قربانی کے جانور کےلیے یہ شرط لگائی گئی ہے کہ

لَا يُضَحَّى بِالْعَرْجَاءِ بَيِّنٌ ظَلَعُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْعَوْرَاءِ بَيِّنٌ عَوَرُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْمَرِيضَةِ بَيِّنٌ مَرَضُهَا،‏‏‏‏ وَلَا بِالْعَجْفَاءِ الَّتِي لَا تُنْقِي

ایسے لنگڑے جانور کی قربانی نہ کی جائے جس کا لنگڑا پن واضح ہو، نہ ایسے اندھے جانور کی جس کا اندھا پن واضح ہو، نہ ایسے بیمار جانور کی جس کی بیماری واضح ہو، اور نہ ایسے لاغر و کمزور جانور کی قربانی کی جائے جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو ۔( سنن ابن ماجہ : 3144 ، سنن ابی داود : 2802 ، سنن نسائی : 4374 ، سنن ترمذی : 1447 )

قربانی کا جانور لیتے وقت ہم بارہا اسے جانچتے ہیں کہ کہیں اس میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے ہماری قربانی ضایع ہوجائے لیکن وہ ہی لوگ نہیں معلوم کیوں اپنے اعمال اور کردار پہ ذرا بھی دھیان نہیں دیتے کہ ہمارے اعمال کیسے ہیں؟ اور ہمارا کردار کیسا ہے ؟کہیں ایسے تو نہیں کہ ہمارے سیاہ اعمال کی وجہ سے روز محشر ہم بھی بارگاہ الٰہی میں قبولیت سے محروم نہ ہوجائیں یہ قربانی کےلیے خریدا گیا جانور ہمیں قربانی کےلیے ذبح ہونے تک گویا ایک نصیحت دیتا رہتا ہے کہ انسان جیسے تو مجھے سنبھال کر رکھتا ہے کہ کہیں قربانی سے قبل مجھ میں کوئی ایسا عیب نہ آجائے جس کی وجہ سے میں بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہو پاؤں تو پھر تو اپنی بھی حفاظت کر کہیں تیرے برے اعمال کی وجہ سے باری تعالی تجھے بھی رد نہ کردے اگر اللہ تعالی کے ہاں قبول ہونا چاہتا ہے تو پھر یاد رکھ کہ :

إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا

اللہ تعالی کی ذات خود بھی پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی قبول کرے گا ۔( صحیح مسلم : 1015 )

اس لیے جو بھی نیک عمل کریں وہ اخلاص سے پر ہو اس میں ذرا بھی ریاء اور دکھاوا نہ ہو اور نہ کوئی شریک وسہیم ہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ

یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں ، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ۔ ( سورة الزمر : 2 )

یعنی اپنی پوری زندگی نیکیوں میں بسر کریں اور اپنے آپ کو گناہوں کے دلدل سے بچاکر رکھیں رسول اللہ نے فرمایا کہ :

الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ

عقل مند وہ ہے جو اپنا محا سبہ کر ے اور مو ت کے بعد والی زند گی پر عمل کر ے اور بیو قف وہ ہے جو اپنے نفس کو خوہشا ت کے پیچھے لگا دے (نفس کی خوا ہشا ت کے مطا بق زندگی گزارتا ہے)اور اللہ سے (جھوٹی )امیدیں وا بستہ کرے ۔( سنن ابن ماجہ : 4260 ، سنن ترمذی : 2459 )

اور قربانی کے جانور سے ایک یہ بھی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ اپنے نفس کی قربانی کرنی چاہیےیعنی اپنی خواہشات کو ذبح کرنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ نفس چاہے زنا آمادہ کرے تو زنا کرلیا یا نفس چاہے شراب پئیں تو پی لیا یا نفس چاہے چوری کر تو کرلی یعنی جیسے نفس کہتا جائے ایسا کرتا جائیں ایسے نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیشہ اللہ تعالی کے آگے نفس کی قربانی کرنی چاہیے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :

 وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں ۔ (الاعراف : 176 )

جو لوگ اللہ تعالی کے مقابلہ میں خواہشات کو مقدم رکھتے ہیں ایسے لوگوں کی مثال اللہ عزوجل نے ایک کتے سے دی ہے اب خود غور کریں کیا ایسے لوگ بارگاہ الہٰی میں قبولیت حاصل کرسکتے ہیں ؟!

لہٰذا ہر وہ بندہ اور اسکا عمل باری تعالی کے ہاں قبولیت سے محروم ہوجائے گا جس نے اپنی زندگی اللہ و رسول کی اطاعت فرمانبرداری سے ہٹ کر گزاری ہو جیسا کہ خود رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ :

مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ

جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے گا اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔( صحیح بخاری : 2697 ، صحیح مسلم : 1718 ، سنن ابی داود : 2606 )

پوری بات کا خلاصہ یوں ہی سمجھ لیجیے کہ اگر اللہ تعالی کے ہاں قبول ہونا چاہتے ہیں تو قربانی کے اس جانور سے سبق حاصل کریں اپنے آپ کو ہر اس عیوب سے پاک صاف کرکے رکھیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی ناراض ہو ۔

اللہ عزوجل نے فرمایا کہ :

وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ

زمانے کی قسم بیشک ( بالیقین ) انسان سرتا سر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور ( جنہوں نے ) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی ۔ ( سورة العصر : 13 )

یعنی اپنی پوری زندگی مذکورہ تین آیات پر مشتمل مختصر سورت کے مطابق بسر کریں ان شاء اللہ العزیز روز محشر مقبولیت حاصل کرلیں گے اگر اس حد سے تھوڑا بھی ادھر ادھر ہوئے تو دونوں جہانوں میں ہلاکت اپنی مقدر سمجھیں ۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم کو گناہوں سے بچاکر رکھے اور نیکی کرنے کی توفیق عطا کرے اور دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب فرمائے ۔آمین یا مجیب السائلین

  

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے