وطنِ عزیز پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اس کے اعلیٰ اداروں میں قادیانی اپنے اثرورسوخ کے ذریعے اسلامی اقدار اور ملی شعار پر حملہ آور ہیں۔ پاکستان میں سیاسی بگاڑ، دہشت گردانہ حملوں، نصاب میں تبدیلی اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کرنا ایسی گھناؤنی وارداتوں میں قادیانی سازشیں کئی مرتبہ آشکار ہو چکی ہیں، قادیانیوں کے پاکستان کے قومی و ملی مفادات کے خلاف سازشوں کے تانے بانے ہمیشہ پاکستان کے مخالف ممالک اسرائیل، بھارت وغیرہ سے جا ملتے ہیں۔

یہ ایک خوفناک حقیقت ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ظفراللہ سکہ بند متعصب قادیانی تھا، جس نے اپنی وزارت کا سہارا لے کر ملک بھر کے تمام بڑے بڑے اداروں میں قادیانی بھرتی کروائے، بیرون ملک وزارت خارجہ کو قادیانیت کی تبلیغ کے لیے خصوصی طور پر استعمال کیا۔ ظفراللہ قادیانی نے اپنے دورِ وزارت میں ایک موقع پر عالمی دنیا کو یہ باور کرایا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان، قادیانی ہیں اور اس وقت کے قادیانی پیشوا مرزا محمود کے کنٹرول میں ہیں ۔گویا کہ یہ ظاہر کروانے کی مکمل کوشش کی گئی کہ پاکستان میں قادیانیوں کی حکومت ہے۔ اس وقت کے علمائے اسلام نے قادیانی سازشوں کو بھانپ کر اسے طشت ازبام کیا، انھوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو اس فتنے کی تخریبی کارروائیوں سے آگاہ کیا، جس پر انھوں نے سخت نوٹس لیا، قادیانیوں نے جب وزیر اعظم کا رخ اپنی طرف دیکھا تو ایک سازش کے تحت لیاقت علی خان کو 16اکتوبر 1951ء کو ایک جلسے میں گولی مار کر قتل کروا دیا۔

آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر پڑھ لیں، ہر ہر فتنے کا کھرا قادیانیوں کے گھر ہی سے ملے گا۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کی تاریخ کا مطالعہ کریں، بیوروکریسی میں چھپے قادیانی افسران اور فوج میں موجود قادیانیت سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران کی ملی بھگت سے ہزاروں مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ اسی طرح آپ کشمیر کے مقدمہ میں ہماری کمزوری دیکھ لیں، قادیانی اشرافیہ کی چال بازیوں کی وجہ سے بھارتی استبداد نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ 1971ء کی جنگ میں قادیانی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے کٹ گیا۔

1974ء کی تاریخ کا یہ واقعہ تو ہر کسی کو یاد ہو گا کہ قادیانیوں نے چناب نگر ریلوے اسٹیشن پر مسلمان طلبہ پر ختم نبوت کے نعرے لگانے پر انھیں شدید مارا پیٹا۔ تب ایک عظیم تحریک چلی، جس میں پاکستان بھر کے مسلمان اس کے ہم نوا بن گئے، آخر پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا۔ اور ان پر مکمل آئینی اور قانونی پابندیاں عائد کر دیں۔ عالمی استعمار کے ایجنڈے پر عمل پیرا قادیانیوں اور مرزائیوں کے خلاف پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں اور دیگر ممالک کی عدالتوں سے بھی کئی فیصلے ان کے کفر اور ارتداد پر صادر کیے جا چکے ہیں، مگر یہ ڈھیٹ قسم کا گھٹیا مذہب ہے کہ یہود وہنود کی آشیر باد لے کر بیٹھا ہے اور مسلسل اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اس سلسلے میں ان کی حالیہ ماہ وایام کے دوران میں کی جانے والی چند سازشوں سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔

قادیانی پبلشر عبدالشکور کی پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی:

چند سال قبل قادیانی پبلشر عبدالشکور نامی شخص نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کچہری میں پاکستان پر الزام عائد کیا کہ قادیانیوں پر ظلم وستم روا رکھا جا رہا ہے، ان کے گھر اور دکانیں ان سے چھینی جا رہی ہیں، پاکستان میں کئی قسم کے ظلم کا انھیں سامنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

حالاں کہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں، اگر صرف اسی پبلشر عبدالشکور کو ہی دیکھ لیا جائے، یہ پرلے درجے کا بے ایمان اور لعنتی شخص ہے، یہ مرزا غلام قادیانی کی ان تمام کتب کا پبلشر ہے، جس میں واضح طور پر رسول اللہe اور دین اسلام کے متعلق گستاخیاں کی گئی ہیں، اس جھوٹے نبی کی کتب پر پاکستان سمیت تمام عالم ِاسلام نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، قادیانیوں کے انہی کفریہ عقائد کی بناء پرعالمِ اسلام کے علماء، فقہاء، مفتیانِ کرام اور عدالتوں کے معزز ججوں نے انھیں اسلام سے خارج ایک الگ تھلگ جھوٹا مذہب قرار دیا۔ اب اس عبدالشکور نامی شخص پرپاکستان میں مقدمہ چلا اور اسے تین سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا ہو گئی، ابھی یہ شخص جیل میں ہی تھا کہ ہماری معزز عدالتوں کا مذاق اڑاتے اور تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ سیاسی ہاتھوں نے اپنے مفادات سمیٹنے کے لیے اسے رہا کروانے میں بھرپور معاونت کی۔ یہ گستاخ رسول اچانک رہا ہو کر امریکہ پہنچ گیا۔ اس کی ملاقات اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کرائی گئی۔ جس میں قادیانی عبدالشکور نے پاکستان کے خلاف شکایات کی بھرمار کر دی۔ اس کی وڈیو بھی گردش کر رہی ہے۔ رہائی میں اس وقت کی ایک سیاسی جماعت براہ راست ملوث ہے، جس نے رہائی میں بھرپور سہولت کاری کا کام کیا۔

آذر بائیجان میں قادیانی سفیر کی تعیناتی:

تحریک انصاف کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد پتہ چلا کہ سابق وزیر اعظم نے آذربائیجان میں بلال حئی نامی ایک شخص کو سفیر مقرر کیا ہے، جب کہ یہ شخص سخت متعصب بلکہ جنونی قسم کا قادیانی ہے، اس کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، اطلاعات یہ موصول ہوئیں کہ اپنی تعیناتی کے کچھ ہی عرصہ کے اندر پاکستانی سفارت خانہ قادیانی مذہب کا اڈا بنا دیا گیا ہے، جہاں مسلمانوں کو ویزوں اور پرکشش مراعات کے لالچ میں لا کر انھیں قادیانی کفریہ مذہب کو قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دو افراد باقاعدہ قادیانی بھی ہو چکے ہیں، ان کے ذریعے نیٹ ورک کو مزید پھیلایا جا رہا ہے۔

’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان‘‘ نے موجودہ وزیر اعظم پاکستان کو ایک مراسلہ لکھ کر قادیانی سفیر کی سازشوں سے آگاہ کر دیا ہے، جس میں انھوں نے جناب وزیر اعظم کو لکھا ہے:

’’سابقہ حکومت نے آذر بائیجان میں سیالکوٹ کے بلال حئی نامی شخص کو پاکستان کا سفیر مقرر کیا۔ یہ سفیر سکہ بند اور جنونی قسم کا قادیانی ہے۔ قادیانیت کی اشاعت وتبلیغ اس کا وطیرہ ہے۔ اس نے کئی مسلمانوں کو وہاں قادیانی بنا دیا۔ جن میں دو تو کنفرم ہیں۔ اسلامی مملکت پاکستان کے خزانہ سے آب ودانہ کھا کر قادیانیت کا پرچار کرنا موجودہ حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس نے پاکستانی سفارت خانہ آذربائیجان کو قادیانیت کی تبلیغ کے اڈےمیں تبدیل کیا ہوا ہے۔ پاکستانی اسٹوڈنٹس کو بلا کر ان کی دعوتیں کرنا، ان پر اثر ورسوخ استعمال کر کے انھیں قادیانی بنانے کی اس نے اَت مچا رکھی ہے۔

آذر بائیجان لینگوئج یونیورسٹی میں اردو کی تعلیم کے لیے اپنے قادیانی رشتہ دار کو لگایا ہوا ہے۔ قادیانی کتب ورسائل اور لٹریچر تقسیم کرنا اس کا دن رات کا مشغلہ ہے۔

آپ سے درخواست ہے کہ اس کے خلاف فوری اقدام کر کے پاکستان کے نام کو قادیانیت کے پرچار کے لیے بطور آلہ کے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ ‘‘

قادیانی سفیر کی بابت قومی اخبارات میں بھی دینی طبقات اور قانونی ماہرین کی طرف سے کئی بیانات شایع ہوئے، جس میں یہ کہا گیا:

’’آذربائیجان میں پاکستانی سفیر بلال حئی متعصب وجنونی قادیانی ہے، جس نے پاکستانی سفارت خانے کو قادیانیت کا اڈا بنا رکھا ہے، جہاں یہ پاکستان جانے والے افراد خصوصاً طلبہ کو قادیانی جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ قادیانی پاکستان کے دشمن اور آئینِ پاکستان کے مخالف ہیں، یہ آج بھی اکھنڈ بھارت کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، پاکستان کو نقصان پہنچانا ان کا مشن ہے، یہ ملک وملت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستانی سفارت کے حساس عہدے پر قادیانیوں کا تعین ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان اس پر فوری ایکشن لے اور بلال حئی قادیانی کو اس کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ اور اس منصب پر کسی مسلمان سفیر کو تعینات کیا جائے۔ ‘‘

پبلک سروس کمیشن بلوچستان کے نصاب میں قادیانی کتاب کی موجودگی اور بعد ازاں اخراج

قادیانی ایسے بازی گر ہیں، آئے روز ان کی سازشیں آشکار ہو رہی ہیں۔ حتی کہ پاکستان کے نصاب تعلیم جیسے حساس موضوع تک یہ اپنی گہری رسائی رکھتے ہیں۔ ابھی مئی 2022ء میں ایک انکشاف ہوا کہ بلوچستان کے پبلک سروس کمیشن کے نصاب میں قادیانیوں کے لاہوری گروپ کے سربراہ محمد علی لاہوری کی کتاب «Early Caliphate» بھی نصاب کا حصہ ہے۔اس حیران کن انکشاف پر تمام دینی تنظیمات اور تحریک ختمِ نبوت کے کارکنان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن 1970ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت جو نصاب مقرر کیا گیا، اس میں محمد علی لاہوری کی کتاب بھی شامل کر لی گئی۔اس وقت قادیانی قانونی طور پر کافر قرار نہیں پائے تھے،ممکن ہے کسی غلط فہمی کی بناء پر اس کتاب کو شامل کیا گیا ہو۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بیوروکریسی میں شامل کسی قادیانی یا قادیانی نواز نے اس کو شامل کیا ہو۔

محمد علی لاہوری مرزا قادیانی کا پیروکار ہے،اس نے قرآن مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور حدیث کے عنوان پر بھی کچھ کتب لکھیں۔ اب جو طلباء بھی اس کی کتب کو پڑھیں گے، لامحالہ گمراہی ہی میں پڑ جائیں گے، کیوں کہ انسان جس کی کتب سے متاثر ہوتا ہے وہ اس کے تعارف کی بھی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اللہ معلوم کتنے لوگ اس کی کتب پڑھ کر گمراہی کی دلدل میں دھنسے ہوں گے۔ یہ کتاب 52سال بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے اسلامیات کے پرچہ میں مقبول حیثیت میں شامل رہی۔

یہاں شدت سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پبلک سروس کمیشن جیسے اہم ترین ادارے کے منصب اہتمام پر براجمان حضرات نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ کبھی اس کتاب کے مصنف کے متعلق ہی جان لیں کہ کون ہے، اس قدر بے خبری کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں کہ مصنف مرزا غلام قادیانی کا پیروکار ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان سے کامیاب ہونے والے افسران نے تحصیلوں اور اضلاع میں انتظامیہ کے علاوہ ملکِ پاکستان کے اہم ترین مناصب پر فائز ہو کر فرائض انجام دیتے ہیں،کیا یہ آفیسرز مرتد مصنفیں کی کتب پڑھ کر ملک کو چلائیں گے؟

پبلک سروس کمیشن کا نصاب ایسا ناقص کیوں ہے اور اس کو آج تک بدلنے یا نظر ثانی کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی،کوئی بات تو ہے آخر، جس کی پردہ داری ہے۔

پبلک سروس کمیشن بلوچستان کے نام ایک مکتوب

پبلک سروس کمیشن بلوچستان کے نصاب میں قادیانی کتب کی شمولیت کا مسئلہ سب سے پہلے معروف مفکر ومجلس احرار اسلام پاکستان کے رہنما ڈاکٹر عمر فاروق احرارd کے نوٹس میں آیا، انھوں نے متعلقہ اتھارٹیز کو ایک مکتوب روانہ کیا اور اللہ کی مہربانی سے چند ایام کے اندر ہی اس قادیانی فتنہ کی کتب کو ’’پبلک سروس کمیشن بلوچستان‘‘ کے نصاب سے نکال کر اس میں مسلمان مصنفین کی کتب کو شامل کیا گیا۔ ان کا یہ مکتوب روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ شایع ہوا:

’’بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی جانب سے 4فروری 2022ء کو مختلف اسامیوں کے لیے ایک اشتہار (BPSC Advertisement jobs 04/2022) جاری کیا گیا مذکورہ اشتہار کے تحت ڈپٹی ڈائریکٹر امتحانات بلوچستان پبلک سروس کمیشن نے مقابلہ کے امتحانات کے لیے آٹھ صفحات پر مشتمل نصاب (Syllabus) جاری کیا۔اس مقرر نصاب کے اشتہار کے صفحہ نمبر5 پر گروپ: E کے اسلامیات کے عنوان کے تحت جن چار کتب کے مطالعہ کی ہدایت کی گئی۔ ان کتب میں چوتھے نمبر پر ایک کتاب: «The Early Caliphate» by Muhammad Ali بھی تجویز کی گئی۔ اس کتاب کا مصنف قادیانیوں کے لاہوری فرقہ کا سربراہ محمد علی لاہوری ہے۔

یہ کتاب لاہوری مرزائیوں کی ویب سائٹ کے درج

ذیل لنک پر دیکھی جا سکتی ہے:

https:aaiil.org/text/books/mali/

earlycaliphate/earlycaliphate.Shtml

جناب والا!جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ قادیانیوں کے دونوں فرقے یعنی قادیانی اور لاہوری مرزائی پاکستان کے دستور ساز ادارہ قومی اسمبلی کے 7ستمبر 1974ء کے متفقہ فیصلے اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ (3) 260 کے تحت غیر مسلم اقلیت ہیں، جب کہ قادیانیوں کی کتب کی اشاعت اور قادیانی مذہب کی تبلیغ آئینِ پاکستان کے مطابق قابلِ تعزیر جرم ہے، لہٰذا ان واضح قانونی وآئینی ضوابط واحکامات کے تحت کسی قادیانی مصنف کی کتاب کو مسلمان طلباء کے لیے تجویز (Recomend) کرنا، درحقیقت انھیں قادیانیت کی طرف مائل کرنے اور کفر وارتداد کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔مسلمان طلباء کے لئے ایسی کتاب کا تجویز کیا جانا بحیثیت مسلمان مذہباً جرم اور بحیثیت پاکستانی شہری آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے، لہٰذا فی الفور محمد علی لاہوری مرزائی کی کتاب «The Early Caliphate» کو بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے مذکورہ نصاب سے خارج کیا جائے اور اس کی جگہ مسلمان مصنفین کی کتب کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ کمیشن کے اس اقدام سے مسلمانوں کے دل اور ان کے جذبات شدید مجروح ہیں۔ امید ہے کہ کمیشن عملی قدم اٹھا کر مسلمانانِ پاکستان کے جذبات اور احساسات کا احترام کرے گا اور ایک فوری وضاحت بھی جاری کرے گا۔ کمیشن کا ایسا اقدام یقینا پاکستان کے مستقبل یعنی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ایمان کو قادیانیت کے مذموم عقائد ونظریات سے بچانے کا سبب اور پاکستان کے وجود کے تحفظ وبقاء کا ذریعہ بنے گا۔‘‘

اس اہم نوعیت کے فکری اعتقادی مسئلے کے حل ہونے کے بعد روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں ہی ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں:

’’جب بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے نصاب میں محمد علی لاہوری کی مذکورہ کتاب راقم کے علم میں آئی تو میں نے21 مئی 2022ء کو بحیثیت سیکرٹری اطلاعات مجلس احرار اسلام، چیئرمین، ڈپٹی ڈائریکٹر امتحانات، گورنر، سیکرٹری تعلیم، چیف سیکرٹری اور وزیر تعلیم بلوچستان کو خطوط لکھ کر اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی اور ان سے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کو فی الفور نصاب سے خارج کر کے،مسلمان طلباء کے ایمان کو ضایع ہونے سے بچایا جائے۔ الحمد للہ جس کا خاطر خواہ اثر ہوا، اور صرف تین دن بعد 25مئی کو سیکرٹری بلوچستان سروس کمیشن نے ایک نوٹیفیکیشن نمبر3581Exam/PSC2022 کے ذریعے قادیانی مصنف محمد علی کی کتاب نصاب سے خارج کر دی گئی اور اس کی جگہ دیگر مصنفین کی کتابیں نصاب میں شامل کر دی گئیں۔ اس فوری ایکشن لینے پر ’’بلوچستان پبلک سروس کمیشن‘‘ کے ذمہ داران ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کے جذبات کی حساسیت کا بروقت احساس کیا اور معاملہ کو لٹکائے رکھنے کے بجائے اسے فوری حل کیا اور مذکورہ کتاب کے نصاب سے اخراج کی بدولت مستقبل میں نوجوانوں کے ایمان وعقائد کے تحفظ کا سامان پیدا ہوا۔ مولیٰ کریم تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر سرگرم تمام مجاہدین کی حفاظت فرمائے اور ان کی جہدِ مسلسل کو قبول فرما کر ذریعہ نجات بنا دے۔ آمین‘‘

ہاؤسنگ سوسائٹیز اور قادیانی دھوکے

قادیانی ہمیشہ خفیہ طریقے سے سادہ لوح لوگوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنساتے ہیں، ان کی وارداتوں اور چالوں کا شکار عام وخاص دونوں ہوتے ہیں، البتہ دونوں کے لیے طریقہ واردات مختلف ہے۔ اس وقت اتحاد ویگانگت کے ساتھ قادیانی مشن کو ناکام بنانا ازحد ضروری ہے یہ ہمارے دین کا بھی تقاضا ہے اور پاکستان کی بقاء کے لیے بھی ازحد ضروری ہے۔ قادیانیوں کی دسیسہ کاریوں سے آگاہی کے لیے ہمارے قلمی دوست جناب ضیاء الرحمان ضیاء نے ایک واقعہ لکھا ہے، جسے ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:

’’ہمارے ایک دوست جو کہ الیکٹریشن ہیں، انھوں نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی کہ اگر کسی کو الیکٹریشن کی ضرورت ہو تو رابطہ کریں۔ انھیں ایک نمبر سے کال آئی، کال کرنے والے نے اپنا تعارف اور کچھ تفصیلات یوں بتائیں کہ میں بہاول نگر سے بات کر رہا ہوں، ہم ایک سوسائٹی بنا رہے ہیں۔ سوسائٹی کے مالکان کوئی اور ہیں، میں جنرل مینیجر ہوں۔ ہمیں ایک ماہر الیکٹریشن کی ضرورت ہے، جو مکمل سوسائٹی جو کہ تقریباً چار سو گھروں پر مشتمل ہے، اس میں ہمارے ساتھ کام کریں۔ جنرل مینیجر نے الیکٹریکل فیلڈ سے متعلق ان سے چند ٹیکنیکل سوالات پوچھے تو انھوں نے درست جوابات دے دیے۔ جنرل مینیجر نے پوچھا کہ آپ پانچ مرلہ ڈبل سٹوری میں مکمل وائرنگ کے کتنے پیسے لیتے ہیں، ہمارے الیکٹریشن دوست نے کہا: نوے ہزار روپے۔ جنرل مینیجر نے کہا: ہم آپ کو لاکھ روپے دیں گے، آپ ہمارے پاس آکر کام کریں، ہم آپ کو اور بھی کئی مراعات دیں گے، دراصل یہ دیہاتی علاقہ ہے، یہاں پر کوئی ماہر الیکٹریشن نہیں ملتا، اس لیے آپ کو بلا رہے ہیں۔

ہمارے دوست نے ہامی بھر لی اور اسلام آباد سے بہاول نگر جا پہنچے، وہاں بس سٹاپ پر ایک بہترین گاڑی انھیں لینے کے لیے پہنچ گئی، جب یہ ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ ایک بڑی محل نما حویلی تھی۔ جس کے اندر ہی جنرل مینیجر کا دفتر تھا۔ ہمارے الیکٹریشن دوست کو انھوں نے کافی تفصیلات بتائیں کہ ہماری سوسائٹی چار سو گھروں پر مشتمل ہے لیکن یہ غیر قانونی ہے، اس لیے ہم مرحلہ وار بیس بیس گھر بنا رہے ہیں اور آپ کے ساتھ ہمارا بیس بیس گھروں کا معاہدہ ہو گا اور ہم آپ کو پچاس فیصد ایڈوانس دیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نوٹ کیا کہ وہ بات بات پر کہتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں۔ مجھے اس وقت سمجھ نہ آئی لیکن کچھ شک میں مبتلا ہوگیا۔

پھر انھیں سوسائٹی کا وزٹ کرایا گیا، وہاں چند ایک گھر تعمیر ہو چکے تھے لیکن نامکمل تھے۔ انھیں ایک جگہ دکھائی گئی کہ اس جگہ ہماری تعلیم ہوتی ہے جس میں آپ سمیت تمام لیبر کی شرکت ضروری ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں: میں خوش ہوا کہ شاید تبلیغی جماعت کی تعلیم ہوتی ہوگی تو چلو اچھی بات ہے کہ کچھ اچھی باتیں سننے کو مل جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں واپس حویلی میں آیا تو مجھے تنہا حویلی کی راہ داری میں ٹہلنے کا موقع ملا گیا۔ جب میں نے وہاں قادیانی گرووں کی تصاویر دیکھیں، ساری بات سمجھ گیا۔ جنرل مینیجر سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو انھوں نے خود ہی بتا دیا کہ ہم تو مسلمان ہیں لیکن ہماری سوسائٹی کے مالک قادیانی ہیں، پہلے وہ بھی مسلمان تھے لیکن ایک دن شکار کھیلنے چنیوٹ گئے ہوئے تھے، وہاں کچھ دوست انھیں قادیانیوں کے مرکز میں لے گئے، جہاں انھیں کوئی خاتون پسند آگئی، مگر انھوں نے شادی کے لیے شرط عائد کر دی کہ پہلے آپ قادیانی مذہب قبول کریں، پھر اس سے شادی کر لیں تو انھوں نے (نعوذ باﷲ) قادیانیت کو قبول کر لیا اور مرتدہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے قادیانیت کے لیے بہت کام کیا اور اب یہ جو سوسائٹی بن رہی ہے، اس کے گھر بھی مخصوص لوگوں کو ہی دیے جائیں گے اور ہم کوشش کریں گے کہ کم از کم ایک پلاٹ آپ کو بھی دلا دیں۔ مینیجر نے بتایا کہ مالکان کراچی میں ہوتے ہیں، جہاں ان کے کئی کاروبار ہیں۔

میرے دوست کہتے ہیں کہ وہ کافی دور دراز کا دیہاتی علاقہ تھا، وہاں کے عوام کو دین و دنیا کی کوئی سمجھ نہیں تھی، اس لیے انھیں پھنسانا ذرا برابر مشکل نہیں، بالخصوص ان کی انتہائی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں تھوڑا سا بھی لالچ دیا جائے تو وہ ان کی باتوں میں آجائیں گے۔ اس لیے انھوں نے ’’تعلیم‘‘ میں بیٹھنا بھی لازمی قرار دیا تھا، تاکہ کم از کم وہاں کام کرنے والوں کو تو ورغلایا جائے۔ ہمارے دوست الحمد ﷲ علمائے کرام کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ ان کی چالوں کو سمجھ گئے اور ان کی بہترین آفرز کو ٹھکرا کر بچ نکلے۔ وہ تو اسی وقت ان کے ساتھ کام شروع کرنے کا معاہدہ کر رہے تھے لیکن انھوں نے کہا کہ میں پہلے اپنی لیبر کا انتظام کر لوں، اس کے بعد آپ سے معاہدہ کروں گا۔ اس طرح یہ وہاں سے آگئے۔ یہ یقینا ان کی قربانی ہے کہ انھوں نے اپنی تنگ دستی کے باوجود دنیاوی دولت کو دیکھتے ہوئے بھی اپنا ایمان بچانے کی خاطر سب کچھ چھوڑ دیا، اﷲ تعالیٰ انھیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔

اس تمام واقعہ کو لکھنے کا مقصد عوام اور بالخصوص تحفظ ختمِ نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے راہنماؤں کو مطلع کرنا ہے کہ قادیانیوں کے اس طرح کے خفیہ کام بھی ہیں، جو دور دراز دیہاتوں میں محنت کر رہے ہیں، نہ جانے کتنے لوگوں کو وہاں پر ورغلا کر قادیانی بنا چکا ہوگا۔ مذکورہ بالا مرکز کا مقام بہاول نگر کے مشہور علاقے چشتیاں کے قریب کسی دیہات میں ہے، جس کی معلومات ہمارے دوست کے پاس موجود ہیں، ضرورت پڑنے پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے الیکٹریشن دوست نے ان کا ایک کارڈ بھی مجھے بھیجا، جس میں ان کی کمپنی کا نام درج تھا، اسی نام سے ایک کمپنی ہمارے قریب اسلام آباد میں بھی قائم ہے، اس کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہوں کہ کیا واقعی یہ ان کی ہے، اگر ہے تو اس کے بارے میں بھی عوام الناس کو مطلع کیا جائے اور ان کے جال سے انھیں بچانے کی کوشش کی جائے۔‘‘

By editor

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے