معاشرے جب بے لگام ہوجائیں اسلامی اقدار کو روندا
جارہا ہو جانوروں اور انسانوں کا فرق مٹ جائے، جب مخلوق اپنے خالق کے دئیے ہوئے رہن سہن کے اصولوں کو پامال کر دے قتل وغارت گری ختم ہونے کا نام نہ لے بلکہ ایک قاتل کو پکڑنے کے لیے بے گناہ خون کردیے جائیں جب معصوم بچوں کا خون پیسنے والے درندے کسی شکنجے میں نہ آئیںتو نہ مظلوم و معصوم معاشرے کو مزید کسی اندھیرےکنویں میں پھینکنے کی ضرورت ہے نہ سیکس جیسے بے مقصد مضمون پڑھانے کی ضرو رت نہ اس جملہ کے مصداق کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ہر جرم کی روک تھام کے لیے کمیٹی اور چند تجاویز اور پھر قصہ پا رینہ ،بلکہ حکمرانوں کو اسلامی حدود یعنی حدود اللہ کا فوری نفاذکرنے کی ضرورت ہے یہی نہیں بلکہ از حد ضروری ہے حدود اللہ مسلم معاشرے کی چار دیواری ہیں حدود اللہ نسل انسانی کی بقا کی ضامن ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)

قتل کابدلہ قتل میں معاشرے کی زندگی کا ضامن ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا (البقرۃ:229)

یہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدو د ہیں انہیں مت پھلانگو دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ (الطلاق:1)

جس نے اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے:

إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں میں سے صرف ایک حد قائم کرنا اللہ کی زمین پرچالیس روز ،مسلسل بارش برسنے سے بہتر ہے ۔(سنن ابن ماجہ2537)
یعنی جیسے چالیس دن کی بارش سے زمین کا ماحول سر سبزو شاداب ہو جاتاہے اس طرح حدود اللہ کے نفاذ سے پورا معاشرہ پر امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی حدیں دور اور قریب پرقائم کردو اور انہیں اللہ کی بارے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ ہو (ابن ماجہ )
اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ حدیں قائم کرنے میں کسی کا لحاظ (اقربا پروری سیاسی وابستگی وغیرہ کے اعتبار سے ) نہیں رکھنا بلکہ انصاف کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کےمبارک دور میں ایک معزز خاندان کی خاتون فاطمہ نے چوری کا ارتکاب کیا تو اس کے ہاتھ کاٹنے کی حد کی راہ میں لوگ رکاوٹ ڈالنے اور سفارش تلاش کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ کردیا کہ لوگو!تم فاطمہ مخذومیہ کے بارے میں سفارش کرتے ہو کہ اسے حدنہ لگائی جائے سنو!اگر اسی جگہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ) ہوتی تو میں
اس پر بھی حد جاری کردیتا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔
عہد رسالت کا واقعہ :
رسول اللہ ﷺ نے بیت المال کے جانوروں پر چند ایک رکھوالے مقرر فرمائے عکل قبیلہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور بیمار ہوگئے توآپ ﷺ نے ان جانوروں کے پاس علاج کی غرض سے انہیں ٹھرایا جب وہ ٹھیک ہوگئے توانہو ں نے چرواہوں کو قتل کردیا اور مال لوٹ کر بھاگگئے انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی حدیں ان پر قائم کیں اور وہ قتل کردیئےگئے تواس معاشرے سے چوری اور قتل کا خاتمہ ہوگیا امن وایمان کی کیفیت اس قدر عظیم الشان ہوگئی تھی کہ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی تھی وہ اپنے اوپر حد لگانے کو جہنم میں جانے سے بہتر سمجھتا ہے اور خود آکر مردو خواتین عدالت نبوی ﷺ میں خود کو پیش کرتے تھے یہ شرعی حدود کی برکت تھی ۔
گزارش
اہل قانون وذمہ داران حضرات اللہ کا خوف کریں اور فوراً اسلامی حدود چور کا ہاتھ کاٹنا، قتل کا قصاص قتل ، شرابی کو کوڑے ، زانی شادی شدہ کو سنگسار ان تمام حدود اللہ کو نافذ العمل بنائیں۔ ان شاء اللہ معاشرے دوبارہ خلفائے راشدین والا ماحول دیکھیں گے۔
اور دوبارہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور کی یادتازہ ہوجائے گی کہ ایک گھاٹ سے شیر اور بکری پانی پیئے گے اور شیر کو بکری پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوگی اگر اس

ماحول کا عملی جائزہ لینا مقصود ہو تو اسلامی برادر ملک سعودی عرب کے قوانین کا مشاہدہ کرلینا چاہیے جہاں حدود اللہ کا نفاذ کس قدر موجود ہے تو مجرم دنلاتے نہیں ہوتے کیونکہ انہیں ہر وقت سرقلم کی سزا بہت سارے جرائم سے باز رکھتی ہے اور اگر مجرم پکڑا جاتا ہے تو بلا تمییز چند دن میں اپنے انجام کو پہنچ جاتاہے۔
معاشرے کے سدھار کے لیے کرنے کے چند ایک کام
کاش کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
1مسلمان معاشرے میںہندوانہ رواج ورسم اسکولوں میںسالگرہ کے کیک کاٹنےپرمخلوط تالیاںبجاکر داد دینا ، آئے دن کسی قومی دن پر ٹیبلو کے نام سے ناچ گانے کا ماحول فوری ختم کیا جائے ۔
2معصوم بچوںمیں غیرت ایمانی کو بڑھانے والے مضامین اور فحاشی وغیرہ یا انٹر نیٹ کے غلط استعمال کی تباہ کاریوں سے آگاہی کے پرو گرام جاری کئے جائیں ۔
3بچوں کو مار نہیں پیار کا یہ قطعی مقصد نہیں کہ عصا ادب بھی بچوں کے سروں سے اٹھالیا جائے تاکہ وہ استاد و والدین اور اللہ اور اسکے رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو سننے اور سمجھنے کےبجائے گستاخ بن جائے ۔
4والدین سے پر زور اپیل ہے کہ اپنے معصوم پھولوں اور کلیوں کی تعلیم کے لیے انتخاب کرتے وقت خدارا چیک کریں کہ آپ انہیں کیسا ماحول دے رہےہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اچھی اور بری صحبت او ر ماحول کے اثرا نداز ہونے کو آگ جلانے والے اورخوشبو بیچنے والے سے تعبیر کیا ہے (بخاری )
5ا ن واقعات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ بھی ہوسکتاہے تاکہ ملک کو افراتفری اور انارکی کی طرف دھکیلا جائے قانون کوبزور قوت توڑا جائے توآیئے اس نعمت خداوندی پاکستان کی حفاظت کے لیے اس رب العالمین کے دیے ہوئے نظام زندگی کو رائج کرکے اللہ کے حضور دست بدعا ہوں الہی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
اور ہمارے پیارے وطن کو امن کا گہوارہ بنائے آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے