دین اسلا م کا علم حاصل کرناہر کلمہ گو مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔دین اسلام کے عقائد و فرامین اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کی پسندیدہ اور نا پسندیدہ باتوں کا علم ہونا چاہیےتاکہ صحیح عمل کرکے قیامت کے دن سرخ رو ہو سکیں ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔

إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ يُعْطِي(البخاری71)

میں دین کاعلم تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ تعالی دین دینے والا ہے ۔
ٓصد افسوس کہ ہم نے شریعت کے تمام سنہری اصولوں اور نبی اکرم ﷺ کے ارشادات کو پس پشت ڈال دیا اور اپنی خواہشات اورجذبات کےپیروکاربن گئےہیں۔ ہمارے دل اپنےپسندیدہ طور طریقوں پر پتھر سے زیادہ سختی سے جمے ہوئے ہیں سنت ﷺ کو جان لینے کے باوجود ہم انہیں چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(البخاری5063)

جس نے میرے طریقے سے منہ موڑااس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
قرآن مجیدمیں اللہ رب العزت کاارشادہے :

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ  ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ (الاعراف26)

اے آدم ( علیہ السلام) کی اولاد ‘ ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپتا ہے اور آرائش و زیبائش کا سبب بھی ہے اور (اس سے بڑھ کر) تقویٰ کا لباس جو ہے وہ سب سے بہترہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت اخذ کریں۔
اس آیت میںاللہ تعالی نے ہمیں تین احکام دیے ہیں لباس قابل ستر حصوں کو ڈھانپےوالاہو،تمہاری زینت کاباعث بھی ہو اورعملی زندگی میں پرہیز گاری اختیار کرو
لباس کا حکم دینے کے لیے اللہ تعالی نے تمام ا بن آدم کو خطاب فرمایاجس کامطلب یہ ہے کہ لباس کا بلااستثناء مذہب و ملت ہے اولاد آدم کے لیے ایک جیسا ہے گویا لباس کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ۔اسی سورۃ میں ایک اور مقام پر فرمایا۔

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ    (الاعراف 31)

اے آدم کی اولاد ‘ اپنی زینت استوار کیا کرو ہر نماز کے وقت اور کھاؤ اور پیو البتہ اسراف نہ کرو ‘ یقیناً وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

كُلْ مَا شِئْتَ وَالبَسْ مَا شِئْتَ مَا أَخْطَأَتْكَ اثْنَتَانِ: سَرَفٌ أَوْ مَخِيلَةٌ

’’جوچاہو کھاؤ ،جو چاہو پیو البتہ دو باتوں سے گریز کرو ،اسراف اور تکبر۔(البخاری5283)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس پہنااللہ تعالی اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا۔(ابن ماجہ2905)
شہرت کے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو عام لوگوں کے ملبوسات ورنگوں سے مختلف رنگ کا ہونے کی وجہ سے
شہرت کا باعث بنے،لوگوں کی نظر یں اس کی طرف اٹھیں
اور اسے پہننے والاتعجب و تکبر میںپڑجائے۔
یادرہے کی حدیث نفیس ،عمدہ لباس پہننے کی مخالف نہیں بلکہ عوام الناس کے لباس سے مختلف رنگ کے لباس ،تکبر فخروریاءکے لیےپہنے گئے لباس کی ممانعت ہے۔
جب سے مردوں میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کا غلبہ ہواہے تب سے مردوںنے عورتوں کی چلن اختیار کرلی ہےنہ رنگوںکی سوچ ،نہ سوتی و ریشمی کپڑے کی تمیز ،رنگوں کے انتخاب کے بارے میں پڑھے لکھے اور باشعور طبقات بھی سنت کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
ہم ان شاءاللہ اس موضوع میں سنت رسول ﷺ کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ رنگوں کے بارے میں بتائیں گے تاکہ معاشرے کے تمام مسلمان ایک ہی راستے کے راہی بن جائیںجو آپ ﷺ کابتایا ہوا راستہ ہے کیونکہ اسی پر چل کر ہم جنت کے مستحق ہوسکتے ہیں ۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو زندگی کے لیے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہﷺ نے انہیںمعصفرر کپڑے پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ یہ تو کا فروں کا لباس ہے تو نہ پہن ‘‘ (مسلم 5318)
معصفرسے مرادوہ کپڑاہے جسے عصفر یعنی (زرد رنگ کی بوٹی)سے رنگ کیاہو گویا ایک مسلمان اپنے لباس کےرنگ کاا نتخاب کرنے میں بھی اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کا پابند رہے ۔
نبی کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے یہ بات واضح ہے کہ جس طرح ایک مسلمان کے لیے عبادات اور معاملات کے احکام کی پابندی ضروری ہے اسی طرح لباس کے احکام کی پابندی بھی ضروری ہے ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا’’نبی کریمﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے جبکہ آپ ﷺ نے سیاہ پگڑی زیب تن کر رکھی تھی (سنن نسائی 5347)
مکمل لباس سیاہ رنگ کا نہ ہو کیونکہ دور حاضر میں یہ ایک خاص فرقے کی علامت بن چکا ہے انکے خاص ایام میں ایسالباس نہ پہنا جائے عام دنوں میں بھی پہننے سے بچنا چاہیے کیو نکہ عرف عام میں سیاہ رنگ حزن و ملام کی علامت ہے صرف پگڑی سیاہ ہو تو ان سے مشابہت نہیں ہوتی ۔نبی اکرم ﷺ نے بھی سیاہ رنگ کا عمامہ باندھا تھا اورآج ہم کس رنگ کا باندھ رہے ہیں اور نبی کریم ﷺ کی مخالفت کر رہے ہیںذراخود سوچ لیجیے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’رسول اکرم ﷺ نے مجھے قسی (ایک قسم کے ریشم)کے کپڑے ،کسم (پھول جس سے سرخ رنگ کے کپڑے رنگے جاتے ہیں )سے رنگے ہوئے کپڑے اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ (سنن نسائی 5180)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی مرد زعفران کے رنگ ک استعمال کرے۔(البخاری5846)
دورحا ضر میںزعفرانی رنگ کے کپڑے ہندوپنڈت اور جوگی استعمال کرتے ہیں ،انہی سے متاثر ہو کر یہ رنگ اسلامی معاشرے میں منتقل ہو رہا ہے،مسلمانون میں پائی جانے والی ہندوانہ رسم مہندی،ابٹن میں لڑکیاں زعفرانی رنگ کے ملبوسات زیب تن کرتی ہیںانہی کو دیکھ کر لڑکوں نے بھی یہ رنگ اپنالیا ہے جبکہ اسلام میں یہ رنگ مردوں کو پہننامنع ہے لیکن مسلمان مرد لا علمی میںشریعت کی خلاف وزی کے ساتھ غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیا ر کر رہاہےجبکہ نبی اکرم ﷺنے ارشادفرمایا ہے جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میںہے۔(ابو داؤد4031)
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ـ’’سفید کپڑے پہنا کرو یہ سب سے سے زیادہ بہتر اورپسندیدہ ہےاور انہی اپنے میں مُردوں کو کفن دیا کرو۔(سنن نسائی 3324)
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے سفید کپڑے کو اپنی پسند اور بہترفرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ سفید کپڑے پہنو اور اپنے مردوں کو اس سے کفن دو ۔سفید کپڑے فرشتوں کا بھی لباس ہے ایک حدیث میں ذکر ہے جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے نہایت سفیدلباس زیب تن کیا ہو تھا (مسلم93)سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیاہے کہ نبی اکرمﷺ کو تمام کپڑوں میں یمنی سبز چادر پہننابہت پسند تھی (صحیح البخاری 5813)
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ہم نےسیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ نبی اکرم ﷺکو کونسالباس سب سے زیادہ پسند تھا ؟تو انہوں نے فرمایاکہ نقشی دار(دھاری دار) ۔(سنن ابی داؤد4060)
دھاری دار چادریں بالخصوص یمن میں بنتی تھی انکی پسندیدگی کی وجہ غالبا ً انکی مضبوطی اورمیل خوار ہونا تھی ۔
سیدنا رفاء بن یثربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ہاں گیا تومیں نے نبی اکرمﷺ پر سبز رنگ کی دھاری دار دو چادریں دیکھیں(ابوداؤد4065)
قرآن مجید نے اہل جنت کے ریشم کے سبز لباس کاذکر فرمایا ہے’’انکی اوپپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہوگی ۔(الدھر61)
سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے میں نےآپ ﷺ کو سرخ جوڑا پہنے ہوئے دیکھا ،میں نے آپ ﷺ سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی (البخاری 3551)علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت کی ہے کہ یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہیں تھابلکہ ا س میںسرخ رنگ کی دھاریا ں تھیںجسے ’’برو‘‘ کہا جاتاہے (زاد المعاد1/132|)
اس حدیث سے بعض علما ء نے استدلال کیا ہے کہ مردوں کے لیے سرخ لباس بھی جائز ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ کا رجحان ہے ۔تاہم بعض علماء نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کایہ سرخ رنگ کالباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھابلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں۔جس کے جواز میںکوئی شک نہیں اس لیےان کے نزدیک سرــخ رنگ کے کپڑے جس طرح عورتیں پہنتی ہیں ،مردوں کے لیے جائز نہیں ہیں ۔بعض علماء نے کہا ہے کہ حالات و ظروف کے مطابق اس کا حکم ہوگا اگر کسی جگہ یہ رنگ کافروں کا شعار یا عورتوں کالباس ہے تومشابہت کی وجہ سے ناجائز ہوگا،بعض علماء نے کہا ہے کہ گھر کے اندرمر د کے لیے سرخ رنگ کا لباس جائز ہے اور گھر کے باہر اجتماعات اور مجلسوں میں ناجائز ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ سرخ رنگ کا لباس (مردوں کے لیے ) بجائے خودممنوع نہیں حالا ت و ظروف کے مطابق اس کے جوازو عدم جواز کا فیصلہ ہوگا جیسے آج کل ہمارے زمانےاورمعاشرے میںخالص سرخ رنگ کا جوڑاعورتوں کابالخصوص شادی کے موقع پر دلہنوں کا مخصوص لباس ہے اس لیے مردوں کے لیے اس کا استعمال ناجائز ہوگا۔تاہم یہ عدم جواز صرف عورتوں سے مشابہت کی وجہ سے ہے ورنہ اس کی ممانعت کی کوئی حدیث ثابت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب (ریاض الصالحین 1/638)
مسلمان مرد ہو یا عورت مذکورہ احکام الہی کا پابند ہے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے والا قرآن وحدیث کو اپنے فکر و نظر اور علم وعمل کا محو ربنالے تو اس کے عقائد کی بھی تطہیر ہو جاتی ہے اخلاق و کردار کا بھی تزکیہ ہوجاتاہے آخرت کی زندگی سنوارنے کا جذبہ بھی توانا اور قوی ہوجاتا ہے جس کے بعد ہمیںبرائی سے بچنا اور ہر نیکی کا کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
انسان بھی اپنےتخلیق کے بنیادی مقصد اور اپنے رب کے سامنے اپنی پوری زندگی کےاحتساب پر غور کرلے تو انسان کبھی بھی دنیا کی لذتوں کی طرف توجہ نہ کرے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو‘‘(ترمذی2307)
موت کو ہر وقت یاد رکھنا ہی انسان کو آخرت کی تیاری پر مجبور کرتا ہے اور جو شخص آخرت کی تیاری کرتا ہے تو لازمی ہے کہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کردیتا ہے ۔درحقیقت یہی شخص اللہ تعالی کاحق ادا کرتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے