اللہ تعالی کے بے شمار احسانات ہیں ان نعمتوں میں نعمت عظمی محمد کریم ﷺ کا وجود اور بعثت ہے ارشاد باری تعالی ہے :

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِهِ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ   وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْن

’’بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔(آل عمران 164)  رسول الثقلین ﷺ اس دنیا میں بگاڑو فساد ،ظلم وشرک ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تاکہ یہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بنے ظلم ختم ہو عدل قائم ہو مختلف درگاہوں پہ جھک کر ذلیل ہونے والی جبینیں صرف ایک رب کے دربار میں جھک کر عزت وو قار پائیں کیونکہ وہ احکم الحاکمین اپنے سامنے جھکنے والوں کو عزت و کامرانی کی بشارت ان الفاظ میں دیتا ہے

: وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 139)

تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو ۔ اُس نبی کا کتنا احسان ہے کہ اس نے انسانیت کوقعرمذلت سے نکال کرتوحید کی دعوت کے ساتھ شرف و عزت سے سرفراز کیا وہ رب کس قدر شکر و محبت کا سزاوار ہے جس کی انسان سے محبت کا پرتو بعثت سید المرسلین ہے سلسلہ نبوت سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور بقول احسان دانش کہ :
آب و گِل میں مدتوں آرائشیں ہوتی رہیں             تب کہیں اک آدمی کونین کا حاصل بنا
انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت میں رسول رحمت ﷺ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی حیات مبارکہ کومالک ارض و سماء نے ’’ اسوۂ حسنہ‘‘ قرار دیا ہے ، خالقِ کائنات کا پُرحکمت فرمان ہے

۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔ (الاحزاب:21)
ربِ کریم نے محمد رسول اللہ ﷺ کو بہترین نمونہ قرار دیا تو پھر اخلاقیات کی تمام اعلیٰ اقدار کا اتمام بھی اپنے حبیب ﷺ کی ذات میں فرمادیا ۔ ارشاد ہوا

:إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ

  مجھے مکارمِ اخلاق کو مکمل کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔ (بیہقی) سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے گئے ’’لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ‘‘ہر قوم کے لئے ہادی و راہنما مگر رسول اکرمﷺ

وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا’

’اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے‘‘۔(السبأ:28)تمام لوگوں کی طرف نبیٔ رحمت بناکر مبعوث کیے گئے، سلسلہ نبوت ختم ہوگیا اور خاتم النبیین قرار پائے۔چونکہ پہلے کسی نبی کی مکمل سیرت کو ربِ تعالیٰ نے سب کے لئےاسوئہ حسنہ  قرار نہیں دیا، اس لئے وہ مکمل سیرت محفوظ بھی نہ رہی، اور رسول ِ مقبول ﷺ کی سیرت کو چونکہ قیامت تک کے لئے’’اسوئہ حسنہ ‘‘ قرار دیا سب کے لئے قابلِ اتباع بنایا ، ایمان کی جان اپنے نبی ﷺکی محبت کو قرار دیا تو نہ صرف اس سیرت مطہرہ کو محفوظ کرنے کا بندوبست فرمایا بلکہ جن خوش نصیبوں نے اس سیرت مطہرہ کو نقل فرمایا ان کی زندگیوں کو بھی محفوظ کردیا۔اور یوں علم الرجال جیسا عظیم فن وجود میں آیا ۔
’’اسد الغابۃ‘‘ نامی مشہور کتاب اس کی بہترین مثال ہے۔ معاشرے میں بسنے کے لئے ایک فرد کی جو مختلف حیثیتیں ہیں وہ سب کی سب رہبرکامل ﷺ کی حیات مقدسہ میں موجود ہیں، مبلغ و داعی، مہاجر و مصلح، تاجر و معلم، حاکم وسرپرست،سپاہی و سپہ سالار، فاتح و مفتوح پھر خاندانی حیثیتیں باپ، داماد، شوہر، سسر پھر زندگی کا ہر ہر گوشہ لوگوں کے سامنے عبادت و ریاضت ، خاموشی و گفتگو، جنگ و صلح اور معاہدے یہاں تک کہ لکھنے والا جب سب کچھ لکھنے لگا تو کچھ صحابہ کرام کو وہم سا گزرا کہ سب کچھ کیوں لکھتے ہو کبھی آپ غصہ میںہوتے ہیں تو کبھی خوشی میں لکھنے والا صحابی مغموم ہوا اور پیارے پیغمبر علیہ السلام سے اس کی بابت معلوم کیا جواب ملا  اُكْتُبْ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا خَرَجَ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ  تم لکھتے جاؤ، کیونکہ اللہ کی قسم ! اس زبان سے سوائے حق کے اور کچھ ؕنکلتا ہی نہیں۔(مسند احمد) سو انصاف و حقیقت پسندی کی بات یہی ہے کہ آپ ﷺہی کی سیرت ایسی سیرت ہے جو ہر لحاظ سے ہر شخص کے لئے قابلِ اتباع ہے۔ اس پاکیزہ سیرت میں تاریخیت بھی ہے، عملیت بھی، جامعیت بھی ہے اور کاملیت بھی ۔محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرماکراللہ تعالیٰ نے قصر نبوت کو مکمل کردیا اور یہ اعلان کردیا گیا کہ

:مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ(الاحزاب 40)

’’لوگو! تمہارے مردوں میں کسی کے باپ محمد ﷺ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔‘‘ اب کوئی اس قصر میں نقب لگانے کی کوشش کرے گا تو کذابین و دجالین میں اس کا شمار ہوگا پشت پناہی کرنے والے یا ایسے نقب زنوں کو مسلمان گرداننےوالا ایمان سے محروم ہو سکتاہے ملک خداداد میں عجیب صورت حال ہے کہیں محبت کے نام پہ سرور کونین کی سنت کی مخالفت ہو رہی ہے جو کام اصحاب رسولﷺ نے نہیںکیا پانچ صدیاں بیت گئیں قرون مفضلہ میں اس کا ثبوت نہ ملا چاروں امام گزر گئے اور سب سے بڑھ کر شریعت بتلانے والے اپنی پیدائش کا دن منایا اورنہ منانے کا حکم دیا پھر کہاں کی شریعت ہے جس سے صاحب شریعت ناآشنا رہے اب کہیں گستاخی کی انتہاء یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نعلین کا نقش بنایا ہے جو کسی حدیث سے ثابت نہیں پھر جوتیوںکے اس نقش میں ظالم قرآن کی آیات اور اسم محمد ﷺ لکھتے ہیں حد ہوگئی ہے جہالت کی حکومتیں ایک طرف حرمت رسول اور ختم نبوت پہ ڈاکہ ڈالنے والوں کے لیے آغوش محبت کھلی رکھتی ہے تو دوسری جانب جشن ولادت میں چراغاں کر کے محبت رسول کا د م بھرتی ہیں حالانکہ محبت اصل میں اطاعت رسول ﷺکا نام ہے

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ (ال عمران 31)

کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا ۔
جشن منانے کے لیے دلیل شریعت اسلامی میں تونہیں ہے البتہ عیسائیوں کے ہاںسیدنا عیسی علیہ السلام کا دن منانے سے دوستوں نے دلیل لی کہ ہم تو اپنے نبی کا جشن ولادت منانے کے زیادہ حقدار ہیں ایسی ہی دلیل کی وجہ سے اب یہ نوبت آئی ہے کہ وہ جمعۃ المبارک جسے’’ سید الایام‘‘کہا گیا ہے وہ یورپ کی اقتداء میں اب نومبر کے آخر میں بلیک فرائيڈے (black friday) کے نام سے منایا جا نے لگاہے وہ جمعے کا دن جو یوم مشہود ہے جس میں نبی رحمتﷺ نے کثرت سے درود پڑھنے کا سبق سکھایا ہے جس جمعہ سے قرآن پاک کی ایک مکمل سورت موسوم ہے جس میں نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا تذکرہ ہے اور یہودیوں کی سیاہ تاریخ اجمالی انداز میں بیان کی گئی ہے شاید اسی لیے انہوں نے نومبر کے آخر میں آنے والے جمعہ کو سیاہ جمعہ’’ بلیک فرائیڈے‘‘ کا نام دیا ہے اور ہمیں تو بس تقلید کرنی ہے سو خو ب سیلز کا اہتمام بلیک فرائیڈے کے نام سے کیا جاتا ہےکیا یہ وائیٹ یا گولڈن فرائیڈے نہیں ہوسکتاتھامگر کیا کریں
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ایسا تو ہوگا جب یہود و نصاری سےدلیل لی جائے گی کیونکہ نبی رحمت ﷺ فرما چکے :

  مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (سنن أبی داود کتاب اللباس باب في لبس الشہرۃ ، الحدیث :4031 )

شریعت کا مزاج دیکھیں نبی رحمت ﷺ تو عبادات میں بھی کہیں ذرا سی مشابہت کو گوارا نہیں کیا رمضان میں سحری اور عاشورہ کا روزہ اس کی مثال ہے ۔ ن لیگ کی موجودہ دور حکومت میںشروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ دینی حلقوں کے ووٹ کی تائیدملنے کی وجہ سے دین سے نسبتاً قریب ہونےکا جو تاثر ہے اسے زائل کرے سو وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج اس کام کےلیے جت گئی پھر حقوق نسواں کےنام پر آزادی نسواں کا بل ناموس رسالت میں گستاخی کرنے والوں کا دفاع ممتاز قادری کوپھانسی دینے میں  پھرتیاں جب پھر بھی کچھ دیوانے دفاع کرتے نظر آئے تو ختم نبوت کی آئینی دستاویز سے چھیڑ چھاڑ کر کے میڈیا پہ کئی وزیر باتدبیر قادیانیوں کو اپنا بھائی قرار دیتے نظر آئے مودی کی محبت اورامریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایجنڈابیچ چوراہے میں عریاں پڑا ہے مگر نواز شریف صاحب پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ایک طرف اسلام آباد کی سڑکیں دھرنا دینے والوں نےاس نبی کے نام پہ بند کر رکھی ہیں جس نے راستوں کے کئی حقوق بتائے ہیں جس نے راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کا حصہ بتایاہے دھرنا دینے والے لوگ خود تکلیف اٹھارہے ہیںاورلوگوں کے لیے بھی باعث آزار بنے ہیں مگر حکومت وزیر قانون کی وزارت کی قربانی اس نبی کے لیے دینے کو تیار نہیں جس نبی کے شہرکی خاک کو اقبال نےآنکھوں کا سرمہ بنانے پہ فخر کیا ہے اگر اتنی بھی ایمان کی اتنی حمیت بھی نہیں تو اس جمہوری حق کو ہی مان لو جس کے ذریعے تم نے حکومت حاصل کی ہے ، دھرنا دینے والےہوں یا فساد خلق کے ڈر سے گھر بیٹھنے والے سب یہی چاہتےہیں کہ وہ وزیر گھر جائے جس نے ختم نبوت ﷺ کے پاکستانی آئین سے چھیڑ خانی کرنے کی کوشش کی ہے اسے اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس وزارت کو نبی اکرم ﷺ کی جوتیوں پر قربان کردینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے