—- ||| موسیقی دراصل روح میں نہیں ، انسان کے بدن میں کیف ومستی بھر دیتی ہے|||—–

سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں جب ابلیس(شیطان) کو راندئہ درگاہ کیاگیا تو اس نے بارگاہ الٰہی میں یہ استدعا کی :

قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ قَالَ اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّهُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ اَیْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَاۗىِٕلِهِمْ ۭ وَلَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِیْنَ  

اس نے کہا مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک۔اللہ تعالٰی نے فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی ۔اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔(الاعراف: 14تا17)

اسی روز سے شیطان لعین اپنے مشن پر پوری طرح عمل پیراہے۔ اس کے بنائے ہوئے گمراہ کن راستوں میں اتنے موڑ اور اتنی گھاٹیاں ہیں کہ ان سے بچ نکلنے کے لیے بڑی مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ ان راستوں پر بچھائے ہوئے ان گنت جالوں میں ایک بڑا خوش نما جال موسیقی بھی ہے ، جسے وطن عزیز کے میراثی اور میراثنیں اور اس شیطنت کے دل دادہ روح کی غذا سمجھتے ہیں ، جو ان کی روحوں کو سرشار کردیتی ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر ایک لحن داؤدی کا حوالہ بھی دیاجاتاہے۔ سیدنا داؤد علیہ السلام قوم بنی اسرائیل کے نبی تھے ، ان کے گلے کے سوزوترنم کے متعلق مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے ’’قصص القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰٰ نے ایسا لہجہ اور سحرآگیں لحن عطا کیا تھا کہ آپ ’’زبور‘‘ کی تلاوت کرتے تو جن وانس حتیٰ کہ وحوش وطیور تک وجد میں آجاتے اس لیے آج تک لحن داؤدی ضرب المثل ہے۔

اس چیز سے یہ جواز نکالا گیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے گلے میں بھی سُر پیدا کردیا تھا ، اس لیے موسیقی کوئی حرام شے نہیں ہے ، بلکہ یہ تو کائنات کی ہرشے میں وجدوسرور پیدا کرتی ہے۔ ان نادانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اللہ کی عطا کی ہوئی آواز سے اس کی حمد وثنا کرنا اور بات ہے اور گانا گانا اور چیز ہے۔ موسیقی دراصل روح میں نہیں ، انسان کے بدن میں کیف ومستی بھر دیتی ہے۔ آرکیسڑا کی مدھر دھنوں پر جسموں کا تھرکنا، میڈیا پر دکھائے جانے والے فحش گانوں پر نیم عریاں لباسوں میں لپٹی رقاصاؤں کا شیطانی ناچ۔ ان سب خرافات کا پروموٹر دراصل ابلیس (شیطان) ہے اور کچھ انسان نما اس کے چیلے اس کام میں اس کے دست راست ہیں۔

خوبصورت اور دل سوز آواز تو اللہ کی وہ نعمت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ ’’ قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو۔‘‘ اب اس نعمت کو ناجائز اور غیر شرعی کاموں میں استعمال کرنا کفران نعمت اور اللہ کے غضب کو بھڑکانے کا باعث ہے۔ موسیقی کے متعلق تو احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں ہیں۔ رسول کریم نے ارشاد فرمایا ’’ عنقریب میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل دیںگے۔ ان کے سروں پر ناچ گانے ہوں گے۔ اللہ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو خنزیر اور بندر بنادے گا۔

(سنن ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب العقوبات)

ایک اور موقع پر ارشاد نبوی ہے کہ ’’عنقریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا،ریشم،شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الاشربہ)

ایک دور تھا کہ یہ ناچ گانا اور رقص وسرود کی محفلیں طوائفوں کے کوٹھوں تک محدود تھیں، جبکہ اس وقت کی طوائفیں بھی اپنی غزلوں اور گیتوں میں شائستگی اور آداب محفل کا لحاظ رکھتی تھیں۔ اس کے باوجود بھی کوئی شریف النفس آدمی ان سے نکاح کرکے گھر میں لانا پسند نہیں کرتا تھا۔ نوجوانوں اور نواب زادوں کی زندگی میں ان کی حیثیت ایک کھیل کی ہوتی تھی۔ آج یہی میراثنیں اور رقاصائیں ، جنہیں اب ’’فنکاراؤں‘‘اور ستاروں‘‘ کا ٹائٹل دے دیاگیاہے، میڈیا کے توسط سے ہرگھر میں اپنے نازوادا کے جلوے دکھا رہی ہیں۔ پاکستان اس لیے بنایا گیا تھاکہ یہاں اسلام نافذ ہوگا، مگر افسوس کہ 65سال گزرجانے کے باوجود اسلام تو نافذ نہ ہوسکا، البتہ جو لوگ اسلام کی سربلندی کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں، ان کے گردگھیرا تنگ کیاجارہاہے، یہاں آج میراثیوں، میراثنوں کو لوگ سروں پر بٹھاتےہیں ، ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار ومضطرب رہتے ہیں اور علوم دینیہ اور شریعت مطہرہ پڑھنے والوں کو دہشت گرد کانام دیاجاتاہے۔

آج فن وثقافت کے نام پر اس ملک کی نوجوان نسل کے ذہنوں کو زہر آلود کیاجارہاہے اور اس میں اہم اور کلیدی کردار ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ بھارتی ثقافت کو فروغ دینے میں میڈیا کے دونوں شعبے پیش پیش ہیں۔ رسول کریم نے ارشاد فرمایا ہے ’’میری امت میں زمین میں دھنسنے،پتھروں کی بارش ہونے اور صورتیں بگڑنے کے واقعات ہوں گے اور ایسا اس وقت ہوگا جب لوگ شرابیں پئیں گے ، گانے والی لونڈیاں عام ہوجائیں گی اور باجے تاشے بجائیں گے۔‘‘(ابن ابی الدنیا فی ذم الملاہی)

ایک اور موقع پر رسول کریم نے گانے والوں اور نغمہ سرائی کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰٰ کے غضب کا حال بیان فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص گانے کے لیے آواز نکالتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس شیطانوں کو بھیج دیتاہے جو اس کے کندھے پر بیٹھ کر اپنی ایڑھیاں اس کے سینے پر مارتے رہتے ہیں، تاوقتیکہ وہ خاموش ہوجائے۔ (ابن ابی الدنیا)

اب اگر ان نام نہاد فن کاروں اور فن کاراؤں کے دل میں خوف الٰہی کا کوئی شائبہ بھی ہے تو وہ اپنی حالت پر غور کریں کہ وہ کس غلاظت میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ خود میڈیا پر بیٹھ کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، ان کو بھی مذہب سے لگاؤہے، تو کیا ہمارا مذہب اس لہوولعب کی اجازت دیتاہے؟ ایک حیلہ یہ بھی پیش کیاجاتاہے کہ اللہ کے رسول نے ’’دف‘‘ بجانے کی اجازت دی تھی، آج کے آلات موسیقی اسی کی جدید شکل ہیں ۔ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ کے مصداق ہے۔ رسول کریم نے بلاشبہ دف بجانے کی اجازت دی تھی مگر کچھ شرائط کے ساتھ اور وہ یہ کہ ایک تو دف کی اجازت نکاح کا اعلان کرنے کی غرض سے یا پھر عید کے موقع پر دی گئی تھی اور اس میں بھی یہ احتیاط رکھی گئی تھی کہ وہ دف کمسن بچیاں بجایا کرتی تھیں، کسی بالغ اور جو ان عورت کو دف بجانے کی اجازت نہیں تھی ، پھر ایک اہم بات یہ تھی کہ دف کے ساتھ کسی اور آلہ صوت کی آمیزش قطعی نہیں ہوتی تھی۔ جس سے جھنکار پیدا ہو اور بدن میں کوئی انتشار یا ہیجان کی کیفیت طاری ہوجائے۔ دف ایک انتہائی سادہ سا آلہ تھا، جو ایک طرف سے کھلا ہوتا تھا، ڈھول یا موجودہ ڈرم کی طرح نہیں تھا۔

اللہ تعالیٰٰ نے انسان کے وجود میں خیر اور شر کے مادے رکھ دیے ہیں ، اس لیے کہ انسان کو اس دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجا گیاہے۔

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰٰ ہے :

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا   ۭوَهُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔(الملک:2)

یعنی ہر انسان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جس کا ایک راستہ بدی، فسق وفجور اور اللہ کی نافرمانیوں کی طرف جاتاہے اور دوسرا راستہ نیکی، خیر، اطاعت وفرماں برداری، پاکیزگی وطہارت ، تقویٰ اور خدا ترسی کی طرف جاتاہے۔

اب یہ فیصلہ کرنا انسان کا کام ہے کہ وہ کس راستے پر سفر کرنا چاہتاہے۔ شیطان تو برائی ، غلاظت اور گمراہی کا راستہ مزین اور خوش نما کرکے دکھاتاہے کہ وہ تو اپنے مشن پر ہے، مگر مآل کاریہ راستہ جہنم کی دردناک اور اذیت ناک وادیوں پر ختم ہوتاہے اور دوسرا راستہ بظاہر تکلیفوں، آزمائشوں، جان ومال کی قربانیوں، نفس امارہ سے کش مکش کا راستہ ہے، مگر انجام کے اعتبار سے یہی راستہ فوزوفلاح ، ابدی راحت اور بہشت لے جاتاہے، جہاں انسان کو معرکۂ روح وبدن کی ہرکشاکش سے نجات مل جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے