زندگی جن کے تصور سے  جلا پاتی تھی

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر

جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان کے عظیم مبلغ اسلام اور مخلص ساتھی مولانا محمد اسحٰق شاہد دہلوی ہم سے بچھڑ گئے

۔انا لله وإنا إليه راجعون

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص تھا جو دینی گلستاں کو ویراں کر گیا

جگہ جی لگانے کی یہ دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

انسانی زندگی بڑی دلفریب گزر گاہوں سے گزر کر اس عارضی دنیا میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا کرتی ہے مولانا مفتی محدث العصر، مفسّر قرآن مولانا عبد الستار محدث دہلوی رحمتہ اللہ کے داماد ، مولانا حافظ عبد الرحمٰن سلفی امیر جماعت غرباء اہلحدیث پاکستان کے بہنوئی اور مرحوم محمد ابراہیم کے صاحبزادے مولانا محمد اسحٰق شاہد دہلوی بھی اپنے ہم وطنوں، علماء کرام ، اساتذہ کرام ، طلباء کرام ، اپنے فیملی ممبرز اور اپنی سلیقہ شعار باوفا قرآن مجید کی حافظہ بیوی، مولانا عبد الستار محدث دہلوی رحمتہ اللہ کی صاحبزادی کو بڑے دھیمے سے زیر لب تبسم کر کے یہ کہہ گئے کہ میں اب دنیا کی ساری رونقوں کو ، رعنائیوں کو ، گھر بار کو، اپنے دولت کدہ کو، اپنے دینی گلستاں جامعہ ستاریہ الاسلامیہ (جسکی آبیاری مولانا حافظ عبد الغفار سلفی  نے کی تھی )کو خصوصاً ننھے منھے نفوسِ قدسیہ کو اور اپنے لختِ جگر ، جگر گوشوں کو سلام آخری کر کے جارہا ہوں اور اب میں (عالم برزخ میں ) ابدی نیند سو جاؤں گا۔ بس اب مجھے رات کے آخری پہر تہجد کی نماز میں اور پنج وقتہ نمازوں میں اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاکر بارگاہِ ایذدی میں  میرے حق میں دعائے خیر، دعائے مغفرت کرتے رہنا کیونکہ اب تم پر میرا یہ حق تمہارے قلوب و اذھان پر بآواز بلند ہمیشہ دستک دیتا رہے گا ۔ کیونکہ مالک ِ ارض و سماں کی دنیا اس جہان فانی سے بہت اچھی ہے اس کے دامان رحمت کی رفعتیں ، برکتیں اور وسعتیں بے کنار ہیں جنہیں میں یا میری لکھی گئی تحریر احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

ڈاکٹر علامہ اقبال نے فارسی کے اس شعر میں کیا تصویر کھینچی ہے۔

نشان مرد مومن با تو گویم

چوں مرگ آمد تبسم بر لب اوست

میں قارئین کرام کو بندہ مومن کی اک نشانی بتاتا ہوں جب رب تعالیٰ اپنے بندے کو موت سے ہمکنار فرماتے ہیں تو اس کے لبوں پر ہلکی سی تبسم کی روشنی ہوتی ہے یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ موت کی آرزو کرنا شرعاً منع ہے لیکن موت کی تیاری کرنا ہر ذی روح کے لئے بہت ہی ضروری ہے کیونکہ موت تو انسان کی و ہ سواری ہے جو عمر بھر کی زندگی کے صحرا میں بھٹکنے والے مسافر کو اپنے مسکن کی جانب  واپس لے جایا کرتی ہے چونکہ اب اس بندہ مومن نے واپس لوٹنا نہیں ہوتابلکہ انسان کو اس کی ملاقات کی طوالت روزِ محشر کے بپا ہونے تک لیجاتی ہے۔

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمین خدا

اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر، صبر کر

حال دل ہم بھی سناتے عابد لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب بہت یاد آیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے