علوم اسلامیہ کی عظیم بین الاقوامی دانشگاہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اس سال سند فراغت حاصل کرنے والے علماء کرام کے اعزاز میں 35 ویں سالانہ عظیم الشان فقید المثال تقریب تکمیل صحیح البخاری 14 اپریل بروز اتوار 2019ء کو بڑے تزک واحتشام کے ساتھ منعقدہوئی۔ تقریب دونشستوں پر مشتمل تھی۔ پہلی نشست بعد از نماز عصر منعقد ہوئی جس میں اسٹیج سیکٹری کے فرائض جامعہ کے استاد فضیلۃ الشیخ ابو زبیر محمد حسین رشید حفظہ اللہ نے انجام دیئے۔خطبہ مسنونہ کے بعد محترم شیخ صاحب نےاپنے مخصوص انداز سے اشعار پڑھ کر تقریب سعید میں سماں باندھ دیا۔

جستجو ہے کہ خوب سے خوب تر ہو یہاں                                پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا

اور ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہی                  بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا

تقریب کا باقاعدہ آغاز المعہد الرابع کے طالب علم قاری صدیق الرحمن کی مسحور کن آواز میں تلاوت کلام پاک سے ہوا، تلاوتِ کلام پاک کے بعد نظم کے لیے مرکز اول کے طالب علم ربیع الرحمن کو دعوت دی گئی جنہوں نے ’’اگر یہ مدارس مساجد نہ ہوتے‘‘ اس نظم سے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس کے بعد تقریر پیش کرنے کے لیے کلیۃ الحدیث الشریف کے طالب علم محمد تنویر کو دعوت دی گئی جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ’’اصلاح معاشرہ میں مدارس اسلامیہ کے کردار ‘‘ کے عنوان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے بعد اس نشست کے مہمان خصوصی بقیۃ السلف استاذ العلماء حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی کہ وہ خطاب فرمائیں اور انہیں ’’حالات حاضرہ میں مدارس کی ذمہ داریاں‘‘ عنوان دیاگیا تھا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیخ محترم کا کہنا تھا کہ مدارس اسلامیہ اور دینی مراکز اس وقت فتنوں کی لپیٹ میں ہیں لیکن ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ زندگی ایک امتحان گاہ ہےاور زندگی کی ان راہوں میں آزمائشیں آتی ہیں ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً (الانبياء:35)

نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ایمان سے منور کردیں اور انہیں قرآن کریم جیسی مقدس کتاب بھی عطا کی گئی جس کا مقصد ہی لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف راہنمائی کرنا۔

كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (ابراهيم:1)

اور اللہ تعالیٰ نے علماء کو انبیاء کرام کا وارث بنایا ، علماء اور اہل مدارس انبیاء کرام کے مشن کے امین ہیں اور نورِ نبوت کو پھیلانا اور اس کو عام کرنا علماء کی ذمہ داری ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ کے فرمان

فَلْيُبَلِّغُ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ

کے تحت اہل علم کو چاہیے کہ انبیاء کے مشن کی تکمیل کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں اور یہ کام ہر دور میں بڑا مشکل اور صبر آزما رہا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بارہا صبر کی تلقین کر رہے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ اور  فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا

حافظ مسعود صاحب کے خطاب کے ساتھی ہی پہلی نشست اپنے اختتام کو پہنچی۔

دوسری نشست : 

دوسری نشست کا آغاز نمازِ مغرب کے فوراً بعد ہوا اس نشست میں اسٹیج سیکٹری کے فرائض فضیلۃ الشیخ محمد طاہر آصف حفظہ اللہ نے سر انجام دیئے۔ جنہوں نے بڑے احسن انداز میں یہ فریضہ سرانجام دیا ، دوسری نشست کا باقاعدہ آغاز کلیۃ الحدیث الشریف کے طالب علم قاری نعیم الرحمن کی دلنشین آواز میں تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ تلاوت کے بعد کلمۃ ابناء الجامعہ کے لیے 2009 میں جامعہ سے سند فراغت حاصل کرنے والے اور ملائیشیا(Malaysia)سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان الشيخرضوان بن عبد الغنی کو اسٹیجپر مدعو کیاگیا ۔ الشیخ رضوان بن عبد الغنی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے اور اپنے تمام دوستوں کی جانب سے جنہوں نے اس جامعہ سے تعلیم حاصل کی ۔ اہل پاکستان کا اور بالخصوص جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور اساتذہ کرام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتاہوں۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے بارے میں جو میرے جذبات ہیں اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ ان کے بعد عربی مکالمہ پیش کرنے کے لیے مرکز اللغۃ العربیۃ کے دو طلبہ سعود فیصل اور محمد عثمان کو اسٹیج پر بلایاگیا انہوں نے بڑے دلچسپ انداز میں اپنا مکالمہ پیش کیا۔بعد ازاں کلمۃ الجامعہ کے لیے فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیاگیا، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں ان حضرات کا شکریہ ادا کرتاہوں کہ جنہوں نے اس جامعہ کی سنگ بنیاد رکھی اور آج جس کے ثمرات ہم دیکھ رہے ہیں اور اس موقع پر آج مجھے والد گرامی یاد آرہے ہیں جنہوں نے بڑی مشقتیں جھیل کر اس گلشن کی آبیاری کی ، محترم پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ سنتے ہی اسٹیج پر موجود علماء کرام ان کے فراق پر آبدیدہ ہوگئے پھر الشیخ ضیاء الرحمن حفظہ اللہ نے تمام مہمانان گرامی اساتذہ اور دیگر حاضرین مجلس کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تعلیمی مراحل کا تعلق صبرسے ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : 

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ  (الكهف:28)

سے سبق ملتاہے کہ اساتذہ دوران تعلیم صبر کا دامن تھامے رکھیں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد :

 إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا  (الكهف:67)

سے طلبہ کے لیے بھی صبر کا درس ملتاہے۔ ہمیں یہ تمام مراحل صبر سے ہی طے کرنے چاہیے اور اگر ہم نے اس مرحلے کو عبور کر لیا تو پھر اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجردیتاہےاس کے بعد کلمۃ الطالب کے لیے امسال سند فراغت حاصل کرنے والے طالب علم عبد الرحمن بن عبد الخالق کو دعوت دی جنہوں نے تعلیمی مراحل کے اختتام پر جامعہ کے اساتذہ اور دیگر انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ان شاء اللہ ہم آخری دم تک اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کوشاں رہیں گے۔ اور اسی مقصد کے لیے جامعہ نے ہمیں نوسال کے طویل عرصے تک پڑھایا۔ اس کے بعد درس بخاری کے لیے فضیلۃ الشیخ استاذ العلماء شارح صحیح البخاری حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی جو کہ درس بخاری کے لیے میاں چنوں پنجاب سے تشریف لائے تھے۔ شیخ محترم نے مختصر حمد وثناء کے بعد درس کا آغاز سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا سے کیا :

وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ  وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ(الشعراء:84۔85)

اور فرمایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا یہ نسخہ ہے کہ آج ہر ایک مذہب اور فرقہ اپنی نسبت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرنا باعث فخر سمجھتاہے۔

صحیح البخاری بھی انہی باقیات صالحات میں سے ہے اور یہ پروقار تقریب بھی لسان صدق کی ترجمانی کر رہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تالیف کے لیے بڑی مشقتیں اٹھائی ، اسی طرح دیگر محدثین نے بھی طلب حدیث کے لیے بڑی مشقتیں اٹھائی ، امام بقی بن مخلد نے طلب حدیث کے لیے تین براعظم ایشیا افریقہ اور یورپ کا سفر کیا اورامام بخاری نے حدیث کے حصول کے لیے تقریباً چودہ ہزار کلومیٹر سفر کیا۔ اور یہ کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کی سولہ سالہ جہد مسلسل کا نتیجہ ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ کتاب صرف حدیث کے موضوع پر نہیں لکھی بلکہ اس کتاب میں امام بخاری نے یہ منہج دیا کہ انسانی ہر ضروریات کا حل کتاب وسنت میں موجود ہے۔

پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب کو لکھ کر اُس وقت کے کبار علماء عظام کے سامنے پیش کی تو انہوں نے اس پر امام بخاری کی موافقت کی ، صرف چار احادیث پر نقد ہوئی کہ یہ امام بخاری کی شروط کے مطابق نہیں ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ تمام فتنوں کے سامنے دیوار ہیں ۔ تصوف ، تکفیر، اباحیت،اہل الرائے ان تمام فتنوں کا صحیح بخاری میں ردّ کیا ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے امت اسلامیہ کو ایک آزادی فکر دی کہ وہ براہ راست اپنے مسائل کا حل کتاب وسنت سے حاصل کر سکتے ہیں۔

اور امام بخاری کا صحیح بخاری کی تالیف کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس وقت اس فکر کو عام کیا جارہا تھا کہ انسانی ضروریات لامحدود ہیں اور آیات قرآنیہ اور احادیث محدود ہیں لہذا لامحدود کو محدود سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ انسان کی تاقیامت آنے والی ضروریات کا حل کتاب وسنت میں موجود ہے۔ چنانچہ انہوں نے انہی ضروریات کو شمار کرتے ہوئے 97 انسانی ضروریات کو گنوایا یعنی ستانوے کتابیں اور پھر ہر کتاب کے نیچے ابواب قائم کیئے۔

اور پھر امام بخاری نے نص سے استنباط کرنے کے طرق بتلائے ایک ہی حدیث سے کئی کئی مسائل استنباط کیے چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جو تہجد کے متعلق ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کھڑے ہوئے ….. اس حدیث کو بائیس جگہ پر ذکر کیا اور اس سے بائیس مسائل استنباط کیے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ نظریہ ہے کہ مصالح پر نظر رکھنی چاہیے لیکن کبھی بھی نصوص کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔

اس کے ساتھ ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس دور میں چلنے والی گمراہ کن تحریکوں پر بھی گہری نظر تھی اس لیے انہوں نے اپنی کتاب میں گمراہ فرقے جھمیہ ،معتزلہ ، قدریہ ، جبریہ ، خوارج اور دیگر کی تردید کی اور صحیح بخاری کی آخری کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

کتاب التوحید میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام فرق باطلہ کا رد کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق گمراہ کن عقائد رکھتے تھے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے آخر میں حدیثِ وزن اعمال ذکر کی اور ابتداء حدیث اخلاص سے کی اور یہ ثابت کیا کہ عمل کی قبولیت ان دو کے بغیر ممکن نہیں اور اخلاص کیسے پیدا ہوگا اس سلسلے میں محترم الشیخ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کا ایک قول پیش کیا کہ اگر تین کام کر لو گے تو عمل میں اخلاص آجائے گا۔

1 عمل کرتے وقت یہ نیت کی جائے کہ مجھ سے میرا رب راضی ہوجائے

2 عمل جنت کی لالچ میں کیا جائے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے : وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (الزخرف:72)

3 عمل جہنم سے ڈرتے ہوئے کریں ۔

اور اسی پر شیخ صاحب کے درس کا اختتام ہوا اس کے بعد نتائج کے اعلان کے لیے مدید الامتحانات ڈاکٹر محمد افتخار احمد شاہد کو اسٹیج پر بلایاگیا اور انہوں نے طلبہ کے سالانہ نتائج کا اعلان کیا اس کے بعد مختلف مہمانان گرامی کے ہاتھوں فارغ التحصیل طلبہ کی دستاربندی اور انہیں قیمتی تحائف سے نوازا گیا۔

اور آخر میں اختتامی کلمات کے لیے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے سرپرست بقیۃ السلف محمد عرف عائش حفظہ اللہ کو مدعو کیاگیا انہوں نے اپنی دعا کے ساتھ اس پُروقار تقریب کا اختتام کیا۔ اس کے بعد نمازِ عشاء ادا کی گئی اور عشاء سے متصل بعد مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام کیاگیا اور اسی کے ساتھ ہی یہ تقریب سعيد اپنے اختتام کو پہنچی۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے