بسم اللہ کی فضیل اور پڑھنے کے مواقع
بطریق محفوظ یہ حدیث ثابت ہے سعید المقبری سے وہ روایت کرتے ہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں کرتے ۔ جیسے اسے روایت کیا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’من حدیث ابن ابی ذئب عن سعید المقبری عن ابی ہریرۃ قال : قال رسول اللہ ﷺ :
’’الحمد للہ ،ھی : ام القرآن ، وہی السبع المثانی والقرآن العظیم۔‘‘
امام الزیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کو اسے پڑھتے سنا ہو اور گمان کیا ہو کہ یہ فاتحہ کی آیت ہے اور کہا : بیشک یہ فاتحہ کی آیت ہے ۔ مگر ہم اس چیز کا انکار نہیں کرتے کہ یہ قرآن میں سے ہے ، لیکن دو مسئلوں میں تنازعہ پڑجاتاہے۔
۱۔یہ فاتحہ کی آیت ہے۔
۲۔ اس کا حکم سراً اور جہراً فاتحہ کی تمام آیتوں کی طرح ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یقینا یہ مستقل آیت ہے قبل السورۃ الفاتحہ اور نہ کہ فاتحہ کی آیت ہے۔(نصب الرایۃ ۱/۳۴۳)
امام الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی اسناد موقوف اور مرفوع دونوں طریقوں سے صحیح ہے۔
یقینا نوح ثقہ ہے اور دوسرے روات بھی اور موقوف مرفوع کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتی کیونکہ راوی بعض اوقات حدیث کو موقوف بیان کرتا مگر جبکہ اس نے اسے مرفوع روایت کیا ہوتاہے اور وہ ثقہ ہو تو یہ زیادتی (یعنی مرفوع) قبول کرنے کی زیادہ مستحق ہوتی ہے۔ (سلسلہ الصحیحہ ۳/۱۱۸۳)
قارئین کرام ! یہ وہ روایت ِ اساسی ہے جس کی بنیاد پر شافعیہ کا مسلک ہے پرجیسے ترددات العلماء اوپر بیان ہوئے اگر ہم انہیں یک طرفہ کریں اور اس روایت کو صحیح موقوفاً ومرفوعا تسلیم کریں تو پھر بھی اس سے مسلکِ شافعیہ کی مضبوطی قائم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن حکیم کا یہ امتیاز واعجاز ہے کہ اس میں خبر احاد واختلاف قابل قبول نہیں ہے ۔امام القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’
لأن القرآن لا یثبت بأخبار الأحاد ، وإنما طریقۃ التواتر القطعی الذی لا یختلف فیہ‘‘ (القرطبی ۱/۸۱)
المذہب الثانی :امام مالک اور ان کے متبعین کے استدلالات پر نظر
۱۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ أن النبی ﷺ وابا بکر وعمر کانوا یفتتحون الصلاۃ ب:الحمد للہ رب العالمین ‘‘ وفی روایۃ ’’عثمان‘‘ أیضاً۔ ( متفق علیہ)
۲۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال: إن سورۃ من القرآن ثلاثون آیۃ شفعت لرجل حتی غفر لہ وہی :’’تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ المُلکُ‘‘ (صحیح الترمذی ، حدیث نمبر :۲۳۱۵ حسن ، التعلیق الرغیب : ۳/۲۲۳ ، المشکاۃ :۲۱۵۳)
۳۔ سورت العلق کی ابتداء بدون بسم اللہ ہوئی ہے اور یہ دلائل دلالت کرتے ہیں اس بات پر کہ ترک تسمیہ جائز ہے ۔ یہ جمہور کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
المذہب الثالث : ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور بعض روایات میں احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل المدینہ ، اہل البصرہ اور جمہور کے مسلک کے استدلالات پر نظر
۱۔عن ابی ہریرۃ عن ابی بن کعب قال قال رسول اللہ ﷺ :’’مافی التوراۃ ولا فی الإنجیل مثل ام القرآن ، وہی السبع المثانی وہی مقسومۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ماسأل۔‘‘(ابن حبان ، جلد/۳ ، حدیث نمبر/۷۷۵۔ اسنادہ صحیح علی شرط مسلم و صححہ ابن خزیمۃ ، حدیث نمبر: ۵۰۰، ۵۰۱ ، وصححہ الحاکم ۱/۵۵۷) علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی واخرجہ الترمذی (۳۱۲۵) فی تفسیر القرآن و النسائی (۲/۱۳۹) فی الانکاح وأخرجہ الترمذی إیضاص (۳۱۲۵) صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان حققہ وخرج احادیثہ وعلق علیہ شعیب الأرنؤوط)
۲۔ ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس کسی نے نماز پڑھی اور ام القرآن اس میں نہیں پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین بار کہا مکمل نہیں ہوگی۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا : اس کو تم اپنے نفس میں پڑھو میں نے بیشک رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تقسیم کردی صلاۃ( فاتحہ) اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی ، اور اب میرے بندے کیلئے وہ ہے جومانگتاہے ، پس جب بندہ کہتاہے ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، اور جب بندہ ’’الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ‘‘ کہتاہے تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری ثنا بیان کی اور جب بندہ کہتا ہے ’’مَالِکِ یَومِ الدِّینِ‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتاہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور بعض بار کہا : میرے بندے نے خود کو میرے سپرد کردیا ہے اور جب بندہ کہتاہے
إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ
’’اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم – غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ
۳۔عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ فی سفر فنزل ، فمشی رجل من اصحابہ إلی جانبہ ، فالتفت إلیہ فقال: ألا أخبرک بأفضل القرآن ؟ قال : فتلأ علیہ ’’الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ ‘‘۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر :۷۷۴ ، جلد ، ۳۔ اسنادہ صحیح ، وأخرجہ النسائی فی ’’عمل الیوم اللیلۃ ‘‘ حدیث نمبر (۷۳۳) وصححہ الحاکم ۱/۵۶۰ ووافقہ الذہبی)
۴۔ عن انس بن مالک قال : کان النبی ﷺ وابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما یستفتحون القرأۃ ب’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘(صحیح سنن النسائی ، حدیث نمبر :۸۶۷۔۸۶۸ ، جلد /۱)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما قراء ت کی ابتداء ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ سے کیا کرتے تھے۔
۵۔عن نعیم المجمر قال : صلیت وراء ابی ہریرۃ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم ثم قرأ بأم القرآن حتی بلغ ولا الضالین قال آمین وقال الناس آمین ویقول کلما سجد اللہ اکبر وإذا قام من الجلوس قال اللہ اکبر ویقول إذا سلم : والذی نفسی بیدہ إنی لاشبہکم صلاۃ برسول اللہ ۔ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
قارئین کرام! ان تمام احادیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ فاتحہ کی آیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل آیت ہے اور بعض روایتوں میں مذکور ہے بسم اللہ دو سورتوں کے درمیان تفریق کیلئے نازل ہواکرتی تھی۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : کان النبی ﷺ : لا یعرف فصل السورۃ حتی تنزل علیہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ (صحیح ابوداؤد ، حدیث نمبر :۷۰۷ ، جلد/۱)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ سورتوں کے درمیان تفریق نہ جانتے تھے یہاں تک کہ ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نازل ہوجاتی۔‘‘
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بیشک یہ فاتحہ میں سے نہیں ہے پھر انہوں نے استدلال کیا جس سے امام القرطبی رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے اور دوسروں نے بھی حدیث ’’ابو ہریرۃ: قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی ولعبدی ما سأل۔ ‘‘ پھر فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ یہ کہتے ہیں تو پھر کیا جواب ہے اس کا کہ ہم آپ کے ہاں کے قرآن میں بسم اللہ کو فاتحہ کی پہلی آیت دیکھتے ہیں؟ ہم کہیں گے: یہ ترقیم بعض اہل العلم کے قول کی بنا پرہے اس لئے آپ دیکھیں گے کہ باقی تمام سورتوں میں نہ تو ’’بسم اللہ ‘‘ کی ترقیم کی جاتی ہے اور نہ ہی اسے آیت گِناجاتاہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دوسری سورت کی بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے۔‘‘ (الشرح الممتع، جلد/۳، صفحہ نمبر :۵۷، تفسیر القرطبی :۱/۹۳، اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والإفتاء : صفحہ نمبر :۳۷۵ ، جلد/۶، فتوی عبد اللہ غدیان ، غبد الرزاق عفیفی نائب رئیس اللجنۃ ، عبد اللہ بن منیع / فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جلد/۲۲، صفحہ:۳۵۱، نصب الرایۃ لاحادیث الہدایۃ ۱/۳۴۳۔ میں یہ فتاوےٰ ملاحظہ فرمائیں۔
الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے کہ: اگر بسم اللہ فاتحہ کی آیت نہیں ہے تو جیسے ہر شخص جانتا ہے کہ فاتحہ کی سات آیات ہیں پس ہم کیسے فاتحہ کی سات آیات کو تقسیم کریں گے جبکہ بسم اللہ کو ہم نے خارج کردیا ہے ؟
جواب : فاتحہ کو تقسیم اسطرح کیا جاسکتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِینَ-پہلی آیت-الرَّحمَنِ الرَّحِیمِ- دوسری آیت-مَالِکِ یَومِ الدِّینِ-تیسری آیت -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت -اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ-پانچویں آیت -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم-چھٹی آیت- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں آیت۔ اور یہ تقسیم معنوی اور لفظی اعتبار سے مطابقت رکھتی ہے ۔
لفظی مطابقت : اگر ہم فاتحہ کو اسطرح تقسیم کریں گے تو آیات میں مناسبت اور مقاربت پیدا ہوجائے گی، لیکن جب ہم کہتے ہیں :اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ – یہ چھٹی آیت ہے اور -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ- ساتویں تو اس کی طوالت سابقہ آیت سے مناسبت نہیں رکھتی ۔
معنوی مطابقت:اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: میں نے الصلاۃ کواپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا ۔ جب بندہ کہتا ہے : الحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالَمِین- تو اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : حمدنی عبدی ۔۔الخ (پیچھے حدیث دیکھئے ) آگے فرماتے ہیں : جب بندہ-إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے درمیان ہے اور میرا بندہ جو مانگے گا میں دوں گا۔ (اور درحقیقت یہ آیت درمیانی آیت ہے ) -إِیَّاکَ نَعبُدُ وَإِیَّاکَ نَستَعِینُ- چوتھی آیت ہے ۔ اور پانچویں ،چھٹی اور ساتویں آیت
-ايدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ -صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ عَلَیہِم- غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَلَا الضَّالِّینَ-ہے
۔ پس ابتدائی تین آیات اللہ رب العالمین کیلئے اور آخرکی تین آیات بندے کیلئے اوردرمیانی آیت اس کے اور اسکے رب کیلئے ہے۔ ( الشرح الممتع علی زاد المستقنع ۳! ۵۸۔۵۹، ایسر التفاسیر لکلام العلی الکبیر! ۱ !۱۰ ، مجموع فتاوی شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ /۲۲!۳۵۰ )
یہ مسئلہ بھی طوالت اور بحث سے خالی نہیں ہے مگر دو اقوال پر اکتفا کروںگا۔
۱۔کیونکہ اکثر احادیث جو نبی کریم ﷺ سے وارد ہیں سری ( منہ میں پڑھنا)قرأت پر دلالت کرتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تمام احادیث جو بسم اللہ کے جہراً (اونچی آواز سے پڑھنا) کے باب میں وارد ہوئی ہیں ضعیف ہیں۔ (الشرح الممتع ۳/۵۷، المغنی لابن قدامہ ۲/۱۴۹، مجموع الفتاوی شیخ الإسلام ۲۳/۲۷۵)
۲۔اور یہ جمہور علماء کا قول ہے کہ ’’بسم اللہ ‘‘ قرآن کی مفرد آیت ہے نہ کسی سورت کی اور نماز میں اسے سراً پڑھاجائے۔ (مجموع الفتاویٰ شیخ الاسلام ۲۲/۳۵۱)
مگر ایک صحیح حدیث جہراً پر دلالت کرتی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے نعیم مجمر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی پس انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی پھر فاتحہ پڑھی۔ ۔ ۔ ۔‘‘ (ابن حبان ، حدیث نمبر : ۱۸۰۱ ، جلد /۵، اسنادہ صحیح ، صحیح ابن خزیمہ :۴۹۹ وأخرجہ النسائی ۲/۱۳۴ فی الإفتتاح)
اس بناء پر علماء کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ : بسم اللہ سراً پڑھنا افضل ہے اور جہراً جائز ہے پر مستقل مزاجی جہراً پر خلاف سنت ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ ابو بکر ، عمر ، عثمان اور سائر الصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا طرز دوران نماز سرا بسم اللہ کی قرات تھی۔ واللہ أعلم
محترم قارئین کرام! یہ ایک ادنی سے طالبعلم کی طرف سے ایک مختصرسی تحقیق اور کاوش ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں حق بتانے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اختتام: آخر میں ابن العربی رحمہ اللہ کے قول پر اختتام الکلام کرتاہوں ۔ فرماتے ہیں :
’’اور تیرے لئے یہ کافی ہے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے اختلاف اس میں ہیں اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں کرتا اور صحیح اخبار جو طعن سے پاک ہیں دال ہیں کہ بسم اللہ نہ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی دوسری سورت کی سوائے صرف سورت النمل کی۔‘‘(التفسیر القرطبی ۱/۹۴)
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأزواجہ وذریاتہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسان إلی یوم الدین۔