نفلی روزے کی نیت اور کیفیت:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئےاور فرمایا: تمہارے پاس کچھ (کھانے کے لیے) ہے؟ ہم نے کہا،کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو میں روزے سے ہوں پھر ایک دن ہمارے پاس آئے میں نے عرض کی یارسول اللہ! ہمارے پاس حیس بطور تحفہ (ہدیہ) آیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: مجھے دکھاؤ میں صبح روزے سے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا۔

(مسلم کتاب الصیام 170،1154)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی روزہ کی نیت دن میں کی جاسکتی ہے بشرطیکہ کچھ کھایا نہ ہو اسی طرح اگر نفل روزہ کی نیت کر کے روزہ رکھ لیا ہو پھر کوئی کھانے کی دعوت پیش آ جائے تو دعوت قبول کی جا سکتی ہے جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔

بعض اہل علم نےکہا ہے کہ بغیر عذر کے نفل روزہ نہیں توڑنا چاہیے یعنی بیماری، سفر، عورت کو حیض کا آنا وغیرہ۔ مگر یہ بات سنت کے قریب نہیں ہے۔ عذر کی حالت میں نفل تو کیا فرض روزہ بھی توڑا جا سکتا ہے۔

فرض روزہ کی حالت میں اگر کوئی دعوت بھی دے تب بھی روزہ نہیں توڑا جاسکتا لیکن نفل روزہ میں دعوت قبول کر کے روزہ توڑ سکتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی اس رخصت کا فائدہ نہ اٹھانا چاہے اور روزہ مکمل کرنا پسند کرے تو بھی ٹھیک ہے۔

شوال کے چھ روزے اور ان کا انعام:

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان مبارک کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے (چھ نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے سال کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔ (مسلم کتاب الصیام 1124)

پورے سال کے روزوں کا ثواب اس طرح بنتا ہے کہ ایک نیکی کا اجر اور بدلہ کم از کم دس گنا ہے رمضان مبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے برابر اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہو گئے۔

جس نے رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزوں کو اپنی زندگی کا معمول بنالیا تو گویا اس نے ساری عمر کے روزے رکھے شوال کے یہ روزے ایک ساتھ رکھے جائیں یا ناغہ کر کے دونوں طرح سے ٹھیک ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو کوئی ایک نیکی کرے گا اس کو دس گنا اس کے مثل اجر ملے گا۔ (الانعام 160)

یوم عرفہ اور عشرہ ذی الحجہ کے روزوں کی فضیلت:

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں لوگوں نے پوچھا کیا جہاد میں بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں جہاد میں بھی نہیں۔سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرے میں ڈال کر نکلا واپس کچھ بھی نہ لایا۔ (البخاری کتاب العیدین 969)

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کےروزے کے متعلق سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ گذشتہ اور آئندہ سالوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ (مسلم کتاب الصیام 197، 1162)

محرم کے روزوں کی فضیلت:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے محرم الحرام کے ہیں۔ (مسلم کتاب الصیام 1163)

اس مہینہ میں یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا دیگر مہینوں کے نفل روزوں سے افضل ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کا روزہ رکھنے کاحکم دیتے تھے جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر جس کا جی چاہتا تھا وہ عاشوراء کا روزہ رکھتا تھا جس کا جی نہیں چاہتا تھا وہ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتا تھا۔

(بخاری کتاب الصوم 2001)

عاشوراء کا روزہ زمانہ جاہلیت میں قریش بھی رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی یہ روزہ رکھا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی یہ روزہ رکھنے کا حکم دیا۔

مدینہ میں بسنے والے یہودی اس دن کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطا فرمائی۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس خوشی کے ہم ان سے زیادہ حق دار ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ اہتمام کے ساتھ رکھا۔

(بخاری کتاب الصوم 2002، 2004)

عاشوراء دس محرم کو کہتے ہیں اس روزے کا فائدہ مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

یہ روزہ کس دن رکھا جائے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرمیں آئندہ سال تک زندہ رہا تو 9 محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔ (مسلم کتاب الصیام 134، 1134)

لہذا اب 9 محرم کا بھی روزہ رکھنا چاہیے اس میں یہودیوں کی مخالفت اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت ہے۔

ایام بیض کے روزے:

ہر ماہ تین (چاند کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے ) روزے رکھنا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے تین باتوں کی نصیحت فرمائی: ہر ماہ تین روزے رکھنےکی چاشت کی دو رکعات پڑھنے کی اور سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔ (بخاری کتاب الصوم 1981)

یہ تینوں اعمال بہت اہمیت اور فضیلت کے حامل ہیں۔ ان میں پہلا عمل تین دن کے روزے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے رکھا کرتے تھے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن کے روزے رکھتے تھے۔

(ابو داؤد کتاب الصوم 2451)

ان تین دنوں کے بارے میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایام بیض (13،14،15) کے روزے رکھنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ (ابو داؤد کتاب الصیام 2449)

بیض سفید کو کہتے ہیں ان تاریخوں میں رات کو سفیدی اور روشنی ہوتی ہے۔ راتیں چاندنی ہوتی ہیں اسی مناسبت سے ان ایام کو ایام بیض سے تعبیر کیا گیاہے۔ اس دنوں میں روزے رکھنا، مہینہ کے باقی ایام کے مقابلہ میں افضل ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا، سارا سال روزے رکھنے کے برابر ہے۔ (بخاری، الصوم 1979،مسلم 182،1159)

چونکہ ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ہے اس لیے تین روزوں کا ثواب تیس روزوں کے برابر ہے جو شخص ہر ماہ تین اور سال میں تیس روزے اہتمام سے رکھتا ہے پھر ساری زندگی کا یہ معمول بنالیتا ہے تو گویا اس نے ساری زندگی روزے کی حالت میں بسر کی۔

سوموار اورجمعرات کے روزوں کی فضیلت

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے متعلق سوال کیاگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی اور اس دن مبعوث کیا گیا اور اسی دن میرے اوپر وحی نازل کی گئی۔ (مسلم کتاب الصیام 197، 1162)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ پس میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل جب پیش کیا جائے تو میں روزے سے ہوں۔ (ترمذی ،الصیام 746)

رمضان المبارک کی طرح ان دنوں میں بھی جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوموار اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہرا س بندے کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرایا ہو سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس مسلمان بھائی کے درمیان کوئی دشمنی ہو، کہاجاتا ہے کہ ان دونوں کو مہلت دی جائے کہ وہ صلح کرلیں۔

(مسلم کتاب البر و الصلۃ 2565)

داؤد علیہ السلام کا روزہ اللہ کے ہاں پسندیدہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام قسم کے روزوں میں سے سب سے پیارا روزہ اللہ تعالیٰ کو داؤد کا روزہ ہے۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔(بخاری، کتاب التہجد 1131)

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے زیادہ کی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک داؤد کا روزہ پسندیدہ ترین روزہ ہے۔ آپ علیہ السلام آدھے زمانے میں روزہ رکھتے تھے۔

(مسلم کتاب الصوم 190، 1159)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: داؤد علیہ السلام کے روزے کے برابر کوئی روزہ نہیں کہ وہ آدھا زمانہ روزہ رکھتے ایک دن روزہ ہوتا اور ایک دن افطار کرتے۔

(مسلم کتاب الصیام 191، 1159)

آدمی خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اس کو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں رہنا چاہیے اسی میں خیر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ہاں روزوں میں افضل ترین داؤد کے روزے ہیں آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے۔

(مسلم کتاب الصیام 192، 1159)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے