قرآن و سنت میں خواتین کی عظمت واکرام کے نقوش قدم بہ قدم نمایاں نظر آتے ہیں ۔ذرا تصور کیجیے عرب کے اس جاہل معاشرے کاجہاں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اس ماحول میں آنحضرت ﷺ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کو دنیا میں سب سے محبوب کون ہے ؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں عائشہ ۔سائل نے پھر سوال کیا میری مراد مردوں سے تھی ، آپ ﷺ نے فرما یا عائشہ کے باپ ،یہ عملی نمونہ تھا عورت کے مقام کی بحالی کا ۔۔۔!
مسلمان معاشروں میں صورت حال افسوس ناک ہے باوجود اسکے کہ اسلامی تاریخ میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے عظیم نمونے پائے جاتےہیں مگر ان کا کردار ،مقام و مرتبہ نہ درسی کتب میں درج ہے نہ میڈ یا کے ذریعے اسے اجاگر کیا جاتا ہے اس لیے ہماری نسلیں باوجود رول ماڈل رکھنے کے اس کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہیں ۔
مثال کے طور سیدہ عائشہ صدیقہ کے کردارسے مسلم معاشرے کے کتنے لوگ آگاہ ہیں کہ وہ مفسر ہ ہیں ،محدثہ ہیں ،حافظہ ہیں ،قاریہ ہیں ، ادیبہ ہیں ، معلمہ ہیں ،فقیہ ہیں۔ غرض مجموعہ ٔ حسانات و کمالات ہیں بلکہ بلامبالغہ پوری تاریخ عالم میں اتنی عظیم صفات والی خاتون جو ایک طرف عالم و فاضل اور منصب افتا ء پر فائز ہوں دوسری طرف بہترین خاتون خانہ اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کی مالک ہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
افسوس یہ ہے کہ دور نبوی ﷺ کے یہ فعال اور جرأت مند اور علم وحکمت سے دنیا کو منور کرنے والے کردا ر طبقۂ نسواں میں نشوونما پانا بند ہو گئے ۔مقام فکر یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں صدیوں کے سفر میں سیدہ عائشہ جیسے کردار کیوں نہیں پیدا ہوسکے ۔جو نہ صرف مسلم امہ بلکہ طبقہ اناث کے مقام و مرتبہ کے لیے بھی اتنی حساس تھیں کہ روایا ت میں ذرا سی بھول یا تفسیر میں کسی جھول پرفورا تڑپ اٹھتیں اور اصلاح کرتیں اور عورتوں کے اکرام کے خلاف ذرا سی بھی بات برداشت نہیں کرتیں۔
1علم واجتھاد:
یہ سیدہ عائشہ کی سیرت کاوہ باب ہے جہاں نہ وہ صرف عورتوں بلکہ مردوں سے بھی ممتاز نظر آتی ہیں بڑے بڑے اصحاب رسول ﷺ جب کسی مسئلے میں ٹھیک رائے پر نہ پہنچتےتو سیدہ عائشہ کے پاس جاتےیہاں تک کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی الجھے مسئلوں کو سلجھانے کے لیے اکثر ان کے پاس جاتے تھے اس لیے کہ علمی حیثیت سے انہیں نہ صرف عام عورتوں اور امہات المؤمنین پر بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ کرام پر فوقیت حاصل تھی ۔ جامع ترمذی مین سیدنا ابوموسی اشعری روایت ہے کہ ہم صحابیوں کو کوئی ایسی مشکل بات نہیں آئی کہ جس کو ہم نے عائشہ سے پوچھا ہواور ان کہ پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔
اگر چہ حفظ حدیث اور سنت نبوی ﷺ کی اشاعت کا
فرض دیگر ازواج مطہرات بھی اداکرتیں تھیں تا ہم سیدہ
عائشہ کے رتبے کو ان میں سے کوئی بھی نہیں پہنچیں امام زہری رحمہ اللہ کی شہادت ہے کہ اگر تمام مردوں اور امہات المؤمنین کا علم ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو سیدہ عائشہ کا علم ان میںسب سے وسیع ہوتا ۔(مستدرک حاکم)
2قرآن مجید :
قرآن مجید کی تفسیر میں اصحاب رسول ﷺ سے جو روایات ہیں ان میں سے زیادہ تر سیدنا عباس رضی اللہ عنہمااور سیدہ عائشہ کی روایات ہیں ۔سیدہ عائشہ نو برس میں کی عمر میں نبی کریم ﷺ کے گھر آئیں اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس برس تک رفاقت کا شرف حاصل رہا ۔نزول قرآن کریم کا نصف سے زیادہ حصہ ان کے شعور میں آنے سے پہلے کا واقعہ ہے لیکن اس غیر معمولی دل و دماغ کی ہستی نے اس زمانے کو بھی جو بچپن اور نا سمجھی کا دور ہے رائیگاں نہیں کیا ایک تو نبی کریم ﷺ تقریبا روز بلا ناغہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لا تے تھے پھر خود ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں مسجد بنا لی تھی اور اس میں نہایت خشوع سے تلاوت ِقرآن کریم فرماتے ۔سیدہ عائشہ کی یاداشت کا یہ عالم تھا کہ فرماتی ہیںجب یہ سورۃ قمر کی یہ آیت نازل ہوئی :
بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ
بلکہ قیامت کی گھڑی ان کے وعدے کے وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور کڑوی چیز ہے (سورہ القمر آیت 46)
تو میں کھیل رہی تھی۔(صحیح البخاری )
3حدیث:
علم حدیث کا موضوع در حقیقت ذات نبوی ﷺ ہے اس لیے اس علم سے واقفیت لا محالہ اس کو زیا دہ ہوگی جو آپ کے جتنا قریب رہا ہو ۔سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہانو جوان تھیں اورعقلی اور دماغی قوتوں میں بے مثال تھیں اور آپ ﷺ کی اخیرعمر تک ہمیشہ خدمت گزار اور شرف صحبت سے ممتاز رہیں ۔اس لیے انکونبی اکرم ﷺکے احوال واحکام سے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ واقفیت تھی ان کا حجرہ بھی مسجد نبوی ﷺ سے متصل تھا اس لیے ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی حدیث کی واقفیت اور اطلاع میں انکا مد مقابل نہیں ۔ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں کی تعداد 2210ہے کثرت روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکاچھٹا نمبر ہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ، سیدناانس رضی اللہ عنہ سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے زیادہ احادیث بیان کی ہیں ۔متعدد مسائل ایسے ہیں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا اجتھاد یا کسی روایت کی بنا پر کوئی مسئلہ بیان کردیا اور سیدہ عائشہ نے اپنے ذاتی واقفیت کی بناء پر اس کو رد کردیا اور آج تک ان کے مسائل میں سیدہ عائشہرضی اللہ عنہا کا قول ہی مستند ہے ۔
روایات کی کثرت کے ساتھ ساتھ آپ تفقہ ،اجتھاد ،فکر ، میں اصحاب رسول میںبھی ممتاز اور نمایا ں مقام رکھتی تھیں ۔
4مغز سخن سمجھنا سمجھانا :ـ
مغز سخن کا مطلب یہ ہے کہ بات کی تہہ تک پہنچنا ،یہ سمجھانا کہ اصل بات کیاہے ۔سیدہ عائشہ اپنے شاگرد وں کو پوری طرح بات سمجھانے کے لیے بات کا موقع و محل بتاتی تھیں ۔یہ بتاتی تھیں کہ قرآن کریم کی کونسی آیت کس موقعہ پر ،کن حالات میں ، کہاں نازل ہوئی ،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا آخری وقت آیا توانہوں نے اپنی پسند کے کپڑے منگوائے اور پہنے پھر فرمایا کہ مسلمان جس لباس میں مرتا ہے اسی لباس میں اٹھا یا جاتا ہے یہ بات انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ جب سیدہ عائشہ سے لوگوں نے یہ بات عرض کی کہ انہوں نے انتقال کے وقت یہ کہا اور نئے کپڑے پہنے تو ام المؤمنین نے سمجھایا کہ رسول اللہ ﷺ نے انسان کے عمل کو لباس کہاہے یعنی جو جیسے عمل لے کر مرے گا وہی لے کر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔
رسول اللہﷺ کا جب انتقال ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینمیں اختلاف پیدا ہوا کہ آپ کی کہاںتدفین عمل میں آئے ۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہاکہ پیغمبر جہاں انتقال فرماتے ہیں وہیں انکی تدفین ہوتی ہے ۔اس لیے آپ ﷺ سیدہ عائشہ کے حجرے میں جہاں آپ ﷺ نے انتقال فرمایا تھا وہیں آپ کی تدفین کی گئی ۔ جب کہ سیدہ عائشہ اس کا اصل سبب اس طرح بتاتی ہیں کہ آپ ﷺ نے مرض الموت میں فرمایا : اللہ تعالی یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبور کو سجدہ گاہ بنالیا تھا ۔اگر یہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلے میدان میں ہوتی لیکن چونکہ اس کا خوف تھا کہ وہ بھی سجدہ گاہ نہ بن جائے ۔(اس لیے آپ کی تدفین حجرے کے اندر ہوئی )۔(صحیح البخاری )
ایک بارنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قربانی کا گو شت تین دن کے اندر کھالیا جائے ۔سیدہ عائشہ اسکی وضاحت فرماتی ہیں : ان دنوں میں قربانی کرنے والے کم تھے ، رسول اللہ ﷺ کا منشا تھا کہ جو قربانی نہیں کرسکتے ان تک بھی گوشت پہنچے یعنی یہ قطعی حکم نہیں تھا۔ (مسلم کتاب الذبائح)
5طب:
سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےسیدہ عائشہ سے زیادہ کسی کو طب کا ماہر نہیں پایا یہ ظاہر ہے کہ عرب میں فن طب کا باقاعدہ رواج نہ تھا ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ شعر کہتی ہیں تو میں نے ماناکہ آپ ابو بکر کی بیٹی ہیں کہہ سکتی ہیں لیکن آپ کو طب سے واقفیت کیسے ہوئی؟فرمایا :نبی کریمﷺ آخر عمر میں بیمار رہا کرتے تھے اطبائے عرب آیا کرتے تھے جو وہ بتاتے تھے میں یاد کرلیتی تھی (مستدرک حاکم ،مسند احمد)
مسلمان عورتیںعموما لڑائیوں میں نبی کریم ﷺ کے پاس جاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں (ابو داؤد ،کتاب
الجہاد )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد مبارک میں خواتین ِ اسلام کو حسب ضرورت اس فن سے واقفیت تھی۔
6تاریخ:
اسلام کے اہم تاریخی واقعات مثلا واقعہ افک ،ہجرت کے تفصیلی واقعات ،نبی کریم ﷺ کے مرض الموت کے واقعات اسکے علاوہ غزوات بدر ،احد ،خندق کے کچھ حالات ،فتح مکہ میں عورتوں کی بیعت ،حجۃالوداع کے واقعات اسکے علاوہ آپ ﷺ کی خانگی اخلاقی اور مشاغل ہمیں سیدہ عائشہ کی زبانی معلوم ہوئے ۔
7افتاء:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مخصوص کبار صحابہ کے علاوہ کسی کو افتاء کی اجازت نہ تھی مگر سیدہ عائشہ اس زمانے میں نہ صرف فتوے دیتیں بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود ان سے حدیث کا علم حاصل کرتے ۔
ایک مرتبہ آپ نے حج کے موقع پر ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر پر صلیب سے مشابہ نقش ونگار بنے ہوئے تھے آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو ،نبی کریم ﷺ ایسے کپڑے دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے ۔اسی طرح ایک لڑکی گھنگھرو پہن کر آئی تو آپ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اوربولیںآپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس گھر میں اور جس قافلے میں گھنٹیاں بجتی ہوں وہاں فرشتے نہیں آتے (مسندجلد 6،موطا)
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور معمولی سے جھٹ پٹ وضو کر کے چلے گئےسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےفورا ٹوکا اور فرمایا عبد الرحمٰن وضو اچھی طرح کیا کرو ، نبی کریم ﷺ کومیں نے کہتے سنا ہے کہ وضو میں جو عضو نہ بھیگیں ان پر جہنم کی پھٹکار ہو ۔
ایک شخص نے آکر پوچھا اے ام المؤمنین ~:بعض لوگ ایک شب میں قرآن دودو ،تین تین بار پڑھ لیتے ہیں فرمایا انکاپڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ پوری پوری رات نماز میں کھڑے رہتے تھے لیکن سورۃ البقرہ ،آل عمران ،النساء سے آگے نہیں بڑھتے تھے ۔جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتےتو اللہ سے دعا مانگتے اور جب کسی وعید پر پہنچتے تو اللہ کیپناہ مانگتے ۔(مسند جلد 6)
کعبہ پر ہر سال نیا غلاف چڑھا یا جاتا تھا اور پرانا اتار لیا جاتا ہے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے زمانے تک متولی پرانے غلاف کو گہرا کنواں کھود کر دفن کردیتے تھے کہ کہیں ناپاکی کی حالت میں کوئی ہا تھ نہ لگالے ۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ تعظیم مناسب نہ معلوم ہوئی ۔کعبہ کے کلید بردار شیبہ بن عثمان کو بلاکر فرمایا یہ اچھی بات نہیں تم برا کرتے ہو جب وہ غلاف کعبہ سے اتر گیا اور اگر کسی نے ناپاکی کی حالت میں چھو لیا تو کوئی بات نہیں تم کو چاہیے اس کو بیچ ڈالا کرو اور جو دام آئے اسے غریبوں اور مسافروں میں تقسیم کردیاکرو۔غالبا اسی کے بعد سے پرانا غلاف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے مسلمانوں میں تبرکا تقسیم کردیا جاتاہے اس فیض کے لیے مسلمانوں کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یقینا ممنون ہونا چاہیے ۔۔۔۔
آپ کے زیادہ تر فتوی زنانہ یاخانگی مسائل سے متعلق ہیں ۔
8خاندان صدیق کی برکتیں:
یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہےاورفضل کرم ہے کہ اس نے اس سورۂ نور کے ذریعے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر افتراپردازی (جو واقعہ افک کے نام سے مشہور ہے ) کے جواب میںنازل ہوئی اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سماجی اصلاح کے لیے بہترین اصول اورفوجداری ضابطے اور ہتک آبرو کو معاشرتی جرم قرار دیتے ہوئے معاشرتی زندگی کو گندگی سے بچانے کے لیے بے مثال اور بے نظیر قوانین عطا فرمائیں جو درج ذیل ہیں :
٭زانیہ عورت اور زانیہ مرد دونوں میں سے ہر ایک کو100 کوڑے مارو ۔
٭بدکار مردوں اور عورتوں کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دیا۔
٭جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمتیں لگائیں اور ثبوت میں چار گواہ پیش نہ کریں ان کے لیے 80کوڑوں کی سزا مقررکی۔
٭شوہر اپنی بیوی پر تہمت لگائیں تو لعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
٭افواہوں میں حصہ نہ لو ،افواہ سازوں کی ہمت افزائی نہ کرو ،تہمتوں کو دبانے کی کوشش کرواور آپس میںحسن ظن رکھو۔
٭خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ۔
٭دوسرےکے گھر میں اجازت اور مرضی پاکر جایا کرو اگر کسی گھر میں کوئی نہ ہو تو اس گھر میں ہر گز نہ جاؤاور کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو خاموشی سے واپس ہوجا یا کرو۔
٭اے نبی ﷺ مومن مردوں اور عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔
٭عورتیں اپنا بناؤ سنگھا ر دکھاتی نہ پھریں بجز اس کے جو ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں ۔
٭نکاح کو رواج دیا جائے معاشرے میں بن بیا ہے مرد اور عوتیں نہ رہیں ۔
یہ قیمتی سماجی ہدایت اس افواہ اور اس پس منظر میںنازل ہوئیں اور یہ قانونی برکتیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معرفت امت مسلمہ کا اثاثہ بن گئیں ۔اسی طرح ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سفر میں تھے سیدہ عائشہ بھی ساتھ تھیں قافلے نے پڑاؤ کیا۔یہا ں بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا پڑاؤ کے مقام پر پانی بھی دستیاب نہ تھا لوگ ہار ڈھونڈنے لگ گئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ناراض ہو ئے ۔رسول اللہ ﷺ صبح بیدار ہوئے تو بتایا کہ نماز کاوقت ہے اور پانی دستیاب نہیں ہے سب پریشان تھے کہ قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی:
وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰٓى اَوْ عَلٰي سَفَرٍ اَوْ جَاۗءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَاۗىِٕطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میںسے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔(النساء 43)
مسلمانوں کا لشکر جو مصیبت میں تلملا رہا تھا یہ آیت سن کر مارے خوشی کے لوگ اچھل پڑے ۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو کچھ دیر قبل اپنی صاحبزادی کو ڈانٹ کر گئے تھے دوڑے ہوئے آئے اور پیا ر سے بولے جان پدر مجھے معلوم نہ تھا کہ تو اس قدر مبارک ہے تیری بدولت مسلمانوں کو کتنی آسانی مل گئی۔
9اجالا پھیلتا گیا :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اللہ نے اولاد سے نہیں نوازاتھا اس لیے وہ بوجھل خانگی ذمہ داریوں سے آزاد تھیں آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اور آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی انہوں نے لمحہ لمحہ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور علم پھیلانے میں وقف کردیا تھا ،انکے شاگردوں اور علم سے استفاذہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں مرد ،عورتیں ،صحابی ،غلام ،مسافر اورہر طرح کے لوگ شامل ہوتے تھے ۔جنکی طویل فہرستیں تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں چند بڑی شخصیات سیدنا عروہ رضی اللہ عنہ ،
سیدنا قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ، سیدنامسروق کوفی رضی اللہ عنہ ،عمرہ بنت عبد الرحمٰن ،صفیہ بنت شیبہ ،کلثم بنت عمرہ القریشہ ،عائشہ بنت طلحہ ،معاذہ بنت عبد اللہ وغیرہ ہیں ۔ان سب سے بکثرت احادیث مروی ہیں اسکے علاوہ وہ خاندان کے لڑکے لڑکیوں شہر کے یتیم بچوں کو آغوش تربیت میں لے لیتیں اور ان کو علم سے منور کرتیں غیر بچوں کو بھانجیوں اور بہنوں سے دودھ پلواکر اپنے حرم میں شامل کر لیتیں لوگ حجرے کے سامنے مسجد نبوی میں بیٹھے رہے دروازے پر پردہ پڑا رہتا ۔پردے کی اوٹھ میں خود بیٹھ جاتیں سارادن سوال وجواب کی نشستیں چلتیں ،استاد وشاگرد مختلف موضوعات پرسیر حاصل گفتگو کرتے۔(مسند)
آپکا معمول تھا کہ ہر سال حج کو جاتیں ،تشنگان علم جوق در جوق انکے خیمے میں آکر حلقۂ درس میں شریک ہوتے ،مسائل پوچھتے ،فتوے لیتے کوئی سوال کرتے ہوئے جھجکتا تو فرماتیں جو تم اپنی ماں سے پوچھ سکتے ہو مجھ سے پوچھ لو ۔(مسند مؤطا)
وہ بچیوں کے تعلیم کے مصارف خود اٹھا تیں انہیں متبنٰی بنالیتیں ،انکے شاگردوں میں کوئی فن سیرت کا امام بنا ، کوئی مدینہ میں فضل و کما ل کا تاجدار بنا،کوئی امام الفقہ بنا،انکے شاگرد عروہ رضی اللہ عنہکے بارے میں امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں انکے پاس پہنچاتو انکو علم کا اتھاہ سمندرپایا۔تاریخ گواہ ہے کہ ان سےاستفادہ کرنے والے وقت کے امام بنے ۔
0خواتین اسلام پر سیدہ عائشہ کے احسانات :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنس نسوانی پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے دنیا کو دکھایا کہ ایک مسلمان باپردہ اور باحیا عورت اسلام کی تمام حدود کی پاسداری کرتے ہوئے علمی ،سیاسی ،مذہبی ،اجتماعی حالات امن اور جنگ میں قول وفعل کے ذریعے امت کی بھلائی کے لیے کتنی عظیم الشان خدمات سر انجام دے سکتی ہے ،اسلام نےدورجاہلیت کے برعکس عورت کو جو عظیم رتبہ بخشا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی زندگی اس کی عملی تفسیر تھی اور تمام امہات المؤمنین نے شریعت کا عملی پیکر بن کر دکھایا ،امت کی ان عظیم ماؤں پر لاکھوں سلام ؛
جو لوگ عورتوں کی عزت واکرام میں کوئی کمی کرتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان پر سخت برہم ہوتی تھیں ،ایک عورت کو چوری کے جرم میں سزا دی گئی جس کے بعد وہ تائب ہوگئی جب وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس آتی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاعزت سے اس سے ملتیں اور ضرورت ہوتی تو نبی کریمﷺ تک بھی پیغام پہنچادیتیں جس سے انہوں نے یہ عملی سبق دیا کہ اگر کوئی گناہ سے تائب ہوجائے تو ہمیں حق نہیں کہ اپنے رویے سے اس کو شرمندہ کرتے رہیں۔اس لیے کہ اللہ تعالی بھی توبہ قبول کرنے والا ہے (بخاری )اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ عورت ،کتا اور گدھے سامنے سے گزرنے پر نماز ٹوٹ جاتی ہے اس پر آپ ان پر برہم ہوئیں اور فرمایا کہ تم نےکیسا برا کیا کہ ہمیں گدھے اورکتے کے برابر کردیا۔
نبی کریم ﷺ کی حیات میں صحابیات اپنے مسئلے مسائل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی معرفت رسول اللہ ﷺ تک پہنچاتیں ،ازدواجی زندگی کے مسائل براہ راست رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے سے جھجھکتیںسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسہوت کارکے فرائض انجام دیتیں حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی عدالت عالیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ ہی تھا ۔بعض اصحاب لڑکی کی رضامندی کے بغیر صرف اپنے اختیا ر سے بھی نکاح کردیتے تھے ،ایسی ہی ایک لڑکی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی آپ ﷺ اس وقت حجرے میں موجود نہ تھے آپ نے اسے بٹھائے رکھا جب آپ ﷺ تشریف لائے تو صورت واقعہ سامنے رکھی آپ ﷺ نے لڑکی کے باپ کو بلا یا اورلڑکی کو اپنا مختا ر آپ بنادیا لڑکی نے عرض کی :میرے باپ نے جو کچھ کیا ہے میں اس کو جائز ٹھہراتی ہوں میرا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کے حقوق معلوم ہوجائیں ۔
اسی طرح اگر خواتین مناسک حج کے دوران طہارت سے باعذر شرعی محروم ہوجائیں اور مناسک حج انکی طہارت تک ان کے لیے ممنوع ہوجائیں تو اس طرح ہزاروں مردوں کو بھی انکے ساتھ رکناپڑے گا یا حج نا تمام چھوڑنا پڑے گا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو یہ مشکل پیش آئی تو مشکل کا حل خود اپنے واقعہ سے فرمادیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ:طواف کے سواء تمام مناسک اداکیے جاسکتے ہیں جو حاجی اداکرتے ہیں اور اگر 10ذو الحجہ کے قریب واقعہ پیش آئے تو آخری طواف ضروری ہے ۔
تمام علماء کرام کااس بات پر اتفاق ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاعورتوںمیں سب سے افضل ہیںاگر دینی خدمات ، علمی کمالات اور نبی کریمﷺ کی تعلیمات وارشادات کی نشرو اشاعت کا پہلو سامنے ہو تو ان میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا کوئی ثانی نہیں ہوسکتااللہ کے نبی ﷺ نے جو فیصلہ دیا ہے اس سے
سچا فیصلہ کیا ہوسکتا ہے کہ:
فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کو عورتوں پر ایسی فضیلت ہےجیسے ثرید کےدوسرے کھانوں پر ۔
ثرید ایک عربی کھانا ہے جو کہ روٹی کو بھگو کر تیار کیا جاتا ہے اوررسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عربوں میں بہت اعلی غذاسمجھی جاتی تھی اور آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھی۔ازواج مطہرات کے روشن اور کامل نمونوں سے بے توجہی برتنے کی بہت سزا ہم انفرادی واجتماعی زندگی میں بھگت چکے مزید خسارے سے بچنے کے لیے ہمیں انہی کامل نمونوں سے رجوع کرنا ہوگا ۔مسلمان عورتیں ان پاکیزہ سیرتوں میں وہ گوہر نایاب پائیں گی جو انہیں ہر طرح کے ذہنی انتشار سے بچا کر دین الٰہی کی پاکیزہ تعلیمات پر یکسو اور مطمئن کردے گا اگر چہ کہ چشم فلک نے یہ تابندہ نمونے تاریخ میں دوبارہ نہ دیکھے مگر انکی تابندہ سیرت رہتی دنیا تک بنی نوع انسان اور بالخصوص عالم نسواں کی رہنمائی کرتی رہے گی ۔
۔۔۔