نسب وخاندان:

امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے ۔ یہ خاندان حرم کعبہ کی خدمات ، سقایہ زمزم کے انتظامات کی نگرانی اور حجاج کرام کے ساتھ تعاون و امداد کے لحاظ میں مکہ کا ممتاز خاندان تھا ۔ علاوہ ازیں بنی ہاشم کو سب سے بڑا شرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوا وہ نبی آخرالزمان ، سرور عالم کی بعثت ہے جو دوسرے تمام اعزازات سے بلند تر ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب اور والدہ فاطمہ دونوں ہاشمی تھے۔ اس طرح سیدنا علی نجیب الطرفین ہاشمی پیدا ہوئے۔فاطمہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ہجرت مدینہ کا شرف بھی حاصل کیا ۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔ رسول اکرم ﷺ نےخود ان کے کفن دفن کے انتظامات فرمائے تھے اور اپنا قمیص مبارک ان کے کفن میں شامل فرمایا اور قبر کے تیار ہونے پر پہلے خود اس میں داخل ہوئے اور اسے متبرک فرمایا ۔ نبی پاک نے مرحومہ کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ ابوطالب کے بعد میری نگہداشت اور ضروریات پورا کرنے میں ان کی بہت بڑی خدمات ہیں اور میں نے ان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ ان پر قبر کے شدائد آسان ہوں ۔

ولادت اور تربیت :

بعض اقوال کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت مکہ شریف میں عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی ۔ بعض سیرت نگار لکھتے ہیں کہ نبی اکرم کی ولادت کے تیس سال بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔ نبی اکرم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا ۔ اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول اکرم کی آغوش محبت میں تعلیم و تربیت نصیب ہوئی ۔ اس بنا ءپرسیدنا علی رضی اللہ عنہ ابتدائی طور پر امورخیر کی طرف راغب اور بت پرستی جیسی جاہلانہ رسوم سے مجتنب رہتے تھے۔
قبول اسلام :
نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے کے بعد اسلام کی طرف دعوت دینے کا آغاز اپنے اہل خانہ سے فرمایا۔ ام المؤمنین سیدنا خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے سب سے پہلے اس دعوت کو قبول کیا اور پہلی مسلمان خاتون ہونے کا شرف حاصل کیا۔ نبی مکرم ﷺکے حلقۂ احباب میں سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دعوت حق قبول کی اور سب سے پہلے مسلمان بالغ مرد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح نوخیز لڑکوں میں سب سے پہلے نبی رحمت ﷺ کے گھر میں تربیت پانے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے اور غلاموں میں سب سے پہلے نبی پاک کے خادم سیدنا زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ نے مسلمان ہونے کی سعادت حاصل کی ۔

اعزہ واقرباکی دعوت :

نبی کریم ﷺنے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو اپنے گھر میں جمع کرکے دعوت اسلام پیش کی تومو جود مرد اور خواتین سب خاموش رہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان میں سب سے کم عمر تھے ۔ انہوں نے اٹھ کر کہا کہ ”گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں تاہم میں آپ کا ساتھی اور دست و بازو بنوں گا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جاں نثاری کا واقعہ :
نبی کریم ﷺکی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی عمر تیئیس سال تھی ۔ سرور کائنات نے مشرکین مکہ کے محاصرے اور ان کے برے ارادوں کی اطلاع پا کر سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر استراحت کرنے کا حکم دیا اور مکہ کے لوگوں کی امانتیں جو نبی پاک کے پاس رکھی گئی تھیں ،ان کے مالکوں کے سپرد کردینے کی ہدایت فرمائی ۔ اس شدید خطرے کی حالت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم کے بستر پر سکون و اطمینان کے ساتھ محو خواب ہو گئے ۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے رہے کہ نبی پاک ہی اپنے بستر پر موجود ہیں ۔ وہ علی الصبح اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لئے اندر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نبی کریم کی جگہ آپکا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لئے موجود ہے ۔ درآں حالیکہ نبی کریم ،سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر رات کے وقت ہی مدینہ منورہ جانے کے لئے نکل چکے تھے ۔ مشرکین اپنی اس غفلت کی بنا پر ایک دوسرے پر برہم ہوتے رہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر اپنے اصل مقصود کی تلاش میں روانہ ہوگئے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم کے مکہ سے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن مکہ میں رہے اور نبی اکرم ﷺ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کرکے اور لین دین کے معاملات سے فراغت حاصل کرکے تیسرے یا چوتھے دن عازم مدینہ منورہ ہوئے ۔
غزوات میںشجاعت کے کارہائے نمایاں :
1۔  ۰۲ھ میں غزوہ بدر میں تین سو تیرہ جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نمایاں تھے ۔ نبی اکرم ﷺ کے سیاہ رنگ کے دو جھنڈوں میں سے ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔ بدر کے میدان میں پہنچتے ہی نبی پاک نے دشمن کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چند منتخب جاں بازوں کے ساتھ بھیجا ۔ انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ یہ خدمت انجام دی اور مجاہدین اسلام نے مشرکین سے پہلے پہنچ کربدر کے اہم مقامات پر قبضہ کرلیا ۔ سترھویں رمضان کو جنگ کی ابتدامیں قاعدہ کے مطابق پہلے تنہا مقابلہ شروع ہوا تو مشرکین مکہ کی طرف سے تین بہادر جنگجو نکلے اور مسلمانوں سے مبارز طلب ہوئے۔ تین انصاری مسلمانوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور آگے بڑھے تو مشرکین کے بہادر جنگجوؤں نے ان کا نام و نسب پوچھا ۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ یثرب کے نوجوان ہیں تو ان کے ساتھ لڑنے سے مشرکین نے انکار کردیا اور نبی پاک کو پکار کر کہا کہ ہمارے مقابلے میں ہمارے ہمسر قبیلہ قریش کے آدمی بھیجو۔ اس پر نبی کریم ﷺنے اپنے خاندان کے تین قریبی عزیزوں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ،سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث کو میدان میں بھیجا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حریف ولید کو ایک ہی وار میں تہہ تیغ کردیا ۔ اس کے بعد جھپٹ کر سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ کی مدد کی اور ان کے حریف کو بھی قتل کردیا ۔ اس کے بعد عام جنگ شروع ہوئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور بہت سے کفار کو جہنم واصل کیا ۔
2۔ ۰۳ھ میں غزوہ احد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آگے بڑھ کر علم سنبھالااور بے جگری کے ساتھ داد شجاعت دی۔ اس غزوہ میں نبی کریم زخمی ہوگئے تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی پاککو پہاڑ پر لے گئے اور اپنی ڈھال میں پانی بھر کر نبی کریم کے زخموں پر گرایا تاکہ خون بند ہوجائے ۔
3۔۰۴ھ میں غزوہ بنی نضیر میں بھی علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا اور وہ پیش پیش تھے۔بنو نضیر کو ان کی بدعہدی کے باعث جلاوطن کر دیاگیا تھا۔
4 ۔۰۵ھ میں غزوہ خندق میں کبھی کبھار کفار مکہ کے گھڑ سوار خندق میں گھس کر حملہ کرتے تھے۔ایک دفعہ گھڑ سواروں نے حملہ کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے چند جاں بازوں کے ساتھ آگے بڑھ کر انہیں روکا اور گھڑ سواروں کے سردار عمرو کو قتل کر دیا ۔ اس کے قتل ہونے کے بعد باقی سواربھاگ کھڑے ہوئے۔
5 ۔غزوہ خندق کے بعد بنو قریظہ کی سرکوبی کی مہم میں بھی علم نبوی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا اور انہوں نے بنو قریظہ کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔
6 ۔۰۶ھ میں بنو سعد کی سرکوبی کے لیے نبی پاک نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک سو مجاہدین کی جمعیت کے ساتھ مامور فرمایا۔انہوں نے حملہ کرکے بنو سعد کو منتشر کر دیا اور یہود خیبر کی اعانت کرنے سے انہیں روک دیا۔ بنو سعد کے پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں مال غنیمت میں لے آئے۔
7 ۔۰۷ھ میں فتح خیبر کا شرف بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔ اس معرکہ میں بھی نبی کریم نے اپنا علم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیا تھا اور علم دینے سے ایک دن پہلے فرمایا تھا کہ ”کل ایک ایسے بہاد ر کو علم دوں گا جو اللہ اور رسول کا محبوب ہے اور خیبر کی فتح اسی کے ہاتھ میں مقدرہے۔ اس معرکہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے یہودیوں کے سردار مرحب کو ایک ہی وار میں ڈھیر کر دیا تھا اور حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ خیبر کے مضبوط قلعہ کو فتح کر لیا۔
8 ۔  ۰۸ھ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے علم لے کر مکہ معظمہ میں داخل ہو جائیں ۔ چنانچہ وہ مکہ میں داخل ہو گئے اور مکہ معظمہ بغیر کسی خونریزی کے فتح ہو گیا۔ کعبہ کو بتوں سے پاک کرتے ہوئے نبی کریم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر چڑھا کر سب سے بڑے بت کو گرانے کا حکم دیا ۔ انہوںنے سلاخ سے اکھاڑ کر اس بت کو پاش پاش کر ڈالااور خانہ کعبہ کی تطہیر کا کام مکمل ہوگیا۔
9 ۔فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین کے عظیم الشان معرکہ میں بارہ ہزار مجاہدین اسلام میں سے جو حضرات ثابت قدم رہے تھے ان میں سے ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ نے غیر معمولی شجاعت سے لڑائی کو شکست سے فتح میں تبدیل کر دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بالآخراللہ تعالی کی نصرت شامل حال ہو گئی اور دشمن کو شکست ہو گئی۔
10 ۔۰۹ھ میں تبوک کی مہم کے موقع پر نبی پاک نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل بیت کی حفاظت کے لیے مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا تو  اللہ کےشیر کوجہاد سے محرومی کا غم لاحق ہو گیا۔ نبی پاک نے ان کا غم دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : ً علی رضی اللہ عنہ ! کیا تم اسے پسند کرو گے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ رتبہ ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام کے نزدیک تھاً۔
11 ۔غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد اسی سال نبی پاک نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا تھا۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ  پر مدینہ منورہ میں سورة توبہ نازل ہوئی تو نبی پاک نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حج کے اجتماع عام میں جا کر اس سورة کو سنائیںاور یہ اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہیں آ سکتا اور کوئی شخص کعبہ کا طواف برہنہ ہو کر نہ کرے۔
12 ۔رمضان ۱۰ھ میں نبی پاک نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یمن جا کر تبلیغ اسلام کا حکم دیا۔ اس موقع پر نبی کریم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میںیہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کر دے ً۔ اس دعا کے بعد نبی کریم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ فرمایا۔ یمن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تلقین سے یمن کا اہم قبیلہ ہمدان مسلمان ہو گیا۔نبی کریم کے حجة الوداع میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آکر شرکت کی تھی۔
علم و فضل کے کمالات :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بچپن ہی سے نبی کریم ﷺسے تعلیم و تربیت کا جو موقع ملا تھا اس کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا۔اکثر سفر میں بھی نبی مکرم ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوتا رہتا تھا۔اس لئے سفر سے متعلق شرعی احکام سے واقفیت حاصل ہوجاتی تھی۔ سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کے متعلق سوال کیاگیا تو انہو ں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے کہا اور اس کی وجہ سے یہ بیان کی کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ سفر کرتے تھے۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ازالة الخفاء‘‘میں نبی کریمﷺکے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تقرب اور تربیت کو ان کے فضائل کی اصلی بنیاد قرار دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے:۔
’’آپ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ )کے تقرب و اختصاص کی بناءپر خودرسول اللہ ﷺ آپ رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے ۔ بعض موقعوں پر قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر بھی فرماتے تھے ۔ چند مخصوص احادیث بھی قلمبند کرلی تھیں ۔ غرض سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ابتداہی سے علم وفضل کے گہوارہ میں تربیت پائی تھی ۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں آپ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ )غیر معمولی تجربہ اور فضل و کمال کے مالک ہوئے۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بچپن ہی میں لکھنے پڑھنے کی تعلیم حاصل کرلی تھی ۔ چنانچہ اسلام لانے کے وقت اگرچہ آپ رضی اللہ عنہ کی عمر بہت کم تھی ، تاہم آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔اسی لئے ابتداءہی سے بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہ کی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی نبی اکرم ﷺ کے تحریر ی امور انجام دیتے تھے۔ چنانچہ کاتبان وحی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام بھی شامل ہے ۔ نبی اکرم کی طرف سے بعض مکاتیب و فرامین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دست مبارک سے لکھے ہوئے تھے۔ حدیبیہ کا صلح نامہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا۔ صلح نامہ کے شروع میں انہوں نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد رسول اللہ ﷺ اور مکہ کے قریش کے درمیان طے پایا ہے ۔ اس پر قریش مکہ کے نمائندے نے اعتراض کیا کہ ہم تو محمدکو اللہ کا رسول نہیں مانتے تو نبی کریم ﷺنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان الفاظ کو میں تو اپنے ہاتھ سے نہیں مٹاسکتا(کیونکہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں)اس پر نبی کریم ﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے ان الفاظ کو کاٹ دیا ۔

تفسیر اور علوم القرآن:

اسلام کے علوم و معارف کا اصل سرچشمہ قرآن پاک ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سرچشمہ سے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔ انہوں نے نبی پاک ﷺکی زندگی میں نہ صرف پورا قرآن زبانی یاد کرلیاتھا بلکہ اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شان نزول سے بھی واقف تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا شمار مفسرین قرآن کے اعلیٰ طبقہ میں ہوتا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سوا اس کمال میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کوئی شریک نہیں ۔علم ناسخ و منسوخ میں بھی آپ رضی اللہ عنہ کو کمال حاصل تھا۔
قرآن پاک سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں آپ رضی اللہ عنہ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ چنانچہ تحکیم کے مسئلہ میں خوارج نے اعتراض کیا کہ فیصلہ کا حق اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ” اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں دونوں کے خاندانوں میں سے حکم بنانے کی اجازت دی ہے تو امت محمدیہ میں اختلاف ہوجانے پر حکم بنانا کس طرح ناجائز ہوسکتا ہے؟ کیا امت محمدیہ کی حیثیت ایک مرد اور ایک عورت سے بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کم ہے ؟“

قرآن پر عمل کا شوق:

قرآن کے علم کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ قرآن پر عمل میں بھی دوسروں پر سبقت لے جانے والے تھے۔ سورہ المجادلہ کی آیت نمبر۱۲میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم سے تخلیہ میں بات کرنے سے پہلے صدقہ دینے کا حکم دیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً اس آیت پر عمل کیا ۔ جیسا کہ اس آیت کی تشریح میں ابن جریر رحمہ اللہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اورایک مسئلہ آپسے پوچھ لیا ۔‘‘یہ حکم صرف ایک دن یا دوسری روایت کے مطا بق دس دن تک باقی رہا ۔ آیت نمبر۱۳میں یہ حکم منسوخ ہوگیا ۔اور صدقہ دینا ضروری نہ رہا۔

علم حدیث :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بچپن سے لے کر نبی کریم کی وفات تک پورے تیس سال نبی پاک ﷺکی خدمت اور رفاقت میں بسر کئے تھے اور سفر و حضر میں حضور کے ساتھ رہے ۔نبی پاک ﷺکی وفات کے بعد تقریباً تیس سال تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسند ارشاد پر فائز رہے۔ پہلے تین خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کے عہد میں دعوت و ارشاد اور قضاءکی خدمت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سپرد رہی اور اپنے زمانۂ خلافت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت حدیث کی تعداد 586ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم کے علاوہ اپنے رفقائے محترم اور ہم عصروں میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ اوراپنی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایتیں کی ہیں ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی اولاد سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ،حسین رضی اللہ عنہ ، محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مثلاً سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ،سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ ،زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ،صہیب رضی اللہ عنہ رومی ، ابن عباس رضی اللہ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کے علاوہ بہت سے تابعین عظام نے حدیث کے علم کا فیض پایا ہے۔

فقہ و اجتہاد:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فقہ و اجتہاد میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ،یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی کبھی کبھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضل و کمال کا ممنون ہونا پڑتاتھا۔ فقہ و اجتہاد کے لئے کتاب و سنت کے علم کے ساتھ سرعت فہم ، دقیقہ سنجی اور غیر معمولی ذہانت کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ سب کمالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے گئے تھے ۔ مشکل سے مشکل اور پیچیدہ مسائل کی تہہ تک آپ رضی اللہ عنہ کی نکتہ رس نگاہ آسانی سے پہنچ جاتی تھی ۔
منصب قضاءاورعدالتی فیصلے:
قرآن وسنت او رفقہ واجتہاد میں گہری بصیرت کی بناءپر سیدنا علی رضی اللہ عنہ منصب قضاءکے لئے بہت زیادہ موزوں تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ”ہم میں سے مقدمات کے فیصلے کے لئے سب سے موزوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :ہم (صحابہ رضی اللہ عنہ )کہا کرتے تھے کہ مدینہ والوں میں سب سے زیادہ صحیح فیصلہ کرنے والے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
نبی کریم نے یمن کے قاضی کے طورپر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تھا ۔ ان کے حق میں دعا بھی کی اور قضاءکے بنیادی اصول کی تعلیم بھی دی ۔ نبی کریم نے انہیں فرمایاتھا:
علی!جب تم دوآدمیوں کا جھگڑا چکانے لگو تو صرف ایک آدمی کا بیان سن کر فیصلہ نہ کرنا۔ اس وقت تک اپنے فیصلے کو روکو جب تک دوسرے کا بیان بھی نہ سن لو۔
خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا قاضی مقرر فرمایاتھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ماہر ، عادل اور قابل قاضی کے طور پر اپنے فرائض ادا کئے تھے۔خلافت راشدہ کے زمانہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ اول ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ سوم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مشیر رہے تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مجلس شوریٰ میں شامل رکھا گیاتھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جب کوئی مشکل معاملہ پیش آجاتا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ کرتے تھے ۔ ”انہوں نے فرمایا تھااگر علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ہلاک ہوجاتا۔“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عدالتی فیصلے اسلامی قانون کے بہترین نظائر کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اس لئے اہل علم نے ان کوتحریری صورت میں مدون کرلیا تھا۔

تقریر و خطابت:

تقریر و خطابت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خدا داد ملکہ حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی تقریریں نہایت خطیبانہ ، مدلل اور بہت مؤثر ہوتی تھیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطبات کو ’’نہج البلاغة ‘‘کے نام سے چار جلدوں میں جمع کردیا گیا ہے ۔ ان خطبات نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو فصیح و بلیغ مقرر بنادیا ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف بہت سے اشعار بھی منسوب ہیں ۔ معرکہ خیبر میں آپ رضی اللہ عنہ کا رجزیہ شعر بہت مشہور ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعض اقوال اور فرمودات علم و حکمت کے قیمتی موتی ہیں ۔ ان سے قیامت تک رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی ۔ چند ایک بطور نمونہ پیش ہیں :
اللہ کی معرفت کے بارے میں انہوں نے فرمایا :”میںنے رب کو ارادوں کے ٹوٹنے اور عقدوں کے حل ہونے سے پہچانا۔“نیز فرمایا:تنہائیوں میں گناہ کرنے سے ڈرو کیونکہ جو گواہ ہے ،وہی حاکم ہے ۔
نبی کریم کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس (اللہ ) کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشان پرانے ہوچکے تھے اور دین کے راستے مٹ چکے تھے۔ انہوں نے کھلم کھلا حق کی دعوت دی ، دنیا کو نصیحت کی ، ہدایت کی طرف رہبری کی اور سیدھے راستے پر چلنے کا حکم دیا ۔
ایمان کے بارے میں فرمایا :’’ایمان کے چارستون ہیں ۔ صبر ، یقین ، عدل اور جہاد ۔‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور کمالات اور ان کی سیرت کے درخشاں پہلو تو بے شمار ہیں ۔ طوالت کے خوف سے ان سب کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا۔اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے !آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے