حقوق العباد کے پس منظر میں سب سے والدین کے بعد سب سے اہم حقوق شوہر اور بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں کیوں کہ معاشرہ کی بنیاد افراد پر ہوتی ہے اور افراد کا وجود تعلق ازدواج کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے

دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پربھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اورکچھ حقوق توخاوند اوربیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔ ذیل میں ان شاء اللہ خاوند اوربیوی کے ایک دوسرے پر حقوق کا ذکرکیا جائے گا ۔

بیوی کے حقوق :بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اوررہائش شامل ہے ۔

اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں ایک سے زائد بیویاں ہونے کی صورت میں ان کے مابین عدل کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا، بیوی کوتکلیف نہ دینا ۔

مھر: مالی حقوق میں سرفہرست مہر آتاہے مہر وہ مال ہے جو عقد یا پھر بیوی سے حق زوجیت ادا کرنے سے ثابت ہوتا ہے، اوریہ اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو۔ (النساء 4 )

مہر یا تو فوری طور پر قابل ادائیگی ہوتا ہے یا توپھر باہمی اتفاق سے موخر کیا جا سکتا ہے۔

نان ونفقہ: بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا، لیکن اگر بیوی اپنے خاوند کو نفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا۔

عورت کا خاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا منع ہے تواس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچہ کرے اوراس کے ذمہ ہے کہ وہ اس کوکفایت کرنے والا خرچہ دے۔

نان ونفقہ سے مراد کھانا، پینا، رہائش وغیرہ، اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہو تو پھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے۔

اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے: اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے۔ (البقرۃ 233)

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا: اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے۔ (الطلاق7 )

سنت نبویہ میں سے دلائل :

سیدنا جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :

تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو( صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 )

رہائش: خاوندبیوی کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں انہيں بھی رہائش پذیر کرو۔ (الطلاق 6)

غیرمالی حقوق :

بیویوں کے درمیان عدل: اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تو وہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے۔

حسن معاشرت:

خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں۔

اس لیے کہ فرمانِ الٰہی ہے : اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو۔( النساء 19)

سیدنا ابوھریرہ t بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو (صحیح بخاری حدیث نمبر (3153) صحیح مسلم حدیث نمبر (1468)

اب ہم ذيل میں چندایک نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے نمونے پیش کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لیے قدوہ اوراسوہ اور آئیڈیل ہيں:

سیدہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا: اللہ تعالی کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے دیکھا اورحبشی لوگ اپنے نیزوں سے مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھیلا کرتے تھے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے چھپایا کرتے تھے تا کہ میں ان کے کھیل کودیکھ سکوں پھر وہ میری وجہ سے وہاں ہی کھڑے رہتے حتی کہ میں خود ہی وہاں سے چلی جاتی تو نوجوان لڑکی جوکہ کھیلنے پر حریص ہوتی ہے اس کی قدر کیا کرو۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر (443) صحیح مسلم حدیث نمبر (892)

بیوی کوتکلیف نہ دینا: یہ اسلامی اصول بھی ہے اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولی حرام ہوگا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ: نہ تو اپنے آپ کو نقصان دو اورنہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 2340)

سیدنا جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا: تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو ( صحیح مسلم حدیث نمبر 1218)

خاوند کے حقوق :

فرمان الہٰی ہے: اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے۔( البقرۃ 228)

امام جصاص رحمہ اللہ کا کہنا ہے: اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں اور خاوند کوبیوی پر ایسے حق بھی ہیں جوبیوی کے خاوند پر نہیں۔

اور امام ابن العربی رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ اس کی نص ہے کہ مرد کوعورت پر فضیلت حاصل ہے اورنکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔

اوران حقوق میں سے کچھ یہ ہیں:

اطاعت: اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے اور اس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں۔

فرمان الہٰی ہے: مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔(النساء 34)

استمتاع ممکن بنانا: خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے یعنی بیوی اپنے آپ کوعقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے۔ وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اورعورت اگرمطالبہ کرے تواسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کےلیے اپنے آپ کوتیار کرلے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اوریہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے۔ اورجب بیوی حق زوجیت ادا کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہیں کرتی تو یہ ممنوع ہے اوروہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہوتو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض، یا فرضی روزہ اور بیماری وغیرہ۔

سیدنا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں (صحیح بخاری حديث نمبر 3065 صحیح مسلم حدیث نمبر 1436)

خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا: خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے۔

سیدنا ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں (نفلی) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے اور کسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے (صحیح بخاری حدیث نمبر 4899 صحیح مسلم حدیث نمبر 1026)

خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا: خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے توواجب کوترک کرکے غیرواجب کام کرنا جائز نہيں۔

تادیب: خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو اطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اورہلکی سی مار کی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے: اورجن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہو انہيں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اورانہیں مار کی سزا دو(النساء 34)

بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا: بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اوراحسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے اوریہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے توایک دیہاتی عورت کی خدمت شہرمیں بسنے والی عورت کی طرح نہیں اوراسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزور اور ناتواں عورت کی طرح نہیں ہو سکتی۔

بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت: اللہ تعالی کا فرمان ہے: اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ (البقرۃ 228)

سیدنا ابن عباس wنے فرمایا: یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت اچھے اوراحسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پراسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے: ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اورضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے۔ یہ امام طبری کا قول ہے۔

ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہيں: تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرو اوراس سے ڈرو، جس طرح کہ ان عورتوں پربھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کريں اورڈريں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے