معنی و مفہوم

عِلمانیہ دراصل انگریزی لفظ : Secularism کا ترجمہ ہے ۔ عِلمانیہ یاتو عِلم سے بنا ہوا ایک لفظ ہے یا پھر عَالم سے ۔ در حقیقت یہ ترجمہ و تعبیر نہ تو امانت کی آئینہ دار ہے اور نہ ہی دقیق اور صحیح ۔ کیونکہ اس انگریزی لفظ کا صحیح ترجمہ ’’ لادینیت ‘‘، ’’لاغیبیت ‘‘ ، ’ ’ دنیویت ‘‘ یا ’’لاقدسیت ‘‘ بنتا ہے ۔ لیکن بلاد ِ اسلامیہ میں لادینیت کاآغاز کرنے والے بیوپاراور سوداگر یہ بات خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ اس لفظ کا صحیح ترجمہ کریں گے ‘ تو لوگ اسے قبول ہی نہ کریں گے بلکہ اسے نفرت کے ساتھ مستردّ کردیںگے ۔ لہذا انہوں نے عِلمانیہ کے لفظ کے تحت تدلیس سے کام لیا ۔ تاکہ وہ لوگوں کویہ وہم دے سکیں کہ اس علمانیہ کا علم سے کوئی رشتہ ہے اور یہ کسی علم کی اساس پر قائم ہے ۔اور ہم کسی علم کے زمانہ میں جی رہے ہیں ۔اور یہ مختلف امتوں اور ملتوں کے مابین ایک اتفاقی جنرل عالمی اصول ہے نہ کہ کسی ایک قوم یا تہذیب کا جانب دار اور آئینہ دار ہے ۔

عِلمانیہ لفظ کا صحیح مدلول اور مفہوم یہ ہے کہ یہ فرد یا ریاست کے لیے زندگی کوبے دینی پر قائم کرنے کا نام ہے ۔یہ ایک اجتماعی تحریک ہے جس کا ہدف یہ ہے کہ آخرت کے اہتمام کی بجائے فقط دنیاکے اہتمام پرہی لوگوں کی توجہ مرکوز کروارکھی جائے ۔ (۱)

سیکولرزم کے نشاۃ کے اسباب

دین ِ عیسائیت میں تحریف

جب اللہ تعالیٰ نے سیدناعیسیٰ علیہ السلام کو اوپر اٹھالیا اور انہیں موت اور سولی سے نجات دے دی ‘ تو عیسائیوں نے عیسائیت میں تحریف کا بیڑا اٹھا لیا ۔ انہوں نے دین میں خوب تحریف کی اور سیدناعیسیٰ علیہ السلام کو معبود بنانے کا شرک دین میں داخل کردیا۔ مزید یہ دعویٰ کیا کہ عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور دو معبودوں کے ساتھ ایک تیسرے معبود ہیں جن کی عبادت کی جائے ۔ تاکہ وہ باپ، بیٹا اور جبریل امین کے ساتھ مل کر تین معبود ہوکر ایک معبود بن جائیں ۔ تحریف کا یہ عمل مزید دراز ہوا تو یہ فطرت ِ انسانی کے مخالف کئی امور پر محیط ہوگیا ۔ مثلاً اپنے آپ کا دفاع نہیں کرنا چاہیے اور کسی عدوان و زیادتی کا کوئی جواب نہیں دینا چاہیے ۔ اس پر سلوگن بھی سامنے آیا ۔ جو یہ تھا : ’’جو کوئی آپ کے دائیں رخسار پر تھپڑ مارے آپ اس کے لیے اپنا بائیاںرخسار پیش کردیں ۔‘‘

اسی طرح فطرت سے مخالفت کی ایک دوسری مثال یہ دی جاتی ہے کہ عیسائیت میں یہ تصور پروان چڑھ گیا تھا کہ مباحات ِ دنیا سے نفع مندی اور دینداری برابر نہیں چل سکتے ۔ اسی پرسیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جانب ایک جھوٹا مقولہ بھی منسوب کیا گیا ۔ وہ مقولہ یہ تھا:’’ جو کوئی دیندار بننا چاہتا ہے ‘ اسے اپنا مال اور خاندان چھوڑکر میری اتباع کرنی چاہیے ۔‘‘  لہذا پادریوں اور راہبوں کے لیے شادی حرام ٹھہری ۔ جبکہ یہ ایک جائز ومباح چیز تھی ۔ (2)

کلیسا کی ظلم و زیادتی

اصحاب ِ کلیسا کے ظلم و زیادتی ، تسلط اور فساد زدہ حالات کے تحت یورپ کے باشندگان نے قرونِ وسطیٰ میں بڑا کڑا وقت گزارا ۔ تقدس کا لبادہ اوڑھ کر کلیسا کے رکھوالے اپنی خواہشات اورشہوات کی تسکین و تکمیل کی خاطر دینی تسلط کا غلط استعمال کیا کرتے تھے ۔ مزید یہ کہ جو کوئی کلیسا کی دین میں بدعات پر مبنی تعلیمات اور احکامات کی خلاف ورزی کرتا ‘ پوپ اس کی جان کے در پے ہوجاتے اور اسے نشان ِ عبرت بنادیتے ۔ کلیسا کا یہ تسلط دینی ، اقتصادی ، سیاسی اور علمی ‘تمام جوانب پر پھیلا ہوا تھا۔ (3)

چرچ اور علم کے مابین کشمکش

جس وقت کلیسا تمام شعبہ ہائے زندگی میں ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے تھا ‘ عین اسی وقت مسلمانوں اور صلیبیوں کے درمیان صلیبی جنگیں زوروںپر تھیں ۔ گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں دوصدیاں جنگیں مسلسل جاری رہیں ۔ اس دوران صلیبیوں کا مسلمانوں سے پالا پڑا اور وہ اندلس ، شمالی افریقہ اور صلقیہ وغیرہ کے اندر علوم و فنون کے تمام میدانوں میں اسلام کی خوبیوں اور شان و شوکت سے خوب اچھی طرح واقف ہوئے ۔ جہاں مسلمانوں کے علاقوں میں ہر جگہ متعدد مدارس و جامعات موجود تھے ۔ جو علم کے طلبہ کے لیے توجہ کا مرکز تھے ۔ ان طلبہ میں یورپین لوگ بھی ہوتے تھے جو وفودکی صورت میں آکر مسلمان اساتذہ سے علم سیکھتے تھے ۔ جب یہ یورپین لوگ نور ِ اسلام سے متأثر ہوکر اپنے علاقوں میں پلٹتے اور پہچان جاتے کہ کلیسا اور کلیسا کے رکھوالے جعلی ، جھوٹے اور من گھڑت کردار ہیں ‘ تو پھریہ لوگ کلیسا اور کلیسا کے من گھڑت دین کے مد مقابل مزاحمت کرنے لگتے ۔یوں یورپین انسان نے طبیعی اور عملی علوم کے میدان میں بہتیری ایجادات و دریافتوں کی تحقیق کاآغاز کیا ۔ اس چیز نے علم سے کراہت کرنے والے احبابِ کلیسا اور شائقین ِ علم تحقیق کاروں کے مابین اختلاف کی حدت کو مزید بڑھا دیا۔ (4)

اس مقام پر پہنچ کر بعض یورپین مفکرین نے یہ تصور کر لیا کہ اس نزاع کو ختم کردینا تبھی ممکن ہے جب اختیارات کو دو حصوںمیں بانٹ دیاجائے۔ ایک حصہ مملکت کے اختیار میں ہوگا جہاں مملکت ادارہ ، تعلیم ،معیشت اور علوم وغیرہ جیسے اجتماعی معاملات کے میدانوں کی دیکھ بھال کرے گی ۔ اوردوسرا حصہ کلیسا کے اختیار میں ہوگا جہاں کلیسا زندگی کے خاندانی اور دینی پہلوئوں مثلا شادی اور وفات وغیرہ جیسے مراسم کی سرپرستی کریگا۔

سیکولرزم کے پھیلنے کے اسباب

سیکولرزم کی دعوت مسلمانوںمیں کیسے پروان چڑھی؟ اور مسلمانوں نے اس کے سامنے کیسے سرتسلیم خم کردیا؟نیز دین ِ اسلام اورزندگی کے مابین دوئی کی فکر کیسے مقبول ہوگئی؟ اس کے چند اہم اسباب ہیں جو درج ذیل ہیں ۔

1۔روحانی اور فکری فارغ البالی جس سے سیکولر اصول و مبادی کے دلدادہ دانشور اور ان سے متأثر مسلمان لوگ دوچار ہوتے ہیں ۔

2۔ مغربی طرز ِ حیات کے سامنے نفسیاتی ہزیمت جس کے باعث نام نہاد پڑھے لکھے اوران کے  پیروکار ایک طرف اسلام کی بابت بدگمانی کا شکار ہوئے تو دوسری طرف مغربی تصورِ حیات اور طرز ِ زندگی کی بابت خوش گمانی کا شکار ہوبیٹھے ۔ مغربی طرز ِ زندگی اور تہذیب سے مبہوت ہوگئے ۔ اور مغرب کی مادی ترقی سے حیران و ششدررہ گئے ۔

3۔ بلاد ِ مغرب کی جانب تعلیمی وفود‘ جو انیسویں صدی عیسوی سے بلاد ِ مغرب کی جانب جانا شروع ہوئے ۔ اورہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ کچھ خاص قسم کے لوگ ہی اس مغربی معاشرہ کو پسند کرتے ہیں ۔ جو درحقیقت مغربی طرز ِ زندگی کے سامنے شکست خوردہ ہیں اور اسلام سے نابلد ، بے گانے اور اجنبی ہیں ۔ لہٰذا وہ سیکولر اصول و مبادی کے سامنے گردنیں جھکادیتے ہیں ۔ پھراِنہی اصول و مبادی کی نشر واشاعت کا عزم لے کر وہ مسلمانوں میں لوٹ آتے ہیں ۔

4۔ سیکولرزم کی دعوت و ترویج کے لیے میڈیا کے جدید ترین وسائل کا استعمال جنہیں کثیر عوام برتتی ہے ۔ مثلا اخبارات ، رسائل ، جرائد ، سیٹیلائٹ ٹی وی ، انٹر نیٹ ، موبائل وغیرہ

5۔سیکولر دانشوروں کے دعوئوں کے سامنے بند باندھنے والے داعین ِ اسلام(Speakers of islam) سے جنگ ۔ جو اسلام کو ایک کامل و اکمل نظام ِ حیات جان کر اسلام کی دعوت دینے والے ہوتے ہیں ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کوزندگی سے جدا کرنا کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے ۔

سیکولرزم کے اہداف و مقاصد

سیکولرزم کے کئی اہداف و مقاصدہیں ۔جن کو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جن کی تلخیص ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

1۔ دین ِ اسلام کا مقابلہ کچھ اس طرح سے کیا جائے کہ اسے بالکلیہ مستردّ کردیاجائے اور اسے قدامت ، انحطاط اور اندھیرے دور کی کچھ متروکات اور باقیات میں سے قرار دیا جائے ۔ یا پھریو ں کیا جائے کہ اسلام کے ازسر نومطالعہ اور تفہیم کی داغ بیل ڈالی جائے ۔ جس سے اسلام کی ایک تعبیر ِ نو سامنے آئے جو سیکولر وظائف و اہداف کو پورا کرتی ہو۔

2۔ اسلامی تاریخ پر اس بات کی تہمت کہ وہ خون آلود، نسلی و قومی تعصبات سے لبریز، تہذیب و تمدن سے عاری ہے ۔جو علاقوں کو تخت و تاراج کرنے سے بھری پڑی ہے ۔ جس کی تفسیر و تعبیر روحانیت سے خالی فقط مادی ہے ۔

3۔ مسلمان کے وجدان و فکر میں راسخ معرفت و علم کے مصادر کو مشکوک ٹھہرنے کی کوشش کی جائے۔ جس سے یہ ہو کہ علم کے لیے وحی کے مصدر ہونے کا تصور بعید از امکان ٹھہرے البتہ وحی کو عقل اور حس جیسے دیگر مصادر کے تابع بنادیاجائے ۔

4۔اسلامی معاشرے میں گہرے اترے ہوئے اخلاقی اقدار کو ہلانے کی کوشش و سعی کی جائے ۔جن پر اجتماعی اور سماجی تعلقات چل رہے ہوتے ہیںاور جو اخوت ، ایثار ، عفت ، پاکدامنی اور ایفائے عہدجیسے اقدار کے معانی و مفاہیم پر قائم و دائم ہوتے ہیں۔ان اقدارکو باہمی کشمکش اور رسہ کشی ،دھوکہ دہی ، مفاد پرستی ، غیر ذمہ داری اور فحاشی جیسی اقدار کے ساتھ تبدیل (Replace)کیاجائے ۔ 

5۔ فکر اور ثقافت کے میدانوں میں فکری تصادم کے محاورہ کو خارج از امکان بنانا اور اس کی جگہ پر مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے مابین مکالمہ کو لانا۔ یہ انداز پردہ دری ، دھوکادہی اور گمراہی کی سیاست کا سرچشمہ ہے جسے سیکولر تحریک بہت اچھے طریقے سے بروئے کار لاتی اور استعمال کرتی ہے ۔

6۔اسلام کی بابت بنیاد پرستی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے فکرکو فروغ دینے کی بدگمانیاں پھیلادی جائیں تاکہ لوگ اسلام کا التزام کرنے اور علمائے اسلام کو سننے سے خوف کھانے لگیں۔

7۔مغربی معاشرہ کے مظاہر کی خوب ترویج اور بالخصوص آرٹ ، سپورٹس ، لباس ،آفیشل تقریبات اور فیمینزم کے معاملے میں انہیں فروغ دیاجائے۔

8۔ معاشرے اور لٹریچر میں مغربی سیکولر نظریات کی مستقل ترویج اور ایسے نظریات کے حاملین کو میڈیا ، کالجز اور یونیورسٹیز میں فرنٹ پر لانااور رکھنا‘ اس بات کو باور کرانے کے لیے کہ علم کے اصل نابغے ،علمبرداراور روح ِ رواںیہی لوگ ہیں۔

سیکولرزم کی بابت اسلام کا موقف

درج ذیل مفاہیم سے سیکولرزم کی بابت اسلام کے موقف کو خلاصۃً سمجھا جا سکتاہے :

۱۔ دین داری انسانی طبیعت کا حتمی جزء ہے ۔ انسان دین کے بغیر جینے کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا۔

۲۔ اسلام نے انسانی فکر کو ظنون ، فرضیات ، افسانوں ، اوہام ، خرافات اور خواہشات وغیرہ سے آزاد کیا ہے ۔ اور اسے وحی پر قائم علم کے اصلی منابع یعنی کتاب و سنت کے ساتھ تمسک کی دعوت دی ہے ۔

۳۔ بلاشبہ اسلام میں حریّت ہے ۔ لیکن اس حریت سے مراد ہے انسانی عقل کو بت پرستی،جہالت ، خرافات اور تقلید سے آزاد کرنا ۔ چاہے ان سب چیزوں کے نام کتنے ہی بدل جائیں اور کتنے ہی مختلف لبادوںمیں یہ آجائیں ۔

۴۔ اسلام میں ثابت شدہ اخلاق معاشروں اور زمانوں کے اختلاف کے باعث کبھی نہیں بدلتے ۔ اور نہ نسلوںکے بدلنے سے مختلف ہوجاتے ہیں ۔ یعنی اسلامی اخلاقیات آفاقی اور عالمگیر ہیں ۔

۵۔اسلام فرد کی زندگی میں ربط قائم کرتاہے ۔ فرد کے عقائدجن پر وہ ایمان لاتاہے اور جن کوبطور دین اپناتا ہے _، عمل اور فرد سے صادر شدہ سرگرمیوں میں ربط قائم کیاہے ۔ اسلام فرد سے کسی ایسے علم کا مطالبہ نہیں کرتا کہ فرد عمل سے کورارہ کر نظریات کی دلدل میں الجھا رہے ۔ بلکہ اسلام فرد سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی زندگی کے وسائل کو خوبصورت بنانے کے معاملہ میں اس علم سے استفادہ کرکے اسے منطبق کرے ۔

سیکولرزم سے مقابلہ کی مختلف جہتیں

سیکولرزم ایک جاہلی اصطلاح ہے ۔ جس کا علم سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے ۔اعدائے اسلام نے اسے فقط لوگوں کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے کے لیے ملمع سازی کے طور پر استعمال کیا ہے ۔وگرنہ سیکولرزم کا سب سے بڑا ہدف ہی یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں سے شریعت ، حدود اللہ اور احکامات ِ الٰہی کو الگ تھلگ رکھا جائے ۔

لہذا سیکولرزم کے چیلنج سے نبرد آزماہونے کے لیے ایک ہمہ گیر اور کامل حکمت عملی بے حد ضروری ہے جس میں درج ذیل نکات شامل ہوں۔

1۔دین ِ حنیف کی تعلیمات سے متعارض اور انہیں ڈھادینے والی اس سیکولرزم کی فکر کی خطر ناکی سے مسلمانوں کوآگاہ کیاجائے ۔ اس کے لیے تعلیمی نصابات اور میڈیا کے تمام متنوع فورمز کو استعمال کیاجائے ۔ تاکہ مسلمان افراد اس الحادی فکر کی حقیقت سے واقفیت پاسکیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان مغالطوں سے بھی مسلمانوں کو دور رکھا جائے جن کو سیکولرزم کے داعی حضرات اپنے خبیث اہداف پر تلبیس اور ان اہداف کی حقیقت کو چھپانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں ۔

2۔سیکولرزم کے اس شجر ِ خبیثہ کو کاشت کے باعث مغربی معاشروں کو منہدم کرنے والے جن برے ثمرات و نتائج سے مغربی دنیا دوچار ہے ان سے مسلمان کو آگاہ کیا جائے مثلاً :الحاد ، سماجی بگاڑ، وباؤں اور امراض کی کثرت ، خودکشی کا شدید رجحان ، جرائم کا بڑھتا ہواگراف اوراخلاقی انتشار وغیرہ۔ یہ سب کچھ دین سے دوری اورزندگی کے روحانی پہلوپر مادی پہلوکو فوقیت اور غلبہ دینے کا باعث ہوا۔  

3۔ایسی اسلامی کتب اور لٹریچر کی نشر و اشاعت کی خوب محنت جو مسلمانوں کو ان کے دین کی بابت بصیرت دے ، انہیں دین سے جوڑ دے ، انہیں اسلامی شریعت کے احکام پر مطلع کرے ۔ مسلمانوں کواسلام کی سر بلندی نیز ہرزمانے اورہر علاقے کے لیے اسلام کے قابل ِ عمل ہونے کا اعتماد دے۔ مزید یہ کہ اسلام زندگی کے جمیع شعبوں کو محیط ہے ‘ ایسا اعتماد دے۔

4۔ مسلمانوں کے تمام گروہوں میں دین ِ اسلام کے ذریعے عزت پانے کے شعور کو گہرا اتارنے کی کوشش و کاوش کی جائے ۔ دین ِاسلام کی تعلیمات  سے متعارض کسی بھی فکرسے مرعوب ومبہوت ہونے کے فتنے کی خوب روک تھام کی جائے ۔ مت پرواہ کی جائے کہ اس فکر کا مصدر کیاہے اور کس جانب سے اس فکرکو رواج دیا جارہا ہے ۔   

حوالہ جات

(1)دیکھیے : نادیۃ شرف العمری : أضواء علی الثقافۃ الاسلامیۃ : ص227

(2)دیکھیے : النظام السیاسی فی الاسلام : سعود بن سلمان آل سعود : 165تا 166

(3)دیکھیے : العلمانیۃ : بندر بن محمد الرباح ص7، نادیۃ شریف العمری : أضواء علیٰ الثقافۃ الاسلامیۃ ص227تا 228

(4)سابقہ مرجع

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے