قرآن پاک کی تلاوت کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کائنات ہست بود کا صرف ایک ہی مالک خالق اور إلٰہ ہے ،ایک دستگیر اور ایک ہی فرایاد رس ہے اور ایک ہی کرنی والاہے، تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو یہی عظیم کام سونپا گیا تھا کہ وہ جاکر لوگوں کو لوگوں سے درختوں سے اور پتوں سے توڑ کر میرے ساتھ جوڑدیں اور ان کو یہ بھی بتلادیں کہ ساری کائنات کے سارے کا م اللہ پاک ہی کرتاہے ، تم اپنے سارے کام اللہ پاک ہی سے کراؤ، اللہ تعا لی کے احکامات کو جانو ، مانو اور طریقہ میرا اختیار کرو، سب سے آخر میں امام کائنات ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ کو بھی یہی حکم ہوا

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ (محمد: 19)

اے نبی ﷺ آپ خوب (باء کو ذرا لمبا کر کے پڑھیں) لاإلہ إلااللہ کو سمجھیں! اس کو سمجھ لینے کے بعد آپ ﷺ اپنی امت کو بھی سمجھادیں، ان کو دنیا اور آخرت سنور جائے گی۔
یاد رکھنا کہ یہ لاإلہ إلااللہ ان کے اندر کا زیور تھے اس سے اس کا ایمان و یقین بنے گا ’’محمد رسول اللہ‘‘ اس کے چہرے اور باہر کا زیور ہے یا یوں کہہ لیں کہ لاإلہ إلااللہ پڑھنے سے عقیدہ صحیح ہوتا ہے ’’محمدرسول اللہ‘‘ کے اقرار سے عمل صحیح ہوتاہے پھر اس کی ساری زندگی ایمان وعمل صالح والی بن جائے گی۔
دعوت عام:
جناب آدم سے ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ایک ہی دعوت اور پیغام رہاہے مثلاً اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں، آدم اللہ کے رسول ہیں۔
لاإلٰہ إلااللہ آدم رسول اللہ
لاإلٰہ إلااللہ نوح رسول اللہ
لاإلٰہ إلااللہ ابراہیم رسول اللہ
لاإلٰہ إلااللہ موسیٰ رسول اللہ
لاإلٰہ إلااللہ عیسیٰ رسول اللہ
لاإلٰہ إلااللہ محمد رسول اللہ
میں نے یہاـں چند انبیاء کرام کا تذکرہ کیا ہے باقی دیگر انبیاء کو بھی اسی پر قیاس کر لیا جائے اس دعوت توحید کو سمجھنے کے لیے لاإلہ إلااللہ دو حصوں میں تقسیم کیا جائے مثلاً لاإلٰہ ایک حصہ اس کو نفی کہاجائے إلااللہ دوسراحصہ اس کو اثبات کہا جائے۔اب سمجھئے کہ
لاإلہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ إلہ کوئی نہیں یعنی جو لوگوں نے خود بنائے ہیں کرنی والا کوئی نہیں ہے جیساکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑا کرنی والا ہے اور فلاں بڑا کرنی والاہے إلا إلہ کہہ کر سب کی نفی کردی گئی ہےإلا اللہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف اللہ پاک اکیلا اور تنہا إلہ اور کرنی والا ہےاس کلمہ میں اللہ پاک نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کوئی الٰہ نہیں ہے کیونکہ کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، دوسرا دعویٰ یہ کیا ہے کہ إلا اللہ کہ صرف اللہ ہی إلٰہ ہے کیونکہ وہ سب  کر سکتا ہے ارشاد باری تعالی ہے کہ:

وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ
(سورۃ التکویر 29)

’’اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ‘‘
تو پھر مان لوکہ اللہ پاک سے سب کچھ ہوتاہے مخلوق سے کچھ نہیں ہوتا کلمہ توحید کا یہی مقصد ہے ، جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے بھی یہی درس دیا ہے ،  سیدنا مغیر ہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سید نا معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ جناب محمد ﷺ فرض نماز سے سلام پھیر نے کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللّٰہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ (صحيح البخاري (1/ 168)

 اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مالدار کو اس کی دولت و مال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیں گے۔
آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ کتنا بڑا اعلان توحید ہے اور شرک سے بیزاری اظہار ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہم بھی یہ کلمات پڑھتے ہیں او ر شرک بھی کرتے جاتے ہیں بلکہ پریشانی یہ ہے کہ ہم شر ک کو شر ک ہی نہیں سمجھتے، مثلاً:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زوجہ محترمہ سیدہ ھاجرہ علیہا السلام اور اپنے لخت جگر  سیدنااسماعیل علیہ السلام کو ایک ایسی جگہ چھوڑ آئے تھے کہ جہاں کچھ بھی نہ تھا، نہ کھانے کے لیے نہ پینے کے لیے نہ ہی رہنے سہنے کے لیے ، آپ اس کو موت کی وادی بھی کہہ سکتے ہیںقرآن پاک نے اس کو ’’بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ ‘‘ کہا ہے کہ ’’وہاں نہ کوئی کھا نے کی شے تھی نہ پینے کی‘‘ نہ کوئی مکان اور نہ مکین نہ مونس اور نہ غمخوار نہ کوئی ملنے والا نہ کوئی ہمدرد صرف تھوڑی سی کھجوریںاور تھوڑا سا پانی دیا اور واپس ہوگئے، سیدہ ھاجرہ علیہا السلام نے کہا ہمیں کس کے سپر د کرکے جارہے ہیں؟  سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیادوبارہ سوال کیا تو کوئی جواب نہ دیا، پھر سیدہ ھاجرہ نے عرض کیا یہ اللہ پا ک کا حکم ہے؟ پھر ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا ہاں یہ اللہ کا حکم ہے ، تو سیدہ ھاجرہ نے کہا پھر چلے جائیں’’إذن لایضیعنا اللہ‘‘ (پھر اللہ تعالی ہمیں ضائع نہیں کرے گا) پھرتھوڑی دور جاکر دعا کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ پھیلائے ، اے پروردگار! میں نے ان کو بے آب وگیا وادی میںچھوڑا ہےاور نقشہ یہ ہے کہ نہ ان کے پا س کچھ ہے اور نہ وہاں کچھ ہے اور نہ میرے پاس کچھ ہے اگر ہے تو صر ف ایک سہارا تیرا ہے ، اور قرآن پاک میں اللہ نے اپنے خلیل کی دعا کے الفاظ کو رہتی دنیا تک محفوظ کر لیا۔

رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ  (سورۃ ابراہیم: 37)

’’اے میرے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بےکھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘
اب دعاؤں کی تفصیل عرض کرنا مقصود ہے ، عرض کیا ’’ربنا لیقیم الصلاۃ‘‘ اے ہمارے رب ! ان کو اس وادی میں ٹھہرانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اس دعا کا اثر یہ ہے کہ نماز کی جو رونقیں وہاں لگی ہوئی ہیں اور جو اہتمام وہاں نماز کا کیا جاتاہے دنیا کے دوسرے کسی خطے میں نہیںہے نماز کے وقت پورا نظام حکومت جام ہو جاتا ہے حتیٰ کہ آمد ورفت تک بند ہوجاتی ہے گلیوں اور بازاروں میں ہو کا عالم طاری ہوتاہے اور سناٹا چھایا ہوا ہوتا ہے

فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ  [إبراهيم: 37]

’’پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے ‘‘
اس موت کی وادی کے بارے میں عرض کی جارہی ہے کہ اے ہمارے پروردگار ساری دنیا کے دل اس کی طرف مائل فرمادے دعا کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دور دراز سے کھنچے چلے آتے ہیںمیں یہ کہوں گا کہ جو ایک مرتبہ حج یا عمرہ کر آیا ہے وہ واپس آکر تڑپ رہا ہےاور جو ابھی تک وہاں نہیں گیا وہ ترس رہا ہے،ہم نے لوگوں کوروتے دیکھا ہے

وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

اور انھیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘
یہ دعا کی قبولیت کا اثر ہے کہ ساری دنیا سے بہترین قسم کے پھل وہاں پہنچائے جاتے ہیںپھر وہ بے موسم بھی ہوتے ہیں پھر خورد ونوش کی اشیاء خالص اور آسانی سے مل جاتی ہیں۔

يُجْبَى إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا(القصص: 57)

’’ جہاں تمام چیزوں کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں ‘‘
کی تعبیر وتفسیر وہاںدیکھنے میں آتی ہےپھر پھلوں کی گنتی وشمار کرنا بھی ایک مسئلہ ہے آپ نے ملاحظہ فرمالیا ہےکہ جب سیدہ ھاجرہ اور  سیدنا اسماعیل علیہما السلام کو وہاں آباد کیا گیا تھاتو وہاں کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں تھا لہٰذا یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ کچھ بھی نہ ہو تواللہ پاک سب کچھ کرلیتاہے ، لوگوں کے پاس سب کچھ بھی ہواگر اللہ پاک نہ چاہے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتایہی ہے لاإلٰہ إلااللہ
میرے عزیزو! یہ عقیدہ کفار کے لیے موجب اور استعجاب تھااس لیے وہ یہ کلمۂ توحید کا اقرار و اعتراف نہ کرتے تھےآج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم لوگ اس کلمے کا مفہوم نہیں سمجھتے اس لیے کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور غیر اللہ کو سجدے بھی کرتے ہیں یا للعجب!

دعوت فکر:

جن حضرات واحباب کو یہ کلمہ لاإلٰہ إلااللہ سمجھ آگیاہے اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو لیکر ساری دنیا میں پھیل جائیں قریہ قریہ بستی بستی شہر شہر اور گھر گھر اس کو پہنچائیں لوگوں پر دین کی محنت کریں اس کلمے کو سمجھ کر گھر نہ بیٹھ جائیںصحابہ اکرام کو جب یہ کلمہ سمجھ آگیا تو وہ اس کو  لیکرساری دنیا میں پھیل گئے تھے وہ میدان عمل میں آگئےاور وہ اپنے گھروں اور باغات میں نہ بیٹھے رہے آج یہ معاشرہ قابل رحم ہے کہ ان کو آج تک کلمہ توحید کا صحیح مفہوم کسی نے بتایا ہی نہیں ہے، اپنے کاروبار سے کچھ وقت نکال کر دوستوں کو مل کر کلمے کی محنت کریںتاکہ عقیدۂ توحید یعنی لاإلہ إلا اللہ راسخ ہواور قبرپرستی زندہ پرستی مردہ پرستی اور غیر اللہ پرستی سے توبہ کرائی جائے۔
اللہ پا ک سمجھنے کی توفیق دے۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم آذاں لا إلہ إلا اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے