اسلام نے انسانی زندگی کے لئے ایک معتدل فکر و عمل کا نظام دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جہاں والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی سے سختی سے روکا گیا ہے اور ان سے نیک سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہاں اولاد کے حقوق کو بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے اور ان کی ادائیگی کی تاکید بھی کی گئی ہے ۔ اسلام کی سماجی زندگی یک رخی نہیں ہے، بلکہ ہمہ گیر ہے۔ والدین اگر اسلامی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں تو اولاد اس اکائی کا نتیجہ ہے۔ یہ دونوں مل کر معاشرے کی تصویر بناتے ہیں۔ آج کے بچے کل کے والدین اور بزرگ ہوں گے، اس لئے اسلام بچوں کے بارے میں خصوصی ہدایات دیتا ہے۔ اسلام جہاں بچوں کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ وہ بڑوں کا ادب ،احترام اور فرمانبرداری کریں ،وہاں بڑوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں۔ اور ان کے لیے ایثار اور قربانی سے کام لیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا

: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا (جامع ترمذی، أبواب البر والصلة، حدیث 1919)

 «جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب و احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے»

 اسلام والدین کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ وہ بچوں کی پرورش پر توجہ دیں ۔ ان کی ضرورتوں کو پورا کریں، ان کی غذا کا خیال رکھیں، انہیں گرمی اور سردی سے محفوظ رکھیں، بیماریوں سے بچاؤ کا انتظام کریں اور یہ سب کچھ ان کے فرائض میں داخل ہے۔ والدین کی غفلت کی وجہ سے بچے سخت جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچے ابتدائی عمر میں انتہائی توجہ کے محتاج ہوتے ہیں ، والدین کی لاپرواہی کی وجہ سے کتنی ہی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

 پرورش کے سلسلے میں خوراک ، لباس ، صاف ستھرا ماحول ،محبت اور شفقت کا رویہ سب شامل ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت او ر نشونما کے لئے پرورش بچوں کا حق ہے، اسی طرح ان کی ذہنی اور روحانی نشونما اور بالیدگی کے لئے تربیت بھی ان کا حق ہے۔

 پرورش کا تعلق جسمانی بالیدگی سے ہوتا ہے تو تربیت کا تعلق ان کی ذہنی نشونما اور افزائش سے ہوتا ہے۔ والدین جس طرح اولاد کے لئے جسمانی آسودگی اور مادی آسائش کا انتظام کرتے ہیں، اسی طرح ذہنی اور روحانی آسائش اور سکون فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ بچے کی متوازن شخصیت کی نشونما کے لئے ذہنی اور روحانی سہولتیں بے حد ضروری ہیں۔ تربیت کےسلسلے میں سب سےزیاد اہم دو چیزیں ہیں۔ ایک تعلیم اور دوسری زندگی کے آداب اور طور طریقے ۔

تعلیم

 تعلیم انسانی شخصیت کے لیے زیور ہے۔ بچے کی شخصیت کی نشوونما کے لئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ تعلیم انسان کے سوچنے اور سمجھنے کی قوت بڑھاتی ہے۔تعلیم انسان میں تہذیب او شائستگی پیدا کرتی ہے۔ تعلیم اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتی ہے۔ تعلیم انسان میں یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ زمانے کو ، زمانے کے حالات کو اور زمانے کے تقاضوں کو سمجھے۔تعلیم انسان کو اس لائق بناتی ہے کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کر سکے اور ہر دور میں عزت بھری زندگی گذار سکے اور تعلیم انسان کو سماج کے لئے ایک کار آمد انسان اور اچھا شہری بناتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ(سنن ابن ماجة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم ،حدیث 224)

«علم حاصل کرنا ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے»

 آپ ﷺ نےاپنے چچا زاد بھائی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حق میں دعا مانگتے ہوئے فرمایا:

اللهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ(ابن حجر عسقلانی،فتح الباری، 1/170، ذھبی شمس الدین،سیر اعلام النبلاء ،3/337)

«اے اللہ ! اسے دین کا علم اور سمجھ عطا کر»

 بچوں کی تعلیم کا نبی اکرم ﷺ کو کتنا خیال تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنگِ بدر میں مشرکین ِ مکہ جو قید ہو کر آئے تھے، ان میں سے جن کے پاس فدیے کے پیسے نہیں تھے، ان کا فدیہ نبی اکرم ﷺنے یہ مقرر فرمایا کہ انصار کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تم آزا د ہو»( سنن ابن ماجہ، مقدمہ ،حدیث 20، خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام، ص235)

نبی اکرم ﷺ کا انسانیت پر یہ عظیم احسان ہے کہ آپﷺ نے تعلیم پر انسان کا حق قرار دیا ، بلکہ اس سے بڑھ کر تعلیم کو فرض قرار دیا ہے، جب کہ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب اور سماجوں نے تعلیم کو ایک مخصوص طبقے کا حق قرار دیا تھا۔

 تعلیم کے سلسلے میں اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ہر وہ علم حاصل کرو جو دنیاوی زندگی میں کام آئے ۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے میڈیکل ، سائنس، انجینئرنگ، ایگریکلچر،ریاضی اور ہر وہ علم جس کی طرف انسان اپنی زندگی میں محتاج ہوتا ہے، اسے سماج کا یکساں فرض (فرضِ کفایہ) قرار دیا ہے۔

( غزالی محمدم بن محمد، احیاء علوم الدین،دار الکتب العلمیہ، بیروت لبنان،2012ع طبع ششم، 1/30)

مطلب کہ اسلامی ریاست میں ہر اس شعبے میں اتنے اسپیشلسٹ ہونے چاہییں جو اپنے سماج کی ضرورتوں کو پورا کرسکیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ تیرنے ،تیر چلانے، اور گھڑسواری سکھانے کا حکم دیا ۔ آج اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہوتے تو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کرنے کا حکم دیتے۔(خالد علوی، اسلام کا معاشرتی نظام، ص236)

 اس لئے والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو قرآن، حدیث اور عقائد کی تعلیم کےساتھ مروجہ سائنس ،عمرانیات اور جدید صنعت وٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دلوائیں تاکہ وہ زمانے کو سمجھ بھی سکیں تو کوئی جائز اور حلال روزی کا ذریعہ اختیار کرکے باعزت زندگی بھی گزار سکیں اور سماج کے لیے کارآمد فرد اور اچھے شہری بن سکیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کے پیغام کو دنیا جہان تک پہنچائے اور یہ تبھی ممکن ہوسکتا ہے جب زمانے کے حالات کے مطابق انسان کے پاس تعلیم ہو تي کہ لوگوں کو ان کی زبان میں اور ان کے طرزِ استدلال کے مطابق سمجھایا جا سکے۔

 امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ بچوں کو علم پڑھاؤ یا فنی تعلیم دلواؤ تاکہ وہ آگے چل کر عزت بھرے طریقے سے روزی کما کر زندگی گذار سکیں ، دوسری صورت میں بچے بڑے ہوکر یا تو چور اور ڈاکو بنیں گے ، یا پھر بھیک مانگیں گے۔اور یہ دونوں چیزیں ایک گرے ہوئے معاشرے کی نشانیاں ہیں۔( غزالی، احیاء علوم الدین،کتاب العلم)

آداب سکھانا

 تعلیم کے ساتھ جو چیز بے انتہا ضروری ہے وہ ہے اسلامی آداب سکھانا۔ بچے کو نظم و ضبط سکھانا، اس میں اچھی عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا والدین کا فرض ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

«لَأَنْ يُؤَدِّبَ الرَّجُلُ وَلَدَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ» (جامع ترمذی، أبواب البر، باب ماجاء فی أدب الولد، حدیث 1951(ضعيف))

«تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو (روزانہ) ایک ادب سکھائے یہ اس کے لئے اس سے بہترہے کہ روزانہ ایک صاع (گندم) صدقہ کرے»

ایک دوسری روایت میں آپ کا ارشاد ہے:

«مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا مِنْ نَحْلٍ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ» ( جامع ترمذی ، ابواب البر،باب ماجاء فی ادب الولد،حدیث 1952(ضعيف))

کسی باپ نے اپنے بیٹے کو (اچھے ادب )سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا۔یعنی اولا دکو اچھے اخلاق سکھانا دنیا کے مال و اسباب دینے سے بہتر ہے۔ اس لئے والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی طریقے سے کھانے ، پینے ، لباس پہننے ، بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں سے پیار اور محبت سے پیش آنے ، مجلس کے آداب اور گفتگو کے آداب وغیرہ سکھائیں۔سیدنا عمر بن ابو سلمہ (جو نبی اکرمﷺ کے سوتیلے فرزند تھے) سے روایت ہے کہ: جب میں چھوٹا تھا اور نبي مكرم ﷺ کی زیرِ پرورش تھا ان دنوں کی بات ہے کہ ایک دن کھانا کھاتے ہوئے میر ا ہاتھ برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا ، یعنی کبھی برتن کے ایک طرف سے کھا رہا تھا تو کبھی دوسری طرف سے، جب رسول الله ﷺ نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: بیٹا ! کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کا جو حصہ تمہارے سامنے ہو وہاں سے کھاؤ (ادھر ادھر سے نوالہ اٹھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے)۔( صحیح بخاری،کتاب الاطعمہ،باب التسمیہ علی الطعام۔۔۔ حدیث5376)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دیکھ کر ان پر تنبیہ کرتے تھے اور صحیح ادب سکھاتے تھے۔

دراصل بچہ خاندان کی تہذیب اور شائستگی کی عکاسی کرتا ہے اور کسی بھی خاندان کا بچہ ان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اگر بچوں کو صحیح ادب نہیں سکھایا جائے گا، تو دوسرے لوگ دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ یہ خاندان کتنا غیر مہذب اور غیر شائستہ ہے۔ اگر پورے سماج کے بچے ایسے ہوں تو اس سے پورے سماج کی تہذیب اور شائستگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ چونکہ بچے خاندان کا اور خاندان سماج کا حصہ ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کی اچھی اخلاقی تربیت کی جائے تا کہ وہ ایک اچھے سماج کے سفیر بن کر سامنے آئیں۔ اسی طرح بچوں کو حلال و حرام ، جائز ناجائز کی تمیز سکھانا بھی والدین کا فرض ہے۔ ایک دفعہ رسول الله ﷺ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو صدقے کی کھجور کھاتے ہوئے دیکھ کر فرمایا: «کخ کخ یعنی اس کھجور کو باہر نکالو، آپﷺ نے کھجور کا دانا، ان کے منہ سے نکلواکر انہیں سمجھایا کہ بیٹا یہ صدقہ کی کھجور ہے اور صدقہ کی چیز ہمارےلئے حلال نہیں ہے»( صحیح البخاری،کتاب الزكاة،باب ما یذکر في الصدقة للنبي وآله،حدیث 1491)

 یہ ہمارے لئے تعلیم ہے کہ ہر وہ چیز جو شرعی یا اخلاقی طور پر ہمارے لیے جائز نہیں ہے، اس سے اپنے بچوں کو دور رکھا جائے اور بچوں میں حلال وحرام کی تمیز پیدا کی جائے۔ اسی طرح نماز اور روزے کی پابندی یا دوسرے اسلامی احکام کے بارے میں بھی اپنے بچوں کو عملی طور پر تربیت دی جائے تاکہ یہ آداب ان کے دل و دماغ میں بیٹھ جائیں ۔ اور یہ سب باتیں بچوں کو عزت اور شفقت بھرے انداز میں سکھائی جائیں تاکہ بچے اپنی تذلیل محسوس نہ کریں جیسے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

«أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ»(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، باب برالولد۔۔۔ حدیث 3871(ضعيف))

«اپنی اولاد کی عز ت کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ «

 اسلام بچوں کی تعلیم و تربیت کو نہ صرف فرض بلکہ ثواب کا عمل تصور کرتا ہے، اور آخرت کی نجات کا ذریعہ قرار دیتا ہے ، جب کہ غیر ذمہ دارارنہ رویے کی صورت میں والدین کو گناہ گار تصور کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ وجود میں آتا ہے۔اچھے افراد جو تعلیم اور تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں گے وہ معاشرے کو جنت بنائیں گے اور وہ ایسا سماج بنائیں گے جس میں سب لوگ پر امن اورخوشحال زندگی بسر کریں گے۔ اس کے مقابلے میں غیر مہذب اور ناتربیت یافتہ افراد کے نتیجے میں غیر مہذب معاشرہ وجود میں آئے گا، جو بگاڑ اور فساد کا سبب بنے گا، اس لئے اسلام بچوں کی تعلیم اور تربیت پر زور دیتا ہے۔ ویسے تو بچوں کی اچھی پرورش ، تعلیم اور تربیت پر ہرمذہب معاشرہ زور دیتا ہے ، لیکن اسلام کی خصوصیت یہ ہےکہ دوسرے مذاہب یا معاشرے بچے کے وجود میں آنے کے بعد اس کی پرورش ، تعلیم اور تربیت کے بارے میں سوچتے ہیں ، جب کہ اسلام بچے کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچتا ہے اور مرد وعورت کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنی نسل کے لیے اچھے یا اچھی شریک حیات کا انتخاب کرو اور پھر اچھے اور برے شریک حیات کا معیار بھی بتا دیا،چنانچہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:عام طور پر چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے شادی کی جاتی ہے:1۔مال کی وجہ سے،2۔حسن و جمال کی وجہ سے،3۔حسب و نسب کی وجہ سے،4۔دینداری ، اچھے اخلاق اور اچھے کردار کی وجہ سے۔ (اگر ساری خوبیوں والی عورت مل جائے تو غنیمت ہے) ورنہ دیندار، اچھے اخلاق اور اچھے کردار کی مالکہ عورت کو ترجیح دینا

۔( صحیح بخاری، کتاب النکاح،باب الاکفاء فی الدین، حدیث 5090)

وجہ ظاہر ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے، اس لئے اگر ماں دیندار ، با اخلاق اور باکردار ہوگی تو بچے پر بھی اچھا اثر پڑے گا، ورنہ جیسے کوکوویسی اولاد۔اسی طرح عورت کو بھی یہ سوچنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیسا باپ منتخب کر رہی ہے۔

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے