری فرماتے تھے ،سے بالخصوص محبت کرنا ہمارا فرض ہے ۔
3-صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وسلف صالحین سے محبت کریں جن کی قربانیوں اور محنتوں کی وجہ سے دینِ اسلام ہم تک پہنچا۔
4-اپنے والدین سے محبت کریں،جنہوں نے تکالیف برداشت کرکے آپ کی پرورش کی۔
5-ماں،باپ،بہن،بھائی،بیوی،شوہر،اولاد یعنی اپنے محرم رشتہ داروں سے محبت کریں جو ہر مشکل وقت میں آپ کے کام آتے ہیں۔اپنے والدین،دیگر بزرگوںکی خدمت ودیکھ بھال،اپنے بیوی،بچوں،شوہراور دیگر محرم رشتہ داروں سے حسنِ سلوک،ان کے نان ونفقہ،دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
بعض لوگ گھر سے باہر حسنِ اخلاق کے مجسمے اور سخاوت کے پیکر کے طور پر پہچانے جاتے ہیںلیکن گھر میںداخل ہوتے ہی ــ”ہٹلر” بن جاتے ہیں۔حالانکہ اس کے اپنے اہل وعیال اوررشتہ دار ان کے حسنِ سلوک اور سخاوت کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں۔جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ:
“جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے اپنے رشتہ داروں سے حسن ِ سلوک کرنا چاہئے “(بخاری ومسلم)
٭ہر رشتے سے اہمیت کے اعتبار سے محبت کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمارے دین اسلام نے ہمیںسکھایا ہے کہ جب آپ زکوٰۃ اورصدقات دینے لگیں یامال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے لگیںتو آپ کی پہلی ترجیح ضرورت مند رشتہ دار ہونے چاہیئیں۔اگر رشتہ داروں میںکوئی آپ کی مدد کا محتاج نہ ہوتو پھر پڑوسیوں کو ترجیح دی جائے گی ۔اگر پڑوسی بھی خوشحال ہوںتو اپنے علاقہ اور شہر کے ایسے ضرورت مندوں کو ترجیح دی جائے گی جو ضرورت مند تو ہیںمگر کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے۔ہمیں یہ بھی سکھادیا گیا کہ صدقات وزکوٰۃ دیتے وقت مسلمانوں کو ترجیح دی جائے گی۔
٭ایثاروقربانی کا درس دیتے ہوئے ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ جب ایک ہی جگہ یا موقع پر ایک سے زیادہ ضرورت مندہوں توآپ اپنی ضرورت کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی یا بہن کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں۔جیسا کہ ایک غزوہ میںایک سے زیادہ مسلمان مجاہدین زخمی حالت میںپڑے تھے۔ایک زخمی نے پکارا “پانی”۔ پانی پلانے والا پانی لے کر اس زخمی کے پاس پہنچا تو دوسرے زخمی کی آواز آگئی “پانی”۔ پہلے زخمی نے پانی پلانے والے سے کہا،پہلے میرے اس بھائی کو پانی پلادو۔ وہ دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو ایک تیسرے زخمی نے کہا “پانی”۔ دوسرے زخمی نے کہا پہلے اس بھائی کو پانی دے دو۔ وہ پانی لے کر تیسرے زخمی کے پاس چلا گیا۔ اس نے کہا جس نے مجھ سے پہلے پانی مانگا تھا، اسے پہلے پانی پلائو۔ پانی پلانے والا پہلے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا تھا۔ وہ دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی جامِ شہادت نوش کرچکا تھا۔ وہ تیسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے ایثاروقربانی کی ایک لازوال داستاں رقم کرچکا تھا۔
٭ہمیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ دوست بناتے وقت،رشتہ داری قائم کرتے ہوئے ہمیں”دین داری” اور سیرت واخلاق کو ترجیح دینی چاہئے۔قرآن مجید میں سورۃالعصر میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے کس قدر خوبصورتی سے ہمیں “انتخاب”کا معیار بتایا ہے۔
وَالْعَصْرِ،اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ(العصر:1-2)
’’ زمانے کی قسم ، بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے‘‘
سب سے پہلے قسم کھائی،پھر اپنے پیدا کردہ انسان کی مجموعی حقیقت اور قلعی کھولتے ہوئے بیان فرمایاکہ”بے شک انسان خسارے میں ہے”
اپنا نقصان خود کررہا ہے۔پھر وضاحت کردی کہ گھاٹے کا سودا کرنے والے انسانوں میں ایسے بھی ہیںجو اللہ کی توفیق سے گھاٹے کا سودا کرنے والوںمیںشامل نہیں ہیںکیونکہ ان کی اولین ترجیح رضائے الٰہی کا حصول ہے۔یہ وہی لوگ ہیں ہیں جو”دائمی نفع”کمارہے ہیں۔وہ یہ لوگ ہیں:الاالذین اٰمنواوعملواالصلحٰت یعنی جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کئے۔ان کی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے کفروشرک کے راستے کی بجائے توحید اور ایمان باللہ کے راستے کو ترجیح دی ۔انہوں نے اقرارباللسان صرف زبانی اقرار نہیں کیا بلکہ تصدیق بالقلب یعنی دل سے تصدیق بھی کی۔انہوں نے صرف اللہ ہو،اللہ ہو یا مجھے اللہ سے “محبت” ہے “محبت” ہے کی گردان نہیں کی بلکہ اپنے اعمال وکردار کو اللہ کی پسند کے “سانچے”میں ڈھالتے ہوئے سرتاپا “مسلمان” اور”مٔومن” بن گئے۔گویا ایسے لوگوں سے دوستی اور رشتہ داری قائم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ مشہور آزمودہ مقولہ ہے کہ:”انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے”۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
“قابلِ رشک ہے وہ محبت جس میںتم کسی ایسے کو پالو جو تمہارے ایمان کو مضبوطی بخشے اور تمہیں صالح بنادے”
ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ”ادخلوافی السلم کافۃ”یعنی دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو”
لہٰذا ہمیں شکل وصورت کی بجائے سیرت وکردار کو ترجیح دینی چاہئے۔بقول شاعر؎
سیرت نہ ہوتو عارض ورخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
ایک پنجابی شاعر کے الفاظ میں:؎
 سوہنی صورت تے عاشق ہونا ایہہ کیہڑی وڈیائی      عاشق بن توں اس سوہنے دا جس ایہہ شکل بنائی
٭آج کل فیس بُک اور سوشل میڈیا پر “دوستی” کا بڑا چرچا ہے۔دوستی کی آڑ میں بڑا گھنائونا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔”دین” اور “محبت”کے نام پر مقدس رشتوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔اس لئے پیاری بیٹیو،بہنو!آپ سے گزارش ہے کہ ایسے شخص سے ہوشیار رہیں جو آپ سے محبت کے نام پر گفتگو کرتا ہے،آپ کی آواز کی تعریف کرتا ہے،آپ کو ایک “آئیڈیل شخصیت” قرار دیتا ہے۔آپ سے شادی کا وعدہ کر رہا ہے لیکن شادی سے پہلیـ اپنی ” مستقبل کی بیوی ” کو جاننا چاہتا ہے۔ آپ کی تصویر دیکھنا چاہتا ہے ،تومحتاط رہیں۔ اسلام نے شادی کا پیغام بھیجنے کے بعد لڑکا، لڑکی کو ولی کی اجازت سے محرم کی موجودگی میںصرف ایک نظر دیکھنے کی اجازت دی ہے۔
میری عزیز بیٹیو!زندگی کے اس اہم ترین معاملہ میں بھی اپنی ترجیحات کا تعین کرلیں۔ “عزت” آپ کی سب سے بڑی ترجیح (Demand)ہونی چاہیئے کیونکہ جو آپ کی عزت کرے گا وہ آپ سے محبت اور پیار بھی کرے گا۔اپنے جیون ساتھی کے طور پر ایسے شخص کا انتخاب کریں جو “دین دار” ہو،غیرت مند ہو۔کیونکہ محبت ہوجانا یا مل جانا اہم نہیں ہوتا،محبت کو زندہ رکھنا اور عزت دینا اہم ہوتا ہے،تبھی رشتے بنتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ غیرت مند شخص اپنی محبت کو دوام بخشنے کے لئے باقاعدہ “نکاح”کا پیغام بھیجے گا۔آپ کو اپنے گھر کی “عزت “بنا کر لے جائے گا ۔
٭عزیز بھائیو،بیٹو! نکاح “آدھا دین “ہے۔اسلام محبت کے خلاف نہیں، اگر کسی لڑکی سے محبت کرتے ہیں اسے اپنی عزت بنائیں نہ کہ غلط راستے پر چلیں۔
اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ:”اسلام نکاح کے لئے کسی کو پسند کرنے کی اجازت تو دیتا ہے لیکن نکاح سے پہلے محبت کی نہیں،اصل محبت نکاح کے بعد ہوتی ہے۔”
لہٰذا اظہار محبت کرنے والے سے مطالبہ کریں کہ وہ فوراً شرعی طریقہ سے آپ کے والدین کے پاس رشتہ بھیجے۔اگر وہ آئیں،بائیں،شائیں کرے تو اسے ہمیشہ کے لئے دوستوں کی فہرست سے نکا ل دیں Unfriendکر دیں کیونکہ اسلامی اور مشرقی معاشرہ میںBoy friendاورGirl freind کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ “بیوی”اور”شوہر” کارشتہ “Best friend” کا رشتہ ہوتا ہے۔سو اپنے آپ کو،اپنی خوبصورتی کواپنے “شریکِ حیات” کے لئے “مخصوص” رکھیںکیونکہ باحیا اور با کردار لڑکیوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے۔
میں عورت ذات ہوں
مجھے بے باکی نہیں جچتی
تمہارے سنگ چلنا ہے
مگر شریعت کے اصولوں پر
—————-

الله دیکھ رہا ہے !

اس تحریر کی ابتداء میں عرض یہ ہے کہ ایک بہت معصوم چھوٹی بچی میرے پاس ایک روز آئی اس نے جومجھے کہا وہ آپ خود پڑھیں:میر ا چا کلیٹ کھا نے کا بہت دل چا ہ رہا تھا شیطا ن نے خیا ل ڈالامیں چوری کر لو ں لیکن میں نے نہیں کی میں قرآن پڑ ھنے لگ گئی اور قر آن پڑ ھتے ہو ئے میں بھول گئی آج جب آپ نے مجھے چا کلیٹ دی تو یا د آیا اللہ اللہ یہ ایمان اس چھوٹی سی بچی کا بحمد للہ علی ھٰذاحمداً کثیرا طیباً مبارکاً فیہ اللہ تعا لیٰ ان دونوں بہنو ن کو اپنے دین کی سر بلند ی کے لیئے چن لے ۔آمین
اللہ دیکھ رہا ہے !
حذیفہ آ ج بہت پر یشا ن تھا ۔ پر یشان ہو نا بھی چا ہئیے تھا کل سا را دن اس نے اسکو ل سے جا نے کے بعد کھیل کو د میں گزاردیا تھا اور آج Grand test تھا اب اسے فکر ہورہی تھی کہ کہیں فیل نہ ہو جا ئو ں بر یک میں بھی وہ کھیلنے نہیں گیا ۔ انس نے اسے چپ بیٹھا دیکھا تو اس کے پاس گیا کیا با ت ہے حذیفہ یہا ں چپ اکیلے کیوں بیٹھے ہو ؟انس کیا کر وں کل سا را دن کھیل کو د میں لگا دیا ۔revisionنہیں کیا۔ اورGrand Test ہے فیل ہو گیا تو Paper میں بھی failہو جا ئو نگا ۔ حذیفہ اتنا اچھا تو پڑ ھتے ہو آپ انس نے کہا :سا رے Testبھی اچھے دیئے ہیں۔ revisionکر لو ابھی لنچ بر یک میں ۔نہیں انس نہیں ہو گا۔ کیا تم مجھے اپنا دکھا دو گے Paper۔حذیفہ سر نے دیکھ لیا تو میر ے بھی نمبر کا ٹ لیں گے ۔ نہیں دکھا دینا ۔ اچھا صحیح ہے اب پر یشا نی ختم کر و ۔ انگلش کے پیریڈمیں حذ یفہ نے جو نہیں آیا وہ انس کے پیپر سے دیکھ لیا ۔ testختم ہو ا سر چلے گئے ۔ اسلا میت کے پیریڈ میں حذیفہ کے سر میں شد ید درد ہو ا ٹیچر اسے لے کر ہیڈ ما سٹرصاحب کے پا س آ گئے ۔ ہیڈ ماسٹرصاحب نے اپنے کمر میں اسے لٹا دیا ۔ حذیفہ وہا ن چپ چا پ لیٹ گیا ۔ اتنے میں ہیڈ ما سٹرصاحب نے چپڑ اسی کو بلا کر پیسے دے کر کو ئی کا م کہا ۔ جب وہ کا م کر کے واپس ہو ا تو اس نے ہیڈ ما سڑ صاحب کو آکر سا را حساب بتا یا اور بقیہ پیسے واپس کر دئیے ۔ جب ہیڈ ماسڑصاحب کو اس نے پیسے واپس کئے تو ہیڈ ما سٹر نے کہا کہ پا نچ روپے ہی تو بچے تھے تم چاہتے تو رکھ لیتے لیکن تم نے 5 روپے بھی واپس کر دئیے اللہ تمہیںجزائے خیر دے یہ لو سو روپے رکھ لو اور کچھ کھا لینا یہ تمہا را انعا م ہے ۔ سر میں اسے کیسے رکھ لیتا مجھے اللہ دیکھ رہا تھا ۔ اللہ تو ہر ایک کو دیکھتا ہے کوئی چیونٹی ہو کوئی جانور ہو کسی اندھیرے میں ہو پتھر کے نیچے ہو اللہ تو اس کو بھی دیکھتا ہے حذیفہ یہ سن کر دل ہی میں بہت پریشان ہوا۔ اپنے اللہ سے ڈرتا ہے یہ چپڑاسی (بابا) پڑھے لکھے بھی نہیں تھے پھر بھی انہیں اتنی عقل تھی۔ اور ایک وہ تھا اب اسے ڈرلگنے لگا کہ اللہ اس سے ناراض ہوگیا ہے اور سر میں درد اوربڑھ گیا۔ حذیفہ اپنی کلاس کا ایک اچھا بچہ تھا لیکن صرف کھیل کی وجہ سے وہ تھوری لا پرواہی کر جاتا تھا اور یہی ہوا تھا۔ اس نے پورا Test خود کیا تھا بس Essay میں تھوڑا انس کا دیکھا تھا اب وہ دل میں سوچنے لگا ایسے تو انس سے بھی اللہ بہت ناراض ہوگا اس نے خود غلط کام کیا اور اس کی بھی مدد لی۔ ایک دم وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور رونے لگا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ایک دم پریشان ہو کر اس کے پاس آئے کیا ہواحذیفہ بیٹا؟ کیا بات ہے ؟یہ سن کر وہ او ر رونے لگا۔ پھر اس نے ان کو سب بتادیا۔ ہیڈ ماسٹرصاحب یہ سن کر مسکرادئیے پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھایا دیکھو حذیفہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ اور اللہ کے نزدیک وہ سب سے اچھا ہے جسے غلطی کا احساس ہو اور وہ توبہ کرے اور جہاں تک Cheating کی بات ہے۔ پیارے بیٹے حذیفہ قرآن میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے ۔
اللّٰہ یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور
 ترجمہ: اللہ آنکھوں کی خیانت اور جو دلوں میں تم چھپاتے ہو سب جانتا ہے ۔ کوئی دیکھے نہ دیکھے ٹیچرنہ دیکھے لیکن اللہ دیکھتا ہے اپنی قدرت اور اپنے علم سے۔ اسی لئے ہر لمحہ ہمیں فکر ہونی چاہیے کوئی بھی غلط کام جب کرنے لگیں تو یاد آئے اور پھر اللہ ہمیں سزا بھی دے گا۔ دیکھو آج سر میں کتنا درد ہوا۔ اور حذیفہ پیارے معصوم سے پھول بچے اچھے اچھے کاموں میں اپنے ساتھ اپنے دوستوں کا ملاتے ہیں برائی کے کاموں میں نہیں۔
انس تو آپ کا اچھا دوست ہے اس کے ساتھ مل کر آپ اچھے کام کرو لیکن برے نہیں۔ حذیفہ نے یہ سن کر ہاں میں سر ہلا یا اور سر کا شکریہ ادا کیا اور جا کر انس سے معافی مانگی اور دل میں عہد کیا کہ آئندہ وہ کبھی Cheating نہیںکرے گا کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔
پیارے بچوں ! آپ بھی کہیں اپنے Tests میں ایک دوسرے کی Sheetsکو Cheating کر کے تو نہیں لکھتے نا؟ آپ تو بہت اچھے بچے ہیں مجھے امید ہے۔ آپ نہیں کرتے ہوگے لیکن اگر کوئی اور کرے تو بھی آپ اسے سمجھائیے گااور اپنی صحت کا اس موسم میں خیال رکھئے گا اور اپنے Games کی وجہ سے سردیوں کی چھٹی میںپڑھائی کو مت چھوڑئیے گا۔ اپنے Home works مکمل کرئیے گا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

چلتے پھرتے دو پھول

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ!   پیارے بچو۔۔!
سردی(جاڑے) کا موسم شروع ہو چکا ہے اور ہمیں گرم کپڑےپہننے اور اسی طرح گرم کھانے اور مشروبات استعمال کرنے کا بہت جی چاہتاہے اور سردی سے بچاؤ کے لیے ایسا کرنا بھی چاہیے کیونکہ کھلے سر اور گرم ملبوسات کے بغیر ٹھنڈ لگنےسے ہم سخت بیمار بھی ہوسکتے ، چلیں آج آپ کو تیزسردی ہونے کی وجہ بتاتے ہیں، جوکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی ایک حدیث مبارکہ میں بیان فرمائی ہے، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مرتبہ جہنم نے اللہ تعلی سے شکایت کرتے ہوئے کہاکہ میرا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے (آگ کی شدت کی وجہ سے) تو اللہ تعالی نے جہنم کے لیے دو سانسیں مقرر کردیں، ایک سانس سردی میں ایک گرمی میں جب جاڑے میں سانس لیتی ہے تو اس سے سخت سردی ہوجاتی ہے اور جب موسم گرما میں سانس لیتی ہے تو اس وجہ سے سخت گرمی ہوجاتی ہے‘‘
بہر حال ہم اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔
آج ہم جو واقعہ آپ کو بتلانے چلے ہیں وہ دو بہت پیارے بچوں کا ہے، وہ دونوں بچے اپنے ناناجی سے بہت پیار کرتے اور ان کے نانا بھی انہیں بہت عزیز رکھتے، وہ بچے جب اپنے نانا جی کو دیکھتے تو ان کی طرف دوڑے آتےاور ان کے نانا بھی شفقت سے ان طرف متوجہ ہوتے اور بچے اپنے نانا جی کی زبان کی سرخی کو دیکھ کر ہنستے، شاداں وفرحاں ان کی طرف دوڑتے ۔
ان کے نانا جب نماز پڑھانے مسجد جاتے تو یہ بچے ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک آجاتے اور ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے تو ناناجی اپنے نواسوں کو حالت نماز میں بھی انہیں اپنی پشت مبارک پر بیٹھا رہنے دیتے اور بسا اوقات ان کی خاظر سجدہ طویل کرلیتے،جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو انہیں بڑے آرام سے اٹھاکر نیچے بٹھاتے اور اگر کوئی شخص ان کے شوق کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتاتو ان کے نانا اشارہ سےاسے روک دیتے ۔
اگر کوئی شخص ان کے نانا سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیںیا ایسا کرتے ہوئے ہم نے آپ کو پہلے نہیں دیکھا تو ان کے نانا فرماتے میرے یہ دونوں نواسے میری خوشبو ہیںاور نہیں دیکھ کر مجھے سکون ملتاہے۔
بعض دفعہ دونوں بچے مسجد میں خود آجاتے یا کبھی ان کے نانا انہیں اٹھاکر مسجد تشریف لاتے ، ان کے نانا نماز سے فارغ ہونے کے بعد ازراہ شفقت انہیں اپنی گود میں بٹھا لیتے ، یہی نہیں بلکہ وہ اپنے دونوں نواسوںکے ساتھ کبھی کھیلا بھی کرتے ، ایک مرتبہ ان کا ایک نواسہ بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ ان کے نانا نے ان کو پکڑنا چاہا تو نواسے نے ادھر سے ادھر بھاگنا شروع کردیا، ان کے نانا انہیں ہنساتے رہتے یہاں تک کہ انہیں پکڑ لیا ۔
وہ اپنے نواسوںسے صرف خود ہی محبت نہ کرتے بلکہ لوگوں کو بھی ان سے محبت کی ترغیب دیتے، ایک مرتبہ دنوں بچوں نے جمعہ کے دن سرخ رنک کی لمبی قمیصیں پہن رکھی تھیں اور ان کے نانا جی جمعہ کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور وہ دونوں بچے مسجد میں داخل ہوئے تو انکے کپڑے پاؤں کےنیچے آتے وہ گرتے پڑتے ناناجی کی طرف آرہے تھے کہ ناناجی کو ان معصوموں کا یہ گرنا بڑا گراں لگا تو آپ نےدوران خطبہ ممبر سے اتر کر انہیں اٹھالیااور پیار سے چومنا شروع کردیاجس طرح ان کے نانا جی ان سے محبت وپیار کرتے تھے اسی طرح اگر دونوں نواسے کبھی ایسا کام کرلیتے جو ان کے نانا جی کو پسندنہ ہوتا تو انہیں کبھی ڈانٹ بھی لیا کرتے تھےایک موقع پر صدقے کی کھجوروں کا ڈھیر لگا ہوا تھا دونوں بچوں نے ان کھجوروں سے کھیلنا شروع کردیا اور کھیل کے دوران ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال دی تو ان کے نانا کی نظر پڑ گئی تو ڈانٹتے ہوئے کہا بیٹا یہ کھجور پھینک دو لیکن ان کے نواسے نے اپنے منہ سے وہ کھجور نہیں نکالی تو نانا جی نے خود ہی ان کے منہ سے نکال باہر پھینکی۔
پیارے بچو! آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے یہ دونوں بچے کون تھے؟ یہ کوئی عام بچے نہیں تھے بلکہ سیدنا علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے اور ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے نواسےسیدنا حسن وحسینwتھے ، ہمیں ان سب باتوں سے یہ سبق ملتا ہے کہ آپ ﷺ کتنے رحیم وشفیق تھے ، سیرت طیبہ کے حوالے سے نمایاں بات یہ ہے کہ نبی مکر م ﷺ  مشغول ترین زندگی گزارنے کے باوجود اپنے دونوں نواسوں، حسن وحسین رضی اللہ عنہما کی تربیت کی طرف خوب توجہ فرماتے یہاں تک کہ ان کے ساتھ کھیل بھی لیا کرتے تھے ، اللہ ہم سب کو نبی مکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔
پیارے بچو  !  اسے ضرور پڑھیں
ادارہ ماہنامہ اسوہ حسنہ نےیہ صفحہ آپ کی چھوٹی چھوٹی مگر پر اثر تحریروں کے لیے مختص کیا ہے آپ آگے بڑھیں قلم اٹھائیں اور لکھیںاپنے جیسے نونہالوں کے لیے ایک زبردست تحریر کوئی سچا واقعہ، مگر یہ یاد رہے کہ
mتحریر ارسال کرنے سے پہلے اپنے کسی استاد یا گھر کے کسی بڑے سے ضرور پڑھوائیں تاکہ وہ آپکی اصلاح کردیں
mیہ کہ تحریر ایک لائین چھوڑ کر لکھی ہوئی ہو،
mایک ورقہ پر صرف ایک طرف اور صاف ستھری ہو،
m اگر آپ ٹائپنگ جانتے ہیں تو اپنی تحریر ٹائپ کر کے ہماے ای میل ایڈریسusva.jab@gmail.com پر ارسال کردیں۔ شکریہ
——–

زلزلہ درسِ عبرت

26 اکتوبر کو پاکستان میں چترال سے لاہو ر تک آنے والے شدید ترین زلزلہ جس کا دورانیہ چار سے پانچ منٹ بتایا جاتا ہے اور جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 7.6 نوٹ کی گئی، عبرت کی بات ہے کہ 4،5 منٹ کے زلزلے نےملک کے دوصوبوںکو ہلاکر رکھ دیا جس کی وجہ سے ہر آنکھ اشک بار اور ہر دل غمزدہ ہے کیونکہ اس زلزلہ میں جاں بحق ہونے والوں میں کئی معصوم بچے بھی شامل ہیںجو اپنے والدین کی خوشیوں کا واحد ذریعہ تھے وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے، یہ بچے اور بچیاں جو مٹی تلے دب گئے جن کے ماں باپ کو ان کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا، یہ وہ پھول تھے جو بِن کھلے مرجھاگئے اور کچھ جوانی میں ہی شاخوں سے ٹوٹ کر منوں مٹی تلے دب گئےاور بہت سے ایسے ہیں جوہر آنے والے سے پوچھتے ہیں باباکب آئیں گے؟؟ ان معصوموں کو کون بتائے کہ ان کے اور باباکے درمیان مٹی کے پہاڑ حائل ہوگئے ہیں، اس زلزلے نے صرف زمین کا سینہ ہی شق نہیں کیا بلکہ لوگوں کے دلوں میں بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے، جوسر چھپانے کا آسراتھا وہ اب زمین سے برابر ہوگیا ہے زندگی بھر کی محنت ومزدوری خاک میں مل چکی ہے سیکڑوں لوگ آن واحد میں موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ یہ زلزلہ بھی دیگر زلزلوں کی طرح اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انسان اپنی عقل ودانش فہم وفراست سے جتنی بھی حیرت انگیز ایجادات اور سائنسی ترقی کے بل بوتے پر جتنی ایڈوانس ٹیکنا لوجی حاصل کرلےان قدرتی آفات اور تنبیھات کے سامنے بے بس اور کمزور ہے، انسان جس کو اپنی عقل وتدبیر پر بڑا ناز ہے جوکہ اقتدار مال ودولت اور طاقت کے نشے میں تکبراور غرور پر اتر آتاہے جو کہ اپنی بلند وبالا عمارتوں اور اونچے محلات پر اتراتاہے جب اللہ تعالی کا حکم آتاہے تویہ مضبوط ترین قلعے مٹی کے گھروندوں کی طرح آن واحد میں زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
زلزلے اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لیے درس عبرت اور اس کی نشانیوں کا اظہار ہیں جیساکہ ارشاد باری ہے :
وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا(الاسراء:59)’’ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانی بھیجتے ہیں ‘‘

سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اَنَّهٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(فصلت:53)

عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے کیا آپ کے رب کا ہرچیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں‘‘
زلزلہ اہل ایمان کےلیے درس عبرت کے ساتھ اعمال وعقائد کی درستگی کا ذریعہ بھی ہے اور کفار کے لیے عذاب الٰہی کی ایک جھلک ہے زلزلے اس لیے بھی آتے ہیںجیساکہ قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتب میں واضح کیا گیا ہے کہ جب قومی سطح پر بے حیائی، بے راہ روی اور برائی اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر اتنی عام ہوجائے کہ برائی برائی نہ رہے بلکہ اچھائی اور آزاد خیالی تصور کرلی جائے اور ثقافت کے نام پر گندگی فیشن بن جائے، بے پر دگی، فحاشی اور عیاشی کو شعار بنا لیا جائے، نیک سیرت، شریف النفس، حق و صداقت کے پیکرانسان کو معاشرے میں حقیر جانا جائے اور اس کے برعکس، بدمعاش، بدکردار، بے ایمان، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو جانتے ہوئے بھی مناصب، عہدوں اور عزتوں سے نوازاجائے،برائی پر فخر کیا جانے لگے تو پھر آسمانی آفات نازل ہوتی ہیں۔
سیدناعلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ کہ جب میری امت پندرہ قسم کے کام کرنے لگ جائے گی تو پھر اس وقت ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے۔ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ کا ارشاد یوں نقل کیا گیا ہے کہ طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ اس طرح لگاتار شروع ہو جائے گا جیسے کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ وہ پندرہ چیزیں کیا ہیں؟۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:1 جب مالِ غنیمت کو اپنی ذاتی دولت بنا لیا جائے یعنی اس کی صحیح تقسیم کی بجائے خواہشات نفسانیہ کے مطابق تقسیم ہونے لگے۔2: امانت کو غنیمت سمجھا جائے۔3: زکوٰۃ کی ادائیگی کو تاوان اور چٹی سمجھا جانے لگے۔یعنی زکوٰۃ کی ادائیگی خوش دلی کی بجائےتنگ دلی سے ادا کی جائے۔ 4:آدمی اپنی بیوی کا فرمانبردار بن جائے۔5: اپنی ماں سے بدسلوکی اور نافرمانی کرنے لگے جائے۔6: اپنے دوست سے حسنِ سلوک اور نیکی کرے۔7: اپنے باپ سے بے وفائی اور نفرت برتے۔8 مساجد میں آوازیں بلند ہونے لگیں یعنی کھلم کھلا شور و غوغا ہونے لگے۔9: سب سے کمینہ، رذیل اور فاسق آدمی قوم کا قائد اور نمائندہ کہلائے،یعنی قوم کا سردار وہ مقرر ہو گاجو سب سے زیادہ فاسق اور بدکار ہو۔ نہ کہ متقی اور پرہیز گار شخص۔10: آدمی کی عزت محض اس کے ظلم اور شر سے بچنے کے لئے کی جانے لگے۔11: شراب نوشی عام ہوجائے ۔12: مرد ریشم پہننے لگ جائیں۔13: گانے والی عورتیں رکھی جائیں4۔ مزامیر یعنی گانے بجانے کا سامان عام ہو جائے۔15 : امت کا پچھلا حصہ پہلے لوگوں کو لعن طعن سے یاد کرنے لگے یعنی ان کو برا بھلا کہا جانے لگے۔

(سنن الترمذی، شاکر (4/ 494)۔بَابُ مَا جَاءَ فِی عَلَامَةِ حُلُولِ المَسْخِ وَالخَسْفِ،حدیث ضعیف ولکن له أطراف صحیحة )

یہ تمام نشانیاں دور حاضر میں من عن پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، دھوکہ دہی، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری و عوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں بلکہ مساجد ومدارس میں بھی بیماریاںپائی جاتی ہیں مسلمانوں کا مالی نظام بد سے بدتر ہے عصری تعلیم کا شور اتنا طاقتور ہےکہ دینی درسگاہوں کے طلبہ کرام، مدرسے کی چہار دیورای میں رہتےہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہوکرساری توجہ عصری علوم کے حصول پر مرکوز کیے ہوئے ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوچکے ہیں، بیوی کی اندھی محبت میں والدین سے بدسلوکی عام سی بات ہے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نااہل لوگوں کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اس ماحول سے کچھ کسر باقی رہ گئی تھی جو موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے وہیں اپنے بھی پیچھے نہیں رہے اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیاء اور نیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور یہ ساری باتیں اس معاشرے کا حصہ بن گئی ہیں۔
ان دنوں دنیامیں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوڈراتا اور یاددہانی کراتا ہے، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

:وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ’’

تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘ (الشوریٰ30)، اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا

:مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۡ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ ۭوَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۭ وَکَفٰی بِاللّٰهِ شَهِیْدًا’’

تجھے جوبھلا‏ئ ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائ پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے،، (النساء ( 79 )
اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا :

فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّیْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ۚ وَمَا کَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ

’’پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسا‏ئی اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں،،( العنکبوت ( 40 ) ہرمسلمان پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے، اور دین اسلام پراستقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائی عطافرما، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے

:وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ’

’ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا،،(الاعراف ( 96 )علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ :’’بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے،،جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :’’تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے، اور جب مدینہ میں زلزلہ آیا توسیدناعمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئےانہیں وعظ ونصیحت کی اور فرمانے لگے:’’ اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ‘‘
وہ بڑی بڑی وجوہات جوکہ ان زلزلوں، طوفانوں، آندھیوں، زمین میں دھنسادیئے جانے اور بندر و خنزیر بنائے جانے کا سبب بنیں گی، ان کو احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یوں بیان کیا گیا

:یَکُونُ فِی هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ، إِذَا ظَهَرَتِ الْقِیَانُ وَالْمَعَازِفُ، وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ (صحیح الجامع الصغیر)”ا

س امت میں خسف (زمین میں دھنسنا)، مسخ (بندر وخنزیر بننا) اور قذف (پتھروں کی بارش) ہونا اور یہ اس وقت ہوگا جب گانے والیاں اور آلات موسیقی اور شرابیں کھلے عام پی جائیں گی“

جهانِ تازه (چمنستانِ حدیث)

نوٹ: یہ تحریر جس وقت ادارہ کو موصول ہوئی تھی، مؤرخ اہل حدیث فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ حیات تھے، وقتِ اشاعت بھٹی صاحب کی رحلت کا عظیم سانحہ رونما ہوچکا تھا، اس لئے کچھ مقامات پر صیغوں کی تبدیلی کی گئی ہے۔ (ادارہ)

چمنستان حدیث میں ہی ہے کہ کونسا کام کس آدمی نے کس وقت پہ کرنا ہے اس نظام میں کسی کی خواہش پر تبدیلی نہیں آ سکتی،ورنہ تاریخ اہل حدیث کو وسیع پیمانے پر مرقوم کرنے کی خواہش تو اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں تھی اور بعض نے اس پر کام بھی شروع کیا مگر یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے ہمارے محترم و مکرم اور شفیق بزرگ علامہ محمد اسحاق بھٹی کو نصیب فرمائی۔ یوں تو تاریخ نویسی میں بڑے بڑے بلند نام موجود ہیں لیکن جو شرف اللہ تعالیٰ نے مورخ اہل حدیث، ذہبی دوراںمحترم علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو عطا کیا اس برصغیر کی سرزمین پر وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا کہ انہوں نے خالصتاً محدثین اور ورثۃ الانبیاء کے حالات و واقعات ایک خاص ترتیب اور انداز سے امت کے سامنے رکھ دیئے ہیں جن کے تادیر لوگ ناصرف کہ مداح رہیں گے بلکہ اس سے علمی اور عملی راہنمائی بھی حاصل کرتے رہیں گے اس سے پہلے بھی محترم بھٹی صاحبرحمہاللہ تعالیٰ کی اس سلسلہ کی کئی کتب قارئین کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش ثبت کر چکی ہیں مثلاً کاروان سلف، قافلہ حدیث، دبستان حدیث اور گلستان حدیث وغیرہ جن میں جناب محترم بھٹی صاحب نے خالصتاً محدثین اور سلف صالحین کا تذکرہ کیا ہے زیر نظر کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘بھی اسی سلسلۃ الذہبیہ کی ہی ایک کڑی ہے جس میںمحترم بھٹی صاحب نے ایسی 100شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جنہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل ہے ان میں ذی وقار محدثین عظام بھی ہیں اور جلیل القدر مشائخ کرام، نامور اساتذہ بھی ہیں تو انتظام و انصرام کا وسیع تجربہ رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں ۔ ہر ایک کی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے راہنمائی کرتا ہے خواہ نصیحت کے لحاظ سے یا عبرت کے طور پر۔ اور پھر اسلاف کے واقعات بیان کرنے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ ان سے راہنمائی لے کر اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کریں اور یہ راہنمائی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ محترم بھٹی صاحب کے متعلق کوئی تعارفی کلمات کہوں کہ بھٹی صاحب اب عرب و عجم میں شہرت کی بلندیوں پر ہیں اور ان کی خوبیوں، حافظے، حوصلے، ادب و خاکہ نویسی اور سوانح نگاری کا ایک زمانہ ناصرف معترف بلکہ نغمہ سرا ہے۔اللہم اغفرلہ
اسی طرح بھٹی صاحب کی تصانیف کے متعلق بھی کچھ کہتا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ آج کے دور میں سوانح نگاری کے لحاظ سے کسی بھی کتاب کے معتبر اور مقبول ہونے یا اس کی عظمت و رفعت کے لیے بس ’’مولانا محمد اسحاق بھٹیرحمہاللہ تعالیٰ‘‘ کا نام ہی کافی ہے۔ (فللّٰہ الحمد)
میں تو صرف ان سطور میں بھٹی صاحب کی نئی کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘ سے چند ایسے مقامات کی نشاندہی کرناچاہتا ہوں، جن میں علماء کرام، طلباء اور مدارس کے اصحاب انتظام اور معاونین کے لیے درس و موعظت و نصیحت موجود ہے تاکہ آج کے اس پُر فتن اور پُر آشوب دور میں کہ جب دینی مدارس اور علماء کرام خصوصاً اور مذہب سے متعلق رکھنے والے لوگ عموماً پُر خطر حالات سے گزر رہے ہیں۔ تو آئیے جو شخص بھی دین اسلام کا عالم اور داعی ہے اس کو سراپا وقار اور استقامت ہونا چاہئے بڑی سے بڑی آزمائش بھی اسے دین اسلام کی خدمت سے نہ روک سکے۔ اور کسی بھی مصیبت میں وہ اپنے عقیدے اور منہج کے معاملے میں ناتو شکوک و شبہات کا شکار ہو اور نہ ہی وہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائے۔ ایسے ہی ایک عالم ربانی کا واقعہ بھٹی صاحب زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 95 پر تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ عالم ربانی ہیں مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ ریاست مزید کوٹ کے راجا بکرم سنگھ نے ایک مناظرے کا اہتمام کیا جس میں اہل حدیث کی طرف سے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی شامل تھے مولانا بھٹی صاحب فرماتے ہیں’’راجا فرید کوٹ باقاعدگی سے مناظرے میں شامل ہوتا اور بڑے غور سے پوری کاروائی سنتا۔ علماء کرام کی گفتگو اور ان کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کے دو عمل خاص طور پرراجا فرید کوٹ کے مرکز توجہ رہے۔ (1)ایک یہ کہ تمام علماء کرام کو کھانا راجا صاحب کی طرف سے دیا جاتا تھا اور وہ اسی کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی اور ان کے کوٹ کپورہ کے رہنے والے ایک مرید حاجی نور الدین وہ کھانا نہیں کھاتے تھے اس وقت فرید کوٹ میں موضع بڈھیمال کا ایک حجام رہتا تھا۔ ان دونوں نے کھانے کے پیسے اسے دے دیئے تھے وہی ان کا کھانا تیار کرتا تھا۔ اور یہ اس کے گھر میں اپنی گرہ سے کھانا کھاتے ۔
(2)دوسری بات یہ کہ جب مجلس مناظرہ میں راجا صاحب آتے تو علماء کرام سمیت تمام حاضرین اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ راجا صاحب نے مولانا سے کھڑے نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا ہمارے مذہب میں غیر مسلم کی تکریم کرنا اور ادب سے اس کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں۔ مولانا کے یہ الفاظ سن کر راجا خاموش ہو گیا۔ اور اس کے بعد وہ لوگوں کو اکثر یہ واقعہ سنایا کرتا اور کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک عالم دین مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کو دیکھا ہے جو صحیح معنوں میں اپنے مذہب پرعامل تھے۔‘‘
اس واقعہ میں ان علماء کرام کے لیے بہت بڑی نصیحت موجود ہے کہ انسان کی عزت و احترام اس کے اپنے عقیدے اور منہج پر ڈٹے رہنے اور استقامت اختیارکرنے میں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر یا ان کے سامنے اپنے آپ کو انہی جیسی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں مشابہت اختیار کرنے میں
اسی طرح ایک مقام پر مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی زندگی کے بہت سے نصیحت آموز واقعات ذکر کرتے ہیں مولانا بھٹی صاحب مولانا مختار احمد ندوی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’مولانا نذیر احمد دہلوی کی وفات کا سب سے بڑا اثر جماعت اہل حدیث ہند کے تنظیمی اور تعمیری منصوبوں پر پڑا ہے جماعت ایک ایسے مخلص اور فعال راہنما سے محروم ہو گئی ہے جن کا بدل اب ملک میں کوئی نظر نہیں آ رہا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو مولانا کی وفات کی خبر پا کر سر تھام کر بیٹھ گئے (آج کل تو لوگ جماعتوں اور تنظیموں پر قابض لوگوں کی موت کی خود خواہش کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب بھی ’’چمنستان حدیث ‘‘کے صفحات سے ہی پڑھیں۔ ناقل)  ’’مولانا (نذیر احمد) رئیس (چودھری) نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے کبھی اپنی عملی زندگی کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور نہ جاننے والوں کو جان لینا چاہئے کہ مولانا نے اپنا دل و دماغ، علم و فکر، جذبات و احساسات کے سارے گنج ہائے گراں مایہ کو اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور ہندوستان میں جماعت موحدین کی ترقی کے لیے نثار کر دیا اور تمام عمر معمولی مشاہرے پر ہنس ہنس کر گزار دی۔ اس تھوڑے سے مشاہرے کا بھی خاصا حصہ وہ جماعتی امور کی نگرانی پر کسی نہ کسی حیثیت سے خرچ کرتے رہتے اور اس پر خوش ہوتے‘‘ (ص 260)
آج جو لوگ اپنے علمی یا دینی و مذہبی مقام و مرتبے کو دنیا طلبی اور جاہ پرستی کا ذریعہ بناتے ہیں اور دنیا داروں کی چوکھٹ پر اپنی علمی عظمتوں اور مذہبی شان و شوکت کو رسوا کرتے ہیں انہی یہ واقعات بار بار پڑھنے چاہئیں اور ان سے درس عبرت لینا چاہئے۔ انہی مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دو واقعات کی مزید نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جن سے ان کی اپنے عقیدے پر پختگی اور کلمہ حق کہنے میں جرات مندانہ کردار ادا کرنے کی زبردست دلیل ہے۔
مولانا بھٹی صاحب، مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں’’مولانا لکھنؤ کی دینی تعلیمی مجالس کے ممبر تھے۔ علی میاں، مولانا منظور نعمانی، قاضی عدیل عباسی اور دوسرے نامور اہل علم کے ساتھ آپ بھی اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔ بچوں کے لئے ابتدائی نصاب تعلیم کی ایسی کتابوں کی تصنیف کا مسئلہ درپیش تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہو بات یہ چل رہی تھی کہ دینیات کی تصنیف کس ڈھنگ سے کی جائے۔ کسی ممبر نے مشورہ دیا کہ دیو بندی عقائد کے مطابق انہیں لکھوا دیا جائے۔ مولانا نے فرمایا اس میں تمام فقہی مسالک کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کتابیں دوسروں کے لیے قابل قبول نہ ہونگی۔ اس پر یہ ترمیم پیش ہوئی کہ دوسرے مسالک کی باتیں حاشیہ پر لکھ دی جائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ کتابیں قرآن و سنت کے مطابق لکھوائی جائیں اور دیوبندی اور دوسرے مکاتب فکر کی وضاحت اس کے حاشیہ پر کر دی جائے۔ بالآخر بات اس پر ختم ہوئی کہ ہر مکتبہ فکر کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق اپنی کتابیں تصنیف کر کے داخل نصاب کریں۔ (ص 282)
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اجتماعی کمیٹیوں یا مشاورتی مجلسوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی ہاں میں ہاں ملا کر صرف تعلق داری یا TADA کی خاطر اپنے مسلکی نظریات اور جماعتی مفادات قربان کر کے گھر آ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں یہ کہnh تو چاہتا تھا لیکن میں نے بھری مجلس میں مناسب نہیں سمجھا۔ ارے اللہ کے بندوں جن کی نمائندگی کے لیے تم گئے ہو اگر ان کی نمائندگی نہیں کرنی ان کے مسلک و منہج کی ترجمانی نہیں کرنی تو پھر آپ کو یہ حق کیسے مل گیا کہ آپ اہلحدیث جماعت کے کوٹے سے کسی بھی مجلس یا کمیٹی کے رکن اور ممبر بنیں۔ یا پھر وقتی اور عارضی طور پر ہی کسی مشترکہ کانفرنس یا جلسے میں شریک ہوں آپ کا حق بنتاہے کہ آپ اپنے ذاتی تعلقات بنانے کی فکر نہ کریں اور اپنے ذاتی یا خاندانی مفادات کو مدنظر نہ رکھیںبلکہ مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کا حق ادا کریں مولانا املوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہی ایک واقعہ مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے مولانا بھٹی صاحب نے نقل کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔
’’مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی کے انتقال پر بنا رس میں ایک تعزیتی جلسہ ہوا۔ صدر مولانا عبدالمتین صاحب مرحوم رئیس بنارس تھے۔ مقررین میں ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ موجود تھے اس لیے یہ جلسہ ہر فرقے کا نمائندہ جلسہ تھا۔ ایک مقرر نے مولانا حفظ الرحمن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگ آزادی سے متعلق دارالعلوم دیوبند کی طرف کچھ غلط باتوں کا انتساب کیا اس کے بعد مولانا کی باری تھی۔ آپ نے جنگ آزادی کی پوری تاریخ ادھیڑ کر رکھ دی اور اچھی طرح واضح کر دیا کہ فرط عقیدت میں لوگ کتنی غلط بیانیاں کرتے ہیں آپ کی تقریر سے جلسے کی فضا بدل گئی اور لوگوں کو جنگ آزادی کی صحیح تاریخ معلوم ہو گئی‘‘ (ص 283)
یہ ہوتی ہے نمائندگی اور اپنی قوم یا جماعت کی ترجمانی رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ وجزاہ عن سائر اہل الحدیث۔ اس واقعہ کی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ گجرات میں مولانا عنایت اللہ شاہ گجراتی کی مسجد میں اہل حدیث اور دیوبندیوں کا مشترکہ جلسہ تھا جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدرسردار عبدالقیوم بھی شامل تھے۔ سیاسی لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ جس کی مجلس میں جاتے ہیں ان کے قصیدے پڑھنے اور جائز و ناجائز تعریفیں شروع کر دیتے ہیں ۔ سردار عبدالقیوم نے بھی یہی کیا کہ علماء دیوبند کی جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں خدمات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ۔ ان کے بعد شہیداسلام بطل حریت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ نے خطاب شروع کیا تو سردار عبدالقیوم اٹھ کر جانے لگے علامہ صاحب نے خطاب روک کر فرمایا سردار صاحب آج کی تقریر میں نے آپ کو سنانی ہے لہٰذا آپ واپس آجائیں۔ سردار عبدالقیوم واپس اسٹیج پر آ گئے تو علامہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے جنگ آزادی میں انگریز کے خلاف اہل حدیث کی جدوجہد اور قربانیوں کو بیان کیا اور تحریک پاکستان میں اہل حدیث کی خدمات کا بالتفصیل تذکرہ کیا کہ حق ادا کر دیا۔ علامہ صاحب کے خطاب کے بعد مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری دیوبندی مائک پر آئے اور فرمانے لگے علامہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے بالکل صحیح اور درست ہے اگر اسلام کی تاریخ سے اہل حدیث کی خدمات کو نکال دیا جائے تو اسلام کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ یہ ہے جرات ۔ حق نمائندگی اور اپنی جماعت کی ترجمانی ۔ اسی طرح ربوہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمتہ اللہ علیہ کی اس تاریخی تقریر کی گونج اب تک فضا میں موجود ہے جب آپ نے دیو بندیوں کے اسٹیج پر عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے لیے اہلحدیث کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کیا تو یوں تھا کہ جیسے سارے دیوبندیوں کو سانپ سونگھ گیا ہو اور پھر اس کے بعد انہوں نے علامہ صاحب کو کبھی دعوت نہ دی تھی حالانکہ ان کا دعویٰ تھا اور ہے کہ یہ کانفرنس مشترکہ ہوتی ہے۔ تو بہرحال مجھے ان مثالوں سے صرف اپنے ان مقتدر عطاء و اصحاب جبہ و دستار سے عرض کرنا مقصود ہے جو محرم الحرام یا ربیع الاول کے سلسلہ میں منعقدہ امن کمیٹیوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں یا صوبائی و قومی سطح پر کسی سیاسی یا انتظامی فورم پر انہیں اہل حدیث کی نمائندگی کا موقعہ ملتا ہے تو انہیں ببانک دھل ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مسلک و عقیدے کا اظہار کرنا چاہئے کسی قسم کی مصلحت کا شکارنہیں ہونا چاہئے۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور ان کے لیے عزت و وقار کی علامت بھی۔
اسی طرح مولانا عبدالروف جھنڈانگری والا مضمون بھی اپنے اندر بہت سی نصیحتیں سموئے ہوئے جس سے طلباء اساتذہ، خطباء، و علماء اور اصحاب وارباب مدارس بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں خصوصاً ان کے مدرسے کے انہدام اور دوبارہ تعمیر کا واقعہ جو بھٹی صاحب نے زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 384تا 390پر تفصیل سے بیان کیا ہے اس میں ان کا جذبہ دینی اور اپنے ادارے سے محبت اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کے قدرت کے اور مدد کے بہت سے مظاہر قارئین کے سامنے آ جاتے ہیں۔
طلباء کرام کے لیے بھی بہت سے مضامین میں نصیحت موجود ہے صرف ایک مضمون سے مختصر اقتباس نقل کرتا ہوں۔ ماضی قریب کے علمائے اہل حدیث کی فہرست میں سید مولابخش کوموی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بہت نمایاں ہے سید صاحب بہت بڑے عالم، فاضل اور متقی پرہیز گار اور بڑے منجھے ہوئے درد دل رکھنے والے شفیق استاد تھے ان کے حصول علم کے متعلق مولانا بھٹی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر308 پر رقمطراز ہیں’’سید مولابخش حصول علم کے لئے نہایت بے تاب تھے۔ لیکن انہیں اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا وہ نوجوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے مگر بے علم تھے اور دل میں اس کے حصول کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس خواہش کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کر لیا دل میں یہ جذبہ شدت سے ابھرا کہ کسی نہ کسی طرح علم ضرور حاصل کرنا چاہئے لیکن معاملہ یہ تھا کہ نہ کسی درس گاہ کا پتہ تھا اور نہ کسی قصبے یا شہر کی راہ معلوم تھی اب انہوں نے اپنی والدہ کے عطا کردہ بھنے ہوئے چنوں کے تھوڑے سے دانے صافے کے پلو میں باندھے، کسّی کندھے پر رکھی اور حسب معمول کھیتوں میں پہنچ گئے۔ پھر کسّی کھیت میں رکھی اور کسی کو بتائے بغیر انجانی راہوں پر روانہ ہو گئے۔ کچھ پتہ نہیں کہ کدھر کا رخ ہے اور منزل کونسی ہے زاد راہ وہی بھنے ہوئے چنوں کے چند دانے ہیں کوئی پیسہ پلے نہیں، خالی ہاتھ اور خالی جیب، بالکل یہی حالت کہ ۔
خرچ نہ بنھدے پنچھی تے درویش
جنہاں تقویٰ رب دا اونہاں رزق ہمیش
ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے سے تیسرے گاؤں چلے جا رہے ہیں بھوک نے بھی زور باندھ رکھا ہے مگر یہ کہیں ٹھہرتے نہیں اور نہ کسی سے روٹی کا ٹکڑا مانگتے ہیں ۔ بالاخر ایک گاؤں کی مسجد میں جا رکے اور نمازیوں سے کہا کہ وہ انہیں مسجد کے طہارت خانوں کی صفائی اور نمازیوں کے پانی بھرنے کے لیے بطور خادم رکھ لیں نمازیوں نے ان کے نام اور خاندان کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اپنا تعارف کرایا اس پر جواب ملا کہ ہمیں خادم کی ضرورت تو ہے لیکن آپ سید زادے ہیں اور ہم سید زادے سے یہ خدمت نہیں لے سکتے۔
اب پھر وہاں سے چل پڑے اور روپڑ کے قریب موضع ’سنانا‘‘ جاپہنچے۔ وہاں ایک عالم دین مولوی دین محمد رہتے تھے ان سے دینیات کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اسی دوران میں موضع ملک پور کے مولوی عبدالجبار سے کچھ کسب فیض کیا وہاں ایک فائدہ یہ ہوا کہ گردوپیش کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ اور یہ بھی پتا چلا کہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں کے لکھو کے میں ایک مدرسہ جاری ہے جس میں بہت بڑے عالم مولانا عطاء اللہ لکھوی طلباء کو تعلیم دیتے ہیں۔ اب یہ موضع ’’سنانا‘‘ سے نکلے اور چلتے پھرتے کسی نہ کسی طرح لکھوکے جا پہنچے۔ وہاں انہیں داخل تو کر لیا گیا اور تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا لیکن کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہ طلباء کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کرتے اور پانی میں بھگو کر ان سے اپنی بھوک مٹاتے اور استاد سے علمی پیاس بجھاتے۔ چونکہ علم کے لیے گھر سے بھاگ گئے تھے۔ لہٰذا اس صورت حال سے ہم آہنگی پیدا کر لی تھی اور دونوں طرف سے صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا ۔
الغرض اسی قسم کے نصیحت آموز واقعات سے بھرپور یہ حدیث کا چمنستان مہک رہا ہے اب جس کے جی میں آئے وہ اس کی خوشبو سے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کر لے اور جس کا جی چاہے وہ انہیں محض ایک واقعہ یا تاریخ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دے۔ ہم تو بزبان شاعر یہیں کہیں گے۔
اب جس کے جی میں آئے پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا
اللہ تعالیٰ محترم بھٹی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ہمیں ہمارے بزرگوں سے ملا دیا اور ان کے حالات و واقعات کی شکل میں ہمارے لیے نصیحت و راہنمائی کا سامان کر دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خوش رکھے مکتبہ قدوسیہ کے قدوسی برادران محترم ابو بکر قدوسی اور محترم عمر فاروق قدوسی کو کہ جنہوں نے اپنی تما م تر روایات (خوبصورتی، معیار اور تاخیر) کو برقرار رکھتے ہوئے ’’چمنستان حدیث ‘‘ قارئین کی خدمت میں پیش کی۔ اور یہ اعزاز ہے جامعہ سلفیہ فیصل آبادکا کہ یہ کتاب سب سے پہلے 3مئی 1215ء کو جامعہ سلفیہ میںمحترم اس تقریب کے لیے خصوصی طور پر محترم عمر فاروق قدوسی صاحب نے چند نسخے تیار کروا کے بھجوائے تھے۔
عزیز قارئین… آج جن حالات سے ہمیں واسطہ پڑا ہے کہ لوگ دوستی کے نام پر دشمنیاں پالتے اور انتقام لیتے ہیں، سازشوں کے جال بنتے اور حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حاسدین کی حوصلہ افزائی پر فتح و خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں ضروری ہے کہ علماء کرام اور طلباء حضرات خصوصی طور پر بھٹی صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں اور اپنے اسلاف کے حالات و واقعات کو پڑھ کر حوصلہ و ہمت حاصل کریں کہ انہوں نے کس طرح اپنے حاسدین اور سازشی عناصر کے حسد و بغض کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اپنی رحمت سے نوازا ۔
 اللھم اغفرلہم وارحمہم

 

 

معاملات کے بارے میں قرآن مجید کا سنہری اُصول 3

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ

اور ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں۔[سورة الحشر – الآية 9]
اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق اس انداز سے فرمائی ہے کہ ہر شخص زندگی کے ہر موڑ پر یا تو کسی کی مدد کررہا ہوتا ہے یا پھر کسی سے مدد لے رہا ہوتا ہے۔ انسان کے لئے اکیلا رہنا بہت ہی مشکل و دشوار ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو جسمانی طاقت اور کچھ کو علمی صلاحیتوں سے نوازا ہے ، نیز کسی کو امیر اور کسی کو غریب بنایا تاکہ امیر پیسہ لگائے اور غریب محنت کرکے کارخانوں کو چلائے۔
انسانی معاشرے میں کئی قسم کے معاملات ہوا کرتے ہیں، جن کی بنیاد خیر خواہی پر ہے۔ یہاں تک کہ تجارت میں بھی اگر خیرخواہی سے کام نہ لیا جائے تو بہت سارے دینی و دنیاوی نقصانات سامنے آتے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالی نے خیرخواہی کرنے والوں کو کامیابی کی ضمانت دی ہے۔
1ـ جذبۂ ایثار اور خیرخواہی محبت ، برکت اور کامیابی کا راز ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں ۔[سورة الحشر – الآية 9]
وضاحت: انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار اور فے میں ان کا حصہ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی کمال فضیلت بیان فرمائی جو مسلمانوں کے ہجرت کرکے مدینہ آنے سے پیشتر بیعت عقبہ کی رو سے ایمان لاچکے تھے اور انہوں نے مہاجر مسلمانوں کو آتے ہی اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اور مہاجرین کی آباد کاری کے سلسلہ میں وہ مثال قائم کی جس کی مثال پیش کرنے سے پوری دنیا کی تاریخ قاصر ہے۔ ان اولین انصار نے مہاجرین کو اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کر لیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت انصار مدینہ نے آپ سے عرض کیا : ہم میں اور ہمارے مہاجر بھائیوں میں کھجور کے درخت تقسیم کر دیجئے تو آپ نے فرمایا : ایسا نہیں ہوسکتا (جائیداد تمہاری ہی رہے گی) تب انصار مہاجرین سے کہنے لگے۔ اچھا ایسا کرو ۔ درختوں کی خدمت تم کرو ۔ ہم پیداوار میں تمہیں شریک بنا لیتے ہیں ۔ تب مہاجر کہنے لگے بہت خوب! ہم نے سنا اور مان لیا۔ [بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی المعاملۃ]
اس سے اگلا ایثار یہ تھا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مہاجرین تو کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ تو انصار نے اس معاملہ میں بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کی۔ تاہم نصف پیداوار انہیں دینا قبول کر لیا۔ اور اب جب بنونضیر کے اموال فے تقسیم کرنے کی باری آئی تو انصار نے از خود یہ کہہ دیا کہ یہ اموال مہاجرین میں تقسیم کردیجئے۔ اور ہمارے پہلے نخلستان ہی ہمارے پاس رہنے دیجئے۔ (یعنی اب ان میں مہاجرین شریک نہ ہوں گے) بلکہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہم ان میں سے بھی دینے کو تیار ہیں ۔ یہ تھا وہ ایثار جس کی بنا پر ان کا درجہ بہت بلند ہوگیا تھا۔ اور اللہ نے بطور خاص ان انصار کی تعریف فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حق یہ ارشاد فرمایا کہ ایسے ایثار کرنے والے انصار کا بھی اموال فئے میں خاص طور پر خیال رکھا جائے۔ لیکن وہ از راہ ایثار اپنے اس حق سے اپنے مہاجر بھائیوں کے حق میں دستبردار ہوگئے اس ایثار نے مہاجرین کے دل میں جو مقام حاصل کیا تھا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :
’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (آخری وقت) وصیت کی کہ : میرے بعد جو خلیفہ ہو وہ مہاجرین کا حق پہچانے اور انصار کا بھی حق پہچانے۔ جنہوں نے نبی کریم ﷺکی ہجرت سے پہلے مدینہ میں جگہ پکڑی اور ایمان کو سنبھالا۔ خلیفہ کو لازم ہے کہ ان میں سے جو نیک ہوں اس کی قدر کرے اور برے کی برائی سے درگزر کرے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)
اور مہاجرین کی آمد پر جس قدر خوشی انصار کو ہوتی تھی وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے :
مہاجرین کی آمد پر انصار کی خوشی :۔’’سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مدینہ میں) آپ کے اصحاب میں سے سب سے پہلے سیدنامصعب بن عمیر اور سیدناعبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما ہمارے پاس آئے۔ وہ دونوں ہمیں قرآن پڑھاتے رہے۔
پھرسیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اورسیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیس آدمی اپنے ساتھ لیے ہوئے آئے۔ پھر ان کے بعد آپﷺ تشریف لائے۔ مدینہ والے اتنے خوش کبھی بھی نہ ہوئے تھے جتنے خوش آپ کی تشریف آوری سے ہوئے۔ بچے بچیاں تک یوں کہہ رہے تھے۔ دیکھو! یہ اللہ کے رسول تشریف لائے ہیں ۔ میں آپ کی آمد سے پہلے ہی سورۃ اعلیٰ اور اس جیسی کئی سورتیں پڑھ چکا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الاعلیٰ)
انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا : جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں ۔ اور وہ حدیث یوں ہے :
انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ :’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہﷺ !میں بہت بھوکا ہوں، آپﷺ نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ نے صحابہ کو کہا :کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانوازی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ایک انصاری (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) نے کہا : یارسول اللہ ﷺ! میں اس کی مہمانوازی کروں گا اور اس شخص کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) سے کہا :’’یہ شخص رسول اللہﷺ کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہٰذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ‘‘ وہ کہنے لگیں : اللہ کی قسم! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے۔ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اچھا یوں کرو ۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سُلا دو ۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کر دینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے۔(اور مہمان کھا لے گا) چنانچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) اور فلاں عورت (ام سلیم رضی اللہ عنہا ) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلَی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۝ۚ [الحشر :9 ، بخاری۔ کتاب التفسیر]

جبکہ اس کے برعکس ایک وہ شخص ہے جس کے بارے میں قرآن کریم کی اسی آیت میں شح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
لفظ شح کے لغوی معنیٰ:
شُحَّ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک مال و دولت جمع کرنے میں حریص ہونا، دوسرے مال و دولت خرچ کرنے میں انتہائی بخیل ہونا اور جس شخص میں یہ دونوں قباحتیں جمع ہوجائیں اسے شحیح اور شحاح کہتے ہیں۔ اب ایسے شخص میں تنگ نظری، تنگ ظرفی، سنگدلی، بےمروتی وغیرہ جیسی صفات پیدا ہوسکتی ہیں اور ان کا ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت سے محبت ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ لیکن اس طرح دولت کے پیچھے اندھے ہوجانا اور دولت کا پجاری بن جانا انتہائی بُری خصلت ہے۔ جس سے اللہ ہی بچا سکتا ہے۔ اسلام اس بری عادت کے علاج کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور ایثار کی راہ دکھاتا ہے جس سے سماحت، وسعت نظر، ہمدردی، مروت اور اخوت کے جذبات فروغ پاتے ہیں ۔ گویا شح سے نجات پاجانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے اور جنت میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔
نوٹ: لین دین کے معاملات میں مندرجہ بالا آیت ایک اصول کا درجہ رکھتی ہے۔
2ـ دین تو نام ہی خیرخواہی کا ہے:
اسی لئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:

’’اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَةُ‘‘

’’دین تو خیرخواہی ہے‘‘
وضاحت: صرف حقوق اللہ کی ادائیگی ہی مکمل دین نہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور خیرخواہی سے کام لینا بھی دین کاہی ایک اہم حصہ ہے۔
3ـ خیرخواہی کی بدولت اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے:
رسول مکرم ﷺ کا فرمان ہے:

وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ

’’اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے‘‘( ابن ماجه (1/ 82)
وضاحت: اللہ کی مدد کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ہر شخص ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ رکھے گا تو ہر طرف اور ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لئے کوئی نہ کوئی شخص تیار رہے گا۔ اس طرح معاشرے میں کوئی بھی فرد بے یار و مددگار نہیں رہے گا۔
4ـ خیرخواہی کی بدولت برکتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں:
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
’’ایک شخص نے کسی سے زمین خریدی اور خریدار کو اس زمین سے سونے کاگڑھا ملا، اس نے بیچنے والے سے کہا کہ آپ یہ سونا لے لیجئے ، میں نے تو صرف زمین خریدی تھی سونا نہیں، بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تو آپ کو زمین اس میں جو کچھ ہے سب ہی بیچ دیا تھا (لہٰذا یہ سونا آپ کا ہے) ۔ فرمایا کہ پھر وہ دونوں فیصلہ کروانے کے لئے کسی شخص کے پاس گئے تو اس نے پوچھا کہ کیا آپ دونوں کی کوئی اولاد ہے؟ ایک نے کہا کہ میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک بیٹی ہے۔ اس نے کہا کہ اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردیں اور اس مال کو آپس میں ہی خرچ کرلیں اور صدقہ بھی دے دیجئے گا‘‘۔ [بخاری]
وضاحت: خیرخواہی کی بدولت مال بھی ان کے پاس رہا اور بیٹے اور بیٹی کا نکاح بھی ہوگیا۔
نیز صحیح مسلم میں ایک واقعہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
ایک شخص نے چٹیل میدان میں ایک بادل سے آواز سنی کہ فلاں کی کھیتی پر پانی برسادو تو وہ بادل ایک باغ کے قریب برسا جہاں سے سارا پانی اس باغ میں چلا گیا، اس شخص نے باغ کے مالک سے نام پوچھا تو اس نے وہی نام بتایا جو پوچھنے والے نے آسمان سے سنا تھا، اسے بہت تعجب ہوا اور اس کا راز پوچھا تو باغ والے نے بتایا کہ وہ باغ کےپھل کے تین حصے کرلیتا ہے۔ ایک حصہ ضرورت مندوں کے لئے،دوسرا حصہ اپنے گزر بسر کے لئے اور تیسرا حصہ اسی باغ میں لگادیتا ہے۔ [مسلم]
وضاحت: ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے سے اللہ کی طرف سے پانی بھی میسر ہوگیا جوکہ زراعت کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے باغ میں سے کوئی کمی ہونے کی بجائے برکتیں ہی برکتیں نازل ہوتی رہیں۔
5ـ خیرخواہی جنت میں جانے کا سبب ہے:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلاً يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ فِيْ شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيْقِ كَانَتْ تُؤْذِي الْمُسْلِمِيْنَ۔

’’میں نے ایک شخص کو جنت میں کروٹیں بدلتے ہوتے دیکھا، اس کی نیکی یہ تھی کہ اس نے راستے میں آنے والے ایک ایسے درخت کو کاٹا تھا جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ (مسلم)
(جاری ہے)

حدود اور سزائوں کا اسلامی تصور

پہلا خطبہ:

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ(آل عمران : 102)

 ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔
شریعت اسلامیہ کی بنیاد حکمت اور انسانیت کی دنیاوی و اخروی خیر و بھلائی پر ہے، اسلامی شریعت سراپا عدل و رحمت اور خیر و حکمت ہے۔
شریعتِ اسلامیہ انسانیت کے مابین عدل، تمام مخلوقات کیلیے رحمتِ الہی، اور اہل زمین کیلیے سایہ الہی ہے، اس سے اللہ تعالی کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے دلائل رونما ہوتے ہیں، یہی لوگوں کیلئے ذریعۂِ نجات اور دھرتی کیلیے دوام کا باعث ہے۔
انسانی زندگی اُسی قانون کے تحت پر سکون ہوگی جس کا تعلق شریعت اسلامیہ سے ہوگا، اور جس میں اسلامی قانون کا نفاذ ہوگا۔
اگر امت شریعت پر کار بند رہے تو نکتہ چینی کرنے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، نیز راہِ ہدایت سے روکنے والے اور گمراہی میں اوندھے گرنے والوں سے متاثر بھی نہیں ہوگی؛ کیونکہ مسلمان تو اپنے منہج پر ثابت قدم رہ کر آگے بڑھتا ہے، اور اسی پر قائم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيم وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ اللهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ(الحج : 67 – 69)

 ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے، لہذا انہیں اس بارے میں تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہیے، آپ ﷺ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ ﷺ ہی راہ راست پر ہیں اور اگر پھر بھی تنازعہ کھڑا کریں تو آپ ﷺ کہہ دیں: اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب تر واقف ہے اللہ تعالی تمہارے اختلافی امور میں قیامت کے دن فیصلہ کریگا۔
شریعت اسلامیہ کے اہم ترین مقاصد میں یہ شامل ہے کہ: فائدہ زیادہ سے زیادہ جبکہ نقصان کم سے کم ہو، اس دھرتی کی عدل اور امن و سلامتی کی بنیاد پر آباد کاری ہو، اور نظریاتی حدود سمیت پورے معاشرے کی حفاظت کی جائے۔
شریعت اسلامیہ کا درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ: شریعت کے تمام احکامات، حدود اور تعلیمات حسن و خوبی پر مبنی ہیں؛ کیونکہ یہ شریعت ہے ہی حسن و خوبی والی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کیلیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیا ہے‘‘
اور فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ(البقرة: 195)

 (عمل کرتے ہوئے)حسن و خوبی اپناؤ، بیشک اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے
ایک مقام پر فرمایا:

 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ(النحل : 90)

 ’’بیشک اللہ تعالی عدل اور اچھے انداز سے کام کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘
اور ان خوبیوں کی حامل شریعت کو حکمت و خبر رکھنے والے اللہ تعالی نے بہترین امت کیلیے نازل فرمایا ہے۔
شریعت کی وجہ سے ہی ہمیں آسودگی میسر آئی، ہم خوش حال ہوئے، ہمیں دہشت کے بعد امن و سلامتی ملی، اللہ تعالی نے ہمارے لیے زمینی خزانوں کے انبار لگا دیے، اور ہمیں پینے کیلیے وافر پانی میسر فرمایا:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ(العنكبوت : 67)

 ’’کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے‘‘
نفاذ شریعت اور حدود لاگو کرنے سے ملکی امن کو تحفظ ملا، اور لوگوں کیلیے آسودگی و اطمینان میسر آیا، حالانکہ ارد گرد کے لوگوں کو رطب و یابس ہر چیز کو تباہ کر دینے والی جنگوں سمیت قتل و غارت کا سامنا ہے، یہ اللہ تعالی کا ہی احسان اور فضل ہے، ہم ظاہری اور باطنی ہر انداز سے اسی کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں۔
شریعتِ الہی کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے، اس سے مثبت سرگرمیاں پھلتی پھولتی ہیں، سب خوشحال ہوتے ہیں، وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہے، نیز شریعتِ الہی کا نفاذ قومی وسائل کیلیے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
نفاذِ حدود اسلام کی سر بلندی، امت کے غلبے اور قوت کا باعث ہے۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، اس کیلیے ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بیوقوف، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا، آپ ﷺ نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شریعت نے جرائم کا علاج جرائم رونما ہونے سے پہلے ہی حکمت، وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، احیائے ضمیر، اور اللہ کا خوف دلوں پیدا کر کے کیا ہے۔
اس دین کی عظمت دیکھیں کہ اس کی طرف سے نافذ کی جانے والی حدود بھی عدل و انصاف پر مبنی ہیں، ہر گناہ اور غلطی کی نوعیت اور حقیقت کے مطابق اس کی سزا مقرر کی۔
چنانچہ شریعت نے جہاں نرمی کی ضرورت تھی وہاں نرمی برتی اور جس جگہ پر سختی کی ضرورت تھی وہاں سختی اپنائی؛ لہذا دعوت و اصلاح کیلیے نرمی اور شفقت بھرا انداز اپنایا، اگر یہ بلا سود ثابت ہوں ؛ انسان سر چڑھتا جائے تو اس کیساتھ سختی بھی اپنائی اور اس بارے میں ایسے اقدامات کیے جو گناہ ترک کرنے اور غلطی تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں اور فسادیوں کی سزا سخت ترین اور عبرتناک بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (المائدة : 33)

جو اللہ تعالی اور رسول اللہ سے اعلان جنگ کریں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا صرف یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔
اور کوئی بھی عقل مند شخص سزا میں سختی کا پہلو کا انکار نہیں کرسکتاشریعت اور عقل دونوں کی یکساں رائے کے مطابق ایسے اعضا کو کاٹ کر جدا کر دیا جاتا ہے جو خرابی کا باعث بنے، فتنہ پرور ہو، ہیجان پرداز ہو، اس کی حرکتوں سے شر انگیزی پھیلے، امن و امان مخدوش ہوں، اور اس کے مزید باقی رہنے سے انفرادی اور معاشرتی نقصانات سامنے آئیں۔
سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہار ہمدردی تو کرتے ہیں لیکن پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ان سزاؤں سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت کا پتہ چلتا ہے؛ کیونکہ یہ سزائیں مفاد عامہ کے حصول اور امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (البقرة : 179)

’’اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘
یعنی ہمہ قسم کی زندگی ہے، چنانچہ معصوم جانوں کو زندگی بخشی اس کیلیے معصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا، املاک کو زندگی بخشی اس کیلیے کسی کا حق غصب کرنے سے روکا، عزت آبرو کو زندگی بخشی کہ ہتک عزت حرام قرار دی۔
حدود شریعت کا حصہ ہیں ان کی وجہ سے ہر شخص کی انفرادی خوشیوں کو تحفظ ملتا ہے، اور پورے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے، لہذا منہج الہی پر چلنے والوں کو حدود اللہ کی وجہ سے مستحکم اور پر سکون زندگی ملتی ہے۔
حدود کی وجہ سے معاشرے کو طیش مزاج لوگوں اور گھٹیا حرکتوں سے تحفظ ملتا ہے، کینہ پرور لوگوں کی دسیسہ کاریوں کیلیے راستے بند ہوتے ہیں، اور انتہا پسند فکر زمین دوز ہوتی ہے، منحرف لوگوں کو راہِ اعتدال ملتی ہے، جس سے خطرات و خدشات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ : پورے معاشرے کیلیے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔
حدود اصل میں جرائم کی جانب مائل لوگوں پر رحمت و شفقت کا اظہار ہیں، حدود کے ذریعے انہیں جرائم سے روکا جاتا ہے، چنانچہ سزا دیکھ کر مجرم اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں، حدود کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کیساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی جرائم سے دور رہنے کا سبق براہِ راست ملتا ہے۔
امت کے حالات قابو میں رکھنے کیلیے حدود کا نفاذ اصل میں مجرموں کے ساتھ رحمت و شفقت ہے، تبھی تو تعمیر و ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، اور بد عنوان و شر انگیز عناصر کو اپنے انجام کا بھی علم ہو گا۔
جن لوگوں کو مجرم کے جرم سے دلی صدمے پہنچے ہوتے ہیں انہیں حدود کے نفاذ سے قلبی سکون ملتا ہے، نیز جرائم سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دہشت کی جگہ امن و سکون سرایت کر جاتا ہے۔
حدود کے نفاذ سے اللہ تعالی کی طرف سے برکت، فضل، اور خیر و بھلائی حاصل ہوتی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الأعراف : 96)

 ’’اگر بستی والے ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیں‘‘
چنانچہ اسی بنا پر ایک عبرتناک فیصلے کے ذریعے تعزیری اور حد کے طور پر شرعی حکم کو نافذ کیا گیا، یہ فیصلہ شرعی عدالت کی جانب سے گمراہ لوگوں کے بارے میں کیا گیا تھا، جن میں تکفیری، دہشت گرد، معصوم جانوں کے قاتلین، اقدام قتل پر ترغیب، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے لوگ شامل تھے، یہ ان کا اپنا فعل تھا جو کہ اس وطن کے سپوتوں کی ترجمانی بالکل نہیں کرتا۔
عجیب و غریب باتیں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رد عمل ظاہر کرنے والے لوگ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے یہ رد عمل فرقہ واریت میں غرق لوگوں کی جانب سے فتنہ پروری کا ایک انداز ہے، وہ ہمارے ملک کی خوشحالی اور استحکام کو مٹانا چاہتے ہیں، حقیقت میں ایسی باتیں کرنے والے ہی دہشت گردی کی بنیاد، منبع اور جڑ ہیں، سادہ لوح لوگوں کو جھوٹے دعووں سے اپنا اسیر بناتے ہیں، جن زرق برق نعروں کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے بڑے زور و شور سے لگاتے ہیں، مزید دسیسہ کاریوں کیلئے کمزور نظریات کے حامل لوگوں کو خرید کر انہی کے معاشروں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
پورا عالم اسلام ان کی فتنہ پرور اور تخریبی کاروائیوں سے بخوبی آگاہ اور واقف ہے، تمام مسلمان ان کی حرکتوں سے نمٹنے کیلیے مکمل طور پر متحد، شانہ بشانہ، اور چاق و چوبند ہیں۔
ہم سیکورٹی فورس اور ملکی حدود کے محافظین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فسادی لوگوں کے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلیے جان جوکھوں میں ڈال کر محنت کی، ان کی تمام منصوبہ بندیوں کو غارت کیا، اللہ تعالی ہمارے اور تمام مسلم ممالک کو اپنی حفاظت میں رکھے، اور انہیں ہمہ قسم کے شر و فساد سے بچائے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:’’جب تم کسی شخص کو متفقہ طور پر اپنا سربراہ تسلیم کر لو اور ایسے میں کوئی آ کر تمہاری متفقہ رائے کو مخدوش کرنا چاہے، یا تم سے الگ ہو کر اتحاد کو سبوتاژ کرے تو اسے قتل کر دو‘‘( مسلم)
آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:’’عنقریب شر و فساد بپا ہوگا، چنانچہ جو شخص پوری امت کے کسی ایک فرد کو اپنا سربراہ ماننے کے وقت پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کر دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو‘‘( مسلم)
اللہ تعالی ہم سب کیلئے قرآن مجید کو با برکت بنائے، مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

عظیم اور ڈھیروں نعمتوں پر تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے، نیز )یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ ﷺ پر، آپ ﷺکی آل، نور و ہدایت کے امام صحابہ کرام پر درود و سلامتی نازل فرمائے ۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
جن لوگوں پر حد نافذ کر دی جائے یا ان سے قصاص لے لیا جائے تو ان کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو غلط الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، آپ ﷺ نے رجم کی جانے والی ایک خاتون کو برا بھلا کہنے پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ڈانٹ پلائی تھی۔
سزا ملنے سے مجرم کا گناہ اسی طرح معاف ہو جاتا ہے، جس طرح توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ: اللہ کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری، زنا اور اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان بازی، اور نیکی کے کاموں میں نا فرمانی نہیں کرو گے، اس بیعت کی پاسداری کرنے والے کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ہے، اور اگر کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کر لے پھر اسے دنیا میں اس کی سزا بھی مل جائے تو یہ اس کیلیے کفارہ ہوگی، اور اگر کسی نے گناہ کا ارتکاب کیا تاہم اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے ‘‘( بخاری و مسلم)
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ ﷺپر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما،یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، اے دعاؤں کے سننے والے!
یا اللہ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، تمام لشکروں کو شکست سے دو چار فرما، محاصرہ کرنے والے ظالموں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! ان کے جتھوں کو تتر بتر فرما، ان میں پھوٹ ڈال دے، یا ارحم الراحمین! تو ہر چیز پر قادر ہے، اور تو ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
اللہ رب العزت مشرکین کی بنائی ہوئی باتوں سے پاک ہے، تمام رسولوں سلامتی نازل ہو، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔

مکہ مکرمہ عظمت ورفعت

مکہ مکرمہ اللہ اور اس کے رسول جناب محمد ﷺ کا محبوب شہر ہے اس مقدس شہر میں اہل ایمان کا قبلہ و کعبہ بیت اللہ شریف ہے جو تمام مسلمانوں کے دل کی دھڑکن اور آنکھوں کا سرور ہے جہاں ہمہ وقت جن و انس اور ملائکہ حمد و طواف میں مصروف رہتے ہیں وہ عظیم گھر کہ جس کی طرف منہ کر کے دنیائے اسلام کے لاکھوں مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اور حج کے موقع پر لاکھوں مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل ہر سال اس جگہ ہو کر مناسک حج کی ادائیگی کرتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کا مسکن بناء مکہ مکرمہ ہی وہ مبارک شہر ہے کہ جہاں نبی آخر الزماں سیدنا محمد ﷺکی ولادت باسعادت ہوئی۔ اسی مقدس شہر میں نبی کریم ﷺ کے سر پر تاج نبوت رکھا گیا، اور اسی مبارک شہر میں ہمارے پیارے نبی مکرم محمد ﷺ پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا اور آسمان سے رشد و ہدایت کے فرمان آتے تھے۔ اسی مقدس شہر میں نبی آخر الزمان محمد ﷺ نے توحید کی شمع جلائی، ظلم و شر، شرک و بت پرستی کی تاریکیوں میں ڈوبی دنیا کو توحید و سنت کے نور سے روشن کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا جھنڈہ بلند کرتے ہوئے یہاں سے اسلام کی عالم گیر تحریک شروع کی جس نے ساری دنیا کو اسلام سے آشنا کیا۔ آج سے چودہ سو سال پہلے نبی کریم ﷺ نے اس شہر میں توحید و سنت کی جو شمع روشن کی تھی اور لالہ الا اللہ کا جو بت شکن نعرہ رستہ خیز لگایا تھا اس کی بازگشت آج بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بلاشبہ اسلامی تحریک کا یہ شہر اولین مرکز ہے۔ بقول شاعر
دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسبان ہیں اس کے وہ پاسبان ہمارا
مکہ مکرمہ اسلامی سطوت و عظمت کا عظیم مظہر ہے۔
مکہ مکرمہ کے بہت سے نام ہیں جو اس کی عظمت و شان اور اس کے بلند مقام کو ظاہر کرتے ہیں بعض اہل علم نے مکہ مکرمہ کے پچاس سے اوپر نام شمار کئے ہیں۔
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے اس شہر کے جو نام بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں۔
مکہ، بکہ، البلد، البدالامین، البلدہ، ام القریٰ، معاد اور المسجدالحرام وغیرہ، مولانا رابع ندوی صاحب اس شہر کے بارے لکھتے ہیں۔
مکہ مکرمہ وادی ابراہیم میں واقع ہے،سطح سمندر سے اس کی بلندی تقریباً ساڑھے تین سو فٹ بتائی جاتی ہے۔ اس کا عرض البلد21درجہ اور طول البلد 39/1/2د رجہ مشرقی ہے۔ ساحل سمندر سے تقریباً پانچ کلو میٹر مشرق میں واقع ہے بکہ، مکہ، ام القریٰ اور البلد الامین اس کے نام ہیں۔ یہ جس وادی میں آباد ہے وہ پتھریلی اور تنگ وادی ہے۔ اس میں شہر مکہ مکرمہ مشرق سے مغرب تک تقریباً کئی میل میں پھیلا ہوا ہے۔ شہر کا عرض بھی دو میل ہے۔ اس کی وادی ابطح اور بطحاء بھی کہلاتی ہے۔ (بطحاء سیلاب کی ہر اس گزرگاہ کو کہتے ہیں جو پہاڑی ہواور جس میں سیلاب کے بعد ریت اور سنگ ریزے چھوٹ جائیں)
مکہ مکرمہ کی یہ وادی دو پہاڑی سلسلوں سے گھری ہوئی ہے جو مغرب سے شروع ہو کر مشرق تک چلے گئے ہی۔ ان میں ایک سلسلہ شمالی ہے اور ایک جنوبی ۔ ان دونوں سلسلوں کو اخشبان کہتے ہیں۔ شمالی سلسلہ جبل الفلق، جبل القعیقعان اور جبل لعلع، پھر کداء پر مشتمل ہے۔ کدا مکہ کے مشرقی حصہ میں واقع ہے جو کہ شہر کا بلند حصہ ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرف سے داخل ہوئے تھے۔ شہر کے جنوب مغربی سرےپر جبل عمر ہے پھر وادی ہے ۔ پھر جبل ابو قبیس، پھر جبل جندمہ ہیں، ان سب پہاڑوں کے دامن اور بعض بعض کی بلندیاں اب عمارتوں سے پُر ہیں۔ شہر کو چاروں طرف سے پتھروں کے ٹیلے یا چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ جو ایک طرح سے ان فصیلوں کا بھی کام دیتی ہیں، حرم شریف کے وسط میں ہے۔ شہر میں پانی کا ایک ہی چشمہ ہے جس کو زم زم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پانی کا کوئی خاص کنواں نہیں ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی زمین میں کچھ کاشت نہیں ہو سکتی۔ اب دو ایک نہریں شہر میں دوسری جگہ سے لائی گئی ہیں۔ ان کی وجہ سے پانی کی سہولت ہو گئی ہے۔ اس کی مدد سے کچھ گھاس اور پودے بھی لگادیئے گئے ہی۔ عہد عباسی ہی میں طائف کے قریب سے یہاں ایک نہر لے آئی گئی ہے، یہ نہر، نہر زبیدہ کہلاتی ہے، یہ عباسی خلیفہ امین کی والدہ زبیدہ نے بنوائی تھی، اور بعد میں اس کو ترقی دی جاتی رہی، اب پانی پہنچانے کے دوسرے ذرائع بھی اختیار کئے گئے ہیں، جن کی وجہ سے اب پانی کی بالکل قلت نہیں رہی مکہ چونکہ ایک وادی میں ہے، اس لیے ایام گذشتہ میں بڑے سیلابوں سے اس میں پانی بھر جایا کرتا تھا، اور حرم شریف میں بہت پانی جمع ہو جاتا تھا، اب حکومت نے معلاۃ سے پہلے ایک بندھ بنا دیا ہے، اور اس کے علاوہ حرم اور حرم کے آگے ایک زمین دوز بڑا نالہ بھی بنا دیا ہے جس میں شہر کا گندا اور سیلاب کا پانی بہہ کر مکہ کے نشیبی حصہ ’’مسفلہ‘‘کی طرف سے نکل جاتا ہے۔
پہاڑوں کے درمیان خصوصی طور پر گھرے ہونے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں گرمی زیادہ اور سردی کم ہوتی ہے۔ شہر کا موسم گرمیوں میں سخت ہوتا ہے اور بارش صرف جاڑوں میں ہوتی ہے، اس کی سالانہ مقدار چار پانچ انچ سے زیادہ نہیں، لہٰذا گرمی کا موسم مارچ سے شروع ہو کر آخر اکتوبر تک رہتا ہے، پہاڑوں سے گھرے ہونے کی وجہ سے موسم سرما میں سردی کم ہوتی ہے۔ ہواؤں میں سب سے بہتر ہوا مغربی ہوا ہوتی ہے، یہ سمندر کی طرف سے آتی ہے، اس کے بعد شمالی ہوا، یہ بھی سمندر کی طرف سے آتی ہے، اور سب سے گرم مشرقی ہوا ہوتی ہے، جو خشک پہاڑوں پر سے گزرتی ہوئی گرم ہو کر آتی ہے، اس سے کم گرم جنوبی ہوا ہوتی ہے،
اس کے پہاڑوں کو تورات میں جبال فاران بتایاگیا ہے، یہ نام غالباً فاران بن عمر و ابن عملیق بادشاہ کی نسبت سے ہوا۔
اس شہرکو آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اہلیہ سیدہ ہاجرہؑ اور اپنے شیر خوار بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو یہاں ٹھہرا کر آباد کیا تھا، اور پھر کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی تھی جب سے یہ شہر قرب و جوار بلکہ ساری دنیا کا مرکز بنا سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی نسلیں یہاں مقیم ہوئیں اور کچھ نسلیں قرب و جوار میں بھی پھیلیں، آخر میں قریش یہاں کے متولی اور باشندے ہوئے، پھر یہیں قریش میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اور آپ نے اپنی عمرکے ترپن سال یہیں گزارے، کعبہ اور کعبہ کی وجہ سے مکہ کی تعظیم اور احترام سارے جزیرۃ العرب میں یکساں طریقہ سے برابر کیا جاتا رہا ہے۔ تمام عرب اسلام سے ڈھائی ہزار سال قبل ہی سے کعبہ کا طواف اور زیارت کرتے رہے ہیں۔
مکہ کی آبادی پہلے صرف خیموں میں رہتی تھی، ہجرت سے صرف دوصدی پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک جد قصی بن کلاب جب شام سے آئے تو ان کے مشورہ سے مکانات بننا شروع ہوئے۔ اور مکہ کے معاشرہ کو اور اس کی اجتماعی اور مذہبی ذمہ داریوں کو منظم کیا گیا، اور ان کو اصلاً قصی بن کلاب ہی نے سنبھالا، اس سے قریش کی اہمیت بڑھی اور یہ ذمہ داریاں ان میںمخصوص ہو گئیں، اسلام کے آنے کے بعد شہر کو برابر ترقی ہوئی، اب یہ اپنے قرب و جوار میں دور دور تک سب سے بڑا اور پورے عالم اسلامی کا سب سے اہم اور مرکزی شہر ہے۔
شہر کا شمال مشرقی حصہ بلند ہے۔ اور معلاۃ کے نام سے موسوم ہے۔ اسی میں شہر کا مشہور اور تاریخی قبرستان ہے جس کو معلاۃکہا جاتاہے۔ یہ المجون سے اور کدا، پہاڑیوں سے متصل ہے، یہاں سے مکہ مکرمہ میں داخلہ مسنون بتایاگیا ہے، عہد اول سے اب تک اسی قبرستان میں اہل مکہ کی تدفین ہوتی رہی ہے، معلاۃ کے بالمقابل شہر کے جنوب مغربی جزء میں شہر کا نشیبی محلہ مسفلہ ہے، معلاۃ سے بہہ کر آنیوالا سیلابی پانی اسی طرف سے باہر جاتا ہے، شہر کا مشرقی حصہ جبل جندمہ پر مشتمل ہے، جس کے دامن میں بنی ہاشم کا خاندان آباد تھا، یہ جبل ابوقبیس کے متصلا شمال میں ہے، شہر کے مغربی حصہ میں جبل عمر اور شمال مغربی حصہ میں مقام کدی ہے، یہاں سے مکہ مکرمہ سے باہر جانا مسنون بتایاگیاہے۔
حرم شریف کے شمالی جانب کے علاقے کو الشامیہ کہا جاتا ہے، اسی کے بالمقابل حرم شریف کے جنوبی علاقہ کا مشہور محلہ جیاد ہے۔ مکہ مکرمہ کا ممتاز محلہ ہے، اسی کے پہلو میں مکہ کا مشہور پہاڑ جبل ابوقبیس ہے، شہر کے تقریباً وسط میں حرم شریف (مسجد حرام) ہے۔
سالنامہ دعوۃ الحق لاہور ایڈیٹر مولانامحمود احمد غضنفر مرحوم جنوری 1992ء نجدوحجاز ایڈیشن ص 12-11-10)
مکہ مکرمہ کے فضائل و مناقب میں ایک آیات قرآنی اور احادیث نبویہ وارد ہوئی ہیں لہٰذا موقع کی مناسبت سے چند ایک کاذکر کیاجاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔

اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّۃَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ(آل عمران96)

’’اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ (شریف) میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت اور ہدایت والا ہے‘‘
اس شہر مکہ شریف کا سفر کرنا اہل ایمان پر فرض قراردیا گیا ہے۔ جو صاحب استطاعت ہوں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے۔

وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ (آل عمران 97)

’’جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اس میں جو آجائے امن والا ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کردیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے) بلکہ) تمام دنیا سے بےپرواہ ہے‘‘
مکہ مکرمہ میں واقع مسجد حرام میں نماز کا اجر بھی دیگر مساجد سے بہت زیادہ ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میری اس مسجد میں (یعنی مسجد نبوی میں) ایک نماز کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار گنا زیادہ اجر رکھتی ہے۔ سوائے مسجد حرام کے (صحیح بخاری 398/1)
ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں۔ میری مسجد (مسجد نبوی شریف) میں نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار گنا زیادہ اجر ہے سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنا کسی دوسری مسجد میں ایک لاکھ نماز سے افضل ہے(ابن ماجہ حدیث نمبر1406)
اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو امن کی جگہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ومن دخلہ کان آمنا۔ اور جواس شہر میں داخل ہو گیا امن میں آ گیا(آل عمران آیت نمبر97)اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
بلا شبہ اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے ہی حرمت والا قرار دیا ہے جب سے زمین و آسمان کی تخلیق ہوئی۔ یہ شہر قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کی وجہ سے حرمت والا رہے گا۔ مجھ سے پہلے اس شہر میں کسی کو قتل و قتال کی اجازت نہیں دی گئی اور میرے لئے بھی بہت تھوڑے وقت کیلئے قتال کی اجازت ہوئی، بس یہ شہر قیامت تک حرمت والاہی رہے گا۔(صحیح بخاری کتاب الحج)
سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْــبٰٓى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا (القصص آیت 57)

 کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی، جہاں ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے رزق ہے۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا تھا بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو حرم قرار دیا۔ اور اہل مکہ کے لئے دعا فرمائی ۔ میں نے مدینہ کو حرم قرار دیا جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ کو اور میں نے مدینہ کے صاع اور مد میں اس سے دوگنی (برکت) کی دعا مانگی ہے جو ابراہیم(علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لئے مانگی تھی۔
(رواہ مسلم باب فضل المدینہ)
اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کوئی شہر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں دجال نہ پہنچے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ اس کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ (حفاظت کے لئے) ہوں گے جو دجال سے حفاظت کریں گے۔ (صحیح بخاری 665/2)
سیدنا عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو حزورہ کے مقام پر کھڑے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مکہ مکرمہ کی طرف مخاطب ہو کر) ارشاد فرمایا۔ ’’اﷲ کی قسم :(اے شہر مکہ کی سرزمین) تو اﷲ کی سب سے اچھی سرزمین ہے اور اﷲ کی سب سے پسندیدہ سرزمین ہے۔ اور اگر مجھے تیرے پاس سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا‘‘(ترمذی)
حزورہ، یہ ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا جہاں پر مکہ کا بازار لگتا تھا۔ یہ جگہ حرم شریف کی پہلی سعودی توسیع میں شامل حرم کر لی گئی تھی۔
مکہ مکرمہ میں ظلم و تشدد کی بھی سخت مذمت اور وعید کی گئی ہے ارشاد باری ہے:

وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ (سورہ الحج آیت 25)

اور جو شخص اس میں (یعنی مکہ میں) کوئی ظلم و الحاد (خلاف دین یعنی کفر و شرک کے) کام کا ارادہ کرے گا ہم اس کو درد ناک عذاب چکھائیں گے‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ بلا شبہ اسلام غربت کی حالت میں تھا، اور پھر غربت ہی کی حالت میں لوٹ آئے گا جیسا کہ شروع میں تھا۔ اور ایمان دونوںمسجدوں کے درمیان سمٹ جائے گا جیسا کہ سانپ اپنے بل (سوراخ) میں واپس آ جاتا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ دونوں مسجدوں سے مراد مکہ کی مسجد(مسجد حرام) اور مدینہ کی مسجد (مسجد نبوی شریف) ہے‘‘

مکہ مکرمہ کی حرمت:

اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو آسمان و زمین کی پیدائش ہی کے دن سے حرمت والا شہر قرار دے دیا تھا جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول فرمان نبوی ہے۔ جسے ہم گذشتہ سطور میں فضائل مکہ مکرمہ کے ضمن میں درج کر چکے ہیں۔
اس شہر کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ یہ شہر قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا۔ اس کے (خودرو) کانٹوں کو نہیں توڑا جائے گا، نہ ہی اس کے شکار کو پریشان کیا جائے گا، اس میں پڑی ہوئی چیز کو کوئی نہ اٹھائے گا سوائے اس کے جو (اس کے مالک تک پہنچانے) اعلان کرنے کی نیت سے اٹھا لے (تو جائز ہے) نہ اس کی تازہ گھاس کو کوئی کاٹے گا۔ (بخاری کتاب الحج 651/2)
اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے اور ان کو حرم کی حدود بتائیں اور ان حدود پر علامتیں نصب کیں۔ (اس کے بعد) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا تمیم بن اسیر خزاعی رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے بعدان حدود کی تجدید کے لئے بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے ان حدود کی تجدید کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد سے مسلم خلفاء و امراء ہر دور میں مکہ مکرمہ کی ہر چہار سمت میں پائی جانے والی ان حدود اور علامتوں کی تجدید کا کام حسب ضرورت کراتے رہے۔ یہاں تک کہ حرم کی حد بندی کے لئے پائے جانے والی ان علامات و نشانیوں کی تعداد تقریباً ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ حرم مکی کے حدود کا دائرہ 127کلو میٹر پر محیط ہے جس کی پیمائش و مساحت 550/300 کلو میٹر ہے) حدود حرم اور مسجد حرام کی درمیانی مسافت نئے راستوں سے اس طرح ہے۔
1مدینہ منورہ روڈ (تنعیم کی سمت) (6,5کلو میٹر)
2جدہ ہائی وے (22کلو میٹر)
3نئے لیث روڈ کی سمت (17کلو میٹر)
4طائف روڈ (طریق سیل کی سمت) (12/850 کلو میٹر)
5طائف روڈ (ہدی کی سمت) (15/50 کلو میٹر)
اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے متعلق بہت سے احکام وابستہ فرمائے ہیں اور ان میں پائے جانے والے شعائر کی تعظیم کو خیر الاعمال فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہے:

ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ (سورہ الحج آیت 30)

 ’’خوب یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کے نام کی لگی چیزوں کا ادب کرے گا۔ رب کے حضور اسے اس کا اچھا ثواب ملنا ہے‘‘

ایک مقام پر فرمایا:

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ(سورہ حج آیت 32)

 ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم بجا لائے تو یہ دل کے تقوی کا نشان ہے‘‘

میقات سے احرام کی پابندی:

حرم مبارک کے تقدس اور اس کی حرمت کے پیش نظر کافروں کے لئے اس شہر مقدس میں داخل ہونے پر بڑی سخت پابندی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کھلے لفظوں میں فرما دیا ہے کہ:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا(توبہ آیت 28)

 ’’اے ایمان والو! یہ مشرکین نجس و ناپاک ہیں، اس سال کے بعد آئندہ یہ لوگ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں‘‘
جو شخص حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کرے اس کے لئے لازم ہے کہ وہ جس سمت سے مکہ مکرمہ جا رہا ہے۔ اس سمت میں واقع میقات سے احرام باندھے۔ مشہور میقاتین درج ذیل ہیں۔

1ذوالحلیفہ :

 یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔ ابیار علی کے مقام پر ہے مکہ مکرمہ سے اس کی دوری تقریباً چار سو کلو میٹر ہے اور مسجد نبوی سے اس کا فاصلہ بارہ کلو میٹر ہے۔

2حجفہ :

یہ اہل شام و مصر اور ترکی والوں کی میقات ہے۔ نیز یہی میقاب ان لوگوں کی بھی ہے جو اس سمت سے آنے والے ہوں۔ جحفہ کی آبادی کے آثار ختم ہو چکے ہیں۔ آج کل بالعموم رابغ سے لوگ احرام باندھتے ہیں، رابغ کی دوری مکہ مکرمہ سے 183 کلو میٹر ہے۔

3قرن منازل :

 یہ میقات اہل نجد اور اس سمت سے آنے والوں کی ہے۔ آب سیل کے نام سے معروف ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 75 کلو میٹر ہے۔ وادی محرم اس کے محاذات میں واقع ہے۔

4ذات عرق:

 یہ اہل عراق اور اس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 90کلو میٹر ہے۔ اس کے آثار مٹ چکے ہیں، اب اس کے مقابل ایک مقام فربیہ ہے وہاں سے احرام باندھا جاتا ہے۔

5یلملم:

 یہ اہل یمن اور اس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مکہ مکرمہ سے اس کی مسافت 92 کلو میٹر ہے۔ اب یہ جگہ سعدیہ کے نام سے معروف ہے۔ (بحوالہ مکہ مکرمہ ماضی و حال کے آئینہ میں از محمود محمد حمو)
مکہ مکرمہ کی اس قدر عزت و عظمت اور حرمت کے باوجود بعض ایسے بھی بدبخت گزرے ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ کی حرمت کو بالائے طاق رکھ کر اس شہر کے تقدس کو پامال کیا، بیت اللہ شریف میں قتل و غارت گری کی کوشش کی اور اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے اللہ کے گھر کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہ کیا۔ آج کے دور میں جو لوگ مکہ مکرمہ پر چڑھائی اور قبضے کے بارے سوچ رہے ہیں ان کو ابرہہ کا انجام سامنے رکھنا چاہئے ۔ تاریخ وسیر کی کتابوں میںلکھا ہے کہ:’’ ابرہہ صباح حبشی نے (جو نجاشی بادشاہ حبش کی طرف سے یمن کا گورنر جنرل تھا) جب دیکھا کہ اہل عرب خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں تو صنعاء میں ایک بہت بڑا کلیسا تعمیر کیا۔ اور چاہا کہ عرب کا حج اسی کی طرف پھیر دے مگر جب اس کی خبر بنو کنانہ کے ایک قبلے پر گندگی پوت دی۔ ابرہہ کو پتا چلا تو سخت برہم ہوا۔ اور ساٹھ ہزار کا ایک لشکر جرار لے کر کعبے کو ڈھانے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ایک زبردست ہاتھی بھی منتخب کیا۔ لشکر میں کل نویا تیرہ ہاتھی تھے۔ ابرہہ یمن سے یلغار کرتا ہوا مغمس پہنچا اور وہاں اپنے لشکر کو ترتیب دے کر اور ہاتھی کو تیار کر کے مکے میں داخلے کے لئے چل پڑا جب مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محسر میں پہنچا تو ہاتھی بیٹھ گیا اور کعبے کی طرف بڑھنے کے لئے کسی طرح نہ اٹھا۔ اس کا رخ شمالی جنوب یا مشرق کی طرف کیا جاتا تو اٹھ کر دوڑنے لگتا، لیکن کعبے کی طرف کیا جاتا تو بیٹھ جاتا۔ اسی دوران اللہ نے چڑیوں کا ایک جھنڈ بھیج دیا جس نے لشکر پر ٹھیکری جیسے پتھر گرائے اور اللہ نے اسی سے انہیں کھائے ہوئے بھُس کی طرح بنا دیا۔ یہ چڑیاں ابابیل اور قمری جیسی تھیں، ہر چڑیا کے پاس تین تین کنکریاں تھیں، ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں کنکریاں چنے جیسی تھیں، مگر جس کسی کو لگ جاتی تھیں، اس کے اعضاء کتنا شروع ہو جاتے تھے اور وہ مر جاتا تھا۔ یہ کنکریاں ہر آدمی کو نہیں لگی تھیں، لیکن لشکر میں ایسی بھگدڑ مچی کہ ہر شخص دوسرے کو روندتا، کچلتا، گرتا پڑتا بھاگ رہا تھا۔ پھر بھاگنے والے ہر راہ پر گر رہے تھے اور ہر چشمے پر مر رہے تھے۔ ادھر ابرہہ پر اللہ نے ایسی آفت بھیجی کہ اس کی انگلیوں کے پور جھڑ گئے اور صنعاء پہنچتے پہنچتے چوزے جیسا ہو گیا۔ پھر اس کا سینہ پھٹ گیا، دل باہر نکل آیا اور وہ مر گیا۔ (الرحیق المختوم ص 96-95) اس واقعہ کے بعد دنیا کی نگاہیں خانہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئیں کیونکہ انہیں بیت اللہ شریف کی عظمت کا واضح نشان مل گیا تھا اور یہ بات ان کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ اس مقدس گھر کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقدس کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور ہر دور میں وہ اس کے تقدس کی حفاظت خود فرمائے گا۔

تصویر کشی ایک گھناؤنا جرم جسے بہت ارزاں سمجھ لیا گیاہے

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’  آپ پر جو بھی زمانہ آئے اس کے بعد والا اس سے شراور برائی  میں بڑھ کر ہوگا ‘‘ اس کی حرف بحرف تفسیر واضح ہوچکی ہے ۔ نیزیہ  حقانیت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ شریعت جس چیز سے روکتی ہے اس میں معاشرے کی عفت ، عزت ، جان ، ومال اور دین کی سلامتی کی گارنٹی ہوتی ہے ۔ مگرحضرت انسان کب مانے ان شرعی حدود وقیود کو! ضرورتوں مصلحتوں اور حاجتوں کے بھونڈے سہاروں سے اس نے بہت کچھ جو ناجائز تھا اسے جائز کر لیا ہے ۔ انہی معاملات میں ایک معاملہ تصویر کشی کا بھی ہے ۔ اسلام نے تصویر کو قطعی طور پر حرام قرار دیاہے ، اور اس کی حرمت کے حوالے سے قطعی نصوص صحیح بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں بکثرت موجود ہیں ۔ ان نصوص میں محض تصویر کی حرمت کا ذکر نہیں بلکہ تصویر کشی سے پیدا ہونے والےاس ناسور کا بھی ذکر ہے جس میں وضاحت سے بیان کیا گیاہے کہ اگر امت اس گھناؤنے جرم میں مبتلا ہوگئی تو یہ ایک کینسر ہے جو معاشرے کی رگ رگ میں پھیل جائے گا اور بالآخر معاشرہ لا علاج ہوجائے گا ۔ شرعی نصوص میں تصویر کشی کی جو قباحتیں بیان ہوئی ہیں ان میں چند ایک ملاحظہ ہوں ۔
۱ :’’ تصویر بنانے والوں کو سب سے سخت ترین عذاب دیا جائے گا ‘‘ (بخاری ومسلم )
۲: ’’ تصویر بنانے والےاللہ تعالیٰ کی صفت خلق میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں ‘‘ ۔ ( ایضا )
۳ : ’’ ایسے لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں ‘‘( بخاری مسلم احمد)
۴ : ’’ تصاویر بنانے والوں کو روز قیامت حکم ہوگا کہ جو بنایا ہے اس میں روح ڈالو لیکن وہ ایسا نہ کرسکیں گے ‘‘  (بخاری ،ومسلم اصحاب السنن )
۵: رسول اللہ ﷺ تصاویر سے سخت نفرت کرتے تھے اس گھر میں داخل نہ ہوتے جہاں تصاویر پائی جاتیں ۔ امام بخاری ومسلم اور اصحاب سنن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصاویر تھیں ، جب نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے ، سیدہ عائشہ فرماتی ہیں میں نے ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار محسوس کرلئے تو کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ’’ میں اللہ اور اس کے رسول کے حضور توبہ کرتی ہوں میں نے کیا گناہ کیاہے ؟ آپ نے فرمایا : اس تکیہ کا کیا ماجرا ہے ؟ میں کہنے لگی :’’ میں نے اسے آپ کیلئے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا’’ یہ تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا ، اور انہیں کہا جائے گا ’’اسے زندہ کرو جو تم نے پیدا کیا اور بنایا ہے ۔ ‘‘
۶ : ’’ اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوتی ہیں ‘‘۔(بخاری ومسلم )
۷ : ’’ تصویریں بنانے والے دنیا کی سب سے بدترین مخلوق ہیں ‘‘۔ ( بخاری ومسلم ، نسائی )
۸ : تصویروں کو مٹانے اور توڑنے کیلئے رسول اللہ ﷺ نےقاصد روانہ کئے ‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابی ھیاج الاسدی سے کہا کیا میں تمہیں اس مشن پر روانہ نہ کروں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے روانہ کیا تھا ۔ کہ کسی تصویر کو نہ چھوڑنا کہ اسے مٹادینا اور کسی قبر کو جو زمین سے بلند ہو اسے زمین کے برابر کردینا ۔‘‘ ( صحیح مسلم )
۹ : ’’ اللہ تعالیٰ نے تصویر بنانے والوں پر لعنت کی ہے ‘‘۔
۱۰ : روز قیامت جہنم سے ایک گردن نکلے گی جس کا مقصد تین قسم کے افراد ہوں گے ۔ جن میں ایک تصویر کشی والا بھی ہوگا ۔( سنن ترمذی )
انسانی وجود کے رونگٹے کھڑے کردینے والی وعید پر مشتمل ان نصوص کے باوجود جب انسان عجیب وغریب تأویلات کے ذریعے تصویر کو جائز قرار دے اور معاشرے میں اس کے رواج کا باعث بنےتو یہ کتنی ہی لا پرواہی کی بات ہے  ۔
اگر اسی امر کا جائزہ ایک دوسرےپہلوسے لیا جائے اور دیکھا جائے کہ جن علل اور وجوہات کی بنا پر تصویر حرام کی گئی ہے ۔کیا یہ علتین اور وجوہات فوٹوگرافی میں بھی پائی جاتی ہیں یا نہیں ۔ ویسے تو مسلمان کسی شرعی نص جس میں تحریم کی وضاحت آگئی ہو اتنا زیادہ علل وحکمتوں پر زور نہیں دیتا لیکنلیطمئن قلبیکے ضابطے کے تحت ان حکمتوں پر نظر ڈالتے ہیں ۔
پہلی علت :مضاھاۃ خلق اللہ
اللہ تعالیٰ کی صفت خالق میں مشابہت اختیار کرنے کی سعی جیسا کہ روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نےبیان فرمایا کہ کون ہے بدبخت جو مجھ جیسی مخلوق بناتاہے ۔ اب ایک عاقل غور کرے کیا مضاہاۃ خلق اللہ فوٹو گرافری میں  نہیں پائی جاتی جبکہ فرق محض آلہ اور ہاتھ کا ہوتاہے ۔
دوسری علت : شرک کے پھیلنے کا خدشہ
جیساکہ قوم نوح کی بابت وارد ہوا کہ ان میں شرک انہی تصویروں کی وجہ سے شروع ہوا یہی خدشہ آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے ۔
تیسری علت : وثنیت اور مظاہر شرک سے امت محمدیہ کو دور رکھنا
جیسا کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ کی روایت میں مذکور ہے کہ جب وہ حبشہ مین ایک کلیسا میں داخل ہوئیں تو وہاں تصویریں اور تماثیل پائیں۔ اور سابقہ امتوں میں شرک اسی تصویر سازی کے ذریعے داخل ہوا تھا۔ اسلام نے یہ چاہا کہ اس کا راستہ بند کردیا جائے۔
چوتھی علت:
اس میں مشرکین سے مشابہت ہے۔ تصاویر بنانا اہل شرک کا وطیرہ ہوا کرتا تھا اور آج بھی ہے ۔
پانچویں علت :
اس میں اسراف اور فضول خرچی کا پہلو پایا جاتاہے ۔ جوکہ کیمرہ سے حاصل کردہ تصاویر میں بدرجہ اتم موجود ہوتاہے ۔ آج کی دنیا میں دیکھیں کہ کیمروں کی قیمت ہزاروں سے لاکھوں میں جا چکی ہے ۔ مہنگی ترین موبائلز کی مہنگائی کی بنیادی وجہ یہی کیمرے اور ان میں موجود تصویری صلاحیت ہے ۔
یہ سرداً چند علتیں ہیں اگر انہیں ملحوظ رکھ لیا جائے تو اس فقہی قاعدہ ’’الحکم یدور مع علتہ وجودا وعدما‘‘
’’حکم وجود وعدم کے اعتبار سے اپنی علت کے گرد گھومتا ہے‘‘ کے مطابق بھی کیمرہ کی آنکھ سے لی گئی تصاویر حرام ٹہرتی ہیں ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ :
کیا کیمرےوالی تصاویر حرمت میں اس حکم میں داخل ہیں
بعض اہل علم نے اس بحث کا بالخصوص تذکرہ کیا ہے کہ فوٹو گرافری کی تصاویر اس حکم میں داخل نہیں جس کی وہ درج ذیل توضیحات بیان کرتے ہیں ۔
۱ :ایک روایت پر اعتماد ہے جس میں ہے ’’الا رقما فی الثوب‘‘کہ کپڑے پر چند نقش کو جائز قرار دیا گیاہے ۔
۲ : یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس میں مضاہاۃ خلق اللہ بھی نہیں پائی جاتی اس لئے جائز ہے ۔
۳ : اس کی مثل ایک سایہ کی ہے ۔ جیسا کہ انسان آئینہ میں اپنی شکل دیکھتاہے ۔
یہ اور اس طرح کے چندکمزور اعتراضات اور حیل وحجت بیان کرکےکیمرے کی تصویر کو اس سے مستثنی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن اگر حقیقت حال کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ استدلال کئی ایک وجوہات کی بنا پر درست نہیں ۔
اول : فوٹو گرافی کی تصویر کو مسمی تصویر سے نہیں نکال سکتے  کیونکہ اسے بھی تصویر ہی کہا جاتاہے اور اسے کھینچنے والے کو بھی مصور ہی کہا جاتاہے ۔
اگرچہ یہ حرمت میں دیگر تصاویر سے کچھ درجہ کم ہوگی لیکن یہ چیز اسے حد حرمت سے نہیں نکال سکتی ۔ اور اگر جواز کی صورت ہے بھی تو وہ انتہائی اشد ضرورت کی صورت میں جیساکہ ضروری دستاویزات کے استعمال میں ہوتاہے۔
دوم : ہاتھ سے بنائی جانے والی تصویر سے زیادہ مفاسد فوٹوگرافری کی تصویر میں موجود ہیں جس پر ذیل میں مختصر نظر ڈالی جاتی ہے ۔
تصویر سے پیداہونے والے مفاسد :
۱: نسل نو کی تباہی کی ذمہ دار تصویر ہی ہے چاہے وہ ویڈیوز کی صورت میں ہو یا فوٹوز کی صورت میں۔ نوجوان نسل کو بے راہ روی پر گامزن کرنے والی، ان میں بے حیائی اور بدفعلی کے جذبات کو برانگیختہ کرنے والی اور اشتعال پیدا کرنے والی یہی تصویر سازی ہی ہے ۔
۲: اخلاق اور دین کی تباہی اسی تصویر سازی کے ذریعے ہوتی ہے ۔
۳ : وثنیت اور بت پرستی اور شرک کا ذریعہ بھی تصویر ہی ہے ۔ بالکل وہی طریقہ کار ہے جیسا کہ سابقہ امتوں میں ہوتا تھا کہ کسی قوم میں اگر ان کا ایک بزرگ اور نیک ہستی فوت ہوجاتی تو اس کی تصاویر بنالیتے پھر انہی تصاویر کی بعد ازاں پرستش شروع ہوجاتی ۔ آج کے دور میں بھی دیکھ لیجئے پیر پرستی کے جال میں پھنسے لوگ اپنے پیروں کی تصاویر جیب میں رکھتے ہیں اپنے موبائلز میں رکھتے ہیں ۔ حتی کہ ہم نے حرم مکہ ومدینہ میں مشاہدہ کیا کہ لوگ دوران عبادت اپنے پیروں کی تصاویر لئے ان سے عقیدت کا اظہار کرتے پائے گئے ۔
۴: عزتوں اور عفتوں کی تباہی کا باعث ہے ۔
آئے روز اخبارات میں کتنے حادثات وواقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ خواتین کو جعلی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کیا گیا ۔ عزتیں لوٹی گئیں ۔ قتل ہوگئے ۔ ہمارا معاشرتی نظام شکست وریخت کا شکار ہوگیا محض اس تصویر کشی کے باعث
۵ : عبادات کا ضیاع اور ریاکاری کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔  حاجی اتنا مال ومتاع خرچ کرکے مکہ مکرمہ جاتاہے اور وہاں عبادت کے دوران بھی سیلفی میں مشغول ومگن رہتاہے ۔ دورانِ طواف جو وقت ذکر واذکار وتسبیح کا ہے وہ سیلفی میں گذرتاہے ۔ اب اگر یہ ریاکاری نہیں تو کیا ہے ؟
۶ : اس فعل محرم کا ارتکاب اب بیوت اللہ میں ہونے لگا ہے ۔ اب مساجد میں بے دریغ تصاویر بنائی جاتی ہیں  کوئی روکنے والا نہیں ۔
۷ : معصیت انسان کے ساتھ ہر لمحہ مصاحب ہے۔ نماز میں ہے تو اس کی جیب میں تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں بےشماریو کلپ موجود ہیں۔ اگر چل رہا ہے تو اس میں مشغول، لیٹاہے تو اسی شغل میں لگا ہے ، بیٹھا ہے تو بھی وہی حال ہے ۔ الحفیظ والامان
۸ : لوگ ان تصاویر کو گھروں میں آویزاں کرتے ہیں ۔
۹ : غم کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ شریعت کا ایک مقصد یہ ہے انسان غم کو بھلا دے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے ’’جو ہاتھ سے نکل جائے اس پر غم زدہ نہ ہو ‘‘  اسلام کا مقصد ہے انسان غم کو بھلا دے اور قضائے الٰہی پر راضی رہے ۔ اور اس غم کے احیاء کے تمام ذرائع ختم کردئے گئے اس لئے تین دن سے زیادہ افسوس اور غم منانے سے منع کیا گیا
لیکن آج اگر  ایک انسان کا بیٹا فوت ہوتاہے تو اس کے باپ کے پاس اس کی تصویروں کے ڈھیر سارے البم موجود ہوتے ہیں  باپ ، ماں یا دیگر رشتہ دار جب ان تصویروں کو دیکھتے ہیں تو ان کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوجاتے ہیں۔ کیا یہ مصاحبتِ غم مقاصد شریعت کے خلاف نہیں ؟
۱۰ : تصویر غلو اور غیراللہ کی تعظیم کا باعث ہے ۔
۱۱: اسراف اور تبذیر کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے ۔
۱۲ : التشبہ بالکفار ومشرکین ہے ۔
ان تمام مفاسد کو اگر سامنے رکھا جائے تو دل اسی چیز پر مائل ہوتاہے ۔تصویر کشی ایک ناسور ہے جس سے جان چھڑائے بغیر معاشرے کی اصلاح بہت مشکل نظر آتی ہے۔
یہ عجلت میں چند صفحات لکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ان شاء اللہ آئندہ کسی موقع پر اس موضوع پر مفصل تحریر لکھی جائے گی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے ۔

لباس سے متعلقہ احکام و مسائل

وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِكَ خَیْرٌ (الاعراف:26)

”اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر ہے۔“

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعدفاعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ(الاعراف:31)

” اے بنی آدم! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ اور کھاؤ، پیو لیکن اسراف نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
لباس کا معنی ومفہوم!
لباس عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کی جمع اَلْبِسَہ ہے۔ لباس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :

’’ھو ما یستر البدن ویدفع الحر و البردولباس کل شئ غشا ؤہ واللبوس بفتح اللام ما یلبس‘‘

”لباس وہ چیز ہے جو بدن کو چھپاتی ہے اور اسے گرمی وسردی سے محفوظ رکھتی ہے ۔اور ہر چیز کا لباس وہ چیز ہوتی ہے جو اسے ڈھانپ لے ۔اور لَبُوْس اس چیز کو کہتے ہیں جسے پہنا جاتا ہے“(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ:6/128)
لباس کا حکم!
لباس حکم کے اعتبار سے اہل علم نے لباس کی پانچ اقسام ذکر فرمائی ہیں :

فرض:

 اتنالباس پہننا فرض ہے جو سترڈھانپ لے ۔

مستحب:

 زیب وزینت کی غرض سے عمدہ لباس پہننا بالخصوص جمعہ وعید ین کے لئے،مستحب ہے ۔

جائز:

جس لباس کی شریعت نے نہ تو ترغیب دلائی ہے اورنہ ہی اس سے منع کیا ہے اسے پہننا جائزہے ۔

مکروہ:

ایساعمدہ وقیمتی لباس جو تکبر کا ذریعہ بنے مکروہ ہے ۔

حرام:

تکبرکی غرض سے پہنا جانے والا لباس،اسی طرح مردوں کے لئے ریشمی لباس وغیرہ حرام ہے ۔
لباس کی اہمیت وضرورت!
ارشاد باری تعالی ہے۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَـمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ يَنْزِعُ عَنْہُمَا لِبَاسَہُمَا لِيُرِيَہُمَا سَوْاٰتِہِمَااِنَّہٗ يَرٰىكُمْ ہُوَوَقَبِيْلُہٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَہُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ(الاعراف27)

 ”اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اوران سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔“
لباس کی غرض وغایت!
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًاوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (الاعراف26)

”اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت بھی ہے اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ ںکی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں۔“
ستر پوشی کا وجوب!
سیدنامسوربن مخرمہ ؄بیان کرتے ہیں کہ میں (ایک بار) ایک بھاری پتھر اٹھائے چلا جارہا تھا کہ میرا کپڑا گرگیا تو رسو ل اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:

خذ علیك ثوبک ولا تمشوا عراۃ(مسلم: 341)

 ”اپنے اوپر کپڑا لے لو اور برہنہ حالت میں مت چلو۔“
اچھا لباس کون سا ہے ؟
سیدنا ابن عباس ؄سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :

البسوا من ثیابکم البیاض فانھا من خیر ثیابکم وکفنوافیھاموتاکم(ابوداؤد:3284کتاب الطب)

 ”سفید کپڑے پہنویہی سب سے اچھے کپڑے ہیں اپنی اموات کو بھی اسی میں کفن دیا کرو ۔“
شلوارقمیص پسندیدہ لباس ہے!
سیدہ اُم سلمہ ؅بیان کرتی ہیں کہ

کان احب الثیاب الی رسول اللہﷺ  القمیص

”رسول اللہﷺ کو تمام کپڑوں میں سے قمیص زیادہ پسندتھی ۔“(ابوداؤد:4025کتاب اللباس)
لباس پہنتے وقت دائیں جانب کا لحاظ رکھنا!
ہر معاملے کی طرح لباس پہنتے وقت بھی دائیں اطراف کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔جیسا کہ سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:

کان رسول اللہﷺ اذالبس قمیصا بدا بمیا منہ

”رسول اللہ ﷺ جب قمیص پہنتے تو دائیں جانب سے آغاز کرتے ۔“(ترمذی:1766)
کسی محتاج کو لباس پہنانے کی فضلیت!
سیدناعمرفاروق؄سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

افضل الاعمال ادخال السرور علی المؤمن، کسوت عورتہ، اواشبعت جوعتہ،او قضیت لہ حاجتہ

”سب سے افضل عمل کسی مومن کو خوشی پہنچانا ہے (مثلاً)تم اس کے ستر کو ڈھانپ دو (یعنی اسے لباس پہنادو)یا اس کی بھوک مٹادو،یا اس کی ضرورت پوری کردو۔
عریاں لباس ممنوع ہے!
سیدہ اُم سلمہ؅ کا بیان ہے کہ:

استیقظ النبی ﷺ من اللیل وھویقول :لا الہ الااللہ ماذا اُنزل اللیلۃ من الفتن ؟ ماذا انزل من الخزائن ؟من یوقظ صواحب

الحجرات؟کم من کاسیۃ فی الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ ؟(مسلم:2128)
” نبی کریم ﷺ رات کے وقت بیدار ہوئے اور کہااللہ کے سواکوئی معبودنہیں،کیسی کیسی بلائیں اس رات میں نازل ہورہی ہیں اور کیا کیا رحمتیں اس کے خزانوں سے اتررہی ہیں ۔کوئی ہے جو ان حجرہ والیوں کو بیدار کردے۔ دیکھوبہت سی دنیا میں لباس پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی (یعنی جو عورتیں باریک کپڑے پہن کر غیروں کو اپنا جسم دکھاتی پھر تی ہیں انہیں روزِ قیامت یہ سزا دی جائے گی کہ وہ ساری مخلوق کے سامنے ننگی ہوں گی‘‘
تکبر کا لباس ممنوع ہے !
ایسا قیمتی وخوبصورت لباس جو محض لوگوں کودکھانے اور انہیں حقیر ظاہر کرنے کی غرض سے پہنا جائے،حرام ہے کیونکہ فخر و تکبر نہ صرف حرام اور کبیرہ گناہ ہے بلکہ جہنم میں داخلے کا موجب بھی ہے ۔چنانچہ فرمانِ نبوی ﷺہے کہ
بینما رجل یمشی فی حلۃ تعجبہ نفسہ،مرجل جمتہ، اذ خسف اللہ بہ فھو یتجلجل الی یوم القیامۃ
”ایک شخص ایک (قیمتی) لباس زیب ِ تن کرکے،تکبر وغرو ر میں سرمست،سرکے بالوں میں کنگھی کئے ہوئے اکڑکر اتراتا ہو اجارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک اس میں تڑپتارہے گا یا دھنستا چلاچائے گا۔“(مسلم: 2022)
لباس میں اسراف اور بخیلی ممنوع ہے !
عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

کلوا واشربوا وتصدقوا والبسوامالم یخالطہ اسراف اور مخیلۃ(ابن ماجہ:3605)

”کھاؤ، پئو، صدقہ کرو اور لباس پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی ) اور تکبر سے بچو “
لباس میں عاجزی وانکساری اختیار کرنا!
سیدنا سہل بن معاذ بن انس الجہنی ؄سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَكَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا لِلَّهِ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلاَئِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الإِيمَانِ شَاءَ يَلْبَسُهَا.
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ(.سنن الترمذي ت بشار (4/ 231)

 ”جس شخص نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتے ہوئے (خوبصورت ) لباس چھوڑ دیا اور وہ اس کی طاقت بھی رکھتا تھا تواللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن تمام مخلوقات کے سامنے بلائیں گے،حتیٰ کہ اسے اختیار دیں گے کہ وہ ایمان کے لباسوں میں سے جسے چاہے پہن لے ۔“

تصاویر والا لباس ممنوع ہے!
سیدہ عائشہ ؅بیان کرتی ہیں کہ

دخل علی رسول اللہﷺ وانا متسترۃ بقرام فیہ صورۃ فتلون وجھہ ثم تناول الستر فھتکہ ثم قال :ان من اشد الناس عذابا یوم القیامۃ الذین یشبھون بخلق اللہ(مسلم:2107کتاب اللباس)

”رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے،میں نے گھر میں ایک تصویر والا پر دہ لٹکا یا ہواتھا،اسے دیکھ کررسول اللہﷺ کا چہرہ تبدیل ہوگیا، پھر آپ ﷺ نے اس پر دے کو پکڑا اور پھاڑ دیا اورپھر فرمایا ”یقینا روز قیامت سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی تخلیق میں ا س کی مشابہت کرتے ہیں “
درندوں کے چمڑوں کا لباس ممنوع ہے !
سیدناابوملیح بن اسامہ؄ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :

ان رسول اللہﷺ نھی عن جلود السباع

”رسول اللہﷺ نے درندوں کی کھالیں استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے “(ابوداؤد:4132 کتاب اللباس)
مردوں کیلئے ریشمی لباس ممنوع ہے!
سیدنا ابومالک اشعری ؄کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف “(بخاری:5590کتاب الاشربۃ)
”عنقریب میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا کاری،ریشم پہننا،شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے(یعنی یہ تمام اعمال حرام ہیں لیکن وہ انہیں حلال سمجھ لیں گے )
مردوں کیلئے زردسرخی مائل (زعفرانی) رنگ کا لباس ممنوع ہے !
سیدنا عبداللہ بن عمرو ؄سے روایت ہے کہ

رای رسول اللہ ﷺ علی ثوبین معصفرین فقال:ان ھذہ من ثیاب الکفا ر فلا تلبسھا

”رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر دوسرخ (زردسرخی مائل) رنگ کے کپڑے دیکھے تو فرمایا ”یہ کفار کے کپڑے ہیں لہٰذا انہیں مت پہنو۔“(مسلم:2077کتاب اللباس)
مردوں اور عورتوں کا باہمی مشابہت والا لباس ممنوع ہے!
سیدناابو ہریرہ ؄ کا بیان ہے کہ

لعن رسول اللہﷺ الرجل یلبس لبسۃ المراۃ والمراۃ تلبس لبسۃ الرجل(ابن ماجہ:1903)

 ”عورت جیسا لباس پہننے والے مرد اور مرد جیسا لباس پہننے والی عورت پر رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔“
احتباء اور اشتمال صمّاء ممنوع ہے !
سیدنا ابو ہریرہ؄ فرماتے ہیں کہ:

نھی رسول اللہﷺ عن لبستین :ان یحتبی الرجل فی الثوب الواحد لیس علی فرجہ منہ شیء وان یشتم بالثوب الواحدلیس علی احد شقیہ

”نبی کریم ﷺنے دو طرح کا لباس پہننے سے منع فرمایا ہے، (ایک)یہ کہ کوئی شخص ایک ہی کپڑے سے اپنی کمراور پنڈلی کو ملا کر باندھ لے اور شرمگاہ پر کوئی دوسراکپڑانہ ہو اور (دوسرا)یہ کہ کوئی شخص ایک کپڑے کو اس طرح جسم پر لپیٹے کہ ایک طرف کپڑے کا کوئی حصہ نہ ہو (یعنی اس کا ایک پہلو ننگا ہوجائے )۔“
(بخاری:368کتاب الصلاۃ)
مردوں کیلئے شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ممنوع ہے !
سیدناابو ہریرہ ؄ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ما اسفل من الکعبین من الإزار ففی النار

”تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا ۔“
(بخاری :5787کتاب اللباس)

کامیاب محبت کا راز

وَالحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (صحيح البخاري (1/ 11)

محبت اس جذبے کا نام ہے کہ ہر جاندار جس کا متلاشی نظر آتا ہے البتہ انسان کے اندر اس جذبے کا شعور دیگر مخلوقات کی نسبت کچھ زیادہ ہے کیونکہ انسان کو اس کی ضرورت بھی زیادہ ہے محبت سے خالی دل ایسا ہی ہے جیسے جڑکٹا درخت جو نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کچھ لے سکتا ہے، محبت اصل میں ایثار اور قربانی کا نام ہے، بد قسمتی سے اغیار کی تقلید سے ہمارے معاشر ے میں محبت جیسے مقدس جذبے کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے آج بازاری سوچ کو بے حیائی کا جامہ پہنانے کا نام محبت رکھ دیا گیا ہے اور اس محبت کے اظہار کے لیے جس واقعے کو بنیاد بناکر جس دن کو مخصو ص کیا گیا ہے وہ خود اس کی خرابی کا پتہ دیتاہے اور خرابی تو ہوگی کیونکہ ببول کے درخت پر کبھی گلاب کے پھول نہیں کھل سکتے۔

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت:

مغربی شناخت کا حامل ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ اب ’’یوم محبت‘‘ نام کے نام کی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام کے اندر بے حیائی کے مرض کو پھیلانے کا سبب بننے والے واقعے کی حقیقت کے بارے میں وہ لوگ بھی کوئی باوثوق دعویٰ نہیں کر سکتے جو اس کے موجد ہیں اور مناتے ہیں اور جن سے اس لعنت کو امت مسلمہ نے مستعار لیا ہےلیکن جو زیادہ مشہور بات بیان کی جاتی ہےوہ یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ’’ویلنٹائن‘‘ نامی ایک رومن پادری کو ایک راہبہ سے عشق ہوگیا اب عیسائیت کے فطرت سے متصادم قوانین کے نتیجے میں راہب اور راہبہ شادی نہیں کرسکتے تھے ۔ سو راہب اور راہبہ شادی تو نہ کرسکے مگر کلیسا میں بیٹھ کربے حیائی کے مرتکب ہوئے جس کی پاداش میں دونوں کو قتل کردیا گیا بعض لوگ کہتےہیں کہ ویلنٹائن نامی پادری ان فوجیوں کی خفیہ شادیاں کرواتاتھا جن کو شادی کی اجازت نہ تھی لہٰذا اس کو قتل کردیا گیا بہر حال ا س کے قتل کے بعد اس کو ’’شہید محبت‘‘ کا لقب دیا گیا اور 14 فروری کو اس کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن یہود ونصاری کی مشابہت اور متابعت کے شوقین نام کے مسلمانوں نے اس کو اپنانا شروع کردیا یوں

ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ(النور: 40)

’’اندھیروں پر اندھیرا‘‘
کے مصداق صہیونوں کے ذرخرید غلام ہمارا الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کے لیے مہمیز کا کام کیا اور اس دن کو تقدس کا جامہ پہنا کر اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ ایک عام آدمی اس قسم کی محبت کے اظہار کو نظر استحسان سے دیکھنے لگااور یہ بھول گیا کہ پیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا :

 مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبي داود (4/ 44)

’’جو جس قوم سے مشابہت اختیا ر کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا‘‘
اصحاب العقول خود فیصلہ کریں کہ وہ دین اسلام جو امہات المومنین سیدہ خدیجہ، عائشہ، اور حفصہ رضی اللہ عنہن اجمعین کی بیٹیوں کو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک پردے کا حکم دیتاہے وہ کس طرح یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے ماننے والے بے حیائی اور محاشی کا ارتکاب کرتے ہوئے اوروں کی عزتوں سے سر عام کھیلتے ہوئے حوا کی بیٹیوں کو سر بازار گلدستے پیش کرتے پھریں،اقبال نے شاید انہی لوگوں کے متعلق کہاتھا؎
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟

دین اسلام میں تصور محبت:

قطع نظر ویلنٹائن ڈے کی ابتداء اور حقیقت کے اگر ہم دین اسلام کے عمومی مزاج پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اخوت، مساوات اور محبت کا نام بلکہ دین اسلام کی عمارت کی بنیاد ہی محبت ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے

وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ(آل عمران: 159)

’’اگر آپ ﷺ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ ﷺ کے پاس سے چھٹ جاتے ‘‘
شریعت اسلامیہ ایک مسلمان سے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا تقاضاکرتی ہے ارشاد باری تعالی ہے :

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ(البقرة: 165)

 ’’اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ‘
امام کائنات ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه(بخاري (1/ 12)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘
انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اسے اس کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور وہ ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی اطاعت کیے بغیر دعوۂ محبت بے کار اور فضول بات ہے، اسی لیے رب تعالی نے ارشاد فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ(آل عمران: 31)

’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘
اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے علاوہ دیگر تمام محبتوں کی اسلام نفی نہیں کرتا بلکہ محبت کا حکم دیتاہے اور اسے مستحب عمل قرار دیتا ہے مگر اس کے لیے ایک مختصر، جامع اور محقق اصول وضع کرتاہے اور وہ اصول نبی ﷺ کی یہ حدیث

مبارکہ ہے:
الحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (بخاري (1/ 11)

’’محبت بھی اللہ کے لیے اور نفرت بھی اللہ کے لیے‘‘
وہ والدین کی محبت ہو،اولاد کی محبت ہو، زوجین کی محبت ہو، بہن بھائیوں کے درمیان محبت ہو یا دوست احباب کے درمیان محبت ہو اسلام یہی قاعدہ بتاتا ہے کہ یہ تمام محبتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر غالب نہ آنے پائیں یعنی ان تمام محبتوں کے شکنجے میں آکر انسان کوئی ایسا عمل نہ کر بیٹے جو شریعت اسلامیہ کے متعین کردہ طریقے کےخلاف ہو:

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبتیں:

آج کا روشن خیال طبقہ ’’ویلنٹائن‘‘ کو شہید محبت قرار دیتا ہے کیونکہ، شاعر نے کہا تھا؎
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
کسی نے اگر حقیقی شہید محبت دیکھانا ہے تو وہ میرے آقا ﷺ کے صحابی سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو دیکھے جسے یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے اور خباب اپنے گھر میں ارام سے ہو۔ یا احد کے ان شہدائے محبت کے لاشے دیکھے جن میں کئی کو کفن بھی پورا میسر نہ تھا انہی شہدا میں ایک نام سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جو شکل و صورت میں نبی مکرم ﷺسے بے حد مشابہت رکھتے تھے جاہلیت میں مکہ کے سب سے زیادہ نازوں میں پلے ہوئے نوجوان تھے، عالم یہ تھا جس گلی سے گزرجاتے خوشبو پتہ دیتی تھی یہاں سے مصعب کا گزر ہوا ہے لیکن اسلام لانے کے بعد سب کچھ قربان کردیا اور جب احد کے میدان میں شہید ہوئے تو کفن کی چادر اتنی سے تھی کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے پیر ڈھانپتے تو چہرہ ننگا ہوتا نبی مکرم ﷺ نے فرنے سر ڈھانپ دیا ور پیروں پر گھاس سے کفن دیا، اور اگر محبت کا دن منانے سے ہی محبت کا حق ادا ہوتا تو وہ دن منائے جانے کا زیادہ مستحق تھا جس دن نبی مکرم ﷺسعد بن ابی وقاص کو فرمارہے تھے:

ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي(صحيح البخاري (4/ 39)

’’(سعد) تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں‘‘
ہم میں اور ان میں فرق صرف اتنا ہےکہ انہوں نے محبت کا اصول سمجھ لیا اور کامیاب ہوگئے اور ہم نے وہ اصول نہ سمجھا اور اغیار کی تقلید میں اندھے ہوکر محبت کے لبادے میں نفرتوں کے خریدار بن گئے۔

رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری 1

وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری رحمہ اللہ  کے درمیان صرف چار واسطے ہیں

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ
بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ
(الجامع الصحیح البخاری کتاب الایمان، باب دعائکم ایمانکم، حدیث رقم:8)

رایوں کا تعارف:

1-نام و نسب: عبیداللہ بن موسی بن باذام بن ابی المختار العبسی الکوفی
کنیت :ابو محمد، محدثین کےہاںرتبہ: حافظ ، حجہ اور ثقہ طبقہ: تبع تابعین، ولادت120ھ ،وفات 213 ھ۔
2-نام ونسب: حنظلہ بن ابی سفیان(ابی سفیان کا نام الاسود تھا) بن عبدالرحمٰن بن صفوان بن امیہ القرشی الجُمَحّی المکی،محدثین کےہاںرتبہ:  ثقۃ ثقۃ، طبقہ: تابعی ، وفات: 151 ھجری ۔
3-نام ونسب: عکرمہ بن خالد بن العاص بن ھشام بن المغیرہ القرشی المخزومی المکی محدثین کےہاںرتبہ: ثقہ، طبقہ: تابعی ، وفات: 116 ھجری۔
4-نام و نسب: عبداللہ بن عمر بن الخطاب بن نفیل العدوی، کنیت: ابو عبدالرحمٰن، طبقہ: صحابی، ولادت: نبوت کےکچھ عرصہ بعد ہوئی، غزوہ احد میں ان کی عمر 14 برس تھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع وپیروی کا شوق سب سے زیادہ تھا، رسول اللہ ﷺ سے زیادہ روایت کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتا ہے 1730 احادیث کے روای ہیں 73 ھجری کے آخر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی بعض ھجری74 بتاتے ہیں۔
الفاظ معانی:
بُنِيَ: بنیاد رکھی گئی، اساس۔
الإِسْلاَمُ:اسلام سلم سے ہے جس کا معنا اپنے آپ کو کسی کے سپرد کردینا،تابعدار ہونا، فرمانبردار بننا۔
عَلَى خَمْسٍ: پانچوں عبادات پر۔
شَهَادَةِ:اقرار و تصدیق۔
وَالحَجِّ:بیت اللہ کا موسم حج میں ارادہ و قصد اور سنت نبویﷺ کے مطابق اراکان حج کی ادائیگی۔
ترجمہ:
’’ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نےسیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘
تشریح :
یہ حدیث مبارکہ اسلام کی اصل اور اساس کی وضاحت کرتی ہے اسلام کی پوری عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے اگر ان میں سے ایک بنیاد بھی گرا دی جائے تو عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، سب سے پہلے عقیدہ توحید کی وضاحت کی ہے جوکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس کے بغیر اعمال کی قبولیت ناممکن ہے توحید یہ ہے کہ پختہ اعتقاد کے ساتھ گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں جبکہ عقیدہ سے مراد دل ودماغ کی ہم آہنگی سے کسی چیزکی حقیقت کو ماننا ، جیسا کہ اللہ تعالی ہمیں نظر نہیں آتا مگر اس کے باوجود ہم دل ودماغ میں بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالی کی ذات کو ایک حقیقت تسلیم کرنا ہی عقیدہ ہے اور اس عقیدے کی پختگی اور اس کے عروج کا نام ایمان ہے اوریہی ایمان وتوحید اللہ تعالی تک پہچانے والے راستے کی چابی ہےاور تمام شریعتوں کی بھی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ تمام رسل اور انبیاء بھی بنیادی طور پر اسی حقیقت کی دعوت دیتے  رہے اللہ تعالی کی توحید کے اقرار کےبعد اس بات کا اقرار کرنا کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیںاوردل وجاں سےان کی لائی ہوئی شریعت کو دل ودماغ سے تسلیم کرنا ان کی شریعت کےہوتے کسی اور کی بات کو شریعت کا درجہ دینے سے باز آنا اس اقرار کے بغیر کوئی عمل بھی درجہ قبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔
توحید ورسالت کے بعد نماز کا تذکرہ ہے، شہادتین کا اقرار ایک دعوی ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اس دعوی کی دلیل نماز کا قائم کرنا ہےیہ وہ عبادت ہے  جو مقررہ اوقات میں حضور قلب او ر خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو کہ ہر مسلمان مرد وعورت عاقل و بالغ پر فرض ہےجوکہ سرور دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے ، اس فرض کے بعد زکوۃ کا ذکر ہے ، ذکوۃ وہ عبادت ہے جو ہر صاحب مال پر سال کے بعد فرض ہوتی ہے جوکہ مال اور دل کی پاکیز گی کا ذریعہ ہے ، حج بیت اللہ یہ بھی اللہ تعالی کی ایک ایسی عبادت ہے جوکہ مخصوص دنوں میں ارکان حج اداکرنے کی غرض سے بیت اللہ کی زیارت کے ذریعے سے پوری ہوتی ہے اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے تیار رہنا اور جہاں تک ہوسکے مالی اور جسمانی جدو جہد اور قربانی کے لیے اپنے دلوں کو مطیع بنانااس کا اصل فائدہ ہے اور یہ ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، رمضان المبارک کے روزے رکھنا یہ وہ عبادت ہے جو کہ ماہ رمضان میں کھانے پینے کی چیزوں اور نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو روکے رکھنے سے پوری ہوتی ہے یہ عبادت ہر مسلمان مرد وعورت عاقل بالغ پر ہر سال ایک ماہ کے لیے فرض ہے ہاں البتہ شرعی عذر کی وجہ سے فدیہ اور قضا دی جاسکتی ہے۔
——–

ستم کی داستانوں کا بیاں آسان نہیں ہوتا

ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں رکھی مغلیہ خاندان کو ایک طویل مدت کے لیے اقتدار ملا، خاندان کے انیس حکمران تخت ہند پر متمکن
ہوئے جذبۂ جہاد کے ساتھ شروع ہونے والی حکومت نے مختلف ادوار دیکھے اور زمام اقتدار سنبھالے ہوئے مغلوں کو تقریباً تین صدیاں ہونے کو آئیں ، قوت وشوکت جذبۂ جہاد کے ختم ہوجانے کی وجہ سے کم ہوتے ہوتے آخر کو یہ نوبت پہنچی کہ اٹھارویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کے عہد میں دائرہ حکمرانی صرف قلعہ معلی تک محدود ہو کر رہ گیا اورایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریزوں نے ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑ لیے تمام اختیارات ان کے پاس مرتکز ہوگئے۔ انیسویں صدی کے اس پُر آشوب دور میں دہلی کو بہت سے جلیل القدر علماء کا مسکن ہونے کا شرف حاصل تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث ،شاہ عبد القادر،شاہ رفیع الدین،شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید جیسے اساطین دہلی کو رونق بخشے ہوئے تھے۔ درس وتدریس کی محافل جہاں دہلی میں آباد تھیں وہاں دور ونزدیک کے دوسرے شہروں میں بھی اہل علم علمی خدمات سرانجام دے رہے تھے اس علمی شادابی کے باوجود یہ دور سیاسی،معاشرتی اور دینی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ دور تھا جو لوگ مسلمانوں کی اس حالت سے بہت زیادہ پریشان ہوئے ان میں سرفہرست سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید تھے اسی طرح ان کے رفقائے کرام جو ان کے ساتھ میدانِ عمل میں اترے یہ انتہائی پاکباز لوگ تھے جنہوں نے دو بڑے مقاصد کے تحت تحریک جہاد شروع کی ۔ ایک مقصد یہ تھا کہ لوگ بدعات ترک کر دیں ، ہندوانہ اختلاط کی وجہ سےجو رسومات ان میں گھر کر چکی ہیں اور شرک ان میں رواج پاچکاہے ان سب سے دست بردار ہوکر توحید وسنت پر اپنی زندگی کی بنیادوں کو استوار کریں اس مقصد کے حصول کے لیے سیدین شہیدین قریہ قریہ ،بستی بستی گئے تمام ہندوستان کا دورہ کیا لوگوں کی خاص تربیت کی اور ایک منظم جدوجہد کا آغاز کیا۔ دوسرا بڑا مقصد جو نہایت اہم تھا اور جس کی وجہ سے امت کا درد رکھنے والے حضرات انتہائی اذیت میں تھے وہ تھا اس ملک سے انگریزی اثر ورسوخ کو ختم کرکے استعمار سے آزادی کے لیے باقاعدہ جہاد کی طرح ڈالناوہ جہاد جس کے خلاف ماضی اور حال میں بھی مغرب نے ایسا پروپیگنڈابرپا کیا کہ یہ سمجھا جانے لگا کہ جہاد کے قائل دوسری قوم کے حق خواردیت کو ماننےسے انکار کرتے ہیں وہ جب چاہیں کسی قوم کو لوٹ لیں ،غارتگری کریں اور پھر اس مفہوم کو سچا ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسے جہادی گروہ وجود میں لائے گئے جن میں سے اکثر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی بے بہرہ تھے وہ ظلم کے رد عمل کے طورپر کھڑے ہوئے مگر جانے اور انجانے میں خود ظالموں کے آلہ کاربن گئے مثال ملاحظہ فرمائیں :
بین الاقوامی شہرت یافتہ برطانوی این جی اوCRAکی رپورٹ کے مطابق بھارت داعش کے لیے جدید ترین دھماکہ خیزہتھیار (LEDs)کی تیاری میں استعمال ہونے والے 700 اجزاء تیار کر رہا ہے بھارت داعش کو اسلحے کی سپلائی میں دوسرے نمبر پر ہے،بھارتی جاسوس پاکستان سے پکڑے جارہے ہیں ۔ایران(بھارتی جاسوس) کلبھوشن کےساتھی کو حوالے کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہےمگر ہمارا میڈیا ان سب پہ خاموش تماشائی ہے حکومت کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے بھارت کا میڈیا پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
کراچی میں امن قائم کرنے والے اداروں کی بدولت لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تو لوگوں کو ماہ فروری میں یہ کہہ کر خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ گھروں میں راشن جمع کر لیںاہل کراچی تو خوفزدہ نہ ہوئے البتہ بھارتی میڈیا خاکم بدہن اس خبر کو پاکستان کے خاتمے پر محمول کرنے لگا اور وہ دھما چوکڑی مچائی کہ عقل دنگ رہ جائے خیر کمینے دشمن سے یہی توقع ہوسکتی ہے مگر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دو اہم خبروں پر ہمارا نام نہاد ومحب وطن میڈیا کیوں اتنا خاموش ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ خود ایسی خبریں ڈھونڈ کے لاتے ہیں جن سے عوام میں مایوسی پھیلے بعض اوقات تو ایسا لگتا  ہے کہ یہ پڑوسی ملک کا میڈیا ہے یا پھر اس کا کام یہ ہے کہ کسی طرح بے حیائی اور بے لباسی میں پڑوسیوں پر سبقت لے جائیں وہ شاید اس قرآن کو نہیں مانتے جس میں یہ آیت اتری ہے ۔

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ  ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ  ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ النور:19)

’’جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے‘‘۔

لباس کی تشہیر بے لباسی کی ترغیب کے ساتھ کی جاتی ہے اس میں جہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا شریک ہے وہاں شہری حکومتیں بھی پیچھے نہیں اسی لیے بڑی بڑی شاہراہوں کے اہم اور نمایاں مقامات پہ ایسے ہورڈنگز لگائے گئے ہیں جہاں خواتین کی قد آدم ، نیم برہنہ تصویریں مسلمان معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی عکاسی کررہی ہیں یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اور بات دور نکل گئی بات تذکرہ سیدین سے شروع ہوئی تھی وہ بھولی بسری تحریک جسے غیروں نے بے حد بدنام کیا اور اپنوںنے فراموش،مئی کا مہینہ ان پاکباز لوگوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار کو خیر باد کہا جن کا تذکرہ لکھتے ہوئے اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں اپنے قلم کو کوثر وتسنیم سے وضو کرواتا میں نفوس مبارکہ کا تذکرہ لکھنے کے لیے اس قلم کی روشنائی کسی شب زندہ دار کے آخری پہر کے آنسوؤں کو بناتا اگر الفاظ کے بغیر جذبات کی عکاسی ممکن ہوتی تو ان صفحات پہ صرف آنسو بکھیر دیتا مگر یہ ممکن نہیںاگرچہ ستم کی داستانوں کا بیاں آساں نہیں ہوتا پھر بھی یہ کام ایک عاجز کوقلم سے ہی لینا ہے کہ شاید خراج عقیدت کے یہ چند الفاظ لکھنے والے کے لیے توشۂ آخرت بن جائیں۔
ان کی للہیت جانثاری قرون مفضلہ کے نفوس قدسیہ کی یاددلاتی ہے وہ دلی ولکھنؤ کے نازونعم میں پلنے والےبانکے جنہوں نے گھر بار کو خیرباد کہا ہجرت کی صعوبیتوںاور تکلیفوں کو صرف اللہ کے لیے گلے لگایا، مجاہدین کا پہلا قافلہ جو پانچ چھ سو مجاہدین پر مشتمل تھا امیر المجاہدین سید احمد شہید اور مولانا شاہ اسماعیل شہید کی قیادت میں 17 جنوری 1826 کو روانہ ہوا سینکڑوں میل کی مسافت طے کرکے سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے راجستان سے ہوتے ہوئے سندھ پہنچے پھر قندھار وکابل سے گزر کر آزاد قبائل کو اپنا مسکن ٹھہرایا یہ قافلہ سخت جان 1826 کے اواخر میں پشاور پہنچا پھر نوشہرہ آئے پوری طرح آرام بھی نہ کرنے پائے تھے کہ سکھوں نے یلغار کر دی بدھ سنگھ نے حملوں کا آغاز کیا اور ساڑھے چار سال تک سلسلہ جہاد جاری رہا پھر بدبخت شیر سنگھ اس سلسلہ ٔ جہاد کے پہلے دور کے اختتام کا سبب بنا اور یوں 6 مئی 1831ء/ 24 ذی القعدہ 1246ھ بروز جمعہ سالار قافلہ سید احمد اور ان کے دست راست مولانا شاہ اسماعیل نے لگ بھگ تین سو رفقاء کے ہمراہ دریا ئےکنہار کے کنارے جام شہادت نوش کیا۔  عجیب سماں تھا یہ پردیسی گھروں سے دور تحریک آزادی اور ظلم کے خاتمے کی کوشش میں استعماری ایجنٹوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن        خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ان کے حق میں سچا ثابت ہوا۔

اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ   ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ  وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ  وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْـتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۭ وَذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (سورة التوبة:111)

بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
یہ زندہ وجاوید لوگ ہیں جن کے متعلق رب رحمن نے فرمایا :

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ  (سورۃ البقرۃ:154)

اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم نہیں سمجھتے۔
یہ ان وفا شعار اور راست باز لوگوں کا پاکیزہ خون تھا جو نظریۂ پاکستان کے پیش ہونے سے بھی ایک صدی پہلے پاکستان کی بنیاد بنا جماعت مجاہدین کا یہ پہلا دور بالا کوٹ کی رزم گاہ شہادت میں ختم ہوگیا۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جو لوگ غلامی کی طویل تیرہ وتاریک رات میں لوگوں کے لیے ستاروں کی طرح چمک کر دلیل راہ بنے مایوسی کے اندھیروں میں اپنی  متاع حیات تک لٹا کر امید کا سامان بہم پہنچایا جن کی جائیدادیں قرق ہوئیں جوانیاں جیلوں کی نذر ہوئیں وہ صبح آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی منظر سے اس طرح غائب ہوئےجیسے شب تاریک میں آسمان پہ ستارے چراغاں کرنے ،زینت بخشنے اور بہار دکھانے کے بعد صبح کے نمودار ہوتے ہی غروب ہوجاتے ہیں حالات کا جبر دیکھیں چاہیے یہ تھا کہ ان محسنین کو یادر کھا جاتا ان کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتیں جن کی قربانیوں سے غلامی کی رات ختم ہوئی مگر قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے امیر مجاہدین مولانا فضل الٰہی رحمہ اللہ 27 اپریل 1948ء کو وزیر آباد آئے تو انہیں زیر دفعہ 302 ایک ایسے الزام اور مقدمے میں گرفتار کر لیاگیا جو 28 سال پہلے

آپ کے مسائل اور ان کا حل (علی وارث کہنا کیسا ہے؟)

سوال :کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام بیچ اس مسئلے کہ کیا ’’علی وارث‘‘ کہنا یا لکھنا شرعاً جائز ہے۔
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں سیدنا امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ہے آپ رضی اللہ عنہ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دی آپ رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین میں سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے داماد اورچچا زاد بھائی اور سابقین اولین میں سے ہیں آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا مومن کی علامت اور بغض رکھنا منافق کی علامت ہےجہاد فی سبیل اللہ میں آپ رضی اللہ عنہ نے بڑے بڑے کارنامے اور بہادری کے جوہر دیکھائے نیز آپ رضی اللہ عنہ اہل بیت رسولﷺ میں سے ہیں اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کے بہت سے فضائل ومناقب ہیں البتہ علی وارث کے حوالے سے کئی مفہوم سامنے آتے ہیں اگر علی وارث سے مراد آپ رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہاکے ترکہ کے وارثوں میں سے ایک لی جائے یا علوم نبوت کے وارثوں میں سے ایک وارث مراد لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں یہ دونوں مراد ہر مسلمان عالم دین کیلئے بھی لی جاسکتی ہے (یعنی کسی مسلمان شخص کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو وہ شخض بیوی کے ترکہ کا آدھا حصہ یا چوتھائی حصہ کا وارث بنتا ہے) لہٰذا مذکورہ جملہ لکھنے کا کوئی فائدہ یا خصوصیت نہیں اور اگر اس جملہ’’علی وارث‘‘ سے مراد علی رضی اللہ عنہ آسمان وزمین کے وارث لی جائے یا علی رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد ہی خلافت کے وارث لی جائے تویہ دونوں مراد شرعاً قطعاً جائز نہیں کیونکہ آسمانوں اور زمین کے وارث صرف اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی آسمان وزمین کے وارث نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(آل عمران:180)

’’آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آسمان اور زمین کے وارث صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں اور جہاں تک خلافت کا تعلق ہے اس میں تمام امت اسلامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد پہلا خلیفہ سیدنا امیرالمؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں جس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں جس کی وجہ سے سیدنا امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے فوراً بعد پہلا خلیفہ نہیں ہیں لہٰذا ’’علی وارث‘‘ کا جملہ شرعاً لکھنا یا کہنا جائزنہیں ہے۔
واللہ أعلم بالصواب
سوال : کیا مسلمان عاقل بالغ مرد کیلئے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ لٹکانا جائز ہے ؟
جواب : صورت مسئولہ سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان عاقل بالغ مرد کیلئے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ لٹکانا یا شلوار ،پینٹ وغیرہ سے ٹخنہ ڈھانپنا جائز نہیں بلکہ جان بوجھ کر ٹخنہ کو ڈھانپنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے خواہ وہ تکبر کی نیت سے ہو یا تکبر کی نیت سے نہ ہوالبتہ تکبر کیساتھ حرمت میں شدت آئے گی اور بعض لوگوں کا یہ کہہ کر ٹخنہ ڈھانپنا کہ میں تکبر وغرور سے ٹخنہ نہیں ڈھانپ رہا بلکہ یہ میری عادت ہے ایسےشخص کا یہ کہہ کر ٹخنہ ڈھانپنا ہی تکبر کی علامت ہے کیونکہ تکبر کی تعریف رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کی ہے:
الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ، وَغَمْطُ النَّاسِ(کتاب الایمان باب تحريم الكبر وبيانه،حدیث:91)
یعنی تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔
چونکہ ٹخنہ سے نیچے شلوار پینٹ وغیرہ لٹکانے والے نے
حق بات ٹھکرا دی اور شلوار وغیرہ کو ٹخنہ سے اوپر نہیں رکھا
تو یہی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی روشنی میں تکبر کی علامت ہے ٹخنے سے نیچے شلوار،پینٹ وغیرہ رکھنے کی ممانعت کی احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

1 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ مِنَ الإِزَارِ فَفِي النَّارِ(کتاب اللباس باب ما أسفل من الكعبين فهو في النار رقم الحدیث:5787)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہبندکا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا ۔

2 عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قُلْنَا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا فَقَالَ الْمَنَّانُ وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ  (سنن الترمذي ابواب البيوع باب ما جاء فيمن حلف على سلعة كاذبا رقم الحديث 1211)

سیدناابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ( رحمت کی نظرسے) انہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اوران کے لیے دردناک عذاب ہوگا، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اورگھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا:احسان جتانے والا،اپنے تہبند(ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والااور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا(فروخت کرنے والا) ۔

3 عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلَاءَ لَمْ يَنْظُرْ اللهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  (كتاب اصحاب النبي ﷺ باب قول النبي ﷺ: لو كنت متخذا خليلا رقم الحديث: 3665)

سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو شخص اپنا کپڑا (شلوار یا تہبند وغیرہ ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان عاقل بالغ مرد پر لازمی ہے کہ وہ ہر وقت اپنا تہبند ،شلوار اور پینٹ وغیرہ کو ٹخنہ سے اوپر رکھے خواہ وہ نماز کے وقت ہو یا نماز سے باہر ہو اور ہر مسلمان عاقل بالغ کپڑے کو نیچے رکھنا حرام ہے مکروہ نہیں وہ اپنا تہبند ،پینٹ وغیرہ کو ٹخنے سے نیچے رکھے البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہو کہ ایسے شخص سے کپڑا بالکل سنبھالا ہی نہ جائے تو اس صورت میں جائز ہے۔ الضرورات تبیح المحظورات کے تحت ۔  واللہ أعلم بالصواب
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارہ میں کہ کیا سگریٹ نوشی حرام ہے یا مکروہ قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل جواب دیکر عند اللہ ماجورہوں۔
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسؤلہ کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں یہ ہے کہ سگریٹ نوشی کا حکم حرام ہے مکروہ نہیں لہٰذا تمام مکلف مسلمانوں پر لازمی ہے کہ وہ سگریٹ نوشی سے دور رہیں سگریٹ نوشی حرام ہونے کے کئی اسباب ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
۱۔ سگریٹ نوشی کرنے والا اپنے آپ کو خطر ناک قسم کی مہلک بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہوتا ہے مثلاً کینسر وغیرہ جو کہ نصوص قرآنی ونبوی کے سراسر خلاف فعل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ(سورۃ البقرۃ195)

’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔‘‘

نیز فرمایا : وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا  (سورۃ النساء 29)

’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے۔‘‘
دنیا کے تمام ڈاکٹرز حضرات اس بات پرمتفق ہیں کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے نیز ہلاکت وبربادی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب من بنى في حقه ما يضر بجاره رقم الحديث 2341)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔
یعنی نہ خود نقصان اٹھائے اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچائے اور سگریٹ نوشی میں یہ دونوں پائے جاتے ہیں خود کو بھی نقصان ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی۔
2۔ سگریٹ نوشی میں مال کا ضیاع وتباہی ہے حالانکہ مال کی حفاظت کرنا اور اسے فضول خرچی سے روکنا لازمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فضول خرچی سے منع فرمایا نیز فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔

وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ  ۭ وَكَانَ الشَّيْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا (الاسراء 26۔27)

اور اسراف اور بےجا خرچ سے بچو۔بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔
3۔سگریٹ نوشی میں دوسروں کیلئے بھی نقصان ہے جس کی دلیل پہلے نکات میں گزر چکی ہے ۔
لا ضرر ولا ضرار
نیز اس کی بدبو سے دوسرے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے اور ایک مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے ۔
4۔ سگریٹ نوشی میں نشہ بھی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے :
كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ(صحيح البخاري کتاب الاحکام باب أمر الوالي إذا وجه أميرين إلى موضع: أن يتطاوعا ولا يتعاصي رقم الحديث 7172)
’’ہر نشہ آور چیز حرام ہے ‘‘۔
بلکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے یہاں تک فرمایا :

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَسْكَرَ كَثِيرُهُ، فَقَلِيلُهُ حَرَامٌ(سنن ابی داؤد،کتاب الاشربۃ باب النهي عن المسكر، رقم الحدیث : 3681 )

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔ “
مذکورہ بالا تمام اسباب سگریٹ نوشی میں پائے جاتے ہیں لہٰذا سگریٹ نوشی حرام ہے مکروہ نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

دینی مدارس کی تاریخ،کردار اور ان کے مخالفین کی تاریخ

جی ہاں ہم روزانہ اپنے ملک کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سنتے،دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ مدارس فرقہ واریت کے مراکز اور انتہا پسند ی کے مراکز ہیں مدارس میں کوئی تربیت ایسی نہیں دی جاتی کہ جس سے کوئی باکردار طالبعلم پیدا ہوکر اپنے ملک وقوم کی خدمت میں وقت گزارے ، علماء اور خطباء انتشار کے سبب ہیں ان جیسی دیگر خبریں روزانہ ہم اپنے نام نہاد دانشوروں اور بے لاگ مبصرین وتجزیہ نگاروں سے سنتے ہیں اور جب بھی کوئی حادثہ ہو تو فوراً مدارس اور علوم نبوت کے وارثان علماء کرام اور طلباء عظام پر زبان درازی اب ایک فیشن بن چکا ہے لیکن آیئے دنیا کی پہلی دینی درسگاہ اور مدرسہ کے بانی کی سیرت اور کردار اور دنیا کے پہلے مدرسہ کے طلباء کی تاریخ کو  بنظر عمیق  دیکھتے ہیں کہ کیا دینی مدارس کی بنیاد انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے اور معاشرے میں امن وامان کو تباہ کرنے کی غرض سے قائم کیاگیا یا انسانیت کی تعمیر اور حقوق کے تحفظ کیلئے ؟؟
کیا مدارس اسلامیہ کا مؤسس وبانی نعوذ باللہ کوئی دہشت گرد تھا یا امن عالم کا سفیر؟
کیا مدارس اسلامیہ کی بنیاد انتشار وافتراق پر رکھی گئی یا امن وامان محبت اور بھائی چارگی اور اخوت کو عام کرنے کیلئے؟
اس جیسے دیگر کئی سوالات کا جواب اس وقت ہمیں ملے گا جب ہم حقائق کی روشنی میں آنکھوں سے عصبیت حسد اور پسند وناپسند کی عینک کو اتاریں اور مدارس کی بنیادی جڑوں کو دیکھیں گے۔ دیکھتے ہیں مدارس کی بنیاد کب اور کونسی شخصیت

نے رکھی ہے؟

مدارس علوم دینیہ کی ابتداء :

مدارس اسلامیہ کی بنیاد ہمارے پیارے نبی اور پیغمبر اسلام محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہجرت کے بعد رکھی ۔صفہ کے نام سے دنیا کی پہلی عظیم دینی درسگاہ اور تربیتی مرکزہمارے پیارے نبی محمد مجتبیٰ ﷺ نے مسجد نبوی میں قائم کی اور نبی کریم ﷺ نے خود درس وتدریس کے عظیم منصب کو سنبھال کر دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ اس عظیم کام کو اٹھانے والے وہ لوگ ہوں گے جو کہ ورثۃ الانبیاء کے منصب پر فائز ہوں گے۔
دنیاکا پہلا دینی اور تربیتی مرکز اور مدرسہ کے طلباء کرام کونسی عظیم ہستیاں تھیں؟ جی ہاں وہ عظیم طلباء جن کو آج کل ہمارے اصحاب رسول کے نام سے جانتے ہیںیہ وہی پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کی چند خوبیاں باری تعالیٰ اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ہیں :

أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ (المجادلۃ22)

’’یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا :

رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المجادلۃ22)

’’اللہ ان سے راضی اور یہ اللہ سے راضی ہیں‘‘۔
مزید فرمایا

: رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح 29)

’’آپس میں رحمدل ہیں۔‘‘
اور فرمایا

:أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات 7)

’’یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔‘‘
جن کے دل نورِ ایمان سے منور تھے اور وہ عظیم ہستیاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ اعلان کرے کہ وہ مجھ سے راضی میں ان سے راضی ہوں اور جو آپس میں رحمدل اور مہربان ہوں ،رشد وہدایت کے عظیم پیروکار وغیرہ القاب سے متصف ہستیاں ۔
تو کیا ان صفات کے مالک یا ان کے وارث اور منزل مسافر دینی مدارس کے طلباء اس طرح کا سوچ سکتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں سے زندگیوں کاحق چھین لیں ؟ کیا جو نبی ﷺ کافروں کی امانتوں کی حفاظت کرے اور
خود دشمنانِ اسلام آپ ﷺ کی امانت وصداقت
کے معترف ہوں ان کے راہ پہ چلنے والے اور علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے انتہا پسندانہ رویہ اپنائیں؟ ہرگز نہیں …
اگر کوئی عقل وشعور رکھتا ہو تو یقینا وہ غوروفکر کرے گا تو اصل سبب کیا ہے کہ روشنی اور امن کے ان مراکز اور ان کے پھول نشانے پر کیوں ہیں؟
آیئے تاریخ پر نظر ڈالتےہیں کہ علماء کرام اور دینی مدارس وطلباء کو مختلف ناموں سے پکارنے والوں کا مقصد اور اصل ہدف کیا ہے ؟ اور ان کی تاریخ کتنی پرانی ہے ؟
جی ہاں جس طرح دینی مدارس وجود میں آئے تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت یعنی نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی دشمنانِ اسلام نے سازشیں شروع کیں اور حتی کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کو مختلف القابات اور ناموں سے نوازا نعوذ باللہ آپ علیہ السلام کو ساحر، جادوگر، شاعر اور کئی دیگر ناموں سے پکارا لیکن اسی وقت قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل مقصد کا تذکرہ کرکے ہمیں آگاہ کر دیا کہ قرآن کریم اور دینی علوم اور علماء کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کا اصل ٹارگت کیا ہے آیئے قرآن پاک کی رو سے ان کے مقاصد کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں ؟
فرمان الٰہی ہے :

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصف:8)

’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں سے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی ناکام سازشوں کے ذریعے اللہ کے نور یعنی قرآن پاک یا اسلام یا محمد ﷺ یا دلائل وبراہین کو بجھا دیں اسی لیے وہ طعن وتشنیع کرتے ہیں۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ موجودہ دور میں جتنی بھی سازشیں ہو رہی ہیں ان کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے جو بات یہودونصاریٰ اور دشمنانِ اسلام چودہ سوسال پہلے کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریات اور افکار کے وارث وہی بات کرتے ہیں اور کررہے ہیں وہ بھی لوگوں کو مختلف ذرائع سے گمراہ کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریاتی اور فکری جانشیں انہی کی باتوں کو دہرا رہے ہیں بات صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دوست نما دشمن اور آستین کے سانپ نہ ہونے کے برابر تھے اور اگر تھے تو بہت کم اور ان کے پاس پروپیکنڈہ کیلئے ذرائع کم تھے آج الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر انہی کاغلبہ ہے اسی لیے وہ اپنے اس جال کو وسیع انداز میں پھیلا رہے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں سوائے اس کے وہ کچھ نہیں کرسکتے کہ وہ بھولی بھالی عوام کو گمراہ کریں۔
علوم دینیہ اور مدارس دینیہ کے عظیم مراکز ان شاء اللہ تاقیامت قائم رہیں گے اور دشمنانِ اسلام اپنی نامراد سازشوں سے ہاتھ دھوئیں گے۔ ان شاء اللہ
عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اسلام کے قلعوں کو مضبوط کریں اور دشمنانِ اسلام کو یہ پیغام دیں کہ دینی مدارس ہمارے علمی تربیتی ،اصلاحی ونظریاتی محافظ ہیں اور علماء کرام ہی ہمارے حقیقی وارث ہیں ۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
ان شاء اللہ

حقوق وفرائض سے آگہی کی ضرورت

پنجاب حکومت نے عورتوں کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے تحفظ نسواں بل منظور کیاہے اس بل کے مطابق اگر عورت پر ہاتھ اُٹھایا جاتا ہے تو وہ پولیس سے رابطہ کرے گی مرد کو دو دن کے لیے گھر سے نکال دیا جائے گا اور اسے ٹریکر پہنادیا جائے گا کیا یہ درست قدم ہے؟
ریاست کا نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اس کا آئینی سربراہ ایک ہوتا ہے۔ خاندان بھی ریاست کی بنیادی اکائی ہے۔ اس کا نظام چلانے کے لیے سربراہ کا ہونا ضروری ہے اسلام نے خاندانی نظام کا سربراہ مرد کو مقرر کیا ہے خالق کائنات کافرمان ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا  ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا (سورۃ النساء 34)

’’مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے‘‘۔
روز محشر مرد سے اس نگہبانی کے بارے بازپرس ہوگی۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْأَمِيرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب المرأة راعية في بيت زوجها الحدیث 5200 صحیح مسلم: 1829)

’’سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ۔ امیر ( حاکم ) ہے ، مراد اپنے گھروالوں پر حاکم ہے ۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اوراس کے بچوں پر حاکم ہے ۔ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا ‘‘۔
سربراہ مملکت چوری ڈکیتی اور دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرتاہے اگر کوئی فرد قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے یا حکومت کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر دہشت گردوں سے تعاون کرتاہے تو فلاحی حکومت ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرتی ہے چاہیے وہ اس کے حمایتی ووٹران ہی کیوں نہ ہوں؟
اگر جرم کی نوعیت سخت ہو تو حکومت فوجی آپریشن سے دہشت گردوں کا صفایا کردیتی ہے اسی طرح خاندانی ریاست کی رعایا اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتی اور تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ نہیں دیتی یا کوئی رکن خاندانی ضابطوں کی اعلانیہ خلاف ورزی کرتاہے توسربراہ کے لیے تادیبی کارروائی اضطراری فعل بن جاتاہے۔ مثلاً خاندان کے کسی فرد کو شوگر کا مرض لاحق ہوجائے ڈاکٹر دوائی کے چند اشیاء سے پرہیز کرنے کی ہدایت دے تو مریض بد پرہیزی کرے اگر خاندان کا سربراہ مغرب کے آزادی کے نظریہ کے
تحت خاموشی اختیار کرے تو مریض کی جان کو خطرہ
لاحق ہوسکتاہے تو اس موقع پر ڈانٹ ڈپٹ عورت یا بچہ کے حق میں یقیناً بہتر فعل ہے۔
ریاستی سربراہ قطعاً نہیں برداشت کرتا کہ کوئی شہری
پاسپورٹ کے بغیر بیرون ملک جائے یا دگر ملک کا شہری ویزا حاصل کیے بغیر ریاست میں داخل ہو اگر کوئی خلاف ورزی کرتاہے تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آجاتاہے اسی طرح خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اُس کی اجازت کے بغیر دیگر خاندان کا فرد داخل مکان ہو اور اُس کے خاندان کا فرد اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے اگر کوئی خلاف ورزی کا مرتکب ہوجائے تو ہلکی مار کا مقصد انتقام نہیں بلکہ اس کی اصلاح مطلوب ہے۔
جس طرح ریاستی سربراہ دیگر ملک کے فرد کو مستقل قومی شہری تسلیم نہیں کرتا اسی طرح خاندانی سربراہ قطعاً برداشت نہیں کرتا کہ اس کا کوئی ناجائز وارث پیدا ہو اگر خاوند حفظ ما تقدم بیوی کی نازیبا حرکات وسکنات پر روک ٹوک کرتاہے جب زبانی نصیحت کارگر نہ ہوتو چہرہ بچا کر ہلکی ضرب سے وارننگ دے دے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اسلام نے طلاق سے بچنے کی خاطر مارنے کی اجازت دی ہے تاکہ خاندانی نظام کا شیرازہ منتشر نہ ہو جبکہ پنجاب حکومت کا تحفظ نسواں بل مسلم معاشرہ کے خاندانی استحکام میں شگاف ڈالنے کے مترادف ہے۔
اسلام نے خاوند کو حکم دیا ہے کہ وہ عورت کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور حسن سلوک سے پیش آئے مخبر صادق محمد رسول اللہﷺ نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے شوہر کو اس امت کے بہترین اور ممتاز لوگوں میں قرار دیا ہے۔

أَكْمَلُ المُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِنِسَائِهِمْ(سنن الترمذي ابواب الرضاع باب ما جاء في حق المرأة على زوجها رقم الحديث 1162)

’’ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والاہو، او رتم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔
آپ ﷺ نے عورت کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ حلال اور عدل وانصاف کی حدود میں خاوند کی اطاعت کرے کائنات کے امام ﷺ نے مسلمانوں کو شرعی حکمران کی اطاعت پر سختی سے زور دیا ہے اسی طرح عورت کو خاندانی ریاست کے سربراہ کی اطاعت کا حکم دیا۔

لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ المَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا(ترمذی ابواب الرضاع باب ما جاء في حق الزوج على المرأة رقم الحدیث:1159)

 ’’اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کوسجدہ کرے۔‘‘
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں پنجاب حکومت کا نسوانی بل نظریہ پاکستان کی روح کے منافی فعل ہے میڈیا اثرپذیری کی وجہ سے ریاست کا اہم ستون کی حیثیت حاصل کرچکاہے باعث افسوس امر ہے کہ میڈیا پر آزادی نسواں پر لیکچر اور مذاکرے تو ہوتے ہیں لیکن اسلام کی روشنی میں عورتوں کے حقوق کا تذکرہ کرکے اصلاح کا فریضہ سرانجام نہیں دیتا۔سیاست اسلام کا جزء ضرور ہے اکثر علماء نے سیاست کو عبادت کا محور سمجھ لیا وہ سیاسی سرگرمیوںمیں بھر پور کردار ادا کرتےہیں لیکن وہ معاشرہ کی اصلاح سے غفلت برت رہے ہیں تعلیمی نصاب میں صنفی جذبات کو مشتعل کرنے والا مواد شامل کیا جارہا ہے لیکن مثالی مرد اور مثالی عورت کے باب شامل نہیں کرتی۔
نبی کریم ﷺ نے زندگی کے تمام شعبوں سیاست، معیشت،تجارت،زراعت،صنعت اور عبادت میں راہنمائی فرمائی ہے اسی طرح آپ ﷺ نے خاندانی ریاست کے استحکام کے عورتوں کو مرد کے حقوق اور مردوں کو عورتوں کے حقوق سے آگاہ فرمایا ہے جن پر عمل کرنے سے خاندانی نظام کی بنیاد مستحکم بن سکتی ہے۔
خاتم النبیین ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر حاضرین کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی وصیت فرمائی ہے۔
’’لوگو! سنو عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، کیونکہ وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں تمہیں ان کے ساتھ سختی کا برتاؤں کرنے کا کوئی حق نہیں سوائے اس صورت کے جب ان کی طرف سے کوئی کھلی نافرمانی سامنے آئے اگر وہ ایسا کربیٹھیں تو پھر خواب گاہوں میں ان سے علیحدہ رہو اورانہیں مارو تو ایسا نہ مرانا کہ کوئی شدید چوٹ آئے اور پھر جب وہ تمہارے کہنے پر چلنے لگیں تو ان کو خواہ مخواہ ستانے کے بہانے نہ ڈھونڈو۔ دیکھو! تمہارے کچھ حقوق بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حقوق تم پر ہیں ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو غیروں سے محفوظ رکھیں اور تمہارے گھروں میں ایسے لوگوں کو ہرگز نہ گھسنے دیں جن کا آنا تمہیں ناگوار ہو اور سنو! ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ ۔
میاں بیوی کے درمیان بندھن حاضرین کی موجودگی میں باندھا جاتا ہے رنجش وناراضگی فطری امر ہے ۔ خدانخواستہ ان میں رونما ہوجائے تو اللہ کے حکم کے مطابق

وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَھْلِهٖ وَحَكَمًا مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ يُّرِيْدَآ اِصْلَاحًا يُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا  ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا خَبِيْرًا( النساء : 35)

اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔
جبکہ مرد کو ٹریکر پہنا کر جدائی پر آمادہ کرنا تحریک آزادی نسواں کا ماٹو ہے۔
۔۔۔۔۔۔

تربیت اولاد

اولاد والدین کےلیے عطیۂ الٰہی ہے جس طرح میاں بیوی کی شادی کے بعد یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اولاد سے نوازےنعمت عظمی کے حصول کے بعد والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ان کی تعلیم وتربیت کی عائد کی ہے ۔والدین جس طرح اولاد کو دنیوی لحاظ آسائش میں رکھنا چاہتے ہیں یہ ان کی بڑی خیر خواہی ہے مگر اس سے بھی بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ اس اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کی جائے اس کے لیے اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ نسلِ نو غلط راستوں پر چل کر خراب نہ ہوجائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (سورة التحريم:6)

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ(صحيح البخاري كتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن رقم الحديث : 893)

تم میں سے ہر ایک ذمہ دارہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام ذمہ دارہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا ذمہ دارہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص ذمہ دارہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
تربیت ِ اولاد کب اور کیسے؟
والدین اپنی اولاد کیلئے مربی ہوتے ہیں شادی سے قبل یہ ذمہ داری والدین پر عائدہوتی ہے لیکن شادی سے قبل کی زندگی دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے پہلا حصہ بچپن یعنی بلوغت سے قبل کا اور دوسرا حصہ سن شعوری یعنی بلوغت کے بعد کا ہوتا ہے دوسرے حصے کی نسبت پہلا حصہ یعنی بچپن ، والدین کیلئے اولاد کے سنوارنے کا بہترین موقع ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بچے کی تربیت دورانِ حمل اور وضع حمل کے بعد اور دورانِ رضاعت بہت اہمیت رکھتی ہے اور پھر والدین کے اعمال اولاد کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح جب ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ ڈرامے،فلموں یا موسیقی وغیرہ میں مشغول ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے جو تربیت اولاد پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتاہے جبکہ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد اور نوافل کا بھی اہتمام کرے اور اپنی اولاد کی خیر خواہی کے لیے دعائیں مانگے بچپن میں ہی اگر صحیح تعلیم وتربیت ہو اور اسے تہذیب واخلاق کے سانچے میں ڈھالا جائے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتےہیں خدانخواستہ بچپن میں صحیح تربیت نہ کی گئی توباقی ماندہ زندگی تباہی وبربادی میں گزرنے کا خطرہ ہوتاہے انسان کے اچھے یا
برے اخلاق کی بنیاد کا یہی موزوں وقت ہے کیونکہ محسن
انسانیت ﷺ کا ارشاد ہے :

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ(صحيح البخاري کتاب

الجنائز باب اذا ءسلم الصبي فمات ھل يصلی عليہ رقم الحديث 1359)
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ بچے تو صحیح العقیدہ پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے والدین کی تربیت ان پر جس طرح کے اثرات مرتب کرے گی وہی نتائج برآمد ہوں گے اگر والدین نے اپنی اولاد کو بچپن میں اسلامی تعلیم وتربیت میں پروان چڑھایا تو اولاد والدین اور معاشرے کیلئے دنیا وآخرت میں بہترین سرمایہ ہوگی اور اگر اس کے برعکس اپنے دور کی برائیوں کے اثرات ان کی زندگی پر اثر انداز ہوں گے جیسا کہ آج کل کے دور میں ایسے بچے جن کو بے شعور،کم سن سمجھا جاتاہے لیکن ان کی زبان پر گندی گالیاں اور فحش گانے ہوتے ہیں چلتے پھرتے فلمی اداکاروں کے نقشے پیش کرتے ہیں۔
بچوں کا تعلیمی وتربیتی مرحلہ :
علم ایک نور ہے جس سے انسان کو انسانیت کا پتہ چلتا ہے اہل علم کا مرتبہ قرآن پاک میں ان الفاظ میں ہے :

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ (سورۃ الزمر:9)

’’کہہ دیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں۔‘‘
اگر والدین چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد اعلیٰ مرتبہ ومقام حاصل کرے تو اپنی اولاد کو علم کی دولت سے نوازیں، اپنے نونہالوں کی تعلیم کا آغاز قرآن پاک کی تعلیم سے کریں۔ ہمارے ملک میں حصول علم کا طریقہ دو طرح کا ہے ایک تو گورنمنٹ کے تحت،اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں دوسرا یہ کہ ہمارے مذہبی لوگ مل جل کر دینی اداروں اور مساجد میں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں تو والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو بچپن میں ہی دین کے ساتھ وابستہ کریں تاکہ جب وہ دنیاوی تعلیمی اداروں کی طرف رخ کریں تو ان پر غیر اسلامی نصابِ تعلیم اثر انداز نہ ہو اپنی اولاد کو اسلامی تربیت اس حد تک دیں کہ ان کے شب وروز کے معمولات اسلامی طریقہ پہ ہوں اور ان پر عمل کرنا ان کی زندگی کا معمول بن چکا ہو یہ بات غلط ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچے کو دینی راستے پر چلنے کے لیے مستعد نہیں کیا جاسکتا، یہ ضرور ہے کہ یہ محنت طلب کام ہے قرون اولیٰ سے لیکر آج تک اس کی مثالیں موجود ہیں اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے ’’باب تعلیم

الصبیان للقرآن‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’مجھ سے تفسیر کے متعلق سوال کیا کرو یقیناً میں نے چھوٹی عمر میں قرآن حفظ کیا ہے‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ نےنو برس کی عمر میں قرآن کریم کو حفظ کیا ایسے ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی چھوٹی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھااسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سات سال کی عمر میں قرآن کے حافظ تھے اور اس دور کی مثالی شخصیت شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نوبرس کی عمر میں قرآن کے حافظ تھے۔ آپ کی اپنی اسلام کے ساتھ وابستگی نہیں تو اپنی اولاد کو کیسے تربیت دے سکیں گے اگر آپ کسی وجہ سے اس رحمت سے پیچھے رہ گئے ہیں تو آپ کو اس نقصان کی تلافی اپنی اولاد کے ذریعے پوری کر لینی چاہیے ان کے لیے دینی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے اس نعمت کے حصول کی وجہ سے جہاں ان کو مرتبہ ومقام حاصل ہوگا آپ بھی اس میں برابر کے شریک ہوں گے اس لیے چاہیے کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی اسلام کے مطابق مؤدب،مہذب اور بااخلاق بنا دیاجائے تاکہ بعد کی زندگی میں وہ ایک بہترین مسلمان ثابت ہوں۔
اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

حرّض بنيك على الآداب في الصغر
كيما تقرَّ بهم عيناك في الكبر
و إنما مثل الآداب تجمعها
في عنفوان الصبا كالنقش في الحجر

’’اپنی اولاد کو بچپن سے ہی ادب سکھلاؤ تاکہ بڑے ہوکر وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور بچپن میں ادب سکھانا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش ہو۔‘‘

رسول اللہ ﷺ اور بچوں کی تربیت :

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو معاشرے کے ہر فرد کیلئے معلم بنا کر مبعوث فرمایا چنانچہ آپ ﷺ چھوٹوں بڑوں کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیا کرتے تھے بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق یوں تو آپ ﷺ کی کئی احادیث کو روایت کیا گیا ہے لیکن میں یہاں ایک جامع حدیث ذکر کروں گا جس میں آپ ﷺ نے ایک بچے کو بنیادی باتوں کی تعلیم دی تھی اور وہ باتیں آج بھی ہر بچے کی اسلامی تربیت کیلئے انتہائی ضروری ہیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللهُ بِهِنَّ؟

اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں جو آپ کیلئے سود مند ثابت ہوں گی۔

1 احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ

تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر ووہ تمہاری حفاظت فرمائے گا

2 احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ

 تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے،

3 إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ

جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو،

4 وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ

 جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو۔

5 وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ

 اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔

6 رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ

قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ۔

7 تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ

’’خوشحالی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے اور لوگوں کے حقوق اداکرنا تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔

8 وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ

’’اور اس بات کو بھی اچھی طرح یاد کرلو کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے جو چیز روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی اور اللہ تعالیٰ تجھے جو چیز عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا۔‘‘

9 وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ،

’’اور یہ بھی جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہرپریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے۔‘‘

0 وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

’’اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی لاتی ہے۔‘‘
(مسند أحمد رقم الحدیث 2804 وصححہ الأنوؤط۔سنن الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  رقم الحديث 5216)
یہ دس نصیحتیں بڑوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے انمول موتی ہیں لہٰذا سب کو ان پر عمل کرنا چاہیے اور خصوصاً بچوں کو تو یہ باتیں یادکرانی چائیں ۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ  (صحيح مسلم 1631)

’’جب انسان فوت ہوجاتاہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ،علم نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے۔‘‘
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کیلئے جاری رہتا ہے ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کیلئے دعا کرتی رہے لہٰذا نیکی کے راستے کی طرف اپنی اولاد کی راہنمائی کرنا انہیں نیک وصالح بنانے کیلئے جدوجہد کرنا اور ان کی دینی تربیت کرنا ازحد ضروری ہے۔
بچپن میں بچوں کا ذہن سفید وصاف کپڑے کی طرح ہوتاہے اور سفید کپڑا ہر رنگ کو قبول کر لیتا ہے رنگین کپڑا رنگنا دشوار ہوتا یہی کیفیت بچوں کی تربیت کی ہے۔

تفریحی مراکز اور ہماری نسل نو :

ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کی تفریح جن چیزوں میں ہے وہ بھی اکثر جرائم کی طرف مائل کرتی ہیں سیر گاہیں کلبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے پردہ زیب وزینت کے ساتھ ایک دوسرے کو دعوت گناہ دیتے ہیں۔
بقول شاعر \\؎
آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا بن جائے گی
اس دور میں ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کیلئے جواسباب نقصان دہ ہیں ان میں ہمارے پارک اور سیرگاہیں،اخبارات اور میگزین،کمپیوٹر اور موبائل،آلات موسیقی وغیرہ ہیں اور ان چیزوں کا نتیجہ بڑوں کا احترام ختم،والدین کی نافرمانی،اساتذہ کی نافرمانی شرم وحیا کا فقدان،معاشرے کی بے راہ روی اور جرائم کی کثرت وغیرہ ہیں ۔

تربیت اولاد اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر :

بچوں کو کن باتوں کا حکم دیا جائے :
۱۔ اسلامی عقائد کے متعلق احکامات کا حکم دیا جائے۔
۲۔سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا جائے۔
۳۔روزے رکھنے کا حکم دیا جائے۔
۴۔دیگر عبادات اور نیک کاموں کا حکم دیا جائے۔
۵۔ لہو ولعب اور ناجائز امور سے اجتناب کا حکم دیا جائے۔
بچوں کو کن باتوں سے روکا جائے:
۱۔ خلاف شریعت عقائد اور گفتگو سے منع کیا جائے۔
۲۔ ترک عبادات اور ان میں غلطیوں کے ارتکاب سے روکا جائے۔
۳۔ممنوعہ چیزوں کے کھانے،پینے اور اسلامی آداب کے منافی حرکات سے باز رکھا جائے۔
۴۔ زیب وزینت اور بالوں کے متعلق اسلامی آداب کی خلاف ورزی سے روکا جائے۔
۵۔ریشمی لباس اور غیر مسلموں کے مشابہ لباس پہننے سے منع کیا جائے۔
الغرض اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے(خواہ اولاد بیٹوں کی صورت میں ہو یا بیٹیوں کی صورت میں) تو والدین کو چاہیے کہ ان پر پوری توجہ دیں اور چونکہ اولاد کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ کہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انسان اس کے حصول میں اور خاص کر نرینہ اولاد کے حصول میں اپنے ایمان اور دولت کو شیطانی عقیدہ میں برباد کر دیتاہے اور خسر الدنیا والآخرہ کا مصداق بن جاتاہے پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہم
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اللہ تعالیٰ سے بدست دعا ہوں کہ ہمیں شریعت کے تمام راہنما اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔

وقت کی قدروقیمت

اسلام مکمل دستورِ حیات ہے یہ مسلمان کی شخصیت کا ایک مکمل نقشہ بتاتا ہے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں اختیار کرے، کتاب وسنت کے دلائل اور سلف صالحین کے اقوال میں غوروفکر کرے اور ان کی خوب چھان پھٹک کرے پھر اپنی زندگی کی ضروریات اور تقاضوں میں ان کو بنیاد بنائے۔
تمام مسلمانوں کو وقت سے متعلقہ ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کہا وقت کا شمار ان چیزوں میں ہوتاہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا وقت کو بھر پور طریقے سے استعمال کرنا بنیادی ضرورت ہے جو لوگ وقت کی پہچان رکھتے ہیں ان کے ذریعے وقت جیسے اہم وسیلے کی بہت زیادہ اہمیت کی طرف توجہ دلانا ممکن ہے ۔
وقت ایسی قیمتی شے ہے جو چلی جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لاسکتی نیز یہ محاورات کیا خوب ہیں گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ، آج کا کام کل پر مت ڈال، وقت تلوار کی دھار ہے۔ یہ سب جملے وقت کو بہتر ڈھنگ سے کام میں لانے کے لیے کہے گئے ہیں اگر مسلمان وقت کو اچھے ڈھنگ سے کام میں لائے تو وہ دنیا وآخرت میں کامیاب انسان بن سکتاہے۔
قرآن کریم نے وقت کی اہمیت پر مختلف سیاق وسباق میں خبردار کیا ہے اور اس کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں کچھ یہ ہیں :
العصر (عصر کا وقت ) ، زمانہ
الحین (وقت)
الاجل (موت اور مقررہ وقت)    اور
الامد (دور کا وقت)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جو وقت کو کسی نہ کسی معنی میں ظاہر کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو زمانے کی قدروقیمت،فوقیت اور اس بلند درجے کی شہادت اور انسانی زندگی میں اس کے بہت زیادہ اثر کو بیان کرتی ہیں۔
سورۃ ابراہیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ  ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا  ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ    (ابراھیم : 33۔34)

اور اس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے کہ وہ دونوں ہمیشہ اور مسلسل چلتے رہتے ہیں اور اس نے تمہارے لیے دن اور رات کو مسخر کر دیا ہے اور تم نے اس سے جو کچھ بھی مانگا وہ اس نے تمہیں عطا کیا اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو تم انہیں شمار نہ کر سکو گے بے شک انسان ظلم کرنے والا اور ناشکری کرنے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی نعمتوں میں دن اور رات کو بھی بطور احسان کے ذکر فرمایا ہے اور انہی دونوں کو زمانہ کہتے ہیں ۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشام نعمت وقت ہے جو بنیادی نعمتوں میں سے ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی ہے اور وقت کی عظمت پر تنبیہ کی ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَالْعَصْرِ  اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ   (العصر:1۔2)

وقت کی قسم ! بے شک انسان خسارے میں ہے ۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہوا :

وَالضُّحٰى   وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى  (الضحی:1۔2)

چاشت کے وقت کی قسم جب ڈھانپ لے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت مقرر اور محدود کر دیاگیا ہے اس سے مسلمان کی زندگی میں وقت کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے ان تمام عبادات میں پانح نمازوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

بے شک نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں ادا کرنا فرض کی گئی ہے۔‘‘(سورۃ النساء : 103)
یعنی ایک خاص وقت میں اس کا ادا کرنا فرض کیا گیا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ ان سب باتوں کی پر زور تائید کرتی ہے جو قرآن کریم میں ملتی ہیں رسول کریم ﷺ وقت پر بہت توجہ دیتے تھے وقت مسلمان کے پاس ایک امانت ہے قیامت کے  دن اس کے بارہ میں پوچھا جائے گا قیامت کےدن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر بندے سے چار سوال کیے جائیں گے ان میں سے دو سوالات کا تعلق صرف وقت سے ہے۔

عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
سیدنا ابوبرزہ اسلمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بھی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیاجائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کی، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا۔ ( ترمذی : 2417)
نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسی عبادات کے لیے خاص وقت مقرر ہیں اس وقت میں تاخیر درست نہیں بعض عبادات تو ایسی ہیں کہ اگر ان کو اصل وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں ادا کیا جائے تو وہ عبادت قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر پاتی ان کا وقت سے گہرا تعلق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبادات کو ان کے وقت پر ادا کرنے پر زور دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا

أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:الصَّلاَةُ لِوَقْتِهَا

 کون سے اعمال افضل ہیں جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ (بخاری:7534)
نبی کریم ﷺ لوگوں کی نسبت اپنے وقت کے بارے میں بہت زیادہ حساس تھے۔ ان کا کوئی بھی وقت اللہ تعالیٰ کے کام کرنے کے علاوہ نہیں گزرتا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جب آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے تو اپنے گھریلو وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے، ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے لیے (یعنی آرام کے لیے) پھر اپنے حصے کو اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔‘‘
(بیہقی :1430)
نبی کریم ﷺ تو یہ کوشش فرماتے کہ آپ کا سارا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں گزر جائے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وقت کی تنظیم اور ترتیب کا اہتمام کریں اور اپنی خصوصی اور عمومی زندگی میں اس کو بلند مقاصد کے حصول کے لیے کام میں لائیں۔ ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنا وقت اس طرح تقسیم کرے کہ عبادات ومناجات میں کوئی خلل نہ آنے پائے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: ” اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هِرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاءَكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ

 سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کسی شخص کو نصیحت فرما رہے تھے’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے قبل غنیمت سمجھو، بڑھاپے سے پہلے جوانی،بیماری سے پہلے صحت،فقیری ،محتاجی سے پہلے خوشحالی،مصروفیت سے پہلے فرصت اور موت سے پہلے زندگی کو۔‘‘( مستدرک حاکم :7846)
رسول اللہ ﷺ اعمال کی ادائیگی صبح سویرے کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ۔

عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا(ابو داؤد : 6202)

سیدنا صخر الغامدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ اے اللہ میری امت کے لیے صبح کیے جانے والے کام بابرکت بنا دے۔‘‘
سیدنا صخر رضی اللہ تاجر پیشہ تھے وہ اپنے تجارتی سامان کو دن کے ابتدائی حصے میں روانہ فرماتے جس سے وہ انتہائی زیادہ دولت مند ہوگئے(آج ہم اپنا حال دیکھیں کہ دوپہر تک سوتے رہتے ہیں پھر روزی میں بے برکتی کا شکوہ کیسا؟)
اسلام نے وقت کا خیال نہ رکھنے اور ضائع کرنے سے ڈرایا ہے اور اس کے لیے ایسے ضابطے مقرر کیے ہیں جن کی بنیاد پر مسلمان اپنے وقت کی حفاظت کر سکتاہے۔
وقت ضائع کرنے والے امور میں سب سے زیادہ سخت تاخیر کرنا، ٹال مٹول کرنا اور لمبی لمبی امیدیں باندھنا ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’لمبی امیدسے کام میں سستی پیدا ہوتی ہے ، تاخیر اور ٹال مٹول کرنے کی عادت پیدا ہوتی ، فضول مشغولیت (اور نیک عمل سے) پیچھے ہٹنے کا سبب بنتی ہے زمین کی طرف یعنی ذلت کی طرف لے جاتی ہے اور رذالت کے گڑھے میں پھنکتی ہے۔ (القرطبی الجامع لأحکام القرآن : 3010)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ’’جس قدر ندامت مجھے اس دن کے سورج غروب ہونے پر ہوتی ہے اتنی ندامن مجھے کسی دوسرے چیز پر نہیں ہوتی جس دن میری عمر تو کمر ہوگئی ہے اور اس میں کوئی نیک عمل میں اضافہ نہیں کرسکا۔

(الوقت فی حیاۃ المسلم ، ص:13)

قارئین کرام! یادرکھو دنیا میں عمل ہے حساب نہیں ، آخرت میں حساب ہے عمل نہیں ، مسلمانو! اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں روزی میں برکت عطا فرمائے تو چاہیے کہ اسلام کے روز مرہ نظام حیات کے مطابق زندگی گزاری جائے اس نظام کا تقاضا رات کو جلدی سونا اور صبح سویرے جلدی اٹھنا ہے اور نبی کریم ﷺ کی دعا کا مستحق بنتا ہے۔
دوسروں کے حقوق میں سے کسی کے حق کے ساتھ کوئی ظلم نہ کرے نہ کسی کا حق مارے اور نہ ہی ایک کا حق دوسرے کو دے بلکہ سب کے حقوق اپنے اپنے اوقات میں ادا کرے اسلام ایک مسلمان انسان میں ذاتی نگرانی کا شعور ابھارتا ہے اور اس کی نشوونما کرتاہے۔
مسلمان وقت پر اچھے اعمال کرے تو اسے اجر ملے گا اگر وہ خطا کا ر ہے تو اسے اپنی برائی اور گناہ کی سزا سے دوچار ہونا پڑے گا یہ ایسا شعور ہے جس سے مسلمان اپنے اعمال کو بہت اچھے طریقے اور اخلاص سے وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
۔۔۔۔۔۔

رمضان المبارک میں کرنے کے کام

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ ذو الجلال و الاکرام کیلئے ہیں، اس کی شہنشاہی کا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا، اور اس کے غلبے کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، میں اپنے رب کے عظیم انعامات پر حمد خوانی و شکر بجا لاتا ہوں، اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلئے تعریفیں ہیں، وہی شہنشاہ، پاکیزہ، اور سلامتی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے  اور رسول ہیں، آپ ہی نماز روزےکی پابندی کرنے والوں میں سب سے افضل ہیں، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول  محمد ، انکی اولاد اور صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہو، تم رضائے الہی اور جنتیں حاصل کر لو گے۔
مسلمانو!غفلت سے بچو؛ کیونکہ  یہ انسان کو ہلاک کر سکتی ہے، اور توبہ کرنے میں تاخیر مت کرو؛ کیونکہ جھوٹی تمنائیں تباہ کن ہوتی ہیں۔
اللہ تعالی نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں کے دریا بہا دیے  ہیں، چنانچہ مؤمنوں نے ان کا شکر ادا کیا، جبکہ اللہ کے دشمنوں نے ان کی نا شکری کی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ [لقمان : 12]

 اور جو شکر کرے تو وہ اپنے فائدے کیلئے شکر کرتا ہے، اور جو نا شکری کرے تو بیشک اللہ تعالی بے نیاز اور تعریفوں والا ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے جاری کردہ عبادات و فرائض اور منع کردہ  حرام امور کی وضاحت پروردگار کی طرف سے  لوگوں پر کرم نوازی ہے، بلکہ یہ سب اشیاء پاکیزگی، تزکیہ،  اور جنتوں میں ہمیشہ رہنے کی تیاری ہے، تا کہ مکلف انسان انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کیساتھ رہے، یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہونگے، یہ صرف اللہ کا ہی فضل ہے، اور اللہ تعالی جاننے کیلئے کافی ہے۔
اللہ تعالی خود بھی پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیزیں ہی قبول فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

اَلَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ  [النحل : 32]

جنہیں فرشتے اس حال میں فوت کرتے ہیں کہ وہ نیکی کرنے والے ہوتے ہیں ۔ فرشتے انہیں سلام عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں جنت میں داخل ہو جاؤ ، اس کے بدلے جو تم کیا کرتے تھے۔
اسی طرح فرمایا:

مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [المائدة : 6]

 اللہ تعالی تمہیں کسی تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے ، اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دے تا کہ تم شکر کرو۔
ایک اور مقام پر فرمایا:

وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ [فاطر : 18]

 جو کوئی بھی پاکیزگی اختیار کرے تو وہ اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے، اور اللہ کی طرف ہی جانا ہے۔
ایسے ہی ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں
تمہارے لیے شمار کرتا ہوں، پھر تمہیں یہ پورے کے
پورے لوٹا دونگا، چنانچہ جسے خیر ملے تو وہ اللہ کی حمد خوانی کرے،اور بصورت دیگر اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) اس حدیث کو ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مسلم نے روایت کیا ہے۔
چنانچہ مؤمنوں کے اعمال اچھے ہونے کی وجہ سے ان کے حالات و نتائج دونوں بہتر رہتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ  [القصص : 83]

 یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کیلئے مختص کرینگے  جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے، اور انجام متقی لوگوں کا ہی اچھا ہوگا۔
اور خالص توحید ہی انسان کو مطہر بناتی ہے اور اعمال کو پاکیزہ اور صحیح بناتے ہوئے ان کے اجر  میں اضافے کا باعث بنتی ہے، چنانچہ تمام تر نیکیاں توحید الوہیت کے تابع ہیں ، لہذا جس شخص نے بھی عبادات میں شرک و دینِ الہی سے متصادم بدعات ، اور نفاق کی آمیزش قرآن و سنت کے احکام سے نفرت رکھتے ہوئے کی تو  ایسے شخص کو نیک کام بالکل بھی فائدہ نہ دیں گے، اور نہ ہی وہ اللہ تعالی  سے توبہ کیے بغیر  جنت میں داخل ہو سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ [الأعراف : 40]

 بیشک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے اعراض کیا ان کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، اور نہ ہی وہ اس وقت تک جنت میں داخل ہو سکیں گے جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ سے نہ گزر جائے، اور ہم مجرموں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا:

فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

 تم ان سے واسطہ نہ رکھو، وہ بہت غلیظ ہیں، اور انکا ٹھکانہ جہنم ہے، جو انکے کرتوتوں کا صلہ ہے۔[التوبۃ: 95]
شفاعت صرف مؤمنوں کیلئے ہی ہوگی، چاہے انہوں نے کچھ کبیرہ گناہ ہی کیوں نہ کیے ہوئے ہوں۔
تمام عبادات کو عظیم حکمتوں کی بنا پر شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے، جن کے جلیل القدر مقاصد بھی ہیں، چنانچہ اگر ان عبادات سے مطلوبہ حکمت و مقصد حاصل ہو تو انسان کو عظیم ترین فائدہ ہوگا، اور اگر یہ عبادات مطلوبہ حکمت و مقصد سے خالی ہوں تو یہی عبادات انسان کیلئے بوجھ بن جائیں گی۔
روزوں کو تقوی، اور اپنے آپ و دیگر مخلوقات پر احسان کیلئے شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے۔
اللہ تعالی نے اس مبارک مہینے میں بہت سی عبادات کو جمع فرما دیا ہے کہ فرائض و نوافل نمازوں کی کمی پوری کرنے کیلئے دن رات کثرت سے نوافل پڑھنے کا موقع فراہم کیا ،  اسی مہینے میں وہ لوگ زکاۃ بھی دیتے ہیں جن کی زکاۃ کا سال رمضان میں مکمل ہو رہا ہے،  صدقہ خیرات بھی اس مہینے میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے، اس ماہ میں اللہ تعالی نے لوگوں پر احسان اور ان کیساتھ نیکی کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے، اور صاحب استطاعت کیلئے عمرہ کرنا شرعی عمل قرار دیا، اور یہی حج اصغر ہے، اس ماہ میں اللہ تعالی نے قرآن نازل فرما کر اسے خصوصیت سے نوازا، اس مبارک مہینے میں فہم قرآن کیلئے لوگوں کی شرح صدر فرمائی ، لوگوں کی زبانیں بھی اس مہینے میں تلاوت قرآن سے تر رہتی ہیں۔
اس ماہ میں اللہ تعالی نے امت کو سرکش شیطانوں سے تحفظ عطا فرمایا جس کی وجہ سے سرکش شیاطین دیگر مہینوں کی طرح اس مہینے میں شرو فساد پر مشتمل اپنے اہداف پورے نہیں کر پاتے۔
اللہ تعالی نے یہ بھی کرم نوازی فرمائی کہ اس ماہ میں روزے داروں کی دعا  قبول ہوتی ہے، چنانچہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (تمہارے پاس رمضان ، برکت والا مہینہ آیا ہے، اس ماہ میں اللہ تعالی تمہیں ڈھانپ لیتا ہے، چنانچہ اس میں رحمت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالی تمہاری نیکیوں کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوششوں کو دیکھتا ہے، اور فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے، لہذا تم اللہ تعالی کو اپنے بارے میں خیر ہی دکھاؤ، کیونکہ وہ شخص واقعی بد بخت ہے جو اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہے) طبرانی، اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔[البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع کہا ہے؛ کیونکہ اس کی سند میں محمد بن قیس  نامی راوی ہے جو کہ محمد بن سعید المصلوب کے نام سے مشہور کذاب راوی ہے، شاید شیخ محترم حفظہ اللہ نے منذری کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے راویوں کو ثقہ کہہ دیا ہے جو کہ درست نہیں ۔ واللہ اعلم ،  (مترجم)
رمضان عظیم برکتوں والا مہینہ ہے، اس کی ایک ایک گھڑی برکتوں والی ہے، اس لیے اے روزے دار! ان قیمتی لمحات میں  نیکیاں کمانے سے غفلت مت برتنا؛ کیونکہ گزرا وقت قیامت تک واپس نہیں آئے گا۔
اللہ تعالی نے جو تمہیں مال دیا ہے اس کے بارے میں حساب کرو،  اور اسے حرام یا مشکوک مال سے بچاؤ، کیونکہ حرام کمائی دعا اور نیک اعمال کی قبولیت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اپنے مال کو -اے مسلم!- زکاۃ دیکر پاک کرو، کیونکہ اپنے مال کی زکاۃ ادا نہ کرنے والے شخص کیلئے اس کا مال عذاب اور شر کا باعث بن جائے گا، وہ آج جس مال کو جمع کرنے کیلئے سر گرداں رہتا ہے کل کوئی اور اسے اڑا کر مزے اٹھائے گا، لیکن نقصان حرام کمانے والے کا ہوگا، چنانچہ سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی بھی خزانے کا مالک اپنے مال کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گی، جو اس کی باچھوں کو پکڑ کر اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا: “میں ہی تیرا مال ہوں اور تیرا خزانہ ہوں”) بخاری و مسلم
زکاۃ اللہ کی عبادت اور فقیروں کا حق ہے، جو کسی حال میں معاف نہیں ،جبکہ فرض نان و نفقہ اور نفلی صدقات کا ثواب اس مہینے میں اور دیگر ایام میں بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فضل و کرم اور  جود سخا ہو کہ اللہ تعالی نے تمہیں ڈھیروں مال سے نوازا اور اس میں سے زکاۃ کی صورت میں تھوڑے سے مال پر رضا مندی ظاہر کی جو کہ صرف کل مال کا چالیسواں حصہ بنتا ہے، یعنی ایک ملین رقم میں سے  25000، اور کمی بیشی کی صورت میں اسی حساب سے زکاۃ ادا کی جائے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ    [سبأ : 39]

اور تم جو کچھ بھی [اللہ کی راہ میں]خرچ کرو گے تو اللہ اسے واپس ضرور لوٹائے گا، اور وہی بہترین رزق دینے والا ہے۔
چنانچہ اگر مالدار طبقہ اپنی زکاۃ ادا کرے تو کوئی فقیر باقی ہی نہ بچے۔
اسی طرح ذکر کے بارے میں بھی خصوصی اہتمام ہونا چاہیے، کیونکہ ذکر افضل ترین عمل ہے، اور قرآن کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی رمضان میں زیادہ تلاوت کرنے کیلئے وقت مختص کرتے تھے، بلکہ صحیحین کی احادیث کے مطابق آپ جبریل امین کیساتھ قرآن مجید دہراتے بھی تھے، اور آپ کے اس عمل کیلئے غور و فکر کرنے والوں کی نظر میں مناسبت بالکل واضح ہے، کیونکہ جس طرح کھانا پینا بدن کی غذا ہے، اسی طرح قرآن و ذکر  روح کی غذا ہے۔
روزے کی وجہ سے روحانیت مضبوط ہوتی ہے، چنانچہ مسلمان قرآن و ذکر کی وجہ سے عبادت کے درجات و فضائل حاصل کر تا جاتا ہے ۔
اس لیے -اللہ تم پر رحم فرمائے- ان لمحات میں ہر قسم کی نیکی کرتے جاؤ، اور چاہے کوئی نیکی چھوٹی ہی کیوں  نہ ہو پھر بھی اسے کمتر مت سمجھو، فرمانِ باری تعالی ہے :

إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا

 بیشک اللہ تعالی کسی پر ایک ذرے برابر بھی ظلم نہیں کرتا،  اور اگر ذرہ برابر نیکی ہو تو اسے بڑھا دیتا ہے، بلکہ اپنی طرف سے اجر عظیم سے بھی نوازتا ہے۔[النساء : 40]
اور نہ ہی کسی چھوٹی برائی کو چھوٹا مت سمجھو؛ کیونکہ اس کے بارے میں باز پرس کرنے والا، انہیں لکھ کر محفوظ کرنے والی کتاب موجود ہے، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو چھوٹے گناہوں کے بارے میں عدم توجہ کی وجہ سے تباہ ہوئے فرمانِ باری تعالی ہے:

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

 جو شخص بھی ذرے برابر نیکی کریگا وہ اس نیکی کو دیکھ لے گا۔ اور جو شخص بھی ذرے برابر برائی کریگا تو وہ اس برائی کو بھی دیکھ لے گا۔[الزلزال : 7 – 8]
اور حدیث میں ہے کہ: (اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ، کیونکہ یہ سب جمع ہو کر انسان کو ہلاک کر دیتے  ہیں)
فرمانِ باری تعالی ہے:

 فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم سب نے اللہ کے پاس جانا ہے، پھر وہ تمہیں تمہارے متنازع امور کے بارے میں بتلائے گا۔ [المائدة : 48]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے،  میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں  اللہ کیلئے ہیں ، وہی اپنے بندوں کی توبہ قبول فرما کر ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، اس نے اپنی مخلوقات پر اتنا فضل وکرم نازل فرمایا ہے کہ اللہ کے علاوہ اسے کوئی شمار نہیں کر سکتا، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں  وہی آسمان و زمین کا خالق ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور  یکتا ہے ، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسی کے بندے اور رسول ہیں ، آپ کی دلائل و براہین کے ذریعے مدد کی گئی، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ،انکی اولاد ، اور نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرتے ہوئے نیکیاں کماؤ اور حرام چیزوں سے بچو۔
اللہ کے بندو!
اس بابرکت مہینے میں امت پر ہونے والی لامتناہی خیر اور ڈھیروں اجر تمہیں مبارک ہو، چنانچہ جس شخص نے بھی اس ماہ میں روزے رکھے اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اور جس شخص  نے اس ماہ میں قیام کیا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اور جو شخص لیلۃ القدر  کا قیام کرے اس کے بھی سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے، اس بارے احادیث صحیح ثابت ہیں۔
اللہ اکبر! سبحان اللہ! توبہ قبول کرنے والے شہنشاہ کی طرف سے کتنا عظیم ثواب ہے!
فرمانِ باری تعالی ہے:

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [السجدة : 17]

 کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیلئے کیا کچھ مخفی رکھا گیا ہے، یہ ان  کے اعمال کی جزا ہوگی۔
ان تمام فضائل و خوشخبریوں کے ساتھ مسلمان کو اس وقت بہت صدمہ ہوتا ہے کہ امت فرقہ واریت، لڑائی جھگڑوں میں مبتلا ہے، اور اسلام کو بدنام کرنے والی جماعتوں کی بھر مار ہے، جو کہ اسلام کے صاف شفاف اور روشن نظریات و احکامات بدلنا چاہتی ہیں، لیکن ناکامی اور رسوائی اللہ تعالی نے دین کے دشمن  لوگوں کیلئے لکھ دی ہے۔
اس لیے اے مسلم! حق پہچانو تا کہ تم حق کے راہی بن  سکو، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔[التوبة : 119]
اور باطل کو پہچانو اور ان سے بچ کر رہو، بلکہ باطل نظریات و بدعات کے خلاف جد و جہد کرو۔
اس امت کی پہچان یہ ہے کہ ہر لمحے اور کسی بھی جگہ حق بات کی مدد اور باطل کو مٹاتی رہے گی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ : (میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر ڈٹا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے گا) مسلم
پوری امت کو اللہ کی طرف توبہ کرنی چاہیے تا کہ اللہ تعالی امت کو در پیش مسائل رفع فرمائے۔
اسی طرح ہر شخص کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں اور حکمرانوں کیلئے دعا کرے، اور جہاں اپنے لئے دعائیں مانگے وہاں دیگر سب کو بھی اپنے ساتھ شریکِ دعا کرے، کیونکہ رمضان مصیبتوں کو ٹالنے ، اور خیر و خوشحالی کا باعث ہے۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

 یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،انہوں نے حق کے ذریعے عدل و انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا،  یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما دے، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا رب العالمین !
یا اللہ! ہمارے ملک کو امن و امان اور پرسکون بنا، یا ذا الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ  [النحل: 90، 91]

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔

روزہ کے مقاصد ،اہمیت اور صدقۂ فطر

روزہ ارکان اسلام کاایک اہم رکن ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(بقرة:183)

’’اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔‘‘
اللہ تعالی نےماہ رمضان کی فضیلت اجاگر فرمائی۔چونکہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔اسلئے اسےتمام مہینوں میں سےامتیازی حیثیت عطافرمائی۔

 چنانچہ فرمان الٰہی ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ (بقرة:185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے، ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو ۔‘‘

روزہ کا مقصد :

روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی کا حصول ہے اور تقویٰ انسان کےاخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتاہے۔

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

’’روزے کے ذریعے تم پرہیز گار بن جاؤ گے۔‘‘
روزے سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے روزہ پاکیزگی اور یارسائی کی عملی مشق ہے جس کے ذریعے سے لوگ روحانی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کرتے ، اپنے آپ کو خوبیوں سے آراستہ کرتے اور تقویٰ واصلاح نفس کے بلند درجات پہ فائز ہوتے ہیں۔
مسلم معاشرے کی تربیت اور تزکیۂ نفس میں رمضان المبارک کے اثرات واضح ہیں بنابریں شارع علیہ السلام نے نفلی طور پر بھی مختلف دنوں اور تاریخوں میں روزہ رکھنے اور اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور روزے کی برکت حاصل کرنے کے لیے سارا سال یہ مشق جاری رکہی جاسکتی ہے تاکہ جیسے ہی کوئی مسلمان اپنی نفسانی خواہشات کا کنٹرول اور دل کی سختی کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کرے تو اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کے حصول کے لیے روزہ رکھ سکتاہے۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےر وایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا

’’جس آدمی نے اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر(70) سال کی کی مسافت کے بقدر دور فرمائیں گے۔ (صحیح بخاری ، الحدیث : 2840 ۔ سیرت النبی ﷺ ڈاکٹر علی محمد صلابی ،جلد 2۔ ص:305۔306)
حافظ ابن القیم (م751ھ) روزہ کے مقصد درج الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ :
’’ روزہ کا مقصودیہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہو اور اس کے ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کے لیے اپنے نفس کا تزکیہ کرسکے ۔ بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہو اور یہ بات یاد آئے کہ کتنے مسکین ہیں جو نان شبینہ کے محتاج ہیں وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کر دے اور اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے جن میں کہ دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام، مجاہدین کی ڈھال، اور ابرار ومقربین کی ریاضت ہے۔
( زاد المعاد 1/152)
روزہ کے مقاصد پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ

’’روزہ ڈھال ہے۔‘‘
چنانچہ ایسے شخص کوجو نکاح کاخواہش مند ہو مگر استطاعت نہ رکھتا ہو روزے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے مقصود یہ ہے کہ روزہ کے مصالح اور فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے۔ اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے ۔ ( زاد المعاد 1/152)
امام الہند مولانا ابو الکلام آزادرحمہ اللہ ( م 1958ء) روزہ کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پس روزہ وہ ہے جو ہمیں پرہیزگاری کا سبق دے روزہ وہ ہے جو ہمارے اندر تقویٰ اور طہارت پیدا کرے روزہ وہ ہے جو ہمیں صبر وتحمل شدائد وتکالیف کا عادی بنائے ، روزہ وہ ہے جو ہماری بہیمی قوتوں اور غضبی خواہشوں کے اندر اعتدال پیدا کرے، روزہ وہ ہے جس سے ہمارے اندر نیکیوں کا جوش ،صداقتوں کا عشق، راستبازی کی شیفتگی اور برائیوں سے اجتناب کی قوت پیدا ہو یہی چیز روزہ کا اصل مقصود ہو اور باقی سب کچھ بمنزلہ وسائل وذرائع کے ہے۔ (ارکان اسلام ، ص:284)
رمضان کو روزہ کے ساتھ کیوں مخصوص کیاگیا؟
وہ کون سا مقدس مہینہ تھا جس میں کلام الٰہی بندوں کو پہنچنا شروع ہوا وہ ماہ رمضان تھأ۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ (بقرۃ :185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان میں روزے فرض کیے ہیں اور ان دونوں کو ایک سلاتھ لازم وملزوم قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان دو برکتوں اور سعادتوں کا اجتماع بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا اور گم کردہ راہِ انسانیت کو صبح صادق نصیب ہوئی ۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م 1176ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’کسی اور مہینہ کی تعین ہونا ہی تھی تو اس کے لیے اس مہینہ سے بہتر کوئی مہینہ نہ تھا جس میں قرآن مجید نازل ہوا ملت مصطفوی کی بنیاد زیادہ مستحکم ہوئی مزید براں یہ کہ شب قدر کا امکان بھی زیادہ تر اسی مہینہ میں ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ 2/37)

حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’اس مہینہ کو قرآن مجید سے خاص مناسبت ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید اسی مہینہ میں نازل کیاگیا یہ مہینہ ہر قسم کی خیروبرکت کا جامع ہے آدمی کو سال بھر میں مجموعی طور پر جتنی برکتیں حاصل ہوتی ہیں وہ اس مہینے کے سامنے اس طرح ہیں جس طرح سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ،اسی مہینہ میں تسکین باطنی کا حصول پورے سال اطمینان باطنی کے لیے کافی ہوتاہے اور اس میں انتشار اور پریشان خاطری بقیہ تمام دنوں بلکہ پورے سال کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے قابل مبارک  ہیں وہ لوگ جن سے یہ مہینہ راضی ہوگیا اور ناکام وبد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس کو ناراض کرکے ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم ہوگئے۔ (مکتوبات امام ربانی 1/8)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :

’’ہم کو صاف بتا دیا گیا کہ مفروضیت صیام ورمضان صرف اس لیے ہے کہ ہم کو اس عطائے ناموس فرقان وھدیٰ(قرآن) پر خدا کا شکر بجا لائیں اور اس کے نام کی تقدیس کریں پس کون مسلم ہے جو خدا کے اس احسان اکبر اور نعمت عظیمہ کے شکر کے لیے تیار نہیں اور اس کی تقدیس کے لیے آمادہ نہیں اس کی تقدیس وتمجید میں خود کو فراموش کرو اور اس کے کلام کی عظمت کو یاد کرو ۔ (ارکان اسلام ص : 227)

روزہ کی فضیلت :

ارشاد نبوی ﷺ ہے :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

’’جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دے گا ۔ (صحیح بخاری)

لا حاصل روزہ :

رسول اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ

’’جو شخص روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ کے ہاں روزہ کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان وذہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پرواہ نہیں ۔ ( معارف اہلحدیث 4/112)
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
پھر کتنے لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ایک سچے صائم کی پاک اور ستھری زندگی بھی انہیں نصیب ہے آہ میں ان لوگوں کو جانتا ہوں جو ایک طرف تو نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں دوسری طرف لوگوں کا مال کھاتے، بندوں کے حقوق غصب کرتے ۔ عزیز واقارب کے فرائض پامال کرتے، بندگان الٰہی کی غیبتیں کرتے ان کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے طرح طرح کے مکر وفریب کو کام میں لاتے ہیں یعنی اپنے دل کے شکم کو تو گناہوں کی کثافت سے آسودہ اور سیر رکھتے ہیں جب کہ ان کے جسم کا پیٹ بھوکا ہوتاہے کیا یہی وہ روزہ دار نہیں جن کی نسبت فرمایا کہ
كم من صائم ليس له من صوم إلا الجوع والعطش (صحيح البخاري)
’’ کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سوا بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (ارکان اسلام ص : 285)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (م1999ء) لکھتے ہیں کہ :
شریعت اسلامی نے روزہ کی ہیئت اور ظاہری شکل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کی حقیقت اور اس کی روح کی طرف بھی توجہ دی ہے اس نے صرف کھانے پینے اور جنسی تعلقات ہی کو حرام نہیں کیا بلکہ ہر اُس چیز کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے جو روزہ کے مقاصد کے منافی اور اس کی حکمتوں اور روحانی واخلاقی فوائد کے لیے مضمر ہے اس نے روزہ کو ادب وتقویٰ،دل اور زبان کی عفت وطہارت کے حصار میں گھیر دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ بدکلامی اور فضول گوئی کرے نہ شوروشر کرے اگر کوئی اس کو گالی دے اور لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ (صحیح بخاری)
یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :
’’جس نے جھوٹ بولنا اوراس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو الله تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ (صحیح بخاری)
وہ روزہ جو تقویء اور عفاف کی روح سے خالی اور محروم ہو وہ ایک ایسی صورت ہے جس کی حقیقت نہیں ایسا جسم ہے جس کی روح نہیں۔
حدیث میں آتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ :
’’کتنے روزہ دار ہیں کہ جن کو ان کے روزہ سے سوائے بھوک اور پیاس کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا اور کتنے ایسے عبادت گزار ہیں جن کو اپنے قیام میں شب بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ (صحیح بخاری  بحوالہ : ارکان اربعہ ، ص:286)

اعتکاف :

ارشاد الٰہی ہے :

وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ(بقرۃ:187)

’’جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں صاحب احسن البیان فرماتے ہیں کہ
’’عاکفون فی المساجد‘‘ سے استدلال کیا گیا ہے کہ  اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی اکرمﷺ کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہرچیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے ۔‘‘ (احسن البیان ص:75۔76)
اعتکاف رمضان کے آخری عشرہ میں مسنون ہے ، اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر طرف سے یک سو اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالیٰ سے لَو لگا کے اُس کے درپر(یعنی کسی مسجد کے کونہ میں) پڑجائے اور سب سے الگ تنہائی میں ، اس کی عبادت اور اسی کے ذکر وفکر میں مشغول رہے یہ خاص اس کی عبادت ہے اس عبادت کے لیے بہترین وقت رمضان المبارک اور خاص کر اس کا آخری عشرہ ہی ہو سکتا تھا۔ اسی لیے اسی کو اس کے لیےانتخاب کیاگیا۔
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’ہر مسلم آبادی میں چند نفوس مسلم کے لیے ضروری ہے کہ اواخر عشرہ رمضان میں مسجد کے ایک گوشہ میں شب وروز محویت اتباع نبوی، تلاوت کتاب عزیز، تفکر خلق سماوات وارض ذکر نعم الٰہی تذکر اسمائے حسنیٰ اور تحیت وتسلیم ادائے صلوٰۃ میں اس طرح بسر کریں کہ ان اوقات محدودہ کا کوئی لمحہ تذکر وتفکر سے خالی نہ ہو تاکہ ان اشخاص مقدسہ کا جلوہ اس کی آنکھوں میں پھرجائے۔ (ارکان اسلام ، ص:231)

 اعتکاف کا مقصد :

 اعتکاف رمضان کے فوائد ومقاصد کی تکمیل کے لیے ہے اگر روزہ دار کو رمضان کے پہلے حصے میں وہ سکون قلب ، فکر وخیال کی مرکزیت، انقطاع الی اللہ کی دولت، رجوع الی اللہ کی حقیقت اور اس کے درِ رحمت پہ پڑا رہنے کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی تو اعتکاف کے ذریعہ وہ اس کا تدارک کرسکتا ہے۔ ( ارکان اربعہ ص 294)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ( م 751ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’ اعتکاف کی روح اور اس سے مقصود یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوجائے اور اس کے ساتھ جمعیۃ باطنی حاصل ہو۔ اشتعال بالخلق سے رہائی نصیب ہو اور اشتعال بالحق کی نعمت میسر آئے اور یہ حال ہوجائے کہ تمام افکار وترددات اور ہموم ووساوس کی جگہ اللہ کا ذکر اور اس کی محبت لے لے ہر فکر اس کی فکر میں ڈھل جائے اور ہر احساس وخیال اس کے ذکر وفکر اور اس کے رضا وقرب کے حصول کی کوشش کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے مخلوق سے اُنس کیے بجائے اللہ سے اُنس پیدا ہو، اور قبر کی وحشت میں جب کوئی اس کا غم خوار نہ ہوگا یہ اُنس اس کا زاد سفر بنے یہ ہے اعتکاف کا مقصد جو رمضان کے افضل ترین دنوں یعنی آخری عشرہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ( زاد المعاد 1/178)
حکیم الامت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ( م 1176ھ) لکھتے ہیں :
’’چونکہ مسجد میں اعتکاف جمعیت خاطر،صفائی قلب، ملائکہ سے تشبّہ اور شب قدر کے حصول کا ذریعہ، نیز طاقت وعبادت کا بہترین مرقع ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کو عشرہ اواخر میں رکھا ہے اور اپنی امت کے محسنین وصالحین کے لیے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/42)
رسول اللہ ﷺ نے اس پر ہمیشہ مداومت فرمائی
اور مسلمانوں نے بھی ہر دور میں اس کی پابندی کی
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے رحلت فرمائی پھر آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ  کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اعتکاف کا معمول قائم رکھا۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے جس سال آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تو آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف کیا۔
لیلۃ القدر (شب قدر)
فرمان الٰہی ہے :

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ  وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ  لَيْلَةُ الْقَدْرِ ڏ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ    ڕهِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ(سورة القدر)

’’یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا  تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟  شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں ۔ یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے ۔‘‘
اس میں ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہنیے 83 سال 4 مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ورحمت سے اس رات کو رمضان کے آخری عشرہ میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ مسلمان اس کی جستجو میں رہیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ

’’شب قدر کو تلاش کرو رمضان کے آخری دس راتوں میں طاق راتوں میں ۔ ‘‘ (صحیح البخاری)
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ وہ شب ہے جس میں اقوام عالم کی کئی قسمتوں کا فیصلہ ہوا یہ وہ شب ہے جس میں برکات ربانی ہم پر سب سے پہلی بارش ہوئی ، یہ وہ شب ہے جب اُس سینہ میں جو خزینہ نبوت تھا۔ کلام الٰہی کے اسرار سب سے پہلے منکشف ہوئے اور رحمت ہائے آسمانی نے زمین میں نزول کیا۔ ( ارکان اسلام ، ص 229)
شب قدر کی خاص دُعا :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ :
’’ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات شب قدر ہے تو میں اسی رات اللہ تعالیٰ سے کیا دعا مانگوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ عرض کرو ۔

 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

’’اے میرے اللہ تو بہت معاف کرنے والاہے اور بڑا کرم فرما ہے اور معاف کردینا تجھے پسند ہے پس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ)
روزہ میں اسلام کا اصلاحی کردار
اسلام نے جس طرح دوسرے تمام فرائض وعبادات اور مناسک میں اپنا اصلاحی کردار ادا کیا ہے اس طرح اس نے روزہ کے مفہوم، آداب واحکام اور اس کی شکل اور طریقۂ کار میں اپنا یہ اصلاحی وانقلابی کردار ادا کیا ہے اور اس بات نے روزہ کو بہت آسان وخوشگوار فطرت سلیم سے بہت قریب، متعدد روحانی واجتماعی فوائد کا حامل اور معاشرہ پر پوری طرح اثر انداز کردیا ہے۔
شریعت اسلامی نے نہ روزہ نفس کو ایذا پہنچانے اور تکلیف میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور نہ اس کو اللہ تعالیٰ کا عذاب قرار دیا ہے قرآن وحدیث میں ایک لفظ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا جس سے اس کا اشارہ نکلتا ہو اس نے اس کو ایک ایسی عبادت کے طور پر پیش کیا ہے جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔
صائم (روزہ رکھنے والا) مجسمۂ نیکی ہے وہ کسی کی غیبت نہیں کرتا کسی کو بُرا نہیں کہتا کسی کو گالی گلوچ نہیں دیتا۔جھوٹی بات نہیں کہتا لا یعنی اور فضول باتوں سے پرہیز کرتا ہے اپنا وقت ذکر الٰہی میں گزارتا ہے یا خاموش رہتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو حرزِ جان بنائے رکھتا ہے کہ
’’ تم میں سے جب کسی کے روزے کا دن ہو تو بدگوئی کرے نہ شوروغل کرے اگر کوئی اسے بُرا کہے یا اس سے آمادہ شمشیرزنی ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ (صحیح بخاری)
اسلام نے روزہ کو ہر قسم کی طبقہ داری، قید اور بندش سے آزاد ہوکر بالکل عام کر دیا اور اعلان کر دیا ۔

 فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (بقرۃ185)

’’تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہے۔‘‘
اسلام نےمعذوروں اور بیماروں کو سہولت بہم پہنچائی ہے قدیم مذاہب میں لوگ اس سے مستثنیٰ نہ تھے۔

وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ

 ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے ۔
دوسری جگہ آتا ہے :

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ (بقرۃ:184)

اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
جو شخص ایک کی بجائے دو تین مساکین کو کھانا کھلا دے تو اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (احسن البیان ص:73)
مولانا ابو الکلام آزاد (م 1958ء) فرماتے ہیں :
روزہ داروں میں بوڑھے،کمزور، معذور، بیمار ہر قسم کے لوگ ہوتے تھے اسلام سے پہلے مذاہب میں ہم اس قسم کے معذور اصحاب کے لیے کوئی استثناء نہیں پاتے اسلام نے ان تمام اشخاص کو مختلف طریق سے مستثنیٰ کردیا۔
فرمان الٰہی ہے :

 فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ

’’ جوبیمار ہو یا مسافر ہو وہ ایام رمضان کے علاوہ اور دنوں میں قضا روزے رکھ لے اورجن کو روزہ رکھنا مشکل ہووہ ہر روزہ کے بدلے ایک دن کا کھانا ایک مسکین کو دے دیں۔(بقرۃ : 184)
حالتِ سفر میں رسول اکرم ﷺ روزے بھی رکھے ہیں اور افطار بھی کیا ہے حسب اختلاف حالات لیکن اگر کوئی شخص باوجود ضعف وعدم تحمل شدائد صوم سفر میں روزے رکھے تو اسلام میں یہ ثواب کا کام نہیں شمار ہوگا۔
صحیح بخاری میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے تو ایک بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ ایک آدمی کو سایہ کئے ہوئے لوگ کھڑے ہیں پوچھا کیا ہے لوگوں نے کہا ایک روزہ دار ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’ سفر میں اس طرح روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘ (ارکان اسلام ص 246)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ:
’’بہت سے مذاہب میں اس قدر غلو اور تشدد تھا کہ 40۔40 روز تک غذا کی ممانعت کر دی گئی تھی بعض مذاہب میں اس قدر آزادی اور توسع سے کام لیا گیا کہ صرف گوشت کھانا ممنوع قرار دیا گیا اور باقی ہر چیز جائز کر دی گئی لیکن اسلام کا حکیمانہ قانون اس تشدد وغلو اور ضرورت سے زائد توسع وآزادی دونوں کے خلاف ہے اسلامی روزہ ایک معتدل اور عادلانہ روزہ جس میں نہ جسم کو ایذا پہنچانے اور اپنے آپ کو زندہ درگور کردینے کی اجازت ہے اور نہ لگام کو ہاتھ سے چھوڑ دینے اور خیالی جنت میں رہنے کی۔‘‘ ( ارکان اربعہ ، ص:301)

صدقہ فطر :

صدقہ فطر کی مقدار کا بیان :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے لیے کھجوروں کا یا ’’جو‘‘ کا ایک صاع مسلمانوں میں سے ہر غلام اور آزاد ، مرد اور عورت ، بچے اور بڑے سب پر فرض فرمایا اور لوگوں کو نماز(عید) کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ (صحیح بخاری مترجم حدیث نمبر 716، ص:435)
نماز عید سے پہلے صدقہ فطر دے دینا چاہیے :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں عید الفظر کے دن ایک صاع کھانا (محتاجوں) کو دیا کرتے تھے اور ہمارا (کھانا)جَو ،خشک انگور، پنیر اور کھجور تھا۔ (صحیح بخاری مترجم ، حدیث نمبر 717 ، ص: 435)
صدقہ فطر آزاد اور غلام دونوں پر واجب ہے :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر ایک صاع کھجوریں یا ایک ’’جو‘‘ ہر مسلمان مرد ،عورت،آزاد اور غلام سب پر فرض کردیا ہے۔ (صحیح بخاری مترجم حدیث نمبر 718، ص: 436)

فطرانہ کی فرضیت :

ڈاکٹر علامہ علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ
رمضان المبارک 2ہجری میں اللہ تعالیٰ نے (صدقہ) فطرانہ فرض فرمایا یہ مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام ،مرد ، عورت ، چھوٹے اور بڑے پر فرض قرار دیاگیاہے، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے صدقہ فطر روزہ دار کو کوتاہیوں سے پاک کرنے اورغریبوں اورمسکینوں کے لیے رزق کی فراہمی کی غرض سے فرض قرار دیا ہے جس شخص نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کیا وہ صدقہ فرض اور جس نے بعد میں ادا کیا ہ عام نفلی صدقہ کہلائے گا۔ (سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر 1609۔ سنن ابن ماجہ ، حدیث نمبر 1827)

فطرانہ کے فوائد :

اس حدیث میں صدقہ فطر کی فرضیت کی حکمت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔

۱۔ کوتاہیوں سے پاکیزگی :

اس پہلی بات کا تعلق رمضان سے ہے انسان فطرتاً غلطی کوتاہی اور بے فائدہ یا نقصان دہ گفتگو وغیرہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے یہ وہ برائیاں ہیں جن سےعام طور پر کوئی بھی انسان بچ نہیں سکتا تو رمضان کے اختتام پر روزے دار کو ان آلائشوں سے پاک کرنے کے لیے اس پر فطرانہ فرض کر دیا گیا۔

۲۔ مساکین کے لیے فراہمی رزق :

اس دوسری بات کا تعلق رمضان کے بعد آنے والی عید ’’عید الفطر‘‘ کے ساتھ ہے۔ اس دن محتاجوں کے رزق کی فراہمی سے اس دن کی خوشیاں تمام امت تک پہنچ جاتی ہیں اور سارا مسلم معاشرہ خوش اور مسرور نظر آتا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اس مبارک دن میں کسی محتاج کو سوال اور کسی سے عطیہ مانگنے کی عار سے بچنے کے لیے ہر ایک مسلمان پر صدقہ فطر واجب کر دیا اور یہ فقراء اور مساکین کے علاوہ کسی کا حق نہیں ہے۔۔۔۔ مساکین کے لیے بطور خوراک ہے۔
نبی کریم ﷺ نے صدقہ فطر کی مقدار زیادہ مقرر نہیں فرمائی مبادالوگ ادا کرنے سے قاصر رہ جائیں بلکہ مقدار اتنی کم رکھی کہ ہر فرد سہولت سے ادا کر سکے اور یہ صدقہ فطر علاقے کی عام استعمال ہونے والی خوراک سے دینا مشروع ہے۔
بظاہر معمولی نظر آنے والی اس خوراک سے کم از کم عید کا دن تو بے فکری سے گزار سکتے ہیں اس لحاظ سے یہ دین کتنا عظیم ہے۔ (سیرۃ النبی ﷺ از علامہ علی محمد صلابی ، جلد 2 صفحہ : 306۔307)
۔۔۔۔۔

رمضان المبارک، اعتکاف اورنمازعید کے مسائل

نیکیوںاوررحمتوں کے موسم بہار کی آمدآمدہے،اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کےلیے خصوصی عنایا ت اورمہربانیاں ہوتی ہیں،خوابِ غفلت میں پڑے انسان کوتوبہ اورانابت کے مواقع نصیب ہوتےہیں،اس مقدس ماہ میں روزہ ،قیام اللیل ہرعبادت کی اپنی لذت ہوتی ہے۔
چنانچہ آپ ﷺ کافرمان عالی شان ہے
’’من صام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ ‘‘ (بخاری:38،صحیح مسلم:760)
ترجمہ:جس نے رمضان کے روزے ایمان کےحالت میں اورثواب کی نیت سے رکھے اس کے سارے گناہ معاف کردیےجاتےہیں۔
ایک اور روایت میں اس بابرکت ماہ کی بابت فرمایا:
’’ إذا جاء رمضان فتحت أبواب الجنۃ وغلقت أبواب النار وصفدت الشیاطین‘‘ (صحیح بخاری:1899،صحیح مسلم:1030)
ترجمہ:’’جب رمضان آتاہے توجنت کےدروازے کھول دیےجاتےہیں ،جہنم کے دروازے بندکردیے جاتےہیں اور شیاطین کوجکڑدیاجاتاہے‘‘۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس ماہ میں خوب محنت کی جائے،گناہوں سے توبہ کرکے جہنم کی آگ سے نجات حاصل کی جائے،او رحصولِ تقویٰ کےبعد شیاطین کے مکروفریب سے اپنے آپ کومحفوظ رکھاجائے۔اس مضمون میں اس ماہ مقدس کےحوالے کچھ مسائل واحکام بیان کرنےکی کوشش کی جائےگی۔  ان شاءاللہ العزیز۔

روزے کامعنی:

عربی زبان میں روزےکو ’’صوم‘‘ کہاجاتاہے،جس کے لغوی معنی ’’ رک جانے‘‘کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس کامطلب ہے: ’’ طلوع فجرسےلےکر غروبِ آفتاب تک ثواب کی نیت کےساتھ ان تمام چیزوں سے اجتناب کرناجن کےارتکاب سے روزہ ٹوٹ جاتاہے‘‘

روزہ کے ارکان:

اس کے تین رکن ہیں1نیت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیںاورفرض روزہ کےلیے طلوع فجرسے قبل نیت ضروری ہے جیساکہ حدیث میں ہے:
’’ من لم یجمع النیۃ قبل الفجرفلاصیام لہ ‘‘ (صحیح بخاری:1899،صحیح مسلم:1030)
’’جس نے فجرسے پہلے روزہ کی نیت نہیں کی اس کا روزہ ہی نہیں۔‘‘
نفلی روزہ کےلیے زوال سے پہلے نیت کی جاسکتی ہے بشرطیکہ خلافِ روزہ کوئی کام نہ کیاہو۔
نیز نیت دل کاعمل ہے روزے کےلیے زبان سے نیت کرناشرعاً ثابت نہیں ہے۔
2 روزہ کوتوڑدینےوالے امورسے اجتناب کرنا۔
3روزہ کےلیے بیان کردہ وقت(طلوعِ فجرسے لے کر غروبِ آفتاب)کی پابندی نہایت ضروری ہے۔
روزہ کن پر فرض ہے؟:
ہر اس شخص پر فرض ہے جس میں یہ شرائط پائی جاتی ہوں : مسلمان ہو،مکلّف ہو،روزہ رکھنےکی قدرت رکھتا ہوجیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ[سورہ البقرہ:185]

’’تم میں سے جوبھی اس مہینہ کوپائےوہ روزہ رکھے۔‘‘
اس آیت سے واضح ہواکہ ہر بالغ مکلف مسلمان پرروزہ فرض ہے،اس عموم سے وہ خارج ہیں جن کا استثناء قرآن وحدیث میں آیا ہے جیسے نابالغ ،مسافر،حیض، نفاس،حمل اور دودھ پلانےوالی عورتیںنیز بیمار،اورشرعی معذور وغیرہ۔

رمضان المبارک کی ابتدا:

رمضان کے روزے کےلیے رؤیتِ ہلال ضروری ہےآپﷺ نے فرمایا: چانددیکھ کرروزہ رکھو اور چانددیکھ کرعیدکرو اگر(انتیس شعبان کو)بادل ہوں توشعبان کے تیس دن مکمل کرکے رمضان کےروزے رکھو۔
نوٹ :شک کے دن کاروزہ رکھنا درست نہیں( شک سے مرادیہ ہےکہ کوئی یہ سمجھ کر روزہ رکھےکہ چلواگرآج یکم رمضان نہ ہواتومیرانفلی روزہ ورنہ رمضان کاپہلا فرضی روزہ ہوجائےگا)حدیث میں ہے’’ جس نےشک کے دن روزہ رکھااس نے ابوالقاسم محمدﷺکی نافرمانی کی‘‘ (سنن ابی داؤد:2336)
اسی طرح استقبال رمضان کے نام سے رمضان سے ایک دودن قبل روزہ رکھنابھی درست نہیں ہےآپ ﷺ کاارشادگرامی ہے:
’’لاتتقدموا صوم رمضان بیوم أو یومین إلا أن یکون صوم یصومہ رجل فلیصم ذلک الیوم۔‘‘ (صحیح بخاری:1914،صحیح مسلم:1082،مسنداحمد:7722)
’’رمضان سے۱ ایک دودن پہلے روزہ نہ رکھو ہاں مگر ایسادن ہوجس میں کوئی پہلےسے روزہ رکھتا رہتا ہے (مثلاسوموار،جمعرات کےدن)تووہ رکھ سکتاہے۔‘‘

روزےکاآغاز:

’’ فجرِثانی‘‘ جسےصبح صادق بھی کہتےہیں کے طلوع ہوتےہی روزے کا آغازہوجاتاہےاور اختتام غروب آفتاب کے ساتھ ہوتاہے۔ جیساکہ ارشادِباری تعالی ہے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ  [سورہ البقرہ:187]

’’اور کھاتے پیتےرہو یہاں تک کہ صبح کاسفیددھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہوجائے، پھررات تک روزے کومکمل کرو۔‘‘
اس آیت میں’’ خیط ابیض‘‘ اور’ ’  خیط اسود ‘‘سے مراد صبح کے اجالے کارات کی تاریکی سے الگ ہوناہے ۔

سحری کرنا:

یہ وقت نہایت برکت والاہے اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئےنوافل،اذکار،دعاوغیرہ میںصرف کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت آسمانِ دنیاپہ نزول فرماتاہے۔
شریعت نے سحری کھانےکی ترغیب دی ہے اوراس کھانے کوبابرکت قراردیاہےجیساکہ حدیث میں ہے:

’’تسحروا فإن فی السحوربرکۃ‘‘

(صحیح بخاری:1923،صحیح مسلم:2524)
سحری کیاکرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
ایک روایت میں اسے یہودکی مخالفت قراردیاہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے:

’’ إن فصل ما بين صيامنا وصيام أهل الكتاب أكلة السحور۔‘‘(سنن نسائی:2166)

’’ہمارے اوراہل کتاب کےروزوں میں یہ فرق ہے کہ وہ سحری نہیں کرتے‘‘۔
آپ ﷺنےا س میں تاخیرکی ترغیب دلائی ہے،آپ ﷺکی سحری اوراذان میں جووقفہ ہوتاتھا وہ پچاس آیتوں کے بقدرہوتاتھااس وقفہ کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے چھے منٹ کے برابر قراردیاہے۔(تنبیہ الأفھام بشرح عمدۃ الأحکام، صفحہ:463)
اگرکوئی شخص تاخیرسے بیدار ہوااسےجنابت کاعارضہ لاحق ہوگیاہےتوپہلے وہ سحری کرے پھر نماز فجرسے پہلےغسل جنابت کرلے۔
(صحیح مسلم:1109، سنن ابی داؤد:2390)
اگرکوئی شخص طلوع فجرکےبعدبیدارہواہےتووہ کھائے پیئے بغیرروزہ رکھ لےکیونکہ سحری کاوقت ختم ہوچکاہے، اوراگردوران کھانااذان ِفجرشروع ہوجائے تو وہ اپنا کھانا پور اکرےجیساکہ حدیث میں ہے:

’’ إذاسمع أحدکم النداء والإناء علی یدہ فلایضعہ حتی یقضی حاجتہ منہ‘‘(سنن ابی داؤد:2350)

’’جب تم میںسے کوئی فجرکی اذان سنے اورکھانےکابرتن اس کےہاتھ میں ہوتووہ اس برتن کواس وقت تک نہ چھوڑےجب تک وہ اپنے کھانے کی حاجت پوری نہ کرلے‘‘۔
سحری میں کھجورکوشامل کرنااچھاہے بلکہ آپ ﷺنے اس کوبہترین کھاناقراردیاہے

’’نعم سحورالمؤمن التمر ‘‘ (سنن ابی داؤد:2345،ابن حبان:3475)

مؤمن کی بہترین سحری کھجورہے‘‘۔

افطاری کا بہترین وقت:

غروب آفتاب ہوتےہی روزہ افطار کرلیناچاہیے،اس میں احتیاطی تاخیردرست نہیں ہے (جیساکہ کچھ لوگوں کی عادت ہےکہ احتیاطی طورپہ ایک دومنٹ تاخیرسےروزہ افطار کرتےہیں) حدیث میں ہے:

’’ لایزال الناس بخیرماعجلواالفطر۔‘‘(صحیح بخاری :1957،صحیح مسلم :2549)

’’لوگ اس وقت تک خیرپررہیں گے جب تک وہ روزہ کےافطارمیں جلدی کرتےرہیں گے۔‘‘
ایک حدیث قدسی میں ہے :

’’إنَّ أحبَّ عبادي إلیّ أعـجلھم فطرا۔‘‘(سنن ترمذی،کتاب الصوم،باب ماجاءفی تعجیل الافطار،حدیث:704)

’’میرےنزدیک میرے وہ بندےزیادہ محبوب ہیں جوروزہ افطارمیں جلدی کرتے ہیں‘‘ (یعنی غرو ب ِآفتاب ہوتےہی افطارکرلیتےہیں)۔
تازہ تر کھجورسے روزہ افطار کیا جائے اگروہ بھی میسرنہ ہوتو پانی کےچندگھونٹ پی کربھی روزہ افطار کیاجاسکتاہے۔ کچھ لوگ افطار پہ دسترخوان پہ بیٹھے مسلسل کھانےپینے میں مشغول رہ کر نمازمغرب کو ضائع کردیتےہیں،یہ نہایت قبیح عمل ہے اس سےاجتناب کرناچاہیے کچھ کھاپی کرنمازکوباجماعت ادا کیا جائےباقی نماز کے بعد آکر کھا پینا کیا جائے تاکہ فرض نمازضائع نہ ہو۔
اگرکوئی یہ سمجھ کرکہ سورج غروب ہوگیااورروزہ افطار کرلے توپھربعدمیں علم ہواکہ سورج غروب نہیں ہوا تھا تواس پرکوئی قضانہیں ہے جیساکہ اللہ پاک کافرمان ہے:

[وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ ۙ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ][سورۃ الاحزاب:5]

’’تم سے بھول چوک میں جوکچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں البتہ جس کاتم دل سے ارادہ کرو۔‘‘
صحابہ کرام  کے ساتھ آپ ﷺکی زندگی میں ایساواقعہ پیش آیاتھا(مطلع ابرآلودہونے کی وجہ سے وہ سمجھے کہ سورج غروب ہوگیاہے اورروزہ افطارکرلیا) آپ نے انہیں روزہ کےقضاکاحکم نہیں دیا، اسی طرح کاواقعہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دورمیں بھی پیش آیاتھا آپ نےبھی قضا کاحکم نہیں دیا۔(مصنف عبدالرزاق)
افطار کےوقت دعائیں کرنایہ بہت اچھاعمل ہے بلکہ وہ وقت تودعاؤں کی قبولیت کاہوتاہے اس موقع پرکثرت سے دعاکااہتمام کرناچاہیےجیساکہ حدیث میںہے:
’’إن للصائم عندفطرہ دعوۃ ماترد‘‘ (سنن ابن ماجہ:1753)
روزہ دارکی افطارکےوقت کی دعائیں رد نہیں ہوتیں‘‘۔
افطارکے وقت یہ دعاپڑھی جائے:

’’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘ (سنن ابی داؤد:2357)

’’پیاس ختم ہوگئی رگیں تر ہوئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔‘‘
علاوہ ازیں یہ دعابھی پڑھی جاسکتی ہے:

’’اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ‘‘ (سنن ابی داؤد:2358)

’’اے اللہ میں نے تیرےلیےروزہ رکھااورتیرے رزق پرافطارکیا‘‘۔

مسائل اعتکاف

یہ ایک مشروع اورمسنون عمل ہے اس کی فضیلت بھی حدیث میں آئی ہے جیساکہ ایک حدیث میں ہے:
’’من اعتکف یوماابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ وبین النار ثلاث خنادق کل خندق أبعدمابین الخافقین‘‘(معجم اوسط طبرانی7/220،حدیث:7326)
آپﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیاکرتےتھے(صحیح بخاری:2025،صحیح مسلم:1171) آپ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے رمضان میں اعتکاف کیا آپﷺ کی وفات کے بعدامہات المؤمنین نے مسجدمیں اعتکاف کیا۔ (صحیح بخاری:2026،صحیح مسلم:1172)
اعتکاف کی جگہ مسجدہے اوریہ مسجدکی عبادت ہےجیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ  [سورۃالبقرہ:187]

’’عورت بھی مسجد میں اعتکاف کرےجیساکہ امہات المؤمنین مسجدمیں اعتکاف کرتی تھیں۔‘‘
(صحیح بخاری:2033، صحیح مسلم:1173)
اعتکاف کرنےوالااکیسویں کی رات کو مسجدمیں آجائے اورفجرپڑھ کراپنی اعتکاف کی جگہ میںداخل ہوجائے۔
یہ آخری عشرہ نہایت فضیلت کاحامل ہے اس میں اللہ پاک نے لیلۃ القدر کورکھاہے جس کی ’’عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہترہے‘‘(سورۃ القدر:3)
اس رات کے قیام کی فضیلت کاذکر بھی حدیث میں آیاہے:
’’من قام لیلۃ القدر إیمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔‘‘(صحیح بخاری:2008،صحیح مسلم:7609)
جوشخص لیلۃ القدرکاقیام ایمان کےساتھ اورثواب کی نیت سے کرےگااس کے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
اور اس رات کےتلاش کی ترغیب آپﷺ نے اپنے صحابہ کودی ہے جیساکہ حدیث میں ہے:
’’ تحروا لیلۃ القدر فی الوترمن العشر الأواخر من رمضان‘‘(صحیح بخاری:2020)
’’رمضان کی آخری طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو‘‘
آپ ﷺ کا اس آخری عشرے میں یہی معمول ہوتاتھا جیساکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؅ فرماتی ہیں کہ
’’ کان رسول ﷺ إذادخل العشرالأواخرمن رمضان أحیالیلہ،وأیقظ أھلہ، وجدّ وشدّ مئزرہ۔‘‘ (صحیح بخاری:7074،صحیح مسلم:1174)
’’جب رمضان کاآخری عشرہ آتا آپﷺ شب بیداری کرتے اپنےگھروالوں کوجگاتے خوب محنت کرتے اورکمرکس لیتےتھے‘‘
آپ ﷺنے اس بابرکت رات میں پڑھنے کےلیے یہ دعاسکھائی ہے:

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
(سنن ترمذی:3513)

’’ اے اللہ!بے شک تومعاف کرنے والا معافی کوپسند کرنےوالاہے مجھے معاف کردے‘‘
ہمارے ہاںاس رات کے حوالےسے جتنے بھی غیر مسنون امور رائج ہیں ان سے اجتناب کرتے ہوئے ان مبارک ساعات کوقیمتی جانتےہوئے انفرادی طورپر عبادات میں صرف کرناچاہیے، نہ کہ ان اوقات کوکھانے پینے کے امورمیں ضائع کرناچاہیے۔

صدقۃ الفطرکے مسائل

یہ وہ صدقہ ہے جورمضان المبارک کے اختتام پراداکیا جاتاہےاس کی مشروعیت کی بہت سی حکمتیں ہیں، روزوں میں ہونے والی کمی کوتاہیوں کودورکرتاہے۔فقرا مساکین کی عیدکی خوشیوں کاسبب بنتاہے روزوں کے اختتام پر اللہ پاک کے شکرکااظہارہے۔
صدقۃ الفطر فرض ہے اسے رسول اللہﷺ نے ہرمسلمان آزاد ،غلام، مرد،عورت ہرچھوٹے بڑے پر فرض قرار دیا ہےجوکہ ایک صاع کھجوروں گندم یاجووغیرہ سے ادا کیا جاتاہے۔(صحیح بخاری:1503،صحیح مسلم:2275)
ایک صاع تقریبا اڑھائی کلو بنتاہے،جنس سے اداکرنا زیادہ افضل ہے جیساکہ محولہ بالا حدیث میں مذکورہے، صدقۃ الفطرمیں جنس کی بجائےنقدی دینے والی حدیث کے بارے میں علماء کااس پرکلام ہے کہ وہ حدیث پایہ صحت کو نہیں پہنچتی اس لیے جنس ہی کو ترجیح دیتے ہوئے اسی میں سے صدقۃ الفطر کو نکالاجائے تو زیادہ بہتر اور افضل ہے ۔ و اللہ اعلم
اس کے اداکرنےکا وقت عیدکی رات غروبِ آفتاب سے لےکرعید کی نمازکی ادائیگی سے پہلے پہلےہے،ایک دو دن پہلے بھی اداکیاجاسکتاہے جیساکہ بعض صحابہ کا اس بارے میں عمل ملتاہے۔ (صحیح بخاری:1511)
اگرعیدکی نمازسے پہلے اداکرناممکن نہ رہاتو نمازکے بعدقضاکے طورپرادا کرناواجب ہوگاجیساکہ حدیث میں ہے:

’’من أداھا قبل الصلاۃ فھي زکوۃ مقبولۃ ومن أداھا بعدالصلاۃ فھي صدقۃ من الصدقات‘‘
(سنن ابی داؤد:1609)

جونمازسے پہلےاداکرےگا وہ مقبول صدقہ ہے اورنماز کے بعداداکرےگاوہ عام صدقہ ہوگا،خاندان کا سربراہ اپنے زیرکفالت لوگوں کاصدقۃ الفطرادا کرے گا جیساکہ حدیث میں ہے:

’’أدوا الفطرۃ عمن تمونون۔‘‘(سنن دارمی:2059)

جوتمہارے زیرکفالت ہیں ان کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو۔
نمازعید کے مسائل

عید کے دِن روزہ:

’’نبیﷺ نے عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا‘‘ (صحیح بخاری:1990،صحیح مسلم:1137)

عید کے دِن کھانا:

عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کے لیے جانا اور عیدالاضحی سے پہلے کچھ نہ کھانا مسنون ہے۔
نمازِ عیدعیدگاہ میں ادکرناسنت ہے:
آپﷺ عیدین کے موقع پرعیدگاہ میں تشریف لےجاتے اورنمازِعیدادا فرماتے۔ (صحیح بخاری:973)
اگرعیدکےدن بارش ہوجائےتومسجدمیں نمازِعیداداکی جاسکتی ہے، جیساکہ سیدناعمراورعثمان رضی اللہ عنہمانے اپنے دورخلافت میں بارش کی وجہ سے مسجدمیں عیدکی نمازپڑھائی۔ (محلیٰ ابن حزم5/128)

مستورات کا عید گاہ میں جانا:

اُمِ عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، ہمیں دربارِ نبویﷺ سے حکم ہوا کہ ہم حائضہ اور پردہ نشین مستورات کو بھی عیدین میں (اپنے ہمراہ) لےکر جائیںتاکہ وہ مسلمانوں کی دُعا اور خیرمیں شامل ہو جائیں، لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ایک خاتون نے عرض کیااے اللہ کے رسولﷺ! بعض دفعہ کسی کے پاس چادر نہیں ہوتی فرمایا اس کی سہیلی اپنی چادر  اسے اوڑھا چھپا کر لے آئے‘‘۔ (صحیح بخاری:324،صحیح مسلم:2091)
عیدگاہ کو پیدل آنا جانا اور آتے جاتے راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری:986)
نمازِ عید کا طریقہ:
نمازِ عید خطبہ سے پہلے صرف دو رکعت ہے،اس میں نہ اذان ہے اورنہ اقامت (تکبیر)ہے۔(صحیح مسلم:887)
تکبیراتِ عیدین:
نمازِ عید دو رکعت ہے، پہلی رکعت میں قرات سے پہلےسات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں قرأت سے پہلے کہے اور ہر تکبیر کے ساتھ دونوں ہاتھ اُٹھائے۔ (مسنداحمد:6688)
نماز پڑھی جائےگی ۔ اس کے بعد خطبہ سنا جائے گا۔
قرأت نمازِ عیدین:
آپﷺ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد
[سبح اسم ربك الأعلٰی ]اور دوسری میں [ھل أتاك حدیث الغاشیة]
پڑھتے(صحیح مسلم:878)اور کبھی سورۂ ق اور سورۂ قمر بھی پڑھتے۔(صحیح مسلم:891)
مبارک بادی: نمازِ عید کے بعد مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد ان الفاظ میں دیں:

تَقَبَّل اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ (مجمع الزوائد206/2)

’’اللہ پاک ہم سے اور آپ سے (عبادت کو) قبول فرمائے۔ ‘‘
شوال کےچھے روزے
رمضان کےبعد شوال کے چھے روزوں کی فضیلت احادیث میں آئی ہےجیساکہ حدیث میں ہے:
’’من صام رمضان ثم أتبعہ ستا من شوال فذاک صیام الدھر ‘‘ (صحیح مسلم :1164،سنن ابی داؤد:2433،سنن ترمذی:759)
’’جس نے رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھے روزے رکھے یہ زمانے بھرکے روزوں کی مانندہیں۔‘‘
یہ روزے عید کےبعدمسلسل یاوقفوں سے جس طرح سہولت ہو رکھ سکتاہے، ماہ شوال میں ان کو پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی کے ذمے قضاکے روزے ہیں توپہلے انہیں رکھے پھر شوال کے رکھ لے یہ بہترہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
۔۔۔۔۔۔

 اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی ،انہوں نے حق کے ذریعے عدل و انصاف کیا، اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا،  یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، فضل، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل فرما دے، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یا رب العالمین !
یا اللہ! ہمارے ملک کو امن و امان اور پرسکون بنا، یا ذا الجلال والاکرام!
یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ  وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ  [النحل: 90، 91]

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور جو تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی جانتا ہے ۔
۔۔۔۔۔

(کتابُ الحدود من فقہ السنہ لسید السابق(قسط4

حدود گناہوں کا کفارہ ہے :
اکثر علماء کی رائے کے مطابق جب گناہ گار گناہ کا مرتکب ہوتاہے تو اس پر حدود کا قائم ہونا اس کے گناہوں کا کفارہ ہے اور بے شک اُسے آخرت میں عذاب نہ دیا جائے گاجیسا کہ امام بخاری وامام مسلم سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مجلس میں تھے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَسَتَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ، فَأَمْرُهُ إِلَى اللهِ، إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ

’’ تم سب لوگ میرے (ہاتھ پر) بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ ہی زنا وچوری کرو گے ، اور نہ ہی کسی شخص کو ناحق قتل کرو گے(جو) اللہ نے حرام کیا ہے ، تو جس نے اس (عہد) کو پورا کیا تو اس کا اجر وثواب اللہ پر ہے اور جو کوئی ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوگیااور اس پر اُسے سزابھی ملی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے(ماسوائے شرک کے) اور جو کوئی ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب تو ہوا (لیکن) اللہ نے اس کی پردہ پوشی کردی تو اس کامعاملہ اللہ پر ہے چاہے تو اُسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔
اور حد کا قائم ہونا جہاں گناہوں کا کفارہ ہے وہیں وہ مرتکب کیلئے زجر بھی ہے پس یہ حدود زجر وجبر دونوں پر مشتمل ہیں۔
جنگی علاقوں میں نفاذ حدود:
علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے بلا امتیازجس طرح دار الاسلام میں ہوتا ہے ویسے ہی جنگی علاقوں میں بھی ہوگا کیونکہ اس کے نفاذکا حکم عام ہے اور اُسے کسی علاقے کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا اور جو اس رائے کی طرف گئے ہیں وہ مالک اور لیث بن سعد رحمہما اللہ ہیں ۔
اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا کہ اگر امیر جنگی علاقوں میں جنگ میں شامل ہے تو وہ اپنے کسی فوجی پر معسکر میں حد جاری نہیں کرے گا ماسوائے مصر،شام،عراق اور اس جیسے دوسرے علاقوں کے امیر کے ،پس وہ اپنے معسکر میں حدود قائم کریں اور ان افراد کی دلیل یہ ہے جنگی علاقوں میں حدود کے قائم کرنے میں یہ احتمال ہے کہ جس شخص پر حد قائم ہوئی ہے وہ کہیں (اسلام سے متنفر ہوکر)کفار سے نہ جا ملے اور یہی راجح قول ہے اور بے شک یہ حد اللہ کی حدود میں سے ہیں اور حالتِ حرب میں اس کے قائم کرنے سے منع کیاگیاہے اس ڈر سےکہ کہیں اس کی وجہ سے جس پر حدنافذ ہوئی ہے کوئی شر انگیزی نہ پھیلائے اور احمد بن حنبل،اسحاق بن راھویہ ، اوزاعی اور دوسرے علماء اسلام سے یہ منصوص ہے کہ دشمن کی زمین پر حدود قائم نہیں کی جائیں گی اور اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے ۔
اور سیدناابومحجن الثقفی رضی اللہ عنہ سے شراب نوشی پر صبر نہیں ہوتا تھا تو انہوں نے قادسیہ کے موقع پر شراب نوشی کر لی تو امیر لشکر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑوا کر قید کرنے کا حکم جاری کر دیا (پھر) جب دونوں لشکر (یعنی مسلمان اور ایرانی) آمنے سامنے ہوئے تو سیدنا ابو محجن رضی اللہ عنہ نے کہا :
كفا حزنا أن تطرد الخيل بالقنا
وأترك مشدودا علي وثاقيا
’’ میرے لیےیہی غم کافی ہے کہ گھوڑوںکےنیزے بنائے جارہے ہیں اور مجھے بیڑیاں پہنا دی گئی ہیں۔ ‘‘
پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ سے کہا مجھے چھوڑ دو میں تم سے یہ وعدہ کرتا ہوں اگر اللہ نے مجھے صحیح وسالم رکھا تو میں لوٹ کر دوبارہ جیل میں قید ہوجاؤں گا اور اگر میں مارا گیا تو تم لوگ مجھ سے نجات پالو گے تو انہوں نے اُسے آزاد کیا اور وہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ’’بلقاء‘‘نامی گھوڑے پر سوار ہوئے نیزہ اٹھاکر لڑائی کیلئے نکل پڑے، اور میدانِ جنگ میں ایسا لڑے کہ گویا سعد اور مسلمانوں کی فوج نے یہ گمان کرنا شروع کر دیا کہ یہ فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ ہے جو ان کی نصرت ومدد کیلئے آیا ہے جب دشمن کو ھزیمت ہوئی تو واپس لوٹ کر پابند سلاسل ہوگئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے پورے معاملے کے بارے میں بتلایا توسیدنا سعد نے انہیںکو آزاد کر دیا اور یہ قسم کھائی کہ وہ ہرگز ان پر حد کو قائم نہیں کریں گے کیونکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کا لشکر طاقت ور ہوا اور میدانِ جنگ میں انہوں نے بہادری کے جوہر دکھائے اور اس کے بعدسیدنا ابو محجن رضی اللہ عنہ نے شراب نوشی سے توبہ کر لی۔
تو راجح مصلحت کی خاطرحد کو مؤخر یا ساقط کیا گیا اور یہ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے اور حاکم کیلئے ہے کہ اس پر حد کو قائم کرے۔
مساجد میں حدود کاآلودگی کی بناء پر قائم کرنے سے ممانعت :
ابو داؤد سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُسْتَقَادَ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ الْأَشْعَارُ، وَأَنْ تُقَامَ فِيهِ الْحُدُودُ(سنن أبي داود (4/ 167)

’’رسو ل اللہ ﷺ نے مسجد میں قید کرنے، اشعار کے بیان کرنے اور نفاذِ حدود سے منع فرمایا ہے۔‘‘

کیا قاضی اپنے علم کی بدولت حکم جاری کرے گا ؟
ظاہریہ کے نزدیک قاضی پر اپنے علم کی بدولت قصاص،دماء ، اموال، فروج اور حدود میں فیصلہ کرنا فرض ہے، چاہے اُسے اس کا علم ولایت ملنے سے پہلے کا ہو یا بعد میں، اور جو اس نے اپنے علم سے حکم جاری کیا وہ قوی ہے کیونکہ وہ یقین حق ہے پھر اقرار اور دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلهِ ( النساء 135)

اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور اللہ کی خوشنودی کیلئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ کا قول ہے :

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ

’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے۔ ‘‘
اور صحیح یہ ہے کہ قاضی پر عدل قائم کرنا لازمی ہے اورعدل کا تقاضا یہ نہیں کہ ظالم کو ظلم کرتے رہنے دیا جائے اور اُسے روکا نہ جائے بلکہ قاضی کافرض یہ ہے کہ اسے جس منکر کاعلم ہو جائے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اور حقدار کو اس کا حق عطا کرے وگرنہ وہ ظالم گردانہ جائے گا۔
جبکہ جمہور الفقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ قاضی اپنے علم کی بدولت فیصلہ نہ کرے۔ سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لو رأيت رجلا على حد لم أحده حتى تقوم البينة عندي
’’اگر میں کسی شخص کو حدود کو پامال کرنے والا کام کرتے ہوئے بھی دیکھوں تو میں اس پر حد جاری نہیں کروں گا یہاں تک کہ میرے پاس اس کی شہادت نہ آجائے۔
کیونکہ قاضی بھی عام افراد کی طرح ہے اور اس کے لیے مکمل شہادتوں کے بغیر کلام کرنا جائز نہیں ، جیسے اگر قاضی کسی پر زنا کا الزام لگاتا ہے اور وہ اس پر مکمل شہادت نہ رکھتا ہو تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی۔
اور جب قاضی پر کسی شے کا علم ہونے کے باوجود اس کے بارے میں کہنا حرام ہے ، تو اس پر عمل کرنا بالاولیٰ حرام ہے اور اس کی بنیاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ قول ہے :

 فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ(النور:13)

’’اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ بہتان باز لوگ یقیناً اللہ کے نزدیک محض جھوٹے ہیں۔‘‘

زلزلوں کی کثرت اسباب اور حل

بہت سارے ممالک زلزلوں کاشکار ہوئے ہیں مثلا ترکی،کسیکو،تائیوان،جاپان وغیرہ توکیا یہ کسی چیز پر دلالت کرتے ہیں ؟
الحمد للہ
سب تعریفات اللہ تبارک وتعالی کے لیے ہی ہیں اوراللہ تعالی کے رسول محمد ﷺان کی آل اورصحابہ اورنبی ﷺکی طریقہ

پرچلنے والوں پر درود وسلام ہو :

بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فیصلے میں علیم وحکیم ہے ، اوراسی طرح وہ شریعت اوراحکام میں بھی علیم وحکیم ہے ، وہ اللہ سبحانہ وتعالی جوچاہے اپنی نشانیوں کو پیدا فرماتا اور اسے اپنے بندوں کے تخویف اورڈراور نصیحت وعبرت کا باعث بناتا ہے اورانہیں ان پرجواحکامات واجب کیے ہیں ان کی یاددہانی کرانے کا باعث بناتا ہے ، اوراسی طرح اس میں انہیں شرک سے بچنے کی تحذیر اور اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حکم کی مخالفت نہ کریں اورجس سے روکا گیا ہے اس کے مرتکب نہ ٹھہریں جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا جس کا ترجمہ یہ ہے :
’’ ہم تولوگوں کوڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں ‘‘ (الاسراء :59 )
اوردوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
’’ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہرچیز پرواقف اوراگاہ ہونا کافی نہیں ‘‘۔
( فصلت : 53 )

اورایک جگہ پر کچھ اس طرح فرمایا :

’’ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کوگروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اورتمہارے ایک کودوسرے کی لڑائی چکھا دے ‘‘۔
(الانعام : 65 )
امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے اپنی صحیح میں جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
جب یہ آیت نازل ہوئی:
’’ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی  عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے ‘‘۔
تونبی ﷺنے فرمایامیں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں،{یا تمہارے پاؤں تلے سے } تونبی ﷺ نےکہا اعوذ بوجھك میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ۔( صحیح بخاری   5 / 193 )
اورابوشیخ اصبھانی رحمہ اللہ نے مجاھد رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر { آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئی عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے } میں سے نقل کیا ہے کہ یہ تم پرچیخ اور پتھر اور آندھی بھیج دے { یا تمہارے پاؤں تلے سے } انہوں نے کہا کہ نیچے سے زلزلہ اورزمین میں دھنسانا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دنوں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوتخویف دلاتا اور یاددہانی کراتا ہے ، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :
’’ تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے
ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت
سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ‘‘۔ ( الشوری  30 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :
’’ تجھے جوبھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائی پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔‘‘
( النساء  79 )
اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا :
’’ پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسائی اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہیں ‘‘۔
(العنکبوت  40 )
تو مکلف مسلمان وغیرہ پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے،اوراپنے دین اسلام پر استقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائی عطافرمائے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :
’’ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تم ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا ۔‘‘ (الاعراف  96)
اورایک جگہ پر اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل کتاب کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :
’’ اوراگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جوکچھ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اورکھاتے ‘‘۔ ( المائدۃ 66 )
اورایک مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :
’’ کیا پھربھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ سو رہے ہوں ، اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے اوروہ کھیل کود میں مصروف ہوں ، کیا وہ اللہ تعالی کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگئے ہیں تواللہ تعالی کی پکڑ سے نقصان اٹھانے والوں کے علاوہ اورکوئی بے فکر نہیں ہوتا ‘‘۔ ( الاعراف 97 – 99 )
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :
بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں ، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع ، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے ۔
جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :
تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے ، اورسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مدینہ میں زلزلہ آیا توفرمانے لگے : لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئے انہیں وعظ ونصیحت کی اور کہنے لگے اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئی ۔
اس پرسلف سے بہت ہی زیادہ اثار منقول ہیں ۔
توزلزلہ یا کوئی اوراللہ تعالی کی نشانی مثلا سورج وچاند گرہن ، اورسخت ترین آندھی اوربگولہ وغیرہ ظاہرہوتو اللہ تعالی کی طرف رجوع اورتوبہ میں جلدی کرنی چاہیے اوراس کی طرف گریہ زاری اوراس سے عافیت کا سوال اورکثرت سے ذکرواذکار اوراستغفار کی جائے جس طرح کہ نبی اکرم ﷺکا معمول تھا اورانہوں نے سورج گرہن کے موقع پرفرمایاکہ :
اگر تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو اللہ تعالی کے ذکر اوراس سے دعا واستغفار میں جلدی کیا کرو ۔
یہ حدیث کا ایک حصہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح ( 2/ 30 ) میں اورامام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم ( 2 / 628 ) میں روایت کی ہے ۔
اوراسی طرح اس وقت فقراء ومساکین پررحم کھانا اوران پر صدقہ کرنا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی ﷺنے فرمایا :’’رحم کرنے والوں پراللہ ورحمن بھی رحم کرتا ہے ، زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو توآسمان میں رہنے والا (اللہ تعالی) تم پررحم کرے گا ‘‘۔(سنن ابوداود 13 /285 ۔ سنن ترمذی   6 / 43 )
اورایک روایت میں ہے کہ نبی رحمت ﷺنے فرمایا :
’’ رحم کیا کرو تم پربھی رحم کیا جائے گا ‘‘۔ (مسند احمد 2 / 165 )
اور صحیح بخاری میں ہے کہ نبی معظم ﷺنے فرمایا :
’’ جورحم نہیں کرتا اس پربھی رحم نہیں کیا جاتا ‘‘۔ (صحیح بخاری 5 / 75 ۔ صحیح مسلم 4/1809 )
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی گئ ہے کہ وہ زلزلے آنے لگتے تو اپنے گورنروں کو حکم جاری کرتے کہ صدقہ وخیرات کرو ۔
ہربرائی اورشرسے عافیت و سلامتی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ ولی الامر اورصاحب اقدار و سلطہ بے وقوفوں اور برے لوگوں کوبرائی سے روکیں اورانہیں حق پرلائیں اور اپنی رعایا میں شریعت اسلامیہ نافذ کریں ، اور امربالمعروف اورنہی عن المنکر کو ترویج دیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے بھی اس کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے :
’’ مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگارو معاون اور دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے اوربرائیوں سے روکتے ہیں ، نمازکی پاپندی کرتے اوراورزکوۃ ادا کرتے ہیں ، اللہ تعالی کی اور اس کے رسول  ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ تعالی غالب اورحکمت والا ہے ‘‘۔ ( التوبۃ 71 )
اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
’’جواللہ تعالی کی مدد کرے گا اللہ تعالی بھی ضروراس کی مدد کرے گا ، بلاشبہ اللہ تعالی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤ‎ں جما دیں تویہ پوری پابندی سے نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برائی سے روکیں تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے ‘‘۔
(الحج 40 / 41 )
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے ایک اورمقام پراس طرح فرمایا :
’’اورجوشخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو ، اورجو شخص اللہ تعالی پرتوکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا ‘‘۔ ( الطلاق 2/3 )
\ اس موضوع میں آیات توبہت زیادہ ہیں ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں ۔
اورنبی ﷺکا فرمان ہے :
’’جوبھی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالی بھی اس کی مدد میں رہتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری 3 / 98 ۔ صحیح مسلم 4 / 1996 )
اورنبی مکرم ﷺکا یہ بھی فرمان ہے :
’’ جس نے بھی کسی مومن سے دنیاوی تکلیف کا ازالہ کیا تواللہ تعالی روز قیامت اس کی تکلیف ختم کرے گا ، اور جس نے کسی تنگ دست پرآسانی کی اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں آسانی فراہم کرے گا ، اورجس نے بھی کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالی دنیاوآخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا ، اوراللہ تعالی اس وقت بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے ‘‘۔
( صحیح مسلم 4 / 2074 )
اوراس طرح کی احادیث بھی بہت زیادہ ہیں ۔

اللہ تعالی ہی سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے ، اورانہیں دین کی سمجھ عطافرمائے اوردین اسلام پراستقامت نصیب فرمائے اورہرقسم کے گناہوں اورمعاصیات سے توبہ کرنے کی توفیق دے ، اورسب مسلمان حکمرانوں کوبھی درست کرے اور ان کے ساتھ حق کی مدد فرمائے اورباطل کوان کے ساتھ ذلیل ورسوا کرے اور انہیں اللہ تعالی کے بندوں میں شریعت اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
انہیں اورسب مسلمانوں کو ہرقسم کی گمراہی اورفتنوں اورشیطان کی وسوسوں سے محفوظ رکھے بلاشبہ اللہ تعالی اس پرقادر ہے آمین یا رب العالمین ۔
اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ﷺان کی آل اورصحابہ کرام اورقیامت تک ان کے طریقے پرچلنے والوں پررحمتیں برسائے ۔آمین
(دیکھیں : مجلۃ بحوث الاسلامیۃ عدد نمبر 51  سال  1418 ھ)

نور وہدایت کا ماہ مبارک

امام الانبیاء رحمت عالم محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معلم انسانیت بنا کر مبعوث فرمایا نبی رحمت انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے تربیت فرماتے، کوئی عام سی بات ہو یا واقعہ آپ علیہ السلام اس سے تربیتی پہلو نکال کر اپنے صحابہ کی توجہ آخرت پہ مبذول فرماتے ایک کان کٹا ،مرا ہوا بکری کا بچہ دیکھا تو دنیا کو اس سے تشبیہ دے کر اس کی بے ثباتی ، کم مائیگی اور حقارت کو واضح فرمایا ۔ بدر کے قیدیوں میں سے ایک قیدی عورت جو اپنے شیر خوار بچے کے گم ہوجانے کی وجہ سے اس قدر پریشان تھی کہ اسے اپنے لباس اور ستر کا بھی ہوش نہ تھا، ماں کی مامتا اور محبت اس عورت کو نیم پاگل بنائے دےرہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اگر اسے اپنا بچہ مل جائے تو کیا اپنے ہاتھوں سے اسے آگ میں پھینک دے گی ؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے رب رحمٰن کی اپنے بندے سے محبت اور شفقت ومہربانی کو واضح فرمایا جو کئی ماؤں کی محبت سے زیادہ ہے وہ کیسے چاہے گا کہ اس کا بندہ جہنم کا ایندھن بن جائے۔ اس طرح ایک عورت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں وہ اپنی ضرورت کا اظہار کر رہی تھی یہاں ام المؤمنین کے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا انہوں نے وہی کھجور اس سوال کرنے والی عورت کو دے دی اس نے یہ کھجور لی اور اپنی بچیوں میں تقسیم کر دی آپ علیہ السلام نے فرمایا جو ان بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا پھر اس نے ان کی اچھی تربیت کی یہی بیٹیاں اسے جہنم سے بچانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔
آپ علیہ السلام نے صدقہ دینے کی ترغیب فرمائی ایک شخص تھوڑا سا مال لیکر آیا کہا گیا اتنے سے مال کی اللہ کو کیا ضرورت ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :

اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (صحيح البخاري ، كتاب الزكاة ، باب: اتقوا النار ولو بشق تمرة والقليل من الصدقة، الحديث: 1417 )

’’آگ سے بچو چاہے کھجور کی ایک پھانک ہی دے کر‘‘۔ اس آگ سے بچنے کے لیے آپ نے روزہ کو ڈھال قرار دیا اور فرمایا ’

’اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ‘‘

آپ علیہ السلام کے فرامین اور قرآن پاک میں رب رحمٰن کے ارشادات سب کے سب انسان کو آگ سے بچانا چاہتے ہیں ۔رب رحمٰن نے مختلف اسباب پیدا کر دیئے ہیں جن کے ذریعے انسان آگ سے بچ سکتا ہے۔ سارا سال رحمت ومغفرت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ اس نے پورا سال معاف کرنے کا سلسلہ جاری رکھا رحمت کا درکھلا رکھا ، آٹھوںپہر چونسٹھ گھڑی جب کوئی معافی مانگے وہ قبول کرنے کو تیار مگر پھر اس نے ایک پورا مہینہ اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ خاص فرما کر لسان نبوت سے اعلان کروا دیا کہ تمہارے پاس برکت والا مہینہ رمضان آپہنچا ، اس میں اللہ اپنی رحمت سے تمہیں ڈھانپ لیتا ہے وہ اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے ، دعائیں قبول فرماتا ہے وہ تمہارے آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کےجذبے کو دیکھتا ہے وہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہے تو تم اپنے رب کے سامنے اپنی بہتری کا اظہار کرو کیونکہ بدنصیب وہ ہے جو اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا۔ ( مجمع الزوائد)
اس ماہ کے داخل ہوتے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر کےسرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتاہے۔ (بخاری ومسلم)
رمضان کی پہلی رات ہی سے شیطانوں اور سرکش جنوں کو باندھ دیا جاتا ہے ، جہنم کے دروازے ایسے بند کیےجاتے ہیں کہ پھر ان میں سے پورا مہینہ کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور جنت کے دروازے ایسے کھولے جاتے ہیں کہ پھر ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور منادی کرنے والا یہ آواز بلند کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے متلاشی اب رک جا ، پس بدنصیب وہ ہے جواس ماہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
رحمتوں ،برکتوں،شفقتوں،رأفتوں کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ، غم خواری وموانست کا ماہ مبارک جب اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے اور نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا ’’مگر روزہ اس میزان سے سوا ہے‘‘ پس وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اس انسان نے میرے لیے کھانا پینا چھوڑا ،شہوات چھوڑ دیں اس روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی خوشی روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ومعطر ہے۔ یہ ماہ مبارک قرآن کا مہینہ ہے :

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ۔‘‘
وہ آخری آسمانی کتاب جس کے ذریعہ اللہ نے جہالت وشرک کے اندھیروں میں گھری ہوئی انسانیت کو علم وتوحید کے نور سے روشن راہ دکھائی ۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ (ابراھيم 1)

’’ یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ۔‘‘وہ عظیم معجزہ جس کی مثال لانے سے بڑے بڑے عرب کے بلغاء وفصحاء عاجز رہے اور قیامت تک جن وانس مل کر بھی اس جیسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہیں گے جو لوگوں کے دلوں کو نرمانے کا ذریعہ

اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِكْرِ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱۶ (الحديد)’’

کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔ ‘‘جس کے پڑھنے اور سننے سے رونگٹے کھڑے ہو ں اوردل کانپ جائیں ۔

اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ۝۰ۤۖ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۝۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝۲۳ (الزمر)

’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہ ہے اللہ تعالیٰ کہ ہدایت جس کے ذریعے جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔‘‘وہ کلام جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پڑھیں تو شدت بکاء سے ان کی قرأت ٹوٹ جائے ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آنسو بہتے جائیں اور خود صاحب قرآن رسول کریم محمد ﷺ سنیں تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ بیان کریں :

 فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ (صحيح البخاري کتاب فضائل القرآن باب قول المقرئ للقارئ حسبك الحديث 5050 )

’’میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔‘‘
اس قدر عظیم کتاب جس کا رمضان المبارک سے ایک خاص تعلق ہے کہ جس رات میں اسے اتارا گیا وہ لیلۃ القدر کہلائی جو ہزار مہینوں سے افضل رات ہے اس ماہ مبارک میں سید الانبیاء رحمۃ للعالمین اور سید الملائکہ روح الامین کتاب الہدی قرآن عظیم کا دور فرماتے ، سلف صالحین اس ماہ میں درس حدیث تک چھوڑ دیتے اور صرف تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجاتے ایک طرف رمضان ہم سے یہ اہتمام مانگتا ہےتو دوسری جانب ہمارا میڈیا بھی رمضان آنے سے پہلے کمربستہ ہوجاتاہے ، خصوصی رمضان نشریات جاری کی جاتی ہیں جو مہینہ قرآن کے ساتھ خاص تھا اس میں لوگوں کو فضولیات میں الجھا دیا جاتاہے ، بڑے بڑے ذومعنی ناموں کے پروگرام چلائے جاتے ہیں بہر حال ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ نبی مکرم ﷺ بتا چکے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان اور آنکھیں بھی روزہ رکھیں یعنی منہیات اور حرام چیزوں سے اجتناب رہے، رمضان عالمی بھائی چارے اور اخوت کا پیغام بھی دیتا ہے شام وعراق میں ظلم وبربریت کا شکار بھوک وافلاس سے بلکتے ہوئے بچے ، بوڑھے، عورتیں مرد اپنے مسلمان بھائیوں کی راہ تک رہے ہیں ۔ فلسطین وکشمیر ،برماوبنگلا دیش کے مظلوم ومقہور زبان حال سے

’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ ‘‘

کی دہائی دے رہے ہیں ۔ عالمی سیاست کے افق پہ اگرچہ منافقت کے بادل چھائے ہوئے ہیں مگر منظر نامہ آہستہ آہستہ پاکستان کے حوالے سے واضح ہو رہا ہے ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا نعرہ لگانے والے اب سرعام ڈالر وصول کر رہے ہیں ، پاکستان کا ازلی دشمن اپنے گورو کی بڑھ کو سچا ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے ، گاندھی جی نے 5 جون 1947ء کو نیو یورک ھیرالڈ ٹربیون میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ، بالآخر ہندوستان پھر متحد ہوجائے گا اور مسلم لیگ ہندوستان میں واپسی کے لیے کہے گی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سے متعلق اس کے دنیا کے نقشے پہ ابھرنے سے پہلے بابائے بھارت نے کیا اور اب بھارت جنگ کرکے دیکھ چکا کہ یہ ان شاء اللہ ممکن نہیں لہٰذا وہ اب پاکستان کے آبی سوتوں پر ڈیم بنا کر نقب لگا رہا ہے ، مقبوضۂ وادی میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پہ چار متنازعہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے ، وہ خاکم بدہن 2020ء تک پاکستان کو بنجر کر دینا چاہتا ہے ، بال کی کھال اتارنے والا میڈیا پانامہ پہ ہنگامہ مچانے والی حزب اختلاف ترقی کا راگ الاپنے والی حکومت سب اس آبی جارحیت پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئےہیں ادھر بھارت ایران سے مل کر پاک چین راہداری منصوبہ کو سپوتاژ کر نا چاہتاہےایک طرف انڈین جاسوس ایرانی مدد سے پاکستان کی سرزمین آلودہ کررہے ہیں تو دوسری جانب افغانی جاسوس بھی پاکستانی حدود پامال کر رہے ہیں امریکہ بہادر طالبان امیر کی نگرانی ایران سے کرتا ہے اور پاکستان میں نشانہ بناتا ہےانڈیا ایران ، افغانستان اور امریکہ کے حکمران ہاتھ ملائے کھڑے ہیں اس عالمی گٹھ جوڑ سےمنافقت کے پردے چاک ہو ر ہےہیں دوست نما دشمن بالکل واضح ہو رہے ہیں پاکستان میں بسنے والی ایک اقلیت کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اب مخصوص نظریات کی بنیاد پر وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے سرخیل اپنے ملک پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں ۔ حب الوطنی کا تقاضا تو یہی ہے کہ میڈیا ان سازشوں کو بے نقاب کرے مگر خاموشی کیوں ہے ؟ رمضان اجتماعی احساس ہمدردی اجاگر کرنے آرہا ہے سو موقع غنیمت جانیں بخشش کے لیے ہاتھ پھیلائیں ، نیکیوں کی اس لوٹ سیل سے فائدہ اٹھائیں دامن بھریں اس معاملے میں کم پر قناعت نہ کریں بلکہ نیکیوں کے پھول چنتے چلے جائیں ایسا نہ ہو کہ شاعر کی بات آپ کے حق میں صادق آئے ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا​
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ء داماں بھی تھا​

پھر ایک بار میرا وطن ہے لہو لہو

گلشن اقبال پارک لاہور میں 74 معصوم بچوں،خواتین اور مردوں کے خون سے ہولی انتہا ئی المناک ،شرمناک قابل مذمت سانحہ ہے ظالموں نے پاکستان کو پھر لہولہان کر دیا کئی پھول پھر مرجھا گئے ، کئی جگر گوشے اپنی ماؤں کو چھوڑ گئے،کئی مائیں ہنستے کھیلتے گھر کو ویران کر گئیں ،کتنے گھروں سے جنازے اٹھے ، کتنی آنکھیں پُر نم ہوئیں ،کتنوں نے سسکیوں اور آہوں میں اپنے پیاروں کو لحد میں اتارا ۔ ایک گلشن اقبال میں کتنے گلشن اجڑ گئے ،کتنے آنگن سونے ہوئےہوں گے ہر دل تارتار ہے ۔ اُن درندوں سے کوئی پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ پارک میں سیر وتفریح کرتے ہوئے بے قصور لوگوں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کیا اسلام میں ایسے معصوم لوگوں کی جان لینا جائز ہے ؟ بچوں اور عورتوں کی جان لینا کونسا اسلام ہے ؟ یہ کس اسلام کی تعلیمات ہیں ؟ یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کیا جارہاہے؟ اسلام تو حالتِ جنگ میں بھی بے ضرر لوگوں کو قتل کرنے سے سختی سے منع کرتاہے۔ لاہور میں جو کچھ ہوا اس پر ہر صاحب عقل وبصیرت غمزدہ ہے بلکہ جو کچھ اسلام آباد،پشاور اور چارسدہ میں ہوا ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں 48 خود کش حملوں کے نتیجہ میں 329 معصوم افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ 2013ء میں پانچ خود کش حملوں میں 14 افراد جاں بحق ہوئےاور 2014 میں 16 خود کش حملوں میں 125 افراد زندگی کی بازی ہار گئے 2015ء میں واہگہ بارڈر خودکش دھماکہ میں 199 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ملک میں اب تک جتنے بھی معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا جس کی تعداد ہزاروں تک ہے یہ سراسر ظلم اور درندگی ہے ۔لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تنگ آچکےہیں،مائیں اپنے لاڈلوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھیں ہیں۔ پھر بلند وباغ دعووں کی آواز سنائی دیتی ہے، آپریشن ہوتاہے،دہشت گرد پکڑنے کا دعوی کیا جاتاہےپھر کوئی اور دہشت گردی ہوجاتی ہے پھر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے سب آپریشن دھرے کا دھرا رہ جاتاہے۔
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور باعث شرم بات یہ ہوئی ہے کہ ہمارے ملک کا بے لگام الیکٹرونک میڈیا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غم والم کے سانحہ میں قوم کے زخموں پر نمک پاشی کرتا نظر آتاہے۔ مسجد ومدرسہ اور ٹوپی اور سنت رسول مقبول ﷺ کی توہین کرنے میں کوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا ۔ جائے حادثہ سے محمد یوسف نامی ایک داڑھی اور ٹوپی والے کا شناختی کارڈ کیا ملا کہ اکثر چینلز والے اپنے خبث باطن کا واضح طور پر اظہار کرتے ہوئے نظر آئے بلکہ اغیار کی دی ہوئی گائیڈ لائف کے مطابق انہیں کی زبان بولتے پائے گئے ۔شعار اسلام پر گز گز لمبی زبانیں نکالتے نہیں تھکتے، زیادہ تر اینکرپرسن اپنے بے دین اور لبرلز ہونے کا ثبوت پیش کر رہے تھے اور اغیار کو بتانا چاہ رہے تھے کہ ہم بھی عبید شرمین چنائے سے کم نہیں ہیں ہم بھی آپ کے وفادار ہیں۔بس فرق یہ ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں اور وہ محترمہ امریکہ میں۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ صحافتی روایات کو پس پشت ڈال کر بغیر تحقیق اور ٹھوس شواہد کے ایک عام شہری کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتاہے قصور صرف سنت رسول ﷺ داڑھی اور ٹوپی ٹھہرتی ہے۔آج کا میڈیا کس قدر اخلاقیات سے عاری ہے کہ کسی بھی بے گناہ اور شریف ومعزز آدمی کی عزت نفس کو پامال کرکے اسے ذلیل ورسوا کرنااپنا وظیفۂ منصبی سمجھتاہے۔ عقل کے اندھے میڈیا پر سنز نےیہ سوچنا بھی گوارہ نہ کیا کہ دہشت گرد اپنے ساتھ اپنا ثبوت شناختی کارڈ بھی لے کر آئے گا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کےوفادار کا مصداق بنتے ہوئے ہماری پولیس پھرتی دکھاتی ہےکہ چند گھنٹوں میں محمد یوسف کے پورے خاندان کو پابند سلاسل کردیا اس کامیابی پر میڈیا اور سیکورٹی والے پھولے نہ سمائےمگر سنت رسول ﷺ کی توہین کی پاداش میں اُن کی یہ خوشی چند گھنٹوں میں ہی رفوچکر ہوگئی کیونکہ محمد یوسف اور اس کا خاندان تو خود اس المناک سانحہ کا شکار ہونے والوں میں شامل تھا۔حکومت وقت سے اپیل ہے کہ 

ایسے منہ زور میڈیا کو لگا دی جائےاوراس بے ضمیر میڈیا کو اپنا قصور مان کر محمد یوسف کے گھر والوں سے سرعام معافی مانگنی چاہیے کیونکہ دور حاضر میں اصلاح معاشرہ میں زیادہ کردار بھی میڈیا کا ہے اور معاشرے کے بگاڑ میں بھی اسی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
اس لیے میڈیا،حکومت اور عدالتوں کو عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے اور اپنا رول بھر پور طریقہ سے ادا کرنا چاہیے۔ عدل وانصاف کی بالادستی تو قرآن وسنت سے ثابت ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں۔مگر کتاب وسنت تو ہمارے ان اداروں کوہضم ہی نہیں ہو رہا تو وہ اس پر عمل کہاں سے کرے اور کروائیں گے۔ تو پھر ٹھیک سے اپنے آقاؤں کا قول ہی پڑھ لیں کہ چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں عدل وانصاف سے کام کر رہی ہیں تو پھر کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ظلم اور ناانصافی سے ملک کبھی نہیں چلتے،قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں، اس لیے ہمیں اپنے عدالتی نظام کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا اور میڈیا کو بھی اسلام ، ملک وقوم کا خیر خواہ ہونے پر پابند بنانا ہوگا اسی سے ملک میں دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا ایک اعلیٰ سطح کا عہدیدار ’’کل بھوشن یادیو‘‘ ایران کے شہر چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور فرقہ وارانہ کارروائیوں کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ پورے ملک میں خاص طور پر کراچی میں دہشت گردی میں ملوث بھی ہے جس کا وہ خود بھی اعتراف کر چکا ہے اس نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ ایران سے کئی دفعہ پاکستان میں داخل ہوا اور اس نے اپنا نام بھی حسین مبارک پٹیل رکھا ہوا تھا کسی بھارتی شہری کا بھیس بدل کر پاکستانی سرحد میں داخل ہونا ایرانی سرحدی عہدیداروں کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ حسین مبارک پٹیل کے اعتراف سے پاکستان میں بھارتی مداخلت اور ریاستی دہشت گردی طشت ازبام ہوگئی ہے کہ یہ بھارتی جاسوس نہ صرف بلوچستان میں تخریب کاری ،دہشت گردی اور گھناونی وارداتوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے بلکہ پورے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا منصوبہ رکھتاتھا اور اس جاسوس کے مدد گاروں میں افغانستان اور ایران کا نام بھی لیا جارہا ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ دونوں ملک اسلام کا نام لینے والے ہیں اور اپنے بھائی اسلامی ملک کے خلاف گائے کے پجاریوں کی مدد بھی کر رہے ہیں ہمارے ارباب اقتدار کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ان ممالک کے ساتھ روابط پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان سے تعلقات ایک حد تک ہی رکھنے ہوں گے کیونکہ ان کے مکروہ چہروں سے پردہ اُتر چکا ہے اور ان کی سازشوں سے بھی باخبر رہنا ہوگا۔سیاستدانوں کو اب بھارت کے بارے اپنے دل میں نرم گوشے کو ختم کردینا چاہیے ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے والوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتے ہیں مگر ملکی بقا اور سالمیت کو نام نہاد دوستی اور تجارت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے ہندوستان ناقابل اعتبار ملک ہے وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ دھوکہ دے چکا ہے۔
بھارتی تخریب کار’’را‘‘ کے جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پر ملک کی سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ سیکورٹی اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھیں بھارت نواز پروپیگنڈہ کرنے والے میڈیا کے لوگ اور خاص طور پر بعض سیاسی جماعتیں جو کہ بھارت کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں پیش پیش ہیں بھارت جو کہ ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کر چکا ہے جس کا اعتراف ان کا وزیر اعظم مودی قصاب بنگلہ دیش میں سینہ ٹھوکر کر چکا ہے اور باقی ملک کے بھی حصےبخرے کرنا چاہتا ہے ہم ہیں کہ بھارت کے خوشی کے تہوار’’ہولی‘‘ کے موقعہ پر پورے ایک صوبہ میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں ایسے لوگ ملک وقوم اور اسلام کے وفادار نہیں ہوسکتے یہی لوگ ملک کی تخریب کاری اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں ان کے دشمنوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے غیروں کو ملک میں کارروائیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اگر مکمل تحقیقات کی جائے تو سانحہ گلشن اقبال پارک لاہورکے تانے بانےبھی بھارت سے ملیں گے۔ لاہور کو پھر سے لہو لہان اسی نے کیا ہے یا کروایا ہے۔
بقول شاعر نسیم سحر ؎
پھر ایک بار میرا وطن ہے لہو لہو
کاغذ پہ جو لکھا وہ سخن لہو لہو

صحیح معنوں میں کامیاب انسان

 (حدیث نمبر:91)

عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ، وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا، وَلِسَانَهُ صَادِقًا، وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً، وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً، وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً، وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً۔
تخریج:مسند أحمد ، کتاب مسند الأنصار حديث أبي ذرّ :

22
راوی کا تعارف: حدیث نمبر 56 کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں۔
معانی الکلمات:

قَدْ بے شک Indeed أَفْلَحَ کامیاب ہوگیا Succeded
مَنْ جو Who أَخْلَصَ خالص کر ليا Purified
قَلْبَهُ اس کا دل His heart لِلْإِيمَانِ، ایمان کيلئے For faith
جَعَلَ اسے بنايا He made سَلِيمًا، سلامت ، محفوظ Safe
لِسَانَهُ اس کی زبان His tongve صَادِقًا سچی Truthfull
نَفْسَهُ اس کا نفس/جان Soul مُطْمَئِنَّةً مطمئن Satisfied
خَلِيقَتَهُ اس کی طبیعت ومزاج His nature مُسْتَقِيمَةً سیدھی/معتدل/صحیح Straight/Correct
أُذُنَهُ اس کے کان His ears مُسْتَمِعَةً سننے والے Hearer,Listener
عَيْنَهُ اس کی آنکھ His eye نَاظِرَةً دیکھنے والی Watcher
ترجمہ :  سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ وہ شخص کامیاب ہے جس کا دل اللہ تعالیٰ ایمان کیلئے خالص کر دے، اس کے دل کو(لغویات سے) محفوظ اس کی زبان کو سچا، اس کے نفس کو اطمینان والا، اس کی طبیعت کو سیدھا ، اس کے کانوں کو سننے والا اور اس کی آنکھ کو دیکھنے والی بنا دے‘‘۔
تشریح : بلاشبہ ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، ناکامی سے بچنا چاہتا ہے انسان از خود انتہائی بے بس اور کمزور ہے اسے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کی حاجت رہتی ہے چنانچہ اگر وہ اپنے رب کو منوانے میں کامیاب ہوجائے نتیجتاً اللہ تعالیٰ اس کی مدد اور اس کے لیے خیر وبھلائی کا فیصلہ کرلے تو اس کے تمام مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ حدیث ایک طرف اصل کامیابی کی علامات بیان کرتی ہے تو دوسری طرف انسان کو ترغیب دلاتی ہے کہ وہ رب سے ان نعمتوں کے حصول کی التجا ودعا بھی کرے کیونکہ بن مانگے، مفت میں یہ عظیم نعمتیں نہیں ملتی جب یہ نعمتیں کسی شخص کو حاصل ہوجائیں تو خوبیاں بن کر اس کی عملی زندگی میں نظر آتی ہیں جو دوسرے لوگوں کیلئے مشعل راہ اور قابل رشک بنتی ہیں۔
۱۔ دل میں خالص ایمان جو ہر قسم کی ملاوٹ ،شرک، بدعت ،منافقت سے پاک ہو ۔
۲۔ قلب سلیم جس میں کسی شخص کیلئے بغض،حسد،کینہ، نفرت نہ ہو ۔
۳۔سچ بولنے والی زبان جو جھوٹ سے پاک ہو ۔
۴۔ سیدھی اور صاف طبیعت ومزاج جو دوغلاپن سے محفوظ ہو ۔
۵۔ سننے والے کان جن میں قوت سماعت ہو اور صرف خیر کی طرف ہی متوجہ رہتے ہوں۔
۶۔ دیکھنے والی آنکھ جو قوت بصارت رکھتی ہو اور محرمات سے اجتناب کرتی ہو ۔
۷۔ اطمینان والا نفس جو قناعت رکھتا ہو اور صرف خیر کے کاموں میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ واللہ اعلم

رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری کے درمیان صرف چار واسطے ہیں۔

عَلَامَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے

3-17- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے شاہد کے طور پر ذکر کی جو کہ رباعی ہے۔

وروى بسند آخر حَد َّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّه عَنْه به (کتاب مناقب الانصار باب حب الانصار، رقم الحديث: 3784 )

معانی الکلمات :
آيَةُ : علامت ، نشانی
حُبُّ : محبت کرنا
الْإِيمَانِ : لغوی معنی تصدیق کرنا
الْأَنْصَارِ: مددگار ، رسول اکرم ﷺ کے وہ اصحاب جنہوں نے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ اور مہاجر صحابہ کی مدد کی ۔
النِّفَاقِ : پھوٹ ، دشمنی ، ظاہر میں دوست باطن میں دشمن (إظھار الإيمان وإبطان الکفر)
بُغْضُ : نفرت کرنا ، عداوت رکھنا
ترجمہ : ہمیں حدیث بیان کی ابوالو لید، ان کو شعبہ نے، اُن سے عبداللہ بن جبرروایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم ﷺ سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ ﷺ نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
Translation:
The Prophet said, “Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy.”
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: ابو الوليدھشام بن عبد الملک الباھلی الطیالسی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں بصرہ سے ان کا تعلق ہے۔
کنیت: ابو الولید۔
محدثین کے ہاں رتبہ:امام ، حافظ، شیخ الاسلام
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو الولید متقن تھے ۔ امام احمد بن عبد اللہ العجلی فرماتے ہیں کہ ابو الولید ثقہ اور ثبت سے متصف تھے۔امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نےابو زُرعہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابو الولید ’’ادرک نصف الاسلام کان إماماً فی زمانہ جلیلاً عند الناس (الجرح والتعدیل ۹/۶۶) نصف اسلام کے عالم ہونے کے باوجود وہ لوگوں کےہاں جلیل القدر امام بھی تھے۔
پیدائش:133ھجری ۔
وفات:227 ھجری میں ہوئی۔
2 نام ونسب : عبد اللہ بن عبد اللہ بن جابر بن عتيکاور کہا جاتا ابن جبر بن عتیک الانصاری المدنی اور ان کا تعلق بنی معاویہ سے ہے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : اسحاق بن منصور اور عباس الدوری امام یحییٰ ابن معین سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح عبد الرحمن بن ابی حاتم اور امام نسائی بھی ان کی تعدیل کی ہے۔اور ابن حبان رحمہ اللہ انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیاہے۔
(تہذیب الکمال فی أسماء الرجال للمزي)
3 شعبہ بن الحجاج
4اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارفحدیث نمبر 2 میں گزر چکا ہے۔
تشریح :
انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادبھی مدینہ تشریف لے آئی تو اس وقت مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے قاصرہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ(سورۃ الانفال72)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اور فرمایا:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ (سورۃ الأنفال : 74)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ ( بخاری) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے رسول رحمت ﷺان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ تشریف فرما رہے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ (صحیح البخاری 3779،صحیح مسلم 1059)اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔اسی لیے تو انصار سے محبت کو ایمان کا درجہ دیا گیاہے اور انصار سے نفرت کو نفاق کا نام ، نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی علامت ہے اور صالح لوگوں سے نفرت،بغض اور عداوت بے ایمان ہونے کی پکی نشانی ہے۔
جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے :

عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ (صحیح البخاری :3783)

سیدنا براءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔
معلوم ہوا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے ۔

جہنمیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا

تمام تعریفیں اللہ وحدہ لاشریک کیلئے ہیں اور بے شمار درودوسلام ہوں رحمۃ للعالمین جناب محمد رسول اللہ _ﷺ اور ان کی آل و اصحاب پر۔
ہر قسم کی تعریف کے لائق رب العزت کی ذات اقدس ہے اور اس ہی کو دوام ہے۔ ہم نے آج نہیں تو کل اس دار الامتحان سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوجانا ہے لہذا دنیا کا قاعدہ ہے کہ انسان جس ملک میں رہتا ہے اور جس کسی ملک کی طرف سفر کرتا ہے تو اس پر وہاں کے قوانین و ضوابط لاگو ہوتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے پر سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ لہذا ہم اللہ رب العزت کی زمین پر رہتے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اس اعتبار سے انسان کے دو گروہ ہیں “فریق فی الجنۃ” ایک گروہ جنتی ہے جو مومنین یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ماننے اور ان کی ماننے والے ہیں اور دوسرا گروہ “فریق فی السعیر” یعنی جہنمی گروہ ہے اور یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے منکر اور انکی نافرمانی کرنے والے ہیں۔
آج ہم سب دوسرے گروہ کی پیروی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جس کی ایک انتہائی بھیانک شکل اللہ  اور اس کے رسول ﷺکے منکر و نافرمان کفار و مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ بالخصوص آج ہماری مائیں بہنیں بلکہ ہم سب ان کی مشابہت کو بہت معمولی چیز سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ آپ ﷺکا واضح حکم ہے کہ:

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(ارواء الغليل صححہ الالباني)

جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔
وہ انہی کے ساتھ روز محشر اٹھایا جائیگا!! اللہ کیلئے بتاؤ مسلمانوں کفار و مشرکین کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ جنت یا جہنم!!؟
میری ماؤں بہنوں، امت کی بیٹیوں تمہیں کیا ہوگیا ہے!!؟؟چند لمحوں کے فیشن کی خاطر ہمیشہ کی آخرت برباد کرنے کی ٹھان لی!!
فیشن کی آڑمیں شرم و حیا کی نیلامی
فیشن کی آڑ میں شرم و حیا نیلام ہوچکی۔ پہلے عبایاتنگ ہوا پھر آستینیں چڑھ گئیں، پھر نقاب اترا اور دیکھتے ہی دیکھے پردہ سرے سے غائب ہوگیا مگر اب تمام حدیں پار ہوچکیں۔ عزت بے شرمی و بے حیائی کے بدلے بک چکی، ماؤں بہنوں نے عزت وعفت اور حیا کی چادر سرعام نیلام کر دی۔ والدین اور بھائی بے غیرت و بے شرمی کا جام پیئے مد ہوش ہیں کسی کو ہوش نہیں آتا، کسی کی غیرت نہیں جاگتی جب مائیں بہنیں بنا کپڑوں کے گھروں سے نکلتی ہیں۔ اے اللہ امت محمدیہ ﷺ پر رحم فرما اور اس کو ہلاکت سے پہلے عفت وحیا اور عافیت عطا فرما۔آمین یا رب العالمین
نصیحت وانذار :
میری ماؤں بہنوں، امت کی بیٹیوں جہنمکی آگ سے بچ جاؤں اللہ کیلئے بچ جاؤ! جہنم کی آگ بڑی سخت ہے اور یہ نصیحت وانذار(ڈرانا) غور سے سنو۔ اللہ آپ سب پر اپنا خاص رحم وکرم فرمائے اور ہم سب کو جہنم کی آگ سے نجات عطافرمائے ۔ اللھم اجرنا من النار (آمین یا رب العالمین
اسکن ٹائٹ پائجامہ اور جینز درحقیقت لباس یا برہنگی(بے لباسی)؟؟
کفار ومشرکین( اللہ اور اس کے رسول ﷺکے دشمن) کی ’’فیشن‘‘نامی اندھی تقلید نے ہماری آنکھیں چندھیا دیں یا تو ہمیں جگہ جگہ برہنہ پھرتی مائیں بہنیں نظر آتی ہیں یا پھر ہمیں یہ آزاد خیالی اور روشن خیالی نظر آتی ہے۔
باغیرت اور عقلمندوں سے سوال :
اگر کوئی شلوار اور پائجامے کے بجائے اپنی ٹانگوں پر طرح طرح کے رنگ کرکے آجائے تو کون عقلمند ایسا ہوگا جو اس کو بالباس کہے گا؟ بلکہ ہر عقلمندو بے وقوف بآسانی یہ فیصلہ کرسکتاہے کہ یہ بے لباسی وعریانی ہے کیونکہ جسم پر طرح طرح کے رنگ کر لینے کو بالباسی نہیں کہتے۔بالکل اسی طرح جینز اور بالخصوص اسکن ٹائٹ پائجامہ پہننا اور ناپہننا برابر ہے اور اس حقیقت کا انکار خود ہماری مائیں بہنیں بھی نہیں کرسکتیں لہٰذا راہ چلتے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوتی ہیں اور اکثر بالکل منکشف بھی ہوجاتی ہیں جس کا اثر معاشرے میں یہ پڑتا ہے کہ گناہ اور عصمت دری کے واقعات بڑھتے ہیں اور باعزت مسلمانوں کے ہاں ایسی لڑکیاں اور عورتیں فاحشہ،بے حیا اور بدکار کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور معاشرے میں ایسی عورتیںہر بری نظر کا مرکز بن کر رہ جاتی ہیں نہ ہی ان کی کوئی عزت ہوتی ہے یہ تو دنیا کی ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ایسی عورتوں کاٹھکانہ محض جہنم ہے۔
جہنمیوں کی دو قسمیں جنہیں آپ ﷺ  نے نہیں دیکھا!!
دورِ جاہلیت میں زنا سے لے کر قتل وغارتگری تک ہر ہر جرم اور گناہ موجود تھا جن سب کا آپ ﷺ کو بخوبی علم تھا مگر دور جاہلیت سے لے کر اسلام آنے تک بلکہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے رحلت فرمانے تک دو جہنمیوں کی قسمیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آپ ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے:

صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا

’’جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی

ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا‘‘۔ آپ ﷺ کا ان ڈرادینے والے الفاظ کے ساتھ ان دو گروہوں کا تذکرہ کرنا ان کی ہلاکت کیلئے یقینی اور ہر عقلمند ماں باپ اور بھائی بہن کو ڈرانے اور ان کو اس یقینی ہلاکت سے باز رکھنے کیلئے کافی ہے۔
حدیث سے پہلے :
جو حدیث مبارک یہاں ہمارا موضوع ہے اور جس نے ہمیں قلم اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ برائی کو دیکھ کر خاموش رہنا اس سے بڑی برائی ہے اور جب برائی متعدی اور یقینی ہلاکت کا باعث ہو تو اس پر خاموش رہنا بے غیرتی وہلاکت اور معاشرے کی تباہی کے سوا کچھ نہیں لہٰذا اس حدیث کو غور سے پڑھیں، سمجھیں اور اپنی بھی آخرت بچائیں اور تمام امت مسلمہ کو اس عظیم فتنے سے بچانے کی کوشش کریں۔
جہنمیوں کے دو گروہ :
حدیث میں مذکور دو گروہوں میں سے یہاں ہمارا موضوع دوسرے گروہ یعنی کپڑے پہنی برہنہ عورتوں کے بارے میں ہے اور پہلے گروہ پر سرسری نظر ڈالی جائے گی۔
حدیث مبارک
امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم (جو احادیث کی مشہور کتب میں دوسرا درجہ رکھتی ہے) میں کتاب اللباس والزینۃ(لباس اور زینت کے احکام ومسائل) میں جو حدیث روایت کی ہے اس پر امام نووی (جو کہ اس کتاب کے شارح ہیں) نے ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا اور فرمایا : باب نساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات ‘‘کپڑے پہنی ہوئی برہنہ فحاشی وبرائی کی دعوت دینے والی اور خود اس طرف مائل ہونے والی عورتوں کا بیان۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا(رواہ مسلم)

’’سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ دو قسمیں ہیں دوزخیوں کی جن کو میں نے نہیں دیکھا ایک تو وہ لوگ جن کے پاس کوڑے ہیں بیلوں کی دموں کی طرح کے لوگوں کو اس سے مارتے ہیں، دوسری وہ عورتیں جو کپڑا پہننے کے باوجود بھی ننگی ہیں دوسروں کو سیدھی راہ سے بہکانے والی اور خود بہکنے والی، ان کے سربختی(لمبی گردنوں اور بڑے کوہان والے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے (ہیں) وہ جنت میں نہ جائیں گی جنت میں جاتا تو دورکی بات اس کی خوشبو بھی نہ پاسکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور ہوتی ہے (دوسری حدیث کے مطابق پانچ سو سال کی مسافت سے)
اور ابن حبان اور حاکم کی روایت میں ہے :
(صحیح الترغیب والترہیب ۔ امام حاکم نے اسے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے اور امام البانی نے اسے حسن کہا ہے)
’’ایسی (ننگی عورتوں) پر لعنت کرویقیناً یہ ملعون ہیں۔‘‘
علماء کے اقوال:
بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے :
۱۔ اس سے مراد پولیس ہے یہ کچھ عرصہ پہلے تک ایسے کوڑے تھامے ہوتے تھے جنہیں ہمارے ہاں (دمشق)  میں ’’الکرابیج‘‘ کہا جاتاہے۔(امام البانی مختصر المنذری ص:363 بحوالہ مسلم بشرح النووی وتحقیق رضوان جامع رضوان )
۲ ۔ یہ ظاہر ہوچکا ہے اور عموماً ممالک کے پولیس والے ہیں اور آج کل یہ لوگ کوڑے کے بجائے ڈنڈے تھامے ہوتے ہیں۔ (صفی الرحمن مبارکپوری منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم ، ج3 ، ص:421 طبع دار السلام)
کاسیات عاریات:
یعنی لباس پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوں گی کیونکہ وہ ایسا لباس پہنیں گی جس سے ستر نہیں ڈھکے گا یا تو کپڑا اتنا باریک ہوگا جو جلد کا رنگ ظاہر کرے گا یا اتنا چست(ٹائٹ/تنگ) ہوگا کہ جس کی بناوٹ اور اس کے ہر ظاہر وپوشیدہ اعضاء کو ظاہر کرے گا(جو آج کل جینز اور اسکن ٹائٹ پائجاموں سے ظاہر ہے) یاپھر اتنا چھوٹا ہوگا کہ واجب ستر اعضاء کو چھپانے سے قاصر ہوگا جیسا کہ سینہ،گردن،کلائی سے کہنی اور پنڈلیاں وٹخنے وغیرہ ۔ (ممیلات) خود ان فحاشی وبے حیائی کے کاموں میں مائل ہوتی ہیں (مائلات) اور دوسروں کو بھی اپنے کرداروگفتار سے عریانی وگناہ کے کاموں کی طرف مائل کرتی ہیں۔
رووسھن کأسنمۃ البخت المائلۃ
اپنے سروں کو یا تو (وگ) لگا کر بڑا کرتی ہیں یا اپنے جوڑے پیچھے سے اوپر کی طرف لاکر باندھتی ہیں(جو آج کل عرب اسٹائل کے نام سے مشہور ہے جیسا کہ عرب وترک عورتیں اپنے سر پر اونچے سے جُوڑے باندھتی ہیں۔ (صفی الرحمن مبارکپوری ، منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم) واللہ أعلم

تنبیہ :
یادرکھ

یں اس (بے لباسی) میں وہ مرد بھی شامل ہیں جو ٹائٹ ٹراؤزریاجینز پہنتے ہیں اور بالخصوص نماز کی حالت میں کیونکہ قابل ستر اعضاء کا چھپا ہونا نماز کی شرائط میں سے ہے۔

شرعی لباس :

مومن عورت کو اللہ نے قرآن میں پاکیزہ عورت کہا ہے اور پاکیزہ چیز قابل احترام ہوتی ہے مگر کفار ومشرکین کی اندھی تقلید کرتے ہوئے قابل احترام ہستی (مومن عورت) کو ہم نے مادی کھولنا بنا کر رکھ دیا اور اس کھلونے کی اپنی خواہشات کے مطابق نمائش کرتے پھرتے ہیں ویسے بھی اگر صرف لفظ (عورت) پر ہی غور کر لیا جائے تو ہر عقلمند بآسانی یہ فیصلہ کر سکتاہے کہ عورت کا لباس کس طرح کا ہونا چاہیے کیونکہ’’عورۃ‘‘ عربی کا کلمہ ہے جس کا معنی ہے چھپائے جانے والی چیز اور یہی الفاظ آپ ﷺ کی دعا مبارک میں استعمال ہوئے ہیں۔

اللھم استر عوراتنا

اے اللہ ہمارے پوشیدہ عیبوں پر پردہ ڈال دے۔

خلاصہ:

چنانچہ قرآن وسنت کے دلائل اور علمائے امت کے اقوال کو جمع کیا جائے تو خلاصہ یہ بنتا ہے کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو سر سے پاؤں تک(سوائے ہاتھ پاؤں اور آنکھوں کے) ہر نامحرم سے پردہ کرنا فرض اور واجب ہے اور محرم کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے اور شوہر سے کوئی پردہ نہیں۔ واللہ اعلم
آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں کو معاف فرماکر ہمیں آپ ﷺ کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جہنم سے بچاکر جنت الفردوس کا وارث بنائے۔ آمین
وما علینا الا البلاغ المبین

کتابُ الحدود من فقہ السنہ لسید السابق

احمد ، ابو داؤد اور حاکم نے روایت کیا اور اسے صحیح کہا کہ بے شک نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللهِ، فَھُوَ مُضَادُّ اللهِ فِي أَمْرِهِ’’

جس کی شفاعت اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے مابین حائل ہوجاتی ہے تو وہ اس معاملے میں اللہ کے برعکس کھڑا ہے۔
اور بعض اوقات انسان گناہ سے غافل ہوجاتاہے جس کا مرتکب گناہگار ہوتا ہے، اور وہ واقع ہونے والی سزا کے منظر کو دیکھتا ہے تو اس کا دل اس کے لیے نرم پڑ جاتاہے اور وہ اس (گناہگار) کی طر ف مائل ہوتاہے تو قرآن اس چیز کا اقرار کرتاہے کہ ایمان کی حالت میں ( اس رحم دلی کی ) نفی کی جائے کیونکہ ایمان کا تقاضا پاکی ہے اور جرائم وسمو(دیکھاوا) سے فرد اور جماعت کو منزہ کرکے اعلیٰ آداب اور عمدہ اخلاق کی طرف پھیرنا ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کار عورت ومرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔ (سورۃ النور:2)
بے شک معاشرے کے لیے رحمدلی ایک فرد کے لیے رحمدلی سے بہتر ہے ۔
فقسا ليزدجروا ومن يك حازما
فليقس أحيانا على من يرحم
اس نے سختی کی تاکہ یہ نصیحت قبول کر لیں ، اور جو ہوشیار ہوتاہے تو وہ کبھی کبھی سختی کرے ان پر جن پر وہ رحم کرتاہے۔

حدود میں شفاعت :

کسی کی شفاعت کرنا یا ایسا کوئی کام کرنا جس سے اللہ کی حدود میں سے کوئی معطل ہوتی ہو تو وہ حرام ہے ، کیونکہ اس میں محقق مصلحت کا فوت ہونا ہے اور گناہوں کے ارتکاب کی ترغیب کے ساتھ مجرم کو اس کے جرم کی سختیوں سے چھٹکارے کی رضا ہے ، اور یہ اس وقت ہے جب حاکم کے پاس امر پہنچ چکا ہو کیونکہ شفاعت اِسی وقت حاکم کو اس کی پہلی ذمہ داری سے موڑتی ہے اور اسی وقت حدود کی تعطیل کا دروازہ کھلتا ہےجبکہ حاکم کے پاس پہنچنے سے پہلے مجرم کے (گناہوں) پر پردہ ڈالنا یا اس کی شفاعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ابو داؤد،نسائی اور حاکم میں روایت ہے جسے حاکم نے صحیح کہا ہے کہ عمرو بن شعیب اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’تَعَافَوْا الْحُدُودَ قَبْلَ أَنْ تَأْتُونِي بِهِ، فَمَا أَتَانِي مِنْ حَدٍّ فَقَدْ وَجَبَ’’

’’اپنے مابین حدود کو معاف کروالو پس کوئی حد میرے پاس پہنچ گئی تو وہ واجب ہوجائے گی۔‘‘
اور احمد واہل السنن نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صفوان بن أمیہ کی حدیث کو صحیح کہا ہے کہ بے شک نبی مکرم ﷺ نے جب اس چور کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا جس نے آپ کی چادر کو چرایا تھا تو اس کے بارے میں شفاعت کی گئی تو آپ نے فرمایا :

’’فَهَلَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ’’

كکیوں نہیں (اگر) تم میرے پاس اسے لانے سے پہلے (اس کی شفاعت)کرتے۔‘‘
اور عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا قبیلہ مخزومیہ کی ایک عورت (لوگوں سے مال) استعارۃ لیتی اور دینے سے انکار کر دیتی تو آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو اس کے گھر والے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے بات کی تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں بات کی ،  آپ ﷺ نے ان سے فرمایا :

’’يَا أُسَامَةُ لَا أَرَاك تَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ’’

’’اے اسامہ ! میں تمہارے بارے میں یہ گمان نہ کرتا تھا کہ تم اللہ عزوجل کی حدود میں شفاعت کرو گے۔‘‘
پھر نبی کریم ﷺ نے بطور خطیب ارشاد فرمایا :

’’إنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِأَنَّهُ إذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ قَطَعُوهُ، وَاَلَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَتْ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ لَقَطَعْت يَدَهَا فَقَطَعَ يَدَ الْمَخْزُومِيَّةِ’’

تم سے پہلے کےلوگ اس بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب ان کے ہاں اگر کوئی شریف چوری کرتا تو وہ اُسے چھوڑ دیتے اور اگر ان میں کوئی ضعیف چوری کرتا تو وہ اس کا (ہاتھ) کاٹ دیتے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر فاطمہ بنت محمد ﷺبھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔ تو مخزومی عورت کا ہاتھ کاٹ دیاگیا۔ (اسے مسلم،احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے)
شبہات کی بنا پر حدود کا اسقاط :
حد مجرم كکے بدن اور اس کے وقار پر ضرر پہنچانے والی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی حرمت کو مباح کرے یا اسے تکلیف پہنچائے سوائے حق کے۔ اور یہ حق اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک دلیل نہ ہو جو شک سے خالی ہو اور اگر اس میں شک واقع ہوگیا تو وہ یقین کو مانع ہے جس پر احکام مبنی ہوتے ہیں تو اسی وجہ سے تہمت اور شکوک کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور ناہی انہیں شمار کیاجاتاہے کیونکہ اس میں خطا کا گمان ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’ادْفَعُوا الْحُدُودَ مَا وَجَدْتُمْ لَهُ مَدْفَعًا’’ (رواه ابن ماجه)

’’حدود کو جاری مت کرو اگر تم اسے روکنے کی(کوئی شے)پالو۔‘‘
اور سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :

’’ادْرَءُوا الحُدُودَ عَنِ المُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي العَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي العُقُوبَةِ’’

’’جتنی تمہاری استطاعت ہو اتنا مسلمانوں سے حدود کو روکو اور اگر اس میں کوئی نکلنے کی راہ نکلتی ہو تو ان کا راستہ چھوڑ دو اور بے شک امام (قاضی) کیلئے عفوودرگزر میں غلطی کرنے سے بہتر ہے کہ وہ سزا میں غلطی کرے۔ (اسے امام ترمذی نے روایت کیاہے اور کہا ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور بے شک اس کا موقوف ہونا صحیح ہے اور کہا کہ یہ روایت ایک سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے کہ انہوں نے بالکل ایسی ہی روایت بیان کی ہے۔)
شبہات اور اس کی اقسام :
احناف اورشوافع نے شبہات سے متعلق بیان کیا ہے اور ان دونوں کی اپنی آراء ہیں جنہیں ہم یہاں مختصربیان کرتے ہیں۔
شافعیہ کی رائے :
شافعیہ کے نزدیک شبہات کی تین اقسام ہیں :
۱۔ محل(جگہ) میں شبہ:
یعنی عمل کی جگہ ، مثلاً : شوہر نے اپنی حائضہ یا روزے دار زوجہ سے ہمبستری کی یا اس کے پیچھے سے اتیان کیا تو یہاں فعل محرم کی جگہ کا شبہ قائم ہے۔
جبکہ بے شک وہ جگہ شوہر کی ملکیت ہے اور اس کا حق ہے کہ وہ اپنی زوجہ سےمباشرت کرے اور اس کے لیے (جائز) نہیں ہے کہ وہ اس سے حائضہ یا روزے دار یا پیچھے سے مباشرت کرے سوائے اس کے کہ وہ جگہ شوہر کی ملکیت ہے اور اس کا اس پر حق ہے اور یہ ہی شے شبہ کو جنم دیتی ہے اور اس شبہ کے قائم ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے حد کو روکا جائے چاہے عمل کرنے والا عمل کو حلال سمجھے یا حرام کیونکہ شبہ کی اساس اعتقاد اور گمان نہیں ہے بلکہ اس کی اساس وہ عمل اور عمل کرنے والے کا شرعاً اس پر مسلط ہونا ہے۔
۲۔ فاعل (عمل کرنے والے) میں شبہ :
جیسے کوئی شخص کسی عورت سے مباشرت کرلیتا ہے اور وہ یہ گمان کرتاہے کہ وہ اس کی عورت ہے پھر اس پر یہ واضح ہوجاتاہے کہ وہ اس کی بیوی نہیں ۔۔۔ (تو یہاں) شبہ کی اساس فاعل کا گمان اور اس کا اعتقاد ہے جو فعل کرتے وقت تھا اور وہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس نے کوئی حرام کام نہیں کیا تو فاعل کے ہاں اس گمان کا قائم ہونا شبہ کو جنم دیتا ہے جس کی بنا پر حد روکی جائے گی جبکہ فاعل اس فعل کو انجام دیتا اور وہ یہ جانتا ہے کہ یہ حرام ہے تو اس معاملہ میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
۳۔ سمت میں شبہ :
اور اس شبہ سے مراد کسی کام کی حلت اور حرمت ہے اور اس شبہ کی اساس فقہاء کے مابین کسی فعل پر اختلاف ہے پس ہر وہ فعل جس کی حلت اور جواز میں اختلاف ہو تو وہ ہی حد کو روکنے کا شبہ ہے جیسے ابو حنیفہ رحمہ اللہ بغیر ولی کےنکاح کو جائز کہتے ہیں ، اور امام مالک رحمہ اللہ بغیر گواہوں کے نکاح کو جبکہ جمہور فقہاء ایسا نکاح جائز ہی نہیں سمجھتے تواس شادی کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسے مختلف فیہ شادی میں مباشرت کرنے والے پر کوئی حد نہیں کیونکہ یہ اختلاف شبہ کو کھڑا کرتا ہے جس سے حد کو روکا جاتاہے اگرچہ فاعل اس فعل کی حرمت کا اعتقاد ہی کیوں نہ رکھتا ہو کیونکہ اس اعتقاد کا اس کی ذات میں ہی کوئی اثر نہیں ہے جب تک فقہاء اس کی حلت اورحرمت میں اختلاف کرتے رہیں گے۔
احناف کی رائے :
جبکہ احناف کے ہاں اس شبہ کی دو اقسام ہیں :
۱۔ فعل (کام )میں شبہ :
یہ شبہ اس شخص کے حق میں ہے جسے اس کا فعل شک میں ڈال دے نہکہ اس کے جو شک میں نہ پڑا ہو ۔یہ شبہ اس شخص کے حق میں واقع ہوتاہے جو حلال وحرام میں شک میں پڑ جائے اور ادھر ایسی سمعی(سنی سنائی) دلیل بھی نہیں جو اسے حلال کرے، بلکہ اس نے غیر دلیل کو دلیل بنا لیا ہو جیسے کوئی اپنی مطلقہ ثلاث یا بائنہ بیوی سے عدت کی حالت میں مباشرت کرے تو اس کی علت یہ ہے کہ بے شک نکاح مباشرت کے حق میں ختم ہوچکاہے (جس کی وجہ) اس کے محل کی حلت کو معطل کرنے والی شے کا وجود ہے جو کہ طلاق ہے (لیکن) فراش (بچے) کے حق میں نکاح باقی ہے اور حرمت صرف ازواج پر ہے اور ایسی مباشرت حرام ہے وہ زنا ہے اور اس پر حد واجب ہے (لیکن) اگر مباشرت کرنے والا شک کا دعوی کرے اور اسے حلال گمان کرے کیونکہ اس کا گمان دلیل کی ایک نوع بن چکا ہے کہ اس کا نکاح فراش کے حق میں باقی ہے اور حرمت صرف میاں بیوی پر ہے اور اس نے یہ گمان کیا(اس نکاح) کی بقا مباشرت میں بھی ہے۔ اگرچہ حقیقت میں اس کی یہ دلیل صحیح نہیں ہے لیکن جب اس نے اسے دلیل گمان کیا تو یہ اس کے حق میں (حد کو) روکنے والی بن گئی جیسے شبہات روکتے ہیں اور یہ کہ مجرم اس کی حلت کا اعتقاد رکھے جب کہ وہاں حرمت کی دلیل بھی ہو یا اس کا حلت کا اعتقاد ثابت نہ ہوتا ہو تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جب مجرم اس فعل کی حرمت کے بارے جانتا ہو تو اس پر حد واجب ہوگی۔
۲۔ جگہ میں شبہ :
اسے حکمی شبہ اورمِلکی شبہ بھی کہاجاتاہے یہ شبہ اس وقت قائم ہوتاہے جب محل(جگہ) کی حلت کے شرعی حکم میں شک واقع ہوجائے اور اس شبہ کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ احکام شریعت کے کسی حکم سے نکلاہو اور یہ شرعی دلیل کے قیام سے ثابت ہوتاہے جو اس کی حرمت کی نفی کرے، اور فاعل کے گمان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگر فاعل حلت کا اعتقاد رکھے یا حرمت کے بارے میں جانتا ہو وہ برابر ہے کیونکہ شبہ دلیل شرعی کے قیام سے ثابت ہوتاہے نہ کہ معرفت اور عدم معرفت سے۔

اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں کے حوالے سے 1951ء میں سارے مکاتب فکر کی طرف سے منظور کردہ 31 علماء کرام کے متفقہ 22 نکات

ایک مدتِ دراز سے اسلامی دستور مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوتی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستور مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس میں مختلف اسلامی فرقوں کے علماء متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علیہ علماء کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اس غرض کیلئے ایک اجتماع بتاریخ 12۔13۔14 اور15 ربیع الثانی 1370ھ مطابق 21۔22۔23 اور 24 جنوری 1951ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی کراچی میں منعقد ہوا اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے ہیں انہیں فائدہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔
اسلامی مملکت کے بنیادی اصول
اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے :
۱۔ اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
۲۔ ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیئے جائیں گے۔
۳۔ مملکت کسی جغرافیائی،نسلی ،لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
۴۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء واعلاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
۵۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
۶۔ مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لا بدی انسانی ضروریات یعنی غذا،لباس، مسکن ،معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
۷۔ باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جوشریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو،آزادی مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت،آزادیٔ اکتساب رزق ،ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
۸۔مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیاجائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمیٔ موقعۂ صفائی وفیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
۹۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے ان کے شخصی معاملات کے فیصلےان کے اپنے فقہی مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
۱۰۔ غیر مسلم باشندگانِ مملکت کو حدودِ قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اورعیسائیتعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم ورواج کے مطابق رکانے کا حق حاصل ہوگا۔
۱۱۔غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شریعہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر 7 میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
۱۲۔ رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین ،صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہوری ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
۱۳۔رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزوکسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتاہے۔
۱۴۔رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
۱۵۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کلاً یا جزوا معطل کرکے شوری کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
۱۶۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
۱۷۔رئیس مملکت شہر حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر ہوگا۔
۱۸۔ ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
۱۹۔ محکمۂ عدلیہ، محکمۂ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئتِ انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
۲۰۔ ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامیہ کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں ۔
۲۱۔ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی،لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیاست کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس
۱۔ علامہ سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
۲۔مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی ( امیر جماعت اسلامی پاکستان)
۳۔ مولانا شمس الحق افغانی (وزیر معارف ریاست قلات )
۴۔(مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث دار العلوم اسلامیہ اشرف آباد ٹنڈو اللہ یار سندھ)
۵۔ مولانا احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد سندھ )
۶۔ مولانا محمد عبد الحامد قادری ہدایونی (صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان سندھ)
۷۔ مفتی محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان )
۸۔ مولانا محمد ادریس ( شیخ الجامعہ جامع عباسیہ بھاولپور)
۹۔ مولانا خیر محمد (مہتمم مدرسہ خیر المدارس ملتان شہر)
۱۰۔ مولانا مفتی محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور)
۱۱۔پیر صاحب محمد امین الحسنات (مانکی شریف ، پختونخواہ)
۱۲۔ مولانا محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر دار العلوم اسلامیہ اشرف آباد سندھ)
۱۳۔ حاجی خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی ، المجاہد آباد پشاور صوبہ خیبر پختونخواہ)
۱۴۔قاضی عبد الصمد سربازی (قاضی قلّات بلوچستان)
۱۵۔مولانا اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان )
۱۶۔مولانا ابو جعفر محمد صالح (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان )
۱۷۔مولانا راغب احسن (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام مشرقی پاکستان)
۱۸۔مولانا محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین سرسینہ شریف مشرقی پاکستان )
۱۹۔ مولانا محمد علی جالندھری ( مجلس احرار اسلام پاکستان)
۲۰ مولانا داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث مغربی پاکستان)
۲۱۔مفتی جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
۲۲۔مفتی حافظ کفایت حسین مجتہد (ادارہ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان لاہور)
۲۳۔مولانا محمد اسماعیل ( ناظم جمعیت اہل حدیث پاکستان گوجرانوالہ)
۲۴۔ مولانا حبیب اللہ ( جامعہ دینیہ دار الہدی ٹیڑھی خیر پور میر)
۲۵۔ مولانا احمد علی ( امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ لاہور)
۲۶۔ مولانا محمد صادق ( مہتمم مدرسہ مظہر العلوم کھڈہ کراچی)
۲۷۔ پروفیسر عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان )
۲۸۔ مولانا شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
۲۹۔مفتی محمد صاحبداد عفی عنہ (سندھ مدرسہ الاسلام کراچی)
۳۰۔ مولانا محمد ظفر احمد انصاری ( سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات مجلس دستور ساز پاکستان )
۳۱۔ پیر صاحب محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)
نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے 57 جید علماء کرام کے متفقہ 15 نکات
چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن وسنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے لہٰذا 1951ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ 31 علماء کرام نے عصر حاضر میں ریاست وحکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22 نکات تیار کیے تھے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستوری انتظامات بھی کر دیئے گئے لیکن ان میںسے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوسکا مزید براں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسند کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزورِ قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔
اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا جبکہ اس صورت حال کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرکے افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لاکھڑاکیا اور یوں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان سرگرمیوں کی پشت پناہی بھی خود امریکہ،بھارت اور اسرائیل ہی کر رہے ہیں پا کستان کے دیگر پر امن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشتگردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غوروفکر اور اتفاق رائے سے ان اُمور کی نشاندہی کردیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کوشش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہوگی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہوجائے گا جس پرچل کر یہ منزل حاصل کی جاسکتی ہے ۔ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کر سکتاہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جاسکے چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں:
۱۔ شریعت پر عمل سب کی ذمہ داری ہے :
ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت واصلاح اور تبلیغ وتذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں ،حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاںپوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذ شریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
۲۔ ۲۲ نکات کی مرکزی حیثیت :
یہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی بنیاد 1951ء میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ 22 نکات ہیں اور موجود دستاویز کے 15 نکات کی حیثیت بھی ان کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
۳۔ نفاذ شریعت بذریعہ پُر امن جدوجہد اور بمطابق متفقہ راہنما نکات :
یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پرامن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً بھی اس کے امکانات موجود ہیں نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظر شدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے (یہ 15 نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں) اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا اسلامی سارے معاشرے پر قوت سے ٹھونس دے۔
۴۔دستوری اصلاحات :
دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن وسنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اور اس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔ یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی شق اور مقنّنہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ 6Aاور عوامی نمائندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 62،63کو مؤثر اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنیٰ پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ پنج کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کے برابر لایاجائے۔ بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظر ثانی کا اختیار دیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلنٹ بنچ کو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (Time Frame) کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کر دیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی،ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقرر کیا جائے اور آئین میں جہاں قرآن وسنت کے بالاتر قانون ہونے کا ذکر ہے نبی کریم ﷺ کے شارع ہونے کا ذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء بطور رکن نامزد کرے ہر مکتبہ فکر اپنا نمائدہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے نفاذ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہوجائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بنا کر پاس کرنے کی پابند ہو۔
۵۔موجودہ اسلامی قوانین پر مؤثر عمل درآمد:
پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مؤثر اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
۶۔ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی :
اسلامی اصول واقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی ،کپڑا،مکان ، علاج معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے،غربت وجہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات ومصائب دور کرنے اور پاکستانی عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔
۷۔سیاسی اصلاحات :
موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے مثلاً عوامی نمائندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حوصلہ شکنی اور غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں نمائندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیاجائے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے علاقائی،نسلی،لسانی اورمسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔
۸۔نظام تعلیم کی اصلاح :
تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کاخاتمہ ہو اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے تعلیم کامعیار بلند کیا جائے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا مؤثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے تعمیر سیرت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے دینی مدارس کے نظام کو مزید مؤثر ومفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کئے جائیں ۔ ملک میں کم از کم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
۹۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح :
ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے جس میں فحاشی وعریانی کو فروغ دینے والے مغربی وبھارتی ملحدانہ فکر وتہذیب کے اثرات ورجحانات کو رد کر دیا جائے۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی مؤثر نگرانی کی جائے۔ اسلامی اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
۱۰۔ معیشت
پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے ائیں جیسے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا،شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا،تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانا اور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خود کفالت کے لیے جدوجہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکروکریڈٹ کا بھی اجراء کریں تاکہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلا سود قرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکیں نیز قرضوں کو بطور سیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 38 میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کے متعلقہ امور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور ٹھوس اقدامات کرے۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
۱۱۔عدلیہ
عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ کیا جائے۔اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم،ججوں، وکیلوں، پولیس اور جیل سٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں ۔ انصاف سستار اور فوری ہونا چاہیے۔
۱۲۔امن وامان
امن وامان کی بحالی اور لوگوں کے جان ومال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
۱۳۔ خارجہ پالیسی :
خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خود مختاری کا تحفظ کیاجائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کےتحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت واتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کر ے۔
۱۴۔ افواج پاکستان :
افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہونا چاہیے بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے۔فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریسی کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں یہ راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں حکمران نہیں۔
۱۵۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر:
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات وبرائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائر اسلامی کا احیاء واعلاء ہو اور دستور کے آرٹیکل 31 میں جن امور کو ذکر کیا گیا ہے ان پر مؤثر عمل درآمد ہوسکے۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کے ازالے اور مسلمانوں وغیر مسلموں تک مؤثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

فہرست علماء کرام :

جو اتحاد امت کانفرنس میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اس قرار داد کی منظوری دی:
۱۔ مولانا مفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ وصدر ملی مجلس شرعی ،لاہور)
۲۔ پیرعبدالخالق قادری(صدر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان)
۳۔علامہ احمد علی قصوری (صدر مرکز اہل سنت ،لاہور)
۴۔صاحبزادہ علامہ محب اللہ نوری( مہتمم جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیر پور اوکاڑہ)
۵۔علامہ قاری محمد زوار بہادر (ناظم اعلیٰ ، جمعیت علماء پاکستان ، لاہور)
۶۔مولانا حافظ غلام حیدر خادمی( مہتمم جامعہ رحمانیہ رضویہ،سیالکوٹ)
۷۔ مولانا مفتی شیر محمد خان ( صدر دار الافتاء دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ سرگودھا)
۸۔ علامہ حسان الحیدری ( حیدر آباد سندھ)
۹۔مولانا راغب حسین نعیمی ( مہتمم جامعہ نعیمیہ،لاہور)
۱۰۔ مولانا خان محمد قادری ( مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ داتانگر لاہور)
۱۱۔مولانا محمد خلیل الرحمن قادری(ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ،لاہور)
۱۲۔علامہ محمد شہزاد مجددی (سربراہ دار الاخلاص ۔مرکز تحقیق لاہور)
۱۳۔ علامہ محمد بوستان قادری (شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ (ضلع سرگودھا)
۱۴۔ سید منور حسن ( امیر جماعت اسلامی پاکستان منصورہ لاہور)
۱۵۔ مولانا عبد المالک (صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ منصورہ لاہور )
۱۶۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی منصورہ لاہور)
۱۷۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر (امیر جماعت اسلامی پنجاب لاہور)
۱۸۔ مولانا سید محمود الفاروقی (ناظم تعلیمات رابطہ المدارس الاسلامیہ ، لاہور)
۱۹۔ مولانا محمد ایوب بیگ ( ناظم نشر واشاعت تنظیم اسلامی پاکستان ، لاہور)
۲۰۔مولانا ڈاکٹر محمد امین (ڈین صفاء اسلامک سنٹر وناظم اعلیٰ ملی مجلس شرعی،لاہور)
۲۱۔مولانا محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ ، وفاق المدارس العربیہ، ملتان )
۲۲۔مولانا مفتی رفیق احمد ( دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی)
۲۳۔ مولانا حافظ فضل الرحیم ( نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ ، لاہور)
۲۴۔ مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی،گوجرانوالہ)
۲۵۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی ( ناظم اعلیٰ جمعیت علماء اسلام ، لاہور)
۲۶۔ مولانا محمد امجد خان (ناظم اطلاعات جمعیت علماء اسلام، لاہور)
۲۷۔ مولانا مفتی محمد طاہر مسعود (مہتمم جامعہ مفتاح العلوم سرگودھا)
۲۸۔ مولانا مفتی محمد طیب ( مہتمم جامہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد)
۲۹۔ مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی (نائب مہتمم جامعہ دار العلوم الاسلامیہ ، لاہور)
۳۰۔مولانا اللہ وسایا (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،ملتان)
۳۱۔ مولانا مفتی محمد گلزار احمد قاسمی (مہتم جامعہ قاسمیہ،گوجرانوالہ )
۳۲۔ مولانا قاری محمد طیب (مہتمم جامعہ حنفیہ بورے والا،وہاڑی)
۳۳۔مولانا رشید میاں (مہتمم جامعہ مدنیہ،کریم پارک ، لاہور)
۳۴۔ مولانا محمد یوسف خان (مہتمم مدرسنۃ الفیصل للبنات ، ماڈل ٹاؤن لاہور)
۳۵۔مولانا عزیز الرحمن ثانی (مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ، لاہور)
۳۶۔ مولانا رضوان نفیس ( خانقاہ سید احمد شہید،لاہور)
۳۷۔مولانا حافظ محمد نعمان (مہتمم جامعہ الخیر جوہر ٹاؤن لاہور)
۳۸۔مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ ، لاہور)
۳۹۔ مولانا قاری ثناء اللہ( امیر جمعیت علماء اسلامی لاہور)
۴۰۔ پروفیسر مولانا ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان لاہور)
۴۱۔ پروفیسر حافظ محمد سعید ( امیر جماعت الدعوۃ پاکستان لاہور)
۴۲۔ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی( امیر جماعت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)
۴۳۔ مولانا عبید اللہ حنیف ( امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان ، لاہور)
۴۴۔ مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ( ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان )
۴۵۔مولانا حافظ عبد الوہاب روپڑی(نائب امیر جماعت اہلحدیث پاکستان )
۴۶۔ مولانا محمد شریف خان چنگوانی (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان )
۴۷۔مولانا ڈاکٹر محمد حماد لکھوی ( پروفیسر پنجاب یونیورسٹی وخطیب جامع مسجد مبارک اہلحدیث لاہور)
۴۸۔ مولانا ڈاکٹر حافظ حسن مدنی (نائب مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) لاہور)
۴۹۔ مولانا امیر حمزہ (کنوینر تحریک حرمت رسول(جماعۃ الدعوۃ) لاہور)
۵۰۔ مولانا قاری شیخ محمد یعقوب ( جماعۃ الدعوۃ لاہور)
۵۱۔ مولانا رانا نصر اللہ (امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور)
۵۲۔ مولانا محمد زاہد ہاشمی الازہری (ناظم اعلیٰ جماعت غرباء اہلحدیث پنجاب)
۵۳۔ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (مہتمم ادارہ منہاج الحسین، لاہور)
۵۴۔علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (تحریک اسلامی، اسلام آباد)
۵۵۔ مولانا محمد مہدی (جامعہ المنتظر ، لاہور )
۵۶۔ مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی( دار العلوم کورنگی کراچی)
۵۷۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی (دار العلوم کورنگی کراچی )
مفتی رفیع عثمانی اور مولانا تقی عثمانی صاحب کانفرنس میں تشریف نہ لاسکے لیکن انہوں نے بعد میں تحریراً ان نکات کی تائید کی۔
دینی مسالک میں تقارب اور رواداری کا فروغ ملی مجلس شرعی کے 23 علماء کرام کا 18 نکاتی متفقہ اعلامیہ
ملی مجلس شرعی کے اجلاس مؤرخہ 8 جولائی 2013ء میں سارے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے دینی مسالک اور جماعتوں میں تقارب اور رواداری کے فروغ کے لیے مندرجہ ذیل 18 نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی :
شدت اختلاف میں کمی :
۱۔ دینی جرائد اورمجالس میں ایسی جذبانی تقریروں ،تحریروں،مناظروں اور مباحثوں سے اجتناب کیا جائے جن کا مقصد ایک مسلک کی فتح اور دوسرے مسلک کی تغلیط ہو ۔
۲۔ مسلک ومشرب کو دین نہ سمجھا جائے اور نہ مسلکی اختلافات کو حق وباطل کی جنگ قرار دیا جائے۔
۳۔ بین المسالک اختلافات کی وجہ سے کسی مسلک کی تکفیر نہ کی جائے اور نہ کسی پر ہاتھ اٹھانا جائز قرار دیا جائے نیز اشتعال دلانے والی اور دل آزاری کا سبب بننے والی تحریریں کتابوں سے نکال دی جائیں۔
۴۔ علماء کرام اور مسالک کے درمیان اختلافات کو علمی سطح تک محدود رکھا جائے اور اسے عوام کی سطح تک نہ لے جایا جائے۔
۵۔دینی حلقے اور عامۃ الناس،واعظین اور ذاکرین کی بجائے ان ثقہ وسنجیدہ علماء کرام کو اہمیت دیں جو رسوخ فی العلم اور تقویٰ رکھتے ہوں اور رائے کے اظہار میں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوں۔
۶۔ چونکہ مسالک میں مشترکات کی کثرت ہے اور اختلافت کم اور معمولی ہیں اور عموماً فروعی،اجتہادی اور ترجیحی نوعیت کے ہیں اس لیے مشترکات کی اساس پر ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے اور اختلافات کو برداشت کرنے اور ان سے صَرف نظر کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے سارے مسالک کو چاہیے کہ بیرونی حمایت اور پروپیگنڈے کو ردکردیں اور دوسروں کے کہنے پر اپنے گھر میں نفرت اور تشدد پھیلانے کا سبب نہ بنیں۔
مساجد
۷۔ جمعہ وعیدین کے خطبات اور دیگر دروس وغیرہ میں فرقہ وارانہ موضوعات نہ چھیڑے جائیں اور بین المسالک اختلافات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ خطبات اصلاحی نوعیت کے ہوں۔
۸۔ مساجد کو بلا تخصیص عامۃ الناس کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے استعمال کیا جائے خصوصاً طلبہ اور نوجوانوں کو مسجد سے جوڑا جائے اور علاقہ کے مستحقین (یتیم، مسکین،بیوہ،معذور افراد وغیرہ) کی بلا تفریق مالی مدد کے لیے کمیٹیاں بنائیں جائیں۔
۹۔ اگر کوئی مسجد کسی مسلک کی تحویل میں ہو تو کسی دوسرے مسلک والے کو اس پر قبضہ کی کوشش کرنے اور فرقہ واریت وفساد بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

دینی مدارس

۱۰۔ دینی مدارس اصلاً ’’دین‘‘ کی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں نہ کہ کسی مسلک کی تعلیم وتغلیب کے لیے لہٰذا مدارس کو فرقہ واریت کی نرسریاں بنانے کی بجائے دینی تعلیم کے مراکز بنایا جائے، مشترکات کو ابھارا جائے،اختلافات کو سمیٹا جائے اور مسالک کے درمیان تقارب اور رواداری کو شامل نصاب کیا جائے۔
۱۱۔ دوران تدریس علماء کرام،اساتذہ اور شیوخ یہ رویہ ترک کردیں کہ انہوں نے اپنے مسلک کو واحد حق ثابت کرنا اوردوسرے مسالک کو باطل قرار دیتے ہوئے ان کی تغلیط اور نفی کرنا ہے۔
۱۲۔اس خودساختہ پابندی کو ختم کر دیا جائے کہ ہر مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ کا مسلک لازماً ایک ہی ہو۔
۱۳۔ دینی مدارس کو صرف مخصص علماء تیار کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے بلکہ عوام خصوصا جدید سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے (روزانہ بعد عصر اور گرمیوں کی چھٹیوں میں )استعمال کیاجائے۔
۱۴۔ دینی تعلیم کے نصاب پر اس طرح نظر ثانی کی جائے کہ طلبہ فراغت کے بعد عصر حاضر کے مسائل اسلامی تناظر میں حل کرنے کے قابل ہوسکیں اور مغربی فکر وتہذیب خصوصاً جدید معاشی،سیاسی،قانونی اور تعلیمی مسائل سے اور انگریزی زبان سے اچھی واقفیت رکھتے ہوں۔
فرقہ وارانہ سرگرمیوں کی بجائے دعوت واصلاح کی تعمیری مصروفیت :
۱۵۔ معاشر میں بڑھتے ہوئے اخلاقی بگاڑ،فساد اور بے دینی کی وجہ سے جس کا بنیادی سبب دین سے دوری اور مغرب پرستی ہے علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ اپنے موجودہ کاموں کے علاوہ دعوت واصلاح اور بالمعروف ونہی عن المنکر کے کام کو بنیادی اہمیت دیں اور اس پر اپنی توانائیاں صرف کریں خصوصاً جدید تعلیم اور میڈیا کی اصلاح پر توجہ کریں۔
۱۶۔ ایک اہم شعبہ جو علماء کرام کی توجہ کا محتاج ہے وہ خدمت کا ہے تاکہ مسلمان عامۃ الناس کے دکھ درد کم ہوسکیں اور علماء کرام کی سیادت وقیادت پر ان کا اعتقاد مزید پختہ ہو اور ان کا یہ وقار اور مقام نصر دین میں ممدومعاون ثابت ہو۔
دینی سیاسی جماعتیں
۱۷۔ دینی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بنانے کی بجائے پاکستان میں نفاذ شریعت کے ایک متفقہ پروگرام پر جمع ہوکر ایک مضبوط سیاسی جماعت ، تحریک ،محاذ بن جائیں تاکہ ان کا وزن اور اہمیت بھی ہو اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں۔
۱۸۔ انتخابات میں نشستیں جیتنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کی آپس میں کشمکش اور محاذ آرائی ناپسندیدہ ہے اور اس سے بچنا چاہیے۔

فہرست علماء کرام

اس اعلامیہ پر جن علماء کرام نے دستخط کیے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :
۱۔ مولانا مفتی محمد خان قادری ( مہتمم جامعہ اسلامیہ، جوہر ٹاؤن لاہور)
۲۔ مولانا عبد الرؤف فاروق (جمعیت علماء اسلام(س)
۳۔مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (جامعہ اہلحدیث ،لاہور)
۴۔مولانا عبد المالک (جامعہ مرکز علوم اسلامیہ، منصورہ)
۵۔علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (ناظم ادارہ منہاج الحسین لاہور)
۶۔مولانا مرزا ایوب بیگ (ناظم اطلاعات ، تنظیم اسلامی پاکستان)
۷۔مولانا حافظ محمد نعمان حامد ( جامعۃ الخیر ، لاہور)
۸۔مولانا سید عبد الوحید شاہ (جماعۃ الدعوۃپاکستان )
۹۔مولانا حافظ عبد الوہاب روپڑی (جماعت اہلحدیث پاکستان )
۱۰۔ مولانا مہدی حسن ( جامعہ المنتظر ، ماڈل ٹاؤن لاہور)
۱۱۔ مولانا ایس ایم عبد اللہ جان (مدیر اقراء تہذیب الاسلام ، لاہور )
۱۲۔ مولانا نصرت علی شہانی (وفاق المدارس الشیعہ ، لاہور)
۱۳۔ مولانا محمد توقیر عباس (جامعہ العروۃ الوثقی لاہور)
۱۴۔ مولانا ڈاکٹر محمد امین ( صفاء اسلامک سنٹر،لاہور)
اس کے علاوہ ملی مجلس شرعی کے مندرجہ ذیل علماء کرام نے بھی اس کی حمایت کی ہے :
۱۵۔ مولانا زاہد الراشدی ( شریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ )
۱۶۔ مولانا حافظ عاکف سعید ( تنظیم اسلامی پاکستان )
۱۷۔ مولانا حافظ فضل الرحیم (جامعہ اشرفیہ لاہور)
۱۸۔ مولانا احمد علی قصوری ( مرکز اہل سنت لاہور)
۱۹۔ مولانا محمد خلیل الرحمن قادری ( جامعہ اسلامیہ جوہر ٹاؤن لاہور)
۲۰۔ مولانا راغب حسین نعیمی ( جامعہ نعیمیہ لاہور)
۲۱۔ مولانا شہزاد مجددی ( دار الاخلاص لاہور)
۲۲۔ مولانا شیخ محمد یعقوب ( جماعۃ الدعوۃ ، پاکستان )
۲۳۔ مولانا قاری احمد میاں تھانوی (دار العلوم اقبال ٹاؤن لاہور)
۔۔۔۔۔۔

اَخلاق مصطفیﷺ

اس کائنات کے اندر جتنی بھی عظیم شخصیات کا گزر ہوا ہےوہ اعلیٰ اخلاق وکردارکی بنیاد پر دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے ان میں ہمارے نبی کریم ﷺ سرفہرست ہیںآپ ایسے اعلیٰ اخلاق وکردار کا پیکرتھے جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک جب تک آپ نے نبوت کا تاج نہ پہنا تھا، مشرکین عرب میں آپ صادق وامین کے لقب سے موصوف تھے۔وہ آپ سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت والفت کرتے تھے۔آپ کے داداعبدالمطلب کے ہاں آپ کا مقام اور شان تواتنی اعلیٰ وارفع تھی کہ وہ خاص مقام یا جگہ جو ان کے لیے مخصوص تھی،جس پر ان کی سگی اولاد کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہ تھی،مگریہ دریتیم صاحب حسن وجمال جناب محمدﷺاس پر آکر براجمان ہو جاتے آپ کے چچاعبدالمطلب کے بیٹے آپ کو ٹوکتے کہ یہاں نہ بیٹھو،مگر جب عبدالمطلب کواس کا علم ہوتا تو کہتے:’’میرے پوتے کویہاں براجمان ہونے سے مت روکاکروکیونکہ اس کی شان نرالی ہے،اس کا مرتبہ اعلیٰ ہے۔‘‘جب بھی عرب میں کوئی امانت رکھوانا چاہتا توآپ ﷺ کے پاس آکر اپنی امانت رکھواجاتا،کیونکہ ان میں مشہورتھا کہ آپ ﷺسے بڑھ کر کوئی بڑاامین مکہ کی سرزمین موجود نہیں۔آپ کی ہربات کووہ من وعن تسلیم کر لیتے۔جب نبوت کا تاج آپ کے سرپرسجایاگیا،توآپ کے کمال اخلاق نے بڑے بڑے دشمنوں کواپناگرویدہ اوراسلام کا جانثاربنادیا۔ جوجان لینے کی غرض سے آتے وہ اسلام کے لیے اپنادل دے بیٹھتے۔اپنے خونی رشتوں کوآپ کے لیے چھوڑنا گوارہ کرلیتے مگرآپ سے جدائی کاصدمہ برداشت کرناان کیلئے محال ہوجاتا۔آپ کےاعلیٰ اخلاق سے قرآن وحدیث کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کہ سابقہ شریعتوں کی کتب میں بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ذکر کیا گیا ہے۔تورات میں آپ کے اخلاق کے متعلق یہ مذکور ہے کہ:’’آپ نہ بداخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں۔نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں۔اور برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ معاف کردیتے ہیں اوردرگزر کردیتے ہیں۔‘‘آپ کے ساتھ زندگی بسرکرنے والے چاہے وہ آپ کے اصحاب ہوں یا مشرکین عرب آپ کے اخلاق کی عمدگی پر توسب ہی متفق تھے۔چنانچہ جب آپ نے اعلانیہ دعوت کے لیے پہلا قدم اٹھایا توصفا پہاڑی پرچڑھ کر آواز لگائی اورپوچھا:’’کیا میں جوکہوں گا تم میری بات پر یقین کروگے ؟‘‘سب نے بیک آواز کہا:’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی پایا ہے۔‘‘اسی طرح آپ کے اصحاب سے جب بھی اَخلاق نبویﷺ کے بارے میں دریافت کیاگیاتوانہوں نے ہمیشہ آپ کے اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعریف کی۔اس وقت چونکہ غلامی کاسلسلہ بھی تھا اس لیے غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کے ساتھ بہت برا رویہ اپناتے تھے لیکن سیدنا انس رضی اللہ عنہ جو آپ کےخادم تھے اوردس سال خدمت نبوی میںگزارے۔ آپ ﷺ کا رویہ ان کے ساتھ اتنا عمدہ تھا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ:’’نبی کریم نہ برابھلا کہتے تھے،نہ بے ہودہ گفتگوکرتے تھے،نہ کسی پراپنی ذات کے لیے لعنت بھیجتے۔‘‘آپ کے پاس کوئی سائل آتا تو کبھی ناامید ہوکرنہ لوٹتا بلکہ غنی ہوکر ہی واپس جاتا۔آپ میں عاجزی وانکساری کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔صحابہ کرام سے ہمیشہ گھل مل کر رہتے جوکوئی بھی آپ سے ملناچاہتاتھا بغیرکسی تگ ودوکے آپ سے مل کراپنا مسئلہ بیان کردیتاتھا۔آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے :’

’اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘

اے اللہ! مجھے اس حال میں زندہ رکھ کہ میں مسکین رہوںاوراسی حال میں مجھے موت دینا اورقیامت کے دن مجھے مسکینوں کے گروہ میں اٹھانا۔ایک بار مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ ومطھرہ رضی اللہ عنھا نے یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمانے لگیں:’’ آپ یہ دعا کیوں کرتے ہیں؟توآپ فرمانے لگے:’’بے شک مساکین مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔پھرآپ فرمانے لگے:اے عائشہ!مسکین کو خالی نہ لوٹایا کرواگرچہ آدھی کھجور ہی دو۔عائشہ !تم مسکینوں سے محبت کرو اور انہیں اپنے قریب کرو،اس طرح اللہ تمہیں روز قیامت اپنا قرب نصیب کرے گا۔‘‘(الترمذی:2352) مساکین حقیقی محتاج مراد تھے ناکہ آج کل کے پیشہ وربھکاری ، جنہوں نے مانگنے کو پیشہ بنا لیا ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں تو یہ وعید آئی ہے کہ کل قیامت والے دن جب اللہ کے دربار میں آئیں گے تو ان کا چہرہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچا ہی ہوگا،گوشت نہ ہوگا۔آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا رشتہ اتنا گہرہ تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا کوئی لونڈی آپ کے پاس آتی اور آپ کو اپنا مسئلہ حل کروانے کے لیے آپ کو ساتھ لے جاتی توآپ اس کے ساتھ چل پڑتے(صحیح البخاری:6072) آج کل کے حکمرانوں کی طرح تکلف نامی بیماری کا تو دور تک کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔غرض کہ آپ اپنی امت کے لیے سب کچھ قربان کیے ہوئے تھے۔اسی طرح ایک ذمہ دار کی حیثیت سے آپ پر رعایا کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کا بھی خاص خیال رکھتے چنانچہ آپ کمزورومسلمانوں کے پاس آتے،ان سے ملاقات کرتے، ان میں سے جو بیمار ہوتا اس کی عیادت کرتے، جو فوت ہوجاتا اس کی نماز جنازہ ادا کرتے اورتدفین میں شریک ہوتے۔اسی طرح سلام میں پہل کرتے،آپ میں تکلف نام کی تو کوئی چیز تھی ہی نہیں حتیٰ کہ زمین پر بیٹھ جاتے اور زمین پر بیٹھ کر ہی کھانا کھاتے۔بکری کو باندھتے اور جو کی روٹی پر بھی کوئی غلام دعوت دیتا تواس کا دل رکھنے کے لیے دعوت قبول کرلیتے۔ صحابہ کرام کو کوئی شخص آپ سے بڑھ کرعزیز ،قابل احترام اور محبوب نہ تھا۔

اس کے باوجود بھی جب آپ صحابہ کی مجلس میں تشریف لاتے توصحابہ میں سے کوئی احتراماً کھڑا نہ ہوتا کیونکہ آپ نے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔(سنن الترمذی:2754)مگر آج ایسا نہ کرنے والے سزا کے مستحق قرارپاتے ہیں اورکوئی نام نہاد حکمران کے سامنے احتراماً کھڑا نہ ہوتو وہ اس میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔جس طرح آپ کا کرداراجلا اورصاف ستھرا تھا بعینہ آپ کا گفتار بھی عمدہ تھا۔کبھی زبان سے کسی کوتکلیف نہ دی مگرآج نام نہادعاشق رسول ﷺکا دعویٰ کرنے والوں کا اخلاق و کردارایسا ہے کہ اللہ معاف کرے ۔ان کی زبان سے کوئی محفوظ ہے نہ کردارسے،ان کی زبان وہاتھ مسلمانوں کے خلاف چلتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پرخون بہانا،مال کھانااور عزت وآبرو حرام ہے۔مگرنام نہاد مسلمانوں کے ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ چکے ہیں۔ان کی زبانیں اپنوں کے خلاف نشتر بن چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیںاخلاق  نبوی ﷺ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

صحیح معنوں میں کامیاب انسان

 (حدیث نمبر:91)

عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ، وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا، وَلِسَانَهُ صَادِقًا، وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً، وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً، وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً، وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً۔
تخریج:مسند أحمد ، کتاب مسند الأنصار حديث أبي ذرّ :

22
راوی کا تعارف: حدیث نمبر 56 کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں۔
معانی الکلمات:

قَدْ بے شک Indeed أَفْلَحَ کامیاب ہوگیا Succeded
مَنْ جو Who أَخْلَصَ خالص کر ليا Purified
قَلْبَهُ اس کا دل His heart لِلْإِيمَانِ، ایمان کيلئے For faith
جَعَلَ اسے بنايا He made سَلِيمًا، سلامت ، محفوظ Safe
لِسَانَهُ اس کی زبان His tongve صَادِقًا سچی Truthfull
نَفْسَهُ اس کا نفس/جان Soul مُطْمَئِنَّةً مطمئن Satisfied
خَلِيقَتَهُ اس کی طبیعت ومزاج His nature مُسْتَقِيمَةً سیدھی/معتدل/صحیح Straight/Correct
أُذُنَهُ اس کے کان His ears مُسْتَمِعَةً سننے والے Hearer,Listener
عَيْنَهُ اس کی آنکھ His eye نَاظِرَةً دیکھنے والی Watcher
ترجمہ :  سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بلاشبہ وہ شخص کامیاب ہے جس کا دل اللہ تعالیٰ ایمان کیلئے خالص کر دے، اس کے دل کو(لغویات سے) محفوظ اس کی زبان کو سچا، اس کے نفس کو اطمینان والا، اس کی طبیعت کو سیدھا ، اس کے کانوں کو سننے والا اور اس کی آنکھ کو دیکھنے والی بنا دے‘‘۔
تشریح : بلاشبہ ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے، ناکامی سے بچنا چاہتا ہے انسان از خود انتہائی بے بس اور کمزور ہے اسے ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق کی حاجت رہتی ہے چنانچہ اگر وہ اپنے رب کو منوانے میں کامیاب ہوجائے نتیجتاً اللہ تعالیٰ اس کی مدد اور اس کے لیے خیر وبھلائی کا فیصلہ کرلے تو اس کے تمام مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔
مذکورہ حدیث ایک طرف اصل کامیابی کی علامات بیان کرتی ہے تو دوسری طرف انسان کو ترغیب دلاتی ہے کہ وہ رب سے ان نعمتوں کے حصول کی التجا ودعا بھی کرے کیونکہ بن مانگے، مفت میں یہ عظیم نعمتیں نہیں ملتی جب یہ نعمتیں کسی شخص کو حاصل ہوجائیں تو خوبیاں بن کر اس کی عملی زندگی میں نظر آتی ہیں جو دوسرے لوگوں کیلئے مشعل راہ اور قابل رشک بنتی ہیں۔
۱۔ دل میں خالص ایمان جو ہر قسم کی ملاوٹ ،شرک، بدعت ،منافقت سے پاک ہو ۔
۲۔ قلب سلیم جس میں کسی شخص کیلئے بغض،حسد،کینہ، نفرت نہ ہو ۔
۳۔سچ بولنے والی زبان جو جھوٹ سے پاک ہو ۔
۴۔ سیدھی اور صاف طبیعت ومزاج جو دوغلاپن سے محفوظ ہو ۔
۵۔ سننے والے کان جن میں قوت سماعت ہو اور صرف خیر کی طرف ہی متوجہ رہتے ہوں۔
۶۔ دیکھنے والی آنکھ جو قوت بصارت رکھتی ہو اور محرمات سے اجتناب کرتی ہو ۔
۷۔ اطمینان والا نفس جو قناعت رکھتا ہو اور صرف خیر کے کاموں میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ واللہ اعلم

رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری کے درمیان صرف چار واسطے ہیں۔

عَلَامَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے

3-17- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے شاہد کے طور پر ذکر کی جو کہ رباعی ہے۔

وروى بسند آخر حَد َّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّه عَنْه به (کتاب مناقب الانصار باب حب الانصار، رقم الحديث: 3784 )

معانی الکلمات :
آيَةُ : علامت ، نشانی
حُبُّ : محبت کرنا
الْإِيمَانِ : لغوی معنی تصدیق کرنا
الْأَنْصَارِ: مددگار ، رسول اکرم ﷺ کے وہ اصحاب جنہوں نے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ اور مہاجر صحابہ کی مدد کی ۔
النِّفَاقِ : پھوٹ ، دشمنی ، ظاہر میں دوست باطن میں دشمن (إظھار الإيمان وإبطان الکفر)
بُغْضُ : نفرت کرنا ، عداوت رکھنا
ترجمہ : ہمیں حدیث بیان کی ابوالو لید، ان کو شعبہ نے، اُن سے عبداللہ بن جبرروایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم ﷺ سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ ﷺ نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
Translation:
The Prophet said, “Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy.”
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: ابو الوليدھشام بن عبد الملک الباھلی الطیالسی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں بصرہ سے ان کا تعلق ہے۔
کنیت: ابو الولید۔
محدثین کے ہاں رتبہ:امام ، حافظ، شیخ الاسلام
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو الولید متقن تھے ۔ امام احمد بن عبد اللہ العجلی فرماتے ہیں کہ ابو الولید ثقہ اور ثبت سے متصف تھے۔امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نےابو زُرعہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابو الولید ’’ادرک نصف الاسلام کان إماماً فی زمانہ جلیلاً عند الناس (الجرح والتعدیل ۹/۶۶) نصف اسلام کے عالم ہونے کے باوجود وہ لوگوں کےہاں جلیل القدر امام بھی تھے۔
پیدائش:133ھجری ۔
وفات:227 ھجری میں ہوئی۔
2 نام ونسب : عبد اللہ بن عبد اللہ بن جابر بن عتيکاور کہا جاتا ابن جبر بن عتیک الانصاری المدنی اور ان کا تعلق بنی معاویہ سے ہے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : اسحاق بن منصور اور عباس الدوری امام یحییٰ ابن معین سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح عبد الرحمن بن ابی حاتم اور امام نسائی بھی ان کی تعدیل کی ہے۔اور ابن حبان رحمہ اللہ انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیاہے۔
(تہذیب الکمال فی أسماء الرجال للمزي)
3 شعبہ بن الحجاج
4اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارفحدیث نمبر 2 میں گزر چکا ہے۔
تشریح :
انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادبھی مدینہ تشریف لے آئی تو اس وقت مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے قاصرہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ(سورۃ الانفال72)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اور فرمایا:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ (سورۃ الأنفال : 74)

جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔

انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ ( بخاری) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے رسول رحمت ﷺان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ تشریف فرما رہے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ (صحیح البخاری 3779،صحیح مسلم 1059)اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔اسی لیے تو انصار سے محبت کو ایمان کا درجہ دیا گیاہے اور انصار سے نفرت کو نفاق کا نام ، نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی علامت ہے اور صالح لوگوں سے نفرت،بغض اور عداوت بے ایمان ہونے کی پکی نشانی ہے۔
جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے :

عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ (صحیح البخاری :3783)

سیدنا براءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔
معلوم ہوا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے ۔

دلوں کی حفاظت

6توبہ و استغفار:
انسانی قلوب کی مثال کپڑے کی سی ہے،گناہ اور بداعمالیاں دلوں کے لئے میل کچیل کی حیثیت رکھتے ہیں،جبکہ توبہ و استغفار دلوں کے لئے صابن اور گرم پانی کی حیثیت رکھتے ہیں ،امام ابن القیم نے کہا:

قلت لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى يوما : سئل بعض أهل العلم أيهما أنفع للعبد التسبيح أو الاستغفار ؟ فقال : إذا كان الثوب نقيا فالبخور وماء الورد أنفع له وإذا كان دنسا فالصابون والماء الحار أنفع له فقال لي رحمه الله تعالى : فكيف والثياب لا تزال دنسة ؟

ــ’’میں نے ایک دن شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پوچھا:کسی عالم سے پوچھا گیا کہ بندے کے لئے زیادہ مفید کیا ہے،تسبیح یا استغفار تو اس نے جواب دیا:جب کپڑا صاف ستھرا ہو تو بخور اور آب گل اسکے لئے زیادہ مفید ہے اور اگر کپڑا میلا ہو تو صابن اور گرم پانی اسکے لئے زیادہ فائدہ مند ہے ،تو امام نے مجھ سے کہا:ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟جبکہ کپڑا ہمیشہ ہی میلا رہتا ہے۔‘‘
(الوابل الصیب،ص:122)
یعنی انسان گناہوں سے کبھی پاک نہیں ہوسکتا،جیسا کہ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:

كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

’’ہر انسان بہت گناہگار ہے لیکن بہترین گناہگار وہ ہیں جو بہت توبہ کرتے ہوں۔‘‘
(ترمذی:2499،صحیح الجامع:4515)
البتہ اپنے گناہوں کو حتی الوسعت کم کرسکتا ہےتاکہ اسکے دل پر کم سے کم داغ ہوں کیونکہ گناہوں کی کثرت دلوں کے بگاڑ کا سبب ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کے درج ذیل فرمان سے ثابت ہے،ارشادفرمایا:

أَوَلَمْ يَهْدِ لِلَّذِينَ يَرِثُونَ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ أَهْلِهَا أَنْ لَوْ نَشَاءُ أَصَبْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَنَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ(الاعراف:100)

’’کیا زمین کے جانشین بننے والوں پر واضح نہ ہوچکا کہ اگر ہم چاہیں تو انکے گناہوں کے سبب انہیں عذاب دیں اور انکے دلوں پر مہر لگادیںپھر وہ سن نہ سکیں؟۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:

كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

’’ہرگز نہیں،بلکہ انکے دلوں پر وہ برے اعمال چڑھ گئے جو وہ کرتے رہے۔‘‘(المطففین:14)
یعنی انسان کے برے اعمال اسکے د ل پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں،حتی کہ اسکے جسم کے کسی بھی حصے کا معمولی گناہ بھی دل پر اثر ڈالتا ہے،جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ، وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللهُ {كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}

’’بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ نکتہ ڈال دیا جاتا ہے،پھر اگر وہ ہوش میں آکر توبہ و استغفار کرے تو اسکا دل صاف کردیا جاتا ہے،اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو اس سیاہی میں اضافہ کردیا جاتا ہے حتی کہ وہ اسکے دل پر چھاجاتی ہے،یہی وہ زنگ ہے جسکا اللہ نے ذکر کیا،ہر گز نہیں بلکہ انکے دلوں پر انکی بد اعمالیوں کا زنگ چڑھ گیا ہے۔‘‘ (ترمذی:3334،ٍصحیح الترغیب والترہیب : 3141)
یاد رہے کہ گناہوں کی سیاہی اسی دل پر چڑھتی ہے جو روشن ہو اور جو دل ایمان کے نور سے محروم ہو گناہ اسکی سیاہی میں اضافہ کرتے ہیں، جیسا کہ نبی معظم ﷺ کی بیان کردہ مثال سے واضح ہوتا ہے ،ارشاد فرمایا:

مَا مِنَ الْقُلُوبِ قَلْبٌ إِلَّا وَلَهُ سَحَابَةٌ كَسَحَابَةِ الْقَمَرِ، بَيْنَمَا الْقَمَرُ مُضِيءٌ , إِذْ عَلَتْ عَلَيْهِ سَحَابَةٌ فَأَظْلَمَ , إِذْ تَجَلَّتْ عَنْهُ فَأَضَاءَ

’’ہر دل کا ایک پردہ ہوتا ہے جسطرح چاند پر بادل چھاجاتے ہیں جب وہ روشن ہو،جب وہ پردہ دل پر چھاجائے تو اسے بے نور کردیتا ہے اور جب وہ چھٹ جائے تو اسکا نور بحال کردیتا ہے۔‘‘(طبرانی اوسط: 5220،الصحیحۃ:2268)
یعنی گناہ کی وجہ سے نور ایمان میں کمی آتی ہے اور توبہ و استغفار اس کمی کو پورا کردیتے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود؄ نے فرمایا:

الْإِثْمُ حوَّازُ الْقُلُوبِ وَمَا مِنْ نَظْرَةٍ إِلَّا وَلِلشَّيْطَانِ فِيهَا مَطْمَعٌ

’’گناہ دلوں کو گھیر لیتے ہیں اور ہر نگاہ میں شیطان کی طمع ہوتی ہے۔‘‘(بیہقی شعب الایمان:5051،الصحیحۃ:2613)
یعنی شیطان ہر انسانی نگاہ کو گناہگار بنانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔
”گناہ“تقوی کے منافی ہیں،تقوی دل کی حیات جبکہ گناہ دل کی موت ہیں،اور دل کی موت دنیا و آخرت دونوں کا خسارہ ہے،امام عبداللہ بن مبارک نے کہا:

رَأَيْتُ الذّنُوبَ تُمِيتُ الْقُلُوبَ
وَقَدْ يُورِثُ الذّلّ إدْمَانُهَا
وَتَرْكُ الذّنُوبِ حَيَاةُ الْقُلُوبِ
وَخَيْرٌ لِنَفْسِكَ عِصْيَانُهَا

’’میں نے دیکھا کہ گناہ دلوں کو مارتے ہیں،اور انکی عادت سراسر رسوائی ہے،جبکہ گناہ ترک کردینے سے دلوں کو زندگی ملتی ہے لہذا تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تو نفس کی پیروی نہ کر۔‘‘(حلیۃ الاولیاء،8/279)
اور توبہ و استغفار گناہوں کے آثار بد کو مٹاتی ہیں،جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
التَّائِبُ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ
’’گناہ سے توبہ کرلینے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘(ابن ماجہ:4250،علامہ البانی نے اسے حسن کہا:الضعیفۃ،تحت رقم:615)
7 استقامت:
گذشتہ سطور میں ہم دل کی اچھی و بری دونوں قسم کی صفات بیان کرآئے ہیں،دل کی مستحکم و پائیدار حفاظت و صیانت کے لئےضروری ہے کہ دل صفات حسنہ کو اپنائے رکھنے اور صفات سیئہ سے خود کو بچائے رکھنے میں مستقیم یعنی ثابت قدم رہے،کتاب و سنت میں جہاں بھی استقامت کا ذکر ہے تو اصل استقامت دل ہی کی مراد ہے،اگرچہ ظاہر مستقیم نہ بھی رہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل:106)

’’جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد اسکے ساتھ کفر کیا،مگر جو مجبور کردیا گیا اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو،لیکن جنہوں نے کھلے دل سے کفر کیاان پر اللہ کا غضب ہے اور انکے لئے بڑا عذاب ہے۔‘‘
جیسا کہ محمد بن عمار بن یاسر نے اپنے والد عمار بن یاسر؄ صحابی جلیل کے متعلق کہا:

أَخَذَ الْمُشْرِكُونَ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ فَلَمْ يَتْرُكُوهُ حَتَّى سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ ثُمَّ تَرَكُوهُ فَلَمَّا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا وَرَاءَكَ؟قَالَ: شَرٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تُرِكْتُ حَتَّى نِلْتُ مِنْكَ وَذَكَرْتُ آلِهَتَهُمْ بِخَيْرٍ قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ قَالَ: مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ قَالَ: إِنْ عَادُوا فَعُدْ

’’مشرکین نے عمار بن یاسر کو پکڑلیا اور نہ چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے نبی ﷺ کی شان میں کچھ نازیبا کلمات کہہ دیئے،اور انکے معبودوں کا ذکر خیر کیا،پھر انہوں نے انہیں چھوڑدیا ،جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا:تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا:برا ہوا،مجھے چھوڑا نہ گیا حتی کہ میں نے آپکی شان میں نازیبا بات کی اور انکے معبودوں کا ذکر خیر کیا،آپ نے پوچھا: اسوقت تو نے اپنا دل کیسا پایا؟انہوں نے کہا:ایمان پر مطمئن،آپ نے فرمایا:اگر وہ دوبارہ ایسا کریں تو تم بھی دوبارہ ایسا کرنا۔‘‘(بیہقی کبری:16896)
یعنی عمار بن یاسر؄ کا ظاہر اگرچہ مشرکین کی ایذاؤں پرثابت قدم نہ رہ سکااور وہ مجبور ہوگئےلیکن انکا دل ثابت قدم رہا اور یہی چیز انکے بچاؤ اورخلاصی کا سبب بن گئی۔
واضح ہو کہ محمد کا اپنے والد عمار سے سماع ثابت ہے۔
(تہذیب الکمال:26/166-5493)
اور علامہ ابن حجر نےاس روایت کے متعلق کہا:وَإِسْنَاده صَحِيح إِن كَانَ مُحَمَّد بن عمار سَمعه من أَبِيه’’اسکی سند صحیح ہے اگر اسے محمد نے اپنے والد سے سنا ہو۔‘‘ (الدرایۃ:2/197-879)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللهِ الْمَصِيرُ(آل عمران:28)

’’ایمان والےایمان والوں کے سوا کفار کو دوست نہ بنائیں،اور جس نے ایسا کیا وہ اللہ کی جانب سے کسی بھی شے پر نہیں،البتہ تم ان سے تقیہ کرسکتے ہو،اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی جانب لوٹنا ہے۔ ‘‘
اس آیت میں مخصوص اہل ایمان کے لئے مخصوص حالات میں تقیہ کی اجازت دی گئی ہے،اور تقیہ کہتے ہیں کہ: زبان سے ایسے ذو معنی اور مبہم کلمات ادا کرنا جو خلاف حقیقت بھی نہ ہوں کیونکہ یہ جھوٹ ہے ،دل کے خلاف بھی نہ ہوںکیونکہ یہ نفاق ہے،اور دین کفر کی موافقت میں بھی نہ ہوںکیونکہ یہ موالاۃ مع الکفار ہے،جیسا کہ فرعون کی بیوی آسیہ(التحریم:11) اور مومن آل فرعون (غافر:28) کا ایمان تھااور جیسا کہ عمار بن یاسر ؄کا ایمان تھا،اور ان سب کے ایمان کے معیاری ہونے کی شھادتیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں،جیساکہ عمار بن یاسر ؄کے متعلق نبی مکرمﷺ نے فرمایا:

مُلِئَ عَمَّارٌ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ

’’عمار اپنے کندھے تک ایمان سے بھرپور ہے۔‘‘ (سنن نسائی:5007،الصحیحۃ:807)
الغرض،اصل استقامت یہ ہے کہ دل ایمان اور صفات حسنہ پرقائم ر ہے،اور یہی اصل مقصود ہے،امام ابن رجب  نے کہا:

فأصل الاستقامة استقامة القلب على التوحيد كما فسر أبو بكر الصديق وغيره قوله” إن الذين قالوا ربنا الله ثم استقاموا“بأنهم لم يلتفتوا إلى غيره فمتى استقام القلب على معرفة الله وعلى خشيته وإجلاله ومهابته ومحبته وإرادته ورجائه ودعائه والتوكل عليه والإعراض عما سواه استقامت الجوارح كلها على طاعته فإن القلب هو ملك الأعضاء وهي جنوده فإذا استقام الملك استقامت جنوده ورعاياه

’’اصل استقامت یہ ہے کہ دل توحید پر قائم رہے جیسا کہ ابوبکر صدیق ؄وغیرہ نے اللہ تعالی کے فرمان ”جن لوگو نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر قائم رہے“کی تفسیر کی کہ وہ غیر اللہ کی جانب متوجہ نہیں ہوتے،پس جب دل اللہ کی معرفت وخشیت،رعب و جلال ،محبت و ارادت،امید و دعا،اسی پر توکل اور اسکے سوا ہر ایک سے اعراض پرثابت قدم رہے،تو تمام اعضاء بھی اسکی اطاعت پر قائم رہتے ہیں ، کیونکہ دل تمام اعضاء کا بادشاہ ہےاور اعضاء اسکی سپاہ،جب بادشاہ قائم رہے تو اسکی سپاہ اور رعایا بھی قائم رہتے ہیں۔‘‘(جامع العلوم والحکم:205)
8 دنیا پر دین کو ترجیح دینا:
جو لوگ اپنی دنیا کی خاطر دین سے غافل ہوجاتے ہیں اللہ انکے دلوں پر مہر طبع کردیتا ہے،جسکے باعث انکے دل سخت ہوجاتے ہیں،انکی رافت و رقت ماند پڑجاتی ہے،فرائض و شرائع الہیہ کا التزام اور محارم و فواحش سے اجتناب انکے نزدیک غیر اہم ہوجاتا ہے،جبکہ شہوات و لذات کے حصول کی خاطر صحیح و غلط کی تمیز کو فراموش کردیناانکی عادت ،مادی مفادات اوردنیاوی آسائشیں انکا مطمع نظر بن جاتی ہیں، اس حالت کو عدم خشوع کہتے ہیںنبی اکرمﷺ نے اسکے متعلق فرمایا:

أَوَّلُ شَيءٍ يُرْفَعُ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ الخُشُوعُ، حَتَّى لَا تَرَى فِيهَا خَاشِعًا

’’اس امت سے جو شے سب سے پہلے اٹھائی جائیگی وہ خشوع ہے،حتی کہ تجھے ایک بھی خشوع والا نہ ملے گا۔ ‘‘ (طبرانی،مسند الشامیین:1579،صحیح الجامع:2569)
عدم خشوع دراصل دل کی خرابی ہے لیکن ظاہر پر اسکا گہرا اثر ہوتا ہے،جیسا کہ سعید بن جبیر نےایک شخص کو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیلتے دیکھا تو کہا:
لوخشع قلب هذا خشعت جوارحه
’’اگر اسکے دل میں خشوع ہوتا تو اسکے اعضاء پر ظاہر ہوتا۔‘‘(مسائل الامام احمد بن حنبل بروايۃ ابن ابی الفضل صالح: 2/178،رقم:741،علامہ البانی نے اسے حسن کہا،الضعیفۃ،تحت رقم:110)
یعنی دل کی دنیا خشوع و خضوع سے خالی ہو تو باہر کی دنیا بھی دینداری سے خالی ہوتی ہے اوراس طرز حیات کی انتہا ”کفر“پر ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَقَلْبُهٗ مُطْمَـﭟ بِالْاِيْمَانِ وَلٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِيْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَصَبَرُوْٓا ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(النحل:106-110)

’’ایمان لانے کے بعد جن لوگوں نے کھلے دل سے کفر کیاان پر اللہ کا غضب ہےاور انکے لئے عذاب عظیم ہے سوائے انکے جنہیں مجبور کردیا گیا،یہ اس لئے کہ انہوں (یعنی کھلے دل سے کفر کرنے والوں)نے دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی،اور یہ کہ اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا،اللہ نے انکے دلوں،کانوں اور آنکھوں پر مہر طبع کردی اور یہ لوگ غافل ہوگئے،بلاشبہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھائیں گے، پر آزمائے جانے کے بعد جن لوگوں نے ہجرت کی ،جہاد کیا،اور وہ ثابت قدم رہے تو اسکے بعد آپکا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اس آیت میں کھلے دل سے کفر اختیار کرنے والوں کی سزا بیان کی گئی کہ ان پر اللہ غصہ ہوا،انکے لئے عذاب عظیم ہے اور انکے دلوں،کانوں اور آنکھوں پر مہر طبع کردی گئی اور اس کفر اور اسکی سزا کا سبب دنیا کو آخرت پر ترجیح دینا قراردیا،باالفاظ دیگر مادہ پرستی،مادی فوائد،جس نے غفلت کو جنم دیااور ہمیشہ کے خسارے سے دوچار کردیا۔
جبکہ جو لوگ اپنے عقیدے اور دین کی حفاظت کی خاطر دنیا کی پرواہ نہیں کرتے ،اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے ہیں،اللہ انکے دلوں کو مضبوط کردیتا ہے،جیسا کہ اصحاب کہف نے جب دین حق کی خاطر اپنے دور کے ہر انسان کی دشمنی مول لی اور ان سے جان بچانے کے لئے ایک غار میں جا چھپے ،اور وہاں اپنے رب سے مناجات میں مشغول ہوگئے تو ،مالک ارض و سما نے انہیں رہتی دنیا تک کے لئے مثال بنا دیا،اور انکے دلوں کو حق پر ڈٹا دیا،اسکی خاطر ہر مصیبت کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا،جیسا کہ ارشاد فرمایا:

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا (الکھف:13-14)

’’ہم آپ پر انکا قصہ صحیح صحیح بیان کرتے ہیں،وہ کچھ جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے،اور ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھادیا،اور انکے دلوں کو حق پر ڈٹادیا،جب وہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا:ہمارا رب وہی ہے جو آسمان وزمین کا رب ہے،اسکے سوا ہم کسی بھی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے،ایسا کیا تو ہم نے بے ہودہ بات کی۔‘‘
ایسے ہی اصحاب الاخدود نے بھی جب دین کی خاطر دنیا قربان کی تو اللہ نے انہیں آگ میں اپنے بچوں سمیت کودنے کا حوصلہ عطاکیا،جیسا کہ سورۃ البروج اور صحیح مسلم(7703)میں انکا قصہ مذکور ہے۔
دنیا کی خاطر دین کو اور دین کی خاطر دنیا کو ٹھکرادینے والے دونوں قسم کےافراد کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:

فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى

’’جس نے سرکشی اختیار کی اوردنیاوی زندگی کو ترجیح دی تو اسکا ٹھکانہ جہنم ہے،جبکہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرگیااور نفس کو خواہش کی اتباع سے روکے رکھا تو اسکا ٹھکانہ جنت ہے۔‘‘(النازعات:37-41)
9اعمال صالحہ:
دلوں کی اصلاح اور حفاظت کے سلسلے میںگذشتہ سطور میں بیان کردہ اسباب دراصل بنیادی اور مرکزی اعمال صالحہ ہیں،دیگر تمام اعمال انہی کی شاخیں ہیں،جس طرح برا عمل دل پر سیاہ دھبہ لگاتا ہے،اسی طرح ہرنیک عمل دل کی دنیا کو روشن کرتا ہے،لہذا اعمال صالحہ جس قدر زیادہ ہونگے دل بھی اسی قدر اجلا اور روشن ہوگا،مجموعی طور پر ہر عمل صالح دل پر صالح اثر چھوڑتا ہے،لیکن بعض افعال ایسے ہیں جو دل کی بعض صفات کی اصلاح میں نہایت مؤثر ہیں ،مثلا:
1مساکین اوریتیموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنا:
نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

إِنْ أَرَدْتَ تَلْيِينَ قَلْبِكَ فَأَطْعِم الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ

’’اگر تو دل نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا،اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ(یعنی اسکی سرپرستی کر)۔‘‘
(مسند احمد:7576-بیہقی کبری:6886،الصحیحۃ:854)
2ایفاء عہد:
بدعہدی لعنت اور دلوں کی سختی جبکہ عہد و پیمان کا پاس رکھنا رحمت اور دلوں کی نرمی کا سبب ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً (المائدۃ:13)

’’ان(یہود و نصاری)کی عہد شکنی کے باعث ہم نے ان پر لعنت کی اورانکے دلوں کو سخت کردیا۔‘‘
3زبان کی حفاظت:
نبی معظمﷺ نے فرمایا:

لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ، وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ

’’کسی بندے کا ایمان قائم نہیں رہ سکتا جب تک اسکا دل قائم نہ رہے،اور اسکا دل قائم نہیں رہ سکتا جب تک اسکی زبان قائم نہ رہے۔‘‘(احمد:13048،الصحیحۃ:2841)
4 شرمگاہ کی حفاظت:
ىنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَى مُدْرِكٌ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلاَمُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ(مسلم:6925)

’’ہر انسان کے حصے کا زنا اسکے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لازماًکرکے رہے گا،پس آنکھوں کا زنا دیکھنا،کانوں کا زنا سننا، زبان کا زنا،بولنا،ہاتھ کا زنا پکڑنا،ٹانگ کا زنا چلنا ہے اور دل خواہش کرتا اور تمنا کرتا ہے،اور شرمگاہ اسکی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ ‘‘
یعنی شہوت کی نگاہ دیکھنا،شہوت کی زبان سننا،بولنا،شہوت سے نامحرم کو چھونا،شہوت کی تکمیل میں چلنا،شہوت کی تمنا کرنا یہ سب زنا کی قسمیں ہیں،اور انسانی شرمگاہ اس کے زنا ہونے کی تصدیق کرتی ہے جبکہ اس میں حرکت یا مسمساہٹ ہو،اور اگر نہ ہو تو یہ زنا نہیں ہیں۔
5سنجیدگی و متانت اختیار کرنا:
بہت زیادہ ہنسنا غفلت و لاابالی پن کی علامت ہے اور سنجیدگی کے منافی ہے،کوئی بھی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا جب تک اس میں سنجیدگی نہ دکھائی جائے،احساس ذمہ داری انسان کو سنجیدہ اور باوقاربناتا ہے،اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر آمادہ کرتا ہے،سنجیدگی و متانت زندہ دلی کی علامت ہے،جبکہ بہت ہنسنا دلوں کی موت ہے جیسا کہ نبی رحمتﷺ نے فرمایا:

إِيَّاكَ وَكَثْرَةَ الضَّحِكِ، فَإِنَّهُ يُمِيتُ الْقَلْبَ، وَيَذْهَبُ بِنُورِ الْوَجْهِ

’’ زیادہ ہنسنے سے بچو کیونکہ یہ دلوں کو مردہ کردیتا ہے،اور چہرے کو بے رونق کردیتا ہے۔‘‘(صحیح ابن حبان:361،صحیح الترغیب:2233-2869)
”ہنسنا“نتیجہ ہے مراد اسباب ہیں،یعنی ہر وہ کام جو ہنسی کا سبب بنے،خواہ وہ کوئی زبانی بات ہو یا عملی حرکت،اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے،اور ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنا چاہیے۔
ان کے علاوہ بھی بہت سے نیک اعمال ہیں،مثلا:وضو کرنے سے غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے،ایک دوسرے کو تحائف دینے اورسلام کو عام کرنے سے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے،اللہ کے ذکر سےدل ہلکے ہوجاتے ہیں،عشاء و فجر باجماعت ادا کرنے سے نفاق ختم ہوجاتا ہے،تواضع و انکساری سے تکبر کا خاتمہ ہوتا ہے۔

 دعا:

دلوں کی اصلاح میں دعا سب سے مفید ذریعہ ہے،چنانچہ نبی کریمﷺ نے دلوں کی اصلاح کے لئے بہت سی دعائیں سکھائی ہیں،چند درج ذیل ہیں:

– اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ

’’اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے،ہمارے دل اپنی اطاعت میں لگادے۔‘‘

-يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ

’’اے دلوں کو پھیرنے والے،میرا دل اپنے دین پر قائم رکھ۔‘‘

-اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا

’’یااللہ میرے دل میں نور بھر دے۔‘‘

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ

’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس دل سے جو ڈرے نہ۔‘‘

-اللَّهُمَّ نَقِّ قَلْبِي مِنْ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ

’’یااللہ میرے دل کو گناہوں سے پاک کردے جسطرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کردیا جاتا ہے۔‘‘

6-اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ , وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ , وَالْهَرَمِ , وَعَذَابِ الْقَبْرِ , اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا , وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا , أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا , اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ , وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ , وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ , وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا

’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں بے بسی و سستی سے اور بزدلی و بخیلی سے بڑھاپے اور عذاب قبر سےیااللہ میرے دل کو اسکا تقوی عطافرما اور اسے پاک کردے تو اسے بہتر پاک کرسکتا ہے،تو اسکا مالک ومددگار ہے،یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، ایسے دل سے جو جھکے نہیں،ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو،اور ایسی دعا سے جسے قبول نہ کیا جائے۔‘‘

اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي قَلْبًا مِنَ الشَّرِّ نَقِيًّا لَا كَافِرًا وَلَا شَقِيًّا

’’یااللہ مجھے ایسا دل دے جو برائی سے پاک ہو،ناشکری کرنے والا نہ ہی بدبخت ہو۔‘‘

-اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي، وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي، وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي، وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي
’’یااللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں اپنےکان ،اپنی آنکھ،اپنی زبان،اپنے دل اور اپنی خواہش کے شر سے۔‘‘
9-اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ , وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ , وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ , وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ , وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ , وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ , وَأَسْأَلُكَ قَلْبًا سَلِيمًا , وَلِسَانًا صَادِقًا , وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ , وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ , إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

’’یااللہ میں میں تجھ سےہر معاملے میں ثابت قدمی،اور ہدایت پر قائم رہنے کی دعا کرتا ہوں،اور تجھ سے تیری رحمتوں کو لازم کردینے،اور تیری بخشش کو یقینی کردینےوالے اعمال کا سوال کرتا ہوں،اور تجھ سے تیری نعمت کا شکر ادا کرنے اور تیری خوب عبادت کرنے کی توفیق مانگتا ہوں،اور تجھ سے قلب سلیم اور سچ بولنے والی زبان کی دعا کرتا ہوں،اور تجھ سے تیرے علم میں آنے والی ہر خیر مانگتا ہوں،اور تیرے علم میں آنے والی ہر برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اور ہر اس گناہ کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں جو تو ہی جانتا ہے،کیونکہ تو غیبوں کا جاننے والا ہے۔ ‘‘

10-اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ , سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ اسْتَأثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي

’’یا اللہ میں تیرا بندہ،تیرے بندے کا بیٹا،تیری بندی کا بیٹا،میری پیشانی تیرے ہاتھ میں،مجھ پر تیرا حکم جاری،میرے متعلق تیرا ہر فیصلہ عل،میں تجھ سے سے تیرے ہر اس نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنے لئے منتخب کیا،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا،یا اپنی کتاب میں نازل کیا،یااپنے علم غیب میں چھپارکھا کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے، میرے سینے کا نور بنادے،میرے دکھوں غموں کا مداوا بنادے۔‘‘آمین
۔۔۔۔۔

ہم جمعۃ المبارک کے دن سورۃ الکہف کیوں پڑھتے ہیں؟ سورۂ کہف کے اسرار ورموز سے متعلق معلوماتی تحریر

جمعۃ المبارک کا دن اسلام میں بڑی اہمیت کا حامل ہے یہ دن بے شمار فضائل وبرکات کا مرکب ہے جس طرح رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں سے افضل ایسے ہی جمعۃ المبارک سید الایام یعنی سارے دنوں کا سردار ہے اس مقدس دن کے کئی آداب،فضائل اور خصوصیات ہیں ان میں سے سورۃ الکہف کی تلاوت کرنا بھی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الْجُمُعَتَيْنِ (المستدرك على الصحيحين للحاكم 2/ 399)

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اما م کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس کے لیے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک نور پھوٹے گا۔
ایک روایت میں ہے :

عَنْ حَدِيثِ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَرْوِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَةِ الْكَهْفِ، عُصِمَ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ (سنن أبي داود 4/ 117)

’’سيدناابوالدرداءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہنبی کریمﷺ نے فرمایاجس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیتیں یاد کر لیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔‘‘
ہم جمعۃ المبارک کے دن سورۃ الکہف کیوں پڑھتے ہیں؟
یہ سورۃ کریمہ ویسے تو کئی معانی،مفاہیم اورمسائل پر مشتمل ہے ان ہی میں بطور خاص اور بنیادی و اساسی طور پرچار قصوں ،چار فتنوں اور چار سفینۂ نجات پر مشتمل ہے۔

چار قصے:

۱۔ اصحاب کہف ، جن کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا ہے اس مناسب سے اس سورت کا نام بھی کہف ہے۔
۲۔ دو باغ والوں کا قصہ
۳۔ موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا قصہ
۴۔ذوالقرنین کا قصہ
۱۔ اصحاب کہف :
اس قصہ میں فتنۂ دین یعنی دین کی وجہ سے آنے والی آزمائش کا تذکرہ ہےکیونکہ یہ ان نوجوانوں کا واقعہ ہے جو پکے سچے مومن تھے جو ایک کافرانہ ملک میںزندگی گزار رہے تھے چنانچہ جب ان کے اوران کی قوم کے مابین کشیدگی بڑھ گئی تو اپنے دین کو بچانے کے لیے وہاں سے ہجرت کی ٹھان لی چنانچہ اس پکے ٹھکے اور کھرے اور سچے ایمان کی وجہ سےاللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے غار کوان کے لیے جائے اقامت بنا دیا جن پر سورج طلوع وغروب کے وقت ظاہر ہوتاتھا لمبا عرصہ سونے کے بعد جب جاگے تو پوری بستی کو ایمان کی حالت میں پایا۔
سفینۂ نجات :
اس فتنے سے بچاؤ کا طریقہ’’صحبت صالحہ‘‘ یعنی اچھی صحبت ہے،نیک اور متقی لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور میل جول رکھناہے۔
۲۔ دو باغ والوں کا قصہ :
اس قصہ میں مال اور اولاد کے فتنے کا ذکر کیا گیا ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی لیکن بدلے میں بجائے حمد وشکر کرنے کے ناقدری اور ناشکری پر اترپڑا ان سب احسانات کو پس پشت ڈال کر سرکشی اور بغاوت کی کشتی پر سوار ہوکر ثابت ایمان لوگوں پر طعن وتشنیع اور شکوک وشبہات کی جسارت کرتا تھا اپنے ساتھی کی نصیحت کے باوجود بھی انعامات الٰہی کا ذرا برابر شکر ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے غضب الٰہی نازل ہوا اور ہر قسم کا پھل فروٹ کھیتی باڑی ، ہرے بھرے کھیت ملیا میٹ ہوگئے۔
نادم اس وقت ہوا جب ندامت فائدہ مند نہ تھی۔

راہ نجات :

اس سے بچنے کا طریقہ ’’حقیقت دنیا کی معرفت حاصل کرناہے‘‘ کیونکہ جب انسان دنیا کی حقیقت سے صحیح طور پر آگاہ وآشنا ہوجاتا ہے تو اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔
۳۔ موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا قصہ :
اس قصہ میں علم کے فتنے کا تذکرہ ہوا ہے کیونکہ جب موسیٰ علیہ السلام سے یہ سوال کیاگیا کہ اس روئے زمین میں سب سے زیادہ صاحب علم(بڑا عالم) کون ہے؟ تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’میں‘‘ ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل فرمائی کہ یہاں پر ہمارا ایک اور بندہ ہے جو آپ سے زیادہ علم کا حامل ہے تو موسیٰ علیہ السلام نے ان کی طرف رخت سفر باندھ لیا تاکہ ان سے کسب علم فرمائیں ۔(بخاری کتاب العلم باب ما یستحب للعالم إذا سئل أی الناس أعلم ، حدیث:121)
یادرہے کہ کبھی کبھار حکمت الٰہی مخفی ہوتی ہے لیکن اس کی تدبیر کرنے والا بڑا حکیم ہوتاہے جس کی مثال اس قصہ میں کشتی وغیرہ کی ہے۔
زینۂ نجات :
اس موقعہ پر بچاؤ کا طریقہ صرف’’ تواضع، عاجزی وانکساری‘‘ میں ہے چاہے کتنا بھی علم کیوں نہ ہو کیونکہ پھل دار درخت ہی جھکا کرتا ہے۔
۴۔ذوالقرنین کا قصہ :
جس میں اقتدار وغلبہ کے فتنہ (آزمائش) کو ذکر کیا گیا اس میں ایک عظیم حاکم وبادشاہ کا تذکرہ ہے جو علم وقوت کی دولت سے مالا مال تھا پوری زمین کی سیر کی، لوگوں کی مدد ومساعدت اور خیر کو ہر جگہ پھیلایا ایک مضبوط بند (دیوار) بنا کر یاجوج وماجوج کی پیدا کردہ مشکلات کا سد باب کیا ایک ایسی قوم کی ایسی ترتیب وتنظیم کردی جو دوسروں کی گفتگو تک سمجھ نہیں پاتے تھے۔
سبیل نجات :
اس صورت میں بچاؤ کا طریقہ صرف’’اخلاص‘‘ ہے کیونکہ جب تک اخلاص نہ ہوگا تو اس مخلوق کو سنبھالنا،منظم طریقے سے چلانا، ہر ایک کو تعدی وطغیان اور ظلم وستم کے گرداب سے چھڑا کر میانہ روی اور عدل وانصاف کے خوبصورت گلستان میں جمع کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔
قارئین کرام! سورت کے درمیان میں ابلیس لعین کا تذکرہ ہوا ہے یعنی دو قصوں کے بعد اور دو سے پہلے جس سے معلوم ہوتاہے کہ فتنوں کا محرک اصلی اور اساس یہی ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں ان الفاظ سے کیا ہے :

اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا (سورۃ الکھف:50)

’’کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے۔‘‘
اور یہ حقیقت ہے شیطان لعین بنی آدم(اولادِ آدم) کا ازل سے ابد تک دشمن ہے اور جس نے وعدہ کر رکھا ہے اور اپنا ہدف ومقصد زندگی ہی انسانیت کو بہکانے،گمراہ کرنے اور ذلت وضلالت کے دلدل میں گرانا ہے، جس کے دل میں عداوت انسان کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے انسان کا اپنے رب سے تعلق توڑنے اس کو کفر وشکر ،بدعت وگمراہی کی تاریکیوں میں دھکیلنے کی سرتوڑ کوشش کرتاہے ہر موقعہ پر انسان کو دھوکہ دے کر خودکو خوف خدا کا پیکر سمجھ کر بھاگ کھڑا ہوتاہے۔جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
كَمَثَلِ الشَّيْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْ ۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّنْكَ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ الحشر 16)
’’شیطان کی طرح کہ اس نے انسان سے کہا کفر کر، جب کفر کر چکا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘‘
سورت کہف کا دجال کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
جیسا کہ ہم نے ابتداء میں احادیث ذکر کی تھیں جن میں تھا کہ جمعۃ المبارک کے دن اس سورت کے پڑھنے والا دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دجال قیامت سے پہلے کم وبیش ان فتنوں کے ساتھ نمودار ہوگا وہ درج ذیل ہیں :
فتنۂ دین :
اللہ کو چھوڑ کر لوگوں سے اپنی عبادت کرنے کا مطالبہ کرے گا ، خود خدائی کا دعویدار بن جائے گا جس کا تذکرہ احادیث مبارکہ میں بکثرت آیا ہے ہم بطور نمونہ چند احادیث ذکر کریں گے۔

فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ، فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ(صحيح مسلم (4/ 2252)

’’پس وہ ایک قوم کے پاس آئے گا اور انہیں دعوت دے گا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی دعوت قبول کرلیں گے ۔‘‘
اسی طرح جو لوگ اس پر ایمان نہیں لائیں گے ان کو کئی مشکلات سے دو چار کرے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ، فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ

’’پھر وہ ایک اور قوم کے پاس جائے گا اور انہیں دعوت دے گا وہ اس کے قول کو رد کر دیں گے تو وہ اس سے واپس لوٹ آئے گا پس وہ قحط زدہ ہو جائیں گے کہ ان کے پاس دن کے مالوں میں سے کچھ بھی نہ رہے گا ۔‘‘
۲۔ فتنۂ مال :
اس کے پاس مال کی فراوانی ہوگی کہ آسمان کو حکم دے گا تو بارش برسنا شروع ہوجائے گا زمین کھیتی اگانا شروع کر دے گی اس کے پاس ایک جنت ہوگی جس کا تذکرہ حدیث میں یوں آیا ہے ۔

فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ، أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا، وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ

پھر وہ آسمان کو حکم دے گا تو وہ بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی اور اسے چرنے والے جانور شام کے وقت آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے سے لمبے تھن بڑے اور کو کھیں تنی ہوئی ہوں گی ۔

وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ لَهَا: أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ

اور اسے کہے گا کہ اپنے خزانے کو نکال دے تو زمین کے خزانے اس کے پاس آئیں گےجیسے شہد کی مکھیاں اپنے سرداروں کے پاس آتی ہیں۔

عَنْ حُذَيْفَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الدَّجَّالِ إِنَّ مَعَهُ مَاءً وَنَارًا فَنَارُهُ مَاءٌ بَارِدٌ وَمَاؤُهُ نَارٌ (صحيح البخاري کتاب الفتن باب ذکر الدجال رقم الحديث 7130)

سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی اور اس کی آگ ٹھنڈا پانی ہوگی اور پانی آگ ہوگا۔
3 سلطنت واقتدار کا فتنہ :
زمین کے ایک بڑے حصے پر وہ حکومت کرے گا یعنی سواء مکہ ومدینہ کے ہرجگہ پر اپنی سلطنت قائم کرے گا۔ جس کا تذکرہ حدیث مبارکہ میں یوں آیا ہے :

لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ، إِلَّا مَكَّةَ، وَالمَدِينَةَ، لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ، إِلَّا عَلَيْهِ المَلاَئِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا(صحيح البخاري کتاب فضائل المدينۃ باب لا يدخل الدجال المدينۃ رقم الحديث 1881)

کوئی ایسا شہر نہیں ملے گا جسے دجال پامال نہ کرے گا، سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان کے ہر راستے پر صف بستہ فرشتے کھڑے ہوں گے جو ان کی حفاظت کریں گے۔

قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ کَسَنَةٍ وَيَوْمٌ کَشَهْرٍ وَيَوْمٌ کَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ کَأَيَّامِکُمْ

ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ زمین میں کتنا عرصہ رہے گا آپ ﷺ نے فرمایا چالیس دن اور ایک دن سال کے برابر اور ایک دن مہینہ کے برابر اور ایک دن ہفتہ کے برابر ہوگا اور باقی ایام تمہارے عام دنوں کے برابر ہوں گے ۔
سفینۂ نجات :
۱۔ صحبت صالحہ :
جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (سورۃ الکھف 28)

’’اور اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضا مندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنی پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے ۔‘‘
یعنی یہ آپ کو خطاب ہے آپ ﷺ ان لوگوں کے ساتھ رہیں خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ،طاقتور ہوں یا ضعیف یہ نیک لوگوں کی صحبت ہے سرداران قریش کی فکر مت کریں کہ ان کی وجہ سے ان نیک لوگوں کی صحبت کو ختم کر دیں۔
اس کی وضاحت ایک حدیث میں آئی ہے جو نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے پر ابھارتی اور ترغیب دیتی ہے:

عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً (صحيح البخاري کتاب الذبائح والصيد باب المسک رقم الحديث 5534)

سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو ) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خو شبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے ( بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک نا گوار بد بو دار دھواں پہنچے گا ۔
۲۔ دنیا کی حقیقت کی پہچان :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِيْمًا تَذْرُوْهُ الرِّيٰحُ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا(سورۃ الکھف 45)

’’ان کے سامنے دنیا کی زندگی کی مثال (بھی) بیان کرو جیسے پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں اور اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا (نکلتا) ہے، پھر آخرکار وہ چورا چورا ہو جاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لیئے پھرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہرچیز پر قادر ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں حقیقت دنیا کو بڑے ہی واضح انداز میں بیان کیاگیا ہے کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان بچے کی صورت میں اس دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ بڑھتے بڑھتے زندگی کے زینے چڑھتے چڑھتے عالم شباب میں پہنچ جاتاہے خوبصورتی اور رعنائی اس سے جھلک رہی ہوتی ہے مضبوط ،طاقتور اور توانا جسم کا حامل ہوتاہے لیکن جلدی سے چاندی سر میں چمکنے لگتی ہے سر کے بال جھڑ جاتے ، اس خوبصورتی کو آہستہ آہستہ گھن لگ جاتاہے وہ توانا جسم اپنے کمزوری کی جانب بڑھ رہا ہوتاہے حتی کہ خود کو سنبھالنے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتاہے، ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر ہی زندگی کے دن گزارنا شروع کر دیتاہے دیکھتے ہی دیکھتے موت کی خبر سنائی دیتی ہے اسی طرح دنیا سے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتاہے صرف باتیں باقی رہ جاتی ہیں وقت گزرنے سے لوگ تو اس کو بھی بھول جاتے ہیں یہ ہے دنیا کی حقیقت۔ کیا اس دنیا کی خاطر ہم سب کچھ کر رہے ہیں ، حلال وحرام کی تمییز نہیں،اپنے دوست واحباب ،رشتہ دار و اقارب کی پہچان نہیں اپنے ہی گھمنڈ میں سینہ تان کر اکڑ کر چل رہے ہیں کہ پل کی خبر نہیں کیا ہونے والا ہے۔
۳۔ عاجزی وانکساری :
ہیں تو موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی، براہ راست اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرنے والے جن کا لقب ہی کلیم اللہ ہے لیکن عاجز ی وتواضع اس حد تک ہے کہ حصول علم کے لیے سفر کی صعوبتیں برداشت کیں جب وہاں پہنچے تو یہ سننے کو ملا کہ واپس چلے جاؤ آپ صبر نہیں کر سکتے لیکن جواب میں تواضع اور ادب کے موتی بکھیرتے ہوئے کہتے رہے :

قَالَ سَتَجِدُنِيْٓ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ صَابِرًا وَّلَآ اَعْصِيْ لَكَ اَمْرًا(الکھف 69)

موسٰی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور کسی بات میں میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔

۴۔ اخلاص :
دنیا کی ریل پیل میںہر ایک دوڑ رہا ہے ناگہانی صورت یہ ہے کہ ادنیٰ سے ادنیٰ بھی خود کو منصب سلطنت کا اہل سمجھتاہے لیکن یہ نصیب کی بات ہے کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ، اجمالی طور پر نظر دوڑائیں تو کتنے لوگ ہیں جو اس منصب ،اقتدار وسلطنت کے متلاشی ہیں اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے اس کو پانے کے لیے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے کر گزرتے ہیں کیا یہ معاملہ اتنا ہی آسان ہے کیا صرف اس مسند وکرسی پربیٹھنا ہی ہے۔ اس کی کیا مسؤولیت ہے کیا ذمہ داری ہے ؟ اس کے متعلق کیا حقوق ہیں ؟ ہم نے تو اس کو بازیچۂ اطفال بنا دیا ہے ورنہ یہ اتنا بھاری کام ہے کہ اس کا نام سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ وَلِيَ الْقَضَاءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِيًا بَيْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَيْرِ سِكِّينٍ(سنن الترمذي کتاب الاحکام باب ما جاء عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم في القاضي رقم الحديث 1325)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’جس شخص کو منصب قضا پرفائز کیا گیایا جولوگوں کا قاضی بنایا گیا( گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کیاگیا۔‘‘
اتنا بھیانک اور سخت ہے۔جس کی زندہ مثال ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں سے ملتی ہے کہ جب امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے سعید بن عامر جمحی کو گورنر بنانے کی پیشکش کی تو سیدنا سعید بن عامر رضی اللہ عنہ اس امر سے آشنا تھے فوراً قسمیں دینے لگے کہ امیر المؤمنین اللہ کا واسطہ ہے کہ مجھے اس آزمائش میں مت ڈالو ۔(تاریخ الاسلام : ۲/۳۵۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۳/۳۲۶۔ حلیۃ الأولیاء  ۱/۲۴۴)
اگر اقتدار مل جائے تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں تو سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا (سورۃ الکھف:110)

’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں (ہاں) میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے،تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘
جمعہ کے دن اس سورت کے پڑھنے کے یہ کچھ اسرار ورموز تھے جن کو نہایت اختصار سے پیش کیا گیا ہے ۔ بارگاہ الٰہی میں بدست دعا ہوں کہ ہم سب کو کتاب وسنت کا صحیح فہم عطا فرمائے اور جملہ فتنوں سے محفوظ فرمائے۔
آمین

سانحہ منیٰ کا پسِ منظر

یہودیوں کے صحیفوں میں آنے ولے مسیح کے بارے میں درج تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو سر بلند کرے گا جب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے یہودی راہنماؤں کی سیاہ کاریوں پر تنقید کی اور انہیں دین ابراہیمی کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی تو یہودی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف ہوگئے اور اعلان کیا کہ یہ وہ مسیحا نہیں ہے جس کا ہمیں انتظار ہے اس طرح وہ آج تک اپنے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ 

یہودی نسل پرست قوم ہے انہوں نے الہامی پیشنگوئیوں کی تصدیق کے باوجود خاتم النبیین احمد مجتبیٰ ﷺ پر ایمان نہیں لائے کیونکہ ان کا خاندانی تعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھا،نبی کریم ﷺ نے مکہ سے ہجرت کی اور مدینہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی یہودیوں نے مشرکین مکہ سے ساز باز کرکے میثاق مدینہ کی پے در پے خلاف ورزی کی اور آپ ﷺ کو جان سے ماردینے کی ناپاک جسارت کی چنانچہ مسلمانوں نے کاروائی کر کے ان کو مدینہ سے بے دخل کردیا۔
یورپی یہودی مذہبی ، سیاسی اور معاشی پیکج بروئے کار لاکر اہل مغرب کے بے تاج بادشاہ بن گئے انہوں نے عربوں کے سینہ میں خنجر پیوست کرکے اپنے لیے اسرائیل قائم کرلیا لیکن مدینہ منورہ پر قبضہ کرنا ان کابدستور منشورہے وہ ہر اس قوم کے دست وبازو بنے جن کے دلوں میں عربوں کے خلاف کینہ ، بغض اور عناد تھا۔
ظہور قدسی سے قبل ایران وروم وسیع وعریض ریاستیں تھیں اور اس دور میں عرب قبائل سیاسی بد نظمی میں مبتلاء تھے اہل ایران عربوں کو غلاموں سےبد تر خیال کرتے تھے رہبر کامل ﷺ نے گر دونواح کی حکومت کو دعوتی خطوط ارسال کیے تو ایران کے کسریٰ نے نامہ مبارک چاک کردیا ، سیدنا عمر فاروق کے دور میں ایران فتح ہوگیا آتش کدے بجھ کر راکھ کا ڈھیر بن گئے مجوسیوں کے دلوں میں انتقام کے شعلے بھڑکتے رہے وہ موقع کی تلاش میں تھے۔
یمن کےیہودی عبداللہ بن سبا نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملت اسلامیہ میں رخنہ ڈالناشروع کردیا تو نومسلم مجوسی سبائی تحریک سے متاثر ہوئے ، سیاسی اختلاف نے شدت اختیار کرلی عباسی دور میں عجمیوں کا اثر ورسوخ بڑھ گیا عربوں کا بے دریغ قتل ہوا عجمی تحریک نے مسلسل تگ ودو جاری رکھی آخر کا رفارس حکومت اسلامیہ کے دائرہ کار سے نکل گیاعجمی تحریک نے رفتہ رفتہ جدا گانہ مذہب کی صورت اختیار کرلی ، اہل فارس میںیہ عقیدہ سرائیت کرگیا کہ ان کا قائد کوفہ میں آئے گا وہ مکہ ومدینہ پر قبضہ کرے گا ان کے سامنے چھ دفعہ پانچ پانچ سو قریشیوں کو کھڑا کیا جائے گا جن کا سر قلم کردیا جائے گا، عربوں سے انتقام اور مدینہ منورہ پر قبضہ کرنا یہوومجوس کے مابین مشترکہ اقدام ہیں۔
فارس میںا نقلاب برپا کرکے انتہاپسند مذہبی حکومت قائم کرنے میں اہل مغرب کا اہم کردار ہے، فارس کی تاریخ شاید ہےکہ اس نے غیر مسلم دنیا سے محاذ آرائی نہیں کی بلکہ وہ اپنے انقلاب کو مسلم دنیا خصوصاً عرب خطہ میں زبردستی برآمد کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔امریکہ اور فارس ایک دوسرے کے دست وبازو ہیں اہل مغرب نے روسی یلغار کے سد باب کے لیے نیٹو افواج منظم کی روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔مسلمان ایندھن بنتے رہے نیٹو تماشہ دیکھتی رہی، نیٹو اس وقت حرکت میں آئی جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی اسلامی اور عراق کی مستحکم حکومت پر حملہ کیا، نیٹو نے کارپٹ بمباری سے قومی اثاثوں کو ملیا میٹ کردیا حکومت ان کو ملی فارس نے جن کی تائید کی صدرصدام حسین کے باغیوںکو کچلنے کے لیے کیمیائی گیس کا استعمال کرکےجرم کا ارتکاب کیا شام میں بشار الاسد نے کیمیائی وزہریلی گیس استعمال کرکے دولاکھ عربوں کو ہلاک کردیا یہودونصاری کی نظروں میں یہ جرم کیوں نہیںاس لیے کہ شام کے علوی حکمران عربوں کے دشمن اورایران کے وفادار ہیں، ایران نے افغانستان میں شمالی اتحاد سے مل کر امریکہ سے تعاون کیا اور عراق میں رضاکار اور فوجی دستے بھیج کر امریکہ کو سپورٹ فراہم کی ایران نے یمن بحرین شام میں ساتھیوں کی مدد کے لیے تربیتی پاسداران انقلاب اور فوجی دستے بھیجتا ہے۔

احادیث رسول ﷺ کی روشنی میں دورِحاضر پر ایک نظر

آج کے دور میں ہم جس طرف بھی نگاہ اٹھاکے دیکھیں تو ہر طرف مختلف قسم کے فتنے و فساد سر اٹھا تے ہمیں نظر آئیں گے آج سے چودہ صدی پہلے محسن انسانیت امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہمیں ان فتنوں سے آگاہ کر رکھا تھا کہ آنے والے ہر دن میں فتنہ وفساد زیادہ ہوتے جائیں گے آج روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ قتل ہو رہے ہیں ہر طرف قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے ہر طرف برائیاں عروج پر ہیں، برکت اٹھتی جارہی ہے ان تمام فتنوں سے ہمارےپیارے نبی ﷺ نے ہمیں آگاہ کیا تھا آئیے احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں ہم اس دور کا مطالعہ کریں گے، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک زمانہ آئے گا جس میں عمل کم ہوجائے گا اور بخیلی زیادہ ہوجائے گی اور فتنے ظاہر ہونے لگیں گےاور ’’ھرج‘‘ زیادہ ہوجائے گا صحابہ نے عرض کیا ھرج کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایاقتل قتل‘‘

(صحيح البخاري (8/ 14)
اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم ذرا غور کریں تو ہمیں نظر آئے گا کہ آج زمانہ کتنی تیزی سے اس صورتحال سے دوچار ہورہا ہے جس کا ذکر مذکورہ بالا حدیث میں کیا گیا ہے اور نیک اعمال میں کمی آچکی ہے لوگ مساجد کم جاتے اور جوکہ زمین پر اللہ کے سب سے زیادہ پسندیدہ مقامات ہیں جبکہ بازار آباد ہیں جوکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسند جگہیں ہیںاسی طرح سینماگھروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی گھنٹوں کھیل کے میدانوں میں صرف ہورہے ہیں لیکن اسلام کے لیے وقت نہیں، الغرض اسی طرح برائی کی طرف دوڑھیں لگی ہوئی ہیںاور اعمال کی طرف سے غافل ہیں، اور دسری چیز جو حدیث میں ذکر ہوئی ہے وہ ہے بخیلی وہ بھی ہمارے سامنے ہے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی کوشش میں ہے دوسروں کا مال دبائے ہوئے ہیں لوگ صدقہ وخیرات کرنے سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح آگ میں کودنے سے خوف آتاہے، تیسری چیز جوکہ بطور فتنہ ذکر ہوئی ہے ، اگر آج ہم معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ فتنوں کا ایک سیلاب ہے اور ہم سب اس میں خس وخاشاک کی طرح بہتے چلے جارہے ہیں اور ہر گھر فتنوں کی لپیٹ میں ہے اور ان سے کوئی جائے پنا ہ نہیں نظر آتی اور فتنے اپنی تما م تر اقسام کے ساتھ مسلم امت پر ٹوٹ پڑے ہیں، اقتدار کے فتنے، دولت وثروت کے فتنے، غربت وافلاس کے فتنے، ظلم و جبر کے فتنے، دشمنوں کے خوف کے فتنے الغرض فتنوں کی فہرست بڑی طویل ہے چوتھی چیز جو حدیث میں ذکر ہوئی ہے وہ قتل ہے یہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہمارے معاشرے میں قتل کی خبریں اتنی عام ہیں کہ ایسی خبر سن کر احساس بھی نہیں ہوتا کیا ہوا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ قاتل کو معلوم ہے کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ مقتول کو پتہ ہے کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا، اندھے اور نامعلوم قتلوں کی بہتات ہوگئی ہے نامعلوم قاتلوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے مختلف ناموں اور طریقوں سے جس کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد لامحدود ہے کہیں لسانیت کے رنگ میں کہیں نسلی فسادات کی صورت میں کہیں مذہبی کشیدگی کی صورت میں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے صرف جاری ہی نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ اس میں تیزی آتی جارہی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے ایسے دن آئیں گے کہ جہالت کی کثرت ہوگی علم اٹھ جائے گا اور ھرج زیادہ ہوجائےگااور ھرج قتل ہے‘(بخاري (9/ 48)
مذکورہ حدیث میں واضح اشارہ ہے کہ قیامت سے پہلے جہالت عام ہوگی اور علم اٹھ جائے گا اور ایک حدیث میں آتاہے:آپ ﷺ نےفرمایا:’’بے شک اللہ علم عطا کرنے کے بعد (سینوں سے علم کو) مٹائے گا نہیں لیکن علم کو اٹھائے گا علماء کی وفات کے ذریعے ،پس جاہل لوگ رہ جائیں گے جن سے لوگ فتوی پوچھیں گے وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور خود بھی گمراہ ہونگے‘‘(صحيح البخاري (9/ 100)
اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ کس طرح علم کو اٹھالیا جائے گا یعنی علماء بکثرت وفات پائیں گے اور پیچھے علماء کے روپ میں جہال رہ جائیں گے جو لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے اپنی کم علمی سے اور خود بھی گمراہ ہونگے، علماء کی وفات سے جو خلاء پیدا ہورہا ہے اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے اور علم سے ناواقف لوگ علماء کی مسندوں پر بیٹھے ہیں عوام الناس کو اپنی لن ترانیوں میں الجھاکر اپنا الّو سیدھا کر رہے ہیں ، پیٹ کی آگ کی خاطر جہنم کی آگ کے سوداگر بن گئے ہیں اور پہلی حدیث میں جو لفظ ھرج مذکور تھا جس کا مطلب قتل ہے یعنی قیامت کے قریب قتل کے واقعات زیادہ ہوں گے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے دنیا کا کوئی ملک کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ، اسکی تفصیل کا یہ مقام نہیں لیکن خون ناحق کی یہ ارزانی اور انسانیت کی اس تذلیل کی اجازت اسلام نہیں دیتا، دین اسلام تو آیا ہے انسان کی تکریم اور امن وسلامتی کا پیغام لے کر، لیکن آج صد افسوس کا مقام ہے کہ اسی دین کے نام پر جس طرح قتل عام ہورہا ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ، اسلام تو ایک ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتاہے :

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 32)

’’ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا‘‘

امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے متعلق شبہات کی حقیقت

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شخصی آزادی سے ٹکراؤ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دوسرے لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ہمیں ان کی پسند کے برعکس نیکی کا حکم دینے اور ان کی پسندیدہ برائی سے روک کر ان کے نجی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بات اسلام میں ثابت شدہ شخص آزادی سے متصادم ہے۔ 

یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، سیدھی راہ ٹیڑھی راہ سے ممتاز اور روشن ہو چکی ہےاس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘(البقرہ:256)
شبہ کی حقیقت:
اس شبہ کی حقیقت درج ذیل عنا وین کے تحت واضح کی جائے گی۔
1-نام نہاد شخصی آزادی کا معدوم ہونا :
ہم اس قول کے دعوے داروں سے سوال کرتے ہیں کہ ان کی بیان کردہ نام نہاد شخصی آزادی کہاں پائی جاتی ہے ؟ کرۂ ارض کے مشرق و مغرب میں؟ کیا کسی مشرقی یا مغربی قانون میں اس کا وجود ہے؟ ہر گز نہیں اس کا وجود مشرق ہے نہ مغرب میں۔
انسان جہاں چاہے اقامت پذیرہو جہاں چاہے سفر کرے اس سے ہر جگہ وہاں کے قوانین کے احترام اور پابندیوں کا نہ صرف مطالبہ کیا جاتاہے بلکہ پابند بھی کیا جاتاہے۔کیا مشرق ومغرب میں کسی شخص کو اس بات کی چھوٹ حاصل ہے کہ کہ سرخ بتی کے روشن ہوتے ہوئے چوراہے کو عبور کرے؟ کیا مغربی دنیا میں کسی شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی کمائی سے خریدی ہوئی زمین پر اپنی مرضی سے گھر بنائے ؟ اور اس شہر کی کارپوریشن کے بنائے ہوئے اصول وضوابط کو پس پشت ڈال دے ؟ مشرقی دنیا میں تو صورت حال اس بھی ابتر ہے کہ اس کو وہاں گھر کی ملکیت حاصل کرنے کا حق نہیں۔
شخصی آزادی کا اسلامی تصور:
اسلام کی انسانوں کو عطاکردہ شخصی آزادی کہ اس نے انہیں لوگوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالی کی غلامی نصیب فرمائی، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ لوگ کوانسانوں کے رب کی غلامی سے نکال دیا جائے، قرآن کریم نے اس بات کو کتنے اچھے انداز میں بیان فرمایاہے:
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ(الزمر:89)
’’اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں، اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ سمجھتے نہیں‘‘
اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے سوا ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہوجائے اور وہ ایک پیدا کرنے والےہر چیز کے مالک اور تدبیر کرنے والے اللہ تعالی کا فرماں بردار اور اس کے احکام کو تسلیم کرنے والا بن جائے۔
اس بات کو سیدنا ربیع بن عامر رضی اللہ عنہ نے رستم کو جواب دیتے ہوئے یوں بیان فرمایا:’’اللہ تعالی نے ہمیں بھیجا ہے اور اللہ تعالی ہی ہمیں یہاں لایا ہے تاکہ ہم بندوں کو اس کی مشیئت سے بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک اللہ تعالی کا غلام بنادیں‘‘(تاريخ الطبري=تاريخ الرسل والملوك،وصلة(3/ 520)
قرآن وسنت میں متعدد نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اہل ایمان اللہ تعالی کے مطیع اور فرماں بردار ہونے اس کےاس کے احکامات بجالانے اور اس کی ممنوعہ باتوں سے باز رہے کے پابند ہیںانہی میں سے ایک آیت کریمہ یہ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

’’ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ: 208)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں اور رسول کریم ﷺ کی تصدیق کرنے والے اپنے بندوں کو حکم دیا ہےکہ وہ شریعت اسلامیہ میں ان تمام باتوں کو چھوڑ دیں جن پر اللہ غصہ اور ناراض ہوتاہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)
اور اس کے رسول ﷺ کا حکم آجائے تو کسی بھی ایمان والے مرد یا عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں پس وپیش کرے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا(الاحزاب:36)

’’اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعداپنے کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جوبھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا‘‘
قرآن نےاللہ اور اس کے رسولﷺکی اتباع میں اہل ایمان کا طرز عمل کی یہ تصویر کشی کی ہےکہ

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:51)

’’ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں ٰ اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ‘‘۔(جاری)

رودادِ مجلس مجموعہ علماء اھل الحدیث پاکستان

مجموعہ علما اھل الحدیث کوئی سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں بلکہ گوجرانوالہ کے ایک نوجوان خطیب حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے اپنے رفقاء کرام سے مشاورت کے بعد ایک واٹس اپ گروپ تشکیل دیا اور اس واٹس اپ گروپ کی ایک مشاورتی کمیٹی ہے اس مشاورتی کمیٹی نے اس مجموعہ کے قوانین وضع کیے اور باقاعدہ اجازت کے ساتھ پورے پاکستان سے بلا تخصیص و تفریق صرف علماء کرامحفظھم اللّٰہ کو اس میں شامل کیا جن میں سے قابل ذکر درج ہیں :
حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ جامعہ سلفیہ۔
حافظ شریف حفظہ اللہ مرکز التربیہ۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ۔
مفتی عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ۔
شیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ وار برٹن۔
شیخ یونس بٹ حفظہ اللہ وفاق المدارس السلفیہ۔
شیخ ابتسام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ ابن العلامہ احسان الٰہی ظہیر (رحمہ اللہ)
شیخ عبدالمالک مجاھد حفظہ اللہ دار السلام ریاض۔
شیخ سیف اللہ خالد حفظہ اللہ دار الاندلس لاہور۔
شیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ۔
شیخ احسان الحق شہباز حفظہ اللہ۔
شیخ اسحاق زاھد حفظہ اللہ۔
حافظ عابد الٰہی حفظہ اللہ بیت السلام ریاض۔
ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ راجوال۔
قاری محمد یعقوب شیخ حفظہ اللہ تحریک حرمت رسول۔
قاری صہیب احمد میر محمدی حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن۔
الشیخ القاری ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ۔
ڈاکٹرشاہ فیض الابرار صدیقی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ۔
شیخ ابو عبدالمجید محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ۔
شیخ عبدالحفیظ روپڑی حفظہ اللہ۔
شیخ ابو بکر قدوسی حفظہ اللہ بن عبدالخالق قدوسی رحمہ اللہ مکتبہ قدوسیہ لاہور۔
محترم سلمان اعظم حفظہ اللہ اھل حدیث یوتھ فورس پاکستان۔
ڈاکٹر طاہر محمود حفظہ اللہ۔
شیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ راجوال۔
شیخ ضیاء الرحمن المدنی ابن الشیخ محمد ظفر اللہ( رحمہ اللہ الموسس جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی و غیرھم شامل ہیں حفظھم اللہ تعالی وسلمھم و حفظھم من شر الشیطان الانسی والجنی۔
اوراس مجموعہ کی مجلس شوری درج ذیل اراکین پر مشتمل ہے:
شیخ عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ۔
شیخ رفیق طاہرحفظہ اللہ۔
شیخ عبدالماجد حفظہ اللہ۔
شیخ عبدالمنان ثاقب حفظہ اللہ۔
شیخ حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ جو کہ مدیر مجموعہ بھی ہیں۔
اس سے قبل دو اجلاس منعقد ہو چکے تھے الحمدللہ سہ ماہی تیسرا اجلاس جو 28 جنوری 2016 بروزجمعرات بوقت 10:00 بجے صبح ولئ کامل حافظ محمد یحی عزیز میرمحمدی رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کے گاؤں ‘‘میرمحمد’’ قصورکی عظیم دینی درسگاہ ‘‘روضۃ القرآن الکریم’’ میں منعقد ہوا۔نقیب محفل کے فرائض میزبان مجلس فضیلۃ الشیخ قاری صہیب احمد میرمحمدی حفظہ اللہ نے سرانجام دئیے، اجلاس کا آغاز 10:11منٹ پرفضیلۃ الشیخ قاری ابراھیم میرمحمدی حفظہ اللہ نے اپنی پرسوزآواز میں سورۃ النحل کے آخری رکوع کی تلاوت سے کیا۔
اور اس کے بعد قاری صہیب احمد حفظہ اللہ مدیر کلیۃ القرآن الکریم میر محمد نے ایجنڈے کے متعلق بریفنگ دی ،ایجنڈا میں تین اہم ترین موضوعات شامل تھے جو درج ذیل ہیں۔
1دعوت دین میں منھج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقہ کار و اسالیب اور اصول و ضوابط۔
22سوشل میڈیا کے استعمال کے اصول و ضوابط اور فوائد حاصل کرنے کے آسان ذرائع۔
3نیشنل ایکشن پلان کے مضمرات افادیت اور انکی فکری و مثبت رخ کے ثمرات۔
اوراس کے بعد مجموعہ علماء اھل الحدیث کے قیام کے مقاصد سے اختصار کے ساتھ آگاہ کیا۔اور باقاعدہ اجلاس سے قبل مختصرتعارفی نشست ہوئی جس کا آغاز استاذ الاساتذہ حافظ مسعود عالم حفطہ اللہ نے کیا۔
موضوع اول: دعوت دین میں منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم طریقۂ کارواسالیب اوراسکے اصول وضوابط۔
تعارف کے بعد باقاعدہ اجلاس کا آغاز ہو جس میں قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے اپنی تعارفی گفتگو میں دعوت دین کے آغاز کے حوالے سے دار ارقم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس مدرسے کا نصاب قرآن مجید اور معلم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تلامیذ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین تھے اور یہاں سے دعوت دین کے اھداف کا تعین فرائض رسالت یعنی۔

يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے۔اور دعوت کے تمام پہلوؤں کواختیارکیا یعنی فرداً بھی دعوت دی اور اجتماعی بھی ، عورتوں، بچوں اوربوڑھوں کو بھی دعوت دی، خود بھی گئے ، بلاکر بھی دعوت دی، اکیلے بھی گئے اور صحابہ کو بھی ساتھ لے کر گئے، کفارکو خطوط بھی لکھے۔
وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد کے مدیر شیخ یونس بٹ حفظہ اللہ نے اس علمی مذاکرے کا آغاز کیا کہ دعوت دین کے دو ھدف ہونے چاہیے
ایک یہ کہ: غیر مسلم کو مسلمان بنایا ہے
دوم یہ کہ :مسلمان کی اصلاح کرنی ہے۔
اور مسلمان کی اصلاح حکمت پر مبنی دعوت سے ہی ممکن ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں منافقین کے نفاق واضح اور ثابت ہو جانے کے باوجود ان پر حکم نہیں لگایا ان کی تکفیر و تفیسق سے اجتناب کیا اور مزید یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین سے لا علمی میں کوئی شرکیہ کام سرزد ہو ا بھی تو انہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا۔یعنی کافر اور مشرک کو مسلمان بنائیں نہ کہ مسلمان پر حکم لگا کر اسے دین سے متنفر کریں۔
مجموعہ علما اھل الحدیث کے ایڈمن حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دعوت دین کے طرق و اسالیب قرآن مجید نے بیان کر دیے ہیں اور ہمیں ان اصولوں کے ذریعے ہی دعوت دینی چاہیے :
اصل اول:

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ  مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ [التوبة: 128]

داعی کو مدعوین کے لیے خیر خواہ ہونا چاہیے۔
اصل دوم:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ [آل عمران: 159]

داعی کو درشت مزاج نہیں ہونا چاہیے ورنہ مدعوین نہ صرف داعی سے بلکہ دین سے بھی متنفر ہو جاتے ہیں
اصل سوم:

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ [النحل: 125]

داعی کی دعوت حکمت و مصلحت پر مبنی ہونی چاہیے۔
حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ کی گفتگو کے آخری حصے سے شیخ عبدالمنان راسخ نے ایک خوبصورت فائدہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ: دعوت دین میں سب سے اہم ترین بات داعی اور مدعو کے مابین تعلق اور رشتہ ہے جو خیر خواہی پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا تعلق دنیاوی مفادات کا حصول نہ ہو۔اور مزید کہا کہ دلائل میں اختلاف کے باوجود اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے اور مدعو کے ساتھ سیرت طیبہ کی روشنی میں تعامل کیا جائے۔یہاں تک کہ مدعوکی بے رخی اورنظراندازی سے صرف نظرکرے اور ہروقت دعوت کے لئے تیاررہے
اس کے بعد کراچی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے استاد ڈاکٹرشاہ فیض الابرار صدیقی (جو بطور خاص اس اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی سے تشریف لائے تھے ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: حالات حاضرہ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں فقہ الدعوۃ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور اس حوالے سے ایک اہم ترین قدم یہ کہ ہمیں اپنے مدارس میں دعاۃ کی تیاری کے لیے شعبہ جات قائم کرنے چاہیے کیونکہ ہمارے طلبا نصوص اور متون کو تو یاد کر لیتے ہیں لیکن ان کی تطبیق فقہ الواقع کی روشنی میں کرنا بسا اوقات مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے نوجوانوں میں فکری گمراہی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور آخر میں انہوں نے ایک خوبصورت بات کہہ کر اپنی گفتگو ختم کی کہ داعی کو مدعو کے ساتھ رابطہ مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا چاہیے کہ دعوت کے بعد اصلاح اور رہنمائی کا مرحلہ بھی مدعو کو درپیش ہوتا ہے۔
محترم انجنئیر عبدالقدوس سلفی حفظہ اللہ اسلام آباد سے تشریف لائے تھے انہوں نے کہا: نبوت سے ماخوذ اسالیب دعوت میں غیر مسلمین سے تعلقات اس بنیاد پر ہونے چاہیے کہ انہیں اسلام کی طرف لایا جائےلہٰذا فلاحی خدمات کی بنیاد پر بھی دعوت دی جا سکتی ہے اور دوسری بات انہوں نے یہ کی : ایک داعی میں وہ خوبیاں ہونی چاہئیں جورسول اللہ ﷺ میں خدیجہ رضی اللہ عنھا نے بیان کی

كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ

اور اس حوالے سے مدعوین کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لی جائے۔
محترم حافظ عبدالسلام صاحب (گوجرانوالہ ) نے کہا: داعی کو کردارکا صاف اوراجلاہونا چاہئے تاکہ اس کا عمل بھی لوگوں کیلئے دعوت بنے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اپنے کردار کو اپنی دعوت پر دلیل بنایا کہ بدترین مخالفین بھی صادق اور امین کے نام سے جانتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بیان کیا گیا ہے:
أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ , قَالُوا: نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا’’ ‘‘فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ (صحيح البخاري (6/ 111)
اہل حدیث یوتھ فورس کے نمائندے محترم حافظ سلمان اعظم حفظہ اللہ نے داعی کی صفات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ داعی کو صبراورمستقل مزاجی سے دعوت دینی چاہئے اور ایک اہم بات انہوں نے یہ کہ ہمیں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ہو گی کہ ہمیں مساجد سے نکل کر بازاروں، گلی کوچوں، چوراہوں اورچورستوں میں بیٹھنے اورآنے جانے والوں کوبھی دعوت دینی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامی میلوں میں جایا کرتے تھے۔
محترم حافظ عرفان اسعد حفظہ اللہ بھکر نے انفرادی دعوت پرخصوصی توجہ دینے کے لیے کہا کہ اس وقت عصر حاضر کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے فوائدبہت زیادہ ہیں اورجہاں ضرورت محسوس ہو اور موقع ملے تو اجتماعی دعوت کا بھی اہتمام کیا جائے۔
محترم ھشام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے احوال بیان کیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شخص کو دعوت دی غریب کو امیرکو بھی حتی کہ بااثرافراد کو بھی، ہمیں بھی دعوت کا دائرہ کار بااثر افراد تک بڑھاناچاہئے اسکے فوائد زیادہ ہیں۔ایک شخص کی تبدیلی بہت سے افراد کی تبدیلی کا حتی کہ مکمل علاقے کے افراد کی تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔
ڈاکٹرطاہرمحمود حفظہ اللہ نے کہا: تعلیم برائے دعوت اورتعلیم برائے اصلاح وتربیت کا اہتمام کرنا چاہئے ، سکول،کالجزاوریونیورسٹیزمیں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اپنی دعوت میں اولین ترجیح دینی چاہئے۔دعوت میں میڈیا کا بھرپوراستعمال کیاجائے۔لوگوں کیلئے ماہانہ، ہفتہ وار فہم القرآن ، فہم حدیث کی کلاس کا اھتمام مساجد سے باہرکیاجائے۔
فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس حوالے سے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ داعی کو حالات حاضرہ سے مکمل واقفیت ہونی چاہئے ، موجودہ دورکے علوم کے حوالے سے واقفیت بھی بہت ضروری ہے، اسے ہمہ جہت مطالعہ کا عادی ہونا بھی ضروری ہے، اور ہرطرح کے موضوع اوراس کے دلائل سے آگاہی ضروری ہے۔
اس موضوع پر آخری گفتگوقاری محمد یعقوب شیخ حفظہ اللہ نے کی انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنا موقف واضح انداز میں پیش کرناچاہئے لیکن انداز نرم ، شائستہ اورچاشنی والاہونا چاہئے۔دعوت دلائل ادلہ اور نصوص سے مزین ہونی چاہئے، غیرمسالک عوام اورعلماء کو بھی محبت اورپیاربھرے اندازمیں دعوت دینے کی ضرورت ہے۔
اس اجلاس کا دوسرا اہم موضوع سوشل میڈیاکے استعمال کے اصول وضوابط سے متعلق تھا۔
اس موضوع پر گفتگو کو آغاز محترم رفیق طاہرحفظہ اللہ جو کہ مجموعہ علمااھل الحدیث کی مشاورت کمیٹی کے رکن بھی ہیں اور سوشل میڈیا پر کافی دسترس اور خدمات انجام دے رہے ہیں اس حوالے سے انہوں نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی ہے انہوں نے کہا:
سوشل میڈیا کی موجودہ دور میں اہمیت واضح اظہر من الشمس ہے کہ جیسےدعوت دین کے لیے ایک داعی اپنے اردگرد لوگوں کو دعوت دیتا ہے اسی طرح سوشل میڈیابھی دعوت کیلئے ایک وسیع میدان ہے جس کے ذریعے ہم اپنی بات ایک بہت بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں اورپھراستعمال کے حوالے سے کچھ نکات بیان کئے:
ا۔ سوشل میڈیاپرموجود لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے۔
۲۔ سوشل میڈیاپرموجود لوگ لمبی تحریریں نہیں پڑھتے90فیصد لوگ بمشکل 5سطروں والی تحریر پڑھتے ہیں۔لہٰذا لمبی تحریروں سے اجتناب کیا جائے کیونکہ سکرین پر نگاہیں جما کر پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہےلہٰذا بہترین بات وہ ہے جو مدلل ہو اور مختصر ہو۔
۳۔ اگر کوئی طویل پیغام دینا بھی ہے تو مختلف اوقات میں دیں ، صبح ،دوپہر،شام یا اس طرح وقفے وقفے سے پیغام بھیجیں۔
۴۔ سب سے لمباآرٹیکل 800 الفاظ پرمشتمل ہوتاہے اس سے زائد الفاظ پرمشتمل تحریرنہ لکھی جائے۔
۵۔ سادہ تحریرکی بجائے تصویرزیادہ دیکھی جاتی ہے اورشئیربھی ہوتی ہے لہٰذا اپنی تحریرکوتصویری شکل میں پیش کریں۔
سوشل میڈیا کے حوالے سے گفتگو میں معروف مکتبہ قدوسیہ لاہور کے مدیر محترم ابوبکرقدوسی حفظہ اللہ نے کہا: سوشل میڈیا کے تین ٹولز سب سے زیادہ مشہور ہیں ایک واٹس اپ جس کا دائرہ کار بہت محدود ہوتا ہے اور دوسرا ٹویٹر جو کہ عوامی مزاج نہیں رکھتا اور تیسرا فیس بک جو کہ حقیقی معنوں میں عوامی سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا بھی معاشرتی اتار چڑھاو سے متاثر ہوتا ہےلہٰذا اگر تحریراس مسئلہ سےمتعلق ہوجس کی معاشرہ میں یا سوشل میڈیاپربحث چل رہی ہو تووہ تحریر لمبی ہونے کے باوجود پڑھی جاتی ہے، سوشل میڈیا کے جتنے بھی ٹولزہیں ان میں فیس بک واحد ٹول ہے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک دعوت پہنچائی جاسکتی ہے۔اس لئے اس پرتوجہ دی جائے لیکن ہمیں اپنارویہ اعتدال والابناناچاہئے اور انتہا پسندی سے اجتناب کیا جائے۔
اورمزید انہوں نے اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا : موجودہ مسائل سے متعلق فیس بک پرصفحات بنائے جائیں اورانکی نگرانی کیلئے علماء کی ایک ٹیم ہونی چاہئےجو وہاں لکھی جانے والی تحریروں کی کانٹ چھانٹ کریں۔
محترم ھشام الٰہی ظہیرحفظہ اللہ نے اس حوالے سے کہا کہ سوشل میڈیاکا مطلب ہے براہ راست لوگوں سے مخاطب ہونا، یہاں پہ آپکا مخاطب کوئی بھی ہوسکتاہےلہٰذا جو بھی بات کی جائے یہ امر مدنظر رکھا جائے کہ اس کے اثرات سے ایک بہت بڑا طبقہ متاثر ہوسکتا ہے اور فیس بک کے استعمال کرنے والوں کو ایک مفید مشورہ دیا کہ اپنا ٹیگ آپشن بند کریں کیونکہ جب دوست کوئی چیز اپ لوڈ کرتے ہیں تووہ آپ کو ٹیگ کردیتے ہیں اورآپ کے دیگردوست یہی سمجھتے ہیں کہ وہ تحریر،تصویر یا ویڈیو آپ نے اپ لوڈ کی ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی چیزتحقیق کئے بغیرآگے شئیرنہ کی جائے کم ازکم گفتگومیں مکمل مسئلہ کا جواب دیا جائے۔
حافظ ارشد محمود حفظہ اللہ نے کہا: کسی بھی تصویر یا پیغام کو لائک کرنے سے قبل یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ کس طرف سے پیغام لکھا گیا ہے کیونکہ بسااوقات تخریب کارانہ سوچ رکھنے والے ایسی باتیں جان بوجھ کر شئیر کرتے ہیں اور اس کے بعد جو جو انہیں لائک کرتا ہے پھر وہ نگرانی کی زد میں آ جاتا ہے
نوجوان محقق اور مورخ حافظ ابویحیٰ نورپوری حفظہ اللہ نے فیس بک کے حوالے سے سب سے اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ فتنہ پردازوں کی کوئی بھی پوسٹ جو عام حالات میں اچھی ہواوراس میں کوئی فتنے والامواد نہ ہوتوبھی اس کو لائک اورشئیرنہ کریں۔کیونکہ وہ آپ کے لائک اور شئیرسے آپ کے دوستوں تک رسائی حاصل کرسکتاہے اوران کی گمراہی کا سبب بن سکتاہے۔ نیزاپنے دوستوں کی لسٹ تحقیق کے ساتھ مرتب کریں۔کوئی دوستی کی درخواست آئے توپہلے اسکی چھان بین کریں۔
محترم انجینئرسلمان علی حفظہ اللہ نے کہا : سوشل پروقت کا ضیاع بہت ہوتاہے، لہٰذااپنے وقت کو کارآمد بنائیں، لمباعرصہ غائب نہ رہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اچھی اچھی باتیں اورچیزیں اپ لوڈ کرتے رہیں۔کسی بھی جگہ اپنی رائے پیش کرنے سے عارمحسوس نہ کریں ہوسکتاہے آپ کی رائے کسی کیلئے ہدائت کا ذریعہ بن جائے۔اس پر قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اس امر پر زور دیا کہ سوشل میڈیاکی مہارت رکھنے والے افراد کوچاہئے کہ وہ قواعد وضوابط کے کلپس ترتیب دے کرتمام کوبھیجیں تاکہ اچھے اندازمیں ان ٹولز کا استعمال کیا جاسکے۔
محترم محسن جاوید حفظہ اللہ نے ایک تجویز یہ پیش کی کہ فیس بک پربھی ‘‘مجموعہ علماء اھل الحدیث’’ بنایا جائے اورواٹس ایپ پرہونے والے مسئلہ کی تلخیص وہاں بھی پیش کردی جائے۔
سوشل میڈیا کا استعمال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ لا محالہ وسعت اختیار کرتا جا رہا ہےلہٰذا اس حوالے سے نوجوان نسل کی تربیت بہت زیادہ ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیسے ممکن ہے اس حوالے سے قارئین جلد ہی اس کی عملی شکل دیکھ لیں گے کہ سوشل میڈیا ز کے ٹولز کے استعمال پر ویڈیو کلپس ترتیب جا رہے ہیں جو جلد ہی مجلہ اسوہ حسنہ کی ویب سائٹ اور جامعہ ابی بکر کے فیس بک صفحات پر پیش کیے جائیں گے۔جدیددنیاوی تعلیم یافتہ طبقہ سوشل میڈیا سے بہت زیادہ رہنمائی لیتا ہے یا مسجد یا مدرسہ آنا مناسب نہیں سمجھتےلہٰذا اس حوالے سے مختصر گفتگو کے ویڈیو کلپس تیار کیے جائیں
اجلاس کا تیسرا مرحلہ انفرادی اوراجتماعی تربیت میں منھج نبویﷺ اوراس کے فی زمانہ اسالیب
راجوال سے پروفیسرعبیدالرحمٰن محسن حفظہ اللہ اس موضوع پر گفتگو کا اغاز کیا تو ان کی گفتگو سابقہ اور موجودہ موضوع دونوں پر ہی محیط تھی انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کیا جائے لیکن دعوت دین میں ان لوگوں کو نہ بھولا جائے جو ہمارے اردگرد ہیں کہ ہمیں ان لوگوں کی فکر تو ہو جو ہم سے سینکڑوں اور میلوں دور رہتے ہیں لیکن اپنا گھر بار اور خاندان وغیرہ کو بھول جائیں مزید انہوں نے رسول اللہ علیہ وسلم کے ایک انتہائی خوبصورت فرمان کا ترجمہ اور مختصر وضاحت کی (جزاہ اللہ خیرا)

‘لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا’’

اورنصیحت فرمائی کہ ہمیں اپنی خلوت وجلوت میں اللہ سے ڈرناچاہئے۔ اوربس سوشل میڈیا پر ہی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہئے بلکہ زندہ انسانوں کودعوت دینے میں بھی آگے بڑھیں کیونکہ کردارکی تبدیلی کے امکانات دوافرادکی باہم ملاقات میں زیادہ ہوتے ہیں۔اس کیلئے فہم قرآن کورسز، نائٹ کلاسز، ماہانہ کلاسز، ایک گھنٹہ کلاسزکا اھتمام کرنا چاہئے۔خود میں تحمل اورتواضع کوپیداکریں اوراخلاق کواعلیٰ بنانے کی کوشش کریں۔
محترم رفیق طاہرحفظہ اللہ علماء کی کسرنفسی (تربیت کرنے میں)بعض اوقات طلبہ میں بے ادبی کو جنم دیتی ہے، اسکی مثال یوں سمجھئے کہ ایک استاد کسی طالب علم کی بے تکلفی اوربے ادبی کواس لئے برداشت کرتاہے کہ یہ میرے ساتھ بات کررہااس لئے کوئی حرج نہیں اس سے طالب علم کو مزیدہمت اورشیطانی مدد ملتی ہے جس سے وہ بے ادب بن جاتاہے۔اسی طرح طلبہ کی غلطیوں سے چشم پوشی بھی درست نہیں ، بات کو ہمیشہ مثبت انداز میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
محترم عبدالمنان راسخ حفظہ اللہ طلبہ میں ذکراللہ کی معرفت کواجاگرکیاجائے اس سے ان کے کردارمیں غیرمعمولی تبدیلی آئے گی۔عموماً اذکار پڑھے جاتے ہیں ان میں اللہ کی کیا صفات اورتعریف بیان کی جارہی ہے یا کیا مانگا جارہاہے اس سے نابلد ہوتے ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے شیخ عبدالرزاق العباد کی معروف کتاب فقہ الادعیہ کے مطالعہ پر زور دیا
وقت کی کمی کے پیش نظر اس مرحلے کی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قاری صہیب احمد حفظہ اللہ نے کہا کہ حق گوئی کا التزام کریں ، دلائل کے ساتھ گفتگوکریں لیکن جیتنے کی تمنا ترک کردیں۔تعبیراچھی کرلیں تواس سے بھی کافی مشکلات کم پڑجائیں گی، یا پھرکچھ وقت کیلئے خاموشی ہی اختیار کرلیں۔
اجلاس کاتیسراموضوع: نیشنل ایکشن پلان کے مضمرات، افادیت اورانکے فکری ومثبت رخ کے ثمرات۔
۱۔ سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے دہشت گردی میں ملوث سزائے یافتہ مجرموں کی پھانسیوں پرعمل در آمد شروع کیا۔
۲۔ ماضی میں کمزور قوانین کے باعث مجرمان سزاؤں سے بچتے رہےلہٰذا فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹ (فوجی عدالتیں) قائم کئے جائے گے۔ان خصوصی عدالتوں کی مدت 2 سال ہوگی۔
۳۔ ملک بھر میں کسی قسم کی عسکری تنظیموں اور عسکری جتھوں کی اجازت نہیں ہوگی۔
۴۔ انسداد دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کو مضبوط اور فعال بنایا جارہاہے۔
۵۔ نفرت انگیز تقاریر، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے اخبارات ،میگزین اور اس طرح کے دیگر چیزوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی۔
۶۔ دہشت گردوں اور دہشت گرد تنظیموں کی ہر قسم کی مالی امداد کے راستے بند کئے جائے گے اور مالی طور پر دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
۷۔ کسی تنظیم پر پابندی کے بعد اس تنظیم کو کسی اور نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
۸۔ دہشت گردی کے خلاف اسپیشل فورس قائم کیا جائے گا۔
۹۔ مذہبی انتہا پسندی کو روکا اور اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
۱۰۔ دینی مدارس کے رجسٹریشن اور ضابطہ حدود کا اہتمام کیا جائے گا۔
۱۱۔ پرنٹ اور الیکٹرونک دونوں میڈیا پر دہشت گردوں کی نظریات کی تشریح کرنے پر مکمل پابندی ہوگی۔
۱۲۔ جنگ کے متاثرین کی بحال کوجلد ازجلدیقینی بنایا جائے گا اور قبائلی علاقہ جات میں تنظیمی اصلاحات کئے جائیں گے۔
۱۳۔ دہشت گردوں کے معاشرتی نیٹورکس کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
۱۴۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت کی فروغ کی روک تھام کے لیے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں گے۔
۱۵۔ ملک کے ہر حصے کے طرح پنجاب میں بھی انتہا پسندی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جائے گی۔
۱۶۔ کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
۱۷۔ وسیع تر سیاسی مفاہمت کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیارات دیئے جائے گے۔
۱۸۔ فرقہ واریت کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی ہوگی۔
۱۹۔ افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی۔
۲۰۔ تمام صوبوں کے استخباراتی اداروں کو دہشت گردوں کے مواصلات تک رسائی دی جائی گی۔
گزشتہ ہفتے مجموعہ علماء اہل حدیث میں نیشنل ایکش پلان کے حوالے سے دو روزہ گفتگو کا اہتمام کیا گیا تھا، اس تمام گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے سامنے اس نیشنل ایکشن پلان کی روشنی میں مستقبل کیلیے منصوبہ بندی، تعلیمات اور سفارشات پیش کی جا رہی ہیں جو کہ راقم (رفیق طاہر)نے مرتب کی ہیں۔
اللہ تعالی اس گفتگو میں حصہ لینے والے تمام مشایخ کو جزائے خیر سے نوازے۔
نیشنل ایکشن پلان درحقیقت پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے مل کر ترتیب دیا ہے اور اس کا اصل اور اہم ھدف دہشت گردی کا خاتمہ ہے اس حوالے سے انہوں ملکی حالات کے پیش نظرحکومت نے کچھ قواعد وضوابط مرتب کئے ہیں جن کا مقصد ملکی سالمیت ہے اورانہیں نیشنل ایکشن پلان کا نام دیاگیاہے۔اس اہم موضوع پرمجموعہ علماء اھل الحدیث کے اجلاس میں مختلف شیوخ نے اپنے خیالات عالیہ کا اظہارکیا۔ اور درج ذیل باتیں منظور کی گئی
نیشنل ایکشن پلان کو من وعن لاگو کروانے کی ضرورت ہے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی شقوں سے خیر ہم نے خود پیدا کرنی ہے کوشش یہ ہو کہ قانون سے تصادم کے بغیر حق بات لوگوں تک پہنچائی جائے، اور یہ ایک سنہری موقع ہے کہ کتاب و سنت کے منہج کو لوگوں میں فرقہ واریت سے پاک انداز میں عام کیا جائے۔
mاپنی تقریر، تحریر، اور گفتگو میں شستہ اور شائستہ زبان استعمال کی جائے، صرف اس لیے نہیں کہ قانون سخت ہے، بلکہ اس سے پہلے اس لیے کہ اللہ تعالی کے سامنے اپنے ہر لفظ کا جوابدہ ہونا ہے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں الحاد اور لا دینیت کو شتر بے مہار نہیں چھوڑا جائے گا۔
mاخلاقی برائیوں (فحاشی، عریانی، جھوٹ، بدعنوانی، دھوکہ دہی، حق تلفی، ملاوٹ وغیرہ) کی روک تھام کیلیے مؤثر اور جامع منصوبہ بندی درکار ہے، نیز ان برائیوں کو محض برائی کی وجہ سے ختم نہ کیا جائے بلکہ ساتھ میں یہ بات بھی اجاگر کی جائے کہ یہ بھی عقیدہ توحید میں شامل ہے، اللہ تعالی کی فرمانبرداری کا حصہ ہے، اس طرح سے ہم عقیدہ توحید کا پرچار غیر محسوس طریقے سے بھی کر سکیں گے۔
mلاؤڈ اسپیکر کے بارے میں ضابطہ اخلاق پر اپنے علاقے میں مکمل عمل درآمد کروایا جائے، اور لاؤڈ اسپیکر پر سوائے اذان اور عربی خطبہ کے کچھ بھی نہ ہونے دے، اگر کوئی صلاۃ یا کچھ اور پڑھنے کی کوشش کرے تو فوری 15 پر مطلع کریں، قریبی تھانے میں اطلاع کرنے کا فائدہ کم ہی ہوتا ہے، اس لیے 15 کو ترجیح دی جائے۔
mگلی محلے اور راستوں میں رکشے وغیرہ پر چلتے گانے اور ڈیک بھی بلند آواز سے چل رہے ہوں تو پھر بھی اس کی اطلاع بھی 15 کو کریں۔
mٹیلی فون کالز، سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو محتاط انداز میں استعمال کیا جائے، اور شنید ہے کہ 800 کے قریب ایسے الفاظ ہیں جن کے بولنے پر فوری خود کار طریقے سے ریکارڈنگ شروع ہو جاتی ہے۔
mاگر کسی سے ماضی میں ایسی کوئی نفرت آمیز گفتگو، تحریر، یا تقریر ہوئی ہے تو وہ ڈی سی او کے سامنے پیش ہو اقرار نامہ والا اسٹام جمع کروائے نیز جماعت کے ذمہ داران کو بطور شہود شامل کر کے گرفتاری سے بچ سکتا ہے۔
mاور اگر کسی مواد پر غلط پابندی لگائی گئی ہے تو قانونی چارہ جوئی کے ذریعے پابندی کو ختم بھی کروایا جا سکتا ہے۔
mاگر کسی نے علمی انداز کیساتھ شائستہ اور شستہ زبان میں رد لکھا ہے تو وہ متحدہ علما بورڈ کو پیش کر کے پہلے اجازت حاصل کرے اور پھر کتاب بلا خطر نشر کی جا سکتی ہے۔
mکتاب متحدہ علما بورڈ کو ارسال کرنے کیلیے: حافظ فضل الرحیم اشرفی (چیئرمین متحدہ علما بورڈ) علی ہجویری کمپلیکس لاہور فون: 04299238871 04237248788
mاگر کسی کتاب میں ہیٹ میٹریل موجود ہے تو متحدہ علما بورڈ کی نشاندہی کی روشنی میں اسے ختم کر کے کتاب چھاپنے کی اجازت لی جا سکتی ہے۔
mاگر کوئی کتاب ناشرین چھاپنے سے کترا رہے ہیں تو اس کتاب کو چھاپنے کیلیے اجازت نامہ متحدہ علما بورڈ سے لیا جا سکتا ہے۔
mکبار اہل علم کے طرز تالیف و تقریر سے اپنے لیے رہنمائی ضرور لیں۔
mتحریر کے میدان میں دار السلام کی دو کتب متحدہ علما بورڈ کے سامنے پیش کی گئی اور انہوں نے ان پر کوئی اعتراض نہیں لگایا بلکہ انداز تحریر کو علمی اور مثبت قرار دیتے ہوئے قابل اشاعت قرار دیا ہے، چنانچہ اس حوالے سے دارالسلام کے ذمہ داران سے بھی معاونت اور رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
mتکفیر معین اور اقامت خلافت کے حامل خود ساختہ نظریوں اور تنظیموں سے بالکل اجتناب کیا جائے۔
mضابطہ اخلاق میں شامل “مستند مفتی” کی اصطلاح سامنے رکھتے ہوئے فتوی نویسی کیلیے باقاعدہ سے کورس کروائے جائیں۔
mعلماء اور خطبا کیلئے ٹریننگ/ ریفریشر کورسز ترتیب دئے جائیں جن میں اسالیب دعوت و خطابت پر باقاعدہ ورکشاپس ہوں۔
mمیڈیا پر گفتگو کیسے کی جائے اور میڈیا پراپیگنڈہ کا مسکت جواب دینے کیلیے افراد تیار کیے جائیں، اس کے لیے پیغام ٹی وی ہمارے لیے ایک اچھا تربیتی پلیٹ فارم ثابت ہو سکتا ہے۔
mوفاق المدارس السلفیہ کو اپنے ماتحت اداروں کو ایک سرکولر جاری کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اساتذہ و طلبہ پرنظر رکھیں کہ کہیں وہ ایسی گھناونی سرگرمیوں میں ملوث تونہیں اوردو یا تین دن کی تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جو ہرشہر میں ہوں اوروہاں کے تمام مدارس کے اساتذہ کی تربیت کی جائے۔
mاپنی تحریروں اورتقاریرکو ایسی چیزوں سے بالکل پاک رکھیں جن سے غیرملکی عناصرکو مدد ملتی ہو اورحکومت اور فوج کے خلاف نظریات ظاہرہوتے ہوں۔
mمحترم ابوبکرقدوسی حفظہ اللہ: نیشنل ایکشن پلان کی حدود کو دیکھا جائے اوران پرعمل کو یقینی بنایا جائے اگرکوئی متنازعہ کتاب سامنے آئی تو اس کی 4 عدد کاپیاں کرواکے مکتبہ قدوسیہ پربھیجیں ہم اس کو بین کروانے کیلئے علماء بورڈ میں پیش کریں گے اور اسکی مکمل پیروی کریں گے
آخر میں پیغام ٹی وی چینل کے پروڈیوسر محترم عاصم حفیظ حفظہ اللہ نے سوشل میڈیا کے حوالے سے اعداد و شمار پر مبنی معلوماتی پریزنٹیشن پیش کی جس میں انہوں نے کہا: میڈیا معاشرتی تبدیلی کا ہتھیارہے ، امریکہ میں جیسے نیوورلڈ آرڈر کا ادارہ ہے ویسے ہی نیوورلڈ انفارمیشن آرڈر کا ادارہ ہے۔ذرائع ابلاغ کا استعمال ہرایک کیلئے یکساں ممکن ہے، اس کا میسج بھی جلد لوگوں تک پہنچ جاتاہے اوریہاں اپنی بات کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ مزید انہوں نے مدارس میں ذرائع ابلاغ کے استعمال کی تعلیم دی جانی چاہئے اس حوالے سے میڈیا ورکشاپس ہونی چاہئیں۔میڈیا پر آنے والی مباحث کو جمع کرکے انہیں علماء کے سامنے پیش کر کے ان سے انکی رائے معلوم کر کے لائحہ عمل مرتب کیا جائے۔میڈیا کی تعلیم اپنے نظریات کے پرچار کیلئے بھی ضروری ہے۔
٭حکومت سے مطالبہ:
mحکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلیے بھی ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے، اور اگر پہلے سے موجود ہے تو اسے فعال کیا جائے۔
mنیشنل ایکشن پلان کی تمام تر اصطلاحات اور تشریحات سب کی سب قومی اخبارات اور ویب سائٹس پر قومی اردو زبان میں (یونیکوڈ فارمیٹ میں) رکھی جائیں
————-

مسلمان کی عزت کا دفاع

ہر انسان اور مسلمان تین چیزوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ اپنے مال،اپنی اولاداور اپنی عزت سے، عزت کو مال اور اولاد پر فوقیت حاصل ہے۔ انسان اپنے عزت کو بچانے کے لئے اپنے مال اور اولاد کی قربانی دے دیتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح میری عزت کا دفاع ہو سکے۔مسلمان آدمی کی عزت بہت قیمتی چیز ہے اور جو آدمی کسی مسلمان کی بے عزتی کرتا ہے وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوتاہے۔
سب سے بڑا سود:
سیدنا سعیدبن زید؄ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الاسْتِطَالَةُ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَإِنَّ هَذِهِ الرَّحِمَ شِجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فَمَنْ قَطَعَهَا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ ”
(مسند امام احمد بن حنبل،مسند باقی العشرۃ المبشرین بالجنۃ:اسنادہ صحیح،رقم حدیث:1651)

؏”سب سے بڑا سود یہ ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی کی جائے،اور بیشک رحم (قرابت داری)رحمٰن کی شاخ ہے جو شخص قرابت داری ختم کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیں گے۔ “
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ سب سے چھوٹے درجے کا سود اس قدر مہلک ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے،توسود کا سب سے بڑا درجہ کس قدر خطرناک ہوگا؟ اس بڑےدرجے کے برابر جس گناہ کو قرار دیا گیاہے وہ کسی مسلمان کی بے عزتی کرناہے۔
مسلمان کی بے عزتی کرنے والاہلاک ہوگیا:
سیدنا اسامہ بن شریک؄ بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی مکرمﷺ کے ساتھ حج میں روانہ ہوا کہ لوگ آپ ﷺ کے پاس آتے تھےاور جو آدمی بھی یہ کہتا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی(اور مجھے پتانہ چلا)یا کوئی کام پہلے کرلیایاکوئی کام مؤخر کرلیا؟ تو آپ ﷺ فرماتے تھے:

“لَا حَرَجَ لَا حَرَجَ، إِلَّا عَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ، فَذَلِكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ “

”کوئی حرج نہیں کوئی حرج نہیں،مگر جوکوئی ظلم کرتے ہوئے کسی مسلمان کی عزت کو کاٹے(غیبت یالعن وتشنیع وغیرہ کرے)تو وہ آدمی حرج (گناہ وغیرہ ) میں پڑھ گیا اور ہلاک ہوگیا۔ “
(سنن ابوداؤد:کتاب المناسک،باب فيمن قدم شيئا قبل شيء في حجه،2015،سنن الدارقطنی:2565،حکم الالبانی: صحیح،)
مسلمان کی عزت کو پامال کرنا حرام ہے:
سیدنا ابوبکرہ؄ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل یا ناگ تھامے ہوئے تھا،آپ ﷺ نے (صحابہ؇ سے مخاطب ہو کر)فرمایا:”یہ کون سا دن ہے؟“۔ ہم لوگ اس خیال سے خاموش رہے کہ شاید آپ اس کے اصل نام کے علاوہ کوئی اور نام بتائیں گے۔ توآپ ﷺ نے فرمایا:”کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے ؟“ہم نے عرض کیا :کیوں نہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:یہ کون سا مہینہ ہے ؟“ہم پھر اس خیال سے چپ رہے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ تو آپﷺ نے فرمایا:”کیا یہ ماہ ذوالحجہ نہیں؟“ہم نے کہا :کیوں نہیں۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا:

“فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا “

”تمہارے خون،تمہارےمال،تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ تمہارے ہاں اس شہر اور اس مہینے میں اس دن کی حرمت ہے۔ “

” لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ “

”چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے،اس لیے کہ شاید حاضر ایسے شخص کو خبر کردے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے۔ “
(صحیح بخاری:کتاب العلم،باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: رب مبلغ أوعى من سامع:67،وصحیح مسلم 1679)
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر صحابہ کرام کے جم غفیر میں ایک مسلمان کے خون،مال اور اس کی عزت کی حرمت کوبیان فرمایا،لہٰذا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عزتوں، جانوں اور مالوں کو اپنی طرف سے ظلم وزیادتی کا نشانہ بنانے سے پرہیز کرے اور ان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے انہیں تحفظ فراہم کرے۔
ایک دوسری روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْمُسْلِمُ أَخُوالْمُسْلِمِ،لَايَظْلِمُهُ وَلَايَخْذُلُهُ، وَلَايَحْقِرُهُ

”مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتاہے،نہ اسے رسوا کرتا ہے اورنہ اس کی تحقیر کرتاہے۔ “
(صحیح مسلم:كتاب البر والصلة والآداب،باب تحريم ظلم المسلم، وخذله، واحتقاره ودمه، وعرضه، وماله:2564)
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ “

”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ “
(صحیح بخاری :کتاب الایمان،باب: المسلم من ..:10،صحیح مسلم:41،سنن ابی داؤد:2481،جامع ترمذی:2627)
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں سیدنا ابوہریرہ؄ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

” كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ مَالُهُ، وَعِرْضُهُ، وَدَمُهُ حَسْبُ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ”

”ایک مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کےمال(کا نقصان کرنا)عزت(پامال کرنا) اور خون(بہانا) حرام ہے۔ بندے کے لئے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ “
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ،4882،سنن الترمذی:أبواب البر والصلة ..1927)
مسلمان کو ذلیل کرنا،اس کی غیبت کرنا،اس پر کسی قسم کا چھوٹا الزام لگانا،غلطیوں کی تشہیر کرنااور مسلمان کی عزت کو پامال کرنا سب کبیرہ گناہ ہیں۔
اللہ رب العزت کافرمانِ عالیشان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ( الحجرات:12)

”اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے،ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں،ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے پکارو،ایمان کے بعد برا نام(رکھنا)گناہ ہےاور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ “
مزید فرمایا:

وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ(الحجرات:12)

”اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔ کیاتم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟پس تم اسے ناپسند کرتے ہواور اللہ تعالیٰ سے ڈرو،بے شک اللہ بہت رجوع کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ “
جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح غیبت سننا بھی حرام ہے۔ غیبت کرنے والے کوروکنا اور مسلمان کی پیٹھ پیچھے ان کی عزت کا دفاع کرنا فرض ہے کیونکہ جس طرح زبان کے اعمال کی باز پرس ہوگی اسی طرح کانوں کے اعمال کی بھی باز پرس ضرور ہوگی۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا(بنی اسرآئیل:36)

”بے شک کان،آنکھ اور دل ہرایک کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ “
مسلمان دوسرے مسلمان کو مضبوط کرتاہے:
سیدنا ابوموسیٰ ؄نبی کریم ﷺ سے بیان فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

“المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا “

”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لیے اس عمارت کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتاہے۔
(صحیح البخاری:كتاب المظالم والغصب،باب نصر المظلوم :2446،صحیح مسلم:2585،سنن الترمذی:1928)
مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا اسےتقویت دیتا ہے،اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو مضبوط کرنے کے لیے ہے۔
مسلمان کی عزتوں کو پامال کرنے والوں کا انجام:
سیدنا انس بن مالک؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“لَمَّا عُرِجَ بِي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ، قَالَ : هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ “

”جب مجھے معراج کروائی گئی تو میرا گزر ایک ایسی قوم کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کےتھے جو اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے،میں نے پوچھا :اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا :یہ وہ لوگ ہیں جودوسرے لوگوں کا گوشت کھایاکرتے(یعنی غیبت کیا کرتے تھے )اور ان کی عزتوں کو پر حملہ آور ہوتے تھے۔
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ،رقم حدیث :4878،حکم الالبانی : صحیح،)
ایک اورروایت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“مَنْ حَمَى مُؤْمِنًا مِنْ مُنَافِقٍ، أُرَاهُ قَالَ: بَعَثَ اللَّهُ مَلَكًا يَحْمِي لَحْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ، وَمَنْ رَمَى مُسْلِمًا بِشَيْءٍ يُرِيدُ شَيْنَهُ بِهِ، حَبَسَهُ اللَّهُ عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ “

”جس نے کسی مؤمن کا منافق سے بچاؤکیا۔ راوی کہتاہے میرا خیال ہے آپ ﷺ نے یوں فرمایا:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک فرشتہ بھیجے گا جو اس کے گوشت کو جہنم سے بچائے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان پر کسی چیزکی تہمت لگائی کہ اس کے ذریعے اس نے اس پر عیب لگانا چاہا،تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کےپل صراط پر روکے رکھے گاحتیٰ کہ اس کے کہے کہ سزا پوری ہو جائے۔ “
(سنن ابی داؤد :کتاب الادب،باب من رد عن مسلم غیبۃ:4883،حکم الالبانی : حسن)
قارئین کرام :مذکورہ بالاآیاتِ کریمہ اور احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان صاحب ایمان کی عزت پر حملہ آور ہوناکتنا بڑا گناہ ہے جسے آج کل ہم کوئی گناہ ہی نہیں سمجھتے،ایک طرف کسی مسلمان کی عزت کو داغدار کیا جارہا ہے تودوسری طرف سننے والے بھی بڑے غور سے سنتے ہیں اور اس بات کو دوسرے تک بھی بڑے اہتمام کے ساتھ بتاتے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان صاحب ایمان کی عزت کا دفاع کرتا،اس کے سامنے ہو یا اس کی غیر موجودگی میں۔
مسلمان کی عزت کی حفاظت کرنے کا اجر:
سیدہ اسماء ؅کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

“مَنْ ذَبَّ عَنْ لَحْمِ أَخِيهِ فِي الْغِيبَةِ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُعْتِقَهُ مِنَ النَّارِ “(صحیح الجامع الصغیر،رقم حدیث: 6240،ومسنداحمد ،27610)

”جس نے کسی (مسلمان)بھائی کی عدم موجودگی میں اس کی عزت سے برائی کو دور کیا،اللہ تعالیٰ پر اس کا حق ہے کہ اس کو آگ سے آزاد فرمائے۔ “
ایک دوسری روایت میں ہےسیدنا ابودرداء؄ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللَّهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ القِيَامَةِ “

”جس کسی شخص نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا تو اللہ رب العزت روزِ قیامت اس کے چہرے سے جہنم کی آگ ہٹا دیں گے۔ “
(جامع ترمذی:ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الذب عن عرض المسلم،1931،حکم الالبانی رحمہ اللہ: صحیح)
مسلمان صاحبِ ایمان کی عزت کا دفاع کرنا،اس کے سامنے ہو یا پھر اس کی عدم موجودگی میں،یہ بہت بڑی فضیلت کا کام ہے ایساکرنے سےایک صالح معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
مسلمان،مسلمان کی عزت کا محافظ ہوتاہے:
سیدنا عبداللہ بن عمر؆ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيَامَةِ “(صحیح البخاری:کتاب المظالم،باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ، رقم حدیث:2442،وصحیح مسلم :كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم :2580)

”مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر زیادتی کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگارچھوڑتاہے،جوشخص اپنے بھائی کے کام میں ہوگا (اس کی کوئی ضرورت پوری کرے گا) تو اللہ تعالیٰ اس کے کام میں ہوگا(یعنی اللہ رب لعزت بھی اس کی ضرورت پوری کرےگا)اور جو شخص اپنے بھائی کا دکھ دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کا دکھ دور کرے گا،اور جس نے کسی مسلمان آدمی کے عیب پر پردہ ڈالا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔ “
ایک دوسری روایت میں ہے جو آدمی کسی مسلمان کی مدد کرتاہے اللہ رب العزت اس کی مددکرتے ہیں:
سیدنا ابوہریرہ؄ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ “

”اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتارہتا ہے جب تک بندہ اپنے (مسلمان)بھائی کی مدد میں مشغول رہتاہے۔ “
(صحیح مسلم:کتاب كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر:2699،سنن ابی داؤد:4946،جامع ترمذی:1425، صحیح ابن حبان،534)
رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کی عزت کا دفاع کرتے:
امّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؅بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے کہا کہ آپ کو سیدہ صفیہ ؅ میں یہی کافی ہے کہ وہ ایسے ایسے (یعنی پست قد والی)ہے۔ تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“لَقَدْ قُلْتِ كَلِمَةً لَوْ مُزِجَتْ بِمَاءِ الْبَحْرِ لَمَزَجَتْهُ”

”تحقیق تونے ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائےتو(تیرے ان کلمات کی وجہ سے ) سمندر کا پانی کڑوا ہوجائے۔ “
(سنن ابی داؤد:کتاب الادب،باب فی الغیبۃ:4875،سنن الترمذی: 2505، حکم الالبانی رحمہ اللہ: صحیح)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت کو رجم کیا جارہا تھا، رجم کے وقت جب سیدنا خالد بن ولید؄ آگے بڑھے اور اس عورت کے سر پر پتھر ماراتوان کے چہرے پر خون کے چھینٹے آپڑے،جس پر انہوں نے اس عورت کو برا بھلا کہنا شروع کردیا،نبی اکرمﷺ نے ان الفاظ کو سنااور خالد بن ولید؄ کی طرف دیکھ کرفرمایا:

“مَهْلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ “

”اے خالد!ٹھہر جاؤ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا(جو ظلماً لاتعداد انسانوں کا حق کھاتاہے)ایسی توبہ کرتا تو اسے بھی معاف کردیا جائے “
(صحیح مسلم :کتاب الحدود،باب من اعترف على نفسه بالزنى،1695)
صحیح البخاری میں ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ عتبان بن مالک ؄کے گھر گئےآپ ﷺ نے ان کے گھر میں دورکعت نماز اداکی،آپ ﷺ کے اردگرد بہت سے لوگ جمع تھے ان لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ مالک بن دخشن ؄کہاں ہے کسی دوسرے آدمی نے جواب میں کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“لاَ تَقُلْ ذَلِكَ، أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذٰلِكَ وَجْهَ اللَّهِ “

”ایسے مت کہو،کیا تم نہیں جانتے کہ اس نے خالص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ” لا الہ الا اللہ “ کا اقرار کیاہے۔

“فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ “

”پس بے شک اللہ رب العزت نے اس شخص کو آگ پر حرام کردیا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر ” لا الہ الا اللہ “ کہا۔ “

(صحیح البخاری:کتاب الصلاۃ،باب المساجد فی البیوت،رقم حدیث:425،وصحیح مسلم:کتاب المساجد،باب الرخصۃ فی التخلف عن الجماعۃ لعذر:33)

قارئین محترم! مندرجہ بالا تمام روایات سے پتا چلاکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی عزت کی حفاظت کرنا اور اگر کوئی دوسرا شخص کسی مسلمان کی عزت کو داغدار کرے تو اس کا دفاع کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔
اگر آج ہم احساس کرتے ہوئے اپنی عزت کی طرح دوسرے مسلمان کی عزت کی حفاظت کریں تو یقینًا معاشرے میں امن عافیت کی فضاء پیدا ہوگی جس سے نیکی اور خیر کی فضاء لہلہا اٹھے گی۔ ان شاء اللہ

قیامت کے دن کی کیفیت ومنظر

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَھُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء:1)
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ(الحج:1)

” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا ہے جبکہ وہ ابھی تک غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ “
لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو بلاشبہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے۔
کوئی نفس کسی نفس کے کام نہیں آئے گا !
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ(البقرہ:48)

” اور اس دن سے ڈرتے رہو جب نہ تو کوئی کسی دوسرے کے کام آ سکے گا، نہ اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی، نہ ہی اسے معاوضہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا اور نہ ہی ان (مجرموں) کو کہیں سے مدد پہنچ سکے گی۔ “
قیامت کے دن تجارت اور شفاعت کام نہیں آئی گی !

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ(آل عمران:254)

”اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اسمیں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کر لوجس دن نہ تو خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش، اور ظالم تو وہی لوگ ہیں جو ان باتوں کے منکر ہیں۔ “
ماں دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی !

يَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ كُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا ہُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِيْدٌ(الحج:2)

”اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی بڑا سخت ہوگا۔ “
قیامت کی ہولناکی بچہ کو بوڑھا کردے گی !

فَكَيْفَ تَتَّقُوْنَ اِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَۨا(المزمل:17)

”اب اگر تم نے (اس رسول کا) انکار کردیا تو اس دن (کی سختی) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا۔ “
اصل دوستی کا فائدہ متقین ہی کو ہے!

اَلْاَخِلَّاۗءُ يَوْمَىِٕذٍؚ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ(الزخرف:67)

”اس دن پرہیز گاروںکے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ “
کمزور طاقتورکو اور طاقتورکمزور کو ملامت کریں گے!
ترجمہ:”کاش آپ ان ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے پروردگار کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرےکی بات کا جواب دیں گے۔جو لوگ (دنیا میں) کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑا بننے والوںسے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔اور جو بڑا بنتے تھے وہ کمزور لوگوں کو جواب دیں گے کہ جب تمہارے پاس ہدایت آگئی تھی تو کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا ؟ بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ اور جو کمزور سمجھے جاتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے بات یوں نہیں بلکہ یہ تمہاری شب و روز کی چالیں تھیں جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کا انکار کریں اور اس کے شریک بنائیں پھر جب وہ عذاب دیکھیں گے تو اپنی ندامت کو چھپائیں گے اور ہم ان کافروں کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے۔انھیں ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے وہ کام کیا کرتے تھے۔“(سبا:31-33 )
چھوٹوں کا اپنے بڑوں کو ملامت کرنا !

وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا(الاحزاب:67-68)

”نیز کہیں گےہمارے پروردگار! ہم نے تو اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا تھا تو انہوں نے ہمیں راہ (حق) سے بہکا دیا۔ (لہٰذا) اے پروردگار! ان پر دگنا عذاب کر اور ان پر سخت لعنت کر “
بعد والوں کی بد دعا اپنے پیشروںکے متعلق !

قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَا فَبِئْسَ الْقَرَارُقَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا ھٰذَا فَزِدْہُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِ(ص:60-61)

”(آنے والے پہلوں کو) کہیں گے۔نہیں بلکہ تمہارے لئے ہی خوش آمدید نہ ہو۔تم ہی ہمارے لیے اس (عذاب) کے پیش رو بنے جو اتنی بری قرار گاہ ہے۔ پھر وہ بد دعا کریں گےاے ہمارے پروردگار! ہمارے لئے جو اس عذاب کا پیش رو بنا اسے دوزخ میں دگنا عذاب دے۔ “
مریدجھوٹےپیرسے اور جھوٹاپیر مرید سے قیامت کے دن بیزاری کا اعلان !

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْـبَابُ وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا كَذٰلِكَ يُرِيْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْہِمْ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (البقرہ:166-167)

”جب پیشوا قسم کے لوگ جن کی دنیا میں پیروی کی جاتی تھی۔عذاب کو دیکھیں گے تو اپنے پیروؤں (مریدوں) سے بےزار ہو جائیں گے اور ان کے باہمی تعلقات منقطع ہو جائیں گے۔ اور جو لوگ پیروی کرتے رہے (مرید) وہ بول اٹھیں گے! کاش ہمیں (دنیا میں جانے کا) پھر ایک موقع ملے توہم بھی ان سے ایسے ہی بےزار ہو جائیں جیسے یہ آج ہم سے بیزار ہو گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال اس طرح دکھلائے گا کہ وہ ان پر حسرتوں کا مرقع بن جائیں گے۔اور وہ دوزخ سے (کسی قیمت پر بھی) نکل نہ سکیں گے۔ “
اپنے آپ کو بچانے کے عوض میں سب عزیزواقارب کو جہنم میں ڈالنے کی پکار!

وَلَا يَسْـَٔــلُ حَمِيْمٌ حَمِـيْمًا۝۱۰ۚۖحَمِـيْمًايُّبَصَّرُوْنَہُمْ۝۰ۭ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِيْ مِنْ عَذَابِ يَوْمِىِٕذ ٍؚبِبَنِيْہِ۝۱۱ۙوَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِيْہِ۝۱۲ۙ وَ فَصِيْلَتِہِ الَّتِيْ تُـــــْٔـوِيْہِ۝۱۳ۙوَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا۝۰ۙ ثُمَّ يُنْجِيْہِ۝۱۴ۙ

”اس دن کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا۔حالانکہ وہ ایک دوسرےکو دکھائے جائیں گے۔مجرم یہ چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو فدیہ کے طور پر دے دے۔ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو۔اور اپنے ان کنبہ والوں کو جو اسے پناہ دیا کرتے تھے۔ اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کچھ دے کر اپنے آپ کو بچا لے۔ “
قیامت کے دن والدین اپنی اولاد سے بھاگیں گے!

يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْہِ۝۳۴ۙوَاُمِّہٖ وَاَبِيْہِ۝۳۵ۙ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِيْہِ۝۳۶ۭلِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْہِ

”تو آدمی اس دن اپنے بھائی سے بھاگے گا۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے (بھی بھاگے گا)۔ اس دن ہر شخص کی ایسی حالت ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بےپروا بنادے گی۔ “ (عبس:34-37)
قیامت کے دن بیٹا باپ کے کام نہیں آئے گا!

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّايَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَجَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَـيْـــــًٔااِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَاوَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُ (لقمان:33)

”اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب نہ تو کوئی باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے۔اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے لہٰذا یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکے بازتمہیں اللہ کے بارے دھوکہ میں ڈالے۔ “
قیامت کےدن انسان کی زبان پرمہر لگا دی جائی گی !

اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓي اَفْوَاہِہِمْ وَتُكَلِّمُنَآ اَيْدِيْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (یس:65)

”آج ہم ان کے منہ بند کردیں گے اور ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ “
قیامت کے دن انسان کے اعضاء کی اس کے خلاف گواہی !

حَتّٰٓي اِذَا مَا جَاۗءُوْہَا شَہِدَ عَلَيْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ

”یہاں تک کہ جب دوزخ کے قریب آپہنچیں گے تو ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف وہی گواہی دیں گے جو عمل وہ کیا کرتے تھے۔ “(حٰم السجدہ:20)
قیامت کے دن انسان کا اپنے ہاتھوں کو چبانا!

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا(الفرقان:27)

”اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا: کاش! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روشن اختیار کی ہوتی۔ “
قیامت کے دن اپنی بد بختی پر رونا!

قَالُوْا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَاۗلِّيْنَ(المؤمنون:106)

”وہ کہیں گےہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم واقعی گمراہ لوگ تھے۔ “
قیامت کے دن اپنے بد اعمال پر مہلت طلب کرنا!

وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ(السجدہ:12)

”کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے پروردگار کے حضور سرجھکائے کھڑے ہوں گے (اور کہیں گے)اے ہمارے رب! ہم نے (سب کچھ) دیکھ لیا اور سن لیالہٰذا ہمیں واپس بھیج دے کہ ہم اچھے عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا ہے۔ “
قیامت کے دن اپنے اعمال نامہ کو دیکھا کر افسوس کرنا!

وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْہِ وَيَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَۃً وَّلَا كَبِيْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاوَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا (الکھف:49)

”اور نامہ اعمال (ہر ایک کے سامنے) رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اعمال نامہ کے مندرجات سے ڈر رہے ہیں اور کہیں گےہائے ہماری بدبختی اس کتاب نے نہ تو کوئی چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی، سب کچھ ہی ریکارڈ کر لیا ہے۔اور جو کام وہ کرتے رہے سب اس میں موجود پائیں گے اور آپ کا پروردگار کسی پر (ذرہ بھر بھی) ظلم نہیں کرے گا۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خوارج کی حقیقت اور ان کے ہتھکنڈے

پہلا خطبہ:

حمد و صلاۃ کے بعد: مسلمانو!

صاحب علم اپنا تحفظ خود کرتا ہے، دانشمند برائی سے دور رہتا ہے، جبکہ جاہل گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالی سے ڈرنے والا کامیاب ہوگا اور کبھی مایوس نہیں ہوگا

وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الزمر : 61)

’’اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے رہے اللہ انہیں ان کی کامیابی کی ہر جگہ پر نجات دے گا، انہیں نہ تو کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے‘‘
دنیا عارضی ہے، فانی اور وقتی ہے، وہ شخص نا مراد ہے جو دنیاوی سراب کے دھوکے میں آ جائے، دنیاوی شراب سے مدہوش رہے، اور توبہ کرنے سے پہلے مٹی میں جا ملے، یہ دنیا عمل کی جگہ ہے، گھڑ دوڑ میں سخت مقابلے کے وقت وہی گھوڑے آگے بڑھتے ہیں جو بے عیب ہوں، ہر انسان کو اپنے عمل کا بدلہ ملے گا چاہے عمل غلط ہو یا صحیح۔
مملکت سعودی عرب کی شہرت دین کی وجہ سے ہے، اس کا وجود شریعت کی وجہ سے قائم ہے، ملکی قیادت کی حسن تدابیر کے سبب دشمن نا مراد ہوئے، ان کے وار سے ملکی دشمنوں کے اہداف چور ہوئے، چنانچہ سر زمین حرمین شریفین کے لیے گڑھے کھودنے والے کو اللہ تعالی اوندھے منہ گرایا اور اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنی۔
اتحاد باعث قوت اور فرقہ واریت باعث زیاں ہے، اجتماعیت درست فیصلوں کا صحیح راستہ، جبکہ فرقہ واریت تباہی کا سر چشمہ ہے، تفرقہ غلطیوں اور نفرتوں کا پیش خیمہ ہے، جو کہ ترقی کو تنزلی میں بدل دے، امن کو سراب بنا دے، نیز یہی تباہی و بربادی کا سبب ہے، کینہ پرور سے برا کوئی شخص نہیں ، بدترین وہ شخص ہے جو قبیح امور کی ترغیب دے۔
امت مسلمہ کے خلاف ایک گمراہ ٹولے نے بغاوت کی ، یہ مٹھی بھر لوگ گمراہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، افراتفری کی آگ بھڑکانے اور شیرازۂِ ملت بکھیرنے کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں، اس کیلیے انہوں نے بجھے ہوئے اختلافات کو چنگاری دکھائی، فتنہ پرور تلواریں سونتیں، اختلاف و تصادم کیلیے کوششیں کیں، ان کے نظریات در آمد شدہ ہیں، پست ذہن اور بیمار سوچ کے حامل ہیں، سر کش نظریات نے انہیں گمراہ گھاٹیوں اور متضاد راستوں میں گم کر دیا، چنانچہ انہوں نے لوگوں کی تکفیر کی، انہیں دہشت زدہ اور خوف زدہ کیا، قتل و غارت کی ، دھماکے کیے، دھوکہ دہی اور بد عہدی سے کام لیا، انہوں نے ذمیوں کا لحاظ رکھا اور نہ ہی مسلمانوں کو معاف کیا۔
انہوں نے شہادت کی چاہت میں اپنے آپ کو خود کشی کی بھٹی میں گرایا، اور جہاد کے نام پر بغاوت پر اکسایا، یہ بہت ہی بیوقوف اور کسی بھی صدائے خر کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں، دلائل کا مقابلہ جھگڑ کر، اصولوں کا مغالطوں سے، اور مسلمہ باتوں کا گھٹیا شبہات سے کرتے ہیں، یہ وتیرہ انہیں مزید شکوک و شبہات اور حیرت و تذبذب میں ڈال دیتا ہے۔
یہ باغی لوگ ہیں، ان کا دفاع باطل کا دفاع ہے، ان کا تعاون اسلام کے خاتمے کیلیے تعاون ہے، یہ آگ کے پتنگے، دھوکے میں پڑے ہوئے کچی عمر کے حامل بیوقوف اور شریر لوگ ہیں، انہوں نے سلف صالحین کے منہج سے انحراف اختیار کیا، اور پوری امت کے اجماعی مسائل کو یکسر مسترد کر دیا جنہیں پوری امت نسل در نسل بیان کرتی آئی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص بغاوت کرے اور ملت کو چھوڑ دے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے، اور جو شخص کسی جھنڈے تلے اندھی تقلید میں لڑے یا تعصب کی بنا پر غصہ کرے یا تعصب کی دعوت دے یا مدد بھی کرے تو تعصب کی بنا پر اور پھر اسی وجہ سے قتل کر دیا جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا، میرا کوئی بھی امتی میری امت کے خلاف بغاوت کرے اور نیک و بد ہر کسی کا قتل کرے ، کسی مومن سے ہاتھ نہ روکے، اور ذمی کے عہد کا خیال نہ کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘(مسلم)
یہ گمراہ جماعت ہے، ان کے دل کینے اور سینے حسد سے بھر پور ہیں، انہوں نے چند دن پہلے بد عہدی و خیانت سے کام لیتے ہوئے انتہائی مذموم حرکت کی اور احساء میں دھماکہ کیا ، ان کا خمیرہ ہی برا ہے انہیں جلد ہی اکھاڑ پھینکا جائے گا، ان کی رگ و پے کو کاٹ دیا جائے گا، ان کی تمام حرکتوں کی نگرانی جاری ہے، اور سب ان کی بیخ کنی کیلیے پر عزم ہیں۔
ایک طرف بچپنا، نو عمری اور کچا ذہن ؛ جبکہ دوسری جانب سادگی اور معصومیت دونوں لازم و ملزوم ہیں، نو عمر لڑکا کم فہم اور نا تجربہ کار ہوتا ہے، چنانچہ نو عمری میں اگر کسی غیر معتمد شخص کی رفاقت ملے جس کا عقیدہ، امانت اور دیانت مشکوک ہوں تو یہ خبیث انسان انہیں غیر محسوس طریقے سے گمراہ کر دیتا ہے، انہیں باطل کے چنگل میں پھنستے ہوئے ذرا احساس نہیں ہونے دیتا، اور لا علمی میں اسے زہر کا پیالہ پلا دیتا ہے، اور اسے دین، ملک، اہل خانہ، اور عزیز و اقارب سب کے ساتھ مسلح تصادم کیلیے تیار کر دیتا ہے، لیکن نو عمر جوان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔
جو اپنی اولاد کو درندوں کی وادی عبور کرنے اور بھوکے بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کیلیے اکیلا چھوڑ دے، اندھیری راتوں اور ریگزاروں میں تنہا چلنے دے تو حقیقت میں اس نے اپنی اولاد کو فروخت اور ضائع کر دیا نیز انہیں بد ترین مخلوق کے چنگل میں پھنسا کر اُن کا ہدف مزید آسان بنا دیا ہے۔
جو شخص اپنی اولاد کو لہو و لعب اور گناہوں کیلیے کھلا چھوڑ دے کہ پر فتن زمین پر ٹامک ٹوئیاں ماریں، لوگوں کی بھیڑ میں گھسیں، جسے چاہے مرضی سے دوست بنائیں، ان کی نگرانی کرنے والا کوئی نہ ہو، بلا روک ٹوک رات گھر سے باہر گزاریں، بغیر کسی وجہ کے گھر سے دور رہیں، تو اس نے اپنی اولاد پر بہت ظلم کیا، وہ اس وقت ماتھے پر کلنک ثابت ہونگے جب وہ شیطانی کارندوں ، بزدلوں کی تقریروں، انتہا پسندوں کی تحریروں، خارجیوں کے فتووں، خفیہ تنظیموں ، دہشت گرد اور تکفیری جماعتوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گے، یہ تمام گروہ بندی پر مشتمل تحریکیں ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں حکمران، علما اور ملک کے بارے میں کینہ پروری سر انجام دے رہی ہیں۔
والدین، اور سر پرست حضرات!
آپ اس بارے میں کوتاہی، غفلت، تاخیر اور سستی برتنے سے بالکل باز رہیں، اپنے بچوں کے دلوں میں دین و ملک کی محبت جا گزیں کریں؛ حکمرانوں ، علما ، سکیورٹی فورس اور ائمہ کرام سے تعلق اور وابستگی پیدا کریں، لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ہو گا جب انہیں پیار، محبت، احسان، اچھی صحبت، اچھا برتاؤ، علم، اور مکمل تحفظ ملے ہوگا۔
خوارج اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے نا فرمان ہیں، انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے تصادم اختیار کیا، خوارج کی دو اقسام ہیں: یعنی شیطان کے دو سینگ ہیں، ایک بیٹھ کر منصوبہ بندی کرنے والا اور دوسرا خدمت گزار طبقہ : پہلا وہ ہے جو نو عمر لڑکوں کیلیے انقلاب کو خوش نماز بنا کر پیش کرتے ہیں، انہیں حکمرانوں کے خلاف بغاوت پر اکساتے ہیں، حتی کہ ان کیلیے خود کش حملے بھی جائز قرار دیتے ہیں، انہیں مغفرت اور جنت کا فریب دیتے ہیں، نیز انہیں اس بارے میں غلط فتوے بھی دکھاتے ہیں، جس پر کچی عمر کے لڑکے خود کش جیکٹ پہننے ، بارود سے بھری گاڑی چلانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، پھر مساجد ، عبادت گاہوں ، بازاروں اور اجتماعات وغیرہ میں دھماکے کر کے قتل و غارت کرتے ہیں۔
جبکہ دوسرا سینگ خدمت گزاروں پر مشتمل ہے جو کج فہم، اور نو عمر جوان ہیں ، ان کا کام ان شیطانی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا ہے، یہ لوگ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔
تیز طرار نوجوان!
بناوٹی خوبصورتی سے مزین جھوٹ اور باطل بات تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے! کیونکہ اگر تمہیں یہ کام کرنے کی دعوت دینے والا حقیقت میں مجاہد اور اتنا ہی خیر خواہ ہوتا تو تمہیں خود کش حملے کی دعوت دینے سے پہلے اپنے آپ کو دھماکے میں اڑاتا، لیکن وہ تمہیں دھوکہ دے کر خود زندگی اور مال و متاع کے مزے اڑانا چاہتا ہے، اور تمہیں موٹ کے گھاٹ اتار کر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، اس لیے تم خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاؤ، گمراہی چھوڑ کر حق کے راہی بن جاؤ، اپنے فائدے کیلیے واپس آ جاؤ اور اپنے اہل خانہ سمیت کسی کیلیے وبال جان مت بنو!
مسترد لوگوں کے پیچھے چلنے والے! عناد اور ہٹ دھرمی اپنانے والے! بغاوت و فساد کیلیے سر گرداں پھرنے والے! کانوں پر گراں گزرنے والی بات کرنے والے! طبیعت پر بھاری بول کہنے والے! حکمران کی اطاعت سے دست بردار ہونے والے! ملت کا شیرازہ بکھیرنے والے! توبہ کیلیے تاخیر، توقف، ڈھیل، اور دیر کرنے والے! تم جتنی تاخیر کرو گے اتنا ٹیڑھا پن زیادہ ہوتا جائے گا، اپنے آپ کو طفل تسلیاں دینے سے گمراہی مزید بڑھے گی، اس لیے اپنے آپ کو روکو، بصیرت سے کام لو، رنگے ہاتھوں پکڑے جانے سے پہلے حق کی طرف رجوع کر لو، اس سے پہلے کہ تمہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور تمہارے چہرے سے ذلت برس رہی ہو،لہٰذا جلد از جلد توبہ کر لو، اس سے پہلے کہ تمہارے خدشات عملی صورت اختیار کر جائیں، اور اگر اپنی مرضی سے توبہ نہیں کرتے تو پھر کڑی سزا کا انتظار کرو۔
یا اللہ! ہمیں شیطانی وسوسوں سے محفوظ فرما، فسادی اور سر کشوں کے راستے سے بچا، میں اپنے گناہوں کی اللہ تعالی سے بخشش چاہتا ہوں تم بھی اسی سے بخشش مانگو، کیونکہ بخشش مانگنے والوں کی کامیابی بہت ہی اعلی ہے!
دوسرا خطبہ:
کمال کی انتہا تک پہنچنے والی تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، جو کہ رضائے الٰہی اور قربِ الٰہی کی موجب بنیں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، ہم اس گواہی کے بدلے میں معافی، عافیت اور رحمتِ الٰہی کے امید وار ہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، رسول، نبی، چنیدہ، بر گزیدہ، مرتضی اور مجتبیٰ ہیں ، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل ، صحابہ کرام اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تمام لوگوں پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو! تقوی الٰہی اختیار کرو، تمہاری مصیبتیں ٹل جائیں گی، جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اتنی ہی نوازشیںملیں گی اصل نیکی اور تقوی خلوت و تنہائی میں کی جانے والی نیکی اور تقوی ہے،

وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(الأنعام : 155)

’’یہ کتاب ہم نے نازل کی جو کہ با برکت ہے، اس کی اتباع کرو، اور تقوی اپناؤ تا کہ تم پر رحم کیا جائے‘‘
شام کے علاقے مضایا کا محاصرہ دشمنان اسلام کی جانب سے جاری ہے، اور عالمی طاقتوں کی طرف سے بھی محاصرین کو تائید حاصل ہے، جس سے یقین ہوتا ہے کہ دنیا میں جنگل کا قانون رائج ہے، پوری قوم کو بھوک اور دہشت گردی کے زور پر مقہور کیا جا رہا ہے، خواتین، بوڑھے، بچے سب کے سب خوف و ہراس، بھوک، بیماری، اور سردی میں محصور ہیں، ان کے پاس دوا، غذا، بستر، لحاف سمیت ہڈیوں میں گھستی سردی سے بچنے کیلیے کوئی انتظام نہیں ہے۔
عالمی طاقتیں بھی خاموشی اور چپ سادھنے کی وجہ سے ان دہشت گردانہ جرائم میں برابر کی شریک شمار ہوتی ہے، حالانکہ المناک اور پر سوز مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہے ہیں۔
جن علاقوں میں مساجد و تعلیمی اداروں کو گرایا جا رہا ہے، با اثر شخصیات کو قتل کیا جارہاہے، ان علاقوں کا محاصرہ کر کے وہاں کے مکینوں کو بھوک سے تڑپا کر مارا جا رہا ہے، یہ روز روشن کی طرح عیاں اور قطعی دلیل ہے کہ ان سب کا ایک ہی مشترکہ ہدف ہے، نیز تقسیم کرنے کی پالیسی اور تبدیلی کے نام پر جلا وطنی بھی مشترکہ ہدف ہے،

وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ(البقرة : 253)

اگر اللہ تعالی چاہتا تو وہ مڈ بھیڑ میں مبتلا نہ ہوتے، لیکن اللہ تعالی جو چاہتا ہے کر دیکھتا ہے۔ مسلمانو!
احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار درود و سلام بھیجو، جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا سمیع! یا قریب! یا مجیب!

معاملات کے بارے میں قرآن مجید کا سنہری اُصول

6ـ اچھائی کا سب سے اہم بدلہ تو جنت ہے:

ہَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(الرحمٰن:60)

’’ کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتا ہے‘‘
وضاحت: پہلے احسان سے مراد اہل جنت کے وہ نیک اعمال ہیں جو وہ دنیا میں سرانجام دیتے رہے۔اور دوسرے احسان سے مراد جنت کی وہ نعمتیں ہیں جن کا ذکر ہو رہاہے۔ اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہوسکتا ہے۔
7ـ انسان کی دین داری کا اندازہ اس کے معاملات سے ظاہر ہوتا ہے:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِنَّ خَیْرَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاء۔[بخاری]

یقینا بہترین انسان تو وہ ہے جو ادائیگی میں سب سے بہتر ہو۔
8ـ خیر خواہی کی بدولت اللہ تعالی مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے:
جب اللہ کے رسولﷺ پہلی وحی آنے پر خوف زدہ ہوگئے تھے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچائی سے کام لیتے ہیں، لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، حق کی باتوں پر مدد کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔(بخاری)
9ـ دوسروں کے ساتھ بہترین خیرخواہی یہ ہے کہ انہیں جہنم سے بچانا اور جنت کا راستہ دکھانا:
نبی کریم ﷺ نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:

فَوَاللَّهِ لأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رجلاً وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ۔[بخاری]

اللہ کی قسم! اگر آپ کے ذریعہ اللہ تعالی کسی ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ آپ کے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
0ـ خیرخواہی مکمل ایمان کی نشانی ہے:
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہےکہ:

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مکمل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرے جووہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔(بخاري (1/ 12)
ـ! مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو:
دین میں اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دی جائے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ

مسلمان تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(صحيح البخاري (1/ 11)
وضاحت: جھوٹ بولنا زبان کا غلط استعمال اور ناحق مال کمانے کا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
ـ@ سچائی سے کام لینا خیرخواہی کا ثبوت ہے جو جنت تک لے جاتا ہے اور جھوٹ جہنم میں پہنچا دیتا ہے:
اللہ کےپیارے نبی محمد ﷺ نے فرمایا: ہمیشہ سچ بولیں کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔اور جھوٹ سے گریز کریں کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم میں پہچادیتی ہے۔(مسلم)
# تجارت میں سچائی سےکام لینے كکے فوائد اور جھوٹ بولنے كکے نقصانات:
1پہلا نقصان: سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، – أَوْ قَالَ: حَتَّى يَتَفَرَّقَا – فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا(صحيح البخاري (3/ 59)

’’بیچنے والے اور خریدنے والے کو سودا واپس کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ الگ نہ ہوجائیں۔یا (آپﷺ نے) فرمایاحتی کہ وہ دونوں الگ نہ ہوجائیں۔پس اگر وہ دونوں سچائی سے کام لیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت نازل ہوتی ہے، اگر وہ جھوٹ سے کام لیںاور عیب چھپائیں تو ان کی تجارت کی برکت مٹ جاتی ہے‘‘
2ـ دوسرا نقصان: آپس میں بات خراب ہوجاتی ہے جس کے نتیجہ میں اعتبار اٹھ جاتا ہے۔
3ـ تیسرا نقصان: یہ ظلم کی ایک صورت ہے جس وجہ سے جس پر ظلم ہوا ہو اس کی بددعا فورا قبول ہوتی ہے۔
$ناجائز کمائی کرنے والے کی دعا قبول نہ ہونے کے اسباب:
پہلا سبب: ناجائز مال کمانا شریعت کی مخالفت ہے۔
دوسرا سبب: ناجائز کمائی کرنے والا عموما دوسرے پر ظلم کر رہا ہوتا ہے، اور جب وہ دعا کرتا ہے تو اس سے پہلے مظلوم کی بد دعا قبول ہوجاتی ہے، جس وجہ سے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
قصہ: ایک مرتبہ محمد بن واسع رحمۃ اللہ علیہ سے بلال بن ابی بردہ نےگزارش کی کہ میرے لئے دعا کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ میری دعا کا کائی فائدہ نہیں ہوگا،کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے ان پر ظلم کیا ہے تو میری دعا سے پہلے ان کی بد دعا قبول ہو جائے گی، اس لئے کسی پر ظلم نہ کریں تو میری دعاؤں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ بلال بن ابی بردہ نے محمد بن واسع رحمۃ اللہ علیہ سے دعا کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ میری دعا سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ آپ کے دروازے پرلوگ کھڑے ہوکر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے ان پر ظلم کیا ہے، ان کی بددعا میری دعا سے پہلے ہی قبول ہوجائے گی،لہٰذا آپ ظلم کرنا چھوڑدیں تو میری دعا کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
% محتاج لوگوں کا حق کھانے سے مال تباہ ہوجاتا ہے:
اللہ تعالی نے سورۃ القلم میں ایک واقعہ ذکر فرمایا ہے:
’’ہم نے انہیں ایسے ہی آزمایا ہے جیسے باغ والوں کو آزمایا تھا۔جب انہوں نے قسمیں کھائیں کہ وہ صبح دم ہی باغ کا پھل توڑ لیں گے۔اور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے۔ پھر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک آفت اس باغ پر پھر گئی جبکہ وہ ابھی سوئے ہوئے تھے۔ اور باغ یوں ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی ہو۔وہ صبح دم ہی ایک دوسرے کو پکارنے لگے۔ کہ اگر تمہیں پھل توڑنا ہے تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو۔پھر وہ چل کھڑے ہوئے اور آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے تھے۔ کہ آج کوئی مسکین تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ اور وہ صبح سویرے ہی لپکتے ہوئے وہاں جاپہنچے جیسے وہ (پھل توڑنے کی) پوری قدرت رکھتے ہیں۔ پھر جب انہوں نے باغ کی طرف دیکھا تو کہنے لگے : یقینا ہم راہ بھول گئے ہیں۔ (پھر غور سے دیکھا تو کہنے لگے) بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹ گئے ہیں۔ ان کے منجھلے نے کہا : میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟وہ کہنے لگے : پاک ہے ہمارا پروردگار، ہم ہی ظالم تھے۔ پھر وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر آپس میں ملامت کرنے لگے۔ بولے : ہائے افسوس! ہم ہی سرکش ہوگئے تھے۔ کچھ بعید نہیں۔ہمارا پروردگار ہمیں اس کے بدلے میں اس سے اچھا باغ عطا فرمائے۔ہم اپنے پروردگار کی طرف راغب ہوتے ہیں ‘‘(القلم :17-32)
باغ والوں کا قصہ : کسی شخص کا ایک باغ تھا جو بھرپور فصل دیتا تھا۔اس شخص کا زندگی بھر یہ دستور رہاکہ جب بھی پھل کی فصل اٹھاتا تو اس کے تین حصے کرتا۔ایک حصہ تو خود اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتا۔دوسرا حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کر دیتا اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین میں بانٹ دیتا۔اس کی اس سخاوت کی وجہ سے اس کا باغ سب سے زیادہ فصل دیتا۔کٹائی کے دن فقراء و مساکین موقع پر پہنچ جاتے اور اپنا اپنا حصہ وصول کر لیتے۔
جب یہ شخص انتقال کر گیا تو اس کے بیٹوں کو خیال آیا کہ ہمارا باپ تو ساری عمر اس باغ کی فصل کو ادھر ادھر تقسیم کرکے اپنی کمائی یوں ہی لٹاتا رہا اور زندگی بھر مفلس ہی رہا۔اب هیہ معاملہ ختم کردینا چاہیے۔ باغ ہمارا ہے اور اس پر ہمارا ہی حق ہے چنانچہ انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جب کٹائی کا موقع آئے تو راتوں رات ہی کرلی جائے۔تاکہ نہ غریب مسکین آئیں، نہ ہمیں تنگ کریں اور نہ ہم برے بنیں۔انہوں نے اس بات پر قسمیں کھائیں کہ ایسا ہی کریں گے اور انہیں اپنی تجویز پر اس قدر وثوق تھا کہ انہوں نے ان شاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔
جب کٹائی کا وقت آیا تو وہ راتوں رات، خوشی خوشی، اچھلتے کودتے اپنے باغ کی طرف روانہ ہوئے ادھر اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اسی رات سخت آندھی کا طوفان آیا۔جس میں آگ تھی۔آندھی کے ذریعہ وہ آگ باغ کے درختوں تک پہنچ گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہیں جلا کر راکھ کر گئی۔آن کی آن میں سارا باغ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔جب یہ عقل مند بیٹے وہاں پہنچے تو وہاں نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔انہیں وہاں باغ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔سوچنے لگے کہ ہم شاید رات کے اندھیرے میں کسی غلط جگہ پر پہنچ گئے۔پھر جب کچھ حواس درست ہوئے تو حقیقت ان پر آشکار ہوگئی کہ ان کی نیت کا فتور آندھی کا عذاب بن کر ان کے باغ کو بھسم کر گیا ہے۔اب وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ان کے منجھلے بھائی نے کہا کیا میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرو۔اسے ہر وقت یاد رکھو اور اسی سے خیر مانگو۔مگر ان بھائیوں میں سے کسی نے بھی منجھلے بھائی کی طرف توجہ نہ دی تو ناچار اسے بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔اور وہ ملامت بھی اس طرح کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو کہتا کہ تم ہی نے تو یہ ترغیب دی تھی دوسرا کہتا کہ یہ مشورہ تو تمہارا تھا مگر اب پچھتانے سے کچھ بن نہ سکتا تھا۔جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔
باپ کو اس کی سخاوت اور دوسروں سے ہمدردی کا یہ صلہ ملتا رہا کہ اسی کا باغ سب سے زیادہ پھل لاتا تھا اور جتنا کچھ وہ دوسروں پر خرچ کرتا۔اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اسے مہیا فرماتا۔مگر جب بیٹوں پر بخل اور حرص غالب آئی تو اس کا ثمرہ یوں ملا کہ نیت کے فتور نے مجسم طوفان کا روپ دھار کر سارا باغ ملیا میٹ کردیا۔اس وقت نہ زمین کی زرخیزی کام آئی، نہ ان کی کوئی تدبیر، اس واقعہ سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی بنا پر اگر اللہ تعالیٰ نادیدنی وسائل کے ذریعہ رزق فراہم کرسکتا ہے تو نیت میں فتور آنے پر ایسے ہی نادیدنی وسائل سے دیئے ہوئے رزق کو چھین بھی سکتا ہے۔آخر سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں اور محتاجوں کا حق مارنا چاہا اور حرص و طمع میں آکر اصل بھی کھو بیٹھے۔یہ جو کچھ خرابی آئی اس میں ہم ہی قصور وار ہیں۔مگر اب بھی ہم اپنے پروردگار سے ناامید نہیں کیا عجیب ہے کہ وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ ہم کو عطا کردے۔
^ معاملات میں خرابی عبادات کو بھی ضائع کردیتی ہے:
اگر معاملات درست نہ ہوں تو نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام نے فرمایا: مفلس تو وہ ہے جس کے پاس نہ کوئی درہم ہو اور نہ ہی کوئی مال، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز، روزے اور زکاۃ لے کر تو آئے گا لیکن اس کی حالت یہ ہوگی کہ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بھایا تھا اور کسی کو مارا تھا، تو اس (ظالم) کی نیکیاں ان (مظلوموں) کو دے دی جائیں گی، اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں جبکہ اس کے ظلم کا بدلہ باقی ہو تو مظلوموں کے گناہوں کو اٹھاکر اس ظالم پر ڈال دیا جائے گا اور آخر کار جھنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ [مسلم]
دعا: اللہ رب العالمین ہم سب کو بھلائی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے محفوظ فرمائے۔آمین۔
(جاری ہے)