بیماری و آزمائش

1:بیماری درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش :

وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ

اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الأنبياء :35)

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍمِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌقَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرة: 155,156)

اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بیشک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ١ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ (البقرۃ :214)

یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے اللہ کی مدد کب ہوگی ؟ سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«هي الأمراض والأسقام والآلام والمصائب والنوائب» (تفسير ابن كثير : 571/1)

’’ان سے مراد امراض ، عوارض ، تکالیف ،مصائب اور آفتیں ہیں ۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ، حَتَّى يَلْقَى اللهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ.

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (سنن الترمذي : 2399)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ خَامَةِ الزَّرْعِ، يَفِيءُ وَرَقُهُ، مِنْ حَيْثُ أَتَتْهَا الرِّيحُ تُكَفِّئُهَا، فَإِذَا سَكَنَتِ اعْتَدَلَتْ، وَكَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ يُكَفَّأُ بِالْبَلَاءِ، وَمَثَلُ الْكَافِرِ كَمَثَلِ الْأَرْزَةِ صَمَّاءَ مُعْتَدِلَةً، حَتَّى يَقْصِمَهَا اللهُ إِذَا شَاءَ (صحيح البخاري :7466)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی سی ہے کہ جدھر ہوا چلتی ہے تو اس کے پتے ادھر جھک جاتے ہیں اور جب ہوا رک جاتی ہے تو پتے بھی برابر ہو جاتے ہیں۔اسی طرح مومن آزمائشوں میں بچایا جاتا ہے لیکن کافر کی مثال صنوبر کے سخت درخت جیسی ہے کہ ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ دیتا ہے۔

2 : بیماری کوئی عیب نہیں ہے ۔

بیماری و آزمائش سے انبیاء کرام جیسی عظیم جماعت بھی دوچار ہوئی تھی لہذا بیماریوں کا آنا یہ عیب نہیں ہے ۔

وَ اَيُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِيْنَ

’’اور ایوب، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔تو ہم نے اس کی دعا قبول کرلی، پس اسے جو بھی تکلیف تھی دور کردی اور اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ ان کی مثل (اور) عطا کردیے، اپنے پاس سے رحمت کے لیے اور ان لوگوں کی یاددہانی کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘(الأنبياء: 83,84)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ایوب (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ اللہ کی طرف سے ان پر ایسی آزمائش آئی کہ وہ شدید اور لمبی بیماری میں مبتلا ہوگئے، ان کے اہل و عیال بھی جدائی یا فوت ہونے کی وجہ سے ان سے جدا ہوگئے۔ جب کمانے والے ہی نہ رہے تو مال مویشی بھی ہلاک ہوگئے، مگر سیدنا ایوب (علیہ السلام) نے ہر مصیبت پر صبر کیا، نہ کوئی واویلا کیا اور نہ کوئی حرف شکایت لب پر لائے۔ جب تکلیف حد سے بڑھ گئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ایک یہ کہ اے میرے رب ! مجھے شیطان نے بڑا دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے۔ دوسری یہ کہ اے میرے رب ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم والا ہے۔ اس دعا میں انھوں نے اپنی حالت زار بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ارحم الراحمین ہونے کے بیان ہی کو کافی سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ زمین پر اپنا پاؤں مارو۔ انھوں نے پاؤں مارا تو ٹھنڈے پانی کا چشمہ نمودار ہوگیا۔ حکم ہوا کہ اسے پیو اور اس سے غسل کرو۔ وہ مبارک پانی پینے اور اس کے ساتھ غسل کرنے سے ان کی ساری بیماری دور ہوگئی اور وہ پوری طرح صحت مند ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے گھر والے بھی عطا فرما دیے اور اتنے ہی اور عطا فرما دیے۔ بیماری کے دوران انھوں نے کسی پر ناراض ہو کر اسے کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، اب وہ سزا زیادہ سمجھ کر پریشان تھے کہ اسے اتنے کوڑے ماروں تو زیادتی ہوتی ہے، نہ ماروں تو قسم ٹوٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ مشکل بھی حل فرما دی کہ اتنے تنکوں کا مٹھا لے کر ایک دفعہ مار دو ، جتنے کوڑے مارنے کی تم نے قسم کھائی تھی، اس سے تمہاری قسم پوری ہوجائے گی، قسم توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا۔ (تفسیر القرآن ازعبد السلام بھٹوی سورۃ الأنبياءآیت نمبر 83)

3:جتنا ایمان پختہ ہوگا اتنی آزمائش سخت :

عن سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ : « الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ «. (سنن الترمذی : 2398)

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔

 4:اللہ تعالیٰ کا ارادئے خیر :

مریض کو اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی و خیر چاہتا ہے ۔تاکہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کے ذریعے اس کے گناہ مٹادے گا اور اس کے درجات بلند فرمائے گا ۔

عن أَبَي هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ (صحيح البخاري :5645)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر وبھلائی کرنا چاہتا ہے اسے بیماری کی تکالیف اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے۔ (سنن الترمذی: 2396)

 نبی کریم ﷺنے فرمایا :

إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ ابْتَلَاهُ اللهُ فِي جَسَدِهِ، أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ (سنن أبي داود: 3090)

’’جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا ۔‘‘

 5:بیماری پر صبر :

عَنْ صُهَيْبٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ؛ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (صحيح مسلم :2999)

سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ مومن کا معاملہ عجیب ہے ۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے ۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں ۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو ( اللہ کی رضا کے لیے ) صبر کرتا ہے ، یہ ( بھی ) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔‘‘

حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ : قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : أَلَا أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ قُلْتُ : بَلَى. قَالَ : هَذِهِ الْمَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ : إِنِّي أُصْرَعُ، وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ لِي. قَالَ : « إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُعَافِيَكِ «. فَقَالَتْ : أَصْبِرُ. فَقَالَتْ : إِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللهَ أَنْ لَا أَتَكَشَّفَ. فَدَعَا لَهَا (صحيح البخاري : 5652)

عطاء بن ربیع فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ نبی کریم ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔

6: بیماری کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے :

حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أُمِّ السَّائِبِ-أَوْ أُمِّ الْمُسَيَّبِ- فَقَالَ: مَا لَكِ يَا أُمَّ السَّائِبِ-أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَّبِ – تُزَفْزِفِينَ؟  قَالَتِ: الْحُمَّى، لَا بَارَكَ اللهُ فِيهَا. فَقَالَ:  لَا تَسُبِّي الْحُمَّى ؛ فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ، كَمَا يُذْهِبُ الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ(صحيح مسلم : 2575)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری خاتون ام سائب یا ام مسیب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے ، آپ نے فرمایا :’’ ام سائب یا ام مسیب ! تمہیں کیا ہوا ؟ کیا تم شدت سے کانپ رہی ہو ؟‘‘ انہوں نے کہا : بخار ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں برکت نہ دے ! آپ نے فرمایا :’’ بخار کو برا نہ کہو ، کیونکہ یہ آدم کی اولاد کے گناہوں کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے ۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : ذُكِرَتِ الْحُمَّى عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَبَّهَا رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبَّهَا ؛ فَإِنَّهَا تَنْفِي الذُّنُوبَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْحَدِيدِ (سنن ابن ماجه : 3469)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بخار کا ذکر ہوا تو ایک آدمی نے اسے برا بھلا کہا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اس (بخار) کوبرا نہ کہو۔اس سے گناہ اس طرح دور ہو جاتے ہیں جس طرح آگ سے لوہے کی میل کچیل دور ہو جاتی ہے۔‘‘

7:بیماری گناہوں کا کفارہ :

سیدنا سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ «.(سنن الترمذي : 2398)

مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے،یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ وَلَا حُزْنٍ، وَلَا أَذًى وَلَا غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحيح البخاري :5641)

سیدنا ابو سعید خدری اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا مسلمان جب بھی کسی پریشانی،بیماری،رنج وملال،تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي، فَقُلْتُ : إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا. قَالَ: أَجَلْ، كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ «. قَالَ : لَكَ أَجْرَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى ؛ مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حَطَّ اللهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا(صحيح البخاري : 5667)

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہو ا تھا میں نے آپ کا جسم چھو کر عرض کیا کہ آپ ﷺکو بڑا تیز بخار ہے۔نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ہاں تم میں سے دو آدمیوں کے برابر ہے۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺکا اجر بھی دو گنا ہے۔کہا ہاں پھر آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو بھی جب کسی مرض کی تکلیف یا اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ اس کے گناہ کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت اپنے پتوں کو جھاڑ تا ہے۔

عَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كَفَّرَ اللهُ بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا (صحيح البخاري: 5640)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ بنادیتا ہے (کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔

8:حالت صحت میں کیے ہوئے اعمال حالت مرض میں لکھے جائیں گے :

عن أَبَى مُوسَى قال قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا (صحيح البخاري : 2996)

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔

وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ : إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ.(صحيح البخاري :6416)

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے شام ہوجائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اورصبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو۔اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے۔

9:بیمار کی عیادت :

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « مَنْ عَادَ مَرِيضًا لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ «.(صحيح مسلم : 2568)

 سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے وہ واپس آنے تک مسلسل جنت کے باغیچوں میں رہتا ہے ۔‘‘

10:بیمار کے لیے دعا:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَتَى مَرِيضًا أَوْ أُتِيَ بِهِ قَالَ : « أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا «

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یاکوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ یہ دعا فرماتے،اے پروردگار لوگوں کے! بیماری دور کردے،اے انسانوں کے پالنے والے! شفا عطا فرما،توہی شفا دینے والا ہے۔تیری شفا کے سوا اور کوئی شفا نہیں،ایسی شفا دے جس میں مرض بالکل باقی نہ رہے۔ (صحيح البخاري : 5675)

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ جِبْرِيلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اشْتَكَيْتَ ؟ فَقَالَ : « نَعَمْ «. قَالَ : بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ، أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللهُ يَشْفِيكَ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ. (صحيح مسلم : 2186)

سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا : اے محمد ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات فرمائے ’’ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ، ہر اس چیز سے ( حفاظت کے لئے ) جو آپ کو تکلیف دے ، ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے ، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں ۔‘‘

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے