صدیقہ کائنات ارشاد فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے عائشہ رضی اللہ عنہا نرمی کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی اہل خانہ کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان کی نرمی کی طرف راہنمائی فرماتے ہیں۔ (مسند احمد ، مسند عائشہ ، جلد:6)

سیدنا خالد بن معدان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :’’ بلاشبہ اللہ نرم ہیں اور نرمی کو پسند کرتے ہیں اور اس سے راضی ہوتے ہیں اور نرمی پر اللہ تعالیٰ جو مدد فرماتے ہیں وہ سختی پر نہیں فرماتے ۔ ( مجمع الزوائد ، کتاب الادب ، جلد :8 ، ص: 21)

یعنی نرمی میں مدد الٰہی شامل ہوتی ہے جبکہ سختی نصرت الٰہی سے خالی ہوتی ہے اور باعث نقصان ہوتی ہے مگر نرمی کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ اللہ سختی نہیں فرماتے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نرمی اور رحمت، سختی وغضب پر غالب ہے وگرنہ سرکشوں ،ظالموں ،مشرکوں، کافروں اور غیر مسلموں کی اللہ سخت پکڑ کریں گے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایسا حاکم ،امیر وزیر یا ولی عہد جو بے جاسختی سے کام لے ، ایسےسخت آدمی کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یوں بدعا فرمائی :’’ اے اللہ! جو میری امت کے کسی کام کا والی بنایا گیا اور اس نے ان پر سختی کی تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی میری امت کے کسی کام پر والی بنایا گیا اور نے ان کے ساتھ نرمی کی تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما۔( صحیح مسلم ، جلد :2 ، ص:122) 

سیدنا عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جنت میں ایک ایسا کمرہ ہے کہ جس کا ظاہر اس کے باطن سے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا باطن اس کے ظاہر سے دیکھا جاسکتاہے ، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ کس کیلئے ہے ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ہر اس شخص کیلئےجس نے نرم کلام کی اور کھانا کھلایا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے رات کو قیام کیا جب لوگ سو چکے تھے۔ (احمد ، جلد:2، ص: 173)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جنت میں بلندئ درجات کے لیے اور اعلیٰ سے اعلیٰ مرتبے کو حاصل کرنے کے لیے نرم کلام ہونا ضروری ہے بالخصوص مندرجہ ذیل شعبوں میں نرمی کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے۔

۱۔ عبادت میں نرمی ۔     ۲۔ ماں باپ سے نرمی

۳۔ بیوی سے نرمی          ۴۔ بچوں سے نرمی

۵۔ خادموں سے نرمی     ۶۔ہمسائیوں سے نرمی

 ۷۔ مہمانوں سے نرمی     ۸۔ بھوکے،پیاسے سے نرمی

 ۹۔ سائل سے نرمی        ۱۰۔ مقروض اور تنگدست سے نرمی

۱۱۔ جاہل سے نرمی          ۱۲۔ غیر مسلم سے نرمی

۱۳۔ دشمن سے نرمی        ۱۴۔ حیوان سے نرمی وغیرہ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ’’ بلاشبہ ! نرمی نہیں ہوتی کسی چیز میں مگر وہ اس کو خوبصورت بنا دیتی ہے اور نہیں چھینی جاتی کسی چیز سے مگر وہ اس کی قدر کو کم کردیتی ہے ۔ ( مسلم، جلد:2، ص:322)

سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ’ ’ جس کو نرمی سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی سے حصہ دیا گیا اور جو نرمی کے حصہ سے محروم رہا وہ بھلائی کے حصہ سے محروم رہا ۔ ( جامع ترمذی، جلد: 3، ص: 149)

یعنی نرمی سے بھلائی آتی ہے اور بڑھتی ہے جبکہ سختی اور تلخی سے آدمی بھلائی سے محروم اور شر کے قریب تر ہوجاتا ہے۔سیدنا جریر   رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا’’جو نرمی سے محروم کردیاگیا وہ بھلائی سے محروم کردیاگیا۔ (صحیح مسلم، ج:2،ص:322)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کیا میں تم کو ایسے شخص کے بارے میں نہ بتلائوں جو آگ پر حرام کر دیا گیا ہے اور آگ کو اس پر حرام کردیا گیا ہے ؟ ہر قریب رہنے والے سے، نرمی کرنے والے اور آسانی کرنے والے پر۔ (صحیح ابن حبان، ج:1،ص: 366)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا’’ صفوں کو قائم کرو، بیشک تم فرشتوں کی صفوں کے ساتھ صفیں بناتے ہو اور کندھوں کے ساتھ برابری رکھو اور خالی جگہ کو پُر کرو اور اپنے بھائیوں کے مقابلہ میں نرمی اختیار کرو اور شیطان کے لیے کشادگی نہ چھوڑو۔ جس نے صف کو ملایا، اللہ تعالیٰ اس کو ملائیں گے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ تعالیٰ اس کو کاٹ دیں گے ۔ ( مسند احمد،جلد: 2،ص:98)

اہل جنت کے بارے میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے کہ جنت والے تین طرح کے ہوں گے ۔ (۱) انصاف والا ، (۲) صدقہ کرنے والا ، موافقت کرنے والا بادشاہ، رحم کرنے والا نرم دل شخص ہر قریبی عزیز اور مسلمان کے لیے ۔ (۳) بال بچوں والا پاک باز اور سوال سے بچنے والا۔ ( صحیح مسلم، جلد: 2، ص: 385) 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی سنگدلی کی شکایت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ’’اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکینوں کو کھانا کھلایا کر اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیراکر۔ ( مسند احمد، مسند ابی ہریرہ ، ج: 2،ص: 263)

یادرہے! سنگ دلی، قساوت قلبی اور سخت دلی کی وجہ سے آدمی کئی بھلائیوں سے محروم رہ جاتاہے اس لیے ہمہ وقت نرم دلی کی دعا کرنی چاہیے اور مسکینوں،یتیموں اور حاجتمندوں کو کھانا کھلانا چاہیے۔

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح فرشتوں نے قبض کی اور پوچھا تو نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں ؟ روح نے جواب دیا ، میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو مہلت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ’’ پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہ کی ۔ اور ابو مالک ربعی سے ( اپنے روایت میں یہ الفاظ) بیان کیا۔ میں کھاتے کمانے کے وقت نرم معاملہ کرتا اور تنگ حال مقروض کو مہلت دے دیتا۔ (صحیح بخاری، ج:1، ص: 278) 

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

 ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا لوگ اس کو مارنے کے لیے بڑھے لیکن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس شخص نے پیشاب کیا ہے اس جگہ پر پانی کا ایک ڈول بہا دو کیونکہ تم نرمی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجےگئے۔( صحیح بخاری ، کتاب الوضوء )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے