مسجد اقصی قبلہ اول اور ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکر کے جانا جائز ہے ، کہا جاتا ہےکہ اسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ۔
جیسا کہ سنن نسائی ( 693 )میں حدیث موجود ہے اوراسے علامہ البانی رحمہ اللہ نےصحیح نسائی میں صحیح کہا ہے :
اورایک قول یہ ہے کہ پہلے سے موجود تھی توسلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی تھی اس کی دلیل صحیحین میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئ ؟
تونبی کریم ﷺنے فرمایا : مسجد حرام ( بیت اللہ ) تومیں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے ؟
تونبی معظم ﷺفرمانے لگے : مسجد اقصی ، تومیں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے ؟
تونبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال ، پھرجہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے ۔ (صحیح بخاری :3366 ۔ صحیح مسلم : 520 )
اورنبی کریم ﷺکورات کے ایک حصہ میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اوراس مسجد میں نبی معظم ﷺ نے دوسرے انبیاء علیہم السلام کونماز پڑھائی ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے معراج کا واقعہ ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے :
پاک ہے وہ اللہ تعالی اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گيا جس آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (الاسراء :1 )
اورقبہ صخرہ توخلیفہ عبدالملک بن مروان نے ( 72 ھ ) میں بنوایا تھا ۔
فلسطینی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :
مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدس پر ہوتاتھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبہ صخری جسے عبدالملک بن مروان نے 72 ہجری الموافق 691 میں بنوایا تھا جوکہ اسلامی آثارمیں شامل ہوتا ہے ، اورآج یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی بڑی مسجد پر بولا جاتا ہے ۔ (دیکھیں : الموسوعۃ الفلسطینیۃ 4 / 203 )
اوراسی انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ :
مسجد اقصی کے صحن کے وسط اور قدس شہرکے جنوب مشرقی جانب یہ قبہ بنایا گیا ہے جو کہ ایک وسیع وعریض اور مستطیل شکل کا صحن جس کی مساحت شمال سے جنوب کی جانب تقریبا 480 میٹر اورمشرق سے مغرب 300 میٹربنتی ہے ، اوریہ پرنےالقدس شہر سے تقریبا پانچ گناہ زیادہ ہے ۔( یہ عبارت کچھ کمی بیشی کے ساتھ پیش کی گئی ہے ، دیکھیں :الموسوعۃ الفلسطینیۃ 3 / 23 )
تووہ مسجد جوکہ نمازکی جگہ ہے وہ قبہ صخری نہیں ، لیکن آج کل قبہ کی تصاویرمنتشر ہونے کی بنا پراکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہيں ، حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں ، مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ واقع ہے اورقبہ صحن کے وسط میں ایک اونچي جگہ پر ۔
اوریہ بات تواوپربیان کی چکی ہے کہ زمانہ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پرہو تا تھا ۔
اس کی تائيد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سیدنا سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نےاس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں ، اس جگہ میں جسے سیدناعمربن خطاب رضي اللہ عنہ نے تعمیر کیا تھا نمازپڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔
اس لیے کہ جب سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تواس وقت اونچی جگہ ( قبہ صخرہ ) پرزیادہ گندگي تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہودی اس طرف نماز پڑھتے تھے تواس کے مقابلہ میں عیسائی اس جگہ کی توھین کرتے ، تو سیدناعمررضی اللہ عنہ نے اس گندگی کوصاف کرنے کا حکم صادر فرمایا ، اورسیدنا کعب رضي اللہ عنہ سے کہنے لگے :
تیرے خیال میں ہمیں مسلمانوں کے لیے مسجد کہاں بنانی چاہیے ؟ ، توکعب رضي اللہ عنہ نے جواب دیا : کہ اس اونچی جگہ کے پیچھے ، توعمررضي اللہ عنہ فرمانے لگے ، اویھودی ماں کے بیٹے ! تجھ میں یہودیت کی ملاوٹ ہے ، بلکہ میں تواس کے آگے بناؤں گا اس لیے کہ ہماری مساجد آگے ہوتی ہیں ۔ (دیکھیں : الرسائل الکبری لشیخ الاسلام 2 / 61 )
تویہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام جب بھی مسجد اقصی بیت المقدس میں داخل ہوکرنماز پڑھتے تو اسی جگہ پرپڑھتے تھے جسے عمررضي اللہ عنہ نے تعمیرکیا تھا ، اوراس اونچی جگہ ( گنبدوالی ) کے پاس نہ توعمراور نہ ہی کسی اورصحابی رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے نماز پڑھی تھی اورنہ ہی خلفاء راشدہ کے دور میں اس پرقبہ ( گبند ) ہی بنا ہوا تھا بلکہ یہ جگہ عمراورعثمان ، علی ، اورمعاویہ رضی اللہ عنہم اور یزید اورمروان کے دور حکومت میں یہ جگہ بالکل کھلی تھی ۔
اورنہ ہی صحابہ کرام اورتابعین عظام میں کسی نے اس قبہ کی تعظيم کی اس لیے کہ یہ قبلہ منسوخ ہوچکا ہے ، اس کی تعظیم توصرف یہودی اورعیسائی کرتے ہیں ، اس کا معنی یہ نہیں کہ ہم مسلمان اس کی تعظیم نہیں کرتے بلکہ ہم اسے وہ تعظیم دیتے ہيں جوہمارے دین میں ہے اورنبی کریم ﷺنے دی ہے جس طرح کہ ہر مسجد کوتعظیم دی ہے ۔
اورسیدناعمررضي اللہ عنہ نے جوسیدناکعب رضي اللہ عنہ کی بات کا انکارکیا اورانہیں اے یہودی ماں کے بیٹے کہا تو یہ اس لیے تھا کہ کعب رضي اللہ عنہ اسلام سے قبل یہودی علماء میں سے تھے جب انہوں نے سیدناعمررضی اللہ عنہ کواس اونچی جگہ کے پیچھے مسجد بنانے کا مشورہ دیا تواس میں اس چٹان کی تعظيم ہوتی کہ مسلمان نماز میں اس کی طرف منہ کرکے نمازادا کریں ، اور اس چٹان کی تعظیم تو یھودیوں کے دین میں ہے نہ کہ مسلمانوں کے دین اسلام میں ۔
مسلمانوں کا قبے کو ہی مسجد اقصی سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تصویروں میں اسے اچھی عمارت وہئیت میں دیکھا ہے ، تویہ اس غلطی کوختم نہیں کرسکتا جوکہ مسجد اقصی اورقبہ کی تميزميں پیدا ہوچکی ہے ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ یہودی سازش کا نتیجہ ہو تا کہ ان کے اس قبہ کی تعظیم کی جانی لگے اور وہ اس کی جانب ہی متوجہ ہوجائيں ، یا پھر یہ
اہل فلسطین کے ساتھ اسرائیل کی فریب کاریاں بشیر محمود اختر
فلسطین پر اسرائیلی دعویٰ:
اسرائیل فلسطین میں اپنی ریاست کے قیام کی بنیاد جن تین بڑے ماخذوں پر تعمیر کرتا ہے وہ ہیں اول انجیل میں عہدنامہ قدیم کی میراث‘ دوم ۱۹۱۷ء میں حکومت برطانیہ کا اعلان بالفور اور سوم ۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سفارش جس میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
فریب: ہم اپنے قدرتی تاریخی حق کی بنیاد پر۔۔۔ (ہم) یہاں ارض اسرائیل میں ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں یعنی ریاست اسرائیل۔(۱۹۴۸ء میں اسرائیل کا اعلانِ آزادی)
حقیقت: تاریخی لحاظ سے یہودی فلسطین کے قدیم ترین باشندے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے وہاں اتنا عرصہ حکومت کی جتنی کہ کئی دوسری اقوام نے۔
جدید ماہرینِ آثارِ قدیمہ اب اس بات پر عام طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کے قدیم ترین باشندے یعنی ۳۰۰ قبلِ مسیح سے لے کر تقریباً ۱۷۰۰ قبلِ مسیح تک کنعانی اور مصری تھے‘ جن کا ذکر قدیم کتب میں ملتا ہے۔ ان کے یکے بعد دیگرے دوسری اقوام مثلاً ہکسو‘ حطی اور فلسطینی آئے۔ یہودی حکومت کا عہد ۱۰۲۰ء قبل مسیح سے شروع ہو کر ۸۷۵ قبل مسیح تک رہا۔ اس کے بعد اسرائیلیوں کو اسیرین‘ اہل بابل‘ مصریوں اور شامیوں نے روند ڈالا۔ حتیٰ کہ ۱۶۴ ق م میں عبرانی مکعبیوں نے اپنا اقتدار جزوی طور پر بحال کیا۔ بہرحال ۸۳ ق م میں سلطنت روما نے یروشیلم فتح کر کے ۷۰ء کے لگ بھگ یہودیوں کے معبد ثانی کو مسمار کر ڈالا اور یہودیوں کو دوسرے علاقوں میں منتشر کر دیا۔ مجموعی طور پر فلسطین کی پانچ ہزار سالہ دستاویزی تاریخ میں قدیم یہودیوں نے اسے یا اس کے ایک بڑے حصہ کو محض چھ سو سال تک کنٹرول کیا یعنی کنعانیوں‘ مصریوں‘ مسلمانوں اور رومیوں سے بھی کم بقول امریکی ’’کنگ کرین کمیٹی‘‘ ۱۹۱۹ء کے اس دو ہزار سال پیشتر قبضہ کو بنیاد بنا کر دعویٰ ملکیت کرنا سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔
۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو تل ابیب میں جو میٹنگ ہوئی جس میں اس قدرتی اور تاریخی حق کے طور پر اعلانِ آزادی کیا گیا تھا اس میں صرف ۳۷ افراد شریک ہوئے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کی بین الاقوامی عالمی قانون میں کوئی مستند حیثیت نہیں کیونکہ وہ اس وقت کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ درحقیقت ان میں سے صرف ایک فلسطین کا پیدائشی شہری تھا بقیہ ۳۵ یورپی ممالک سے تھے اور ایک یمن کا باشندہ تھا۔ بقول ایک فلسطینی دانشور عیسیٰ نخلح کے ’’یہودی اقلیت کو ایک ایسے علاقے میں اپنی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں تھا‘ جہاں فلسطینی عرب قوم آباد تھی‘‘۔
فریب: ’’اسرائیل کا عالمی پیدائشی سرٹیفکیٹ‘‘ انجیل کے وعدہ سے سچا ثابت ہوتا ہے۔ (AIPAC ۱۹۹۲ء)
حقیقت: قبائلی اور قومی امنگوں کے لیے خدائی امداد کو بنیاد بنانا دنیا کا ایک قدیم رواج رہا ہے۔ سمیریوں‘ مصریوں‘ یونانیوں اور رومنوں سبھی نے اپنی فتوحات کا سہرا الہامی فیضان کے سر باندھا ہے۔ بقول ایک مورخ فرینک ایپ کے ’’تمام مظاہر اور زندگی کو کسی خدا یا خدائوں کا مظہر تصور کیا جاتا تھا۔ عمدہ زمین قوموں کو عطا کی جاتی تھی۔ اعلیٰ خداوندی کی طرف سے‘‘ موجودہ دور میں کوئی عدالت یا علمی ادارہ اس بنا پر کسی حق ملکیت کو جائز و قانونی تسلیم نہیں کرے گا کہ اس کا سرچشمہ خدا کی ذات ہے۔ جو لوگ انجیل کو عطاے ربانی مانتے ہیں ان میں بھی ’’ویزلے مذہبی مدرسہ‘‘ کے ڈاکٹر ڈیوی بیگل جیسے لوگ موجود ہیں‘ جو کہتے ہیں کہ قدیم یہودیوں نے الٰہی احکامات کی خلاف ورزی کر کے اپنے اس حق کو کھو دیا تھا۔
فریب: بالفور اعلان میں (یہودیوں کے فلسطین میں دوبارہ آباد ہونے کے) حق کو تسلیم کیا گیا تھا‘‘۔(اسرائیل کا اعلانِ آزادی ۱۹۴۸ء)
حقیقت: اعلان بالفور میں جان بوجھ کر ایک ’’قوم یہود‘‘ کے قیام کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔ یہ اعلان ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو اس خط میں کیا گیا تھا جو برطانوی سیکرٹری خارجہ لارڈ آرتھر بالفور نے برطانوی صیہونی فیڈریشن کے صدر لارڈ روتھ چائلڈ کو بھجوایا تھا۔ یہ بیان برطانوی کابینہ کا منظور شدہ اور اس میں درج تھا۔ ’’فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کو ہزمیجسٹی کی حکومت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی لیکن یہ ملحوظِ خاطر رکھنا ہو گا کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے موجودہ غیریہودی فلسطینی آبادیوں کے شہری یا مذہبی حقوق کو کوئی زک پہنچے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک میں آباد یہودی آبادی کے سیاسی مرتبہ یا حقوق جو انہیں وہاں حاصل ہیں وہ متاثر ہوں‘‘۔
۱۹۳۹ء میں ایک برطانوی وائٹ پیپر میں برملا کہا گیا کہ برطانیہ ’’کا ہر گز یہ ارادہ نہ تھا کہ فلسطین کو اس کی عرب آبادی کی مرضی کے خلاف ایک یہودی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے‘‘۔
فریب: ’’فلسطین ایک غیرآباد علاقہ ہے۔ ان لوگوں (یہودیوں) کے لیے جو بے خانماں ہیں‘‘۔ (اسرائیل ضانگ ول‘ ابتدائی صیہونی ۱۸۹۷ء)
حقیقت: ۱۹۱۷ء میں اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں کوئی چھ لاکھ عرب اور صرف ساٹھ ہزار یہودی آباد تھے۔ آئندہ تیس برس میں یہ فرق گھٹتا گیا‘ خاص طور سے ہٹلر کی یہود مخالف (Anti-Semitic) (اس کا صحیح ترجمہ ’’یہود مخالف‘‘ نہیں ہے۔ لیکن اب اسرائیلی اس کو انہی معنوں میں لیتے ہیں۔ مترجم) پالیسیوں کے باعث بہرحال ۱۹۴۷ء میں جب اقوامِ متحدہ نے عندیہ دیا تو اس وقت بھی عربوں کی دو تہائی اکثریت تھی اور یہودی صرف ایک تہائی تھے۔ یعنی عربوں کی آبادی ۱۲۳۷۳۳۲ جب کہ یہودی صرف ۶۰۸۲۲۵ تھے۔ ضانگ ول کے ایک دوست اور پرانے صیہونی میکس ناردو کو جب یہ علم ہوا کہ فلسطین میں ۱۸۹۷ء میں بھی مقامی عرب آبادی موجود تھی تو اس کا کہنا تھا ’’ہم بے انصافی کر رہے ہیں‘‘۔
نہ صرف یہ کہ مقامی عرب آبادی موجود تھی بلکہ ان کا ایک تسلیم شدہ ڈھانچہ تھا جسے دوسرے تمام عرب امتیازی طور پر ’’فلطینی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ان میں دانشور اور پیشہ ورانہ طبقات‘ سیاسی تنظیمیں اور ایک ترقی پذیر زرعی معیشت موجود تھی جو ایک جدید صنعت میں ڈھل رہی تھی۔ ایک دانشور جان کوئیگلے کے بقول ’’عرب آبادی صدیوں سے قائم چلی آرہی تھی۔ انیسویں صدی میں کوئی خاص اندرونی نقل مکانی نہ ہوئی تھی‘‘۔
فریب: ’’ہم اپنے حق،اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی رو سے (ہم) ارضِ اسرائیل میں ایک یہودی حکومت کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی ریاستِ اسرائیل‘‘۔ (اسرائیل کا اعلانِ آزادی ۱۹۴۸ء)
حقیقت: یہ صرف ٹرومین انتظامیہ کا زبردست دبائو ہی تھا جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اقوامِ متحدہ کی یہ تقسیم پلاننگ جنرل اسمبلی سے منظور کروائی۔ اس کی حمایت میں ۳۳‘ خلاف ۱۳ ووٹ پڑے جبکہ ایک نمائندہ غیرحاضر تھا۔ اور دس نمائندوں نے ووٹ نہ دیا جو ممالک امریکی دبائو کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے وہ تھے: فرانس‘ حبشہ‘ ہیٹی‘ لائے بیریا‘ لکسمبرگ‘ پیراگوئے اور فلپائن‘ سابقہ سیکرٹری آف اسٹیٹ سمرویلز کا کہنا تھا ’’مسلم دنیا کے علاوہ ان ممالک پر امریکی حکام کا زبردست دبائو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر ڈالا گیا جن کے بارے میں معلوم تھا کہ وہ اس تقسیم کے پلان کے مخالف ہیں یا گومگو کا رویہ رکھتے ہیں۔ مختلف نمائندوں اور گماشتوں کے ذریعہ امریکا نے اس بات کو یقینی بنایا کہ مطلوبہ اکثریت حاصل ہو کر رہے‘‘۔
یہ تقسیم پلان یعنی قرارداد نمبر۱۸۱ فلسطین کو ’’آزاد عرب اور یہود ریاستوں میں تقسیم کرتی ہے جبکہ یروشیلم کو خصوصی شہر کی حیثیت حاصل ہو گی‘‘۔ اسرائیل کے مستقبل کے وزیرِ خارجہ موشے شارط کا بیان تھا کہ اس قرارداد میں مستقل قوت نفاذ‘‘ تھی۔ اسرائیل کے اعلانِ آزادی میں اس کا تین مرتبہ حوالہ دیا گیا ہے کہ یہ قیامِ اسرائیل کی جائز قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے لیکن سکیورٹی کونسل کے برخلاف جنرل اسمبلی کو سفارشات کرنے کے علاوہ کوئی بھی اختیار حاصل نہیں۔ یہ اپنی سفارشات کو نافذ نہیں کر سکتی اور نہ ہی انہیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ ماسوا اقوامِ متحدہ کے داخلی معاملات کے‘‘۔
عجب نہیں جو فلسطینیوں نے اس تقسیم پلان کو مسترد کر دیا۔ انہیں اس کا حق تھا کیونکہ یہ منصوبہ ایک تہائی آبادی کو‘ جس کا فلسطین کے پندرہویں حصہ سے بھی کم یعنی صرف ساڑھے چھ فیصد علاقے پر قبضہ تھا‘ نصف سے زائد فلسطین عطا کر رہا تھا۔
مزید برآں فلسطینیوں کا یہ کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ یہ وہ فلسطین کی آبادی کی اکثریت کی مخالفت کے باوجود یہ تقسیم پلان کو نامنظور کر کے فلسطینیوں سے اپنے آزاد ملک کے قیام کے حق سے دستبرداری قبول نہیں کی۔ ان کی مخالفت فلسطین کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست کے قیام پر تھی نہ کہ یہود کے بطور ایک قوم کے اپنے حقوق پر۔ یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گوریان نے اپنے ساتھیوں پر زور دیا کہ وہ یہ تقسیم پلان منظور کر لیں کیونکہ بقول اس کے ’’تاریخ میں کچھ بھی حتمی اور آخری نہیں ہوتا۔ نہ حکومت کے بارے میں‘ نہ سرحدوں کے بارے میں اور نہ ہی بین الاقوامی معاہدوں کے بارے میں‘‘۔
صیہونیت کے ایک عظیم بنیادی رکن ناہم گولڈمین نے اس حقیقت کو ذرا مختلف انداز میں یوں بیان کیا: ’’ایسی اسرائیلی ریاست کا بھلا کیا مستقبل ہو گا جسے اگلے پچاس برس تک عرب دشمنوں کی مزاحمت کا سامنا ہوا‘‘۔
فریب: ’’اردن پہلے اسرائیل کا حصہ تھا‘‘۔ (ایریل شیرون اسرائیلی وزیرِ تجارت ۱۹۸۹ء)
حقیقت: اسلامی عثمانیہ سلطنت کی طویل تاریخ میں فلسطین کبھی بھی ایک علیحدہ مملکت یا انتظامی اکائی کے طور پر قائم نہیں رہا۔ جب مشرقی بحیرہ روم اور مصر و لبنان کا درمیانی علاقہ برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد ترکی سے چھینا جس کو آج کل فلسطین کہہ کر پکارتے ہیں تو اس کے بیشتر حصے لبنان کے زیرِ اہتمام تھے جبکہ یروشیلم کو ایک خودمختار علاقے کی حیثیت حاصل تھی۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ہارون کلیمان کے بقول دریائے اردن کا مشرقی علاقہ یعنی شرق اردن ترکوں کے لیے ایک علاقہ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کے وقت اسے یونہی چھوڑ دیا گیا تھا۔
۱۹۲۲ء میں جب لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانیہ کے اقتدار میں دیا تو اس میں شرق اردن کا علاقہ میسو پوٹامیا تک شامل تھا جو بعد میں عراق کہلایا۔ آج کل کے محاورہ میں اس میں اسرائیل‘ مغربی کنارہ‘ غزہ کی پٹی اور یروشیلم شامل تھے۔ دسمبر ۱۹۲۲ء میں برطانیہ نے یہ اعلان کیا کہ وہ ’’ماورا اردن ایک آزاد دستوری حکومت‘‘ کو تسلیم کرتا ہے اور ۱۹۲۸ء میں اس نے خصوصی طور پر دریائے اردن کے مغرب میں واقع علاقے کو فلسطین قرار دیا۔ برطانیہ صرف اس ارضِ فلسطین میں اعلان بالفور کے مطابق ایک آزاد یہودی ریاست کے قیام میں امداد کو اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔
مضمون نگار ایک سابق ریپبلکن کانگریس مین ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کے ماہر ہیں۔ ان کی ایک تصنیف “Liberating America from Israel” ہے۔(بشکریہ: ڈیلی ’’اسٹار‘‘۔ مشرقِ وسطی)