گفتگو کسی بھی شخص کی سیرت و کردار اور اخلاق و عادات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ شیخ سعدی ؒ نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں یوں بیان فرمایا ہے:
تامرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہ ہفتہ باشد
جب کوئی شخص گفتگو کرتاہے تب اس کے حسن و قبح سامنے آتے ہیں، ہر شخص کی شناخت اور اس کی پہچان اس کی گفتگو ہے، اس لیے ضروری ہے کہ انسان کی گفتگو صاف، واضح اور ہرشخص کے لیے قابل فہم ہونی چاہیے، حدیث شریف میں آتاہے کہ تاجدار مدینہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ایک دوسرے سے الگ ہوتاتھا، آپﷺ کے الفاظ گنے جاسکتے تھے اور زبانی یاد کیئے جاسکتے تھے، آپ گفتگو ٹھہر ٹھہر کے فرماتے تھے اس ٹھہراؤ میں خوبصورتی، رعنائی اور دلنوازی ہوتی تھی، تاکہ لوگ ایک ایک لفظ سن لیں اور یاد کرلیں، اور اگر کچھ پوچھنا ہوتو غور وفکر کرکے مجلس ہی میں پوچھ لیں، رسول اکرم ﷺ کے الفاظ منتخب اور موزوں ترین ہوتے، گویا نگینوں کی طرح باہم جڑے ہوتے جس کو علٰحدہ نہیں کیاجاسکتا۔رسول رحمت ﷺ کالہجہ دھیما ہوتاجس میں محبت و الفت رحمت وشفقت کی حلاوت اور شیرینی ہوتی، دوست تو دوست دشمن بھی آپ کی بات سننے کے
بعد کاٹنے کی جرأت نہ کرتامخاطب کو پورے الفاظ سے گفتگو کرنے کا موقع دیتے اور پوری توجہ اور انہماک سے اس کی گفتگو سنتے اور پھر اطمینان سے اس کے سوال کے جواب دیتے، مختصر الفاظ میں تشفی بخش جواب دیتے طول و طویل کلام سے احتراز کرتے تاکہ سننے والا اکتانہ جائے۔ آپ ﷺ کی گفتگو متانت و سنجیدگی کااعلی نمونہ ہوتی گفتگو کے سلسلے میں آپ کا اصول تھاکہ اچھی گفتگو کرو ورنہ خاموش رہو، آپ ﷺکے پیش نظر ہمیشہ یہ آیت رہتی’’ قولوا للناس حسنا ‘‘لوگوں سے اچھی بات کہو، آپﷺ  ہمیشہ سنجیدہ اور بامقصد گفتگو فرماتے اور اسی کی لوگوں کوتلقین فرماتے۔ آپﷺ صحابہ سے فرماتے ’’املک علیک لسانک‘‘ (گفتگو کرتے وقت اپنی زبان کوقابو میں رکھو) کیونکہ زبان کی بے باکیاں اعمال حسنہ کوبے وزن اور بے نور کر دیتی ہیں۔ علامہ ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:’’رسول اکرم ْْﷺ کی گفتگو میں جاذبیت وکاملیت اور جامعیت ہوتی تھی، آپ نہایت سادہ اور آسان لیکن فصیح ترین زبان استعمال کرتے تھے، گفتگو نہایت واضح اور دل میں اترجانے والی ہوتی تھی اس میں کسی طرح کاابہام نہ ہوتا اور نہ ہی مشکل الفاظ اور بھاری بھرکم تراکیب ہوتی تھیں۔ ‘‘(زاد المعاد) خودرحمت کائنات ﷺ  نے ایک موقع پر فرمایا ’’انا افصح العرب ‘‘(میں عربوں میں فصیح ترین ہوں) یعنی عرب میں
ندرت کلام کاباد شاہ ہوں، ایک موقع پر خلیفہ ثانی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نےرسول اکرم ﷺ سے عرض کیا میں نے آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص نہیں دیکھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میرے فصیح ترین ہونے میں کیاچیز رکاوٹ ہے جب کہ میں قریش کا فرد فرید اور رکن رکین ہوں اور میں نے اپنا بچپن بنو سعد کی آغوش میں گزار ا ہے۔ (طبقات ابن سعد) محمد عربی ﷺکی گفتگو  میں ادب کی چاشنی، الفاظ کی خوبی، مثال کی دلچسپی ہوتی تھیں، آپ کے اقوال حیرت انگیز ادبیت  او رمعنویت کے حامل ہوتے، ایک موقع پرسیدنا علی کرم اللہ وجہ نے رسول اللہ ﷺ  سے آپ ﷺ کے مسلک زندگی کے بارے میں سوال کیا،تاجدارمدینہ  ﷺ نے جوجواب دیا وہ حکمت و دانائی، علم و معرفت کا عظیم سرمایہ اور معرفت الٰہی کامنفرد شاہکار ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے علی ! عرفان میرا سرمایہ ہے، عقل میرے دین کی اصل ہے، محبت میری بنیاد ہے، شوق میری سواری ہے، ذکر الٰہی میرامونس ہے، ا عتماد میرا خزانہ ہے، حزن میرا رفیق ہے، علم میرا ہتھیار ہے، صبر میرا لباس ہے، رضائے الٰہی میری غنیمت ہے، عجز میرا فخر ہے، زہد میرا روزگار ہے، یقین میری قوت ہے، صدق میری سفارش ہے، جہاد میرا کردار ہے، طاعت میری پناہ ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ‘‘(بحوالہ نوائے ہادی سیرت رسول نمبر)
اس تمہید کے بعد آئیے ایک طائرانہ نظر رسول اللہﷺ کی گفتگو اور کلام کے ادبی محاسن پر یا بالفاظ دیگر احادیث نبویﷺ کے ادبی محاسن پرڈالتے چلیں۔ تشبیہ و تمثیل :ہر قسم کی مادی تعلیم اور روحانی تربیت کی تکمیل تشیبہ و تمثیل سے ہی ہوتی ہے، تشبیہ و تمثیل ہرزبان میں تعبیر و تفہیم اور اظہار وبیان کاایک موثر اور خوبصورت ذریعہ رہاہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کاکوئی لٹریچر خواہ وہ انسانی ہویا آسمانی اس سے خالی نہ رہ سکا اور نہ یہ ہونا ممکن تھا، کلام الٰہی کے بعد سب سے زیادہ اہم کلام کلام رسول ہے، آ پﷺ نے اپنے کلام میں بھی کثرت سے اس ذریعہ تفہیم کواختیار فرمایا ہے، چند تمثیلات و تشبیہات پیش کیے جاتے ہیں۔

