سعودیہ میں ایک شہزادہ پر جرم ثابت ہونے کے بعد اس پر حد نافذ ہونا پوری دنیا کے لئے پیغام ہے کہ مملکت کے خلاف صبح شام مختلف قسم کی سازشوں میں مست لوگوں کو اصل تکلیف وہاں عدل سے ہے جو اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے ۔ شاہ سلمان کے اس عدل کے بہترین نمونہ کو دیکھ کر مجھے وہ منظر یاد آیا ہے۔
کہ کائنات کےامام ایک چوری کرنے والی اونچے قبیلے کی عورت پر حد نافذ کرنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ اس پر حد نافذ ہونے سے ہماری بڑی بدنامی ہوگی۔ اور حتی کہ کائنات کے امام کے سامنے سفارشیں اور گزارشیں کی جارہی ہیں کہ خدارا اس عورت پر حد جاری نہ کیجئے ہماری عزت کا مسئلہ ہے لیکن میں قربان جاؤں رحمت عالمﷺ نے فرمایا: اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا جو محمدﷺ کا لخت جگر ہے ، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف پہنچائی اس نے محمدﷺ کو تکلیف پہنچائی۔(صحیح بخاری: 3714)
لیکن یہاں عدل کے نفاذ کی فکر ایسی کہ فرمارہے ہیں ۔ کہ اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔(صحیح بخاری: 3475)
گویا کہ صحابہ سمجھ گئے کہ اس میں سفارشوں ، گزارشوں ، اور استثناؤں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
دیکھیں یہاں رسول اکرم ﷺ کی بیٹی کے بارے میں نبی اکرمﷺ کا فرمان  اور دوسری طرف کتنے ہی عمدہ جذبات عدل کے حوالے سے شاہ سلمان کے ہیں انہوں نے بھی اپنے بھتیجے پر عدل نافذ کرکے بڑی عمدہ مثال قائم کی۔ رسول اکرم ﷺ کے فیصلوں کے روشن تذکروں کے حوالے سے عربی میں اقضیۃ رسول اللہ ﷺ کا مطالعہ کیا جائے ، اسی طرح خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے فیصلوں کے مطالعہ کے لئے اقضیۃ خلفاء رسول اللہ ﷺ بہترین کتاب ہے۔
اردو میں مولانا عبدالمالک مجاہد حفظہ اللہ کی کتاب سنہرے فیصلے بڑی دلچسپ کتاب ہے۔ اسی کتاب سے ماخوذ ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں ۔
عتبی کہتے ہیں کہ میں اموی خلفہ ہشام بن عبدالملک (105ھ تا 125ھ) کے قاضی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں قاضی کی عدالت میں دو آدمی حاضر ہوئے۔ ایک ابراہیم بن محمد بن بن طلحہ اور دوسرا خلیفہ ہشام کا درباری سپاہی ۔ دونوں عدالت میں پہنچ کر قاضی صاحب کے سامنے بیٹھ گئے۔
درباری سپاہی گویا ہوا : قاضی صاحب ! امیر المؤمنین اور ابراہیم کے درمیان ایک تنازع ہے۔ امیر المؤمنین نے مجھے اپنی جانب سے نیابت کے لئے بھیجا ہے۔
قاضی : تمہاری نیابت پر دو گواہ مطلوب ہیں۔
درباری سپاہی: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں امیر المؤمنین کی طرف سے کچھ جھوٹ بولوں گا ، حالانکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دور کا فاصلہ نہیں ہے، میں ان کا قریبی سپاہی ہوں۔
قاضی : بغیر شہادت کے نہ تمہارے حق میں مقدمہ ثابت ہوسکتا ہے اور نہ تمہارے خلاف۔
قاضی کا دو ٹوک کلام سن کر درباری سپاہی عدالت سے نکل کر خلیفہ کی خدمت میں پہنچا اور اسے پوری داستان کہہ سنائی ۔ خلیفہ سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوااور تھوڑی ہی دیر بعد وہ عدالت کے باہر موجود تھا۔ عدالت کا دروازہ کھلتے ہی درباری سپاہی آگے بڑھا اور گویا ہوا : قاضی صاحب ! یہ دیکھیں امیر المؤمنین حاضر ہوگئے ۔
خلیفہ ہشام کو دیکھتے ہیں قاضی صاحب استقبال کے لیے اٹھ کھڑے ہوئےمگر خلیفہ نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا۔ پھر قاضی نے ایک مصلی بچھایا، اس پر خلیفہ اور اس کا مقابل ابراہیم بن محمد ایک ساتھ بیٹھ گئے۔
عتبی بیان کرتے ہیں کہ ہم حاضرین ا س قضیے سے متعلق ان کے درمیان ہونے والی گفتگو صاف صاف نہیں سن رہے تھے ، البتہ کچھ باتیں ہمیں سمجھ میں آرہی تھیں ۔ دونوں  مدعیوں نے اپنے اپنے دلائل بیان کیے۔ قاضی نے دونوں کی مفصل گفتگو سننے کے بعد خلیفہ ہشام کے خلاف فیصلہ دیا۔ ابراہیم بن محمد نے اپنے حق میں فیصلہ سن کر خلیفہ کی شان میں چند گستاخی آمیز کلمات کہہ دیے، مزید یہ بھی کہا:
’’ الحمدللہ الذی ابان للناس ظلمك ‘‘
’’ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہے جس نے لوگوں کے روبرو آپ کا ظلم ظاہر کردیا!‘‘
یہ سن کر خلیفہ طیش میں آگیا اور کہنے لگا:
’’ لقد ھممت ان اضرب عنقك ضربۃ ینتثر منھا لحمك عن عظمك ‘‘
’’ جی چاہتا ہے کہ تیری گردن پر ایسی ضرب لگاؤں جس سے تیری ہڈی سے تیرا گوشت الگ ہوجائے ۔ ‘‘
ابراہیم بن محمد نے کہا: اللہ کی قسم! اگر آپ نے ایسا کیا تو ایک عمر دراز اور حقِ قرابت رکھنے والے کے ساتھ یہ غیر مناسب سلوک ہوگا۔
خلیفہ ہشام نے کہا: ابراہیم ! اس قضیہ کو صیغۂ راز ہی میں رہنے دو۔

ابراہیم نے جواب دیا:

’’ لاستراللہ علی ذنبی یوم القیامۃ ان سترتھا‘‘

’’ اگر میں نے اس مقدمہ کو صیغہ ٔ راز میں رکھا تو اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو قیامت کے دن پوشیدہ نہ رکھے ۔ (یعنی میں لوگوں کو ضرور بتاؤں گا)
خلیفہ کہنے لگا: میں اس مقدمے کو چھپانے کے لیے تمہیں ایک لاکھ درہم عنایت کروںگا۔
جب خلیفہ کی وفات ہوگئی تو ابراہیم بن محمد کی زبان سے لوگ یہ کلمات سنا کرتے تھے:

’’ فسرتھا علیہ طول حیاتہ ثمنا لما اخذت منہ ، و أذعتھا بعد مماتہ تزیینا لہ ‘‘

’’ چنانچہ میں نے خلیفہ کی حیات میں اس مقدمے کو اس کی عطا کردہ قیمت کے عوض چھپائے رکھا اور جب اس کی وفات ہوگئی تو اس کی خوبی کے اظہار کے لیے اس راز کو فاش کردیا۔‘‘  (سنہرے فیصلے: 22 تا24)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عدل کی مثالیں قائم کیں جو تاریخ کے روشن اوراق کا حصہ بن گئیں۔
ایک مرتبہ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کی گفتگو میں حائل ہوتا ہے اور پہنے ہوئے لباس کے بارے میں پوچھتا ہے کہ جو تقسیم ہمیں ملی ہے اس سے ہمارا تو پورا لباس تیار نہ ہوسکا آپ کا کیسے ہوگیا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود خاموش ہیں اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہی بتلاؤ۔ خلیفہ کے بیٹے کا جواب ہے کہ ان کے مکمل لباس میں میرا حصہ شامل ہے۔
تاریخ اسلام کا قاری جب تاریخ کی ورق گردانی کرے گا تو اسے یہ منظر بھی نظر آئے گا کہ وقت کا خلیفہ وقت کے قاضی کی عدالت میں موجود ہے اور مقابل میں یہودی ہے خلیفہ کا دعوی ہے کہ میری گمشدہ ذرع اس کے پاس ہے لیکن ذمی کہتا ہے یہ میری ہے،میں نے اسے خریدا ہے۔ قاضی نے وقت کے خلیفہ سے گواہ کا مطالبہ کیا ہے مگر گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شرعی تعلیم کے مطابق فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا گیا ہے۔ اللہ اکبر کیا وہ منظر ہوگا کہ وقت کا خلیفہ عدالت سے اپنے خلاف فیصلہ لے کر لوٹ رہا ہے ، اس منظر نے اس یہودی کے دل پر ایسا اثر کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ غلط میں ہوں فوراً اسلام قبول کر لیتا ہے۔ اور کہتا ہے امیر المومنین اپنی ذرع واپس لیجئے یہ آپ ہی کی ہے۔ جی ہاں یہ واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ہے اور یہ عظیم فیصلہ صادر کرنے والے جج قاضی شریح ہیں۔
اسلامی تاریخ کا ہر قاری اس دور سے بھی واقف ہے جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اگر بکری کے پاس سے بھیڑیا گزر جائے تو وہ بکری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ وقت کا خلیفہ بڑا عادل ہے۔ جی ہاں پانچویں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور ہے۔
بہرحال شاہ سلمان نے ایک مرتبہ پھر تاریخ اسلام کو تازہ کیا ہے اور اسلام دشمن عناصرکو دکھا دیا ہے، عدل ابھی زندہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے