اللہ جل جلالہ نے امت محمدیہ پر احسان عظیم فرمایا کہ انہیں دین اسلام عطا فرمایا ہے جو کہ سیدھا ہے اور اس کا ہر کام ہی انتہائی حکمت و دانائی پر مبنی ہوتا ہے۔ اس نے خطۂ حرمین کو اس غرض سے منتخب فرمایا کہ یہ دین اسلام کے روئے زمین پر بسنے والی تمام اقوام تک پہنچنے کا نقطہ آغاز ہو ۔ اور یہ کہ امت محمدیہ میں ایک فاتح و منصور نجات پانے والی جماعت کا وجود قیامت تک قائم رہے گا ۔ توحید کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہیں ہو گا اور نہ ہی کبھی اسلام کی صدائیں منقطع ہونگی ۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے : اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان ( باطلہ ) پر غالب کر دے ، اگر چہ یہ بات مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے ۔ (التوبہ : 33)

صحیحین میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم و غالب رہے گا یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ حق پر قائم و غالب ہی ہونگے۔

اللہ نے خطہ حرمین کو اسلام کے دائمی پیغام کے لئے بطورِ مرکزمنتخب کیاتاكه رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا گہوارہ ثابت ہو مسلمانوں کا قبلہ اور ان کے دلوں کی کشش کی جگہ اور محل ثقل ہو اور ان کے مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کا مقام بنے ۔ کیونکہ خطہ کا امن تمام ممالک کا امن ہے۔ یہ خطہ ان تمام لوگوں کا ملجا و ماوی ہے جنھیں دین کے سلسلہ میں مشکلات و مصائب کا سامنا ہو، یہ ہدایت کے قلعوں میں سے ایک مضبوط قلعہ ہے اور اس کی رفعت و بلندی کے آگے ہلاکتوں کے تمام عوامل و اسباب مٹ کر رہ جاتے ہیں ، یہ اسلام کا مینار، ایمان کی آماجگاہ ، عقیدے کا گہوارہ ، تہذیب کا مرکز اور عالم اسلام کے لیےقیادت و سیادت ، اقتدار و حکومت اور ہدایت کا نقطۂ آغاز ہے ، اس خطہ کا وجود عقائد و ایمانیات کے دفاع کی دیوار کا آخری حصہ ہے۔ یہ شریعت اسلامیہ کا گہوارہ اور اس کا دائمی پایۂ تخت ہے ، یہ امت کا راس المال اور ان کے فوائد و منافع میں سے قیمتی ترین چیز ہے ۔ اس کا مقام دنیا میں ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں دل کا مقام ہوتا ہے ، اس ملک کی اللہ نے خود حفاظت فرمائی ہے اور آج تک استعماری طاقتوں کے نجس پاؤں اس میں داخل نہیں ہو سکے اسے اللہ نے سلامتی عطا کر رکھی ہے اور اس کے امن و امان کو کسی لاپرواہ اور غیر مسلم اقوام کے آلۂ کار لوگوں کے ہاتھ تہہ وبالا نہیں کر سکے۔ اس ملک میں دہشت گردی اور تخریبی کاروائیوں کے لیےکوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے دوسرے مجرمانہ افعال و حرکات کی کوئی گنجائش ہے۔

ہر مسلمان کا دل اس وقت خوشی و فرحت محسوس کرتا ہے جب وہ عقیدہ، خطہ حرمین میں قرآن و حدیث کے مطابق دیکھتا ہے اور جب وہ حج و عمرے کے دوران مکمل امن و راحت پاتا ہے تو کیف و سرور میں وہ جھومنے لگتا ہے جبکہ کبھی یہی سفر حج اتنا کٹھن تھا کہ موت و حیات کا سفر قرار دیا جاتا تھا اس نعمت امن و امان پر اول و آخر اور ظاہر و باطن تمام تعریفیں صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ہیں ۔

موجودہ سعود خاندان کے اقتدار سے قبل اس خطہ پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ یہاں کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی سوائے اس کے کہ ہر طرف ظلم کا بازار گرم تھا ۔ ڈاکہ زنی و چوری چکاری تھی ، لوٹ کھسوٹ ناخواندگی و لا علمی اور جہالت و گمراہی تھی ۔ قتل و غارت گری اور اندھیر نگری تھی ۔ یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کا میدان تھا ، اور کثرت خوف و خطرات اور فقدان امن و امان میں یہ اپنی مثال آپ تھا اور صورت حال یہ تھی کہ حجاج کرام کی چیخ و پکار اٹھتی ، بیت اللہ اور حرم پاک بھی زبان حال سے چلاتے نظر آتے تھے اور مکہ مکرمہ میں اقوام و امم اپنے رب کو چیخ چیخ کر پکارا کرتی تھیں۔یہ اس وقت کے حالات ہیں جب اہل حجاز کے عقائد میں افراط و تفریط نے انہیں اصل اسلام سے بہت دور کر دیا تھا اور یہی اصل میں سب سے بڑا نقصان تھا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ دین کے اظہار کے لیے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ اور امام دعوت توحید محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو میدان میں اتارا اور خوف و خطرات کی کثرت کے زمانے میں سلطان حکومت اور سلطان علم و معرفت نے باہم معانقہ کیا اور اس وقت سے پہلے تخلف و پسماندگی اور قلق و اضطراب کا دور دورہ تھا ، لوگوں کا اپنے عقائد سے تعلق کمزور پڑ چکا تھا ۔ اور اپنی شریعت سے وثوق اٹھ چکا تھا ۔ ایسے میں اللہ تعالی نے آئمہ دعوت و سعودی سلاطین اسلام کے ہاتھوں اس ملک اور اللہ کے بندوں کے لیے خیر و بھلائی کے چشمے جاری فرما دئیے جس کی گواہی ہر منصف مزاج شخص دیتا ہے جبکہ ہر حاقد، حاسد و مشرک کو اس سے کرنٹ لگتا ہے اور یہ اس کے گلے کی پھانس بنتا رہتا ہے ۔

علم توحیدکی وجہ سے خرافات وبدعات زندہ درگور کر دی گئیں شرک کا بطلان واضح ہوا اور یہ سب اللہ تعالی کے فضل وکرم کی وجہ سے ممکن ہوا ۔ تاریخ نے ایسے مناظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ قیام امن کے لیے انقلاب بپا ہو جائے اور کوئی خون خرابا نہ ہو ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ سب کچھ اپنی ذات کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ اس میں سب سے بڑا جزللہیت تھا جو ان کی اولاد میں اس طرح منتقل ہواکہ آج اسلام کے لیے جتنی خدمات اکیلے سعودی عرب کی ہیں اتنی خدمات پورے عالم اسلام کی مل کربھی نہیں ہیں اس کی سب سے بڑی مثال حرمین شریفین کی عدیم المثال توسیعات ، اعلی دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام جس میں غیر سعودی طلبا کو فوقیت دی جاتی ہے ، قرآن مجید کی طباعت کے لیے ایک عالمی معیار کے طباعتی مرکز کا قیام ، حجاج کرام جو ضیوف الرحمن بھی ہوتے ہیں ان کی مہمان نوازی میں اپنے تمام مادی ، روحانی ،علمی وسائل کا صرف کرنا ۔ ان میں سے ہر ایک پر باقاعدہ تصنیفات تحریر کی جا سکتی ہیں۔ یہ چیزیں اس دین میں امامت و حکومت کے تقاضوں میں سے ہیں۔ اور مال و متاع ملک و قوم اور لوگوں کا تحفظ اسی سے ہی تو ممکن ہے اور دین تو یہ ہے کہ اس کے قوانین و احکام نافذ کئے جائیں اورہمارے تمام راستے پر امن ہو جائیں ۔

اللہ تعالی نے اس خطہ کو بہت سے خصائص و امتیازات سے نواز ا ہے جن میں سے اہم ترین یہ ہے کہ اس سیاہ دور میں بھی یہاں کے لوگوں کا عقیدہ خرافات ، بدعات اور شرک سے پاک و صاف ہے۔ اس خطہ کے لوگوں پر جب خرافات و انحرافات کا رنگ چڑھنا شروع ہو ا اوروہ تو ہم پرستیوں میں مبتلا ہونا شروع ہوئے اور ظلم و اندھیروں کے گہرے سائے چھانا شروع ہوئے تو مصلح اور مجدد کبیر امام وقت محمدبن عبد الوھاب کی آوازگونجنا شروع ہوئی اور سارے علاقے پر چھا گئی۔ وہ خطہ جو کہ توحید و علم اور دعوت و عظمت کا گہوارہ ہے ، وہاں سے ان کی آواز اٹھی تاکہ وہ امت کو گہری نیند سے بیدار کرے یہاں تک کہ صبح اصلاح کا سپیدہ نمودار ہوا اور منادی حق نے یہ ندا لگائی کہ فلاح و نجات کی طرف آ جاؤ اور حق و حقیقت کا سورج طلوع ہوا جبکہ وہ افق سے کب کا ڈھل چکا تھا ، جہالت و ناخواندگی کے اندھیرے چھٹ گئے ۔

اس جزیرہ کی حالت ایسی پتلی تھی کہ جس کی تفاصیل سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں ۔ یہ ہر طرف سے کٹا پھٹا تھا ، خیر و بھلائی کا فقدان تھا ، امن و امان ناپیدکا تھا ، اور اس کے بنیادی ارکان اور ستون گر چکے تھے اور جب اس میں اتحاد پیدا ہوا اور عقائد و تعلیمات کی تجدید ہوئی تو یہ ایک عظیم علاقہ بن گیا۔ اب یہ خوب آباد ہے اس کی زمین زرخیز و پررونق ہے، اس کے بادل بارشیں برسانے والے ہیں اور امن و امان پورے جزیرے میں عام اور اس پر سايہ فگن ہے ۔ دعوت اصلاح کے بعد اس جزیرہ میں ایسی وحدت آئي کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہے ، اس کے نجد و حجاز اور جنوب و شمال سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی ڈور میں پروئے ہوئے ہیں جبکہ موجودہ سعودی حکومت کے قیام سے قبل وحدت و اتحاد کا مفہوم غائب اور امت کو اختلافات نے پارہ پارہ کر رکھا تھا۔اور علاقائی جھگڑئے، ملکی تقسیمات اور تفرقہ بازی کے تکلیف دہ اثرات سے کئی ملک تباہی و بربادی کے گھاٹ اتر چکے تھے۔اس خطہ حرمین کے اتحاد و دعوتِ اصلاح کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس علاقے میں امن و امان قائم ہو گیا جہاں خوف و خطرات نےاپنے پنجے گاڑ رکھے تھے اور مال و جان ، عزت و آبرو کوئي چیز پر امن نہیں تھی اس امن و امان کے قیام پرسعود ی حکومت امت مسلمہ کی جانب سے شکریے اور دعاؤں کی مستحق ہے ۔

خطہ حرمین کے اہم ترین امتیازات میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ اس میں شریعت اسلامیہ کا قانون نافذ ہے ، کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔کسی مذہب سے متعصبانہ تعلق نہیں ہے اور کسی مسلک و مشرب پر جمودبھی طاری نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ علوم و مناہج اور شرعی و دینی اداروں کا خاص اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور ان دینی قدروں اور اداروں میں اسلامی وحدت کا قیام ، اسلامی تعاون باہمی کی تائید و نصرت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی عزت افزائی ۔ احتساب کے معاملے کی رفعت اور اس میں کام کرنے والوں کی تعظیم و تکریم ، مسلمان عورت کے حجاب و پردے ، عفت و عصمت اور حیاء و حشمت کے تحفظ کے التزام کا اہتمام کرنا اور انھیں بے حجابی و بے پردگی اور مردوں سے آزادانہ میل جول سے دور رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے نتیجہ میں جزیرے کی عورت کو اتنا مکمل تحفظ ملا جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی سوسائٹی نہیں کر سکتی اس كے ساتھ ساتھ وہ آزادی نسواں کے بدبودار نعروں سے بچ گئی اور وہ جعلی ترقی اور مزعومہ آزادی کے دعووں کی لپیٹ میں آنے سے محفوظ بھي هے ۔

سعودی عرب کے خاص امتیازات میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ اس نے مسلمانوں کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا مسلمان دنیا میں کسی بھی مقام پر ہوں سعودی حکومت کی معاونت عدیم المثال و بےنظیر ہے۔ خواہ قبلہ اول کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا مسئلہ یا فلسطین کا مسئلہ ہو سعودی عرب اقوام متحدہ جیسے یہودی ادارہ میں بھی آوازہ حق بلند کرتا رہتا ہے ۔ کہ یہ محض اسلامی عالمی اور آفاقی دعوت ہے کیونکہ اسلام ہی درحقیقت عالمی دین ہے ۔جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے : اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیےرحمت بنا کر بھیجا ہے۔( الانبیاء : 107)

خطہ حرمین کی موجودہ تاریخ شاہد ہے کہ سعودی حکومت نے دعوت کے عالمی میدانوں میں حصہ لیا ہے اور دنیا کے بہت سارے حصوں کی اسلامی و خیراتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ وافر مقدار ميں ڈالا ہے ۔ اور امید ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مزید آگے ہی بڑھتے چلے جائيں گے ۔ اور اس میں تعجب والی بھی کوئي بات نہیں کیونکہ یہ چیز اس جزیرے کے امتیازات و خصائص، اس کے اغراض و مقاصد اور اہداف میں سے ہے اور یہ ایک انتہائي نادر قسم کے منہج کے تحت رونما ہوتا ہے ، جو کہ حق ، عدل وانصاف اور انسانی بھلائی کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے اور برائی ، تشدد، دہشت گردی اور لا قانونیت و انارکی سے اسے دور رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی اہل حرمین اور خادمین حرمین شریفین j کی ان تمام خدمات کو خالص اپنی رضاء کے لیے قبول فرمائے اور اس کا اجر دو بالا کرے اور اپنے فضل و کرم سے اسے توفیق خیر سے مزید نوازے ۔ اور مکاروں کی مکاری سے محفوظ رکھے ، حاقدوں کے حقد سے بچائے اور زیادتی کرنے والوں کی زیادتی سے اس کا تحفظ فرمائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے