قارئین کرام!اس عصر حاضر میں جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے نبی مکرم ﷺ کی فرمانبرداری اور اللہ کی وحدانیت و ربوبیت کا اقرار کرنے والے پیروکار موجود ہیں وہیں بہت سے انسان شرک کے سمندروں میں ڈوبے نظر آتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی وحدانیت اور توحيد کی طرف دعوت دی جائے تو وہ بعض اعتراضات پیش کرتے ہیں، جن میں سے چار اعتراضات اختصار کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔
پہلا اعتراض:
بعض قبرپرست، جو قبر پرستی کے داعی بھی ہیں، کہتے ہیں:» تم ہمیں خواہ مخواہ برا کہتے ہو۔ ہم مُردوں کو تھوڑی پوجتے ہیں!
ان قبروں میں تو اللہ کے نیک بندے مدفون ہیں۔ اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مقام و مرتبہ ہے۔ دراصل وہ اللہ تعالیٰ ہاں ہماری سفارش کرتے ہیں۔
ہم اس اعتراض کا یوں جواب دیتے ہیں کہ یہ شرک کی وہی شکل ہے جسے اہل مکہ بجا لایا کرتے تھے۔
اہل عرب بھی توحید الہی کے قائل تھے۔ وہ مانتے تھے کہ انسانوں کا خالق، رازق اور کائنات کی تدبیر کرنے والا اللہ وَحده لَا شرِيك ہی ہے،
جیسے اللہ تعا لی نے فرمایا ہے:
قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
’’( اے نبی! ) کہہ دے: تمہیں آسمان اور زمین سے کون رزق دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ( دنیا کے ) کاموں کا انتظام کرتا ہے؟ تو وہ( کافر) ضرور کہیں گے: اللہ ۔ پس کہہ دے: کیا پھر تم (اللہ سے)کیوں ڈرتے نہیں؟‘‘۔( يونس: 31)
قرآنی آیات اور احادیث نبوی میں بیان کیا گیا ہے کہ شرک یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کیا جائے۔ وہ شریک چاہے بت ہو یا پتھر، کوئی نبی ہو یا ولی، یا کوئی قبر۔
یوں شرک کی تعریف یہ ہوئی کہ ہر وہ کام جو اللہ کے لیے خاص ہے، کسی غیر کے لیے بجا لایا جائے۔ غیر خواہ جاہلیت کا کوئی بت ہو یا مورتی ہو یا اسے آج کی طرح کسی ولی کی قبر اور مزار کہتے ہوں۔
مشرکین کی عمومی حالت کے پیش نظر آج بھی کوئی نیا فرقہ یا نئے لوگ آجائیں اور دعویٰ کریں کہ اللہ کے بیوی بچے ہیں تو قرآن کی رو سے انھیں بھی نصاریٰ کہا جائے گا اور ان پر وہی آیات منطبق ہوں گی جو نصاریٰ کے بارے میں اتری ہیں، خواہ وہ لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ نہ کہلاتے ہوں، اس لیے کہ یہ دونوں ایک ہی حکم میں آتے ہیں۔ اسی طرح سابقہ زمانوں کے اور آج کے قبرپرست ایک ہی حکم کے تحت ہوں گے۔
دوسرا اعتراض:
بعض قبرپرست کہتے ہیں: ’’ہم تو محض حصول شفاعت کے لیے اولیاء اور صالحین کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہت نیک تھے۔ دن کو روزہ رکھتے تھے۔ راتوں کو اٹھ کر روتے تھے۔ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام و مرتبہ تھا۔ ہم ان سے اپنے لیے اللہ کے ہاں سفارش کے طلبگار ہیں۔
ہم ایسے لوگوں سے کہتے ہیں: ’’ محترم بھائیو! اللہ تمہیں ہدایت دے۔ اللہ کے داعی کی بات سنو اور اس پر ایمان لاؤ۔ اللہ نے ایسی شفاعت و سفارش کا نام شرک رکھا ہے۔ فرمایا:
وَ يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنْفَعُهُمْ وَ يَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ اَتُنَبِّـُٔوْنَ۠ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ
’’وہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نقصان دیتی ہیں اور نہ نفع دیتی ہیں اور وہ کہتے ہیں: یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں‘‘۔(یونس:18)
کہہ دے: کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ آسمانوں میں نہیں جانتا اور نہ زمین میں؟ وہ پاک ہے اور بالا ہے ان سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
ہم انہیں یہ جواب دیں گے کہ ہمارا بھی ایمان ہے کہ اللہ تعا لی نے انبیاء و اولیاء کو شفاعت کا مقام عطا کیا ہے۔ دوسرے لوگوں کی نسبت وہ اللہ کے زیادہ قریب ہیں مگر اللہ نے خود ان سے مانگنے اور دعا کرنے سے منع کیا ہے۔
انبیاء واولیاء وشہداء اللہ کے ہاں سفارش ضرور کریں گے مگر اس کا انہیں مطلق اختیار نہیں کی جس کی چاہیں سفارش کریں اور جسے چاہیں محروم کردیں۔ نہیں! ہرگز نہیں! بلکہ اللہ کی اجازت کے بعد جس کے لیے اللہ راضی ہوگا اس کے لیے یہ سفارش کریں گے۔ (آية الكرسي مع ترجمہ سورة البقرة)
تیسرا اعتراض:
کچھ قبر پرستوں کا ایک اعتراض یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے مسلمان قبروں پر عمارتیں،قبے اور مزار بناتے اور وہاں دعائیں اور مناجات کرتے آئے ہیں۔ کیا یہ امت ساری باطل پر ہے اور صرف تم حق پر ہو؟
ہم ان سے کہتے ہیں کہ ایسی اکثر قبریں اور مزارات فرضی اور بناوٹی ہیں۔
پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ مذکورہ ہستیوں سے ان مزاروں کی نسبت درست نہیں، پھر قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا یا وہاں دعا کروانے کے لیے جانا بدعت و شرک ہے۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيائِهِم مَسَاجِدَ
’’یہودیوں اور عیسائیوں پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ہے۔(صحيح البخاري حديث: ٤٣٦٤٣٥، وصحيح مسلم، حديث ٥٣١)
‘‘چوتھا اعتراض:
بعض لوگوں کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ ڈال رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کی نبی محمد ﷺ کی قبر مبارک بھی تو مسجد کے اندر ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ اگر قبر مسجد کے اندر بنانی حرام ہوتی تو آپ ﷺ کو مسجد میں دفن نہ کیا جاتا۔ اسی طرح قبر مبارک کے اوپر قبے پر بھی لوگوں کا اعتراض ہے۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی جہاں رحلت ہوئی وہیں دفن ہوئے۔ اسی طرح دوسرے انبیاء بھی جہاں وفات پاتے ہیں وہیں دفن ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کے رسول اللہ ﷺ کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا تھا، مسجد میں نہیں۔ صحابہ نے آپ کو حجرہ عائشہ میں اس لیے دفن کیا کہ بعد میں آنے والے لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنالیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے وہ فرماتی ہیں: ’’ رسول اللہ ﷺ نے آخری بیماری ( مرض الموت ) میں فرمایا تھا: ’’ اللہ یہود و نصاری پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا‘‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ اگر یہ خدشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر بھی کھلی جگہ پر ہوتی مگر ڈر تھا کہ اسے سجدہ گاہ بنا لیا جائے گا ۔‘‘ ( صحیح البخاری، حدیث: ١٣٣٠، وصحیح مسلم، حدیث: ٥٢٩ )
رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں مدفون ہیں، ام المومنین کا گھر مشرقی جانب سے مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا۔ کئی سال بعد جب لوگ زیادہ ہو گئے تو صحابہ کرام نے مسجد نبوی کی توسیع کی مگر قبر والی طرف کچھ اضافہ نہ کیا۔ انھوں نے مغرب، شمال اور جنوب کی طرف تو مسجد کو وسعت دی مگر مشرق کی طرف قبر کی وجہ سے مسجد کو وسیع نہ کیا۔ ٨٨ ہجری میں، یعنی رحلت نبوی سے ستر سال بعد جب مدینہ منورہ کے صحابہ کرام کی اکثریت اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی،
اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے پرانی مسجد گرا کر نئی مسجد بنانے کا حکم صادر کیا اور یہ بھی حکم دیا کہ مسجد ہر جانب سے وسیع کی جائے جس میں ازواج مطہرات کے حجرے بھی شامل تھے۔ اب کے مشرقی جانب بھی توسیع ہو گئی تو حجرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جہاں رسول اللہ ﷺ مدفون ہیں، وہ بھی مسجد میں شامل کرلیا گیا۔ یوں قبر بھی مسجد میں آگئی۔( الرد علی الأخنائی، ص:١٨٤، ومجموع الفتاوی: ٢٧/٣٢٣، وتاريخ ابن كثير: ٩/٧٤ )
قبر نبوی اور مسجد نبوی کے بارے میں مذکورہ معلومات حاصل ہونے کے بعد کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ صحابہ کے زمانے کے بعد ہونے والے تبدیلی سے کوئی حجت اور دلیل لے کیونکہ یہ تبدیلی احادیث صحیحہ اور صالحین کے منہج کے خلاف ہے۔ اس میں ولید بن عبد المالک سے غلطی ہوئی۔ اللہ انہیں معاف کرے، انہوں نے حجرہ نبوی مسجد میں داخل کردیا۔
حجرے والی جانب چھوڑ کر دوسری اطراف میں اضافہ کیا جا سکتا تھا۔
قبر کے اوپر قبے کے متعلق بھی یہی عرض ہے کہ نبی مکرم ﷺ اور صحابہ، تابعین، تبع تابعین یا علماء سلف میں سے کسی نے نہیں بنوایا۔ قبر پر یہ قبہ ایک مصری حکمران نے ٦٧٨ھ میں بنوایا تھا۔ اس مملوک حکمران کا نام سیف الدین قلاوون صالحی ہے جو الملک المنصور سے معروف تھا۔ ( تحذير الساجد للألباني، ص ٩٣، وصراع بين الحق والباطل، ص ١٠٦، وتطهير الاعتقاد، ص ٤٣ )
ان سب قبر پرستوں اور ان کے چاروں اعتراضات کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کرنے کے بعد ہم اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے پیروکار ان قبر پرستوں کو اپنا حق بیان کرتے ہیں۔
ہمارا اعلانِ حق!
ہم قبر پرستوں سے کہتے ہیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کی سلف صالحین میں سے کسی نے قبروں کو پختہ کیا ہو یا کسی انسان سے کوئی امید لگائی ہو، یا کسی مزار اور قبر پر جا کر گڑ گڑائے ہوں اور اللہ تعا لی سے منہ موڑا ہو؟ کیا تم جانتے ہو کہ سلف صالحین نبی ﷺ کی قبر پر یا کسی صحابی کی قبر یا اہل بیت میں سے کسی کی قبر پر حاضر ہوئے ہوں اور وہاں اپنی حاجات پیش کی ہوں یا ان سے اپنی کوئی مصیبت و پریشانی دور کرائی ہو؟
آپ کیا سمجھتے ہیں، کیا شیخ رفاعی، دسوقی،جیلانی اور بدوی اللہ کے ہاں نبیوں اور رسولوں اور صحابہ و تابعین سے زیادہ مقام و مرتبہ والے ہیں اور کیا ان کا وسیلہ و واسطہ اللہ کی ہاں زیادہ مقبول بارگاہ ہے؟
ذرا صحابہ کے عمل پر غور کریں کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں قحط پڑا اور بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے قحط سالی کی شکایت کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر عید گاہ کی طرف گئے اور انھیں نماز استسقاء پڑھائی، پھر اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی:
’’اے اللہ! جب کبھی ہمیں قحط سالی کا سامنا ہوتا تھا تو ہم اپنے نبی کی دعا کو وسیلہ بناتے تھے اور تو ہمیں بارش عطا کرتا تھا۔ اے اللہ! اب ہم تیرے نبی کے چچا کی دعا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں۔‘‘
پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی سے دعا کی اور لوگوں نے ان کی دعا پر آمین کہا۔ اس دوران میں وہ روتے اور گڑ گڑاتے رہے یہاں تک کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور بارش برسنے لگی۔ ( صحيح البخاري، حديث:١٠١٠ )
صحابہ کرام ہم سے زیادہ سمجھدار تھے اور نبی سے انتہائی محبت کرنے والے تھے اس کے باوجود جب انہیں کوئی حاجت پیش آتی یا ان پر کوئی مصیبت آپڑتی تو نبی کریم ﷺ کی قبر کی طرف کبھی نہیں جاتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے: « اللہ کے رسول! اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں»
صحابہ کو معلوم تھا کہ قبر والے سے دعا کرنا جائز نہیں، چاہے وہ نبی مرسل ہو یا مقربِ بارگاہ ولی۔
آج کے ان مسکینوں پر افسوس! صد افسوس! جو بوسیدہ ہڈیوں پر گرے پڑتے ہیں اور ان سے اپنی مغفرت اور رحمت کے طلبگار ہیں۔ اے قوم! تم پر افسوس! کیا تمہیں علم ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے تصویریں اور مورتیں بنانے سے منع کیا تھا تو کیا مقصد تھا۔ آپ ﷺ کو خوف تھا کی مسلمان دوبارہ پہلے والی جاہلیت میں جا گریں گے اور ان تصویروں اور مورتیوں کی پوجا شروع کردیں گے! جو لوگ تصویروں اور مورتیوں کی تعظیم کرتے ہیں اور جو مزاروں اور قبروں کو مقدس جانتے ہیں،ان کے درمیان کیا فرق رہ جاتا ہے۔ نتیجہ دونوں کا شرک اور عقیدہ توحید کا فساد ہے۔
غلام اپنے آقا کو آقا تسلیم کرنے سے انکار کردے تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
شرک کی حقیقت بھی یہی ہے۔ ایک غیور آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ خالق کو چھوڑ کر اپنے جیسی مخلوق کے آگے سر جھکائے،شرک کا نتیجہ تباہ کاری کے سوا کچھ نہیں۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شرک سے محفوظ فرمائے۔ آمین