(پروفیسر مولانا حافظ محمد کھتری)

وہ جن سے تھیں روشن فضائیں دہر کی

دیے وہ اک اک،بجھے جا رہے ہیں

آہ!علم وعمل کے قافلے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں،آئے روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں عالم وفات پا گئے ہیں اورفلاں علمی شخصیت اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہے۔یہ قحط الرجال کا دور ہے۔دنیا بہترین لوگوں سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ایسے علماء اور مشائخ تیزی سے رخصت ہورہے ہیں جن کے علم اور تحقیق پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جا سکتا تھا۔

بلدہ سندھ کے پسماندہ ترین علاقے تھر سے تعلق رکھنے والے مبلغ ومحقق اہل حدیث عالم دین مولانا پروفیسر حافظ محمد کھتری وفات پاگئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

حافظ صاحب کا وجود اس  دور میں سندھ کے ظلمت کدہ علاقوں میں دعوت وتبلیغ کے میدان میں بسا غنیمت تھا۔

پروفیسر صاحب رحمہ اللہ کا شمار سندھ کے ان غیر معمولی ذہین وفطین علماء میں ہوتا ہے،جو اللہ تعالی کی طرف سے فطری علمی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

آئیے آپ کے چیدہ چیدہ حالات وخدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

پیدائش و علاقائی پس منظر

پروفیسر صاحب کا نام محمد تھا۔حافظ قرآن تھے۔جبکہ ان کی ذات بزبان سندھی «کھٹی»کہلاتی ہے۔اردو میں اسے کھتری کہتے ہیں۔قدیم زمانے میں جو لوگ کپڑا رنگنے کے فن سے آشنا ہوتے،انہیں کھتری کہا جاتا تھا۔بعد میں اس پیشہ سے متعلق لوگوں کی ذات کھتری (کھٹی) مشہور ہو گئی جو کہ آج تک چلی آ رہی ہے۔

 پروفیسر صاحب نے  1946ء میں ڈیپلو ضلع تھر پارکر میں محمد اسحاق کھتری مرحوم کے گھر آنکھ کھولی۔ڈیپلو ایک تاریخی شہر ہےجس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر تھر پارکر ہے۔اس خطے کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے نامور سندھی ادیب، مورخ اہل حدیث پروفیسر مولابخش محمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

«ڈیپلو ضلع تھرپارکر کا صحرائی اور ریگستانی بلند وبالا ٹیلوں کے درمیان تحصیل کا صدر مقام ہے۔یہ قدیم شہر جہاں تہذیب وتمدن،ثقافت وعلم،فن وہنر میں ماضی کی یادگار ہے وہیں پر کچھ ایسی خوش نصیب وتاریخ ساز شخصیتوں کو بھی جنم نصیب ہوا،جو بلاشبہ عرصہ دراز تک باقی اور یادگار رہیں گی۔اسی صحرائی وسیع وعریض خطے میں آکر مجدد وقت،داعی توحید مولانا عبدالرحیم پچھمی رحمہ اللہ کتاب وسنت کی تجلیات سے اطراف واکناف کی ظلمات کو منور کرتے رہے۔۔۔»(تذکرہ مشاہیر سندھ،ص:97)

تعلیمی مراحل

ہمارے ممدوح گرامی نے ابتدائی تعلیم مقامی ہائی سکول سے حاصل کی۔ایف۔ اے گورنمنٹ کالج ڈیپلو سے کیا۔بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں جام شوریونیورسٹی سندھ سے حاصل کیں۔

ڈیپلو میں ایک قدیم مدرسہ «دارالحدیث محمدی» کے نام سے 1964ء سے قائم چلا آرہا ہے۔اس کی بنیاد ایک نیک خاتوں مریم میمن مرحومہ نے رکھی تھی۔پروفیسر حافظ محمد کھتری رحمہ اللہ کی دینی تعلیم کے لئے اس مدرسے کا انتخاب کیا گیا۔ مدرسے کا نظم ونسق شروع ہی سے مضبوط چلا آرہا ہے۔تاحال اس کی تدریسی رونق بحال ہے۔آج کل مولانا عبدالغنی حفظہ اللہ اس کے نظام کو باحسن وخوبی چلا رہے ہیں۔

اساتذہ کرام

آپ نےاپنی دینی و علمی تعلیم کے مراحل کے دوران میں جن اساتذہ حدیث سے کسب فیض کیا،ان میں سندھ کے نامور اہل علم وقلم شامل ہیں، وہ یہ ہیں۔

1۔محدث دیار سندھ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

2۔محدث العصر سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ

3۔یادگار سلف حضرت مولانا حیات خان لاشاری رحمہ اللہ

4-مولانا عمر جونیجو رحمہ اللہ

سرکاری ملازمت

دوران تعلیم ہی پروفیسر صاحب کو انٹرن شپ مل گئی تھی اور اس کے کچھ عرصہ بعد انہیں لیکچرار بنا دیا گیا۔بعد ازاں مکمل پروفیسر بن گئے۔ایک عرصہ تک گورنمنٹ کالج کراچی میں بھی  تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔

1993ء میں وہ گورنمنٹ کالج مٹھی آ گئے۔

2006ء میں ریٹائرمنٹ لی۔

علمی خدمات

پروفیسر صاحب نے حضرت سید بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ کی سرپرستی میں کئی ایک علمی امور کی طرف توجہ فرمائی،جن کا بیشتر حصہ تاحال منصہ شہود پر نہیں آ سکا۔ان کے جن علمی کاموں سے میں مطلع ہو سکا،ان کی وضاحت کچھ یوں ہے۔

 حافظ صاحب رحمہ اللہ نے سندھ میں مزارات اور آستانوں پر ہونے والے جعلی حج کے پس منظر میں ایک پاکٹ سائز کتاب’’مسائل حج‘‘ کے نام سے لکھی۔اسی طرح سندھی زبان میں چار کتابوں کا ترجمہ بھی کیا۔سید بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ نے 1975ء میں  احناف کے جواب میں ایک تقریر کی۔حافظ صاحب نے اسے مرتب کر کے»تقریر لاجواب» کے نام سے شائع کر دیا۔

معروف انٹرنیشل ادارے دارالسلام نے امیر احمد چنا کی سندھی ترجمہ وتفسیر بعنوان «ترجمہ اور تفسیر قرآن» شائع کی۔اس کی تصحیح اور نظر ثانی کے لئے پروفیسر صاحب موصوف کی خدمات لی گئیں۔اسی طرح انہوں نے ماسٹر محمد امین لنجو کے ترجمہ قرآن جو باکس میں ہے اور مطبوع ہے، کی بھی نظر ثانی کی۔

تحریر وصحافت سے شغف

پروفیسر صاحب ایک دانشور شخصیت تھے۔انہیں تحریر وصحافت سے بھی بہت  لگاؤ تھا۔تحریر میں توحید وسنت وفکر اہل حدیث ان کے خاص موضوعات تھے۔ان کے مضامین علمی وادبی اور تہذیبی ذوق کی بین دلیل ہیں۔

انہوں نے ماہنامہ «دعوت اہل حدیث»(حیدرآباد)،ماہنامہ اسوہ حسنہ(کراچی)،سلسلہ وار «دعوت اسلام»(تھر پار کر)  اور سہ ماہی مجلہ»بحر العلوم»(میر پور خاص)میں کئی ایک مضامین بھی لکھے۔ مجلہ»بحرالعلوم»کی اشاعت خاص بعنوان:»شیخ العرب والعجم حضرت سید بدیع الدین شاہ راشدی  رحمہ اللہ» میں حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت اور خدمات بارے ایک خوبصورت مضمون لکھا،جس میں انہوں نے ضلع تھر پارکر میں شاہ صاحب کی دعوتی اور رفاعی کاموں پر لکھا،اسی طرح ماہنامہ مجلہ «اسوہ حسنہ» نے  محسن جامعہ ابی بکر الاسلامیہ پروفیسر ظفراللہ رحمہ اللہ کے حوالےسے اشاعت خاص کا اہتمام کیا تو حافظ صاحب ممدوح  نے ایک منفرد مضمون لکھ کر پروفیسرصاحب رحمہ اللہ کی دینی خدمات کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔

«دعوت اہل حدیث» کے بانی مدیر مولانا عبدالحق صدیقی رحمہ اللہ ان کے دیرینہ دوست تھے۔کبھی کبھی حیدرآباد ان کی دعوت پر تشریف لاتے اور رسالے میں مضامین کی اشاعت اور پروف خوانی کے حوالے سے مختلف نوعیتوں کے امور نمٹانے میں مدد فرماتے۔

کسی زمانے میں تھر پارکر سے مشہور مصنف پروفیسر مولا بخش محمدی حفظہ اللہ کی زیر نگرانی اور مولانا ضیاءاللہ ایوبی حفظہ اللہ کی ادارت میں تھرپارکر سے  سلسلہ وار سندھی میگزین: «دعوت اسلام» شائع ہونا شروع ہوا۔پروفیسر صاحب اس کی مجلس مشاورت میں شامل کئے گئے۔اس رسالے میں ان کا ایک انٹرویو بھی شائع ہوا تھا۔اس دینی رسالے کے ابھی آٹھ دس شمارے چھپ سکے تھے کہ رسالہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔

دعوتی وتبلیغی خدمات

حافظ صاحب رحمہ اللہ کا شمار سندھ کے ان غیر معمولی ذہین وفطین علماء میں ہوتا ہے،جو اللہ داد اور فطری صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

سندھ کے مشہور ضلع تھر پارکر میں مسلک اہل حدیث کو متعارف کرانے اور گاؤں گاؤں اس کی دعوت کو پھیلانے میں مولانا پروفیسر حافظ محمد کھتری رحمہ اللہ کا کردار اہم تھا۔ان کی پاکیزہ عملی زندگی سلف صالحین کا نمونہ تھی،موجودہ دور میں ان جیسے ولی صفت انسان خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔

جمعیت اہل حدیث تھرپارکر کی ذمہ داری

پروفیسرصاحب کو راشدی صاحب نے جمعیت اہل حدیث سندھ کی مجلس مشاورت میں شامل کیا اور 1993ء میں انہیں ضلع تھر پارکر کا امیر مقرر کر دیا۔شاہ صاحب کے بعد بھی وہ کافی عرصہ منصب امارت پر فائز رہے۔

پروفیسر صاحب ہمت اور حوصلہ کی حامل شخصیت تھے۔جماعتی اور تحریکی زندگی میں۔انہیں کام کرنے اور ابھرنے کے بڑے مواقع ملے مگر انہوں نے ہمیشہ اللہ تعالی سے اجر کی امید پانے کی غرض سے خود کو نمود ونمائش سے دور رکھا۔

سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے تھرپارکر میں جتنے بھی دعوتی وتبلیغی اور  فلاحی و رفاعی کام کئے وہ سب  پروفیسر صاحب رحمہ اللہ کی مشاورت بلکہ انہی کی زیر نگرانی میں مکمل کرائے۔

پروفیسر صاحب  نے تھر پارکر کے مختلف گوٹھوں میں  60مساجد،تیس قرآنی تعلیم کے مدارس ومکاتب قائم کئے ان کا مکمل انتظام ان کے ہاتھ میں تھا۔اسی طرح انہوں نے اس علاقے میں 200کنویں تعمیر کروائے۔بلاشبہ یہ بہت بڑی خدمت ہے جس کی توفیق انہوں نے بارگاہ الہی سے پائی۔

صحرائے فاونڈیشن کی نگرانی

مٹھی شہر میں’’صحرائے فاونڈیشن‘‘کے نام سے ایک دینی مدرسہ آپ کی نگرانی میں چل رہا تھا۔اس مدرسے کے افتتاحی پروگرام کے موقع پر معروف سیرت نگار پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ(بیت الحکمت،لاہور) تشریف لائے تھے  اور انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں دعوت الی اللہ کے مختلف پہلؤوں کو بیان کیا تھا۔

اخلاق واوصاف اور اسلوب:

حافظ صاحب سادہ طبیعت کے مالک اللہ کے عاجز بندے تھے۔ان کا ظاہر وباطن ایک تھا۔

آپ کے اخلاق کریمہ اور اسلوب  کے متعلق مولانا عبدالرحیم ثاقب سموں (نواں کوٹ،تھر پارکر) کہتے ہیں:

«اللہ تعالیٰ کی جانب سے عزت. دولت، شہرت، اور منصب کی تقسیم بڑی عجیب ہے،جسے چاہتا ہے ان میں سے کوئی ایک یا سب سے نوازدیتا ہے. یہ کسی شخص کا استحقاق نہیں اور نہ ہی یہ شکل، رنگ یا اعلی نسل کی بنیاد پر میسر ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کا امتحان ہے،طبعاً صالح لوگ ان کے ذریعے لوگوں میں احترام اور نیک نامی کماتے ہیں. اور شقی مزاج لوگوں سے نفرت اور بدنامی حاصل کرتے ہیں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں،جنہیں عزت وشہرت ملی لیکن عاجزی وانکساری اور گمنامی کو ترجیح دیتے ہیں ۔

ہمارے ممدوح جناب پروفیسر حافظ محمد کھتری ڈیپلو والے مرحوم بھی اپنی نظر میں چھوٹے لیکن لوگوں کی نظر میں ہمیشہ قدآور رہے ،ان کی عاجزی وانکساری سادگی اور تواضع دیکھ کر کوئی آدمی اندازہ نہیں لگاسکتا تھا کہ آپ کتنے کمال کے آدمی تھے،جنہیں اکابر امت کی صحبت میسر رہی، شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ، علامہ محمد عمر جونیجو رحمہ اللہ، پروفیسرظفر اللہ رحمہ اللہ وغیرہ جیسے مایہ ناز زعماء اور قائدین کے ساتھ کام کرنے اور ان کی مجلسوں میں بیٹھنے کی سعادت ملی، پروفیسر صاحب سلیم الطبع اور اسلاف کے افکار ونظریات کے امین تھے کتاب وسنت کا منہج آپ کے قلب وذہن میں میں رچا بسا تھا. آپ راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ قول وعمل میں یکسانیت تھی ذکر وفکر کے عادی اور پیروکار اسلاف تھے جذباتیت وقتی،عارضی اور مصنوعی تحریکوں سے نفرت کرتے تھے۔ زمینی حقائق کا کا بخوبی ادراک رکھتے اور ہمیشہ مثبت اور ایجابی راستہ اختیار کرتے جب سے دینی وسیاسی شعور آیا آپ نے مسلمہ حاملین منہج اہل حدیث کو پرموٹ کیا۔»

اولاد واحفاد:

حافظ صاحب مرحوم اللہ کے فضل سے صاحب اولاد تھے۔ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔بیٹوں کے نام یہ ہیں:

1۔ڈاکٹر عبدالحمید

2۔عبدالمنان

3۔عبدالرؤوف

4۔حافظ عبدالسلام

سفر آخرت:

پروفیسر صاحب عمر کے اعتبار سے چھتر(76)برس کے تھے۔ چند دن پہلے اچانک علیل ہو گئے۔ٹیسٹوں سے پتا چلا کہ ان پر کرونا وائرس کا حملہ ہو گیا ہے۔چنانچہ انہیں انڈس ہسپتال بدین کے خصوصی نگہداشت وارڈ میں داخل کرادیا گیا۔وہاں سے انہیں کراچی لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں بعد نماز مغرب وفات پا گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون

ان کا نماز جنازہ اگلے روز 5جنوری 2021ء بروز منگل صبح 10 بجے ڈیپلو میں ادا کیاگیا۔جنازے کی امامت ان کے چھوٹے  بیٹے حافظ عبدالسلام نے کی۔

جنازے کے موقع پر تھر کے لوگ ان کی دعوت و اخلاق حسنہ کی تعریف کرتے پائے گئے۔وہ انہیں اپنا محسن قرار دے رہے تھے۔تحصیل ڈیپلو کے اکثر کاروباری لوگوں نے اپنی دکانیں بند رکھیں۔نماز جنازہ میں تھر کے صحراؤں سے امڈ کر آنے والا لوگوں کا سمندرکو انتم شھداءاللہ علی الارض کے تناظر میں دیکھیں تو حافظ صاحب رحمہ اللہ کی قسمت پر رشک ہوتا ہے۔

اللھم اغفرلہوارحمہ وعافہ واعف عنہ۔آمین

آپ کی رحلت سے تحریک اہل حدیث کے دعوتی وتبلیغی امور میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

xxx

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے