ایمان حاصل کرنے کا اصل ذریعہ قرآنِ کریم ہے لیکن اس مقصد کے لئے قرآن کی تلاوت کے کچھ آداب و شرائط ہیں۔ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو تبھی قرآن سے مذکورہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا ان آداب و شرائط کا پورا پورا اہتمام کرنا چاہئے۔

۱   نیت کی پاکیزگی:

سب سے پہلی چیز نیت کی پاکیزگی ہے۔ یعنی آدمی قرآن مجید کو صرف ہدایت حاصل کرنے کے لئے پڑھے، کوئی ذاتی غرض سامنے رکھ کر نہ پڑھے، اگر طلبِ ہدایت کے سوا آدمی کے سامنے کوئی اور غرض ہوگی تو نہ صرف یہ کہ وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم رہے گا بلکہ اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ قرآن مجید سے جتنا دور وہ اب تک رہا ہے، اس سے بھی کچھ زیادہ دور ہٹ جائے گا۔ اگر آدمی قرآن مجید کو اس لئے پڑھے کہ لوگ اسے مفسر قرآن سمجھنے لگیں یا اس لئے پڑھے کہ اس کے کچھ اپنے نظریات ہوں اور وہ اپنے ان نظریات کو قرآن مجید کے رنگ کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا خواہش مند ہو تو ممکن ہے اس کے یہ ارادے کسی حد تک پورے ہوجائیں لیکن اس طرح وہ قرآن مجید سمجھنے کا دروازہ اپنے اوپر بالکل بند کرلے گا۔

قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اور ہرآدمی کے اندر ہدایت کی طلب رکھ دی ہے، اگر اسی طلب کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس سے اپنی کوشش اور اللہ کی توفیق کے مطابق فیض پاتا ہے ، لیکن اگر وہ کسی اور خواہش کے تحت قرآن مجید کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو وہ وہی چیز پاتا ہے جس کا وہ طلب گار ہوتا ہے۔قرآن مجید کی اسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوںکو ہدایت دیتا ہے۔اور یہ اصول بیان فرمانے کے ساتھ ہی یہ بات واضح کردی کہ گمراہ ان لوگوں کو کرتا ہے جو فاسق ہوتے ہیں۔ یعنی جو لوگ اپنی اَغراض کے ایسے بندے ہوتے ہیں کہ وہ ہدایت سے بھی گمراہی ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ وہی چیز دیتا ہے جس کے وہ بھوکے ہوتے ہیں۔ جو لوگ نیت اور ارادہ درست کرکے ہدایت کے حصول کے لئے اس کی طرف بڑھتے ہیں قرآن مجید فوراً ایسے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو اپنی تربیت میں لیتا ہے۔

۲   قرآن مجید کو ایک برتر کلام مانا جائے:

دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور بر تر کلام مان کر اسی حیثیت سے اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اگر دل میں قرآن کریم کی پوری عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کو سمجھنے اور اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر وہ محنت نہیں کرسکتا جو اس کے خزانۂ حکمت سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے۔ قرآن مجید اپنے پیچھے ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے، ذہنوں اور دماغوں کی تبدیلی میں اس کتاب نے جو معجزہ دکھا یا ہے آج تک کسی بھی کتاب نے یہ معجزہ نہیں دکھایا ہے۔

آدمی اس کو سمجھنے کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے، جب اس کی یہ عظمت واہمیت اس کے پیش نظر ہو۔ اگر کسی رقبۂ زمین کے متعلق یہ علم ہو کہ کسی زمانے میں وہاں سے کافی سونا نکلا ہے تو توقع یہی کی جاتی ہے کہ اگر کھدائی کی جائے تو وہاں سے سونا ہی نکلے گا اور پھر اس کی اسی حیثیت کو پیش نظر رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کا سامان کیا جاتا ہے اور اس پر محنت کی جاتی ہے لیکن اگر ایک جگہ کے متعلق یہ سمجھ لیا جائے کہ اگر محنت کی جائے تو زیادہ سے زیادہ یہاں سے کوئلہ یا چونا فراہم ہوگا تو اس پر یا تو کوئی سرے سے اپنا وقت ہی ضائع نہیں کرے گا یا اگر کوئی ارادہ کرلے تو صرف اتنا جس سے اس کو کوئی فائدہ پہنچنے کی توقع ہوگی۔

یہ تنبیہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ بہت سے لوگ قرآن کو محض حلال و حرام بتانے کا ایک ضابطہ سمجھتے ہیں اور فقہ کے احکام علیحدہ مرتب ہوجانے کے بعد ان کی نگاہوں میں اگر اس کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے تو وہ صرف تبرک کے نکتۂ نظر سے ہی ہے۔ اربابِ تصوف اس کو محض ظاہر کا صحیفہ سمجھتے ہیں۔ علم باطن کے اسرار و حقائق ان کے نزدیک کشف سے حاصل ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس کو بس اچھی اچھی نصیحتوں کا ایک مجموعہ سمجھتے ہیں، وہ اس کے اندر کسی گہری حکمت یا کسی بلند فلسفہ کی کوئی توقع نہیں رکھتے۔اس طرح کی غلط فہمیوں میں پڑے ہوئے مسلمانوں کے لئے ناممکن ہے کہ وہ قرآن سے وہ فائدہ اٹھاسکیں جس کے لئے وہ در اصل نازل ہوا ہے ۔ وہ اس کو انہی حقیر اغراض کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جن کے لئے ان کے خیال میں یہ اتر رہا ہے۔ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کو توپ دی جائے کہ وہ اس کے ذریعہ دشمنوں کے قلعہ کو مسمار کردے لیکن وہ اس کو مچھر مارنے کی ایک مشین سمجھ بیٹھے اور اسی حقیر مقصد کے لئے اس کو استعمال کرنا شروع کردے۔

۳   قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کا عزم:

قرآن حکیم سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے لئے تیسری ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کو بدلنے کا مضبوط ارادہ موجود ہو۔ ایک شخص جب قرآنِ مجید کو گہری نگاہ سے پڑھتا ہے تو وہ ہر قدم پر یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کریم کے تقاضے اور مطالبے اس کی اپنی خواہشوں اور چاہتوں سے بالکل مختلف ہیں، وہ دیکھتا ہے کہ اس کے تصورات و نظریات، معاملات و تعلقات، ظاہر و باطن سبھی قرآن مجید کی مقرر کردہ حدود سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں، اس فرق و اختلاف کو محسوس کرکے ایک حق طلب آدمی تو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خواہ کچھ ہو میں اپنے آپ کو قرآن مجید کے تقاضوں کے مطابق بنا کر رہوں گا اور وہ ہر قسم کی قربانیاں دےکر، ہر طرح کے مصائب جھیل کر اپنے آپ کو قرآن مجید کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو قرآن مجید کے سانچے میں ڈھال ہی لیتا ہے لیکن جو شخص صاحبِ عزم نہیں ہوتا یا اس کے اندر حق شناسی اور حق طلبی کا سچا جذبہ نہیں ہوتا اور وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو وہ اپنے اور قرآن مجید کے درمیان حائل پاتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و اعمال کو قرآن مجید کے مطابق بنانے کی کوشش کرونگاتو مجھے فکری اور عملی حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔ میرا ماحول میرے لئے بالکل اجنبی بن کر رہ جائے گا۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر میں اپنے وسائلِ معاش کو قرآن مجید کے ضابطۂ حلال و حرام کی کسوٹی پر پرکھوں تو آج جو عیش مجھے حاصل ہے اس سے محروم ہوکر شاید اپنی دال روٹی کیلئے بھی فکرمند ہونا پڑے۔ان خطروں کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے کمرِ ہمت باندھ لینا ہر شخص کا کام نہیں ہے، صرف مردانِ کار ہی ان گھاٹیوں کو پار کرسکتے ہیں۔ معمولی ہمت و ارادہ کے لوگ یہیں سے اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ بعض اکھڑ قسم کے لوگ جو اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے زیادہ خواہش مند نہیں ہوتے وہ تو یہ کہتے ہوئے  اپنے نفس کی خواہشوں کے پیچھے چل کھڑے ہوتے ہیں کہ قرآن مجید کا راستہ تو بالکل صحیح !۔۔۔ لیکن ہمارے لئے اس پر چلنا نہایت مشکل ہے !۔۔۔۔ اس لئے ہم اسی راہ پر چلیں گے جس پر ہمارا نفس لئے جارہا ہے۔ لیکن جو لوگ اپنی کمزوریوں کو عزیمت اور اپنے نفاق کو ایمان کے روپ میں پیش کرنے کا جذبه رکھتے ہیں وہ اپنا یہ شوق مختلف تدبیروں سے پورا کرتے ہیں۔ ۔۔۔بعض مجبوریوں کے بہانوں سے اپنے لئے ناجائز کو جائز اور حرام کو حلال بناتے ہیں۔۔۔۔ بعض لایعنی تاویلات کے ذریعے باطل پر حق کا مُلمع چڑھاتے ہیں۔۔۔۔ بعض وقت کے تقاضوں اور مصلحتوں کی آڑ تلاش کرکے ان کے پیچھے چھپتے ہیں۔۔۔۔ بعض قرآن مجید میں اس قسم کی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس قسم کی تحریفات یہود نے تورات میں کی تھیں۔ بعض قرآن مجید کے جس حصہ کو اپنی خواہشوں کے مطابق پاتے ہیں اسے قبول کرلیتے ہیں اور جس حصہ کو اپنی خواہشات کے مطابق نہیں پاتے اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

یہ ساری راہیں شیطان کی نکالی ہوئی ہیں اور ان میں سے جس راہ کو بھی آدمی اختیار کرے گا وہ اس کو سیدھی ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے جاتے هيں آدمی اپنے آپ کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اس کے لئے سعادت کی راہیں کھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوسرا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن حکیم نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے:

وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا    ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ   ؀

\اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گےیقیناً اللہ نیکوکاروں کا ساتھی ہے ۔(العنکبوت:69)

۴    تدبر:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ    ؀(ص:29)

یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔

محض  تبرک کے طور پر الفاظ کی تلاوت کرلینا اور قرآن کے معانی کی طرف دھیان نہ کرنا قرآن پڑھنے کا طریقہ نہیں ہے۔یہ طریقہ تو اس وقت سے رائج ہوا ہے جب لوگوں نے قرآن مجید کو ایک کتاب ہدایت و معرفت اور ایک خزانہ علم و حکمت سمجھنے کی بجائے محض حصول برکت کی ایک کتاب سمجھنا شروع کردیا۔ جب زندگی کے مسائل سے قرآن کا تعلق صرف اس قدر رہ گیا کہ موت کے بعد اس کے ذریعے جان کنی کی سختیوں کو آسان کیا جائے اور مرنے کے بعد اس کے ذریعے میت کو ایصال ثواب کیا جائے۔ جب زندگی کے نشیب و فراز میں راہنما ہونے کے بجائے اس کا استعمال صرف یہ رہ گیا کہ ہم جس گمراہی کا بھی ارتکاب کریں، اس کے ذریعے سے اس کا افتتاح کریں تاکہ یہ برکت دے کر اس گمراہی کو ہدایت بنادیا کرے۔

دنیا کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس نے قرآن سے زیادہ اس بات پر زور دیا ہو کہ اس کا حقیقی فائدہ صرف تب حاصل کیا جاسکتا ہے کہ اس کو پورے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا جائے لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا میں یہی کتاب ہے جو ہمیشہ آنکھیں بند کرکے پڑھی جاتی ہے۔ معمولی سی چیز بھی آدمی پڑھتا ہے تو اس کے لئے پہلے اپنے دماغ کو حاضر کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کو سمجھ سکے لیکن قرآن کے ساتھ لوگوں کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ اس کو پڑھنے سے پہلے اپنے دل و دماغ پر پٹی باندھ لیتے ہیں کہ کہیں اس کے کسی لفظ کا مفہوم دماغ کو چھو نہ جائے۔

تاہم تدبر کا طریقہ یہی نہیں کہ انسان عربی کے چند الفاظ جان لینے کے بعد قرآن مجید سے نئے نئے مطالب نکالنا شروع کردے۔ تفاسیر کا ذخیرہ امت کے بہترین دماغوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، جو صدیوں سے قرآن مجید کو سمجھنے میں وہ کرتے چلے آرہے ہیں، ان کو چھوڑ کر قرآن مجید کا مطالعہ کرنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ پچھلی صدیوں میں سائنس نے جو کچھ دریافتیں کی ہیں ان سب کو چھوڑ کر میں نئے سرے سے کائنات پر غور کرونگا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید کے مطالعہ کے لئے تفسیر اور روایات کے ذخیرے سے مدد لیں۔ عام آدمی کے لئے تو لازم ہے کہ وہ مستند علماء کے ترجمہ و تفسیر کی روشنی میں ہی غور و فکر کرے۔

۵   اللہ کے حوالے کرنا:

قرآن مجید سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے پانچویں شرط یہ ہے کہ اس راہ میں جو مشکلات پیش آئیں آدمی ان سے بد دل اور مایوس ہونے یا ان کے سبب سے قرآن مجید سے بدگمان یا اس پر اعتراض کرنے کی بجائے اپنی الجھن کو اللہ کے سامنے پیش کرے اور اس سے مدد اور راہنمائی طلب کرے۔ قرآن مجید میں بعض اوقات ایسی علمی و عقلی مشکلیں پیش آجاتی ہیں جن کا حل کچھ سمجھ نہیں آتا اور اس سے دین کے معاملے میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگتے ہیں یا کسی حکم پر عمل کرنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔ اس طرح کی علمی و عملی مشکلوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ یہ ہے کہ آدمی اپنی مشکل اپنے ربّ کے سامنے پیش کرے اور اسی سے ہدایت کا طالب ہو۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے برابر دعا اور قرآن مجید پر برابر غور کرتا رہے۔ اگر قرآن یاد ہو تو رات کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے۔ ان شاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور اور ساری مشکلیں حل ہوجائیں گئ اور ان مشکلوں کے حل ہونے سے اس پر عمل و حکمت کے جو دروازے کھلیں گے وہ دروازے کسی اور طرح اس پر ہرگز نہ کھلتے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی صبر کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگے۔ مندرجہ ذیل دعا بھی اس طرح کے حالات میں پڑھتے رہنا نہایت مفید ہے۔ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اس دعا کو سیکھنے اور یاد کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور فکر و غم دور کرنے کا ذریعہ بتا یا ہے:

 اَللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ابْنُ عَبْدِكَ ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَآؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهٗ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِيْ، وَجَلَآءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي،

ترجمہ:اے اللہ ! میں تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا اور تیری بندی کا بیٹا ہوں۔ میری پیشانی تیری مٹھی میں ہے، مجھ پر تیرا حکم جاری ہے۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ حق ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے واسطہ سے جو تیرا ہے، جس سے تونے اپنے آپ کو پکارا ہے یا جس کو تونے اپنی کتاب میں اتارا ہے، یا جس کو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے یا تو نے اپنے پاس اپنے خزانۂ غیب میں اسے پوشیدہ ہی رہنے دیا ہے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کا مداوا اور میری فکر و پریشانی کا علاج بنادے۔(مسند احمد)

ان شرائط پر عمل کے بعد بھی کسی شخص کو بہت توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ پورا قرآن سمجھ لے گا۔ اس معاملہ کا تمام تر انحصار صرف اللہ کی توفیق و ہدایت پر ہے اور وہی راہیں کھولتا اور مشکلات میں راہنمائی کرتا ہے۔ پس طالبِ قرآن مجید کا دل ہمیشہ اسی کے سامنے جھکا رہنا چاہئے جو کچھ مل جائے اس کے لئے شکر گزار ہو اور جو نہ ملے اس کے لئے امیدوار رہے۔ نہ تو فخر کرے، نہ کبھی مایوس ہو اور تجارت اور حصولِ شہرت کا ذریعہ تو قرآن مجید کو ہرگز نہ بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے