(بچوں کا صفحہ)
پیارے بچو ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا :
هَاجَرَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام بِسَارَةَ ، فَدَخَلَ بِهَا قَرْيَةً فِيهَا مَلِكٌ مِنَ الْمُلُوكِ أَوْ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَةِ ، فَقِيلَ: دَخَلَ إِبْرَاهِيمُ بِامْرَأَةٍ هِيَ مِنْ أَحْسَنِ النِّسَاءِ ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ ، أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ ، مَنْ هَذِهِ الَّتِي مَعَكَ؟ قَالَ: أُخْتِي، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: لَا تُكَذِّبِي، حَدِيثِي فَإِنِّي أَخْبَرْتُهُمْ أَنَّكِ أُخْتِي ، وَاللَّهِ إِنْ عَلَى الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ ، فَأَرْسَلَ بِهَا إِلَيْهِ ، فَقَامَ إِلَيْهَا ، فَقَامَتْ تَوَضَّأُ وَتُصَلِّي ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي ، فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ الْكَافِرَ ، فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ ، قَالَ الْأَعْرَجُ : قَالَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَتِ : اللَّهُمَّ إِنْ يَمُتْ ، يُقَالُ : هِيَ قَتَلَتْهُ فَأُرْسِلَ ، ثُمَّ قَامَ إِلَيْهَا ، فَقَامَتْ تَوَضَّأُ تُصَلِّي ، وَتَقُولُ : اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ آمَنْتُ بِكَ وَبِرَسُولِكَ وَأَحْصَنْتُ فَرْجِي إِلَّا عَلَى زَوْجِي ، فَلَا تُسَلِّطْ عَلَيَّ هَذَا الْكَافِرَ فَغُطَّ حَتَّى رَكَضَ بِرِجْلِهِ ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : قَالَ أَبُو سَلَمَةَ : قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ إِنْ يَمُتْ ، فَيُقَالُ : هِيَ قَتَلَتْهُ ، فَأُرْسِلَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الثَّالِثَةِ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا أَرْسَلْتُمْ إِلَيَّ إِلَّا شَيْطَانًا ارْجِعُوهَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ ، وَأَعْطُوهَا آجَرَ فَرَجَعَتْ إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام ، فَقَالَتْ : أَشَعَرْتَ أَنَّ اللَّهَ كَبَتَ الْكَافِرَ وَأَخْدَمَ وَلِيدَةً (صحیح البخاری، کتاب البیوع،باب شراء المملوك من الحربي وهبته وعتقه،حدیث:2217)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کے ساتھ (نمرود کے ملک سے ) ہجرت کی تو ایک ایسے شہر میں پہنچے جہاں ایک بادشاہ رہتا تھا یا ( یہ فرمایا کہ ) ایک ظالم بادشاہ رہتا تھا۔ اس سے ابراہیم علیہ السلام کے متعلق کسی نے کہہ دیا کہ : وہ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت لے کر یہاں آئے ہیں۔ بادشاہ نے آپ علیہ السلام سے پچھوا بھیجا کہ ابراہیم! یہ عورت جو تمہارے ساتھ ہے تمہاری کیا لگتی ہے؟ انہوں نے فرمایا : یہ میری بہن ہے۔ پھر جب ابراہیم علیہ السلام سارہ علیہا السلام کے یہاں آئے تو ان سے کہا کہ میری بات نہ جھٹلانا، میں تمہیں اپنی بہن کہہ آیا ہوں۔اللہ کی قسم!آج روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے سارہ علیہا السلام کو بادشاہ کے یہاں بھیجا، یا بادشاہ سارہ علیہا السلام کے پاس گیا۔ اس وقت سارہ علیہا السلام وضو کر کے نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے اللہ کے حضور میں یہ دعا کی : اے اللہ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول ( ابراہیم علیہ السلام ) پر ایمان رکھتی ہوں اور اگر میں نے اپنے شوہر کے سوا اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے، تو تو مجھ پر ایک کافر کو مسلط نہ کر۔ اتنے میں بادشاہ تھرایا اور اس کا پاؤں زمین میں دھنس گیا۔ اعرج نے کہا : ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا : ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ سارہ علیہا السلام نے اللہ کے حضور میں دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ چنانچہ وہ پھر چھوٹ گیا اور سارہ علیہا السلام کی طرف بڑھا۔ سارہ علیہا السلام وضو کر کے پھر نماز پڑھنے لگی تھیں اور یہ دعا کرتی جاتی تھیں ۔ اے اللہ ! اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے شوہر ( ابراہیم علیہ السلام ) کے سوا اور ہر موقع پر میں نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی ہے تو تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر۔چنانچہ وہ پھر تھرایا، کانپا اور اس کے پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ عبدالرحمٰن نے
بیان کیا کہ ابوسلمہ نے بیان کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
کہ سارہ علیہا السلام نے پھر وہی دعا کی کہ اے اللہ! اگر یہ مر گیا تو لوگ کہیں گے کہ اسی نے مارا ہے۔ اب دوسری مرتبہ یا تیسری مرتبہ بھی وہ بادشاہ چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ کہنے لگا کہ تم لوگوں نے میرے یہاں ایک شیطان بھیج دیا۔ اسے ابراہیم ( علیہ السلام ) کے پاس لے جاؤ اور انہیں آجر ( ہاجرہ ) کو بھی دے دو۔ پھر سارہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ دیکھتے نہیں اللہ نے کافر کو کس طرح ذلیل کیا اور ساتھ میں ایک لڑکی بھی دلوا دی۔
پیارے بچو ! مذکورہ قصہ سے ہم کو چند نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں ۔
1 نیکوکار لوگوں پر آزمائشیں آتی ہیں ۔
2 نیکوکار لوگوں کےلیے کامیابی وکامرانی ہے ۔
3 بدکار لوگ ہمیشہ ناکام اور بدنام رہیں گے ۔
4 نماز نجات کا ذریعہ ہے ۔
5 مصیبت میں اللہ تعالی کو پکارنا مصیبت کا زوال ہے ۔
6 حاجت پیش آئے تو صلاۃ الحاجت کا سہارا لیا جائے ۔
7 اپنی عزت بچانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے لیکن ہمیشہ معمولات میں عمدا جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے ۔
8 اولیاء اللہ کو تکلیف دینے والا گویا اللہ تعالی سے لڑائی کا ارادہ رکھتا ہے ۔
9 نیکوکار لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ۔
0 مظلوم کی بد دعا سے بچیں۔