آج کل ایک مسئلہ کی صدائے بازگشت گونج رہی ہے ۔ اور اس کا تعلق رسول اللہﷺ کی تو ہین اور شان میں گستاخی سے ہے ۔ اس کا حکم کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں اللہ کے فضل و کرم سے ہم اہلحدیث کا موقف سب سے زیادہ صاف ستھرا اور واضح ہے ۔ جس کا بیان کرنا انتہائی ضروری ہے۔
قارئین کرام ! اللہ رب العزت اپنے پیارے نبی ﷺ  کی تعظیم اور توقیر کا حکم دیا ہے ۔ آپﷺ کی محبت کو جزء ایمان کہا ہے ۔ نبی ﷺکی حدیث سے یہ بات واضح ہے۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم اس وقت مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے والدین اپنی اولاد اور تمام دنیاں کے کوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرو ۔
اور حدیث سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس وقت تک تم لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنی جانوںسے  بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرو ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا  (الأحزاب:6)

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے۔
نبی ﷺ مومنوں کے نزدیک انکی جانوںسے بھی بڑھ کر محبوب ہیں اوران کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں اللہ تعالی نے اپنے پیارے پیغمبر کی تعظیم کا حکم دیا ہے اس میں بےشمار۔قرآن وحدیث میں نصوص موجود ہیں یہاں ایک بات ملاحظہ فرمائیں ۔
فرمان باری تعالی ہے ـ:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَــهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَــطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (الحجرات : 2)

اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں(ایسا نہ ہو)کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو ۔
کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اورتمہارے سارےاعمال ضائع ہو جائیںگےآپکی سب نیکیاں نماز ،روزہ ،جہاد اورحج عمرہ ،تہجد ،فرائض اور نوافل سب برباد ہوجائیں گے اگر میرے پیغمبر کی مجلس میں تمہاری آواز میرے پیغمبر کی آواز سے اونچی ہوئی یہ میرے پیغمبر ﷺ کی آواز کی شان ہے کہ اس آواز سے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے یہ اس آواز کی تکریم و تعظیم ہے ۔
آپ اس بات کا اندازہ کریں کہ پیارے پیغمبر کی اس آواز کا انکار ممکن ہے؟پیغمبر ﷺکے فرمان کی حیثیت یہ ہے کہ آپ گفتگو فرمارہے ہو تو آپ کی آواز آپ ﷺ کی آوا ز سے اونچی نہ ہوتو اس آواز کی اتنی عظیم شان ہے تو اس آواز کا انکار کتنا بڑا گناہ ہوگا کتنی بڑی گستاخی ہوگی اس آوا ز کےمقابلے میں کسی امام برادری  آباؤاجداد کی بات کو مقدم کرلیناکتنا بڑا گناہ ہوگا یہ پیغمبر ﷺ کی آوا ز کی تعظیم ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے تمہارے اعمال برباد کردوں گا اور تمہیں اس کا شعور بھی نہیں ہوگا شعور نہ ہونا ایک بڑی دھمکی ہے بُری وعید ہے انسان کو اگر یہ محسوس ہونے لگے کہ میرے اعمال برباد ہونے جارہے ہیں تو وہ احتیاط کرسکتا ہے توبہ کرسکتا ہے لیکن یہ ایک ایسامعاملہ ہے کہ پیغمبرﷺ کی تعظیم کے منافی جو بھی معاملہ ہوگا اتنا ہی سنگین ہوگا اللہ تعالی فرماتے ہیں تمہارے اعمال تمہارے نیکیاں سب برباد کردوں گا اور تمہیں اس کا شعور بھی نہیں ہو نے دونگاتم مطمئن ہوگے کہ تمہارے ذخیرہ اعمال میں بے شمار نیکیاں جو قیامت کے دن ہماری نجات کا باعث ہونگی مگر وہ سب برباد ہو چکی ہونگی اس ایک گستاخی کی بنا ء پر تمہاری آواز میرے پیغمبر کی آوا ز سے اونچی ہوگئی تواللہ تعالی کس قدر اپنے پیغمبر کی تعظیم چاہتاہے اور کس طرح اپنے پیغمبر کی شان منوانا چاہتا ہے اب جو شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی، سب وشتم یا طعنہ زنی کرےاس کا شرعاً کیا حکم ہے ؟
ایسے افراد کی دو قسمیں ہیں ایک مسلمان دوسرا کافر اگر کوئی مسلمان نبی ﷺ کی شان  میں گستاخی اور سب وشتم کرے گا تو وہ اپنے اس عمل سے ،مرتد اور کافر ہوجائے گا اوربلاتأخیر بغیر توبہ طلب کیے واجب القتل ہوجائے گا۔ اور یہ ایک حاکم کیذمہ داری کہ وہ منصب اقتدار سنبھال لینے کے بعدیہ نہ دیکھے کہ میری کرسی کو تحفظ کیسے ملتا ہے اور میرےذاتی پروٹوکول کے کیا تقاضے ہیں۔ نہیں سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کا مقام ہے اس کی رعیت میں خالق کائنات کی توحید میں نقب زنی ہوتی ہیں تو ایسے لوگوں کا کڑا محاصرہ کرے اور اس کی رعیت میں اگر کوئی شخص اللہ کے پیا رے پیغمبر ﷺکی شان میں گستاخی یا سب وشتم کا معاملہ کرتا ہے تو وہ بلا تاخیر پکڑے اور اس کو توبہ کی پیشکش کے بغیر قتل کر دے اس جرم کی سزایہی ہے اور اگرنبی ﷺکی شان میں گستاخی کر نے والا کافر ہے تو اس کی بھی دو قسمیں ہیں :
1۔ ذمی کافر        2۔حربی کافر
ذمی کافر وہ ہے جو ہمارے علاقے ، معاشرے میں رہتا ہے۔ اسے ذمی اس لئے کہا جاتاہےکہ اگر وہ ہمارے بیچ رہتا ہے تو اسے ہمارے سارے قوانین کا احترام کرنا ہو گا تب اس کی حفاظت کا ذمہ ہم لیں گے اس لئے اس کو ذمی کہا جارتا ہے کہ اس کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے ۔  دوسرا کافر حربی ہے جو دار الحرب میں رہتاہے کنارے کے علاقے میں سکونت پذیرہےمگر ہمارے معاشرے میں نہیں رہتا یہ دو طرح کے کافر ہیں اگر ذمی کافر رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور پیغمبر ﷺ کی ذات میں طعنہ ذنی کرے تو حاکم وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو گرفتار کرے اور اس کا یہ جرم ثابت ہو نے پر اسے قتل کردے اس کا ذمہ ٹوٹ گیا جو اس کی حفاظت کا ہم نے لیا ہواتھا۔ وہ ہمارے پیغمبر کی شان میں گستاخی کی بنا ء پر ٹوٹ کیالہذاوہ فوری واجب القتل ہے۔یہی اس کی سزا ہے اس کے لئےکوئی رحم کی درخواست نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی حاکم کو اختیارہے کہ اس کی رحم کی اپیل کو قبول کر کے اسے معاف کردے۔ اللہ اور اس کے رسول نے جو سزا دی ہے کسی حاکم میں یہ جرأت نہیں ہے کہ اس سزاکو معافی میں تبدیل کر دے۔ یہ بذات خود ایک ہولناک جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سزادیگا اگر یہ معاف کر تا ہے اس کا معنی (نعوذباللہ) اللہ کا فیصلہ ظلم پر قائم ہے اور یہ بڑا رحم دل ہے کہ جس کا فیصلہ معافی پر قائم ہےہمارا  جمہوری نظام جو رحم کی اپیل کا باب ہے یہ سراسر شریعت کے خلاف ہے کہ جب سزا ہو چکی تو اس مجرم کو آخری حق دیا جاتا ہے کہ وہ حاکم وقت سے رحم کو اپیل کر دے اور حاکم وقت قبول کرلے تواس کو رہا کردیا جائے گا یہ قانون  اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کے مقاصد کے خلاف ہے یہ قانون ایک مجرم کو تحفظ دینے کے مترادف ہے تو یہ ایک ذمی کا معاملہ ہے جو ہمارے درمیان رہتا ہے اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو وہ فوری واجب القتل ہے اس کو ڈھیل نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی معافی ہے اور دوسرا کافر وہ ہے جو حربی ہے دار الحرب میں رہتا ہے اور وہاں رہتے ہوئے ہمارے نبی کی شان میںگستاخی کرتا ہے تو اس سلسلے میں بھی ہم اہل الحدیث کا موقف یہ ہے کہ حاکم وقت اس صورت حال میں اس ملک پر حملے کی تیاری کرے جس کے ایک فرد نے یہ بکواس کی ہے کیونکہ   یہ معاملہ بھی ایسا ہے کہ جس میں کسی ڈھیل کی گنجائش نہیں البتہ تیاری کے لیے جو امور ضروری ہیں انہیں اپنایا جائے یہ خلاصہ ہے نبی اکرم ﷺ کی شان میںگستاخی کرنے والوں کے حکم کے بارے میں اور اس پر صحیح ادلہ موجود ہیں اللہ تعالی فرماتے ہیں

اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ اَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ  (التوبۃ:13)

تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیادہ مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو ۔
تم ایسی قوم سے ،اعلان جہاد کیوں نہیں کرتے جو قوم اپنے عہد کو توڑ دے اورجو قوم پیغمبر ﷺ کو نکالنے کی کوشش کرے یہ دو معاملے ہیں ایک عہد شکنی اور دوسرا پیغمبر ﷺ کو نکالناخواہاں اپنے شہر سے یا اپنے ملک سےیااپنی آبادی سے نکالنے کی کوشش کرنا اور ظاہر ہے کہ سب وشتم اس سے بڑا جرم ہے عہد شکنی بھی ہماری توہین ہے اگر کفار اور ہمارے مابین کوئی معاہدہ ہوتا ہے اور کفار اس معاہدے کو توڑ دیں تو یہ بھی ہماری توہین اور ناقابل معافی جرم ہے ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے

وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ (التوبۃ:12)

اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔
اگر یہ لوگ عہد کرنے کے بعد عہد کو توڑ دیں ،عہد کی تو بڑی اہمیت ہوتی ہے وہ لوگ کیا جانے جو عہد کرکے توڑ دیں اور کہیں کہ کونسا یہ قرآن و حدیث تھاوہ لوگ درحقیقت اس بلند اقدار سے ناواقف ہے جواقدار شرعی اخلاقی اور انسانی ہوتے ہیںاور معاہدے کی اہمیت کا احساس نہیں کرتے فرمایا کہ اگر یہ کفار تم سے معاہدہ کریں اور پھر توڑ دیں (وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ)اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں (فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ)توان سے قتال کرو یہ کفر کے امام ہیں ۔
دو چیزیں ہیں ۔
1۔عہدشکنی :میثاق ومعاہدہ ہو ااور اس کو توڑ دیا یہ ہماری توہین ہے یہ ناقابل برداشت ہے اس پر عظیم الشان شرعی ادلۃ موجود ہیں کہ جناب محمد ﷺ جب کفار کے نرغے میں تھے یعنی جنگ احزاب کے موقع پراور کفار نے پوری طرح محاصرہ کیا ہو تھا مسلمانوں کا ، خواتین کااور بچوں کا ،مدینہ شہر کااور مسلمان خندقیں کھود کر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش میں مصروف تھے یہ 22یا 23 دن کاطویل محاصرہ تھا ایک صبرآزمامحاصرہ کہ جس کی قرآن نے کچھ یوں تصویر کھینچی ہے کہ اس محاصرے کے دوران تمہارے کلیجے تمہارے حلق کو آرہے تھے اور ایک عجیب خوف وہراس کی فضاقائم تھی تمہار اشہر،  تمہاری خواتین، تمہارے بچے غیر محفوظ تھے اور ادھر کفار دس ہزار کا  لشکر لیکر مدینہ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے پہنچ چکے تھے یقیناً وہ فضابہت ہی خوف وہراس پر قائم تھی بالآخر اللہ تعالی کی فتح ونصرت آپہنچی اللہ تعالی نے صحابہ کی استقامت کو دیکھ لیا اور آقاﷺ کی یہ دعا

حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

 صورت حال بہت ہی گھمبیر ہے مگر ہمیں اللہ تعالی کافی ہے اور بہترین کارساز ہے بالآخر اللہ کی مددآگئی رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے اللہ نے میری مدد کی صباوہوا کے ذریعے مشرق سے چلنے والی جس کا رخ مغرب کی طرف تھا اور وہ آندھی اپنی باہوں میں مٹی اور کنکر لے کر آگے بڑھی جو کفار کی آنکھوں میں پڑی اور وہ تیز ہواجس سے انکے قدم اور خیمےا کھڑ گئے اور وہ دوڑے اپنی جانیں بچانے کے لیے اور انکی املاک تباہ ہوگئی اور اللہ نے اس لشکر کو شکست خردہ ذلت ورسوائی کے ساتھ واپس کردیا مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ۔اور ایک طویل صبر آزما محاصرہ اپنے اختتام کو پہنچا ،رسول اللہ ﷺ ام ہانی کے گھر پہنچے ام ہانی کا بیان ہے کہ میں آپ ﷺ کو پہلی نگاہ میں پہچان نہ سکیںچونکہ پیغمبر ﷺ کا پورا جسم اطہر مٹی اور گردوغبارسے ڈھپا ہو ا تھا ،اس سے آپ اندازہ کریں کہ کس قدر پر مشقت یہ معرکہ تھا گھر پہنچ کر غسل کی تیاری کی اورابھی ہتھیار اتارے ہی تھے کہ جبریئلامین فوراً پہنچ گئے اور فرمایا اے اللہ کے نبیﷺ آپ نے ہتھیار کیوں اتار دیے جب کہ ملائکہ ابھی تک تیار ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ معرکہ ختم ہوچکاکفار بھاگ چکے ہتھیارتو اتارنے ہی تھے جبرائیل آمین نے فرمایا نہیں!اس معرکے کے دوران بنو قریظہ کے یہودیوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا تھاان کو فوری عہد شکنی کی سزا دینی ہے یہ ہماری توہین ہے اس کا معنی انکے نزدیک اللہ کے نبی ﷺ کی اہمیت نہیں ہتھیار پہن لو اور صحابہ کوکہو گو کہ جنگ احزاب کے بعد تھکاوٹیں ہیں اور بڑا ہی ضعف ہے مگر کچھ بھی ہو عہد توڑنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے ہتھیار پہن لیے اور صحابہ کو جمع کیا اور فرمایاجو اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ آج عصر کی نمازیہودیوں کی بستی بنو قریظہ میں اداکرے اور صحابہ کا کیا مقام کوئی سوال واستفسار نہیں کہ ابھی تو چند لمحات ہی گزرے ہیں کچھ آرام کی گھڑیاں ہی نصیب ہوجاتی فرمایا کہ ابھی نکلنا ہے بغیر سوال کیے دوڑتے جارہے ہیں اورآخر کاربنو قریظہ میں پہنچ کر نماز عصر اداکی اس سے آپ اندازہ کریں کہ جو قوم عہد کرکے توڑ دے تو وہ ہماری توہین کے مترادرف ہےہم نے فوراً اس قوم کو سزا دینی ہے یہ اس واقعہ سے ہمیں بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔
ان جانے والوںمیں ایک صحابی سیدنا سعدبن معاذ بھی تھے یہ وہ واحد صحابی ہیں جو جنگ احزاب کے موقع پرایک کافر کے تیر مارنے کے باعث زخمی ہوگئے تھےرگ کھل چکی ہے خو ن ابل رہا ہے سعد نے دعا کی :یا اللہ یہ کفار و مشرکین تیرے نبی ﷺ کے شہر کی حرمت پامال کرنے آئے ہیں اور ایک محاصرہ قائم ہے اب مجھے معلوم نہیں کہ انکا دوبارہ آنا ممکن ہے یا نہیں لیکن اے اللہ مجھے مہلت دے کہ یہ دوبارہ تیرے نبی کے شہر کا رخ کریں تو میں دفاع کر سکوں انکی یہ دعا عرش معلی تک پہنچی اور وہ بہتا ہوا خون رک گیا اور انہوں نے کہا تھا کہ اے اللہ یہ خون بہہ رہا ہے ورنہ تو اس خون کو میری شہادت کا ذریعہ بنادے لیکن اتنا موقع دے دے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا انجام اپنی آنکھ سے دیکھ سکوں شدید زخمی حالت میں بنو قریظ تشریف لے گئے اور آپ کو یہ مرتبہ ملا کہ یہودی مسلمان کے لشکر جرار کو دیکھ کر پسپا ہوگئے اور کہاکہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ سعد کرے گا وہ ہمیں منظور ہے فیصلہ کر کے آگئے اللہ کے نبی ﷺ نے پوچھا سعد تم فیصلہ جو کرکے آئے ہو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تونبی اکرم ﷺ نے فرما یا کہ عرش معلی پر خالق کائنات کابھی یہی فیصلہ ہےمدینہ پہنچ کر سعد کو ایک خیمہ میں لٹا دیا گیا ان خیموں کے ساتھ اور خیمے بھی تھے ان خیموں والوں نے اپنے خیموں میں خون دیکھا پریشان ہو کر سعد کے خیمے میں پہنچے تو سعد کے زخم کھل چکے تھے اور خون بہنے کے باعث سیدناسعد رضی اللہ عنہ شہید ہو چکے تھے یہ مراتب کیوں حاصل ہوئے ؟جب سعد ابن معاذ کا جنازہ ہو تو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا ’’اس کی وفات پر اللہ کا عرش ہل گیا ہے اور اس کے جنازے میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی تھی جب میت اٹھائی گئی تو صحابہ نے اس میت کو ہلکا محسوس کیا ،صحابہ نے فرمایا سعد تو کافی وزنی تھے انکی میت ہلکی کیوں ہے ؟نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا سعد کی میت کو اوپر سے اللہ کے فرشتوں نے اٹھائے رکھا ہے ۔یہ اسلام کی غیرت کے تقاضے ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے جو قوم تم سے عہد کرے اور توڑدے تو یہ تمہاری توہین ہے ایسی قوم کو فوری سزا دو معنی دین میں طعنہ زنی کرنے والے عہد توڑنے والے اور ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے یہ کفر کے امام ہیںفرمایا کہ ان سے معاملے کو شروع کرو ان کو قتل کرو باقی جو چھوٹے چھوٹے کافر ہیں وہ انکا انجام دیکھ کر خودبخودسنبھل جائیں گےاور ممکن ہے کہ وہ اسلام قبو ل کر لیں تو یہ عمل اس بات کی شاھد ہے کہ جو لوگ گستاخی کرتے ہیں وہ فوری سزا کے مستحق ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ کون ہے کہ کعب بن اشرف کو قتل کرے ؟ کعب وہ شخص ہے جس نےاللہ و رسول اللہﷺ  کو ایذا دی ہے محمد ابن سلمہ تیار ہوئے اور پھر یہ ایک طویل واقعہ ہے بالآخر انکو قتل کیا اور کعب ذمی اورمدینہ کے رہنے والے تھے لیکن یہ نبی اکرم ﷺ پر سب و شتم کرتا تھا شاعر تھا ایسےقصیدے پڑھتا تھاکہ جس میں اللہ کے نبی ﷺ کی شان مجروح ہوتی ہے اور معرکہ بدر کے بعد اس نے قریش مکہ کو بڑ ھکایا کہ بدر کے بدلے  کے لیے ہم تمہاری مدد کریں گے تم بدلے کی تیاری کرو یہ شخص رکاوٹ تھا اسلام کے پھیلاؤ میں اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تھا آخر اسےصحابی محمد بن سلمہ نے قتل کردیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ یہ کتاب تقریباً 600 صفحات پر مشتمل ہے یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ایک اہلحدیث عالم نے نبی اکرم ﷺ کی شان میں یہ کتاب لکھی ۔انہوں نے سارے واقعات کو جمع کیا ،نبی اکرم ﷺ کےدور اقدس میںتین نابینا افرادنےاپنے احاطہ میں کچھ عورتوںکو دیکھا کہ وہ نبی اکرم ﷺ پر سب وشتم کرتی ہیںایک نابینا صحابی جس کی وہ عورت لونڈی تھی اور اس کےاس سے دو بچے بھی تھے اور وہ شان محمد ﷺ میں گستاخی کرتی تھی ایک دن برداشت نہ کرسکا آلہِ قتل لا کر اس کے پیٹ میں گھونپ دیا مقدمہ آقاﷺ تک پہنچا آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کسی کو معلوم ہے کہ اس عورت کا قاتل کون ہے وہ نابینا صحابی اٹھے اور فرمایا میں اس کا قاتل ہوں وجۂ قتل یہ ہے کہ یہ عورت آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو معاف کردیا جس  سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اسی سزا کے مستحق ہیں شرعی حکم بھی یہی ہے کہ انہیں فوراً قتل کیا جائے نہ کہ ان سے معافی کا مطالبہ کیا جائے اس بارے میں سابقہ گورنر پنجاب کا موقف انتہائی مجرمانہ تھا حکام پر سر عام تنقید جائزنہیں لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس میں انکا یہ انتہائی مجرمانہ عمل ہے گورنر پنجاب سفارش لے کر صدر پاکستان پہنچے اور صدر پاکستان نے بھی بلا سوچے سمجھے ایک کمیٹی بنادی اس عورت کی گستاخی پر نہیں بلکہ اس بات پرکہ جو قا نون ہے کہ نبی اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا واجب القتل ہے اس قانون پر نظر ثانی کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی لیکن جب رعیہ وعلماء کا احتجاج دیکھا تب وزیر اعظم کو ہوش آیا لیکن معاملہ بڑا سنگین ہے ہم اہل الحدیث کا یہ موقف ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کو حکومت وقت فوراً قتل کردے اور اگر یہ کہیں کہ کیس عدالت میں ہے اور اگر جرم ثا بت ہوجائے تو فوراً قتل کردیا جائے کیونکہ جرم کا ثبوت ضروری ہے یہ بھی ہمارے لیے شرعی ہدایت ہے اور اگر حکام پھربھی ٹس سے مس نہ ہوئے تو ان شا ء اللہ ہمارا رب خود بدلہ لینے پرقادرہے ہمار اکام اپنے پیغمبر ﷺ کی شان بیان کرنا ہے اگر کوئی شخص اپنے سامنے گستاخی دیکھتا ہے اور جوش میں آکر قتل کر بیٹھتا ہے تو یہ جائز ہے مگر اصل معاملہ حاکم تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو فوراً قتل کرے ورنہ اللہ رب العزت اپنے پیغمبر ﷺ کی شان کا خود محافظ ہے اور پھر وہ ان لوگوں کو بھی دیکھ لے گا جو اقتدار ہونے کے باوجود آپ ﷺ کی شان کے تقاضے پورے نہیں کرتے ایک مرتبہ اللہ کے نبی ﷺ نے ہماری ماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایاکہ اے عائشہ دیکھو اللہ نے قریش کی گالیوں کو مجھ سے پھیر دیا اوراللہ نے میرا دفاع کیا اورانکو ٹال دیا ۔قریش نے ایک اجلاس بلایا جس میںکہا گیا کہ محمد ﷺ کا نام تبدیل کردو کیونکہ محمد کےمعانی تعریف کیاہو اہے اس کو بدل دو اور مذمم کردویعنی مذمت کیا ہوا نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ اب یہ لوگ صبح وشام مذمم کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ میں محمد رسول اللہ ﷺ ہوں جنگ احد میں ایک آدمی سامنے آگیا اس نےایک پتھر آپ کی طرف پھینکا اور کہا اے محمد اس کو پکڑو یہ میری طرف سے تمہارے لیے تحفہ ہے آپ لہو لہان ہوگئے آپ نےفرمایا میر ا رب تجھ سے اس کا بدلہ لےگا اور تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگا اتفاق سے اسی لمحے احد کی چوٹی سے ایک سانپ نمودار ہو اجس نے اس کا تعقب کیا اور اس کو پکڑلیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے بے شک اللہ تعالی انتقام لینے پر قادر ہے کاش ہمارے حکمرانوں اور رعیہ میں بھی وہ غیرت آجائے جو اللہ کے سولﷺ کے دور کے ان دو بچوں میں تھی سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں معرکہ بدر میں كم سن دو بچے مجھے اپنے پیچھے محسوس ہوئے میںنے خطرہ محسوس کیا میں نے اپنی جگہ بدلنا چاہی ہی تھی کہ ایک بچہ اچانک میرے سامنے آگیا اور پوچھا اے چچا جان!ابو جہل کہاں ہے انہوں نے فرمایاکہ تمہارا اس سے کیا کام ہے وہ تو کفار کا بڑا کمانڈر ہے تو اس بچے نے فرمایا ہم نے اپنی والدہ اور دیگرافراد سے سناہےکہ وہ ہمارے پیغمبر ﷺ کو گالیاں دیتا ہے خدا کی قسم ہم اس وقت تک اس کےجسم سے جدا نہیں ہونگے جب تک ہم میں سے جس کی موت پہلے ہے وہ اس پر وارد نہ ہوجائے اچانک ابو جہل سامنےآگیا سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نےاس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ ہے تمہاری منزل یہ دونوں اس پرجھپٹے اور وار کیا اور کفر کے جرنیل کو ٹھنڈا کردیا یہ غیرت اگر ہم میں آجائے تو ان شاء اللہ ایک انقلاب اوراسلام کے غلبے کا باعث بن سکتی ہے ۔اللہ تعالی انکو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے جن کی دن ورات ایک ہی رٹ ہے ہائے ہماری کرسی ،ہمارا اقتدار ،ہمارا پروٹوکول لیکن اللہ کی توحید اللہ کے نبی کریم ﷺ کی سنت وعزت کے تعلق سے انہیں کسی پروٹوکول کا علم نہیں ہے ۔اللہ تعالی یا انکو بدل دے یا انکو ہدایت دے دے ۔(آمین )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے