تمہید:

دینِ اسلام دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعوت دیتا ہے۔ اسلامی عبادات زمین و آسمان میں موجود آفاقی علامات کے ساتھ مرتبط ہیں اس لئے اہل اسلام اسلامی مہینوں کے بارے میں مکمل معلومات رکھا کرتے تھے، مگر افسوس کہ الحاد و تشکیک اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے متاثر نسل نو کی اکثریت اسلامی مہینوں کے مسائل تو کجا نام بھی نہیں جانتی(الی اللہ المشتکی)۔

اہل بدعت نے دینِ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کے لئےہر اسلامی ماہ میں مخصوص بدعات رائج کی ہوئی ہیں۔ اسی کا تسلسل ماہِ رجب میں رائج شدہ بدعات و خرافات بھی ہیں، اس مضمون میں ہم قرآن و سنت کے حوالے سے ماہِ رجب کے بارہ میں اہم گزارشات تحریر کریں گے۔

ماہِ رجب احادیث کی روشنی میں:

سیدنا ابن ابی بکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! زمانہ پھر اسی نقشہ پر آ گیا جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ ایک سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذیعقدہ، ذی الحجہ، محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جو کہ جمادی الآخر اور ماہ شعبان کے درمیان آتا ہے۔(بخاری،کتاب التفاسیر)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام میں فرع ہے اور نہ عتیرہ۔ (ابوداؤد)

سیدنا ابوہریرہ t فرماتے ہیں کہ رسول معظم ﷺ نے فرمایا: فرع اور عتیرہ واجب نہیں ہے۔ (ابوداؤد)

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرع اورعتیرہ کی تشریح بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ علما فرماتے ہیں کہ فرع سے مراد اونٹ کا سب سے پیدا ہونے والا بچہ ہے، جسے مشرکین اپنے بتوں کے نام سے قربان کیا کرتے تھے، اس کا گوشت تو کھاتے تھے مگر اس کی کھال کو درخت پر لٹکا دیا کرتے تھے۔

عتیرہ سے مراد وہ جانور ہے جسے مشرکین رجب کے ابتدائی دس دنوں میں ذبح کیا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

ایک شخص نے منیٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ ہم لوگ دور جاہلیت میں رجب میں عتیرہ کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ذبح کرو (رجب کی تخصیص نہیں بلکہ)جس ماہ میں تمہارا دل چاہے اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے نیکی کرو اور تم (غرباء کو) کھانا کھلاؤ۔(نسائی)

ماہِ رجب سے متعلق ضعیف احادیثـ:

۱۔ رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیریں ہے۔ جو ماہِ رجب میں ایک دن کا روزہ بھی رکھے گا وہ اس جنت کا پانی پئے گا۔ (ابن شاہین، کتاب الترغیب و الترھیب)

امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں غیر معروف روات ہیں، یہ سند مکمل طور پر ضعیف ہے مگر اس پر وضع کا حکم لگانا آسان نہیں۔ (العلل المتناہیہ،۱۵ج۲)

۲۔ اے اللہ ! رجب و شعبان کو ہمارے لئے بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان تک پہنچادے۔(یعنی رمضان تک زندگی کی مہلت دیں)۔(مسند احمد)

اس حدیث میں زائدہ بن ابو الرقاد نامی راوی پرکبار محدثین مثلاً امام ابو حاتم، حافظ ابن حجر، امام بخاری، امام نسائی اور امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے سخت جرح کی ہے۔ جس کی بناء پر یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے۔ (تفصیل کے لئے امام ابن حجر رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف تبیان العجب بما ورد فی فضل رجب ملاحظہ فرمائیں)

ماہِ رجب کے بارے میں من گھڑت روایات:

۱۔ رجب اللہ تعالیٰ کا ، شعبان میرا جبکہ رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔ (الموضوعات، ابن الجوزی)

۲۔ رجب باقی مہینوں کے مقابلے میں ویسے ہی افضل و اعلیٰ ہے جس طرح کہ قرآن پاک باقی اذکار سے افضل ہے۔ (تبیان العجب بما ورد فی فضل رجب لابن حجر)

۳۔ ماہِ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جس میں بہت زیادہ روزے رکھے جاتے ہیں، جس نے ایمان کی حالت میں، ثواب کی نیت سے ماہِ رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا وہ اللہ کی سب سے بڑی رضا کا حقدار بن جاتا ہے۔ (الفوائد المجموعہ للشوکانی)

۴۔ جو آدمی ماہِ رجب میں تین روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب لکھ دیتے ہیں اور جو شخص اس ماہ میں سات دن روزے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جہنم کے سات دروازے بند کر دیتے ہیں۔ ( اللائی المصنوعہ للسیوطی ۱۱۵)

۵۔جو شخص ماہِ رجب کے روزے رکھتا ہے اور اس میں چار رکعت نماز ادا کرتا ہے اس شخص کو اس وقت تک موت نہیں آئےگی جب تک کہ وہ جنت میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ نہیں لیتا ۔ (الموضوعات لابن الجوزی ۱۲۴ج۲)

۶۔ ماہ رجب عظیم الشان مقام والا ہے جو شخص اس میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ہزار سال کے روزوں کا ثواب لکھ دیتے ہیں۔ (اللائی المصنوعہ ۱۱۵ج۲)

عہد جاہلیت میں ماہِ رجب:

رجب کا لغوی معنی عزت وتکریم ہے۔کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں اس مہینے کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا اس لیئے اس ماہ کو رجب کے نام سے موسوم کردیا گیا۔کتب تواریخ میں اس ماہ کے تقریباًچودہ نام ذکر ہوئے ہیں۔

۱۔ رجب: کیونکہ عہدِ جاہلیت میں اس کی تعظیم کی جاتی تھی اس لئے اس کا نام رجب رکھ دیا گیا۔

۲۔ الأصم: چونکہ اس ماہ میں اسلحہ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، اس لئے اس کو اصم کہا جاتا ہے۔

۳۔أصب: کفارِ مکہ کا عقیدہ تھا کہ اس ماہ میں بے تحاشا رحمت الٰہی کا نزول ہوتا ہے اس لئے اس کو أصب کہا جانے لگا۔

۴۔رجیم:عہد جاہلیت میں یہ عقیدہ رکھا جاتا تھا کہ اس ماہ میں شیاطین کو رحمتِ الٰہی سے دور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس ماہ کو

۵۔ الکرم، ۶۔ المقیم، ۷۔ مقشقش،۸۔ مبری،۹۔ فرد، ۱۰۔ معلی، ۱۱۔ منصل السنۃ، ۱۲۔ منفس، ۱۳۔ مطہر۔ ۱۴۔ شہر العتیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

ماہِ رجب کی بدعات:

ہوس پرست علما ء نے عوام الناس کے مذہبی جذبات کو گرما کر اس ماہ حرم میں کچھ بدعات کو رائج کیا ہے۔ عوام الناس تک کتاب وسنت کا واضح پیغام پہنچانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے ایمان کو بدعات کی آمیزش سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ رجب کی مخصوص بدعات درج ذیل ہیں۔

۱۔ ماہ رجب کی بدعتی نمازیں:

ماہ رجب میںمخصوص ایام میں مخصوص طریقے سے کچھ نمازیںبالتزام ادا کی جاتی ہیں مثلاً صلاۃ الرغائب ماہ رجب کی مشہور ترین بدعات میں سرفہرست ہے اس نماز میں مخصوص اذکار مخصوص تعداد اور مخصوص حالا ت میں پڑھے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیںہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے۔

فضیلت:

جس طرح صلاۃ الرغائب مشکل ترین اور پیچیدہ نماز ہے بعینہ اس کے متعلق ثواب وجزاء اور اس کی فضیلت بھی پیچیدہ اور ناقابل فہم ہے۔

مثلاً:۱۔ اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں) معاف ہو جاتے ہیں۔

۲۔ اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔

۳۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین، خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جائوں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔

اس نماز کا ثواب خوشخبری سنائے گا کہ مجھے پڑھنے والے تو آج عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔

حقیقت حال:

اس نماز کے بدعت ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعدامام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔

۲۔ اگراس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والے تھے۔

۳۔ نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔

۵۔ نماز میں خشیت لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز عنقا اور مفقود ہو جاتی ہے۔

۶۔ اس نماز میں ہر دورکعت کے بعدعلیحدہ دو سجدے کئے جاتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیںہے۔

۷۔ اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپؐ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔ (مسلم ۲/۸۰۱)

اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا: اما صلاۃالرغائب فلا اصل لہا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔ اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔ (مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴)

امام نووی رحمہ اللہ شارح صحیح مسلم سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)

اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : وکذالک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)

’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔‘‘

رجبی روزے :

ماہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے مشہور ترین بدعت اس مہینے کو روزہ کیلئے خاص کرنا بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث سے ثابت شدہ روزے باعث ثواب ہیں جب کہ ماہ رجب کے مخصوص روزے کسی صحیح نص سے یا اشارہ سے ثابت نہیں ہیں۔

اس مہینے کی پہلی دوسری اور تیسری تاریخ یا ساتویں تاریخ یا پورے مہینے کے روزے رکھے جاتے ہیں اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے کیلئے سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا لیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بنائو۔ (ارواء الغلیل : ۴/۱۱۳)

ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی رجب شعبان اور رمضان میں تسلسل کے ساتھ روزے نہیں رکھے یہ فعل تو کچھ لوگوں نے اپنا لیا ہے۔ ماہ رجب اس میں توآپ ﷺنےبھی خصوصی روزہ نہیں رکھا۔ واللہ اعلم

شب معراج کی عبادت:

ماہ رجب کی بدعات میں سے ایک اور بدعت شب معراج میں عبادت بھی ہے۔حالانکہ اس رات کی خصوصی عبادت قرآن وسنت تو کجا ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے۔ اس بدعت کو موضوع روایات کا سہارا دیا گیا ہے اور اس شب میں عبادت کا خصوصی اہتمام کتاب وسنت اور عقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔

رجب کے کونڈے:

برصغیر پاک وہند کے سادہ لوح عوام کی دینداری کا رخ شروع سے ہی صحیح طرف نہ تھا جہاں نام نہاد ملائوں نے اپنی ذاتی اغراض ومقاصد کیلئے دین اسلام کو بے دردی سے استعمال کیا جس کا مظہر رجب کے مروجہ کونڈے بھی ہیں۔ ہندوستان کے ایک آدمی نے داستان عجیب نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق ‘‘ کے نام سے کیا ہے کہ ایک روز امام جعفر صادق اپنے محبین اور اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے کہ اچانک آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سا ماہ ہےـ؟ اصحاب نے اطلاع دی کہ یہ ماہ رجب ہے پھر دریافت کیا کہ آج کیا تاریخ ہے ؟ محبین نے عرض کی کہ آج ماہ رجب کی ۲۲ تاریخ ہے یہ سن کر امام صاحب نے کہا کہ کوئی شخص کیسی ہی مشکل یا حاجت رکھتا ہو آج کے دن جو اللہ نے مقدر کر دیا ہو وہ موافق مقدور کے پوریاں میرے نام کی پکا کر کھیر دو کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام فاتحہ دے کر رب کی بارگاہ میں جو کچھ اپنی حاجت و مراد ہو مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان کر دے گا اور حاجت ومراد اس کی بر لادے گا اور دعا اس کی مستجاب ہو گی اگر نہ ہو گی تو روز محشر میرا دامن اور اس کا ہاتھ ہو گا۔ (ندائے جامعہ شمارہ ۴، ص:۱۸)

اس تحریر کے ایک ایک جملہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رجب کے کونڈے بدعت سئیہ ہے کیونکہ:

1 یہ تحریر ہندوستان کے ایک مجہول آدمی نے قرون مفضلہ کے بعد لکھی۔

2 امام جعفر صادق کی یہ وصیت چودہ سو سال بعد ہی ظاہر کیوں ہوئی اس سے پہلے یہ تحریر کہاں تھی؟

3 امام جعفر صادق اللہ کے ولی اور موحد انسان تھے عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ کوئی موحد انسان اپنی ذات کیلئے نذرونیاز کی وصیت کرے۔

4 نذرونیاز عبادت ہے اور عبادت صر ف رب العالمین ہی کیلئے خاص ہے نہ کہ مخلوق میں سے کوئی اس کا روادار ہو۔

اصل بات:

دین اسلام کو ختم کرنے، اس کی صاف وشفاف تعلیمات سے لوگوں کو بدظن کرنے اور شریعت محمدی کا حلیہ بگاڑنے کیلئے اہل تشیع نے یہ ایک چال چلی ہے جس میں اہل بیت کی محبت کو استعمال کر کے بغض صحابہ کیلئے راہ ہموار کی ہے کیونکہ ۲۲ رجب کو ہی جلیل القدر صحابی، عرب کے منجھے ہوئے سیاستدان سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ رجب کے کونڈے امام کی وصیت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیدنا معاویہ رضی للہ عنہ کی وفات کی خوشی میں ہوتے ہیں۔فافہم وتدبّر

قارئین کرام مذکورہ بالا اور دیگر بدعات کتاب اللہ ، سنت حبیب اللہ اورعقل سلیم کے سراسر منافی ہے۔

کتاب:

رب تعالیٰ اس بات کی وضاحت فرماتے ہیں کہ آج (روز عرفہ) میں نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان کر دیا تو اس وقت اس قسم کی عبادت نہ تو مروج تھی اور نہ ہی اس کا ذکر تھا پس جو عبادت اس وقت موجود نہ تھی آج وہ عبادت بدعت ہی ہو گی نہ کہ عبادت۔

سنت:

شارح قرآن نے متعدد دفعہ اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ دین میں ایجاد کردہ ہرکام بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت اور ہر ضلالت جہنم پر منتج ہو تی ہے۔

لہٰذا اس ماہ میں عبادت کا خصوصی اہتمام باعث ضلالت وگمراہی ہے۔

عقل سلیم :

عقل سلیم کبھی بھی کتاب وسنت کی ہدایات کے خلاف نہیں ہو سکتی جس طرح قرآن وسنت نے ماہ رجب کی عبادات کو بدعت کہا ہے بعینہ عقل سلیم اس چیز کو بدعت ہی کہتی ہے کیونکہ: اس شب معراج کے تعین میں ہی اختلاف ہے جس وقت کی تعیین میں ہی اندازے لگائے جائیں اسلام اس میں عظیم عبادت کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔

سلف صالحین نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے اس ماہ میں خصوصی عبادت کا اہتمام انہوں نے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کو عبادت ہی تصور نہیں کرتے تھے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات وخرافات سے بچا کر دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔ (آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے