چاند، ستارے، حدِ نگاہ تک پھیلا وسیع و عریض آسمان،
کالی گھٹائیں، خنک ہوائیں، مہکتے پھول، خوشنما رنگوں سے مزین نازک اور کومل تتلیاں، شبنم کی بوندیں، نرم چاندنی، ننھی منی کلیاں، دھنک کی روشنی، درختوں کی نرم و گداز شاخیں، روشنیوں کے ہالے اور دلنشیں کہکشائیں۔
قدرت کے یہ دلآویز اور سحر انگیز منا ظر اس جہانِ رنگ و بو میں چہار سو پھیلے تو کائنات کی حسن آفرینی ا ور دلکشی و رعنائی نے نوع انساں کو مبہوت کر دیا۔اور پھر یہی تحیر و استعجاب انسانی فکر و ذہن پر حاوی ہوا تو اس کی پرکھ اور آزمائش کے ان گنت دروازے کھل گئے ۔ مصور کائنات کے جن شاہکاروں میں اس کی پہچان مستور تھی ، انسانی نظر اس کے سطحی مشاہدے میں الجھ کر رہ گئی۔ اور جس کی پہچان اس کی اپنی ذات کے شعور کا ذریعہ بنتی وہ عقل و فہم کی دنیا سے ما وراء فلسفیانہ بھول بھلیوں میں گم ہوگئی۔ قدرت نے ا پنی کتابِ معرفت کے اوراق اس کار زارحیا ت میں اسی لیے بکھیرے تھے کہ انسان کی آزمائش ہو سکے آیا وہ حسن ظا ہر کا ہی اسیر ہوکر رہتا ہے یا اس کے اصل تخلیق کار کی طرف اپنی عبدیت کے ر خ کو موڑ لیتا ہے۔ بقول شاعر ؎
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ کہتے ہیں
اِدھر آتا ہے دیکھیں یا اُدھر جا تا ہے پروانہ
انسانی نگاہ کو خیرہ کر دینے والی اس حسن و زیبائی کے علاوہ قدرت نے انسان کی فطرت میں ایک اور طاقتور جذبہ اپنے معبود حقیقی کی عبودیت کا بھی ودیعت کر دیا ہے۔اس جذبہ کا پر زرو تقاضا ہوتا ہے کہ کوئی اس کا محبوب و مسجود ہو۔جس کے سامنے وہ اپنی جبین ِ نیاز جھکاسکے، جس کے سامنے اپنی نیاز مندی کا اظہار کر سکے، جس کی یاد سے اس کے دل میں ایمان کی حرارت باقی رہے۔اور اس کے دل سے بے اختیار یہ آرزو اس کے لبوں پر آتی ہو۔
کبھی اے حقیقت منتظر!نظر آ لباسِ مجا ز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں
مؤمن صادق کی نظر اس رنگ و نور کی دنیا سے بہت دور پردے کے پیچھے چھپے ان حقائق پر مرکوز رہتی ہے کہ اس کا ربّ ر حمٰن و رحیم ، مستجیب الدّعوات ، طاقت و جبروت اور قوت و اختیار کا واحد مالک ہے۔ اور اگراس کون و مکاں میں کوئی فاعلِ حقیقی ہے تو صرف اللہ ہےاور اس حقیقت سے پردہ اٹھنے کے بعد ایک مؤمن بندے میں عاجزی و انکساری، عجز و نیاز اور توکل و اعتماد کے وہ جوہر پیدا ہوجاتے ہیں جو اللہ کے بندوں کی اصل پہچان ہے۔ ازروئے قرآن حکیم:
وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا (الفرقان: 63 – 65)
’’ رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی سے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے (الجھنے) لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔اور جو اپنے ربّ کے سامنےسجدے اور قیام کر تے ہوئے راتیں گزاردیتے ہیں۔اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ!ہم سے دوزخ کا عذاب دور ہی رکھنا اس لیے کہ یہ عذاب چمٹ جانے والا ہے‘‘
ایک مؤمن صادق جو قربِ الٰہی کے حصول کے لیے اپنا جذبۂ عبودیت اس دنیائے فانی میں اپنی آخری حدوں تک بڑھا سکا اور زندگی کی آخری سانس تک اسے برقرار بھی رکھ سکا۔ حیات ِ اُخروی میں بھی اسی جذبۂ محبت میں مزید ارتقاء میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کر ے گا۔چو نکہ اس نے اپنی دنیوی زندگی میں اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے کی لگامیں کھینچ کر رکھی تھیں ، اس لیے اب آخرت میں اسے مزید کسی مشقت کی حاجت نہیں ہوگی۔ حیاتِ دنیوی میں اپنے فکر و عمل کی تطہیر سے اس نے وہ نور حاصل کر لیا ہوگا جو حیاتِ بعد الممات کے کٹھن مراحل میں بھی اس کے کام آئے گا۔ اور اس کے آگے اس کا رستہ منور و تاباں کیے رکھے گا۔ وہ بغیر کوشش کے ربّ ذو الجلال کے نئے جلوے ہر دم دیکھا کرے گا۔ ارشاد ربانی ہے:
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (الحدید 12)
’’(قیامت کے) دن تو دیکھے گا کہ ایماندار مردوں اور عورتوں کا نور انکے آگے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا آج تمہیں ان جنتوں کی خوشخبری ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں ہمیشہ کی رہائش ہے۔ یہ ہے بڑی کامیابی ‘‘
يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ( التحریم8)
’’جس دن اللہ تعالیٰ نبی کو اور ایمان داروں کو جو ان کے ساتھ ہیں رسوا نہ کرے گا ان کا نور ان کے سامنے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا۔ یہ دعائیں کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘
آخرت میں ان لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن کیونکہ کسی شخص کو حزن اسی وقت ہوتا ہے جب اسے اس کی مطلوبہ شے نہ ملے اور خوف اس وقت لاحق ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو مقررہ معیار پر پور ااترتا نہ دیکھے۔ امتحان دینے والے کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ وہ امتحانی کاپی میں کیا لکھ کر آیا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ظاہر ہونے والا ہے۔
جو شخص اللہ کی ہدایات اور اس کے پیغمبروں کی تعلیمات سے رو گردانی کر تا ہے اور غیر اللہ کو اپنا مسجود و معبود بنا لیتا ہے اور اس طرح اس کی پوری زندگی ایک غلط روش پر گامزن ہوجاتی ہے، تو وہ آخرت میں نہایت دردناک انجام سے دوچار ہوتا ہے۔زندگی کے آخری لمحات میں بھی اگر وہ غلط اور گمراہ نظریات پر عمل پیرا رہا تو اس کی روح کی صحیح سمت میں بالیدگی اور ترفع کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ (الاعراف 40)
’’ یقیناً جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلا یا اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی، ان کے لیے آسمان کے دروازے
نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اُونٹ سوئی کے ناکے میں سے گذر جائےاور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیا کر تے ہیں۔‘‘
جیسے جیسے ایک صاحب ایمان شخص اللہ کا قرب حاصل کر تا جاتا ہے ، اسی قدر اس کے لیے اطمینان اور مسرت کا احساس بڑھتا جا تا ہے۔حتیٰ کہ بعض اوقات عبادت یا مراقبے کے دوران اسے ایسی کیفیت سے گذرنا پڑ تاہے گویا وہ حسن ازل کی طرف کھینچا چلا جا رہا ہے۔ اس کی حالت اس سوئی کی مانند ہوجاتی ہے جسے مقناطیس کی کشش ثقل اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔اس روحانی تجربے میں جو لذت اور وجد کی سرور آمیز کیفیت محسوس ہوتی ہے ، اس کا مقابلہ کوئی دوسرا تجربہ نہیں کر سکتا۔اس کیفیت میں وجود باری تعا لیٰ کی معیّت کا جو گہرا احساس اجاگر ہوتا ہے اس سے نکلنا انسان کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے۔ لیکن ربّ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ایک سچا مؤمن اس روحانی تجربے سے باہر آکر پہلے سے بھی زیادہ حوصلے، ہمت اور عزیمت کے ساتھ خلقِ خدا کو اس صراطِ مستقیم پر لگانے کی کوشش کر تا ہے جس کا اسے حکم دیا گیا ہے ۔
مؤمن صادق تو وہ ہے جب وہ ایمان کی حلاوت سے آشنا ہو جائے تو اس کی لذت سے دوسروں کو بھی روشناس کرائے۔اس روحانی تجربے کے بعد ایک صاحب ایمان زیا دہ شوق اور جذبے کے ساتھ دین حق کی سر بلندی کی جد وجہد میں لگ جا تا ہے۔اس کی روحانی ترقی کی اس منزل کو جس پر اسے عرفان حق حاصل ہوتا ہے’’ احسان‘‘ کہا جاتا ہے۔ازروئے قرآن حکیم:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة: 195)
’’ بے شک اللہ محسنین سے محبت کر تا ہے‘‘
رسول کریم ﷺ نے اس کیفیتِ احسان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’ احسان یہ ہے کی تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے‘‘
مؤمن صادق کی اپنے ربّ سے محبت جتنی گہری ہو تی ہے اس قدر حقیقت مطلقہ کا مشاہدہ زیا دہ واضح ہوتا ہے اور روحانی سرور بھی اسی تناسب سے حاصل ہوتا ہے۔ عبادات کی ادائیگی ہو یا معاملات کا مرحلہ ہو، انسان کا کیا ہوا ہر عمل اگر اخلاص، احساس ذمہ داری، کسی بالا تر ہستی کے رو برو جواب دہی کے خوف ،ایفائے عہد اور دیانت داری کے وصف سے اعراض برت کر انجام دیا جائے تو اس عمل میں محنت کے باوجود کوئی حسن پیدا نہیں ہوتا۔محنت عبادات میں بھی ہوتی ہے اور معاملات کو درست رکھنے میں بھی، لیکن اگر ان دونوں میں خشیت الٰہی ، رضائے حق کا حصول اور خشوع اور خضوع اور احساس عبودیت کا کا مل ادراک نہ ہو تو ہر عمل کا رنگ پھیکا ہی رہتا ہے۔اس لیے کہ اللہ سے بہتر رنگ تو کوئی اور ہو ہی نہیںسکتا۔خشوع انسان کی پوری زندگی کے طرز عمل میں پیدا ہونا ، اس کی دنیا اور آخرت کے فوزو فلاح کے لیے ناگزیر ہے۔ محض نماز میں ہی خشوع کی کیفیت درکار نہیں بلکہ شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے سے لے کر زندگی کی ڈور ٹوٹنے تک خشوع کا دامن ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہیے کہ یہی ایک سچے مؤمن کی پہچان ہے۔
جب ایک مؤمن صادق صحیح اور اللہ کو مطلوب عادات و اطوار تشکیل دے لیتا ہے تو یہ عادات اس کی پوری عملی زندگی کا احاطہ کر لیتی ہیںاور وہ از خود محسوس کرتا ہے کہ اس نہ صرف اپنی جملہ مصروفیات میں کچھ وقت نکال کر اپنے حقیقی محبوب کی پرستش کر نی ہے بلکہ اپنی پوری زندگی کے تمام گوشوں میں اخلاقی ضابطے کی بھی پابندی کر نی ہے۔جس طرح باطل عادات باطل محبت کا سہارا بنتی ہیں، اسی طرح عاداتِ محمودہ صحیح محبت کو بر قرار رکھنے میں مددگار ہوتی ہیں۔
جو شخص مکمل اور غیر مشروط طور پر نبی پر ایمان لا کر اس اتباع کر تا ہے وہ گویا ایک طرح سے نئی زندگی کا آغاز کر کے نفسیا تی اورنظر یاتی اعتبار سے ترقی و کمال کی شاہراہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔اس شخص کی مثال اس جنین کی سی ہے جو ایک دور میں مکمل طور پر اپنی ماں پر انحصار کرتا ہے اور پھر اپنی جدا گانہ زندگی کا آغاز کر تا ہے۔پھر جس طرح بچہ آغاز میں اپنی ماں کے دودھ سے غذا حاصل کر تا ہے، اسی طرح ایک صاحب ایمان و یقین نبی کے کامل و اکمل کے اسوہ پر عمل کر کے اور اس کے علم و عرفان سے استفادہ کر تے ہوئے اپنے روحانی سفر کا آغاز کر تا ہے۔اور روحانی ارتقاء کے اس مر حلے پر وہ اپنے کردار و عمل اور شب و روز کے معمولات میں رسول کریمﷺ سے اس طرح کا مل مشابہت اختیار کر لیتا ہے جیسی ایک باپ اور بیٹے کے مابین ہوتی ہے۔ یعنی نبی مکرمﷺ کے مخلص اور حقیقی متبعین اس کی نظر یاتی اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔
ہر شخص اپنی آخرت کی زندگی میں اپنی ذہنی سطح اور کیفیت کے مطا بق اپنی جنت اور دوزخ خود بنا ئے گا۔ اس سفر میں اصل اہمیت اس مادی دنیا میں کمائے ہوئے اعمال کی ہوگی جس کے اثرات اس کے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور جس کی پوٹلی باندھ کر وہ اگلی زندگی میں قدم رکھے گا۔وہاں پر اس کا ان تمام لوگوں سے واسطہ پڑے گا جن کے حقوق اس نے دنیا میں غصب کیے ہوں گے۔ خود اس کے اعضا ء و جوارح کو زبان دے دی جائے گی جو اس کے خلاف گواہی دیں گے۔اگر دنیا میں اس کے اعمال اس کی فطرت سلیمہ اور خالق کائنات کی مرضی کے مطابق ہوں گے تو اسے اگلی دنیا میں نہایت خوشگوار لوگوں کی معیّت اور نہایت دیدہ زیب اور دلفریب مناظر و اشیا سے نوازا جائے گا۔کسی شخص نے جس درجے میں اپنے خالق حقیقی کی صفت حسن کو اپنے اخلاق و اعمال میں اپنایا ہوگاوہ اسی قدر نعمتوں کا مستحق ہوگا۔
اگر اس زندگی میں کسی شخص کے اعمال اس کی فطرت سلیمہ اور خالق کائنات کے احکام کے خلاف ہوں گے تو اسے اپنے اعمال بد کو انتہا ئی کریہہ صورتوں میں متشکل دیکھنا پڑے گا۔
ہم جو اس دنیوی زندگی میں کر تے ہیں اور جن کے اثرات ہمارے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں یہی اعمال حیات اخروی میں معروضی کیفیات اور مقامات کا روپ دھار لیں گے جو یا تو انتہائی پر سکون اور راحت بخش ہوں گے یا انتہائی تکلیف دہ اورضرر رساں۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ ایک مؤمن جس نے دنیا میں تھوڑے بہت نیک اعمال کیے ہوں گے وہ آخر کار جہنم سے اس کی نجات کا باعث بنیں گے۔اور اس کے یہ نیک اعمال وہ نور بن جائیں گے جو اس کی سیاہ کاریوں کے اندھیروں کو ختم کر دیں گے۔ ازروئے قرآن حکیم:
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ( ھود 114)
’’دن کے دونوں سروں میں نمازپڑھاکرو اور رات کی کئی ساعتوں میں بھی یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔
مؤمن کی ذہانت و فطانت اتنی روشن اور پاکیزہ ہوتی ہے کہ جہاں لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو اس سے محفوظ رہتے ہیں وہاں وہ لوگوں کے لیے فتنہ و فساد سے بھی اپنے دامن کو بچائے رکھتا ہے۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ(مسند ابن أبي شيبة (2/ 263)
’’مؤمن تو وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘
ایمان کی روشنی ایک مؤمن کے وجود میں ذہانت، معاملہ فہمی، دور رسی، زیرکی اور بیدار مغزی کی ایک ایسی شمع روشن کر دیتی ہے جس کی تا بناکی سے خود اس کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی راہِ ہدایت کے نقوش نمایاں نظر آنے لگتے ہیں ، اور وہ اپنے ربّ کی جانب سے ایسی روشنی پاتا ہے جو اس کے لیے زندگی کی تیرگی میں اجالے کا زادِ راہ فرا ہم کر تی ہے۔ ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰي نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۭ فَوَيْلٌ لِّــلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ ( الزمر 22)
’’ کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور ہے اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے) بلکہ سخت ہوگئے ہیں ۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں ۔‘‘
جب دل ایمان کامل سے منور ہوجاتا ہے تو فرمان الٰہی اور سنت رسولﷺ پر چلنا بہت سہل ہوجاتا ہے۔اس کے اعمال و افکار میں روز افزوں نکھار پیدا ہوتا جاتا ہے۔اور ایمان اور عمل صالح میں ایک گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔اور اگرمؤمن کے دل میں ایمان و یقین کی لو مدھم ہونے لگتی ہے تو اعمال صالحہ ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمزوری اور ضعف در آتا ہے۔
بقول اصغر گونڈوی ؎
یہاں کوتاہیٔ ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ مَرَّتَيْنِ( ابن ماجه (2/ 1318)
’’ مؤمن شخص ایک سوراخ سے دو مر تبہ ڈسا نہیں جاسکتا‘‘
مطلب یہ ہے کہ ایک سچا مؤمن ایمان کی قوت سے اتنا چو کنّا ، ذہین و فطین اور صاحب بصیرت ہو جاتا ہے کہ اسے نیک و بد ، صالحیت اور ذلالت کی پوری تمیز حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک بار نقصان اٹھا کر دوسری بار اس سے زک نہیں اٹھا تا۔اسی لیے تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرما یا ہے کہ:
اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ
’’ مؤمن کی فراست سے ڈرو بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے(المعجم الكبير للطبراني (8/ 102)
یہ حدیث ہمیں زندگی گذارنے اور خطرات سے دور رہنے کا فہم عطا کر تی ہے۔ مگر ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اس قول ِ مبارک کو درخور اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔ ہم بار بار انہی لوگوں کے ہاتھوں دھوکہ کھا تے ہیں جن کا مشن ہی ہمیں دھوکہ و فریب میں مبتلا رکھ کر اسلامی کی بنیادوں کو کھوکھلا کر نا ہے۔ہم اغیار کے رنگ میں رنگ کر اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے ہیں، بلکہ نہ اپنی کوئی شناخت قائم رکھ سکے اور اغیار کے رنگ میں ہی پوری ہم آہنگ ہوسکے۔ ہمارا معا ملہ آدھا تیتر آدھابٹیر کا سا ہے۔نہ پورے اِدھر ہیں اور نہ اُدھر۔ قرآن کی اس آیت کے مصداق کہ:
مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاۗءِ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِيْلًا( النّساء 143)
’’ وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں، نہ پورے ان کی طرف اور نہ صحیح طور پر ان کی طرف جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے تو اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا۔‘‘
اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیںکہ ہم قرآن و سنت کی وا ضح ہدایات کو فراموش کر چکے ہیں، دانستہ یا نا دانستہ ، ارادی یا غیر ارادی طور پر ہم سب کا بحیثیت مجموعی یہی طرز عمل ہے ، الا ما شا ء اللہ! ورنہ اللہ کبھی کسی کو گمراہ نہیں کر تا جب تک کہ وہ خود گمراہی اور زیغ و ضلال کی راہیں اختیار نہ کر لے۔جب اللہ کے بجائے غیر اللہ کا خوف دل میں سما جائے تو پھر انسان اپنے لیے خود ہدایت کے دروازے بند کرلیتا ہے۔ہوس، نفس کی غلامی، شخصیت پرستی، مادہ پرستی ، تحقیق و جستجو سے کنارہ کشی ، زندگی کے مسائل اور ذمہ داریوں سے فرار، سلف و صالحین کی اتباع سے صرف نظر کرکے کچھ شعبدے بازوں اور بازی گروں کے دامِ فریب میں آکر انبیاء ورسل کی الہامی تعلیمات سے منہ موڑ لینا ہماری بد بختی کی علامت ہے۔ہمارے رویوں اور طرز زندگی میں مؤمنا نہ صفات کی جگہ فسق و فجور، بدعات و خرا فات ،اغیا رکی نقالی، سنتوں کا تمسخر، اللہ کی کتاب کی جگہ اپنے مرشدوں اور شیخوں کے فرمودات پر ایمان و یقین ، ہمارے لیے دنیاوی کامیابی اور آخرت کی نجات کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔جو دھوکے اور فریب حسن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ فرش پر لگے شفاف ٹا ئلز پر مزید پا لش کر دیا جائے تو باد ی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے فرش کے چہار سو پانی ہی پانی ہے لیکن یہ بھی نظر کا دھوکہ ہوتاہے۔جب تک ہم ان فریب کاریوں، نادانیوںاور اپنے خود ساختہ افکار و نظریات سے پیچھا چھڑاکر ایک سچے مؤمن کی زندگی کو اختیار نہیں کر لیتے، ہم نہ اس دنیا میں چین و سکون پا سکتے ہیں اور نہ دوسرے جہان میں کوئی حاجت روا ، مشکل کشا، غوث اور قطب ، سادھو یا پروہت، دستگیر اور مرشدہماری نجات کا وسیلہ بن سکتا ہے۔
نماز دین کا ستون ہے، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک مسلمان پر جو پہلا فرض عائد ہوتا ہے وہ نماز ہے۔نماز انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور توازن و اعتدال پیدا کر تی ہے۔نمازاس کی پوری صحت اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرنے سے انسان کے نفس میں طہارت و پاکیزگی کی نشو نما ء ہوتی ہے۔خشوع نماز کی اصل روح ہے جس کے اثرات انسان کی پوری زندگی کو دنیاوی کثافتوں اور زیغ و ضلال سے دور کر دیتے ہیں۔اس لیے اللہ نے نماز کی حفاظت اور اس کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ،الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون 1-2)
’’ یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کر تے ہیں‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خصوصی توجہ، انا بت، خشوع اور حضوریٔ قلب کی کیفیت نماز کی ادائیگی میں انتہائی ضروری ہے۔البتہ اگر کسی کی نماز میں یہ کیفیت طاری نہیں ہو تب بھی نما ز فائدے سے یکسر خالی نہیں ہوتی، اس کا بھی اجر و ثواب یقیناً ملے گا۔کیونکہ فر ض کی ادائیگی بھی اپنی ذات میں بہت بڑی چیز ہے۔اللہ کے حکم کو بجا لانا بذات خود بندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ تاہم وہ نماز جس سے ایک قسم کی قلبی طما نیت ، روحانی آسودگی،جذب و آہنگ کی کیفیت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور معراج انسا نی کا لطف حاصل ہو اس کے لیے تو وہی نماز ضروری ہے جس میں للٰہیت، خشیت الٰہی اور فنا فی اللہ کی آمیزش ہو۔ اقامت نماز، محافظت نماز ، نماز کے ظاہری خدو خال ہیں، جبکہ خشوع باطنی اور حضور قلب کا معاملہ ہوتا ہے۔
انسان کے ذاتی سیرت و کردار کی تعمیر اور اس کے فکر ی ترفع کا دارو مدار اسی خشوع اور خشیت الٰہی کے ساتھ مشروط ہے۔اس کے دور رس اثرات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ(العنکبوت 45)
’’ بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور برے کاموں سے اور بلا شبہ اللہ کی یاد ہی سب سے بڑی بات ہے۔‘‘
نماز میں خشوع پیدا کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ حالت نماز میں بندے کو اس حقیقت کا گہر ا ادراک ہو کہ جس کے آگے میں سر جھکا رہا ہوں، وہی میر ا مالک اور پالن ہارہے، جو میری مصلحتوں، میری حاجتوں ، میری ظاہری و باطنی کیفیات سے پوری طرح با خبر ہے۔ وہی میرا معبو د حقیقی اوراصل مسجود ہے،وہ آقا ہے میں اس کا ایک ادنیٰ غلام ہوں، جو کچھ ملے گا اسی کے در سے ملے گا، اس کی عطا کی ہوئی بے پایاں نعمتوں کو نہ میں شمار کرسکتا ہوں اور نہ ان کا پوری طرح شکر ادا کرنے پرہی قادر ہوں۔سرشاریٔ عجز و نیاز کی اس حالت میں اد ا کی ہوئی نماز بندے کے پورے وجود میں سرور و گداز ،وجدو بے خودی اور خشوع کی وہ کیفیت پیدا کر دے گی جو اللہ کو بندے سے مطلوب ہے۔یہی نماز بندے کو اللہ سے ہمکلامی کا شرف عطا کر تی ہے۔
’’رسول مکرم ﷺ جب نماز پڑھتے تو آپﷺ کا سینہ اس طرح جوش مارتا جیسا کہ چولھے پر چڑھی ہانڈی جوش کھاتی ہے۔‘‘ امیر المؤمنین علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب آپ نماز کا ارا دہ فرماتے تو آپ کے ۔
جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ایک بہت بڑے بزرگ حاتم اصم رحمہ اللہ سے ایک شخص نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’کہ نماز کا وقت ہوتا ہے تو میں ایک وضو ظاہری کر تا ہوں اور ایک باطنی۔ ظاہری وضو پانی سے کر تا ہوں اور باطنی وضو توبہ سے۔ پھر مسجد آتا ہوں تو نماز کے لیے اس طرح کھڑا ہوتا ہوں کہ مسجد حرام میری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہے، بہشت کو اپنے دائیں طرف اور دوزخ کو بائیں طرف دیکھتا ہوں۔ اور اپنے قدموں کو پل صراط پر دیکھتا ہوں تو اپنی پشت پر ملک الموت کو کھڑا یقین کر تا ہوں۔‘‘ یہ ہے یقین و ایمان کی منزل پر پہنچنے والوں کی نمازوں کی حقیقت۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ’’مدارج السالکین‘‘ میں خشوع کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’ خشوع ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ دل عاجزی و انکساری کے ساتھ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہو۔ ایمان سے لبریز خشوع وہ ہے جس میں دل اللہ کے حضورڈر رہا ہو، اللہ کی عظمت و جلال اور اس کی ہیبت کی وجہ سے اور خوف، شرمساری، محبت اور حیا کے ساتھ، دل گویا ٹوٹا جا رہاہو۔ پھر اللہ کی نعمتیں یاد کر نے کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف بھی ہو، جس کے نتیجے میں دل میں لازماً خشوع پیدا ہوجائے گا اور دل میں خشوع کی وجہ سے اعضا ء جوارح پر بھی خشوع طاری ہوجائے گا۔‘‘
رسول مکرم ﷺ جو انسانوں کے مزاج آشنا بھی تھے اور زما نہ شناس بھی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اس امت میں سب سے پہلے ’’خشوع‘‘ ختم ہوگا۔ وہ زمانہ بھی آئے گا کہ تمہیں ایک بھی خشوع کر نے والا آدمی نظر نہ آئے گا۔‘‘ آج کی ما دہ پرستا نہ طرز زندگی، ایک دوسرے سے لا تعلقی کا اظہار، بے حسی،ز یادہ سے زیادہ دنیا کی آسائشیں حاصل کرنے کی ہوس اور حقوق و فرائض کی غیر منصفانہ سوچ نےانسان کے دل سے’’ خشوع‘‘ کو رخصت کر دیا۔یہی سبب ہے کہ عبادات و معاملات میں دیانت و امانت، صدق و وفا ،انابت الٰہی اور خوف آخرت سب کچھ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔نہ حقوق اللہ کا کوئی شعور باقی ہے اور نہ حقوق العباد کا احساس۔