قبلۂ اول آج پھر مغرب کی ناجائز ریاست اسرائیل کے ظلم و ستم کے نشانے پر ہے۔10مئی 2021جمعۃ المبارک کے دن سے شروع ہونے والی اسرائیلی درندوں کی وحشیانہ فائرنگ سے 232مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔یہی نہیں بلکہ ان مظلوموں کے گھر بھی بمباری کر کے مسمار کیے جارہے ہیں۔غزہ کی پٹی تک فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے۔امریکا کی سرپرستی اور عالم اسلام کی خاموشی کی وجہ سے اسرائیلی دہشت گردی کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔

مشرقی بیت المقدس میں تقریباً 35ایکڑ رقبہ پر مشتمل وہ خطہ زمین ہے جو حرم الشریف کے نام سے موسوم ہے اور جس کی حدود میں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخرہ (پتھر والا گنبد) واقع ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سے رسول مکرمﷺ نے معراج کا سفر شروع کیا ۔اور یہیں آپ ﷺ نےتمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی امامت میں نماز پڑھائی تھی۔اس مقام کی فضیلت یہ بھی ہے کہ ہجرت مدینہ کے بعد آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تقریباً 17ماہ تک اسی قبلہ کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کیں۔دنیا کی صرف تین مسجدوں کے بارے میں ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے جانا اور انہیں دوسری تمام مساجد پر فوقیت دینا جائز ہے۔یہ تین مسجدیں کعبۃ اللہ، مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ ہیں۔

شہر فلسطین کی جغرافیائی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ  1948ء سے قبل اس خطہ زمین میں ، جسے فلسطین کہتے ہیں، اس کے بیشتر حصے پر عرب آباد تھے اور تعداد کے اعتبار سے یہ عرب اکثریت میں تھے۔قیام اسرائیل کے بعد ان عربوں کو منتشر کردیا گیا۔فلسطینیوں کی اپنی ایک قومی تنظیم ہے، اس کا نام تنظیم آزادی یا پی ایل او ( PLO) ہے۔یہ تنظیم فلسطینیوں میں بہت مقبول ہے اور وہ صرف اس تنظیم کو اپنی جائز تنظیم سمجھتے ہیں۔1967ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے جن فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تھا، وہاں اس نے فوجی حکومت قائم کر رکھی ہے۔فلسطینی نہ صرف یہ کہ اس فوجی حکمرانی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ اس کے خلاف مسلسل مزاحمت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تقریباً 1350برس قبل از مسیح میں بنی اسرائیل اس علاقے میں داخل ہوئے اور دو صد یوں کی مسلسل تگ و دو کے بعد آخر کار اس پر قابض ہوگئے۔وہ اس سرزمین کے اصل باشندے نہیں تھے قدیم باشندے دوسرے لوگ تھے ، جن کے قبائل اور اقوام کے نام خود بائبل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔بائبل ہی کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل نے ان قوموں کا قتل عام کر کے اس سرزمین پر اسی طرح قبضہ کیا تھا جس طرح فرنگیوں نے سرخ ہندیوں (Red Indians) کو تہہ تیغ کر کے امریکا پر قبضہ کیا تھا۔ان کا دعویٰ تھا کہ خدا نے یہ ملک اِن کی میراث میں دیدیا ہے، اس لیے انہیں حق پہنچتا ہے کہ اس کے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے بلکہ ان کی نسل کو مٹا کر اس پر قابض ہوجائیں۔

اس کے بعد آٹھویں صدی قبل از مسیح میں اسیریا نے شمالی فلسطین پر قبضہ کر کے اسرائیلیوں کا بالکل قلع قمع کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لابسایا جو زیادہ تر عرب النسل تھے۔پھر چھٹی صدی قبل از مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے جنوبی فلسطین پر قبضہ کر کے تما م یہودیوں کو جَلا وطن کر دیا۔، بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) کو جسے دسویں صدی قبل از مسیح میں سیدنا سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کرایا تھا ، اس طرح پیوندِ خاک کر دیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ قائم نہ رہی۔ ایک طویل مدت کی جَلا وطنی کے بعد ایرانیوں کے دورِ حکومت میں یہودیوں کو پھر سے جنوبی فلسطین میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی، لیکن یہ دوسرا وقفہ بھی تین چار سو برس سے زیادہ دراز نہ ہوسکا۔70عیسوی میں یہودیوں نے رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کی ، جس کی پاداش میں بیت المقدس کے شہر اور ہیکل سلیمانی کو بالکل مسمار کر دیا گیا اور پھر ایک دوسری بغاوت کو کچل کر  135عیسوی میں رومیوں نے پورے فلسطین سے یہودیوں کو نکال باہر کیا۔اس دوسرے اخراج کے بعد جنوبی فلسطین میں بھی عرب النسل قبائل آباد ہوگئے جس طرح شمالی فلسطین میں آٹھ سو برس پہلے آباد ہوئے تھے۔اسلام کی آمد سے پہلے یہ پورا علاقہ عرب قوموں سے آباد تھا، بیت المقدس میں یہودیوں کا داخلہ تک رومیوں نے قانوناً ممنوع کر رکھا تھا اور فلسطین میں بھی یہودی آبادی تقریباً ناپید تھی ، اس تاریخ سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ یہودی ابتداً نسل کشی (Genocide) کے مرتکب ہوکر فلسطین پر زبردستی قابض ہوئے تھے۔اور شمالی فلسطین میں صرف چار یا پانچ سو برس آباد رہے۔جبکہ جنوبی فلسطین میں ان کے قیام کی مدت زیادہ سے زیادہ آٹھ نو سو برس رہی۔اور اس کے بر عکس شمالی فلسطین میں عرب تین ہزار سال اور جنوبی فلسطین میں تقریباً ڈھائی ہزار سال سے آباد چلے آرہے تھے۔

اس چشم کشا حقیقت کے باوجود ہٹ دھرم یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کے باپ دادا کی میراث ہے جو خدا نے انہیں عطا کی ہے۔اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اس میراث کو بزور شمشیر حاصل کر کے اس علاقے کے قدیم باشندوں کو اسی طرح نکال باہر کریں اور خود ان کی جگہ بس جائیں جس طرح تیرہ چودہ سو برس قبل از مسیح میں انہوں نے مقامی لوگوںکے ساتھ کیا تھا۔

بارھویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون(Maimonides) نے اپنی کتاب شریعتِ یہود (The Code of Jewish Law) میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کو از سر نو تعمیر کرے، مشہور فری میسن تحریک(Freemason Movement) بھی، جس کے متعلق ہمارے ملک کے اخبارات میں بڑی تفصیل سے سارے ہی حقائق اب شائع ہوچکے ہیں، یہ اصلاً ایک یہودی تحریک ہے، اور اس میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کو مقصود قرار دیا گیاہے۔1969 ء میں جومسجد اقصٰی کو آگ لگائی گئی تھی وہ کوئی ا تفاقی حادثہ نہیں تھا۔یہ مسجد اقصی پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر منصوبہ بندی کا ہی ایک حصہ تھا۔

 گولڈا مائر ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم تھی،کئی حوالوں سے اس کی شخصیت اور اس کا دور بہت اہم رہاہے۔   گزشتہ برس ا پنے ایک انٹر ویو میں اس نے 1948ء کے پہلے کے فلسطین کا حال بیان کیا ہے۔وہ اس میں اعتراف کرتی ہے کہ 1921ء سے 1948ء تک وہ خود فلسطین کا پاسپورٹ رکھتی تھی۔فلسطین، اس پر قائم کی جانے والی غاصبانہ ریاست اور فلسطینی عوام  کے بارے میں  اس کے کئی اقوال بڑی شہرت رکھتے ہیں۔انٹر ویو میں اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے خوفناک ترین دن کون سا تھا اور سب سے خوشگوار دن کون سا؟ اس نے کہا کہ خوف ناک ترین 21 اگست1969کا تھا جب مسجد اقصیٰ کو جلائے جانے کا واقعہ پیش آیا۔میں ساری رات سو نہیں سکی۔مجھے لگتاتھا کہ کسی بھی وقت ہر طرف سے عرب فوجیں ہم پر ٹوٹ پڑیں گی۔اور خوشگوار دن اس سے اگلا روز تھا، جب ہمیں تسلی ہوگئی کہ فوج کشی تو کجا کسی عرب حکومت  نے اس کا سنجیدہ نوٹس بھی نہیں لیا۔پھر وہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان عربوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ،البتہ ہمیں اس دن سے ضرور ڈرنا چاہیے کہ ’’ جب ان کی مسجدوں میں نمازِ فجر  کے لیے اتنے لوگ آنے شروع ہوجائیں گے جتنے لوگ ان کی نمازِ جمعہ میں آتے ہیں۔‘‘

یہودی قوم مکار، سازشی اور احسان فراموش قوم ہے۔انہوں نے تو اپنے نبیوں کو بھی نہیں بخشا اور انہیں بھی زندگی سے محروم کردیا،جو ان کی آخرت سنوار نے کے لیے ان میں بھیجے گئے تھے تو بھلا یہ کسی اور قوم کا احسان کیا مانیں گے۔سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب بیت المقدس فتح ہوا ، اس وقت یہاں یہودیوں کا کوئی مَعبَد نہ تھا ، بلکہ کھنڈر پڑے ہوئے تھے۔ اس لیے مسجد الاقصیٰ اور قبة الصخرةکی تعمیر  کے بارے میں کوئی یہودی یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ان کے مَعبَد کو توڑ کر مسلمانوں نے یہ مساجد بنائی تھیں۔یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ رومیوں کے زمانے میں فلسطین یہودیوں سے خالی کرالیا گیا تھا اور بیت المقدس میں تو ان کا داخلہ تک ممنوع تھا۔یہ مسلمانوں کی شرافت تھی کہ انہوں نے پھر انہیں وہاں رہنے اور بسنے کی اجازت دی۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ پچھلی تیرہ چودہ صدیوں میں یہودیوں کو اگر کہیں امن نصیب ہوا ہے تو وہ صرف مسلمان ملک تھے۔ورنہ دنیا کے ہر حصے میں جہاں بھی عیسائی حکومت رہی وہاں ظلم و ستم کا نشانہ ہی بنتے رہے۔یہودیوں کے اپنے مورخین اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تاریخ کا سب سے شاندار دور وہ تھا جب وہ اندلس میں مسلمانوں کی رعایا کی حیثیت سے آباد تھے۔اور یہ دیوار گریہ جس کو آج یہودی اپنی سب سے مقدس یادگار سمجھتے ہیں ، یہ بھی مسلمانوں ہی کی عنایت سے انہیں ملی تھی۔

بمبئی سے اسرائیلی حکومت کا ایک سرکاری بلیٹن (News From Israel) شائع ہوتا ہے۔اس کی یکم جولائی 1968کی اشاعت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ دیوار گریہ پہلے ملبے اور کوڑے کرکٹ میں دبی ہوئی تھی اور اس کا کوئی نشان تک لوگوں کو معلوم نہ تھا۔

سولہویں صدی عیسوی میں سلطان سلیم عثمانی کو اتفاقاً اس کے وجود کا علم ہوا اور اس نے اس جگہ کو صاف کرواکر یہودیوں کو اس کی زیارت کی اجازت دی۔لیکن جیسا کہ سانپ کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ کتنے ہی عرصے تک آپ اس کو دودھ پلا پلا کر اس کی پرورش کرتے رہیں مگر وہ موقع ملتے ہی آپ کو ضرور ڈسے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہے۔ اسی طرح یہودی بھی ایک ایسی ہی احسان فراموش اور بد بخت قوم ہے کہ وہ مسلمانوں کی شرافت ، فیاضی اور حسن سلوک کا بدلہ آج ان کے خون سے ہولی کھیل کراور ان کی نسل کشی کر کے ان کو دے رہی ہے۔

انیسویں صدی میں شروع ہونے والی یہودیوں کی منظم تحریک زاؤنسٹ تحریک تھی۔یہ ایک ایسی صیہونی تحریک تھی جس نے تہذیب و شائستگی کے معیارات بدل کر رکھ دیے۔ہر وہ چیز جو یہودی مفاد میں ہو وہ جائز اور اچھائی کی سند رکھتی ہے۔پہلی جنگ عظیم کی اصل وجہ بھی یہودی حکومت کا قیام تھا مگر فلسطین میں ان کی حکومت کا قیام ان کی منزل نہیں تھی بلکہ ان کا مقصد دنیا کے تمام مذاہب کا خاتمہ ، تمام غیر یہودی اقوام کو اپنا دست نگر اور غلام بنانا ان کا اصل منشور ہے۔وہ جس کے لیے خود کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند نہیں سمجھتے۔اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے انسانوںکے خون سے ہولی کھیلتے رہنا ان کا مشغلہ ہے۔اس کے علاوہ ان کے ہاں ایک تحریک یہ بھی شروع ہوئی کہ مختلف علاقوں سے یہودی ہجرت کرکے فلسطین میں جاکر آباد ہوں ، اور وہاں جاکر زمینیں خریدنا شروع کریں۔چناں چہ 1880ء سے یہ مہاجرت شروع ہوئی اور زیادہ تر مشرقی یورپ سے یہودی خاندان وہاں منتقل ہوئے۔اس کے بعد مشہور یہودی لیڈ راور صحافی تھیو ڈور ہرتزل(Theodore Hertzel)نے سب سے پہلے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔اپنی رپورٹ میں اس نے کہا تھا کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ ہم ایک دن کرۂ ارض پر ایک یہودی ریاست قائم کر کے ہی دم لیں گے۔چاہے وہ ارجنٹینا میں ہو یا فلسطین میں ، اس ریاست کے قیام کے بغیر دنیا بھر کے یہودی، آزادی، عزت اور خوشحالی کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

ہرتزل نے صرف اپنی رپورٹ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ برطانیہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ہرتزل نے اپنی سفارت کاری کے ذریعے سے اس وقت کی عثمانی سلطنت کو فلسطین کے بدلے میں استنبول میں ایک جدید طرز کی یونیورسٹی کے قیام اور اس کے تمام غیر ملکی قرضہ جات ادا کرنے کی تجویز بھی پیش کی جسے سلطان عبد الحمید عثمانی نے ردّ کردیا۔سلطان نے فلسطین میں آنے والے یہودی زائرین کے لیے سرخ پاسپورٹ کا اجرابھی کیا جس کی وجہ سے کسی یہودی کو تین ماہ سے زیادہ فلسطین میں قیام کی اجازت نہ تھی۔ان تمام کوششوں کے باوجود بین الاقوامی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان قوتوں نے ترکی کی ’’ ینگ ترک پارٹی‘‘ میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر کے سب سے پہلے سلطان عبد الحمید عثمانی کو معزول کیا۔ اس کے بعد شریف مکہ کے ذریعے عربوں کی آزادی اور اتحاد تحریک کی داغ بیل ڈال دی۔برطانیہ ایک طرف شریف مکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل سے گزر رہا تھا تو دوسری طرف اس کے عالمی صیہونی اداروں سے بھی مکمل رابطے تھے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی یہودیوں سے جو گفت و شنید ہوئی اس کا نتیجہ وہ خط ہے جو برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے روتھ شیلڈ کو لکھا، خط میں کہا گیا:

His majesty`s Government view with favour the establishment in palestine of a national home for the Jewish people , and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object.

(ترجمہ: عالی جاہ!یہودیوں کی امنگوں کے مطابق منصوبہ قبول کر لیا گیا ہے۔فلسطین میں یہودی ریاست اور وطن تشکیل دینے کے لیے حکومت برطانیہ ہر ممکن کو شش کو بروئے کار لائے گی۔میں اس اعلامیہ کو آپ تک پہنچانے میں پرمسرت ہوں۔آرتھر بالفور۔

نومبر 1916میں شریف مکہ کی عمل داری کا اعلان ہوچکا تھا لیکن ’’ اعلانِ بالفور‘‘ نے اسے بد ظن کر دیا۔جنگ جاری تھی اور شریف مکہ اور ا س کے حواری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے، جنگ کے خاتمہ پر شریف حسین کو یقین دلایا گیا کہ برطانیہ عرب اقوام کے اتحاد کا خواہشمند ہے۔دسمبر 1917ء تک برطانیہ جنوبی اور مرکزی فلسطین پر مکمل قابض ہوچکا تھا، جس میں یرو شلم بھی شامل تھا۔برطانوی سپہ سالار امین بے نے فاتح کی حیثیت سے پرانے شہر کا دورہ کیا  اور کہا: ’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔

فلسطینی عوام نے فلسطین پر برطانوی راج اور اعلانِ بالفور کے ذریعے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی شدید مخالفت کی ۔فلسطین کی قومی تحریک بھی انہیں خطوط پر پروان چڑھی۔فلسطین کی قومی تحریک کا باقاعدہ آغاز 27جنوری سے ہوا اور  10فروری  1919ء سے 1928ء تک ایسی سات کانفرنسیں ہوئیں۔جن کے نتیجے میں موسیٰ بن کاظم الحسینی اور الحاج امین الحسینی تحریک آزادی فلسطین کے قائدین کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔

پہلی جنگ عظیم میں ابتداً یہودیوں نے حکومت جرمنی سے معاملہ کرنا چاہا تھا، کیونکہ جرمنی میںاس وقت یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا آج امریکا میں ہے۔انہوں نے قیصر ولیم سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنوا دے گا۔لیکن جس وجہ سے یہودی اس پر یہ اعتماد نہیں کرسکتے تھے کہ وہ ایسا ہی کرے گا، وہ یہ تھی کہ ترکی حکومت اس جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی،یہودیوں کو یقین نہیں آتاتھا کہ قیصر ولیم ہم سے یہ وعدہ پورا کر سکے گا۔اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین (Dr. Weisman) آگے بڑھا اور اس نے انگلستان حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ اور تمام دنیا کے یہودیوں کا دماغ اور ان کی ساری قوت و قابلیت انگلستان اور فرانس کے ساتھ آسکتی ہے، اگر ہم آپ کو یہ یقین دلادیں کہ آپ فتح یاب ہوکر فلسطین کو قومی وطن بنادیں گے۔ ڈاکٹر وائز مین ہی اس وقت یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ آخر کار اس نے 1917ء میں انگریزی حکومت سے وہ پروانہ حاصل کر لیا جو اعلانِ بالفور (Balfour Declaraton) کے نام سے مشہور ہے۔یہ انگریزوں کی بددیانتی کا شاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کو یقین دلارہے تھے کہ ہم عربوں کو ایک خود مختار ریاست بنائیں گے او ر اس غرض کے لیے انہوں نے شریف مکہ (حجاز کے حکمراں) کو تحریری وعدہ دے دیا تھا اور اسی وعدے کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے بغاوت کر کے فلسطین ، عراق اور شام پر انگلستا ن کا قبضہ کرا دیاتھا۔دوسری طرف وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔یہ اتنی بڑی بے ایمانی تھی کہ جب تک انگریز ی قوم دنیا میں موجود ہے وہ اپنی تاریخ پر سے کلنک کے اس ٹیکے کو نہ مٹا سکے گی۔

ذرا غور فرمایئے کہ فلسطین کو یہود کا قومی وطن بنانے کے آخر معنی کیا تھے؟ کیا فلسطین کوئی خالی پڑی ہوئی زمین تھی جس پر کسی قوم کو آباد کرنے کا وعدہ کیا جارہا تھا؟وہاں دو ڈھائی ہزار برس سے ایک قوم آباد چلی آرہی تھی، اعلان بالفور کے وقت وہاں یہودیوں کی آبادی پوری پانچ فیصد بھی نہیں تھی۔ایسے ملک کے متعلق سلطنت برطانیہ کا وزیر خارجہ (لارڈ بالفور) یہ تحریری وعدہ دے رہا ہے کہ ایک قوم کے وطن میں دوسری قوم کا وطن بنایا جائے گا، جو دنیا بھر میں انیس سو برس سے بکھری ہوئی تھی۔اس کا صاف مطلب گویا یہ وعدہ کرنا تھا کہ ہم تمہیں موقع دیں گے کہ عربوں کے جس وطن پر ہم نے خود عربوں کی مدد سے قبضہ کیا تھا ، اس سے تم انہی کو نکال باہر کرو اور ان کی جگہ دنیا کے گوشے گوشے سے اپنے افراد کو لاکر بسادو۔یہ ایک ایسا ظلم تھا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس زخم پر نمک پاشی یہ ہے کہ لارڈ بالفور نے اپنے اس خط کے متعلق اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے: ’’ ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجود باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اس وقت آباد ہیں ‘‘۔اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ لارڈ بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ آج بھی برطانوی پالیسی کی دستاویز (Documents of BiritshPolicy) کی جلد دوم میں ثبت ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت مسئلہ محض مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا نہیں ہے۔مسجد اقصیٰ محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہے۔اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے۔اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلانِ بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے، صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں ، انہیں واپس جانا چاہیے ۔ان لوگوں نے سازش اور ظلم و جبر کے ذریعہ سے ایک دوسری قوم کے وطن کو زبردستی اپنا ’’قومی وطن‘‘ بنایا پھر اسے ’’ قومی ریاست‘‘ میں تبدیل کیا اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کر نے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا ہے بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا ہے کہ کس کس ملک کو وہ اپنی جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں ۔

عالم اسلام کے لیے اس سے بڑے خطرے کی بات یہ ہے کہ یہود کے جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔چنانچہ اب اس ناجائز ریاست کا وجود برداشت نہیں کیاجاسکتا۔اس کو ختم ہونا چاہیے۔

اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ سینکڑوں انسانوں کی شہادت جن میں بچے بھی شامل ہیں اور سینکڑوں زخمیوں کی آہ و بکا کے بعد فلسطین میں جنگ بندی ہوگئی ہے۔یہ جنگ بندی کس مصلحت کے تحت  یا کس کے دباؤمیں آکر کی گئی ہے ابھی اس راز سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔بہر حال یہ تو طے ہے کہ اس جنگ بندی میں یہود کی کوئی مکاری اور تزویراتی پینترا ضرور کار فرما ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جنگ بندی ہونے کے باوجود اب بھی اسرائیلی فوجوں کے مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف و جوانب میں حملے جاری ہیں ،گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے۔یہ ظالمانہ کارروائیاں یہودیوں کی نیت کے کھوٹ کو ظاہر کر رہی ہے۔

دوسری طرف عالم اسلام کی روایتی خاموشی یہودیوں کی جا رحیت کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی نے غزہ اور بیت المقدس میں جاری اسرائیلی جارحیت پر کوئی سنجیدہ عملی قدم اٹھانے کے بجائے وزاراء خارجہ کا حالیہ او آئی سی اجلاس بھی صرف اجلاس،  قرار داد اور ایک مذہبی اعلامیہ تک ہی محدود رہا۔

 دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جس سر زمین پر اسلام کا گل سر سبد کھلا، جہاں سے اسلام کی آبیاری ہوئی ،جس قوم نے اپنی ایمانی قوت، جذبہ جہاد اور شان و شوکت سے جزیرہ نمائے عرب میں بھی اور دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی اسلام کے جھنڈے لہرادیے، آج وہی عرب قوم اپنے ازلی دشمن اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہی ہے۔ سفارتی تعلقات قائم ہورہے ہیں ۔شیطان صفت دشمن سے خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔مصر ،اردن، متحدہ عرب عمارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم کر لیے ہیں۔حالانکہ اسرائیل اور عرب ممالک نے اپنے سمجھوتے کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا تھا کہ اسرائیل کو فلسطین کو الگ درجہ دینا ہوگا۔  جب دل و جاں فرشِ راہ ہورہے ہوں تو مسلمانوں کے لیے سکون و راحت کے ساتھ جینے کے مواقع کہاں سے آئیں گے؟

انسان کی ذہنی اور فکری غلامی جسمانی غلامی سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔انسان کے عقائد و افکار سے حریت فکر چھین لی جائے یا مفلوج ہوجائے تو سارا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے۔فکری اور ذہنی آبیاری قوموں اور نسلوں کے قلب و نظر میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے۔اگر انسانی فکر و ذہن کے افق پر کسی دوسری تہذیب و تمدن کی گھٹا چھا جائے تو اس قوم کی فکری زمین کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں ، اور رفتہ رفتہ اس کی فکری، نظری اور ذہنی سطح بنجر ہوجاتی ہے، اور زوال و نکبت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اس حادثے کے پس منظر میں کئی دوسرے عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔سیاسی، سماجی،  نفسیاتی اور معاشی بھی، جو قوموں کی شکست وریخت میں انتہائی مؤثر کار پرداز ہیں۔ اور ان کے سامنے وہی قومیں اور نسلیں سینہ سپر ہوسکتی ہیںجو اپنے اندر حریت فکر، وسعت قلبی ،تحفظ اقدار کی پیش بندی۔ شوق و ولولہ ، بے باک صداقت، امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل کی رفعتوں کو اپنا متاع ِ حیات سمجھتی ہیں۔ اور اس جوہر خالص کا آج کی امت مسلمہ میں شدید فقدان ہے۔

ا مت مسلمہ کا خون پانی سے بھی زیادہ ارزاں ہے۔اس کی وجہ اس امت کی ذ ہنی ، فکری غلامی، غیروں کی کاسہ لیسی ہے، جو نتیجہ ہے ان کی اپنی بد اعمالیوں کا اور اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کو اپنا ربّ مان لینے کا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے مرتبے اور اپنے اصل مقام کو پہچانے ، ہوش کے ناخن لے،  ذاتی ، گروہی ، مسلکی ، باہمی رنجشوںاور منافقانہ طرزِ عمل کو چھوڑ کر امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنی قلب ماہیت کرے’’۔خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم میر ‘‘  کے مصداق دوسروں پر ہوتے ظلم و استحصال کو بھی اپنا مسئلہ سمجھے۔

یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ یہود و نصاریٰ اپنے اندرونی اختلافات کے باوجود امت مسلمہ کی تباہی وبربادی اور ان کی نسل کشی کے لیے امت واحدہ ہیں۔ جبکہ امت مسلمہ امت متفرقہ کی نمایاں مثال ہے۔ آخر ہماری آنکھیں کیوں نہیں کھلتیں؟اگر غزہ کے مظلوموں پر ٹوٹی قیامت کو دیکھ کر بھی امت مسلمہ کا ضمیر نہیں جاگا، اپنے ہی سود و زیاں، اپنی ہی منفعت کا تحفظ ، اور گردد پیش سے آنکھیں بند کر کے عیش و طرب کے بت کا طواف کرتے رہنا زندگی کا مقصد حیات سمجھ لیا گیا ہے تو پھر باطل قوتوں کے خونی پنجوں کو اپنے گریبان تک پہنچے کا انتظار کریں، جس میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔باطل قوتوںکی چیرہ دستیوں کا جواب طاقت سے دینا لازمی ہوتا ہے۔محض کانفرنسیں کرنے، اجلاس منعقد کرنے اور قرار داد یں پاس کرنے سے دشمنوں کے سر کو نہ جھکایا جاسکتاہے اور نہ انہیں کسی دباؤ میں لیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہی ناگزیر ہوتا ہے۔اگر ایسا نہ ہوا تواسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہودو ہنود اور نصاریٰ کا گٹھ جوڑ کا نتیجہ امت مسلمہ کو جرمِ ضعیفی کی سزا اور مرگِ مفاجات کی صورت میں مزید بھگتناپڑے گا۔

عالم اسلام کا اتحاد و اتفاق ، جرأت و بیباکی ،کفار سے ذہنی مرعوبیت کا خاتمہ، سیاسی، معاشی،اقتصادی،سائنسی، تعلیمی؛اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی ایک بار پھر نشاۃ ثانیہ کا سبب بن سکتے ہیں اور مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار اور عظمتِ رفتہ حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ قرآن و سنت سے خالص وابستگی اور دیگر نظریات ِ باطل سے مکمل علیحدگی اختیار کر لیں۔ اور عالم اسلام کو ٖ غفلت کی نیند سے اب بیدار ہو جانا چاہیے ورنہ یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ

میں  آج  زد  پر  اگر  ہوں  تو  خوش  گماں  نہ  ہو

چراغ  سب  کے  بجھیں  گے  ، ہوا  کسی  کی  نہیں!

حواشی:

۱۔ مسئلہ فلسطین،ایڈورڈ سعید

۲۔ القدس ، مولانا ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ

۳۔مسئلہ فلسطین اور علامہ اقبال،افتخار شفیع (بحوالہ: سہ ماہی ’پیغام آشنا‘، اسلام آباد)

۴۔فلسطین اور شیطانی منصوبہ ، عبدالغفار عزیز (ماہنامہ ترجمان القرآن،مارچ 2020ء)

۵۔ مسجدِ اقصیٰ کے آنسو،اے اے سید(مڈویک میگزین،روزنامہ ’جسارت‘)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے