خاندان

شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ کا آبائی وطن ضلع مدھو بنی (صوبہ بہار، ہندوستان) کے معروف مقام دیودھا کے قریب ایک مقام ’’بلکٹوا‘‘ ہے۔ آپ اس علاقے کے ایک معزز اور دینی و علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سلسلہ نسب میں آٹھ پشت اوپر تک آبا واجداد کے نام معلوم ہیں جو عرصہ دراز سے اس چھوٹی سی بستی ’’بلکٹوا‘‘میں آباد اور پیشہ زراعت سے وابستہ تھے۔

آپ کے دادا مولانا رضاء ﷲ دربھنگوی (وفات: ١٩٤١ء) ضلع مدھو بنی و دربھنگہ کے مشہور عالم اور اپنے علاقے میں بڑے اثر و نفوذ کے مالک تھے۔ علاوہ ازیں شیخ عزیر کے والد مولانا شمس الحق سلفی (وفات: ١٩٨٦ء) اور چچا مولانا عین الحق سلفی (وفات: ١٩٨٢ء) بھی علم و فضل میں بلند مقام رکھتے تھے۔ مولانا رضاء اﷲ کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹوں نے بھی اپنے علاقے میں بھرپور طریقے سے دعوتی اور اصلاحی کام کیے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

علاوہ ازیں شیخ عزیر رحمہ اللہ کے نانا مولانا عبدالرحیم بیربھومی (وفات: ١٩٦٠ء) بھی اپنے وقت کے نامور عالم اور بلند مرتبت محدث تھے۔ انھوں نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے اخذ واستفادہ کیا اور عمر بھر دعوتی و علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

ولادت

شیخ محمد عزیر کا آبائی وطن تو ضلع مدھوبنی کا ایک مقام بلکٹوا ہے، لیکن آپ کی ولادت صالح ڈانگہ ضلع مرشد آباد (مغربی بنگال، ہندوستان) میں ہوئی جہاں آپ کے والد مولانا شمس الحق سلفی بسلسلہ تدریس مقیم تھے۔ آپ کی صحیح تاریخِ ولادت ١١ جمادی الاولیٰ ١٣٧٦ھ / ١٥ دسمبر ١٩٥٦ء ہے، لیکن سرکاری کاغذات میں یکم اپریل ١٩٥٩ء درج ہے۔

 ابھی آپ چند ماہ ہی کے تھے کہ آپ کے والد مدرسہ اسلامیہ صالح ڈانگہ سے مئی ١٩٥٧ء میں مدرسہ فیض عام مئو تشریف لے گئے، جہاں مئی ١٩٦٦ء تک مسلسل دس سال تدریسی و دعوتی فرائض انجام دیتے رہے اور آپ بھی انہی کے ساتھ وہیں فروکش رہے۔

تحصیلِ علم

شیخ محمد عزیر کی ابتدائی تعلیم ١٩٦٦ء میں مدرسہ فیض عام میں شروع ہوئی اور پھر آپ نے ہند و بیرونِ ہند کے مختلف مدارس و جامعات میں اپنے عہد کے نامور اساتذہ سے علوم و فنون کی تحصیل کی۔ شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ نے ایک انٹرویو میں اپنے زمانہ طالب علمی کے مختلف مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے:

میری ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض عام ’’مئو‘‘ میں ١٩٦٦ء میں شروع ہوئی۔ درجہ پنجم تک پڑھنے کے بعد ایک سال تک فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھی۔ بعد ازاں دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ میں پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور وہاں عربی کی تعلیم شروع کی۔ اگلے سال والد صاحب یہاں سے استعفیٰ دے کر مرشد آباد چلے گئے تو مدرسہ دار الحدیث مرشد آباد میں دوسری جماعت مکمل کی۔ جب جامعہ سلفیہ بنارس میں شیخ الحدیث (مولانا عبیداﷲ رحمانی) صاحب نے مولانا آزاد رحمانی کے توسط سے والد صاحب کو یہاں بلوایا تو ١٩٦٩ء میں تیسری جماعت سے جامعہ رحمانیہ بنارس میں تعلیم حاصل کی۔ چوتھی جماعت کے بعد عالمیت کے چار سال اور فضیلت کے دو سال جامعہ سلفیہ بنارس میں مکمل کر کے ١٩٧٦ء میں فراغت حاصل کی۔ بعد ازاں فروری ١٩٧٨ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ اللغۃ العربیۃ میں داخلہ لیا۔ ١٩٨١ء میں کلیہ کی تعلیم مکمل ہوئی تو ماجستیر (ایم فل) کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور ام القریٰ یونیورسٹی مکہ مکرمہ دونوں جگہ داخلہ ملا۔ میں نے ام القریٰ یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور ١٩٨٥ء میں ماجستیر کی سند حاصل کی۔ ماجستیر میں مقالے کا موضوع تھا: «التأثیر العربي في شعر حالي ونقدہ››۔ اس مقالے میں مسدس حالی کا میں نے عربی میں ترجمہ بھی کیا۔ پی ایچ ڈی میں میرا موضوعِ بحث ’’الشعر العربي في الھند: دراسة نقدية’’ تھا۔ ١٩٩٠ء میں جب میں نے مقالہ پیش کرنا چاہا تو سپروائزر سے اختلاف ہو گیا، جس کے سبب میرا مناقشہ نہ ہو سکا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے محروم رہا۔ بہرحال میری تعلیم یہیں تک ہے۔

اساتذۂ کرام

شیخ محمد عزیر نے ہندوستان اور سعودی عرب میں دورانِ تعلیم جن اساتذہ کرام سے تحصیلِ علم کی، ذیل میں ان کے نام ملاحظہ فرمائیے:

ہندوستانی اساتذہ

1 مولانا شمس الحق سلفی (والد محترم)۔

2 مولانا عین الحق سلفی (چچامحترم)۔

3 مولانا نور عظیم ندوی۔

4 مولانا محمد رئیس ندوی۔

5 مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی۔

6 مولانا عابد حسن رحمانی۔

7 مولانا عبدالمعید بنارسی۔

8 مولانا عبدالوحید رحمانی۔

9 مولانا عبدالسلام رحمانی۔

10 مولانا عزیز احمد ندوی۔

11 مولانا قرۃ العین اعظمی۔

12 مولانا عبدالسلام طیبی۔

13 مولانا عبدالسلام بن ابی اسلم مدنی۔

14 مولانا عبدالرحمن ڈوکمی۔

15 مولانا صفی الرحمن مبارک پوری۔

16 مولانا انیس الرحمن اعظمی۔

17 مولانا عبدالحنان بستوی

18 شیخ ہادی الطالبی۔ یہ ایک عرب استاد تھے جو جامعہ سلفیہ بنارس میں مدرس تھے۔

19 ماسٹر منظور احمد۔

20 ماسٹر آفتاب۔

21 ماسٹر شمس الدین۔

جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) کے اساتذہ

22 ڈاکٹر عبدالعظیم علی الشناوی۔

23 عز الدین علی السید۔

24 احمد السید غالی۔

25 محمد قناوی عبداﷲ

26 محفوظ ابراہیم فرج۔

27 عبدالعزیز محمد فاخر

28 ابراہیم محمد عبدالحمید ابو سکین۔

29 محمد احمد العزب۔

30 احمد جمال العمری۔

31 صالح احمد بیلو۔

32 طہٰ ابو کریشہ۔

33 محمد بیلو احمد ابوبکر۔

34 عباس محجوب۔

35 عبدالباسط بدر۔

36 علی ناصر فقیہی۔

37 شیخ جبران۔

جامعہ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) کے اساتذہ

38 ڈاکٹر حسن محمد باجودہ۔

39 محمود حسن زینی۔

40 عبدالحکیم حسان۔

41 ڈاکٹر احمد مکی الانصاری۔

42 علی محمد العماری۔

43 عبدالعزیز الکفراوی۔

44 لطفی عبدالبدیع

45 عبدالسلام فہمی۔

46 نعمان امین طہٰ۔

47 عبدالعزیز کشک۔

علمی خدمات

شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ ان تعلیمی مراحل کی تکمیل کے بعد وطن لوٹ آئے، لیکن کچھ عرصہ بعد اﷲ تعالیٰ نے دوبارہ ارضِ حرمین میں قیام کی سبیل پیدا کر دی اور فروری ١٩٩٩ء میں مکہ مکرمہ واپس آ گئے جہاں آپ نے کئی علمی اداروں سے منسلک ہو کر کام کیا جن میں جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ، مجمع الملک فہد مدینہ منورہ اور اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ شامل ہیں۔ آپ ١٩٩٩ء ہی سے مستقل طور پر مکہ مکرمہ کے مشہور علمی و تحقیقی ادارے ’’ دار عالم الفوائد‘‘سے وابستہ ہوئے جس میں آپ نے امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور علامہ معلمی کی بہت سی کتابوں کی تحقیق و تدوین کے فرائض سر انجام دیے۔

مکہ اور مدینہ کے دورانِ قیام میں شیخ عزیر شمس نے مختلف ممالک کا علمی و مطالعاتی سفر بھی کیا جہاں ان ملکوں کی لائبریریوں، یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو دیکھا اور نامور اہلِ علم اور محققین و مصنّفین سے ملاقاتیں کیں۔ ان ملکوں میں پاکستان، مصر، اردن، شام، ترکی، فرانس، برطانیہ، مراکش، ترکمانستان، کویت، بحرین اور امارات شامل ہیں۔ نیز ان میں سے کئی ممالک کی مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں مقالات پیش کیے اور مختلف موضوعات پر لیکچر بھی دیے۔

اب ہم ذیل میں اختصار کے ساتھ تاریخی ترتیب سے شیخ محمد عزیر رحمہ اللہ کی علمی خدمات کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جس میں عربی اردو، دونوں زبانوں میں آپ کی تحقیقات و مقالات کا ذکر شامل ہے۔

1۔ رفع الالتباس عن بعض الناس، للعلامة شمس الحق العظیم آبادي۔

تحقیق۔۔۔بنارس ١٩٧٦م

2۔ حیاة المحدث شمس الحق وأعماله۔

تالیف۔۔۔۔بنارس ١٩٧٩ م

3۔ رد الإشراك، للشاہ إسماعیل بن عبد الغني الدھلوي۔

تحقیق۔۔۔لاہور ١٩٨٣ م

4۔ مولانا شمس الحق عظیم آبادی۔ حیات اور خدمات۔

تالیف۔۔۔۔۔کراچی ١٩٨٤ م

5۔ تاریخ وفاۃ الشیوخ، لأبي القاسم البغوي

تحقیق۔۔۔۔۔ممبئی ١٩٨٨ م

6۔ فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی۔تحقیق۔۔۔کراچی ١٩٨٩ م

7۔روائع التراث۔۔۔۔[مجموعة عشر رسائل نادرة]

تحقیق۔۔۔۔ممبئی ١٩٩١ م

8۔ غایة المقصود شرح سنن أبي داود، للعظیم آبادی [١۔٣]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔کراچی ١٩٩٣ م

9۔ بحوث وتحقیقات للعلامة عبد العزیز المیمني [١۔٢]

تحقیق۔۔۔۔بیروت ١٩٩٥ م

10۔ استدراك أم المؤمنین عائشة علی الصحابة، لأبي منصور البغدادي

تحقیق۔۔۔۔۔ممبئی ١٩٩٦ م

11۔ قاعدۃ في الاستحسان، لابن تیمية بخطه

تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ١٩٩٩ م

12۔ الجامع لسیرة شیخ الإسلام ابن تیمية

بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ١٩٩٩ م

13۔ تقیید المهمل وتمییز المشکل، لأبي علي الجیاني [١۔٣]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٠ م

14۔ جامع المسائل لابن تیمية [١۔٧]

تحقیق۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٢ م

15۔ إتحاف النبیه بما یحتاج إلیه المحدث والفقیه، للشاہ ولي اﷲ الدھلوي۔تعریب۔۔۔۔۔لاہور ٢٠٠٣ م

16۔ الرسالة التبوكية لابن القیم۔

تحقیق۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٣ م

17۔ تنبیه الرجل العاقل، لابن تیمية۔

تحقیق بالاشتراک۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٥ م

18۔ جواب الاعتراضات المصرية علی الفُتیا الحموية، لابن تیمية

تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٩ م

19۔ الفوائد، لابن القیم۔

تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠٠٩ م

20۔ روضة المحبین، لابن القیم۔

تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١١ م

21۔ إغاثة اللهفان في مصاید الشیطان، لابن القیم [١۔٢]

تحقیق۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٢ م

22۔ الکلام علی مسألة السماع، لابن القیم

تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٢ م

23۔ مجموع رسائل الفقه، لعبد الرحمن المعلمي [١۔٣]

تحقیق۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م

24۔ مجموع رسائل أصول الفقه، للمعلمي۔۔۔[٥ رسائل]

تحقیق۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م

25۔ التنکیل بما في تأنیب الکوثري من الأباطیل، للمعلمي [١۔٢]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م

26۔ تحقیق الکلام في المسائل الثلاث، للمعلمي

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م

27۔ معجم الشواھد الشعرية، للمعلمي

تحقیق۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٤ م

28۔ شرح العمدة، لابن تیمية [١۔٥]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٦ م

29۔ أعلام الموقعین عن رب العالمین لابن القیم [١۔٦]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٧ م

30۔ زاد المعاد في ھدي خیر العباد لابن القیم [١۔٧]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٨ م

31۔ شرح حدیث إنما الأعمال بالنیات، لابن تیمية بخطه

تحقیق۔۔۔۔۔الکویت ٢٠١٨ م

32۔ مدارج السالکین في منازل السائرین، لابن القیم [١۔٤]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م

33۔ أحکام أھل الذمة، لابن القیم [١۔٢]

تحقیق بالاشتراک۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م

34۔ مؤلفات الإمام ابن القیم: نسخھا الخطية وطبعاتھا

تالیف۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م

35۔ الفہارس العلمية لآثار الإمام ابن قیم الجوزية [١۔٢]

تالیف۔۔۔۔بالاشتراک۔۔۔۔۔مکۃ المکرمۃ ٢٠١٩ م

36۔ مقالات محمد عزیر شمس [ اردو ]

تالیف۔۔۔۔۔گوجرانوالہ ٢٠٢٠ م

سطورِ بالا میں ہم نے شیخ مرحوم کی مطبوعہ تحریرات وتحقیقات کا تذکرہ کیا ہے، علاوہ ازیں آپ نے اردو و عربی زبان میں مختلف موضوعات پر متعدد مضامین بھی تحریر کیے ہیں جو عربی اردو رسائل و جرائد: مجلة الجامعة السلفیة(بنارس)، مجلة المجمع العلمي الهندي(علی گڑھ)، مجلة مجمع اللغة العربية(دمشق)، معارف(اعظم گڑھ)، برہان(دہلی)، جامعہ(دہلی)،تحقیقات اسلامی (علی گڑھ)، ترجمان (دہلی) اور محدث (بنارس) وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔ نیز آپ نے مذکورہ بالا تصنیفات و تحقیقات کے علاوہ بھی متعدد رسائل کی تحقیق و تدوین کر رکھی ہے اور مختلف موضوعات پر عربی اردو زبان میں لکھا ہے جو ہنوز غیر مطبوع ہے۔ امید کہ یہ سبھی کچھ جلد ہی اشاعت پذیر ہو گا اور قارئین ان علمی و تحقیقی نگارشات سے مستفید ہوں گے۔

اپنے آخری ایام میں شیخ عزیر رحمہ اللہ مندرجہ ذیل اہم علمی کاموں کی تکمیل میں مصروف رہے۔

1۔ معیار الحق للشیخ نذیر حسین الدھلوی۔۔۔تعریب وتحقیق

2۔ مجموعہ رسائل علامہ محمد حیات سندھی۔۔۔جمع وتحقیق

3۔ مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔ جمع وتحقیق

4۔ مجموعہ رسائل علامہ شمس الحق عظیم آبادی۔ جمع وتحقیق

5۔ کتاب المواعظ لابی عبید۔ تحقیق

6۔ فتاوی ورسائل علامہ حسین بن محسن الانصاری الیمانی

7۔ رسائل وفتاوی میاں نذیر حسین محدث دہلوی۔

علاوہ ازیں راقم الحروف آپ کے اردو مقالات کی دوسری جلد بھی مرتب کر رہا ہے جو جلد ہی ان شاء اللہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ اسی طرح آپ کے محاضرات کی ایک جلد بھی مرتب ہو چکی ہے جو جلد ہی شائع کی جائے گی۔

وفات

آپ کی وفات 15 اکتوبر بروز ہفتہ 2022ء بعد نماز عشاء مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

(یہ مستند سوانحی معلومات شیخ مرحوم کی زندگی ہی میں ان کی مراجعت اور نظر ثانی کے بعد شائع کی گئی تھیں، اس لیے اس میں مذکور مواد معتبر ہے)

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے