پہلا خطبہ:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتااور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیںاور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسےاختیار کرنے کا حق ہے کیونکہ تقوی سے ہٹ کر کوئی چیز  ہمارا پروردگار قبول نہیں کرتااور صرف متقی لوگوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔
مسلمانو!دین حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر قائم ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا یہ حق ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں، اور کسی کو اس کے ساتھ شریک مت بنائیں، جبکہ مخلوقات کا حق ان پر احسان اور حسن سلوک کا نام ہے۔
ایک عظیم صفت جسے اللہ تعالی نے اپنی مخلوق میںپیدا فرمایا، چنانچہ نبی علیہ الصلاۃ  و السلام کا فرمان ہے:
اللہ تعالی نے ایک سو رحمتیں پیدا فرمائیں اور ان میں سے صرف ایک مخلوق کو دی، اور باقی ننانوے اپنے پاس چھپا لیں۔( مسلم)
اس صفت کا ذکر علم سے بھی مقدم فرمایا اور کہا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ( الكهف : 65)

 وہاں انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا،اور اپنے ہاں سے ایک خاص علم سکھایا تھا۔
بلکہ اللہ تعالی اس صفت سے متصف لوگوں کو پسند بھی  فرماتا ہے، نیز رحم دلی سے منسلک رہنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرنے والوں کو سراہا اور فرمایا:

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد : 17)

پھر لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کی ۔
اسی صفت کی بنیاد پر ادائیگی حقوق کی عمارت قائم ہے، چاہے و واجب حقوق ہوں جیسے کہ زکاۃ ، یا مستحب حقوق ہوں جیسا کہ درگزر اور صدقات ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “انسان کیلئے ضروری ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی کے وقت مطلق طور پر  لوگوں کو فائدہ اور نفع پہنچانا مقصود ہونا چاہیے”
یہی وہ رحمت ہے جوﷺ کو دیکرمبعوث کیاگیا اور حقیقت میں یہ اللہ کی طرف سے عین نوازش ہوتی ہے، وہ جسے چاہے اس سے متصف فرماتا ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے ایک دیہاتی شخص میں بچوں کے متعلق رحم دلی نا پید ہونے کے بارے میں فرمایا:’’میں تمہارے کیلئے کیا کرنے کا اختیار رکھتا ہوں! کہ اللہ نے تمہارے دل سے رحمت چھین لی ہے‘‘۔  (صحیح البخاری)
جب کبھی اللہ تعالی اپنے کسی بندے کے بارے میں خیر کا ارادہ فرما لے تو اس کے سینے میں رحم دلی ڈال دیتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَعَ إِيمَانِهِمْ(الفتح : 4)

وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں : یہاں سکینت سے مراد رحمت  ہی ہے۔
ہر انسان کو اس صفت میں سے اتنا ہی ملتا ہے، جتنی کسی کے نصیب میں ہدایت ہو، یہی وجہ ہے کہ کامل ترین مؤمن ہی سب سے زیادہ رحمت کامالک ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ(الفتح : 29)

 محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت رحمدل ہیں ۔
اللہ تعالی نے مؤمنین کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ

 أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ(المائدة : 54)

’’وہ مؤمنین کیلئے نہایت رحمدل ہوتے ہیں‘‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: یہاں آیت میں ذلت سے مراد باہمی رحمدلی ہے۔
اس صفت سے دل کو بھر پور کرنا نیک بختی کی علامت اور رحمتِ الہی حاصل کرنے کا باعث ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’رحم کرنے والوں پر ہی رحمن رحم کرتا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، تم پر آسمانوں میں موجود  اللہ تعالی کی ذات رحم کرے گی۔‘‘( ابو داود)
جنت میں داخل ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہونگے جن کے سینے ایمان کیساتھ ساتھ رحمدلی سے بھی سرشار ہونگےآپﷺ کا فرمان ہے: جنتی تین قسم کے ہیں:
1۔ایسا حکمران جو عادل، صدقہ کرنے کی توفیق پاتا ہو۔
2۔ایسا آدمی جو نہایت رحمدل ،تمام اقرباء اور مسلمانوں  کیلئے دردِ دل رکھنے والا ہو۔
3۔  پاکدامن، سفید پوش اور بال بچوں والا شخص( مسلم)
سنگدلی  اسی وقت ہوتی ہے جب رحمدلی  نہ ہو، اللہ تعالی نے  سنگدل لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ (البقرة : 74)

’’پھر تمہارے دل اس کے بعد سنگ ہو گئے‘‘ ۔ امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی ان کے دل سنگلاخ اور بالکل خشک ہوگئے، دل اسی وقت  سنگلاخ ہوتے ہیں جب دل سے نرمی اور رحمدلی نکل جائے۔
اور یہی بات انسان کے بد بخت ہونے کی علامت بھی ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:
’’رحمت صرف بد بخت ہی سے چھینی جاتی ہے‘‘( ابو داود)
اور جو مخلوق پر رحم نہ کرے، اللہ تعالی اس پر رحم نہیں فرماتا، آپﷺ کا فرمان ہے:
’’اللہ تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہ کرے‘‘
(صحیح البخاری)
رسول اللہﷺ نے رحمدلی کے معمولی اظہار سے دور شخص کی مذمت بھی فرمائی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے  ایک بارسیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا بوسہ لیا، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو اقرع نے کہا:’’میرے دس بیٹے ہیں، میں نے ان میں سے کسی کا کبھی بوسہ نہیں لیا‘‘تو رسول اللہﷺ نے اسے فرمایا:’’جو کسی پر شفقت نہیں کرتا اس پر شفقت نہیں کی جاتی‘‘( متفق علیہ)
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’ چھوٹے بچوں پر رحم کرنا، انہیں گلے لگانا، انکا بوسہ لینا اور ان کیساتھ شگفتگی سے پیش آنا رضائے الہی اور ثواب الہی کا باعث ہے، اسی طرح چھوٹے بچوں کا بوسہ لینا، انہیں گود میں اٹھانا، انکا بھر پور خیال کرنا رحمت الہی کا موجب ہے۔‘‘
انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دلی کے مستحق والدین ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ  (الإسراء : 24)

 ’’اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو‘‘۔
سب سے بہترین اولاد بھی وہی ہے جو اپنے والدین کیلئے رحمت کا باعث ہو:

 فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا(الكهف : 81)

لہٰذا ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس لڑکے کے بدلے انھیں اس سے بہتر لڑکا عطاکرے جو پاکیزہ اخلاق والا اور قرابت کا بہت خیال رکھنے والا ہو ۔
مؤمنین کی باہمی رحم دلی انہیں ایک جسم کی طرح بنا دیتی ہے، آپﷺ  کا فرمان ہے: ’’مؤمنین کو تم باہمی رحم دلی، محبت اور انس میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے، اگر ایک عضو تکلیف میں ہو تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔‘‘( متفق علیہ)
حتی کے جانوروں پر بھی رحمت کرنے کی شریعت نے بھر پور ترغیب دلائی ہے، آپ ﷺ  کا فرمان ہے:
’’تم اگر بکری پر بھی رحم کرو تو اللہ تم پر رحم کرے گا‘‘ ۔
( احمد)
ایک مؤمن کافر پر اس لیے ترس کھاتا ہے کہ اسے ہدایت نہیں ملی، جبکہ مؤمن نہ ہونے کے باعث اس سے بغض رکھتا ہے اور اگر کسی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اس کیساتھ نصیحت اور ہدایت کی دعا کے ذریعے رحمدلی کا اظہار کرے، چنانچہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شرابی آدمی کو لایا گیا ، آپ نے فرمایا: (اسے مارو)، تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:’’ہم اسے ہاتھوں، جوتوں، اور کپڑوں سے مارنے لگے، اور جب آپ جانے لگے تو کسی نے کہہ دیا: ’’اللہ تجھے رسوا کرے‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ایسی بات کر کے اس کے خلاف شیطان کی مدد مت کرو، تاہم یہ کہو:  اللہ تجھ پر رحم فرمائے‘‘۔(احمد)
مخلوقات میں سب سے زیادہ مشفق و رحیم اللہ کے رسول ہوتے ہیں، انہوںنے خلق خدا کی رہنمائی اور اصلاح کیلئے کوششیں کیں اور اپنی امتوں کو ہلاکت و تباہی سے بچانے کیلئے ہر حربہ آزمایاانکی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کیا، اور ان کیلئے فوری عذاب کا مطالبہ نہیں کیا۔
ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام نے جب اپنی اولاد میں سے جہنمی لوگوں کو دیکھا تو اشکبار ہو گئے ، جیسے کہ آپﷺ  کا قصہ

معراج کے متعلق فرمان ہے:

’میں نے جبریل سے کہا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ آدم ہیں، اور ان کے دائیں بائیں لوگ ان کی اولاد ہیں، جن میں سے دائیں جانب والے جنتی، جبکہ بائیں جانب والے جہنمی ہیں، چنانچہ آپ (آدم علیہ السلام)جب دائیں جانب دیکھتے تو مسکراتے ہیں، اور جب بائیں جانب دیکھتے تو اشکبار ہو جاتے ہیں‘‘ (متفق علیہ)
سیدناابراہیم علیہ السلام بھی اپنی قوم کیلئے نہایت نرم دل تھے، اسی لیے اپنے رب سے عرض کیا:

 فَمَنْ تَبِعَنِيْ فَاِنَّهٗ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ عَصَانِيْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ      (إبراهيم : 36)

 جس نے میری پیروی کی وہ یقینا میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی سو تو معاف کرنے والا ، رحم کرنے والا ہے ۔
آپ کے نرم دل ہونے کا یہ عالم تھا کہ قومِ لوط کے بارے میں فرشتوں سے الجھ پڑے، کہ انہیں ہلاک مت کریں، شاید کہ وہ ایمان لے آئیں۔
سیدناموسی علیہ السلام کو دو خواتین پر رحم آیا تو ان کے جانوروں کو پانی پلادیا، حالانکہ آپ اولو العزم پیغمبروں میں سےہیں، مزید برآں کہ آپکی رحمدلی کے اثرات  اس امت تک بھی پہنچے کہ انہوں نے ہمارے نبی محمد ﷺ کو نمازوںمیں تخفیف کیلئے اللہ تعالی سے رجوع کرنے کی خوب ترغیب دلائی، چنانچہ اللہ تعالی نے نمازوں کو پچاس سے پانچ تک محدود کرد یا۔
اورسیدنا یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہت ہی مہربان  بنایا تھا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا(مريم : 13)

 ہم نے اسے اپنی مہربانی سے  نرم دل اور پاک سیرت بنایا اور وہ فی الواقع پرہیز گار تھے۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’ ہم نے انہیں اپنی طرف سے لوگوں کیلئے دلی رحمت و شفقت عنایت کی، اسی بناء پر آپ لوگوں کو اطاعتِ الہی اور اخلاص کیساتھ نیک عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے‘‘۔
سیدناعیسی علیہ السلام بھی اپنی والدہ کیساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے، سخت مزاج اور بے رحم نہ تھے:

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا

 اور اللہ نے مجھے اپنے والدہ کیساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا، سخت دل اور بد بخت نہیں بنایا۔(مريم : 32)
انبیائے کرام میں سے کسی نبی کو انکی قوم نے اتنا مارا کہ لہو لہان کر دیا، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرمایا:’’پروردگار! میری  قوم کو بخش دے، یہ حقیقت سے آشنا نہیں‘‘(متفق علیہ)
ہمارے پیارے نبی محمدﷺتمام مخلوقات میں سے رحیم ترین  ہیں، بلکہ سنن نسائی کے مطابق آپکے ناموں میں’’نبی الرحمہ‘‘ بھی شامل ہے۔
جس وقت آپﷺ سے کہا گیا کہ: مشرکین پر بد دعا کر دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ مجھے لعن طعن کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘( مسلم)
جس وقت آپ کی قوم نے سخت اذیت دی تو  پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کرنے کے بعد کہا:’’اے محمدﷺ!   اگر آپ چاہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں؟‘‘ تو آپﷺنے فرمایا : نہیں ! بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا، جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ (متفق علیہ)
اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
(الأنبياء : 107)

 اور ہم نے آپکو جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
اللہ تعالی نے آپکو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنایا، چنانچہ جس شخص نے اس رحمت کو قبول کیا اور اس نعمت کی قدر کی  تو وہ دنیا و آخرت میں خوش بخت ہوگا، اور جس نے اسے مسترد کرتے ہوئے انکار کر دیا تو وہ دنیا و آخرت میں  نقصان اٹھائے گا۔
اللہ تعالی نے آپکو مؤمنین کیلئے خصوصی طور پر رحمت بنا کر ارسال کیا ہے:

وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ(التوبة : 61)

 اور آپ مؤمنوں کیلئے رحمت ہیں۔
آپﷺ اپنی امت کیلئے نہایت مشفق تھے، چنانچہ نبیﷺ نےسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں  یہ آیت تلاوت فرمائی:

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي(إبراهيم : 36)

 پروردگار! انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اب جو میری اتباع کرے وہ میرا ہے۔
اورسیدنا عیسی علیہ السلام کا یہ مقولہ تلاوت فرمایا:

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ(المائدة : 118)

 ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ پھر اس کے بعد آپﷺنے اپنے دونوں ہاتھ بلند فرمائے، اور کہا: (یا اللہ! میری امت! میری امت!)  پھر آپ زار و قطار رونے لگے، تو اللہ تعالی نے

جبریل علیہ السلام سے کہا:

’’جبریل! محمد کے پاس جاؤ اور پوچھو: ‘‘آپ کس لیے رو رہے ہیں؟”-تیرا  رب پہلے ہی جانتا ہے- تو جبریل  علیہ الصلاۃ و السلام نے آ کر آپ ﷺسے سوال کیا، اور آپ نے جواب دیا، یہ جواب جبریل نے اللہ تعالی کو بتلایا -اللہ کو جواب کا پہلے ہی علم تھا-، پھر اللہ تعالی نے  جبریل سے فرمایا: ’’جبریل! محمد  کے پاس جاؤ اور کہہ دو: ہم آپکو آپکی امت کے بارے میں راضی کر دینگے ، آپکو ناراض نہیں کریں گے۔‘‘(مسلم)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’یہ حدیث اس امت کیلئے پر امید احادیث میں سے ایک ہے، یا اس سے بڑھ کر امید والی حدیث کوئی نہیں ہے‘‘۔
آپﷺ اپنے صحابہ کرام کیساتھ انتہائی مشفق تھے، چنانچہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ عیادت کیلئے اپنے چند صحابہ کے ہمراہ تشریف لے گئے، جب ان کے گھر میں داخل ہوئے تو  انہیں گھر والوں نے گھیر رکھا تھا، آپ نے پوچھا:فوت ہوگئے؟!  تو انہوں نے کہا:’’نہیں اللہ کے رسول‘‘تو نبی معظم ﷺ رونے لگے، اور آپکو دیکھ کر سب لوگ بھی رو پڑے۔
(متفق علیہ)
رسول اللہﷺ کے پاس ایک بچے کو لایا گیا،  بچہ اس وقت نزع کی حالت میں تھا، تو آپﷺ یہ دیکھ کر اشکبار ہوگئے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: “اللہ کے رسول یہ کیا ؟” تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ اسی رحمدلی کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمائی ہے‘‘۔(متفق علیہ)
آپ نوجوانوں کیساتھ بھی نہایت مشفق تھے، چنانچہ سیدنامالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کے پاس آئے، ہم سب کے سب قریب العمر نوجوان لڑکے تھے، ہم نے آپ کے پاس بیس راتیں قیام کیا، آپ کو محسوس ہو ا کہ ہم اہل خانہ کو یاد کر رہے ہیں، تو آپ نے ہم سے ہمارے اہل خانہ کے پاس موجودافراد کے بارے میں پوچھا، تو ہم نے آپکو تفصیلات سے آگاہ کر دیا، آپ بہت مشفق، اور نرم دل تھے، آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلے جاؤ، اور انہیں بھی دین کی تعلیمات دو، انہیں نماز کا حکم دو، اور ایسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو، چنانچہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص اذان دے، اور عمر میں بڑا شخص امامت کروائے۔‘‘
(متفق علیہ)
آپ خواتین کے بارے میں بھی نہایت  نرم دل تھے، بسا اوقات آپ نماز  صرف اس لیے مختصر پڑھاتے تھے کہ ماں اور بچے کو

مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

’’ میں نماز شروع کرتے وقت لمبی نماز کا ارادہ کرتا ہوں، لیکن بچوں کے رونے کی وجہ سے نماز مختصر کر لیتا ہوں، کیونکہ مجھے علم ہے کہ اس کی ماں بچے کے رونے کی وجہ سے شدید پریشان ہوتی ہے‘‘(بخاری)
آپﷺ بچوں کیساتھ بھی نہایت مہربان تھے،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ’’میں نے کسی کو رسول ﷺ سے زیادہ بچوں پر مہربان نہیں پایا‘‘۔
ایک دن آپ ﷺ  خطبہ دے رہے تھے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما آ گئے، آپ دونوں کبھی چلتے تو کبھی لڑکھڑا جاتے، تو آپ ﷺ منبر سے اترے اور ان دونوں کو اٹھا کر منبر پر تشریف لے گئے، اور پھر فرمایا:
’’اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے کہ:

 إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ(التغابن : 15)

’’ بیشک تمہارے اموال و اولاد فتنہ ہی ہیں‘‘۔ ان دونوں کو گرتے پڑتے  دیکھنے کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا، اور میں نے اپنی گفتگو چھوڑ کر  انہیں اٹھا لیا(احمد)
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’یہ سب کچھ آپ ﷺ کی بچوں کیساتھ کمال شفقت، رحمت، انس ، پیار و محبت کی وجہ سے تھا، بلکہ اس میں امت کیلئے بچوںکیساتھ شفقت و رحمت کا درس بھی ہے‘‘۔
اس امت میں سب سے زیادہ رحمدل رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام ہیں، اللہ تعالی نے انکی مدح سرائی  میں فرمایا:

أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم(الفتح : 29)

 وہ کفار پر سخت اور آپس میں نہایت مہربان ہیں ۔
صحابہ کرام میں سب سے زیادہ مشفق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، اللہ تعالی نے انہیں وسیع علم اور شفقت سے نوازا تھا، امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’انسان کا علم جس قدر بڑھتا جائے گا، وہ اتنا ہی مشفق ہوگا‘‘۔
نیک اور نرم دل علمائے کرام لوگوں کی رہنمائی کیلئے تگ و دو کرتے ہیں، چنانچہ مخالفت کرنے والے پر ظلم نہیں کرتے، اور نہ اس پر دست درازی کرتے ہیں۔
مسلمانو!شریعت میں موجود رحمت و عدل دوست اور دشمن سب کیلئے ہے، چونکہ جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے، اس  لیے جو اللہ کی رحمت  کا متلاشی ہے تو وہ بھی خلق الہی پر رحم کرے، آپﷺ کا فرمان ہے:
’’یقیناً اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے صرف  رحم کرنے والوں پر ہی رحم کرتا ہے‘‘( متفق علیہ)
اور جس پر اللہ رحم کر دے تو سعادت مندی اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اور دنیا و آخرت میں اپنے مقاصد پا لیتا ہے۔

 هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ

احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے۔(الرحمن : 60)
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ، اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!تکبر اور لوگوں کی تحقیر اس وقت دل سے نکل جاتی ہے جب دل میں رحم پیدا ہو، چنانچہ رحمدلی نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان سنگدلی ،سخت مزاجی اور لاغر پن کے درمیان رہے۔
رحمت، و شفقت اللہ تعالی کو پسند ہیں، بشرطیکہ دین الہی  سے متصادم نہ ہوں، مثلاً: رحم کے نام پر نفاذِ حدود  ترک کرنے کی دعوت دینا ؛ رحمت و شفقت کے منافی ہیں۔
جس وقت انسان شبہ و شہوت سے پاک ہو تو اسے ہدایت و رحمت حاصل ہوتی ہے، اللہ تعالی نے اصحابِ کہف کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:

فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا(الكهف : 10)

’’ تو انہوں نے کہا: پروردگار! ہمیں اپنی طرف سے رحمت سے نواز، اور ہمارے معاملے میں ہماری رہنمائی فرما‘‘۔
حصول رحمت کے اسباب میںوالدین کیساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی، صدقہ، مصیبت زدہ  اور بیمار لوگوں  پر مہربانی، مردوں کی جانب سے قبرستان کی زیارت، کثرت کیساتھ تلاوت قرآن، اور ذکر الہی شامل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے