فرمان باری تعالی ہے : 

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد:28)

’’ جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں یادرکھو اللہ کے ذکر سے دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

رب العزت کا فرمانہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ  (المؤمن :60)

’’اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہو چکا) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم پہنچ جائیں گے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا بہترین عمل ہے یہی وہ افضل عمل ہے جس کے ذریعے سے بندہ اپنے رب تعالیٰ کا قرب حاصل کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر عظیم فضل بہت زیادہ محبت کا اظہار ہے کہ اس نے اپنےبندے کے لیے دل ، زبان اور دیگر اعضاء سے اپنے ساتھ دائمی رابطہ اور تعلق آسان کر دیا کہ وہ اس کی عبادت واطاعت سے لذت حاصل کرے ۔ بندہ نماز مکمل کرنے کے بعد بھی اذکار کرے ، نماز کے بعد اذکار کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے نماز میں آنے والے شیطانی وساوس سے جو نقص واقع ہوتا اس کی تلافی ہوجاتی ہے۔

موجودہ دور میں فرض نماز کے بعد کے اذکار سے جو غفلت اور بے توجہی برتی جارہی ہے اس مضمون میں ان شاء اللہ تعالیٰ ان کوتاہیوں کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصود ہے۔ نمازی حضرات فرض نماز کے بعد چار یا پانچ طبقوں میں بٹ جاتے ہیں۔

پہلا طبقہ : سلام پھیرنے کے فوراً بعد بلا تاخیر مسجد سے چلا جاتاہے۔

دوسرا طبقہ : سلام کے فوراً بعد سنتوں کی ادائیگی میں اس طرح مشغول ہوجاتاہے گویا کہ ان کی فرض نمازہ رہ گئی ہو۔

تیسرا طبقہ : سر اور دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی وظیفہ پڑھنے میں مشغول ہوجاتاہے۔

چوتھا طبقہ : امام صاحب کا انتظار کرتاہے کہ وہ ہاتھ اٹھائیں اور اجتماعی دعا کروائیں۔

پانچواں طبقہ وہ ہے جو فرض نماز کے بعد اضافی کلمات کے ساتھ اذکار کا اہتمام کرتاہے اور ختم کرتے ہی اپنے جسم پر ہاتھ پھیرتا ہے۔

محترم قارئین ! ہمیں یہ جاننا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرض نماز کے بعد کیا طریقہ تھا ؟ شریعت کی رو سے مذکورہ بالا پانچ قسم کے لوگ کیاغلط ہیں؟

سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  سے روایت کی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا ’’ ہر فرض نماز کے بعد اذکار کہنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔‘‘ (مسلم:596)

یہ فرض نماز کے بعد کے اذکار نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی مستقل سنت ہے اور تاکید بھی اس کے ثبوت کے طور پر احادیث موجود ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا نماز سے فارغ ہوکر ذکر کرنے میں تھوڑی سی تاخیر ہوجائے تو وہ تاخیر اتنی معمولی ہو کہ اس کو مذکورہ ذکر سے اعراض کرنے والا شمار نہ کیا جائے یا بھولنے کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوجائے تو مذکورہ ذکر کی فضیلت کو حاصل کرنے میں کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا۔ ( فتح الباری 2/326)

ارزق بن قیس رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ہمیں ہمارے امام ابو رمثہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی پھر بیان کیا کہ ایسی ہی نماز میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے ساتھ پڑھی جس میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اگلی صف کے دائیں طرف تھے اور ایک شخص جو نماز میں تکبیر اولیٰ سے شامل ہوا ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے نمازپڑھائی حتی کہ دائیں بائیں سلام پھیرا اور ہم نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے رخساروں کی سفیدی دیکھی ، پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  پیچھے مڑے اور ایسا ہی ابو رمثہ رضی اللہ عنہ نے کیا ، تکبیر اولیٰ سے شامل ہونے والا ایک شخص اٹھا اور (نفل) نماز پڑھنا شروع کر دی ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور کندھے سے جھنجھوڑا اور کہا اسی حالت میںبیٹھ جاؤ۔ آپ کو معلوم نہیں کہ اہل کتاب کی ہلاکت کا سبب یہ بھی تھا کہ وہ اپنی نمازوں میں فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھےتو نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے شفقت بھری نظر سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور فرمایا ’’اے ابن خطاب ! اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے درستگی فرمائی ہے۔ (سنن ابی داؤو:1007)

کچھ بھائیوں نے فرض نماز کے فوراً بعد سنت کی ادائیگی کو اپنا معمول بنا لیا ہے بلاشبہ سنت کی ادائیگی کا بہت اجر وثواب ہے جیسا کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا جس شخص نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے گھر بنائے گا ۔(صحیح مسلم)

سنن میں اس کی وضاحت ہے کہ دو رکعت فجر سے پہلے، چار رکعت ظہر سے پہلے ، دو رکعت ظہر کے بعد ، دو رکعت مغرب کے بعد اور دو رکعت عشاء کے بعد ادا کرنا بارہ کی اس گنتی میں شامل ہے۔ (ترمذی:415)

لیکن فرض نماز کے بعد اذکار کرکے سنت ادا کرنی چاہیں یہ زیادہ بہتر ہے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنت کے زیادہ قریب تر اور زیادہ سنتوں پر عمل کرنے کا باعث ہے۔

میر ے وہ بھائی جو سر اور دل پر ہاتھ رکھ کر وظیفہ پڑھتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ اس کی کیا دلیل ہے ؟ یہ عمل نہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔

چوتھے قسم کے وہ بھائی ہیں جو اجتماعی دعا کا انتظار کرتے ہیں تو دعا ایک نہایت ہی اجر وثواب والی عبادت ہے بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ

الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ

 ’’دعا ہی اصل عبادت ہے‘‘ (ترمذی:3377)

آپ ہر حال میں دعا کرسکتے ہیں لیکن بعض مواقع ایسے ہیں کہ جب دعاؤں کی اہمیت اور قبول ہونے کی امید بھی زیادہ ہے جیسا کہ نماز میں سلام پھیرنے سے پہلے آخری تشہد میں دعا کا اہتمام مسنون دعاؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرنا ضروری ہے نہ کہ سلام پھیرنے کے بعد (لہٰذا سلام پھیرنے کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  سے چند اذکار مروی ومنقول ہیں) لہٰذا سلام پھیرنے کے بعد اجتماعی دعا کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  سے ثابت نہیں نہ ہی صحابہ سے اور سب سے بہترین بات، سب سے بہترین سنت نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنت ہے تو ہمیں بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی سنت کو اپنانا چاہیے۔

پانچویں طبقے کے لوگوں نے مسنون اذکار میں اضافہ کر رکھا ہے کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ابتداء اور انتہاء میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کے الفاظ اور درمیان میں خود اپنی طرف سے دعائیہ جملے بڑھا کر حدیث رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  میں زیادتی کی ہوئی ہے جس طرح قرآن مجید میں اپنی طرف سے کچھ الفاظ بڑھانا منع ہے۔ اسی طرح حدیث رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  میں اپنی طرف سے الفاظ یا جملے زیادہ کرنا جائز نہیں ۔ایسا کرنے سے دین کی اصل صورت قائم نہیں رہتی اور دعائے مذکور کتب احادیث میں ایک حدیث فرمانِ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم  اور دین کی ایک مستقل حیثیت رکھتی ہے جس میں زیادتی یاکمی کرنا دین میں دخل دیناہے۔ مسنون اذکار میں معوذتین(سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کے بعد جسم پہ ہاتھ پھیرنا رات سونے سے قبل کے اذکار واعمال میں سے ہے لیکن فرض نماز کے عام اذکار کے بعد جسم پر ہاتھ پھیرنا صحیح نہیں۔ہاں البتہ اگر کوئی بیمار ہو تو علاج کے طور پر معوذتین پڑھ کر جسم پر ہاتھ پھیر سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت کرتے تھے وہ ہر چیز میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کی اتباع کرتے تھے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کے کسی فعل میں کوئی تبدیلی نہ کرتے تھے۔

فرض نماز کے بعد مسنون اذکار

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی نماز کا تمام ہونا۔ اللہ اکبر کہنے کے ساتھ پہچان لیتا تھا۔(بخاری:841)

اس سے ثابت ہوا کہ امام اور مقتدیوں کو نماز سے فارغ ہوتے ہی ایک بار بلند آواز سے اللہ اکبر کہنا چاہیے۔

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  جب اپنی نماز سے پھرتے تو تین بار استغفار فرماتے اور (یہ) پڑھتے۔

اَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(سنن ابن ماجہ: 924)

’’ اے اللہ ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ،تو صاحب رفعت و برکت ہے ، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے۔‘‘

ولید رحمہ اللہ نے جو اس حدیث کے راویوں میں سے ہیں کہا : میں نے اوزاعی رحمہ اللہ سےکہا : استغفار کن الفاظ سے کیا جائے ؟ تو انہوں نے کہا ، یوں کہو ’’أَسْتَغْفِرُ اللهَ أَسْتَغْفِرُ اللهَ(میں اللہ سے بخشش مانگتاہوں، میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں)۔

انسان اپنی نماز سے فارغ ہوکر نماز میں پیدا ہونے والے خلل اور نماز میں رہ جانے والے نقص سے بخشش ومعانی کا طلبگار ہوتاہے اور پھر مذکورہ دعا پڑھنا ہے یعنی اے اللہ ! میں تیرے ناموں میں سے اس عزت والے نام کے ساتھ تیری طرف وسیلہ بنا کر سوال کرتا ہوں کہ تو میری نماز کو نقائص سے پاک کردے تاکہ وہ گناہوں کے کفارے اور درجات کی بلندی کا سبب بن سکے۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ’’ اے معاذ! میں تجھ سے محبت رکھتا ہوں اللہ کی قسم! پھر فرمایا ’’اے معاذ! میں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ کسی نماز کے بعد یہ دعا ہرگز ترک نہ کرنا۔

اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (سنن ابی داود : 1532)

’’ اے میرے رب! اپنے ذکر،شکر اور اپنی عبادت میں میری مدد فرما۔‘‘

ہم اللہ کا ذکر اور کسی بھی قسم کی عبادات بغیر اس کی توفیق کے ہرگز نہیں کرسکتے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے التجا کی ہے کہ اپنے ذکر،شکر اور عبادت کی آپ ہی ہمیں توفیق عطا فرما تاکہ آئندہ بھی اسی طرح نماز،ذکر اورشکر جاری رکھ سکیں۔

سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا جب نماز مکمل کرلیتے تو یہ الفاظ پڑھتے :

لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اَللّٰهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ(صحیح البخاری :844)

’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کو کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی تونگری تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔‘‘

معبود برحق صرف اللہ عزوجل ہے یقیناً اس کی الوہیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس کی بادشاہی اور سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ پس جب ہم اس بات پر ایمان لے آئیں کہ جو اللہ تعالیٰ دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں تو پھر ہم کس سے عطا کا سوال کریں گے۔صرف اور صرف اللہ عزوجل سے ۔

سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی نماز سے سلام پھیرنے کے بعد یہ الفاظ پڑھے۔

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (صحیح مسلم:594)

’’ایک اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں ،حکومت اور فرمانروائی اسی کی ہے اور وہی شکر و ستائش کا حقدار ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے ۔گناہوں سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی قوت اللہ ہی سے (ملتی )ہے ، اس کے سوا کوئی الہ و معبود نہیں ۔ ہم اس کےسوا کسی کی بندگی نہیں کرتے ، ہر طرح کی نعمت اور سارا فضل و کرم اسی کا ہے ، خوبصورت تعریف کا سزا وار بھی وہی ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہم اس کے لیے دین میں اخلاص رکھنے والے ہیں ،چاہے کافر اس کو (کتنا ہی )نا پسند کریں ۔‘‘

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا ’’جس شخص نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے موت کے سوا کوئی چیز جنت میں جانے سے نہیں روک سکتی۔ (سنن نسائی :9928)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے مجھے ہر نماز کے بعد سورۃ اخلاص،سورۃ الفلق ، سورۃ الناس پڑھنے کا حکم دیاہے۔(سنن ابی داود : 523)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا جس شخص نے ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سُبْحَانَ اللهِاور 33 مرتبہ اَلحَمْدُ لِلهِ اور 33 مرتبہ اَللهُ أَكْبَرُپڑھا اس نے ننالوے کی تعداد مکمل کی پھر سو مکمل کرنے کے لیے پڑھا

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

’’ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کی بادشاہی اور اس کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں خواہ سمند کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔(صحیح مسلم:597)

ہمارے ہاں کچھ بھائی یہ ذکر دانوں والی تسبیح یا آج کے دور کی مشینی تسبیح کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔ یہ عمل سنت کے مخالف ہے۔سنت طریقہ انگلیوں کے پوروں پر پڑھنا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ’’ انگلیوں کے پوروں سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ (ابو داود:1501) دانوں والی تسبیح نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےدور میں نہیں تھی لہٰذا اس سے بچنا بہتر ہے۔

نماز کے بعد اذکار میں ترتیب ملحوظ رکھنا واجب نہیں ہے یعنی اگر ان میں تقدیم وتاخیر ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ نماز کے بعد سب سے پہلے ایک مرتبہ بلند آواز سے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر تین مرتبہ ’’ استغفر اللہ اوراَللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ پڑھ کر پھر اس کے بعد دیگر مسنون اذکار کے ساتھ ذکر کیاجائے۔

فرض نماز کے بعد اذکار بہت اونچی آواز سے نہیں بلکہ پست آواز میں کرنا چاہیے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے ’’ اے لوگو! تم بلاشبہ سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو مگر کوئی دوسرے کو ہرگز ایذاء نہ دے۔ ‘‘ (ابوداود:1334)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ سب اعمال فرض نماز کے بعد کے ہیں۔ لہٰذا یہ اذکار واعمال انہی اوقات میں کیے جائیں تو یہی سنت طریقہ ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ان سنتوں پر احسن طریقے سے عمل کرنے والا بنادے اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم  کا جو طریقہ مسنونہ ہے اسے اپنانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے