6۔ قبر کا عذاب دور کرنے والی نماز
غنیہ الطالبین ہی میں اس نماز کا تذکرہ ہے علاوہ ازیں کافی تعداد میں بدعتی لوگ یہ نماز پڑھتے بھی ہیں اس کا طریقہ یہ لکھا ہے کہ اگرکوئی آدمی دو رکعت نماز پڑھے اور ایک رکعت میں سورئہ فرقان کا آخری رکوع بڑھے اور دوسری رکعت میں سورئہ مومنون کو فَتَبَارَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ تک پڑھے تو یہ آدمی جنوں اور انسانوں کے مکر سے بچا رہے گا اور بروز محشر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا ، عذاب قبر اور نزع اکبر سے بچا رہے گا ‘‘ (غنیہ الطالبین مترجم صفحہ ۵۹۵) میں نے کتب احادیث میں اس روایت کو تلاش کیا لیکن مجھے یہ روایت کہیں بھی نہیں ملی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نماز بدعت ہے اور بعد میں ایجاد کی گئی ہے ۔ چونکہ اس نماز کے پڑھنے والے زیادہ تر سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھنے والے حنفی دیو بند اور بریلوی لوگ ہیں لہٰذا صاف ظاہر ہے کہ وہی اس بدعت کے موجد ہیں اگر عبدالقادر جیلانی نے یہ بدعت ایجاد کی ہوتی توان کے عقیدے سے تعلق رکھنے والوں میں یہ نماز آج ہمیں بآسانی مل جاتی لیکن ہم نے کوئی بھی اہل حدیثؔ، اہل سنتؔ اور حنبلیؔ ایسا نہیں پایا جس کا اس بدعت پر عمل ہو اور یہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ غنیہ الطالبین میں اگر تحریف کی کئی ہے تو وہ تحریف کرنے والے کون لوگ ہیں ؟ یاد رکھئے ایسی نماز عذاب قبر سے تو کیا خاک بچائے گی جہنم میں البتہ ضرور لے جائے گی اس لئے کہ بدعتی افراد کا ٹھکانہ حق تعالیٰ نے جنت میں نہیں بلکہ جہنم میں مقرر فرمایا ہے ۔
7۔ نماز برائے دفع خصومت
اگر کسی شخص کا کسی سے جھگڑا ہو گیا ہو او رپھر وہ جھگڑے کو رفع دفع کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی یار لوگوں نے ایک نماز ایجاد کر لی ہے میں نے اس نمازکا ذکر بھی غنیہ الطالبین ہی میں پڑھا ہے اس کتاب میں اس نماز کے بارے میں لکھا ہے ’’اگر کوئی خصومت کو دور کرنا چاہے تو وہ ایک سلام کے ساتھ چاررکعت ادا کرے اور پہلی رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص گیارہ مرتبہ پڑھے ، دوسری میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص دس بار پڑھے اور تین بار سورئہ کافرون پڑھے ، تیسری رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص دس بار اورا یک دفعہ اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُر پڑھے اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورئہ اخلاص پندرہ بار پڑھے اورایک دفعہ آیۃ الکرسی پڑھنے کے بعداس کا ثواب اپنے دشمنوںکو بخش دے ۔ قیامت کے دن اللہ نے چاہا تو وہ اس کے کام میں کافی ہو گا اور جو نماز مذکور ہوئی ہے اس کو ان سات وقتوں میں پڑھے ، رجب کے مہینے کی پہلی رات میں ،ماہ شعبان کی پندرھویں رات میں ، ماہِ رمضان کے آخری جمعہ میں ، دونوں عیدوں کے دنوں میں اور عرفہ و عاشورہ کے دنوں میں ‘‘ میںنے اکثر صوفیوں کو ان مذکورہ تاریخوںمیں بکثرت نمازیں پڑھتے دیکھا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ یہی نماز پڑھتے ہوں ۔ بہرکیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نماز کی ادائیگی کا کوئی ثبوت اور احادیث شریفہ و صحیحہ میں مجھے نہیں مل سکا اور نہ ہی کوئی ایسا فرمانِ گرامی کہ جس میں آپؐ نے ایسی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو یا ایسی نماز پڑھنے کی فضیلت بیان فرمائی ہو لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ نماز بدعت اور پڑھنے والے بدعتی ہیں ۔
8۔ صلوٰۃِ رجب
غنیہ الطالبین میں مذکور ہے کہ ’’پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے ماہِ رجب میں چاند دیکھااور فرمایا کہ اے مسلمان ! اگر کوئی مومن او رمومنہ رجب کے مہینے میں تیس رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ، تین دفعہ قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ اور تین دفعہ قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف کر دے گا اور اس کو اس قدر ثواب عطا کرے گا کہ جس قدر مہینہ بھر روزہ رکھنے والے آدمی کو ملتا ہے اور آئندہ سال کے نماز گزاروں میں اس کا نام لکھ لیا جائے گا اور ہر روز اسکے اعمال نامے میں اتنا عمل لکھا جائے گا کہ جس قدر بدرؔ کے شہیدوںمیں سے ایک کو ملا ہے اور ہر ایک روزے کے عوض اس کو ایک سال کی عبادت کا ثواب بھی عطا کرے گا اور ایک ہزار درجے بھی بڑھا دیں گے اور اگر کوئی سارا مہینہ ہی روزے رکھے گا اور مہینہ بھر ہی نماز پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ کی آگ سے نجات دے گا اور بہشت اس کے حق میں واجب کر دے گا اور اس کو اللہ تعالیٰ کی حضوری بھی نصیب ہو گی ‘‘ اس روایت کی حقیقت مجھے احادیث صحیحہ میں کہیں بھی نہیں مل سکی بلکہ موضوعات کبیر میں ملا علی قاریؔ نے رجب و شعبان کی تمام نمازوں اور انکی روایات کو موضوع قرار دیا ہے ۔ نیز ’’اَلتَّحْذِیْرُ مِنَ الْبِدَعِ‘‘ میں سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؔ مفتی اعظم سعودی عربیہ نے لکھا ہے ’’عبادت کے لئے شعبان کی پندرھویں شب یا رجب کی پہلی جمعرات یا شبِ اسراء و معراج کو خاص کرنا جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ضرور اس کی راہ نمائی کرتے یا خود یہ کام کرتے اور ان میں سے کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقع ہوئی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو ضرور نقل کرتے اور اس کو امت سے نہ چھپاتے‘‘۔ (صفحہ ۳۹) چونکہ رجب کی نماز کاکوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ہے لہذا ہم محض صوفیا کی باتوں میں آکر اس پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے اس لئے کہ عبادت وہ نہیں ہے جو کہ صوفیاء سے ثابت ہو عبادت وہ ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو ۔ رجب کی نماز یقیناً بدعت ہے ۔ اور یہ بھی غنیہ الطالبین میں کی جانے والی تحریفات میں سے ایک تحریف دکھائی دیتی ہے اگر کوئی اس نماز کے بدعت ہونے پر یقین نہیں رکھتا ہے تو اس کو چاہیے کہ پھر حدیث صحیحہ سے یا تو ثابت کر کے دکھائے یا پھر اس کو بدعت سمجھتے ہوئے ٹھکرا دے کہ ہدایت کی راہ یہی ہے ۔
9۔ صلوٰۃ الحولی
صوفیائے فارس و پاک و ہند میںایک نماز صلوٰۃ الحولی کے نام سے معروف ہے کہتے ہیں کہ یہ نماز سال میں صرف ایک بار پڑھی جاتی ہے یہ اس لئے کہ پورے برس کے دن اس نماز کی برکات کے سبب امن سے گزریں ۔ نیز گزرے ہوئے برس کے دنوں کے گناہ معاف ہوں ۔ میں نے مختلف باطنی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے صوفیوں کو اس نماز کا عادی پایا ہے نیز اس نماز کے فضائل ان کی زبانی سنے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ فضائل کسی کتاب میں بھی درج ہوں لیکن میری نظر سے ایسی کوئی کتاب نہیں گزری ۔ میں نے صوفیاء کی معروف کتب میں اسے بہت تلاش کیا ہو سکتا ہے کہ اس کا ذکر کسی ایسی کتاب میں ہو جس کا میں نے مطالعہ نہ کیا ہو اور ہوسکتا ہے کہ اس کے فضائل و مناقب باطنی روایات کے مطابق سینہ بسینہ چلے آ رہے ہوں ۔ بہر کیف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ امر ثابت نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰۃ الحولی کے نام سے نبوت و رسالت کی ساڑھے تئیس برس کی زندگی میں کوئی نماز ادا نہیں فرمائی نہ ہی ایسی کسی نماز کے فضائل بیان فرمائے نہ آپ کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی نماز انفرادی و اجتماعی طور پر ثابت ہے نہ ہی تابعین کرام سے اس کا ثبوت ملتا ہے پھر ایسی صورت میں ہمارا یہ کہناکیوں کر غلط ہو سکتا ہے کہ صلوٰۃ الحولی بدعت اور اس کے اداکرنے والے بدعتی ہیں۔
10۔ صلوٰۃ الالفیہ
اس نماز کو صوفیاء صلاۃ الخیر بھی کہتے ہیں اس نماز کے بارے میں غنیہ الطالبین میں لکھا ہے کہ ’’ وہ نماز جو نصف شعبان میں وارد ہے وہ سو رکعت ہے جس میں ایک ہزار بار(سورۃ الاخلاص) قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھی جائے گی ، ہر رکعت میں دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کو صلاۃ الخیر کہتے ہیں ۔ اس کی برکات پھیلتی ہیںاور سلف صالح اس نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھتے ، ا سکے لئے جمع ہوتے ۔ اس میں بہت بڑی فضیلت اور بہت بڑا ثواب ہے ۔ (بحوالہ شب برأت ایک تحقیقی جائزہ از حبیب الرحمن کاندھلوی) علاوہ ازیں غنیہ الطالبین میں سیدنا حسن بصری رحمہ اللہ ہے ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنِیْ ثَلاَثُوْنَ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ مَنْ صَلّٰی ہٰذِہِ الصَّلاَۃَ فِیْ ہٰذِہٖ اللَّیْلَۃَ قَضٰی اﷲُ لَہٗ سَبْعِیْنَ حَاجَۃً لَّہٗ اَدْنَاہَا الْمَغْفِرَۃُ‘‘
یعنی مجھ سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ جو شخص اس رات کو یعنی نصف شعبان کی شب کو یہ نماز ادا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی سترحاجتیں پوری فرمائے گا جن میں ادنیٰ ترین اس کی مغفرت ہے ۔ (بحوالہ کتابِ مذکور)
غنیہ الطالبین کی اس روایت کو اور حسن بصری رحمہ اللہ کی بیان کردہ اس حدیث کو محدثین کرام اور فقہائے اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے مسترد کر دیا ہے جس کسی کو اس کی حقیقت جاننی ہو تو وہ کتابِ مذکور شب برأت ایک تحقیقی جائزہ کی طرف مراجعت کرے ۔ باوجود یہ کہ اس کتاب کے مصنف کی نیت درست نہیں ہے اس نے اس کتاب کے ذریعے قاری کو احادیث سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی ہے نیز احادیث ضعیفہ کے ساتھ ساتھ احادیث صحیحہ کا صفایا کرنے کی مہم بھی اس نے چلا رکھی ہے لیکن چونکہ شعبان سے متعلق روایات واقعتا ضعیف ہی ہیں لہٰذا اسی وجہ سے ہم نے اس کتاب پر ان ضعیف روایات پر جرح کے سلسلے میں اعتماد کیا ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن الجوزی، علامہ حافظ ذہبی، ملا علی قاری حنفی، علامہ ابن القیم، علامہ محمد طاہر بن علی ہندیؔ (رحمہم اللہ)وغیرہ سب کے فیصلے ہیں کہ یہ نماز بدعت ہے اور احادیث صحیحہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے ۔ ان علماء کا فیصلہ ہے کہ صلوٰۃ الالفیہ سے تعلق رکھنے والی روایات سب کی سب موضوع ہیں ۔ علاوہ ازیں علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ ’’یہ حدیث موضوع ہے کہ اے علی! شعبان کی پندرھویں شب کو جو سو رکعت ادا کرے اور ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ اور دس دفعہ قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کی ہر ایک حاجت پوری کرے گا اس حدیث کے صریح الفاظ میں اس شب کے عامل کے لئے اس قدر ثواب کا ذکر ہے کہ صاحبِ تمیز اس کے موضوع ہونے میں شک نہیں کر سکتا اور اس کے راوی مجہول ہیں ۔ دو اور طریق سے بھی یہ حدیث مروی ہے تمام کی تمام موضوع اور ان کے راوی مجہول ہیں‘‘۔ (الفوائد المجموع بحوالہ التحذیر مِنَ البدع) نیز سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن بازؔ نے اس نماز پر جرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ اس سے متعلق تمام روایات باطل اورموضوع ہیں ۔ (التحذیر من البدع) ان تمام حقائق کی روشنی میں کیا یہ امر اب واضح نہیں کہ صلوٰۃ الالفیہ یا صلاۃ الخیر ایک کھلی بدعت ہے ؟ اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث صحیحہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے لہٰذا ہمارے لئے اب اس کے سوا کوئی چارئہ کار نہیں رہتا کہ ہم اس بدعت کو ترک کر دیں اگر ہم واقعتا نبی علیہ السلام کے فرماں بردار ہیں ۔
(جاری ہے)