1۔ إِنَّ أَحَدَكُمْ مِرْآةُ أَخِيهِ، فَإِنْ رَأَى بِهِ أَذًى فَلْيُمِطْهُ عَنْهُ (سنن الترمذی1929 ضعفہ الألبانی)

 تم میں سے ایک دوسرے کاآئینہ ہے اگراس میں کوئی برائی دیکھے تو دور کردے۔

2۔ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ (صحیح البخاری 6416)

 دنیامیں اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر یاراہ روہو۔

3۔ مَثَلُ أَبِي بَكْرٍ مَثَلُ الْقَطْرِ حَيْثُمَا وَقَعَ نَفَعَ (مصنف ابن ابی شیبۃ :31943)

سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی مثال پانی کے قطرہ کی سی ہے کہ جہاں بھی پڑتاہے نفع دیتاہے۔

4۔النَّاسُ مَعَادِنٌ كَمَعَادِنِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَخِيَارِهِمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا (مسند شہاب القضاعی 196)

 لوگ سونے چاندی کی مانند کانیں ہیں جولوگ ان میں سے زمانہ ٔ جاہلیت میں بہتر تھے۔ جب انہوں نے اسلام کوسمجھ لیا تو وہ وہی اسلام میں بھی بہتر ٹھہرے۔

5۔ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ 85 ’’موضوع‘‘)

 میرے أصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔

6۔ عِلْمٌ لَا يَنْفَعُ كَكَنْزٍ لَا يُنْفَقُ مِنْهُ (مسند شہاب القضاعی : 263 صححہ الألبانی)

 وہ علم جس سے کوئی نفع نہ ہو اس کی مثال اس خزانے کی ہے جس میں سے کچھ خرچ نہ کیاجائے۔

7۔ مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَ فِيهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ (المعجم الکبیر للطبرانی2638)

 میرے اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح کی ہے جواس میں سوار ہوگیا وہ پار ہوگیا جوپیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔

8۔ لَا تَجْعَلُونِي كَقَدَحِ الرَّاكِبِ (مصنف عبد الرزاق3117 وقال الألبانی فی الضعیفۃ ’’منکر‘‘)

مجھے سوار کے پیالے کی سی حیثیت مت دو۔ یعنی جس طرح ایک شتر سوار اپنا پیالہ کجاوے کے پپچھے باندھتا ہے، اس طرح میرا ذکر آخرمیں نہ کرو، کیونکہ اس سے تمہاری بے رخی اور بے اعتنائی کا اظہار ہوتاہے، جوایمان کے خلاف بات ہے۔

9۔ وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ العُرْيَانُ (صحیح البخاری6482)

میری مثال ایسی ہے جیسے ننگا ڈرانے والا ہو۔
عربوں کے ہاں یہ دستور تھاکہ جب کوئی بڑا خطرہ درپیش ہوتاتو ایک شخص پہاڑی پرچڑھ کرکپڑے اتار کر قوم کو بلاتا تو لوگ اس کی بات سننے کے لیے جمع ہوجاتے اور وہ انھیں خطرے سے آگاہ کردیتا، آں حضور ؐ کی مراد یہ ہے کہ میں بھی تمہیں ایک بہت بڑے خطرے سے آگاہ کررہاہوں اللہ تعالیٰ کے انکار اور نافرمانی کی وجہ سے تم دوزخ میں پڑنے والے ہو، اس سے بچ جاؤ۔

10۔العَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالعَائِدِ فِي قَيْئِهِ (صحیح البخاری:2621)

 کوئی چیز تحفہ دے کر واپس لینے والا ایسا ہے جیسے قئے کرکے پھر اس کو چاٹ لینے والا۔

11۔النَّاسُ كَإِبِلٍ مِائَةٍ لَا تَجِدُ فِيهَا رَاحِلَةً (صحیح مسلم 2547)

 لوگوں کی مثال ان سو اونٹوں کی ہے جن میں سواری کے لائق ایک بھی نہ ہو یعنی عام لوگوں مین نیک و خدا پرست آدمی ایک بھی نہیں ملتا۔

12۔ وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ، إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَيْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ، إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ (سنن ابی داؤد)

نیکوکار ہمنشین کی مثال کستوری والے کے مانند ہے اگر تجھے اس سے نہ بھی ملی تو اس کی خوشبو تو ( ضرور ) پہنچے گی اور برے ساتھی کی مثال بھٹی والے کی طرح ہے ‘ اگر تجھے اس کی کالک نہ لگی تو دھواں تو ضرور آئے گا ۔
تجزیاتی کلام: رسول اللہ ﷺ کاطرز گفتگو یہ بھی ہوتا تھا کہ کسی بات پر ہمہ پہلو گفتگو فرماتے اور ایسا منطقی تجزیہ فرماتے کہ کوئی پہلو اس سے باہر نہ جاسکے، جیسے آپ ﷺ نے ایک موقع پرارشادفرمایا:

لَيْسَ لَكَ مِنْ مَالِكِ إِلَّا مَا أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْ لَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَيْتَ (مصنف ابن ابی شیبۃ 34339)

تمہارا مال صرف وہی ہے جوتم نے کھاکر فنا کردیا یاپہن کربوسیدہ کردیا یاصدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔
یہ گفتگو نہایت موثر اور عقل کواپیل کرنے والی ہوتی ہے کہ صاحب عقل و انصاف کے لیے اس کو قبول کئے بغیر چارہ نہیں نمبر وار کلا م :گفتگو کودلچسپ، موثر اور یاد رکھنے میں سہل و آسان بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مختلف باتیں کہنی ہوں تو ترتیب وار کی جائیں اور پہلے اسکی تعداد شمار کرادی جائے مثلا مجھے تین باتیں کہنی ہیں، رسول اکرم ﷺ کی گفتگو میں بھی یہ طریقہ آپ کو بکثرت ملے گا، جیسے ایک موقع پرآپ ﷺ نے فرمایا :

ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ، الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ، وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا(سنن ابی داود2540)

(دوچیز رد نہیں ہوتیں، وہ دعاء جو اذان کے وقت کی جائے اور جو جنگ کی شدت کے وقت کی جائے) ایک دوسرے موقع پرآپﷺ نے فرمایا :

ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ بِهِنَّ طَعْمَ الإِيمَانِ، مَنْ كَانَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ المَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ (سنن الترمذی:2624)

’’جس میں تین باتیں ہوں وہ ایمان کے ذائقہ سے محظوظ  ہوگا۔ اس کو اللہ اور اسکا رسول ان کے ماسوا سب سے زیادہ محبوب ہو، جوکسی بندہ خدا سے اللہ ہی کے لیے محبت کرے۔ اور کفر میں لوٹنے کو ناپسند کرتا ہوجیسے وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتاہے۔‘‘

استفہامیہ انداز کلام :

استفہام کے معنی استفسار اور سوال کے ہیں، آپ ﷺ نے متعدد اور بے شمار مواقع پر استفہامیہ انداز کلام کو اختیار فرمایارسول مکرم ﷺ  کامعمول مبارک تھاکہ کسی اہم بات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے پہلے استفہامیہ انداز اختیارکرتے اور ایسا سوال کرتے کہ ہر شخص گو ش برآواز ہوجائے اور اگلی بات سننے کی خواہش دل میں چٹکیاں لینے لگے پھرآپﷺ ارشاد فرماتے دوتین نمونے پیش کیے جاتے ہیں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا :
أیکم مال وارثہ احب الیہ من مالہ ؟
تم میں سے کس کو اپنے مال کے مقابلہ اپنے وارث کامال محبوب ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ !
ما منا احد الا مالہ احب الیہ من وراثہ۔
رسول اللہﷺ! ہم میں سے ہرشخص کواس کے وارث کے مال سے اپنا مال زیادہ محبوب ہے۔ پھر آپﷺ نے وہ بات فرمائی جوکسی پیغمبر اور رسول ہی کی زبان سے نکل سکتی ہے۔
’’فان مالہ ما قدم ومال وارثہ ماأخر۔ ‘‘
جس مال کو اس نے (اللہ کی زبان میں) پہلے خرچ کرلیاوہ اس کا ہے اور جوچھوڑگیا وہ اس کے وارث کاہے۔ ایک موقع پر آپﷺ نےسیدناابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کوطلب فرمایا اور پوچھا :
’’أتری أحدا؟‘‘کیاتم نے احد پہاڑ کودیکھا یاکیاتم احد پہاڑ کودیکھتے ہو؟ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں دیکھ رہاہوں، آ پ ﷺ نے فرمایا:
ما یسرنی ان لی مثلہ ذھبا انفقہ کلہ الا تلثۃ دنانیر۔
مجھے اس سے خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس کے برابر سونا ہواور اس میں سے تین دینا ربھی بچ رہیں۔ معنی اور لفظ میں صوتی ہم آہنگی (مطابقت):کسی معنی کے اظہار کے لیے ایسے لفظ کا استعمال کہ خود آواز اور تلفظ ہی اس کی کیفیت کوظاہر کردے یہ بھی زبان وبیان کے محاسن اور کمالات میں سے ہے، صرف ایک نمونہ پیش کرتے ہیں ورنہ احادیث کے ذخیرے میں متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلا اٹک اٹک کرقرآن پڑھنے کی مشقت کو آپ ﷺ نے اس طرح ظاہر فرمایا۔

وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ (صحیح مسلم : 798)

یتعتعکالفظ خو د زبان حال سے اس مشقت کابیان و اظہار ہے۔ کلام نبویﷺ میں مجاز اور کنایہ :ادب کی اہم صنف مجاز اور کنایہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لفظ یاجملہ کے حقیقی معنیٰ کے بجائے لوازم معنیٰ مراد لیے جائیں، کلا م نبوی میں یہ بکثرت استعمال ہواہے ہرچندکہ فصحائے عرب ’’مجاز ‘‘ کے استعمال میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ اور ان کو اس خصوصیت پر بڑا ناز تھا، لیکن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مجازی تراکیب کے سامنے وہ شرمندہ و سر فگندہ تھے۔ ذیل میں چند ایسے ارشادات پیش کررہاہوں جواپنے مجازی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ھدنۃ علی دخن صلح دھوئیں پرہے۔ کل ارض سمائھا ہرزمین اس کے تنومندوں کے ساتھ ہے۔ یاخیل اللہ ارکبی اے اللہ کے سوا رو ! سوار ہوجاؤ! لاینطح فیھا عنزان اس میں دو رائیں نہیں ہوسکتی۔ رویدک رفقا بالقواریر ان آبگینوں کے ساتھ نرمی سے کام لو۔ الآن حمی الو طیس (اب تنور بھڑکا ہے)یعنی معرکہ  ٔ کار زار اب گرم ہے کل الصید فی جوف الفراء سب شکار جنگلی گدھے کے پیٹ میں۔ یعنی ہاتھی کے پاؤں میں سب کاپاؤں نادر اور اچھوتے الفاظ کاانتخاب :مختلف معانی اور مفاہیم اور ان کے لیے موزوں سے موزوں تر الفاظ ومرکبات کے انتخاب میں بھی آپ ﷺ یدطولی رکھتے تھے، بسااوقات آپ ؐﷺنے ایسے الفاظ، مرکبات او ر جملے استعمال فرمائے ہیں جن سے عام طورپر عربوں کے کان ناآشنا تھے، ایسے جملے اور کلمات کااستعمال ’’بیان ‘‘ کی
ان خوبیوں میں سے ہے جن کی بلاغت میں نظیر نہیں ملتی۔ ایک بار ابو تمیمہ الھجمی رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے تو آپ ؐ نے ان کو جونصائح فرمائیں ان میں ایک جملہ یہ بھی ارشاد فرمایا ’’ایاك والمخیلۃ‘‘انھوں نے عرض کیا یارسو ل اللہ ’’مخیلۃ ‘‘کیاہے ؟ ہم قوم عرب سے ہیں لیکن ہم یہ لفظ نہیں سمجھ سکے توآپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مخیلۃ ازارکا زمین پرگھسٹاناہے، گو یا یہ تکبر کی علامت ہے، اس کے بعد یہ لفظ ’’مخیلہ ‘‘تکبر کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور رسول اللهﷺ نے اس کو متعدد بار استعمال فرمایا۔ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺنے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے روبرو ’’مات حتف انفہ ‘‘ (وہ اپنی ناک کی موت مرگیا)(فطری اور طبعی) ارشاد فرمایا تو سیدناعلی رضي الله عنه نے فرمایا کہ یارسول اللہ ! میں نے ایسا جملہ سناہے کہ اس سے قبل کسی عرب کی زبان سے نہیں سنا، سیدناعلی فرماتے ہیں کہ جب میں نے آپﷺ سے اس کے معنی دریافت کیے تو معلوم ہواکہ اس کے معنی ہیں کہ ’’وہ اپنی ناک کی موت مرگیا‘‘ اردوزبان میں بھی ناک رگڑ کرمرجانا مستعمل ہے، اس سے رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ ایک مسلمان کوشہید کی موت مرنا پسند کرنا چاہئے نہ یہ کہ وہ بستر پر پڑے پڑے دم توڑدے۔  اسی طرح غزوہ ٔ اوطاس میں جب مسلمانوں نے کافروں پر پلٹ کرحملہ کیااور ان کے کشتوں کے پشتے لگنے لگے اس وقت رسول عربیﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’الآن حمٰی الوطیس‘‘ تنور اب گرم ہوگیا یعنی اب گھمسان کارن پڑاہے۔ الغرض عربوں کی لغت دانی، الفاظ کی تراش وخراش یعنی اشتقاق کی صناعیاں رسول اللہﷺ کے حسین و دلکش لغات اور مشتقات کی جامعیت سے بھرپو رکلمات کے سامنے بالکل ماند پڑگئی تھیں۔ فصل ووصل :عربی زبان میں دوجملوں کوکسی حرف عطف کے ذریعہ مربوط کرنے یا بغیر حرف عطف کے ذکر کرنے کے مستقل قواعد ہیں جو ادب کی اصطلاح میں ’’فصل ووصل ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، ان کی رعایت کلام میں ایک لطف پیدا کرتی ہے کلام نبوی ﷺ میں اس کا بڑا خوبصورت استعمال موجود ہے۔ مثلا آپ ﷺ نے فرمایا ’’أدِّ الامانۃ لمن ائتمنك ولا تخن من خانك۔ امانت وخیانت ایک دوسرے کی ضد ہیں اور امانت کی ادائیگی اور خیانت سے اجتناب ایک دوسرے کے لوازم میں ہیں۔ کلام نبویﷺ میں لفظی مناسبت :زبان و ادب کی خوبیوں اور رعنائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو ایسے الفاظ استعمال کیئے جائیں جوتلفظ میں یکسانیت یاقربت رکھتے ہوں اور معنی و مقصود میں ایک دوسرے سے مختلف، لیکن ایسی لفظی مناسبت میں بے ساختگی اور برجستگی شرط ہے۔ رسول اللہﷺ کی گفتگو میں اس طرح کے خوبصورت، برجستہ فقرے کثرت سے ملتے ہیں، بطور مثال چند فقرے پیش کئے جاتے ہیں : عصیۃ عصت اللہ ورسولہ  قبیلہ ’’عصیہ‘‘ نے اللہ و رسول کی معصیت و نافرمانی کی۔ غفار غفر اللہ لھا ’’غفار ‘‘ قبیلہ کی اللہ تعالیٰ مغرفت فرمائے اسلم سالمھا اللہ  ’’بنو اسلم ‘‘ کواللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ اسلم تسلم اسلام قبول کرو نجات پاؤ گے۔ الخیل معقود بنو اصیھا الخیر گھوڑے کی پیشانی سے ’’خیر ‘‘ وابستہ ہے۔ لا یکون ذو جہین وجیھا عنداللہ  ’’دو رخا‘‘ اللہ کے نزدیک وجیہ (بامراد وکامیاب)نہیں ہوسکتا۔ رعایت سجع و نغمگیں کیفیت :رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ ﷺنے متعدد اور بے شمار مواقع پرایسے فقرے اور جملے استعمال فرمائے جس میں رعایت سجع کاجلوہ نمایاں ہے۔ ادب اور زبان کی اصطلاح میں سجع کہتے ہیں فقروں کی ایسی ترتیب جس کے آخری حروف میں یکسانیت ہواور ان فقروں میں ایک طرح کا آہنگ ہو۔ اگر مسجع کی رعایت میں تکلف اور تصنع کادخل ہوتو اہل ذوق کے لیے اس سے زیادہ گراں خاطر کچھ اور کلام نہیں، لیکن اگر اس میں بے تکلفی، بے ساختگی اور برجستگی ہوتو پھر اس کی لذت اور حلاوت کاکیاکہنا۔ آپﷺ کے تمام نصائح میں بھی اور دعاؤں میں بھی یہ رنگ خوب نمایاں ہے۔ چند فقرے اور جملے بطور نمونہ پیش ہیں۔
ایک خطبے (تقریر) میں آپﷺ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

 لوگو! سلام کوعام کرو، کھانا کھلاؤ، شب کے وقت جب لوگ سوئے ہوں نماز پڑھو، اس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوسکو گے۔ (سنن ابن ماجہ 1334)
ایک موقع پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا

:الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ (سنن ابی داود:1964)

’’مومن شریف و سادہ اور فاجر شخص کمینہ ودھوکہ باز ہوتا ہے۔‘‘
بعض مواقع پر تو آپﷺ کے کلام میں یہ رعایت سجع اتنی خوبصورت ہے کہ گویا تأثیر میں شاعر ی مثلا یہ حدیث

كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي المِيزَانِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ (صحیح البخاری7563)

دو کلمے ہیں اللہ کومحبوب، زبان پر ہلکے پھلکے، میزان عمل میں بھاری۔

سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ

دلچسپ آغاز کلام:

اللہ تعالیٰ نے تاجدارمدینہ کوآغازکلام کا بھی ایک خاص سلیقہ و دیعت فرمایاتھا، اگر اس نقطہ ٔ نظر اور پہلو سے کلام نبوی ﷺکامطالعہ کیاجائے تویہ بھی بلاغت نبویﷺ کاایک مستقل باب اور عنوان ثابت ہوگا۔ متعدد روایات میں اس طرز پر گفتگو شروع فرماتے کہ مخاطب ہمہ تن گوش ہوجائے۔ کہ آگے کیا بات کہی جانے والی ہے۔ مثلا ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا: عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ اہل ایمان کامعاملہ بھی عجیب ہے،ان کاہر معاملہ خیر ہے، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ

أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ۔

راحت میسر ہواور شکر گذار ہوتویہ بھی اس کے لیے بہتر، اگر تکلیف سے دو چار ہواور صبر کرے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر۔ اس حدیث میں آپ ﷺ کایہ ارشاد فرمانا کہ ’’باعث تعجب ہے مومن کا معاملہ ‘‘ کس قدر دلچسپ اور قلب و دماغ اور ذہن و فکر کومتوجہ کرنے والا اور خوابیدہ اذھان کوچونکا دینے والا ہے۔ کلام نبوی ﷺ میں ’’التفات ‘‘کی جھلک :بلاغت کی اصطلاح اور قواعد میں ’’التفات ‘‘بھی ہے یعنی تخاطب میں ایسی تبدیلی کہ مقصد بھی حاصل ہوجائے اور منشاء بھی فوت نہ ہونے پائے۔ عربی زبان میں اس انداز تخاطب کوپسند کیاجاتا ہے اور بہتر طرز کلام مانا جاتاہے، آں حضرت ﷺکی گفتگو اور کلام میں اس حسن تکلم کی پوری پوری رعایت موجود ہے خاص کر آپ ﷺنے دعاؤں میں اکثر ’’التفات ‘‘ سے کام لیا ہے بطور نمونہ دومثالیں پیش خدمت ہے۔ رسول اللہﷺ جب رکوع میں جاتے تو اس طرح دعاء فرماتے۔

اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَلَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ أَنْتَ رَبِّي، خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي، وَلَحْمِي وَدَمِي، وَمُخِّي وَعَصَبِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (سنن النسائي :1052)

اے رب کریم!میں آپ کے سامنے جھکتاہوں، آپ پر ایمان رکھتاہوں، چوکھٹ یارپر جبین نیازخم ہے اور اسی پر بھروسہ ہے، آپ ہی میرے پرور دگار ہیں، آنکھ، کان، گوشت، خون اور ہڈیاں خدائے پروردگار عالم کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔
اس دعا میں ابتداء صیغہ ٔ خطاب سے اللہ رب العزت کا ذکر کیاگیا، پھر اختتام دعا پر اللہ رب العزت کانام نامی ذکر کیاگیا، اسی طرح رسول اللہﷺ جب گھر سے باہر تشریف لاتے تو عموما یہ دعا پڑھتے۔

بِسْمِ اللهِ، تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَزِلَّ، أَوْ نَضِلَّ، أَوْ نَظْلِمَ، أَوْ نُظْلَمَ، أَوْ نَجْهَلَ، أَوْ يُجْهَلَ عَلَيْنَا (سنن الترمذي

: 3427)
اللہ کے نام سے، اللہ ہی پر بھروسہ ہے، الٰہی! میں لغزش اور بے سمتی کاشکار ہونے سے آپ سے پناہ چاہتاہوں۔ اس بات سے بھی کہ میں ظلم کرو ں یامجھ پرظلم کیاجائے، میں جہالت کاثبوت دوں یا میرے ساتھ جاہلانہ رویہ اختیار کیاجائے۔ اس میں دعا اللہ رب العزت کے اسم پاک سے شروع ہوئی ہے، پھر بندہ خطاب کے صیغے سے اللہ کے حضور مناجات کرتاہے کبھی معروف کاصیغہ استعمال کرتاہے تو کبھی مجھول کا نضل اور یضل میں ایک حرف کی تبدیلی سے عبارت میں جولطافت پیداہوئی ہے وہ سب سے سوا ہے۔ مقابلہ :حسن کلام کا ایک طریقہ ’’مقابلہ ‘‘بھی ہے، بلاغت کے اعتبار سے مقابلہ کہتے ہیں کہ پہلے ایک بات ذکر کی جائے اور پھراس کے مقابلہ میں ایسی بات ذکرکی جائے جواس کے مقابل ہو، اس انداز کلام سے ایک خاص قسم کی تاکید، ہم آہنگی اور رعنائی وخوبصورتی پیدا ہوتی ہے، آپﷺ کے کلام اور گفتگو میں یہ انداز اور طریقہ کثرت سے پایا جاتاہے، صرف ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے۔ رسول اللہ ﷺنے سیدہ عائشہrسے فرمایا:

يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَمْ يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ (مسند ابی داؤد الطیالسی 1619)

نرمی اختیار کرو کہ جس میں یہ وصف پایا جاتا ہے اس کو آراستہ کرتا ہے اور جو اس سے محروم ہواس کو عیب داربناتا ہے۔ (مستفاد ادب اسلامی ایک مطالعہ) ایجاز واختصار کلام نبوی ﷺ میں :ادب کے محاسن میں سے یہ بھی ہے کہ نہایت ہی اختصار کے ساتھ کم الفاظ میں زیادہ بات کہہ دی جائے یعنی جو گفتگو مختصر اور بامعنی ہوتی ہے اسے ایجاز کے اسلوب سے جانا جاتا ہے، اس کے بالمقابل کلام میں طوالت اور دراز نفسی ایک عیب ہے نہ کہ ہنر، ایسا کلام کہ سننے اور پڑھنے والے کے ذہن میں اس کی منزل مقصود متعین ہی نہ ہونے پائے۔ اور وہ الفا ظ کے بیابان میں اپنے آپ کو ایک گم کشتہ راہ مسافر تصور کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ کی گفتگو او رکلام ماقل و دل کی تصویر ہوتی آپ کا کلام بلاغت نظام کی کیفیت سے معمور نظر آتا جس کے رنگ رنگ سے معنی ٹپکتا ہے اسی کو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا أوتیت جوامع الکلم مجھ کو مختصر اور پر معنی کلام کی توفیق خاص سے نوازا گیاہے۔ اوپر جواحادیث رسول اور دعاء رسول ذکر کی کی گئی ہیں وہ سبھی اس طرز کلا م کانمونہ ہیں۔ ضرب المثل او ر محاورے کلام رسول ﷺ میں :ضرب المثل اور محاورے کلام کی خوبیوں اور محاسن میں سے ہیں ضرب المثل اور محاورے کی مقبولیت اور اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ﷺکے کلام میں بھی اس طرح کے مقبول عام فقرے محاورے اور اختراعی تعبیرات بہت زیادہ ہیں طوالت کے خوف سے صرف چندمحاورے اور اختراعی تعبیرات پیش کیے جاتے ہیں۔
1۔ المرء مع من احب
آدمی جسے چاہے گا اس کے ساتھ حشر ہوگا۔
2۔ الدین النصیحۃ۔
دین خیرخواہی سے عبارت ہے۔
3۔ حوالیھا یُدندن   اس کے اقرباء بڑ بڑا رہے ہیں یعنی اظہار ناراضگی کررہے ہیں۔
4۔ اعقل و توکل  پہلے اونٹ کاگھٹنا باندھوپھر اللہ پر توکل کرو یعنی ہرمعاملہ میں پہلےاپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے پھر اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
5۔ حوالینا ولاعلیناہمارے گردو پیش ہولیکن ہم پرنہ ہو رسول اللہﷺ نے یہ الفاظ غیر متوقع بار ش کودور ہٹانے کے لئے دعائیہ انداز میں ارشاد فر مائے تھے۔
6۔ الآن حمی الوطیس اب تنور بھڑکا ہے یعنی معرکۂ کار زار اب گرم ہے۔
7۔ ھدنۃ علی دخن وجماعۃ علی اقذاء   نیچے لڑائی کادھواں سلگ رہاہے اور اوپر صلح کی اوس،دلوں میں دشمنی کی کسک ہے او ربظاہر اصلاح کی رٹ۔ یعنی منہ میں رام رام بغل میں چھری۔
8۔ لاینتطح فیھا عنزان اس میں دوبکریوں کی کوئی لڑائی نہیں ہے یعنی اس معاملہ میں کسی کومجال اختلاف نہیں ہے۔
9۔ کل الصید فی جوف الفراء ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں
10۔ المرء بالقرین انسان دوست سے پہچانا جاتاہے۔
11۔من جد وجد جس نے کوشش کی وہ کامیاب ہوا۔
12۔ من ضَحک ضُحک  جودوسروں پر ہنستاہے دنیا اس پر ہنسے گی۔
13۔ رفقا بالقواریر  آبگینوں کو ٹھیس نہ پہونچاؤ یعنی عورتوں پر شفقت اور رحمدلی کامعاملہ کرو۔
14۔مات فلان حتف انفہ وہ فطری اور طبعی موت مرا۔
15۔ ایاکم وخضراء العمن چمکتا جونظر آتا ہے وہ سب سونا نہیں ہوتا۔
16۔ ان المنبت لاارضا قطع ولا ظہرا یعنی ہرطرف سبزہ ہی سبزہ ہے، دونوں ہاتھ میں لڈو۔
17۔ لایلدغ المومن من جحرمرتین۔ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈساجاتا۔
18۔ الید العلیا خیر من الید السفلی دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
19۔ اذا لم تستحی فاصنع مااشئت بے حیا باش ہر چہ خواہی کن۔
20۔ لیس الخبر کالمعاینۃ  سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہے، شنیدہ کے بود مانند دیدہ (نقوش سیرت رسولﷺ نمبر جلد۔ 8)
الغرض تاجدار مدینہ رسول عربی اورنبی اکرمﷺ کی گفتگو اور کلام ان مضامین و معانی کاحامل ہوتاتھا جو انتہائی حکیمانہ عاقلانہ اور الہامات نبوت اور وحی الٰہی سے ماخوذ ہوتے تھے۔ آپ ﷺکے کلام وبیان کے یہ تمام محاسن کسبی نہیں تھے بلکہ وہبی اور توفیقی تھے اورزبان دانی کے یہ تمام کمالات رسول اللہ ﷺکی ذات والا صفات میں ایک معجزہ بن کر نمایاں ہوئے تھے اور اس موہبت عظمی کی عطا کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کی ذات والا کو انتخاب فرمالیاتھا۔ سابقہ اوراق میں بنی اکرم ﷺکے کلام کی انہی خوبیوں اورمحاسن کومیں نے مثالوں کے ساتھ پیش کیاہے۔
مضمون کے اختتام پر مجھے اس بات کاشدید احساس ہے کہ ان چند صفحات میں رسول رحمت ﷺ کے کلام وگفتگو، دعا وخطاب (تقریر) کے تمام اور ہمہ جہت ادبی محاسن اور رعنائی کواجاگر نہ کرسکا۔ البتہ اہل ذوق حضرات سے گزارش او ردرخواست ہے کہ رسول معظم  ﷺ کے کلام اور احادیث نبوی کے فنی اور ادبی محاسن کوسمجھنے کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ جوبطور مراجع ومصادر نیچے لکھے جارہے ہیں۔

مراجع ومصادر

1۔ وحی الرسالۃ، احمد حسن زیات۔
2۔ الحدیث النبوی ؐ، مصطفی زرقاء۔
3۔ الحیاۃ الادبیۃ بعد ظہر الاسلام، الدکتور محمد عبد المنعم خفا جی۔
4۔ ادب الحدیث النبوی ؐ۔ الدکتور بکری شیخ امین۔
5۔ الحدیث النبوی مصطلحاتہ، بلاغتہ وکتبہ، محمد علی الصباغ۔
6۔ التصویر الفنی فی الحدیث النبوی ۔ محمد علی الصباغ۔
7۔ الحدیث النبوی الشریف من الوجھۃ البلاغیۃ۔ الدکتور کمال عزا لدین۔
8۔ فصاحت نبوی ؐ۔ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر۔
9۔ سرور کونینﷺ کی فصاحت۔ شمش بریلوی۔
10۔ ادب اسلامی ایک مطالعہ (مرتب رضوان القاسمی ؒ خالد سیف اللہ رحمانی)
11۔ نقوش رسول نمبر (لاہور) جلد مرتب ومدیر محمد طفیل۔
12۔ کاروان ادب سہہ ماہی نمبر (حدیث نبوی ؐ کی ادبی خصوصیات) ناشر رابطہ ادب اسلامی لکھنؤ۔
13۔ زاد المعاد۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ۔
14۔ ماھنامہ نوائے ہادی (سیرت رسول ؐ نمبر) کانپور مدیر محمد اخلاق ندوی۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے