سسکتی تکبیریںخالی وضو خانے ویران مسجدیںپوچھ رہی ہیں اللہ سے: رمضان ختم ہو ا یا مسلمان رمضان المبارک و سعادت کے بعد عید کا دن خوشی کا دن ہے انکے لئے جنہوں نے اپنے شب و روز عبادت و ریاضت اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل، حمد و ثناء، درودو سلام ، سحر و افطار اور تراویح کے گوش کر دئیے۔ ان خوش قسمت اور با مراد لوگوں کے لئے یوم الجزااور یوم الانعام ہے۔ اور یہ صرف دنیا میں اللہ رب العالمین کا انعام ہے آخرت میں اللہ کے پاس ایسے لوگوں کے لئے بے پناہ اجر و ثواب ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ دن اظہار تشکر ہے۔ جس کا اظہار وہ صاف کپڑے پہن کرتکبیرات پڑھ کر صدقہ و خیرات کرکےکرتے ہیں۔ یہاں تک کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’ عید اللہ کی جانب سے نازل کر دہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان

’’ان لکل قوم عیدا ون عید نا ھذا‘‘(صحیح بخاری)

’’ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہ اور یہ ہماری عید ہے ‘‘

کے مطابق یہ عیدین امت کی خصوصیت ہیں۔ لیکن عید کے گزرنے کے بعد ہمیں کرنا کیا ہے۔کیا ہم دوبارہ اسی رستے پر آجائیں ۔ کیا پر اسی روش پر اپنی زندگی کے شب و روز گزاریں۔ جس پر رمضان سے پہلے تھے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ماہ رمضان المبارک کو بھیجنے کا مقصد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ہم سے کیا مطلوب ہے اور ہمیں اس ماہ سعادت سے کیا فیض حاصل ہوا۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی طرز کے حوالے سے عید کی ایک منظر کشی کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں:عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے خود کو آراستہ کیا بلکہ عید تو اس کی ہے ۔ جو اللہ کی پکڑ اور وعید سے ڈر گئے عید اس کی نہیں جنہوں نے آج بہت سی خوشیوں کا استعمال کیا عید تو اس کی ہے جنہوں نے گناہوں پر تو بہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید اس کی نہیں جنہوں نے دیگیں چڑھا ئیں اور بہت سے کھانے پکائے بلکہ عید اس کی ہے جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور استطاعت کے مطابق سعادت حاصل کی عید س کی نہیں جو دنیا کی زیب و زینت کے ساتھ نکلے عید اس کی ہے جنہوں نے تقویٰ اور پر ہیز گاری کا گوشہ بنایا۔ عید اس کی نہیں جنہوں نے عمدہ سواریوں پر سواری کی عید اس کی ہے جنہوں نے گناہوں کو چھوڑ دیا۔ عید اس کی نہیں جنہوںنے گناہوں کو چھوڑ دیا ، عید اس کی نہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کے فرش سے اپنے گھر کو آراستہ کیا ، عید اس کی ہے جو پل صراط سے گزر گئے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھنے والے کسی نے دیکھاعید کے دن خشک روٹی کھارہے تھے کہا اے ابو تراب آج تو عید کا دن ہے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ ہو۔ وہب ؒ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھاتو کہا آج تو پر مسرت خوشی کا دن ہے آپ آج کیوں روتے ہیں فرمایا : یہ دن خوشی کا دن اس کے لئے ہے جس کے روزے قبول ہوگئے۔ اسی لئے ہمیں رمضان المبارک کے اختتام پر فکر اس با ت کی ہونی چاہیے کہ ہماری نیکی قبول ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کو ہم سے قبول کرلیں پسند آجائے۔ اس لئے عید کے بعد دوبارہ ہمیں چھ روزوں کا حکم ملتا ہے۔سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جو شخص رمضان کے روزے رکھ کر ( ہر سال) شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھے گا اسے عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے‘‘ (صحیح مسلم) قرآن پاک میں آتا ہے ہر نیکی کا دس گنا اجر (رمضان کے 30 کو10سے ضرب دیں تو 300) اور ان 6کو 10 سے ضرب دیں تو 60 بنتا ہے یعنی سال میں 360 دن ہوتے ہیں۔پھر جو روزے چھوٹ جائیں اس کی قضا بھی ضروری ہے۔ یہ لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور وقفہ کر کر بھی۔

یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ‘‘

’’اللہ آسانی کا ارادہ چاہتا ہے تم سے مشکل کا نہیں‘‘

پر اس کے علاوہ اور دنوں کے بھی جو روزے ہیں ان کا بھی اہتمام کرنا چاہیے جیسے رمضان کے بعد ذی الحجۃ کا پہلا عشرہ: جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجۃ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں کوئی دوسرے ایام ایسے نہیں جن میں کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کو ان دنوں سے زیادہ محبوب ہو۔ اسی طرح 9 ذی الحجہ کا روزہ جس کو رکھنے پر پچھلے اور آئندہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اسی طرح سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا جس کے بارے میں حدیث میں آتاہے کہ اس دن میں نامہ اعمال پیش ہو تومیںروزے سے ہوں اسی طرح ایام بیض ہر ماہ کے 15, 14, 13 تاریخ کا روزہ بھی سنت سے ثابت ہے جو رسول علیہ صلوٰۃ والسلام کا معمول تھا۔ لیکن افسوس آج ہم نے امت مسلمہ نے روزوں کو صرف رمضان کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ اسی طرح قیام الیل بھی وہ عمل ہے جو ہم نے صرف رمضان کیساتھ خاص کر دیا ہے۔ جب کہ نبی صلاۃ و السلام نے فرمایا: فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔ تو غور کریں کیا باقی مہینوں میں بھی یہ قیام و صیام ہمارے معمولات میں ہوگا۔ کیا جس طرح رمضان میں ہر نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا ہمیں باقی مہینوں میں بھی یاد ہوگا کہ قرآن میں اللہ کا حکم آتا ہے:

’’فاستبقوالخیرات‘‘ (البقرۃ 148)

’’نیکی میں سبقت اختیار کرو‘‘

سوال کریں خود سے اس ایک ماہ کی آسمانی تربیت سے ہم نے کیا سیکھا۔ روزوں کے علاوہ ایک اور عادت فجر سے پہلے اٹھنے کی اور فجر کا قرآن یہ صرف رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے

’’ وقرآن الفجر کان مشھودا‘‘ (الإسراء 78)

’’اور فجر کا قرآن پیش کیا جاتا ہے‘‘

کیا یہ عادت ہماری پختہ ہوئی۔ پھر اسی طرح کھانے میں اعتدال کہ ہم کھانے کے لئے نہیں جئیں گے بلکہ جینے کے لئے کھائیں گے پھر پاکیزہ رزق طیب رزق کھائیں گے۔ اسی طرح غیبت چغلی سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش۔ اسی طرح ذکرکی کثرت۔ ترجمہ:’’ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اللہ کا ذکر کرو ذکر کثیر کرو‘‘ (القرآن)

یہ بھی صرف رمضان کیساتھ مخصوص نہیں کیا گیا۔اسی طرح ہمدردی بھوکوں کا احساس۔

ترجمہ: ’’تمہیںکس چیز نے جہنم میں پھنکوایا۔وہ کہیں گے ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے( القرآن)۔

اسی طرح صبر و شکر (القرآن) اور تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دونگا، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جو یقینا صرف رمضان میں نہیں ہر لمحہ ہے۔ پھر اس کے علاوہ وقت کی پابندی ضبط، نفس جو کچھ اتنی کوشش سے پایا اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہماری یہ عادات اور نیکیاں ہمارے ساتھ باقی رہیں۔ آئندہ بھی برقرار رہیں کیونکہ آپ علیہ صلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اے عبد اللہ تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا پھر اس نے رات کی عبادت چھوڑ دی۔ ایک اور جگہ پر آپ علیہ صلاۃ والسلام سے پوچھا گیا کون سا عمل اللہ کو محبوب ہے فرمایا: جو ہمیشہ کیا جائے خواہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

اسی لئے بہت ضروری ہے کہ ہم جو کچھ کر چکے ان پر استقامت اختیار کریں ایسا نہ ہو کہ رمضان کے اختتام کے ساتھ مسلمان کا بھی اختتام ہو جائے بلکہ رمضان جائے لیکن مسلمان نہ جائے۔  اے مسلمان ! زندگی کو رمضان جیسا بنا لو  تو پھر موت عید جیسی ہوگی۔ ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے