ایک بامقصد زندگی کا اختتام
محترم جناب پروفیسر محمدظفر اللہ رحمہ اللہ کو ہم سے جداہوئے گوکہ ایک مدت بیت چکی ہے لیکن ان کی یادیں اور باتیں تاہنوز ذہنوں میں تازہ ہیں چونکہ وہ ساری حیات اشاعت کتاب وسنت،علم وادب اور انسانیت کی پُر خلوص دل سے خدمت کرنے والے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے والے مثالی انسان تھے۔
جناب پروفیسر صاحب پوری زندگی نیک کام اور نیک نام رہے ان کی پوری زندگی انتھک محنت سے عبارت تھی بلکہ اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ انہوں نے بڑی محنت شاقہ سے اپنی زندگی گزاری تھی اُن کو جینے کا خوب قرینہ آتاتھا، آپ ایک عالم باعمل ، حالات حاضرہ سے باخبر، خوف الٰہیسے آراستہ، بیدار مغز ہمہ وقت کارہائے نمایاں میں مصروف رکھنے والی شخصیت کا نام ہے۔ بفضل اللہ تعالیٰ ان کی پوری زندگی علم وعمل دونوں سے آراستہ وپیراستہ تھی، دراصل آپ پورے معاشرے کو اپنی ذات کا ایک حصہ تصور کرتے ہوئے وہ پورے معاشرے کو نیکی ،بھلائی، فلاح وبہبود ، خدا ترسی، حسن اخلاق، بلند کرداری کے ساتھ متصف دیکھنے کے ہمیشہ متمنی رہے۔
انہوں نے نہ صرف اشاعت قرآن وسنت تک خود کو محدود رکھا بلکہ بے شمارفلاحی ورفاہی کاموں کے لیے بھی خود کو وقف کر رکھا تھا۔
پروفیسر ظفر اللہ مرحوم ومغفور غریبوں،بیواؤں،یتیموں، اپاہج، معذور ومجبور انسانوں کی خدمت کے ساتھ اسلامی، اصلاحی،دینی اور علمی اداروں کی ترقی وتعمیر کو بھی اپنی زندگی کا جز لاینفک تصور کرتے تھے۔
ان کی خدمات کا حلقہ وادی ریگستان تھرپارکر تک جاپہنچا تھا جبکہ 1978 سے باقاعدہ اشاعت علوم اسلامیہ کے لیے ان کا زندہ جاوید کارنامہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ جیسے دوررس ادارہ کا اجراء تھا اور ان کے سانحہ ارتحال کے بعد مؤقر مجلہ ماہنامہ’’اسوئہ حسنہ‘‘ کا اجراء ان کی یاد میں خالص قرآن وحدیث اور افکار علوم اسلامیہ کی اشاعت کے لیے تاہنوز جاری ہے۔ اس مؤقر مجلہ کو مزید خوب سے خوب تر بنانے کے لیے ہمارے مہربان فضیلۃ الشیخ محترم ڈاکٹر مقبول احمد مکی صاحب نے بیحد محنت سے مزید علمی ، ادبی آرگن کی حیثیت کا حامل بنایا ہے جس کے متعدد خصوصی نمبر علمی ادبی دنیامیں مقبول عام ہوئے۔ پھر 1997ء میں پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ کے اچانک سانحہ ارتحال سے قوم اپنے ایک عالی القدر سپوت سے محروم ہوکر قوم کی دیوار یں ہل گئیں۔
شوربرپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
پروفیسر مرحوم کیا ہی بلند اخلاق اور پُر کشش شخصیت کے مالک تھے کہ ان کی خدمات جلیلہ بھلانے سے بھی بھول نہ پائیں گی ان کی آبلہ پائی ہمیشہ کوئی نہ کوئی دشت پُر خار تلاش کر لیتی، ہردم فعال، ہر آن متحرک ، ہر لمحہ جہاں تازہ کی تلاش میں نظر آتے تھے ، اپنی شخصیت کے اعتبار سے مضطرب وحساس انسان تھے ، استغناء کے لحاظ سے ہمیشہ ان کی جبیں آس سجدہ روح سے آشنا تھیں جو ہزار سجدوں سے انسان کو بے نیاز کیئے دیتی ہیں۔
بفضل اللہ مجھے زندگی میں چند بار ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ہر بار ان سے ملکر دل ودماغ میں ایک شادابی سے آجاتی تھی گو کہ وہ ملاقاتیں مختصر تھیں مگر ان کے متبحر علم، وسعت مطالعہ،ثمرآور گفتگو، انکساری،درویش مزاجی،ان کے حلقہ احباب میں مقبولیت کا باعث تھی میں نے اندازہ لگالیا کہ وہ کیادردمنددل اور اتحاد امت کا پیامبر تھے۔
کہاں میں اورکہاں نگہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
میں نے ہمیشہ ان کی ذات میں حب قرآن ،سنت،توحید اور اتباع الرسول میں ان کو بیحد مخلص پایا ان کے ہونٹوں کا محبوب تبسم ، ان کی ہنسی کا ترنم جب یاد آتاہے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
پروفیسر صاحب دھیمی سروں میں دل کی گھبرائٹوں میں اتر جانے والی بات کہنے کے عادی تھے، آپ کمال درجہ کے سادگی پسند،دیانتدار،وفاشعار اور اسلاف کی روایت کے علمبردار تھے۔کتنا بھی کریدا جائے لیکن سچ پوچھیے ان کی اجلی قبا پر بدنما داغ ڈھونڈنا بیحد مشکل کام تھا۔
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
بعض اوقات دینی کاموں میں زیادہ انہماک ہونے کیوجہ سے دیندار لوگوں کے مزاج میں بھی خشکی اور حددرجہ سنجیدگی آجاتی ہے مگر پروفیسر صاحب کی سحر انگیز شخصیت میں شگفتگی وشادابی ہی تھی ان کے ہونٹوں پر ہرآن مسکراہٹ رقص کناں نظر آتی تھی، ان کی وسعت قلبی کا عالم بھی یکسر منفرد تھا ، وہ جمود کے مخالف اور اجتہادی فکر کے ہمیشہ حامی نظر آتے ۔ انہیں آخری دم تک نئی نئی علمی کتب پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق بھی بیحد تھا جس کے باعث اُن کا فکر وفہم ہمیشہ زرخیز ہی رہا۔
چند ملاقاتیں :
میری پروفیسر محمد ظفر اللہ سے چند ملاقاتیں کبھی بھول نہ پاؤں گا سب سے قبل تو وہ دن میرے لیے کسی عید سعید سے کسی طرح کم نہ تھا جبکہ میرے استاد ذی وقار محدث العصر علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی(م 1995ء) نے ناچیز راقم الحروف ، علامہ سید محمد قاسم شاہ راشدی اور دیگر علماء عظام جو کہ مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈو سے تازہ فارغ ہوئے تھے ان کی تقریب دستاربندی کے موقع پر ایک باوقار ،پُرشکوہ کانفرنس منعقد کی تھی جس میں ’’تقریب بخاری‘‘کے بعد پروفیسر محمد ظفر اللہ،پروفیسر محمد یامین محمدی (م 1992ء)، علامہ عبد الخالق رحمانی(م 2006ء) وغیرہم جیسے زعماء نے اپنے مبارک ہاتوں سے ہمارے سروں پر دستارفضیلت سجائی(جو بفضل اللہ تاہنوز سنبھالے ہوئے ہوں) ایک بار پروفیسر محمد ظفر اللہ جو میرے عموی المعظم مولوی عبد الخالق سندھی کے رفیق شفیق تھے ان کے ہاں سچل گوٹھ کراچی میں مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں تشریف لائے وہ ملاقات بھی میں کبھی بھول نہ پاؤں گا جس میں محترم مولانا عبد الخالق سندھی کے علاوہ برادر عزیز محترم ارباب محمد انس حفظہ اللہ بھی شامل تھے۔ وہاں پر اُن کی باتیں اِس وقت بھی کانوں میں بازگشت دے رہی ہیں ۔تیسری بار جب پروفیسر محمد ظفر اللہ گورنمنٹ ڈگری کالج مٹھی اور پھر 21 مارچ 1993ء کو ڈیپلو تھرپارکر میں جناب راشد رندھاوا ،حکیم محمد سعید اور سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مظفر حسین شاہ کے آنے سے قبل تھرپارکر کی سرکاری امداد کرنے کی غرض سے مٹھی اور پھر ڈیپلو تشریف فرما کر پورے انتظامات کرنے آئے تھے جس میں محترم پروفیسر حافظ محمد کھٹی نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔
اب ایسے لوگ تم کہاں سے لاؤ گے
ڈھونڈنے نکلوگے لیکن ہمیں نہ پاؤ گے
پیدائش اور ہجرت :
ٖپروفیسر محمد ظفر اللہ متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ تحصیل روپڑ کے ملک پور گاؤں میں علاقہ کے انتہائی دیندار، دیانتدار اور نیک نام شخصیت مرحوم چوہدری عطاء اللہ کے ہاں 20 مئی 1943ء میں پیدا ہوئے، چوہدری عطاء اللہ انتہائی دیانتدار ،پاکیزہ فکر کے مالک علماء کرام سے محبت کرنے والے،روزہ،نماز، ارکان اسلام پر خوش دلی سے عمل کیا کرتے تھے جبکہ تقسیم وطن کے وقت پروفیسر محمد ظفر اللہ صرف چار سال کے تھے پھر انہوں نے اپنے ہونہار کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے مستجاب الدعوات بزرگ علوم اسلامیہ کی ماہر ہستی محمد عبد اللہ المعروف بہ صوفی محمد عبد اللہ کے اولین مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد میں داخلہ کرایا جس کے بعد مرحوم صوفی محمد عبد اللہ نے ایک اور دینی دانش گاہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن بھی تعمیر کرائی جہاں پروفیسر محمد ظفر اللہ نے رضاکارانہ اور حصول ثواب کی نیت سے محنت کش مزور کی طرح بھی حصہ لیا، اس حرارت ایمانی کو دیکھتے ہوئے مولانا صوفی محمد عبد اللہ صاحب پروفیسر صاحب کے لیے بار بار دعائے خیر کرتے رہے اور ان کے جذبۂ ایمانی کو دیکھ کر ہمیشہ دست بدعا رہے۔
پروفیسر ظفر اللہ کا خانوادہ پہلے انڈیا سے ہجرت کرکے پنجاب تشریف لایا جہاں سے آپ باب الاسلام سندھ کراچی تشریف لائے جہاں انہوں نے تعلیم کے بقایا مراحل طے کیے اور آخر میں کراچی یونیورسٹی سے دوسری پوزیشن میں ایم۔اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔ کراچی سے قبل آپ پنجاب کے چک 14/L۔10 فوجیاں والا نزد اقبال نگر تحصیل چیچہ وطنی ضلع ساہیوال میں آکر سکونت اختیار کی ، یہ معلومات بھی کم ہی لوگوں کو ہوگیں کہ پنجاب سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی سے پہلے آپ اندرون سندھ قاضی احمد ضلع نوابشاہ کے قصبہ میں بھی کچھ وقت کے لیے مقیم رہے تھے۔جہاں ان کے بھائیوں کی زرعی زمین بھی تھی ، جس کے بعد آپ کراچی تشریف لائے تھے۔عجیب آزمائش تھی کہ ان کی والدہ ماجدہ بھی ان کے بچپن ہی میں انتقال فرماگئیں جس کے بعد ان کی اعلیٰ تعلیم وتربیت میں ان کی خالہ محترمہ کا بڑا اہم حصہ تھا۔
تعلیم وتربیت :
پروفیسر محمد ظفر اللہ نے ابتدائی تعلیم اقبال نگر کے پرائمری اسکول پاس کرنے کے بعد ان کے والد مرحوم نے ان کو اپنی نئی قیام گاہ کے قریب 270 گ ۔ ب پیر محل کے اسکول سے مڈل پاس کرایا جس کے بعد مورخہ 13 مارچ 1956ء کو پروفیسر ظفر اللہ اور ان کے برادر مکرم چوہدری ہدایت اللہ نے وطن عزیز کے نہایت شاندار اور معیاری ادارے جامعہ تعلیم الاسلام اوڈانوالہ ماموں کانجن میں داخلہ لیا جہاں اس وقت بیحد روح پرور پاکیزہ ماحول اور انتہائی معیاری تعلیم تھی پھر ان دونوں بھائیوں نے ادارے کا نصاب تعلیم جو چھ سال پر مشتمل تھا محنت شاقہ سے بفضل خدا تکمیل تک پہنچایا۔ تقریبا 1964ء میں ان بھائیوں کو دستار فضیلت سے نوازا گیا ان کے اساتذہ کرام میں مولانا عبد الرشید ہزاروی،مولانا محمد رفیق ، مولانا عبد الصمد، مولانا محمد صادق خلیل ،پیر محمد یعقوب وغیرہم رحمهم اللہ اجمعین تھے ان سے آپ نے صرف،نحو، ادب، تفسیر، اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، منطق وفلسفہ جیسے مروجہ علوم سے فراغت حاصل فرمائی۔
آپ اپنے وقت کے بے انتہا محنتی اور ذہین طلبہ میں شمار ہوتے تھے انہوں نے درس نظامی کے ساتھ علوم شرقیہ میں مولوی فاضل کے امتحانات بھی نمایاں نمبروں میں لاہور سے پاس کیئے تھے۔
آپ جامعہ تعلیم الاسلام سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد مزید اکتساب علم کی غرض سے موضع گمانی، بھاولپور نزد دین پور میں داخلہ لے کر مزید معقولات ومنقولات کی کتب بھی بڑی محنت سے پڑھیں اور نام کمایا علوم عربیہ کی تکمیل کے بعد انٹرمیڈیٹ، بی اے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی نمبروں سے پاس کیے انہوں نے ایک عرصہ تک جامعہ اسلامیہ بھاولپور سے بھی اکتساب علم کی سعادت حاصل کی، اپنے اساتذہ میں آپ کو مولانا محمد عبد اللہ صوفی بانی جامعہ تعلیم الاسلام سے بے پناہ محبت،یگانگت اور عقیدت تھی چونکہ صوفی محمد عبد اللہ انتہائی عالم باعمل،متقی اور مستجاب الدعوات شخصیت کے مالک تھے چنانچہ ایک بار مرحوم صوفی عبد اللہ نے پروفیسر محمد ظفر اللہ کے دینی جذبہ،تحصیل علم اور دینی جذبۂ للہیت کو دیکھ کر اُن کے لیے عاجزی وانکساری سے دعا فرمائی کہ یا اللہ تو دست غیب سے محمد ظفر اللہ کی مدد فرما جس کے نتیجہ میں انہوں نے اسلامی علوم عصریہمیں تکمیل کے بعد آپ کو جلدی کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات میں لیکچرار مقرر کیاگیا پھر ایک دن صدر شعبہ اسلامیات بن گئے۔ (صوفی محمد عبد اللہ از مولانا محمد اسحاق بھٹی)
پروفیسر محمدظفر اللہ ، خلق خدا کے ہمدرد ، علماء عظام کے بے حد قدردان ، طلباء کے لیے مجسمہ شفقت، غٖرباء وفقراء کے معاون ومددگار، مستحقین کے معاون ، اتحاد امت کے عظیم علمبردار تھے ۔
یہ شاید انکی دور اندیشی ، وسعت ظرفی ، عالمگیر نگاہ عمیق تھی کہ انہو ں نے ملک و بیرون ملک صحیح اسلامی منہج بھائیوں کی تعلیم وتربیت ، دعوت وتبلیغ ،تزکیہ نفس کا بیڑا اٹھا یا ہوا تھا وہ دیگر مسالک کے متلاشیان کتاب و سنت کو بھی دامن دل میں جگہ دے کر ھدی الناس کے ایماء کی بجا آوری فرمایا کرتے تھے ۔آپ نے کراچی یو نیورسٹی میں اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر نماز عشاء ۳۵ کلو میٹر دوردنبہ گو ٹھ میں ادا کرتے تو صلاۃ الفجر کی امامت ۴۰ کلو میڑ دور شریں جناح کالونی کلفٹن میں ادا کرتے نہیں تھکتے تھے چلتے پھرتے تبلیغ وتلقین ، تلاوت ، ذکر اذکار ، تعلق باللہ ،و حقوق العباد، تزکیہ نفس انکی زندگی کا مقصد نظر آتا تھا وہ دنیا میں قرآن وسنت کا بول بالا ہونے کے لیے پوری حیا تی کوشاں رہے ،آپ ہمیشہ اسلامی مدارس وجامعات میں اصطلاحات کے متمنی رہے تاکہ معاشرہ میں اسلامی تشخص قائم ہو سکے ،بلاشبہ پروفیسر محمد ظفراللہ رحمہ اللہ ایسے نفوس قدسیہ میں تھے ۔ جو ایک مختصر وقت کے لیے اس جہا ں رنگ وبو ء میں تشریف لائے اور ایک عہد ایک ادارہ کا کام کر کے چلے گئے ،
ایک ہی قانون عالم گیر کے ہیں سب اثر
بوئے گل کا باغ سے گلچیں کا دنیا سے سفر
آپ اپنے وقت کے علمائے عظام کے بھی بیحد قدردان تھے ،وہ بیک وقت ،شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی ، محدث العصر علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی ، علامہ احسان الہی ظہیر ، علامہ محمد یحی میر میر محمدی مولا نا عبدالغفار حسن ،مثالی محدث سلطان محمود آف جلالپور اورپروفیسر ظفر اقبال جیسے اپنے عہد کے اکابرین کو اپنے ساتھ کارواں محبت میں لے چلے ، ان کی کشادہ دلی ، وسعت ظرفی بلندخیالی نے مختصر وقت میں ایک بلند مقام پر پہنچا دیا۔
تھرپارکرمیں مساعی جمیلہ
پروفیسر محمد ظفر اللہ رحمہ اللہ نے وطن عزیز کے انتھائی دور افتادہ،پسماندہ،صحرائی اور سرحدی علاقہ تھرپارکرمیں تبلیغ دین متین کےساتھ غریب،مفلوک الحال،قحط زدہ لوگوں کی معاونت میں بلاشبہ مثالی کرداراداکیا،21 مارچ 1993میںپروفیسرمحمد ظفراللہ رحمہ اللہ اپنے دیگر ساتھیوںکے ساتھ تھرپارکرڈیپلومیں پروفیسرحافظ محمد کھٹی صاحب کےہاں تشریف لائےجہاں اس وقت کےوزیراعظم میاں محمد نوازشریف،نےبیت المال سےایک گرانقدررقم مختص کر کےتھرپارکر کےغریب اور نادار لوگوں کی براہ راست خود تشریف فرما کر مالی معاونت کے چیک مستحقین میں تقسیم کرنےکاپروگرام بنایا جس میں بیت المال کے ذمہ دار ڈاکٹر محمدراشد رندھاوا، مرحوم حکیم محمد سعید ہمدرد فاونڈیشن ، سندھ کے وزیر اعلی سید مظفر حسین شاہ جیسے حضرات شامل تھے ،مقامی لحاظ سےڈیپلو کے دیگر زعماء کے علاوہ پروفیسر حافظ محمد کھٹی نے بےانتھاذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقدار لوگوں کی نشاندہی فرمائی اوراتنے بڑےپروگرام کا خود ذمہ لیا۔ اور بڑی محنت کے بعد مستحقین کی لسٹ تیار کرائی۔ جس کو یادکر کےآج بھی پروفیسر ظفر اللہ کو تھر پارکر کے لوگ خوب دعائیں دیتے ہیں۔ اس پروگرام میں پروفیسر اپنے خا ص معتمد جناب ارباب انس صا حب دوسانی کو بھی ساتھ لائے۔اس کے علاوہ ایک بار سعودی عرب سے کوئی مخیر شیخ تشریف لائے تو ان کو بھی اپنے ساتھ لے کر پروفیسر ظفر اللہ ڈیپلو تھر پارکر تشریف فرما ہو ئے پھر مقامی مستحقین کی نقد ی رقم کے طور پر خو ب مدد فرمائی ،یہ ایک رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔پروفیسر صاحب ایک بار ہمارے گورنمنٹ ڈگری کالج مٹھی میں حافظ محمد کھٹی کے مہمان بھی ر ہےنہ صرف مٹھی اور ڈیپلو رشریف لائے بلکہ اندرون سندھ لیا کھڑو گوٹھ حاجی محمد ابر اہیم سموں کے ہاں تشریف فرما ہوکر دعوت وتبلیغ کے ساتھ فقراء وغرباء کی مالی معانت فرمائی اسی طرح پنجاب ، سندھ ، اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں بھی انکے فلاحی منصو بے آج بھی انکی یاد دلارہے ہیں۔ پروفیسر محمد ظفر اللہ نے میرپورخاص کی مشہور ومعروف دینی درسگاہ مدرسہ جامعہ بحر العلوم سلفیہ میں فضیلہ الشیخ پروفیسر افتخار احمد الازہری اور مہتمم مدرسہ محترم حاجی محمد اسماعیل میمن کےہاں آکر جامعہ کے وسیع و عریض ہاسٹل کی تعمیر میں بھی تعاون فرمایا ۔ جس کا شیخ افتخار الازہری عموما ذکر خیر کیا کرتے ہیں ۔ بحر حا ل ایسے مخلصین اب ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ، تھرپارکر کے علاوہ پورے سندھ میں انکی دینی خدمات نمایاں تھیں صرف کراچی میں 20 سے زائد مساجد کاوجودمسعود انکے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچا ۔ للہ الحمد والمنۃ
کلیوں کو میں سینے کا لہودے کے چلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرےگی
جامعہ ابی بکر الاسلامیہ
پروفیسر محمد ظفر اللہ نے کراچی یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے سر براہ ہونے کے باوجود کراچی یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جامعہ ابی بکر پہنچ جاتے تھے ۔ پھر ہر شعبہ کو اپنی جہاندیدہ نگاہوں سے دیکھ کر تسکین قلب کر لیا کرتے تھے ۔ پروفیسر محمد ظفر اللہ نے گلشن اقبال میں تقریبا ایک ایکڑ زمین کے حصول کے لئے بھی بیحد محنت فر مائی ، جس کے بعد جاکر کامیاب ہوئے جامعہ ابی بکر کی دیگر متعدد خصوصیات سے ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس کا ذریعہ تعلیم عربی مبین ہے۔ جامعہ کا نصاب تعلیم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ محمد بن سعود سے ہم آھنگ کرنے میں بھی آپ نے بیحد محنت کی جامعہ کے ذی وقار اساتذہ کا تقرر بھی عالم اسلام کی معیاری جامعات کے باوقار اساتذہ سے کیا جاتا ہے ۔ تا کہ فراغت کے بعد جامعہ ابی بکر کے اساتذہ وطن عزیز کے چپے چپے اور بیرون ملک جاکر قال اللہ وقال الرسول ﷺ جدید تقاضوں کے تحت عوام کے دامن علم کو علوم و معرفت سے پر کر سکیں ۔ایسے میں پروفیسرمرحوم نے اپنی پوری خدادادصلاحتیں مختصر حیاتی میں افکار علوم اسلامیہ کے لئے پوری طرح وقف کر دیں تھیں ۔
چونکہ قرآن و سنت کی تعلیم و تربیت ان کا مقصد حیات تھا، ایک زمانہ تو جامعہ میں ایسا بھی آیا جب اپنے عہد کے کبارعلماءکی عظیم الشان پوری جماعت حقہ طائفہ منصورہ نے یکجان ہو کر اس ادارہ کو دنیاکا مثالی ادارہ بنانے کی بھر پور کاوشیں کیں ان علماء عظام فضلاءکرام میں فضیلہ الشیخ پروفیسر محمد ظفر اللہ ، علامہ عبداللہ ناصر رحمانی ، علامہ حافظ مسعود عالم ،ڈاکٹر خلیل الرحمٰن لکھوی ، شیخ عطاءاللہ ساجد، حافظ عبد الغفار المدنی ، علامہ محمد یعقوب طاہر اور الشیخ عمر فاروق السعیدی حفظہم اللہ جیسے یگانہ روزگار علماءکبار نے ملکر اس ادارہ کو ایک مثالی ادارہ بنانے کی جدوجہد کی ، مختصرا جامعہ کے نصاب تعلیم میں بنیادی مقصد عقیدہ سلف الصالحین کی نشر و اشاعت ،اتحاد و اتفاق امت، استاد و شاگرد کا روحانی رشتہ پھر سے استوار کرنا تھا ، عربی پر دسترس عربی میں طلباءکی بات چیت کو پختہ کر کے عر بی پر قدرت رکھنا تھا، جس میں دو سال تک اللغۃ العربیہ، المعھد العلمی الثانوی جس میں چارسال میں مروجہ علوم وفنون ، باالخصوص تفسیر، حدیث، فقہ،سیرت، تاریخ، صرف و نحو ،ادب و بلاغت، میراث اور دیگر علوم اسلامیہ پڑھائے جاتے تھے۔ تیسرا مرحلہ الکلیۃ الحدیث، جو تین سال پر محیط تھا، جس میں حدیث، متعلقات الحدیث پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، جامعہ کے اساتذہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ، دیگر ممالک عرب کے جامعات سے فارغ التحصیل کہنہ مشق علماء کرام فن تدریس دیا کرتے ہیں اور علوم عصریہ ، کمپیوٹر وغیرہ کی معلومات بھی فراہم کی جاتی ہیں ، اس کے علاوہ جامعہ میں مختصر دورانیہ کے خصوصی کورسز بڑی محبت سے کرائے جاتے ہیں ۔ جن میں طلباءکی رہائش خورد و نوش کے انتظامات بھی جامعہ کی جانب سے کیے جاتے ہیں۔ اور تقریبا 95 کے قریب کمرے طلباء کی رہائش میں کام آتے ہیں ، جامعہ میں انشا پردازی پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے،جس کا بعض اوقات”ماہنامہ اسوئہ حسنہ”میں خوبصورت مظاھرہ نظر آتا ہے ۔ہر سال باقائدگی سے طلباء کی ایک اچھی تعداد پی، ایچ ، ڈی اساتذہ سے استفادہ کرتی ہے ۔جامعہ کی باوقار لائبریری بھی پچاس ہزار سے زائد نایاب ونادر کتب سے مزین ہے جس کا قیام 1987 ءمیں پروفیسر ظفر اللہ کی پُر خلوص محنت سے عمل آیا تھا۔
پروفیسر محمد ظفر اللہ ایک مورخ اہل حدیث کی نظر میں
بقول ذہبی دوران مولانا محمد اسحاق بھٹی متوفی 2015ء پروفیسر محمد ظفر اللہ نے 1980ء سے 1985ءتک پورے پانچ سال ریاض کی جامعہ امام محمد بن سعود میں تحصیل علم کے دوران وہاں کی انتظامیہ ، علماء، اساتذہ سے جامعہ ابی بکر کے نصاب ومعیا ر تعلیم کی بابت خاکہ تیار کیا، یہ کہ وہ اپنے اس تعلیمی و تر بیتی مرکز کو بر صغیر کے تمام مراکز سے منفرد مقام دینے کے خواہاں تھے پھر جب جامعہ تیار ہوا تو اس کے داخلہ کا بلند معیار رکھا ، جس میں وطن عزیز پاکستان کے طلباء جوتعداد میں کم تھے چونکہ صرف انھی تشنگان علم کو داخلہ دیا جاتا تھا جن کا معیار تعلیم بلند ہو ، باقی دیگر اسلامی وغیر اسلامی دنیا کے طلباءمیرٹ پر داخل ہو کر فارغ ہوئے ۔ پھر اس کے فارغ تحصیل علماءعظام نے تقریبا 45مختلف ممالک میں تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دئیے ۔ ادارے کے موسس پروفیسر محمد ظفر اللہ بھی بہت سی خصوصیات کے حامل تھے ، ہمدرد ، خیر خواہ ، امور خیر میں معاون ، اچھے دوست ، دل کے صاف ، معاملے کے کھرے ، طلباءکے لئے سراپا شفقت اساتذہ کے لئے پیکر احترام سب کے دکھ میں شریک ، وسیع تعلقات رکھنے والے ، گفتگو میں نرم اور سنجیدہ ، تلاوت قرآن عظیم کثرت سے کیا کرتے تھے ، انکے حریم قلب میں فروغ علم کا ایک خاص داعیہ موجزن تھا ۔ (ماخوذ صوفی محمد عبداللہ ، حالات، خدمات ،آثار،ص291 وغیرہ ملخص،اشاعت ادارہ شاکرین لاہور اشاعت اول 2006ء)
حلیہ
درمیانہ قد، گندمی رنگت،شلوار قمیص سر پر قراقلی ٹوپی یا جناح کیپ، مکمل ریش، با رعب چہرہ ، سادہ کھاتے اور سادہ پہنتے تھے، صاف ستھرا لباس خوش کلام ،خوش الحوار ، اور خوش کردار نیک خاندان کے نام رکن دل کی طرح کھلا ماتھہ ،کثیر المطالعہ ومشاہدہ ، علماءعظام کے قدردان تھے ۔
انتقال پر ملال
بلاشبہ موت ایک بنیادی حقیقت ہے ، لیکن بعض اموات بھی اس قدر اندوھناک ہوتی ہیں کہ عرصہ تک انسان بھلا نہیں پاتا، آپ نے بہت قلیل عمر پائی ابھی عہد شباب ہی میں تھے کہ صرف 54سال کے ہوئے تھے کہ خالق کائنات کی بارگاہ سے طلبی کا پروانہ آ گیا۔
ہم زباں چپ ہوگئے ہم داستاں چپ ہوگئے ۔ کیسے کیسے محفل آراء نا گہاں چپ ہوگئےپھر وہ ایک ایسی زندگی میں داخل ہوگئے کے زندگی میں ” خالدین فیھا” کی تصویر ہے مورخہ 30جون 1997ء کی ایک ایسی بھی شب غم تھی کہ آپ کراچی کے لئے لاہور سے روانہ ہوئے تھے درمیان راستہ میں رحیم یار خان کے قریب انکی گاڑی ایک درخت سے جاکر ٹکرائی جس میں انکے ہمراہ دو جواں سال بیٹے ، بھانجہ اور ایک خالہ تھیں سب نے داعی اجل کو لبیک کہا “إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ” انکی ناگہانی اور المناک موت نے یادوں کے دریچے وا کر دیئے ۔
خواب تھا جو کچھ دیکھا ۔جو سنا افسانہ تھا۔
اللہ تعالی انکی حسنات کو قبول فرمائے اور سیئات سے درگذر کرے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین
ایسے میں میں عالم تصور میں مرحوم کے مرقد پر کھڑے دکھی دل سے قدرے تصرف سے کہہ رہا ہوں،
یا قبر ظفر اللہ کیف ودیت علمہ
وقد کان منہ البر والبحر متدعا
۔۔۔