قارئین صد احترام ! بعض ایسے اعمال ہیں جن کا ایک مومن کو اس کے انتقال کے بعد بھی ثواب پہنچتا رہتا ہے ۔ ہم یہاں بعض ایسے اعمال بیان کرتے ہیں جو مرنے کہ بعد بھی نفع بخش ہیں۔جناب عبداللہ بن ابی بکر رحمہ اللّه نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَتْبَعُ الْمَيِّتَ ثَلَاثَةٌ فَيَرْجِعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى وَاحِدٌ يَتْبَعُهُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَعَمَلُهُ فَيَرْجِعُ أَهْلُهُ وَمَالُهُ وَيَبْقَى عَمَلُهُ
میت کے پیچھے تین چیزیں ہوتی ہیں ان میں سے دو لوٹ آتی ہیں اور ایک ساتھ رہ جاتی ہے اس کے پیچھے اس کے گھر والے اس کا مال اور اس کا عمل جاتا ہے اس کے گھر والے اور مال لوٹ آتے ہیں اور عمل ساتھ رہ جاتا ہے۔ (صحیح مسلم : 7424)
اور ایک روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے) صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔( صحیح مسلم : 4223)
نیک صالح اولاد کی دعا و استغفار اور والدین کے وفات کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور ان رشتوں کو جوڑنا بھی ان کے لئے باعث نجات ہیں جیسا کہ سیدنا ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَيَّ شَيْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا قَالَ: نَعَمْ الصَّلَاةُ عَلَيْهِمَا وَالِاسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِيفَاءٌ بِعُهُودِهِمَا مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُوصَلُ إِلَّا بِهِمَا
ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے اتنے میں قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میرے والدین کی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی باقی ہے کہ ان کی وفات کے بعد میں ان کے لیے کر سکوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا اور ان کے انتقال کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا اور ان رشتوں کو جوڑنا جن کا تعلق انہیں کی وجہ سے ہے ۔ (سنن ابن ماجہ: 3664)
اور اسی طرح نیک صالح اولاد کی دعاؤں کی برکات سے اللہ تعالیٰ والدین کی درجات بلند فرماتا ہے جیسا کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ
آدمی کا درجہ جنت میں بلند کیا جائے گا پھر وہ کہتا ہے کہ میرا درجہ کیسے بلند ہوا ؟ اس کو جواب دیا جائے گا: تیرے لیے تیری اولاد کے دعا و استغفار کرنے کے سبب سے ۔
(سنن ابن ماجہ: 3660)
اپنے فوت شدہ کے نام پر صدقات و خیرات کرنا کنواں تالاب وغیرہ کھودوانا نل وغیرہ لگوانا جس سے لوگ سیراب ہوں یہ بہترین صدقہ ہے اور باعث اجر ہےسیدنا سعد بن عبادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! :
إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا قَالَ: نَعَمْ قُلْتُ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ
میری ماں مر گئیں ہیں کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میں نے پوچھا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: (پیاسوں کو) پانی پلانا ۔ (سنن نسائی: 3694)
اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ: نَعَمْ .
ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ملے گا۔ (صحیح بخاری: 1388)
اور ایک روایت میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ
أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا
ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہو چکی ہیں اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ ان کے لیے مفید ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ہاں اس نے عرض کیا: میرا ایک باغ ہے آپ گواہ رہئیے کہ میں نے اسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔ (جامع ترمذی : 669)
اور اسی طرح سیّدنا ابوہریرہ رضیاللہ عنہ سے روایت ہے
أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنَّ أَبِی مَاتَ وَتَرَکَ مَالاً وَلَمْ یُوْصِ فَہَلْ یُکَفِّرُ عَنْہُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْہُ؟ قَالَ: نَعَمْ
ایک آدمی نے نبی کریم ﷺسے کہا: میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور انھوں نے مال تو چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی تو کیا ان کی طرف سے میرا صدقہ کرناان کے گناہوں کا کفارہ بن سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں۔ (مسند احمد:3294)
اور اسی طرح اولاد اپنے والدین کہ طرف سے حج یا جو اسکے ذمہ روزے واجب ہوں یا نذر ہو تو ورثا ادا کر لیں تو اس کے طرف سے ادا ہو جاتے ہیں اور میت کو نفع دیتے ہیں ۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ:
أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبِيهَا مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ قَالَ: حُجِّي عَنْ أَبِيكِ
ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے اپنے والد کے بارے میں سوال کیا جن کا انتقال ہو گیا تھا اور حج نہیں کیا تھا پوچھا آپ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج کر لو۔ (سنن نسائی: 2635)
اور اسی طرح اگر کسی کہ ذمہ روزے ہوں تو اس کے ولی اسکے طرف سے روزہ رکھیں جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ
اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کاولی اس کی طرف سےروزےرکھے۔(صحیح بخاری:1952)
اور اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَذْرٌ فَقَالَ: اقْضِهِ عَنْهَا (صحیح البخاری:2761)
سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے ذمہ ایک نذر تھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی طرف سے نذر پوری کر دے۔
وضاحت :
جس نے نذر مانی ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا تو وہ اس کی نذر پوری کی جائے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی معصیت و نافرمانی کی نذر مانی ہو تو وہ نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔
جو سرحد کی محافظت اور نگہبانی کرے گا اس کا عمل روز محشر تک بڑھتا رہے گا جیسا کہ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ الْمَيِّتِ يُخْتَمُ عَلَى عَمَلِهِ إِلَّا الْمُرَابِطَ فَإِنَّهُ يَنْمُو لَهُ عَمَلُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَيُؤَمَّنُ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ .
ہر میت کا عمل مرنے کے بعد ختم کر دیا جاتا ہے سوائے سرحد کی پاسبانی اور حفاظت کرنے والے کے اس کا عمل اس کے لیے قیامت تک بڑھتا رہے گا اور قبر کے فتنہ سے وہ مامون کر دیا جائے گا ۔ (سنن ابو داؤد:2500)
میت کے لئے خلوص دل سے دعا کرنا بھی بخشش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ اللّه تعالیٰ کا فرمان:
وَالَّذِیۡنَ جَآءُوۡمِنۡۢ بَعۡدِھِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡلَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَلَاتَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ
اور (ان کے لئے)جو ان کے بعد آئیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے ۔( الحشر: 10)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الْمَيِّتِ فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ
جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو ۔ (سنن ابو داؤد :3199)
اور اسی طرح جب بھی رسول اللہ کسی کی نماز جنازہ پڑھتے تو خلوص دل سے پڑھتے جیسا کہ سیدنا عوف بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَقِهِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ قَالَ عَوْفٌ: فَتَمَنَّيْتُ أَنْ لَوْ كُنْتُ الْمَيِّتَ لِدُعَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْمَيِّتِ
میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا کہ آپ ایک جنازے کی نماز میں کہہ رہے تھے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، وَاعْفُ عَنْهُ وَعَافِهِ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بِمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ، وَنَقِّهِ مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ، وَقِهِ عَذَابَ الْقَبْرِ، وَعَذَابَ النَّارِ
اے اللہ! اس کی مغفرت فرما اس پر رحم کر اسے معاف کر دے اسے عافیت دے اس کی (بہترین) مہمان نوازی فرما اس کی(قبر) کشادہ کر دے اسے پانی برف اور اولے سے دھو دے اسے گناہوں سے اس طرح صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے اس کو بدلے میں اس کے گھر سے اچھا گھر اس کے گھر والوں سے بہتر گھر والے اور اس کی بیوی سے اچھی بیوی عطا کر اور اسے عذاب قبر اور عذاب جہنم سے بچا۔ عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس میت کے لیے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا (سن کر) میں نے آرزو کی: کاش! اس کی جگہ میں ہوتا۔ (سنن نسائی:1985 )
جس میت پر بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے جن کی تعداد سو تک پہنچتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کے پاس سفارش کریں میت کہ حق میں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش قبول کی جاتی ہے جیسا کہ سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مَيِّتٍ يُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَبْلُغُونَ أَنْ يَكُونُوا مِائَةً يَشْفَعُونَ إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ قَالَ سَلَّامٌ: فَحَدَّثْتُ بِهِ شُعَيْبَ بْنَ الْحَبْحَابِ فَقَالَ: حَدَّثَنِي بِهِ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
جس میت پر بھی مسلمانوں کی ایک جماعت نماز جنازہ پڑھے (جن کی تعداد) سو تک پہنچتی ہو (اور) وہ (اللہ کے پاس) شفاعت (سفارش) کریں تو اس کے حق میں (ان کی) شفاعت قبول کی جائے گی۔ سلام کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو شعیب بن حبحاب سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے وہ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کر رہے تھے۔ (سنن نسائی:1993)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب صحابہ کرام میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو رسول اللہ ﷺ فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو جیسا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ
نبی اکرم ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا ۔( سنن ابو داؤد:3221)
اور جب مؤمنین میں سے کوئی میت کی نماز جنازہ پڑھ کر اس کی تعریف کرے تو یہ بھی نجات کا زریعہ ہے جیسا کہ سیدنا ربیع بن معوذرضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا صَلَّوا عَلى جَنَازَةٍ وَأَثْنَوا خَيراً يَّقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَل: أَجَزْتُ شَهَادَتَهُم فِيْمَا يَعْلَمُونَ وَأَغْفِرُ لَه مَا لَا يَعْلَمُونَ (سلسلة الاحادیث صحیحہ: 517)
جب لوگ کسی میت کی نمازِ جنازہ پڑھیں اور اس كی تعریف كریں تو اللہ رب العزت فرماتا ہے: جو یہ لوگ جانتے ہیں اس بارے میں ان كی گواہی كافی ہوگئی اور جو یہ لوگ نہیں جانتے میں اسے بخشتا ہوں۔
اور اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ :
مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ: وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا أَوْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ فَقَالَ: وَجَبَتْ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لِهَذَا وَجَبَتْ وَلِهَذَا وَجَبَتْ قَالَ: شَهَادَةُ الْقَوْمِ الْمُؤْمِنُونَ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ.
رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس میت کی تعریف کی آپ ﷺ نے فرمایا واجب ہو گئی پھر دوسرا جنازہ گزرا تو لوگوں نے اس کی برائی کی یا اس کے سوا اور الفاظ (اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے) کہے (راوی کو شبہ ہے) آپ ﷺ نے اس پر بھی فرمایا واجب ہو گئی عرض کیا گیا۔ یا رسول اللہ ! آپ نے اس جنازہ کے متعلق بھی فرمایا کہ واجب ہو گئی اور پہلے جنازہ پر بھی یہی فرمایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایمان والی قوم کی گواہی (بارگاہ الٰہی میں مقبول ہے) یہ لوگ زمین پراللہ کےگواہ ہیں۔(صحیح بخاری:2642)
قرآن و حدیث اور تمام ترنیکی اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پہلانے کا اجر و ثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا جیسا کہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنِ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو گا بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو۔ (جامع ترمذی:2675)
اگر انسان اپنے وفات سے قبل سایہ دار درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان اور چرند پرند کھاتے ہیں تو اس میں ان کے لئے باعث اجر ہے جیسا کہ سیدنا انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ أَوْ طَيْرٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ
جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی:1382)
۔۔۔