نماز شعائر اسلام میں سے ہے۔ اذان واقامت دونوں اس کی طرف بلانے کے ذرائع ہیں۔ دیکھیے اذان کا بھی ایک مقصد ہے اور اقامت کا بھی ایک مقصد ہے ، اذان کے ذریعے لوگوں کو پیغام دیاجاتاہے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے مسجد میں آجاؤ، اور اقامت کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں آچکے ہیں ، ذکر ووظیفہ میں مشغول ہیں ، یا نوافل میں مصروف ہیں ، یا پھر وہ کسی دوسرے مقصد میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ تمام امورترک کرکے نماز کیلئے صف بندی کرلیں۔ لہٰذا اقامت شروع ہونے کے بعد صف بندی کرنا ہوگی مگر آج ہمارا دھان گھڑی کی طرف ہوتاہے کہ جونہی وقت ہوتاہے لوگ فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں کیا رسول مکرم ﷺ کی حیات اقدس میں گھڑیاں تھیں جن کو دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ اس طرح جب خطیب صاحب خطبۂ جمعہ سے فارغ ہوتے ہیں تو لوگ فوراً کھڑے ہوجاتے ہیں ، پھر خطیب صاحب نیچے اترتے ہیں۔ صف بندی ہوتی ہے پھر اقامت کہی جاتی ہے یہ عمل مفہوم اقامت کے خلاف ہے، کیونکہ اقامت کا معنی ہے: کھڑا کرنا ، اور اگر نمازی حضرات اقامت سے قبل ہی کھڑے ہوجائیں تو پھر اقامت کہنا بے مقصد وبے محل قرار پائے گا لہٰذا قرآن وحدیث پر چلنے والی جماعت کا عمل بھی درست ہونا چاہیے۔

دلائل:

1 عَنْ أَبِي ہُرَيْرَۃَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَمِعْتُمْ الْإِقَامَۃَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاۃِ وَعَلَيْکُمْ بِالسَّکِينَۃِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوا

جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (وفات ۵۹ھ) سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چلو جلدی مت کرو، سکون واطمینان اور وقار وعظمت کے ساتھ چلناجو(نماز امام کے ساتھ پالوامام کی اقتداء میں ) پڑھو اور جو رہ گئی ہو اسے (امام کے سلام کے بعد) مکمل کرلو۔‘‘

تفہیم :

حدیث کے الفاظ ’’إِذَا سَمِعْتُمْ الْإِقَامَۃَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاۃِ ‘‘ پڑھیں اور غور فرمائیں کہ یہ حکم کن کو ہے۔ مسجد سے باہر والوں کو تو ہو نہیں سکتا کیونکہ ان کے لیے تو اذان کہنے کا حکم ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ حکم اہل مسجد کے لیے ہے کہ وہ اقامت کے سننے کے بعد صف بندی کے لیے اٹھیں یعنی جو لوگ مسجد میں آکر نوافل ادا کرکے بیٹھے ہیں ، یا ذکر ووظیفہ میں مصروف ہیں یا لیٹے ہوئے ہیں ، یا کسی ضروری اور اہم کام میں مشغول ہیں اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے صف بندی کی طرف متوجہ ہوں۔یادرکھنا کہ ان الفاظ نے تو کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا بلکہ سب کو ایک ہی حکم دیا گیا ہے کہ اقامت سن کر کھڑے ہو جاؤ ، چاہے وہ امام ہو ، چاہے مقتدی ، اس وضاحت وصراحت کے بعد ہمیں اپنی پرانی چال ترک کردینی چاہیے اور اصلاح کرلینی چاہیے۔

2 أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاۃُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہِ فَقَالَ أَقِيمُوا صُفُوفَکُمْ وَتَرَاصُّوا فَإِنِّي أَرَاکُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَہْرِي

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ ( وفات ۹۱۔۹۲۔۹۳ھ) سے مروی ہے کہ اقامت ہوگئی رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف توجہ کی اور فرمایا کہ صفیں سیدھی کر و اور آپس میں مل جاؤ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔

(صحیح البخاری ، کتاب الآذان ، باب اقبال الامام علی اناس عند تسویۃ الصفوف ، رقم الحدیث : ۶۷۸)

تفہیم :

اس حدیث کے خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں کہ یہاں بھی صف بندی اقامت کے بعد کا عمل ہے مگر ہمارا عمل اس کے خلاف ہے کیونکہ ہم پہلے ہی اٹھ جاتے ہیں اور پہلے ہی صف بندی کرلیتے ہیں پھر اقامت کہی جاتی ہے۔

3 عَنْ أَبِي ہُرَيْرَۃَ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاۃُ فَسَوَّى النَّاسُ صُفُوفَہُمْ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ فَتَقَدَّمَ وَہُوَ جُنُبٌ ثُمَّ قَالَ عَلَى مَکَانِکُمْ فَرَجَعَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ خَرَجَ وَرَأْسُہُ يَقْطُرُ مَاءً فَصَلَّى بِـہِمْ ( بخاری ، کتاب الاذان ، باب إذا قال الامام مکانک ۔۔۔۔ )

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز کے لیے اقامت ہوگئی لوگوں نے صفیں سیدھی کر لیں تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور مصلیٰ پر کھڑے ہوگئے مگر آپ جنبی تھے آپ نے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو ، آپ گھر گئے ، غسل فرمانے کے بعد مسجد میں تشریف لائے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا پھر آپ ﷺ نے نماز کی امامت کرائی۔

تفہیم :

اس حدیث میں بھی ’’أُقِيمَتْ الصَّلَاۃُ ‘‘ کے الفاظ ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ اقامت ہوگئی پھر اس کے بعد آپ ﷺ تشریف لائے ، معلوم ہوا کہ اقامت مقدم ہے اور نماز کے لیے کھڑا ہونا اس کے بعد کا عمل ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب صحیح البخاری میں ایک عنوان قائم کیاہے۔

بَاب مَتَى يَقُومُ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْإِمَامَ عِنْدَ الْإِقَامَۃِ‘

‘ کہ لوگ کب کھڑے ہوں جب وہ امام کو دیکھیں اقامت کے وقت ، جناب ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ

’’إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاۃُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي‘

‘ جب اقامت ہوجائے (پھر مجھے دیکھو کہ میں نماز کے لیے آرہا ہوںتو) جب تک مجھے نہ دیکھو تم نے کھڑا نہیں ہونا۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ (وفات ۸۵۲ھ) اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ مصنف عبد الرزاق اور صحیح مسلم میں ہے

’’ فلا تقوموا حَتَّى تَرَوْنِي قَدْ خَرَجْتُ‘

‘جب تک مجھے کمرے سے نکلتے ہوئے نہ دیکھو تم نے کھڑا نہیں ہونا گو اقامت ہوجائے۔

صحیح ابن حبان کے حوالہ سے لکھا ہے ’’

لا تقوموا حَتَّى تَرَوْنِي قَدْ خَرَجْتُ إلیک

‘‘ ان تمام الفاظ کا تقاضا ہے کہ اقامت کے وقت رسول اکرم ﷺ جائے نماز پر نہیں ہوتے تھےبلکہ اپنے کمرے میں ہی ہوتے تھے جب اقامت کہی جاتی تو آپ ابھی کمرے سے نکلتے بھی نہ تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہو جایا کرتے تھے، آپ نے اس سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ جب میں تمہاری طرف یعنی مصلیٰ کی طرف آؤں تو پھر تم نے نماز کیلئے کھڑا ہونا ہے خواہ اقامت ہوبھی جائے۔ (فتح الباری ص99ج2)

نکتہ :

یہاں یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ ہمارے امام پہلے ہی سے مسجد میں موجود ہوتے ہیں اور انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہاںتو مسئلہ ہی بڑا آسان ہے مؤذن اقامت کہہ دے امام صاحب مصلیٰ پر چلے جائیں نمازی حضرات اپنی اپنی جگہ اٹھ کر صفیں سیدھی کر لیں پھر امام صاحب تکبیر اولی کہہ کر نماز کا آغاز کردیں۔

اعتراض :

گذشتہ بحث وگفتگو سے ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہﷺ ابھی اپنے کمرے میں ہوتے تھے تو اقامت ہو جاتی تھی اور صحیح مسلم کے حوالہ سے مروی ہے کہ جناب جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اِنَّ بِلاَ لاً کَانَ لاَ یُقِیمُ حَتَّی یَخرُجَ النَّبِیُّ ﷺ ‘‘‘ کہ رسول اللہ ﷺ کمرے سے باہر آتے تو بلال اقامت کہا کرتے تھے ، ان دونوں روایات میں تو تعارض ہے۔

جواب :

جناب بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے کمرے کی طرف دیکھتے رہتے تھے جونہی ذرا سی حرکت محسوس کرتے تو فوراً اقامت کہہ دیتے ابھی عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپﷺ کو نہ دیکھتے تھے پھر جب وہ بھی دیکھتے تو کھڑے ہو جاتے پھر صفیں سیدھی کرنے کے بعد مصلیٰ پر تشریف لاتے۔اور نماز شروع کرتے۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری)۔

جناب امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسرا عنوان ’’ بَاب الْإِمَامِ تَعْرِضُ لَہُ الْحَاجَۃُ بَعْدَ الْإِقَامَۃِ‘‘لکھا ہے اس عنوان کے ذیل میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ :

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ أُقِيمَتْ الصَّلَاۃُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يُنَاجِي رَجُلًا فِي جَانِبِ الْمَسْجِدِ فَمَا قَامَ إِلَى الصَّلَاۃِ حَتَّى نَامَ الْقَوْمُ (صحیح البخاری ، کتاب الآذان ،رقم الحدیث : ۶۰۶)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ نماز کی اقامت ہوگئی اور آپﷺ مسجد کے ایک کونےمیں آدمی سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے آپ اس وقت نماز کی طرف تشریف لائے جب لوگ بیٹھے بیٹھے سونے لگے۔

تفہیم :

یہاں اقامت پہلے کہنے کا ذکر ہے اور نماز کی طرف آنا اس کے بعد کا عمل ہے۔ تدبروا۔۔۔۔

نکتہ :

حنفیہ کا نظریہ ہے کہ جب مؤذن اقامت کہتاہوا ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر پہنچے تو امام صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کہہ دیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نظریہ کی تردید فرمائی ہے اور فرمایا کہ آپﷺ کا اسوئہ حسنہ تو یہ ہے کہ اقامت ہوگئی آپ نے مصلیٰ کا رخ نہیں کیا اور نہ ہی ’’ قد قامت الصلاۃ‘‘ کے الفاظ پر تکبیر تحریمہ کہی ہے بلکہ باتوں سے فارغ ہوکر نماز کا آغاز فرمایا ، اور اس عنوان اور حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید مقصود ہے جو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے اقوال سے استدلال کرتے ہیں کہ جب اقامت کہنے والا کہے ’’ اللہ اکبر‘‘ تو لوگوں کو کھڑا ہونا چاہیے۔ جب وہ ’’حی علی الصلاۃ‘‘ کہے تو صفیں سیدھی کی جائیں اور جب وہ ’’قد قامت الصلاۃ ‘‘ کہے تو امام صاحب تکبیر تحریمہ کہہ دیں۔( فتح الباری)

اس حدیث نے مسئلہ کی وضاحت کردی ہے کہ کسی خاص لفظ پر کھڑا ہونا منقول نہیں ہے۔

عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ کَانَ بَيْنَہُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ يُصْلِحُ بَيْنَہُمْ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِہِ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ الصَّلَاۃُ فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَکْرٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُمَا فَقَالَ يَا أَبَا بَکْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتْ الصَّلَاۃُ فَہَلْ لَکَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاۃَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَکْرٍ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ فَکَبَّرَ لِلنَّاسِ

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ چند ساتھیوں کو لیکر قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جناب بلال رضی اللہ عنہ نے حسب معمول آذان کہی مگر رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے تشریف نہ لائے ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ نماز کی امامت کرائیں گے ، جناب صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو ٹھیک ہے ، تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی تو سیدنا صدیق اکبر مصلیٰ پر تشریف لے گئے اور نماز کا آغاز کیا۔( صحیح البخاری ، کتاب الصلح ، رقم الحدیث ۱۱۴۲)

تفہیم :

یہاں بھی سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت ہی اس وقت کہی جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مصلیٰ پر تشریف لے آئے، قانون عربی اعتبار سے ’’فَتَقَدَّمَ‘‘ میں ’’فاء‘‘ تعقیب وترتیب کے لیے ہے ، جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اولا اقامت کا عمل ہوا اور پھر اقامت کے بعد وہ آگے مصلیٰ پر تشریف لے گئے اور امامت کرائی۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ میں فرمایا کرتے تھے :

فَإِذَا قَامَتِ الصَّلاَۃُ فَاعْدِلُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بِالْمَنَاکِبِ

’’ کہ جب نماز کھڑی ہوجائے یعنی اقامت ہوجائے تو صفیں درست کرو اور کندھے برابر کرو۔‘‘(مؤطا امام محمد : ۸۹)

تفہیم :

یہاں بھی ’’فاعدلوا‘‘ میں ’’فاء‘‘ ہے جو ترتیب کا فائدہ دیتی ہے کہ پہلے اقامت ہو پھر صفیں بنائی جائیں۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَإِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاۃِ فَاعْدِلُوا صُفُوفَکُمْ، وَأَقِيمُوہَا

سیدنا ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو صفیں برابر کیا کرو اور ان کو سیدھا کرو۔ ( مسند احمد ، رقم الحدیث ۱۰۹۹۴)

تفہیم :

غور فرمائیں کہ صفیں درست کرنے کا حکم نماز کھڑی ہونے پر ہے اور نماز اقامت سے کھڑی ہوتی ہے کیونکہ اقامت کا معنی ہی کھڑاکرنا ہے۔ ودونہ خرط القتاد

خلاصہ یہ ہوا کہ جونہی اقامت شروع ہوتو لوگوں کو بھی نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے ، کسی خاص لفظ پر کھڑا ہونا ثابت ومنقول نہیں ہے۔ اب جو آدمی جو ان ہوں گے تو وہ جلدی کھڑے ہوجائیں گے اور جو ذرا عمر رسیدہ ہوں گے وہ آرام سے کھڑے ہو جائیں۔ پھر صفیں سیدھی کی جائیں ، پاؤں کا رخ قبلہ کی طرف کریں پھر امام صاحب تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیمات اسلام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے