توحید ربوبیت کے دلائل

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ ۭ وَاللّٰہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ؀وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰہِ الْمَصِيْرُ   ؀اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ ۭ يَکَادُ سَـنَا بَرْقِہٖ يَذْہَبُ بِالْاَبْصَارِ ؀ۭ يُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ ؀وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِہٖ ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۭ يَخْلُقُ اللّٰہُ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰي کُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ؀ لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ۭ وَاللّٰہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ؀

کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے (اور فضا میں) پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی، یہ سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ہر مخلوق کو اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے۔نیز آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے۔

کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر بادل (کے اجزاء) کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بھی چمک آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔اللہ ہی رات اوٍر دن کا ادل بدل کرتا رہتا ہے۔ بلاشبہ اہل نظر کے لئے ان نشانیوں میںعبرت کا سامان ہے۔اللہ نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، کچھ دو پاؤں پر اور جوکچھ چار پاؤں پر، اور جوکچھ وہ چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ہم نے صاف صاف حقیقت بتلانے والی آیات اتاری ہیں اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی تو اللہ ہی جسے چاہے کرتا ہے۔

معانی الکلمات :

الطَّيْرُ :

ماخو ذ ہے طار، یطیر ،طیراناً پرندوں کا اپنے پروں کے ساتھ ہوا میں حرکت کرنا، اڑنا، الطیر ، طائر کی جمع ہے لیکن اس کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی، الطائر کے معنیٰ نحوست یا شامت اعمال کے لئے بھی لئے جاتے ہیں۔(تاج العروس)

صٰۗفّٰتٍ:

بازو پھیلائے ہوئے ، یعنی پرندے جو فضا میں پر پھیلائے ہوئے ہو ں۔ (تاج العروس، راغب اصفہانی)

عَلِمَ :

کسی چیز کو کما حقہ جاننا، پہچاننا، حقیقت کا ادراک، یقین حاصل کرنا۔ (ابن فارس)

عربوں میں یہ لفظ معرفت اور شعور سے زیادہ بلند ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے علم کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کوعلیم بھی کہتے ہیں، اور حصولِ علم کے تین ذرائع جو قرآن مجید نے بتائے، سمع، بصر اور قلب ۔ قرآن کریم نے وحی کوبھی علم کہا ہے، علم میں ایک تو وہ جو نبی یا رسول کو اللہ کی طرف سے براہِ راست ملتا ہے اور اس کو وحی کہتے ہیں اور دوسرا علم وہ ہے جس کی استعداد تمام انسانوں میں رکھ دی گئی ہے۔ اور جو انسان چاہے اسے حاصل کرسکتا ہے۔

صَلَاۃٌ :

لفظ صلوٰۃ(ص، ل، و) سے ماخوذ ہے، اس کے بعض مشتقات(ص، ل ، ی) سے ماخوذ ہیں۔ اس کا عام مفہوم نماز ہے، اور نماز بھی ذکر الٰہی کی ایک معروف صورت ہے جس کے معانیٰ دعا کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ صلاۃ بذاتِ خود ایک دعا ہے جس میں انسان اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوکر اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔

نماز در حقیقت اللہ تعالیٰ کی محکومیت اور اطاعت کو کہتے ہیں۔ (قرطبی)

کتب لغات میں صلوٰۃ کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ یعنی یہ لفظ کثیر المعانی ہے اور ان میں سے چند معانی تو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔شرعی مفہوم میں مخصوص حرکات اور ھیئات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جو یہ مسلمان’’صلوا کما رأیتمونی أصلی‘‘ کی اتباع میں کرتا ہے۔

قرآن مجید نے ایمان والوں کی ایک اہم نشانی یہ بتائی ہے کہ ان پر نماز کے آثار نظر آتے ہیں۔(المؤمنون 1-2)

ایسے ہی اس کے آداب اور اقامت عمومی حالات میں اور خوف کے حالات میں بھی بیان کئے ہیں۔ اسلام نے نماز کی محافظت پر بہت زور دیا ہے اور اس کے منکر کو کفر کا مرتکب بھی ٹھہرایا گیا ہے۔

الْمَصِيْرُ:

لغت میں اس کا مطلب ہے جمع ہونے کی جگہ۔ (تاج المصیر، محیط)

اور ابن فارس نے اس کا مطلب مآل اور مرجع لکھا ہے یعنی لوٹنا، اور انجام پذیر ہونا۔

راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز انتقال و حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔

يُزْجِيْ :

زجاہ، یزجوہ، زجوا، وازجی، إزجاء، کسی چیز کو نرمی اور آہستگی سے ہانکنا، نرمی سے چلانا(تاج و راغب)

اس آیت میں یہ مفہوم بنتا ہے کہ کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو آہستگی اور سہولت سے چلاتا ہے۔

يُؤَلِّفُ :

الالف کے معنیٰ ہیں ہم آہنگی، پیوستی یا گھل مل جانے والا ساتھی، ’’ألف بینھم‘‘ ان میں ہم آہنگی اور وحدت پیدا کردی ۔ایسی ہم آہنگی، جیسے بادل کے ٹکڑے آپس میں مل کر ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتے ہیں۔

رُکَامًا :

الرکم، کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا اور جمع کرنا حتیٰ کہ وہ تہہ بہ تہہ ڈھیر کی شکل اختیار کر جائے۔(تاج، محیط، راغب)

ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُکَامًا : پھر انہیں اوپر تلے رکھ کر دبیز بادل کی شکل دےدیتا ہے۔

الْوَدْقَ :

اس کے قریب ہوا اور آسمان سے آنے کی وجہ سے بارش کو ’’الودق‘‘ کہا جاتا ہے ہر قسم کی بارش خواہ زور دار ہو یا ہلکی ودق کہلاتی ہے، اس آیت میں الودق بارش کے لئے آیا ہے جب وہ بادلوں سے نکلے۔

خِلَا لُہُ : ان کے درمیان سے

بَرَدٍ :

ٹھندا ہونا یہ حرٌّ   گرم ہونا کی ضد ہے ۔اس کے علاوہ البرد اولے(ژالہ باری) کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور کمیسٌ بارد کے معنیٰ خوشگوار زندگی کے ہیں۔

سَنَا :

روشنی، یعنی چمک اور خیرگی پیدا کردینے والی روشنی کے ہیں۔ ابن فارس نے اس کے بنیادی معانیٰ بلندی اور ارتفاع بھی کئے ہیں۔

يُقَلِّبُ:

الٹنا پلٹنا، لوٹ پوٹ کرنا، کسی چیز کو ادلتے بدلتے رہنا اس میں مبالغہ بھی ہے۔

أُولِي الْأَبْصَارِ :

آنکھوں والے، عقل والے اصحاب، صاحبِ بصیرت و بصارت

دَابَّۃٍ:

دبَّ یدبُّ دبًّا خاموشی کے ساتھ آہستہ چلنا، الدابۃ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے، ہر رینگنے اور چلنے والا جاندار۔(تاج، لطائف اللغۃ)

قرآن مجید میں دابۃ کا لفظ رینگنے والے جانور، دو پاؤں پر چلنے والے اور چار پاؤں پر چلنے والے جانور سب کے لئے آیا ہے۔

دابۃ کی جمع دوّاب ہے، سورۃ الحج میں یہ لفظ انسانوں کے علاوہ باقی ذی حیات کے لئے آیا ہے۔ (الحج۱۸)

سورۃ فاطر میں یہ لفظ انسانوں اور مویشیوں کے علاوہ دیگر ذی حیات کے لئے آیا ہے۔ (فاطر۲۸)

سورۃ الانفال میں عقل و تدبر سے کام نہ لینے والے انسانوں کو شر الدوابّ کہا گیا ہے۔(انفال۲۲)

مختصراً یہ لفظ ہر ذی نفس کے لئے اور انسانوں کیلئے، جانوروں کے لئے وغیرہ استعمال ہوا ہے۔

يَخْلُقُ :

خلق کے بنیادی معانیٰ کسی چیز کو بنانے اور کاٹنے کے ہیں اور اسے ماپنا اس کا اندازہ لگانا اس کے تناسب و توازن کو دیکھنا ، کسی چیز کو نرم و ہموار بنانا۔ (تاج العروس)

نیز ایک چیز کو دوسری چیز سے بنانا۔ (راغب)

بدع اور فطر کے معنیٰ ہوتے ہیں کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا یعنی پہلی بار پیدا کرنا، ایجاد کرنا اس اعتبار سے خلق کے معانی ہونگے مختلف عناصر کو نئی نئی ترکیبیں دینا اور اس طرح اشیاء پیدا کئے چلے جانا جسے خَلَقَ الانسان من نطفۃ، یا خلق الانسان من صلصال وغیرہ

خلّاق اور خالق اللہ تعالیٰ کی دو عظیم صفات ہیں اور واضح رہے اولاد پیدا کرنا تخلیق نہیں بلکہ تولید ہے اس اعتبار سے اس کے معانی ہونگے پیدا کرنا، ایجاد کرنا بنانا وغیرہ۔

يَشَاءُ :

شاء ، یشاء ، شیئا و مشیئۃ کے معنیٰ ہیں ارادہ کرنا اور چاہنا۔ مشیئت الٰہی، مشیئت انسان پر حاوی ہے۔ اس آیت میں مشئیت الٰہی کا اثبات بھی ہے۔

یھدی:

ھدی، یھدی، اس کے بنیادی معنیٰ نمایاں اور روشن ہونے کے ہیں، اس لئے دن کو ھُدیً کہا جاتا ہے اور ہادیہ اس چٹان کو کہتے ہیں جو پانی میں دور سے نظر آجائے۔ (تاج العروس، المحیط)

ابن فارس نے اس کے دو معنیٰ لکھے ہیں ۔

۱۔راستہ بتانے کے لئے آگے بڑھ جانا۔

۲۔ ہدیہ اور تحفہ بھیجنا۔

اس طرح ھَدٰی کے معنیٰ راستہ واضح کردینا۔ راہنمائی کرنا۔ (تاج العروس)

قرآن مجید کی رو سے ہدایت صرف وحی میں ہے جو اللہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو عطا کی گئی ہے اور اس میں خود نبی کریم ﷺ کی سنت بھی آجاتی ہے کہ

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى ۝اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۝

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔(النجم:۳۔۴)

اور وحی الٰہی کے علاوہ انسانی تجویز کردہ راہنمائی نہیں بلکہ گمراہی ہے۔(البقرہ۱۶)

یہی راستہ سیدھا ہے اس کے علاوہ ہر راستہ ٹیڑھا ہے۔(اٰل عمران۷)۔ تمام انبیاء اس ہدایت کے ساتھ آئے۔ لیکن ایک فرق واضح رہے کہ رسولوں کے ذمّے اس ہدایت کا پہنچانا تھا لوگوں کو اس پر چلانا نہ تھا۔ سیدھے راستہ پر انسان خود چل سکتا ہے برضا و رغبت کہ دین میں کوئی اکراہ نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی انسانوں کی تخلیق کے بعد اس کو مجبور نہیں کیا بلکہ اختیار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۝

ہم نے یقینا اس(انسان) کو راہ دکھا دیااب خواہ وہ شکر گزار رہے یا ناشکرا بن جائے [الدھر:۳]

خود لفظ ہدایت اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ اس میں جبر نہیں راستہ اسی کو بتایا جاتا ہے جو منزل کا متلاشی ہو اور بھٹک جانے کی مصیبت سے بچنا چاہے۔ قرآن مجید نے ایسے لوگوں کو متقین کا لقب دیا ہے۔ اور انہی معانی میں قرآن مجید نے اپنا ایک نام ھدیٰ بھی بتایا ہے۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(متقین کے لئے ہدایت ہے)

صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ:

دو لفظوں کا مجموعہ ہے ’’صراط‘‘ کھلے اور واضح راستہ کو بھی کہتے ہیں۔ (تاج العروس)

المستقیم سیدھا اور واضح جس میں کوئی کجی یا ٹیڑھ نہ ہو،

قرآن مجید نے جماعت مومنین کے مسلک اور روشن زندگی کو الصراط المستقیم سے تعبیر کیا ہے۔ (الفاتحہ۵)

اس کی چند خوبیاں ہیں جو انسانی تجویز کردہ راستوں سے ممیز ہے

۱۔ اس کی بنیاد انسانی عقل پر نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کے ازلی و ابدی قوانین پر ہے۔

۲۔ اس میں عالمگیریت پائی جاتی ہے۔

۳۔ اس کے حامل فلاحِ دارین کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

۴۔ عقل بلا وحی گمراہی ہے۔

۵۔ الصراط المستقیم ہر دور اور ہر زمانہ میں ایک ہی رہا ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا۔

إجمالی مفہوم :

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ہے ۔ خلائق میں سے جو کوئی بھی اس نور سے مستفید ہونا چاہے اور اس کی عطا کی ہوئی ہدایت سے راہ ہدایت پر آجائے لیکن انہی خلائق میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو گمراہ ہوئے اور سیدھے راستے کو چھوڑ کر شیطانی راہوں کے مسافر ہوئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اندھیرے اور تاریکیوں نے غلبہ حاصل کرلیا اور یہ اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ وہ یا تو قریب ترین چیز بھی دیکھنے سے معذورتھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں موجود دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔ جو اللہ کی وحدانیت پر دلالت کررہے ہیں کہ کائنات کی غیر ناطق اشیاء تک اللہ کی حمد اور اطاعت وتسبیح میں مشغول ہیں اس کے بر خلاف کفار اور جہال جو کہ شعور اور عقل رکھتے ہوئے گمراہیوں کا شکار ہوئے۔

’’اے ہمارے محبوب ﷺ کیا آپ نے نہیں دیکھا ‘‘ اس طرح باقی امت بھی مخاطب ہے کہ زمین آسمانوں اور اس کے درمیان تمام مخلوق اللہ کی حمد میں مشغول ہے۔ اور یہ حمد وتسبیح ایمان وہدایت اور نور الٰہی کی واضح دلیل ہے کہ کائنات ہر چیز انسان، حیوانات، جمادات، نباتات، چرند ، پرند کی تسبیح سے گونج رہی ہے یہ الگ بات کہ ہم ان کی تسبیح نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ ساری اشیاء اپنی زبان حال سے انسان کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ بھی حمد وتسبیح میں ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گویا جو شخص یا فرد اس حمد وتسبیح میں ان کا ساتھ نہیں دیتا وہ پوری کائنات کا مخالف بلکہ کائناتی سچائی کا مخالف ہے اور رب کی وحدانیت کا علم بلند کرنے والا اپنے آپ کوتنہا نہ سمجھے بلکہ پوری کائنات اس کے ساتھ ہے۔

کائنات ہر چیز کا تسبیح وحمد بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک بھی وہی ہےاور اس سے کوئی امر مخفی نہیں ہے وہ عالم کل ہے ہر شئے اس کے علم واختیار میں ہے اور وہی معبود حقیقی ہے کہ ربوبیت کی طرح الوہیت بھی اسی کا حق ہے ۔ اور ربوبیت الٰہی والوہیت الٰہی کی تائید وتقریر کرنے والے اور نہ کرنے والے سب کا مرجع اور آخری مسکن وٹھکانا اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ سب کو اس کی طرف لوٹناہے۔ اس لیے قرآن نے ’’المصیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آخری ٹھکانا جس کے بعد کوئی مسکن وٹھکانہ نہیں ہے۔ کہ (إلی اللہ المصیر )

إجمالی مفہوم :

اسلام کے تین بنیادی ستونوں میں سے ستون اول :

توحید یعنی وحدانیت ربانی کا بیان ۔ توحید اپنے تمام ممکنہ مفاہیم کے اعتبار سے ان آیات میں موجود ہے ۔ توحید ربوبیت پر کائنات کی سچائیاں دلیل ہیں اور توحید الوہیت اواخر آیات سے ثابت ہورہی ہے اور اسماء وصفات کا اثبات بھی اواخر آیات سے ہورہاہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو واضح کرنے کے لئے اور اس کی اہمیت بیان کرنے کے لئے ایک انتہائی بلیغ مثال استعمال کی ہے جو کہ اس کائنات میں تمام انسانوں کو فکر و عمل کے لئے دعوتِ عام ہے کہ وہ سوچیں اس بات پر کہ کائنات میں موجود ہر چیز اللہ کی حمد و تسبیح میں مشغول ہے تو انسان کو من باب اولیٰ یہ کام کرنا چاہئے کہ ان اشیاء کے مقابلے میں انسان کی تخلیق ہی اس امر کے لئے ہوتی ہے۔

یہ توحید پر ایک واضح دلیل ہے اور یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف پیراؤں میں بیان ہواہے جیسا کہ سورۃ الحج آیت نمبر ۱۸ میں ہے

کیا نہیں دیکھتے کہ جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے جھکتے ہیں اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اور لوگوں سے بہت سے۔۔۔ الخ۔ اورتمام آیات اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں ہر چیز اپنی فطرت میں توحیدی مزاج رکھتی ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز ربّ العالمین کے مقرر کئے ہوئے قوانین سے ذرہ بھر بھی انحراف نہیں کرتی، کائنات میں موجود ہر چیز اپنے اعمال میں اس طرف گواہی دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور یہی دلیل سورۃ رعد میں یوں بیان ہوتی ہے اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں خواہ طوعاً یا کرہاًاور ان کے سائے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں صبح و شام۔(الرعد15)

اور سورۃ النحل میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کے اس پہلو پر غور نہیں کیا ان کے سائے داہنے اور بائیں سے لوٹتے ہیں اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہوئے اور وہ اس کے آگے سرفگندہ ہوتے ہیں اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں آسمانوں اور زمین میں جو جاندار بھی ہیں اور فرشتے بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔ (نحل ۴۸،۴۹)

۔۔۔جاری ہے۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے