بیسویں صدی کے عیسائی عقیدہ رکھنے والے ایک مشہور امریکی دانشور اور ماہر تاریخ ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دی ہینڈرڈ The Hundred میں تاریخ انسانی کی ان عظیم شخصیتوں کا تذکرہ کیا ہے ، جنہوں نے وقت کے دھارے کا رخ بدل دیا اور جن کے کارناموں کے اثرات بیک وقت ماضی حال اور مستقبل پہ محیط ہیں ، ان عظیم فکر انگیز شخصیات میں سر فہرست داعی اعظم ، محسن انسانیت، رحمت للعالمین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا نام نامی مبارک ہے۔ وہ آفتاب نبوت جو سراسر رشد وہدایت اور محسن انسانیت ہے ، دکھوں میں گرے ہوئے انسانوں کیلئے پیام رحمت ہے ، معاشرے کیلئے میزان عدل وانصاف ہے ، مساوات کا علمبردار اور اخوت کا بانی ہے ، بے کسوں اورمجبوروں کا حامی، یتیموں کا والی اور صداقت کا نشان ہے ، عفو وکرم کا دریا اور رحمت کا سمندر ہے۔

مرکز وحدانیت ، مکہ معظمہ سے نعرئہ حق کو بلند ہوئے تقریبا ساڑھے چودہ صدیاں بیت گئیں ہیں، زمانے نے ہزاروں کروٹیں بدلیں ، کفر والحاد کی آندھی رنگ بدل بدل کر چلتی رہی ، لیکن پیام وحدت برابر پھیلتا رہا۔ آج دنیا کا ہر پانچواں انسان حلقۂ بگوش اسلام ہے ، کرئہ ارض کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں مسلمان پائے نہ جاتے ہوں۔ جہاں اللہ کی کبرائی اور محمد ﷺ کی رسالت کی آواز بشکل آذان نہ گونجتی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول ﷺ کو معلم کتاب وحکمت بنا کر بھیجا۔ ایک امی کو علم کا نور پھیلانے کے لیے منتخب کیا اور صحیفہ آخرین عطا فرمایا جو علم کا مخزن ہے۔انسانیت کو با مقصد زندگی سے آشنا کیا انہیںتسخیر کائنات کے گُر سکھائے ، زندگی کا کونسا شعبہ ہے جہاںصاحبِ قرآن نے اس عظیم الشان کتاب کے ذریعہ انقلاب نہیں برپا کیا، وہ ہمہ گیر انقلاب جس نے تاریخ انسانی کا دھارہ موڑ دیا، مگر آج ایک بار پھر ساری دنیا پریشانی کے گرد اب میں مبتلا ہے ، آج انسانی مسائل کی گھتیوں کو سلجھانے کے لیے جو طریقہ کاراپنایا جارہاہے ، وہ سنوارنےکے بجائے الٹا بگاڑ کا باعث بنتاجارہاہے ، دنیا کے کسی بھی حصے میں انسان چین اور سکون سے نہیں حالانکہ دنیا گاؤں کی مثل ہوگئی ہے مگر ایک دائمی بے اطمینانی ہے جو سب پر مسلط ہے ، جنگوں ، جھگڑوں ، خونریزی ، فسادات اور باہمی کشمکش نے دنیا کا سکون برباد کر دیا ہے ، قومیں قوموں سے، فرقے فرقوں سے ، طبقے طبقوں سے ، پارٹیاں پارٹیوں سے اور افراد افراد سے باہم دست وگریباں ہیں ، آج انسانیت کا سب سے اہم اور اولین مسئلہ یہی ہے مگر ان تمام الجھاؤ اور بے سکونی کا علاج رحمت للعالمین ﷺ نے پیش کیا ہے۔

مفکر اسلام سید حامد علی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دنیائے انسانیت کو جن مسائل کے سلجھاؤمشکلات کا سامنا رہا ہے ، اور انسانیت کے تمام مسائل کے حقیقی حل کے لیے جس رہبر وراہنما کا انتظار تھا اللہ تعالیٰ نے عام الفیل ۹ ربیع الاویل ۲۲ اپریل ۵۷۱ء کے مقدس لمحات میں اسے عبداللہ بن عبد المطلب ہاشمی کے گھر پیدا فرمایا۔ آپ ﷺ نے ان مسائل کا دائمی اور حقیقی حل پیش فرمایا یہ حل تا قیامت انسانی معاشرے کے لیے نمونہ ہے۔انسانیت کا پہلا مسئلہ انسان پر انسان کی حاکمیت ہے۔ آپ ﷺ نے انسانیت کو بتایا کہ تمہارے اس مسئلے کا فطری اور حقیقی حل اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ تمام انسان اللہ کو اپنا مالک اور آقا تسلیم کریں اور اسے مقتدر اعلیٰ مانے انسان کی حاکمیت سے انسان کی گردن آزاد کروائی کہ تمام انسان بہر حال انسان ہی ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج ہیں جبکہ آقا صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے ، انسانیت کی دوسری مشکل مشترکہ رشتے کا نہ ہونا ہے۔ وحدت انسانیت کے اس سب سے بڑے علمبردار محمد ﷺ نے اس مسئلے کا حل پیش کیا کہ سب انسان ایک خالق کی مخلوق ، ایک مالک کے بندے اور ایک حاکم کی رعیت ہیں اور وہ اپنی رعیت کو متحد ومتفق دیکھنا پسند کرتاہے ، جھگڑے فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا، آپ ﷺ نے یہ بتایا کہ تمام انسان ایک ماں ایک باپ سے پیدا کیے گئے ہیں وہ بھائی بھائی ہیں۔ رنگ ونسل کی ساری تعریفیں غلط اور بے بنیاد ہیں۔

انسانیت کی تیسری پریشانی کسی متفقہ نصب العین کا نہ ہونا، اسی وجہ سے مختلف قوموں کا نصب العین ، مقصد زندگی ، طریق وطرز زندگی علیحدہ علیحدہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نصب العین جب ایک دوسرے سے ٹکرائے تو دنیا کا امن وامان خطرے میں پڑ گیا ، کسی کو کسی پر رنگ ونسل کی بنیاد پربرتری حاصل نہیں ہے ، تقسیم ایک ہی کی ہے اور وہ ہے اچھوں اور بروں کی تقسیم ،اللہ تعالیٰ کو مقتدر اعلیٰ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی تقسیم ، اس مشکل کو بھی دنیا کے سب سے بڑے رہنما نے بڑی عمدگی سے حل کیا آپ ﷺ نے بتایا کہ انسان کی زندگی کا مقصد اور پوری انسانیت کا نصب العین مقرر کرنا اصل میں خالق ومالک کا کام ہے ، وہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے سب انسانوں کو کس مقصد کیلئے پیدا کیا اور وہی بتا سکتاہے کہ انسان کے لیے کونسا نصب العین بہتر اور فائدہ مند ہے اس لیے انسان کی زندگی کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مالک وآقا پروردگار کی اطاعت وبندگی اختیار کرے اور اس کی تمام سعی وجہد اللہ پاک کو خوش کرنے میں صرف ہو ، یہی دراصل ہر انسان کا نصب العین اور مقصد ہے۔

انسان کی چوتھی مشکل یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان کوئی مشترکہ اور منصفانہ مفاد موجود نہیں جو ان سب کو یکجا رکھے اور ایک مقصد میں لگائے رکھے ایک فرد سے لیکر ایک قوم تک سب کے مفاد الگ الگ ہیں۔

انسانیت کے سب سے بڑے محسن ﷺ نے اس عقدہ کا یہ حل پیش کیا ہے کہ اس سے بہتر کسی حل کا تصور نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے آثار کائنات اور قوانین فطرت کی روشنی میں دنیا کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ یہی زندگی نہیں ہے ، بلکہ مرنے کے بعد ایک دوسری زندگی بھی انسانوں کو ملے گی وہ زندگی دائمی اور ابدی ہوگی اس عالم کی دوامی اور لا محدود نعمتوں کے مقابلے میں اس دنیا کی چند روزہ محدود وہی حیثیت ہے ، جو سمندر کے مقابلے میں ایک حقیر سی بوندکی ، اس زندگی کو آخرت کی زندگی کا نام دیا گیاہے۔ لہٰذا انسانوں کے درمیان مشترکہ اور منصفانہ مفادات دنیا کی بجائے آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصد بنانا ہوگا۔

انسان کی پانچویں مشکل کسی ایک کامل اور متوازن نظام زندگی کا نہ ہونا ہے ، جو خیر وصلاح کا سر چشمہ ہو، فلاح وبہبود کا ضامن ہو، جس میں انسانی زندگی کے تمام شعبوں کیلئے متوازن اصول ہوں اور انسانی قوتوں اور صلاحیتوں کے ارتقاء کاسامان ہو۔

انسانیت کے سب سے بڑے رہنما نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی اس ضرورت کو پورا کرنے والا ہے ، اس نے تمام مخلوقات کی رہنمائی فرمائی انسان کو زمین پر بھیجتے وقت یہ بات واضح کردی تھی کہ وہ زمین پر اپنی زندگی کیسے گزارے گا۔ اس وعدے اور اس پیغام کو بھول گیا تو اس نے اپنے پیغمبر ورسول اور کتابیں نازل فرمائی، تاکہ لوگوں کو صحیح راستہ اور طریقہ معلوم ہو اور اس پر چل کر اپنی زندگی گزار سکیں ، انسانوں کے اس عظیم رہنما نے بتایا کہ وہ کوئی نیا مشن لیکر نہیں آئے اور نہ ہی ان کے پاس نیا پیغام ہے وہ اس حیات بخش پیام کو پھر لوگوں کے پاس لیکر آتے ہیں جو ان سے قبل بے شمار انبیاء اور رسول لے کر آئے تھے ہاں انہوں نے یہ ضرور تصحیح کی کہ ان نظاموں میں لوگوں نے تحریفات کی ہیں میں ان کو پاک کرکے تمہیں خالص پیغام پہنچا رہا ہوں۔ جسے تم پورے اطمینان قلب سے قبول کر لو کیونکہ پہلے نظام خاص قوموں اور نسلوں اور علاقوں کیلئے تھے مگر یہ نظام ہائے زندگی دائمی اور عالمگیر ہے یہ پیام ربانی دائمی اور عالمگیر ہونے کے ساتھ ساتھ آخری اور مکمل بھی ہے اور قیامت تک تمہاری رہنمائی کیلئے کافی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو نظام زندگی میں پیش کر رہا ہوں عقل انسانی اس سے بہتر، اس سے جامع اور اس سے مکمل نظام نہیں سوچ سکتی۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کے نظام سے بہتر، جامع اور دائمی وعالمگیر کس کا نظام ہوسکتاہے۔ جس نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کی ہو۔

انسانیت کی چھٹی بڑی مشکل یہ ہے کہ بدیانت اور بے ایمان افراد کے ہاتھوں میں نظام کار کا ہونا ہے۔

دنیائے انسانیت کے سب سے بڑے رہنما نے اس کا حل انسانیت کے سامنے رکھا ، وہ یہ کہ لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار کی کنجی دینے سے پہلے انہیں اتنا با اخلاق بنادیا جائے کہ وہ اس سے غلط فائدہ اٹھانے کی خواہش نہ کرسکیں اور ایسا ماحول بنادیا جائے کہ اخلاق ودیانتداری کا چلن عام ہو اور بدیانت ، بداخلاق اور بے ایمان لوگ برسراقتدار نہ آنے پائیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کو ایک ایسا نظام دیا جو سراسر خیر وبرکت کاسرچشمہ ہے۔ ساتھ ہی آپ ﷺ نے اس نظام کو قائم کرنے اور چلانے والے افراد کی تعمیر سیرت کا بہترین انتظام کیا۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ پر ایمان راسخ کرنے کی دعوت دی اور پھر ان کی تربیت کا انتظام فرمایا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کو مقصود بنایا اور مخلص ہوکر خدمت انسانیت کا فریضہ انجام دیا وہ کسی قیمت پر خیانت پر آمادہ نہ ہوتے تھے اور اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس کیساتھ تمام تر ذمہ داریاں بحسن خوبی سرانجام دیتے رہے۔ انسانیت کے سب سے بڑے رہنما نے اخلاقیات کی بہترین تعلیم علمی اور علمی حیثیت سے پیش کی ، حقوق کی ادائیگی عدل وانصاف اور حسن سلوک کو دین میں بنیادی اہمیت دی اور ارباب اقتدار ذمہ داریوں کو خصوصیت سے واضح الفاظ میں بیان کیا۔ آپ ﷺ  نے بتایا کہ اسلام میں قیادت مخلوق کی خدمت اور شبانہ روز محنت ہی اقتدار کا نام ہے، عیش وآرام اور نفع اندوزی کانام نہیں ، آپ ﷺ نے بتایا کہ بھلائی اللہ کی بندگی اور اس کے قانون کی پیروی میں ہے جو اس لحاظ سے بڑا ہے اور وہی قیامت وسرداری کا مستحق ہے۔ آپ ﷺ  نے اپنے ماننے والوں پر ایمان وعمل کے بعد سب سے بڑا فرض عائد کیا کہ وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے اور حق کی طرف دعوت دینے کو اپنی زندگی مقصد ومشن بنالیں ، سوسائٹی کے اندر جہاں کوئی برائی سرنکالے اس کو دبا دیں اور پوری زندگی اس کام میں پورے انہماک کیساتھ مشغول رہیں۔

آج سیرت رسول ﷺ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ آپ ﷺکو اپنا رہنما ماننے والے اپنی پوری زندگی کو اس نمونے کے مطابق ڈھالیں جو نمونہ زندگی آپ ﷺ نے پیش فرمایا۔ اس طرح شہادت حق اور اقامت دین کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔ یہاں تک کہ نظام حق سیاسی و معاشرتی طور پر پوری دنیا پر قائم وغالب ہوجائے اور دکھی،پریشان حال اور بے چین انسانیت کو دائمی اطمینان، سکون اور چین مل سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے