افسوس امت مسلمہ روایات میں کھو گئی

 مسلم تھی جو بات خرافات میں کھو گئی

محترم قارئین ! ہمارے معاشرے میں اکثر ضعیف الاعتقاد لوگ مختلف دن اور مہینوں کو منحوس سمجھ کران میں سفر اور شادی و بیاہ سے ڈرتے ہیں ۔جب کہ ایام میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں ایام کو تو اللہ رب العالمین ہی بدلتا رہتا ہے ۔

رسول اللہ کا فرمان ہے :

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :‏‏‏‏ يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا الدَّهْرُ بِيَدِي الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات اور دن کو بدلتا رہتا ہوں۔ (صحيح بخاري : 4826)

اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا ہے کہ زمانے کو برا بھلا کہنا منع ہے ۔اگر ماہ وغیرہ میں کوئی نحوست ہوتی تو اللہ رب العالمین اور اس کے رسول ضرور وضاحت فرما دیتے جیسا کہ بارہ مہینوں سے چار مہینوں کی حرمت کو واضح فرمایا ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :

ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :‏‏‏‏ إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ(صحیح البخاری:5094)

رسول اللہ کے سامنے نحوست کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھر، عورت اور گھوڑے میں ہوتی ۔

 رسول اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہوتی ۔قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ نحوست بدشگونی کا عقیدہ جہالت پر مبنی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ نبی کائنات نے ان لوگوں کی تردید کی ہے جنہوں نے کسی ماہ یا دن کو منحوس کہا ہے دور جاہلیت میں اور اب بھی بہت سارے لوگ ماہ صفر کو منحوس کہتے ہیں اور اس سے بدشگونی لیتے ہیں یہ دور جہالت کي روش ہے کہ وہ ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے نبی کریم نے ان کے اس نظریے کا رد کیا اور آپ نے فرمایا کہ :

لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ (صحیح بخاری : 5757 )

چھوت لگ جانا بدشگونی یا الو یا صفر کی نحوست یہ کوئی چیز نہیں ہے۔

اسی طرح بعض لوگ ماہ شوال کو بھی منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ کرنے سے منع کرتے تھے اور آج بھی روکتے ہیں جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ :

تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُدْخِلْتُ عَلَيْهِ فِي شَوَّالٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ نِسَائِهِ كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي .(سنن نسائی : 3379)

رسول اللہ نے مجھ سے شوال کے مہینے میں شادی

کی اور شوال کے مہینے ہی میں میری رخصتی ہوئی، ( لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ کو برا سمجھتے ہیں ) لیکن میں پوچھتی ہوں کہ آپ کی بیویوں میں مجھ سے زیادہ کون بیوی آپ کو محبوب اور پسندیدہ تھی۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شریعت کے اندر کوئی بھی مہینہ منحوس نہیں ہے یہ فقط لوگوں کے توہمات وخیالات ہی ہیں جیسا کہ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا :

يَا رَسُولَ اللهِ أُمُورًا كُنَّا نَصْنَعُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتُوا الْكُهَّانَ . قَالَ قُلْتُ : كُنَّا نَتَطَيَّرُ قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُهُ أَحَدُكُمْ فِي نَفْسِهِ، فَلَا يَصُدَّنَّكُمْ .( صحیح مسلم : 5813 )

اللہ کے رسول اللہ ! کچھ کام ایسے تھے جو ہم زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے آپ نے فرمایا : تم کاہنوں کے پاس نہ جایا کرو ۔ میں نے عرض کی : ہم بدشگونی لیتے تھے ، آپ نے فر ما یا :

 یہ ( بدشگونی ) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے ، یہ تمھیں ( کسی کام سے ) نہ روکے ۔

امام داود رحمہ اللہ نے محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ سے نقل فرمايا ہے کہ :

وکثیر من الجھال یتشاؤم بصفر ، و ربما ینھی عن السفر فیہ ، والتشاؤم بیوم من الایام کیوم الاربعاء ( لطائف المعارف، ص: 147)

بہت سے جاہل ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس میں سفر کرنے سے رکے رہتے ہیں ۔ صفر کو منحوس سمجھنا یہ بدشگونی کی جنس سے ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے ۔ اسی طرح کسی دن کو منحوس سمجھنا جیسے بدھ کا دن ہے ، یہ بھی منع ہے ۔

امام محمد بن راشد المکحولی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول سے واضح ہوتا ہے کہ مہینوں کی طرح دن ورات بھی نحوست و بدشگونی سے پاک ہیں کسی دن یا رات کو منحوس سمجھنا اور کہنا جاہلی توہمات میں سے ہے ۔ماہ و سال، لیل ونہار اور وقت کے خالق اللہ رب العالمین ہی ہیں اللہ تعالی نے کسی ماہ ، دن یا رات کو منحوس قرار نہیں دیا ۔ ہاں ! جو حادثہ یا واقعہ تقدیر میں لکھا گیا وہ تو ہوکر ہی رہے گا اگر کسی مہینے ، دن یا رات کو کوئی حادثہ یا غمناک واقعہ پیش آجائے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ منحوس ہیں !بلکہ کسی دن یا رات کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ عزوجل کے بنائے ہوئے اس زمانے میں جو دن رات پر مشتمل ہے عیب لگانا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں گزرچکا ہے ۔(صحيح بخاري : 4826)

معلوم ہوا کہ مہینے ، دن اور رات اللہ تعالی کے ہی پیدا کردہ ہیں کسی مہینے دن یا رات کو منحوس کہنا یا عیب دار ٹھہرانا اللہ سبحانہ و تعالی کی کاریگری میں عیب نکالنا ہے ۔ یاد رہے کہ کسی چیز کو منحوس سمجھنا شرکیہ عقیدہ ہے جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے تین بار فرمایا :

الطِّيَرَةُ شِرْكٌ(سنن ابی داود:3910 )

بدشگونی لینا شرک ہے ۔

لہٰذا بدشگونی لینا یا کسی لمحہ کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ جو بھی کوئی آفت ،مصیبت یا تکلیف آتی ہے تو وہ من جانب اللہ ہوتی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ صحیح عقائد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے