گلشن اقبال پارک لاہور میں 74 معصوم بچوں،خواتین اور مردوں کے خون سے ہولی انتہا ئی المناک ،شرمناک قابل مذمت سانحہ ہے ظالموں نے پاکستان کو پھر لہولہان کر دیا کئی پھول پھر مرجھا گئے ، کئی جگر گوشے اپنی ماؤں کو چھوڑ گئے،کئی مائیں ہنستے کھیلتے گھر کو ویران کر گئیں ،کتنے گھروں سے جنازے اٹھے ، کتنی آنکھیں پُر نم ہوئیں ،کتنوں نے سسکیوں اور آہوں میں اپنے پیاروں کو لحد میں اتارا ۔ ایک گلشن اقبال میں کتنے گلشن اجڑ گئے ،کتنے آنگن سونے ہوئےہوں گے ہر دل تارتار ہے ۔ اُن درندوں سے کوئی پوچھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ پارک میں سیر وتفریح کرتے ہوئے بے قصور لوگوں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا کیا اسلام میں ایسے معصوم لوگوں کی جان لینا جائز ہے ؟ بچوں اور عورتوں کی جان لینا کونسا اسلام ہے ؟ یہ کس اسلام کی تعلیمات ہیں ؟ یہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کو بدنام کیا جارہاہے؟ اسلام تو حالتِ جنگ میں بھی بے ضرر لوگوں کو قتل کرنے سے سختی سے منع کرتاہے۔ لاہور میں جو کچھ ہوا اس پر ہر صاحب عقل وبصیرت غمزدہ ہے بلکہ جو کچھ اسلام آباد،پشاور اور چارسدہ میں ہوا ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء سے اب تک لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں 48 خود کش حملوں کے نتیجہ میں 329 معصوم افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ 2013ء میں پانچ خود کش حملوں میں 14 افراد جاں بحق ہوئےاور 2014 میں 16 خود کش حملوں میں 125 افراد زندگی کی بازی ہار گئے 2015ء میں واہگہ بارڈر خودکش دھماکہ میں 199 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ملک میں اب تک جتنے بھی معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا جس کی تعداد ہزاروں تک ہے یہ سراسر ظلم اور درندگی ہے ۔لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر تنگ آچکےہیں،مائیں اپنے لاڈلوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھیں ہیں۔ پھر بلند وباغ دعووں کی آواز سنائی دیتی ہے، آپریشن ہوتاہے،دہشت گرد پکڑنے کا دعوی کیا جاتاہےپھر کوئی اور دہشت گردی ہوجاتی ہے پھر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے سب آپریشن دھرے کا دھرا رہ جاتاہے۔
اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور باعث شرم بات یہ ہوئی ہے کہ ہمارے ملک کا بے لگام الیکٹرونک میڈیا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی غم والم کے سانحہ میں قوم کے زخموں پر نمک پاشی کرتا نظر آتاہے۔ مسجد ومدرسہ اور ٹوپی اور سنت رسول مقبول ﷺ کی توہین کرنے میں کوئی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتا ۔ جائے حادثہ سے محمد یوسف نامی ایک داڑھی اور ٹوپی والے کا شناختی کارڈ کیا ملا کہ اکثر چینلز والے اپنے خبث باطن کا واضح طور پر اظہار کرتے ہوئے نظر آئے بلکہ اغیار کی دی ہوئی گائیڈ لائف کے مطابق انہیں کی زبان بولتے پائے گئے ۔شعار اسلام پر گز گز لمبی زبانیں نکالتے نہیں تھکتے، زیادہ تر اینکرپرسن اپنے بے دین اور لبرلز ہونے کا ثبوت پیش کر رہے تھے اور اغیار کو بتانا چاہ رہے تھے کہ ہم بھی عبید شرمین چنائے سے کم نہیں ہیں ہم بھی آپ کے وفادار ہیں۔بس فرق یہ ہے کہ ہم پاکستان میں ہیں اور وہ محترمہ امریکہ میں۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ صحافتی روایات کو پس پشت ڈال کر بغیر تحقیق اور ٹھوس شواہد کے ایک عام شہری کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتاہے قصور صرف سنت رسول ﷺ داڑھی اور ٹوپی ٹھہرتی ہے۔آج کا میڈیا کس قدر اخلاقیات سے عاری ہے کہ کسی بھی بے گناہ اور شریف ومعزز آدمی کی عزت نفس کو پامال کرکے اسے ذلیل ورسوا کرنااپنا وظیفۂ منصبی سمجھتاہے۔ عقل کے اندھے میڈیا پر سنز نےیہ سوچنا بھی گوارہ نہ کیا کہ دہشت گرد اپنے ساتھ اپنا ثبوت شناختی کارڈ بھی لے کر آئے گا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کےوفادار کا مصداق بنتے ہوئے ہماری پولیس پھرتی دکھاتی ہےکہ چند گھنٹوں میں محمد یوسف کے پورے خاندان کو پابند سلاسل کردیا اس کامیابی پر میڈیا اور سیکورٹی والے پھولے نہ سمائےمگر سنت رسول ﷺ کی توہین کی پاداش میں اُن کی یہ خوشی چند گھنٹوں میں ہی رفوچکر ہوگئی کیونکہ محمد یوسف اور اس کا خاندان تو خود اس المناک سانحہ کا شکار ہونے والوں میں شامل تھا۔حکومت وقت سے اپیل ہے کہ 

ایسے منہ زور میڈیا کو لگا دی جائےاوراس بے ضمیر میڈیا کو اپنا قصور مان کر محمد یوسف کے گھر والوں سے سرعام معافی مانگنی چاہیے کیونکہ دور حاضر میں اصلاح معاشرہ میں زیادہ کردار بھی میڈیا کا ہے اور معاشرے کے بگاڑ میں بھی اسی کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
اس لیے میڈیا،حکومت اور عدالتوں کو عدل وانصاف سے کام لینا چاہیے اور اپنا رول بھر پور طریقہ سے ادا کرنا چاہیے۔ عدل وانصاف کی بالادستی تو قرآن وسنت سے ثابت ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں۔مگر کتاب وسنت تو ہمارے ان اداروں کوہضم ہی نہیں ہو رہا تو وہ اس پر عمل کہاں سے کرے اور کروائیں گے۔ تو پھر ٹھیک سے اپنے آقاؤں کا قول ہی پڑھ لیں کہ چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں عدل وانصاف سے کام کر رہی ہیں تو پھر کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ظلم اور ناانصافی سے ملک کبھی نہیں چلتے،قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں، اس لیے ہمیں اپنے عدالتی نظام کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا اور میڈیا کو بھی اسلام ، ملک وقوم کا خیر خواہ ہونے پر پابند بنانا ہوگا اسی سے ملک میں دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا ایک اعلیٰ سطح کا عہدیدار ’’کل بھوشن یادیو‘‘ ایران کے شہر چاہ بہار میں بیٹھ کر بلوچستان میں علیحدگی پسندی اور فرقہ وارانہ کارروائیوں کے لیے مالی اور تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے بلکہ پورے ملک میں خاص طور پر کراچی میں دہشت گردی میں ملوث بھی ہے جس کا وہ خود بھی اعتراف کر چکا ہے اس نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ ایران سے کئی دفعہ پاکستان میں داخل ہوا اور اس نے اپنا نام بھی حسین مبارک پٹیل رکھا ہوا تھا کسی بھارتی شہری کا بھیس بدل کر پاکستانی سرحد میں داخل ہونا ایرانی سرحدی عہدیداروں کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ حسین مبارک پٹیل کے اعتراف سے پاکستان میں بھارتی مداخلت اور ریاستی دہشت گردی طشت ازبام ہوگئی ہے کہ یہ بھارتی جاسوس نہ صرف بلوچستان میں تخریب کاری ،دہشت گردی اور گھناونی وارداتوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے بلکہ پورے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کا منصوبہ رکھتاتھا اور اس جاسوس کے مدد گاروں میں افغانستان اور ایران کا نام بھی لیا جارہا ہے کتنے افسوس کی بات ہے کہ دونوں ملک اسلام کا نام لینے والے ہیں اور اپنے بھائی اسلامی ملک کے خلاف گائے کے پجاریوں کی مدد بھی کر رہے ہیں ہمارے ارباب اقتدار کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ان ممالک کے ساتھ روابط پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان سے تعلقات ایک حد تک ہی رکھنے ہوں گے کیونکہ ان کے مکروہ چہروں سے پردہ اُتر چکا ہے اور ان کی سازشوں سے بھی باخبر رہنا ہوگا۔سیاستدانوں کو اب بھارت کے بارے اپنے دل میں نرم گوشے کو ختم کردینا چاہیے ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے والوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے دوستی چاہتے ہیں مگر ملکی بقا اور سالمیت کو نام نہاد دوستی اور تجارت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہتے ہندوستان ناقابل اعتبار ملک ہے وہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ دھوکہ دے چکا ہے۔
بھارتی تخریب کار’’را‘‘ کے جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری پر ملک کی سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ سیکورٹی اداروں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ملک دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھیں بھارت نواز پروپیگنڈہ کرنے والے میڈیا کے لوگ اور خاص طور پر بعض سیاسی جماعتیں جو کہ بھارت کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں پیش پیش ہیں بھارت جو کہ ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کر چکا ہے جس کا اعتراف ان کا وزیر اعظم مودی قصاب بنگلہ دیش میں سینہ ٹھوکر کر چکا ہے اور باقی ملک کے بھی حصےبخرے کرنا چاہتا ہے ہم ہیں کہ بھارت کے خوشی کے تہوار’’ہولی‘‘ کے موقعہ پر پورے ایک صوبہ میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہیں اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں ایسے لوگ ملک وقوم اور اسلام کے وفادار نہیں ہوسکتے یہی لوگ ملک کی تخریب کاری اور دہشت گردی کا سبب بنتے ہیں ان کے دشمنوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے غیروں کو ملک میں کارروائیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اگر مکمل تحقیقات کی جائے تو سانحہ گلشن اقبال پارک لاہورکے تانے بانےبھی بھارت سے ملیں گے۔ لاہور کو پھر سے لہو لہان اسی نے کیا ہے یا کروایا ہے۔
بقول شاعر نسیم سحر ؎
پھر ایک بار میرا وطن ہے لہو لہو
کاغذ پہ جو لکھا وہ سخن لہو لہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے