غسل کے بارے بیان

بَاب مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا .

اس شخص کا بیان جس نے اپنے سر پر تین بار پانی بہایا

34-256- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَامٍ حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ لِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ قَالَ كَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فَقُلْتُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلَاثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ فَقَالَ لِيَ الْحَسَنُ إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ فَقُلْتُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا .

ابونعیم، معمربن یحیی بن سلم، ابوجعفر یعنی امام باقر کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے (حسن بن محمد بن حنفیہ) آئے اور مجھ سے کہا کہ جنابت سے غسل کس طرح (کیا جاتا)؟ میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ تین چلو لیتے تھے اور اس کو اپنے سر پر ڈالتے تھے پھر اپنے باقی بدن پر بہاتے تھے، تو مجھ سے حسن نے کہا کہ میں بہت بالوں والا آدمی ہوں (مجھے اس قدر قلیل پانی کافی نہ ہوگا) میں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔

Narrated Abu Ja›far: Jabir bin Abdullah said to me, Your cousin (Hasan bin Muhammad bin Al-Hanafiya) came to me and asked about the bath of Janaba. I replied, ‘The Prophet uses to take three handfuls of water, pour them on his head and then pour more water over his body. Al-Hasan said to me, ‘I am a hairy man.› I replied, ‘The Prophet had more hair than you

معانی الکلمات

الْجَنَابَةِناپاکی کی حالت میں پیدا ہونے والی ضرورت کو جنابت کہتے ہیں۔
أَكُفٍّکَفٌّ کی جمع معنی ہتھیلی، چلو
يُفِيضُوہ ایک آدمی (پانی) بہاتاہے یا بہائے گا
سَائِرِ جَسَدِهِمکمل جسم، پورا بدن
الشَّعَرِبال

تراجم الرواۃ

1۔نام ونسب:  أبو نعيم، الفضل بن دُكين یہ ان کا لقب ہے جبکہ ان کا نام: عمرو بن حماد بن زهير بن درهم القرشي التيمي الطلحي

کنیت: أبو نعيم الملائي الكوفي

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجررحمہ اللہ کے ہاں ثقہ،ثبت اور امام ذہبی کے ہاں الحافظ تھے۔

پیدائش ووفات:130 ہجری میں پیدائش ہوئی اور 218 یا 219ہجری میں کوفہ فوت ہوئے۔

2۔نام ونسب: معمر بن یحی بن سام بن موسی الضبی الکوفی

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں مقبول، امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی توثیق کی ہے اور امام ابو زرعہ رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے۔

3۔نام ونسب: ابو جعفر محمد الباقر بن علی زین العابدین بن الحسین بن علی بن أبی طالب القرشی الھاشمی المدنی

کنیت: ابو جعفر الباقر

محدثین کے ہاں مقام ومرتبہ:امام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں ثقہ تھے، امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔

پیدائش ووفات:57 ہجری میںپیدائش ہوئی اور 114 ہجری میں فوت ہوئے۔

4۔نام ونسب:  جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کا ترجمہ حدیث نمبر 28 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح

اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ طہارت کم از کم پانی سے حاصل کی جاسکتی ہےجیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب رسول الله ﷺ تم سے زیادہ بالوں والے اور زیادہ نظافت پسند بھی تھے، پھر بھی انھوں نے تین دفعہ سر پر پانی ڈالا اور پھر پورے بدن پر پانی بہانا اور اسی مقدار پر اکتفا کیا تو اس سے معلوم ہوا کہ صفائی اور طہارت اتنی مقدار سے ضرور حاصل ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ پانی پرصفائی کا دارومدار خیال کرنا خود پسندی کی علامت ہے، یا وہم و وسوسہ کی وجہ سے ہے جس کو اہمیت دینا مناسب نہیں۔ (فتح الباري:478/1)

 اس سے معلوم ہوا کہ اموردین کے متعلق واقفیت حاصل کرنے کے لیے علماء سے سوال کرنا چاہیے اور عالم کو چاہیے کہ جواب دینے میں بخل سے کام نہ لے نیز طالب حق کا شیوه یہ ہونا چاہیے کہ جب حق واضح ہو جائے تو اسے قبول کرنے میں حیل و حجت نہ کرے۔ (عمدة القاري:24/3)

 سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا حسن بن محمد کو ابو جعفر کا چچا زاد بھائی کہنا بطور مجاز ہے، کیونکہ وہ دراصل ابو جعفر باقر کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں، وہ اس بنا پر کہ زین العابدین سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ اورحسن محمد ابن حنفیہ کے صاحبزادے ہیں اور محمد ابن حنفیہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں گویا سیدنا حسین اور محمد ابن حنفیہ آپس میں پدری بھائی ہیں۔ لہٰذا سیدنا حسن ابو جعفر کے نہیں بلکہ ان کے والد زین العابدین کے چچا زاد بھائی ہیں اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مجازی طور پر انھیں ابو جعفر کا چچا زاد کہا ہے۔ (فتح الباري:478/1)

 حنفیہ نامی عورت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ کے عقد میں آئیں، ان کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماں ہی کے نام سے زیادہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یزید بن معاویہ کے پاس گزرا، اس بنا پر یا لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا اچھا خیال نہیں کیا تاکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاندانی رقابت قائم رہے۔ واللہ أعلم۔ انہی محمد کے بیٹے حسن ہیں جو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے غسل کے متعلق بحث و تحصیص کرتے ہیں۔

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے