۳۔ عورت کے جسم کا وہ حصہ جو مرد کے لئے دیکھنا ممنوع ہے :

اس میں تفصیل ہے اس ضمن میں عمومی حکم یہ ہے عورت کا مکمل جسم مرد کے لئے ستر ہے اور اسی مذہب کو امام شافعی اور أحمد ;نے اختیار کیا ہے اور امام احمد نے تو اس بارے میں فرمایا ہے کہ :

’’عورت کا مکمل جسم ستر ہے حتی کہ ناخن بھی۔‘‘ (تفسیر ابن الجوزی ۶/۳۱)

جبکہ مالکی اور أحناف کا قول ہے کہ عورت کا مکمل جسم ستر ہے سوائے چہرے اور ہاتھ کے ان کے دلائل درج ذیل ہیں :

۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

{وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا}

’’اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے۔‘‘

پس آیت نے ’’مَا ظَھَرَ مِنْھَا‘‘ کے ذریعے مستثنیٰ کردیا ہے یعنی وہ اعضاء جو کہ لین دین، خرید وفروخت اور دیگر معاملات کے وقت کھولنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جیسا کہ سیدنا سعید بن جبیرt کہتے ہیں کہ { اِلاَّ مَا ظَھَرَ مِنْھَا}سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ (تفسیر طبری ۱۸/۱۱۸)

اورامام ضحاک aنے اس کو اختیار کیا ہے۔

۲۔ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا أَنَّ أَسْمَاء َ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَعَلَیْہَا ثِیَابٌ رِقَاقٌ فَأَعْرَضَ عَنْہَا رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَالَ یَا أَسْمَاء ُ إِنَّ الْمَرْأَۃَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِیضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ یُرَی مِنْہَا إِلاَّ ہَذَا وَہَذَا وَأَشَارَ إِلَی وَجْہِہِ وَکَفَّیْہِ ۔(ابو داؤد ، قرطبی ۱۲/۲۲۹)

سیدہ اسماء بنت ابی بکرr رسول کے پاس باریک لباس پہن کر آئیں رسول اللہ e نے فرمایا : اے اسماء rجب لڑکی بالغ ہوجائے تو پھر اس کے جسم کا کوئی حصہ(ماسوائے چہرہ وہتھیلیاں)نظر نہیں آنا چاہیے۔‘‘

۳۔ کہتے ہیں کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ ستر نہیں ہے کیونکہ عورت نماز میں ان دونوں کو نہیں ڈھانپ سکتی اور اس طرح حالت احرام کے دوران ہاتھ اور چہرے کو برہنہ رکھتی ہے پس اگر یہ ستر ہیں تو نماز اور احرام میں ان کو ڈھانپنا چاہیے کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ وہ اعضاء ستر میں ہوں اور عورت ان دونوںکو برہنہ رکھ کر نماز جیسی عبادت کرے۔

جبکہ شوافع اور حنابلہ نے جن دلائل سے استدلال کیا ہے وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان مقدس ہے {وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ }

’’کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر کرے۔‘‘

۲۔ اس موضوع اور اس حکم پر کافی احادیث وارد ہوئیں ہیں جن سے شوافع اور حنابلہ نے استدلال کیا ہے ان میں بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ حدیث جریر بن عبد اللہt قال :سألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن نظرۃ الفجأۃ فقال اصرف بصرک ۔(مسلم وأحمد)

جریربن عبد اللہt فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول اچانک نظر کا کیا حکم ہے تو آپ نے فرمایا کہ تو اپنی نظر پھیر لے۔‘‘

۲۔حدیث علیt : یَا عَلِیُّ لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَإِنَّ لَکَ الأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَۃُ ۔

(أحمد ، أبو داؤد)

فرمایا: اے علیt ایک مرتبہ دیکھنے کے بعد دوسری مرتبہ دیکھنا جائز نہیں اور پہلی نظر تو معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔

اس کے علاوہ بھی أحادیث ہیں جن کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ أجنبی عورت کی طرف دیکھناحرام ہے اور لازم أمر ہے کہ چہرہ بھی ان اعضاء میں سے ہے جس کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے لہذا یہ بھی ستر ہے ۔

اور ان لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے

: {وَإِذَا سَأَلْتُمُوھُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوھُنَّ مِنْ وَرَاء ِ حِجَابٍ} (الأحزاب/۵۳)

’’یعنی کوئی چیز مانگنی ہوتو پردہ کے پیچھے سے مانگا کرو۔‘‘

گویہ کہ آیت أزواج نبی ﷺ پر اتر ی ہے لیکن یہ حکم ان کے علاوہ بھی عورتوں پر اس طرح ہے کیونکہ علت یہ ہے کہ عورت مکمل ستر ہے۔

۴۔ عقلی دلیل : کسی بھی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے کہ فتنہ سے بچا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا بھی فتنہ اور آزمائش سے کم نہیں کیونکہ چہرہ کی خوبصورتی سب سے پہلے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور باقی اعضاء کی طرف اس کی نظر بعد میں پڑتی ہے تو بعد میں نظر پڑنے والے اعضاء ستر میں ہے تو چہرہ سب سے پہلے ستر میں ہونا چاہیے کیونکہ چہرہ خوبصورتی کا مرکز اور محور ہے اور فتنہ کا مصدر۔

ترجیح:

فقہاء کی وہ جماعت جو یہ کہتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر نہیں ہے انہوں نے یہ شرط عائد کی ہے کہ ان دونوں اعضاء پر زینت کے لئے کوئی اضافی چیز نہ استعمال کی ہو اور جس طرح ہمارے زمانے کی خواتین مختلف اشیاء استعمال کرتی ہیں جوکہ چہرے اور ہاتھ کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں اس کی حرمت کے بارے میں تمام ائمہ کرام متفق ہیں کہ یہ جائز نہیں ہیں یعنی ان کی اجازت اضافی زینت کے بغیر اور فتنہ کا نہ ہونے پر ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ان دونوں اعضاء کو ننگا رکھنا واجب اور سنت ہے اور ڈھانپنا بدعت۔ تو یہ بات تو انتہائی غیر معقول ہے جس کو کوئی بھی مسلمان نہ کہے گا۔

یعنی اجازت ہے تو ضرورت کے اوقات میں بشرطیکہ فتنہ جنم نہ لے۔ لیکن موجودہ زمانے کے حالات کے جائزہ کے بعد کہ شیطانی امور بہت زیادہ پھیل گئے ہیں بدعات کا زور ہوگیا اور اصل دین کی صورت مسخ کردی گئی ہے احتیاط کا تقاضا ہے کہ چہرہ اور ہاتھ دونوں کو ڈھانپا جائے۔

۴۔ مرد کے جسم کا وہ حصہ جس کی طرف عورت کو دیکھنا جائز نہیں ہے

اس میں بھی کچھ تفصیل ہے کہ اگر تو وہ محارم میں سے ہے جیسا کہ با پ بھائی چچا یا ماموں وغیرہ تو اس کے ستر کے اعضاء ناف سے گٹھنے تک ہیں اور اگر اجنبی ہے تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ مرد کا سارا بدن ستر ہے لیکن راحج مذہب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی اس کا ستر جس پر سب متفق ہیں وہ ناف سے گھٹنے تک ہے۔

لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب فتنہ کا اندیشہ ہو اور حالات ایسے نہ ہو بصورت دیگر جب فتنہ کا اندیشہ ہو اور حالات خراب ہوں تو مرد کے کسی حصہ کی طرف نہ دیکھے حتی کہ مرد کے چہرے کی طرف باربار دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ جیسا کہ تفسیر کبیر میں ہے۔

ولا یجوز لھا قصد النظر عند خوف الفتنۃ ولا تکریر النظر الی وجھہ ۔ (تفسیر کبیر)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ایک اور حکم دیا کہ

{وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلَی جُیُوبِھِنَّ}

کہ اپنی اوڑھنیاں اپنی سینوں پر ڈال کر رکھیں۔‘‘

زمانہ جاہلیت اور ابتداء اسلام میں عورتیں جو کپڑا سر پر ڈالتی تھیں ان کے پلو پشت پر لٹکا دیا کرتی تھیں اس طرح ان کی گردنیں کان اور سینہ ظاہر رہتے تھے۔ اس آیت نے یہ حکم دیا کہ جو کپڑا سر پر اوڑھو تو اس کے پلوں کو پیچھے نہ پھینک دو بلکہ انہیں اپنے گریبانوں پر ڈال دو تاکہ تمہارے سینے گردن وغیرہ لوگوں کی نظروں سے بچ جائیں اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمان عورتوں سے دوپٹہ ایجاد کیا جوکہ آج کل دوپٹہ کی طرح نہیں جوکہ گردن میں ڈال لیا جائے بلکہ اس سے سر ، گردن اور سینہ تک چھپ جائیں۔

اور اس آیت کے نزول کے فوراً بعد مردوں نے یہ آیت گھروں میں جاکر اپنی عورتوں کو سنائی تو چشم زدن میں ساری عورتیں اٹھیں اور کوئی بھی ایسی نہ تھی جوکہ {وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلَی جُیُوبِھِن} کے کلمات سن کر بیٹھی رہی ہو کسی نے سینہ اور گردن ڈھانپنے کے لئے چادر اٹھالی۔ اس طرح اطاعت اور انقیاد کی نادر ونایاب مثال پیش کی کہ جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو سب سے پہلا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس کو سننے کے بعد اس پر تعمیل کی جائے۔ (ابن کثیر ، ابوداؤو ، کتاب اللباس)

اب ایک بات واضح کردی جائے کہ دوپٹہ یا چادر باریک کپڑے کی نہ ہو جس سے بدن جھلکے یا نظر آئے لہذا جب یہ حکم نازل ہوا تو کسی نے یہ نہ پوچھا کہ کپڑا باریک ہو یا موٹا سب نے سمجھ لیاتھا کہ اصل مقصد ستر پوشی اور جسم چھپانا ہے اس کے لیئے کوئی ایسا کپڑا ہو جس کو استعمال کرنے کے بعد کسی کی نظر نہ پڑے۔

اے دختران اسلام! آپ خود ہی ذرا انصاف کریں کہ جو باریک دوپٹے استعمال کیے جاتے ہیں ان کا کیا مقام ہے؟ اور جو خواتین بازاروں میں بے پردہ اور بے حجاب یا دیگر مغربی لباس میں ملبوس سینہ تان کر چلتی ہیں ان کا یہ طریقۂ کار اسلام کے کس قدر منافی ہے ۔ علامہ اقبال نے کتنے دور بھرے انداز میں دختران ملت کو عریانی اور بے پردگی سے باز آنے کی تلقین کی ہے۔

بہل اے دخترک ایں دلبری ہا

مسلماں را نہ زیبد کافری ہا

منہ دل برجمالِ غازہ پر ورد

بیا موز ارتگاہ غارتگری ہا

اس آیت سے یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ سرگردن اور سینہ کا چھپانا فرض ہے اور یہ اعضاء بھی ستر میں سے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بیان کیا ہے کہ جس حلقے میں عورت مکمل آزادی سے رہ سکتی ہے۔ یعنی پہلے مومن عورتوں کو زینت کی نمائش سے منع کردیا اب ان لوگوں کی فہرست بیان کردی ہے جن کے ساتھ نہایت قریبی تعلق ہے خواہ دودھ کا ہو یا خون کا اور جن کے ہاں آمد ورفت عام ہوتی ہے کیونکہ ایسے قریبی رشتہ داروں پر بھی پابندی لگا دی جاتی تو نہایت مشکل اور الجھن پیش آتی اور اس لئے بتادیا کہ مسلم خواتین کو عام مردوں سے اپنی زیب وآرائش چھپانا چاہیے لیکن یہاں رشتہ دار وں کا ذکر کیا جارہا ہے ان سے چھپانے کی ضرورت نہیں اور ایک خاص بات کہ اس فہرست میں سوائے خاوند یا شوہر کے تمام رشتے محرمات ابدی میں شمار کیے جاتے ہیں یعنی عورت کا جن سے نکاح کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

لہذا اس فہرست کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

۱۔ شوہر

۲۔باپ ، بیٹا، بھائی

۳۔۔ خاوند کے بیٹے

اور یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جو مرتبہ اس میں شوہر کا ہے وہ باپ بیٹے یا بھائی کا نہیں ہے اورجو باپ بیٹے بھائی کاہے وہ کسی اور کا نہیں ہے۔

لہذا آیت میں جن رشتوں کا بیان ہے وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ شوہر

۲۔باپ دادا وغیرہ

۳۔شوہروں کے باپ دادا

۴۔بیٹے

۵۔شوہروں کے بیٹے

۶۔بھائی

۷۔بھتیجے

۸۔بھانجے

۹۔مسلمان عورتیں

۱۰۔لونڈیاں

۱۱۔ایسے نوکر جو عورتوں کے خواہش مند نہ ہوں یعنی بوڑھے ہوں

۱۲۔نابالغ بچے

یعنی کل بارہ قسم کے رشتے ہیں ان میں سب سے پہلے قریبی رشتہ شوہر کا ہے ۔ ’’یحل لہ کل شیء منھا۔‘‘

یعنی اس سے کسی قسم کا پردہ نہیں ہے اور حجاب نہیں ہے اس کے بعد باقی محارم ہیں۔

اور آباء سے مراد صرف باپ نہیں بلکہ دادا پردادا ، نانا ، پرنانا بھی ہیں اسی طرح بیٹوں میں پوتے ، پر پوتے ، نواسے ، پرنواسے اور اس میں سگے سوتیلے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اور اس طرح بھائیوں میں سگے اور سوتیلے ماں جائے بھائی سب شریک ہیں۔

اور اس میں یہ بات واضح رہے کہ رضاعی رشتے بھی اس طرح شامل ہیں کیونکہ احادیث میں ان کا بیان ملتاہے جیسا کہ صحاح ستہ اور مسند أحمد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اپنی روایت ہے کہ أبو القعیس کے بھائی افلح ان کے گھر آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن سیدہ عائشہ نے اجازت نہ دی اس پر انہوں نے کہا کہ تم میری بھتیجا ہو لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہ دی اور نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو انہوں نے اجازت دی۔

اس بات پر ابو بکر الجصاص نے ایک قاعدہ اخذ کیا ہے کہ جن جن رشتہ داروں سے عورت کا نکاح حرام ہے وہ سب اس فہرست میں ہیں خواہ ان کا ذکر ہو یا نہ ہو۔ (أحکام القرآن للجصاص ۳/۳۲۰)

نِسَائِھِنَّ : سے مراد صرف مسلمان عورتیں ہیں غیر مسلم عورتیں خواہ ذمی ہو یا کسی اور قسم کی ان سے مسلمان عورتوں کو اس طرح پردہ کرنا چاہے جس طرح مردوں سے کرنا چاہیے۔

اور بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہ عورتیں جو ان کی جانی بوجھی اوران سے تعلقات رکھنے والی ہوں یعنی روز مرہ زندگی میں جن سے مسلسل واسطہ پڑتا رہتاہو۔

أَوْ مَا مَلَکَتْ : سے مراد کنیز یں خواہ وہ مسلمان نہ ہوں تب بھی ان کے سامنے اظہار زینت جائز ہے۔

ِ التَّابِعِینَ غَیْرِ أُولِی الْضَرَرِ : ان سے مراد وہ لوگ جن میں عورتوں کی خواہش نہیں ہوتی جیسے عنین نامرد وغیرہ ’’لا حاجۃ لہ فی النساء ‘‘ (الجصاص)

ِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِینَ لَمْ یَظْھَرُوا عَلَی عَوْرَاتِ النِّسَاء ِ :

سے مراد وہ بچے جو عورتوں کے خفیہ معاملات اور باتوں سے بے خبر ہوں اور اگر وہ نابالغ بھی ہو لیکن اسے ان معاملات کی آگاہی ہوجائے تو اس سے اجنبی والا سلوک کیا جائے گا۔

ان رشتوں کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ سلسلہ عورتوں کے حجاب سے جوڑتے ہوئے کیا ایک عورت کا وجود اس طرح ہوتاہے جیسا کہ بند قلعہ کے اندر عمارات ادوار میں کوئی ایسا راستہ نہ ہو جس سے کوئی غیر اندر داخل ہو لہذا حکم ہوا کہ جب وہ چلا کریں تو اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں تاکہ انہوں نے جو زینت چھپا کر رکھی ہوتی ہے وہ ظاہر ہو۔

اس کے مفہوم میں ہر وہ حرکت آگئی ہے جس سے عورت اپنے وجود کا احساس کسی کو کرواسکے یعنی آواز اگر بات کرنی ہی پڑ جائے تو آواز میں نرمی یا لوچ نہ ہو بلکہ سخت آواز ہو تاکہ سننے والا ادھر متوجہ نہ ہو اگر خوشبو استعمال کرنی ہے تو تیز رنگت والی اور بوہلکی ہو ۔

مختلف احادیث میں اس کی سختی سے ممانعت آتی ہے کہ عورت اپنے گھر سے ایسے عالم اور ایسی کیفیت میں نکلے کہ زمانہ اس کو دیکھے اور فتنہ میں پڑ جائے۔

اس کے بعد مطلقاً حکم دیا گیا ان تمام باتوں اور أحکام کے باوجود اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کرے اور توبہ کرے تاکہ وہ کام اور غلطی دوبارہ نہ ہو۔ کہ ان تمام کاموں اور أحکام پر عمل درآمد کا مقصد صرف اور صرف تقویٰ اور فلاح ابدی کا حصول ہے۔

جو أحکام اس سے أخذ کیے گئے ہیں ان کا ضمناً تذکرہ اور اس تفسیر آگیا ہے لہذا ان کا الگ تذکرہ نہیں کیا جارہا ہے۔

فوائد :

۱۔ نظر بازی زنا کی طرف سب سے اہم اور پہلا وسیلہ ہے پس کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اس میں وہ مبتلا ہو۔

۲۔ تمام مسلمانوں( مرد اور عورتوں) کو حکم ہے کہ اپنی نگاہیں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریںتاکہ وہ دین کے احکام پر بہتر طور پر عمل کرسکیں اور رذائل سے بچ سکیں۔

۳۔کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی زینت محارم کے علاوہ ظاہر کرے۔

۴۔ہر مسلمان عورت پر اپنا سر ، گردن اور سینہ چھپانا فرض ہے۔

۵۔وہ بچے جن کو عورتوں کے خفیہ معاملات کا علم نہیں ہے وہ گھروں میں داخل ہوسکتے ہیں۔

۶۔عورتوں پر حرام ہے کہ کوئی بھی ایسی حرکت کریں جو غیر محرم مرد کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائیں ۔

۷۔ تمام مسلمانوں پر توبہ فرض ہے کہ یہ توبہ فتنوں سے بچاتی ہے۔

۸۔قرآن مجید کا مسلمانوں کو آداب سکھانا جس سے کسی معاشرے کے حسن میں اضافہ ہوتاہے اور وہ کامیابی کے راستے پر چلتاہے اور برائیوں سے بچتاہے۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے