اسلام  کے نظریہ حلال و حرام کے حوالے سے سابقہ شمار ہ میں قرآن مجید سے ماخوذ تین  اصول بیان  کیے گئے تھے یہ اصول اس حوالے سے بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں  اس لئے قرآن پاک میں ان کی  جا بجا  تاکید ملتی ہے  یہ اصول  درج  ذیل  ہیں:

حلت و حرمت کا تعلق  شارع سے ہے اور  اس میں انسانی عقل کا کوئی  عمل و دخل نہیں ہے۔

کائنات میں موجود تمام اشیاء کی تخلیق انسانوں کیلئے ہوئی ہے، اس لئے ہر چیز کا  اصل حکم اباحت (جائز)کا ہے۔

طیبات  حلال اور خبیث و ناپسندیدہ اشیاء حرام ہیں۔

ان تینوں کی مکمل وضاحت کے لیے مجلہ اسوۃ حسنہ کا سابقہ شمار ہ ملاحظہ کیجیے ۔ اس حوالے سے ذخیرہ احادیث سے منتخب احادیث اور ان کے تحقیقی فوائد درج کیے جا رہے ہیں تاکہ سابقہ تینوں اصولوں کی  فہم و تفہیم مزید آسان ہو جائے۔ 

حلال و حرام کا بیان  (1)

عن أبي ثعلبة إِنَّ اللهَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا، وَنَهَى عَنْ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا، وَغَفَلَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا (الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني المتوفى: 360ه، المعجم الکبیر للطبرانی، ح: 18035، ج: 16، ص: 93)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: « اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض کی ہیں، سو اُن کو ضائع مت کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہیں سو اُن سے تجاوز مت کرو۔ اور کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے سو اُن کا ارتکاب نہ کرو اور کچھ چیزوں سے خاموشی اختیار فرمائی ہے تم پر رحمت کی وجہ سے نہ کہ بھول کر۔ سو تم اُن چیزوں کا تجسس نہ کرو‘‘۔

مذکورہ  بالا حدیث حلال و حرام کے احکام سے متعلق انتہائی جامع اور اہم حدیث ہے۔ چنانچہ بعض محدثین کے بقول رسولﷺ کی احادیث میں کوئی حدیث بھی تنہا علمِ شریعت کے اصول و فروع کو اتنی جامع نہیں جتنی سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت ہے۔

عَنْ أَبِي وَاثِلَةَ الْمُزَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينَ فِي أَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، ثُمَّ ذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي ثَعْلَبَةَ (ابن رجب، الإمام الحافظ الفقيه زين الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن شهاب الدين البغدادي ثم الدمشقي‍، جامع العلوم والحكم، دار المعرفة بيروت، الطبعة الأولى 1408ھ، ج:1، ص:277)

’’سید نا واثلہ مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے پورے دین کو چار کلمات میں جمع کردیا ہے۔ پھر انہوں نے سیدنا ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث ذکر فرمائی‘‘۔

قَالَ أَبُو بَكْرٍ السَّمْعَانِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ أَصْلٌ كَبِيرٌ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ (ابن رجب، الإمام الحافظ الفقيه زين الدين أبي الفرج عبد الرحمن بن شهاب الدين البغدادي ثم الدمشقي‍، جامع العلوم والحكم، دار المعرفة بيروت، الطبعة الأولى 1408ھ، ج:1، ص:277)

’’اورامام ابوبکر سمعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دین کے اصولوں میں سے ایک بڑا اصول ہے‘‘۔

اس حدیث کی مختصر تشریح یہ ہے کہ  رسول اللہﷺ نے پورے دین پر عمل کا یہ نسخہ ارشاد فرمایا ہے کہ فرائض یعنی جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے اُن پر عمل ہو، محرمات یعنی اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب ہو اور مسکوتات یعنی جن چیزوں کے بارہ میں قرآن و حدیث میں خاموشی ہو اُن کے بارے میں تجسس  نہ کیا جائے۔

اس حدیث سے یہ اہم اصول معلوم ہوتا ہے کہ:

 جس چیز کے حلال یا حرام ہونے کا قرآن و سُنت میں کہیں ذکر نہ ہو وہ مباحات میں داخل ہے۔

تاہم اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ: کسی چیز کے حرام ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ قرآن و حدیث میں اس کا ذکر صریح آئے۔

 بلکہ کسی عام اصول کے ضمن میں اس کا ذکر ہوجانا بھی کافی ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ جس چیز کا صراحتاً یا تبعاً کسی بھی طرح قرآن و حدیث میں ذکر نہ ہو وہ مباح اور معاف ہے۔

حلال و حرام کا بیان(2)

مَا أَحَلَّ اللهُ فِي كِتَابِهِ فَهُوَ حَلَالٌ وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَافِيَةٌ فَاقْبَلُوا مِنَ اللهِ عَافَيْتَهُ فَإِنَّ اللهَ لَمْ يَكُنْ نَسِيًّا ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ {وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا} [مريم: 64]  (الحاكم، أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع، المستدرك على الصحيحين، دار الكتب العلمية بيروت، الطبعة الأولى،1411– 1990، باب تَفْسِيرُ سُورَةِ مَرْيَمَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، ج: 2، ص: 406، ح: 3419)

’’رسول اللہﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال فرما دیا  حلال ہے اور جو کچھ حرام فرما دیا حرام ہے، اور جس چیز سے خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ معاف ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس کی عافیت کو قبول کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولا نہیں کرتے۔ پھر آپﷺ نے سورۃ مریم کی آیت تلاوت فرمائی‘‘۔

اس حدیث میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ:

حلال و حرام صرف وہی چیز کہلا سکتی ہے جس کی حرمت یا حلت اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔

تاہم اس سے متعلق بھی ایک تو وہی وضاحت ہے جو اوپر ذکر ہوئی کہ کتاب اللہ میں حلت یا حرمت ذکر ہونے کی دونوں صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحتاً ذکر ہو، دوسرے یہ کہ کسی عام اصول کے ضمن میں ذکر ہو۔

دوسری وضاحت یہ ہے کہ کتاب اللہ سے مراد بھی کتاب و سُنت دونوں ہیں چنانچہ اسی طرح کی ایک روایت امام ابو داؤدرحمہ اللہ نے  سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے بھی روایت کی ہے جس میں یہ اضافہ ہے کہ: 

كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا فَبَعَثَ اللهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ وَأَحَلَّ حَلاَلَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلاَلٌ وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ وَتَلاَ (قُلْ لاَ أَجِدُ فِيمَا أُوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا) إِلَى آخِرِ الآيَةِ. (أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني، سنن أبي داود، دار الكتاب العربي  بيروت، باب مَا لَمْ يُذْكَرْ تَحْرِيمُهُ، ج: 3، ص: 417، ح: 3802)

’’زمانہ جاہلیت کے لوگ کچھ چیزیں کھا لیا کرتے تھے اور کچھ چیزوں کو گندا سمجھ کر چھوڑ دیا کرتے تھے۔ سو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی بھیج کر اور اپنی کتاب نازل فرما کر حلال چیزوں کو حلال اور حرام چیزوں کو حرام قرار دیا۔ لہذا جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال فرما دیا ہے وہ حلال ہے اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرما دیا ہے وہ حرام ہے، اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے وہ معاف ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ انعام کی آیت تلاوت فرمائی‘‘۔

سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے اسی روایت کی ایک اور سند سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں اس طرح  ہے کہ:آپﷺ سے گھی، پنیر اور پوستین کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں آپﷺ نے مذکورہ بالا الفاظ ارشاد فرمائے۔

حلال و حرام کا بیان (3)

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِﷺ يَقُولُ: الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِيِنِهِ وَعِرْضِهِ ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى أَلاَ إِنَّ حِمَى اللهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ (البخاري، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله، الجامع الصحيح، دار الشعب القاهرة، الطبعة: الأولى، 1407-1987 کتاب بدء الوحي، باب فَضْلِ مَنِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ، ج:1، ص:20، ح:52)

’’سیدنا  نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا کہ بے شک حلال واضح ہے اور بے شک حرام واضح ہے، اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص شبہات سے بچا، اس نے اپنے دین و آبرو کو بچالیا اور جو شبہات میں پڑا وہ حرام میں پڑگیا۔ جیسے چرواہا جو چراگاہ کے اردگرد بکریاں چراتا ہے ، قریب ہے کہ چراگاہ میں چرا لے، اور بے شک ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے، اور سُنو! اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سُنو! انسانی جسم میں ایک ٹکڑا ہے، جب وہ تندرست ہوتا ہے تو سارا جسم تندرست ہوتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا جسم بیمار ہوجاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے‘‘۔

یہ حدیث احکام حلال و حرام اور مشتبہات کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ ہم اس حدیث کو بنیاد بنا کر احکام کے تینوں جوانب یعنی حلال و حرام اور مشتبہات کے بارے میں بات کریں گے ۔

امام ابو داؤد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

أصول السنن في كل فن أربعة أحاديث: إنما الأعمال بالنيات وحديث الحلال بين والحرام بين. وحديث من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه. وحديث ازهد في الدنيا يحبك الله، وازهد فيما في أيد الناس يحبك الناس (ابن رجب؛ عبد الرحمن بن أحمد بن رجب الدمشقي، أبو الفرج، زين الدين، جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثا من جوامع الكلم، دار ابن كثير، بيروت، 2008،  ج:1، ص: 30)

’’دین کے احکامات میں درج ذیل چار احادیث بنیادی اہمیت کی حامل ہیں :

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ     
الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ
ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللهُ۔۔۔۔

اس حدیث میں استعمال ہونے والی اشیاء کی تین اقسام بتائی گئی ہیں:

1. حلال

2.  حرام

3.مشتبہات

یعنی  بنی نوع انسان کے استعمال میں کائنات میں جتنی بھی اشیاء ہیں وہ شرعی حکم کے اعتبار سے تین انواع میں سے کسی ایک نوع میں شمار کی جا سکتی ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں کیا گیا ہے۔

حلال و حرام کے بعد مشتبہ چیزوں سے بچنے کا حکم دے کر «حمی» کی مثال سے اس کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔››حمی›› اس چراگاہ کو کہاجاتا تھا جسے زمانہ جاہلیت میں کوئی بادشاہ یا سردار اپنے لئے مخصوص کر کے یہ اعلان کردیتا تھا کہ اس چراگاہ میں کسی اور کو اپنا جانور چرانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حدیث میں حمی کی مثال سے مشتبہ امور سے بچنے کی اہمیت واضح فرمائی کہ جس طرح وہاں پر عام لوگ اس خوف سے حمی کے اردگرد اپنا جانور نہیں چراتے تھے کہ اگر جانور بھٹک کر اس حمی کے اندر چلا جائے گا تو یہ بادشاہ کی سزا کا باعث بن جائے گا، اسی طرح مشتبہ امور کا ارتکاب بھی ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی حمی کے اردگرد رہنا، جس میں اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں بندہ محرمات کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستحق نہ ہوجائے۔

اس حدیث کا جملہ  ’’جو آدمی مشتبہات میں پڑ جائے وہ حرام میں پڑ جاتا ہے‘‘  کا مطلب یہ ہے کہ: جو چیز مشتبہ ہو اور آدمی کو اس کے حلال یا حرام ہونے کا علم نہ ہو، اگر آدمی اس میں احتیاط نہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ چیز حقیقت میں حرام ہو اور اس میں پڑنے سے آدمی اس طرح حرام میں واقع ہوجائے کہ ا س کو پتہ نہ چلے۔

جیساکہ معجم طبرانی میں روایت  ہے:

كَالْمُرْتِعِ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحِمَى وَهُوَ لَا يَشْعُرُ (الطبراني، سليمان بن أحمد بن أيوب، المعجم الکبیر،ح: 384، ج: 11، ص: 211)

’’یعنی جو جانور چراگاہ کے گرد چرتا ہے وہ چراگاہ میں داخل ہوجاتا ہے، جبکہ اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا‘‘۔

بسااوقات مشتبہات میں مبتلا ہونا آدمی کو صریح حرام تک پہنچا سکتا ہے۔  جیسا کہ اس روایت میں ہے:

مَنْ تَهَاوَنَ بِالْمُحَقَّرَاتِ، يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْكَبَائِرَ (ابن رجب، زين الدين عبد الرحمن بن أحمد، جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الكلم، دار السلام، الثانية، 1424 هـ – 2004 م، ج: 1، ص: 215، (ضعيف)

’’جو شخص چھوٹی اور حقیر سمجھی جانے والی چیزوں میں غفلت سے کام لیتا ہے اور انہیں معمولی تصور کرتا ہے وہ بڑے گناہوں میں پڑ جانے کے بہت قریب ہوتا ہے۔‘‘

اور اسی مفہوم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی ہے کہ:

أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ فَإِنَّهُنَّ يَجْتَمِعْنَ عَلَى الرَّجُلِ حَتَّى يُهْلِكْنَهُ))، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ لَهُنَّ مَثَلًا: كَمَثَلِ قَوْمٍ نَزَلُوا أَرْضَ فَلاةٍ، فَحَضَرَ صَنِيعُ الْقَوْمِ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْطَلِقُ، فَيَجِيءُ بِالْعُودِ، وَالرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْعُودِ، حَتَّى جَمَعُوا سَوَادًا، فَأَجَّجُوا نَارًا، وَأَنْضَجُوا مَا قَذَفُوا فِيهَا (ابن حنبل؛ أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبد الله، الشيباني، المسند، مؤسسة الرسالة، دمشق، 2009، رقم الحديث3818)

’’چھوٹے گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ بعض اوقات بہت سے چھوٹے گناہ بھی اکٹھے ہو کر انسان کو ہلاک کر دیتے ہیں اور نبی (ﷺ) نے اس کی مثال اس قوم سے دی جنہوں نے کسی جنگل میں پڑاؤ ڈالا، کھانے کا وقت آیا تو ایک آدمی جا کر ایک لکڑی لے آیا، دوسرا جا کر دوسری لکڑی لے آیا یہاں تک کہ بہت سی لکڑیاں جمع ہوگئیں اور انہوں نے آگ جلا کر جو اس میں ڈالا تھا وہ پکا لیا۔‘‘

لہذا یہ حدیث اصولی طور پر ‘›سدِ ذریعہ›› کے معروف اصول کی اساس بنتی ہے یعنی اسلام اپنےماننے والوں کو نہ صرف حرام سے روکتا ہے بلکہ ایسی مشتبہ چیزوں سے بھی روکتا ہے جن میں مبتلا ہونےسے اس امر کا اندیشہ ہو کہ لوگ  حرام میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اس اصول کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی بندوں کو حکم دیتے ہیں کہ : ’’ولا تقربوا الزنا‘‘ کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ ، اس سے مراد زناتو حرام ہے ہی زنا کی طرف لے جانے والے راستے بھی حرام ہیں ان کے بھی قریب نہ جاؤ مبادا تمہیں یہ راستے زنا میں مبتلا نہ کردیں۔

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے