اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں محبت کے جذبات رکھے ہیں لیکن اس کے اسباب مختلف ہیں جن کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں کوئی مال کی وجہ سے ‘تو کوئی حسن و جمال کے سبب ‘ کوئی کسی کی قوت و طاقت یا عہدے اور منصب کی بنا پر یا پھر رشتے داریوں کی وجہ سے محبت ہوتی ہے بعض اوقات شعوری یا غیر شعوری طور پر خود بخود ہی محبت ہو جاتی ہے اور اگر یہ محبت چھوٹے کی بڑے سے ہو تو یقینا اسے ’’عقیدت‘‘ سے ہی تعبیر کیا جا سکے گا۔ ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے کہ کسی بھی دوسرے سے محبت کا معیار ’’مسلک اہل حدیث‘‘ ہے وہ عقیدہ بھی ہو سکتا ہے یا پھر اس کی مسلکی خدمات ۔ ایسے بہت سے لوگ مرحومین اور موجودین شعوری طور پر زندگی میں آئے جن کی مسلکی خدمات تقریری یا تحریری اور بحث ومباحثے یعنی مناظرے کی وجہ سے دل و جان سے محبت کی اور رکھی ان میں بعض ایسی ہستیاں بھی ہیں جن سے ملاقات تو درکنار زندگی بھر ان کی زیارت بھی نصیب نہ ہو سکی۔ لیکن میں نے  اپنے بچپن میں شعوری طور پر تین شخصیات سے غائبانہ محبت کی ۔ان میں ایک میرے محبوب ‘جرنیل اہل حدیث مولانا قاری عبدالوکیل صدیقی خان پوری رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے خان پور ضلع رحیم یار خان جیسے پسماندہ علاقے میں تبلیغی‘ تعلیمی‘ تدریسی اور تنظیمی خدمات ایسی جانفشانی اور مجاہدانہ طریقے سے سرانجام دیں کہ اس علاقے میں  مقلدین حضرات کی بڑی بڑی کئی ایک گدیاں تھیں مگر قاری صاحب رحمہ اللہ نے اپنی پُرخلوص محنت کے باوصف ان کے مسند نشینوں کی ’’ناک رگڑدی‘‘ اور علاقے بھر میں شرک و بدعات کی بیخ کنی کر کے توحید و سنت کا خالص بیج بویا

۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ عن سائر اھل الحدیث ۔ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آگے بڑھ کر ذاتی تعلق بنانے کے لئے یا اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے اپنا تعارف کروانا اور جائز ‘ناجائز تعریفیں کرنا نہ تو اچھا لگتا ہے اور نا ہی کبھی مجھے اس کا حوصلہ ہوا ہے البتہ کسی کی محبت کی قدر کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔

اپنی اسی عادت کی بنا پر میں کبھی بھی قاری صاحب رحمہ اللہ سے نہ مل سکا البتہ ان کی تقاریر سننے اور زیارت کرنے کا شرف کئی بار حاصل کیا جہاں تک مجھے یاد ہے آپ سے صرف ایک بارمصافحہ کرنے کا موقعہ ملا۔ وہ بھی کچھ اس طرح ہو ا کہ آل پاکستان اہل حدیث کا نفرنس لاہور منعقدہ 76نومبر 2008ء کے موقعہ پر کانفرنس کے اختتام پر جامعہ سلفیہ کے کیمپ میں مشائخ جامعہ  حافظ عبدالعزیز علوی‘ حافظ مسعود عالم‘ مولانا محمد یونس ‘ چودھری محمد یٰسین ظفر حفظہم اللہ تعالیٰ و دیگر اساتذہ و طلباء کے ساتھ موجود تھا کہ قاری صاحب رحمہ اللہ اچانک تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور انہیں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ لیکن قاری صاحب کی خدمات جلیلہ کی وجہ سے آج بھی ان کی مغفرت اور بلندی درجات اور ان کے ادارے اور مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو رہتا ہوں اللہ تعالیٰ ان کے لیے صدقہ جاریہ کے ان چشموں کو ہمیشہ جاری و ساری رکھے تاکہ ان کی حسنات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے…۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ

دوسری ہستی جو میرے بچپن میں شعوری طور پر میری محبوب ٹھہری وہ شہزادہ خطابت‘ مبلغ اسلام ‘ داعی کتاب و سنت مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی جھنگوی رحمہ اللہ ہیں۔ آپ سے محبت کا سبب بھی آپ کی جماعتی و مسلکی ترویج و اشاعت کے لیے تگ و تاز جاودانہ ہے۔ حافظ صاحب کی پہلی دفعہ زیارت کرنے کا شرف 1983ء کے آخر یا

1984ء کے شروع میں دارالعلوم رحمانیہ منڈی فاروق

آباد میں حاصل ہوا۔ استاذی المکرم حکیم حافظ عبدالرزاق سعیدی رحمہ اللہ کا ذوق بھی تھا اور مستقبل کی پیش بندی بھی کہ آپ اپنے اسٹیج اور منبر سے نوجوان خطباء کو متعارف کرواتے تھے آپ کے اس ذوق کی بدولت ہی خطباء کی ایک کھیپ اس وقت تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ سعیدی رحمہ اللہ کا طریقہ تھا کہ جس نوجوان کی خطابت سے مطمئن ہوتے تو اس کو دارالعلوم رحمانیہ میں خطبہ جمعہ کے لیے دعوت دیتے پھر علاقے بھر میں اپنی سرپرستی اور نگرانی میں اس کے پروگرام کرواتے اس طرح اس کا علاقہ میں اچھا خاصا تعارف ہو جاتا اور یوں وہ مرکزی خطباء کی کھیپ میں شامل ہو جاتا اسی طرح حافظ صاحب رحمہ اللہ نے یزدانی صاحب رحمہ اللہ کا جمعہ رکھا جو آپ نے’’ اطاعت رسول ‘‘کے موضوع پر ارشاد فرمایا۔ اس کے کچھ اقتباسات مجھے ابھی یاد ہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ۔ لیکن ان کا یہاں محل نہیں ہے۔ آپ کی گفتگو اور انداز خطابت نے متاثر کیا حتی کہ میں اور میرے ایک کلاس فیلو قاری محمد عبداللہ بلوچ حفظہ اللہ تعالیٰ نے پروگرام بنایا کہ کوئی ایک جمعہ جھنگ میں آپ کی اقتداء میں پڑھا جائے اس کے لیے کرائے کا بھی بندوبست کر لیا لیکن کم عمری کی وجہ سے ہم دونوں ہی خوف زدہ تھے کہ اتنا لمبا سفر اور پسماندہ علاقہ ہے کہیں ہم گم ہی نہ ہو جائیں چنانچہ یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

اس کے بعد شہر فاروق آباد جامعہ دارالسلام محمدیہ میں آپ نے1985ء میں جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔

بعد ازاں 21مارچ 1986ء چنیوٹ میں پہلی سالانہ خاتم النبیین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو اس کا کنوینئر ہمارے ممدوح اور میرے محبوب حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ کو بنایا گیا آپ نے اس کے لیے بھرپور کوشش کی۔ تآنکہ یہ کانفرنس بڑی بھرپور‘ کامیاب اور چنیوٹ کی تاریخی کانفرنس تھی جس میں شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے اور آخری خطاب شہید اسلام مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید رحمہ اللہ نے فرمایا تھا بعد ازاں آئندہ سال دوسری سالانہ کانفرنس 20مارچ 1987ء بروز جمعہ کو ہوئی جو پچھلے سال کی نسبت زیادہ کامیاب تھی اور اس میں آخری خطاب علامہ شہید رحمہ اللہ نے موسلا دھار برستی بارش میں فرمایا تھا پھر اس کے تین دن بعد 23مارچ کو لاہور کے سانحہ میں زخمی ہو کر 30مارچ کو ریاض سعودی عرب میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ یوں اہل حدیث کی ایک تاریخ تہہ خاک چلی گئی اور چنیوٹ کی کانفرنس بھی وہ اپنی آب و تاب برقرار نہ رکھ سکی۔ حتی کہ بالکل ہی ’’مرحوم‘ ‘ہو گئی… انا للہ وانا الیہ راجعون

لیکن مجھے یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ اس پہلی کانفرنس کے لیے یزدانی صاحب رحمہ اللہ کی محنت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 12مارچ 1986ء کو جامعہ دارالسلام محمدیہ فاروق آباد کی دو روزہ سالانہ کانفرنس تھی جس میں حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب کا بھی خطاب تھا اور آپ کا نام مرکزی خطباء میں لکھا ہوا تھا۔ اور آپ نے سیکنڈ لاسٹ تقریر کی تھی آپ کے بعد پھر خطیب اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمۃ اللہ نے خطاب فرمایا تھا۔ لیکن جب آپ کانفرنس میں تشریف لائے تو اپنی بغل میں چنیوٹ کانفرنس کے اشتہارات کا بنڈل دبائے ہوئے تھے اور خود ایک ایک اشتہار نکال کر لڑکوں سے مختلف جگہوں پر چسپاں کروا رہے تھے بعد ازاں کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اعلان بھی کیا اور سامعین سے چنیوٹ کانفرنس میں شرکت کا وعدہ بھی لیا جس کا پورا منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے تازہ ہے بعد ازاں جب کانفرنس میں شریک ہو کر آپ کی جدوجہد کا ثمرہ بچشم خود دیکھا تو حافظ صاحب رحمہ اللہ کا گرویدہ ہو گیا کہ آپ ایک ورکر آدمی ہیںجو کسی قسم کے پروٹوکول کی پرواہ کیے بغیر ذمہ داری کے ساتھ خود چھوٹے موٹے کام کر رہے ہیں بس میرے بچپن میں حافظ صاحب کی محبت دل میں گھر کر گئی پھر وہ دن کہ آج کادن اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اضافہ ہی ہوا اور پختگی ہی آئی کمی نہیں آئی۔ بعد ازاں شہدائے اہل حدیث کے قاتلوں کی گرفتاری کے سلسلہ میں احتجاجی تحریک میں آپ کی صلاحیتیں دیکھنے کا موقعہ ملا نیز آپ کی خطابت میں بھی مزید نکھار پیدا ہوتا چلا گیا۔

آپ جہاں ایک بہترین خطیب تھے وہاں ایک مدبر منتظم بھی ۔ آپ جہاں ایک بے لوث اور مخلص ورکر تھے وہاں باصلاحیت قائد بھی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا اس کے باوجود آپ بہت سادہ اور ہمدرد انسان تھے۔ تبلیغی میدان میں کوئی تکلفات نہیں تھے نہ کوئی نخرہ اور نہ ہی کوئی بے جامطالبہ۔ ان کی کوشش ہوتی کہ مقامی جماعت پر زیادہ بوجھ نہ پڑے چنانچہ جہاں کہیں پروگرام ہوتا جھنگ سے پبلک سروس کے ذریعے ہی چلے جاتے اگر روڈ سے کہیں دور کوئی گاؤں وغیرہ ہوتا تو قریبی شہر تک بس پہ سفر کرتے اور وہاں سے ٹیکسی لے لیتے تاکہ واپسی میں آسانی رہے۔ ایک دفعہ میں نے عرض کیا حافظ صاحب اس طرح تو بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے آپ جھنگ سے ٹیکسی کیوں نہیں لیتے ۔تو فرمانے لگے فاروق بھائی! ساری جماعتیں یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں اس لیے جتنا ممکن ہو سکے کم از کم جماعت پر بوجھ ڈالنا چاہیے… کیونکہ حافظ صاحب کی یہ روٹین تھی کہ تقریر کے بعدواپس جھنگ تشریف لے جاتے پھر دوسرے دن پروگرام کے لیے نکلتے اگرچہ اسی علاقہ میں ہی کیوں نہ جانا ہو ۔ بطور مثال صرف ایک واقعہ عرض کرتا ہوں مورخہ 4اکتوبر 1992ء کو ہم نے اپنے گاؤں جید چک نمبر 16 ضلع شیخوپورہ میں سالانہ اہل حدیث کانفرنس کا انعقاد کیا اس سے ایک دن پہلے تتلے عالی ضلع گوجرانوالہ کے قریب ایک گاؤں میں آپ کا پروگرام تھا اور اس سے ایک دن پہلے مرالی والا ضلع گوجرانوالہ میں آپ نے خطاب فرمایا۔ مرالی والا کے جلسہ میں میں بھی شریک تھا آپ کی طبیعت خراب تھی بخار اور زکام نے برا حال کررکھا تھا لیکن آپ مرالی والا سے تقریر کر کے جھنگ تشریف لے گئے دوسرے دن تتلے عالی کے قریب جلسہ میں شریک ہوئے پھر واپس جھنگ چلے گئے اور تیسرے دن ہمارے ہاں جید چک نمبر 16ضلع شیخوپورہ میں تشریف لائے تین دن مسلسل قریب قریب ہی پروگرام تھے۔ حتی کہ مرالی والا اور تتلے عالی کے پروگرام تو بالکل پڑوس میں۔ لیکن ہر روز جھنگ جاتے اور دوسرے پروگرام کے لیے پھر واپس تشریف لاتے۔بلکہ اسے اتفاق ہی سمجھیے کہ آئندہ سال 1998میں ہم نے 18اکتوبر کو کانفرنس رکھی تو آپ اس سے ایک دن پہلے 17اکتوبر کو ’’پل ایک ‘‘سیالکوٹ کی سالانہ کانفرنس میں آخری خطاب کرنے کے بعد جھنگ واپس گئے۔ ظہر کے وقت آپ گھر پہنچے اور عصر کے بعد ہمارے ہاں آنے کے لیے روانہ ہوئے اور بعد عشاء آخری خطاب فرمایا۔ تو مقصد یہ ہے کہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے جفاکش تھے۔

میں نے عرض کیا کہ حافظ صاحب آپ اسی علاقہ میں کیوں نہیں ٹھہر جاتے تاکہ بار بار سفر کی صعوبت اور خرچے سے بچ جائیں تو فرمانے لگے جھنگ میں کئی لوگ اپنے ذاتی یا جماعتی کاموں کے لیے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر میں وہاں موجود نہ ہوں تو ان کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے ہر روز صبح 9بجے سے ظہر کی نماز تک کا وقت عام لوگوں کی ملاقات اور کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے لہٰذا مجھے ہر روز جھنگ جانا ضروری ہوتا ہے۔

یہ ہے ہمدردی خیر خواہی اور جذبہ خدمت خلق ۔کہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا اور یہی عملی تفسیر ہے۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌکی ورنہ آج کل تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض خطباء حضرات ایک ہی علاقے بلکہ بعض اوقات ایک ہی شہر میں دو تین پروگرام ایک رات میں ہی رکھ لیتے ہیں کہ ایک سفر میں زیادہ پروگرام کر لیے جائیں حالانکہ وہ سارے پروگرام ہی حاضری کے اعتبار سے ناکام ہو جاتے ہیں کہ ایک محلے کے لوگ دوسرے محلے میں نہیں جاتے مجمع ناقابل ذکر ہوتا ہے جس سے جماعت کو فائدہ پہنچنے کی بجائے ان کی سبکی ہوتی ہے۔ لیکن ’’مولانا صاحب‘‘ اپنے لالچ میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر میری یہ سطور جماعتی ذمہ داران یا مساجد کے منتظمین پڑھ رہے ہوں توانہیں بھی میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنے قریب کسی دوسرے پروگرام کے ساتھ اپنا پروگرام نہ رکھا کریں بلکہ پورے علاقے کے لوگ مل کر ایک پروگرام کو کامیاب کریں اور اسے مثالی بنائیں اس میں جماعت کی عزت ہے اور مقامی طور پر سیاسی و مذہبی فائدہ بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ سوچ اور تڑپ نصیب فرمائے (آمین)

آپ نے کبھی بھی کسی تبلیغی پروگرام میںکرائے وغیرہ کے معاملے پرتکرار جھگڑا تو درکنار (جیسا کہ بعض خطباء کے متعلق معلوم ومعروف ہے) کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی وقت کے لیے پروگرام کی انتظامیہ کو مجبور کیا بلکہ انتظامیہ اپنی سہولت کے ساتھ جب بھی وقت دے دیتی تو آپ اپنا بیان فرماتے اور وعظ کرتے۔

کارکنوں کا بڑا خیال رکھتے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ایک مرتبہ آپ ایک معروف جماعت سے کسی وجہ سے ناراض ہو گئے۔ اور اس کے سبب ان کو پروگرام نہیں دے رہے تھے انہوں نے بعض قائدین کی سفارش بھی کروائی لیکن حافظ صاحب نہ مانے مجھے جب یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے اسی جماعت کے اہل حدیث یوتھ فورس کے  ذمہ داران سے کہا کہ اگر آپ پروگرام کرنا چاہتے ہیں تو میں حافظ صاحب سے آپ کو وعدہ لے دیتا ہوں وہ کہنے لگے یزدانی صاحب تو فلاں فلاں کے کہنے پر بھی آمادہ نہیں آپ کیسے ان کا وقت لیں گے میں نے کہا کہ اگر آپ ان کا پروگرام کروانا چاہتے ہیں تو آپ کے دو آدمی میرے ساتھ جھنگ چلیں میں آپ کی صلح کروا دیتا ہوں چنانچہ ان میں ایک میرا قریبی عزیز بھی تھا (نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں اس جماعت کی نشاندہی نہیں کرنا چاہتا) ہم تین آدمی جمعہ کے دن فجر کی نماز کے وقت جھنگ پہنچے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپ سے گھر میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے مدعا بیان کیا تو فرمانے لگے اس کے لیے اتنا لمبا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی فون کر لیتے تو میں نے عرض کیا کہ آپ جوان سے نارض تھے اس لیے خود حاضر ہونا ہی مناسب تھا کیونکہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ نے بعض بزرگوں کی سفارش بھی قبول نہیں کی تو آپ نے فرمایا کہ پروگرام کے بارے بات بعد میں کریں گے پہلے بتائیں آپ نے ناشتہ کیا کرنا ہے میں نے عرض کیا جی آپ ڈائری مجھے دے دیں میں مناسب تاریخ تلاش کرتا ہوں اور آپ لسی بنوا کر لائیں چنانچہ آپ نے ڈائری مجھے پکڑا دی اور خود لسی لینے چلے گئے آپ کے بعد ہم نے اپنے طور پر وقت طے کر لیا تھوڑی دیر بعد آپ تشریف لائے اور ہمیں ٹھنڈی میٹھی لسی پلائی تو میں نے ڈائری سامنے رکھ دی کہ اس تاریخ میں آپ یہ پروگرام نوٹ فرما لیں چونکہ پروگرام کا مقام پہلے ہی بتایا جا چکا تھا حافظ صاحب فرمانے لگے کہ آپ خود ہی لکھ دیں لیکن میرا اصرار تھا کہ آپ نوٹ فرمائیں ۔ چنا نچہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے جگہ اور وقت تحریر فرما لیا تو میں نے ڈائری بند کرتے ہوئے عرض کیا حافظ صاحب یہ میرے ساتھ دونوں ساتھی اس جماعت کے نمائندے اور ذمہ دار ہیں اگر آپ نے کوئی بات کرنی ہے کوئی گلہ شکوہ ہے تو ابھی کر لیں لیکن پروگرام میں ضرور آنا ہے۔

تو حافظ صاحب رحمہ اللہ نے جو جواب دیا اس نے مجھے انکا مزید گرویدہ کر دیا اور میں سمجھا کہ آج میری محبت کا صلہ مجھے مل گیا ہے کیونکہ آج تک تو میں یہ محبت یکطرفہ ہی کرتا رہا ہوں آپ نے فرمایا۔ ’’درویشا‘‘ (یہ ان کا اس وقت تکیہ کلام تھا) توں آ گیا ایں تے ہن کیہہ گل کرنی اے‘‘ یعنی آپ آ گئے ہیں تو کوئی گلہ شکوہ نہیں یہ بہت بڑی حوصلہ افزائی تھی جو حافظ یزدانی صاحب مرحوم نے فرمائی۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے (آمین)

جب ہم جید چک نمبر16 ضلع شیخوپورہ میں اہل حدیث مسجد کا قیام عمل میں لائے تو اس کی افتتاحی تقریب اور سالانہ کانفرنس میں حافظ صاحب بھی تشریف لائے بلکہ اس سے بھی پہلے جب ہم دیو بندیوں کی مسجد میں سالانہ کانفرنس منعقد کیا کرتے تھے تو آپ سالانہ کانفرنس کے موقعہ پر ہر سال تشریف لایا کرتے تھے۔  اس لیے آپ کو ہمارے گاؤں کے حالات سے مکمل آگاہی تھی بعض لوگوں نے جب مسجد بنانے کی مخالفت کی اور عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا تو اس دوران آپ لدھیوالہ ورکاں سالانہ کانفرنس میں تشریف لائے وہاں آپ سے میرے بھائیوں عبدالغفور تبسم‘ کامران حمید اور حسان حمید کی ملاقات ہوئی تو یزدانی صاحب نے میرے متعلق استفسار کیا تو بھائیوں نے تمام صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صبح سیشن عدالت میں مقدمے کی تاریخ تھی اس لیے نہیں آ سکا تو آپ نے پیغام دیا کہ وہ (فاروق الرحمن یزدانی) مجھے ملے چنانچہ میں پیغام ملتے ہی دوسرے دن جھنگ روانہ ہو گیا ملاقات ہوئی تو آپ نے مجھے جناب عمر فاروق بھٹی مرحوم جو اس وقت شیخوپورہ میں سی ۔ اے سٹاف میں D.S.Pتھے کے نام پیغام دیا جب میں بھٹی صاحب سے ملا تو معلو م ہوا کہ آپ بڑے دبنگ قسم کے افسر اور اہل حدیث ہیں جس کا اظہار انہوں نے وہاں دفتر میں موجود تمام لوگوں کے سامنے کیا اور مجھے پیغام دیا کہ ’’یزدانی صاحب ‘‘کو میرا سلام کہنا اور انہیں بتانا کہ اگر ہم نے جماعت کا کام نہیں کرنا تو پھر ہمیں اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں اور ساتھ ہی یزدانی صاحب سے اپنے تعلق کے بارے میں بتایا۔ آپ نے جو ممکن تعاون تھا وہ کیا اور مزید رابطہ رکھنے کی تاکید کی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا کہ ہمارا وہ مسئلہ حل ہو گیا پھر جب شیخوپورہ ضلع کی کوکھ سے ضلع ننکانہ نے جنم لیا تو یہی عمر فاروق بھٹی پہلے D.P.Oکی حیثیت سے ننکانہ میں تعینات ہوئے میرا رابطہ ہوا میں نے عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور کسی وقت حاضر ہونے کا وعدہ کیا لیکن افسوس کہ آپ چند دنوں بعد ہی اچانک وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی بشری لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔ آمین

اس قسم کے کئی ایک واقعات کئی لوگوں کے ساتھ پیش آئے ہونگے کہ جب انہوں نے اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی ہو گی کیونکہ جھنگ جیسے فساد زدہ شہر میںجس عزت و آبرو اور شان و شوکت سے انہوں نے زندگی بسر کی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور مخلص کارکنوں کی ٹیم کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ کی وفات کے بعد جب میں تعزیت کے لیے جھنگ گیا تو مولانا عبدالمنان صاحب بتارہے تھے کہ ایک دفعہ کچھ نوجوانوں نے عید میلاد النبی کے جشن و جلوس کی شرعی حیثیت بارے کچھ اشتہار ات جھنگ میں لگائے تو ان نوجوانوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی جب حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب کو معلوم ہوا تو فوری طور پر ضلعی افسران کے پاس گئے اور فرمانے لگے نہیں گزرنے دونگا چنانچہ تمام کارکنوں کو اسی دن فوری رہا کر دیا گیا اس سے شہر میں ان کی قوت اور انتظامیہ میں ان کے اثر و رسوخ کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور کارکنوں سے محبت اور تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یزدانی صاحب کی اپنے کارکنوں سے محبت اور جماعتی احباب کے احترام اورایثار و قربانی کے متعلق شیخ محمد عارف صدر اہل حدیث یوتھ فورس تحصیل جھنگ نے بتایا کہ جب 18اپریل 1986ء کولاہور کے موچی دروازہ میں جلسہ ہوا تو جھنگ سے یزدانی  صاحب نے ایک بس کا انتظام کیا میری عمر اس وقت چھوٹی تھی لیکن میں نے یہ منظر دیکھا کہ جب روانگی کا وقت آیا تو بس بھر گئی اب یزدانی مرحوم کے لیے کوئی سیٹ خالی نہ رہی تو آپ نے گیٹ کے ساتھ کنڈیکٹر کے لیے پائپ پر جو چھوٹی سی سیٹ بنی ہوئی ہوتی ہے اسی پر جھنگ سے لاہور تک کا سفر کیا جماعتی احباب بھی آپ کو سیٹ کی آفر کرتے رہے ہم چھوٹے بچے بھی اصرار کرتے رہے کہ ہم کھڑے ہو جاتے ہیں آپ بیٹھ جائیں لیکن حافظ صاحب فرماتے ۔نہیں آپ بیٹھ گئے ہیں اب آپ کو اٹھانا مناسب نہیں میں تو ایک کارکن ہوں لہٰذا میری ذمہ داری ہے کہ آپ کے آرام و سکون کی خاطر قربانی دوں ۔یہ ہوتی ہیں قیادتیں اور یہ ہوتے ہیں لیڈر۔

اور اب … ؟؟ الاماشاء اللہ بعض قائدین تو سیدھے منہ اور پورے ہاتھ کے ساتھ اپنے کارکن سے سلام لینا گوارہ نہیں کرتے اور اگر کسی کو حالات کے پیش نظر قیادت کا موقعہ مل ہی جائے تو وہ بس اپنا مفاد ہی سامنے رکھتے ہیں۔

آج تو لوگ اپنی سیٹ بزنس کلاس کی لیتے ہیں اور کارکنوں کو اکانومی میں چھوڑ دیتے ہیں وہ بھی دھوکے سے ۔ پھر توقع رکھتے ہیں سمع واطاعت کی؟

انا للہ وانا الیہ راجعون

قیادت کرنے کا شوق ہو تو پھر جذبہ ایثار بدرجہ اتم موجود ہونا چاہیے ۔

حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ میں مسلکی عزت و وقار اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کا جذبہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ یہ آج سے اکتیس سال پہلے 23محرم الحرام 1409ھ بمطابق 1987ء کی بات ہے کہ چوک  بیگم کوٹ لاہور میں سالانہ فضائل صحابہ کانفرنس کے موقعہ پر ایک کارکن ’’محمد رفیق‘‘ ایک پولیس انسپکٹر کے ہاتھوں قتل ہو گیا اس وقت مولانا منیر قاسم صاحب آف برطانیہ خطاب فرما رہے تھے۔ چنانچہ جب یہ خبر اسٹیج پر پہنچی تو تقریر ختم کر دی گئی اور اس سانحہ کی اطلاع دیتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ تمام لوگ چوک میں جمع ہو کر روڈ بلاک کر دیں جب تک ہمارے کارکن کا قاتل پولیس والا گرفتار نہیں ہوتا اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا۔ ابھی سانحہ لاہور تازہ تھا اہل حدیث کے جذبات تو پہلے ہی بپھرے ہوئے تھے اس واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا جو لوگ گھروں میں جا چکے تھے وہ بھی اعلان سن کر واپس آ گئے اس موقعہ پر پولیس نے اپنے روایتی انداز کو اپناتے ہوئے دھمکیاں وغیرہ دیں کہ روڈ ابھی ٹریفک کے لیے کھول دیا جائے ورنہ …… بس پھر کیا تھا اس کے بعد حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ نے ایک دھواں دھار تقریر کر دی اور کارکنوں کے جذبات کو گرما دیا ۔ اب صورت حال دیکھ کر پولیس افسران نے مذاکرات کی میز سجائی لیکن یزدانی صاحب کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پہلے قاتل کو گرفتار کیا جائے اس کے خلاف F.I.Rدرج کی جائے اور اس کی وردی اتروائی جائے تب یہ احتجاج ختم ہو گا۔ اب یہ صورتحال کئی قسم کے نشیب و فراز سے دو چار ہوتی رہی لیکن یزدانی صاحب پوری جماعت کی قیادت کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے یہاں یہ یاد رہے کہ وہ جمعرات کا دن تھا اور صبح جمعۃ المبارک ۔ مجھے آج بھی وہ لمحات اس طرح یاد ہیں کہ جیسے ابھی یہ واقعہ ہو رہا ہو۔ یزدانی صاحب عام لوگوں کے ساتھ سڑک کے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کرسی لا کر دی گئی تو آپ شاہدرہ کی طرف منہ کر کے کرسی پربیٹھے ابھی بھی نظر آ رہے ہیں بعد ازاں ایک آدمی نے آ کر کہا کہ آپ تھوڑی دیر آرام کر لیں لیکن آپ نے انکار کر دیا تو وہ آدمی کہنے لگا کہ صبح جمعہ ہے اور آپ نے سفر بھی کرنا ہے اور جمعہ بھی پڑھانا ہے تو حافظ صاحب رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ شاید ہمیں جمعہ اسی چوک میں ہی پڑھنا پڑے اس لیے میری فکر چھوڑیں اب اس بات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے ۔ چنانچہ اس دور ان پولیس افسران نے پھر آ کر اطلاع دی کہ ہم نے وہ پولیس والا ملزم گرفتار کر لیا ہے لہٰذا آپ احتجاج ختم کر دیں لیکن حافظ صاحب فرمانے لگے کہ نہیں ہمیں آپ پر اعتبار نہیں ہمارے بندے جائیں گے اور دیکھ کر آئیں گے پھر ہم کوئی اعلان کریں گے چنانچہ جماعتی احباب گئے جب واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ ملزم تو وہی ہے لیکن حوالات میں بند نہیں بلکہ کمرے میں بیٹھا ہوا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ ہم نے گرفتار کر لیا ہے تو حافظ صاحب فرمانے لگے کہ پہلے اسے حوالات میں بند کیا جائے پھر ہم احتجاج ختم کریں گے۔ لہٰذا وہ پولیس والے ان جماعتی ساتھیوں کو ساتھ لے کر دوبارہ گئے اور مذکورہ پولیس والے کو حوالات میں بند کیا۔ اور واپس آ کر اطلاع دی تو حافظ صاحب نے ان سے سوال کیا کہ کیا اس نے وردی اتار کر سادہ لباس پہنا ہے یا ابھی وردی میں ہے تو جماعتی ساتھیوں نے بتایا کہ وردی میں ہے تو حافظ صاحب فرمانے لگے کہ ابھی بھی ہم نے یہ ’’دھرنا‘‘ ختم نہیں کرنا پہلے اس کی وردی اتروائی جائے۔ چنانچہ اس کی وردی اتروائی گئی اسے حوالات میں بند کیا گیا تو جماعتی ساتھیوں نے آ کر اطلاع دی میرے کانوں میں اب بھی حافظ صاحب کی آواز سنائی دے رہی ہے اور آپ کا وہ انداز نظر آ رہا ہے آپ پوچھ رہے ہیں تم ملزم کو پہنچانتے ہو‘ وہی ہے یا کوئی اور بندہ؟ کیا وہ حوالات میں بند ہے۔ کیا وہ وردی اتار کر سادہ لباس پہن چکا ہے۔ ؟ اور آخری سوال تھا کہ کیا آپ مطمئن ہیں اگر احتجاج ختم کر دیا جائے تو ……؟ جب مقامی جماعت کے احباب نے ہر سوال کا جواب ہاں میں دیا تو پھر آپ نے مجمع میں ساری صورتحال واضح کر کے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں دعاؤں سے نوازا۔

یہ زندگی میں پہلا ’’دھرنا‘‘ تھا جو یزدانی رحمہ اللہ کی قیادت میں چوک بیگم کوٹ میں دیا گیا اور وہ سو فیصد کامیاب رہا۔ اس وقت تک ابھی لوگوں نے ’’دھرنے ‘‘ کا نام ہی نہیں سنا تھا۔یہ تھی حافظ صاحب رحمہ اللہ میں جرأت و بہادری اور قائدانہ صلاحیتیں کہ جن کی بدولت ہر چھوٹا بڑا ان سے بہت محبت کرتا تھا اللہ تعالیٰ اسی طرح اپنے بندے سے محبت والا معاملہ فرمائیں (آمین)

حافظ صاحب رحمہ اللہ بڑے بے باک‘ جرأتمند اور نڈر خطیب تھے۔ اپنا مسلک و موقف بڑی وضاحت سے بیان فرماتے۔ عقیدے اور نظریے میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ مسلک اہل حدیث کی عزت و آبرو اور مقام ومرتبہ ان کے پیش نظر رہتا۔ گوجرانوالہ میں اہل حدیث‘ دیو بندی اور بریلوی مکتبہ فکر کی مشترکہ کانفرنس ’’عظمت صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم‘‘ کے نام سے محرم الحرام کے مہینے میں منعقد ہوتی ہے۔ پہلی کانفرنس 1986ء میں ہوئی جس میں اہل حدیث کی نمائندگی شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ اور خطیب ایشیاء قاری عبدالحفیظ فیصل آباد ی حفظہ اللہ تعالیٰ نے فرمائی قاری صاحب نے وہاں پہلی دفعہ ’’تیرا علی ‘ میرا علی‘‘کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ جو اپنی مثال آپ ہی تھا لیکن علامہ صاحب رحمہ اللہ کی تقریر پوری کانفرنس کی روح رواں تھی یوں اس سال یہ کانفرنس اہل حدیث کے نام رہی۔ آئندہ سال 1987ء میں پھر اس کانفرنس میں اہل حدیث کی نمائندگی کے لیے قرعہ فال مذکورہ شخصیات کے نام ہی نکلا۔ اشتہار چھپ چکے بلکہ دیواروں پر لگا دیئے گئے کہ 23مارچ 1987کو سانحہ لاہور رونما ہو گیا اور اس کانفرنس سے پہلے ہی شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ خلعت شہادت سے نواز دیئے گئے۔ چنانچہ جماعت نے موقعہ پر فیصلہ کیا اور علامہ شہید رحمہ اللہ کے متبادل حضرت حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ کا انتخاب کیا گیا آپ کی بھرپور جوانی کا دور تھا نوجوانوں کے جذبات تھے کہ آپ کا شاندار اور فقید المثال استقبال کیا گیا گوجرانوالہ کی جس مسجد ’’کھیالی گیٹ‘‘ میں یہ پروگرام ہوتا ہے وہ بہت چھوٹی ہے اس میں صرف چند ایک لوگ ہی سما سکتے ہیں البتہ چوک بہت وسیع اور تین اطراف میں روڈ بہت کھلے ہیں نیز مسجد سے باہر اس وقت ٹیلی ویژن لگا کر سامعین کو خطباء کے ساتھ شریک کر لیا جاتا تھا اب تو ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے اس لیے ہو سکتا ہے مزید بہتر انتظام کرلیا گیا ہو۔ علامہ شہید رحمہ اللہ کی گذشتہ سال کی تقریر کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے ٹی وی پر دوبارہ لگا کر لاؤڈ سپیکر میں سنایا جا رہا تھا لوگ اسی طرح ٹیلی ویژنوں کے سامنے ہمہ تن گوش ہو کر تقریر سن رہے تھے جیسے علامہ صاحب کے سامنے بیٹھ کر سنتے تھے آپ کو داد بھی دیتے ‘ نعرے بازی بھی کرتے اور زاروقطار روتے بھی تھے عجیب سا ماحول تھا کہ حافظ صاحب مرحوم کو ایک جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ لایا گیا مجھے پتہ نہیں کیوں اور کیسے خیال آ گیا کہ حافظ صاحب کو کوئی مشورہ دینا چاہیے لیکن میری آپ تک رسائی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے کوئی کاغذ میسر تھا چنانچہ میری جیب میں ایک چھوٹی ڈائری تھی میں نے اس کی ایک سائڈ کا گتہ پھاڑ کر کچھ اس قسم کے الفاظ لکھے’’السلام علیکم حافظ صاحب آپ جانتے ہیں یہ مشترکہ پروگرام ہے اور گذشتہ سال علامہ صاحب کی تقریر کی ابھی تک دھوم مچی ہوئی ہے لہٰذا اس قسم کی تقریر ہونی چاہیے کہ جماعت کا مقام بلند ہو اور لو گ دیر تک آپ کو یاد رکھیں۔ ’’یعنی اس عبارت کا مضمون یہی تھا پھر اس جلوس کے رش میں بڑی مشکل سے حافظ صاحب سے ہاتھ ملانے میں کامیاب ہو سکا اسی دوران میں نے آپ کو وہ رقعہ بھی تھما دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ حافظ صاحب نے وہ پڑھا یا نہیں لیکن واقعی حافظ صاحب نے ایسی لا جواب اور پُرجوش تقریر کی کہ سالوں لوگ اس کا تذکرہ کرتے رہے۔

آپ نے سورہ حجرات کی آیت

أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى

  تلاوت کی اس تقریر کے بعض اقتباسات مجھے اب بھی یاد ہیں بحمد اللہ تعالیٰ ۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ بہترین خطیب تھے اور اپنے مسلک کو ہر اسٹیج پر بڑی جرات سے بیان فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی تبلیغی مساعی کو ان کی حسنات میں شمار فرمائے (آمین ثم آمین) حافظ بدر نصیر صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ جھنگ میں دیو بندیوں کی مسجد کو شیعوں نے آگ لگا دی تو شہر کے حالات کشید ہ ہو گئے اور جائے وقوعہ پر زبردست فائرنگ ہونے لگی جب حافظ صاحب کو معلوم ہوا تو آپ وہاں جانے کے لیے نکلے احباب جماعت نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے آپ سے نہ جانے کی اپیل کی لیکن آپ نے کمال جرات و بہادری سے برستی گولیوں میں وہاں پہنچ کر نہ صرف جماعت کی نمائندگی کی بلکہ حق ادا کر دیا حتی کہ جھنگ میں عظمت صحابہ کرام اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے آپ کی جرات ‘ بہادری اور ایثار و قربانی اور حکمت عملی کے اپنے ‘بیگانے معترف ہیں کہ آپ ہمیشہ ہراول دستہ میں قیادت کرتے ہوئے نظر آئے۔

حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ بڑے مستقل مزاج آدمی تھے آپ تقریباً 1976ء میں رمضان المبارک میں تراویح کی امامت کے لیے جھنگ تشریف لائے آپ کی خوبصورت آواز‘ نماز تراویح کے بعد درس قرآن مجید اور آپ کی خوش اخلاقی اور ملنساری کی وجہ سے آئندہ سال نماز تراویح پڑھانے کے لیے دوبارہ تشریف لائے حتی کہ جمعۃ المبارک کا خطبہ شروع کر دیا پھر جامعہ سلفیہ سے تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد مستقل طور پر جھنگ کو اپنا مسکن بنا لیا شادی بھی وہی کی اور مدفون بھی وہی ہوئے آپ نے شہرت و عروج کی بلندیوں کو چھو ا کئی ایک شہروں سے بڑی بڑی پیش کشیں ہوئی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ہر آفر کو ٹھکرا دیا کہ میں نے جھنگ میں محنت کی ہوئی ہے اب اس کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ حالانکہ جھنگ میں آپ نے عسر یُسر ہر قسم کے حالات دیکھے مگر آپ کے پایہ استقلال میں لرزش نہیں آئی۔

آپ نے 1956ء کو پتوکی میں مولانا عبدالرحیم رحمہ اللہ کے ہاں ولادت پائی آپ کے والد محترم بڑے ثقہ عالم دین ‘بہترین خطیب اور کامیاب مناظر تھے آپ نے مولوی عمر اچھروی سے مباہلہ بھی کیا تھا جس میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے سرفراز فرمایا۔

حافظ عبدالعلیم مرحوم نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں حاصل کرنے کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آبادمیں داخلہ لیا۔ جہاں مولانا محمد صدیق کرپالوی ‘ حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی رحمۃ اللہ علیہماجیسے اساطین علم سے کسب فیض کیا مولانا محمد یونس بٹ حفظہ اللہ تعالیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان اور چوہدری محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ تعالیٰ پرنسپل جامعہ سلفیہ کے کلاس فیلو تھے تقریر کا شوق زمانہ طالب علمی سے ہی تھا جامعہ میں بھی تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہر جمعرات کو کسی قریبی مسجد اہل حدیث یا گاؤں میں تشریف لے جاتے اور وہاں درس و خطاب سے سامعین کو مستفید فرماتے۔ آپ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی راہنما تھے آپ نے امیر کی سمع واطاعت کی ایک مثال قائم کی۔ جماعتی پلیٹ فارم پر اپنے موقف اور نقطہ نظر کا برملا اظہار فرماتے لیکن جماعت کی طرف سے جوپالیسی بن جاتی پھر حتی المقدور اس کی پابندی فرماتے۔ آپ نے ضلع جھنگ میں جماعت اہل حدیث کو نہ صرف کہ ایک مقام دلایا بلکہ ان کی طاقت و قوت کو بھی منوایا ۔ تقریباً آپ نے بیالیس سال کا عرصہ جھنگ کی سرزمین پر گزارا۔ محترم حافظ بدر نصیر صاحب ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث تحصیل جھنگ بتا رہے تھے کہ 24اگست 2018ء کا جمعہ آپ نے ان کی مسجد جھنگ سٹی میں پڑھایا جمعہ کے بعد بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے کہا حافظ صاحب آپ کا جمعہ بڑا کامیاب ہوا ہے لہٰذا ہر سال ایک جمعہ ارشاد فرمایا کریں تو میرے گھٹنے پر ہاتھ مار کر فرمانے لگے ’’نہیں او بچیا ‘اے پہلا وی اے تے آخری وی‘‘ یعنی آئندہ میں نے آپ کے پاس جمعہ نہیں پڑھانا یہ میں نے آخری جمعہ پڑھا دیا ہے اس کے بعد 26اگست 2018ء بروز اتوار کو لاہور مرکزی مجلس عامہ کے اجلاس میں انہیں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور پھر 6ستمبر 2018ء کو ان کی میت ہی جھنگ میں آئی اور ان کے یہ الفاظ الہامی ثابت ہوئے کہ ’’یہ میرا آخری جمعہ ہے‘‘۔

آپ نے خطابت کا آغاز بھی جھنگ سٹی سے کیا اور زندگی کا آخری جمعہ بھی جھنگ سٹی میں پڑھایا اور جھنگ سٹی کے قبرستان میں ہی دفن کیے گئے۔ اللہم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ

یہ میری بچپن کی دو محبتیں تھیں (قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ اور حافظ عبدالعلیم یزدانی رحمہ اللہ) تیسری محبت کے لیے میں پہلے سے زیادہ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ ایمان و اعمال صالحہ سے مزین لمبی زندگی عطا فرمائے۔ اگرچہ اب ان سے تعارف اور تعلق خاطر بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں ان سے کوئی تعارف نہ تھا فقط ان کے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے لوجہ اللہ ان سے غائبانہ محبت تھی اور ہے بھی ۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ قائم رکھے۔ (آمین)

نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ ’’نظر‘‘ نہ لگے۔ آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے محبوب کو دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب فرمائے ۔( آمین ثم آمین)

وما اغنی عنکم من اللہ من شئی ان الحکم الا للہ علیہ توکلت وعلیہ فلیتوکل المتوکلون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے